Main Hun Badnaseeb Romantic Urdu Novel | Part 12 – A Heartfelt Journey of Love & Struggles

Main Hun Badnaseeb is a captivating Urdu novel that immerses readers in a world of romantic love stories, heartbreak, and emotional struggles. In Part 12, the journey deepens with unexpected twists, betrayal, and passionate encounters. This Urdu font story offers a compelling mix of love, betrayal, and complex relationships. If you enjoy Urdu fiction, romantic Urdu novels, and emotional storytelling, this is a must-read chapter in the series.

Main Hun Badnaseeb

Main Hun Badnaseeb Romantic Urdu Novel, Part 12

Read Here Part 11 Main hun badnaseeb

” دیکھ لیا انجام اپنے غصے کا ۔۔ ؟؟ کہا تھا نا تمہیں کہ کچھ عرصہ صبر کر لو ۔۔ لیکن تمہیں بس دشمنی نبھانی تھی ۔۔ اب چلا گیا ہمارا بیٹا ۔۔ “

عباس اور حُرّہ کے جاتے ہی سردار شیر دل سردار بی بی پر دھاڑے تھے یہ بات ان سب کے لیے ناقابل یقین تھی کہ عباس اپنی بیوی کو لے جا چکا تھا

” مم میرا بیٹا ۔۔ !”

سردار بی بی کو حقیقتاً حیرت ہو رہی تھی کہ ان کا بیٹا اتنا بڑا فیصلہ کر سکتا ہے

” کیا پایا ہے تم نے اپنی نفرت کے بعد ۔۔ ؟ بیٹی تو پہلے ہی کھو ہی دی تھی  ۔۔ اب بیٹا بھی دور جا چکا ہے  ۔۔”

وہ پھر سے دھاڑے تھے بیشک وہ جانتے تھے کہ عباس کبھی بھی اپنے ماں باپ سے نالاں نہیں ہو سکتا یہ فیصلہ اس نے سوچ سمجھ کر کیا ہو گا مگر وہ درحقیقت یہ چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح نورے کے ساتھ شادی پر عباس کو راضی کر لیں

” میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ وہ لڑکی جادوگیرنی ہے ۔۔ اس نے میرے بیٹے پر جادو کیا ہے ۔۔ ورنہ میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا ۔۔ “

سردار بی بی کے لہجے میں افسوس تھا جو وہاں موجود باقی تین نفوس نے بھی محسوس کیا

” بکواس بند کرو ۔۔ ! یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔ ورنہ میں کسی بھی طرح کر کے عباس کو نورے سے شادی کرنے کو راضی کر لیتا ۔۔ اب وہ خاک راضی ہو گا ۔۔ بے وقوف عورت ۔۔ !”

وہ پھر دھاڑے تھے

” ہاں ہوں بےوقوف میں ۔۔ تبھی تو وہ دو ٹکے کی لڑکی میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر لے گئی ۔۔ “

وہ بھی خاصی گستاخانہ بولی تھی کہ کہ سردار شیر دل نے خونخوار نگاہوں سے انہیں دیکھا

” لگتا ہے تم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہو ۔۔ بات کرنے کی تمیز ہی بھول گئی ہو ۔۔ “

ناعمہ، نورے اور ملازمین کی موجودگی فراموش کیے وہ سردار بی بی کو ڈپٹتے ہوئے بول رہے تھے

” مم میں نہیں چھوڑوں گی اس لڑکی کو ۔۔ میرے بیٹے اور شوہر کو میرے خلاف کر دیا میرے اس نے ۔۔ “

ان کے دماغ میں بس حُرّہ ہی تھی وہ سردار شیر دل کی بات نظرانداز کرتی حُرّہ کو برا کہنے لگی

” تم واقعی اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہو ۔۔ !”

سردار شیر دل غصے میں دھاڑتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے

” برباد کرے خدا اس لڑکی کو جس نے میرا بیٹا مجھ سے چھین لیا ۔۔ “

سردار شیر دل کے جانے کے بعد ہال کا سکوت سردار بی بی کی ہتک آمیز آواز نے توڑا اب وہ مسلسل حُرّہ کو کوسنے دے رہیں تھیں جبکہ نورے ان کو دیکھتی نفی میں سر ہلاتی چلی گئی

” یہ تو سب بگڑ گیا سردار بی بی ۔۔ !”

ناعمہ نے لہجے میں افسوس تھا  اب محض وہاں سردار بی بی اور ناعمہ موجود تھی

” تم فکر نہیں کرو ناعمہ ۔۔ دیکھنا میں کیا حال کرتی ہوں اس لڑکی کا ۔۔ کچھ دن عیش کر لینے دو اسے ۔۔ “

چہرے پر زہریلی مسکراہٹ لائے بولیں تھیں کہ ناعمہ ٹھٹھکیں

” کیا کریں گی آپ ۔۔ ؟؟”

” تم بس دیکھتی جاؤ ۔۔ !”

ناعمہ کے پوچھنے پر سردار بی بی رازداری سے بولیں اور پرسوچ انداز میں غیر مرئی نقطے کو تکنے لگیں

گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی انہیں سفر کرتے ہوئے تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا مگر اس سارے وقت میں ان دونوں کے درمیان مکمل طور پر خاموشی چھائی رہی تھی عباس سپاٹ چہرہ لیے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ حُرّہ سکڑی سمٹی بیٹھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد ترچھی نگاہوں سے عباس کو دیکھ لیتی مگر خاموشی توڑنے کی کوشش اس نے بھی نہیں کی تھی جانے کیوں اسے عباس کی بے حد سنجیدگی سے خوف آ رہا تھا

حُرّہ کو اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ اس کا ہمیشہ سے تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ ایک مرتبہ حُرّہ سب کے ساتھ حویلی میں رہے شاید حویلی کے مکین اس کی معصومیت اور اچھائی کی بنا پر اس سے مانوس ہو جائیں مگر سب کچھ اس کی توقع کے برعکس ہوا تھا اس کے گھر والے تو کسی صورت حُرّہ کو قبول کرنے کے در پے نہ تھے بلکہ اگر آج وہ وقت پر نہ پہنچتا تو جانے کیا ہو جاتا یہ تمام باتیں سوچتے ہوئے عباس نے طویل سانس خارج کیا وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد حُرّہ کی نگاہیں خود پہ محسوس کر رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ وہ سہمی ہوئی بیٹھی تھی مگر اس نے حُرّہ کو مخاطب نہیں کیا تھا کیونکہ وہ حُرّہ سے گھر پہنچ کر بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

مزید ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد گاڑی ایک خوبصورت وسیع و عریض بنگلے میں داخل ہوئی دو گھنٹے کے سفر میں ہی حُرّہ بہت تھک گئی تھی جب عباس اپنی سیٹ سے نکل کر حُرّہ کی جانب کا دروازہ کھول رہا تھا تو حُرّہ ڈر کر سیٹ کے ساتھ لگ گئی حُرّہ کی اس حرکت پر عباس نے ایک لمحے کو اپنی آنکھیں بند کیں اور گہرا سانس لیا پھر دوبارہ آنکھیں کھول کر حُرّہ کو دیکھا جو نگاہیں جھکائے بیٹھی تھی ہاتھ بڑھا کر عباس نے اس کی کلائی اپنے شکنجے میں لی اور نرمی سے سیٹ سے اٹھا کر کھڑا کیا اور آہستہ آہستہ چلتا بنگلے میں داخل ہوا

بے حد نفاست سے سجے ہوئے خوبصورت لاؤنج میں سے گزر کر زینے طے کیے اور ایک عالی شان کمرے میں داخل ہوئے حُرّہ مدھم سانس لیتے ہوئے لب بھینچے عباس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی ایک سرسری سی نگاہ کمرے پر ڈال کر حُرّہ نے سر جھکا لیا کیونکہ عباس اب اسے ہی دیکھ رہا تھا

” ناراض ہیں مجھ سے ۔۔ ؟؟”

دھیمی آواز میں پوچھا گیا تو حُرّہ نے چونک کر عباس کو دیکھا

” ججی جی ۔۔؟؟”

ناسمجھی سے پوچھا گیا

” میں نے پوچھا مجھ سے کسی بات پر ناراضگی چل رہی ہے کیا آپ کی ۔۔ ؟؟”

عباس نے اپنی بات پھر سے دہرائی تو حُرّہ  اب حیرت زدہ ہوئی

” نن نہیں ۔۔ !”

یک لفظی جواب دے کر وہ سوالیہ نگاہوں سے عباس کو تکنے لگی

” پھر بات کیوں نہیں کر رہیں ۔۔ کوئی لڑکی اتنا خاموش کیسے رہ سکتی ہے حُرّہ ۔۔ ؟؟”

ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہوئے اس نے نا محسوس انداز میں حُرّہ کو اپنی سمت کھینچا

” و وہ مجھے لگا ۔۔ !”

وہ جھجک کر پھر خاموش ہو گئی تو عباس نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا

” کیا لگا میری جان کو ۔۔ ؟؟”

نگاہیں ہنوز حُرّہ کی جھکی نگاہوں پر جمائے وہ پوچھ رہا تھا

” مم مجھے لگا آپ غصے میں ہیں ۔۔ “

عباس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں بولی تو عباس نے طویل سانس لیا

” کس پر غصہ ۔۔ ؟؟”

حُرّہ کی تھوڑی کے نیچے اپنی انگشت شہادت رکھ کر چہرہ ذرا سا بلند کرتے ہوئے وہ پوچھ رہا تھا

” مم مجھ پر ۔۔ !”

وہ ایک نظر عباس کی پر تپش نگاہوں کو دیکھتی پھر سے چہرہ جھکا کر بولی

” میں خود پر تو غصہ ہو سکتا ہوں مگر ۔۔ آپ پر کبھی نہیں میری جان ۔۔ !”

حُرّہ کی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے وہ بولا تو حُرّہ کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہنے لگے اگلے چند لمحوں میں وہ سسکنے لگی تو عباس نے حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھا

” حُرّہ میری جان ۔۔ ایسے کیوں رو رہیں ہیں آپ ۔۔ میں نے کہا تو ہے میں کبھی بھی آپ پر غصہ نہیں کر سکتا ۔۔ “

حُرّہ کے آنسو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کی پوروں سے صاف کرتا وہ لہجے میں فکرمندی لیے گویا ہوا

” پھر آ آپ بب بات کیوں نہیں کک کر رہے تھے مجھ سے ۔۔ ؟”

شاید یہ پہلا شکوہ تھا جو حُرّہ نے عباس سے کیا تھا جبکہ اس کے ہچکیوں کے درمیان بولنے پر عباس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری

” غصہ نہیں تھا بس خاموش ہو گیا تھا اور میں غصہ کس پر ہو سکتا ہوں جانم ۔۔ آپ میری بیوی اور وہ میری ماں ہیں ۔۔ اور آپ دونوں ہی میرے لیے میری زندگی ہیں ۔۔ میرا سب کچھ ہیں ۔۔ “

دھیمی آواز میں بولتے ہوئے وہ اس کی پر نم آنکھیں تکنے لگا جو اس وقت دلکش لگ رہیں تھیں

” آ آپ میری وجہ سس سے پریشان ہیں نا ۔۔؟؟ مم میری وجہ سے آپ سردار بی بی ۔۔ حح حویلی سس سے دور ۔۔!!”

وہ ٹوٹے الفاظ میں روتے ہوئے بمشکل بولی تھی

” حُرّہ میں دور نہیں رہ سکتا اپنی ماں سے ۔۔ میں جاتا آتا رہا کروں گا آپ فکر نہیں کریں اس بات کی ۔۔ “

اس کا تر چہرہ صاف کرتے وہ بولا تھا

” پھر خاموش کیوں ہو گئے تھے آپ ۔۔ ؟ سارے راستے آپ نے مجھ سے بات نہیں کی ۔۔ “

حُرّہ اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے پوچھ رہی تھی جبکہ عباس کو دلی خوشی ہوئی کہ حُرّہ اس پر حق جما کر شکوہ کر رہی تھی بے ساختہ ہی آنے والی مسکراہٹ کو وہ دبا گیا تھا

” دیکھیں جانم کچھ لوگ اپنا غصہ چیخ چنگھاڑ کر ظاہر کرتے ہیں ۔۔ کچھ لوگ بات چیت بند کر دیتے ہیں ۔۔ عموماً لوگ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ۔۔ مگر میں عادتاً خاموش ہوجاتا ہوں کیونکہ غصے میں انسان کچھ بھی الٹا سیدھا بول دیتا ہے ۔۔ اور پھر آپ اور ماں تو مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہیں مجھے کبھی بھی آپ دونوں پر غصہ نہیں آ سکتا ۔۔ اور آج جو میں نے آپ کو اپنے ساتھ لے آنے کا فیصلہ کیا ہے وہ بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے ۔۔ “

بے حد سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ حُرّہ کی رونے کے باعث سرخ ہوئی آنکھوں کو تکتا ہوا بول رہا تھا جبکہ حُرّہ ہمیشہ کی طرح بغور اس کی باتیں سن رہی تھی

” اا اگر کبھی مجھ سے غلطی ہو گئی تب بھی کیا آپ مجھ پر غصہ نہیں ہوں گے ۔۔ ؟؟”

حُرّہ نے یقین دہانی چاہی تو عباس کے سنجیدہ چہرے پر تبسم بکھرا

” اگر کبھی آپ سے غلطی ہو گئی تب بھی خود پر تو غصہ کر لوں گا مگر آپ پر غصہ نہیں کروں گا ۔۔ !”

وہ فراخ دلی سے بولا تو حُرّہ نے حیرت زدہ ہوکر اسے دیکھا جو شاید دنیا کا پہلا صابر مرد تھا

” آآ آپ سچ میں کبھی غصہ نہیں کریں گے مجھ پر ۔۔ ؟؟”

حُرّہ ، عباس کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ جماتے ہوئے مان سے پوچھ رہی تھی

” کبھی نہیں کروں گا ۔۔ “

حُرّہ کی نازک کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ گویا ہوا

” اتنی فراخ دلی کی کوئی خاص وجہ ۔۔ ؟؟”

وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی تھی جبکہ عباس نے اس کی بات پر اثبات میں سر ہلایا تو حُرّہ نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائے

” میرے نزدیک حُرّہ جو محبت کرتے ہیں نا ۔۔ ان کو فراخ دل بھی ہونا چاہیے ۔۔ محبوب کی غلطیوں کو فراموش کر دینا چاہیے ۔۔ اور میں آپ سے محبت کرتا ہوں ۔۔ پھر آپ کے لیے میرا دل بہت وسیع ہے ۔۔ “

اپنے لبوں کو حُرّہ کے رخساروں کے قریب لے جا کر وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا آخر میں اس نے حُرّہ کے رخسار پر لمس چھوڑا عباس کی اس کاروائی پر حُرّہ نے آنکھیں سختی سے میچ لیں جبکہ عباس اس کے چہرے پر حیا سے در آئی سرخی دیکھ کر مسکرا رہا تھا

” اا ایک بات بولوں ۔۔ ؟؟ “

تھوڑی خاموشی کے بعد حُرّہ نے نگاہیں جھکائے جھنجکتے ہوئے پوچھا

” جی جانم ۔۔ !”

” مجھے پتہ ہے آپ غصہ نہیں کریں گے میری بات پہ ۔۔ کیونکہ ابھی آپ نے بولا تھا ۔۔ !”

عباس کے اجازت دینے پر حُرّہ حلق تر کرتی بولی تھی جبکہ عباس اس کی بات پر ہنوز مسکرا رہا تھا

” مجھے یقین ہے آپ میری فراخ دلی کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھائیں گی ۔۔ “

حُرّہ کو دیکھتے ہوئے وہ شرارت سے بولا تھا مگر حُرّہ کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ایک جا رہا تھا ہمت مجتمع کرتے ہوئے حُرّہ نے لبوں پر زبان پھیری

” آآ آپ ۔۔ !!”

ایک لفظ بول کر حُرّہ نے زبان دانتوں تلے دبا لی

” ہممم ؟؟؟”

” آآ آپ  نن نورے سے شش شادی کر لیں ۔۔ !”

سر اور آنکھیں جھکائے وہ اٹکتے ہوئے مدھم آواز میں بولی تو یکدم عباس کے چہرے کے تاثرات بے حد سنجیدہ ہوئے پھر ماتھے پر بل پڑے

” کیا بول رہیں ہیں آپ ۔۔ ؟”

عباس کو لگا شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے تبھی بے حد سنجیدگی سے پوچھنے لگا

” آآ آپ نن نورے سے شش شادی ۔۔ “

اس سے زیادہ وہ بول نہیں پائی تھی عباس نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا

” اگر آپ کو یاد ہو حُرّہ تو میں نے کہا تھا آپ کو کہ میں نہیں چاہتا ہمارے درمیان اس موضوع پر کوئی بات ہو ۔۔ ؟؟”

آواز دھیمی تھی مگر لہجہ سرد تھا حُرّہ نے بے اختیار جھرجھری لی

” سارے مسائل کا حل ہے یہ ۔۔ “

وہ ہمت کر کے بولی تھی مگر یہ بولتے ہوئے اس کے دل میں کس قدر بےچینی ہوئی تھی یہ وہی جانتی تھی

” ایک اچھی بیوی کی طرح آپ نے مجھے مشورہ دیا میں اس بات کی قدر کرتا ہوں ۔۔ مگر میں پھر بھی یہیں کہوں گا حُرّہ کہ آئندہ میں آپ کی زبان سے یہ بات نہ سنوں ۔۔ !”

عباس کا چہرہ سپاٹ اور لہجہ ہنوز سرد تھا مگر آواز دھیمی تھی

” مم میں سچ میں کہہ رہی ہوں ۔۔ “

وہ اس مرتبہ ماتھے پر بل ڈالے بولی تھی

” میں بھی سچ میں کہہ رہا ہوں ۔۔ !”

اس مرتبہ وہ لہجے میں نرمی لیے بولا تھا

” آپ سمجھ نہیں رہے ۔۔ “

آنکھوں میں اتری نمی کو پلکیں جھپک کر چھپاتے ہوئے وہ بولی تھی

” کیا نہیں سمجھ رہا ۔۔ ؟”

ہنوز نرمی سے پوچھا گیا

” نورے آپ سے ۔۔ !”

وہ دھیرے سے بولتے ہوئے خاموش ہو گئی

” آپ اپنی بات کریں ۔۔ !”

لہجے میں نرمی تھی مگر انداز حاکمانہ تھا

” مم میں چاہتی ہوں آپ نورے سے شادی کر لیں ۔۔ “

وہ نگاہیں چرائے بولی تھی

” میں نے کہا آپ اپنی بات کریں ۔۔ !”

حُرّہ کی ہٹ دھرمی پر عباس نے لب بھینچے اور اپنی بات دہرائی

” مم میں ۔۔ دل سے کہہ رہی ہوں ۔۔ “

اس مرتبہ حُرّہ کی آواز بھیگ گئی

” میں بھی دل سے کہہ رہا ہوں ۔۔ “

” ایسے کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ ؟”

حُرّہ نے اسے اپنی سمجھ کے مطابق قائل کرنے کی کوشش کی

” کیا گارنٹی ہے ۔۔ کہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ ؟؟”

عباس نے حُرّہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھا

” بس میری بات مان لیں پلیز ۔۔ “

عباس کے نرم لہجے پر ہمیشہ حُرّہ کی ہمت بندھتی تھی وہ اس بار التجائیہ بولی

” حُرّہ میری بات غور سے سنیں اور سمجھیں ۔۔ !”

طویل سانس لینے کے بعد عباس نے حُرّہ کو کرسی پر بیٹھایا اور خود فرش پر گٹنوں کے بل بیٹھ گیا حُرّہ نے سر ہلاتے ہوئے منتظر نگاہوں سے عباس کو دیکھا

” سوچیں جو آپ سوچ رہیں ہیں اگر ویسا ہو بھی گیا تو میں دو بیویوں میں انصاف نہیں کر پاؤں گا ۔۔ کیونکہ آپ صرف میری بیوی نہیں ہیں ۔۔ بلکہ میرے دل اور زندگی میں بے حد اہمیت رکھتی ہیں ۔۔ یہ کہہ لیں کہ میری محبوب بیوی ۔۔ جس کے لیے میرے دل میں بے حد گنجائش ہے ۔۔

 حُرّہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔۔ میں نہیں جانتا کیا چیز مجھے آپ کی جانب کھینچتی ہے ۔۔ مگر آپ کو اذیت میں نہیں دیکھ سکتا اور یہ بات جانتا ہوں میں کہ آپ بھی مجھ سے محبت کرتیں ہیں اور اسی لیے آپ نے مجھے بانٹنے کا مشکل ترین فیصلہ کیا ہے ۔۔ مگر ایسا ممکن نہیں ۔۔ میرے دل میں نورے کے لیے کوئی جذبات نہیں ہیں ۔۔  میرا ان کے ساتھ گزارا مشکل ہے ۔۔ امید ہے یہ بات میں آخری مرتبہ آپ کو سمجھا رہا ہوں  ۔۔ “

عباس اپنے مخصوص دھیمے انداز میں حُرّہ کو سمجھا رہا تھا

” حُرّہ نصیب ہم دونوں کا ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔۔ ہمیں ایسے ہی ایک دوسرے کی زندگی میں شامل ہونا تھا ۔۔ چونکہ خدا کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے اس لیے خدا پر ہر معاملہ چھوڑ دیں ۔۔ اور پلیز نورے کے لیے فکر مند نہ ہوں ۔۔ اس کے لیے اپنی مثال ہی لے لیں ۔۔ آپ ہر معاملے میں بے قصور تھیں بظاہر آپ کے ساتھ ظلم ہوا مگر خدا اپنے بندے کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا تبھی میرا دل آپ کی طرف پھیر دیا ۔۔ اسی طرح نورے بہت اچھی لڑکی ہیں تو پھر ان کے ساتھ ناانصافی تو نہیں نا کرے گا ۔۔ یقیناً کچھ بہترین ملے گا انہیں ۔۔ “

نہایت نرمی سے کہتے ہوئے وہ اب حُرّہ کی دونوں ہاتھوں کی پشت پر اپنے لب رکھ رہا تھا

” مجھے یقین ہےاب اس بارے میں مزید بات نہیں ہو گی ہماری ۔۔ !”

ہنوز خاموشی سے بیٹھی حُرّہ نے اثبات میں سر ہلایا وہ عباس کی باتوں سے کسی حد تک پرسکون ہوئی تھی ورنہ تو بار بار نورے کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا خیال آتا تھا جو اسے بےچین کر دیتا تھا

” ج جی ۔۔!”

ہلکا سا مسکرا کر وہ بولی تھی تو عباس نے بھی اسے مسکرا کر دیکھا اور خود اٹھنے کے بعد اسے بھی ہاتھ تھام کر کھڑا کیا

” آپ کو کسی بھی بات کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جانم ۔۔ یہاں آپ سکون سے رہیں کیونکہ آپ اس گھر کی مالکن ہیں ۔۔ ہمارے بےبی کا خیام رکھیں ۔۔  خوش رہیں  ۔۔ “

حُرّہ کے پیٹ پر ہاتھ رکھتا وہ مزید بولا تو حُرّہ نے بھینپ مٹانے کی غرض سے اسی کے سینے میں منہ چھپا لیا

” آپ کا ساتھ میری خوشی ہے سرکار ۔۔ آپ سے ملتی محبت میرے دل میں لگے زخموں کو بھر چکی ہے ۔۔ آپ کا لمس میرے وجود پر لگے زخموں کی دوا ثابت ہوا ۔۔ آپ کی مجھے دی جانے والی عزت مجھے دنیا کے سامنے سر اٹھا کر چلنے میں ہمت دیتی ہے ۔۔ میں دنیا کی خوش قسمت عورت ہوں جسے آپ جیسا ہمسفر ملا ۔۔ “

تھوڑی دیر بعد حُرّہ عباس کے سینے پر سر ٹکائے دھیمی آواز میں گویا ہوئی تو اس کے الفاظ سن کر عباس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور گہری ہوتی گئی

” بس اپنے میرے اور میرے بچے کے بارے میں سوچا کریں ۔۔مجھے  ہیلدی بےبی چاہیے ۔۔ !”

محبت سے کہتے ہوئے عباس نے اسے خود میں بھینچ لیا

یار اگر کوئی لڑکی پسند آ جائے تو کیا کرنا چاہیے ۔۔؟”

عالیان کے اچانک سوال پر احمد نے اسے ناسمجھی سے پوچھا

وہ دونوں اس وقت عباس کا انتظار کر رہے تھے جو کہ آج کل خاصا کم نظر آتا تھا مگر عالیان اور احمد نے کبھی شکوہ نہیں کیا تھا وہ جانتے تھے کہ عباس آفس کے بعد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو وقت دیتا ہے آج ان سب کا اکٹھا ہونے کا پلان تھا

” شادی کر لینی چاہیے ۔۔ “

احمد نے کاندھے اچکا کر عام سے انداز میں کہا

” ابے شادی بھی کر لوں گا ۔۔ پہلے تو میرے سوال کو صحیح طرح سمجھ کر جواب دے ۔۔ “

عالیان نے ماتھے پر بل ڈالے کہا

” اچھا اچھا بتا تجھے کون پسند آ گئی ۔۔ ؟”

احمد نے فوراً پوچھا مبادہ عالیان صاحب کا دماغ گھوم جائے اور کچھ بتائے ہی نہ

” یار مجھے عباس کی کزن پسند آ گئی ہے ۔۔ “

عالیان سنجیدگی سے بولا

” کیا واقعی ۔۔ ؟؟ سچ کہہ رہا ہے ۔۔ ؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔ تجھے بھی کوئی پسند آئی ۔۔ عباس آتا ہے تو اس سے بات کرتے ہیں ۔۔ “

احمد نے زندگی میں عالیان کو پہلی مرتبہ سنجیدگی سے کوئی بات کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت اور خوشی کے تاثرات لیے کہا

” جتنا سب آسان دیکھائی دے رہا ہے اتنا نہیں ہے ۔۔ “

عالیان ہنوز سنجیدگی سے بولا

” کیا مطلب ۔۔ ؟ مسئلہ کیا آخر ۔۔ ؟ کیا آسان نہیں ہے ۔۔ “

احمد کے پوچھنے پر عالیان نے طویل سانس خارج کیا

” میں نے پتہ کروایا ہے ۔۔ نورے عباس کے ساتھ بچپن سے انگیجڈ ہے ۔۔ “

وہ بظاہر عام سے انداز میں بولا تھا جبکہ احمد نے اس کا چہرہ بغور دیکھا جہاں کیا کچھ نہیں تھا بے چینی ، اضطراب اور شاید سب کچھ کھو دینے کا خوف

” مگر عباس کی تو اب شادی ہو گئی نا ۔۔ اور وہ حُرّہ بھابھی کے ساتھ بہت خوش ہے ۔۔ حُرّہ بھابھی کے لیے محبت عباس کی آنکھوں سے صاف جھلکتی ہے ۔۔ مجھے نہیں لگتا عباس دوسری شادی کا سوچے گا بھی ۔۔ “

احمد بھی معاملے کی سنگینی سمجھتے ہوئے سنجیدگی سے بول رہا تھا کیونکہ وہ دونوں ہی کافی حد تک عباس کے خاندانی اصولوں کو جانتے تھے

” ہاں میں یہ جانتا ہوں ۔۔ مگر ۔۔”

عالیان کے خاموش ہونے پر احمد نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا

” سب سے لڑ لوں گا مگر ۔۔ نورے پتہ نہیں میرا ساتھ قبول کرے گی یا نہیں ۔۔ “

بولتے ہوئے عالیان نے نگاہوں کا زاویہ بدل لیا مقصد آنکھوں میں آئی نمی چھپانا تھا مگر احمد دیکھ چکا تھا اور اس کے لیے عالیان کا یہ روپ بلکل نیا تھا کہ عالیان کسی لڑکی کے معاملے میں اس قدر سنجیدہ تھا

” پیار کرتے ہو نورے سے ۔۔ ؟؟”

احمد نے جانچتی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا

” پہلی نظر کی محبت پر یقین نہیں تھا مجھے ۔۔ مگر ۔۔ !”

بولتے بولتے وہ پھر خاموش ہوا تھا

” مگر ۔۔؟؟”

احمد نے خاموشی کو توڑا

” مگر مجھے ہو گئی نورے سے محبت ۔۔ احمد میں اس کی آنکھوں کی اداسی ، اور چہرے کا اضطراب ، ختم کر دوں گا ۔۔ اتنی محبت دوں گا اسے کہ وہ سب بھول جائے گی ۔۔ “

عالیان کی معنی خیز بات پر احمد نے چونک کر اسے دیکھا تھا

” ایسی لڑکی کے ساتھ محبت تکلیف دیتی ہے عالیان جس کی آنکھوں میں پہلے سے ہی کسی اور کے خواب ہوں ۔۔ “

احمد نے اسے حقیقت سے روشناس کروانا چاہا تو عالیان نے نفی میں سر ہلایا

” مجھے فرق نہیں پڑتا اس بات سے ۔۔ میں نورے کو اتنی محبت دوں گا کہ اسے مجھ سے نہ بھی محبت ہوئی لیکن اتنا یقین ہے مجھے کہ میری محبت سے ہی محبت ہو جائے گی ۔۔  “

اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ احمد نے مسکرا کر اسے دیکھا جو کہ آج بہت بڑے دل والا ثابت ہو رہا تھا

” عباس کو بتائے گا یہ سب ۔۔ ؟”

” ہاں مگر ابھی نہیں ۔۔ “

” کیوں ۔۔ ؟؟ ابھی کیوں نہیں ۔۔ ؟”

احمد نے ابرو اچکا کر پوچھا

” کیونکہ پہلے میں نورے کو بتانا چاہتا ہوں ۔۔ “

عالیان کے جواب پر احمد نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا

” اگر تیری محبت سچی ہے تو ۔۔ تو ضرور اپنی محبت کو پا لے گا ۔۔ “

احمد نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو عالیان نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا ایک اداس چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے ابھرا تھا جس کے باعث اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی

زندگی عباس جیسے ہمسفر کے ساتھ اس قدر خوبصورت تھی کہ اب تو ہمہ وقت حُرّہ کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ رہتی تھی اور حُرّہ کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر وہ خود بھی پرسکون رہتا تھا وہ کافی حد تک حُرّہ کو زندگی کی طرف واپس لے آیا تھا اب حُرّہ کسی بھی ڈر اور خوف کے بغیر اس سے ہمکلام  ہوتی تھی اور ڈھیر ساری باتیں کرتی تھی وہ بھی اسے خاموش بیٹھ کر سنتا تھا وہ اس قدر خوبصورت بولتی تھی کہ عباس اس کی باتیں یاد کر کے مسکراتا رہتا تھا

  دن ہفتوں میں تبدیل ہو رہے تھے اور ہفتے مہینوں میں بدل رہے تھے حُرّہ کی زندگی کی بہاریں عروج پر تھیں صبح آنکھ عباس کے محبت بھرے لمس سے کھلتی پھر عباس اسے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر کھلاتا حُرّہ اسے آفس کے لیے مسکراتے ہوئے رخصت کرتی دن گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں محبت بڑھتی جا رہی تھی عباس کوئی دکھ ، تکلیف حُرّہ کے پاس سے بھی نہیں گزرنے دیتا تھا اس دوران انہوں نے ڈاکٹر سے حُرّہ کی ہی خواہش پر بچے کا جنس معلوم کیا اور بیٹی کی آمد کا سن کر حُرّہ نے کھوجتی نگاہوں سے عباس کو دیکھا جبکہ عباس کے چہرے پر نا ختم ہونے والی مسکراہٹ نے بسیرا کر لیا تھا عباس کی خوشی دیکھ کر حُرّہ بھی ہلکی پھلکی ہو گئی تھی ورنہ اسے یہی خوف تھا کہ اگر بیٹی ہو جاتی ہے تو کیا عباس کی خوشی ہنوز ویسی ہی رہتی ہے

اس دوران وہ ہفتے بعد حویلی چلا جاتا تھا دو تین گھنٹے بعد واپس حُرّہ کے پاس بنگلے میں آ جاتا سردار شیر دل نے اسے اپنے طور پر بہت سمجھایا کہ وہ حُرّہ کو لے کر حویلی آ جائے سردار بی بی کی طرف سے اس مرتبہ کوئی مسلہ نہیں ہو گا مگر عباس مناسب جواب دے کر انہیں انکار کر دیتا سردار بی بی نے بھی کافی جذباتی کر کے عباس کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر  عباس جلد آنے کا کہہ کر انہیں ٹال دیتا

حُرّہ کو عباس کے ساتھ شہر میں رہتے ہوئے کافی مہینے گزر گئے چھ مہینے پر لگا کر ایسے گزرے کے معلوم ہی نہ پڑا حُرّہ تو محض عباس کی ہمسفری میں خوشیاں سمیٹتی رہی

” کیا ہوا حُرّہ آج آپ بے چین کیوں ہو رہیں ہیں ۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی ۔۔ ؟؟”

وہ ناشتہ بنا کر حُرّہ کو جگانے کمرے میں گیا تو حُرّہ پہلے ہی بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے اضطرابی کیفیت میں بیٹھی تھی

” مم میں ٹھیک ہوں ۔۔ بس وہ عجیب بے چینی ہونے لگی تو آنکھ کھل گئی ۔۔ “

حُرّہ نے بمشکل مسکراتے ہوئے جواب دیا ورنہ وہ جانتی تھی عباس سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس ہی رہ جائے گا جبکہ آج وہ خود بتا رہا تھا کہ اس کے بہت ضروری کیس کی سماعت تھی

” ہمم چلیں فریش ہو کر ناشتہ کریں ۔۔ پھر ڈاکٹر کر پاس چلیں گے ۔۔ “

عباس نے

حُرّہ کی بات پر عباس نے فکرمندی سے کہا

” میں ٹھیک ہوں پھر ہاسپٹل جانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔ ؟”

حُرّہ نے احتجاج کرنا چاہا کیونکہ اس کا دل کہیں جانے کو نہ تھا

 ” حُرّہ میری جان میں آپ کی اور اپنی بچی کی صحت کے معاملے میں لاپرواہی ہرگز نہیں کر سکتا ۔۔ چلیں میری جان اٹھیں ہمت کریں ۔۔ “

عباس نے حُرّہ کے بھرے بھرے وجود کو دیکھتے ہوئے پیار سے کہتے ہوئے سہارا دے کر اٹھایا تو حُرّہ مسکراتے ہوئے اٹھ گئی اسے عباس کا اتنا خیال رکھنا ہمیشہ سے سکون دیتا تھا

ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر تسلی کرنے کے بعد عباس نے حُرّہ کو گھر چھوڑا اور خود اپنے آفس چلا گیا پیچھے حُرّہ کی طبیعت کچھ دیر تو بہتر رہی مگر پھر سے عجیب حالت ہونے لگی بار بار دل میں خیال آئے کی عباس کو بلا لے مگر پھر یہ سوچ کر صبر کرنے کی کوشش کرتی کہ عباس پریشانی کے عالم میں گاڑی چلا کر آئے گا یہی سوچتے ہوئے عباس کے آنے کا انتظار کرنے لگی

 شام ہونے والی تھی عباس کے آنے کا وقت بھی ہو گیا تھا مگر حُرّہ کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی جب عباس نے کمرے میں قدم رکھا تو حُرّہ کو آڑا ترچھا بیڈ پر لیٹا دیکھ کر پریشانی میں اس کی جانب لپکا

” حُرّہ کیا ہوا ہے میری جان ۔۔ ؟”

حُرّہ کو اپنے سینے سے لگائے وہ اس کے پسینے سے شرابور وجود کو خود میں سمیٹے پوچھ رہا تھا

” و وہ ۔۔ !”

حُرّہ سے کچھ بھی بولا نہیں گیا اس کی حالت تو اچانک ہی بگڑی تھی عباس نے فوراً اسے اپنی باہوں میں بھرا اور باہر کی جانب بڑھا

ہاسپٹل پہنچ کر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر حُرّہ کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا پیچھے عباس اضطرابی کیفیت میں کوریڈور کے چکر کاٹ رہا تھا کچھ دیر بعد ڈاکٹر کے باہر آنے پر وہ ان کی جانب لپکا

” ڈاکٹر کیا ہوا ہے اچانک میری وائف کو ۔۔ ؟ وہ ٹھیک تو ہیں نا ۔۔ ؟؟”

لہجے میں فکرمندی لیے وہ پوچھ رہا تھا

” ایکچولی مسٹر عباس آپ کی وائف کا بی پی شوٹ کر گیا ہے ۔۔ اس لیے ہمیں فوری آپریشن کرنا ہوگا ۔۔ “

ڈاکٹر نے عباس کو دیکھتے ہوئے

” آپریشن ۔۔ ؟؟ مگر اتنی جلدی ۔۔ ؟ ابھی تو کافی وقت ہے ڈاکٹر ۔۔ “

ڈاکٹر کی بات سن کر عباس نے پریشانی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں کہا

” جی میں جانتی ہوں ابھی سیون منتھ ہے آپ کی وائف کا بٹ ۔۔ اگر ابھی آپریشن نہ کیا تو آپ کے بے بی کے ساتھ ساتھ آپ کی وائف کی زندگی بچانا بھی مشکل ہو جائے گا ۔۔”

ڈاکٹر کے انکشاف پر عباس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے

” نن نہیں ۔۔ ! حُرّہ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ڈاکٹر ۔۔ شی از مائی لائف ۔۔ “

وہ بے خودی کے عالم میں بولا تھا

” آپ پریشان نہ ہوں ۔۔ بس دعا کریں ۔۔ “

ڈاکٹر حُرّہ کے لیے عباس کی محبت جانتی تھی وہ پہلے مہینے سے ہی حُرّہ کو اس کے پاس لاتا تھا اور ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ہر طرح کے کپلز سے سامنا ہوتا رہتا تھا مگر عباس جیسے شوہر بہت نایاب دیکھنے کو ملتے تھے

ڈاکٹر اسے تسلی دے کر جا چکی تھی جبکہ عباس کو اس وقت کسی اپنے کے سہارے کی اشد ضرورت تھی جو اسے اس نازک صورتحال میں تسلی دیتا مگر خدا کی ذات کے سوا کوئی نہیں تھا بے ساختہ عباس کے قدم ہسپتال میں موجود مسجد کی جانب بڑھے خالق کی بارگاہ میں وہ رو کر حُرّہ اور اپنی ہونے والی اولاد کے لیے دعائیں کر رہا تھا

اور جب کوئی سچی نیت سے دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کو پکارتا ہے تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ رب جو ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے وہ کیسے نہ اپنے بندے کی سنے

بیٹی کی پیدائش کی خبر جب عباس کو دی گئی تو بے اختیار وہ سجدہ شکر میں جھک گیا

” حُرّہ کیسی ہیں ڈاکٹر اور میری بیٹی ۔۔ ؟؟”

آنکھوں میں آئی نمی کو انگلی سے صاف کرتے ہوئے وہ آپریشن تھیٹر سے نکلتی ڈاکٹر سے پوچھنے لگا

” آپ کی وائف اب بلکل ٹھیک ہیں ۔۔ لیکن پری میچوئر ڈلیوری کی وجہ سے آپ کی بیٹی کو کچھ دن انڈر ابزرویشن رکھنا پڑے گا ۔۔ “

ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا تو عباس کو ایک طرف خوشی بھی تھی دوسری طرف اپنی بیٹی کے لیے پریشانی بھی تھی

” میری بیٹی ٹھیک ہے نا ڈاکٹر ۔۔ ؟؟”

لہجے میں کئی ڈر لیے وہ پوچھ رہا تھا کہ اگر حُرّہ کو ہوش آیا اور اپنی بیٹی سے ملنے کا کہا تو کیسے اسے سمجھائے گا

” جی جی مسٹر عباس آپ کی بیٹی ٹھیک ہے لیکن کچھ دن ہاسپٹل میں رکھنا ضروری ہے ۔۔ “

ڈاکٹر نے عباس پریشان ہوتے دیکھا تو فوراً تسلی دیتے ہوئے بولیں

” میں اپنی بیوی اور بیٹی سے مل سکتا ہوں؟؟”

بے چینی سے پوچھا گیا تو ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا

پھر عباس پہلے حُرّہ سے ملا جو بے ہوش لیٹی ہوئی تھی حُرّہ کی پیشانی پر محبت سے لب رکھتے ہوئے وہ اس کے معصومیت سے سجے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا

” تھینکس حُرّہ مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشی دینے کے لیے ۔۔ “

برنولا لگے ہوئے حُرّہ کے ہاتھ کو اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے وہ محبت سے چور انداز میں بولا تھا

کچھ دیر حُرّہ کے پاس رکنے کے بعد وہ نرس کے ساتھ نرسری میں آیا جہاں اس کی ننھی سی بیٹی موجود تھی عباس  شیشے میں سے اسے دیکھنے لگا جو بلکل اسی کے نین نقش والی تھی اسے دیکھ کر عباس کو اپنے بابا اور ماں کا خیال آیا یقیناً اپنی پوتی کو دیکھ کر ان کے دل میں حُرّہ کے لیے کچھ گنجائش بنے

ہاسپٹل کے کوریڈور میں آ کر عباس نے سردار شیر دل کے نمبر پر کال ملائی پہلی بیل پر ہی کال اٹھا لی گئی

” السلام علیکم بابا سرکار ۔۔!”

لہجے میں خوشی سموئے اس نے سلام کیا

” وعلیکم السلام میرا شیر بیٹا کیسا ہے ۔۔ ؟”

عباس کے لہجے کی خوشی محسوس کرتے ہوئے وہ بھی مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے

” بابا میں ٹھیک ہوں ۔۔ اور بہت خوش بھی ہوں ۔۔”

خوشی عباس کی آواز دے صاف جھلک رہی تھی جسے محسوس کرتے ہوئے سردار شیر دل کا دل بھی خوش ہو گیا تھا

” خدا میرے شیر کو ہمیشہ خوش ہی رکھے ۔۔ لیکن باپ کو بتاؤ تو سہی کیا وجہ ہے خوشی کی ۔۔ ؟”

وہ اسے دل سے دعا دیتے ہوئے آخر میں پوچھنے لگے

” بابا میری بیٹی ہوئی ہے ۔۔ “

عباس کے بولنے پر ایک پل تو سردار شیر دل کے مسکراتے لب سکڑے مگر دوسرے ہی پل عباس کی خوشی کا سوچ کر وہ بھی مسکرانے لگے

” مبارک ہو میرے بیٹے ۔۔ “

خواہش تو ان کی وارث کی تھی کہ عباس کا بیٹا ہوتا مگر عباس کے لہجے کی خوشی انہیں کوئی بھی بات کرنے سے روک گیا

” آپ کو بھی مبارک ہو بابا ۔۔ آپ دادا بن گئے ۔۔ “

سردار شیر دل کے جانب سے خوشی سے دی گئی مبارک پر عباس کی خوشی میں اضافہ ہوا تھا

“ہاہاہا چلو ہم آتے ہیں اپنے بیٹے کے پاس ۔۔ اپنی پوتی کو دیکھنے ۔۔ “

وہ قہقہہ لگا کر بولے تھے

” بابا وہ بلکل میرے جیسی ہے ۔۔ اس کی آنکھیں ، اس کی ناک ، اس کے ہونٹ آپ دیکھیں گے تو یہی کہیں گے ۔۔ “

عباس کی آنکھوں کے سامنے اس نازک چھوٹی سی کلی کا نقش ابھرا تھا

” ہاہاہاہا  میرا بیٹا اولاد اپنے ماں باپ پہ ہی جاتی ہے ۔۔ جیسے تم اور عابی مجھ پے گئے تھے ۔۔ “

وہ بے اختیار بولے تھے جبکہ ان کی بات پر دونوں اطراف چند پل کے لیے خاموشی چھا گئی عابی کے ذکر پر دونوں باپ بیٹے کے دل میں ٹیس اٹھی تھی

” ماں آئیں گی بابا ۔۔ ؟؟”

عباس نے چند لمحوں بعد استفسار کیا

” ہاں وہ پھر آ جائے گی ۔۔ “

سردار شیر دل نے مختصر جواب دیا

حُرّہ کو ہوش آ چکا تھا اور پہلی بات جو اس نے کی تھی وہ یہی تھی کہ اسے اپنی سے ملایا جائے جب نرس سے حُرّہ نہ سمجھی تو وہ ڈاکٹر کے کہنے پر عباس کو بلانے گئی عباس جب کمرے میں داخل ہوا تو حُرّہ کی جانب بڑھا

” سردار مم مجھے میری بیٹی سے کیوں نہیں ملا رہے یہ سب ۔۔ ؟ پلیز مجھے میری بیٹی لا دیں ۔۔ “

عباس کے قریب آنے پر حُرّہ لیٹے سے بیٹھتے ہوئے بولی تو عباس نے اسے سہارا دیا

” حُرّہ ریلیکس میری جان ۔۔ ہماری بیٹی بلکل ٹھیک ہے اور بہت جلد آپ کے پاس ہوگی ۔۔ “

عباس نے حُرّہ کے چہرے پر خوف کی تحریر پڑھ کر نرمی سے سمجھایا

” مم مگر ابھی کیوں نہیں ۔۔ وہ ٹھیک تو ہے نا ۔۔ ؟”

حُرّہ نے عباس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا

” جانم آپ کو پتہ ہے نا پری میچوئر ڈلیوری ہوئی ہے ۔۔ آپ کی اور ہماری بیٹی کی جان بچ گئی یہی بہت ہے ۔۔ اس لیے کچھ دن دعا کو انڈرابزرویشن رکھیں گے ۔۔ “

عباس نے اسے ساتھ لگائے نرمی سے سمجھایا

” د دعا ۔۔ ؟”

حُرّہ نے چونک کر عباس کو دیکھا جو اسی کو دیکھتا اب مسکرا رہا تھا

” پتہ ہے آپ کی طبیعت اتنی خراب ہو گئی تھی نا ۔۔ میں نے خدا کے سپرد کر دیا آپ کو اور اپنی بیٹی کو ۔۔ یہ شاید مجھ  ناچیز پر کرم کیا رب نے کہ میری دعا قبول ہو گئی اور میری بیوی اور بیٹی ٹھیک ہے ۔۔ اسی لیے میں نے ہماری بیٹی کا نام دعا سوچا ہے ۔۔ کیسا لگا آپ کو ۔۔ ؟”

عباس نے حُرّہ کے نقاہت بھری آنکھوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے آخر میں سوال کیا

” بہت اچھا ۔۔ “

مسکراتے ہوئے حُرّہ نے مختصر کہا

” سب باہر آئے ہوئے ہیں عالیان ، احمد ۔۔  اور بابا بھی دعا کو دیکھنے آئے تھے ۔۔ پورے ہاسپٹل میں میٹھائی بٹوائی انہوں نے ۔۔ “

عباس کے خوش ہو کر بتانے پر حُرّہ کو بھی خوشی محسوس ہوئی

” میری بیٹی کیسی ہے ۔۔ کس کی طرح ہے ۔۔ ؟”

حُرّہ نے اشتیاق سے پوچھا

” میری بیٹی بلکل میرے جیسی ہے ۔۔ “

عباس آنکھوں میں شرارت لیے بولا تھا جبکہ حُرّہ نے پرسکون ہوکر سر عباس کے کاندھے پر ٹکا لیا آنکھیں موند لیں وہ یہی چاہتی تھی کہ ان کا بچہ بلکل اپنے باپ کے جیسا ہو

اگلے دن حُرّہ کے ضد کرنے پر عباس اسے دعا کے پاس لے کر گیا جہاں اپنی بیٹی کو دیکھ کر حُرّہ کی آنکھیں بھیگ گئیں چند دن بعد دعا کو بھی ہسپتال سے چھٹی ہوئی تو عباس اور حُرّہ نے پہلی مرتبہ دعا کو گود میں اٹھایا عباس نرمی سے دعا کو گود میں اٹھائے بار بار اس کے روئی جیسے ہاتھوں پر شفقت بھرا بوسہ دے رہا تھا جبکہ حُرّہ مسکراتے ہوئے آنکھوں میں نمی لیے انہیں دیکھ رہی تھی اس وقت اسے اپنے ماں باپ کی شدت سے یاد آئی تھی بہتے آنسوؤں کو فوراً صاف کیا کیونکہ وہ جانتی تھی اسے روتا دیکھ کر عباس پریشان ہو جائے گا

دعا کو لے کر جب وہ دونوں گھر پہنچے تو عالیان اور احمد نے ان کے استقبال کے لیے گھر کو بہت اچھے سے سجایا ہوا تھا ڈھیر سارے تحفے تحائف اور کیک دیکھ کر حُرّہ کو بہت اچھا لگا بے اختیار آسمان کی جانب چہرہ بلند کیا اور پرنم آنکھوں سے دل میں ہر نعمت پر خدا کا شکر ادا کیا

” کیا بکواس ہے یہ ۔۔ ؟ وہ بھاگ کیسے گیا ۔۔ ؟ کیا ہو رہا ہے یہ ۔۔ تو کیا میں یہ سمجھو احمد کہ ۔۔  پولیس ان دونوں کو پکڑنے میں ناکام ہو چکی ہے ۔۔ ؟ “

وہ دونوں اس وقت پولیس اسٹیشن میں موجود تھے احمد کی جانب سے زیادہ کچھ ان دو قاتلوں کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا تھا بلکہ وہ دونوں قاتل ملک سے بھاگ چکے تھے یہ سن کر عباس یکدم اشتعال میں آیا تھا

” عباس یار کوئی بڑی سپورٹ ہے ان دونوں کو جبھی بار بار ہماری پہنچ سے دور کر دیے جاتے ہیں ۔۔ “

احمد بھی پریشانی سے بولا تھا

” احمد مجھے وہ دونوں زندہ سلامت اپنے سامنے چاہیے ۔۔ کیا تم میرا ساتھ نہیں دے سکتے صرف یہ بتاؤ مجھے ۔۔ ؟”

عباس نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا تو احمد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا

” یار میں تیرے ساتھ ہوں ۔۔ “

” تو پھر ابروڈ کی پولیس سے کنٹیکٹ کرو ۔۔ مجھے وہ دونوں چاہیے تاکہ میں انہیں خود اپنے ہاتھوں سے اذیت ناک سزا دے سکوں ۔۔ “

عباس کے لہجے میں انتقام کی آگ محسوس کرتے ہوئے احمد نے طویل سانس لیا

” اللہ کریں گے جلد ہی وہ مل جائیں گے ہمیں ۔۔ “

احمد کے لہجے میں یقین تھا

“میں ان کا ایسا حال کروں گا کہ سانس لیتے ہوئے بھی موت مانگے گے ۔۔ “

عباس مشتعل ہوتے ہوئے بولا تو احمد نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیا

دن تیزی سے گزر رہے تھے زندگی دعا کے آنے سے مزید خوشگوار ہو گئی تھی عباس ہفتے میں ایک دو بار حویلی چلا جاتا تھا مگر حُرّہ اور دعا کو اکیلے چھوڑنے پر

کبھی رضامند نہیں ہوا تھا سردار شیر دل کے علاوہ حویلی کا کوئی بھی مکین دعا سے ملنے یا اسے دیکھنے نہیں آیا تھا اس بات کا عباس کو شدید دکھ ہوتا تھا مگر وہ فی الحال اس معاملے میں کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ جب بھی وہ حُرّہ کے حق میں بولتا تھا اس کی ماں کو یہ بات ناگوار گزرتی تھی بےشک حُرّہ اور دعا بےقصور تھیں مگر وہ اپنی ماں سے بھی عداوت نہیں رکھ سکتا تھا وجہ ماں اور بیوی دونوں میں توازن رکھنا تھا اسے یہی بہتر لگتا تھا کہ کم از کم حُرّہ سکون سے رہتی ہے ہر پریشانی سے دور رہتی ہے

وہ آج آفس سے جلدی نکلا تھا کہ آج اسے حویلی جانا تھا ماں سے ملنے سیدھا وہ ان کے کمرے میں چلا آیا تھا اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح وہ کھل اٹھیں تھیں

” آج تو رک جاؤ ماں کے پاس ۔۔ !”

انہوں نے عباس کی پیشانی پر ہاتھ جماتے ہوئے  کہا

” ماں صبح جانا پھر مشکل ہو جاتا ہے ۔۔ جلدی آفس پہنچنا ہوتا ہے ۔۔ “

وہ اصل بات نہ کہہ سکا کہ گھر میں حُرّہ اور دعا کو رات کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ جانتا تھا سردار بی بی کو اس کی بات ہرگز پسند نہ آئے گی

” بس بس یہی بہانے ہیں تمہارے ۔۔ ماں کا بھی دل کرتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کے ساتھ کھانا کھائے ۔۔ “

انہوں نے سر جھٹک کر کہا تو عباس مسکرایا

” ٹھیک ہے میں کل لنچ آپ کے ساتھ کروں گا ۔۔ “

وہ مسکرا کر بولا تو سردار بی بی نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلایا

” ماں آپ میری بیٹی سے ایک بار بھی نہیں ملیں گیں ۔۔؟؟ وہ بلکل میرے جیسی ہے آپ دیکھیں گیں تو بے اختیار پیار آئے گا آپ کو اس پر ۔۔ “

وہ ان کی گود میں سر رکھے لیٹا ان کے ہاتھ کو عقیدت سے تھامے شاید ان دو ماہ میں پہلی مرتبہ شکوہ کرتے ہوئے آخر میں مسکرایا تھا دعا کا معصوم خوبصورت چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا کہ اسے اپنے دل میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا تھا جبکہ عباس کے اچانک سوال پر سردار بی بی چونکی تھیں

” میں اس ونی کی بیٹی کو تمہاری اولاد مانتی ہی نہیں ہوں ۔۔ “

وہ کھردرے انداز میں بولیں تھیں کہ کچھ پل عباس ان کا سپاٹ چہرہ ہی تکتا رہ گیا

” و وہ میری اولاد ہے ماں ۔۔ !”

اس مرتبہ وہ ان کی گود سے سر اٹھا کر ان کے سامنے بیٹھتا نہایت سنجیدگی سے گویا ہوا

” ہم نہیں مانتے ۔۔ !”

وہ طنزیہ مسکرا کر بولیں تھیں کہ عباس نے لب بھینچ لیے

” ماں آپ اتنی سخت دل تو کبھی نہیں تھیں ۔۔ “

وہ مدھم آواز میں لہجے میں دکھ لیے بولا تھا

” میری بیٹی مری ہے ۔۔ میرے وجود کا ٹکڑا تڑپ تڑپ کر مرا ہے ۔۔ ظالموں نے میری معصوم بچی سے جانے کون سے بدلے لیے ۔۔ تم اور تمہارے باپ کی طرح سب فراموش نہیں کر سکتی ۔۔ نہیں بھول سکتی اپنی بیٹی کا دکھ ۔۔ جب جب اس دشمن کی بیٹی کو تمہارے ساتھ خوش دیکھتی ہوں ۔۔ میرے دل میں پھانس سی چبھتی ہے ۔۔ “

وہ روندی ہوئی آواز میں کہتی آخر میں رو پڑیں ان کے لہجے کا درد عباس کو بے چین کر گیا وہ خود بھی تو اپنے اوپر مضبوطی کا خول چڑھا چکا تھا کہ مرد تھا سب کے سامنے رو بھی نہیں سکتا مگر دل میں کیسے کیسے درد تھے یہ تو وہی جانتا تھا

” ماں انصاف کریں ۔۔ اس سارے معاملے میں حُرّہ کا کہاں قصور ہے ۔۔ خدا کی قسم اگر آپ ایک جگہ بھی اس کا قصور بھی بتا دیں تو اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں ۔۔ مگر آپ سمجھیں نا ماں ظلم اگر ہمارے ساتھ ہوا ہے ہماری عابی کے ساتھ ہوا ہے تو ظالموں نے کیا ہے ۔۔ حُرّہ اس سارے معاملے میں انجان ہے ۔۔ بےقصور ہے ۔۔ میں خدا سے ڈرتا ہوں ماں ۔۔ پہلے ہی کم آزمائش میں نہیں ہیں ہم لوگ۔۔ کہیں حُرّہ کے خاموش آنسو ہمیں مزید آزمائش میں نہ ڈال دیں ۔۔ “

وہ انہیں سمجھاتا ہوا بول رہا تھا

” لگتا ہے تم سب بھول گئے۔۔ محض اس لڑکی کے سوا ۔۔ اپنی بہن تو تمہیں یاد بھی نہیں ۔۔ “

انہوں نے طنزیہ کہا تھا جبکہ عباس نے ان کی بات پر نفی میں سر ہلایا تھا

” کچھ نہیں بھولا ماں ۔۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہوں اور لوگوں کو انصاف دلواتا ہوں یہی کام ہے میرا ۔۔ تو اپنی بہن کو کیوں نہیں دلواؤں گا انصاف ۔۔ ؟؟”

وہ انہیں یقین دہانی کروا رہا تھا مگر انہوں نے اس کی بات ہوا میں اڑائی

” تو پھر طلاق دے دو اس لڑکی کو اور توڑ دو دشمن کی لڑکی کے ساتھ رشتہ ۔۔ “

وہ اپنی بات پر ہی اڑی ہوئیں تھیں جبکہ ان کا مطالبہ سن کر عباس چند پل ان کو تکتا رہ گیا

” کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں ماں کہ عابی والے معاملے میں حُرّہ بے قصور ہے ۔۔ پھر سزا اسے کیسے دے دوں ۔۔ بلاوجہ کیسے اسے چھوڑ دوں ۔۔  یہ ناانصافی اپنی ہی بیوی کے ساتھ کرنے کے بعد کیا منہ دیکھاؤں گا خدا کو ۔۔ جس نے حساب لینا ہے مجھ سے ۔۔ ؟”

وہ زچ ہو کر لفظ چبا کر ادا کرتا بولا تھا

” کیا مطلب ہے تمہاری ان باتوں کا عباس ۔۔ کہاں ہے تمہاری اور تمہارے باپ کی غیرت ۔۔ آج تم اس لڑکی کو ہی مظلوم کہہ رہے ہو تو کل کو عابی کے قاتلوں کو بھی خدا کے نام پہ معاف کر دو گے ۔۔ “

وہ یکدم آگ بگولہ ہوئیں تھیں

” ہرگز نہیں ماں ۔۔ میں صرف بے قصور کی حمایت کر رہا ہوں ۔۔ قاتلوں کو ان کے انجام تک ضرور پہنچاؤں گا بہت جلد یہ آپ کے بیٹے کا وعدہ ہے آپ سے ۔۔ “

وہ ان کا ہاتھ تھامتے گویا ہوا

” مجھے ان کے خاندان کی لاشیں دیکھنی ہیں عباس ۔۔ مم مجھے میری بیٹی کے قاتل ہر حال میں تڑپتے ہوئے دیکھنے ہیں ۔۔ “

وہ عباس کا ہاتھ جھٹکتی بولیں تھیں کہ عباس نے اثبات میں سر ہلایا

” بہت جلد ماں ۔۔ بہت جلد وہ اذیت ناک انجام کو پہنچیں گے ماں ۔۔ “

عباس کے چہرے اور لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ سردار بی بی کے دل کو سکون پہنچا

” مجھے اپنے بیٹے پر یقین ہے ۔۔ تم سرداروں کا خون ہو یقیناً تم انہیں خطرناک سزا دلواؤ گے ۔۔ مگر ۔۔ “

وہ فخر سے کہتی آخر میں عباس کی آنکھوں میں دیکھنے لگیں

” مگر ۔۔ ؟؟”

عباس نے ان کے خاموش ہو جانے پر سوالیہ انداز میں ابرو اچکا کر پوچھا

” مگر تم وعدہ کرو اس لڑکی کو چھوڑ دو گے ۔۔ ! میرے دل میں عابی کے قاتلوں کے بعد آخری کانٹا اس لڑکی کی صورت میں چبھتا ہے ۔۔ “

وہ اس بار عباس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دوسرا اس کے چہرے پر جمائے بھرپور مامتا کا لمس بخشتیں بولیں تھیں ان کے لہجے میں مان تھا جسے عباس کبھی نہ توڑتا اگر وہ حق بات کہہ رہی ہوتیں

” بولو میرے شیر ۔۔ ! کیا اپنی ماں کی بات رد کرو گے تم ۔۔ ؟”

چند لمحے عباس جب ہنوز ساکت انہیں دیکھتا رہا تو وہ اس کی ڈاڑھی کو انگوٹھا سے سہلاتے ہوئے بولیں

” مت دیکھیں ماں کہ اس کا تعلق کس خاندان سے تھا ۔۔ صرف یہ دیکھیں کہ وہ میری ۔۔ آپ کے بیٹے کی بیوی ہے ۔۔ اور میری بچی کی ماں ہے ۔۔ میں کسی صورت حُرّہ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔۔ “

عباس اپنے اندر کے اشتعال کو باخوبی قابو کرتا بہت دھیمے انداز میں بولا تھا

” ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو ۔۔ !”

وہ رخ موڑ کر بولیں تھیں

“اس دنیا میں اس کا خدا کی ذات کے بعد واحد میں سہارا ہوں ماں ۔۔ کیسے اسے چھوڑ دوں ۔۔ ؟ کس جرم کی سزا دوں اسے ۔۔ ؟”

عباس ہر پہلو سے انہیں سمجھا چکا تھا ہر بار وہ ٹھانے بیٹھیں تھیں کہ کوئی بات نہ سنیں گی نہ سمجھیں گیں مگر وہ اپنی عادت کے مطابق تحمل سے ہر بار انہیں حقیقت سمجھاتا تھا

” میں نہیں چاہتی تم اس لڑکی سے کوئی تعلق رکھو یا وہ ہمارے خاندان کی بہو کہلائے ۔۔ اور لوگ کہیں کہ سرداروں میں غیرت ہی نہیں رہی ۔۔ کہ بیٹی کے قاتل کے خاندان کی لڑکی کو بہو مان لیا اور نسل آگے بڑھا رہے ہیں ۔۔ ابھی تو صرف یہ معلوم ہے لوگوں کو کہ عابی کا محض قتل ہوا ہے ۔۔ ابھی اس کے ساتھ ہوئے ظلم کا کسی کو نہیں پتہ ۔۔ ورنہ کیا منہ دیکھاتے لوگوں کو ۔۔ “

وہ عباس کی ہر بات رد کرتیں آخر میں روندی آواز میں بولیں تھیں جبکہ عباس نے طویل سانس لیتے ہوئے ایک پل کو اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے دوبارہ ماں کو دیکھا عابی کے ساتھ ہوئے ظلم کا چند لوگوں کو علم تھا مگر پھر بھی خود عباس کے دل میں بھی پھانس چبھتی تھی

” میری بات کا جواب دو عباس ۔۔ !”

عباس کے خاموش سے انہیں تکتے رہنے پر وہ اپنے آنسو پونچھتی پوچھنے لگیں

” ویسے تو حویلی میں شان و شوکت سے رہنا میری بیوی اور بیٹی کا حق ہے مگر میں اپنی ماں کو بھی اذیت نہیں دے سکتا ۔۔ اسی لیے وہ دونوں ہمیشہ وہیں رہیں گیں ۔۔ مگر چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا ۔۔ “

عباس صاف گوئی سے بولا تھا

” تم میرے وہ بیٹے ہو جس نے کبھی نافرمانی نہیں کی میری مگر صرف ۔۔ صرف اس ونی کے بارے میں تم نے کبھی میری بات نہیں مانی ۔۔ تو کیسے حوالے کر دوں میں اپنے بیٹے کو اس کے ۔۔ ؟؟”

وہ چنگھاڑتی بولیں تھیں

” آپ ماں ہیں میری ۔۔ آپ کی جگہ بھلا کوئی لے سکتا ہے ۔۔ مت پریشان ہوا کریں ۔۔ چھوڑیں یہ سب باتیں ۔۔ جتنی اس بارے میں بات کریں گے معاملات مزید بگڑیں گے ۔۔ “

عباس نے نرم انداز میں کہتے ہوئے ان کے ہاتھ تھامنے چاہے مگر انہوں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا

” ٹھیک ہے میں تمہاری بیٹی کو قبول کر لوں گی ۔۔ مگر تم اسے یہاں لے آؤ ۔۔ !”

وہ اچانک بولیں تو عباس کچھ پل تو سمجھ ہی نہ سکا ان کی بات کو کہ آخر وہ کیا بول رہیں ہیں

” کیا مطلب ماں ۔۔ ؟؟”

وہ دبی آواز میں بولا تھا

”  صرف تمہاری بیٹی کو قبول کروں گی ۔۔ اس لڑکی کی یہاں کوئی جگہ نہیں ۔۔ “

ایک پل کو عباس کو ان کی زبان سے اپنی بیٹی کا ذکر سن کر اچھا لگا کہ دعا کو تو کم از کم انہوں نے اپنے بیٹے کی اولاد مانا مگر اگلی بات سے عباس کے لب سکڑے

” دعا بہت چھوٹی ہے اور اولاد کو ہمیشہ ہمہ وقت ماں  اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ میں اگلی بار دعا کو آپ سے ملوانے لے آؤں گا ۔۔”

عباس ان کی بات سمجھتا مختصر بولا

” تم سمجھے نہیں شاید ۔۔ میں نے کہا ۔۔ اپنی بیٹی کو یہاں لے آؤ ۔۔ “

سردار بی بی عباس کی بات نظرانداز کرنا محسوس کرتیں اس مرتبہ اپنی بات پر زور دیتا بولا

” اب چلتا ہوں ماں پھر آؤں گا ۔۔ !”

وہ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ اب مزید بحث وہ بھی اپنی ماں سے وہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا

” اپنا خیال رکھئے گا ماں ۔۔ “

وہ ان کے ہاتھوں پر بوسہ دیتا تیز تیز چلتا اپنا سیاہ کوٹ اٹھا کر بازو پر دھرتا کمرے سے نکل گیا جبکہ سردار بی بی اس کی عجلت پر سرد آہ بھر کر رہ گئیں

وہ حویلی سے نکلا تو صد شکر کہ ابھی شام ہونے میں وقت تھا مگر جب اس کی گاڑی شہر کہ حدود میں داخل ہوئی تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی عباس نے گاڑی کا رخ مسجد کی سمت کیا اور نماز ادا کرنے کے بعد وہ کچھ پل یونہی ساکت سا دو زانو بیٹھا رہا یہ وہ در ہے جہاں وہ ہمیشہ اپنی حاضری دیتا تھا

وہ دعائیں سجدے کی حالت میں مانگتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے سجدے طویل ہوتے تھے اسی باعث بہت سے نمازی اس کی جانب متوجہ ہوتے تھے اسی دوران ایک بزگ جو کہ عباس سے خاصے متاثر ہوتے تھے وہ عباس سے ہلکی پھلکی بات چیت کر لیتے تھے انہیں عباس کی وجیہ شخصیت اور قیمتی کپڑوں سے ہمیشہ حیرت ہوتی تھی کہ وہ دکھنے میں خاصا امیر کبیر لگتا تھا مگر اس کچی گلی کی چھوٹی سی مسجد میں اکثر پایا جاتا تھا اسی دوران انہوں نے عباس سے سلام دعا شروع کہ تھی انہیں وہ اچھا لگنے لگا تھا

” السلام علیکم جوان ۔۔ کیسے ہو ۔۔ ؟”

عباس کو اکیلا بیٹھا دیکھ کر وہ اسی کے پاس چلے آئے تھے ان کے ہشاش بشاش انداز پر عباس خیالوں کی دنیا سے لوٹا اور ان بزرگ کو بیٹھنے میں مدد دی

” وعلیکم بابا جی ۔۔ الحمداللہ ۔۔ آپ کیسے ہیں ۔۔ ؟”

مسکرا کر سلام کا جواب دینے کے بعد عباس نے ان سے پوچھا

” کرم ہے اس پاک ذات کا جس نے اتنے گناہوں کے باوجود پردہ رکھ کر کرم کیا ہوا ہے ۔۔”

وہ بھی جواباً مسکرا کر گویا ہوئے

” آج کچھ پریشان لگ رہے ہو ۔۔ ؟؟”

ان کے پوچھنے پر عباس مسکرایا

” جی بس زندگی میں آزمائشیں تو آتی رہتی ہیں ۔۔ بس دعا ہے خدا کے سامنے سرخرو ہوں ۔۔ “

عباس کے لہجے کی سچائی دیکھ کر وہ بھی مسکرائے

” بے شک لیکن مسلمان بھائیوں کو آپس میں اپنے دکھ بانٹنے چاہیے ۔۔ اگر اور کچھ نہ کر سکا تو دعا تو کر سکتا ہے نا دوسرا مسلمان اس کے لیے ۔۔ “

وہ اس بار سنجیدگی سے بول رہے تھے

” ایک سوال پوچھو آپ سے ۔۔ ؟”

عباس کے لب سکڑے تھے وہ بھی سنجیدہ تاثرات لیے پوچھنے لگا

” بلکل ۔۔ !”

انہوں نے خوش دلی سے اجازت دی

” ز زنا ایک قرض ہے ۔۔ اگر آپ کسی کی بیٹی کو داغدار کرتے ہیں تو اپنی خود کی عزت وہ قرض ادا کرتی ہے ۔۔ یہی سچ ہے نا ۔۔ ؟”

آواز کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتا وہ پوچھ رہا تھا

” ہاں بلکل یہی سچ ہے ۔۔ “

انہوں نے بھرپور توجہ سے عباس کے چہرے پر اذیت کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا

” مم مگر ایک شخص جس نے آج تک باخدا کسی لڑکی کو بری نگاہ سے دیکھنا تو دور نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہو ۔۔ مم مگر پھر بھی اس کی عع عزت داغدار ہو جائے تو ۔۔ ؟”

اس سے آگے عباس سے بولا نہ گیا جبکہ اس کی آنکھوں کی نمی ان بزرگ نے باخوبی دیکھ لی

” پھر تو یہ اس شخص کی آزمائش ہے ۔۔ بے شک خدا اپنے بندے کی اتنی آزمائش لیتا ہے جتنے کی سکت وہ رکھتا ہے ۔۔ اس سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا خدا اپنے بندے پہ۔۔ !”

وہ عقیدت سے کہتے ہوئے عباس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ جما چکے تھے

” مگر کبھی کبھی دل پھٹتا ہے ۔۔ دل کرتا ہے ہر چیز کو آگ لگا دوں ۔۔ !”

عباس کا چہرہ ضبط کرتے ہوئے سرخ ہو چکا تھا اور لہجہ درد بھرا

” صبر کا دامن کبھی مت چھوڑنا ۔۔ “

انہوں نے اس کا سرخ چہرہ دیکھتے ہوئے نصیحت کی تو عباس نے چند لمحوں بعد سر ہلایا

وہ جب گھر میں داخل ہوا تو رات ہو چکی تھی عموماً وہ شام سے پہلے گھر آ جاتا تھا مگر آج وہ حُرّہ کو آگاہ کر کے گیا تھا کہ حویلی جائے گا اور واپسی پر دیر ہو جائے گی مگر لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسے دعا کے رونے کی آواز آئی تیز تیز قدم رکھتا وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا جہاں حُرّہ ، دعا کو گود میں لیے بہلاتے ہوئے چکر کاٹ رہی تھی مگر دعا کسی صورت چپ نہیں ہو رہی تھی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عباس ان کی جانب بڑھا عباس کو دیکھ کر حُرّہ کے آنسو بھی چہرے پر گرنے لگے عباس نے نرمی سے دعا کو حُرّہ کی گود سے لیا اور سینے سے لگا کر پیار کرنے لگا

” بس بس میری بیٹی ۔۔ بابا آ گئے نا اپنی بیٹی کے پاس ۔۔ “

عباس ، دعا کو گود میں اٹھائے بولتا پیار کر رہا تھا

” شش شکر ہے آپ آ گئے ۔۔ بہت رو رہی تھی ۔۔ چپ ہی نہیں ہو رہی ۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا ہے اس کو ۔۔ “

حُرّہ بھیگی آنکھیں ان دونوں باپ بیٹی پر جمائے بولی تھی

” حُرّہ میری جان ۔۔ آپ کیوں رو رہیں ہیں ۔۔ ؟”

عباس حیرت زدہ بولا تھا

” بب بہت رو رہی تھی دعا ۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہوا ہے ۔۔ “

حُرّہ سسکیاں بھرتی عباس کی گود میں دعا کو دیکھتی بول رہی تھی جو کہ اب عباس کی گود میں رو تو نہیں رہی تھی مگر بہت رونے کے باعث بندھی ہچکیاں لے رہی تھی

” حُرّہ میری جان ۔۔ دعا بچی ہے اور بچے تو روتے ہیں ۔۔ مگر آپ کیوں رو رہیں ہیں ۔۔ کیا ہوا ہے ؟”

اس کی کلائی تھام کر اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے عباس بولا تو عباس کے سینے سے لگ کر حُرّہ کے رونے میں مزید شدت آ گئی عباس بےبسی سے کبھی روتی ہوئی حُرّہ کو دیکھ رہا تھا تو کبھی اب اپنی گود میں سوتی ہوئی دعا کو دیکھ رہا تھا

” حُرّہ پلیز ریلیکس ۔۔ دیکھیں دعا کو نیند آ رہی تھی اس لیے رو رہی تھی ۔۔ اب وہ سو چکی ہے آپ بھی ریلیکس ہو جائیں ۔۔ آئیں یہاں بیٹھیں ۔۔ “

حُرّہ کو ساتھ لگائے وہ بیڈ تک لایا اور دعا کو کاٹ میں لٹانے کے بعد بیڈ پر بیٹھی روتی ہوئی حُرّہ کی جانب بڑھا

” کیا ہوا میری جان ۔۔ آپ تو اتنی بہادر ہیں پھر آج ایسے کیوں رو رہیں ہیں ۔۔ ؟”

حُرّہ کے برابر بیٹھ کر اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے عباس نے پوچھا

” آآ آپ لیٹ آئے ۔۔۔ مم میں بہت ڈر گئی تھی ۔۔”

حُرّہ سسکتی ہوئی بولی

” جانم میں بتا کر گیا تھا کہ آج حویلی جاؤں گا ۔۔ “

عباس نے یاد دلایا تو حُرّہ نے سر ہلایا

” لیکن رات ہو گئی تھی ۔۔ “

حُرّہ چہرہ بلند کرتی عباس کو دیکھا ل کر بولی تو عباس نے بےساختہ اس کی پیشانی پر محبت سے مہر ثبت کی

” سوری ۔۔ آئندہ دیر نہیں ہوگی ۔۔ “

وہ غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی معافی مانگتا بولا کہ جانتا تھا کہ حُرّہ ایک پل بھی اگر وہ دیر ہو جائے تو ایسے ہی پریشان ہو جاتی ہے

” وعدہ ۔۔ ؟”

” پکا وعدہ جانم ۔۔ !”

لبوں سے اس کی آنکھوں کے آنسو چنتے ہوئے وہ بولا تو حُرّہ اپنے دونوں بازو عباس کے گرد لپیٹتی پرسکون ہو گئی جبکہ عباس ، حُرّہ کی پیش رفت پر کھلے دل سے مسکرایا

Read Here Next Part Main Hun Badnaseeb Part 13

Updated: February 26, 2025 — 5:02 pm

2 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *