This Urdu Story begins with a simple household moment when Shakeela is busy in the kitchen, Urdu Kahani Start suddenly, her phone starts ringing.

اردو سٹوری آف شکیلہ اینڈ بوائے ٖفرینڈ

میں کچن میں کھانا تیار کر رہی تھی کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ میں لپک کر کمرے میں گئی اور موبائل فون اٹھا کر دیکھا اختر کی کال تھی۔ میں نے دھڑکتے دل سے بٹن دبایا۔ “کیا بات ہے شکیلہ صاحبہ بہت مصروف ہو؟” اس کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ “تمہیں کیسے معلوم کہ میں مصروف ہوںمیں نے پوچھا۔ “کال دیر سے اٹینڈ کرنا ہی مصروفیت کو ظاہر کر دیتا ہے
اختر نے ہنستے ہوئے کہا۔ “میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی اور موبائل کمرے میں تھا اس لیے موبائل تک پہنچنے میں دیر ہوئی۔” میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ “ارے بھئی تم اتنی سنجیدہ کیوں ہو جاتی ہو؟ ٹھیک ہے ہوگئی دیر بات کرنے میں اس میں وضاحت دینے کی ضرورت کیا ہے؟” اختر نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ “خیریت ہے نا اس وقت کیسے یاد کر لیا؟” میں نے کہا۔
“خیریت ہی نہیں ہے جب سے تمہیں دیکھا ہے میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے دن کا چین چھن گیا ہے ہر وقت تم سے ملنے کو دل تو پتا ہے دل چاہتا ہے میرے پر لگ جائیں اور اڑ کر تمہارے پاس آجاؤں۔” اختر نے کہا۔ “کہیں تم شاعری تو نہیں کرنے لگے؟” میں نے اسے چھیڑا۔ کیوں کیا شاعر لوگ اچھے نہیں ہوتے میں نے کب کہا شاعر برے ہوتے ہیں؟
بس لا پر وا قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کام دھندے کی انہیں پروا نہیں ہوتی ہر وقت اپنے محبوب کی تعریف میں غزل کہتے رہتے ہیں۔ بچے چاہے بھوک سےبلک رہے ہوں، گھر میں کھانے کو دانہ نہ ہو لیکن ان کے سر پر جوں نہیں رینگتی۔ ہر وقت شاعری میں ڈوبے رہتے ہیں۔ میں نے کہا۔کچھ میری طرح باذوق بھی ہوتے ہیں اختر جھکتے ہوئے بولا۔ وہ کون ہوتے ہیں وہ ہی شاعر جو شراب میں ڈوبے ہوتے ہیںاختر نے کہا۔ “اچھا کیا تم شراب بھی پیتے ہو؟ میں حیرانی سے بولی۔
“شراب پینے میں کیا برائی ہے؟ آج کل تو اس کا فیشن ہے، تھوڑی بہت پی لی جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔” “مجھے شرابی پسند نہیں ہے۔” میں نے غصے سے کہا۔ “میری تو بہ آج کے بعد پھر کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ اختر نے گھبراتے ہوئے کہا۔کیا واقعی تم میرے کہنے پر شراب چھوڑ دو گے؟ میں نے پوچھا۔ ہاں ہاں، تمہاری خاطر میں وہ سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں جو تمہیں پسند نہ ہو۔اختر نے کہا۔ “اختر، مجھے تم سے یہی امید تھی۔
مجھے شرابیوں سے سخت نفرت ہے، تم شراب نوشی ترک کر دو گے تو ہماری یہ دوستی چلتی رہے گی۔میں نے کہا۔ویسے ایک بات بتاؤں کہ میں شراب نہیں پیتا، تم سے مذاق کر رہا تھا۔ہاں مجھے بھی پتا ہے تمہاری مذاق کرنے کی عادت ہے۔” میں مسکرائی۔شکر ہے تمہیں یہ بات پتا ہے ورنہ میں سمجھ رہا تھا کہ موصوفہ مجھ سے ناراض ہو کر بات چیت بند کر دیں گی۔
اختر نے کہا۔اچھا بتاؤ تم نے اس وقت کیسے فون کیا ہے؟ مجھے کھانا بھی تیار کرنا ہے۔“ میں نے سوچا تھا، یہ بات تمہیں ابھی نہیں بتاؤں گا لیکن اپنی اچھی خبر ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکا اور تمہیں بتانے کو بے چین ہو گیا۔ اختر نے کہا۔ کیا کوئی خاص خبر ہے؟” ہاں میں کراچی آ رہا ہوں کام کرنے ابا جان مان گئے ہیں۔ اب ہماری ملاقات میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی ۔
اختر نے کہا۔ کراچی میں تم کیا کام کرو گے؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی کراچی آ رہا ہے۔ بھئی پہلے میں نے سوچا تھا کہ چاہے کیسی بھی مزدوری مل جائے، میں بغیر شرم کیے کرلوں گا لیکن دیکھو قسمت کہ میرے بچپن کا دوست جوا دل گیا وہ کراچی کی ایک کمپنی میں سیلز مین کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔
اسے جب میری کراچی میں کام کرنے کی خواہش کا علم ہوا تو کمپنی میں میری نوکری کی بات کر لی اور تمہارے علاقے میں ہی سیلز مین کی حیثیت سے میری ڈیوٹی لگی ہے۔ اب میں جب چاہوں گا تم سے ملنے چلا آؤں گا۔ اختر نے چہکتے ہوئے بتایا۔ جب چاہے نہیں، جب میں بلاؤں کیونکہ گھر میں میرا شوہر علیم بھی ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ اده سوری واقعی میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تمہارا ایک عدد شوہر بھی ہے؟ اختر نے جھینپتے ہوئے کہا۔ اختر سے میری موبائل دوستی کو ایک سال ہو گیا تھا۔

 

Read More Urdu Stoy Best Urdu Stories

nazo ki kahani a heart touching urdu story/
 
 
 


شروع میں ہم دونوں بڑے محتاط انداز میں بات کیا کرتے تھے کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ ہم دونوں مختلف موضوعات پر طویل گفتگوکرتے تھے۔ یہ ٹیلی فونک دوستی کی وجہ بھی میرے شوہر کی مصروفیت تھی۔ میرا شوہر کلیم موٹر سائیکل کا مستری تھا۔ وہ صبح 9 بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات گئے ہی لوٹتا تھا۔ میری شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے اور میں اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی۔ گھر میں اکیلا رہنے کی عادت نہیں تھی۔ شوہر کے جانے پر گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔
کتابوں اور ٹی وی سے دل لگانے کی کوشش بہت کرتی تھی لیکن میں کامیاب نہیں ہوتی تھی۔ ایسے میں ایک دن اختر کی کال میرے موبائل پر آگئی۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس سے دوستی کر بیٹھی۔ اختر کے ساتھ چھ ماہ تک باتوں کا سلسلہ چلتا رہا لیکن کبھی ملاقات نہیں کی۔ ایک دن اختر کا فون آیا تو اس نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ شکیلہ، ہماری دوستی کو چھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن ہم نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک بار مل لیں؟ “
ارے ہاں، بھی ہمارا دھیان اس طرف گیا ہی نہیں، بن دیکھے ہی دوستی چل رہی ہے۔ میں نے کہا۔ پھر تمہارا کیا خیال ہے ملاقات کے بارے میں؟ ” اس نے پوچھا۔ ” تم جب بھی کراچی آؤ مجھ سے موبائل پر بات کر لینا پھر ملاقات کا وقت طے کرلیں گے۔” میں نے کہا تھا۔ اس اتوار کو میرے دوست اسماعیل کی شادی ہے اور برات کراچی آئے گی۔
میں شادی سے فارغ ہو کر تم سے رابطہ کرلوں گا۔ ” ٹھیک ہے تم۔ اتوار کے دن میں تیار تھی اور میں نے سوچ لیا تھا کہ اختر سے اپنی سہیلی رضوانہ کے گھر پر ملاقات کر لوں گی۔ رضوانہ نے ہماری ملاقات کرانے کی غرض سے اپنے بچوں کو صبح ہی صبح نانا کے گھر بھیج دیا تھا یوں۔ہم دونوں کی ملاقات کا منصوبہ تیار تھا۔ اتوار کی صبح اختر کی کال آگئی اور میں نے رضوانہ کے گھر کا پتا بتا دیا۔

میں وقت مقررہ پر گھر کو تالا لگا کر رضوانہ کے گھر پہنچ گئی۔ کچھ دیر میں اختر کی کال آگئی۔ “میں گھر کے باہر کھڑا ہوں۔” “یا ہر کیوں کھڑے ہو، اندر آجاؤ۔” میں نے کہا۔ “کہیں جو تے نہ پڑوا دینا کہ بغیر اجازت کیسے گھر میں داخل ہو گئے؟” اختر نے کہا۔ “ارے ایسی کوئی بات نہیں۔ اچھا میں خود دروازے پر آتی ہوں۔” میں دروازے پر گئی جہاں ایک خوبرو نوجوان کھڑا تھا، شکل و صورت بھی ایسی تھی کہ دیکھتے ہی دل آ جائے۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرایا۔ “باہر کیوں کھڑے ہو، اندر آ جاؤ۔”
میں نے شرماتے ہوئے کہا۔ “اندر آنے کو راستہ ملے گا تو ضرور آؤں گا۔” وہ مسکرایا۔ “اوہ سوری، میں ایک طرف ہٹ گئی اور وہ گھر میں داخل ہو گیا۔” منصوبے کے تحت رضوانہ نے ایک کمرے میں ہمیں بٹھا کر باہر سے کنڈی لگا دی۔ دروازے پر کنڈی لگنے سے اختر گھبراتے ہوئے بولا۔ “ج ح خیریت ہے نا، کوئی خطرناک ارادہ تو نہیں؟”
“تمہارا کیا خیال ہے، اس وقت تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟” میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ “اگر یہ گاؤں ہوتا تو نہیں کاروکاری کیا جا سکتا تھا لیکن یہ شہر ہے، لہذا کچھ اور گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔ پولیس کے حوالے کیا جا سکتا ہے، کوئی جھوٹا مقدمہ بھی ہو سکتا ہے۔” اختر نے کہا۔ “فی الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہمیں تنہائی میں ملاقات کا موقع فراہم کیا گیا ہے اور بس۔” میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
پھر ٹھیک ہے۔ اختر بھی جو ابا ہنس دیا۔ اختر اور میں ایک گھنٹے تک باتیں کرتے رہے۔ اختر نے مجھے سے کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہیں کی تھی اور نہ تنہائی کا کوئی فائدہ اٹھایا۔ وہ تہذیب کے دائرے میں باتیں کرتا رہا۔ اچانک اس کی نظر گھڑی پر پڑی تو وہ چونکا۔ “ادہ مجھے یہاں آئے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا میں اب چلتا ہوں، شادی میں میرا دوست انتظار کر رہا ہوگا ۔” اختر نے کہا۔ “بس اتنی دیر کے لیے آئے تھے ؟” “ہم پھر ملتے رہیں گے ۔” اختر نے کہا۔ “ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ۔”
میں نے کہا۔ میرے دروازہ بجانے پر رضوانہ نے کنڈی کھول دی اور ہم کمرے سے باہر آگئے ۔ رضوانہ بھی حیران تھی کہ بہت جلدی ہماری ملاقات ختم ہوگئی۔ اختر کے جانے پر اس سے نہ رہا گیا اور وہ پوچھ بیٹھی ۔ “کیا ہوا اتنی جلدی اختر چلا گیا ؟” “وہ دراصل شادی میں آیا ہے وہاں سے کچھ وقت کے لیے آیا تھا۔” میں نے کہا۔ “اچھا اچھا چلو پھر بھی فرصت میں جی بھر کر ملاقات کر لیتا -“
رضوانہ نے معنی خیز انداز میں کہا اور میں جھینپ گئی۔ اس ملاقات کے بعد اختر کی باتوں سے سنجیدگی رخصت ہوگئی اور وہ تکلف ایک طرف رکھ کر بات کرنے لگا تھا۔ وہ ہر طرح کی بات مجھ سے کر لیتا تھا۔ میں حیرانی سے اس کی باتیں سنتی رہ جاتی تھی۔ کراچی میں کام کرنے کی بات پر میں حیران تھی کہ وہ میری خاطر اپنا گاؤں گھر بار چھوڑ کر کراچی آ رہا تھا۔
کبھی کبھی مجھے خود پر بھی حیرت ہوئی تھی کہ میں شادی شدہ ہو کر بھی ایک غیر محرم سے دوستی کر بیٹھی ہوں جو کہ گناہ ہے لیکن نا جانے مجھے کیا ہو گیا تھا میں۔جانتے بوجھتے یہ گناہ کر رہی تھی اور انجام سے بے خبر میں برائی کی دلدل میں دھنستی جا رہی تھی۔ اختر نے کراچی میں کام کرنا شروع کر دیا تھا اور میرے شوہر کی غیر موجودگی میں گھر آنے لگا تھا۔ اسے میرے شوہر کے گھر آنے جانے کے اوقات معلوم ہو گئے تھے۔ وہ بہت محتاط تھا۔
شوہر کی غیر موجودگی میں اسے بلانے کے لیے ہم نے کچھ اشارے مخصوص کر لیے تھے مثلاً اگر وہ گلی میں ہوتا تو گیلری میں بنیان لنکا دیتی تھی اس کا مطلب ہوتا تھا، راستہ صاف ہے۔ اگر گیلری میں قمیص ہوئی تو اس کا مطلب تھا کہ شوہر گھر میں موجود ہے اور گیلری میں کچھ بھی نہیں ہونے کا مطلب تھا کہ موبائل پر کال کر کے ملاقات کا وقت طے کرتا ہے۔ یہ اشارے اختر نے بتائے تھے جو مجھے پسند آئے تھے۔ ان اشاروں کی مدد سے میں مطمئن تھی کہ میرا یہ راز راز ہی رہے گا۔
کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اختر نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ تنہائی میں اس کی چھیڑ خانیاں بڑھنے لگی تھیں۔ اس کا یہ عمل میرے نزدیک اچھا نہیں تھا۔ میرے دل میں کئی بار آئی کہ اسے بری طرح جھڑک دوں کہ آئیندہ ایسی حرکتیں نہ کرے لیکن نا جانے مجھے اس پر ترس آجاتا کہ وہ میری خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر کراچی آ گیا تھا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے یہ حرکتیں کرنے سے روک نہ سکی۔ دن بدن اختر گستاخ ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ ایسی حرکتیں کرنے لگا تھا
جس کا حق صرف ایک شوہر کو حاصل ہوتا ہے۔ ایک دن جب اس نے مجھے اپنی بانہوں میں جکڑا تو میں نے ایک جھٹکے سے خود کو اس سے آزاد کرالیا۔ اختر یہ کیا حرکت ہے؟ میں نے غصے سے اسے دیکھا۔ “ہم دوست ضرور ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہر حد کر اس کر جاؤ۔ میرے اسطرح جھڑ کنے پر اس کا چہرہ اتر گیا’ شاید اس کے گمان میں بھی نہیں تھا
کہ میں اسے اس طرح سے جھڑک دوں گی پھر وہ چند منٹ بیٹھ کر چلا گیا۔ میں بھی اس وقت شدید غصے میں تھی اس لیے میں نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی پھر ایک ہفتے تک وہ نہیں آیا اور نہ ہی مجھ سے موبائل پر رابطہ کیا۔ میرا غصہ بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا اور مجھے اختر کی یاد بھی آرہی تھی اس لیے میں نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اختر کو کال کر دی۔
“ہیلو اختر” نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا۔ “کیا بات ہے اختر تم کیوں نہیں آ رہے ہو؟” میں نے پوچھا۔ “تم نے اس دن مجھے اس بری طرح سے جھڑکا کہ ہمت نہیں ہو رہی ہے تمہارا سامنا کرنے کی” اختر نے کہا۔ “ہاں مجھے بہت غصہ آگیا تھا۔ اس طرح سے تمہیں نہیں جھڑکنا چاہیے تھا” میں نے نرم لہجے میں کہا۔ “غلطی میری تھی، مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔
میں دوستی میں بہت آگے نکل گیا تھا۔ میں کوشش کروں گا کہ تم سے زیادہ ملاقات نہ کروں تاکہ پھر ایسا نہ ہو” اختر نے کہا۔ “ارے بھئی میں یہ کب کہہ رہی ہوں کہ تم مجھ سے نہ ملا کرو بس ذرا خود پر قابو رکھا کرو پھر تم کب آ رہے ہو؟” میں نے پوچھا۔ “دیکھتا ہوں” اختر نے کہا۔ “تم ابھی تک ناراض ہو؟ دیکھو میں نے بات کرنے میں پہل کی ہے
کیا اب بھی ناراضگی ختم نہیں کرو گے؟” میں نے کہا۔ میں سمجھ گئی تھی اس دن کی بات کو اختر نے دل پر لے لیا تھا اس لیے وہ ملنے سے کترا رہا ہے۔ دو دن اور گزر گئے وہ نہیں آیا۔ اس کے گھر نہ آنے سےمجھے سخت تشویش ہو رہی تھی۔ مجھے اختر سے محبت ہو گئی تھی اور میں کسی قیمت پر اس کو کھونا نہیں چاہتی تھی وہ میری تنہائی کا ساتھی تھا۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے اختر کو کال ملائی۔ “کیسی ہو شکیلہ خیریت ہے نا؟” اختر نے کہا۔ “ہاں میں خیریت سے ہوں اتم اپنی سناؤ؟”
میں نے پوچھا۔ “میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہوتا ہے۔” اختر کی افسردہ ہی آواز آئی۔ “اختر غصہ ختم کردو اور فوراً میرے پاس چلے آؤ۔ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔” میں نے کہا۔ “میں اس وقت نہیں آ سکتا۔ اس وقت فیلڈ میں ہوں، کل آؤں گا۔” اختر نے کہا۔ “ٹھیک ہے یاد سے آجانا میں تمہارا انتظار کروں گی۔” میں نے کہا۔ “ہاں نہاں تم فکر نہ کرو۔
” دوسرے دن مجھے شدت سے اختر کا انتظار تھا اور وہ وعدے کے مطابق آ گیا۔ اسے دیکھتے ہی میرا دل کھیل اٹھا لیکن اس کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا۔ “اختر کیا ابھی تک مجھ سے ناراض ہو؟” میں نے کہا۔ “نہیں، نہیں، میں کیوں ناراض ہوں گا، بس ایسے ہی میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔” اختر نے کہا۔ “میں نے اس واقعہ کو بھلا دیا ہے، تم بھی بھلا دو آؤ ہم پھر ایک نئے جذبے سے دوستی کا آغاز کرتے ہیں۔” میں نے اپنا ہاتھ اختر کی طرف بڑھایا۔
اس نے جھجکتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا اور ہم مسکرانے لگئے۔ یوں اختر کی آمد دوبارہ شروع ہوگئی تھی۔ چند دن تک وہ محتاط رہا لیکن پھر اس نے اپنی بری حرکتیں شروع کر دیں۔ میں اسے ڈانٹنا چاہتی تھی لیکن ڈانٹ نہیں سکی۔کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ دوبارہ ناراض ہو کر آنا بند نہ کر دے۔ میری ڈھیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھی اور خود کو اختر کے حوالے کر دیا۔
وہ میری کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا اور کیوں نہ اٹھاتا جب دو نامحرم تنہائی میں ملتے ہیں تو ان پر شیطان غالب آ جاتا ہے، یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ میں انجام سے بے پروا برائی کی دلدل میں دھنستی جارہی تھی۔ اس روز بھی ہمارا شیطانی کھیل جاری تھا کہ خلاف توقع میرا شوہر کلیم اچانک گھر آ گیا۔ اب یہ اتفاق ہی تھا کہ اس روز میں دروازے کی کنڈی بھی بند کرنا بھول گئی تھی۔
دوپہر کا وقت تھا، وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا ہمیں قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر شدید اشتعال میں آگیا اور اس نے شیشہ کا گلدان اٹھا کر اختر کے سر پر مارنا چاہا۔ مجھ سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ وہ اختر کو نقصان پہنچائے۔ میں نے پیچھے سے بیلین اس کے سر پر دے مارا۔ اس شدید ضرب کے پڑتے ہی وہ چکرا کر گر پڑا۔ اختر نے زمین پر گرا بین اٹھا کر میرے شوہر کے دل پر مارا اور پے در پے بیلین کے وار سے کلیم کو لہو لہان کر دیا۔ وہ زمین پر پڑا بری طرح تڑپ رہا تھا
اور ہم دونوں دروازے کے پاس کھڑے اس کے تڑپنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔ جب کلیم اپنی جان کی بازی ہار گیا، تب ہمیں ہوش آیا کہ اب کیا کریں؟ میں سخت گھبرائی ہوئی تھی میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟ ایک طرف شوہر مر گیا تھا، دوسری طرف اختر تھا جو میرے ایک بیان پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتا تھا لیکن میں اس کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ ہوش میں آؤ شکیلہ ہمیں فوری طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہے ورنہ ہم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ اختر نے کہا۔ہم ہم میں کیا کروں؟“
میں نے سپٹاتے ہوئے کہا۔ میں گھر کا سارا سامان ادھر ادھر بکھیر دیتا ہوں میرے جانے کے بعد تم شور مچانا شروع کر دیتا کہ ڈا کو آئے تھے مزاحمت کرنے پر کلیم کو ہلاک کر کے چلے گئے۔ میں زیورات لے جاتا ہوں تاکہ ڈکیتی حقیقی لگے پھر جب بات ٹھنڈی ہو جائے گی تو ہم دونوں شادی کر کے نئی زندگی کی شروعات کریں گے۔ اختر کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ اختر نے گھر کا سارا سامان ادھر اُدھر بکھیر دیا اور زیورات لے کر چلا گیا۔
اس کے جانے پر مجھے ہوش آیا اور میں نے وہی کیا جو اختر نے کہا تھا۔ میرے شور مچانے پر مختلف فلیٹوں سے لوگ جمع ہو گئے۔ پولیس بھی آگئی۔ اس وقت گھر واقعی ڈکیتی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سب کو میری بات پر یقین آ گیا۔ نامعلوم ملزمان کے خلاف مل اور ڈکیتی کا مقدمہ درج ہو گیا تھا۔ اس طرح ایک مہینہ گزر گیا مگر اختر نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ مجھے اختر پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ وہ میرے سارے زیورات بھی لے گیا تھا اور رابطہ بھی نہیں کر رہا تھا۔ میں نے جب موبائل پر رابطہ کیا
تو اس نے اجنبیوں کی طرح بات کی جس پر مجھے غصہ آ گیا۔ اختر میں شکیلہ بات کر رہی ہوں تم مجھ سے کس لیجے میں بات کر رہے ہو؟ میں نے کہا۔ کون شکیلہ میں کسی شکیلہ کو نہیں جانتا، میرا کیا تعلق تم سے؟ اختر نے کہا۔ تم زیادہ ہوشیار نہیں بنو تمیم سے میری موبائل پر بات چیت رہی ہے اور موبائل کمپنی کے پاس بھی اس کا ریکارڈ موجود ہوگا۔ میرا ایک بیان تمہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جاسکتا ہے۔ پولیس تم سے خود جرم قبول کرائے گی۔ میں نے اسے دھمکی دی۔
او تم اور مجھے جیل بھجواؤ گی؟ محترمہ میں جس سم سے تم سے بات کرتا تھا وہ ایک ایسے شخص کے نام رجسٹرڈ ہے جسے دنیا سے گزرے چار برس ہوچکے ہیں۔ تمہیں یہی مشورہ ہے کہ مجھے ایک خواب سمجھ کر بھول جاؤ اور وہ زیورات میں نے تمہیں جو وقت دیا اس کی قیمت ہیں۔ اختر نے کہا۔ میں تمہیں دیکھ لوں گی ۔ میں نے غصے سے کہا۔ ہاں ہاں دیکھ لینا، تمہارے پاس میرا پتا بھی اس طرح فرضی ہے جس طرح سے یہ سم ہے۔ میں اس سم کو ہی پھینک دوں گا۔ اختر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
میرے ذہن میں آندھیاں کی چل رہی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ جذبات میں آکر میں نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے سب کچھ بتا دیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ پولیس فوری طور پر حرکت میں آئے گی اور اختر کو کسی بھی طرح ڈھونڈ کر گرفتار کر لے گی لیکن پولیس نے سب سے پہلے اس قتل میں مجھے ہی جیل میں ڈال دیا پھر بعد میں پولیس کی زبانی یہی سننے کو ملتا کہ وہ ملزم کو تلاش کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے لیکن مجھے پتا ہے اختر کو تلاش کرنا ایسا ہی ہے
جیسے اندھیرے کمرے میں کالی بلی کو تلاش کرتا۔ میرے پاس اختر کی کوئی تصویر نہیں ہے سم اس کی بند ہے اور نہ ہی میرے پاس اس کا اصل پتا ہے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی اختر کو تلاش کرنے میں کیونکہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں۔ مجھے معلوم ہے پولیس اختر کو تلاش نہ کرنے پر قتل کا سارا الزام میرے سر تھوپے گی تا کہ اس کیس کی فائل بند ہو جائے۔
میں آج اس کال کوٹھری میں ہر پل خود کو کوستی ہوں کہ میں وہ بد بخت عورت ہوں جس نے اپنے گھر کو خود اپنے ہاتھوں تباہ کیا اور جس کی خاطر یہ سب کچھ کیا وہ بھی مال و عزت کا لٹیرا نکلا۔

Also Watch Urdu Story And Urdu Kahani In Vide Formate

https://www.youtube.com/watch?v=mlAN4zRZPX8

 

error: Content is protected !!