The journey of “Main Hun Bad Naseeb” comes to an emotional and thrilling end in its last episode. This love story Urdu novel has captivated readers with its heartfelt emotions, intense drama, and unforgettable romance.
As the final chapter unfolds, secrets are revealed, relationships are tested, and fate delivers its final verdict. Will love conquer all, or does destiny have another twist? Don’t miss this grand finale—read online for free now!

Urdu novel online reading
Read Here Main Hun Bad Naseeb – Love Story Urdu Novel Part 16
” ماما یہ اِنا بڑا کس کا گھر ہے ۔۔ ؟”
دعا ، حُرّہ کا چہرہ اپنے دونوں چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں لیے شوق سے پوچھ رہی تھی یقیناً رات کو نیند کی وجہ سے بہت سے سوال وہ اپنی ماں سے نہیں کر پائی تھی وہ دعا کی انہیں چھوٹی چھوٹی شرارتوں کے باعث نیند سے بیدار ہوئی تھی بوجھل آنکھیں کھول کر دیکھا تو خود کو عباس کے کمرے میں پایا نگاہیں دوڑائیں تو اندازہ ہوا کہ عباس کمرے میں نہیں ہے
” دعا یہ آپ کے بابا کا گھر ہے ۔۔ “
دعا کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو تھام کر اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے وہ بولی دونوں ماں بیٹی ہنوز بیڈ پر لیٹی ہوئیں تھی
” تہمی خالہ نے تو کہا تھا کہ میں اپنے گھر جا رہی ہوں ۔۔ !”
چھوٹے سے معصوم چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھرے تھے بے ساختہ حُرّہ نے اس کے رخسار پر بوسہ دیا
” میری جان بابا کا گھر ۔۔ مطلب دعا کا گھر ۔۔ اب ٹھیک ہے ۔۔ “
حُرّہ نے لاڑ کرتے ہوئے کہا تو دعا نے سر ہلایا
” ہم تہمی خالہ کو اور نانو کو یہاں نہیں بلا سکتے ماما ۔۔ ؟؟ “
دعا ہنوز پریشانی کے عالم میں بولی تھی یقیناً اسے ان سب کی یاد آ رہی تھی
” دعا آپ نانو اور خالہ کو مس کر رہی ہو ۔۔ ؟؟”
حُرّہ نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا تو دعا نے زور زور سے سر کو ہلایا
” میری جان ۔۔ نانو اور خالہ اپنی گڑیا کو ملنے آئیں گی نا ۔۔ آپ سیڈ نہیں ہو ۔۔ “
دعا کی گال پر پیار کرتے ہوئے وہ بولی تو خوشی دعا کے چہرے سے جھلکنے لگی حُرّہ اس کا چہرہ دیکھ کر سوچھنے لگی کہ رشتے محض خون کے نہیں ہوتے بلکہ رشتے تو احساس کے ہوتے ہیں اب فرحت بی اور تہمینہ کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں تھا دعا کا مگر ان دونوں نے اسے اس کے خونی رشتوں سے بڑھ کر محبت دی جہاں اس کی سگی دادی نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا وہیں فرحت بی نے اسے ہمیشہ کسی شفیق نانی دادی کی طرح پیار کیا تھا
” ماما وہ کون ہیں جسے بابا ماں بولتے ہیں ۔۔ وہ سٹرینج ہیں نا بہت ۔۔ “
دعا کی آنکھوں کے سامنے سردار بی بی کا چہرہ لہرایا تھا وہ پہلی نظر میں تو انہیں دیکھتی ان سے خوفزدہ ہو گئی تھی
” وہ دادی ہیں آپ کی ۔۔ یعنی بابا کی ماما ۔۔ جیسے میں آپ کی ماما ہوں ۔۔ “
دعا کے سلکی بالوں پر ہاتھ پھیرتے وہ بولی تھی
” ماما مجھے ان سے ڈر لگتا پے ۔۔ “
دعا نے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا
” دعا ایسے نہیں بولتے میری جان ۔۔ وہ بابا کی ماما ہیں نا ۔۔ دیکھو بابا کتنا پیار کرتے ہیں ان سے آپ نے بھی کرنا ہے ۔۔ “
حُرّہ اسے پیار سے سمجھا رہی تھی
” دعا ایک بات سنو بیٹا ۔۔ “
حُرّہ لیٹے سے اٹھ بیٹھی تھی وہ جانتی تھی دعا شرارتی نہیں ہے مگر وہ چھوٹے چھوٹے بہت سے سوال کرتی تھی کہیں کچھ سردار بی بی کے متعلق ایسا بول دیا کہ عباس کو برا لگے تو اسی ڈر سے وہ دعا کو سمجھاتے ہوئے بولی
” اور یہاں کسی بھی چیز کو نہیں چھیڑنا آپ نے ۔۔ مجھے پتہ ہے میری بیٹی بہت سویٹ ہے وہ ماما کی ہر بات مانتی ہے ۔۔ “
وہ مزید کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن عباس کو اندر آتے دیکھ کر بات بدل دی ، عباس کی کمرے میں آمد پر خاموش ہو گئی جبکہ عباس مسکراتا ہوا ان دونوں کی جانب بڑھا اور بیڈ پر بیٹھ کر دعا کو گود میں لے لیا
” بابا کی جان ۔۔ جاگ گئی ۔۔ “
دعا کو پیار کرتا وہ محبت سے پوچھ رہا تھا حُرّہ نے عباس کے حلیے کو دیکھا براؤن کلر کے قمیض شلوار میں وہ خاصا دلکش لگ رہا تھا کیا وہ کہیں باہر سے آ رہا تھا
” ماں کے پاس تھا ۔۔ !”
حُرّہ کو اپنی جانب پرسوچ انداز میں تکتا پا کر وہ دھیمے سے بولا تھا جبکہ حُرّہ نے نگاہیں چرا لیں
” تیار ہو جائیں پھر ساتھ ہی ناشتہ کرتے ہیں ۔۔ “
حُرّہ کی معصوم حرکت پر عباس نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کیا
حُرّہ بھی مسکراہٹ دبائے بیڈ سے اتری اور کپڑے لیے واشروم کی جانب بڑھ گئی جبکہ عباس دعا کو دیکھنے لگا
” بابا کی جان ۔۔ مس نہیں کرتی تھی بابا کو ۔۔ ؟؟ “
دعا کے رخساروں کو باری باری پیار کرتا وہ پوچھ رہا تھا
” کرتی تھی ۔۔ “
دعا کو اس کی داڑھی چبھی تھی کسما کر بولی
” پھر آتی کیوں نہیں تھی ۔۔ “
عباس نے مزید پیار کرتے ہوئے اسے سینے سے لگایا
” ماما کہتی تھی بابا خود آئیں گے ۔۔ “
دعا نے فوراً کہا حُرّہ اکثر دعا کے ساتھ عباس کی باتیں کرتی تھی جب وہ کہ اسے اپنے باپ کے پاس جانا ہے تو حُرّہ اسے مختلف بہانوں سے ٹال دیتی اور کہتی کہ اس کے بابا خود آئیں گے وہ چھوٹی سی بچی اپنے باپ کا شدت سے انتظار کرتی تھی
“اوہ تو جانم اتنا یقین تھا آپ کو کہ میں آؤں گا ۔۔ !”
عباس بڑبڑایا تھا لبوں پر دلکش مسکراہٹ تھی
” آؤ دعا دادی ماں کے پاس چلتے ہیں ۔۔ “
دعا کو گود میں اٹھا وہ کمرے سے نکلا تھا
////////////////////////
” حُرّہ یہ صرف میرا نہیں آپ دونوں کا بھی گھر ہے ۔۔ “
عباس یقیناً اس کی گفتگو دعا کے ساتھ سن چکا تھا دعا باہر کھیل رہی تھی اس کے آنے سے جیسے اس وحشت زدہ حویلی میں رونق آ گئی تھی اور حُرّہ کو اکیلا کمرے میں دیکھ کر وہ اس کے پاس آیا تھا
” جج جی ۔۔ “
” پلیز ایسے بی ہیو نہ کریں ۔۔میری ہر چیز پر پہلا حق آپ دونوں کا ہے جان ۔۔ آپ ایسے اسے سیکھا رہیں ہیں جیسے وہ یہاں مہمان ہے ۔۔ “
عباس کی بات وہ سمجھ رہی تھی
” نن نہیں تو ۔۔ !”
” ایسی ہی بات ہے ۔۔ میں جانتا ہوں ایک وقت آیا تھا جب مجھے آپ کو یہاں سے لے جانا پڑا تھا ۔۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ۔۔ جب آپ کو یہاں سے نکالا گیا تھا ۔۔ لیکن ہر وقت ایک جیسا نہیں رہتا ۔۔ حالات ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے ۔۔ اور اللہ کے کرم سے اب سب کچھ ٹھیک ہے ۔۔ “
عباس اس کے وجود کو اپنی نگاہوں کے حصار میں لیتا نرمی سے کہہ رہا تھا
” جج جی ۔۔ “
حُرّہ نے یک لفظی جواب دیا
” میں جانتا ہوں آپ نے مشکل وقت یہاں گزارا ہے لیکن یہ وعدہ ہے میرا کہ آپ اچھا وقت بھی یہاں گزاریں گیں ۔۔”
وہ اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالتا اسے سمجھا رہا تھا
” میں نے کچھ دن کے لیے چھٹیاں لیں ہیں ۔۔ “
حُرّہ کا نگاہیں چرانا نوٹ کرتا وہ بات بدل گیا
” کل شام احمد کی شادی ہے ۔۔ نورے اور عالیان بھی شرکت کریں گے ۔۔ ہم بھی انوائیٹڈ ہیں ۔۔ “
وہ مزید بولا تھا جبکہ حُرّہ نے اس کی بات پر سر ہلایا
” سائیڈ ڈرا میں دوائیاں پڑی ہیں ۔۔ وہ کس لیے ہیں ۔۔ ؟؟”
وہ اچانک بولا تھا جبکہ حُرّہ نے بوکھلا کر اسے دیکھا
” وو وہ ۔۔ “
وہ اٹکی تھی عباس بغور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا
” آپ کو یاد ہے ۔۔ آپ مجھ سے کوئی بھی بات نہیں چھپاتی تھی ۔۔ ؟”
وہ شاید اسے کچھ جتا رہا تھا کل رات ہی اس نے وہ دوائیاں دیکھیں تھی تب سے اسے بے چینی ہو رہی تھی ڑاکٹر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مائیگرین کی میڈیسنز ہیں اسے تشویش ہوئی تھی کہ یہ دوائی حُرّہ کے سامان میں کیوں ہیں تب اس نے فرحت بی اور تہمینہ سے بات کی تھی انہوں نے بتایا کہ حُرّہ مسلسل پریشان رہتی تھی رات رات بھر روتی تھی اس لیے اسے یہ مسئلہ ہوا تھا تب سے وہ یہ دوائیاں استعمال کر رہی تھی
” جی ۔۔ “
اسے سمجھ نہ آئی کیا کہے پہلی ملاقات کی طرح آج بھی عباس کی قربت میں اس کی سانسیں تیز ہو جاتی تھیں
” مائیگرین کب سے ہے آپ کو ۔۔ ؟”
وہ کھونجتی نگاہوں سے اسے دیکھتا پوچھ رہا تھا حُرّہ کی تکلیف اسے خود میں محسوس ہوئی تھی
” دد دو سال ۔۔ !”
وہ نگاہیں چرائے جیسے کسی جرم کا اعتراف کر رہی تھی
” میری جدائی میں کیا حال کر لیا آپ نے ۔۔ اتنی محبت ۔۔ ؟؟”
وہ ابرو اچکا کر جیسے اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا یہ تو طے تھا کہ اب وہ حُرّہ کی آنکھوں میں آنسو تو دور اداسی بھی آنے نہیں دے گا
” مجھے لگا تھا میں سب کچھ ہار گئی ۔۔میں نے آپ کو ہار دیا ۔۔ “
وہ اپنے ڈر بیان کر رہی تھی عباس نے دلچسپی سے اسے دیکھا
” مم مجھے لگا تھا ۔۔ مم میں ۔۔ دور جاؤں گی تت تو ۔۔ آپ نن نورے ۔۔ سے ۔۔ شش شادی ۔۔ کر ۔۔”
وہ پھر بھیگی آواز میں بولی تھی
” آ آپ یقین کریں ۔۔ ا اپنی عزت کک کو بب بچانے کی خک خاطر ۔۔ مجھے جانا پڑا ۔۔ “
وہ روندی ہوئی آواز میں بولی تھی اسے یاد آیا کیسے سرداد بی بی نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ حویلی سے نہ گئی تو وہ عزت و آبرو کھو دے گی وہ رات قیامت جیسی تھی اسے یاد کرکے اس کی آنکھوں میں خوف در آیا تھا
” اللہ کے بعد آپ کا شکریہ حُرّہ آپ نے اپنی حفاظت کی ۔۔ اگر اس وقت آپ ہمت نہ دیکھاتی تو بہت کچھ برا ہو سکتا تھا کیونکہ ۔۔ میرے اپنوں نے دھوکا دیا ہے مجھے ۔۔ “
عباس کے لہجے میں بھی درد تھا جب ناعمہ بی بی نے اسے سب کچھ بتایا کہ کیسے سردار بی بی نے اور انہوں نے مل کر حُرّہ کے لیے سازش رچی تھی اتنا بھی خیال نہ کیا کہ وہ ان کے بیٹے کی عزت ہے
” مجھے ا اس وقت وہی ٹھیک لگا تھا ۔۔ لل لیکن خدا گواہ ہے ۔۔ میں نے اپنی آبرو کی حفاظت کی ۔۔ آج بھی میرا دامن پپ پاک ہے ۔۔ آپ کے علاوہ مجھے کسی نامحرم نے چچ چھوا تک نہیں ۔۔ مم میں آپ سے جدائی برداشت کر سکتی تھی لل لیکن ۔۔ دامن پہ داغ نن نہیں ۔۔ “
وہ جانے کیوں یہ سب بول رہی تھی شاید اسے لگا ہو کہ سردار بی بی نے اس کے جانے کے بعد عباس کو کہیں کچھ غلط نہ بتایا ہو مگر وہ شاید یہ نہیں جانتی تھی عباس اس کے کردار کی گواہی دیتا تھا وہ کسی کی باتوں میں آنے والا نہیں تھا
” کیا آپ کو مجھے یہ سب کہنے کی ضرورت ہے ۔۔ ؟؟شوہر سے بہتر بیوی کا کردار کوئی نہیں جانتا ۔۔ حُرّہ آپ کا کردار آئینے کی طرح شفاف ہے ۔۔ آپ کا دامن پاک ہے ۔۔ میری حُرّہ معصوم و نازک کلی ہے جسے صرف میں نے چھوا ہے ۔۔”
وہ لہجے میں عقیدت لیے بولا تھا
” ممم میں بہت پیار کرتی ہوں آپ سے ۔۔ بہت زیادہ ۔۔ “
اس کے شیرین الفاظ پر بے اختیار حُرّہ بولی
” میں بھی عشق کرتا ہوں آپ سے ۔۔ “
ایک دوسرے کو محسوس کرتے وہ دونوں اظہار محبت کر رہے تھے افق پر چاند بھی مسکرا رہا تھا ہر طرح کے حالات کو شکست دے کر وہ دونوں پھر بھی ایک ساتھ تھے کیونکہ ان کا رشتہ ، اور تعلق کسی بھی مطلب سے پاک تھا
////////////////////////
” سلام بی بی جی ۔۔ “
وہ دعا کو ڈھونڈتے ہوئے لاؤنج کی جانب آئی تھی جب اسے دعا ایک لڑکی کے ساتھ کھڑی دیکھائی دی وہ لڑکی شاید حویلی کی پرانی ملازمہ تھی حُرّہ پہلے بھی حویلی میں دیکھ چکی تھی اس کے قریب جانے پر اس لڑکی نے اسے دیکھتے ہی باادب ہو کر سلام کیا حُرّہ نے ہلکی ہی مسکراہٹ سمیت اسے جواب دیا وہ لڑکی جواباً اسے اور عباس کو دعائیں دینے لگی اور نم آنکھیں لیے لاؤنج سے چلی گئی جبکہ حُرّہ اس کی حرکت پر یکدم چونکی
” ماں باپ مر گئے تھے اس کے ۔۔ شہزاد نے پالا تھا اسے ۔۔ جب سے شہزاد جیل گیا ہے بہت روتی ہے ۔۔ لیکن چھوٹے سرداد نے بہنوں کی طرح سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اس کے ۔۔ تب سے انہیں بہت دعائیں دیتی ہے ۔۔ “
ایک ملازمہ پاس کھڑی بولی تھی تو حُرّہ نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا
” ہمارے چھوٹے سردار تو جی ہیرا ہیں ہیرا ۔۔ خدا انہیں سلامت رکھے ۔۔ ان بوڑھی آنکھوں نے بڑے بڑے سردار دیکھے لیکن ان جیسا سردار کوئی نہیں ۔۔ “
ایک دوسری ملازمہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا جبکہ حُرّہ کے لبوں پر جاندار مسکراہٹ بکھری
////////////////////////
ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ دونوں جب بینکوئٹ میں داخل ہوئے تو ہر آنکھ ستائش سے انہیں دیکھ رہی تھی وہ بلکل مکمل تھے عباس بلیک تھری پیس پہنے اس قدر ڈیشنگ لگ رہا تھا کہ دیکھنے والا آنکھ بھر کر دیکھ رہا تھا جبکہ حُرّہ پر سرخ رنگ جگ مگ کر رہا تھا اس کا چہرہ عباس کی محبت بھری قربت میں کئی خوبصورت رنگ بکھیر رہا تھا جبکہ ان سے آگے ان کی تین سالہ بیٹی اسٹائلش فراک پہنے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اپنے ماں باپ سے آگے چل رہی تھی
ان کی اینٹری ہی اتنی کمال تھی کہ ہر کوئی اس پیاری سی فیملی کو دیکھ رہا تھا ہال میں کھڑے عالیان ، نورے اور احمد بھی مبہوت سے انہیں ہی تک رہے تھے وہ پیاری سی فیملی اسٹیج پر پہنچ کر دلہا دلہن کو مبارک باد دے رہے تھے احمد اور نمرہ نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر مبارک باد وصول کی جبکہ عالیان اور نورے دعا کو پیار کرنے لگے
” حُرّہ بہت کیوٹ لگ رہی ہو ۔۔ “
نورے نے عباس کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر حُرّہ کی تعریف کی
” آپ بھی بہت اچھی لگ رہی ہیں نورے ۔۔ “
حُرّہ بھی جواباً مسکراتے ہوئے بولی اس کے لہجے کا اعتماد ہر کسی کو چونکا رہا تھا جبکہ عباس نے مسکراہٹ دبائے حُرّہ کو دیکھا یقیناً اب وہ ہر فکر سے آزاد تھی جو اسے پہلے لاحق رہتی تھیں
” حُرّہ بھابھی دعا کریں ہماری بھی دعا جیسی پیاری بیٹی ہو ۔۔ ہنا نورے ۔۔ شی از سو کیوٹ نا ۔۔ “
عالیان دعا کو گود میں اٹھاتے ہوئے بولا تو نورے نے اس کی بےباکی پر گھور کر اسے دیکھا جبکہ باقی سب اس کی بات پر ہنسنے لگے
” ہاں حُرّہ دعا کرنا ۔۔ “
نورے نے بھی اب کی بار حُرّہ کے کان میں سرگوشی کی تھی حُرّہ اس کی بات پر چونکی تھی جبکہ نورے اب معنی خیزی سے مسکرا رہی تھی
” آئی ایم پریگننٹ ۔۔ “
حُرّہ کی آنکھوں میں سوال پڑھ کر نورے نے جواب دیا تھا وہ دونوں بہت آہستگی سے آپس میں بات کر رہی تھی کوئی بھی اب ان دونوں کی جانب متوجہ نہیں تھا
” کانگریچولیشن نورے ۔۔ “
حُرّہ نے اسے گلے لگا کر مبارک باد دی تھی
” تھینک یو ڈیئر ۔۔ “
نورے شرماتے ہوئے بولی تھی
” آپ بہت اچھی ہیں نورے ۔۔ “
بے ساختہ حُرّہ کے لبوں سے بات نکلی نورے کھلکھلا کر ہنسی
” تم سے ذیادہ نہیں حُرّہ ۔۔ تم بہت کیوٹ لڑکی ہو ۔۔ عباس جیسے مرد کو ڈیزرو کرتی ہو ۔۔ “
نورے بھی خوش دلی سے بولی تھی جبکہ حُرّہ نے جواباً پلکیں جھپکا کر اس کی تائید کی جبکہ یکدم نورے کے لب سکڑے
” مم میں ماں کی طرف سے معافی چاہتی ہوں ۔۔ مجھے بتایا تھا انہوں نے ۔۔ جو کیا انہوں نے سردار بی بی کے ساتھ مل کر ۔۔ “
ندامت چہرے سے جھلک رہی تھی حالانکہ وہ شامل نہیں تھی کسی بھی سازش میں
” پتہ ہے نورے میں وہ سب بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں ۔۔ حالانکہ وہ اذیت بھولنا آسان نہیں تھا جو میں نے اور میری بیٹی نے سہی لیکن جب سردار جیسے شوہر ہوں نا تو بس خدا کا شکر یاد رہتا ہے ۔۔ یاد ہے آپ نے ایک بار کہا تھا مجھے کہ بےشک میں بہت بڑے امتحان سے گزر رہی ہوں ۔۔ مگر سردار میرے ہر دکھ کا مداوا ہیں ، ہر خزاں میں بہار جیسے ہیں ۔۔ بلکل درست کہا تھا آپ نے ۔۔ “
وہ مضبوط انداز میں بولتی نورے کو بھی مطمئن کر گئی
آج وہ آنکھیں مسکرا رہی تھیں جو دکھوں کو محسوس کر کے برسی تھیں ، آج وہ لب مسکرا رہے تھے جن سے سسکیاں نکلی تھیں ، آج ان چہروں پر خوشی جھلک رہی تھی جن پر زمانے کی ستم ظریفی کے سائے لہرائے تھے
عالیان نے عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر طے کیا تھا ایک بگڑا ہوا رئیس زادہ ہو کر وہ نیکی کے راستے پر مائل ہوا تھا
نورے نے خدا کی رضا کی خاطر اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا ، اس نے انتظار کیا ، صبر کیا ، محبت چھوڑ دی محض خدا کے حکم کے آگے کہ وہ کہتا ہے کہ محرم سے محبت کرو
عباس وہ مرد ثابت ہوا جو اگر بیٹا تھا تو ماں باپ کی غلط باتوں کو بھی ادب کے دائرے میں رہ کر مخالفت کرتا تھا ، اور اگر بھائی کی صورت میں ہے تو یہ سوچ کر نگاہیں جھکا کر رکھتا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے آج اگر وہ آنکھوں میں احترام رکھے گا نیت صاف رکھے گا تو شہزاد جیسے انتقام میں جلتے ہوئے شخص بھی اس کی بہن کی عزت کو خراب نہ کر سکا ، اور اگر عباس شوہر ہے تو اس نے اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے بھی لہجے میں دھیما پن اور نرمی رکھی کہ جانتا ہے کہ عورت کتنی نازک ہوتی ہے ، سخت لہجے اسے کھوکھلا کر دیتے ہیں ، اور اگر عباس باپ ہے تو وہ بیٹی پیدا ہونے پر خوشی منا رہا ہے کہ خدا مجھ سے رضی ہے جبھی بیٹی کی صورت رحمت سے نوازا ہے
اور حُرّہ وہ خوش نصیب لڑکی ٹہری جس کو صبر کے بدلے عباس ملا وہ صبر جو اس نے اس قدر کیا ہے چہرے پر اذیتوں کے بعد بھی سکون تھا
زندگی نے ان سب سے بہت امتحان لیے تھے لیکن وہ چاروں ثابت قدم رہے تھے خدا پر بھروسہ رکھا کہ جس نے آزمائش میں ڈالا ہے وہی نکالے گا
آج بھی یہاں مکمل سکوت تھا اس جگہ کی وحشت اپنی جگہ برقرار تھی وہ سر پر دوپٹہ اوڑھے ، اپنے شانوں کے گرد مہرون شال اچھی طرح لپیٹے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی چلتی جا رہی تھی مٹی کی قبریں آج بھی ویسی ہی تھی ہاں اس نے محسوس کیا کہ قبروں میں اضافہ ہو چکا تھا وہ اپنے بابا کی قبر کے پاس جا کر رکی تھی ساتھ ہی ایک اور قبر تھی وہ جانتی تھی یہ اس کی ماں کی قبر ہے پہلی بار وہ اپنی ماں کی قبر دیکھ رہی تھی بے اختیار سسک اٹھی
ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی آنکھیں اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے غم میں بھیگ گئی تھی مگر آج پہلے کی طرح وہ اپنے بابا کو زمانے کی ستم ظریفی نہیں سنا رہی تھی بلکہ آج وہ اپنے ماں باپ کو اپنی بیٹی اور شوہر کی باتیں بتا رہی تھی کیونکہ اب اس کے پاس انہیں بتانے کے لیے اچھی یادیں تھیں آنکھیں نم تھی مگر آج اس کے انداز میں اذیت نہیں تھی
/////////////////////////
عباس آج کل زیادہ تر گاؤں میں رہنے لگا تھا حرہ کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ چاہیں تو شہر رہائش پذیر ہو سکتے ہیں مگر سردار شیر دل کی وفات کے بعد ان کی پگ کا وارث چونکہ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے عباس تھا
اس لیے گاؤں کے تمام معاملات کو وہی دیکھنے لگا تھا ایک بار عباس نے سوچا کہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں لیکن اس کے ضمیر نے اسے اس سوچ پر ملامت کی وہ جانتا تھا اگر اس نے یہ جگہ چھوڑ دی تو کوئی اور اس کی جگہ آ جائے گا اور حقیقتاً وہ بھی روایتی سرداروں کی طرح ظالم اور سفاک ہو گا اور جاہلانہ تصورات اور رسوم کو جاری رکھے گا اس گاؤں کے ساتھ بہت سے چھوٹے گاؤں بھی منسلک تھے بہت سوچنے کے بعد عباس نے فیصلہ کیا کہ گاؤں نہ چھوڑا جائے کہ وہ لوگوں میں شعور لانا چاہتا تھا جو سراسر غلط فیصلوں پر سر جھکا لیتے تھے
آج پنچایت میں ایک اہم مسئلہ آیا تھا قتل کے بعد مقتول کے ورثاء نے قاتل کے خاندان سے خون بہا میں ونی مانگی تھی یہ سن کر جہاں عباس بے سکون ہوا تھا وہیں حرہ کے چہرے کا رنگ سفید پڑا تھا پانچ بجے قاتل اور مقتول کے خاندانوں سمیت گاؤں کا ہر فرد پنچایت میں مدع تھا وہ جانتی تھی عباس کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کر سکتا مگر صدیوں سے چلی آ رہی یہ رسمیں ختم کرنا بھی تو آسان نہ تھا وہ جانے کی تیاری کر رہا تھا اور حرہ اس کی مدد کر رہی تھی اس کا سر اور نگاہیں جھکی ہوئی تھیں مگر عباس اس کی لرزتی پلکیں اور ہاتھ کی لرزش دیکھ کر باخوبی اس کی حالت سمجھ رہا تھا
بے ساختہ عباس نے اسے اپنی جانب کھینچتا جو ڈریسنگ سے اس کا والٹ اور موبائل اٹھانے کے لیے مڑی تھی
” کیوں پریشان ہیں ۔۔ ؟”
اس نے دھیمی آواز میں پوچھا جبکہ جواباً حرہ نے اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا
” آپ جانتے ہیں وجہ ۔۔ “
وہ بھی مدھم سا گویا ہوئی تو عباس نے سرد آہ بھری
وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی وجہ اس کے یہاں کی آب و ہوا کے ساتھ بہت سے دکھ جڑے تھے جس کا ذکر اس نے دانستہ عباس سے بھی کیا مگر عباس نے بہت طریقے سے اسے سمجھایا تھا کہ اگر وہ چلے گئے تو یہ ظلم جاری رہے گا چونکہ اب ہر کسی کی ڈور اس کے اپنے ہاتھوں میں آ گئی تھی اس لیے اب کوئی بھی اس کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے ہزار بار سوچے گا اور پھر وہ دیکھتی تھی کہ عباس آج کل سکول اور ہسپتال بنوانے میں مصروف تھا اس لیے وہ خاموش ہو گئی تھی بہرحال وہ اس شخص کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مان سکتی تھی
” کیا مجھ پر یقین نہیں ۔۔ میں کسی کے ساتھ ظلم ہونے دوں گا ۔۔ “
اس کے سوال پر فوراً حرہ نے نفی میں سر ہلایا
” آپ پر یقین ہے ۔۔ مگر ہر خون بہا میں جانے والی حرہ کو عباس بھی تو نہیں ملتا ۔۔ “
وہ لرزتی آواز میں گویا ہوئی اس کے انداز سے ہی وہ مضطرب لگ رہی تھی
” ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گا میں ۔۔ “
اس کے لہجے سے پختہ ارادے جھلک رہے تھے
” سب کے خلاف جانا بہت مشکل ہے ۔۔ !”
وہ شاید مایوس تھی کہ بچپن سےاس نے یہ روایتی نظام دیکھے تھے
” آپ میری ہمت ہیں حرہ ۔۔ اور ہر چیز مشکل ہو سکتی ہے لیکن ناممکن نہیں ۔۔ “
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ایک ہاتھ سے اس کے رخسار کو سہلاتا بولا
اسے نرم انداز میں دیکھتے اس نے پھر بات جاری کی
” اس وقت وہ سب روکنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا ۔۔ لیکن اپنی طرف سے میں نے دلی رضامندی سے آپ سے نکاح کیا تھا ۔۔ میں ونی نہیں لایا تھا بلکہ بیوی لایا تھا ۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ جس لڑکی کا نکاح مجھ سے ہو رہا ہے وہ کیسی دکھتی ہے ۔۔ اس کا نام کیا ہے ۔۔ کیا کرتی ہے ۔۔ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ میری بہن کے قاتل کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔۔ اور میرے خاندان والے اسے انتقام لینے کی غرض سے میرے ساتھ وابستہ کر رہے ہیں ۔۔ لیکن میرے ضمیر نے مجھے للکارا کہ مرد بنو عباس ۔۔ انصاف کرو کہ تم انصاف کی کتابیں پڑھ چکے ہو ۔۔ قانون کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ ۔۔ جس نے جرم کیا ہو اسے چھوڑ دو اور بے قصور پر ظلم کرو ۔۔ بس پھر سوچ لیا کہ جرم کرنے والے کو ہی سزا ملے گی ۔۔ بے قصور کے ساتھ انصاف کروں گا ۔۔ اور الحمداللہ میں سرخرو ہوں خدا کے آگے کہ میں نے کسی حد تک ایسا ہی کیا ہے ۔۔ “
وہ اسے ہمیشہ کی طرح بنا پلکیں جھپکائے پوری توجہ سے سن رہی تھی بلاشبہ وہ الفاظ سے کھیلنا جانتا تھا اس کے الفاظ دوسرے کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتے تھے
” سمجھ رہی ہیں نا میری باتیں ۔۔؟”
وہ ہنوز خاموش تھی جب اس نے سکوت توڑا
” جی ۔۔”
زبان کے ساتھ سر بھی ہلاتی وہ یک لفظی بولی
” اب پریشان تو نہیں ہیں نا ۔۔؟”
اس کے سوال کر وہ اس بار ہلکا سا مسکرائی تھی اور نفی میں سر ہلایا تھا
” بلکل نہیں ۔۔ “
” اجازت ہے ۔۔ اب جا سکتا ہوں میں ۔۔”
وہ بھی مدھم سا مسکراتا پوچھ رہا تھا جواباً وہ مڑی اور ہینگر میں لٹکی ہوئی سیاہ رنگ کی چادر اتار کر عباس کے کاندھے پر پھیلائی پھر اس کا والٹ اور موبائل اسے تھمایا
” خیر سے جائیں اور خیر سے آئیں سرکار ۔۔”
وہ احتراماً بولی تو عباس اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا باہر کی سمت بڑھ گیا
////////////////////////
وہ جب اپنے پورے جاہ و جلال اور سحر انگیز شخصیت کے ساتھ پنچایت میں پہنچا تو اس کے احترام میں ہر زی روح جس میں سے معزز شخصیات کرسی اور چارپائی پر بیٹھیں تھیں اور کچھ مٹی پر ، سب ہی اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے وہ اپنی مخصوص نشست تک پہنچ چکا تھا براجمان ہونے کے بعد ایک ہاتھ سے سامنے موجود لوگوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اس کا اشارہ سمجھتے سب بیٹھ گئے
چند لمحوں بعد اس نے فیصلہ سنانا تھا چونکہ اس سے پہلی پنچایت میں جرم مجرم پر ثابت ہو چکا تھا
” ازباز خان تم نے قتل کیا ہے ۔۔ ؟”
عباس نے آخری مرتبہ قاتل سے پوچھا جو پہلے ہی اقبال جرم کر چکا تھا لیکن جانتا تھا کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ وہ اور اس کے بھائی اپنی بہن ونی کرنے کے لیے تیار تھے
” جی سرکار ۔۔ مم مجھ سے غصے میں گولی چل گئی تھی ۔۔”
ارباز خان بہت آرام سے بولا تھا جبکہ عباس کا دل کیا اس کی زبان پر دہکتا ہوا انگارہ رکھ دے جو کسی کا بیٹا ، کسی کا سہاگ ، کسی کا باپ مار کر پر سکون تھا کیونکہ جانتا تھا کہ بہنیں تو بھائی کی زندگی کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں
” محمد بخش ۔۔ !”
عباس کی ٹھٹھرتی پکار پر ہر کوئی لرز اٹھا جو مٹھیاں بھینچے بیٹھا تھا
” حکم سرکار ۔۔ !”
ایک گارڈ فوراً حاضر ہوا اور مؤدب بولا
” سارے گاؤں کو مدع کیا تھا ۔۔ کیا کوئی اپنے گھر تو نہیں ہے ۔۔”
ٹھنڈے ٹھار انداز میں چاروں اطراف میں نگاہیں دوڑا کر پوچھا گیا
” جی سرکار سب آئے ہیں ۔۔ “
محمد بخش نے جواب دیا تو عباس کی نگاہ ارباز خان کے ساتھ بیٹھی چادر میں لپٹی لڑکی پر نگاہ پڑی جو ویران آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی عباس نے فوراً کرب سے آنکھیں میچ لیں یقیناً یہ وہی لڑکی تھی جسے بھینٹ چڑھانے کے لیے لایا گیا تھا
” ہممم ۔۔ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ۔۔ چونکہ ارباز خان اپنا جرم قبول کر چکا ہے ۔۔ تو کسی بات کی اب گنجائش نہیں رہی ۔۔ ابھی اسی وقت ازباز خان کو سب کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جائے گا کہ قتل کی سزا یہی ہے ۔۔ “
وہ مضبوط انداز میں حتمی فیصلہ کرتے ہوئے بولا تھا جبکہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں بھی ہر طرف گہرا سکوت چھا گیا تھا
” یہ کک کیا کہہ رہے ہیں آپ سرکار ۔۔ انہوں نے خون بہا میں ونی مانگی ہے تو ہم دینے کو تیار ہیں ۔۔ پھر آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔ “
ارباز خان زرد پڑتے رنگ کے ساتھ بولا تو عباس نے ملامتی نگاہوں سے اسے دیکھا
” جی سرکار ۔۔ ہمیں خون بہا میں ونی چاہیے ۔۔ “
یہ مقتول کا بھائی تھا جس کے ہر انداز سے ازباز خان اور اس کی بہن کے لیے نفرت جھلک رہی تھی
” یہ میری عدالت ہے جہاں میرے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت فیصلے ہوں گے ۔۔ اور میں کسی کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھتا ۔۔ اور میرے اصولوں کے مطابق سزا مجرم کو ہی ملے گی ۔۔ کسی میں اگر ہمت ہے تو وہ سامنے آئے ۔۔ “
عباس کی گرجدار آواز ہر سو گونجی تو ہر کوئی دبک کر بیٹھ گیا وہ بھی جو سرکش اور بغاوت کرنا چاہتے تھے جبکہ وہ لڑکی آنکھوں میں آنسو بھرے مسلسل عباس کو دیکھ رہی تھی جو اسے موت بے بجائے زندگی سنا رہا تھا
” معاف کیجئے گا سرکار ۔۔ یہاں کے قانون صدیوں سے نہیں بدلے ۔۔ باقی سب کی تو الگ بات ہے ۔۔ لیکن آپ بھی خون بہا میں ونی لے کر گئے تھے ہم اس پنچایت میں موجود تھے ۔۔ “
ارباز خان کے بڑے بھائی نے سر جھکائے کہا تو باقی سب کو بھی زرا سی ہمت ملی
” اس وقت یہاں بیٹھے میرے باپ سردار شیر دل نے مجھے حکم دیا تھا ۔۔ سو میں ان کے حکم کا پابند تھا اور آج میں یہاں بیٹھا حکم دے رہا ہوں تو کیا آپ بغاوت کریں گے ۔۔ جانتے ہی ہوں گے بغاوت کی سزا ۔۔ ؟”
ڈھکے چھپے الفاظ میں وہ بولا تو سب کو سانپ سونگھ گیا
” آج کے بعد ۔۔ کسی کی بہن ، بیٹی کا پنچایت آنا تو بہت دور ۔۔ کسی نے نام بھی لیا تو زبان کاٹ کر کتوں کے آگے ڈال دوں گا ۔۔ “
سرد انداز میں کہا گیا ہر کوئی دم سادھے اپنے سردار کو دیکھ رہا تھا جبکہ عباس اپنی نشست سے اٹھا اور اس لڑکی کی سمت بڑھا جو اسے اپنے قریب آتا دیکھ کر کھڑی ہوگئی باقی سب بھی کھڑے ہو چکے تھے
” شکریہ سرکار جی ۔۔ !”
وہ لڑکی تشکرانہ انداز میں کہتی ہاتھ جوڑ گئی جبکہ عباس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ گیا جبکہ اس لڑکی کا روم روم عباس کے کیے دعا گو ہوا جو اسے دلدل میں پھنسنے سے بچا گیا بہت سے لوگ آنکھوں میں آنسو لیے اپنے سردار کو دعائیں دینے لگے کہ اس فرسودہ رسم کے باعث بہت سی ماؤں نے اپنی بیٹیاں بھینٹ چڑھتی دیکھی تھیں
پنچایت سے آئی خبر سن کر بے ساختہ حرہ نے تشکرانا انداز میں سر آسمان کی جانب بلند کیا جب عباس اسے اپنی جانب آتا دیکھائی دیا اسے دیکھتے ہی ملازمائیں لاونج سے نکل گئی
” میں نے کہا تھا نا ۔۔ مشکل ہے نا ممکن نہیں ۔۔ اور پھر جب آپ کی نیت صاف ہے ۔۔ آپ حق پہ ہیں تو پھر خدا پہ چھوڑ دیں ۔۔ بےشک وہ بہتر کرنے والا ہے ۔۔ “
اس کے لہجے کی مضبوطی دیکھ کر حرہ اس کی گرویدہ ہو گئی
” میری دعاؤں کا اثر ہے سب ۔۔ “
وہ اتراتے ہوئے بولی تو عباس نے جاندار قہقہہ لگایا
////////////////////////
” یہ ۔۔؟”
حرہ کی حیرت زدہ سی آواز پر عباس جو کہ دعا کو گود میں بیٹھائے سامنے پڑے لیپ ٹاپ پر کارٹون دیکھ رہا تھا نے اسے رخ موڑ کر دیکھا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ہاتھ میں دو بالیاں تھامے کھڑی تعجب سے کبھی ان سونے کی چھوٹی چھوٹی بالیوں کو دیکھ رہی تھی تو کبھی عباس کو دیکھ رہی تھی عباس نے دعا کو بیڈ پر بیٹھایا اور خود حرہ کی جانب بڑھا
” ڈرا میں ایک ہی پڑی تھی ۔۔ مجھے لگا دوسری آپ کی کھو گئی ہے ۔۔ اس لیے اس کے ساتھ کی دوسری بنوا لی ۔۔ سوری جانم آپ کو بتایا یاد نہیں رہا ۔۔ “
وہ کاندھے آچکا کر عام سے انداز میں بولا تھا جبکہ حرہ کی آنکھوں میں اس کے لیے سرشاری تھی یہ شخص ہمیشہ اس کا دل جیت لیتا تھا یہ چھوٹی سی سونے کی بالیاں اس کے ماں باپ نے بچپن میں اسے پہنائی تھی وہ ہر وقت اسے پہنے رکھتی تھی جیسے یہ اس کے وجود کا حصہ ہوں مگر جب اسے حویلی چھوڑنی پڑی تھی تب مجبوراً اسے اپنے ماں باپ کی دی ہوئی آخری نشانی بیچنی پڑی تھی جس سے اس نے دعا کا ہسپتال میں علاج کروایا تھا ایک بالی اس نے بہت سنبھال کر رکھ لی تھی کہ اب ایک تو پہن نہیں سکتی تھی
” تھینک یوز ۔۔ !”
وہ تشکرانہ انداز میں بولی تو عباس نے سر کو ذرا سا خم دے کر اس کا شکریہ وصول کیا اور پھر خود اپنے ہاتھوں سے اسے وہ بالیاں پہنائی
” پرفیکٹ ۔۔ “
وہ اس کا رخ آئینے کے سامنے کرتا مسکراتا بولی تو حرہ کے لب بھی مسکرائے
” آپ بہت اچھے ہیں ۔۔ “
الفاظ بے ساختہ اس کے لبوں سے نکلے تھے عباس اس کی بات پر کھل کر مسکراتا اس کے چہرے پر جھکا جب حرہ مزاحمت کرتے کو تھوڑا پیچھے ہوئی اور آنکھوں سے بیڈ پر بیٹھی لیپ ٹاپ میں مگن دعا کی جانب اشارہ کیا
” چلیں رات کو کنٹینیو کریں گے ۔۔ “
وہ مسکراتا ہوا ذو معنی سے کہتا واپس دعا کی جانب بڑھ گیا جبکہ حرہ اس کی تابعداری پر مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل گئی
///////////////////////
وہ اپنا حق ، مقام و حیثیت صبر کے عوض پا چکی تھی یقیناً وقت برا ہو یا اچھا گزر ہی جاتا ہے بات صرف ثابت قدم رہنے کی ہوتی ہے زندگی کی تلخیوں سے ہم اکثر دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور یہی زندگی کی تلخیاں ہماری شخصیت پر اثرات چھوڑتی ہیں وہ اثرات منفی یا مثبت دونوں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہم فرشتے نہیں ہیں ہم انسان ہیں اور انسان خطا کا پتلا ہے انسان سے غلطیاں اور گناہ بھی ہوتے ہیں
انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے لیکن ہر انسان ، انسان نہیں ہوتا کچھ انسانوں کے روپ میں حیوان بھی ہوتے ہیں کیونکہ جن میں انسانیت نہیں ہوتی وہ انسانی صورت میں درندے ہوتے ہیں اور ہمیں انسان ہی رہنا ہے درندہ نہیں بننا کہ انسان میں احسان ہوتا ہے جو دوسروں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اور جو بذات خود دوسروں کی تکلیفوں کا سبب بنتے ہیں تو پھر وہ کیا ہوتے ہیں یہ ہم خوب جانتے ہیں
اور ہاں ہم نہیں سمجھ سکتے لیکن ہر کوئی اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہا ہوتا ہے ، کوئی اپنے نفس کو مار کر خدا کی اطاعت کر رہا ہوتا ہے اور کچھ لوگ اپنے ضمیر کو مار کر گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں بہرحال کوئی کچھ بھی خواہ وہ نیک کام ہو یا برا ، اس کا جواب اسے اللہ کو دینا ہوتا ہے ہم کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ فلاں نے یہ برا کام کیا ہے سو وہ تو جہنمی ہے
اس کے تایا تائی ، اور حویلی کے مکین خواہ وہ مالک ہوں یا ملازمین ، سب نے ہی اس کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھا تھا اس پر زندگی تنگ کر دی تھی ، ونی جیسی فرسودہ رسم کے تحت اسے بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا اگر عباس رحم دل نہ ہوتا باقی سرداروں کی طرح ظالم ہوتا تو کیا وہ ابھی تک زندہ ہوتی ، اور پھر کس بے بسی اور مجبوری میں اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اس نے حویلی چھوڑی تھی یہ وہی جانتی تھی گود کی بچی کو لے کر وہ در بدر ہو گئی تھی لیکن ہر دکھ پر یہ دکھ حاوی تھا کہ جانے کس عالم بے بسی میں اس کی ماں اس دنیا سے رخصت ہوئی ہوں گی اسے تو ماں کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا تھا سردار بی بی کی وجہ سے وہ آخری وقت میں اپنی ماں سے نہیں مل سکی تھی
اگر گناہ بڑا ہو نا تو موت بھی آسانی سے نہیں آتی یہ اس نے سنا تھا لیکن وہ اتنی پتھر دل نہیں تھی کی سردار بی بی کو معزوری اور ناعمہ بی بی کو بے سکونی کی کیفیت میں دیکھ کر خوش ہوتی ، دل مضبوط کرتی وہ سب کو معاف کر کے زندگی میں آگے بڑھ گئی تھی کہ اگر اس کے ساتھ انصافیاں ہوئی تھی تو اللہ نے وہ کڑا وقت بھی اس کا کاٹ دیا تھا کہ وہ کہتا ہے مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور عباس کی صورت میں انعام بھی اسے کیا خوب ملا تھا
اچھائی کے لیے لازم نہیں ہوتا کہ لوگوں کے ساتھ اچھا کیا جائے ، اچھائی تو یہ بھی ہے کہ کسی کے ساتھ برا نہ کیا جائے اور نورے وہ مضبوط لڑکی ہے جس نے اپنے ہر معاملے کو خدا پر چھوڑ دیا اگر وہ تھوڑا سا بھی اپنی ماں اور سردار بی بی کی سازشوں میں ان کا ساتھ دیتی تو یقیناً آج انہیں کی طرح خدا کے عتاب کا شکار ہوتی مگر اس نے حُرّہ سے حسد نہیں کی یقیناً اپنے محبوب کو کسی دوسرے کی دسترس میں دیکھنا آسان نہیں ہوتا ، جب وہ حُرّہ اور عباس کو ایک ساتھ دیکھتی تھی عباس کا حُرّہ کے حق کے لیے بولنا ، حُرّہ کو محبت پاش نگاہوں سے دیکھنا اس کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا اس کے دل پر کئی تیر پیوست ہوتے ہیں مگر اس نے صبر کیا اور اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کیا اور پھر اپنے صبر کا پھل عالیان کی صورت میں پایا
یقیناً ہر مرد کا ظرف اتنا اعلی نہیں ہوتا کہ جانتے بوجھتے ہوئے ایسی لڑکی سے محبت کرے جس کے دل پر پہلے سے ہی کوئی دوسرا مرد قابض ہو لیکن عالیان نے ہر بات کو پس پشت ڈال کر بہت محبت سے نورے کی جانب ہاتھ بڑھائے تھے اور پھر نورے کا مثبت انداز اس کے ارادوں کو مزید مضبوط کر گئے تھے دونوں کی کاوشوں نے ایک دوسرے سے محبت کرنے کا ڈھنگ سیکھا دیا
ہر اذیت کی ایک مدت مقرر ہوتی ہے جس کے گزر جانے کے بعد نہ تو درد کی شدت پہلے جیسی رہتی ہے اور نہ ہی انسان پہلے جیسا رہتا ہے اور حُرّہ نے جس قدر اذیتیں سہی تھیں اس کے بعد اب کی آسانیاں آئیں تھی مگر اب اسے سرداد بی بی یا کوئی بھی وہ شخص جس نے اس کے ساتھ ظلم کیا تھا اسے کسی سے کوئی سروکار نہیں رہا تھا عباس نے اسے اس کے تایا کے انتقال کا بتایا ، یہ بھی بتایا کہ خاور آتا ہے معافی چاہتے ہیں وہ اور اس کی ماں حُرّہ سے تو حُرّہ نے تائی سے ملنے کی حامی بھر لی وہ اس سے رو رو کر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہیں تھی اپنے کیے گئے ہر ظلم کی ، حُرّہ نے سنجیدگی سے اس کے ہاتھوں کو تھام کر ان کی معافی قبول کی تھی ایسے اسے قدرے سکون پہنچا تھا یقیناً کسی کو معاف کرکے جو سکون ملتا ہے وہ انتقام لے کر نہیں ملتا اس کی مثال اس کے خود کے سامنے تھی کہ وہ انتقام کی نیت سے حویلی میں لائی گئی تھی ، اتنا ظلم کرکے بھی انتقام لینے والے بے سکون تھے اور وہ اتنی اذیتیں سہہ کر بھی مطمئن تھی
ناعمہ بی بی اس سے بہت احترام سے پیش آتیں تھیں کئی مرتبہ وہ اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ چکی تھیں دوسری طرف سردار بی بی تھیں جو اسے دیکھتے ہی رونے لگتیں عجیب عجیب آوازیں نکالتیں جیسے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں مگر بے بس تھیں بول نہیں سکتی تھی انہیں اس بے بسی کے عالم میں دیکھ کر حُرّہ کو ان کا اس کے لیے ہتک آمیز رویہ یاد آتا تھا جب سردار بی بی بہت حقارت اور نفرت سے اسے مخاطب کرتی تھیں بے شک دنیا کھیتی ہے جیسا بیج بو گے ویسا ہی کاٹو گے لیکن حُرّہ نے خدا کے بعد عباس کی وجہ سے انہیں معاف کر دیا کہ اس شخص کی خاطر وہ کچھ بھی کرسکتی تھی
حویلی کی بلند دیواروں کو دیکھ کر آج وہ احتساب کر رہی تھی جب اسے یہاں لایا گیا تھا اسے سب یاد تھا کہ کیا کیا گیا تھا اس کے ساتھ ، آج بھی کسی کی آہنی گرفت ، نفرت بھری آنکھیں اور ہتک آمیز رویہ اسے یاد تھا کیسے یہ بلند و بالا حویلی میں چھوٹے لوگ رہتے تھے اس خوبصورت و قدیم حویلی میں پست اور غلیظ ذہن کے لوگ قیام پذیر تھے
لیکن انہیں لوگوں کے بیچ ایک پاکیزہ نفس اور اعلی ظرف شخص بھی تھا جس نے اس کے وجود کے ساتھ روح پر لگے زخموں پر اپنے بلند اخلاق و کردار سے مرہم رکھے تھے
وہ اکثر سوچتی تھی کہ وہ اتنی نیک تو نہیں تھی نہ اتنی تہجد گزار کہ جس کے ثواب میں اتنا اعلی انسان اس کے نصیب میں لکھا گیا
جنہوں نے خدا کے فیصلوں پر سر جھکا لیا وہ آنے والے وقت میں خودبخود مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن جو چالاکیوں، مکاریوں سے حالات بدلنے کی کوشش کرتے ہیں خدا انہیں زمین پر پٹک دیتا ہے بےشک وہ بہتر کرنے والا ہے
ملے عروج تو انسانیت کی حد میں رہو
یہی وقت ہے قدرت کے آزمانے کا
مکمل کوئی نہیں ہوتا بلکہ کوشش کرتے رہنا چاہیے اپنے کردار میں مزید نکھار لانے کے لیے
خدا کی رضا میں راضی ہو جائیں ، زندگی پر سکون ہو جائے گی
اس کے لکھتے ہاتھ رکے تھے ڈائری کو بند کر کے اس نے گہرا سانس لیا اس کی خوشبو اسے اپنے بہت قریب محسوس ہوئی تھی بلکہ وہ تو پورا کا پورا اس کے دل اور سانسوں میں بس چکا تھا ایک احساس کے تحت کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی ذرا سا رخ موڑا تو وہ سامنے ہی دروازے سے ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے چہرے پر نہایت نرمی اور اپنی مخصوص مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا ہمیشہ کی طرح وہ اسے نہایت احترام سے دیکھ رہی تھی وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس تک آیا اور اس کے ہاتھ اپنے شکنجے میں لے کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا
” میری جان نے اگر ڈائری لکھ لی ہو تو چلیں اب ۔۔ ؟”
وہ اسے اپنے بے حد قریب کرتا مصنوعی سنجیدگی سے پوچھا
” جی سردار ۔۔ “
وہ مدھم سا بولی تھی جبکہ وہ ہنوز اسے گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
” ویسے میں کچھ سوچ رہا تھا ۔۔ “
وہ بولا تو حرہ نے بے ساختہ اسے دیکھا وہ چہرے پر بھر پور سنجیدگی سجائے ہوئے تھا
” کیا جی ۔۔ ؟”
وہ چہرہ ذرا سا بلند کرتی پوچھ رہی تھی عباس نے قمیض کی جیب سے کچھ نکالا اور حرہ کو تھمایا حرہ نے ناسمجھی سے دیکھا
” ٹکٹس ۔۔ !”
ٹکٹ کو الٹ پلٹ کے بعد وہ بولی تو عباس نے اثبات میں سر ہلایا
“لیکن کیوں ۔۔ ؟”
وہ شاید سمجھہ نا تھی
” ہنی مون سمجھ لیں ۔۔ “
عباس نے عام انداز میں کہتے ہوئے شانے آبنائے
” ایک بیٹی کے بعد آپ کو ہنی مون یاد آ رہا ہے ۔۔ سرکار !”
وہ مسکراہٹ دبائے طنزیہ گویا ہوئی
” ہم یونیک کپل ہیں نا جانم ۔۔ لوگ شادی کے فوراً بعد ہنی مون پہ جاتے ہیں اور ہم بیٹی کو لے کر جائیں گے ۔۔ یونیک لوگوں کا یونیک ہنی مون ۔۔ !”
وہ شرارت سے اس کی جمبات کا جواب دیتا گویا ہوا حرہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی
” ایگری ۔۔ ؟”
اس نے پھر پوچھا تو حرہ نے اثبات میں سر ہلایا
” ویسے میں کچھ اور بھی سوچ رہا تھا ۔۔ !”
وہ پھر سے گویا ہوا
” حکم سرکار ۔۔ “
حرہ نے سر خم کرتے ہوئے پوچھا
” پہلے بتائیں ۔۔ بات مانیں گی میری ۔۔ ؟”
وہ جانے کیا سوچ کر بولا تھا حالانکہ جانتا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی آنکھیں بند کر کے بھی اس کے ہر حکم کی تعمیل کر سکتی ہے یہ الگ بات تھی کہ اس نے کبھی اسے حکم نہیں دیا تھا بلکہ بہت احترام اور محبت سے اس سے بات منواتا تھا
” آپ حکم کریں ۔۔ ؟”
وہ دھیمی آواز میں بولی لہجے میں آنکھوں کی طرح احترام اور عزت تھی
” آپ نے نوٹ کیا کچھ ۔۔ ؟ “
” کیا ؟”
اس کی ادھورہ بات پر وہ فوراً بولی
” دعا اکیلا فیل کرتی ہے ۔۔ “
اس کے معصوم چہرے پر نگاہیں جمائے وہ آنکھوں میں شرارت سموئے بھرپور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا بولا تھا اور پھر سے اپنی بات جاری کرنے کے لیے لب وا کیے
” کیوں نہ دعا کی دوسری بہن کو لانے کا سوچیں ۔۔ “
اس کی معنی خیز بات کو سمجھنے میں حرہ کو چند لمحے لگے تھے اور جب سمجھ آئی تو
جب سمجھ آئی تو وہ بے ساختہ سر اور چہرہ جھکا گئی
” آپ نے جواب نہیں دیا ۔۔ “
وہ اپنی بات پر زور دیتا ذرا سا اس کے چہرے پر جھکتا مسکراہٹ دبائے پھر سے گویا ہوا تو حرہ نے اپنی حیا سے جھکی آنکھیں اس کی شرارت بھری نگاہوں پر جمائی اور اس کے سینے پر دھرے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں سمویا جبکہ اس کے نرم و نازک ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہوئے عباس پرسکون ہوا وہ اب اس کا چہرہ اپنے چہرے کے مزید قریب کرتی اس کی پیشانی پر جھکی اور محبت سے مہر ثبت کی پھر دائیں رخسار پر اپنے لب رکھے ، اسی طرح پھر بائیں رخسار پر جھکی وہ سانس روکے اس کی پہلی مرتبہ کی گئی پیش قدمی کو محسوس کر رہا تھا جبکہ وہ اب اپنے بازو عباس کے چہرے سے ہٹا کر اس کے گرد حمائل کر رہی تھی اور پھر اس کے سینے پر سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی جبکہ عباس نے کھل کر مسکراتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے لیا وہ زبان سے نہ بول کر بھی بہت خوبصورت انداز میں اسے بہت کچھ کہہ گئی تھی
The End
1 Comment
Add a Comment