17 Sal Ki Dulhan – Best Urdu Romantic Short Novel is a captivating love story that revolves around a young girl’s journey into marriage at just 17. This best Urdu romantic short novel explores themes of love, emotions, and relationships, making it a perfect read for romance lovers. With an engaging plot and deep character development, 17 Sal Ki Dulhan keeps readers hooked till the very end.

صبا کا چہرہ چادر سے گھونگٹ میں چھپا ہوا تھا اور وہ بری طرح سے سسکیوں سے رو رہی تھی لیکن اس وقت 17 سالہ لڑکی پر کسی کو بھی رحم نہیں ا رہا تھا۔ وہ پوری کی پوری کپکپا رہی تھی جو مولانا صاحب نے اسے تیسری بار پوچھا صبا بنت فیاض احمد کیا ۔
ساجد حسین شاہ سکہ رائج الوقت حق مہر پانچ ہزار میں نکاح قبول ہے۔ اس بار بھی صبا نے اقرار نہیں کیا لیکن ساجد حسین شاہ کی غلطناک نظر پیاج احمد پر جا کر ٹکی تھی۔ جو کہ اس وقت بری طرح سے کپکپا رہا تھا جھریوں سے بھرے چہرے پر انسو تواتر سے بہہ رہے تھے اس نے صبا کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا۔
اور کہنے لگا تمہارے باپ کی عزت کا سوال ہے صبا کہو کہ تمہیں قبول ہے اپنے باپ کی عزت رکھنے کے لیے صبا نے روتے ہوئے کہا تھا۔ اس نے یہ نکاح قبول ہے جیسے جاب و قبول ہوا ساجد حسین شاہ بڑے غصے سے کھڑا ہوا تھا۔ اور اس نے صبا کی نازک پلائی پکڑی اور اسے کھڑا کیا ۔
اس سے پہلے کہ وہ بے دردی سے اسے اپنے ساتھ لے کر جاتا فیض احمد اس کے سامنے اگیا اور کہنے لگا۔ دیکھو میری یہ بچی بے قصور ہے اس کے ساتھ کوئی زیادتی مت کرنا ساجد حسین شاہ کہنے لگا۔ میرے لیے تمہاری بیٹی صرف بدلے کا سامان ہے اسی لیے تم مجھ سے رحم کی امید مت رکھنا پوری برادری میں ذلت مجھے اٹھانی پڑی ہے۔ اسمالہ یہی بک دے گی اور پنچائی کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے تم پوچھنے کا حق نہیں رکھتے تو مجھ سے اپنی بیٹی کے معاملے میں کوئی سوال نہیں کرو گے سمجھو کہ اج کے بعد تمہاری بیٹی تمہارے لیے مر گئی یہ نہ سمجھنا کہ اس کی رخصتی ہو رہی ہے یہ سمجھو کہ اس کا جنازہ اٹھ رہا ہے بڑے غضبناک لہجے میں یہ کہتا ہوا وہ صبا کی کلائی کو پکڑے فیاز احمد کے گھر سے باہر نکلا تھا اپنی جیب کا دروازہ کھولا اور صبا کو دھکیلنے کے انداز میں گاڑی میں بٹھایا اور دوسری جانب سے خود بیٹھ گیا جیپ کی پچھلی نشستوں پر اس کی گارڈز بندوقیں تانے ٹوکن نے کھڑے تھے کچھ ہی دیر میں گاڑی سٹارٹ ہوئی اور دھواں اڑاتی ہوئی بڑی تیز سپیڈ میں حویلی کی جانب بڑھ رہی تھی کیا کچھ نہیں سوچا تھا ساجد حسین نے اپنا کمرہ اس نے غلاب کے پھولوں سے سجا رکھا تھا کیونکہ من چاہی لڑکی کو اپنی بیوی بنا کر لانا چاہتا تھا اج کی رات اس نے بے صبری سے انتظار کیا تھا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ عین نکاح کے موقع پر اس کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے کوئی لڑکی اس کے ساتھ اس طرح کا مذاق بھی کر سکتی ہے ساجد حسین کے ساتھ اس کے سامنے کوئی مائیک ا لال انکھوں میں انکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتا تھا پورا گاؤں ساجد حسین کے غصے کے سامنے کانپنے لگتا تھا اور اس کی ایک ڈھار دار اواز پر گاؤں والوں کے دل دہل کر رہ جاتے تھے اور ایک معمولی سی لڑکی جسے اس نے اپنی عزت بنانے کے بارے میں سوچا تھا وہ اس کے منہ پر ذلت کا تماچہ مار کر جا چکی تھی لیکن وہ کوئی معمولی انسان نہیں تھا جو ایک لڑکی کے ٹکرائے جاننے پر اپنی ب** برداشت کرتا اور خالی ہاتھ لوٹتا صباح کی سسکیاں اس وقت اسے زہر لگ رہی تھیں وہ کہنے لگا چپ ہو جاؤ لڑکی کیا سمجھتے تھے تم لوگ کہ تمہاری بہن اگر بھاگ جائے گی تو ساجد حسین خالی ہاتھ لوٹ ائے گا پوری برادری کے سامنے اپنی نا کٹوائے گا دیکھ لو میں دلہن لینے تمہارے گھر ایا تھا اور دولہن لے کر ہی لوٹا ہوں ساجد حسین شاہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا اور یہ بھی مت بھولنا کہ تمہاری اس بہن کو میں چھوڑ دوں گا اس کا ایسا عبرت ناک انجام کروں گا کہ گاؤں کی کوئی بھی لڑکی دوبارہ سے بھاگنے کی ہمت نہیں کرے گی بھاگنے کے نام پر تمہاری بہن کا انجام سوچ کر ہی کانپے گی اس وقت صبا کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہ نکلے وہ جب کہ مراحل سے گزر رہی تھی چاہتی تھی کہ اپنی سسکیوں کو روک لے اپنے بہتے انسوؤں کو یہیں تھمنے پر مجبور کر دے لیکن بے اختیار تھے کچھ گھنٹے پہلے اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس پر اتنی بڑی قیامت ٹوٹ پڑے گی وہ بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ اس نے غلطی کہاں کی تھی وہ تو سوم و سلاد کی پابند تھی پردہ کرتی تھی کبھی کسی غیر اجنبی کو اس نے نہیں دیکھا تھا اور یہی کوشش کرتی ائی تھی کہ کوئی اسے بھی نہ دیکھے پھر اتنی بڑی زیادتی اس کے ساتھ کیسے ہو سکتی تھی اور کیوں کر ہو سکتی تھی اس نے تو کبھی اللہ کی ناشکری نہیں کی تھی کبھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا بد نظری بھی نہیں کی تھی پھر یہ جلاد شفقت انسان کیوں اس کی قسمت کا حاکم بن بیٹھا تھا گاڑی جیسی حویلی میں داخل ہوئی تو حویلی سجی ہوئی تھی اندر ڈھول کی اواز پہنچ رہی تھی کیونکہ ساجد حسین شاہ کے گھر کی خواتین بارات کے ساتھ نہیں گئی تھی کیونکہ ان کے گھر میں یہ رواج نہیں تھا خواتین گھر میں ہی دلہن کا انتظار کرتی تھی وہیں خوشیاں