Bad Bakhat Nazo Ki Kahani – A Heart-touching Urdu Story

Urdu story

Bad Bakhat Nazo Ki Kahani | Urdu Story

Are you looking for a deeply emotional Urdu story that touches your heart? This is the tale of Nazo, a girl who lost her mother and found herself facing the harsh realities of life. Her journey of pain, struggle, and survival will leave you emotional.

شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔ وہ اداس بیٹھی مستقبل کے تانے بانے بیٹھنے میں مصروف تھی ۔ اس کی ماں کو دنیا سے گئے ہوئے آج دسواں روز تھا۔ اب وہ خود کو اس بھری دنیا میں تنہا محسوس کر رہی تھی ۔ صرف وہی نہیں بلکہ اس کے باقی تین بہن بھائی بھی بے یار و مددگار ہو گئے تھے ۔ مامتا کی شفقت بھری چھا یہ اب اس کے سر پر نہیں تھی۔ اگر چہ باپ موجود تھا مگر نہ ہونے کے برابر۔ اسےاپنے بچوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔
نازیہ اسے نازی کہاں گم ہے تو ؟ چل اٹھ کر ہانڈی پکائے لے پکڑ سبزی بھی لے آیا ہوں ۔ کریم الدین نے سبزی والی تھیلی اس کے قریب چارپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ خاموشی سے تھیلی اٹھا کر چھپر والے باورچی خانے کی طرف بڑھی۔ ماں کی زندگی میں کبھی اس نے یہ کام نہیں کیاتھا۔
وہ کہتی تھی ۔ نازیہ تجھے بہت پڑھنا ہے ابھی تیری عمر نہیں کام کرنے کی بس تو جی لگا کر پڑھ ۔” انہی خیالوں میں اس نے سالن اور کھانا تیار کر لیا۔
چنگیر میں رونی سالن رکھ کر اس نے باپ کے سامنے رکھ دیا۔ ابھی ابا نے ایک نوالہ تو ڑ کر منہ میں رکھا ہی تھا کہ اس کے منہ کے زاویئے بگڑنے لگے۔ اس نے پانی کا گلاس غصے سے زمین پر پٹنا۔
یہ سالن پکایا ہے تو نے؟ اتنا نمک اور روٹیاں دیکھ سچی پکی اور موٹی موٹی میرا تو حلق دکھنے لگا ہے ۔ ” اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے سہم کر باپ کو دیکھا۔اور کہا میں نے پہلی بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس بکو اس نہ کر بہت زبان چلنے لگی ہے تیری کہا تھا تیری ماں کو رہنے دے پڑھائی لڑکی ذات ہے کام دھندے سے لگا مگر اس جاہل عورت نے میری ایک نہیں مانی ” کریم الدین کے غصیلے انداز سے گڈو پیو اور منی بھی سہم گئے تھے ۔ وہ بکتا جھکتا سونے کے لیے کمرے میں چلا گیا مگر نازی آنسو بہاتی رہی۔ اس نے منی گڈو اور پیو کو بیچ کر سینے سے لگایا۔ ابھی وہ صرف بارہ سال کی تھی لیکن اپنے
بہن بھائیوں کو ماں کی طرح چاہنے لگی تھی۔ ماں کے جانے سے اس کے نازک کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی۔
دن تیزی سے گزرتے چلے گئے ماں کا چہلم بھی ہو گیا، تاہم وقت نے اس میں سمجھداری پیدا کردی تھی ۔ آہستہ آہستہ وہ ہر کام میں طاق ہوگئی تھی لیکن ابا کی تیوریاں ہمیشہ چڑھی رہتی تھیں۔ وہ معمولی سی باتوں پر غصہ کرتا اور اکثر بچوں کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتا تھا۔ وہ بچوں کو بوجھ سمجھنے لگا تھا۔ نازی نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا مگر گڈو اور پیو گاؤں کے پرائمری اسکول میں جاتے تھے۔
منی ابھی ایک سال کی تھی وہ گھر کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سارا وقت منی کے ساتھ گزارتی۔ اس تھوڑے سے عرصے میں اس کی سوچ
میں پختگی آگئی تھی ۔ کم عمری میں پیش آنے والے حالات نے اسے خواہشات کو مارنا سکھا دیا تھا۔ بظاہر وہ بچی تھی مگر اپنی سنجیدہ باتوں سے سمجھدار عورت
کی طرح لگتی تھی ۔


Read More Heart Touching Urdu Stories

Reema Aur Daniyal | Urdu Romantic Stories For Elders Urdu Font
Dil Ki Dhadkan Romantic And Emotional Urdu Font story
Badkar Peer Ki Kahani Urdu Font Story


کریم الدین کراچی میں ڈرائیوری کرتا تھا۔ وہ دو ماہ گاؤں میں رہ کر واپس چلا گیا۔ ابا کے جانے کے بعد وہ بالکل اکیلی رہ جاتی مگر بھلا ہو کہ برابر میں اس کے تایا کا گھر تھا جو ان سب کو بہت چاہتے تھے۔ مختلف مزاج ہونے کے باعث اس کے تایا اور ابا کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ تایا ابا ہر کام میں تائی سے مشورہ لینے کے عادی تھے جبکہ کریم الدین ان کا مذاق اڑاتا اور انہیں زن مرید ہونے کا طعنہ دیتا تھا ۔ اس لیے قریب رہ کر بھی دلوں میں دوریاں تھیں لیکن یہ تایا کی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دونوں گھروں
کے درمیان ابھی دیوار گردا دی تھی جس پر نازیہ نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔ اب دونوں گھرانوں کا کھانا پینا تو الگ تھا مگر تائی نایا کی نگرانی سے اسے حوصلہل گیا
تھا۔
