Pakistnai urdu Font Story
میرا نام شہرین ہے۔ میرے ابو عبد الرحمان نے دو شادیاں کی تھیں اور میں اپنے ابو کی پہلی بیوی کی پہلی اولاد تھی۔ میں اس وقت دیں برس کی تھی جب میرے ابو نے دوسری شادی کی تھی تب تک میرے دو بھائی اور دو بہنیں بھی اس دنیا میں آچکے تھے۔
ابو کی دوسری بیوی سے چھ بچے ہوئے تھے یوں ہم گیارہ بہن بھائی تھے تاہم سوتیلے ہونے کے سبب بھی ہماری آپس میں بہت محبت تھی ۔ تمام بچے ماؤں کی عزت کرتے تھے اور انہیں ماں کہتے تھے میرے ابو کٹر مذہبی تھے، شریعت کے مطابق زندی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔
دونوں بیویوں ) پر یکساں توجہ دیتے ہوں ہمارا گھر جنت کا نمونہ تھا۔ لوگ ہمارے گھر کی مثال دیا کرتے تھے۔ میں ان دنوں میٹرک میں پڑھتی تھی لیکن مجھے لکھنے پڑھنے) کا اتنا شوق نہیں تھا جتنا دلہن بنے کا تھا۔
میں ہر وقت ان کے ہی خیالوں میں گم رہتی کہ میری زندگی میں بھی کوئی ایسا ہو جو مجھے ٹوٹ کر چاہے حالانکہ میری پرورش ایسے مذہبی ماحول میں ہوئی تھی
Pakistnai urdu Font Story
جہاں اس قسم کی باتوں کا تصور ہی گناہ تھا پھر بھی نہ جانے کیوں میرا دل ایک ان دیکھے شخص سے محبت کرتا تھا۔ میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی چنانچہ اب مجھے گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت یہ بھی سوائے پڑھائی کئے میں بلاوجہ با ہر نہیں جاسکتی تھی
مگر میں اپنے تصور میں کھوئی رہتی تھی۔ دل کی دنیا بہت خوبصورت ہوتی ہے اور میرے دل میں تو ایک انجانا نا آشنا چہرہ بسا ہوا تھا اور میں اس کے خیالوں میں کھوئی رہتی۔ گرمیوں کی راتوں میں چاند کا خاموش سفر مجھے ہے چین کر دیتا تھا
اور میں تکیے کو اپنے آنسوؤں سے بھگو دیتی تھی۔ گھر میں دس بہن بھائیوں، دو ماؤں اور باپ کی موجودگی کے باوجود میں خود کو تنہا اکیلا اکیلا سا محسوس کرتی تھی۔ ایک روز میں اسکول سے واپس آرہی تھی میرے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی تھیں۔
چلتے چلتے مجھے لگا جیسے کوئی ہمارے تعاقب میں ہے۔ بار بار مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ ضرور کوئی ہے جو ہمارے پیچھے ہے۔ میں نے اچانک پلٹ کر دیکھا تو ایک بہت ہی خوبصورت سجیلا نو جوان ہمارے پیچھے تھا۔ اسے دیکھ کر میرا دل زور سے دھڑ کنے لگا۔
وہ مسلسل ہمارے اہیے تھا دوسری دونوں لڑکیوں نے تو کوئی نوٹس نہ لیا تھا پھر وہ میرے برابر سے گزر کر آگے چلا گیا۔ وہ کئی ان تک میرے پیچھے آتا رہا، اس کا پیچھا کرنا مجھے ناگوار نہیں گزرتا تھا بلکہ مجھے تو اس کا انتظار رہتا تھا۔ اگر کسی روز وہ نظر نہ آتا
تو دل بہت بے چین ہو جاتا۔ ایک روز میں اکیلی ہی کالج سے نکلی تھی۔ وہ لڑکیاں میرے ساتھ نہیں تھیں ۔ جیسے ہی چھٹی کی بیل ہوئی میں جلدی سے باہر آ گئی تھی۔ وہ گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ مجھے اکیلا دیکھ کر اس کی آنکھیں چک انھیں پھر وہ میرے پیچھے چل پڑا۔
تھوڑا آگے جا کر جب میں ایک گلی میں مڑی تو اس نے مجھے موبائل فون دکھایا اور پھر میرے قریب آ گیا۔ سینے یہ موبائل آپ رکھ لیں، اس سے ہم بات کریں گے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے موبائل پکڑا دیا ۔
رات کو کال کروں گا ۔“ میں نے دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے موبائل لیا تو وہ چلا گیا اور میں کھڑی رہ گئی۔ مجھے تو موبائل استعمال کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ گھر آکر میں نے موبائل چھپا کر رکھ دیا۔
Pakistnai urdu Font Story
شام چار بجے اٹھایا تو کال آ رہی تھی۔ میں نے بدحواسی میں کال اٹینڈ کی۔ “السلام علیکم میرا نام عدنان ہے۔ ایک خوبصورت آواز میری ساعتوں سے ٹکرائی تھی ۔ میں نے کہا تھا کہ رات کو کال کروں گا لیکن مجھے تو ایک پل بھی چین سکون نہیں ہے۔ جب سے آپ کو دیکھا ہے بس آپ کا دیوانہ سا ہو گیا ہوں دل چاہتا ہے
ہمیشہ آپ سے بات کرتا رہوں اسی لیے رات تک کا انتظار نہ کر سکا اور آپ کو کال کر دی۔ آپ ڈسٹرب تونہیں ہوئیں۔ اس کی باتوں سے میں ایسی گھبرائی کہ میرے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔ آپ بول کیوں نہیں رہیں ؟ پلیز کوئی بات تو کریں۔
یج جی میں بمشکل اتاری کہہ پائی ۔ شکر ہے آپ نے کچھ بولا تو سہی۔ دیکھیے میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں میرا دل آپ کی طرف مائل ہے۔ وہ باتیں کر رہا تھا اور میں اس کی باتوں کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا
کہ میرے دل کی مراد یوں پوری ہوگی۔ اس طرح ہماری محبت کا آغاز ہو گیا، ہم روزانہ گھنٹوں بات کرتے تھے اس دوران اس نے مجھے موبائل کے استعمال کا طریقہ بھی سمجھا دیا تھا اور میں موبائل کو سائلنٹ پر رکھتی تھی اسی لیے میرے پاس موبائل کی موجودگی کا گھر والوں کو علم نہیں ہوا۔
اس سے باتیں کرتے ہوئے میں خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتی کہ کوئی ہے جو مجھے اس قدر چاہتا ہے میرے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔ وقت اسی طرح گزرتا رہا اور میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ ابو مجھے کالج بھیجنا نہیں چاہتے تھے
جبکہ عدنان کا اصرار تھا کہ میں کالج میں ایڈمیشن لوں لہذا میں نے ضد کرنا شروع کردی کہ مجھے کالج جانا ہے مگر ابو کسی طور راضی نہیں تھے چنانچہ دونوں ماؤں سے سفارش کروائی بالا خرابو نے اجازت دے دی۔ انہوں نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔
بیٹی ! جتنا پڑھنا چاہتی ہو پڑ ھو لیکن اتنا یاد رکھنا کہ تمہارے نام کے ساتھ میرا نام آتا ہے تم میری بڑی بیٹی ہو میرے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچانا۔ میں نظریں جھکائے ان کی باتیں سنتی رہی اور سر ہلاتی رہی لیکن میرے دل میں جو ایک چاہنے والا بس چکا تھا،
میں اس کا کیا کرتی ؟ پھر میں نے کالج جانا شروع کر دیا۔ عدنان سے باتیں تو روز ہی ہوتی تھیں لیکن اب وہ مجھ سے ملنے کا اصرار کرنے لگا تھا جس پر میں انکار کر دیتی حالانکہ دل تو میرا بھی بہت چاہتا تھا اس سے ملنے کو مگر ابو کا خوف آڑے آ جاتا تھا۔
عدنان نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا۔ شہرین میں تمہیں ہی اپنی شریک حیات بناؤں گا۔ اس کی باتیں بڑی سحرانگیز ہوتیں۔ تمہارے سوا نہ کوئی میرے دل میں بسا ہے نہ ہے ” میں اس کی باتوں سے نہال ہو جاتی اور میرا دل خوشی سے جھوم اٹھتا۔ کھوئی کھوئی تو میں بچپن سے ہی تھی
