19 Saal Ki Heer Aur Nikah Ki Kahani – Urdu Font Mein Padhain

19 saal ki Heer aur Nikah ki emotional kahani jo aap Urdu font mein asani se padh sakte hain. Ek pyari love story jo dil ko choo legi

دونوں اس وقت کالے سے باہر نکل رہی تھی ثانیہ نے دیکھا وہ کچھ پریشان تھی کیا بات ہے تم کیوں پریشان ہو اس نے ہیر کا کندھا ہلایا توہین ہوش میں ائی کچھ نہیں بس وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئی کیا بات ہے یار تم مجھے بتا سکتی ہو ہم بچپن کی دوست ہیں ثانیہ نے اسے دلاسا دینا چاہا کیونکہ ہیرو سے پریشان لگ رہی تھی کیا بتاؤں یار پوپو پیچھے پڑی ہیں بار بار یہی کہتی ہیں کہ ہیر کا رشتہ دو اور ابا بھی ہاں کر چکے ہیں ثانیہ نے دیکھا بات کرتے ہیں ساتھ اس کی انکھوں میں موٹے موٹے انسو ا گئے تھے تو تم وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی وہ دونوں فٹ پاتھ پر ہی رک گئی تھی لیڈ نے کسی ننھی بچے کی طرح نفی میں سر ہلایا وہ بہت بدتمیز ہیں اس کی انکھوں میں عورت کے لیے عزت۔

تک نہیں ہے مجھے ایسے مرد سے شادی نہیں کرنی انکھوں سے انسو نکلتے ہوئے گالوں پر بہنے لگے ثانیہ کو تکلیف ہوئی تو تم اپنے ابا سے بات کرو اور انہیں بتاؤ کہ تم اپنے اس کزن سے شادی نہیں کرنا چاہتی ثانیہ کے مشورے پر ہیر کو اور زیادہ رونا ایا یار یہی تو مسئلہ ہے میں اپنے ابا کو تکلیف نہیں دے سکتی وہ مجھے پڑھا لکھا کر کسی قابل بنا رہے ہیں انہیں لگتا ہے میں ان کا نام روشن کروں گی اگر ایسے حالات میں میں منع کر دوں گی تو ان کو بہت تکلیف ہوگی وہ بے بسی کی اخری حد پر تھی ثانیہ کو دلی افسوس ہوا میں دعا کروں گی خدا تمہاری مصیبت حل کر دے اور کوئی درمیانی راستہ نکل ائے کہ تمہارے بابا کو بھی تکلیف نہ ہو اور تمہیں اسے شادی بھی نہ کرنی پڑے ثانیہ بیچاری سوائے دعا۔

کے اور کیا کر سکتی تھی ہی سر جھٹے کر دوبارہ چلنے لگی ان دونوں کا کالج گھر سے کچھ دور تھا مگر ہیر چل کر راتی اور جاتی تھی کیونکہ اس کے باپ کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ اس کے لیے کسی گاڑی کا بندوبست کرتے ہیں وہ پانچ سات کلومیٹر تو روز چل ہی سکتی تھی وہ اپنے باپ سے بہت محبت کرتی تھی ان کا بہت احساس تھا اس نے کبھی بھیجا فرمائشیں اور ضد بھی نہیں کی تھی وہ دونوں کچی کالونی کی طرف ا چکی تھی جب اچانک ہی ان کے سامنے دو بائیکر ائے اور ان کے گرد گول گول بائیک گھمانے لگے ہیر تو فورا خوفزدہ ہو گئی وہ ایسی صورتحال پر فورا پریشان ہو جاتی تھی مگر ثانیہ ان کو غصے سے گھور رہی تھیں ہیٹ جلدی سے ثانیہ سے جھپک گئی ان میں سے ایک نے اپنا ہیلمٹ اتارا۔

کہاں جا رہی ہو خوبصورت حسینہ کہو تو ہم چھوڑ دیں خباصت سے انکھ ونک کرتے ہوئے اس نے ہیرکا سرتا ہیرجائزہ لیا عید کا دل خوف سے کانپ اٹھا اگر اپنی شکل سلامت رکھنا چاہتے ہو تو نکل جاؤ یہاں سے ثانیہ نے جھک کر زمین سے ایک موٹا پتھر اٹھایا اور اسے ہاتھ میں گول گول گھمانے لگی ثانیہ کی دھمکی سے وہ ایک پل کے لیے بھی نہیں گھبرائے اور دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے ہیر کو ان کی حسی بھی زہر لگ رہی تھی کتنی ہی دیر وہ دونوں ہنستے رہے پھر دونوں بھائی سے نیچے اترے ایک ذرا پیچھے ہی رک گیا اور دوسرا جو شکل سے امیر خاندان کا بگرا ہوا رئی زیادہ لگ رہا تھا وہ ہیر کی جانب بڑھا ہیر خوف زدہ ہوتی پیچھے ہو رہی تھی اس نے تو زندگی میں ہر مرد سے ہی خوف اتا تھا اس۔

نے ہیرکو ہاتھ لگانا چاہا مگر درمیان میں ہی ساری اگئی اسے غصہ ایا اس نے ثانیہ کو پیچھے دھکیلا ثانیہ سیدھا زمین پر گری اتنی زورداد گری کہ سر پر چوٹ ائی اور خون کی ایک ننھی اور پتلی سی لکیر بہتی ہوئی گال پر اگئی وہ اپنا دوپٹہ سر پر رکھ کر دبانے لگی ہیر کو تو سانس لینے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی اس نے اگے بڑھ کر ہیر کی کھلائی پکڑی ہیر کو لگا وہ ابھی گر جائے گی چھوڑو میرا ہاتھ چھوڑو وہ بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ کر اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی اس کی خوبصورت اواز سن کر اس لڑکے نے خباثت سے انکھیں بند کیں تمہاری نازگی کو بہت قریب سے محسوس کرنا چاہتا ہوں انکھوں میں غلاظت لیے وہ بولا اور ہیر کا چہرہ تیزی سے سرخ ہوا ذلت کا احساس حاوی ہو رہا تھا اس سے پہلے وہ۔

کوئی غلط حرکت کرتا اچانک کسی نے اس رئی زادے کے منہ پر ایک مکہ دے مارا اس کا ہاتھ فورا ہیر کی کلائی ازاد کر گیا ہیر نے بے یقین نہیں اور حیرت سے پلٹ کر دیکھا تو اس کے پیچھے ہی کوئی بچی سے 30 سالہ خوبصورت سرمئی انکھیں سفید گندمی رنگت تیکھے نکوش ہلکی سی بیڑ مغرور ناک بجھی چہرہ اور پرکشش کی مثال کوئی مرد کھڑا تھا اس کی انکھوں میں غصہ تھا ہیرکی نظر اس پر ایسی پڑی کہ پھر پلٹنا بھول گئی شاید اس نے زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت مرد کوئی دیکھا ہو ثانیہ ہوش میں ائی اور فورا ہی کو باجو سے پکڑ کر پیچھے کیا تمہیں شرم نہیں اتی بیچ راستے میں چلتی لڑکیوں کا ہاتھ پکڑتے ہو وہ دوے دبے غصے سے چلایا اور پھر دوبارہ دو مکے اس رئی زادے کے منہ پر دے مارے وہ دونوں۔

رہی زادی اس شخص کی حلیے سے خوف کھا رہے تھے کیونکہ اس شخص نے کافی مہنگے کپڑے پہن رکھے تھے جس بات کا ثبوت تھے کہ وہ کوئی امیر شخص تھا وہ دونوں ڈر کر وہاں سے بھاگے ان دونوں کے جانے کے بعد وہ شخص ثانیہ اور ہیر کی طرف متوجہ ہوا اتنی دوپہر کو سنسان سڑک پر تم دونوں اکیلی کہاں جا رہی تھی اس نے اتنے غصے سے پوچھا جیسے وہ ان کا حاکم ہوں ہیٹ تو خوف نے کانپ رہی تھی مگر ثانیہ کے حواس اس کے ساتھ تھے دیکھو مسٹر تم جو کوئی بھی ہو ہماری مدد کی اس کے لیے شکریہ مگر اس کا مطلب یہ نہیں تم ہم پر روب جا رہے ہو ہم کالج کی سٹوڈنٹس ہیں روز ایسے ہی چل کر گھر اتی ہے اور جاتی ہیں ثانیہ کی نظر کچھ فاصلے پر پڑی کالی لمبی کار پر گئی تم۔

ہو گئے بگڑےرئیس زادے جس کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہوں گی ہم غریب ماں باپ کی بیٹیاں ہیں پڑھائی کرنے کے لیے مشقتیں اٹھانی پڑھائی کرنے کے لیے مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں اس لیے ہمیں ایسے ہی پیدل جانا اور انا پڑتا ہے چل ہی خود سے اسے ڈانٹتے ہوئے بات کی اخر میں اس نے ہیر کا ہاتھ پکڑا اور اس شخص کو بت بنا چھوڑ کر وہ دوبارہ راستے کی طرف چل پڑی وہ واپس پلٹا اس کی سرمئی انکھیں چمکی دی اس کے ہونٹ ہلے ہیر اس کی مسکراہٹ بتا رہی تھی تو یہ تھی ہیر وقار جس کی ماں بچپن میں ہی انتقال کر گئی تھی اس کے باپ نے دوسری شادی کی تھی اس کی سوتیلی ماں شگفتہ بیگم کو ہیر کو زیادہ پسند نہیں تھی مگر پھر بھی اسے برداشت کر لیتی تھی اس کے دو بہن بھائی مزید 16 سالہ نمرا۔

اور 15 سالہ حسن وہ اپنے دونوں بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتی تھی مگر اس کی سوتیلی ماں ان دونوں کو اس کے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیتی تھی اس کے لیے سب کچھ اس کا باپ ہی تھا اس لیے وہ ان کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی وہ جب گھر میں داخل ہوئی تو وہ کون ان کا بیٹا حماد دونوں بھر میں موجود تھے ہیر کا دل ایک دم ویران اور اداس ہو گیا پھوپو اپنے بیٹے حماد کا رشتہ ہیر سے کروانا چاہتی تھی مگر وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ منع بھی نہیں کر سکتی تھی اسے اپنے باپ کا مان رکھنا تھا ارے لو ہیر بھی ا گئی پپو نے لہجے میں چاشنی گول کر اسے مخاطب کیا مٹی کیا نہ کرتی اب وہ دیکھ چکی تھی اس لیے وہ سیدھی ان کے پاس ہی ا گئی ارے وہاں۔

کیوں بیٹھی ہو ادھر اؤ میرے پاس میری بچی ادھر بیٹھو اس سے پہلے اپنے باپ کے پہلو میں بیٹھی انہوں نے ہیر کو بیٹھنے سے منع کر دیا وہ خون کے انسو حلک میں ہی اتار کر ان کے پاس ا کر بیٹھی وحشت ہو رہی تھی دل جا رہا تھا ایسے رشتے سے بہتر ہے مر جائیں مگر اپنے باپ کی خوشی کے لیے وہ یہ گھونٹ بھی بھر سکتی تھی پپو نے اب اپنے ہاتھ سے سونے کی انگوٹھی اتار کر ہیر کے ہاتھ میں پہنائی یہ ہماری خاندانی انگوٹھی ہے اج سے تم ہماری امانت ہو اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوپو نے مسکرا کر بتایا سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور وہ حماد شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ہی کو گھور رہا تھا ہیر کا دل چاہا کہیں غائب ہو جائیں مگر وہ یہاں سے ہل نہیں سکتی تھی اس کی انکھیں لمحوں۔

میں بھیگی تھی مگر وہ اپنی انکھوں کی نمی کو اندر ہی اندر دھکیل رہی تھی بہت مشکل کے بعد جب اسے یہاں بیٹھنا دو بھر ہوا تو اس نے پھپو کو مخاطب کیا پپوں میں جاؤں اصل میں کالے سے ائی ہوں تو یونیفارم چینج کرنا ہے بہت مشکل سے اپنی اواز کو بھیگا ہونے سے روک نہ پائی ہاں ہاں کیوں نہیں میری بیٹی جاؤ پپو نے اجازت دی وہ تو فورا وہاں سے بھاگی کیونکہ حماد کی نظریں وہ مزید برداشت نہیں کر پا رہی تھی پیچھے پپو ابیر کے باز سے کہہ رہی تھی بس میں چاہتی ہوں اگلے ہی مہینے تم رخصتی کی تاریخ دے دو وہ کچھ حیران ہوئے مگر اپا یہ کوئی زیادہ جلدی نہیں ہے بیٹی کا باپ تھا پریشان ہونا لازم تھا ارے نہیں نہیں تمہیں کوئی بھی جہیز وغیرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ماشاءاللہ سے حماد کی بہت اچھی۔

جاب لگ چکی ہے بہت جلد کمپنی اسے گھر کے ساتھ ایک گاڑی بھی دے گی بس تم اپنی بیٹی ہمیں دے دو یہی ہیرے جیسی ہیں اور وقار صاحب کا مان بڑھ گیا انہوں نے فورا دن پکے کر دیے اور ہیٹ جو کمرے کے باہر کھڑی تھی ساری باتیں کانوں میں پڑھتے ہی اس کا سانس رک گیا مجھے لگ رہا تھا کہ پپو اس کی موت کا پروانہ سنا رہی ہیں اسے حماد ایک انکھ بھی نہیں بھاتا تھا 26 والا حماد شکل سے ہی لوفر تھا اس کی حرکتیں بھی ایسی ہی تھی اور 18 سالہ ہیر خوبصورتی کی مثال تھی اس کی گہری بری انکھیں اس کا سفید دودھیا چہرہ اس کے گول نقش نین وہ بہت خوبصورت تھی اور اس کی اسی خوبصورتی سے تو سارا خاندان جلتا تھا خاندان میں تھا ہی کون ایک تایا تھا وہ کافی امیر تھے اس لیے کبھی۔

منہ نہیں لگایا وہ تو سالوں پہلے ہی اپنا ہر رشتہ دوڑ کر جا چکے تھے دوسری بہن جن کا اکلوتا بیٹا تھا جس کی کچھ ماہ پہلے ہی کمپنی میں کافی اچھی جاب لگ گئی تھی پھپو کے تو پاؤں گویا زمین پر ٹک ہی نہیں رہے تھے اور وقار صاحب بھی کچھ دب سے گئے اس لیے فورا اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا وہ اپنے من من بھاری قدم اٹھاتی ہوئی واپس کمرے میں ائی اور بند ہو گئی انکھیں بہنے کے لیے بے تاب تھیں اسی ماں کے اخر میں اس کے سیکنڈ ایئر کے پیپرز تھے وہ اگے پڑھنا چاہتی تھی مگر جانتی تھی پپو کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں گی اور حماد کا بچنا چلتا وہ تو ابھی سے ہیر کو اپنی دسترس میں لے لیتا وہ اپنے بیڈ سے ٹیک لگائے چھت کو گھو رہی تھی انکھوں سے انسو بہتے ہوئے سارا۔

چہرہ گیلا کر رہے تھے وہ بہت مجبور تھی اپنے باپ کے سامنے انکار تو ہرگز نہیں کر سکتی تھی دل پر پتھر رکھ کر اس نے یہ فیصلہ قبول کرنا چاہا اور سب کچھ خدا کی امان میں دے دیا بے شک وہ خدا بہترین کارساز ہے اگلے دن جب وہ کالج سے واپس ا رہی تھی تو راستے میں پھر دوبارہ اسے وہ شخص مل گیا جس نے کل ہیر کو ان دونوں بائیکر سے بچایا تھا ثانیہ بھی اس کے ساتھ ہی تھی دونوں نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا جو اپنی بڑی سی بلیک مر سے ڈی سے اترا اور قدم قدم چلتا ان دونوں کے پاس ایا ثانیہ تو اسے غصے سے گھر رہی تھی مگر ہیر اضطراب کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی وہ ان کے پاس ا چکا تھا پھر اپنی انکھوں سے سٹائلش گوگل سوتائے اور اسے کینے لگا۔

میں سیدھی اور صاف بات کرنے کا روادار ہوں تو مجھے پہلی نظر میں پسند ائی ہو اپنا ایڈریس دو تاکہ میں تمہارے گھر رشتہ بھیجوں میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ہیرکی انکھوں میں انکھیں گاڑی وہ پرسکون لہجے میں اسے بتا رہا تھا جیسے کوئی کہانی تو نہ رہا اور ہیر پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس کا دل اقبال کے لیے دھرکنا بھول گیا مگر پھر انکھوں کے سامنے اپنے باپ کا چہرہ ایا وہ فورا اپنے خیالوں سے باہر نکلی اس کے لیے یہ فینٹسی دنیا نہیں تھی اسے حقیقت میں جینا تھا سامیہ اگے بڑھی اور اس شخص کو گورا دیکھو مسٹر تم جو کوئی بھی ہو اج کے بعد ہیر سے سو اٹھ کے فاصلے پر رہنا اس کی مدنی ہو چکی ہے اور اج کے بعد ہیر سے 100 فٹ کے فاصلے پر رہنا اس کی منگنی ہو چکی۔

ہے اور اگلے ماہی اس کی شادی ہے خبردار اگر اج کے بعد ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی تو تمہیں پولیس پیشن میں قصیحت دوں گی انگلی اٹھائے اسے اوارڈ کیا مگر سامنے کھڑے شخص کو کوئی خاص فرق نہ پڑا ہاں اگر اس نے انکھوں میں غصہ ضرور ایا تھا تم اج اور اسی وقت سے میری امانت ہو خبردار اگر کسی دوسرے سے شادی کرنے کی کوشش کی تو تمہارے سارے خاندان کا نام و نشان مٹا دوں گا اس نے انگلی اٹھائے اتنے سخت لہجے میں وارڈ کیا کہ ہیر کا سارا جسم خوف سے کپکپا اٹھا وہ خوفزدہ انکھوں کے ساتھ اس امیر شخص کو دیکھ کر رہ گئی ثانیہ نے غصے سے ہیر کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر چل پڑی ہیر کے تو دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے وہ اس کے خاندان کو تباہ کرنے کی بات کر رہا تھا اور۔

ایک طرف اس کا باپ تھا جو اسے اتنی ساری امیدیں لگائے بیٹھا تھا نہیں ہیر کبھی بھی کسی غلط راہ پر نہیں چل سکتی وہ وہی کرے گی جو سب باپ چاہے گا وہ خود سے عہد کر چکی تھی دن ایک ایک کر کے گزرنے لگے وہ ساری فکروں کو چھوڑ کر صرف اپنے پیپرز دے رہی تھی گھر میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں مگر ہیر کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا اس کے لیے تو یہ شادی نہیں موت تھی کیا فرق پڑتا تھا سفید کفن کی جگہ وہ سرخ لہنگے میں جاتی اس دن کے بعد سے وہ امیر شخص اسے دوبارہ نظر نہیں ایا ہیر کچھ پرسکون تھی مگر اس شخص کی انکھوں میں کچھ تھا جو اج بھی ہیر بھلا نہیں پا رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا اور اخر۔

کار وہ دن بھی اگیا جب ہیر کی زندگی کا فیصلہ ہونا تھا وہ دولہن بنی بیٹھی تھی مگر چہرے پر مسکراہٹ رسمی تک نہیں تھی اس کی انکھیں اداس تھیں دل ویران تھا اس کا دل چاہ رہا تھا وہ یہاں سے اٹھ کر بھاگ جائیں مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی ثانیہ اس کے پاس بیٹھی بس افسوس ہی کر سکتی تھی ہیروی بھی وقت ہے اپنے ابا سے بات کر لو اس نے ایک اخری کوشش کرنی چاہی اور ہیر نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے اسے ثانیہ کی دماغی حالت پر شبہ ہو تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو یہ سارا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے ایسے میں میں اپنے باپ کو کہوں کہ مجھے شادی نہیں کرنی کیا عزت رہ جائے گی میرے باپ کی بھرے مجمع میں تم نہیں جانتی ثانیہ یہ بہت مشکل ہے۔

تم خود بھی ایک بیٹی ہو اور بیٹی اپنے باپ کے مان کے سامنے اپنا سر جھکا دیتی ہیں یہ میرے باپ کی عزت کا معاملہ ہے میں ان کی عزت پر کوئی حرف نہیں انے دوں گی سنجیدگی و سختی سے کہتی ہوں کہ اس نے خود کو پتھر کا لینا چاہا وہ کمرے میں بیٹھی تھی ساری تیاریاں چھوٹے سے صحن میں ہی کی گئی تھیں پھپو نے کہا تھا بارات پر زیادہ لوگ نہیں ائیں گے مگر ہیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا تو اس کانٹے گزر گئے مگر اب تک بارات نہیں ائی تھی پھر کافی دیر بعد شور اٹھا کہ بارات اگئی ہیں اور ہی کو لگ رہا تھا جیسے موت کا فرشتہ اس کے قریب ا رہا ہے ہیر کی ماں اور ثانیہ دونوں نے اسے کرسی سے اٹھایا اور پھر باہر کی جانب بڑھی سٹیج پر لا کر بٹھا دیا گیا مگر۔

دولہا کہیں نہیں تھا اپا یہ دولہے کے بغیر کون سی بارات ہیں وقار صاحب نے کچھ پریشانی سے اپنی بہن سے پوچھا سلمہ بیگم کے کچھ پریشان ہوئی وہ گھر سے تو سیلون کے لیے نکلا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ سیدھا یہیں ائے گا مگر یہاں اب تک پہنچا کیوں نہیں ان کی بہن سلمہ بیگم بھی پریشان ہو چکی تھی غلط گزرتا جا رہا تھا مگر حماد کا کہیں کوئی پتہ نہیں تھا اور ہیر اپنے باپ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جس پر تکلیف کے اثار تھے اب تو مجمے میں بھی لوگ باتیں کرنے لگے تھے کہ دولہا بارات چھوڑ کر بھاگ گیا اچانک شور اٹھا پھر ان کے صحن کا دروازہ کھلا پھر ایک شخص مغرور چال چلتا ہوا مجمعے کی طرف مرنے لگا اس کے ساتھ کافی سارے گارڈ تھے وقار صاحب نے حیرت سے اتنے سارے لوگوں کو اپنے۔

گھر میں دیکھا دولہا نہیں ائے گا کیونکہ وہ میرے قبضے میں ہے اس نے اتنی دیدہ دلیری اور پرسکون لہجے میں بتایا کہ سب حیران رہ گئے اور سلمہ بیگم کا لے جا منہ کو ایا کون ہو تم کیا کیا تم نے میرے بیٹے کے ساتھ وہ شخص کا گریبان پکڑے چھیکی اس کی سرمئی انکھوں میں غصہ اتارا اس نے ایک ہی جھٹکے میں ان کے دونوں ہاتھ ہٹائے اور انہیں خود سے دور کیا وہ اس لیے کیونکہ ہیر صرف میری ہے اس پر زیرف میرا حق ہے اور ابھی اسی وقت میں اسے نکاح کروں گا خبردار اگر کسی نے نکاح کو روکنے کی کوشش کی تو یہاں لاشیں بے چینی اس کے الفاظ میں اتنی سفاکیت تھی کہ ہیر کپکپا اٹھی وقار صاحب نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہیر کو دیکھا وہ فورا اس نشست سے اٹھی ابا میں نہیں جانتی یہ کون ہے۔

میرا یقین کریں وہ اپنے باپ کے پاس ائی اور انہیں یقین دلانا چاہا مگر وقار صاحب کی عزت پر حرف ایا تھا لوگ باتیں کرنا شروع ہو چکے تھے ہر طرف چائے مگوئیاں ہونے لگی تھیں ابا قسم لے لیں میں نہیں جانتی وہ روتی ہوئی انہیں اپنی بے گناہی کا یقین د** رہی تھی ابا نے تو کچھ نہیں کہا مگر اس کی ماں جو حقیقت میں سوتیلی تھی اس نے ایک تماچہ کھینچ کر ہیر کے منہ پردے مارا اس لیے تمہیں کالج بھیجتے تھے کہ یہ گل کھلاتی پھرو اپنے باپ کا نام ڈبوتے ہوئے تمہیں شرم نہیں ائی وہ غصے سے چیخیں اس سے پہلے وہ دوسرا تھپڑ ہیر کے منہ پر دے مارتی درمیان میں ہی وہ شخص اگیا خبردار اگر اج کے بعد ہیر پر ہاتھ اٹھانے کے بارے میں سوچا اپ رشتے میں اس کی ماں ہیں اس لیے لحاظ کر رہا۔

ہوں شگفتہ بیگم کا بڑا ہوا ہاتھ اس نے ہوا میں ہی روک دیا وہ بے یقینی اور پھٹ پھٹی نگاہوں کے ساتھ اس شخص کو دیکھ کر رہ گئی مولوی صاحب نکاح شروع کروائیں ون سب کو پتھر بنا چھوڑ کر مولوی کوئی ترپ ایا ہرگز نہیں میں یہ نکاح نہیں کروں گی نکل جاؤ یہاں سے ہیر اپنی پوری طاقت جاؤ یہاں سے ہیر اپنی پوری طاقت سے چلائی وہ کبھی بھی اپنے باپ کی عزت پر کوئی داغ برداشت نہیں کر سکتی تھی ان کی عزت اور مان کے لیے ہی تو وہ حماد سے شادی کرنے کے لیے مانی تھی تمہارے پاس انکار کا اختیار نہیں ہے وہ شخص اس کے کان میں جھک کر دبا دبا سا گھر ایا ہیر نے بہتے انسوؤں کے درمیان اس شخص کو دیکھا جو سفاکیت کے انتہا کر چکا تھا پھلوں میں ہی اس نے نفرت ہو گئی جو۔

اس کے باپ کا بھرے مجمعے میں تماشہ لگا رہا تھا میں مرنا تو منظور کروں گی مگر یہ نکاح نہیں کروں گی اس کی انکھوں میں انکھیں گاڑے غصے سے جلائی اس شخص نے حیرت سے ہیر کی یہ جرات دیکھی کرسی پلوں کا کھیل تھا اس نے اس بات میں سر ہلایا پھر اپنے گارڈز کو اشارہ کیا اے گارڈ نے ہیر کے باپ کے ماتھے پر گن رکھی اور دوسرے گارڈ نے ہیر کے 15 سالہ بھائی کے سر پر اور ہیر اگلا سانس نہیں لے سکی خوف سے اس کا چہرہ سفید پڑ گیا یقینا تمہیں اپنے باپ اور بھائی سے بہت محبت ہوگی اگر چاہتی ہو کہ ان دونوں کی جان بخش دوں تو یہ نکاح کر لوں ہی ان وقار تو ساقت رہ گئی ایک نظر اپنے باپ اور اپنے بھائی پر ڈالی جو بے بسی سے کھڑے تھے شگفتہ بیگم فورا اگے بڑھی۔

شکل کیا دیکھ رہے ہو جلدی سے نکاح کرو دیکھ نہیں رہی وہ تمہارے باپ پر بھائی کی جان لینے کے در پہ ہے بے حیا لڑکی شرم نہیں ائی اپنے باپ کا نام ب** کرتے ہوئے وہ دبے دبے غصے سے چلائی تھی ہیر نے خالی خالی نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا جن کی انکھوں میں مان ٹوٹنے کی کرچیاں تھی ہیر کے دل کو کچھ ہوا اسے لگا اس کی روح پرواز کر چکی ہے نکاح شروع کریں مولوی صاحب اس بار وہ شخص کچھ غصے سے چلایا انہوں نے بے بسی سے وقار صاحب کی طرف دیکھا وقار صاحب نے انکھوں ہی انکھوں میں مثبت اشارہ دیا تو مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا وہ مولوی صاحب کو اپنا نام بتا چکا تھا ہیر وقار ولد وقار احمد اپ کا نکاح احمد شیرازی ول شیرازی سے کیا جاتا ہے کیا اپ کو قبول ہے مولوی۔

صاحب نے تیسری بار پوچھا مگر وہ اپنے باپ کی طرف دیکھ رہی تھی اچانک ہی گارڈ نے اس کے باپ کے سر پر گن کی گرفت سخت کی اس کے باپ نے بے بسی سے سر ہلایا اور پھر کہیں جا کر ہیر کے لا پھر پھڑائے قبول ہیں اس نے اپنے باپ کی مرضی سے یہ نکاح کیا تھا مگر وہ جان چکی تھی کہ اس کا باپ اسے بہت دور جا چکا ہے اس نے اپنے باپ کو تکلیف دی ہے وہ ان کا مان توڑ چکی ہے بے بسی ہی بے بسی تھی خدا نے اسے حماد جیسے سپاک درندے سے تو بچا لیا مگر وہ ایک نئی مصیبت میں پھنس چکی تھی کون تھا یہ احمد شرا تھی وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی جیسے ہی حجاب و قبول کا مرحلہ طے ہوا وہ شخص اگے بڑھا اور پورے استحصار سے ہیر کا ہاتھ۔

پکڑا اوربینا کسی کی طرف دیکھے اسے لیتا ہوا وہ سہن عبور کر گیا اور ہیر پتھر کی مورت بنی اس کے ساتھ چلتی رہ گئی وہ اخری بار اپنے باپ کو دیکھ نہ سکی ان سے نظر نہ ملا سکی ان سے معافی نہ مانگ سکی اپنے باپ کے سامنے وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے دوسری طرف ثانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی نہ جانے کیوں اسے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا جو شخص ہیرکے لیے اتنا سا کچھ کر سکتا ہے تو پھر وہ اسے کتنا ٹوٹ کر چاہتا ہوگا وہ جا چکی تھی ایک گارڈ نے اس کا اخری پیغام دیا اور وہ بھی باہر نکل گیا کچھ دیر بعد اپ کا بیٹا واپس ا جائے گا پوپو وہی کرسی پر بیٹھی رو رہی تھیں اور اب ہیر کو برا بھلا کہہ رہی تھیں میرا ہی دماغ خراب تھا جو اپنی اتنی۔

اچھی اور سیدھی بھتیجی کو اپنا بہو بنانی چلی تھی میں کہاں جانتی تھی کہ یہ ایسی نکلے گی پتہ نہیں کس کس کے ساتھ چکر چلاتی ہوگی پھوپھو اب بھی رو رو کر اپنی بھڑاس نکال رہی تھی سارے مہمان جا چکے تھے اور اس کا باپ نڈھال سا ہوتا ہوا وہیں کرسی پر گرسا گیا ثانیہ ان کے پاس ائی اور انہیں ساری بات بتائی وہ جانتی تھی ان کے لیے اس کا باپ کتنا خاص ہے ساری بات سن کر وقال صاحب کی انکھوں سے انسو بہنے لگے ان کی بیٹی اتنی اچھی تھی انہیں یقین نہ ہوا ان کی خاطر وہ اپنی ناپسندیدگی کو بھی قبول کر رہی تھی انہیں افسوس ہوا وہ اپنی بیٹی کی مرضی کیوں نہ جان پائے انہیں تو لگا ہیر نے اپنی مرضی سے اس رشتے کے لیے ہاں کی ہوگی اب انہیں اچھا لگ رہا تھا کہ ہیر کی شادی۔

حماد سے نہیں ہوئی مگر وہ شخص جو اسے زبردستی نکاح کر کے لے کر گیا ہے وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا بس وہ یہی سوچ کر رہ گئے وہ اس کے ساتھ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور وہ گاڑی چلا رہا تھا وہ اسے کہاں لے کر جا رہا تھا ہیر کو کوئی ہوش نہیں تھی وہ تو بس اپنے باپ کی ان انکھوں میں ہی اٹک گئی تھی جن میں مان ٹوٹنے کی کرچیاں تھی وہ اسے لے کر اپنے گھر میں ا چکا تھا گاڑی پارک کی گاڑی سے باہر نکلا دوسری سائیڈ ا کر دروازہ کھولا ہیر کا کندھا ہلایا تو وہ ہوش میں ائے چلو اترو گھر ا چکا ہے سنجیدگی سے اسے ہدایات دی اس کی انکھوں میں ابدی دبا دبا غصہ تھا ہیرکا دل ویران ہو چکا تھا وہ بنا کچھ کہے اتر ائی جیسے۔

اس کی نظر بنگلے کی طرف اٹھی پھر ہیر کی پلکیں جھپکنا بھول گئی وہ اتنی خوبصورت سفید رنگ کا محل تھا لمبی روش پر چلتا ہوا وہ محل میلوں کے احاطے پر پھیلا ہوا تھا وہ کم سے کم تین منزلہ عمارت تھی بہت خوبصورت محل تھا اور رات کے اس پہر وہ چاند سے زیادہ روشن تھا کچھ پلوں کے لیے ہیر اپنے سارے غام بھول کر اس محل کی خوبصورتی میں کھو گئی تھی ایمر نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ ہوش میں ائی وہ اسے اپنے ساتھ لیا اندر کی طرف جا رہا تھا ہیر نہیں جانتی تھی اس کی زندگی کیسی ہوگی مگر بس وہ اللہ پاک نے صرف دعا ہی کر سکتی تھی محل کا اندرونی ایسا بیرونی حصے سے زیادہ خوبصورت تھا ہیرکو لگ رہا تھا وہ کسی جنت میں اگئی ہے اپنے سارے غم بھول گئی تھی عارضی طور پر۔

ہی صحیح مگر وہ حیرت کی زیادتی سے دنگ رہ گئی تھی وہ لاون سے ہوتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھا پھر دوسری منزل پر ا کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولا ہیر کو لے کر اندر داخل ہوا.
دروازہ لاک کیا اس کا ہاتھ اب تک مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا وہ تو کسی کٹھپتلی کی طرح اس کے ساتھ چلتی جا رہی تھی اس نے ہیر کو بیڈ پر بٹھایا پھر اس کے سامنے بیٹھا میں نے کہا تھا نا کسی دوسرے کی بیوی بندے کے بارے میں سوچنا بھی مت اس کے لہجے میں اب بہت زیادہ غصہ تھا جو ہیر صاف محسوس کر سکتی تھی ڈریسنگ روم میں جاؤ وہاں تمہارے لیے ایک سے بڑھ کر ایک ڈریس موجود ہے سب سے پہلے اس ڈریس کو اپنے جسم سے جدا کرو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تم کسی دوسرے کے لیے سجی ہوئی میرے سامنے بیٹھی ہو اس شخص کی انکھوں میں نفرت کیا حقارت نہیں تھی بہت غصہ تھا وحشت تھی اور سپاکت کی ہیر اپنے انسو پونچھتی ہوئی اٹھی تم زبردستی نکاح کر سکتے ہو مگر زبردستی مجھ پر حکم نہیں چلا۔