ابا کراچی جا کر بچوں کو بالکل بھول گیا تھا۔ گھر کے خرچے کے لیے جو پیسے بھیجتا تھا وہ بھی اس نے بند کر دیے تھے ۔ ان حالات میں تایا رحیم الدین اپنے پانچ بچوں کی کفالت کے ساتھ اپنے بھائی کے بچوں کا بوجھ بھی اٹھانے لگا تھا۔ تا با تو خوشی خوشی بھائی کے بچوں کو پال رہا تھا مگر تائی اگر چہ منہ ہے کچھ نہ کہتیں لیکن ان کی آنکھوں سے جھانکتی ناگواری نازی سے چھپی نہ رہ سکی تھی ۔ تائی ہے چاری بھی کیا کرتی ان کے اخراجات بھی تو کم نہیں تھے اور پھر آمدنی کا واحد ذریعہ بھی تو سائیکل ورکس کی معمولی سی دکان تھی جس کی آمدنی سے خودان کا گزارہ بمشکل ہو پاتا تھا لیکن تا یا ان سب کے باوجود اپنے فرائض نبھانے میں ہرگز کوتا ہی نہیں کرتا تھا۔ زندگی گھٹ گھٹ کر جیسے تیسے چل رہی تھی کہ چھ ماہ بعد ہی کریم الدین کی کراچی سے آمد اُن کی زندگی میں پھر سے زہر گھول گئی۔ وہ اپنے ہمراہ ایک عورت بھی لایا تھا۔
سلام کر یہ تیری ماں ہے ۔ کریم الدین نے منہ کھولے کھڑی نازی سے کہا۔
گہرا کالا بیرنگ، موٹے نقوش، معمولی سوٹ میں ملبوس، عجیب کرختگی لیے صورت والی عورت نہیں یہ اس کی یاں نہیں ہو سکتی۔ اس کی ماں تو بہت خوبصورت تھی، نازی اپنی ماں کا پر تو تھی۔ اس کے نازک لب کپکپائے۔
پ۔۔۔ پر۔۔۔ابا۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
زبان بند رکھے یہ ہی تیری ماں ہے اور اس کی
عزت کرنا ور نہ گھر سے نکال باہر کروں گا، سمجھی ؟ چل
سلام کرے
ابا کی گرج دار آواز سن کر تانی اپنے کمرے سے نکل کر جن میں آگئی تھی اور بولی۔ یہ کون ہے کریم
الدین؟
بیوی ہے میری میں نے شادی کر لی ہے اس کے ساتھ بھر جاتی اس گھر کو عورت کی ضرورت تھی جو
یہ ذمہ داریاں نبھا سکے ۔

ما شاء اللہ نازی سمجھدار ہے کریم الدین اور
پھر وہ اپنی سب ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہی ہے۔ اس عمر میں تجھے شادی کی ضرورت تو نہ تھی ؟“ تائی کو بھی یہ بات پسند نہیں آئی تھی ۔
بھر جائی نازی کتنی ہی سمجھدار ہو جائے پر ہے تو کم عمر کل کلاں کو اس کی شادی بھی تو کرنی ہے پھر گھر کون دیکھے گا ؟”
میرا خیال ہے تب تک گڈو اس قابل ہو جائے گا کہ اس کی شادی کر دی جائے ۔ “ تائی نے
طنزیہ لہجے میں کہا تو ابا دھاڑا ۔
بھر جائی یہ میرے گھر کا معاملہ ہے تم کو ضرورت نہیں اس معاملے میں بولنے کی ان بچوں کی
خاطر تو میں نے نکاح کیا ہے۔“
بس کر کریم الدین اگر تم کو ایسا ہی احساس ہوتا تو خرچ کیوں بند کرتا ؟ اپنی ذمہ داریاں ہم پر کیوں لا دتا ؟ سچ تو یہ ہے کہ تم کو شادی کا شوق تھا ورنہ اگر تمہارا ہی معاملہ تھا تو اپنی ان چار مصیبتوں کو بھی اپنا معاملہ سمجھتے نا کہ ہماری جان کا عذاب بناتے ۔” تائی نے غصے سے کہا تو کریم الدین کو جیسے آگ لگ گئی۔
مجھ پر احسان نہیں کیا’ نہ گراتے دیوار میرے بچے تو نہ سنبھالنا پڑتے ۔ بھر جائی میں نے کب تم سے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا ان کو سنبھال۔ نہ سنبھالتی واہ نیکی کر دریا میں ڈال اے بھائی میاں نہ سنبھالتی تو زمانہ باتیں بناتا احسان ماننے کی بجائے
تم تو گلے پڑ گئے ۔ کیسی شرافت ہے یہ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا نہ سنبھالتے تو مر گئے ہوتے یہ
زمانے کے خوف ہے تم نے بچوں کو سنبھالا ہمدردی کی وجہ سے نہیں۔ اگر مرتے تھے تو مرنے دیتے میری بھی جان چھوٹتی۔
تائی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ عورت بول اٹھی ۔ بڑی ہی چالاک عورت ہے تمہاری بھر جائی وہ احسان ہی کیا جو جتلایا جائے میں تو کہتی ہوں دیوار پھر سے اٹھوا دو ورنہ یہ خونخواہ ہمارا گھر خراب کرے گی ۔ اس کالی کلوٹی عورت کی بے باک زبان نے نازی کو دہلا کر رکھ دیا۔
ہاں نہاں دیکھ لوں گی تجھے بھی کیسے پالے گی تیموں کو جانے کس قماش کی عورت ہے؟ اللہ جانے بھاگ کر آئی ہے کہ بے نکاح ؟ تیری تو شکل سے ہی لگتا ہے کہ کسی بھنگی، چمار کی اولاد ہے۔ آئی بڑی ہوشیار لومڑی اٹھوا دے دیوار ہمیں بھی شوق نہیں ایسی نیکیوں کا جس کا کوئی ماننے والا بھی نہ ہو الٹا سر میں خاک پڑے تو بہ تو بہ پہلے ہی دن سے گز بھر کی زبان چل رہی ہے۔“
بھر جائی ! اپنا منہ بند کر لے ورنہ” ور نہ کیا ؟“ تائی نے چلا کر کہا۔
ور نہ تیری زبان نکال لوں گا ۔ ابا اچھا خاصہ بدلحاظ ہو گیا۔ وہ تائی کے منہ پر تھپڑ مارنے والا تھا کہ تایا آ گیا۔ اس نے کریم الدین کا بازو پکڑ لیا۔ واہ کریم الدین آج یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ تو نے اپنی ماں جیسی بھر جائی پر ہاتھ اٹھایا ہوا کیاہے؟
پھر تائی نے تایا کو ساری بات بتائی۔ تایا کو بھی ابا کے فیصلے سے اختلاف تھا مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگلے دن ہی دیوار پھر سے اٹھ گئی تھی اور یہ سب کروانے والی وہی کالی تسلیم بی بی تھی ۔ دُعائیں مانگتی
نازی کا دل بری طرح ٹوٹا تھا۔ وہ سوچنے لگی یہ عورت کتنی خبیث ہے جس نے آتے ہی ابا اور تایا میں رنجش پیدا کر دی تھی ۔
سخت سردی کی اس رات نازی اور اس کے چھوٹے بہن بھائیوں نے برآمدے میں ٹھٹھرتے ہوئے گزاری تھی ۔ گھر کے واحد کمرے میں ابا اپنی نئی بیوی کے ساتھ ایسے مزے سے سوئے تھے کہ اگلے دن دوپہر بارہ بجے تک کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے جبکہ اس کمرے کے آگے بنا بر آمدہ گڈو پیو منی اور نازی کا ٹھکا نہ تھا۔ کھلے برآمدے میں ٹھنڈی ہوا ساری رات اُن کے جسم میں چھید کرتی رہی۔ گڈو اور پوتو کچھ سمجھدار تھے مگر ایک سالہ منی سے سردی برداشت نہیں ہو پا رہی تھی ۔ اپنے میں نازی اسے اپنی بانہوں میں بھر کر پینے سے بھینچ کر اسے اپنے وجود کی گیری پہنچانے کی ناکام کوشش کرتی اور بمشکل پہلا پاتی۔ اب وہ اپنی معصوم بھی منی ہی بہن کو کیسے بتاتی کہ اس کمرے سے بے دخل کرنے میں ان کی سوتیلی ماں ہی نہیں بلکہ سگا باپ بھی شامل تھا۔ وہ باپ جو بظاہر بچوں کا خیال رکھنے کے لیے تعلیم بی بی کو بیاہ کر لایا تھا مگر ان ہی بچوں کے وجود سے یکسر
لا پروا تھا۔
گھر کا کام ابھی بھی نازی ہی کرتی تھی جبکہ سوتیلی ماں تمام دن اس پر حکم چلاتی رہتی تھی مگر ابا کے کام سے واپسی کے وقت وہ سر پر دوپٹہ باندھنے ہائے ہائے کرتی روٹیاں پکانے لگی او را با کولگتا کہ سارا

دن تسلیم بی بی کام کرتی ہے یہ دیکھ کر وہ نازی کو ڈانٹ دیتا جبکہ وہ اپنی بڑی بڑی سبز آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو رد کے خاموش نظروں سے باپ کو بس دیکھتی رہ جاتی، وہ باپ کو نہ بتا پاتی کہ سارا کام وہی کرتی ہے، تسلم بی بی تو اسے دکھانے کو کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔ وہ یہ باتیں صرف سوچ سکتی تھی اگر کہتی تو گھر سے نکال باہر کیا جاتا یوں بھی اب اس کے دل میں ابا کے ساتھ ساتھ تسلیم بی بی کا خوف بھی جگہ بناتا جارہا تھا۔
تسلیم بی بی کو آئے ہوئے دو ماہ ہو گئے تھے۔
اب تو اسے آرام کی عادت ہو گئی تھی، بس حکم چلاتی
رہتی۔
نازی میرے سر میں درد ہے چائے بنا دے۔ کبھی کہتی ۔ سر میں مالش کر دئے۔ دن کے کسی وقت بھی وہ نازی کو بیٹھنے نہ دیتی’ سب کاموں سے فارغ ہو کر اگر وہ تھوڑا سا ستانے کے. لیے لیتی تو وہ اسے جھڑک کر اٹھا دیتی۔
اٹھ سونے لگی ہے کام تیرا باپ کرے گا؟ چل میرے پاؤں داب ۔ آج تو بدن ٹوٹ رہا ہے۔“ اور وہ اپنی اوڑھنی درست کرتے ہوئے تسلیم ۔ بی بی کے پیر دا بنے لگتی۔ پیر دا بے دا بتے وہ نیند سے بے حال ہو جاتی ۔ نیند بھری آنکھوں کو بمشکل کھولے وہ تسلیم بی بی کی خدمت میں مصروف رہتی جبکہ تسلیم بی بی خراٹے بھر رہی ہوتی۔ جب کروٹ بدلتی تو نازیہ کو دیکھ کر ڈانٹ دیتی۔
ہتی کٹی ہے پر تیرے ہاتھوں میں دم نہیں ٹوٹے ہیں کیا؟ چل جا سو جا کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرتی ۔ نازیہ بے بسی سے اپنے دکھتے ہاتھوں کو رگڑتی جھلنگا سی چارپائی پہ منی کے پاس جا کر لیٹ جاتی۔

اُس دن گڈو اور پیو اسکول گئے ہوئے تھے۔ نازی گھر میں منی کے ساتھ اکیلی تھی۔ تسلیم بی بی محلے میں گئی ہوئی تھی ویسے بھی یہ اس کا من پسند مشغلہ تھا۔ جب تک وہ سارے محلے کے گھروں میں چغلیاں نے
کر لیتی اسے سکون نہیں ملتا تھا۔
نازیہ منی کو کپڑے پہنا رہی تھی کہ اس کے کانوں میں سبزی والے کی آواز آئی۔
چپل تو یہاں بیٹھ کر کھیل میں سبزی لے آؤں اماں تو پتہ نہیں، کہاں رہ گئی ہے ؟ نازیہ نے منی کو چار پائی پہ بٹھاتے ہوئے کہا اور کھلونے اس کے سامنے رکھ کر دروازے میں کھڑے ہو کر سبزی والے
کو آواز لگائی۔
اچا ۔ ازرارک سبزی دیتا جائے جو نہی وہ سبزی لے کر مڑی اس کی نظر برابر والے گھر سے نکلتی تعلیم بی بی پہ پڑی۔ اس کے چہرے پہ پھیلے ناگوار تاثرات کو دیکھ کر نازی اندر ہی اندر لرز کر رہ گئی جانتی تھی کہ اب اس کی خیر نہیں اور پھر یہی ہوا تھا، جیسے ہی وہ گھر پہنچی پیچھے ہی تسلیم بی بی بھی چلی آئی۔ اس کے ہاتھ سے سبزی والا شاپر چھین کر چار پائی پر پھینکا اور زور دار تھپڑ اس کے نازک رخسار پر جڑ دیا۔ بول … کیا کر رہی تھی تو با ہر ؟”
ماں اوہ سبزی میں سبزی لینے گئی
بکواس بند کر بیری لینے گئی تھی کہ آنکھ مٹکا کرنے؟ میں اچھی طرح سمجھتی ہوں تیری چالا کیوں
کو۔۔۔
نہیں ماں میں نے سوچا ہوسکتا ہے، کوئی اورسبزی والا نہ آئے تو میں شام کے لیے۔۔۔
کیا سمجھتی ہے تو مجھے بے وقوف بنائے گئی میں تیری باتوں میں نہیں آنے والی … تو میری آنکھوں

تیری :
میں دھول نہیں جھونک سکتی، تیرا باپ آئے گا تو دیکھنا ی کیسی درگت بنواتی ہوں؟ تیرے سارے کر توت بتاؤں گی کہہ دوں گی، تیری لاڈلی کی جوانی بے لگام ہوئے جا رہی ہے اس کا بیاہ کر دے۔ غضب خدا کا میں پڑوس میں ہی گئی تھی، مرتو نہ گئی تھی ؟ خود تیرا باپ دور پردیس میں بیٹھا ہے کل کلاں کو تو نے کوئی گل کھلا دیا تو دنیا والوں کی تھو تھو میرے حصے میں آئے گی ناں کیا جواب دوں گئی سوتیلی ماں ہی کہلواؤں گی ۔”
نازیہ چپ چاپ سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔ کیسے کیسے الزام لگ رہے تھے اس کی ذات پر وہ اپنی
صفائی بھی پیش نہیں کر پا رہی تھی ۔
اب رونا بند کر نحوست پھیلا رکھی ہے۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے جلدی سے کھانے کا انتظام کڑا ابھی کچھ دیر میں تیری ماں کی دوسری جیسی یا جوج ماجوج کی فوج بھی آنے والی ہے، خود تو مرگئی میری جان عذاب میں ڈال گئی ، تسلیم بی بی اسے جھنجھوڑ کر کمرے میں چل دی۔
زندگی روز بہ روز مشکل ہوتی جا رہی تھی اور وہ اب اس زندگی سے تنگ آچکی تھی۔ اس کا جی چاہتا اسے اس قید سے رہائی مل جائے۔ اگر وہ تنہا ہوتی کب کی جاچکی ہوتی مگر منی کا خیال آتا تو کلیجہ کٹ کر رہ جاتا۔ سوچتی، میرے بعد منی کا کیا ہوگا ؟ گڈو پروکسن حال میں رہیں گے؟ اماں کی روح تڑپ جائے گی۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی خاطر وہ سوتیلی ماں کا ہر ظلم برداشت کر رہی تھی لیکن کب تک؟ اس کی عمر اور سوچ پختہ نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ اس نے سوچے بنا بہت بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
اُس روز بھی معمولی سی بات پر اماں نے ہنگامہ
کھڑا کر دیا نہ صرف اسے ڈائنا بلکہ اسے دھنگ کر رکھ دیا۔ نازی کو پیٹنے کے بعد جب تعلیم بی بی محلے کے راؤنڈ پر نکلی تو نازی نے ایک اہم فیصلہ کر لیا۔ اس نے ایک تھیلی میں منی کے چند پرانے کپڑے ڈال کر اور ایک جوڑا اپنا رکھ کر منی کو سینے سے لگایا اور جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ یہ چھوٹا سا گھر جسے جنت بنانے کی کوشش میں اس کی ماں منوں مٹی تلے جا سوئی تھی۔ اُس کی ماں کو اپنی اولا د کو پڑھانے اچھے اچھے کپڑے پہنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے بڑے ہو کر کامیاب اور اچھے انسان بنیں مگر اس بچے بڑ۔ کے یہ خواب ادھورے رہ گئے۔ تمام تمناؤں کو دل میں لیے وہ ان کو چھوڑ کر چل بسی۔ ماں کو یاد کرتے ہوئے اس کے گال آنسوؤں سے بھیگ گئے پھر آنسو پونچھ کر وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ گڈو اور پراسکول گئے ہوئے تھے اُن کو خدا کے سپرد کر کے نازی نے الوداعی نظر اپنے گھر پر ڈالی اور باہر نکل آئی۔ تیز تیز قدم اٹھائی وہ آبادی سے کافی دور آ چکی تھی کہ ایک رکشہ اس کے قریب آرکا ۔ بی بی کہاں جانا ہے؟ رکشے والے کے سوال پر وہ چونکئی یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ جانا کہاں ہے؟ کچھ دیر یونہی سوچنے کے بعد اچانک اس کے ذہن میں اپنی پھوپھی کا خیال آیا جو دو تین گاؤں چھوڑ کر ۹۰ چک میں رہتی تھی ۔ دوپٹے کے پلو میں بندھا پچاس کا نوٹ کھول کر اس نے رکشے والے کی طرف بڑھایا۔
مجھے ۹۰ چک جاناہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ منی کو سنبھالتی ہوئی رکشے میں بیٹھ گئی۔
پھوپھی حمیدہ اس کی بڑی پھوپھو تھی یہ مزاج میں بالکل ابا پر گئی تھی ۔ ابا سے کسی بات پر خفا تھی اس لیے بہت کم اُن کے ہاں آتی جاتی تھی لیکن اس وقت نازیہ کو اس کے گھر کے علاوہ کوئی ٹھکانہ نظر

نہیں آیا۔ اس کا نھیال تو ویسے بھی لاہور میں تھا۔ اپنی دور کیسے جا پاتی ؟ جب اس کی اماں فوت ہوئی تھیں تو اس کے ننھیال والے آئے تھے اور بچوں کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن ابا نے جانے نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ان بچوں سے پیار کرتا تھا بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی شادی نازی کی چھوٹی خالہ سے ہو جائے مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ ابا کی فطرت کو اچھی طرح جان گئے تھے۔ اس نے پہلے ان کی بڑی بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا تو دوسری کا کیا حال کرتا ۔ اسی ضد میں ابا نے بچوں کو نتھیال جانے کی اجازت نہیں دی بلکہ ملنے جلنے سے بھی روک دیا۔
نوے چک آگیا ہے بی بی رکشے والے کی آواز پر وہ سوچوں سے باہر نکا ہر نکل آئی اور رکشے سے اتر کر پھوپھو کے گھر کی طرف بڑھ گئی۔ ماں کے مرنے کے بعد اُسی پھوپھی نے بچوں کو کچھ دن اپنے ساتھ رکھا تھا مگر جلد ہی اکتا کر واپس بھیج دیا تھا۔ اگر چہ نازی پھوپھو کے پاس آنا نہیں چاہتی تھی لیکن ایک امید تھی جس کے سہارے وہ یہاں تک چلی آئی تھی ۔ اس نے لکڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ پھوپھی کی بہو نے کھولا تھا۔
“…..!… Sit”
ہاں بھا بھی !”
خیر تو ہے ناں؟ اس نے کڑی نظروں سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور ہنوز دروازے میں
کھڑی رہی۔
بھا بھی خیر ہی ہے۔ اس نے مزید کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ پیچھے سے حمیدہ پھوپھی کی آواز آئی۔
کون ہے پروین دروازے پر ؟
چاچی ساتھ والے گاؤں سے نازی آئی
ہے۔ پروین ایک طرف ہٹ گئی تو وہ گھر میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی پھوپھی منہ بناتی ہوئی پاس آ
کھڑی ہوئی۔
کیلی آئی ہو؟” نہیں منی بھی ساتھ ہے۔”
آئے ہائے میرا مطلب ہے ابا یا اماں نہیں
آئے؟”
نہیں پھوپھوا با تو کراچی میں ہی میں اکیلی آئی ہوں ۔ پھر اس نے پھوپھی کو ڈرتے ڈرتے گھر چھوڑنے کے بارے میں بتایا تو پھوپھی نے اپنے گھور کے دیکھا البتہ منہ سے کچھ نہیں کہا اور خاموشی سے اٹھ کر کمرے میں چل دی۔ نازیہ کے لیے یہ بھی غنیمت تھا۔ پر دین بھابھی نے اسٹیل کے بدرنگ گلاس میں اسے پانی دیا جسے اس نے ایک سانس میں خالی کر دیا۔ اسے اب بھوک بھی لگ رہی تھی مگر مروت میں کچھ کہہ نہ کی۔ پروین نے اسے کھانے کا تو نہیں پوچھا بلکہ ایک کچے سے چھپر نما کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ تمہارا کمرہ ہے وہاں سو جانا۔
منی کو اٹھا کر جب وہ کمرے کی طرف جانے لگی تومنی نے کہا۔ باجی بھوک لگی ہے۔
اُس نے بے بسی کے عالم میں منی کا معصوم چہرہ دیکھا اور پھر نکے پہ برتن دھوتی پروین کے قریب گئی۔
بھا بھی دودھ ہوگا ؟ منی کو بھوک لگی ہے۔
پروین نے کٹوری پچھی اور بڑبڑاتی ہوئی چھوٹے سے کچن میں چلی گئی۔ اس ذلت پر نازی نے بمشکل آ تے آنسوؤں کو روکا اور دودھ کا کپ بھابھی کے ہاتھ سے لے کر چھپر کی طرف بڑھ گئی ۔
دوسری طرف تسلیم بی بی نے پورے گاؤں میں ڈھنڈیا مچائی ہوئی تھی۔ جب کہیں سے سراغ نہ ملا تو

سر پر کپڑا باندھ کر واد یلا کرنے لگی ۔ ہائے … میرے خدا اسی دن بھی دیکھنا تھا مجھے؟ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ اس چھوکری کے چھن اچھے نہیں یہ ضرور کسی دن بھاگ جائے گی بیڑہ غرق ہو چنڈالن کا دنیا تو مجھے ہی طعنے دے گی۔ نازی آگ ہر سے تیرے نصیبوں پر جنموں جلی میرے منہ پر
کا لک مل گئی۔”
اس کے قریب بیٹھے پیو اور گڈو سوچ رہے تھے کہ اماں کا منہ تو پہلے ہی کا لا ہے مزید کا لک کس نے مل دی جو اماں کو اتنا غصہ آرہا ہے؟ نازیہ کو کوسنے دیتے دیتے تسلیم بی بی کی نظر اُن دونوں پہ پڑی ۔ وہ کھول اٹھی۔ بازو سے پکڑ کر کھینچا اور لگی اُن کو پینے جانے کتنی دیر تک اُن کو یونہی پیٹتی رہتی کہ برابر والے گھر سے تائی آگئیں۔
چھوڑ ان کو کلموہی تیرے اس ظلم کی وجہ سے بچی گھر سے چلی گئی ہے ۔ ” نامی نے دونوں کو پیچ
کر پیچھے کیا تھا۔
نہ کیا مطلب ہے تیرا؟ کون سے ظلم ہوتے تھے اس پر ؟ وڈی آئی بڑی ہمدرد سنبھالتی
ناں پھر ان کو؟“
جو کچھ تو ان کے ساتھ کر رہی ہے وہی نازی
کے ساتھ کرتی تھی
میں کہتی ہوں اپنی زبان بند کر لے اور یہاں سے چلی جا۔ ہمارے معاملے میں بولنے کی اجازت کس نے دی ہے تجھے؟ کیوں آئی ہے یہاں؟ چلی جا۔ ورنہ چٹیا سے پکڑ کر نکال باہر کروں گی ۔
اتنی ہمت ہے تو مجھے ہاتھ لگا کے دکھا جا رہی ہوں میں مجھے بھی شوق نہیں خوانخواہ کی دردسری کا۔ وہ تو بے چارے معصوم بچوں کا خیال آتا ہے، تجھ سے تو خدا ہی پوچھے گا۔ تائی بلند آواز میں بولتی اپنے گھرچلی گئی تو وہ ایک بار پھر دونوں بچوں پر پل پڑی۔
تجھے اپنی ماں کا نمبر یاد ہے نازو؟ وہ صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی جب پھوپھی نے اُس سے پوچھا۔ وہ سہم گئی کہ کہیں پھوپھی اسے واپس جانے کا نہ کہہ دے حالانکہ یہاں بھی اسے نوکرانیوں . کی طرح ہی رہنا پڑ رہا تھا مگر تسلیم بی بی کے دوزخ سے کہیں بہتر تھا۔” ک… کیوں پھوپھو ؟میں اُسے اطلاع دے دوں کہ تو یہاں ہے۔ پریشان ہوتی رہے گی۔ خیر پریشان تو کیا ہونا ہے پورے گاؤں میں تماشہ بنا دے گی۔
پھوپھی نےجل کر کہا۔ وہ پریشان نہیں ہوگی پھوپھو وہ تو خوش ہو گی ۔مگر ہمیں تیری خاطر خود پر الزام تو نہیں لگوانا کیا خبر تو پہلے کہاں سے بھٹکتی ہوئی یہاں آئی ہے؟” ن نہیں میں اور کہیں نہیں گئی سیدھی آپ کے پاس آئی ہوں ۔ وہ رود دینے کوتھی۔ چل پنڈ کون سا دور ہے میں خود جا کر کہہ دوںگی ۔پر پھوپھو ! مجھے
وہاں نہیں جانا۔۔
وہاں نہیں جاتا دیکھ کیسے زبان چلاتی ہے اسی وجہ سے اس سے مار کھاتی ہوگی۔ تجھے کون واپس جانے کا کہہ رہا ہے؟ پھوپھو کے آخری جملے پر خوش ہو کر وہ انہیں نمبر بتانے لگی جو انہوں نے قریب بیٹھے اپنے بیٹے سکندر کو ملانے کے لیے کہا۔
ہیلو ہاں ہاں میں ہوں تیری نند حمیدہ 90 چک سے بول رہی ہوں۔ اچھا چل چھڈ مجھے پتہ ہے تجھے زیادہ مکر کرنے کی ضرورت نہیں، یہ بتانے کے لیے ہی فون کیا ہے کہ نازیہ ہمارے پاس ہے اور ہاں ایک بات اور سن، کریم الدین کا فون آئے تو اسے بتا دینا نا زیہ اب نہیں رہے گی، کہیں نہیں جائے گی۔ میں اس کا نکاح کردوں گی ۔ پھوپھی نے سکندر کو موبائل پکڑایا۔ پھوپھو کی باتوں سے نازی کی ڈھاریں بندھ گئی تھی۔
کیا کہتی تھی امی ؟ سکندر نے پوچھا۔ کہتی تھی کہ کریم الدین اعتراض کرے گا۔میں نے بھی اسے کہہ دیا میں کریم کی وڈی بہن ہوں۔ وہ میرے فیصلے پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں جہاں چاہوں گی نازی کا ویاہ کروں گی ۔اور پھر وہی ہوا جو پھوپھو نے چاہا تھا۔ ابا کو بہن کے فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن تسلیم بی بی چیں یہ چیں ہوئی تھی۔ آخر اس کے ہاتھوں سے مفت کی نوکرانی جو نکل گئی تھی۔
پھوپھو نے فورا ہی اس کا ویاہ اپنے شادی شدہ بیٹے سکندر سے کر دیا۔ اس فیصلے پر پروین روٹھ کر میکے جا بیٹھی ۔ پھوپھونے پوتے کی آس میں بیٹے کی دوسری شادی کی تھی۔ پروین کی پانچ لڑکیاں تھیں وہ کوئی لڑکا پیدا نہ کرسکی جبکہ پھوپھو کو ہوتا چاہیے تھا۔ پھوپھی نے اس جنون میں نازی اور سکندر کی عمروں کا فرق بھی بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ سکندر اس سے پورے اٹھارہ سال بڑا تھا۔
نازیہ کے پاس پھوپھی کی بات مان لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس نے اس خیال کے تحت یہ سب قبول کر لیا تھا کہ اسے اور منی کو تحفظ مل جائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے اس کے پاس رہے گی۔ یوں ایک سادہ سی شام کو پرانے کپڑوں میں اُس کا نکاح سکندر بخش سے ہو گیا۔ نہ ڈھولک بجی نہ سرخ ! جوڑا اُس کے تن پہ سجا اور نہ ہی مہندی سے ہاتھ سجے۔
کسی نے سر پر شفقت سے ہاتھ بھی نہ رکھا۔ وہ آ ماں کو یاد کر کے دُکھی ہو گئی تھی۔ نکاح کے اگلے روز بڑا ہنگامہ ہوا۔ تسلیم بی بی منی کو واپس لے جانے کی بات کر رہی تھی اور بین کر نازی کی روح تک کانپ گئی۔نہیں میں اپنی منی اپنی گڑیا کو واپس نہیں جانے دوں گی اس دوزخ میں نہیں، ہرگزلیکن پھوپھو کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔
یوں بھی منی کی خوراک یہاں کم تھی ۔ اس کی نشو و نما ہی نہیں ہو پا رہی تھی ۔ خود اس کا بھی یہی حال تھا لیکن اسے خود کی پروا کب تھی بادل نا خواستہ اس نے منی کو تیار کیا اور بری طرح روتے ہوئے اسے تسلیم بی بی کے ساتھ بھیج دیا۔وہ کتنے ہی دن مغموم رہی۔ اکثر رات کو سونے سے پہلے منی کو یاد کر کے چپکے چپکے روتی رہتی تھی۔
تسلیم بی بی منی کو لے تو آئی تھی مگر اُس کو بے کار سمجھ کر جیسے ایک طرف پھینک دیا تھا منی نازی کو یاد کر کے روتی تو وہ اسے اور مارتی ۔ گڈو اور پیو نی تھی بہن کو سینے سے لگائے پھرتے ۔ انہوں نے تو اسکول جانا بھی چھوڑ دیا، کہیں ہماری گڑیا کو وہ بلانگل نہ لےوقت اسی طرح گزر رہا تھا۔ منی اب چار سال کی ہوگئی تھی ۔ ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے گئی تھی۔
اس عمر میں بچے شرارتیں کرتے ہیں کھیلتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی نے اُس سے اُس کا بچپنا چھین لیا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں ہر وقت احساس محرومی اور خوف نمایاں رہتا۔ بھائی خود مار کھا لیتے لیکن اپنی گڑیا کو اپنی سوتیلی ماں کے سائے سے دور رکھتے تھے مگر ایسا کم ہی ہو پاتا۔ وہ منی کے جسم پر پڑے نیل اور آنکھوں کے نیچے لگی چوٹوں کے نشان دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتے اور سوچتے ۔ کاش نازی باجی نے منی کو اس کے ساتھ نہ آنے دیا ہوتا ۔ وہ کڑھتے
رہتے۔ منی بہت کمزور اور دھان پان سی تھی ۔ نازی نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ ہر وقت گھر کے کاموں اور پروین کی بچیوں کی جی حضوری میں لگی رہتی ۔ اگر اس سے ذراسی بھی دیر یا بھول ہو جاتی تو بری طرح روئی کی طرح دھنگ کر رکھ دی جاتی ۔ پھوپھو کو اس کے وجود سے نہیں بلکہ اس کے اندیر پلنے والے وجود سے غرض تھی ۔
وہ ماں بنے جا رہی تھی اور اب اپنے وجود سے ایک زندگی کو جنم دینے والی تھی ۔ پھوپھی اور سکندر خوش تو تھے لیکن ساتھ ہی لڑکے والی بات بھی ذہن نشین کرا دی گئی تھی۔ نازی نے بہت کوشش کی کہ پروین کی بچیاں اُس سے مانوس ہو جا ئیں مگر وہ تو اس کے سائے سے بھی دور بھاگتی تھیں ۔ اپنے گھر سے سرال تک اس کے حالات میں صرف اتنا فرق تھا ایک جہنم سے نکل کر وہ دوسرے جہنم میں آگئی تھی۔
وہ دن یہ دن کمزور ہوتی جارہی تھی حالانکہ اس حالت میں جبکہ وہ پہلی بار ماں بننے کے عمل سے گزر رہی تھی اس کی صحت کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا۔ اس نے بھی اپنی پروا کرنی چھوڑ دی تھی ۔ایک روز اچانک ہی اُس کی طبیعت بگڑی تھی فور ادائی کو بلایا گیا اور کچھ ہی دیر میں اُس نے پیاری کی بچی کو جنم دیا۔ بیٹی کی پیدائش پر گھر میں گو یا سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھوپھی نے طنزیہ جملوں کی بارش کر دی اور سکندر نے منہ موڑ لیا۔
دن پر دن گزرتے رہے سکندر کا مزاج بگڑتا جارہا تھا۔ بچی کی پیدائش نے اُسے چڑ چڑا کر دیا تھا پھر ایک دن کسی معمولی سی بات پر سکندر نے نازی کو طلاق دے دی۔ اُس کا گھروندہ بھر گیا وہ کتنی ہی دیر ساکت رہی، ہوش آنے پر اس کمرے میں چلی
آئی جو کبھی اُس کا ہوا کرتا تھا۔ اُس نے ایک تھیلے میں اپنے اور بیٹی نیناں کے چند کپڑے رکھے اور وہاں جانے کے لیے تیار ہونے لگی جس گھر کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ آئی تھی ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب اس کی گود میں منی نہیں نیناں تھی۔ صحن میں کھڑی پھوپھی نے اُسے دیکھ کر رخ پھیر لیا اور نازیہ نے سر جھکا کر دہلیز پار کر لی۔
جب وہ گھر پہنچی تو بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا وہ اندر چلی آئی۔ چھوٹے سے صحن میں پیو اور منی مٹی کے کھلونے بنا کر کھیل رہے تھے۔پپو
منی! اُس نے آواز دی تو دونوں خوش ہو کر اُس کی جانب دوڑے۔ با جی آگئی۔”نازیہ نے افسردگی سے پھٹے میلے کچیلے کپڑوں میں بے حال سے پپو اور منی کو دیکھا اور پیار کیا۔ اماں اور گڈو کہاں
ہیں۔
اُس کے پوچھنے پہ پپو بولا گڈو تو کام پر گیا ہے۔کام پر اس نے حیرانی سے پپو کو دیکھا۔ہاں باجی ! اماں نے اُسے شہر کے ور کشاپ میں ڈال دیا ہے وہ نہیں جاتا تھا تو اماں نے اسے مارا بھی اور پھونکنی مار کر اس کا سر بھی پھاڑ دیا تھا۔ وہ باہر بھاگ گیا، اُس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔
تو شبیر اعوان ہے ناں دکان والا اُس کے بھتیجوں نے اُس کی پٹی کروا کر اسے گھر چھوڑا تھا اور اماں تو اب رانی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی ہے۔رانی ….؟ کون رانی؟ نازی نے اچنبھے سے پوچھا اور ساتھ ہی گود میں سوئی نیناں کوچار پانی پہ لٹایا ۔ہماری نئی بہن ہے تمہیں نہیں پتہ ؟ ابا بھی آیا تھا۔ پھوپھونے کہا
تو اسے دکھ ہوا کہ ابا اس سے ملنےنہیں آیا۔“ابا واپس چلا گیا ہے کیا ؟”ہاں کل ہی گیا ہے۔ باجی پانی دوں؟”پپونے سمجھداری سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ پانی کا گلاس ابھی لبوں سے لگایا ہی تھا کہ تسلیم بی بی گھر میں داخل ہوئی۔السلام علیکم! اماں!”وعلیکم السلام ” تسلیم بی بی نے بے زارسا جواب دیا ۔ خیر تو ہے تو کیسے آگئی ؟
اماں امجھے سکندر نے بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں طلاق دے دی ہے۔۔۔ کیا؟ اس کا منہ کھل گیا۔ اصل وجہ کچھ اور ہوگی تیرے پچھن تو شروع سے ہی خراب تھے۔ خیر تو یہ گھر چھوڑ کر گئی تھی ناں تو پھر کیا لینے آئی ہے؟ اتنی غیرت والی تھی تو نہر میں ڈوب کر جان دے دیتی نازی خاموشی سے اماں کے طنز پی گئی اب ایسے ہی طنزا سے سننا تھے۔
اُس نے گھر کا نظام ایک بار پھر سنبھال لیا۔ تسلیم بی بی کو بھی فرصت مل گئی ۔ گھریلو جنجال سے آزاد ہو کر اس نے پرانی روش اختیار کر لی بلکہ اپنی بیٹی کی ذمہ داری بھی اس کے سر ڈال دی۔ ایک روز – وہ منی کے کپڑے بدلنے لگی تو اس کے جسم پر جگہ جگہ ۔پڑے نیل دیکھ کر حیران رہ گئی ۔
یہ کیا ہوا ہے منی ؟”میں گر گئی تھی باجی اس کے لہجے میں موجود خوف اور آنکھیں جھوٹ کی چغلی کھا رہی تھیں۔تم جھوٹ بول رہی ہو ناں ادھر دیکھو میری طرف تمہیں اماں مارتی تھیں ناں ۔نازی نے اس کا چہرہ اوپر کر کے کہا تو منی کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگےہاں باجی ! پتہ ہے نیو کو بھی اماں نے گرمچھٹے سے مارا تھا۔
کیا؟ نازیہ تڑپ گئی۔ اُس نے فور پپو کو بازو سے پکڑ کر سامنے کیا جو چار پائی پہ بیٹھا تھا۔ اس کی گردن پر جلنے کا نشان تھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے دونوں کو اپنی بانہوں میں بھرلیا۔میری جان! مجھے معاف کردو میں تم لوگوں کے لیے کچھ نہ کرسکی ۔ وہ تینوں سسک رہے تھے جبکہ آسمان اُن کی بے بسی پر خاموش تھا اور زمین اُنکے وجود کا بوجھ لیے کھڑی تھی۔
وقت تو بس گزرتا ہے اور گزرتا چلا جاتا ہے۔ انہی دنوں ابا کے رشتے کی بہن اپنے بیٹے کے لیے نازی کا رشتہ لینے چلی آئی۔ تسلیم بی بی تو راضی نہیں تھی مگر پھوپھی تاج بھی جونک کی طرح چمٹی تو رشتہ لے کر ٹلی۔ ابا نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔ نازیہ بے شمار خدشات کا شکار تھی، ایک تو اسے مستقبل کی فکر تھی تو دوسری طرف اس کے معصوم بہن بھائی تھے۔
جو پھر سے تسلیم بی بی کے رحم و کرم پہ ہوتے ۔ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ابا کے خوف سے انکار نہ کر سکی کیوں وہ طعن و تشنیع کے جہیز کے ہمراہ رخصت ہو کر اپنے دوسرے شوہر نعمان کے گھر آگئی۔نعمان خوبرو اور اس کا ہم عمر تھا۔ اس نے اور اس کے گھر والوں نے کھلے دل سے نیناں کو بھی قبول کر لیا تھا یوں تقدیر نے یکا یک اس پر خوشیوں کے در کھول دیئے تھے۔
اسے ہتھیلی کا چھالا بنالیا گیا تھا۔ وہ چند دنوں میں ہی اپنی محبتیں پا کر نہال ہی ہوگئی اور خدا کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی لیکن اسے معلوم نہ تھا یہوقتی خوشی ہے ابھی تقدیر نے ایک اور امتحان لینا ہے۔ اس بار جب وہ میکے گئی تو منی اور پو کو کچھ دنوں کے لیے اپنے پاس لے آئی۔
دونوں بہن بھائی مہینہ بھر اس کے ساتھ رہے پھر ابا اُن دونوں کو لینے آگیا کری تسلیم بی بی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ نازیہ نے دونوں بہن بھائی کو گلے لگایا اور خوب پیار کر کے ابا کے ساتھ رخصت کر دیا حالانکہ اس کا دل انجانے خوف اور واہے سے دھڑک رہا تھا۔ دونوں کو رخصت کرتے ہوئے اس کے لبوں پر یہی دُعا تھی۔
یا اللہ! تو میرے بہن بھائیوں کی حفاظت فرمااُس رات وہ سونے کے لیے لیٹی تو منی کی یاد نے اسے بے چین رکھا تب ہی اس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی گڑیا رانی کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس لے آئے گی بلکہ اُس نے نعمان سے بھی کہا تھا جسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ یہ فیصلہ کر کے وہ مطمئن ہو کر سو گئی مگر تھوڑی دیر بعد ہی چیخ مار کر اٹھ بیٹھی ۔ نعمان گھبراکر اس کے پاس چلا آیا۔کیا ہوا نازی؟ اس نے سہمی ہوئی نازی سےپوچھا تو وہ رو پڑی۔
نعمان میری منی میری گڑیاخدا کے لیے اسے بچائو وہ مار ڈالے گی اسے وہ ڈائن ہے۔ وہ سسک اٹھی ۔ نعمان اُسے بانہوں میں بھر کراسے تسلی دینے لگا۔کچھ نہیں ہو گا ناں تم نے خواب دیکھا ہے ہم منی کو لے آئیں گے۔ پریشان مت ہو ۔ اسے کچھ تسلی ہوئی تو خاموش ہوگئی۔ نعمان بھی سونے کے لیے لیٹ گیا اور وہ تمام رات جاگ کر اپنی بہن کے لیے دُعائیں مانگتی رہی۔
اگلی صبح نازی جاگی تو اُس کا دل گھبرا رہا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ رات کو اُس نے خواب بھی تو بہت برا دیکھا تھا۔ وہ دُعائیں مانگتی ہوئی کام
نمٹا رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ اس کے لیے اذیت ہن کر گزر رہا تھا۔ انجانا سا خوف اُس کے اندر سرایت کر گیا تھا۔ ساس نے نازی کے چہرے کو دیکھا تو اسے آرام کرنے کا کہہ کر خود باقی کے کام نمٹانےلگی۔سہ پہر تین بجے اس کا موبائل بج اٹھا۔ اس کا دل واہموں اور اندیشوں میں بھر گیاہیلو کون؟ ہمشکل اس کے منہ سے نکلا ۔
نازی ہماری منی مرگئی۔ دوسری طرف سے ابا کی بین کرتی آواز آئی ۔ اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا۔ وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔نہیں ۔ میری منی میری گڑیا رانی نہیں مر سکتی۔ ابا جھوٹ بولتا ہے۔اس کے رونے کی آواز سن کر پھوپھی تاج دوڑی دوڑی آئیں۔ نازی، پھوپھی کے گلے لگ کر مچل اٹھی۔ پھوپھی ! میری گڑیا اس دنیا میں نہیں رہی ۔
میں مر جاؤں گی پھوپھی ! اسے کہوناں پھوپھی ! ایسا نہ کرے۔ ابا سے کہو ایک بار کہ دے یہ جھوٹ ہے ۔ وہ صدمے سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہو گئی ہوش آیا تو پھر سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔دو نہیں جھوٹ ہے میری منی نہیں مر سکتی مگر یہ سچ تھا۔ منی مری نہیں تھی، اسے قتل کیا گیا تھا اور اُسے مارنے والی کوئی اور نہیں، تسلیم بی بی تھی
لیکن اس نے اقرار نہیں کیا۔ پورے گاؤں میں ایک کہرام سا بر پا تھا۔ منی کی نا گفتہ بہ لاش گاؤں کے چوہدریوں نمبرداروں اور ملکوں سے انصاف مانگ رہی تھی۔اُس روز منی کو بہت تیز بخار تھا۔ گڈو اور پیودونوں کام پر ورکشاپ گئے ہوئے تھے۔ بیمار ہونے کے باوجود سنی نے گھر کے تمام کام کیے تھے۔ وہ ابھی لیٹی ہی تھی کہ تسلیم بی بی نے اُسے دوبارہ چائے بنانے کا کہا۔
بیماری نے آٹھ سالہ منی کو کمزور کر دیا تھا۔ اس نے چار پائی سے اٹھنا چاہا مگر نیچے گرگئی ۔ حکم عدولی پر تعلیم بی بی کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا۔ اُس نے دروازے کی کنڈی چڑھائی اور منی کو گھسیٹتی ہوئی گھر کے واحد کمرے میں لے گئی۔ بھری دو پہر کا وقت تھا، گلیاں سنسان تھیں جبکہ گھر میں اس کی دو سالہ بیٹی رانی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
وہ سورہی تھی ۔ اسے اپنا کام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔مکر کرتی ہے کام سے جان چھڑاتی ہے میرے حکم کو نہیں مانتی دیکھنا آج میں تیرا وہ حشر کروں گی تو یاد رکھے گی تو روئے گی تڑپے کی مگر میں تجھ پر رحم نہیں کروں گی ۔ تسلیم بی بی نے تیز دھار چھری اُس کی آنکھوں کے سامنے نچائی۔ خاموش تجھے ذبح کردوں گی آواز –
نہ نکلے خوف سے منی کی چیخ حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی ۔ وہ اس سفاک عورت کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑنے لگی۔مجھے مت مارو اماں ! میں نہیں روؤں گی میں تیری ہر بات مانوں گی .. اللہ کا واسط مجھے چھوڑ دو مگر اس ظالم پر ان التجاؤں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھری منی کے سر میں گھونپ دی۔
خون کی گرم دھار تیزی سے نکلی اور معصوم تڑپنے لگی اور آن کی آن میں ٹھنڈی ہوگئی پھر اسے ٹھکانے لگانے کا سوچا۔ جلدی جلدی اپنے اور اُس کے خون آلود کپڑے اتار کر صاف کپڑے پہن لیے اور اُسے بھی پہنا
دیئے۔ زمین پر سے خون اچھی طرح صاف کر کے چھری اور خون آلود کپڑے اپنے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں چھپا دیے۔ منی کے جسم میں ایک بھی قطرہ خون کا نہ تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ قدرت اس کا راز افشا کر دے گی ۔ اس کی بیٹی نے یہ سب دیکھ لیا تھا لیکن خوف اور دہشت سے چپ تھی ۔ اس نے منی کے قتل کو حادثاتی موت قرار دیا۔
کبھی کہتی غسل خانے سے گر گئی اور کبھی کہتی، سیڑھیوں سے منی کی لاش پنچائیت کے سرپنچوں کے منہ پر طمانچہ تھی وہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس گھر میں بچوں کے ساتھ کیا انسانیت سوز ظلم ہورہا ہے اس باوجود وہ خاموش تماشائی بنے رہےکس لیے ؟ صرف اس لیے کہ ان کا کسی معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اگر تعلق نہیں تھا تو پھر یہ انصاف کے علمبردار کیوں بنے ہوئے تھے؟ گاؤں کے بااثر لوگوں نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ پولیس تفتیش کے لیے آئی تو تسلیم بی بی کی بیٹی رانی نے آنکھوں دیکھا سچ بتا دیا ۔ جانے اس ننھی سی جان میں اتنی ہمت کیسے آگئی کہ جو اب تک ڈری ڈری سی خاموش تھی،
اچانک بول پڑی مگر اس کا سگا باپ ماں کا پاپ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ منی کو تسلیم بی بی نے قتل کیا ہے۔ پولیس نے تسلیم بی بی کو گرفتار کر لیا پھر جب تھانے لے جا کر پولیس نے اپنے انداز میں پوچھا تو تسلیم بی بی نے اقبال جرم کر لیااور اسے عمر قید کی سزا ہوئی لیکن ابھی ایک عدالت باقی ہے جہاں انصاف ہوتا ہے اور جو جتنا ظلم کرتا ہے وہاں اسے اتنی ہی سزا ملتی ہے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نازی کو بھی صبر آ گیا ہے مگر جب کبھی منی کی یاد شدت سے آتی ہے تو وہ تڑپ اٹھتی ہے۔

Updated: February 6, 2025 — 2:50 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *