میں نے تین شیر جیسے لڑکوں کو جنم دیا ہے۔ میری پہلی ساس اور نندیں مجھے کہا کرتی تھیں کہ یہ تو تھوہر کا پودا ہے۔ زمین کا پانی پی جاتا ہے ۔ نہ پھل دیتا ہے نہ پھول ۔ میری کوکھ میں

ریت بھری ہوئی ہے۔ میری گود کبھی ہری نہ ہو گی۔ ابھی ابھی اپنے پہلے بچے کی اٹھارہویں سالگرہ مناکر فارغ ہو ئی کہوں ۔ رات کے دس بج چکے ہیں۔ تین مہینے بعد دوسرے بچے کی چودھویں اور دو مہینے بعد تیرے بچنے کی دسویں سالگرہ مناؤں گی۔

 آج جبکہ میرا پہلا بیٹا اٹھارہ سال کا ہوگیا ہے ، دل وہ سارے دکھ اگل دینے کو تڑپ رہا ہے جو میں نے اپنے اس بچے کی پیدائش سے پہلے جھیلے تھے۔ لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔ مجھ پر ہو گزری ہے وہ لکھ کر آپ کے حوالے کردوں گی۔ آپ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں کریں۔ میری کہانی عجیب و غریب اور دلچسپ نہیں ۔ چار دیواری کی دنیا ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کسی عورت کے اولاد نہ ہوئی تو اسے طلاق مل گئی۔

میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ میں بھی دوسری عورتوں کی طرح طلاق ملنے سے پہلے بہت روتی تھی ۔ خاوند کی منت سماجت کی تھی کہ مجھے طلاق نہ دے مگر اس نے ایک نہ سنی ۔ یہاں تک تو میری کہانی وہی ہے جو آپ نے سینکڑوں مرتبہ شنی ہوگی ۔ لیکن اس سے آگے میری کہانی ذرا مختلف ہو جاتی ہے۔ جس روز میری ڈولی سسرال کے صحن میں آئی ، میری عمر اٹھارہ سال اور ساڑھے چار مہینے تھی۔

والدین نے مجھے ایف اے سے آگے نہیں پڑھنے دیا تھا کیونکہ میری منگنی ہو چکی تھی اور لڑکے والے شادی جلدی کرنا چاہتے تھے۔ پڑھنے کا شوق مار دیا گیا اور میں کالج سے نکل کر سسرال کے گھر میں داخل ہوگئی میرا سسرال اور میکہ متوسط درجے کے گھرانے تھے۔ خاوند نے مجھے دل و جان سے قبول کر لیا اور ازدواجی زندگی اچھی گزرنے لگی ۔ پور را ایک سال ہنستے کھیلتے گنہ رگیا ۔

 ساس ماؤں کی طرح اور نندیں سگی بہنوں کی طرح پیار کر تی تھیں۔ گھر کا کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ دن کے وقت زیوں کے بغیر نہیں رہنے دیتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں دلہن ہی بنی رہوں ۔ میرادو لہا ان کا اکلوتاتھا ، اس لیے وہ مجھے اس کی لاڈلی دلہن سمجھتی تھیں۔ میں جب بھی میکے جانے کو کہتی نندیں مجھے اپنے ہاتھوں تیار کر کے میکے بھیج دیتیں۔ مجھ پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

میں ایک سال دلہن ہی بنی رہی ۔ دوسرا سال شروع ہوا تو میں نے محسوس کیا جیسے ساس مجھے بڑی غور سے دیکھتی ہے اور کبھی کبھی میں صحن میں چلتی تھی تو وہ مجھے پیچھے سے دیکھتی رہتی تھی۔ ایک روز ایک ادھیڑ عمر عورت آئی تو ساس مجھے کمرے میں لے گئی۔ کہنے لگی کہ یہ ہماری دائی ہے۔

بے چاری کا یہی ذریعہ معاش ہے ، اور کچھ نہیں تو اس سے پیٹ ملوا لو اور اسے دو چار روپے دے دینا۔ بے چاری دُعائیں دے گی۔ مجھے پیٹ ملوانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اسے بھی ساس کا لاڈ اور پیار سمجھ کر میں بیڈ پر لیٹ گئی۔ ساس کمرے سے نکل گئی۔ دائی نے پہلے تو میرے پیٹ کو ٹٹولا، پھر پہلو سے دبانا شروع کیا اور ناف پر ہا تھ کر دبایا اور اس طرح دس پندرہ منٹ پیٹ مل کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ کمرے کے دروازے کی طرف گئی تو میں بھی اٹھ کہ دروازے سے تک گئی ۔

ساس باورچی خانے میں تھی۔ دائی کو شاید معلوم نہیں تھا کہ میں پیچھے کھڑی دیکھ رہی ہوں۔ اس نے میری ساس کی طرف دیکھ کر سر ہلایا جیسے اشارہ کیا ہو کہ نہیں میں نے ساس کو دیکھا۔ اس کا چہرہ اداس ہو گیا اور اس کا سر جھک گیا۔ میں فورما سمجھ گئی کہ میرا پیٹ کیوں ملوایا گیا ہے اور دائی نے ساس کو سر ہلا کے کیا بتایا ہے۔ میں نے دائی کو دور دوپے دیئے اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔

ساس کا اداس چہرہ میری نظروں کے سامنے سے ہٹا نہیں تھا۔ میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ ایک سال گزر گیا ہے۔ مجھے تو اب تک ماں بن جانا چاہیے تھا مگر دائی میری ساس کو مایوس کر گئی تھی۔ ایک مہینہ اور گزرا تو دائی ایک بار پھر میرا پیٹ ملنے آگئی اور وہ سر کے اشارے سے میری ساس کو پہلے سے زیادہ مایوس کر گئی۔ دائی کے سر کے اشاروں ہی اشاروں میں ایک اور سال گزر گیا۔

 تیسرا سال شروع ہوا تو ساس مجھے ایک شاہ صاحب کے پاس لے گئی۔ شاہ صاحب نے کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں ڈال کر کہا ایک گڑ بڑ کر تی ہے۔ اللہ کرے گا جگہ پر آجائے گی۔ اگلی جمعرات کو پھر آنا ساس نے میرے ہاتھ سے پانچ روپے شاہ صاحب کو دلا ئےتھے۔ اگلی جمعرات آئی تو شاہ صاحب کے پانچ روپے اور کھرے ہو گئے مگر ساس خوش نہیں تھی کیونکہ ان کے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ جس روح کو میرے گھر آنا ہے وہ ابھی ستاروں کی گردش میں بھٹک رہی ہے ۔

ذرا دیر لگے گی جگہ پہ آجائے گی۔ دو مہینے بعد گلی میں آواز آئی ۔ رمل – فال – دلیل ساس دوڑ کے باہر نکلی اور رمل فال والے کو اندر لے آئی ۔ محلوں میں رہنے والوں کو معلوم ہوگا کہ قسمت کا حال بتانے ایسے وقت گلیوں میں اگر رمل – فال – دلیل کی صدا لگاتے ہیں جب مرد گھروں سے اپنے کام کاج پر نکل جاتے ہیں۔ گھروں میں صرف عورتیں ہوتی ہیں۔ چار دیواری کی دنیا کی قیدمی عورتیں اتنی بے بس ہوتی ہیں کہ جوتشیوں اور پیروں اور شاہ جی قسم کے لوگوں کے سہارے ڈھونڈتی رہتی ہیں ۔

یہ لوگ ان کی ذہنی مجبوریوں اور ان کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسی استادی سے باتیں کرتے ہیں جو بالکل سچ معلوم ہوتی ہیں۔ ساس بھی اپنی عورتوں میں سے تھی۔ اس نے میرا ہاتھ جوتشی کے ہاتھ میں کے ہاتھ میں دے کر کہا۔ بابا جی ، اس کی گود کب ہری ہوگی۔ اس خشخشی داڑھی والے مریل سے آدمی نے میرے ہاتھ کی لکیریں دیکھیں پھراپنی کتاب کھول کر مجھے کہا کہ ان خانوں میں سے کسی میں انگلی رکھ دوں۔

میں نے ایک خانے میں اُنگلی سکھ دی میں میں جل پری کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ جوتشی نے تین چوکور ٹکڑے کتاب کے اس صفحے پر پھینکے ۔ پری جل سے نکل آئی ہے۔ جوتشی نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ چار چاند ڈوبے گے فیر جیل میں چلی جاوے گی۔ فیر تین چاند ڈو ہیں گے تو فیر جل سے نکل آدے گی۔ تب من کی مراد پوری ہو وے گی ۔ چنتا نہ کر بی بی ٹھنڈےدودھ کو پھونکیں نہ مار ۔ جل پری جل میں رہتی ہے ۔ بڑی بھاگوان ہے۔

گھر میں جبل تھل کر دیوےگی ۔ ایک روپیہ تیرہ آنے پوتھی پر دھر دے تیرے کو کج ہور بتاوےگے۔ جوتشی بابا کے من میں کبھی کبھی موج آتی ہے جوتشی با با من کی موج میں پانچ روپے تو آنے لے کر چلتا بنا نگہ باتیں ایسی کر گیا کہ ساس اور نندوں کی باچھیں کھل گئیں۔ پھر چار چاند ڈوب گئے اور پھر تین اور چاند ڈوب گئے۔ جھیل پری نے میل تحمل نہ کیا ۔ دائی نے میرا پیٹ ملا۔ سراغرسانی کی اور وہی پرانا اشارہ کر کے چلی گئی اور ساس کا چہرہ اس طرح اُتر گیا جیسے اس کی جل پری ہمیشہ کے لیے جیل میں ڈوب گئی ہو۔

 ازدواجی زندگی کا تیسرا سال بھی گزر گیا اور ساس اور نندوں کا لاڈ اور پیار بھی گزر گیا۔ میں گھر کے کام میں جتی رہنے گئی اضافہ کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ایک روز وہ مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے میر معائنہ کیا اور تین دوائیاں لکھ دیں به پندرہ دنوں کا کورس تھا۔ یہ تم کیا تو لیڈی ڈاکٹر نے ایک بار پھر جائنہ کیا۔ اس نے علیحدگی میں مجھ سے بہت سی باتیں پوچھیں۔ میرے خاوند کے متعلق بھی کئی ایک سوال کیے ۔

 پھر اس نے میرے خاوند کو بلا کہ کہا کہ وہ بھی کسی اچھے ڈاکٹر سے معائنہ کرا لے یہ قدرت کا بنایا میں نظام عجیب سا ہوتا ہے۔ ذرا سی خواہی کے تاریخ لئے۔ یہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ آپ کا علاج ہو جائے گا۔ گھرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں نے گھر آ کر خامہ سے کہا کہ وہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرے ، مگروہ اس طرح بھڑک اُٹھا جیسے میں نے اس کی مردانگی پر کوئی بڑی ہی توہین آمیز بہت لگا دی ہو۔ نقص تم میں ہو گا۔

اُس نے کہا ” مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے متعلق خود رائے قائم نہ کریں۔ میں نے کہا یہ آپ کی رائے غلط بھی ہوسکتی ہے میرا مطلب کچھ اور تھا گروہ کچھ اور سمجھا ۔ اس کی آنکھیں ٹھہر سی گئیں اور اس کا چہرہ زرد ہو گیا۔ میں نے اپنی دو شادی شدہ سہیلیوں کو اپنے خاوند کے متعلق یہ بات سنائی تو انہوں نے کہا کہ کسی مرد کو ماں بہن کی گالی دے دو تو وہ برداشت کر لیتا ہے لیکن یہ مشورہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ کسی ڈاکٹر سے معائنہ کرائے ۔

انہوں نے بتایا کہ خاوندوں کی نظر میں ہر نقص عورت میں ہوتا ہے ۔ مرد اپنے آپ کو فرشتہ سمجھتا ہے ۔ اگر کسی بیوی کو اپنے خاوند کے جراثیم سے ٹی بی ہو جائے تو تھوڑے عرصے بعد سسرال والے مشہور کر دیتے ہیں کہ ان کی بہو نے ان کے بیٹے کوٹی بی لگادی ہے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے خاوند کا موڈ خراب رہنے لگا اور اس کے ساتھ ہی ساس الر نندوں کا سلوک بھی بدل گیا ۔ پھر شہر مجھے راولپنڈی دو لیڈی ڈاکٹروں کے پاس لے گیا۔

صبح ایک سے معائنہ کرایا۔ شام دوسری سے کرایا۔ دونوں نے معائنہ کر کے اور نہیں بنتیں روپے فی لے کر کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور دونوں نے میرے شہر سے کہا کہ اس کے خاوند کا بھی معائنہ کر لو ۔ مگر سر نے اپنے بیٹے کی وکالت کرتے ہوئے دونوں سے کہا۔ وہ تو ٹھیک ہے۔ میں نے واپس آکر خاوند کو بتایا ک لیڈی ڈاکٹروں نے کیا فیصلہ دیا ہے۔

وہ کچھ بھی نہ بولا مگر اس کے چہرے کا بدلتا ہوا ر نگ بول رہا تھا کہ اسے یہ فیصلہ سخت ناگوار گنہ ادا ہے۔ میں پوٹھو ہار کے علاقے کی رہنے والی مہوں جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پہنچ والے پیروں کے مزار اور گرتیاں ہیں ۔ مجھے تین چار مزاروں اور خانقاہوں پر نے جایا گیا۔ وہاں کی خاک اور کنکرہ یاں کھلائی گئیں اور کرتے کرتے میرے گلے میں پانچ تعویز ٹکنے لگے مگر جل پری نے جل تھل نہ کیا۔

ساس مجھے گولڑہ شریت بھی لے گئی میری ماں مجھے دیول شریف لے گئی۔ تو گنے کی قبر پر بھی مجھے لے جایا گیا۔ حسن ابدال زندہ پیر کے مزار پر بھی لے گئے ، مگر میری قسمت میں وہی طعنہ لکھا تھا جو چار دیواری کے پاگل خانے میں اکثر سنائی دیتا ہے۔ یہ تو تھوہر کا پودا ہے۔ زمین کا پانی پی جاتا ہے۔ نہ پھل دیتا ہے نہ پھول سب سے پہلے مجھے یہ طعنہ ساس نے دیا تھا پھر مجھ پر ایسے ایسے تیر برسنے لگے کہ شادی کی پہلی مات اور پہلا سال ایک حسین خواب کی طرح یاد رہ گیا، پھر میں نے اس خواب کو بھی ذہن سے اتار دیا ۔

مجھے در و دیوار سے نفرت ہوگئی۔ خاوند بیگانہ ہوگیا۔ تندیں منہ بسورنے لگیں۔ پھر ساس مجھے اس طرح کام بتانے لگی ” تو ہماری اور کیا امید پوری کرے گی۔ جھاڑ رہی پھر سے دہرایاکہ سوکھے پیڑ سے بھی ایک ہر اپتا پھوٹ آتا ہے۔ جا ز را برتن مانجھ سے کب تک کھرےمیں ڈھیر رہے گا؟ جس چوٹ نے مجھے ادھ موا کر دی وہ یہ تھی کہ مجھ سے میری سہیلیاں چھوٹ گئیں۔ وہ آتی تھیں یا میں ان کے پاس پہلی جاتی تھی تودل کا بوجھ ذرا ہلکا ہو جاتا تھا لیکن وہ بھی مجھ سے دور ہٹنے لگیں۔ مجھے اپنی ماں نے بتایا کہ میری سہیلیوں کو یہ کہ کر ڈرایا گیا ہے

کہ مجھ پر کسی چیز کا سایہ ہے اور میں کسی پر پیر فقیر کی بدعائی ہوں، اور جسں سہاگن پر میرا سایہ پڑے گا اس کی بھی کو کھ سوکھ جائے گی۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی سوال ہیں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی ۔ میں جاہل اور ان پڑھ نہیں تھی کہ تنہائی میں رونے بیٹھ جاتی لگرہ مجھے ایک خیال آگیا۔ وہ یہ کہ میں جوابی کارروائی کے طور پر ساس اور نندوں کے منہ آئی تو وہ میرے خاوند کو بھڑکا کہ مجھے طلاق دلا دیں گی ۔

اگر طلاق کا تعلق صرف میری ذات سے ہوتا تو میں پرواہ نہ کہتی مجھے اپنے ماں باپ کا زیادہ خیال تھا۔ یہ صدمہ وہ کیسے برداشت کرتے ۔ میں نے دل کے شعلے دل میں روکے رکھے اور میرا دل جلتا رہا۔ سیکے کے محلے کی صرف ایک سہیلی نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ میری ہمراہ تھی اور ہماری دوستی دلوں میں اتری ہو ئی تھی۔ ازدواجی زندگی کا چھٹا سال تھا جب سسرال سے مجھے اشارہ مل گیا کہ اب طلاق کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا شروع شروع میں اشا رے ملتے رہے ۔ آخر ایک روز میری ساس نے میری ماں سے جا کر بڑی لمبی تمہید باندھ کر کہا کہ ان کا ایک ہی لڑکا ہے ۔

اگر اس کی اولاد نہ ہوئی تو جائیداد کا وارث کون ہوگا۔ نسل ختم ہو جائے گی۔ اس لیے تم لوگ ہمیں اجازت دو کہ ہم اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرادیں اور اگر تم کیا ہو تو تمہاری بیٹی کو طلاق دے دیں۔ میری ماں نے مجھ سے جب بات کی تو وہ اتنی روٹی کہ ہچکیاں لینے لگی۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس کی ہچکیاں اور آنسو کبھی نہیں تمہیں گے ۔ میں بھی رونے لگی۔ ختنے کا یہ عالم کہ میر سے دانت بجنے لگے۔ دل میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہو گیا۔

میں توسب کے منہ چڑیلوں کی طرح نوچنے کے لیے تیار ہو گئی لیکن بار بار یہ خدشہ مجھے بے بس کر دیتا تھا کہ مجھے طلاق ہو گئی تو مجھ سے کوئی بھی شادی نہیں کر گیا کیونکہ سب کو پتہ چل جائے گا کہ میں بچے جننے کے قابل نہیں۔ دوسری شادی کا خیال مجھے صرف ماں باپ کی خوشنودی کے لیے آتا تھا۔ ماں باپ کی یہی ایک خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں جس گھر جاتیں سکھی رہیں ۔ گھر میٹھی بیٹی ماں باپ کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتی ہے۔

برداشت کرنے کے باوجود میں منہ پھٹ ہوگئی ۔ یہ تو بچپن سے ہی میری عادت تھی کہ منہ آئی بات کہ گزرتی تھی۔ کوئی برا مناتا ہے تو مناتا رہے۔ میں نے ساس اور نندوں کو کھری کھری سنانی شروع کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آئے دن جھک جھک ہونے لگی۔ مگر ہار مجھے ہی ماننی پڑتی تھی کیونکہ ماں باپ کی وجہ سے میں طلاق سے بہت ہی ٹوستی تھی۔ ایک روز پھر توتو میں میں ہو گئی اور میں میکے گر کو چل دی ۔

ارادہ تھا کہ شام کو واپس آجاؤں گی ۔ تانگے میں بیٹی اور اپنے گھر جا پہنچی۔ وہاں نال لگا ہوا تھا ۔ مجھے معلوم تھا کہ گھر کے سب لوگ کہیں چلے جائیں تو چابی ساتھ والے گھر دے بجاتے ہیں۔ ہیں ساتھ والے گھر گئی تو وہاں اس گھر کا ایک جواں سال آدمی اکیلا بیٹھا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی ماں اور میری ماں میری ہی خاطر کسی خانقاہ پر چلی گئی ہیں ۔ میرے ابا جان دفتر اور دونوں بھائی کالج گئے ہوئے تھے۔

یہ آدمی شادی شدہ تھا اس کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی تھی ، کیونکہ بہت ہی ب تیز اور جاہل قسم کی عورت تھی۔ اس آدمی کے ساتھ پڑوسی ہونے کی وجہ سے اچھی جان پہچان تھی۔ اس کی بیوی چھے سات مہینوں سے میکے گئی ہوئی تھی۔ یہ آدمی اسے واپس نہیں لانا چاہتا تھا۔ اُس نے مجھے بیٹھا لیا اور اپنی بیوی کا رونا رونے لگا۔ میں نے اسے اپنی مصیبت کی کہانی سنادی۔ اپنی پرانی عادت کے مطابق کوئی بات نہ چھپائی ۔ اپنے خاوند کا سلوک بھی اسے بتایا اور یہ بھی کہ وہ اپنا ڈاکٹری معائنہ کرانے سے گھبراتا ہے۔

 پھر میں نے اس آدمی کو بتایا کہ میں طلاق سے بہت ڈستی ہوں کیونکہ اس سے میرے ماں باپ کو سخت صدمہ پہنچے گا۔ مسا صرف یہ ہے کہ خدا مجھے صرف ایک بچہ دے دے۔ اس مسئلے پر باتیں کرتےکرتے یہ آدمی کچھ زیادہ ہی سے بے تکلفی پر اتر آیا ، اور اچانک میر ے اندر انتقام اور بغاوت کا شعلہ اُٹھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا تجھے ایک بچہ چاہیے۔ خاوند کو کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ یہ بچہ اس کا نہیں ! میری جذ باتی حالت میرے قابو سے باہر ہوگئی اور عین اس وقت اُس آدمی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا تمہیں ایک بچہ چاہیے۔

 یہ تو کوئی مسئلہ نہیں میں اس کی طرف دیکھا۔ ہماری نظریں ٹکرائیں ۔ میں نے اس کی مسکراتی ہوئی آنکھوں میں ایک بچے کی جھلک دیکھی۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑایا۔ دہ اُٹھا اور اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا وہ اُٹھا اور اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ کواڑ جب ایک دوسرے سے ٹکرائے تو یہ ذرا سا کھٹکا میرے سینے میں توپ کے دھماکے کی طرح گر جا۔ میری غیرت بیدار ہو گئی۔ میرا جسم اتنی زور سے کا نپا جیسے کسی غیبی قوت نے مجھے ہلا کر کہا ہو۔ آبرو کی خاطر مسلمان بیٹیاں جان پر کھیل جاتی ہیں۔

 تم اتنی جلدی ہار گئیں خدا کی ذات سے مایوس نہ ہو لڑکی۔ ہوش میں آیا وہ دروازہ بند کرکے میری طرف آیا اور میں اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے اسے کہا۔ مجھے معاف کر دینا اور میں اس سے اپنے گھر کی چابی لیے بغیر باہر آگئی۔ میں نے گناہ نہیں کیا تھا لیکن گناہ کا ارادہ ضرور کر لیا تھا۔ یہی ارادہ مجھے ساپنوں کی طرح ڈنک مارنے لگا۔ گلی میں آئی تو ایسے گھراہٹ ہونے لگی جیسے دیواریں مجھے پر لعنت بھیج رہی ہوں ۔

جیسے پاس سے گزرتے لوگ مجھے نفرت سے گھور رہے ہوں۔ میں کوئی ایسی پناہ ڈھونڈنے لگی جو مجھے گناہ کے احساس سے نجات دلا دے۔ مجھے اپنی ہمراز سہیلی یاد آگئی تو میں بہت ہی تیز چلتی اُس کے گھر جا پہنچی۔ اس نے مجھے بتایا کہ میرے آنسو بہہ رہے ہیں مجھے تو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ اپنے آنسو محسوس کرسکتی۔ میری سہیلی میرے دکھ سے واقف تھی۔ اس نے جب میری طلاق کے متعلق بات شروع کی تومیں نے اسے کہا کہ آج میرے آنسو اپنے سہاگ کے غم میں نہیں کسی اور وجہ سے بہہ رہے ہیں ۔

 اُس نے پوچھا تو میں ذرا بھر نہ جھجکی اور اسے ساری واردات سُنا دی۔ میں اپنے ضمیر سے اس گناہ کا بوجھ اتار پھینکنا چاہتی تھی، جو میں نے کیا نہیں تھا، صرف سوچا تھا۔ میری سہیلی افسردہ ہو گئی۔ میں سمجھی کہ ہ میری ایسی نازیباحرکت پر ناراض ہوگئی ہے۔ میں نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا اللہ کی قسم میں وہاں سے بھاگ آئی ہوں ۔ گناہ کیا نہیں ۔ اس نے کہا ۔ یہی تم نے غلطی کی ہے کہ تم نے گناہ کیا نہیں۔

اب گناہ نہ کرنے کی سزا بھگتو اور طلاق لے کہ ماں باپ کے گھر بیٹھیو۔ کوئی مائی کا لال ایسا نہیں ہوگا جو تمہیں بیاہ لے جائے گا۔ تمہاری ۔ اس کی طرح ہر کوئی تمہیں کہے گا کہ یہ تھوہر کا پودا ہے میں حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھنے لگی۔ اس نے بڑی لمبی آہ لی اور ایک عورت کے متعلق اس نے وثوق سے بتایا کہ وہ بھی اس گناہ سے بہت بھا گی تھی مگر اس کے سامنے طلاق کا بھوت کھڑا تھا ۔

اس کا خاوند بھی تمہارے خاوند کی طرح ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا تھا۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس کا پہلا بچہ شادی کے آٹھویں سال پیدا ہوا تھا او دوسرا گیارہویں سال۔ پہلے بچے نے اسے طلاق سے صاف بچا لیا۔ لیکن یہ بچہ اس کے خاوند کا نہیں اور دوسرا بھی اس کے خاوند کا نہیں۔ پہلا اس پیر کا ہے جس کے پاس اسے ساس لے جایا کرتی تھی لیکن بچہ اس کے تعویذوں کا کرشمہ نہیں اس کے کرتوت کی پیداوار ہے۔

اس نے ایک بچے کی خاطر یا طلاق سے بچنے کی خاطر اپنے آپ کو پیر کے حوالے کر دیا تھا۔ خدا نے اس کے گناہ سے اس کی گود ہری کر دی۔ پھر ایک سال بعد اپنی برادری کے ایک آدمی نے اسے دوسرا بچہ دیا اور سسرال میں اس کا وقار بحال ہو گیا۔ سسرال والے اسے بھاگوان سمجھنے لگے جس نے انہیں دو لڑکے دہیے ہیں ۔ خاوند کا سراونچا ہو گیا تھاکہ وہ لڑکوں کا باپ ہے ۔ میں تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی کہ ایسے ہوا ہے۔

میں نے ہنس کر اسے کہا۔کیا بکواس کر رہی ہو ۔ میں نہیں مانتی سن میری بہن ؟ اُس نے کہا ۔ ” اولاد کی خاطر پیروں کے پاس جانے والی عورتوں کی گود تعویذ نہیں، پیر خود ہری کیا کرتےکرت ہیں نہیں کہ سکتا کہ جس کو طلاق کی دھمکیاں اور بانجھ پن کے طعنے ملتے رہیں اور وہ اپنے ماں باپ کی عزت اور اپنے مستقبل کی خاطر طلاق سے سخت خوفزدہ ہو اور اس کی گود ایک عرصے بعد یہ ہری و جائے تو یہ بہتر اس کے خاوند کا ہی ہوگا۔

ہمارے گھرانوں میں ایک فریب کی حکمرانی ہے ۔ یہ فریب ہم دوسروں کو بھی دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی ۔ تمہیں اپنی آبرو پیاری ہے تو طلاق لو گھر آ بیٹو اور ساری عمر اسی گھر میں گزار دو میں اپنے آپ کو اس فریب کاری کے لیے تیار نہ کر سکی ۔ اور جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میری نجات ایک گناہ میں ہے ورنہ میں ہمیشہ کے لیے دھتکار ہی جاؤں گی تو میرے اندر ایسی بے چینی اور تلخی پیدا ہوگئی کہ بیٹھےچین نہ لیٹے چین پگل پن ساسوار ہو گیا اور جی میں میں ایک ارادہ آتا کہ خود کشی کر لوں ۔

 ریل گاڑی کے نیچے سر رکھ دوں ، ڈوب مروں ، زہر کھالوں ۔ پھر یہ ارادہ پختہ ہو گیا اور جس طرح میں گناہ اور طلاق کی کش مکش میں کیچلی جارہی تھی ، اب طلاق اور خود کشی کے دو پتھروں میں پینے لگی۔ دو تین دنوں بعد مجھے خاوند نے صاف کہ دیا کہ وہ دوسری شادی کرے گا۔ میں نے اس کی منت سماجت کی ۔ پہلے سال والی محبت کے واسطے دیئے۔ پھر میں نے اپنے آپ کو یہاں تک گرا دیا کہ اس کے پاؤں میں سر رکھ دیا۔ وہ پتھر بن چکا تھا لیکن میری منت سماجت اور واسطوں نے اسے ذرا سازم کر دیا۔

 میری امی ایک اور پیر کانام لے رہی تھیں۔ اس نے کہا ۔ میں انہیں کہوں گا کہ تمہیں وہاں سے جائیں ۔ اگر وہاں سے بھی مراد پوری نہ ہوئی تو پھر میں طلاق دینے پر مجبور ہو جاؤں گا میں اس پیر کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی ۔ میں نے خاوند سے کہا کہ میں اس کے پاس نہیں جاؤں گی ۔ خاوند نے فوراً کہا۔ پھر طلاق لے لو اور یہ بھی کہا۔ یہ تمہارا نہیں تمہاری تعلیم کا تصور ہے۔ تم ایف اےکر کے اپنے آپ کو معلوم نہیں کیا سمجھتی ہو۔

تم پیروں اور بزرگوں کی توہین کی سزا پا رہی ہو۔ اس نے یہ تو ٹھیک کہا تھا کہ میں پیروں اور بزرگوں کی تو ہین کرتی ہوں لیکن یہ صحیح نہیں تھا کہ میں ایف۔ اے کی ڈگری پر فخر کرتی تھی ۔ مجھ پر غموں کے ایسے پہاڑ آن پڑے تھے کہ مجھے یاد ہی نہیں رہ تھا کہ میں نے ایف۔ اے تک تعلیم پائی ہے۔ خاوند نے مجھے یاد دلایا تو اس کے ساتھ مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ میں نے قرآن بھی پڑھا تھا اور اس مقدس کتاب کو ایک خدا کا پیغام مانا کر تی تھی۔

میری آنکھوں کے سامنے ایک روشنی سی چمکی ہو۔ مجھے عقل نے راہ دکھائی اور میں نے خاوند سے کہا کہ میں اس پیر کے پاس جاؤں گی۔ میں اس پیر کا نام نہیں لوں گی۔ وہ خود تو اٹھارہ انیس سال گزر سے ایک حادثے میں مرگیا تھا لیکن اس کی گدی زندہ ہے۔ اگر اس کا نام سے بیٹھی تو شک عزت کا مقدمہ الگ بنے گا اور اس کے مرید آپ کی جان کو آجائیں گے ۔

 اتنا بتا دیتی ہوں کہ یہ پوٹھو ہار کے علاقے کا ایک گنام ساپر تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ہے اولاد عورتوں کو اولاد دینے والا مرشد” بن گیا اور وہ دور دور تک مشہور ہو گیا۔ اس کی زیادہ شہرت عورتوں کے دل میں تھی۔ میں اس پیر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ دو تین دنوں بعد میں اپنی ساس کے ساتھ ریل گاڑی سے اس سٹیشن پر اتری ہیں کے قریب پیر کی گڑی تھی ۔ سٹیشن سے پیدل پیر کے گھر پہنچے ۔ جناب پیر صاحب مریدوں کی محفل میں بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر ان پر وجد طاری ہو گیا ۔

 ساس نے آگے ہو کر ان کے پاؤں چھوٹے پھر مجھے بھی آگے کر کے ان کے پاؤں چھونے کو کہا۔ ساس اپنی مراد بیان کرنے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے ایک آدمی نے جو پیر کے جبرائم میں شریک تھا ، میری ساس کو کان میں کہا۔ یہاں نہیں۔ اس وقت حضور کسی اور حالت میں ہیں۔ لڑکی کو اندر بھیج دو حضور مرادیں وہیں سنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس آدمی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک درواز سے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کاکی جا ادھر اندر چلی جا۔

حضور کرم کریں گے ۔ اس دربار سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں گیا۔ میرا جسم بڑی زور سے کپکپا یا ۔ ساس نے مجھے اُٹھا دیا اور دھیمی آواز میں کہا ۔ جااندر چلی جا۔ حضور اندر آئیں تو پاؤں چھو کر بات کرنا میرا دماغ یکلخت خالی ہو گیا ۔ میں اس دروازے کے اندر چلی گئی۔ اندر پلنگ بچھا تھا اور اس پر قیمتی تکیے اور پینگ پوش تھا۔ کمرہ بہت سجا ہوا تھا۔ فورا ہی پیر صاحب کمرے میں آگئے اور دروازہ بند کر دیا ۔ اس پیر کی صحت قابل رشک تھی ۔

چہرہ خوبصورت اور لال سرخ – جسم توانا ۔ اس شخص کے چہرے اور جسم میں بڑی کشش تھی ۔ اس نے آتے ہی مخمور آواز میں کہا بچہ نہیں ہوتا ہے اور خود ہی جواب دیا۔۔۔ ہو جائے گا اور اس نے مجھے لیٹ جانے کو کہا ۔ میں نے کھڑے کھڑے اسے جواب دیا مجھے تعویذ چاہیے۔ میں یہاں لیٹنے کے لیے نہیں آئی ہوں وہ ہنس پڑا۔ اگر شیطان میرے سامنے ہے تو میں قسم کھا کر کہوں گی کہ شیطان اس پیر کی طرح ہنستا ہے۔ میں سنجیدہ ہو گئی۔

وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا۔ تعویذ بھی دوں گا اور بچہ بھی دوں گا اور اس نے ایک بازو میری کمر کے گرد لپیٹ کر مجھے پلنگ پر گرا دیا ۔ وہ تو ایک خوبصورت بھینسا تھا۔ اسے دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ جاہل عورتیں کیوں اس کی گرویدہ ہیں ۔ وہ مجھے بھی انہی عورتوں میں سے سمجھ رہا تھا۔ اس کے منہ سے سخت متعفن بدبو آ رہی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ شراب کی بد بو تھی یا چرس کی۔ مجھے پلنگ پر گہرا کر وہ پلنگ پر چڑھ آیا ۔

میں اچھل کر پینگ سے اٹھی اور اس سے تین چار قدیم دور ہٹ گئی۔ اس نے پیار سے مجھے اپنے پاس بلایا لیکن اسے بالکل علم نہیں تھا کہ میں اپ عورت نہیں رہی۔ اس نے کہا ایسا تعویز دوں گا جو معلوم نہیں وہ تعویز کی کونسی کرامات بیان کرنے لگا تھا کہ میں نے اس آتشیں قوت کے زور پر جو اچانک میرے اندر جھاگ اٹھی تھی، اسے بولنے نہ دیا، اور اسے کہامیں تھوکتی ہوں تیری صورت پر اور تیرے تعویز وں پر۔ اب میں اپنا تعویذ آزماؤں گی۔

میں گمراہ ہو گئی تھی۔ میں تجھے بتاؤں گی کہ تیرے تعویذ میں اثر ہے یا میرے قرآن میں۔ میرا قرآن برحق ہوا تو تجھ پر لعنت پڑے گی۔ اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ قرآن …. اور پاگل لڑکی اس نے قرآن کے نام پر طنز یہ قہقہ لگا یا اور پلنگ سے اُٹھنے لگا۔ میں تیزی سے کمرے سے نکلی اور مریدوں کے دربار سے تیز تیز چلتی باہر آگئی۔ میری ساس بھی باہر آگئی اور پوچھنے لگی ۔ حضور نے کیا کہا ہے ہے میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔

میر ے ہونٹ مل گئے تھے۔ زبان میں بولنے کی طاقت نہیں رہی تھی۔ میں شاید خود بھی وہ نہیں رہی تھی جو اس گناہ خانے میں داخل ہونے سے پہلے تھی۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں کیا بن گئی تھی۔ میرے سینے میں کوئی چیز داخل ہوگئی تھی ۔ ساس کچھ نہ کچھ بولتی رہی اور میں بالکل ہی چپ رہی ۔ دو تین بار اسے کوئی جواب دینے کی کوشش کی لیکن نہ دل نے ساتھ دیا نہ زبان نے۔ شام کے وقت ہم اپنے گھر پہنچیں۔

میں نے ساس سے کہا کہ اپنے گھر جارہی ہوں اور میں اپنے گھر آگئی ۔ ماں بے چاری بہت پریشان تھی۔ اسے دیکھ کر میری زبان زرا کھل گئی میں نے اس کو تسلی دی کہ جو بھی ہو گا بہتر ہو گا۔ میں رات اپنے گھر رہی۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ میں اس وقت تک سو نہیں سکی تھی۔ دماغ میں عجیب عجیب خیال آتے تھے اور ادھور ے ادھور ے نکل جاتے تھے۔ اپنی بد قسمتی پر رونا بھی آتا تھا اور میں یہ بھی سوچتی تھی

کہ چہار دیواری کی دنیا میں عورتوں کے ساتھ کیا کیا دھاندھلیاں ہوتی ہیں جن سے مجبور ہو کر عور تیں اپنی نجات کے راستے خود ڈھونڈنے لگتی ہیں ۔ ان کی ایسی زمین دوز حرکتیں چار دیواری کی دنیا کا ایسا بھید ہیں جنہیں خدا کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور مرد فخر سے گردنیں اکڑائے رکھتے ہیں۔ میں سو نہ سکی۔ گھر کے تمام افراد گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ میں نے غسل خانے میں جا کر ٹھنڈ ے پانی سے وضو کیا ۔ یہ سردیوں کی بات تھی۔

وضو کر کے الماری سے قرآن مجید نکالا اور چھت پر چلی گئی۔ یخ ہوا چل رہی تھی۔ میں نے قرآن فصیل پر رکھا اور ننگی چھت پر دو نفل پڑھے ۔ اس دوران میں اتنی زیادہ روئی کہ میں اچھی طرح پڑھ بھی نہ سکی۔ نقل پڑھ کر میں نے کوئی دعا نہ کی ۔ قرآن ہاتھ میں لے کر کھڑی ہو کہا اللہ مجھے معاف کرے ، میں نے خدا سے مخاطب ہو کر کہا۔ اگر تیری ذات کا وجود ہے اور ا گر تیری یہ کتاب برحق ہے تو مجھے اپنا آپ دکھا ۔

مجھے اپنی کتاب کا کہ شمہ دکھا۔ ورنہ اسے میں لفظوں کا پلندہ سمجھوں گی اور ساری عمر تیرا نام نہیں لوں گی اللہ مجھے معاف کر سے، پھر میں کھڑے کھڑسے اتنا روئی کہ اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ میں نے قرآن مجید کو سینے سے لگا لیا اور میں روتی ہی رہیں۔ پھر معلوم نہیں میں کتنی دیر روتی رہی اور کب نیچے اتری ۔ جب امی نے جگایا تو سورج نکل آیا تھا۔ سب سے پہلی بات جو میرے ذہن میں آئی وہ رات کا واقعہ تھا۔

مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ خواب تھا ۔ ڈر بھی آرہا تھا اور مجھ میں دلیری بھی آگئی تھی۔ اس کیفیت میں ایک ارادہ دل سے اٹھا کہ قرآن پڑھوں۔ میں ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر قرآن پڑھنے بیٹھی تو تین سیپارے پڑھ ڈالے۔ میں ایسے محسوس کر رہی تھی جیسے میرا دماغ روشن ہو گیا ہو اور مجھے کوئی پناہ ضرور مل جائے گی۔ میں نے اپنے خاوند کے نام ایک خط لکھا ، جس میں پہلی رات سے گزشتہ رات تک کی داستان لکھی اور آخر میں لکھا کہ مجھے فور اطلاق دے دو۔ پورا حق مہر وصول کروں گی۔ ماہوار خرچ تمہیں معاف کرتی ہوں۔

 میں تمہاری محتاج نہیں رہنا چاہتی۔ اب میں تمہارے گھر نہیں آؤں گی۔ میری ہو چیزیں تمہارے گھر میں ہیں بھیج دو تو اچھا ہے، نہیں تو دوسری بیوی کو دے دینا۔ بھائی کالج سے آئے تو میں نے چھوٹے بھائی کو یہ خطہ بند کر کے دیا اور اسے کہا کہ میرے سسرال والوں کے گھر پھینک آئے۔ میں نے جب اتنی اور ابا کو بتایا کہ میں نے کیا لکھا ہے توان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ جو ہوگا بالکل ٹھیک ہوگا۔

میں نے انہیں یہ بھی کہا اگر میراخدا سچا ہے تو ہماری مدد کرے گا یہ الفاظ کہتے ہوئے میں نے یہ دیکھا کہ جس طرح پہلے طلاق کا نام سن کر میں کانپ جاتی تھی اب مجھ میں دلیری آگئی اور غیبی قوت تھی جو مجھے اندر ہی اندر یقین دلا رہی تھی کہ اللہ سب ٹھیک کرے گا۔ آٹھ دس دن بعد میرا اطلاق نامہ آگیا۔ اس کے ساتھ تین ہزار روپیہ بھی آگیا اور میرے کپڑوں کا ٹرنک بھی آگیا۔ البتہ زیورکی دو تین چیزیں وہ لوگ ہضم کر گئے ۔

میں نے امی اور ابا جان سے کہا کہ رہنے دو۔ ان بے چاروں کو زیور کا نہیں میرا غم کھائے جا رہا تھا۔ انہیں یہی خطرہ تھا کہ میری دوسری شادی نہیں ہو سکے گی کیونکہ میں تقوی ہر کا پودا ہوں ۔ لیکن مجھے اب کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارا وہی پڑوسی جو اپنی بیوی سے نالاں رہتا تھا اور جس کے ساتھ میں بھٹک، چلی تھی ، میری نجات کا سبب بن گیا۔ میر ے طلاق نامے کے تھوڑے ہی دن بعد اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔

 پتہ چلا تھا کہ اس کی بیوی میں کوئی دماغی نقص تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ماں بد طینت عورت تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو ہی ایک سبق دیتی تھی کہ خاوند سے پیسے بٹور کر لے آیا کرو ۔ اور وہ ایسے ہی کرتی تھی ۔ یہ بھی سنا تھا کہ اس میں شرم اور عزت کا بھی پاس نہیں تھا۔ میکے میں وہ بد نام بھی تھی۔ ایک روز میں اپنی چھت پر کھڑی تھی ۔ میرا پڑوسی اپنی چھت پر چڑھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں مسکرا دیے ۔

وہ ذرا قریب آگیا اور تفصیل سے ذرا پر سے رک کر بولا ” میری بھی چھٹی ہو گئی ہے۔ میں نے جواب دیا۔ موج کرو اس نے کہا۔ اکیلے اکیلے خاک موج ہوتی ہے۔ اور میں نے اس کی آنکھوں کی زبان سمجھ لی۔ اسی روز امی سے کہا کہ اس آدمی سے رشتے کی بات کر دو۔ امی نے ابا میان کو کہا اور دو چار پھیروں میں بات طے ہو گئی۔ طلاق کے چوتھے مہینے نہایت خاموشی سے ہماری شادی ہو گئی۔ مجھے اور میرے ماں باپ کو اب یہی ڈر تھا کہ اب کیا ہو گا ہے لیکن خدا نے اپنے نام کی اور اپنے پاک کلام کی لاج رکھ لی۔

تیسرے مہینے میں نے امی کی پریشانی دھو ڈالی اور شادی کے دوسرے سال کے آغا ز میں ہی خدا نے مجھے یہ بچہ عطا کیا جس کی انٹار ہویں سالگرہ ابھی ابھی سنا کہ دل کا غبار کا منہ پر گھنے بیٹھ گئی ہوں۔ پھر خدا نے مجھے دور اور بیٹے دیئے۔ اب اس پیر کا انجام کیسے جو بے اولاد عورتوں کو اولاد عطا کیا کرتا تھا۔ اس نے میرے منہ سے قرآن کا نام سن کر خانہ یہ قہقہ لگا یا تھا۔

میرے پہلے بچے کی پیدائش سے پانچ مہینے پہلے یہ پیر ایک بس میں کہیں جا رہا تھا کہ میں گو جر خان اور جہلم کے درمیان بے قابو ہو کر سڑک سے ہٹ گئی اور اسی رفتار سے ایک مضبوط درست سے ٹکرا گئی۔ اس میں چھتیس سواریاں مرگئیں جن میں یہ پیر اور اس کے منتقد دمر یہ بھی تھے۔ لوگ بتاتے تھے کہ نکہ اتنی شدید تھی کہ بس کا انجن بس کے دور اندر تک چلا گیا تھلہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مسافروں کی لاشوں کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ میرے پہلے خاوند نے دوسری شادی کر لی تھی اور وہ آج تک بے اولاد ہے

 

Facebook
Pinterest
WhatsApp
error: Content is protected !!