14 Sal Ki Namal is a heart-touching Short Romantic Urdu Novel filled with love, emotions, and societal struggles. A captivating tale that keeps you hooked till the end.

Best Short Romantic Urdu Novel
یہ گاؤں کے جرگے کا منظر تھا جہاں سارے گاؤں کے آدمی کھڑے تھے قتل تو ہوا ہے اس لیے بدلہ تو لیا جائے گا سردار صاحب اپنے ازلی سخت لہجے میں بول رہے تھے اور ایک سائیڈ گاؤں کا غریب کسان کرم دین کھڑا تھا ٹھیک ہے سردار صاحب وہ اپنا سر جھکا چکا تھا سردار صاحب کچھ دیر سوچتے رہے جیسے کہ تم ہماری زمینوں پر ہی کام کرتے ہو تو ہم تمہاری جان نہیں لیں گے کیونکہ تم ساری زندگی ہماری زمینوں پر ہی کام کرتے رہو گے یہی تمہاری سزا ہے لیکن قتل کا بدلہ تمہیں اپنی بیٹی ونی میں دینی ہوگی ان کی بات سن کر ایک پل کے لیے سارے جرگے میں سناٹا چھا گیا کرم دین بے حد حیرت اور بے یقینی سے دیکھا وہ سردار صاحب کے فیصلے پر اف بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہی ان لوگوں کے رواج تھے۔
اگلے آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی نسیمہ سے کہا کہ جلدی سے بیٹی کو چادر دو نسیمہ بڑی حیران ہوئی کیوں کیا ہوا ہے تو کرم دین ساری بات نسیمہ کو بتا دی اور نسیمہ کا دل ڈھڑکنا بھول گیا یہ کیا کہہ رہے ہیں کیا مطلب وہ میری بیٹی کو ونی لے جانا چاہتے ہیں ابھی میری بیٹی کی عمریں کتنی ہے وہ صرف 14 سال کی بچی ہے نسیمہ کا تو جیسے سانس اٹک گیا تھا میں کچھ نہیں کر سکتا مجبور ہوں ان لوگوں کو میری جان نہیں چاہیے یہ ان کی شرط ہے کہ انہیں ونی ہی چاہیے وہ سر جھگا گئے اور دروازے میں کھڑی 14 سالہ نمل نے حیرت سے اپنے ماں بآپ کو دیکھا ابا کیا بات ہے آپ کیوں رو رہے ہیں وہ فورا ان کے پاس ائی تھی کرم دین نے اس کے سر پر۔
ہاتھ رکھا میری بیٹی میری ہر بات مانتی ہو نا تو میری ایک بات مانو گی انہوں نے اسے بہلاتے ہوئے پوچھا تو نمل نے سر ہلایا گاؤں والے چاہتے ہیں کہ تمہیں بڑی حویلی لے جائیں پھر تمہیں وہیں رہنا ہوگا اس کے بعد تمہیں ہم سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی اگر تم نہیں گئی تو وہ پھر مجھے مار دیں گی اور ان کی بات سن کر نمل کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ایک رنگ جا رہا تھا وہ اپنے بآپ کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اس لیے مان گئی ٹھیک ہے ابا میں چلوں گی لیکن آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی صحیح کہتے ہیں کہ بیٹیاں ہی والدین کے لیے قربانی کا بکرا بن جاتی ہیں وہ چادر لے کر اپنے بآپ کے ساتھ جرگے میں جانے کے لیے نکل چکی تھی وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اسے یہ۔
ونی اور نکاح کا شاید علم بھی نہ ہو اور وہ تھی بھی بہت معصوم خیر کرم دین اسے لے کر حاضر ہو چکا تھا اور ایک سائیڈ کھڑا سردار صاحب کا پوتا بے حد حیرت اور بے یقینی سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا وہ خود ابھی محض 18 سال کا تھا لیکن دادا زبردستی اسے حویلی سے بلا کر یہاں لے کر ائے تھے اور اسے زبردستی نے کہا کے لیے راضی بھی کر چکے تھے حالانکہ وہ یہ نکاح کرنا ہی نہیں جاتا تھا کچھ ہی دیر میں 18 سالہ دراب شاہ کا نکاح 14 سالہ نمل سے ہو چکا تھا اس نکاح کا کیا انجام ہونا تھا اور اس کے بڑوں نے کیا سوچ کر یہ فیصلہ کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا اور اس وقت دراب شدید پریشان تھا کیا یہ اس کی شادی کی عمر تھی ابھی تو اسے پڑھنا۔
تھا کچھ بننا تھا لیکن یہ دادا نے اسے کہاں پھنسا دیا بس گاؤں کے سردار تھے رحیم صاحب ان کا ایک ہی بیٹا تھا رحمان خان اس کے تین بیٹے تھے بڑا بیٹا فیصل خان تھا چھوٹا بیٹا دراب خان اور اس سے چھوٹا سا ابراہیم خان کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ادھی رات کے وقت غلطی سے کرم دین کی بندوق سے گولی چلی اور فیصل خان کو لگتی ہے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا تھا اور کرم دین کو لگا شاید کوئی لٹیرا کھیتوں میں گھس گیا ہے وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ سردار صاحب کا پوتا ہے اور اسی وجہ سے اب اس کے جرگے میں پیشی ہو رہی تھی ان کا دل بہت تکلیف میں تھا نسیمہ بیگم نے کس طرح دل پر پتھر رکھ کر اپنی بیٹی کو جدا کیا تھا وہی جانتی تھی اس کے بآپ نے اخری بار بیٹی۔
.کو دیکھا شاید اب ساری زندگی اسے دیکھ نہ سکے
ونی کا مطلب کیا ہوتا ہے وہ بہت اچھے سے جانتی تھی وہ لوگ اسے حویلی لے گئے اور وہ بآپ خالی ہاتھ گھرلوٹ گیا اسے لگ رہا تھا جیسے آج سب کچھ ہار گیا ہوں نمل ان سب کے ساتھ اتنی بڑی حویلی میں داخل ہوئی وہ کسی چھوٹی سےبچے کی طرح ایکسائیٹڈ ہوتی ساری حویلی دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں جگنو چمک رہی تھی اس نے زندگی میں پہلی بار حویلی کو اندر سے دیکھا تھا ورنہ ہر بار بس دور سے ہی دیکھتی تھی کیونکہ خان حویلی گاؤں سے کچھ فاصلے پر تھی کافی بڑی تھی اور بہت خوبصورت تھی اس کے پیچھے ہی دو ملازمہ تھی دادا اور دراب کہاں گئے تھے فی الحال کسی کو نہیں پتہ تھا اور نمل تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ اس گھر کی۔
بہو بن گئی ہے بس اسے اتنا پتہ تھا یہاں رہنا ہے اماں نے بس یہی کہا تھا کہ اگر وہ کوئی بھی کام کہیں تو کر دینا جس طرح ملازمہ کام کرتی ہیں اس طرح کام کرنا ہے کیونکہ ونی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لڑکی کو بدتر سے بدتر سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے وہ ملازمہ کی سنگت میں چلتی ہوئی حویلی کے اندر داخل ہو چکی تھی اور بہت خوشی سے ساری حویلی کو دیکھ رہی تھی حویلی کے لاونج میں ہی ایک خاتون اور ایک پچیس سالہ خوبصورت اور جوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی وہ تو ابھی تک گھوم کے ساری حویلی دیکھے جا رہی تھی وہ گول گول گھومتی ہوئی آس پاس دیکھ رہی تھی سلام بی بی جی ایک ملازمہ نے اس عورت کو سلام کیا وعلیکم السلام کون ہیں یہ ان کے لہجے میں ایک نرمی اور ٹھہراؤ تھا بی بی جی کرم۔
دین کی بیٹی ہے اور سردار صاحب نے اس کا نکاح اس کا نکاح چھوٹے بابا سے کر دیا ہے ان کی بات سنتے ہی شگفتہ بیگم کے چہرے کا رنگ اڑ گیا انہیں یقین نہیں آیا اتنی چھوٹی بچی کا نکاح کر دیا یہ ابو جی نے کیسا فیصلہ کر دیا خیر تم جاؤ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ملازمہ کو جانے کا بولا لیکن ملازمہ حیران تھی لیکن بی بی جی اس کا کیا کرنا ہے نوکرانی کی بات سن کےبیگم صاحبہ غصے سے بولیں ادب سے بات کرو اس حویلی کی بہو ہے جاؤ یہاں سے ملازمہ سر ہلاتی چلی گئی اور وہ لڑکی جو ساری باتیں سن چکی تھی ایک ہی جھٹکے سے اٹھی اور آگے بڑھتے نمل کے چہرے پر ایک تھپڑ دے مارا یہ سب اتناچانک ہوا کہ نمل سمجھ تک نہ سکی شگفتہ بیگم فورا اٹھی اور اس تک پہنچی یہ کیا کر رہی ہو بیٹا حوصلہ۔
رکھو انہوں نے اس لڑکی کو دونوں کندھوں سے پکڑا اور نمل پھٹی پھٹی نگاہوں کے ساتھ اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی امی آپ مجھے کہہ رہی ہیں میں حوصلہ کروں اس لڑکی کے باپ کی وجہ سے میرا شوہر مجھ سے جدا ہو گیا میرا بچہ یتیم ہو گیا اور آپ کہہ رہی ہیں میں صبر رکھوں وہ لڑکی غصےاور بے بسی سے چیختے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روپڑی بے ساختہ نمل کو دکھ ہوا اسے تھپڑ پڑنے سے وہ تکلیف نہیں ہوئی جو اس لڑکی کی حالت دیکھ کر ہوئی شگفتہ بیگم نے اسے اپنے گلے لگا لیا بیٹا صبر کرو خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور وہ بس ایک حادثہ تھا اور اس میں اس لڑکی کا کیا قصور ہے وہ شدید صدمے سے پوچھ رہی تھی تو کیا کروں اماں میرے دل کو سکون نہیں مل رہا آپ جانتی ہیں نا۔
میں فیصل کے بنا جینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور انہیں مجھ سے چھین لیا گیا ہے وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی نمل قدم قدم چلتی اس کے پاس آئی اور اس کندھے پر ہاتھ رکھاکیا ہوا باجی اس نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ شگفتہ بیگم کی آنکھوں میں نمی چمک پڑی اور اریبہ نے ایک منٹ سے پہلے اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے دور جھٹکا خبردار اگر میرے قریب آئی یا مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی انگلی اٹھاکر اس نے نمل کو اتنے غصے سے تنبی کی کہ نمل کے چہرے پر خوف نمودار ہوا ۔وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی اور نمل صوفے پر بیٹھی ہوئی بے یقینی سے اس کی پشت کو دیکھ رہی تھی پھر اس نے چہرہ پلٹ کر شگفتہ بیگم کو دیکھا انہیں کیا ہوا وہ کیوں رو رہی تھی اس۔
کی اتنی معصومیاں دیکھ کر شگفتہ بیگم کے لبوں پر تبسم بکھر گیا کچھ نہیں بیٹا اس نے اپنا شوہر کھو دیا ہے اس لیے وہ تکلیف میں ہے تم اسے معاف کر دینا وہ بہت اچھی ہیں بس غم سے برا بنا دیا ہے انہوں نے نرمی سے نمل کی وہیں گال تھپ تھپائی جس پر عریبہ نے تھپڑ مارا تھا نمل نے بنا کچھ کہے اس بات پر سر ہلایا بالکل ویسے جیسے اچھے بچے بات مانتے ہیں اور آپ کون ہیں اور وہ کون تھی اس نے معصومیت سے اشارہ کرتے سوال پوچھا اور شگفتہ بیگم نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی تم مجھے اماں کہہ سکتی ہو کیونکہ رشتے میں تمہاری اماں لگتی ہوں اور جو ابھی گئی ہے اس کا نام عریبہ ہے تم اسے اپنی ہی آپی کہہ سکتی ہو نمل حیران نگاہوں سے شگفتہ بیگم کو دیکھ رہی تھی لیکن آپ میری۔
اماں کیسے ہو سکتی ہیں میری اماں تو وہ ہیں جو گھر میں ہمارے ساتھ رہتی ہیں اس کی اتنی معصوم باتیں سن کر شگفتہ بیگم کو ناچاہتے ہوئے بھی ہنسی ا ٓرہی تھی دیکھو ہر لڑکی کی دو اماں ہوتی ہیں ایک وہ جس نے آپ
کو پال پوس کا بڑا کیا ہوتا ہے اور ایک اماں وہ ہوتی ہے جہاں آپ
کی شادی ہو کر جاتی ہوں اس گھر میں ایک اماں ہوتی ہے اور لفظ شادی پر نمل پھر حیران رہ گئی کیا میری شادی ہو گئی ہے اس نے اتنی معصومیت اور حیرت سے پوچھا کہ شگفتہ بیگم کا قہقہ لاونج میں گونج اٹھا بالکل تمہاری شادی ہو گئی ہے ان کی بات سنتے ہی نمل کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ہیں لیکن شادی کہاں ہوئی میرا ہیرو کہاں ہے میں تو تیار بھی نہیں ہوں میں دلہن ہی نہیں بنی تو شادی کیسے ہو۔
گئی وہ بے حد بدہواس ہوئی تھی اور شگفتہ بیگم نے بہت مشکلوں سے اپنی ہنسی روکی تھی دیکھو ضروری نہیں ہوتا کہ شادی تب ہی ہو جب آپ
دلہن بن کر تیار ہوں نکاح کا مطلب شادی ہے اور تمہارا نکاح ہو چکا ہے میرے بیٹے کے ساتھ ابھی کچھ دیر میں آتا ہی ہوگا تو تم اسے مل لینا وہ تمہارا شوہر ہے اور اچھی بیویاں شوہر کی عزت کرتی ہیں سمجھ رہی ہو نا شگفتہ بیگم نے اسے سمجھایا اور اس نے اس بات میں سر ہلایا اتنے میں حویلی میں دادا جان اور دوراب خان داخل ہو چکے تھے دراب کی دادا سے کافی بحث ہوئی تھی اور دادا کا یہ کہنا تھا کہ یہی مناسب حل تھا کیونکہ سارے جانتے تھے کہ وہ قتل نہیں بس ایک حادثہ تھا اس لیے انہوں نے نہ ہی کرم دین کو قتل کیا اور نہ ہی جرگے۔
کے اصولوں کے خلاف گئے تھے اس طرح ان کی بیٹی ونی ہو کر اگئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ونی والا
سلوک کریں گے۔۔
ادھر ا ٓو۔ آپ
شگفتہ بیگم نے اسے مخاطب کیا وہ فورا اماں کے پاس آیا نمل یہ تمہارا شوہر ہے اس کا نام دوراب خان ہے تمہیں اس کی عزت کرنی ہے اماں تو بس شروع ہو چکی تھی اور دوراب کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے یا یہاں سے بھاگ جائیں نہ جانے اسے کیا کیا سمجھا رہی تھیں بات کے آخر میں وہ دوراب کی طرف پلٹی جاؤ اسے کمرے میں لے کر جاؤ اور اپنا کمرہ دکھاؤ اور یہ بات سنتا درا ب بے حد حیرت اور بے یقینی کا شکار ہوا کیا یہ میرے کمرے میں رہے گی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگ چکا تھا ہاں بھئی کیوں تمہارے کمرے میں رہے گی۔
اخر تمہاری بیوی ہے اماں پرسکون تھی لیکن اسے سمجھ نہیں ارہی تھی ایک تو کم عمری میں نکاح اوپر سے وہ اس کے کمرے میں بھیج رہی تھی وہ دانت پیس کر رہ گیا اماں پلیز اس حویلی میں اتنے سارے کمرے ہیں کہیں بھی اسے ٹھرا دیں لیکن میرے سر پر سوار مت کریں نمل جواس کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھی اس کی آنکھوں میں نمی سی اکھٹی ہوئی اسے پہلے ہی نظر میں دراب کافی مغرور لگا ان کے ساتھ نہیں رہوں گی وہ جو ماں سے بحث کر رہا تھا اچانک ہی وہ درمیان میں خفی سے منہ پھیلاتی بول اٹھی یہ دونوں ماں بیٹے نے حیرت سے اسے دیکھا کیوں بیٹا تم اس کے ساتھ کیوں نہیں رہو گی شگفتہ بیگم نے سوال پوچھا دیکھ نہیں رہی انہیں بالکل پسند نہیں ہوں کس طرح کہہ۔
رہے ہیں کہ میں ان کے سر پر سوار ہو گئی ہوں نمل کسی کے سر پر سوار نہیں ہوتی مجھے کوئی شوق نہیں لوگوں کی زندگیوں میں زبردستی گھسنے کا اس نے اتنی گہری بات کر دی کہ ایک پل کے لیے اماں اور دراب دونوں کے چہروں کی ہوائیاں اڑی تھیں اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی سمجھداری کی بات کی اسے توقع نہیں تھی اماں نے جن نظروں سے دوراب کو دیکھا وہ شرمندہ سا ہو کر رہ گیا اچھا ٹھیک ہے وہ جیسے ہار مان گیا تھا اور ماں کی ہر بات تو وہ پہلے ہی مان لیا کرتا تھا شگفتہ بیگم کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا حویلی میں صرف دادا جان شگفتہ بیگم ان کے دو بیٹے اور ان کی بہو عریبہ تھی کیونکہ فیصل کا انتقال ہو چکا تھا اور فیصل کا ایک شیرخواہ اور بچہ تھا بہت چھوٹا تھا۔
اسی لیے تو عریبہ نے فیصل کی موت کا اتنا غم لیا تھا ۔وہ اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور نمل خفگی سے منہ پھلاتی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی یقینا اسے ابھی تک دوراب کی وہ بات سر پر چڑھنے والی پسند نہیں آئی تھی وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہی داخل ہو گئی اور کمرہ دیکھ کر تو نمل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ بہت ہی بڑا اور بہت ہی شہانہ بیڈ روم تھا اور نمل تو کسی بچے کی طرح خوش ہو گئی تھی یہ میرا کمرہ ہے اور دھیان رکھنا میری کسی بھی چیز کو ادھر ادھر مت کرنا مجھے اپنی چیزیں بکھری ہوئی پسند نہیں ہیں وہ تو اس طرح ہدایت دے رہا تھا جیسے وہ سارا کمرہ بکھیر دے گی اس کی بات سنتے نمل کا چہرہ غصے سے پھول گیا۔
میں کوئی بگڑی ہوئی بچی نظر آتی ہوں جو سارے کمرے کا سامان بکھیر دوں گی وہ غصے سے بولی تھی اور دوراب نےحیرت سے اس کو دیکھا ایک تو پتہ نہیں دادا نے کہاں پھسا دیا تھا وہ بس نفی میں سر ہلاتا رہ گیا ہے بنا کچھ کہیں وہ سٹیڈیبل پر بیٹھ چکا تھا اور وہ بیڈ پر بیٹھی اچھل کود کر رہی تھی دوراب ڈسٹرب ہو رہا تھا پلیز تم یہ اچھلنا کودنا بند کر دو ایک جھٹکے سے اپنی کرسی گھماتا وہ غصے سے بولا اور نمل کے منہ کے زاویے بھی بگڑ گئےوہ بیڈ پر ایک سائیڈ ہو کر بیٹھ گئی اور دوراب نے سکون کا سانس لیا۔وہ کافی وقت سے پاکستانی ڈرامہ دیکھتی تھی اس لیے اتنا تو پتہ ہی تھا کہ ہیرو کیسے ہوتے ہیں لیکن اسے دورا ب بالکل بھی۔
پسند نہیں آرہا وہ بہت زیادہ سخت تھا وہ سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا اپنی پڑھائی کر رہا تھا نہیں اب میرے دوست کیا کہیں گی یونیورسٹی جانے کی عمر میں میری ایک قدر بی بی بھی آ چکی ہے کیا قسمت ہے یار اہستہ آواز میں ہڑ بڑا رہا تھا۔
سنیں جب اچانک ہی وہ اس کے کان میں بولی اور دوراب لمحوں میں سیدھا ہوا اس کے بالکل پاس کھڑی تھی اور سٹڈی ٹیبل پر جھانک رہی تھی دوراب کو جیسے ہار ٹ اٹیک آتے آتے بچا اس نے اچانک آ کر اس طرح ڈرایا کہ وہ واقعی خوف زدہ ہو گیا تھا اب کیا مسئلہ ہے وہ جھنجھلاہی گیا تھا وہ مجھے بھوک لگ گئی ہیں اس نے بہت ہی معصومیت سے کہا اس کی چادرگھرتی ہوئی کندھوں تک ا ٓچکی تھی اور پہلی بار دوراب نے اس کا چہرہ بہت غور سے دیکھا
ایک پل کے لیے ساکت رہ گیا وہ 14 سال کی عمر میں ہی کافی خوبصورت تھی گہری سرمئی آنکھیں سفید گندمی رنگت اس کے گہرے بھورے بال اس کے نقش نین کچھ ایسے تھے کہ وہ بہت خوبصورت تھی دوراب کچھ لمحوں کے لیے جیسے اس کے خوبصورت چہرے میں کھو گیا مجھے بھوک لگی ہے نمل کو لگا شاید وہ سن نہیں رہا اس لیے دوبارہ اپنی بات پر زور دیا تو دوراب ہوش میں آیا ہاں رکو ملازمہ سے کہہ کر تمہارے لیے کچھ منگواتا ہوں کیا مصیبت ہے یار اب سکون سے پڑھ بھی نہیں سکوں گا پڑھنے کی عمر میں ایک بچی سنبھالنی پڑے گی شدید پریشانی کا شکار تھا اور ایک بار پھر نمل کو غصہ ا ٓگیا کتنی بار کہا ہے میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں پوری 14 سال کی ہوں ایٹ کلاس میں پڑھتی ہوں اپ۔
کو کیا پتا اور دراب نے بہت دلچسپی سے اس کی سرخ ہوتی ناک کو دیکھا جیسے سارا غصہ اس کا ناک میں سمٹ آیا ہو وہ کچھ ہی گھنٹوں میں جان گیا تھا اس لڑکی کو اپنی ناک بہت عزیز ہے کس طرح اپنی انا کی خاطر کیسے بار بار بولتی تھی کچھ ہی دیر بعد نوکرانی کھانا دے کر جا چکی تھی اور ایک سائیڈ بر پر بیٹھی وہ کھانا کھا رہی تھی وہ جو سکون سے بیٹھا پڑھائی تھا رہا تھا اچانک اس کا فون بج اٹھا اس نے فون اٹھایا اس کےکسی کلاس فیلو کا فون تھا فون پر بات کرنے کے بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی وہ فورا سے باہر نکلا اور بھاگتا ہوا دادا کے پاس پہنچا باہر ہی لاونج میں دادا اور اماں باتوں میں مصروف تھی ماما مجھے آپ
کو بہت۔
ضروری خبر دینی ہے خوشی اس کی لہجے سے ایا ں تھی ارے بھائی کیا ہو گیا ہے اماں نے حیرت سے پوچھا وہ اماں کے پاس ہی بیٹھ گیا اماں میں نے لندن یونیورسٹی میں گریجویشن کے لیے اپلائی کیا تھا اور وہاں سے مجھے سلیکشن کی کال اگئی ہے مجھے کال آگئی ہے مجھے اسی ہفتے لندن جانا ہوگا اماں میں بہت خوش ہوں میں اپنی ڈگری لوں گا اس کی بات سنتے ہی اماں اور دادا دونوں کے چہرے کے رنگ اڑگئے تھے یہ کیا کہہ رہے ہو تم ملک سے باہر جا کر پڑھائی کرو گے دادا بھی کافی حیران تھے ہاں دادا وہاں کی ڈگری زیادہ اچھی ہے بس آپ
لوگ سمجھے نا مجھے اپنی پڑھائی کرنی ہی کرنی ہے اور کب تک واپس اؤ گے اماں نے دہل کر پوچھا چار پانچ سال تو لگ ہی جائیں گی اور اس ماں نے حال ہی۔
نے اپنا ایک بیٹا کھویا تھا اور اب دوسرا بیٹا کسی نے اماں کو کلیجے کو ہاتھ مارا تھا لیکن شگفتہ بیگم نے دل پر پتھر رکھ دیا وہ اپنے بیٹے کے چہرے پر سارے جہان کی خوشی دیکھ سکتی تھی اور نمل کا کیا ہوگا انہوں نے اپنی سنجیدگی سے پوچھا اماں کیا ہو گیا وہ بھی چھوٹی بچی اسے پڑھائیں لکھائیں اور مجھے بھی پڑھنے دیں خدارا اس کے لہجے میں نمل کا ذکر کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ نمایاں ہو گئی تھی اس کے بعد اماں نے کوئی بحث نہیں کی اس نے ایک ہفتے میں بھاگ دوڑ کی اور اپنے سارے ڈاکومنٹس کی ہار کے لیے اس ایک ہفتے میں وہ بالکل ہی نمل کو فراموش کر بیٹھا تھا نمل سارا سارا دن شگفتہ بیگم کے پاس بیٹھی ان سے بات کرتی رہتی پھر انہوں نے خود ہی سوچا کہ نمل کا ایڈمیشن کروا دیتے ہیں انہوں۔
نے نمل کا ایڈمیشن سکول میں کروا دیا تو وہ وہاں بزی ہو گئی لیکن اسے دراب کا رویہ چھبتا تھا بے شک وہ 14 سالہ بچی تھی لیکن پھر بھی دل میں یہ بات کہیں نہ کہیں کہ چونکہ مار کر بیٹھ گئی تھی کہ وہ اس کا شوہر ہے اور اس کے ساتھ بے رخی والا سلوک برت رہا ہے وہ رات کو کمرے میں اتا تو نمل ایک سائیڈ پر بیڈ پر پڑی سوئی ہوتی ہیں اور کم سے کم نمل کے ساتھ یہ کمرے میں رہنے کا تو سوچنے والا بھی نہیں تھا اس لیے خاموشی سے نیچے والے کمرے میں چلا گیا اور بالاخر چھ دن بعد وہ لندن کے لیے چلا گیا پانچ سالوں کے لیے اسے نمل کو ایک بار خدا حافظ کہنا بھی گوارا نہیں کیا اس کی طرف دیکھا تک نہیں اور نمل بے شک وہ بچی تھی لیکن پھر بھی۔
اس کا دل بہت زیادہ اداس ہو گیا تھا گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اریبہ کا رویہ نمل کے ساتھ ٹھیک ہونے لگا وہ اکثر اریبہ کے بیٹے کے ساتھ کھیل بھی اور باقاعدگی سے سکول جاتی تھی گزرے عرصے میں وہ کبھی اپنے ماں بآپ سے نہیں ملی لیکن وہ اس حویلی میں بہت اچھے طریقے سے رچ بچ گئی تھی دادا اماں ابراہیم اور عریبہ ساری اسے بہت عزت اور محبت دیتی تھی وہ دل لگا کر اپنی پڑھائی کر رہی تھی دورآپ مون بھی کٹتا تو صرف اماں سے بات ہوتی یا دادا اور ابراہیم سے اس نے کبھی فون پر نمل کا پوچھا ہی نہیں تھا جیسے اسے یاد ہی نہیں تھا کہ وہ ایک نسوانی وجود کو اپنے نکاح میں لے کر چھوڑ کر ا چکا ہے وہاں جا کر بہت زیادہ خوش رہنے لگا تھا گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نمل نے کبھی اس۔
کا ذکر نہیں کیا اس کا دل چاہتا تھا وہ پوچھے وہ کیسا ہے لیکن اس نے کبھی بھی شگفتہ بیگم سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی یہ دورآپ کیسا ہے وہ اس کا ذکر ہی نہیں کرتی تھی جیسے وہ اس حویلی کا فرد ہی نہ ہو اسی طرح کرتے کرتے پانچ سال گزر گئے نمل جو پہلے ہی بہت خوبصورت بچی تھی اب ایک جوان دو شیزا میں بدل چکی تھی اس کی خوبصورتی مزید بڑھ گئی تھی اس نے ایف ایس سی بہت اچھے مات کے ساتھ بات کی تھی اتنی محنت کی تھی شگفتہ بیگم چاہتی تھی کہ اریبہ دوسری شادی کر لی لیکن اس نے صاف صاف منع کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ وہ فیصل کے علاوہ زندگی میں کسی دوسرے مرد کا تصور بھی نہیں کر سکتی وہ اپنے بیٹے کو نہ تو چھوڑ کر جائے گی نہ ہی کوئی سوتیلاباپ۔
دے گی وہ بہت اچھی اور بہت مضبوط لڑکی تھی اماں نے بھی کوئی بحث نہیں کی اور نمل اب کافی سمجھدار ہو گئی تھی اس کی معصومیت تو شاید اب کہیں دفن ہو گئی تھی یا پھر وہ معصومیہ صرف دوراب کے سامنے نمایاں ہوتی تھی وہ بہت سلجھ گئی تھی سمجھدار تھی اسے اپنے ماں بآپ
اتنے یاد نہیں آتے تھے جتنا دوراب یاد ا ٓتا تھا جب بہت زیادہ یاد آتی اور تکلیف ہوتی تو اس کے کمرے میں ا کر اس کی تصویر کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے دل کی تکلیف کو قابو کرنے کی کوشش کرتی وہ جانتی تھی دوراب اسے پسند نہیں کرتا اور بچپن میں وہ نکاح صرف مجبوری میں ہوا تھا شاید وہ واپس آتے ہی اسے طلاق نامہ تھما دے کر چلتا کرے گا
اور نمل کو اس دن سے بہت ڈر لگتا تھا گزرے عرصے کے ساتھ ساتھ اس کے دل۔
میں دوراب خان کے لیے محبت پیدا ہوتی گئی تھی وہ کسی صورت نہیں چاہتی تھی اس نے کبھی نہیں چاہا کہ دوراب اسے چھوڑ دیں لیکن دوراب اسے پسند نہیں کرتا تھا اور یہ بہت بڑی حقیقت تھی جسے وہ جھٹلا بھی نہیں سکتی تھی دوراب کے جانے کے بعد اس نے اماں سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کمرے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیں وہ نہیں چاہتی تھی دوراب کی کوئی چیز آگے پیچھے ہو وہ چاہتی تھی جب دوراب واپس آئے تو اس کی ہر چیز اسی جگہ پر ملی یہ پانچ سال دوراب نے کیسے گزارے یہ نمل نہیں جانتی تھی لیکن اس نے ہر ایک پل کانٹوں کی سیج پر گزارہ تھا جہاں صرف تکلیفیں ہی تکلیفیں تھی اب وہ 19 سالہ سمجھدار لڑکی تھی وہ بچی نہیں رہی تھی ایک دن اماں اور اریبہ آپی بازار گئی ہوئی تھی اور وہ لاؤنج میں بیٹھی۔
ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھتی تھی جب لاؤنج کا ٹیلی فون تھا تھرا اٹھا وہ ریموٹ رکھتی ہوتی ہے صوفے سے اٹھی اور ٹیبل تک آئی پھرفون کان سے لگایا تو دوسری طرف ہیلو کی آواز ابھری ۔ جی کون کس سے بات کرنی ہے سنجیدگی سے سوال پوچھا اس کی آواز سن کر کچھ پل کے لیے دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ ارے بھائی جب بات ہی نہیں کرنی تو فون ہی کیوں کیا تھا نمل جیسے جھنجلا ہی گئی اسے پہلے ہلے وہ فون کاٹتی سپیکر سے آواز آئی دوراب خان بات کر رہا ہوں اماں سے بات کرواؤ اس کے لہجے میں حکم تھا اس کی آواز گزرے سالوں میں کچھ بھاری سی ہو گئی تھی اور نمل کی جان کچھ پل کے لیے رک گئی
سالوں بعد اس کی آواز سنی لیکن پھر وہ ہوش میں آئی اور بنا اسے کوئی جواب دیے فون ٹھک۔
سے بند کر دیا پانچ منٹ بعد دوبارہ فون آنے لگا لیکن اس بار نمل نے تو فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا فون بار بار آ رہا تھا اور وہ ڈرتی صوفے پر جا کر بیٹھ گئی اس کا موڈ بہت ہی زیادہ اداس ہو گیا تھا سارے کام چھوڑتی ہوئی وہ اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی وہ دوپہر کی سوئی تھی اور اب مغرب ڈھل گئی تھی وہ جب کمرے سے باہر نکلی تو اس نے دیکھا حویلی میں کافی خوش گپیوں کی آواز آرہی تھی وہ حیرت سے ڈائننگ ٹیبل تک آئی لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر نمل کا سانس رک گیا پورے پانچ سال بعد وہ واپس آگیا تھا ہاں نمل اسے پہچان سکتی تھی بے شک اس کا حلیہ کچھ بدل گیا تھا لیکن نمل نے اس کی تصویروں کو اتنا دل میں بسا لیا تھا کہ وہ اسے دیکھ۔
کر پہچان سکتی تھی وہ مسکرا مسکرا کر دادا جان شہگفتہ بیگم اریبہ ابراہیم سے باتیں کر رہا تھا اور اچانک عمر کی نظر نمل پر پڑی وہ اریبہ کا بیٹا تھا چاچی اس کی آواز سے سارے خاموش ہو گئے اور نمل جیسے ہوش میں آئی فورا پلٹ کر اوٹ میں چھپ گئی آنکھوں کے سامنے پانچ سال پرانا منظر ابھرا جب اسے چھوڑ کر لندن چلا گیا تھا نہ اسے یہ کہا کہ وہ واپس آئے گا نہ اسے خدا حافظ کہا کیا وہ اتنی عام اور بےکار تھی کہ اسے اس طرح اگنور کیا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ کیا ہوا عمر بیٹا اماں نے اس سے پوچھا کچھ نہیں دادی ابھی تو چاچی یہیں کھڑی تھی وہ حیرت سے خالی لاونج کو دیکھ رہا تھا وہ تو پھر اوٹ میں چھپ چکی تھی ایک بار کے لیے دراب خان کی نظریں پلٹ کر اس سے دوچار ہوئی۔
لیکن پھر وہ دوبارہ ان کی طرف متوجہ ہو گیا کچھ منٹ بعد ہی نمل نے جھانک کر دیکھا سارے اس طرف متوجہ تھے وہ دوبارہ کمرے میں بھاگ گئی نہ جانے کیوں اسے اتنا رونا آ رہا تھا دل چاہ رہا تھا پھوٹ پھوٹ کرروئے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا تو اماں نے ملازمہ کے ہاتھ کمرے میں کھانا بھجوا دیا وہ کھانا تو کھا چکی لیکن ساری رات روتے ہوئے سوئی تھی نہ جانے اسے اتنی تکلیف کیوں ہو رہی تھی اس نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ نمل کہاں ہے وہ واقعی اس کے لیے اہم نہیں تھی رات کو نہ جانے کب اس کی انکھ لگ گئی تھی اس لیے وہ گئے دن تک سوتی رہی شایدگیارہ بجے کا وقت تھا جب وہ کمرے سے باہر نکلی اور بس دل میں دعائیں کر رہی تھی کہ اس سے سامنا نہ ہی لیکن نہیں۔
جانتی تھی کہ قسمت اتنی جلدی اس کو دوبارہ سامنا کرا دے گی۔وہ سیڑھی اتر کر نیچے بھاگنے کی کوششوں میں تھی جب سیڑھیوں کے درمیان میں وہ اس چوڑے وجو سے جا کر ٹکرائی اہ سر پھوڑ دیا لگتا ہے کسی دیوار سے ٹکرا گئی وہ آہستہ آواز میں بڑبڑائی دوراب
ہوئی اپنا سرمسل رہی تھی اور دوراب
کی نظریں اس کے آر پار ہو رہی تھی دوسری جانب مکمل خاموشی محسوس کی اس نے چہرہ اٹھا کر دیکھا اور اپنے سامنے دوراب کو دیکھ کر وہ پتھر ہی ہو گئی اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رک گیا اس کے اتنے قریب تھا اور اتنے قریب سے اس کا چہرہ دیکھنے کے بعد نمل فیصلہ نہ کر سکی کہ وہ دور سے خوبصورت لگتا ہے یا قریب سے اچانک دوراب نے چٹکی بجائی تو وہ جیسے ہوش میں ہے بنا دوراب کی۔
طرف دیکھیں بنا کوئی بات کریں وہ نیچے بھاگ گئی اس کے جانے کے بعد اور دوراب کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ رقص کر گئی وہ جانتا تھا نمل اس سے ناراض ہے ناشتہ کرنے کے بعد وہ کچن میں ہی ہوتی تھی یہ اس کی عادت تھی وقتا دوپہر کو کھانا اپنی مرضی کا بنا کر ساری حویلی والوں کو کھلاتی تھی مہرون رنگ کی فراک پہن رکھی تھی دوپٹہ گلے میں جھول رہا تھا بالوں کا جوڑا کیے وہ بریانی بنا رہی تھی جب اچانک اسے لاونج سے کسی کی باتوں کی آواز آئی وہ تجسس کے مارے باہر نکلی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر کسی نے اس کی آنکھوں میں مرچیاں سی بھر دی۔ دوراب لاونج کے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سامنے ہی ایک 20 ،21 سالہ لڑکی پینٹ شرٹ پہنے میک آپ
کیے کافی امیر اور۔
سٹائل کی وہ لڑکی قہقے لگا لگا کر کسی بات پہ ہنس رہی تھی اور دوراب مسلسل مسکرا رہا تھا ہاں یہ منظر دیکھتی اس کی سرمئی آنکھوں میں تکلیف ابھری تھی تو یقین ہو چکا تھا کہ وہ دوراب کی زندگی میں کوئی اہمیت رکھتی نہیں ہے اپنی تکلیف اور آنسو روکتی ہوئی وہ دوبارہ کچن میں بھاگ گئی دوپہر اتر آئی تھی وہ ملازمہ کے ہاتھوں سارہ کھانہ ٹیبل پر لکھوا چکی تھی سارے حویلی والے تو سوائے دادا جان کے اس وقت ٹیبل پر ہی موجود تھی وہ جو کچن سے نکلی اور اوپر جانے کی تگ و دو میں تھی شگفتہ بیگم نے اسے مخاطب کر لیا نمل ادھر آؤ وہ رکی اور پھر ان کی طرف واپس پلٹ گئی کہاں جا رہی ہو یہاں آؤ بیٹھ کے کھانا کھا لو اماں کے لہجے میں آج بھی ممتا جیسی محبت تھی وہ چاہ۔
کر بھی ان کو منع نہ کر پائی حیرت تب ہوئی جب اس نے دوراب کے پہلو میں اسی لڑکی کو بیٹھے ہوئے دیکھا جو دوپہر سے کچھ دیر پہلے تو دوراب سےباتیں کرتی ہوئی یہاں بیٹھی تھی نمل کے اندر جیسے کسی نے آگ کی چنگاری بھڑکادی اماں مجھے بھوک نہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کی تو بھوک ہی مر گئی تھی انہیں یہ کہتے ہوئے وہ واپس سیریاں چڑھتی اوپر چلی گئی اور دوراب نے افسوس سے اس کی پشت کو دیکھا دو منٹ تک وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا رہا لیکن پھر سکون نصیب نہیں ہو رہا تھا فور اڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا تم کہاں جا رہے ہو عریبہ نے پوچھا بھابھی میں اسے دیکھ کر آتا ہوں اس کے لہجے میں کتنی بے چینی تھی اماں اور اریبا نے صاف محسوس کیا دونوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص ہوئی وہ اس کے۔
کمرے کی طرف بڑھا کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پر بیٹھی بے آواز آنسو بہا رہی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر نمایاں ہو رہا تھا کہ کس طرح وہ لڑکی قہقے لگا لگا کر دوراب خان سے باتیں کر رہی تھی وہ اس کے پاس بیڈ پر ا ٓکر بیٹھ بھی چکا تھا لیکن نمل اپنے خیالوں میں اتنی کھوئی ہوئی تھی کہ اس کا آنا بھی محسوس نہ کر سکی دوراب نے دیکھا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا دوراب نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو وہ بخار سے تپ رہی تھی دراب کے ہاتھ رک رکھنے سے جیسے وہ چونک کر خیالوں سے باہر نکلی اور بے یقینی سے اپنے کمرے میں دوراب کو دیکھا آپ
یہاں کیا کر رہے ہیں وہ بے حد بدحواس ہوئی تھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہیں اتنا تیز بخار ہوا ہے تم نے کسی کو بتایا کیوں نہیں اس کی بات۔
کو اگنور کیے فکر مندی سے سوال پوچھ رہا تھا۔ کیوں بتاؤں کسی کو کون سا میری پرواہ ہے اور میں لگتی ہی کیا ہوں ان سب کی وہ اچانک ہی غصے سے چیخ پڑی اور دوراب جانتا تھا کہ اتنے سالوں کی بے رخی کا نتیجہ ہے نمل تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے چلو میڈیسن لینے چلتے ہیں دوراب۔
نے اس کی بات کو اگنور کیے سنجیدگی سے جیسے حکم سنایا ۔نہیں جانا مجھے کہیں بھی آپ کے ساتھ جائیں یہاں سے پانچ سال بعد آگئے ہیں مجھ پر اپنا حق جتانے دوسری بات وہ خفی سے منہ ہی منہ میں بڑبڑائی لیکن اس کی اواز ۔۔اتنی تھی کہ دوراب
سن سکا اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تم مجھ سے ناراض کیوں ہو بتا ہیدو دوراب نے جیسے ہتھیار پھینکے اور نمل نے میں یقینی سے اسے دیکھا اچھا تو یہ بھی میں آپ بتاوں پانچ سالوں آپ کو ایک بار یہ یاد نہیں آیا کہ۔
کوئی بیوی بھی ہے اس کے لہجے میں تکلیف تھی آنکھوں سے انسو جھلک رہے تھے اور دوراب اس کی تکلیف کو سمجھ سکتا تھا تمہیں کس نے کہا کہ تم مجھے یاد نہیں آئی پورے پانچ سال تک میں تم سے بات کرنے کے لیے ترستا رہا جب بھی اماں یا آپی سے کہتا تم سے بات کروا دوںوہ ایک ہی بات کہتی تم بات نہیں کرنا چاہتی تو بتاؤ اس میں میرا کیا قصور ہے پورے پانچ سال میں نے صرف ایک بات کہی یہ صرف ایک بار نمل کو کہیں کہ مجھ سے بات کر لی لیکن ان کا یہی جواب ہوتا تھا کہ تم بات نہیں کرنا چاہتی اور نمل کی آس پاس دھماکے ہونے لگے اسے یاد آیا شگفتہ بیگم اور اریبا بھابھی نے تین چار بار اسے۔
کہا تھا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہاری دوراب سے بات کروا دیں گے لیکن اس نے کہہ دیا تھا کہ اسے اس شخص کا ذکر ہی نہیں کرنا نمل ایک دم سے شرمندہ ہو کر رہ گئی ہاں میں جانتا ہوں تب میں بہت چھوٹا تھا لڑکپن کی عمر تھی فیصلے کرنے کی سمجھ بوجھ نہیں تھی میں نے تمہیں یہاں رہتے ہوئے اگنور کیا وہ الگ بات تھی لیکن وہاں جا کر مجھے اپنی غلطی کا ہر گزرتے دن پچھتاوا ہوتا تھا میں تم سے اتنا غصہ تھا کہ دل چاہتا تھا تم سے بات ہی نہ کروں کل جب تم نے فون اٹھایا تو میں پہچان گیا تھا کہ تم بات کر رہی ہو لیکن میں نے اماں سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا کیونکہ تمہارے لیے تو میرے پاس وقت ہی نہیں تھا لیکن جب واپس آیا تو تمہیں ایک نظر دیکھنے۔
کے بعد ہی ساری ناراضگی ہوا ہو گئی چلو اب تم اپنا منہ ٹھیک کرو دیکھو تمہاری غلطی تھی تو غلطی میری بھی ہے دواراب اس کے پاس بیٹھا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا لیکن پھر بھی آپ
کو معاف نہیں کروں گی وہ اچانک ہی سوں سوں بولی تو دوراب حیران ہوا اور اب کیا مسئلہ ہے وہ جو نیچے لڑکی بیٹھی ہے جس کے ساتھ ہنس کر باتیں کر رہے ہیں وہ لڑکی آپ
کو نظر آگئی اور اپنی بیوی نظر نہیں آئی آپ
نے مجھ سے میری خیریت جاننے کی بھی کوشش نہیں کی وہ وہ جیلس ہو رہی تھی یہ دیکھ کر کے دوراب کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی ارے کچھ بھی نہیں ہے وہ کہہ رہی تھی کہ میں اسے بہت اچھا لگتا ہوں تو میں نے کہا کہ میں بھی شادی شدہ ہوں اگر یہ یقین نہیں ہوتا۔
Heart Touching Romantic Urdu Novel
تو میری بیوی کو ا کر دیکھ لو تو بس وہ تمہیں دیکھنے کے لیے ہی آئی تھی میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ میری بیوی سے زیادہ حسین لڑکی اس دنیا میں کوئی نہیں ۔دوراب کی آنکھوں میں شرارت تھی اور نمل حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے مزید قریب ہوتا اس کے کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا سچ کہوں تو تمہیں پہلی نظر میں دیکھا تھا تو سیدھی دل کے اندر اتر گئی تھی لیکن تب میں اپنی کیفیت سمجھنے سے انجان تھا پانچ سال دور رہا تو قدر اگئی ہے وہ اہستہ سے سرگوشی کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھ چکا تھا اور یہ تو تاریخ گواہ تھی کہ انسان کا رویہ گزرتے وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے اور وہ تو پانچ سال حویلی سے باہر رہ کر ایا تھا اور پانچ سالوں میں اس کا بیہیویئر۔
اس کا سوچنے سمجھنے کا انداز اس کا سلوک سب کچھ بدل گیا تھا چلو میرے کمرے میں آ جاؤ میرا کمرہ تمہیں بہت مس کرتا ہے دورآپ
نے اس کے بال کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے کہا نہیں مجھے نہیں آنا آپ
تو ہر وقت پابندیاں لگاتے ہیں یہاں نہ بیٹھو اس چیز کو ہاتھ نہ لگاؤ یہ اور وہ وہ برے برے منہ بناتی بہت کیوٹ لگ رہی تھی نہیں تم جس چیز کو مرضی ہاتھ لگانا جیسے مرضی رہنا چاہے تو سارا کمرہ تباہ کر دینا میں کچھ نہیں کہوں گا دوراب نے اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیا اور نمل سارے غم بھول کر جیسے مسکرا اٹھی اس نے ایک لمبا انتظار کیا تھا اور انتظار کا پھل اتنا اچھا ہوتا ہے اسے اندازہ نہیں تھا بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے.۔
1 Comment
Add a Comment