“Main Hun Bad Naseeb Urdu Novel Part 16” is a breathtaking Urdu novel that blends romance, emotions, and suspense into an unforgettable story. With every chapter, the plot thickens, making it a perfect read for fans of thrilling and heart-touching Urdu novels.
In Part 16, as the journey nears its conclusion, relationships are tested, unexpected truths come to light, and the characters face their biggest challenges yet. Being the second last part, this episode is packed with intense emotions and gripping drama. Will fate finally be kind to them, or is another storm on the horizon? Read now and witness the final twists before the grand finale!

Main Hun Bad Naseeb Part 16
Read Here Main Hun Bad Naseeb Part 15
” کیا ہوا احمد تم نے اتنی جلدی میں بلایا مجھے ۔۔ ؟؟ سب خیریت تھی ۔۔ ؟”
پولیس ٹیشن میں داخل ہونے کے بعد احمد اسے سامنے ہی نظر آیا عباس کے پکارنے پر احمد نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے لیے اپنے کیبن میں آیا
” عباس میری بات غور سے سننا ۔۔ ! “
احمد نے تمہید باندھی عباس ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا
” ہمم بولو ۔۔ سن رہا ہوں ۔۔ “
عباس بےحد سنجیدگی سے گویا ہوا
” ہم جسے قاتل سمجھ رہے تھے ۔۔ اس نے قتل نہیں کیا ۔۔ “
احمد کی بات پر عباس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
” کس کی بات کر رہے ہو ۔۔ ؟؟”
” خاور نے عابی کا قتل نہیں کیا ۔۔ بلکہ اس کا تو عابی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔۔ “
احمد ایک بار پھر گویا ہوا مگر اس کے الفاظ عباس کی سماعتوں پر بہت بھاری گزرے کئی پل وہ بے یقینی کی کیفیت میں احمد کا چہرہ تکتا رہا
“کک کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔ ؟”
اس کے لب پھڑپھڑائے تھے
” میں صحیح کہہ رہا ہوں ۔۔ خاور اس کیس کا اہم فریق ہے ۔۔ مگر وہ قاتل نہیں ہے ۔۔ “
احمد مزید بولا تھا نگاہیں عباس کے چہرے پر تھیں
” عابی کے ساتھ ہوئے سانحے کا چشم دید گواہ ہے خاور ۔۔ قاتل نے اس کو دیکھ لیا تھا ۔۔ خاور اپنی جان بچا کر بھاگا یہی اس کی غلطی تھی کہ وہ چھپ گیا ملک سے باہر چلا گیا ۔۔ اگر وہ بیان دے دیتا ۔۔ جو اب اس نے آ کر بتایا ہے وہ اسی وقت بتا دیتا تو اصل قاتل بہت پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ جاتا ۔۔ خاور وہ واحد آدمی تھا جو گاؤں سے اچانک غائب ہوا تھا ۔۔ سارے ثبوت اس کے خلاف تھے ۔۔ ہمارا شک اس لیے اس کی طرف گیا ۔۔ اس لیے سارا الزام ہی خاور پر لگا دیا گیا ۔۔ درحقیقت قاتل کوئی اور تھا اور اس قدر شاطر کہ ہمارے سامنے رہا ۔۔ ہمیں بےوقوف بناتا رہا ۔۔ اور ہم بنتے رہے ۔۔ “
احمد جیسے جیسے بولتا جا رہا تھا عباس کے ماتھے کے بل بڑھتے جا رہے تھے
” کک کون ہے ۔۔ کون قاتل ہے ۔۔ ؟”
عباس کی آواز میں بوجھل پن تھا دو سال تک وہ دھوکے میں رہا تھا جسے ڈھونڈنے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیے وہ تو وہ تھا ہی نہیں وہ تو دھوکہ تھا
” تم پہلے خاور سے مل لو ۔۔ اسے تم سے بات کرنی ہے ۔۔ وہ تمہاری تلاش میں ہی میرے پاس آیا تھا ۔۔ “
احمد نے کہا اور بیل دی چند لمحوں میں ہی ایک سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے آدمی کمرے میں داخل ہوا عباس کی نگاہیں اس پر ٹک گئیں
” چھوٹے سردار ۔۔ !”
اس نے سر جھکائے عباس کو پکارا جبکہ عباس بے تاثر نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
” مم مجھے معاف کر دیں سرکار ۔۔ مم میں ڈر گیا تھا اس لیے بھاگ گیا گاؤں سے ۔۔ مم میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں ۔۔ میرے علاوہ کوئی سہارا نہیں ان کا ۔۔ اگر میں نہ جاتا تو آپ مجھے مار دیتے ۔۔ “
ہاتھ جوڑے وہ گویا ہوا اور عباس نے اسے سرد نگاہوں سے دیکھا
” خدا کے لیے مجھے چھوٹی بی بی سے ملوا دیں ۔۔ میرے ماں باپ ان سے معافی مانگنا چاہتے ہیں ۔۔ انہیں بےقصور ہو کر بھی ونی کیا گیا ۔۔ میرے ابا کی اچانک موت نے میری ماں کے ذہن پر برا اثر ڈالا ۔۔ میری ماں یہی کہتی ہے کہ یتیم پر ظلم کیا ہے اسی کی سزا ہے ۔۔ ! جب تک معافی نہیں مانگ لیتے ان سے خدا بھی معاف نہیں کرے گا ہمیں ۔۔تبھی مصیبتیں ختم ہوں گی ہماری ۔۔ “
وہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑے بول رہا تھا جبکہ عباس کا چہرہ کسی بھی جزبے سے عاری تھا وہ بے تاثر نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا
” قق قتل کس نے کیا تھا ۔۔ ؟؟ کسے دد دیکھا تھا تم نے اس دن ۔۔ ؟؟”
عباس بولا تو خاور کے آنسو تھمے
/////////////////////////
” شہزاد ۔۔ !!”
حویلی میں داخل ہوتے ہی وہ دھاڑا تھا کہ حویلی کے در و دیوار لرز اٹھے
حویلی کے نوکروں کے علاوہ مالکان بھی اپنے کمروں سے نکل کر باہر آ چکے تھے عباس کی آنکھوں میں خون دیکھ کر ہر کوئی لرز گیا سرداد شیر دل نے بیٹے کو تاسف سے دیکھا جس کا چہرہ وحشت زدہ تھا
” عباس ۔۔! کیا ہوا بیٹا ۔۔؟؟”
ابھی سرداد شیر دل نے پوچھا ہی تھا کہ عباس دور سے آتے شہزاد کی جانب لپکا اور اسے لیے حویلی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا پیچھے سرداد شیر دل، سرداد بی بی اور ناعمہ کے علاوہ کسی اور کے آنے کی جرات نہ تھی
” کس چیز کا بدلہ لیا ہے تم نے ہم سے ۔۔ کیا قصور تھا میری بہن کا ۔۔ ؟؟”
شہزاد کا گریبان پکڑے وہ دھاڑا تھا جبکہ شہزاد کا رنگ لمحے میں زرد پڑا تھا
” میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا مگر اس سے پہلے میں وہ وجہ جاننا چاہتا ہوں جس کے باعث تم نے اتنا بڑا ظلم کیا ۔۔ جانتے ہو کیوں ۔۔ ؟ کیونکہ تمہیں میں نے بچپن سے اپنے ساتھ پایا ہے ۔۔ آج تک تمہاری آنکھوں میں ہوس نہیں دیکھی میں نے ۔۔ پھر یہ سب کیسے مان لوں کہ تم ۔۔ تم ہی میری عزت کے قاتل ہو ۔۔ “
شہزاد پر دھاڑتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے جبکہ شہزاد کی آنکھوں اور سر ہمیشہ کی طرح عباس کے ادب میں جھکا ہوا تھا مگر لب قفل تھے
” یہ جھکی ہوئی آنکھیں اور جھکا ہوا سر ۔۔ یقیناً شرمندگی کے باعث تو نہیں ہو گا ۔۔ شہزاد مجھے جواب چاہیے ۔۔ نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔”
شہزاد کا ہنوز احترام میں کھڑے رہنا عباس کو مزید مشتعل کر گیا وہ مکا شہزاد کے چہرے ہر مارتا دھاڑا جبکہ شہزاد کے ناک سے خون بہنے لگا وہ ناک پر ہاتھ رکھے لڑکھڑا گیا باقی سب ہنوز اپنی جگہ ساکن کھڑے تھے
” بولو ۔۔ !!”
ایک اور مکا شہزاد کے چہرے پر مارتے وہ دھاڑا
” مم میری نو سال کی معصوم بہن تو نہیں بھولی ہو گی آپ کو بڑے سردار ۔۔ ؟؟”
شہزاد لہجے میں نفرت لیے اور آنکھوں میں انتقام لیے سرداد شیر دل کی جانب رخ کیے پوچھ رہا تھا جبکہ اس کے غیر متوقع سوال پر سب نے اسے ناسمجھی سے دیکھا مگر ایک لمحے سے بھی کم وقت میں سردار شیر دل کے چہرے پر موت کی زردی اتری
” کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔ اس بات کا کیا مقصد ۔۔ ؟؟”
چند لمحے خاموشی کے بعد عباس پھر سے غرایا جبکہ شہزاد نے اپنی آنکھیں سردار شیر دل کی آنکھوں میں گاڑیں ہوئیں تھیں
” یہیں سے تو کہانی شروع ہوئی تھی چھوٹے سردار ۔۔ !”
ہنوز سردار شیر دل کو دیکھا وہ بولا
” کک کیا کک کہنا چچ چاہتے ہو ۔۔ ؟؟”
بے ربط الفاظ میں سردار شیر دل نے سوال کیا انہیں بہت سے اندیشوں نے جکڑ لیا تھا جبکہ عباس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیا ہو وہ شہزاد کے بولنے کا منتظر تھا
” تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے میری نو سالہ بہن کو وحشیوں نے نوچ کھایا ۔۔ صرف تمہاری وجہ سے ۔۔ !”
شہزاد کے لہجے میں درد تھا وہ بولا تو اپنے الفاظ سے وہاں موجود ہر شخص کو منجمد کر گیا
” تم جانتے بھی ہو کس سے مخاطب ہو ۔۔ ؟؟ “
عباس نے غصے سے اس کے گریبان پر گرفت سخت کی
” جی چھوٹے سردار ۔۔ میں اپنی بہن کے مجرم سے مخاطب ہوں ۔۔ “
شہزاد لہجے میں نفرت لیے بولا
” خبردار اگر میرے بابا کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا تم نے ۔۔ !”
عباس پھر سے غرایا
” سردار شیر دل میں اتنی ہمت نہیں ہے چھوٹے سردار ۔۔ کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرے ۔۔ اس لیے میں ہی بتا دیتا ہوں ۔۔ “
شہزاد اس بار عباس کی جانب دیکھتا گویا ہوا
” آج سے بیس سال پہلے ۔۔ سرداد شیر دل نے مجھے اور میری بہن کو حویلی میں پناہ دی کیونکہ ہم لاوارث تھے ۔۔ یتیم تھے ۔۔ حویلی کے ایک خاص ملازم نے میری معصوم بہن کے ساتھ غلط کرنے کی کئی بار کوشش کی ۔۔ میری بہن نے مجھے بتایا اس وقت میں بارہ سال کا تھا ۔۔ میں نے یہ بات سردار شیر دل کو بتائی کہ ان کا وفادار ملازم ایک گھٹیا شخص ہے جس کی نگاہیں میری معصوم بہن کو بھی نہیں چھوڑتی ۔۔ “
الفاظ جیسے جیسے شہزاد کی زبان سے ادا ہو رہے تھے وہاں موجود ہر زی روح کی سانسیں مدھم ہو گئیں لمحہ بھر کے لیے شہزاد خاموش ہوا گریبان ابھی بھی عباس کی گرفت میں تھا
” مگر سردار شیر دل نے مجھے بچہ کہہ کر خاموش کروا دیا ۔۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔۔ اس شخص نے میری نو سالہ بہن کو اپنی ہوس کا نشان بنا لیا اور میں کچھ نہ کر سکا ۔۔ میری بہن مر گئی مگر انتقام کی آگ میرے اندر جلا گئی ۔۔ “
وہ پھر لمحے بھر کے لیے خاموش ہوا تھا
” میں نے ساری بات سردار شیر دل کو بتائی مگر انہوں نے اپنے خاص ملازم کو کچھ نہ کہا ۔۔ اور مجھے ہی آپ کے ساتھ شہر بھیج کر حویلی سے دور کر دیا ۔۔ مگر اس سے پہلے میں نے اپنا انتقام لینا نہ بھلایا ۔۔ میں نے بارہ سال کی عمر میں ہی اس شخص کو قتل کر دیا ۔۔ “
“مگر انتقام تو مجھے سردار شیر دل سے بھی لینا تھا ۔۔ اس لیے صحیح وقت کا انتظار کرنے لگا ۔۔ اس دوران میں نے یہ ظاہر کیا کہ میں سب بھول چکا ہوں ۔۔ میں اپنے دشمن پر اچانک حملہ کرنا چاہتا تھا ۔۔ پھر کئی سال بعد میرا وقت آیا ۔۔ جیسا ظلم میری بہن کے ساتھ ہوا ۔۔ ویسا ہی سردار شیر دل تمہاری بیٹی کے ساتھ کیا میں نے ۔۔ کیونکہ دنیا مکافات عمل ہے ۔۔ “
شہزاد خاموش ہوا تو سردار شیر دل نے سر جھکا لیا جبکہ شہزاد کے گریبان پر عباس کی گرفت خودبخود ڈھیلی پڑ گئی
” مم میری بیٹی بے قصور تھی ۔۔ تت تم نے اپنے مجرم کو مار تو دیا تھا ۔۔ میں جانتا تھا کہ اسے تم نے قتل کیا ہے مگر میں خاموش رہا ۔۔ پھر کیوں ۔۔ کک کیوں بدلہ لیا تم نے میری بیٹی سے ۔۔ “
سردار شیر دل غصے اور دکھ کی کیفیت میں چنگھاڑے تھے جبکہ شہزاد کے لبوں پر اب زہریلی مسکراہٹ بکھری سردار شیر دل کا مچلنا ، تڑپنا دیکھ کر شہزاد کو سکون پہنچا جیسے برسوں کی بے چینی ختم ہو گئی انتقام کی آگ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پڑے ہوں
” میری بہن کا کیا قصور تھا جو صرف تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہوئی ۔۔؟؟”
شہزاد بھی چیخا تھا جبکہ عباس بے حس و حرکت تھا اس کی بے تاثر نگاہیں سردار شیر دل پر تھیں سردار بی بی بھی گم صم کھڑیں تھیں اب وہ دوبارہ عباس کی جانب مڑا
” خاور نے مجھے قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔ میں اسے بھی مارنا چاہتا تھا مگر وہ بھاگ گیا ۔۔ مجھے موقع مل گیا میں نے الزام اسی کے سر لگا دیا ۔۔ مجھے لگا تھا وہ اب کبھی گاؤں نہیں آئے گا کیونکہ وہ جانتا تھا آپ اس کو نہیں چھوڑیں گے مگر کچھ عرصے بعد وہ جذبات میں آ کر اپنے ماں باپ سے ملنے آ گیا ۔۔ یہی سے سب خراب ہو گیا ۔۔ حُرّہ بی بی کے ساتھ ہوئے ظلم نے سب کو ہلا دیا ۔۔ بے شک یہ دنیا مکافات عمل ہے ۔۔ خاور کے ماں باپ کو بھی سزا ملی ۔۔ اور میں بھی جانتا ہوں میں بھی گناہگار ہوں ۔۔ میری سزا کا وقت بھی شروع ہو چکا ہے ۔۔ مگر اس سے پہلے میں ایک اور بات بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں چھوٹے سردار ۔۔ “
شہزاد بولتا جا رہا تھا مگر عباس سرد نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا
” حُرّہ بی بی کو حویلی سے جانے پر سردار بی بی اور ناعمہ بی بی نے مجبور کیا تھا ۔۔ انہوں نے ہی شہر آپ کے گھر پر اپنے آدمی بھیجے تاکہ حُرّہ بی بی کی عزت داغدار کرے مگر اللہ نے ان کا ساتھ دیا وہ وہاں سے اپنی بیٹی کو لیے بچ نکلیں ۔۔ وہ بہت بری حالت میں یہاں آئیں تھیں ۔۔ بار بار ہاتھ جوڑ کر یہاں رہنے کی التجا کرتی رہیں مگر ناعمہ بی بی اور سردار بی بی نے انہیں حویلی میں پناہ نہ دی ۔۔ “
شہزاد کے مزید انکشاف پر عباس کی نگاہیں اس پر ست ہوتی ہوئیں سردار بی بی اور ناعمہ بی بی پر ٹک گئیں
” میرے انتقام میں جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ حُرّہ بی بی ہیں ۔۔ بنا قصور کے ان پر ظلم ہوا ۔۔ میں نے آج تک کچھ بھی کیا اپنے انتقام کے لیے مجھے پچھتاوا نہیں کیونکہ جو مستحق تھے ان کو سزا ملی مگر حُرّہ بی بی اور آپ اس کی لپیٹ میں آ گئے ۔۔ “
شہزاد نے بولتے ہوئے عباس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے کیونکہ احمد آ چکا تھا اس کے پیچھے سپاہی بھی تھے
” آخری بات سردار شیر دل تم سے کہنا چاہوں گا ۔۔ اب ساری زندگی اپنی بیٹی کی بربادی کا سوگ منانا ۔۔ اس سوچ کے ساتھ کے تمہاری بیٹی کے ساتھ جو بھی ہوا وہ تمہاری وجہ سے ہوا ۔۔ تمہارے کیے کی سزا ملی تمہاری بیٹی کو ۔۔ “
احمد کے ہتھکڑی لگانے تک وہ اپنی بات مکمل کر چکا تھا جبکہ سردار شیر دل کا غم دوگنا ہوا تھا کہ مکافات عمل کی لپیٹ میں اس کی بے قصور بیٹی آئی
عباس نے سر کو دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیا سردار شیر دل کا سر جھکا ہوا تھا اور وہ زار و قطار رو رہے تھے
بوجھل قدموں سے چلتا عباس ان کے پیچھے چلا تھا کیونکہ ابھی بہت سے سوال تھے جو شہزاد سے اسے پوچھنے تھے تھانے پہنچ کر وہ سیدھا شہزاد کے پاس آیا تھا
” ابھی بھی آدھا سچ بتایا ہے تم نے ۔۔ مجھے حقیقت بتاؤ ۔۔ !”
انداز حکمیہ تھا مگر آواز میں زمانوں کی تھکن تھی جبکہ شہزاد سلاخوں کے قریب آیا
” میں جانتا تھا آپ ضرور آئیں گے ۔۔ “
وہ ہنوز ادب سے گویا ہوا
” میں نے تو پوسٹ مارٹم کروایا ہی نہیں تھا عابی کا ۔۔ پھر رپورٹس کیسے آ گئیں ۔۔ شک مجھے اسی وقت ہو گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے ۔۔ مگر تم نے چال ہی ایسی چلی کہ میرا دھیان ان رپورٹ سے ہٹا کر اس بات پر لگا دیا کہ قتل تین لوگوں نے کیا ہے ۔۔ “
عباس مٹھیاں بھینچے بولا جبکہ شہزاد کے لب مسکرائے
” عابی بی بی کا دامن داغدار نہیں تھا ۔۔ میں نے یا کسی نے زیادتی نہیں کی تھی ان کے ساتھ ۔۔ چاہتا تھا کرنا ۔۔ کیونکہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا مگر آپ کی شرافت نے مجھے بے بس کر دیا ۔۔ آپ کی عزت کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے پہلے میں نابینا ہو جاتا ۔۔ لیکن سردار شیر دل کو تڑپتا دیکھنا بھی خواہش تھی میری ۔۔ میں نے صرف یہ ظاہر کروایا عابی بی بی کا حلیہ بگاڑ کر کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔۔ اور پھر انہیں قتل کر دیا ۔۔ اور ڈاکٹر کو پیسے دے کر جھوٹی رپوٹ بنوائی ۔۔ یہ حقیقت میں نے سردار شیر دل کے سامنے اس لیے نہیں بتائی تاکہ وہ ساری زندگی تڑپے کہ اس کے کیے کی سزا اس کی بے قصور بیٹی کو ملی ۔۔ “
وہ خاموش ہوا تو عباس اس کی جانب لپکا
” میری بہن بے قصور تھی ۔۔ تمہیں ترس نا آیا اتنی بےرحمی سے اسے قتل کرتے ہوئے ۔۔ ؟”
وہ شہزاد کے چہرے پر مکے مارتا دھاڑا شہزاد خاموشی سے اس کی مار کھاتا رہا
ایک طرف عباس کے دل میں سکون اترا تھا کہ اس کی بہن کی عزت پر داغ نہیں لگا تھا مگر دوسری طرف وہ تڑپ گیا تھا کہ سزا اس کی معصوم بہن کو کیوں ملی
” عباس ۔۔ !”
احمد نے عباس کو بمشکل سنبھالا اور پیچھے کیا
عباس ایک نگاہ شہزاد پر ڈالے خود کو احمد کی گرفت سے چھڑایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی سمت بڑھ گیا
////////////////////////
وقت تیزی سے گزر رہا تھا ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا سردار شیر دل کو اسی دن دل کا دورہ پڑا تھا جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک تھی عباس کے اتنا علاج کروانے سے بھی کوئی بہتری نہیں آئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالت بہتر ہونے کے بجائے وہ قومے میں چلے گئے اور پھر کچھ مہینوں بعد زندگی کی بازی ہار گئے
سرداد بی بی کو فالج کا اٹیک ہونے سے وہ بستر سے لگ گئیں تھیں ، نورے اور عالیان بیرون ملک رہائش پذیر ہو چکے تھے اسی باعث ناعمہ بی بی حویلی میں اکیلی تڑپتی رہتیں نورے انہیں ساتھ لے جانا چاہتی تھی مگر یہ اکیلے پن کی سزا انہوں نے اپنے لیے خود چنی تھی
عباس کی زندگی جیسے رک گئی تھی ہر روز وہ حُرّہ اور دعا کی تلاش میں نکلتا مگر کوئی سرا ہاتھ نہ لگتا سب حقیقت جاننے کے بعد کہ اس کے باپ کی غلطی کی وجہ سے اس نے اپنی بہن کھوئی اور اپنی ماں اور چچی کی وجہ سے وہ اپنی بیوی اور بیٹی سے دور تھا اس نے کبھی ماں ، باپ اور چچی کے احترام میں کمی نہیں آنے دی سردار بی بی کا علاج کرواتے ہوئے بھی وہ پرامید تھا کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گی اس دوران اس نے حُرّہ کو بہت ڈھونڈا مگر شاید وہ ملنا ہی نہیں چاہتی تھی اس لیے لاکھ کوشش کے باوجود نہیں مل رہی تھی
////////////////////////
ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے خدا جانتا ہے کہ ہمارے حق میں کیا بہتر ہے اس وقت ہم خدا کی مصلحت نہیں سمجھ پاتے کیونکہ ہماری عقل میں بس اپنی خواہشات حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ہم صرف ایک پھول کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور خدا ہمیں پھولوں سے بھرا گلدستہ دینا چاہتا ہے
نورے وہ لڑکی تھی جو ہر طرح کے حالات میں خالق کی رضا میں راضی رہی جس سے اس نے بچپن سے محبت کی وہ اسے نہیں ملا مگر جو ملا وہ کسی سے کم نہیں تھا اس نے حقیقت کو قبول کیا کہ اس کے نصیب میں خالق نے عالیان کو لکھا تھا
عالیان اسے متاع جاں کی طرح تصور کرتا تھا محبت ، عزت سے اس نے نورے کے دل کو جیت لیا تھا کبھی بھی عالیان نے اس کی پہلی محبت کا ذکر نہیں کیا تھا نورے نے اپنے ماضی کے بارے میں اسے بتانا چاہا تو عالیان نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے حال اور مستقبل کے جوابدہ ہیں ماضی کو بھول جائیں تو بہتر ہے امریکہ وہ عالیان کے بزنس کی وجہ سے آئے تھے مگر سب حقیقت انہیں معلوم ہو چکی تھی وہ دونوں عباس اور حُرّہ کے لیے دعاگو تھے کہ عباس کو اس کی بیوی اور بیٹی مل جائیں
دو سال ہو گئے تھے اسے عباس سے بھاگتے ہوئے ، چھپتے ہوئے ، دعا تین سال کی ہو چکی تھی کتنا تکلیف دہ تھا ان کے لئے کہ جب پہلی بار دعا نے بابا کہا تھا اس وقت بھی عباس ان کے پاس نہیں تھا اس وقت حُرّہ کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں
پھر جب دعا نے چلنا شروع کیا تھا اس وقت بھی عباس ان سے دور تھا حالات کی ستم ظریفی ایسی تھی کہ چاہ کر بھی وہ عباس کے پاس نہیں جا سکتی تھی نورے اور عباس کی زندگی پر اپنا سایہ بھی نہیں ڈالنا چاہتی تھی مگر کسک تھی کہ کیا وہ اور اس کی بیٹی ساری زندگی محرومی کی زندگی گزاریں گیں دن بھر محنت کر کے رزق حلال کما کر وہ لاتی تھی تو رات کو اکثر عباس کی یاد سونے نہ دیتی تھی فرحت بی اور تہمینہ نے کئی مرتبہ اس کا حال دیکھ کر اسے سمجھایا کہ وہ عباس کے پاس چلی جائے اگر عباس نے دوسری شادی کی بھی ہے تو پھر بھی اس پر دعا اور تمہارا حق ہے مگر حُرّہ خاموشی سے ان کی نصیحتیں سنتی رہتی مگر جواب نہ دیتی
جولائی کی گرمی اپنے جوبن پر تھی سورج گویا آگ برسا رہا تھا یہ حیدرآباد کے ایک عام سے علاقے کا منظر تھا یہاں تقریبا تمام ہی معمولی سے مکانات تھے ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف نظر آ رہا تھا کچھ لوگ درختوں کے سائے تلے کھڑے تھے تو کوئی گنے کے ٹھیلے کے پاس کھڑا اس گرمی سے بچنے کے لیے گنے کے جوس سے لطف اندوز ہو رہا تھا
اس تپتی دھوپ میں وہ تیز تیز قدم بڑھا رہی تھی معمولی سا ایک سفید رنگ کا لان کا سوٹ پہنے وہ بڑی سی مہرون چادر سر پر سلیقے سے اوڑھے ہوئے تھی وقفے وقفے سے اسی چادر سے چہرے اور گردن پر آیا پسینہ صاف کر رہی تھی عمر لگ بھگ بائیس سال تھی مگر جانے کیوں اس لڑکی کے چہرے پر زمانوں کی تھکن تھی جیسے لمبا سفر طے کر کے آ رہی ہو
وہ چھوٹی تنگ گلی میں داخل ہو کر تیز تیز قدم بڑھاتی ایک ہاتھ میں دوائیوں کا شاپر تھامے کچھ تھکی تھکی سی لگ رہی تھی
ایک معمولی سے تین کمرے کے مکان کے گھر میں جب وہ داخل ہوئی تو ہمیشہ کی طرح سلائی مشین کی آواز نے اس کا استقبال کیا
کچے پکے مکان کے چھوٹے سے صحن کو عبور کرتی ہوئی وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی جہاں دو چارپائیاں اس طرح پڑیں تھیں کہ ایک کمرے کے وسط میں اور دوسری چارپائی کھڑکی کے پاس تھی کمرے میں مزید کوئی چیز نہ تھی
حرّہ نے کمرے میں داخل ہو کر چادر اتار کر دوائیوں کے شاپر سمیت اسی چارپائی پر رکھی جو کھڑکی کے ساتھ تھی اور خود بھی اب وہ اسی چارپائی پر براجمان ہو چکی تھی بیٹھے سے اب وہ چپل سمیت ہی لیٹ گئی تھی کئی دن سے بے آرامی کے باعث آج وہ اپنے سر میں بھی شدید سر درد محسوس کر رہی تھی لیکن نہیں یہ سر درد تو اسے اب ہمیشہ ہی رہنے لگا تھا بیشک وہ بہت زیارہ خوبصورت نہیں تھی مگر جانے کیا دکھ تھے اسے کہ اچھی خاصی ہونے کے باوجود اپنی حالت یوں بگاڑ کر رکھتی کہ بالوں کی لمبی چٹیا میں سے آدھے بال نکلے رہتے اور آنکھیں ہمہ وقت نم رہتیں
چارپائی پر چت لیٹی وہ آنکھیں میچے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ابھی اس کا پسینہ خشک نہ ہوا تھا کہ چھت پر لگا پنکھا بند ہو گیا مگر حرّہ نے آنکھیں وا نہ کیں اور نہ اس کے وجود نے کوئی حرکت کی جیسے اسے معلوم تھا کہ بجلی بند ہونے والی ہے
” ماما ۔۔ ماما ۔۔”
وہ ہنوز آنکھیں موند کر لیٹی ہوئی تھی جب ایک تین سالہ بچی کی چہکتی آواز نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا حرّہ کے تھکان زدہ چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بکھری تھی آنکھیں کھول کر اس نے اپنے پاس کھڑی بچی کو دیکھا جس کی خوبصورت آنکھیں بھی آج مسکرا رہیں تھی اس بچی کی مسکراہٹ دیکھ کر حرّہ کی ساری تھکاوٹ اور سر درد جیسے دور ہو گیا خود بیٹھ کر اس نے بچی کو اپنی گود میں بیٹھایا اور اس کے چہرے پر بوسا دیتے ہوئے مامتا کی پیاس بجھانے لگی
” ماما کی جان اتنی خوش ہے آج تو لگتا ہے ماسی ماں نے پرنسز کی ساری باتیں مانی ۔۔”
حُرّہ دُعا کو پیار کرتی ہوئی مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی جب اسے آدھے ٹوٹے پھوٹے فرش پر کسی بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی یہ آواز اس کے دل کو شدت سے دھڑکنے پر مجبور کر گئی ہاتھوں میں لرزش پیدا ہوئی تھی ہونٹ کپکپا گئے دل نے بس اُسی کی آمد کی گواہی دی جس سے وہ ہمیشہ سے بھاگ رہی تھی مگر شاید آج وہ وقت آن پہنچا تھا جس سے وہ فرار چاہ رہی تھی رکی ہوئی سانس کو بحال کرتی وہ خشک ہونٹوں پر لب پھیرتی اٹھی اس نے دعا پر گرفت سخت کی جیسے آنے والا اس سے اس کی دعا کو چھین لے گا
عباس نے خستہ حال دروازے پر ہلکی سی دستک دی جیسے اپنے آنے کا احساس دلایا ہو مگر وہ جانتا تھا کہ حُرّہ تو دور سے ہی اس کی خوشبو پہچان گئی ہوگی دستک دے کر وہ چند پل وہیں کھڑا رہا جبکہ اس کی جائزہ لیتی نگاہیں اس کمرے سے ہوتی ہوئیں حُرّہ پر جا ٹہریں جو رخ موڑے یوں بے حرکت کھڑی تھی جیسے پتھر کی ہو عباس نے اپنے سیاہ کوٹ کے بٹن کو کھول دیا شاید اسے گرمی کا احساس ہوا تھا پینٹ کی جیب سے رمال نکال کر پیشانی پر آئے پسینے کو صاف کر کے وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا حُرّہ تک پہنچ چکا تھا دعا ، حُرّہ سے خود کو چھڑوا کر لپک کر عباس کی ٹانگوں سے آ لپٹی جبکہ عباس نے لمحہ ضائع کیے بنا دعا کو اپنی گود میں اٹھا کر پیار کیا اب حُرّہ بھی مڑ چکی تھی جھکی نگاہوں سے بھی وہ عباس کی شخصیت کے سحر میں جکڑ چکی تھی جبکہ عباس کی نگاہیں حُرّہ کے وجود کو یوں تکنے لگی جیسے صدیوں کی پیاس بجھا رہیں ہوں حُرّہ کو اس طرح عجیب حالت میں دیکھ کر عباس کے دل پر جانے کیوں بوجھ سا محسوس ہوا اپنے تڑپتے دل کو مضبوط کرتے ہوئے عباس نے بھاری آواز میں اسے پکارا جو سر اور نگاہیں جھکائے کھڑی جیسے سانسیں بھی روکے کھڑی تھی
” کیسی ہیں حُرّہ ۔۔؟”
دعا کو گود میں اٹھائے عباس بولا تو پہلی مرتبہ حُرّہ نے پلکوں کے گھنے جھالڑ اٹھا کر اس مہرباں کو دیکھا یقیناً وہ اس سوال کی توقع تو ہرگز نہیں کر رہی تھی دونوں کی آنکھیں ملیں تو دل بے قابو ہو گئے عباس اور اس کی گود میں دعا کو دیکھ کر حُرّہ کے حلق سے دبی دبی سسکی نکلی جس کا منہ پر ہاتھ رکھ کر حُرّہ نے گلا گھونٹ دیا جبکہ عباس نے تڑپ کر حُرّہ کو دیکھا وہ جو سوچ رہا تھا آج ہر سوال کا جواب لے گا حُرّہ سے ہر حساب برابر کرے گا مگر ہونٹ قفل ہو گئے تھے
” کیوں اتنا بڑا ظلم کیا حُرّہ آپ نے ۔۔ آپ اتنی ظالم کیسے ہو سکتیں ہیں ۔۔ کس چیز کی سزا دی آپ نے مجھے ۔۔؟”
یہ وہ سارے سوال تھے جو وہ حُرّہ سے پوچھنا چاہتا تھا مگر وہ یہ سوال کر کے حُرّہ کو اذیت نہیں دے سکتا تھا اس لیے
کچھ پل گزرے تھے کہ عباس نے بولنے کی ہمت جمع کی
” بات نہیں کریں گی کیا ۔۔؟ “
عباس کے دھیمے لہجے اور محبت بھرے انداز پر حُرّہ کا دل تڑپ اٹھا
” آج بھی غصہ نہیں آ رہا اس شخص کو ۔۔ ؟؟ نفرت کیوں نہیں کرتا یہ شخص مجھ سے ۔۔؟”
عباس کے سینے سے لگی دعا کو دیکھتی وہ دل میں سوچ رہی تھی
جب عباس کی پینٹ کی جیب میں موجود موبائل بج اٹھا عباس سیل فون نکال کر ہاتھ میں لیتے سکرین پر موجود نام دیکھ کر ٹھٹھکا اور حُرّہ اس کے چہرے کو دیکھ کر پہچان گئی کہ کال کرنے والی ہستی کون ہے
” میں کبھی بھی نورے اور آپ کے درمیان نہیں آ سکتی چھوٹے سرکار ۔۔ آپ بات کر لیں ان سے ۔۔”
عباس کو کال کاٹ کر موبائل واپس جیب میں رکھتے دیکھ کر حُرّہ نگاہیں چرا کر بولی اور ساتھ ہی وہ دُعا کو اپنی گود میں لے چکی تھی
” آپ آج بھی غلطی پر ہیں حُرّہ ۔۔ “
حُرّہ کی بات پر عباس مٹھیاں سختی سے بھینچتا سرد مہری سے بولا
” میں ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی تمام غلطیاں قبول کرتی ہوں ۔۔ سرکار “
وہ آنسو حلق میں اتارتی دھیمی آواز میں بولی
” دُعا کے ساتھ ظلم کر رہیں ہیں آپ ۔۔ “
وہ ملامت بھری نگاہوں سے حُرّہ کی جھکی آنکھوں میں دیکھتا شکایت کر رہا تھا جبکہ دعا اپنی جانب کسی کو متوجہ نہ پا کر ہاتھ میں پکڑی گڑیا کو لے کر کمرے سے بھاگتی ہوئی چلی گئی
” ظلم تو قسمت نے کیا ہے ہم پر ۔۔عباس ہمدانی صاحب ۔۔ “
پہلی بار وہ عباس کی آنکھوں میں اپنی نم آنکھوں سے دیکھتی دبی دبی آواز میں غرائی تھی جب عباس نے حُرّہ کی جانب قدم بڑھائے ہوش حُرّہ کو تب آیا جب عباس نے اس کے قریب جا کر اس کی پیشانی پر اپنے گرم لبوں کا لمس چھوڑا
” حُرّہ میری جان ۔۔ !”
سختی سے حُرّہ کو خود میں بھینچے وہ اس کو مکمل اپنے حصار میں لے چکا تھا جبکہ حُرّہ دم سادھے اس کے لمس کو محسوس کر رہی تھی
” کیوں حُرّہ کیوں کیا آپ نے ایسا ۔۔ اتنے بڑی بڑی آزمائشوں میں اتنا صبر کیا آپ نے ۔۔ پھر کیوں حالات سے فرار چاہی آپ نے ۔۔ ؟؟”
حُرّہ کو خود سے جدا کیے اب وہ اس کے چہرے کو والہانہ انداز میں تکتا پوچھ رہا تھا جبکہ اس کے سوال پر حُرّہ سسک اٹھی تھی سوچتی تھی کہ اب وہ مضبوط ہو گئی ہے مگر اس مہرباں کو دیکھ کر جیسے ہجر کی اذیت کی آنکھیں گواہی دے رہیں تھی
” تت تھک گئی میں ۔۔ سس سرداد ۔۔ تت تھک گگ گئی تت تھی ۔۔ “
وہ عباس کی شرٹ کے کالر کو مٹھیوں میں دبوچے شدت سے روتے ہوئے بےربط الفاظ ادا کر پائی
” میں آپ کی ہمت نہیں تھا کیا ۔۔ ۔؟؟ ہمارا رشتہ ڈھال نہیں تھا کیا ۔۔ ؟؟”
عباس اس کے ہاتھوں کو اپنے شکنجے میں لیتے ہوئے آنچ دیتی نگاہوں سے اسے تکتا لہجے میں شدت لیے بولا
” کیوں خاموش ہیں اب ۔۔ ؟؟ حُرّہ مم میری بیٹی ۔۔ ہماری بیٹی ۔۔ ہمارے رشتے کی مضبوط ضمانت ہے ۔۔ کیوں پھر اپنے حق سے پیچھے ہٹیں تھیں آپ ۔۔ “
حُرّہ کی خاموشی پر وہ مشتعل ہوا اس کے ہاتھوں پر ذرا سا دباؤ ڈالتا ہوا وہ دبی دبی آواز میں بولا
” میرا پیچھے ہٹنا حالات کا تقاضا تھا سردار ۔۔ “
چہرے کو ذرا سا موڑتے ہوئے وہ خود کو مضبوط کرتی بولی تھی مگر عباس کی والہانہ نگاہیں اس کے وجود کو لرزنے پر مجبور کر رہیں تھیں
” حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔ !”
عباس نے اس کے چہرے کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا اس کے انداز میں شدت و اذیت تھی
” میں کمزور تھی ۔۔ ننن نہیں کر سکی مقابلہ ۔۔ !”
اپنے چہرے پر عباس کی گرم سانسوں کو محسوس کرتی وہ نگاہیں جھکائے سرد انداز میں بولی
” با خدا عورت جتنا مضبوط میں نے کسی کو نہیں پایا ۔۔ اور پھر آپ تو ماں ہیں میری بیٹی کی ۔۔ ماں کمزور نہیں ہو سکتی ۔۔ پھر دعا کی خاطر ہی تھوڑا سا اور لڑ لیتی حالات سے ۔۔ “
عباس کے لہجے میں دو سالوں میں سہی گئی اذیت کی آمیزش تھی
” آپ پلیز چلے جائیں یہاں سے ۔۔ نورے بی بی کے ساتھ خوش رہیں ۔۔ خدارا میری قربانی رائیگاں مت جانے دیں ۔۔ “
وہ دل برداشتہ ہو کر بولی تھی اس شخص کی قربت اسے بےحال کر رہی تھی
” خودی سے ہر چیز کا حساب لگا لیتیں ہیں آپ ۔۔ ؟؟”
اس بار عباس نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
” پپ پلیز جائیں چھوٹے سردار ۔۔ نورے انتظار کر رہیں ہوں گی آپ کی ۔۔ !”
وہ اس سے نگاہیں چرائے خود کو اس کی گرفت سے نکالنے کی بھرپور کوشش میں تھی جبکہ اس کی بات پر عباس نے لب بھینچے
” آپ کے انہیں غلط اندازوں کی وجہ سے دعا اور آپ سے دو سال دور رہا ہوں میں ۔۔ “
وہ اس سے اس انداز میں شکوہ کر رہا تھا کہ حُرّہ اسے دیکھتی رہ گئی آواز دھیمی اور انداز میں بچوں جیسی ضد تھی
” مم میں معافی چاہتی ہوں آپ سے سردار ۔۔ “
وہ فوراً بولی تو اس کے انداز میں طنز کی آمیزش تھی جبکہ عباس نےابرو اچکائے
“میری وجہ سے آپ اپنی بیٹی سے دور رہے مگر مم میں ایک معمولی لڑکی ہوں میری اولاد بھی عام سی ہے ۔۔ مجھے لگا ہماری کسی کو کیا ضرورت ۔۔ !”
وہ مزید بولی تھی جیسے وہ خود نہیں عباس نے اسے دور کیا ہو دو سال پہلے جبکہ عباس اس کے شکایت کرتے ہوئے انداز پر سرد نگاہوں سے اسے گھورنے لگا
” جتنا عرصہ آپ میری دسترس میں رہیں ۔۔ ایک بار بھی آپ کو محسوس ہوا کہ آپ محض میری ضرورت ہیں ۔۔ ؟؟”
وہ سپاٹ انداز میں پوچھ رہا تھا جبکہ حُرّہ نے اس مرتبہ شرمندگی سے سر جھکا لیا وہ کتنی پاگل تھی جو عباس سے ہی شکوے کر رہی تھی جبکہ دوری کا فیصلہ تو اس کا اپنا تھا
” آپ میری بیوی ہیں حُرّہ ۔۔ میری بیٹی کی ماں ۔۔ میں نے اپنی بیوی سے محبت کی یعنی آپ سے ۔۔ اور بے حد کی ۔۔ ہمیشہ کرتا رہوں گا ۔۔ میں وہ مرد نہیں ہوں جن کے لیے بیوی محض ضرورت ہوتی ہے ۔۔ میرے لیے میری فیملی ہر چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔۔ “
شدت جذبات سے بولتا ہوا وہ یکدم خاموش ہو گیا اور حُرّہ سے جدا ہوا رخ دوسری جانب پھیر لیا جبکہ حُرّہ اسے دیکھتی گھبرا گئی
” مم می میں نے صرف آپ کا سکون چچ چاہا تھا ۔۔ جو کہ بڑے سردار اور سردار بی بی کی بات ماننے میں تھا ۔۔ “
عباس کی پشت کو دیکھتی اس بار اس کا لہجہ بھیگا ہوا تھا
” میرا سکون آپ ہیں حُرّہ ۔۔ کتنی بار یہ بات میں نے اپنے عمل اور باتوں سے جتائی آپ کو ۔۔ کیوں نہیں سمجھیں آپ ۔۔ جانتیں ہیں ۔۔ آپ کے بغیر ۔۔ دعا کے بغیر کس طرح دو سال ۔ حُرّہ دو سال ۔۔ کس طرح رہا ہوں میں ۔۔ پل پل آپ کو یاد کیا ۔۔ دعا کو یاد کیا ۔۔ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا آپ کو ۔ اگر ناہید مجھے نہ ملتی اور مجھے سب کچھ نہ بتاتی تو ۔۔ جانے اور کتنے عرصے مزید امتحان لیتی آپ میرا ۔۔ “
وہ شکوہ کرتے ہوئے بولا تھا حُرّہ نے سر جھکا لیا
” مم میں آپ کو اپنی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔ ہمارا ایک دوسرے سے دور رہنا بہتر ہے سردار ۔۔”
وہ نگاہوں کا رخ دوسری سمت کرتے ہوئے اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوئے بولی جبکہ عباس نے افسوس سے اس بے رحم لڑکی کو دیکھا جو ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھی
” حُرّہ میں اپنی بیٹی سے دو سال تک دور رہا ہوں ۔۔ آپ ابھی بھی اتنے آرام سے دور ہونے کی بات کر رہیں ہیں ۔۔ جانتی ہیں بہت ظط ظالم ہیں آپ ۔۔ !”
وہ شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتا بولا
” حُرّہ کیا یہ معمولی بات ہے ۔۔ میں نے وہ وقت نہیں دیکھا جب میری بیٹی نے پہلا قدم خود اٹھایا تھا ۔۔ اور ۔۔ اور جب میری بیٹی نے پہلا لفظ بولا تھا ۔۔ دو سال میں اپنی بیٹی سے دور رہا ۔۔ کیا آپ کو ذرا ترس نہیں آیا مجھ پر ۔۔ “
حُرّہ کی ہنوز خاموشی پر وہ اس کے چہرے کو ہاتھ میں تھامے رنج و غم کی کیفیت میں پوچھ رہا تھا
” معاف کیجئے گا سردار مگر ۔۔ دعا صرف میری بیٹی ہے ۔۔ سردار شیر دل اور سرداد بی بی کی خواہش آپ کی خاندانی بیوی سے اولاد ہونا ہے نا تو میری یا میری اولاد کی اوقات تو آپ کی خاندانی بیوی اور اولاد کے آگے کچھ بھی نہیں ۔۔ خدا کا واسطہ ہے چھوٹے سردار مم مجھے اور میری بیٹی کو اکیلا چھوڑ دیں ۔۔ نورے بی بی کے پاس چلے جائیں پپ پلیز ۔۔ “
دوندی ہوئی آواز میں کہتی حُرّہ نے خود کو اس کے حصار سے نکالا
” نورے کا نام بار بار میرے ساتھ جوڑ کر آپ توہین کر رہیں ہیں ہمارے مابین رشتوں کی ۔۔ “
حُرّہ کی باتیں کسی بھی مخلص شخص کو اشتعال میں لا سکتیں تھیں مگر عباس کے لیے حُرّہ وہ ہستی تھی جس سے وہ ذرا سی بھی بلند آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا
” میں اپنے ہر کہے گئے لفظ کی معافی چاہتی ہوں ۔۔ پلیز چلے جائیں یہاں سے ۔۔ “
سفاکیت سے کہتے ہوئے وہ عباس کا مزید دل دکھا رہی تھی
” نورے کی شادی دو سال پہلے ہی عالیان سے ہو چکی ہے ۔۔ وہ الحمداللہ اس وقت سے امریکہ میں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں ۔۔ “
عباس کے الفاظ کئی پل کے لیے حُرّہ کو سکتے میں لے گئے وہ ہونق بنی پھٹی آنکھوں سے عباس کو تک رہی تھی جب عباس نے چند قدم بڑھا کر بے حد نرمی سے اسے اپنے حصار میں لیا
” بھلا اپنی بیوی سے بےوفائی کر سکتا تھا میں ۔۔ آپ کے علاوہ کسی لڑکی کو آنکھ بھر کے دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوں ۔۔ “
اپنے چہرے کو حُرّہ کے چہرے کے قریب کر کے وہ ذرا سا جھکا تھا اور مدھم آواز مگر مضبوط انداز میں بولا تھا حُرّہ ساکت نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی
” عالیان نے نورے کا رشتہ بہت محبت سے مانگا تھا اور نورے نے بھی خدا کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا ۔۔ وہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی ۔۔ حالات کے مطابق ڈھل گئی ۔۔ اور آج اپنے صبر کا پھل بھی پا چکی ہے ۔۔ ابھی اس لیے نورے کی کال آ رہی تھی کہ وہ دونوں پاکستان آنے والے تھے ۔۔ اور مجھے ان دونوں کو ریسیو کرنے جانا تھا مگر مجھے آپ کے پاس اور اپنی بیٹی کے پاس آنا تھا کیونکہ پہلا حق آپ دونوں کا ہے مجھ پہ ۔۔ “
وہ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں بولتا اسے تفصیلی جواب دے کر چپ ہوا اور اب حُرّہ کا پر سوچ چہرہ تکنے لگا
” یی یہ کیا ہو گیا مم مجھ سے ۔۔ ؟؟”
بے ربط الفاظ ادا کرتی وہ خود سے مخاطب تھی جبکہ عباس نے سرد آہ بھری
کئی لمحے وہ اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا تھا مگر وہ جیسے گہرے صدمے میں کھڑی تھی یقیناً اگر عباس نے اسے کمر سے جکڑا ہوا نہ ہوتا تو ضرور گر جاتی
” حُرّہ ۔۔ !”
کمرے کی خاموشی میں عباس کی بھاری آواز گونجی مگر حُرّہ ساکن کھڑی تھی اس کی نگاہوں میں اب ندامت کے اثرات ابھرے تھے
” حُرّہ جانم پلیز کچھ بولیں ۔۔ “
حُرّہ کی پتھرائی ہوئی نگاہوں میں دیکھتا وہ لہجے میں صدا کی نرمی و فکر لیے پوچھ رہا تھا مگر حُرّہ کے حلق سے الفاظ نکلنے سے انکاری تھے
” چلیں گھر چلیں ۔۔ !”
حُرّہ کے گرد حصار بنائے وہ بولا اور اسے لیے کمرے سے نکلا جبکہ حُرّہ بے جان وجود کی طرح اس کے ساتھ ہو لی
باہر آ کر اس نے فرحت بی کا شکریہ ادا کیا اور دعا کو گود میں اٹھائے حُرّہ اور ناہید جو ساتھ لیے چل دیا
گاڑی دعا کو اس نے اپنی گود میں بیٹھائے ڈرائیور کی دعا ایک دن میں ہی اس سے اس قدر مانوس ہو گئی تھی کہ عباس کے دل نے گواہی دی خون کی کشش ضرور ہوتی ہے مگر ایک طرف اس کے دل میں ٹیس بھی اٹھی تھی کہ اس کی بیٹی اتنے عرصے تک اپنے باپ کے پیار سے محروم رہی تھی
گاڑی جب حویلی کی حدود میں داخل ہوئی تو حُرّہ نے بےساختہ چہرے کا رخ عباس کی جانب کیا عباس اسے بغیر دیکھے اب دعا کو گود میں اٹھائے گاڑی سے نکلا اور اس کی جانب بڑھا گاڑی کا دروازہ کھولے اس نے حُرّہ کا گود میں رکھا ہاتھ خود ہی استحقاق سے تھاما اور نرمی سے اسے باہر نکالا اور قدم بڑھانے لگا مگر حُرّہ نے چند قدم چلنے کے بعد اپنے قدم روک لیے
یہ وہ جگہ تھی جہاں ہمیشہ اس کی تذلیل کی جاتی تھی جہاں سے اسے اور اس کی بیٹی کو نکالا گیا تھا کتنی منتیں کیں تھی اس نے حویلی کے مکینوں کی کہ اسے پناہ دے دیں مگر ان سخت دل عورتوں نے اسے جانے پر مجبور کر دیا تھا آنسو پلکوں کی باڑ سے گرے تو وہ ہوش میں آئی
عباس نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا حُرّہ نے عباس کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا عباس نے طویل سانس خارج کیا اور حُرّہ کا ہاتھ چھوڑ کر اپنا بازو اس کے گرد حمائل کیا اور اپنے ہونے کا احساس دلایا نا چاہتے ہوئے بھی حُرّہ کو عباس کے ساتھ قدم ملانے پڑے
یہ حویلی آج بھی اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑی تھی حُرّہ اطراف پر نگاہیں رکھتے سوچ رہی تھی ملازمین ہاتھ باندھے احترام سے کھڑے یکے بعد دیگرے اسے اور عباس کو سلام کر رہے تھے
” سردار ۔۔ رب آپ کو سلامت رکھے ۔۔ حویلی کی رونق واپس لے آئے ۔۔ ہماری چھوٹی بی بی کو واپس لے آئے ۔۔ “
ایک پرانی عمر رسیدہ ملازمہ نے عباس کی گود سے دعا کو لیتے ہوئے دعائیں دیں اور حُرّہ کو بھی سلام کیا جبکہ حُرّہ کی نگاہیں حویلی کے مکینوں کو تلاش کر رہیں تھیں تبھی ناعمہ بی بی اسے اپنے قریب آتی دیکھائی دیں
” شکر ہے آپ آ گئیں ۔۔ شکر ہے خدا کا ۔۔ !”
نم آنکھوں سے حُرّہ کے قریب پہنچ کر انہوں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے
” روز دعا مانگتی تھی کہ مرنے سے پہلے آپ سے معافی مانگ لوں ۔۔ کیونکہ جب تک آپ معاف نہیں کریں گیں تب تک خدا بھی معاف نہیں کرے گا ۔۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دیں ۔۔ میری وجہ سے آپ حویلی سے جانے پر مجبور ہو گئیں تھی ۔۔”
ہاتھ جوڑے وہ روتے ہوئے کہہ رہیں تھیں عباس کی نگاہیں حُرّہ کے چہرے پر تھیں جو الجھ کر ناعمہ بی بی کو دیکھ رہیں تھیں
” چھوٹے سردار ۔۔ خدا کے لیے ۔۔ حُرّہ کو بولیں مجھے معاف کر دیں ۔۔ !”
حُرّہ کو حیرت زدہ دیکھ کر وہ اس بار عباس سے سفارش کرتی بولیں تھیں
” حُرّہ ۔۔ !”
عباس کے پکارنے پر وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی
” پلیز بیٹا معاف کر دو ۔۔ !”
وہ حُرّہ کے قدموں کی جانب جھکیں تھیں جب حُرّہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوئی
” پلیز ۔۔ ایسے نہیں کریں ۔۔ !”
ناعمہ بی بی کو کاندھے سے تھامے وہ بولی تو ناعمہ بی بی رونے لگیں
” میں نے بہت غلط کیا تھا آپ کے ساتھ بیٹا ۔۔ میں نے چھوٹے سردار کو اپنی بیوی اور بیٹی کے لیے تڑپتا ہوا دیکھا ہے ۔۔ خدا پتہ نہیں مجھے معاف کرے گا بھی یا نہیں ۔۔ “
وہ روتے ہوئے بولیں تو حُرّہ نے عباس کی جانب دیکھا
” پلیز چچی جان روئیں نہیں ۔۔ میں نے کتنی بار آپ سے کہا ہے ۔۔ بھول جائیں اس بات کو ۔۔ اب دیکھیں ہماری دعائیں رنگ لے آئیں ۔۔ حُرّہ اور دعا مل گئیں نا مجھے ۔۔ پھر پرانی باتیں دہرا کر آپ خود کو اذیت دے رہیں ہیں ۔۔ “
عباس ان کے جڑے ہاتھوں کو عقیدت سے تھامتا ہوا کہہ رہا تھا جبکہ حُرّہ ابھی بھی الجھن کا شکار تھی
” آپ دونوں کا دل بہت بڑا ہے چھوٹے سردار ۔۔ “
باری باری حُرّہ اور عباس کے چہرے کو دیکھتی وہ کہنے لگی تو عباس ان کی بات پر محض مسکرایا
” ماشااللہ ۔۔ ہماری چھوٹی بی بی تو بڑی ہو گئی ۔۔ بلکل چھوٹے سردار آپ جیسی ہے دعا ۔۔ “
دعا کی جانب مڑ کر وہ اسے پیار کرتیں محبت سے کہہ رہی تھیں
” حُرّہ ماں جی سے مل لیتے ہیں ۔۔ “
حُرّہ سے کہتے ہوئے اب وہ اسے لیے سرداد بی بی کے کمرے کی جانب بڑھے جبکہ حُرّہ کا دل ان سے ملنے پر ہرگز بھی آمادہ نہیں تھا مگر مجبوراً عباس اسے لیے کمرے میں داخل ہوا
” السلام علیکم ماں جی ۔۔ !”
کمرے میں داخل ہو کر عباس نے باآواز بلند سلام کیا جبکہ حُرّہ کی نگاہیں بستر پر پڑے وجود کو دیکھ کر پھیل گئیں سردار بی بی کے بیمار وجود کو دیکھ کر اس نے تعجب سے عباس کو دیکھا جبکہ سردار بی بی عباس کی آواز سن کر منہ سے عجیب آوازیں نکالنے لگیں چند لمحے لگے تھے حُرّہ کو سردار بی بی کو دیکھ کر سمجھنے میں کہ انہیں کیا بیماری ہے
” یہ دیکھیں ماں ۔۔ کون آیا ہے ۔۔ آپ کی بہو اور پوتی ۔۔ “
خوش دلی سے کہتے ہوئے عباس نے دعا کو ملازمہ کی گود سے لیا اور حُرّہ کا ہاتھ تھامے ان کے بیڈ کے قریب آ رکا جبکہ سردار بی بی کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے وہ بلند آواز میں عجیب کچھ کہہ رہی تھیں انہیں دیکھ کر حُرّہ کو مزید تشویش ہوئی تھی آخر دو سالوں میں یہ ہو کیا گیا تھا مگر درحقیقت ہر کوئی اپنے اچھے برے عمل کا صلہ پا لیتا ہے
” جی جی ماں ۔۔ دونوں بلکل ٹھیک ہیں ماشااللہ سے ۔۔ یہیں رہیں گی اب ۔۔ کہیں نہیں جاتی ۔۔ “
حُرّہ نے دیکھا عباس ان کی آنکھوں کے اشاروں اور عجیب آوازوں کے جواب دے رہا تھا
” حُرّہ ماں آپ سے معافی مانگ رہیں ہیں ۔۔ پلیز ان سے بات کریں ۔۔ ؟”
عباس سنجیدگی سے اس سے مخاطب ہوا تو حُرّہ کے آنسو خودبخود بہنے لگے چند لمحوں میں ہی حُرّہ کا مدھم رونا اب بلند سسکیوں میں بدل گیا تھا
” حُرّہ پلیز روئیں نہیں ۔۔ ٹھیک ہے آپ بات نہ کریں ماں سے مگر پلیز روئیں نہیں ۔۔ آپ کو ایسے روتے دیکھ کر ماں کو برا لگے گا ۔۔ “
حُرّہ کی جانب جھک کر سرگوشی کرتے ہوئے وہ بولا تو حُرّہ عباس کے سینے سے لگ گئی
” مم میں ۔۔ نن نے ۔۔ یی یہ ۔۔ نن نہیں ۔۔ چچ چاہا تھا ۔۔ سرداد ۔۔ “
عباس کے سینے میں منہ چھپائے وہ سسکتے ہوئے کہہ رہی تھی
” میری جان کس نے کہا کہ آپ نے یہ چاہا ہے ۔۔ “
اس کی کمر سہلاتے ہوئے عباس نے کہا اور اسے لیے کمرے سے نکلا حُرّہ اور دعا کو اپنے کمرے میں لانے کے بعد اس نے دعا کو حُرّہ کی گود میں دیا
” آپ ریلیکس رہیں ۔۔ میں آتا ہوں ابھی ۔۔ پھر ساتھ میں کھانا کھائیں گے ۔۔ “
حُرّہ کی گود میں موجود دعا کے ماتھے پر بوسہ دینے کے بعد وہ حُرّہ کے چہرے پر جھکا اور اس کے ماتھے پر مہر ثبت کرنے جے بعد پیار سے کہہ کر وہ دوبارہ سردار بی بی کے کمرے کی جانب بڑھ گیا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کی ماں رو رہیں ہو گی
جبکہ حُرّہ نم آنکھوں سے کمرے کو دیکھنے لگی جو آج بھی ویسا ہی تھا اس حویلی میں یہ واحد جگہ تھی جہاں اس کی زندگی کے حسین لمحات بسر ہوئے تھے عباس کے ساتھ گزارے گئے حسین پل آج بھی یہاں زندہ تھے
////////////////////////
” بی بی جی چھوٹے سردار آپ کو باہر بلا رہے ہیں ۔۔ وہ جی نورے بی بی اور عالیان صاحب آئیں ہیں ۔۔ “
وہ اپنی سوچوں میں گم بیٹھی دعا کے سوالوں کے جواب غائب دماغی سے دے رہی تھی جب ایک ملازمہ مؤدب سی آ کر اسے کہہ رہی تھی حُرّہ نے اپنی چادر کو لپیٹا اور دعا کی انگلی پکڑی کمرے سے نکلی
” السلام علیکم حُرّہ کیسی ہو ۔۔ ؟”
جیسے ہی حُرّہ دھڑکتے دل کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی اسے دیکھتے ہی نورے لپک کر اس کی جانب بڑھی اور سلام کرتی اسے گلے ملی
” واؤ یہ تو بلکل اپنے بابا جیسی ہے ۔۔ پرنسز بہت مس کیا آپ کو ۔۔ “
حُرّہ کے بعد نورے دعا سے لپٹی جبکہ حُرّہ ، نورے کو دیکھتی رہ گئی جو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی شاید یہ اس کے چہرے پر سجی خوبصورت مسکراہٹ کا کمال تھا ورنہ اس نے نورے کو اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا تھا
” السلام علیکم بھابھی کیسی ہیں آپ ۔۔ ؟”
عالیان بھی احتراماً کھڑا ہوا حُرّہ کو سلام کرتا اب وہ دعا کو نورے کی گود سے لے رہا تھا
” ارے عباس دعا تو بلکل تمہاری کاپی ہے نا نورے ۔۔ کیوٹ پرنسز ۔۔ “
دعا کو گود میں لیتے وہ باری باری عباس اور نورے سے مخاطب ہوا
” ہمم میری بیٹی جو ہے ۔۔ مجھ پر ہی جانا تھا اس نے ۔۔ “
عباس بھی مسکراتا ہوا بولا تھا جبکہ ناعمہ بی بی سمیت ملازمہ نے بھی عباس کو اتنے عرصے بعد مسکراتے دیکھ کر شکر ادا کیا ان سب کی مسکراہٹیں دیکھ کر حُرّہ کے لب بھی ہولے سے مسکرائے
” اچھا لگا آپ دونوں کو ایک بار پھر ساتھ دیکھ کر ۔۔ خدا آپ دونوں کی جوڑی سلامت رکھیں ۔۔ “
حُرّہ اور عباس کو دیکھتے ہوئے نورے بولی تو سب نے آمین بولا حُرّہ نے عباس کو دیکھا جو نگاہیں دعا کی جانب رکھتے ہوئے مسکرایا تھا
” نورے ڈیڈ کی کال آ رہی ہے ۔۔”
عالیان کا موبائل بجا تو سکرین پر چمکتا نام دیکھ کر بولا
” چلیں ٹھیک ہے پھر ۔۔ ہم لوگ کل آئیں گے ۔۔ ابھی چلتے ہیں ۔۔ !”
نورے سر ہلاتی بولی
” ڈنر کر کے جانا ۔۔ “
ان دونوں کو اٹھتا دیکھ کر عباس گویا ہوا
” یار ڈیڈ ویٹ کر رہے ہیں ابھی ۔۔ کل کر لیں گے ڈنر ۔۔ اوکے بھابھی آپ کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا کھائیں گے کیونکہ ۔۔ نورے میڈم کھانا بنانے کے معاملے میں کچھ زیادہ اچھی نہیں ہیں ۔۔ “
عباس کے گلے ملتا وہ حُرّہ کو کہتا آخر میں نورے کو تنگ کر رہا تھا جبکہ نورے اس کی بات پر مسکرائی
” حُرّہ میں بہت اچھا کھانا بناتی ہوں کل جلدی آؤں گی ۔۔ تمہارے ساتھ بنواؤں گی کھانا پھر بتانا کہ میں کیسا کھانا بناتی ہوں ۔۔ “
وہ عالیان کو گھورتی حُرّہ سے مخاطب تھی حُرّہ مسکراتے ہوئے نم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی
” چلیں میڈم ۔۔ “
نورے کی گھوری پر وہ فوراً بولا تو دونوں خدا حافظ کرتے حویلی سے نکل گئے
///////////////////////
” بی بی جی ۔۔ !”
نورے اور عالیان کے جانے کے بعد کھانا کھا کر عباس ، سرداد بی بی کے پاس چلا گیا جبکہ اس نے ناہید کو حُرّہ کے پاس بھیجا تھا تب سے ناہید حُرّہ کو گم صم بیٹھا دیکھ رہی تھی بالآخر اسے پکار بیٹھی
” ہممم ۔۔ !”
حُرّہ نے گود میں لیٹی سوئی ہوئی دعا کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے ہنکار بھرا
” آپ مجھ سے ناراض ہیں نا ۔۔ تبھی بات نہیں کر رہیں ۔۔ “
ناہید نے حُرّہ کے پریشان چہرے کو دیکھ کر پوچھا
” میں نے کیوں ناراض ہونا ہے آپ سے ۔۔ ؟”
وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی
” میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ۔۔ چھوٹے سردار سے نہیں ملوں گی ۔۔ لیکن میں ان سے ملنے حویلی آئی اور انہیں آپ کے بارے میں بتایا ۔۔ “
سر جھکائے وہ اعتراف کر رہی تھی جبکہ حُرّہ نے خاموش نگاہوں سے اسے دیکھا
” خدا کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے ۔۔ !”
مختصر کہہ کر حُرّہ نے لب بھینچ لیے
” مجھے معاف کر دیں بی بی جی ۔۔ لیکن میں آپ کی یہ حالت نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔ سارا دن نوکری کرنے کے بعد جب آپ گھر آتی تھی تو مرجھایا ہوا چہرہ ۔۔ اور کیا رات کو آپ کے رونے کی آواز مجھے چین لینے دیتی تھی ۔۔ ہماری دعا بی بی کا حق ہے سردار پہ ۔۔ سوچ سوچ کر ، رو رو کر آپ نے خود کا کیا حال کر لیا سر درد ہوتا تھا تو دوائی بھی نہیں لیتی تھیں ۔۔ بس پھر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں چھوٹے سردار کے پاس آ گئی ۔۔ “
ناہید کے لہجے میں فکر مندی تھی
” ناہید باجی ۔۔ یی یہ سس سردار بی بی ۔۔ کک کو کک کیا ۔۔ مطلب آپ کو معلوم ہے یہ کک کیسے ہوا انہیں ۔۔ ؟”
بے ربط الفاظ ادا کرتی وہ بمشکل خود کو رونے سے روک پائی تھی کیونکہ جس مغرور سرداد بی نی کو اس نے دیکھا تھا وہ یہ تو بلکل بھی نہیں تھیں کون سوچ سکتا تھا کہ ان کا یہ انجام بھی ہو سکتا تھا
” میں جب گاؤں آئی تو ۔۔ گاؤں والوں سے حویلی کے حالات پوچھے ۔۔ انہوں نے بتایا کہ ۔۔ عابی بی بی کا قاتل خاور نہیں بلکہ شہزاد تھا ۔۔ یہ حقیقت جاننے کے بعد شہزاد کو چھوٹے سردار نے جیل میں ڈلوا دیا ۔۔ اور بی بی جی اس وقت بڑے سردار کو دل کا دورہ پڑا وہ انتقال کر گئے ۔۔ ان سارے صدموں میں سردار بی بی کو فالج ہو گیا ۔۔ چھوٹے سردار نے بڑے علاج کروائے لیکن بستر سے لگ گئیں وہ ۔۔ خدا معاف کرے بی بی جی ۔۔ آپ کے ساتھ تھوڑے ظلم کیے ان لوگوں نے ۔۔ بندے بھول جاتے ہیں لیکن خدا تھوڑی بھولتا ہے اپنے بندے کے ساتھ ہوئی زیادتی ۔۔ میں تو آپ کے ہر پل کی گواہ ہوں بی بی جی ۔۔ سرداد کی بیوی اور بیٹی ہو کر آپ نے اور دعا بی بی نے کیسے کیسے وقت گزارا ۔۔ “
ناہید اپنی ہی دھن میں بول رہی تھی مگر حُرّہ کے چہرے پر کئی رنگ گزرے
” مم میں نے یہ نہیں چاہا تھا ناہید باجی ۔۔ وو وہ معزور ہو گئیں ۔۔ یہ یہ ۔۔ نہیں چاہا تھا میں نے ۔۔ وہ تکلیف میں ہیں ۔۔ مم میں اتنی پتھر دل نہیں ہوں کہ کسی کو اس حال میں دیکھنے کی خواہش کروں ۔۔ اللہ انہیں شفاء دیں ۔۔ “
وہ سچے دل سے دعا کرتی بولی تھی
” ہاں جی آمین ۔۔ “
ناہید بھی سر ہلاتی بولی اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور عباس اندر داخل ہوا اسے دیکھتے ہی ناہید سلام کرتی کمرے سے نکل گئی جبکہ حُرّہ آنسو پونچھ کر نگاہیں چرانے لگی
” سو گئی میری بیٹی ۔۔ ؟”
حُرّہ کی گود میں سوئی دعا کو دیکھتا وہ پوچھ رہا تھا پھر دروازہ لاکڈ کرنے کے بعد وہ بیڈ پر حُرّہ کے برابر آ کر لیٹ گیا حُرّہ نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا وہ کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا
” عالیان اور نورے کل دوبارہ آئیں گے حویلی ۔۔ آج جلدی میں تھے کیونکہ عالیان کے ڈیڈ ویٹ کر رہے تھے ان دونوں کا مگر انہیں آپ سے اور دعا سے ملنے کی جلدی تھی ۔۔ اس لیے پہلے یہاں آئے ۔۔ “
حُرّہ کو سرسری انداز میں مطلع کرنے کے بعد وہ دعا کو بہت نرمی سے اس کی گود سے اٹھا کر اپنے برابر لٹا رہا تھا اب ان دونوں کے درمیان دعا تھی
” آرام کر لیں آپ تھک گئی ہوں گی ۔۔ “
اپنی جانب کا لیمپ آف کرتے ہوئے وہ دعا کو اپنے سینے سے لگاتا آنکھیں موندے نہایت سنجیدگی سے بولا جبکہ عباس کا اسے نظرانداز کرنا حُرّہ کو اضطراب میں مبتلا کر گیا
” سس سنیں ۔۔ !”
بے اختیار اس نے عباس کو پکارا تھا اسے عباس کا رویہ عجیب لگا تھا
” جی حکم ۔۔ ؟”
آنکھیں میچے وہ مدھم آواز میں بولا تو اس کے انداز پر حُرّہ سسک اٹھی
” سس سردار ۔۔ !”
سسکتے ہوئے وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بولی تو عباس نے لمحے سے پہلے آنکھیں وا کیں اور اٹھ کر حُرّہ کی جانب آیا
” میری جان ۔۔ کیا ہوا ۔۔ ؟”
حُرّہ کے چہرے سے ہاتھ ہٹاتا وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا جبکہ حُرّہ اس کے گرد اپنے بازو حمائل کرتی لپٹ گئی
” مم مجھ سے ناراض مت ہوں پپ پلیز ۔۔ مم میں ۔۔ اا اس لیے ۔۔ چچ چلی ۔۔ گئی تھی ۔۔ کک کہ اس وقت چلے ۔۔ چچ چلے جانا بب بہتر تھا ۔۔ “
روتے ہوئے وہ بمشکل بولی تھی
” اا اپنے لیے ۔۔ دد دعا کے لیے ۔۔ اا اور آپ کے لیے ۔۔ یہ فیصلہ کک کیا تھا ۔۔ اا اس وقت اور کوئی رر راستہ ۔۔ نہیں تھا مم میرے ۔۔ پپ پاس ۔۔ آپ کو بب بہت پپ پکارا ۔۔ لیکن آپ نہیں آئے ۔۔ “
عباس کو مزید بتاتے ہوئے وہ جیسے اپنی صفائی کے ساتھ شکوہ بھی کر رہی تھی عباس خاموشی سے اسے سن رہا تھا کیونکہ وہ اسے سننا چاہتا تھا جو رب کے سوا کسی کو اپنے دکھ نہیں سناتی تھی
” دعا سے دور رہے اتنا ٹائم ۔۔ آپ ناراض ہیں نا اس لیے میرے ساتھ ۔۔ اا اسی لیے دیکھ بھی نہیں رہے مجھے ۔۔”
وہ اب سوں سوں کرتی شکوہ کر رہی تھی جبکہ عباس کے لپ ہولے سے مسکرائے
” میں آپ سے ناراض ہو سکتا ہوں کبھی ۔۔ ؟”
اسے شانوں سے تھامے وہ سوال کر رہا تھا جبکہ حُرّہ کا سر خودبخود نفی میں ہلا
” تو پھر کیوں رو رہیں ہیں آپ ۔۔ ؟”
” پپ پھر ابھی ایسے ہی کیوں سونے لگے تھے ۔۔ ؟”
” تو کیا کر کے سوتا ۔۔ ؟”
سنجیدہ تاثرات لیے وہ ذومعنی انداز میں بولا تو اس جی بات سمجھتی حُرّہ کے رخسار سرخ ہوئے وہ خفت مٹانے کو اسی کے سینے میں منہ چھپا گئی
” مم میں نے بہت یاد کیا آپ کو ۔ “
چند لمحے خاموشی کے بعد وہ پھر بولی
” واپس کیوں نہیں آئی پھر ۔ ؟”
عباس کے سوال پر وہ بلکل خاموش ہو گئی اور اس سے نظریں چرانے لگی
” آپ نے سوچا کہ میں آپ کے جانے کے بعد دوسری شادی کر لوں گا ۔۔ !”
وہ حُرّہ کی جھکی آنکھوں پر اپنی آنکھیں جمائے طنز کر رہا تھا اس کے انداز ر حُرّہ کا سر مزید جھک گیا اور عباس جو کہ ہمیشہ کا نرم دل ، جھک کر اس کے رخسار کو لبوں سے چھوا
” ایم سوری ۔۔ جانتا ہوں اس سب میں آپ کا قصور نہیں تھا حالات ہی ایسے تھے ۔۔ یقیناً دوری جتنی میرے لیے تکلیف دہ تھی اتنی ہی آپ کے لیے بھی تھی ۔۔ “
محبت سے کہتے ہوئے وہ باری باری اس کی ہتھیلیاں لبوں سے چھو رہا تھا حُرّہ کو ہمیشہ کی طرح اس کی قربت اور حدت بھرا لمس سمٹنے پر مجبور کر رہا تھا عباس نے بہت عقیدت سے اسے خود میں بھینچا عباس کا حصار اسے ہمیشہ کی طرح معتبر کر رہا تھا لب قفل تھے مگر دو سالوں کا ہجر ان دونوں کی آنکھوں سے اپنی اذیت کی گواہی بیان کر رہا تھا ایک ایک پل ایک دوسرے کے بغیر کیسے گزارا یہ حُرّہ کے آنسو اور عباس کی آنکھوں کی نمی ایک دوسرے کو آنکھوں سے ہی داستان سنا رہے تھے عباس نے بھی اسے رونے دیا کیونکہ اس کے بعد وہ کبھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دے گا اس نے خدا سے تہجد میں حُرّہ کی خوشیوں کی دعائیں مانگی تھیں اور اسے یقین تھا کہ اس کی دعاؤں پر ضرور قبولیت کی مہر لگے گی کیونکہ جو خدا پر توکل رکھتے ہیں کامیاب ضرور ہوتے ہیں
Bohat achi story
Thanks Tehmina zubair