سکتے میں تمہاری زر خرید غلام نہیں ہوں تم نے میرے باپ کی جان لینے کی کوشش کی ہے اور جو شخص میرے باپ کو تکلیف دے وہ میرا سب سے بڑا دشمن ہے ہیر بھی غصے سے پھٹ پڑی ایمر ایک ہی جھٹکے میں بیڈ سے اٹھا ہیر کا منہ دبوچا تم نے ابھی تک میرا سر نوب دیکھا نہیں ہے سب سے پہلے مجھے تم کہنا بند کرو تمہارے منہ سے میرے لیے صرف اپ نکلنا چاہیے اور یہ میرا پہلا حکم ہے اور یہ جو کچھ پل کے لیے بہادر بنی تھی اس نے اس کو اتنے قریب غصے اور وحشت میں دیکھ کر وہ فورا پہلے جیسی خوفزدہ ہیر بن گئی اور ڈرتے ہوئے اس بات میں سر ہلایا اس نے ایک جھٹکے سے ہیر کا گال چھوڑا تو ہیر وارن ڈرتی ہوئی ڈریسنگ روم میں بھاگ گئی چند منٹ بعد وہ باہر نکلی تو ایک۔

سادہ سا غلابی رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اس نے اپنی طرف سے سب سے ہلکا سوٹ نکالا تھا مگر پھر بھی وہ کافی مہنگا اور کامدار تھا وہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا اور یہ ڈرتی ہوئی پیچھے ہو رہی تھی وہ اس لیے بہت پاس ا چکا تھا اتنا کیک ہاتھ ہیر کی کمر میں ڈال کر اس نے ہیر کو اپنی طرف کھینچا وہ کسی کٹی دال کی طرح اس کے سینے سے اٹکرائی تو میں پہلی نظر دیکھا تو پھر تم میرے خیالوں میں انے لگی میں یہ محبت اور اس جیسے فلسفے نہیں مانتا مگر تم نے مجھے کسی کام کے لائق نہیں چھوڑا ہر وقت تمہارا خیال ستانے لگا اور مجھے شاید پہلی نظر میں عشق ہو گیا تھا یہ بھی تمہاری ہی غلطی ہے تمہیں میرے سامنے انا ہی نہیں چاہیے تھا جو چیز احمر شیرازی کو پسند ا جائے پھر۔

وہ اسے حاصل کر کے ہی رہتا ہے اور اب تو میری دسترس میں ہو تم پر پورا حق رکھتا ہوں جب میرا دل چاہے گا اور جتنا چاہے گا اپنا عشق اور جنون اتارنے کا وہ میں اتاروں گا تمہیں میں پسند نہیں تو پسند کر لوں تمہیں میری عادت نہیں تو ڈال دو اج سے سارے محل کی تم مالکن ہو میرے ساتھ خوشی خوشی رہو گی تو ساری دنیا کی اسائشیں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا لیکن اگر دل میں کسی اور کو بسا کر میرے ساتھ بے وفائی کرنا چاہی تو تمہاری سانسیں روک دوں گا وہ اس کے کان میں چپ کر ایک ایک لفظ سخت لہجے میں بتاتا تنبیہ کا رہا تھا ہیر کو سمجھ نہ ائی وہ محبت کا اظہار کر رہا تھا یا پھر موت کا پروانہ سنا رہا تھا وہ تو کچھ بھی کہنے کے قابل نہ رہی وہ۔

تو اس کے رحم و کرم پر ا چکی تھی جو اس کے چہرے پر جھکا اسے قید کی اپنے لبوں سے لمس چھوڑ رہا تھا ہیر نے محسوس کیا اس کے عمل میں شدت ضرور تھی مگر محبت ہی محبت تھی کوئی ہوس جنون یا درندگی نہیں تھی کچھ ہی پلوں بعد اسے محسوس ہوا وہ زمین سے اوپر اٹھ چکی ہے ہیر حیرت کی زیادتی سے گنگ رہ گئی وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھائے اب بیڈ کی طرف بڑھ رہا تھا اور ہیر کو اپنے سر پر سارازمان گھومتا محسوس ہو رہا تھا وہ اتنی بری طرح اس کی قید میں تھی کہ نفی میں سر تک نہلا پا رہی تھی وہ اسے نرمی اور محبت سے چھو رہا تھا ایسا کہ ہیر حیران رہ گئی اس نے ہیر کو ایسے چھوا جیسے وہ کوئی نازک سا پھول ہو اپنے سارے حقوق لے چکا ایسے کہ ہیر کوئی مزامت۔

بھی نہ کر سکی اسے اپنی محبت سے روشناز کرا چکا تھا اور ہیر کتنے ہی پل یہ سوچتی رہی کہ کیا وہ واقعی اتنی خاص تھی کہ کوئی اسے دیوانوں کی حد تک جا سکتا تھا اس کے عمل میں شدت پسندی ضرور تھی مگر کوئی درندگی نہیں تھی جس نے ہیر کو سکون پہنچایا تھا اگلی صبح کا اغاز ہو چکا تھا وہ اس وقت شیشے کے سامنے بیٹھی اپنے بال سکھا رہی تھی جب ایمر اس کے پیچھے ا کر کھڑا ہوا پھر اس کے گلے میں ایک نازک مگر نفیس اور خوبصورت ڈائمنڈ کا نیکلس پہنایا یہ تمہاری منہ دکھائی ہے ہین نے اسی بے تاسے لہجے کے ساتھ دوبارہ اپنے بال کنگھی کرنا شروع کیے ایمر نے کچھ حیرت سے ہیر کا یہ رویہ دیکھا ایک بات تو وہ جان چکا تھا اس لڑکی کو دولت میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے وہ اسے زبردستی اپنے۔

ساتھ باندھ چکا تھا اور اسے زبردستی اپنے ساتھ محبت کرنا سکھا رہا تھا مگر وہ اپنے زبردستی نہیں ہوتی دن ایک کے بعد ایک گزرنے لگے ہیر بہت خاموش ہو گئی تھی وہ کوئی بات نہیں کرتی تھی وہ کہتا بیٹھ جاؤ تو بیٹھ جاتی وہ کھڑی رہنے کو کہتا تو کھڑی رہتی مطلب وہ اتنی زیادہ خاموش ہو چکی تھی اس کے ہر عمل پر خاموشی سے سر جھکاتی اسے کوئی بھی بات نہیں کرتی تھی شاید ہی ایک ہفتے میں اس نے ہیر کی اواز بھی سنی ہو اج ہی صبح سے بے چین تھی پورا ایک ہفتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے باپ کی شکل نہیں دیکھی تھی وہ بدگمانی دور کرنا چاہتی تھی وہ اپنے باپ کو سرچ بتانا چاہتی تھی احمد شیرازی ایک بزنس مین تھا اس کا کروڑوں کا کاروبار تھا مگر وہ اکیلا تھا اس کے والدین کا کوئی ساتھ پہلے۔

ہی انتقال ہو گیا تھا یہ سارا محل صرف اس اکیلے کی ملکیت تھا اور اس کے جانے کے بعد ہیر درجن و ملازموں کے ساتھ یہاں اکیلی ہوتی تھی اج ایمر افس نے جلدی گھر اگیا تھا پورے ایک ہفتے بعد ہیر نے اسے بات کرنے کی ٹھانی وہ جو کمرے کے صوفے پر بیٹھا اپنے موبائل میں مصروف تھا پھر اس کے سامنے ا کر کھڑی ہوئی پھر بہت مشکل سے کچھ کہنے کے لیے لب کھولیں میں اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتی ہوں کہیں نہ کہیں اس کے اندر ایمر کا خوف تھا جب وہ غصے میں ہو تو کچھ بھی تباہ کر سکتا تھا.
تھا ارے واہ تم تو بولتی بھی ہو مجھے لگا تھا شاید اپنی اواز وہیں کہیں چھوڑ ائی ہوں اور میں ہی تمہارا گھر والا ہوں مجھ سے تو بات کرتے ہوئے بھی تمہاری اواز نہیں نکلتی اور میرے علاوہ دوسروں کے ساتھ منگ گزارنا چاہتی ہوں وہ جانے کی غصے میں ایا تھا پیر سہم کر پیچھے ہٹی وہ میرے ماں باپ اور بہن بھائی ہیں اس نے کچھ تکلیف سے کہا انسو بہتے ہوئے مگر وہ خاموش رہا وہ ہیر کو ایک منٹ کے لیے بھی خود سے دور نہیں جانے دے سکتا تھا وہ اس طرح سے اس کے سینے میں بس گئی تھی کہ اگر ایک پل بھی نہ دیکھتا تو سکون نہیں ملنا تھا یہ کیسی محبت ہے اپ کی جس میں اپ کو میرا ذرا سا بھی احساس نہیں محبت قربانی مانگتی ہیں مگر اپ کی محبت میں تو انا بھی ہے ہیر دبے۔

دبے غصے سے چلائی احمر صوفے سے اٹھا وہ ڈر کے مارے پیچھے قدم لینے لگی تو تمہیں میری محبت کا ثبوت چاہیے سنجیدہ اور سخت لہجے میں کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگا یہ جانتی تھی اس نے اج خود ہی شیر کی خچار میں ہاتھ ڈالا ہے اب اس کا رویہ بھی بھگتنا پڑے گا وہ اس کے اتنے پاس ا کر کھڑا ہو چکا تھا کہ اس کی سانسیں ہیر کے چہرے پر پڑ رہی تھی ہیر کے انسو بہتے جا رہے تھے اج کے بعد میں تمہاری انکھوں سے ایک انسو بھی بہتا نہ دیکھوں ورنہ جن کی وجہ سے یہ ٹیسٹوے بہا رہی ہوں ان کو ہی ختم کر دوں گا اس کے کان کے پاس چھپ کر دبا دبا سا گھر ایا اور ہیر کو مزید رونا انے لگا اپ کے لیے محبت صرف قید کرنے کا نام ہے محبت قید کرنے کا۔

نام نہیں محبت قربانی مانگتی ہے محبت اعتبار مانگتی ہے محبت ساتھ مانگتی ہے مگر اپ جیسا شخص کیا سمجھیں محبت کو وہ اپنے سارے انسو پونچتی ہوئی واش روم میں بند ہو گئی مگر احمر اس کے اخری الفاظ میں ہی سٹک ہو گیا مگر احمر اس کے اخری الفاظ میں ہی سٹرک ہو گیا اپ جیسا شخص کیا سمجھے محبت کو اے میری سرمئی انکھیں غصے کی زیادتی سے لال ہو گئیں وہ اپنا چہرہ دھو کر باہر نکلی تو وہ غصے سے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا ایک ہی جست میں اس تک پہنچا تو تمہیں اپنے ماں باپ سے ملنا ہے اس نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے پوچھا ہیر نے ہاں میں سر ہلا سکی اور نہ نفی میں سر ہلا سکییرنا ہاں میں سر ہلا سکینہ نقیب میں سر ہلا سکی ٹھیک ہے چلو صرف ایک گھنٹہ رکنے دوں گا اگر اس سے۔

زیادہ تو مجھ سے دور رہی تو یہ دل برداشت نہیں کر پائے گا وہ کس قدر دل برداشتہ لہجے میں بولا تھا ہیر سن رہ گئی اس کے لہجے میں بے بسی اذیت اور تکلیف تھی ہیر نے حیرت سے اس مغرور شخص کو تکلیف میں دیکھا وہ اس کا ہاتھ بکری اب کمرے سے باہر نکل رہا تھا ہیر کسی کٹی ڈال کی طرح اس کے ساتھ کھینچتی گئی اگلے ادھے گھنٹے بعد وہ دونوں ہیر کے بعد کے گھر کے باہر موجود تھے مگر گھر کو تالا لگا ہوا تھا ہیر کے سر پر زمین و اسمان گھومنے لگے اخر گھر کیوں بند تھا وہ فورا ثانیہ کے گھر کی طرف بھاگی ان کا گھر ساتھ ساتھ ہی تھا ہیر کو دیکھ کر تو ثانیہ خوشی سے پھولے نہ سما پائی ثانیہ گھر کیوں بند ہے ابا کہاں ہے اس نے بے چینی سے پوچھا ثانیہ کے۔

چہرے پر تکلیف کے تاثرات ابھرے ہی حسن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ سب اس وقت ہاسپٹل میں ہے یہ سن کر تو ہیر کو اپنی سانسے رکتی ہوئی محسوس ہوئی کیا ایکسیڈنٹ میرا بھائی کیسا ہے وہ میں نہیں جانتی ہی بس نمرا بتانے ائی تھی ہیر کا سر چکرانے لگا کس ہاسپٹل میں ہے ہیٹ نے فورا اگلا سوال پوچھا ثانیہ نے فورا اسے ہاسپٹل کا نام بتایا وہ ان کے گھر سے باہر نکلی باہر ہی احمر کھڑا تھا وہ روتے ہوئے اس کے پاس ائی پلیز مجھے ہاسپٹل لے کر چلیں میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے خدا کا واسطہ وہ روتے ہوئے سفر یاد کرنے لگی ایمر تو اسے اتنی بری طرح روتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گیا اچھا چلتے ہیں پہلے رونا تو بند کرو اس نے فورا ہیر کو اپنے سینے میں سمایا ہیر کو جاننے کی ڈھارس ملی اسے۔

اج یہ شخص بالکل بھی برا نہیں لگا وہ اس کی تکلیف سمجھ رہا تھا یہی بہت بڑی بات تھی وہ فورا اس کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی ایمر نے ریسرشن اس نے کمرہ نمبر پوچھا وہ اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں نہیں تھی وہیر کا ہاتھ پکڑے مطلوبہ کمرے تک لایا باہر ہیر کے ماں باپ اور بہن بیٹھی ہوئی تھی وہ فورا اپنے باپ کی طرف بھاگی ابا حسن کہاں ہے کیا ہوا ہے اسے اس کے لہجے میں تڑپ تھی اس کا باپ جو محسوس کر سکتا تھا اس وقت وہ بھی بھول گیا کہ ہیر کی وجہ سے کتنی رسوائی ملی پتہ نہیں بیٹا سکول سے اتے ہوئے سڑک راز کر رہا تھا ایک گاڑی ہٹ کرتی ہوئی بھاگ گئی یقینا کوئی امیر رہی زیادہ ہوگا یہ بگڑے ہوئے رئیس ساتھ تھے اس سے پہلے اس کا باپ پوری بات کرتا احمر کو۔

دیکھ کر ان کی زبان تالو سے چپک گئی اپ فکر مت کریں ابا اتنے میں ڈاکٹرز باہر نکلے دیکھیں اپ کے بیٹے کے سر پر کافی گہری چوٹ ائی ہے اپ دو گھنٹے تک 10 لاکھ کا ارینجمنٹ کریں ان کی کریٹیکل سریجونی ہونی ہے دعا کریں وہ کامیاب رہے ڈاکٹر سنجیدگی سے کہتا راہداری میں غائب ہو گیا مگر ہیر کا باپ اس کا تو سانس ہی رک گیا تھا وہ 10 لاکھ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے گا ہیر جانتی تھی اس کے باپ کے پاس تو بہت مشکل ایک لاکھ بھی نہیں ہوں گے تو یہ 10 لاکھ کہاں سے ائیں گے شگفتہ بیگم ہیر کے پاس ائی دیکھو ہی ہماری اپ سے ہی رنجشیں جتنی بھی ہوں مگر وہ تمہارا بھائی ہیں اور یہ رشتہ کوئی نہیں جھٹلا سکتا میری بچی پلیز اپنے شوہر کو کہو ہماری مدد کریں میرے حسن کی جان بچا۔

لو تمہارے ہاتھوں میں ہے عثمان نے اج بے بسی سے ہاتھ ہی جوڑ دیے ہیر کو تکلیف ہوئی وہ جیسی بھی عورت ہو مگر ہیر نے اسے ماں ہی سمجھا تھا اپ کیسی باتیں کر رہے ہیں میں حسن کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتی ہوں میں بات کرتی ہوں وہ فورا احمر کی طرف بھاگی جو راہداری میں کچھ دور ہی کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ اسے یہ رونا دھونا نہیں دیکھا جا رہا تھا وہ اس کے پاس ائی اج پہلی بار ہیر نے.
نے اس کا ہاتھ پکڑا ایمر نے حیرت سے اس کا یہ رویہ دیکھا میرے بھائی کی زندگی اور موت اپ کے ہاتھوں میں ہے پلیز اسے بچا لیں میں وعدہ کرتی ہوں ساری زندگی اپ کی مرضی سے گزاروں گی ڈاکٹرز نے کہا ہے 10 لاکھ روپے چاہیے اس کی سرجری ہوگی مگر میرے ابا کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں خدارا یہ اس سے پہلے ہاتھ جوڑتی ایمر نے فورا اس کے دونوں ہاتھ پکڑے خبردار تم حکم کرنے کا حق رکھتی ہو مجھ پر حکم چلاؤ تم میرے دل کی ملکہ ہو تمہاری خاطر میں ساری سلطنت لٹا سکتا ہوں ایمریانات تو وہیں کہیں دب گئی وہ ہیر کو ایک سیکنڈ کے لیے بھی روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا اخر وہ اس کا عشق اور جنون تھی فکر مت کرو اگلے ادھے گھنٹے میں تمہارے بھائی کا اپریشن شروع ہو جائے گا اسے تسلی دیتی ہوئی۔