لیکن جوانی نے مجھے بولا کر رکھ دیا تھا لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ابو میری بدلتی ہوئی حالت کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک رات جب سب سو گئے تھے میں جاگ رہی تھی کیونکہ عدنان کی کال آئی تھی تب ہی ابو کی آواز میرے کانوں میں آئی تھی۔
وہ امی سے مخاطب تھے۔ بیگم صاحبہ ہمیں آپ کی صاحب زادی کچھ بدلی بدلی لگتی ہیں اس پر نظر رکھا کریں ۔ باید صورت میں کچھ ہیں۔ حضور میں کچھ نہیں جانتی۔ امی کی لرزتی آواز سنائی دی تھی۔ میں سوچتا ہوں اب اس کے لیے یہ آنگن کے پر دیس ہو رہا ہے۔ آپ مجاز ہیں، جو چاہیں سوکریں۔
بیٹی پر نظر رکھا کرو یہ عمر بہت نازک ہوتی ہے۔ ابو کی بات پر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ باپ کی گھاگ نظریں بھانپ گئی تھیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اب ابو اٹھتے بیٹھتے مجھ پر نظر رکھتے تھے اور میں ان کی نظروں کی تاب نہ لاکر بد حواس کی ہو جاتی تھی۔
دوسری طرف مجھ سے ملنے کے لیے عدنان کا اصرار بڑھتا جارہا تھا۔ دیکھو شہرمین مجھ سے مل لو ورنہ میں مرجاؤں گا صرف ایک بارمل لو ۔
Pakistnai urdu Font Story
فون پر اس کی بس یہی رٹ ہوتی۔ یہ ممکن نہیں ہے عدنان میں تم سے نہیں مل سکتی۔ میرے ابو بہت سخت ہیں۔ مجھے مجبور نہ کرو ۔” رات کو اس کی کال آئی تو پھر اس نے ملنے کا اصرار کیا۔ میرے انکار پر وہ رونے لگا۔ آخر میں نے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور اس سے ملنے پر راضی ہو گئی۔
انگلی صبح میں کالج کے لیے نکلی ضرور تھی مگر کالج جانے کے بجائے عدنان کی بتائی ہوئی جگہ پر چلی گئی جہاں وہ پہلے ہی میرا منتظر تھا۔ یہ سب کرتے ہوئے میرا دل لرز رہا تھا قدم ڈگمگا رہے تھے مگر عدنان کی محبت سے مجبور تھی عدنان مجھے ایک عمدہ سے ریسٹورنٹ میں لے گیا جہاں چھٹی ٹائم تک ہم نے وقت گزارا۔
تمام وقت اس کا رویہ میرے ساتھ شائستہ رہا اس نے مجھے چھوا تک نہیں ۔ ہم نے جی بھر کے باتیں کیں پھر وہ مجھے کالج کے گیٹ کھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ گھر پہنچتےہی عدنان کی کال آ شہرین ، تم تو ملاقات سے یونہی ڈرتی تھیں دیکھو کچھ ہوا؟ میں اس ملاقات کو زندگی بھر نہیں بھلا سکتا، تم بہت اچھی ہو۔
” اسی طرح دن گزرتے رہے۔ اس اثناء میں ابو نے کچھ لوگوں کو میرے رشتے کے لیے بھی کہہ دیا تھا۔ جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں پریشان ہو رات کو عدنان کی کال آئی تو میں نے فکرمندی سے کہا۔ عدنان کچھ کرو ورنہ کوئی اور مجھے لےجائے گا۔
میری جان تم بالکل پریشان مت ہو تم صرف میری ہو تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ آج ہی میں امی سے بات کرتا ہوں۔ میں نے نیا گھر بنوایا ہے چند دن بعد چل کر دیکھنا وہ گھر تمہارا ہے وہاں تم رہو گی اور مما سے بھی ملواؤں گا تمہیں آؤنی نا؟
عدنان کی اس طرح کی مسحور کن باتوں میں کھو کر میں اپنی پریشانی بھول گئی۔ وہ باتیں ہی ایسی کرتا کہ میرا دل موہ لیتا تھا۔ تین دن بعد جب میں اس سے ملی تو اس نے مجھے اپنے گھر چلنے کے لیے کہا اور میں بنا سوچے سمجھے اس کے ساتھ چل پڑی۔
موبائل میرے پاس ہی تھا۔ اس کا گھر واقعی بہت شاندار تھا۔ میں اس کے گھر کی شان و شوکت میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ مجھے گھر کے ایک کمرے میں لے آیا۔ شہرین، تم میرے روم میں بیٹھو میں امی کو بلا کر آتا ہوں۔ یہ کہہ کر عدنان چلا گیا تو مجھے کچھ گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ ابھی چند منٹ ہوئے تھے
کہ ایک چھوٹا سا لڑکا کوک لے کر اندر آیا اور ٹیبل پر رکھ کر باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد عدنان اندر آیا مجھے یونہی بیٹھا دیکھ کر کہا۔ ارے کوک تو پیو گرم ہو جائے گی۔ میں امی کے پاس گیا تھا وہ سوئی ہوئی ہیں ابھی کچھ دیر میں اٹھ جائیں گی اس نے کوک اٹھا کر مجھے پکڑائی۔
عدنان . آپ بھی پئیں۔ او جانی میں ابھی پی کر آیا ہوں۔ اس نے مجھے کوک پلائی پھر ہم باتیں کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے محسوس ہوا جیسے مجھ پر خمار چڑھ رہا ہے مجھے نیند آرہی تھی میرا سر ڈولنے لگا تھا۔ عدنان میری طرف ہی دیکھ رہا تھا،
اس نے آگے بڑھ کر مجھے سہارے سے کھڑا کیا اور اپنا ہاتھ میری کمر میں ڈال کر بیڈ پر لٹا دیا۔اس
کے بعد میرا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میرے ہوش اڑ گئے تھے کیونکہ میرا سب کچھ پر باد ہو چکا تھا، میں برہنہ بستر پر لیٹی تھی
اور میرے جسم پر جگہ جگہ نشان تھے میں لٹ چکی تھی اور اپنا گوہر نایاب کھو چکی تھی ۔ کمرے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا، میں نے اٹھ کر فورا لباس پہنا اور اپنی بربادی پر آنسو بہانے لگی۔
اب میں اپنے والدین کو کیا منہ دکھاتی ؟ میری امی اکثر کہتی تھیں کہ کنواری لڑکی سے حیا کی خوشبو آتی ہے لیکن میں تو حیا باختہ ہو چکی تھی ۔ ہائے میرے ابو ! ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ وہ خبیث عدنان ، اندر آیا جس نے مجھے برباد کیا تھا۔
کھانا کھا لو میں نے کھانا پرے پھینک دیا اور ہاتھ میں پکڑا موبائل اتنی شدت سے اس کے چہرے پر مارا کہ اس کی ناک سے خون بہنے لگا۔ کمینے خبیث انسان میں تجھے چھوڑوں گی نہیں ۔ میں نے شیشے کا گلدان اس کے سر پر جڑ دیا جس پر اس نے اتنی زور سے مجھے دھکا
دیا کہ میں دیوار سے ٹکرائی۔ کان کھول کر سن لے اب تجھے وہی کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔ اب ہر تیسرے روز تجھے یہاں آنا ہوگا ورنہ میں تیرا وہ حشر کروں گا کہ تا قیامت یا در کھے گی۔
Pakistnai urdu Font Story
ذلیل میں تیری شکل بھی دیکھنے کی روادارنہیں تو ضرور آئے گی، نہیں تو یہ دیکھ رہی ہے یہ کیا ہے؟ اس کے ہاتھ میں ویڈیو کیمرہ تھا۔ اس میں وہ سب کچھ محفوظ ہو چکا ہے جو ابھی کچھ دیر پہلے ہوا ہے۔ یہ میں تیرے باپ مولوی عبدالرحمان کو
دکھاؤں گا کہ یہ سب تمہاری اس بیٹی کے کرتوت ہیں جسے تم گھر چھپا کر رکھتے ہواس نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا۔ میرے تو ہوش اڑ گئے اور میں لڑ کھڑاتی ہوئی گر گئی۔ وہ میرے نزدیک بیٹھ گیا۔ ہر تیسرے روز آ جانا، کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر نہ آئی تو میں وہی کروں گا جو کہا ہے۔
دیکھو خدا کا واسطہ مجھے چھوڑ دو میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔ بس اب رونا دھونا بند کرو اور جیسا کہا ہے وہی کرنا۔ تین دن بعد آ جانا، تمہیں اس کا معاوضہ بھی ملے گا۔ اس نے غراتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کی بہت منتیں کیں لیکن اس نے میری کوئی بات نہ سنی
.اور میں گھر آگئی۔ گھر میں سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ہر نظر مجھ پر ہے سب مجھے غور سے دیکھ رہے ہوں۔ تین دن گزر گیئے میں اس کے – پاس نہ گئی چوتھے دن میں کالج جارہی تھی کہ وہ خبیث ا میرے سامنے آگیا۔
یہ تمہارے ابو کو دینے جا رہا ہوں۔ اس نے ویڈیوفلم دکھاتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے ایسے ڈرانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے۔ میں کالج چلی گئی و مگر کالج میں میرا دل بے کل سا رہا ئیوں لگتا تھا جیسے ۔
کوئی انہونی ہونے والی ہے۔ کالج سے چھٹی ہوئی تو میں نے ایک پی سی او سے پڑوسی کے نمبر پر کال کی اور کہا کہ رحمان صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟
دوسری طرف کا جواب مجھے ماردینے کے لیے کافی لاؤ تھا۔ رحمان صاحب کی ڈیتھ ہوئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں، کسی صدمے سے انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
یہ الفاظ تھے یا بم کے گولے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اپنے باپ کی موت کی
میں ذمہ دار میں تھی۔ ہائے میری ماں جس نے کبھی سے دروازے سے جھانکا تک نہیں، مجھ نا خلف نے اپنے باپ کو مار دیا تھا اپنا گھر اجاڑ دیا تھا۔ اب میری ماں بھی نہیں جی سکے گی۔
اب میں کہاں جاؤں گی ؟ گھر میں تو مجھے کوئی نہیں گھنے دے گا۔ میں کس طرح اپنوں سے نظریں ملا پاؤں گی؟ میری دنیا اندھیر ہوگئی تھی۔ اس سوچ میں میں وہیں کھڑے کھڑے گر گئی۔
کچھ دیر بعد ہوش آیا تو ایک عورت میرے ، چہرے پر پانی کے چھینٹے مار رہی تھی۔ ”بیٹا ! کیا ہوا؟ کون ہو تم ؟ مجھے آنکھیں کھولتا دیکھ کر اس نے پوچھا مگر میں جواب دینے کی بجائے یک تک اسے دیکھنے لگی۔
اس نے سمجھا میں گونگی بہری ہوں چنانچہ وہ مجھے ایک مزار پر لے گئی اور اب میں اس مزار پر رہتی ہوں اور پل پل اس شیطان کو بددعائیں دیتی ہوں جس نے مجھے اجاڑا۔ یہ تھی میری کہانی پلیز آپ پڑھنے والوں سے التجا ہے کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو موبائل فون نہ لے کر دیں۔
یہ جدید دور کا ایسا فتنہ ہے جس نے جانے کتنے گھرانے تباہ کر دیئے ہیں اور کتنی ہی با عصمت بیٹیوں کو حیا باختہ بنا دیا شهرین اب پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی اور میں حسرت و یاس سے اسے دیکھ رہی تھی
اور میں کر بھی کیا سکتی تھی؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جن سے اس کے دل کو تسلی ملے؟ میں بے چارگی کے سے انداز میں وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام پڑھنے والی
لڑکیوں سے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ شریف صورت اور شیطان سیرت نوجوانوں سے ہوشیار ہیں۔ یہ نہ ہو کہ پھر کسی شہرین کی کہانی دہرائی جائے۔