منائی جاتی تھیں صرف مرد ہی جاتے ہیں بارات لے کر اور دلہن کو رخصت کروا کے لے اتے ہیں لیکن جیسے ہی جیب بڑی تیزی سے حویلی میں داخل ہوئی اعتراف میں کھڑے ڈھول والوں نے ڈھول بجانا شروع کر دیا ملازمین نے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا جبکہ ساجد حسین شاہ کی غلط ناک دھاڑ پر سب کچھ بند ہوا تھا موت جیسا سناٹا چھایا تھا گاڑی میں بیٹھی گھونگٹ میں لپٹی ہوئی صبا پوری کی پوری کانپ گئی تھی ساجد حسین کہنے لگا بند کرو یہ ڈھول میری عزت کا جنازہ نکل گیا میرے ارمانوں کا قتل ہوا ہے کوئی خوشیاں نہیں منائی جائیں گی یہاں پر کوئی پھول نہیں نچھاور کیے جائیں گے سن رہے ہو تم لوگ ملازمین تو اپنا سانس روک کر کھڑے تھے یوں تو گھر کی خواتین کبھی بھی بیرونی جانب جاگنے کی ہمت نہیں رکھنی تھی لیکن اس وقت لانچ کا دروازہ کھلا تھا بی جان سر پر سفید چادر اوڑے باہر ائی تھی تاکہ یہ پتہ لگا سکے کہ اخر قصہ کیا ہوا ہے گھر کی بڑی تھی بزرگ تھی ساجد حسین کی دادی تھی باہر ائی تو ساجد حسین کو غصے سے بپڑا ہوا دیکھا تو متفکر ہوئی تھی اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ پوچھنی بنگلے میں دوسری گاڑیاں بھی داخل ہونے لگی ساجد حسین کے والد تایا اور اس کے کزن سب گاڑیوں سے نیچے کس چیز کا غصہ ایا ہوا ہے کیا ہوا ہے کیا پیاس نے تم لوگوں کی عزت اور احترام میں کوئی کمی چھوڑی ہے یا اس فلموں نے کھانا ٹھیک سے نہیں بنایا ارے 20 لاکھ کی رقم بھجوائی تھی میں نے تاکہ باراتیوں کے استقبال میں کوئی کمی نہ ہو جیسا پوتا تھا ویسے ہی دادی تھی گرتے ہوئے بولی تھی جب حسین شاہ ان کے سامنے ا کر کھڑا ہو گیا ایک گہری سانس تھی اور کہنے لگا اماں جان استقبال میں کوئی کمی نہیں لیکن لڑکی بھاگ گئی تھی یہ سننا تھا کہ بی جان کی رنگت اڑی تھی کہنے لگی ایسے کیسے بھاگ گئی ارے اس نے کیا اپنی موت کو دعوت دی ہے اور اگر لڑکی بھاگ گئی تو یہ کون ہے جیب میں بیٹھی سب کی طرف بھی جان اشارہ کر کے پوچھا حسین شاہ کہنے لگا اپ کو تو پتہ ہے نا ساجد حسین کا اس کی چھوٹی بہن سے نکاح کر کے لے ایا ہے یہ سننا تھا کہ بی جان نے اپنا ہاتھ اپنے کھلے ہوئے منہ پر رکھا کہنے لگی یہ کیا غضب کر دیا ساجد نے معصوم 17 سالہ لڑکی سے نکاح کر کے اگیا بہرحال خاتون ملازمہ کو بی جان اواز لگائی اور فورا ان کی خدمت میں پیش ہو گئیں بی جان کہنے لگی دولہن کو اندر لے اؤ صبا یوں تھی جیسے بے جان مجسمہ ہو چکی ہوں اپنے انے والے وقت کے بارے میں سوچ کر صبا کی روح تک کانپ رہی تھی کہ پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ملازمہ کے ساتھ وہ قدم اٹھاتی ہوئی حویلی کے اندر داخل ہوئی جہاں پر گھر کے تمام مرد اور خواتین موجود تھیں اپنی چادر سے اسے لاونچ میں لگی تیز لڑکی روشنی میں سب کے چہرے کچھ دھندلے سے نظر ارہے تھے سب خواتین حیرت کی تصویر بنی کھڑی تھی اتنی بڑی جرات کوئی لڑکی کیسے کر سکتی ہے جسے ساجد حسین نے عزت دینی چاہی اور وہ اسے ٹھکرا کر گھر سے بھاگ جائیں گھر سے بھاگ جانے کا اس نے سوچا تو سوچا کیسے اتنا بڑا قدم اٹھایا کیسے وہ بھی فیاض احمد کی بیٹی نے جو کہ گاؤں کی مسجد کا امام تھا اور اس کی دوسری بیٹی اس گھر کی عزت بن کر ائی تھی کوئی بھی اسے عزت دینے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن بی جان نے کہا کہ بڑی بہو اسے میرے کمرے میں چھوڑ کر اؤ یہ میرے کمرے میں رہے گی جب تک کہ بی جان کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ استاد حسین کی دھاڑ دار اواز پوری حویلی میں گونجی تھی وہ کہنے لگا نہیں بھی جان یہ اج رات میرے کمرے میں جائے گی اور اس معاملے میں میں کسی کی بات نہیں سنوں گا بی جان کا بھی لہجہ بلند ہوا تھا وہ کہنے لگی ساجد حسین تم بھول رہے ہو کہ تم کس کے سامنے کھڑے ہو اور کس کی بات کا اختلاف کر رہے ہو اج تک تمہارے باپ اور چچا کی ہمت نہیں ہوئی کہ میرے سامنے نظریں اٹھائیں اور تم اس سے اونچے لہجے میں بات کر رہے ہو میری بات سے انکار کر رہے ہو کیا تمہاری نظر میں میری اور میری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ساجد کہنے لگا میں اس وقت بہت غصے میں ہوں بی جان میں غصے سے پاگل ہو رہا ہوں اس لیے میرے اور اس لڑکی کے بیچ میں مت ائیں جو بھی اج میرے اور اس لڑکی کے بیچ میں ایا میں اس کا لحاظ ہرگز نہیں کروں گا حسین شاہ اپنی والدہ کے پاس ایا وہ بھی غصے میں بپڑی ہوئی تھی اس نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور ان کے کمرے میں لے گیا کہنے لگا اماں جان اپ اس وقت شیر کے منہ میں ہاتھ دینے کے بارے میں نہ سوچیں اسے ہوش نہیں ہے بہت ذلت برداشت کی ہے اس نے پوری برادری کے سامنے دھوکا ہوا ہے ہمارے ساتھ اس لڑکی کے ساتھ جو وہ کرے وہ کم ہیں اس وقت اپ کچھ نہ کہیں تو بہتر ہوگا باقی میرا اپ سے وعدہ ہے کہ ساجدہ اپ سے اپنے رویے کی معافی ضرور مانگے گا بی جان کہنے لگی اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے قصور اس کی بہن کا ہے اور اسے ہم پوری سزا دیں گے وہ کہنے لگا جب وہ ملے گی تو اسے عبرت ناک انجام دینا پڑے گا ورنہ ہر لڑکی ہمارے سامنے سر اٹھائے گی اور یہی حرکت کرے گی لیکن بخشی یہ لڑکی بھی نہیں جائے گی کیونکہ اگر ایک بہن بھاگے گی تو دوسری بہن کا ہاتھ بھی اس میں ضرور ہوتا ہے وہ لڑکی اکیلی اتنی بڑی جرات نہیں کر سکتی تھی حسین شاہ کی بات سن کر بی جان کہنے لگی تمہیں پتہ ہے تم کس کے بارے میں یہ بات کر رہے ہو یہ مولوی پیاس کی بیٹی ہے چھوٹی بیٹی حافظ قران ہے باپردہ لڑکی ہے میں جانتی ہوں کہ یہ ایسی نہیں اس کی بڑی بیٹی ویسے بھی اپنے باپ کی ایک نہیں سنتی تھی مجھے تو وہ شروع سے ہی پسند نہیں تھی لیکن ساجد کی ضد کی وجہ سے میں چپ ہو گئی حسین شاہ کہنے لگا اماں جان اپ ارام کریں اپنا بی پی ہائی نہ کر لیجئے گا باقی ہم سب ہیں نا ہم سنبھال لیں گے باہر لانچ میں کھڑی گھونگھٹ نکالے صبا کی سسکیاں حویلی میں ساری خواتین سن رہی تھیں پھر بڑے ناگوار انداز سے بری بیگم نے اس کے ہاتھ کی کلائی پکڑی اور اسے ساجد حسین کے کمرے میں لے جانے لگی ایک ایک قدم صبا پر بھاری گزر رہا تھا پتہ نہیں وہ شخص اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا اس کے ساتھ کیسے بیچ اتا وہ کچھ بھی تو نہیں جانتی تھی اس کا دل اس مگزور زور سے دھڑک رہا تھا خوف کے مارے اس کا روما روما کانپ رہا تھا جب اسے ایک بہت بڑے کشادہ سے کمرے میں رہ جایا گیا وہ لابوں کی مسرور کن خوشبو اس کی ناک سے ٹکرائی تھی چادر کی دوسری طرف اسے غلابی غلاب نظر ارہے تھے جانتی تھی کہ اج کمرے کی سجاوٹ اس کی بہن کے لیے کی گئی تھی بڑی بیگم اسے کمرے میں بٹھا کر جا چکی تھی اور صباح کی حالت اس وقت یہ تھی جیسے اس کی جان نکل جائے گی وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کی بہن رابعہ اتنا بڑا قدم اٹھا لے گی حالانکہ وہ رابعہ سے بہت محبت کرتی تھی دونوں بہنیں ایک دوسرے سے اپنی ہر بات شیئر کرتی تھی بچپن سے ہی بہت اچھی دوستی تھی حالانکہ رابعہ اس نے پانچ سال بڑی تھی لیکن تھی دونوں بہنیں اس لیے اپس میں بہت پیار اور محبت تھا فیاض احمد نے اپنی بیٹیوں سے بھی بہت محبت کی تھی وہ زیادہ امیر نہیں تھے زندگی غربت میں ہی کٹی تھی لیکن پھر بھی کبھی بیٹی کی پیدائش پر ناشکری نہیں کی تھی کیونکہ جانتے تھے کہ بیٹی کی پرورش کرنا اور ان سے پیار کرنا اور محبت سے پیش انا انہیں جنت میں لے جائے گا بیٹا نہ ہونے پر کبھی بھی اس نے لڑائی جھگڑا بھی نہیں کیا تھا بہت با اخلاق قسم کے انسان تھے لیکن رابعہ اور صبا میں بہت فرق تھا صبا کو شروع ہی سے کلام پاک پڑھنے سے بہت لگاؤ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ بہت جلد حفظ کرنے لگ گئی لیکن رابعہ کو جلدی کلام پاک یاد نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ دہان ہی نہیں دیتی تھی اس کی دلچسپی دوسری چیزوں میں زیادہ تھی اس کے گھر میں ٹی وی تو نہیں تھا البتہ پڑوس میں موجود تھا اس لیے اپنے بابا سے نظریں بچاتے ہوئے وہ سہیلی سے ملنے کا بہانہ کر کے پڑوس میں چلی جاتی وہاں جا کر ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی اور گھر ا کر اپنی ساری باتیں صبا کو بتاتی کہ تم تو پورا دن مدرسے میں گزار دیتی ہوں تمہیں کیا پتہ دنیا کیا ہے وہ کہتی مجھے نہیں جاننا مجھے غلام پاک پڑھنے میں ہی سکون ملتا ہے بہت کم عمری میں صبا نے کلام پاک حفظ کر لیا اور نماز بھی بڑی پابندی سے پڑھتی تھی اور اس کے بعد سکول میں بھی داخلہ لیا لیکن جیسے ہی 10 سال سے اوپر کی ہوئی اس نے نقاب کرنا شروع کر دیا کہتی تھی مجھے پردہ کرنا اچھا لگتا ہے پھر گھر کا ماحول بھی تھا اسی لیے اپنی والدہ کو دیکھا دیکھی اس نے برقہ بھی پہننا شروع کر دیا البتہ رابعہ ان چیزوں سے بہت چٹنی تھی باہر جاتے ہوئے تو وہ بھی برقہ پہنتی لیکن سکول جاتے ہوئے نہیں وہ خوبصورت بہت ہی ایک بار صبح سکول سے واپس ائی تو اس کا کمرہ بند تھا گھر کے اندر دو ہی کمرے تھے ایک ڈرائنگ روم ایک کمرہ اس کے والدین کا اور ایک دونوں بہنوں کا اس نے دروازے کو دستک دی کیونکہ تھکی ہوئی سکول سے ائی تھی کپڑے بھی تبدیل کرنے تھے دروازہ بڑی دیر بعد رابعہ نے کھولا جب کھولا تو چہرے پر میک اپ لگا ہوا تھا یہ دیکھ کر صبا بہت حیران ہوئی کہنے لگی اپا یہ کیا کیا ہے اپ نے کیا اپ کہیں جا رہے ہیں وہ کہنے لگی اگلے ہفتے میری سہیلی کی شادی ہے اسی لیے میک اپ کی پریکٹس کر رہی تھی لیکن تمہیں تو پتہ نہیں چین ہی نہیں ہے دروازے کو یوں پیٹ رہی ہو جیسے کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہو صبح جب کمرے کے اندر ائی تو 35 جوڑے بیڈ پر بکھرے پڑے تھے صبا کہنے لگی اپ کو ابا تو ایسے کپڑے نہیں لا کر دیتے یہ کپڑے کہاں سے ائے رابعہ کہنے لگی کہ میری دوست یہی ہے کیونکہ میں جانتی ہوں ابا کو تو ہماری کوئی پرواہ ہی نہیں ہے پتہ ہے یہ مجھے فوزیہ نہیں دیا ہے کہہ رہی تھی میری شادی ہونے والی ہے اب میں یہ کپڑے نہیں پہنوں گی رابعہ بڑی خوش ہو کے بتا رہی تھی کہنے لگی اس کے ابا مہندی شادی ڈھولکی سب رکھنے ہیں ارے ہمارے ابا جو کہتے ہیں کہ سادگی سے شادی کر کے اپنی بیٹیوں کو رخصت کر دوں گا بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی شادی تو ایسے معلوم نہیں ہوتی سوا کہنے لگی اب یہ تو سب فضول کی رسمیں ہیں ان پر پیسہ کیوں خرچ کریں رابعہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہنے لگی تم تو بس چھپ ہی رہو ابا کی چمچی ہو تم پھر کہنے لگی کہ تم چلو گی میرے ساتھ شادی پر صبا کہنے لگی میرے تو پیپر ہیں میں نہیں جاؤں گی صبا کے دسمی کے پیپر تھے اور اس کا سکول میں داخلہ تب کروایا جب وہ حفظ کر چکی تھی اسی لیے کلاس میں سب سے زیادہ عمر میں وہی تھی 17 سال کی عمر میں وہ میٹرک میں تھی بہرحال پھر شادی کی رسمیں بھی شروع ہو گئیں رابعہ تیار ہو کر برقہ پہن کر نقاب کر کے جاتی تھی اسی لیے کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا اس نے کیا پہنا اور کیسی لگ رہی ہے کمرے ہی سے تیار ہو کر برقا بہن کر اپنی اماں سے کہنے لگی میں فوزیہ کی شادی میں جا رہی ہوں اس کی والدہ کہتی کہ جلدی ا جانا وہ جانتی تھی کہ رابعہ کی فودیت سے بہت اچھی دوستی ہے اس لیے اس نے زیادہ روکا ٹوکا نہیں تھا پیاز احمد نے بھی بیٹیوں پر بے جا پابندیاں تو نہیں لگائی تھیں ہاں لیکن کبھی چھوٹ بھی نہیں دی رابعہ فوزیہ کی مہندی پر ڈولہ کی تھا پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ ناچ رہی تھی اہستہ اہستہ اس کی ساری سہیلیاں پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئیں لیکن اسے تو جیسے ہوش ہی نہیں تھا پہلے تو ساری خواتین ہی ذہن میں موجود تھیں ہلا گلا کر رہی تھی لیکن اس کے بعد سب خواتین ایک طرف کھڑی ہو گئی تھیں کیونکہ گاؤں کے جاگیردار اور ان کا بیٹا شادی پر موجود تھا وہ اندر بھی ا چکے تھے حالانکہ فوزیہ کے چھوٹے بھائی نے اواز بھی لگائی لیکن وہ اپنے ناچنے میں اس قدر مگن تھی کہ اسے اس پاس کا ہوش ہی نہیں تھا وہ ناچتے ناشتے جھومتے جھومتے کسی سے جا کر ٹکرائی تھی لگتا تھا کہ ابھی گر جائے گی لیکن کسی کی باہوں کے حسار نے اسے گرنے سے بچا لیا تھا جب رابعہ کی نظریں سامنے کھڑے شخص پر پڑی جس کی باہوں میں وہ مکید ہو چکی تھی تو بری طرح سے گھبرائی تھی کیونکہ وہ جاگیردار کا بیٹا ساجد حسین شاہ تھا جو اسے بری ہی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا رابعہ نے جلدی سے خود کو سنبھالا اور اس کے ہاتھوں کو اپنی کمر سے پیچھے کیا اور پھر اندر کی طرف دوڑ گئی جا کر فوزیہ اور دوسری سہیلیوں کو کہنے لگی کیا تم لوگ مجھے بتا نہیں سکتے تھے اس کی سہیلیاں ہس رہی تھیں کہنے لگی تمہیں ہوش ہی کب ہوتا ہے تم تو جب ناچتی ہو تو بس اگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتی سب کو لگا کہ بات یہیں پر ا کر ختم ہو گئی لیکن ایسا نہیں تھا سلسلہ تو جیسے چل نکلا تھا ایک بار وہ باغ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ائی تھی رابعہ بری لڑکی نہیں تھی بس شوخ مزاج تھی ابھی بھی کمر پر دوپٹہ ڈالے درخت پر چڑھی ہوئی تھی اس کی سہیلیاں کہہ رہی تھیں رابعہ وہ جو بیچ میں ہے نا وہ والی کہہ رہی توڑ کر دو رابیہ کہنے لگی اچھا ٹھیک ہے کہتے کہتے وہ کافی اوپر تک چڑھ گئی کافی بڑا اور گھنا درخت تھا وہ کہہ رہی ہیں توڑ توڑ کر نیچے پھینک رہی تھی اور اس کی دوپٹوں میں بھر رہی تھیں یہ اچانک اس نے وہاں پر درختوں کے بیچ و بیچ گرگٹ نظر اگیا جو کافی بڑا تھا اور زورخ اور ہارے ہڈے رنگ کا تھا یہ دیکھ کر رابعہ چلانے لگی وہیں باغ میں ساجد حسین بھی موجود تھا جو ایک لڑکی کی نسوانی چیخیں سن کر اس طرف جانے لگا یہ باغ اس کا تھا اور بنا اجازت کے وہ لڑکیاں چوری چپے کیلیاں توڑنے کے لیے ائی تھیں جب ساجد حسین کو وہاں اتے دیکھا تو ساری لڑکیاں باغ سے باہر بھاگ گئیں لیکن جہاں پر رابعہ درخت پر چڑھی ہوئی تھی وہ گرگٹ اس کے اتنے قریب تھا کہ وہ نیچے نہیں اتر سکتی تھی وہ اسے سمجھ نہیں ارہی تھی کہ کہاں سے نیچے اترے اوپر سے سامنے سے گرگٹ کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر وہ چلائی جا رہی تھی جب ساجد کی نظر اس حسین دلربا پر پڑی جو کرم دین چاچا کی بیٹی کی مہندی پر اس کے سکھ چین لے کر چلی گئی تھی وہاں پر مالی بھی موجود تھا رابعہ کو دیکھ کر کہنے لگا او تو رابو ہے نا امام صاحب کی بیٹی تو یہاں کیا کر رہی ہے باپ تیرا یہاں پر نیکی کے درس دیتا ہے اور تو چوری کر رہی ہے ونا اجازت کے شاہ صاحب کے باغ کے پھل توڑ رہی ہے مالی غصے سے بولا تھا لیکن ساجد نے اسے کہا تم یہاں سے جاؤ یہ میری مجرم ہے اسے سزا بھی میں خود دوں گا وہ مالی وہاں سے جا چکا تھا رابعہ کو گھبراتا دیکھ کر کہنے لگا کیا ہوا ہے تمہیں لڑکی وہ کہنے لگی گرگٹ ہے میری طرف بڑھ رہا ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے پلیز صاحب جی میری مدد کر دیں اس نے ملتے جلد لہجے میں یہ بات کہی تھی سادی حسین نے اپنی شان اتار کر ایک طرف رکھی اور درخت پر چڑھ گیا جہاں وہ موجود تھی سامنے گرگٹ کو دیکھ کر اس نے ٹہنی کو ذرا سا ہلایا تو وہ گرگٹ دوسری جانب چلا گیا تب جا کر رابعہ کا سانس بحال ہوا پھر اس نے اپنا ہاتھ رابعہ کی طرف بڑھایا اور کہنے لگا اب تمہیں نیچے اتارنے میں میں تمہاری مدد کر دوں رابعہ نے اپنا نازک ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تھا اور بڑی احتیاط سے اس نے نیچے بھی اتارا تھا جیسے وہ نیچے اتری کافی شرمندہ شرمندہ تھی کہنے لگی صاحب جی میں یہاں نہیں ارہی تھی وہ میری سہیلیاں ہیں نا مجھے کھینچ کر لائی تھیں کہتی تھی کہ کیریاں توڑ کر دو لیکن میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے میں نے کوئی چوری نہیں کی میں بالکل بے قصور ہوں رابعہ نے بڑی معصومیہ سے اپنی صفائی پیش کی پھر اپنی کمر سے دوپٹہ کھول کر خود بھر پہننے لگی کیونکہ ساجد حسین کی تیکی نظریں اس پر تھی وہ کہنے لگا چوری تو تم نے کی ہے وہ ایک ایک قدم اس کی طرف ا رہا تھا اور وہ ایک ایک قدم پیچھے ہو رہی تھی وہ کہنے لگی اللہ پاک کی قسم میں نے ایک بھی کیری نہیں لی اپ میرے ہاتھ دیکھ لوں ایک بھی نہیں ہے اس نے اگے بڑھے ہوئے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا اس نے کرم دین چاچا کی بیٹی کی مہندی والے دن بہت خوبصورت لگ رہی تھی اسی دن تم نے میرا دل چرا لیا تھا رابعہ حیران تھی اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ جاگیردار کا بیٹا اسے یوں اظہار محبت کرے گا رابعہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور باغ سے بھاگتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی لیکن گھر جا کر کسی کو یہ نہیں بتایا رابعہ کی بچپن ہی سے اپنے خالہ زات سے بات طے تھی اسے اپنا منگیتر بہت پسند تھا دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن ساری حسین کو جیسے وہ لڑکی بھاگ گئی تھی اور ایسا کیسے ممکن تھا کہ اسے چھوڑ دیتا ویسے بھی اپنے گھر میں وہ بڑا تھا گھر میں دادی کے بعد اس کی کی بات کو اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ بہت جلدی اس نے اس جاگی درانہ نظام کو سنبھال لیا تھا عبدو جیسے ہی سلسلہ چل نکلا جہاں بھی ساجد حسین رابعہ کو کھیتوں میں اتے جاتے دیکھتا تو اپنی گاڑی روک لیتا اور اسے کہتا بیٹھو میں تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ دیتا ہوں لیکن وہ اس کے ارادوں کو بھانپ گئی تھی اسی لیے صاف انکار کر دیتی تھی وہ کہتی کیا میرا راستہ مت روکا کریں وہ کہنے لگا کیا کروں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہوں رابعہ نے کہا دیکھیں میں اپ سے محبت نہیں کرتی اس لیے میرا پیچھا چھوڑ دیں ساجد حسین کہنے لگا محبت بعد میں کر لینا میں ویسے بھی تم سے شادی کا ارادہ رکھتا ہوں اور اچھی بیویاں شادی کے بعد ہی اپنے شوہر سے محبت کرتی ہیں رابعہ نے گہری سانس دی اور اپنے ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی کہنے لگی دیکھیے میری بات غور سے سنیں بس جتنا جلدی ہو سکے اسے اپنے ذہن میں بٹھا بھیے میں اپنے خالہ زاد جمال کو بہت پسند کرتی ہوں اور بچپن سے میرا رشتہ طے ہے ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور شادی بھی میری وہیں ہوگی ساجد حسین نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل ایا اور رابعہ کے سامنے کھڑا ہو گیا وہ کہنے لگا کیا کہا تم نے رابعہ اس کے غضبناک لہجے کو سن کر کچھ گھبرا گئی وہ کہنے لگا جو چیز اجد حسین کو پسند ا جائے پھر وہ اس کی ہو جاتی ہے اج ہی میرا باپ اور میرے چچا تمہارے گھر رشتہ مانگنے ائیں گے تمہارے باپ سے کیسے اس رشتے پر اقرار کروانا ہے میں بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں جب تو میری دلہن بن کر میری وہ جلے عروسی میں اؤ گی تو اپنے دل سے اپنی کزن کی محبت کو کرونچ کر پھینک کر انا میں برداشت نہیں کروں گا کہ میری بیوی کے دل میں کوئی اور بستہ ہو رابعہ کہنے لگی یہ کیا زبردستی ہے میں اپ سے شادی نہیں کروں گی اس سے اگے کہ وہ کچھ کہتی ساجد حسین اس کے منہ پر ہاتھ رکھ چکا تھا وہ کہنے لگا تمہارا انکار تمہارے گھر والوں کو تباہ کر کے رکھ دے گا سوچ سمجھ کر بات کرو کہ تم بات کس کے ساتھ کر رہی ہو میں گاؤں کا کوئی اور نوجوان نہیں جس نے جو چاہو کہہ دو جاگیر حسین شاہ کا بیٹا یہ کہہ کر وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر دھواں اڑاتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا راویہ صحیح معنوں میں پریشان ہو گئی تھی ساجد حسین نے صرف کہا نہیں تھا شام کو ہی اس کے والد اور چچا فیاز احمد کے گھر پر موجود تھے رابعہ کمرے میں بیٹھی انگلیاں چٹخا رہی تھی وہ بے حد پریشان تھی اور سب اؤ اسی کو دیکھ رہی تھی وہ کہنے لگی کچھ دیر بعد ہی اس کے والد اور والدہ کمرے میں ائے اور کہنے لگے جاگیردار اپنے بیٹے کا رشتہ تمہارے لیے مانگ رہے ہیں رابع سن کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی اب اپ جانتے ہیں نا کہ میرا رشتہ طے ہے اور میں جمال کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کروں گی یہ سن کر فیاض احمد نے کہا میں انکار کر چکا تھا لیکن وہ لوگ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ زمین واپس لے لیں گے یہ گھر واپس لے لیں گے ہمارا جینا دو بھر کر دیں گے میں نے تو کبھی تم لوگوں کو بنا پردے باہر نہیں نکالا تو کیسے جاگیردار کے بیٹے کی تم پر نظر پڑ گئی یہ بات سن کر رابعہ کی نظریں جھکی تھیں بہرحال غلطی تجھ سے ہوئی تھی گھر سے وہ نقاب والی چادر پہن کر جاتی تھی لیکن باغ میں جا کر اتار کر ایک طرف رکھ دیتی تھی اور اج اس کی بے پردگی نے اسے یہ وقت دکھایا تھا اس نے ہاتھ جوڑ کر اپنے باپ کے سامنے کہا ابا مجھے یہ شادی نہیں کرنی لیکن پیاز احمد مجبور تھی وہ کہنے لگی میں بے گھر ہو جاؤں گا اس لیے تمہیں شادی یہیں کرنی پڑے گی دونوں میاں بیوی انسو ہی صاف کر رہے تھے رابعہ رونے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی لیکن فائدہ نہیں تھا کیونکہ جاگیدار حسین شاہ اپنے بیٹے سے اس کا رشتہ طے کر کے ہی گیا تھا لیکن جیسے یہ خبر جمال اور اس کے گھر والوں تک پہنچی وہ پیاز احمد کے گھر اگئی کہنے لگے بھائی صاحب بچپن سے ہی اپ نے بچوں کا رشتہ طے کیا ہوا تھا اور ایک دم سے انکار کر دیا جو مال اپنے والدین کے ساتھ ایا تھا باجمال کے والد نے شروع کی تھی کہ اج احمد کہنے لگے میں بے حد مجبور ہوں تم تو جانتے ہو نا ان جاگیرداروں کو ان کے سامنے ہم جیسوں کی نہیں چلتی اور میں یہ نہیں چاہتا کہ میری بچی کی بدنامی ہو جائے کیونکہ یہ لوگ اسے ب کر دیں گے میرا انکار میری زندگی جہنم بنا کے رکھ دے گا میں بہت پریشان ہوں جمال کے ماں باپ تو یہ بات سمجھ گئی لیکن جمال اپنی محبت سے دستبردار ہونا ہی نہیں چاہتا تھا اسی لیے کب ان دونوں نے بھاگ جانے کا پلان بنایا کسی کو خبر تک نہیں ہونے دی شادی والے دن کی دوپہر کو اس نے اپنا کمرہ بند کر لیا کہنے لگی میں خود تیار ہو جاؤں گی لیکن اس کمرے کی کھڑکی پچھلی جانب کھلتی تھی جہاں سے جمال اسے لینے کے لیے پہنچ گیا دونوں ہی بھاگ چکے تھے جب تک بارات ائی تب تک وہ لوگ شہر جانے والی بس میں بیٹھ چکے تھے لیکن جب ارات کے انے کے بعد رابعہ کے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو دروازہ اندر سے لاک تھا دروازے پر بہت دستک دی تھی لیکن کسی نے نہیں کھولا مجبورا دروازے کو دھکا مار کر کھولا گیا تب وہ کمرے میں نہیں تھی بس ایک خط لکھا تھا مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کیجئے گا اور میں جمال کے ساتھ بہت دور جا رہی ہوں کیونکہ میرا رشتہ میرے باپ نے اسی سے طے کیا تھا میں جاگیر کے عتاب کا نشاندہ نہیں بن سکتی اور یہ میرا جائز حق ہے یہ خط پڑھ کر دونوں میاں بیوی سر پکڑ کر بیٹھ کے اور رونے لگے بات باہر تک جا پہنچی تھی یہ خبر جب حسین شاہ اور ساجد حسین تک پہنچی تو قیامت برپا ہو گئی تھی کیونکہ وہ برادری کے بڑے بڑے بزرگ کے ساتھ ائے تھے دوسرے گاؤں سے بھی کافی زمیندار ائے تھے اور ان سب کے سامنے ساجد حسین کو اپنی سب سے بڑی تذلیل لگی تھی وہ کمرے میں ایا رابعہ کا خط پڑھ کے پھاڑ کر پھینک دیا پھر کہنے لگا زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے یہ باتال میں بھی ہوگی تو بھی میں اسے ڈھونڈ نکالوں گا اور جس دن یہ مجھے مل گئی اس دن اس کا واشر کروں گا کہ گاؤں کی ہر لڑکی کانپے گی لیکن میں خالی ہاتھ بھی نہیں جاؤں گا وہ یہ تو نہیں جانتا تھا کہ سبا کون ہے کیسی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی تھی بس اسے یہ پتہ تھا کہ فیاض احمد کی دو بیٹیاں ہیں اسی لیے اس نے پنچایت مٹھائی اور فیصلہ بھی اپنی مرضی سے کروایا کہ وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جائے گا اور اب وہ اپنی دلہن کو رخصت کروا کے لے کر ہی جانا چاہتا تھا رابعہ بھاگ گئی ہے تو پھر فیاز احمد اپنی دوسری بیٹی کا نکاح اسے کرے گا یہ ظلم کرتے صبا پر جیسے اسمان ٹوٹا تھا وہ تو ویسے ہی بہت گھبراتی تھی وہ بہت کم عمر تھی ابھی تو اس نے دسویں کے پیپرز دیے تھے اور بالکل بے قصورتی لیکن بہن نے جو کچھ کیا تھا اسے بدلے میں جانا پڑا اور اب کمرے میں بیٹھی بری طرح سے خوفزدہ تھی کہ پتہ نہیں ساجد اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ساجد بھی بڑے جارحانہ انداز میں کمرے میں داخل ہوا تھا کمرے کا دروازہ بھی بڑے زور سے بند کیا تھا جیسے جیسے وہ قدم بڑھا رہا تھا اس کے قدموں کی اہٹ سے صبا کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا وہ جیسی بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھا صبا سمٹ سی گئی تھی ساجد بڑے غضناک لہجے سے بولا تھا اج کی رات تمہارے ساتھ گزارنے کے بعد میں تمہیں کل صبح طلاق دے دوں گا تاکہ تمہارے گھر والوں کو معلوم ہو کہ بددامی کسے کہتے ہیں یہ کہہ کر ساجد نے بڑی بے دردی سے صبا کی چادر پیچھے ہٹائی تھی بہن کی شادی تھی اسی لیے صبا نے پنک رنگ کی پیک سی پہنی تھی حالانکہ جانتی تھی کہ بہن ناخوش ہے لیکن یہ بھی پتہ تھا کہ وہ بے پردگی کرتی تھی باز نہیں اتی تھی صبا کے کہنے پر نہ اپنے ماں باپ کے کہنے پر صبا نے پنک رنگ کی پیک سی پہنی تھی اور تیار بھی ہوئی تھی رونے سے گاجر بہل چکا تھا لیکن یہ اس کے حسن کو دوبالا بھی کر چکا تھا بڑے غصے سے ساجد نے پہلی نظر اس پر ڈالی لیکن پھر نظریں ہٹانا بھول گیا وہ بہت کم عمر سی لڑکی تھی جو اس وقت ڈری سہمی اس کے سامنے بیٹھی تھی خوف کے مارے صبر نے اپنی دونوں انکھیں بند کر لیں خوف کے مارے اس کے ہونٹ بھی کپکپا رہے تھے بڑی محویت سے ساجد حسین صباح کو دیکھ رہا تھا
جو کہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ معصوم بھی تھی اور کم عمر بھی اس کی انکھوں سے انسو بہہ رہے تھے ساجد نے جب اس لڑکی کو کپاتے اور زرد ہوتی رنگت کے ساتھ دیکھا تو اپنے غصے پر کنٹرول کر کے وہ پیچھے ہٹ کر کہنے لگا جاؤ جا کر اپنے کپڑے تبدیل کرو اور صوفے پر جا کر سوچا یہ سن کر سبق اپنے کانوں پر یقین نہیں ایا اسے تو لگا تھا کہ اج پتہ نہیں وہ ظلم نے اسے کچھ نہیں کہا تھا شاید اس کی کم عمری پر رحم اگیا یا اس کی معصوم شکل دیکھ کر یہ تو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ایک دم سے اسے ہوا کیا صبح جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور الماری میں رکھی ہوئی ام لباس کو جا کر پہن لیا اپنی میتھی اس نے الماری میں رکھ دی تھی تب تک ساجد بیڈ پر لیٹ چکا تھا انکھیں بھی بند کر چکا تھا صبا نے اہستگی سے تکیہ اٹھایا صوفے پر جا کر لیٹ گئی لیکن دسمبر کا مہینہ تھا سردی بہت زیادہ تھی اور کمبل ایک ہی تھا جسے ساجد لے کر سویا ہوا تھا اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے لیے اس سے کمبل یا کوئی کمفرٹر مانگ لیتی اسی لیے خاموشی سے صوفے پر لیٹ
Best Urdu Romantic Font Stories
گئی لیکن رات کو سردی کے معرف سے نیند نہیں ارہی تھی کافی دیر جاگتی رہی جب کچھ نہ بن پڑی تو اپنی میکسیلماری سے نکال کر وہی اپنے اوپر روڈ کر سونے کی کوشش کرنے لگی کچھ ہی دیر میں وہ سو چکی تھی رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب ساجد کی انکھ کھلی اس نے کروٹ بدلی تو انکھیں کھول کر دیکھا سبز لوفے پر سو رہی تھی اور اپنی اوپر وہی میکسی لی ہوئی تھی شاید زردی کی وجہ سے یہ دیکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا پہلے تو دل میں خیال ایا کہ الماری کے تیسرے خانے میں رکھا ہوا کمبل اس پر ڈال دیں لیکن پھر رابعہ کا خیال ایا تو غصہ انے لگا یہ بھی اسی کی بہن ہے پھر وہ اس پر کیوں رحم کھائے جس کی بہن نے ساری برادری میں اس کی نا کٹوا دی اچھا ہے سردی سے کانپتی رہے دوبارہ سے کمبل اٹھ کر سو گیا دوسری بار اس کی انکھ کلام پاک کی تلاوت پر کھلی اس نے انکھیں کھول کر دیکھا تو صبا جائے نماز بچھائے انکھیں بند کیے کلام پاک کی تلاوت کر رہی تھی یہ سن کر اٹھ کر بیٹھ گیا سبا کی انکھوں سے انسو بہہ رہے تھے اور وہ صورت رحمان پڑھ رہی تھی وہ کافی خوش الحانی سے بڑھ رہی تھی اس کی اواز بہت پیاری تھی پہلی بار ایسا ہوا کہ ساجد جو بڑی توجہ اور بڑی دلچسپی سے وہ سن رہا تھا جیسے ہی صبر نے سورۃ رحمن کی تلاوت ختم کی دعا مانگی تو جائے نماز سمیٹ کر کھڑی ہو گئی لیکن سامنے بیڈ پر ٹیک لگائے اس نے جب ساجد کو دیکھا تو نظر جھکا گئی ساجد کہنے لگا تمہاری دعائیں تمہیں ذلت سے نہیں بچا سکتی جو میں تمہیں دوں گا رات کو تو میں نے تمہیں بخش دیا تھا لیکن ضروری نہیں میں تمہیں روزانہ بخشتا رہوں مجھے ایک بار رابعہ کے ملنے کا انتظار ہے اس نے اس کی سزا دینے کے بعد تمہیں بھی میں طلاق دے دوں گا یہ مت سمجھنا کہ تمہیں بخش دوں گا اور میں تمہیں اپنی بیوی بنا کے رکھوں گا عزت دوں گا میں ایسا کچھ نہیں کروں گا اسی لیے یہ وظیفے تمہارے کام نہیں ائیں گے تمہارے گھر والے نہیں بچائیں گے تم پر طلاق کا دھبہ نہیں مٹائیں گے وہ کہنے لگی اگر میرے اللہ نے میری قسمت میں یہ سب لکھا ہے تو میں نہیں روک سکتی جس طرح اس نے کہا کو نہیں روک پائی کیونکہ اللہ نے اپ کو میرے نصیب میں لکھ دیا تھا میں جا کر بھی انکار نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اپ کر پائے جو ہونا تھا ہو گیا کیونکہ میری قسمت میں اپ کو لکھا گیا تھا اگر میرے اللہ کی مرضی ہوئی تو یہ رشتہ بھی میں اپنی اخری سانس تک نبھاؤں گی اور اگر بدنامی ہی میرے نصیب میں لکھی ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر جا چکی تھی اور ساجد کو حیران کر چکی تھی وہ اس کم عمر لڑکی سے اتنی بڑی بات کی امید نہیں رکھتا تھا حویلی میں سب خواتین فجر کے بعد ہی اٹھ جاتی تھیں اور ملازمین بھی لیکن مرد حضرات اپنی مرضی سےاٹھنے کے مالک تھے جب یہ جانے سبق کو صبح سویرے کمرے سے باہر دیکھا تو اپنے پاس بلا لیا اس وقت وہ صرف وہی اٹھی ہوئی تھی نماز پڑھ کے کمرے سے باہر ائی تھی صبا اس کے صوفے پہ بیٹھے دیکھا تب اپنے پاس بلا لیا وہ خاموشی سے بھی جان کے پاس ائی اور انہیں سلام کیا اس معصوم کا عمر لڑکی پر انہیں بہت پیارا رہا تھا بی جان سے اپنے کمرے میں جانتی ہوں ساجد حسین کا غصہ بہت تیز ہے لیکن وہ بھی برا نہیں ہے اس نے بے شک غصے اور تیش میں تم سے نکاح کیا لیکن میں جانتی ہوں اہستہ اہستہ وہ ٹھیک ہو جائے گا صبا نے بی جان سے کوئی بات نہیں کی کہ ساجد کا ارادہ کیا ہے وہ تو اسے رکھنا ہی نہیں چاہتا کچھ ہی دیر میں بڑی بیگم اور چھوٹی بیگم بھی جاگ گئی تھی جب صبا کو بھی جان کے کمرے میں دیکھا تو اسے کہنے لگی تم باہر ا جاؤ کیونکہ بی جان ناشتے کے بعد ارام کریں گی بی جان کا ناشتہ بڑی بیگم نے ہی بنایا تھا وی جان کو ناشتہ کروا کر اس نے دوا دی اور بے جان سو گئی صبا کمرے سے باہر ا چکی تھی بڑی بیگم نے بڑے ناگوار لہجے سے اس کی بات کی اور کہنے لگی تم جیسے لوگوں کو میرے بیٹے نے عزت دینا چاہتی تھی تم کیا سمجھتی ہو کہ میرے بیٹے کے لیے رشتوں کی کمی تھی وہ جس لڑکی پر ہاتھ رکھتا اس گھر میں ہم رشتہ لے کر جاتے وہیں سے ہمیں بڑی عزت سے رشتہ مل جاتا میرے بیٹے نے تو محبت میں زاد برادری اور ہم لوگوں کو بھی نہیں دیکھا اور تمہاری کم ظرف مہن کو پسند کر لیا اور بڑی عزت سے اسے شادی کرنا چاہی لیکن وہ اس قابل ہی نہیں تھی کہ جاگیر گھرانے کی بہو بنتی صبا نے کہا کہ رشتے زبردستی سے نہیں کیے جاتے اپ کے شوہر اور اپ کے دیور نے زبردستی میری بہن کا رشتہ میرے والد سے طے کروا کر گئے تھے میری بہن کی بچپن سے ہی میری خالہ ذات کے ساتھ بات طے تھی اور میری بہن اسی سے شادی کے لیے رضامند تھی وہ بار بار کہتی رہی کہ مجھے شادی نہیں کرنی پر اپ کے شوہر اور دیور نے میرے باپ کو دھمکیاں دے دی یہ سننا تھا کہ ایک دوردار تھپڑ بڑی بیگم نے صبا کے منہ پر دے مارا وہ کہنے لگی کم ظرف ہمارے اگے زبان چلاتی ہے تیز زبان کھینچ کر منہ سے نکال کر باہر پھینک دوں گی تمہیں میں اس گھر میں کبھی بھی بہو کی حیثیت سے قبول نہیں کروں گی تم ایک زرفرید غلام کی طرح یہاں پر زندگی گزارو گی اور میں اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھائی کی بیٹی سے کروں گی اور تمہارے سامنے کروں گی صبا کہنے لگی مجھے کوئی اعتراض نہیں اپ جہاں چاہیں اپنی بیٹی کی شادی کر سکتی ہیں بڑی بیگم کہنے لگی جاؤ کچن میں اج کے بعد سارے ملازمین کا خانہ اور گھر کے افراد کا خانہ تو میں اکیلے پکاؤں گی اور کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرے گا صبا خاموشی سے کچن میں چلی گئی سب کے لیے کھانا بنانے لگی پورا دن اس کا کچن میں گزرا کیونکہ سارے کام اسی نے کیے تھے بڑی بیگم ساجد سے بھی کہہ چکی تھیں کہ یہ لڑکی تمہاری پسند کی نہیں ہے نہ ہی تمہیں اس سے محبت ہے اس لیے ہم جیسا چاہیں اس کے ساتھ سلوک کریں گے اور تم دوسری شادی بھی ضرور کرو گے وہ بھی میری بھتیجی کے ساتھ ساجد نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے تو صرف رابعہ کی تلاش تھی اپنے بہت سے ملازمین کو اس کام پر لگا چکا تھا کہ جہاں رابعہ اور اس کے شوہر کو دیکھے پکڑ کر فورا سے پہلے اس حویلی میں لے ائے تب اچا سارے کام خاموشی سے کرتی تھی لیکن جیسے ہی اذان ہوتی تھی وہ نماز پڑھنے چلی جاتی اور بڑی بیگم کو اس بات پر بھی اعتراض تھا وہ کہتی تھی پہلے کام کرو نماز بعد میں پڑھنا وہ کہنے لگی کہ میرا رب پہلے ہے اور دنیا بعد میں میں نماز نہیں چھوڑوں گی اور دنیا کے کام کے لیے اپنی نماز قضا بھی نہیں کروں گی اس بات پہ بڑی بیگم نے اسے بہت مارا تھا کہنے لگی تمہاری زبان بہت چلتی ہے ایک بار یہ منظر ساجد نے بھی دیکھ لیا کہ اس کی ماں صبا کو اس بات پر مار رہی تھی کہ وہ پہلے نماز پڑھنا چاہتی تھی اور گھر کے کام بعد میں کرنا چاہتی تھی یہ دیکھ کر اسے کچھ افسوس نہ ہوا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ نماز کی پابند ہے کیونکہ صبح صبح اس کی انکھ صبح کی کلام پاک کی تلاوت سے ہی کھلتی تھی پہلی بات اگے بڑھ کر اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑا تھا وہ کہنے لگی کیوں مار رہی ہو اپ اسے کیا کیا ہے اس نے صبا کے چہرے پر پانچ انگلیاں چپی ہوئی تھیں اور وہ رو رہی تھی بڑی بیگم کہنے لگی تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی میرا ہاتھ چھوڑو یہ بہت زبان دراز لڑکی ہے ساجد کہنے لگا مجھے پتہ ہے اس نے کیا کہا اپ سے کیا گالی دی ہے بدتمیزی کی ہے اسے میں خود ماروں گا مجھے بتائیں اس کا قصور کیا ہے بڑی بیگم کہنے لگی کہتی ہے پہلے نماز پڑھوں گی پھر کام کروں گی یہ ہوتی کون ہے میرا کام بعد میں کرنے والی وہ کہنے لگا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے اگر پہلے نماز پڑھنا چاہتی ہے تو پڑھ سکتی ہے اور میرے خیال سے ہم بھی مسلمان ہیں اسے وقت سے نماز پڑھنے سے تو کوئی نہیں روک سکتے اپ کل کو اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گی یہ سن کر بڑی بیگم ٹپسی ہو گئی پھر اس نے صباح سے کہا کہ جا کر نماز پڑھو باقی کا کام بعد میں کر لینا وہ فورا سے اٹھ کے لنگراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی کیونکہ بڑی بیگم نے اپنے پاؤں کی جوتی سے اس کے پیر کو بھی زور سے دبایا تھا پھر وہ کرا کے رہ گئی تھی ساجد نے اپنی والدہ سے کہا کہ اج کے بعد اسے نماز کے لیے مت روکیے گا پہلی بار ساجد کو لگا کہ اس کے دل میں صبا کے لیے ہمدردی کا جذبہ جھانکا ہے رات کو جب وہ صوفے پر جا کر سونے کے لیے بیٹھی تو ساجد کافی دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا اس کی رنگت پہلے سے بہت زیادہ پیلی پڑ چکی تھی لیکن اج تک اس نے شکوی نہیں کیا تھا کوئی شکایت بھی نہیں کی تھی ساجد کی ہر چیز کا خیال رکھتی تھی اس کے کپڑے اسے پریس ملتے تھے اس کے جوتیوں سے ہمیشہ صاف کر کے خود پہناتی تھی اس کے سر پر عزت کی پگڑی بھی رکھتی تھی جو کہ جاگیرداروں کی شان ہوتی ہے شکوہ نہیں کیا تھا کوئی شکایت نہیں کی تھی پھر کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے دل کو صبا کے لیے دھرکنے سے روک سکتا صبح جب اسے صبا کی تلاوت کی اواز ائی توہوا کہ وہ وضو کر کے ایا تھا جیسی صبا جو ہے نماز اٹھانے لگی تو کہنے لگا بیچا رہنے دو مجھے نماز پڑھنی ہے ساجد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اہستہ اہستہ وہ بدلنے لگا تھا نماز بھی پابندی سے پڑھنے لگا تھا اور اسی کا یہ بدلاؤ بی جان کو بہت اچھا لگا تھا وہ خود بھی صبا کی بہت تعریف کرتی تھی انہیں وہ بہت اچھی لگتی تھی ہر وقت سر پہ دوپتی کام کرتی رہتی تھی دو ماہ گزر چکے تھے لیکن اب ساجد کا دل مکمل طور پر صبا کی طرف مائل ہو چکا تھا اسی لیے ایک رات اس نے اس سے بڑی عزت سے اپنے بیڈ پر لٹایا تھا اور بڑی محبت سے نکاح کے پاکیزہ رشتے کو نبھایا تھا لیکن ایزلی صبح اس سے پتہ چل گیا کہ جمال اور رابعہ شہر میں رہ رہے ہیں ان کا پتہ لگ چکا تھا اور اس خبر نے پوری حویلی میں تہلکہ مچا دیا تھا دونوں کو پکڑا جا چکا تھا اور وہ حویلی میں ہی لائے جا رہے تھے جب صبا نے ہاتھ جوڑ کر منت کی تھی اس کی بہن کو کچھ نہ کہا جائے لیکن ساجد چپ تھا جیسے رابعہ اور جمال کو ساجد کے پاؤں میں لا کر پھینکا گیا تو جمال اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کہنے لگا خدا کی قسم ہمارا کوئی قصور نہیں سوائے اس کے کہ ہم نے اپنا جائزہ کے استعمال کیا ہے ساجد نے جمال کا ہاتھ پکڑا تو رابعہ کو لگا جیسے اس کو جان سے مار ڈالے گا لیکن وہ کہنے لگا کہ میں نے تم دونوں کو معاف کیا تم لوگ اسی گاؤں میں رہ سکتی ہو منہ سے چھپنے کی ضرورت نہیں سب لوگ ساجد کا فیصلہ سن کر جتنا بھی حیران ہوتے اتنا ہی کم تھا اس کے بعد شاہ حسین نے پوچھا کہ تم نے معافی کیوں کیا ہے وہ کہنے لگا میری قسمت میں صبا تھی بابا جان اور پتہ نہیں میری کون سی نیکی کا صلہ مجھے صبا کی صورت میں ملا ہے جس کی خدمت نے محبت نے اور دینداری نے مجھے بالکل بدل کے رکھ دیا میرے دل میں کسی کے لیے کوئی بھی نفرت نہیں ہے میں سمجھ گیا ہوں کہ رشتے جبرا مسلط نہیں کیے جاتے جو قسمت میں ہوتا ہے وہی ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے اور صبا میرے لیے ہر لحاظ سے بہتر ہے
2 Comments
Add a Comment