ایمر وہاں سے نکل گیا اور پھر واقعی اگلے ادھے گھنٹے میں حسن کی سرجری شروع ہو گئی تھی ہاسپٹل کا سارا خرچہ اور ڈاکٹرز کے ساتھ ہر قسم کی بات ایمر نہیں کی تھی ہیر ان کے پاس ہی تھی شام سے رات ہو چکی تھی مگر ہیر ہلنے سے انکاری تھی ایمر نے بھی زیادہ زور نہیں دیا کیونکہ کہیں نہ کہیں اسے بھی اپنے مرے ہوئے ماں باپ یاد ائے تھے جو اسی طرح ایکسیڈنٹ میں موت کی نظر ہوئے تھے اسے یاد ایا وہ 18 سالہ بچہ لوگوں سے فریاد کر رہا تھا کہ اس کے ماں باپ کی جان بچا لی جائے کیونکہ ان کے اپریشن کے لیے پیسے چاہیے تھے مگر کوئی اس کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اس دن اس نے تہیہ کیا تھا وہ اتنا کمائے گا کہ لوگ اس کے سامنے نظریں جھکا کر جائیں حسن کا اپریشن۔

کامیاب ہوا تھا ڈاکٹرز نے کہا اسے 12 گھنٹوں تک ہوش ا جائے گا رات کافی گہری ہو چکی تھی ہی چلو گھر چلتے ہیں تمہارا ہاسپٹل رہنا مناسب نہیں اس نے اس بار نرمی سے مخاطب کیا ہیر جو ویران اکیلی ہاسپٹل کے کوریڈور میں بینچ پر بیٹھی تھی اس نے تکلیف سے امر کی طرف دیکھا پلیز مجھے یہیں رہنے دیں میرا بھائی وہ اپنی بات پوری نہیں کر پائی کیونکہ حلق میں انسوؤں کا گولا اٹک چکا تھا صبح ہوتے دوبارہ ا جائیں گے مگر اس وقت تم یہاں نہیں رکو گی اے میں رب بھی نرمی سے ہی کہہ رہا تھا ہیر کے ابا ان کے پاس ہی کھڑے ان کی ساری بات سن چکے تھے بیٹا وہ ٹھیک کہہ رہا ہے جاؤ اپنے گھر ویسے بھی بیٹیاں شادی کے بعد اپنے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں ابا کے لہجے میں نرمی تھی ہیر کو۔

کچھ حوصلہ ملا ایمن کھڑا ہوا پھر ہیر کے ابا کے پاس ایا میں جانتا ہوں بھلے ہی میرا طریقہ غلط تھا مگر میری نیت غلط نہیں تھی اس وقت مجھے غصہ بہت زیادہ ایا تھا اور جب مجھے غصہ اتا ہے تو میرا دماغ میرے قابو میں نہیں رہتا مجھے ہیر پہلی نظر میں پہچان ائی تھی یہ میری پہلی نظر کا عشق ہے اور میں اسے ساری زندگی خوش رکھوں گا اتنا بھروسہ رکھیں اور ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا شاید ایمر نے پہلی بار کسی کے سامنے عاجزی اپنائی تھی وقار صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تم نے میرے بیٹے کی جان بچا کر جو مجھ پر احسان کیا ہے تو ہر غلطی کی تلافی ہو چکی ہیں ہیمر کے چہرے پر رسمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی جاؤ بیٹا اپنے گھر جاؤ انہوں نے دوبارہ ہیر کو مخاطب کیا ہیر بنا۔

کچھ کہے اٹھ گئی اور ایمر کے ساتھ ہاسپٹل سے باہر نکل گئی وہ سہارا راستہ بہت خاموش تھی ایمر محسوس کر سکتا ہے گھر انے کے بعد بھی وہ سیدھا بیڈ پر لے گئی اور کچھ یہ منٹوں میں سو گئی شاید پریشانی سے اس کے سر میں درد ہو رہا تھا ایمر نے بھی اسے تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اگلے دن بہت مشکل سے اس نے ہی کو ناشتے کے لیے راضی کیا اگر ناشتہ کرو گی تب ہی چلیں گے جب وہ کچھ بھی کھانے کے لیے نہیں مانی تو احمر نے اسے دھمکی دی اور پھر وہ فورا اچھی بچی کی طرح کھانا کھانے لگی پھر وہ فورا اسے اپنے ساتھ ہاسپٹل لے ایا حسن کو ہوش اگیا تھا اور اپنی بہن کو دیکھ کر وہ بہت خوش تھا نمرا اور حسن بھی اس نے بہت پیار کرتے تھے مگر بس اپنی ماں کے ڈر۔

سے اسے دور رہتے تھے ہیمر نے عید کو اپنی بہن بھائیوں کے ساتھ خوش دیکھا تو اسے اچھا لگا اب اسے سمجھ جانے لگی تھی کہ محبت میں قید نہیں کیا جاتا محبت میں ازاد چھوڑا جاتا ہے اگر وہ اپ کے پاس لوٹ ائے تو اپ کا اور اگر نہیں لوٹا تو کبھی اپ کا تھا ہی نہیں یہ سارا دن ہاسپٹل میں ہی رہی پھر شام کو اس نے خود ہی ایمر کو کہا ہمیں گھر چلنا چاہیے ایمر اپنے سارے کام چھوڑ کر ہاسپٹل میں ہی تھا وہ ہیر کو ایک منٹ کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا ہیر کی اس بات پر نہ جانے کیوں ایمر کو بہت اچھا لگا وہ جیسے اس کا رویہ اس کی طبیعت سمجھنے لگی تھی واپس گھر اگئی اگلے دن حسن بھی ڈسچارج ہو کر گھر جا چکا تھا دو دن مزید گزر گئے ہیرے اپنے ابا۔

کے ساتھ رابطے میں تھی ایمر نے اسے موبائل ا کر دیا تھا مگر اس نے چار پانچ دنوں سے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا مگر اب اس نے موبائل چلانے کا فیصلہ کیا تھا اس محل میں ہر سہولت تھی مگر اپنے ماں باپ سے ملنے کے بعد ہیر خوش ہوئی تھی تین دن بعد اتوار تھا اج اس نے ایمر سے فرمائش کی کہ وہ گھر جانا چاہتی ہیں بس کچھ گھنٹوں کے لیے پھر وہ واپس ا جائے گی وہ اب اسے فرمائشیں کرنے لگی تھی اس کی باتیں بھی ماننے لگی تھیں اس سے باتیں بھی کرنے لگی تھیں وہ اہستہ اہستہ خود کو بدل رہی تھی اس رشتے میں ایڈجسٹ کر رہی تھی عمر نے حسن کی جان بچانے کے لیے جو کچھ کیا اس کے بعد تو اس کی مقروض تھی ٹھیک ہے مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے میں تمہیں جاتے ہوئے ڈراپ۔

کر دوں گا اور اتے ہوئے لے اؤں گا ہیر خوش ہو گئی اس کے چہرے پر پہلی بار احمر کی وجہ سے خوشی ائی تھی ایمر نے تو نہ جانے اس کی کتنی بھلائی لے ڈالی وہ اس کے پاس ہی کھڑی تھی جب وہ شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا ایمر اس کی طرف پلٹا پھر محبت سے اس کے ماتھے پر لب رکھے اور اج پہلی بار ہی مسکرائی تھی وہ خوشی میں خود ہی اگے بڑھی اور اس کے سینے سے لپٹ گئی ایمل کو دلی خوشی نہیں اسے لگا اج وہ اپنی محبت کو اصل معنوں میں حاصل کر چکا ہے شکریہ مجھے سمجھنے کے لیے ہیر نے بہت مان سے کہا.۔
احمد نے دوبارہ اس کے ماتھے پر لب رکھیں اسے بہت سکون محسوس ہو رہا تھا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں جب چاہے ثابت کروا لینا وہ جیسے کہہ رہا تھا میں دوبارہ بھی تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں یر بس مسکرا کر رہ گئی پھر اس کے ساتھ وہ ابا کے گھر اگئی اور احمر اسے ڈراپ کیے چلا گیا وہ حسن کے پاس ہی تھی اسے خود اپنے ہاتھوں سے سوپ بنا کر پلا رہی تھی اسے یہاں ائے دو گھنٹے ہو گئے تھے جب دروازے پر دستک ہوئی اسے لگا شاید احمر ا گیا ہوگا وہ اپنا حلیہ ٹھیک کرتی ہوئی دروازے تک ائی دروازہ کھولا مگر ایمر کی جگہ سامنے حماد کھڑا تھا اسے دیکھ کر ہیر کا حلق تک کڑوا ہو گیا تو وہیں ہیر کو دیکھ کر حماد کے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی ارے واہ مجھے امید نہیں۔

تھی اتنے بڑے ادمی سے شادی کر کے تم دوبارہ اس جھونپڑی کا رخ کرو گی اس نے تنز میں لپٹے تیر ہیر کے سینے میں مارنے چاہے اپنی ب** بند کرو یہ میرے ماں باپ کا گھر ہے یہاں جب دل چاہے گا میں ا جاؤں گی ہیر کو بھی غصہ ایا ارے واہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ایک تو پہلے مجھے اپنی اس عاشق کی گھنٹوں سے کہہ کے کرنیپ کروایا پھر اسے نکاح رچا لیا پھر اتنے بڑے ادمی کی بیوی بن گئی اور اب مجھ پر ہی روب جا رہی ہوں تمہیں اپنی اوقات سے باہر ملا ہے میں تمہیں ہر چیز دے سکتا تھا تمہیں دنیا کی ہر خوشی دیتا مگر تم نے مجھے دھوکہ دے کر اچھا نہیں کیا وہ غصے سے بات کرتا ہوا ہیر کی طرف قدم لینے لگا ہیر پیچھے ہونے لگی تمہیں کیا لگا تھا میں تم سے شادی۔

کروں گی وہ تو خدا کا شکر ہے مجھے خدا نے ایک اچھا انسان شوہر کے رکن عطا کر دیا اگر اس دن وہ زبردستی ا کر نکاح نہیں کرتا تو شاید میں اسی رات مر جاتی ہوں کیونکہ تم جیسے شخص سے شادی کرنا مرنے کے مترادف ہی تھا حماد کا چہرہ تذلیل سے سرخ ہوا اپنی ب** بند کرو وہ بھی چلایا اماں اور ابا اندر حسن کے پاس تھے شاید ان تک اواز نہیں جا رہی تھی کیونکہ اندر ٹی وی فل والیوم میں لگا ہوا تھا ب** نہیں کر رہی سچ کہہ رہی تمہاری انکھوں میں تو عورت کے لیے حیا ہی نہیں ہے تم کن خلیف نظروں سے مجھے گرتے تھے کیا مجھے اندازہ نہیں تھا ایک بات یاد رکھنا اللہ پاک نے عورت کو بہت خاص حص عطا کی ہے وہ ہر مرد کی نظریں پہچان جاتی ہیں تمہاری نظروں کی ہوس بھی جانتی۔

تھی میں صرف اپنے باپ کی عزت رکھنے کی خاطر شادی کے لیے مانی تھی ورنہ تم جیسے گھٹیا انسان سے شادی کرنے سے بہتر میں خودکشی کیے حرام موت کو گلے لگا لیتی ہیر بھی کچھ بھوسرے سے چلائی اس سے پہلے حماد کا ہاتھ اٹھتا اور ہیر کا منہ دبوش تھا راستے میں کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہیر نے حیرت سے دیکھا احمر غصے سے لال ببوکا چہرہ لیے کھڑا تھا یقینا وہ ان کی ساری باتیں سن چکا تھا اور یہ بھی جان چکا تھا کہ ہیر نے کبھی کسی دوسرے کو اپنے دل میں بچایا ہی نہیں تھا حماد نے جیسے ہی احمر کو دیکھا اس کا خون خشک ہوا سر اپ یہاں حماد کے چہرے پر پہلی بار خوف نمودار ہوا تمہاری ہمت کیسی ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی وہ اتنی اونچی اواز میں چلایا کہ اس کے چھوٹے صحن۔

کے در و دیوار ہل کر رہ گئے اور حماد کو یہ نہیں پتہ تھا کہ ہیر کس کی بیوی بنی ہے وہ اپنے باس اپنے سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا اس سے پہلے وہ کچھ کہنے کے لیے لب کھولتا اے عمر کا ہاتھ اٹھا اور ایک مکہ حماد کے منہ پر دے مارا اگر اج کے بعد تم اس گھر میں دکھائی دیے تو اگلے دن دیکھنے کے لیے نہیں بچوں گے ایمر غصے سدھاڑا اور تم ابھی اور اسی وقت صرف فارغ ہو کل سے کام بنانے کی ضرورت نہیں حماد کو ایمر کی کمپنی میں ہی اچھی پوسٹ پر جاب ملی تھی مگر اج اس کی بیوی پر گندی نظر ڈال کر وہ خود یہ گنوا چکا تھا نہیں پلیز سر مرزا ایسا مت کریں حماد فورا گرگرانے لگا جس شخص کی انکھوں میں حیا نہیں وہ میری کمپنی میں کام کرنے کا بھی روادار۔

Read Also 17 Sal Ki Dulhan Best Urdu Story

نہیں وہاں بہت ساری فیمیل ایمپلائیز کام کرتی ہیں تمہارا کیا بھروسہ کل کسی لڑکی کے ساتھ غلط حرکت کرو ہر لڑکی میرے لیے میری بہن جیسی ہے اب دفع ہو جاؤ یہاں سے ایمر غصے سے چلایا شوہر کی اواز سن کر اماں اور ابا بھی باہر ا چکے تھے ہیر کی انکھیں نم تھی انکھوں میں مان تھا اور وہ ماں نے احمر کیل کے تھا ابا نے خاموشی سے اماں کا ہاتھ پکڑا اور کمرے میں چلے گئے وہ ساری باتیں سن چکے تھے ابا تو بہت پہلے ہی کو معاف کر چکے تھے اماں نے بھی اپنا دل صاف کر لیا تھا اخر ہیر کی وجہ سے ہی تو ان کا حسن زندہ بچا تھا ہیر کی انکھوں میں نمی تھی مگر وہ نمی اج خوشی کے انسو تھے حماد کے جانے کے بعد وہیل کی طرف متوجہ ہوا تم ٹھیک تو ہو اس نے فکر۔

میں ڈوبے لہجے میں پوچھا ہیر نے فورا زور شور سے اس بات میں سر ہلایا چھوٹے سے صحن میں وہ دونوں کھڑے تھے عصر کا وقت تھا ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی ہیر اپنی نا ماںکوں سے اج اسے محبت سے دیکھ رہی تھی پھر وہ اگے بڑھی اور اس کے سینے سے لگ گئی میں بہت خوش قسمت ہوں جسے اپ جیسا شوہر ملا ہے بے شک تب میں اپ سے نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں اپنے باپ کی عزت پر کوئی داغ نہیں لگنے دینا چاہتی تھی مگر خدا کی قسم میرے دل میں اپ سے پہلے کوئی شخص نہیں ایا اور ایمر حیران رہ گیا یعنی کہ وہ اس کے دل تک ا چکا تھا تم تم سچ کہہ رہی ہو نا اس نے بے یقینی سے پوچھا کہر نے فورا اس بات میں سر ہلایا میرے دل میں اور میری زندگی میں انے۔

والے اپ ہی پہلے اور اپ ہی اخری مرد ہیں اور احمر شیرازی کو لگا کسی نے اس کے کانوں میں چاشنی گھول دی ہو اس نے ہیر کو پوری قوت سے اپنے سینے میں بھینچا ہیر مسکرا کر رہ گئی پھر اس نے ہیر کے ماتھے پر لب رکھیں اپنے گھر چلے ایمر نے اس کے کان میں سرگوشی کی ہیر نے اس بات میں سر ہلایا اپ جہاں چاہیں گے وہاں چلوں گی اے میری ساری زندگی صرف اپ کے نام ہے وہ محبت سے.۔
بوجھل لہجے میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھی کیونکہ یہ وہ شخص تھا جس نے اسے عزت دی تھی ہاں اس کا نکاح کرنے کا طریقہ غلط تھا مگر اس نے ہیر کے دل میں اپنی مخلصی سے جگہ بنائی تھی نہ کہ زبردستی وہ اماں رب سے مل کر چلے گئے اج پہلی بار ہی گھر جانے کے لیے خوش تھی اج پہلی بات وہ اس گھر کو گھر سے اج پہلی بار اس نے خود کو خوش محسوس کیا تھا بے شک خدا بہترین کارساز ہے

Updated: February 11, 2025 — 6:34 pm

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *