Haifa and Zanisha Novel Part 24 – Best Urdu Novel Story | Read Online & Free PDF

Haifa and Zanisha Novel Part 24 continues the gripping romantic journey that fans of Urdu novels have been following passionately. This episode brings intense emotions, romantic drama, and bold twists — making it a top pick for readers searching for:

  • Best Urdu romantic novels
  • Emotional Urdu love stories
  • Free Urdu novel PDF download
  • Urdu novels online reading
  • New 2025 bold Urdu story

Written in a clean and beautiful Urdu font, this part is perfect for anyone who enjoys online Urdu stories full of love, suspense, and passion. Whether you want to read online or download the full novel as a free PDF, this part delivers a satisfying and emotional reading experience.

Best Urdu Novel Story

Haifa and Zanisha Novel Part 24 – Best Urdu Novel Story

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 23 – Urdu Love Story

سویر احاعفہ کی جانب جتاتی نظروں سے دیکھتی آژمیر سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔ اس کے یوں وارفتگی بھری نظروں سے
آژمیر کو دیکھنے پر حائفہ کا خوشی سے کھلتا چہرامانند پڑا تھا۔۔۔
میں یہ سپیشل میٹھائی اپنے ہاتھوں سے بناکر لائی ہوں تمہارے لیے۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں تم مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں نے
آج غصے میں بہت کچھ غلط بول دیا تمہارے بارے میں۔۔۔۔۔
سویرانے پچھلی ساری باتوں پر معافی مانگتے گلاب جامن سپون پر رکھتے اس کی جانب بڑھائی تھی۔۔۔۔ مگر حائفہ تک پہنچنے سے پہلے ہی آژمیر اُسے آدھے میں روک چکا تھا۔۔۔
حائفہ سے پہلے تمہارا منہ میٹھا ہونا چاہیئے۔۔۔۔ تم نے زیادہ بڑا دل دیکھایا ہے۔۔۔۔”
آژمیر سپون واپس اُس کی جانب موڑ تا گلاب جامن سویرا کو ہی کھلا گیا تھا۔۔۔۔ جس پر سویرا کی شکل دیکھنے لائق تھی۔۔۔
آژمیر اُس کی چال اسی پر اُلٹ گیا تھا۔۔۔۔
اصل معاملہ سمجھنے سے انجان حائفہ آژمیر کے اس طرح سویرا کو میٹھائی کھلانے پر خفا ہوتی اس سے ہلکا سا دور کھسکی
تھی۔۔۔۔
جسے نوٹ کرتے آژمیر اُسے واپس اپنی جانب کھینچ گیا تھا۔۔ اس بار حائفہ کو اُس کی گرفت میں واضح سختی محسوس ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
مجھ پر غصہ ہو یاناراضگی۔۔۔۔ یا کچھ بھی۔۔۔۔ مگر بھول کر بھی مجھ سے دور جانے کا یہ عمل واپس مت دو ہر انا۔۔۔ میں اب کی بار برداشت نہیں کر پاؤں گا۔۔۔۔

اُس کے کان کے قریب جھک کر سر گوشی کرتاوہ اُسے پل بھر کے لیے خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔۔ حاعفہ اچھے سے جانتی تھی آژ میر کو اُس کا خود سے دور ہونا کس قدر گراں گزرتا تھا۔۔۔ اور ابھی بھولپن میں وہ ایسا کر کے آژ میر کو مزید خفا کر گئی
تھی۔۔۔۔
” آپ نے اُسے میٹھائی کیوں کھلائی۔۔۔؟؟
حائفہ نے بھی جو ابا خفگی کا اظہار کرتے منہ بسورتے پوچھا تھا۔۔۔۔ آج تک آژ میر سے کسی نے کسی بھی معاملے میں کوئی وضاحت نہیں مانگی تھی۔۔۔۔
لیکن آژ میر جس قد رمان حائفہ کو سونپ چکا تھا۔۔۔۔ اپنے شوہر سے اُس کے عمل پر سوال کرنا حاعفہ نے اس لمحے اپنا حق
سمجھا تھا۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آژمیر اُس کے عمل سے غصے میں آچکا تھا۔۔۔۔۔۔
اُن دونوں کو ایک دوسرے میں گم دیکھ سویر اتو شر مندہ ہوتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔ کیونکہ
آژ میر اپنی ذہانت سے
اپنی بیوی کو پروٹیکٹ کرتا اُس کی چال اُسی پر ہی اُلٹ گیا تھا۔۔۔۔۔
حائفہ کے انداز پر آژمیر نظریں گھما کر اُسے دیکھنے پر مجبور ہوا تھا۔۔۔۔ اُس نازک سی بیوی جو اُس کی ایک سخت نگاہ پر سہم جاتی تھی۔۔۔۔وہ ابھی شدید جلن کا شکار غصے سے اُس سے سوال کر رہی تھی۔۔۔۔
آج کی تاریخ کا سب سے انوکھا واقعہ تھایہ۔۔۔۔ مگر آژمیر نے اسے خوب انجوائے کیا تھا۔۔۔۔۔ حیرت انگیز طور پر اُس کا
ابھی تھوڑی دیر پہلے کا خراب موڈ اتنی جلدی خوشگواریت میں بدل چکا تھا۔۔۔۔۔۔
کیا تم اس بات پر جیلس ہو رہی ہو۔۔۔۔ ؟؟؟

آژمیر نے گہری نگاہوں سے اُسے سر تا پا گھورا تھا۔۔۔۔ اُسے اس وقت یہ گھونگھٹ اپنا سب سے بڑا دشمن لگ رہا تھا۔۔۔۔ جسے وہ ہٹانے کا پورا حق بھی رکھتا تھا۔۔۔۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھا ارد گرد موجود باقی مرد حضرات اُس کی بیوی کا یہ
حسین رُوپ دیکھیں۔۔۔۔۔
اس لیے وہ یہ برداشت کر رہا تھا۔۔۔۔۔
میں بہت اچھے سے واقف ہوں اپنی اس کزن کی سوچ سے۔۔۔۔۔ یہ اُس گلاب جامن میں تمہارے لیے کچھ مکس کر کے لائی تھی۔۔۔۔ اُس کی دوا کا مزا اُسی کو چکھانے کے لیے وہ میٹھائی کھلائی میں نے اُسے۔۔۔۔نہ کہ کسی محبت کے تحت۔۔۔
آژمیر میر ان آج پہلی بار اپنے کسی عمل پر وضاحت دے رہا تھا۔۔۔۔ جس پر حاعفہ نے بھی محبت پاش نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
یہ ایک لمحہ اُسے بے پناہ خوشی سے دوچار کر گیا تھا۔۔۔۔ وہ اب آژ میر میر ان کے مضبوط سائبان تلے تھی۔۔۔۔ جو اُس پر آئی معمولی سے معمولی تکلیف کو بھی اُس تک پہنچنے کی اجازت نہیں دینے والا تھا۔۔۔۔
آژمیر کے دل میں اُس کی اہمیت کیا تھی اس کا اندازہ تو وہ اس بات سے بھی با آسانی لگا گئی تھی جب کسی کے سوال کرنے پر اُسے دوبارہ بولنے کے قابل نہ چھوڑنے والا اتنی چھوٹی سی بات پر بھی اُسے وضاحت دے گیا تھا۔۔۔۔
حامد نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی زندگی کبھی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔

وہ خود کو دنیا کی سب سے بد نصیب لڑکی تصور کرتی تھی۔۔۔۔ مگر آژمیر کے مل جانے کے بعد اُس کی اس سوچ کی پوری
طرح سے نفی ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
وہ اب اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش قسمت ترین لڑکی تصور کر رہی تھی۔۔۔۔ جس کی زندگی میں آژمیر میر ان جیسا
شخص لکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔
اب تو وہ اسے دل و جان سے منالینا چاہتی تھی۔۔۔۔ جیسے وہ چاہتا تھا بالکل ویسے ہی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
کیا کہہ رہی تھی ابھی تم میرے بارے میں۔۔۔۔ میں اکڑو اور گھمنڈی ہوں رائٹ۔۔۔۔۔؟؟؟” زوہان سامنے بھنگڑا ڈالتے سب کو دیکھتا انتہائی سنجید گی بھرے لہجے میں زنیشہ سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔۔ تو اس کا مطلب جذبات میں آکر کی گئی اُس کی گوہر فشانی وہ سن چکا تھا۔۔۔۔ پہلے ہی زوہان کی یہ قربت اُس پر بھاری پڑ رہی تھی۔۔۔ اوپر سے اُس کا یہ تفتیشی انداز ۔۔۔۔۔ زنیشہ کی ہتھیلیاں بھیگ
چکی تھیں۔۔۔۔
” نہیں وہ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔”
ہمیشہ اس کے سامنے شیر نی بنی رہنے والی یوں سب کے بیچ اس کے ساتھ بیٹھنے پر شدید گھبراہٹ کا شکار تھی۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی زوہان میر ان پیس والوں کے سامنے ایک الگ ہی انسان ہو تا تھا۔۔۔ جس سے کسی بھی حد تک روڈ نیس کی توقع
کی جاسکتی تھی۔۔۔۔

اُسے پل پل مزاج بدلتے اس شخص کی یہی چیز بدلنی تھی۔۔۔۔ اُس کے دل سے قریبی رشتوں کو لے کر تمام تلخی دور
کر کے اس کے اپنے اندر چھپا کر بیٹھے پیارے سے شخص کو باہر نکالنا تھا۔۔۔
مجھے تو لگا تھا تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔۔۔ مگر تمہارے دل میں بھی میر ان پیلس کے باقی افراد کی طرح ایسے خیالات ہے
میرے بارے میں۔۔۔ جان کر کافی حیرت ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ میں بھلا اس معاملے میں اتنا غلط کیسے ہو سکتا ہوں۔۔۔۔ زوہان کی انتہائی سنجیدگی سے بولے جانے والی باتیں زنیشہ کی جان نکال گئی تھیں۔۔۔
” میں صرف مذاق کر رہی تھی۔۔۔”
زنیشہ روہانسی آواز میں بولتی اُس کی ناراضگی کے خوف سے پریشان ہوئی تھی۔۔۔۔وہ کم از کم اس موڑ پر تو زوہان کو خود
سے دور نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ جب وہ پہلے ہی یہاں موجود ہر شخص سے خفا اور بد گمان تھے۔۔۔
” یہ جانتے ہوئے بھی کے مجھے مذاق کرنا اور سہنا دونوں پسند نہیں۔۔۔
زوہان کا لہجہ مزید سخت ہوا تھا۔۔۔۔
اور بس اسی پل زنیشہ کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی طرح بہہ نکلے تھے۔۔۔
میرے دل میں آپ کے لیے ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ دل کے کتنے اچھے اور محبت کرنے والے
انسان ہیں۔۔۔۔”
زوبان زنیشہ کے آنسو نہیں دیکھ پایا تھا۔ مگر اُس کا گھبر اکر کیا جانے والا اقرار زوہان کے چہرے پر ایک جاندار سی زندگی
سے بھر پور مسکراہٹ بکھیر گیا تھا۔۔۔۔۔۔

خاندان کے کافی لوگ جو زوہان کی جانب متوجہ تھے۔۔۔ اس حد درجہ سنجیدہ شخص کو مسکراتے دیکھنا انہیں کوئی خواب ہی
معلوم ہو ا تھا۔۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔؟؟؟ اور کیا کیا لگتا ہے تمہیں میرے بارے میں۔۔۔۔
زوہان اُسے مزید تنگ کرنا ترک کر تاشوخی بھرے لہجے میں بولتا اُس کا سیر وں خون جلا گیا تھا۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر اُس کے
ہاتھوں بے وقوف بن چکی تھی۔۔۔
مجھے اب آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔ زنیشہ سخت خفا ہوئی تھی۔۔۔۔
یار ایک تو میرے عجیب و غریب نام تم رکھ رہی ہو ۔۔۔ اُوپر سے ناراض بھی تم ہو رہی ہو۔۔۔۔ زنیشہ کی مہندی، چوڑیوں اور گجروں سے رچی بسی کلائی اپنی گرفت میں لیتے زوہان نے اُسے چھیڑ اتھا۔۔۔
اور آپ نے جو میری جان نکال دی تھی وہ۔۔۔ مجھے لگا آپ ناراض ہو گئے ہیں مجھ سے۔۔۔۔۔ زنیشہ اُس کی گرفت سے اپنی کلائی آزاد کرواتی بے ساختہ یہ الفاظ ادا کر گئی تھی۔۔۔۔اُس نے فورأزبان دانتوں تلے دبائی
تھی۔۔۔ مگ جس نے سمجھنا تھاوہ سمجھ چکا تھا۔۔۔
میری ناراضگی کی اتنی پر واہ ہے تمہیں۔۔۔۔
زوہان اپنی جانب متوجہ لوگوں کی پرواہ کیے بغیر اس کی جانب جھکتا گھمبیر سر گوشی کر گیا تھا۔۔۔۔

زنیشہ نے اُس کی بڑھتی جسارتوں پر دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔ مگر اُس کا دوپٹہ زوہان کی گرفت میں قید ہونے کی وجہ سے وہ ایسا
نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔
” آپ بھول رہے ہیں۔۔۔ سب ہماری جانب ہی متوجہ ہیں۔۔۔۔”
زنیشہ نے اُسے تھوڑی سی شرم دلانی چاہی تھی۔۔۔ جس کا کم از کم زوہان سے دور دور تک کوئی ناطہ نہیں تھا۔۔۔۔ جب تم پر کوئی حق نہیں تھا تب بھی ان لوگوں کی پرواہ نہیں کی میں نے۔۔۔۔اب تو تم میری ملکیت ہو۔۔۔ ابھی سب کے سامنے تمہیں یہاں سے اُٹھا کر لے جاسکتا ہوں۔۔۔۔۔
زوہان اپنے دل کی خواہش زبان پر لاتے زنیشہ کی دھڑکنیں تیز کر گیا تھا۔۔۔۔۔ اُس سے کوئی بعید نہیں تھی۔۔۔وہ اگر ایسا کہہ رہا تھا تو کر بھی سکتا تھا۔۔۔۔
زوہان کو وہ سجی سنوری اِس قدر حسین لگ رہی تھی۔۔۔ کہ اُسے اپنے جذبات پر بندھ باندھنا مشکل لگ رہا تھا۔۔۔۔ اماں سائیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے روم میں جانا ہے۔۔۔۔۔زنیشہ کو اب زوہان کے تیور خوفزدہ کر رہے تھے۔۔۔۔ اُس نے سٹیج کی جانب آتی شمسہ بیگم کو اپنی جانب بلایا تھا۔۔۔ زوہان نے بہت مشکل سے اپنا بے ساختہ اُمڈ آنے والا قہقہ روکا تھا۔۔۔
“کیا ہوا گڑیا؟؟؟ ابھی تو آپ بالکل ٹھیک تھی۔۔۔۔۔”
شمسہ بیگم اُس کی زر دصورت دیکھ پریشان ہوئی تھیں۔۔۔۔ اُن کے قریب آنے سے پہلے ہی زوہان خود پر واپس سنجیدگی کی
چادر اوڑھ گیا تھا۔۔۔۔

اُس کا یہ نرمی بھرا انداز صرف اُس کی چہیتی بیوی کے لیے تھا۔۔۔۔ جی وہ سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ اور ٹھنڈ بھی لگ رہی ہے۔۔۔۔۔
زنیشہ کو سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ وہ کیا بولے۔۔۔۔
وہ مسلسل زوہان سے اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ مگر وہ اُس کی نازک اُنگلیوں کو اپنی مضبوط
اُنگلیوں میں پھنسائے ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔
میں ہیٹر آن کروادیتی ہوں۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں رسم کے بعد آپ کو روم میں لے جائیں گے۔۔۔۔۔ شمسہ بیگم زوہان کو اس طرح مہندی کے فنکشن میں شرکت کرتا دیکھ بہت خوش تھیں۔۔۔۔۔اس لیے وہ ابھی زوہان کے
سامنے زنیشہ کو اندر لے جا کر بالکل بھی اُس کا موڈ آف نہیں کر سکتی تھیں۔۔۔۔
جانِ من مجھ سے یہ فرار کی کوششیں تم پر بہت بھاری پڑ سکتی ہیں۔۔۔۔ بھولومت۔۔۔۔ کل سے تم میری دسترس میں
ہو گی۔۔۔۔ پوری طرح سے میرے رحم و کرم پر۔۔۔۔۔”
زوہان کی دھمکی آمیز سر گوشی زنیشہ کو آنے والے وقت سے مزید خوفزدہ کر گئی تھی۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے زنیشہ کوئی جواب دیتی۔۔۔۔ نفیسہ بیگم اور شمسہ بیگم باقی عورتوں کے ہمراہ مہندی کا تھال لیے اُن کی
جانب بڑھی تھیں۔۔۔۔
ہاتھ چھوڑیں۔۔۔۔ وہ سب ادھر ہی آرہی ہیں۔۔۔۔۔ زنیشہ کا چہر احیا سے لال ہوا تھا۔۔۔۔

مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ زوہان کی لاپر واہی ہنوز تھی۔۔۔۔
جس پر زنیشہ نے ہی ہار مانتے اپنا دوپٹہ اُٹھا کر دونوں کے ہاتھ کے اوپر رکھ دیا تھا۔۔۔ اس کے اس حفاظتی اقدام پر زوہان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی ۔۔۔۔
ہر تھوڑی دیر بعد زنیشہ کی کسی نہ کسی بات یا حرکت پر مسکراتا وہ میر ان پیلس کے ہر فرد کو اچھنبے میں مبتلا کر رہا تھا۔۔۔۔
سب کو زوہان کا یہ روپ دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا تھا۔۔۔۔
اور وہ شدید حیرانگی کا شکار بھی تھے۔۔۔۔۔ ہر وقت چہرے پر خونخوار تاثرات سجائے رکھنے والا شخص مسکرانا بھی جانتا تھا۔۔۔۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر نوٹ رکھ کر مہندی لگا تیں اُس کا ماتھا چوم گئی تھیں۔۔۔۔۔
زوہان کہ لیے یہ سب بر داشت کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کا چہرا آن ٹھہر اتھا۔۔۔۔ اِن سب لوگوں کو وہ قاتل مانتا تھا اپنی ماں کا۔۔۔۔۔۔ وہ یوں بیچ میں سے اُٹھ کر زنیشہ کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔۔۔۔لیکن یہاں ان لوگوں کے درمیان یوں خوشیاں سلیبریٹ کرنا اُس کے لیے کتنا مشکل تھا یہ زنیشہ کہ ہاتھ پر لمحہ بالمحہ بڑھتی اُس کی مضبوط گرفت اچھی طرح واضح کر رہی تھی۔۔۔
زنیشہ نے گھبر اگر زوہان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو صرف اس کی خاطر اپنی زندگی کے سب سے ناپسندید ولوگوں کے بیچ
بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

زوہان کے تاثرات بالکل نارمل تھے ۔۔۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں زنیشہ کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے تھے۔۔۔
نفیسہ بیگم نے بہت ہی محبت سے اُن دونوں کو مہندی لگاتے پیار کیا تھا۔۔۔۔
اُن کے بھانجے کو اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ملنے والی تھی۔۔۔۔ وہ کیسے خوش نہ ہو تیں۔۔۔۔
” آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔ اگر آپ کو اچھا نہیں لگ رہا تو آپ جاسکتے ہیں۔۔۔۔”
زنیشہ نے دھیمے لہجے میں اُسے پکارا تھا۔۔۔۔
” اگر تم ساتھ ہو۔۔۔۔ تو میں کچھ بھی برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔
زنیشہ کے فکر مند اند از پر اسے ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔۔
ایسے ہی تو اس کا دل اس لڑکی کی چاہت میں پاگل نہیں تھا۔۔۔۔ یہ اُس کی دنیا تھی۔۔۔۔وہ اس کی خاطر تو اپنی جان دینے
کو تیار رہتا تھا۔۔۔۔۔ رسم پوری ہوتے ہی زوہان۔۔۔۔ زنیشہ کی ہتھیلی پر اپنے لب رکھتا، اس کے حسین رُوپ پر ایک گہری نگاہ ڈالتاوہاں سے اٹھ
گیا تھا۔۔۔۔۔ زنیشہ کی محبت بھری مسکراتی نگاہوں نے منظر سے اوجھل ہونے تک اُس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
میران ولا میں تو آج جیسے خوشیوں کی بارات اتر آئی تھی۔۔۔ شہنائیوں اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ وہاں آنے والے
تمام مہمانوں کا استقبال کیا جارہا تھا۔۔۔۔

ہر کوئی خوش تھا۔۔۔۔۔ بہت عرصے بعد مسکراہٹوں اور کھلکھلاہٹوں نے میر ان پیلس میں بسیرا کیا تھا۔۔۔۔ شمسہ بیگم کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی ۔۔۔۔ اُن کے دونوں بچوں کو اتنے دکھوں کے بعد اُن کی خوشیاں مل
رہی تھیں۔۔ وہ نجانے کتنی بار اُن دونوں کی نظر اُتار چکی تھیں۔۔۔۔
یہی حال قاسم صاحب کا بھی تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے انہیں معاف کر دیا تھا۔۔۔ اُس سے بھی زیادہ خوشی کی بات اُن کے لیے یہی تھی ۔۔۔۔۔ کہ اُن کی بیٹی کی قسمت میں آژ میر جیسا شخص لکھا گیا تھا۔۔۔
جس نے نہ خود حائفہ کے گزرے ماضی پر کوئی سوال اُٹھایا تھا۔۔۔ اور نہ ہی کسی اور کو اس بات کا حق دیا تھا۔۔ کسی نے بھی زبان پر ایسی کوئی بات لانے کی جرات نہیں کی تھی۔۔۔۔۔
قاسم صاحب اس وقت بھی حائفہ کو گلے سے لگائے اُسے اپنی پچھلی تمام خطاؤں پر دل کا بوجھ ہلکا کرنے ایک آخری بار معافی
مانگ رہے تھے۔۔۔۔ جب ملازمہ نے آکر انہیں شہاب درانی کی آمد کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔۔۔۔ نہیں ادھر ہی لے آؤ۔۔۔۔ وہ بھی ہماری فیملی کا حصہ ہی ہیں۔۔۔۔”
اپنے عزیز از جان دوست کی آمد کا سن کر قاسم صاحب بہت خوش ہوئے تھے۔۔۔۔ ” تھینک گارڈ۔۔۔۔ آپ لوگوں کا روٹھنا منانا ختم ہوا۔۔۔۔

اُن کی دوسری جانب بیٹھی ماورا جو کب سے اُن باپ بیٹی کا روٹھنا منانا دیکھ رہی تھی۔۔۔اب آخر کار بول ہی پڑی تھی۔۔۔۔
جس پر دونوں نے ہی اُسے گھورا تھا۔۔۔۔
” بابا کون ہیں یہ ۔۔۔۔۔؟؟؟”
حائفہ کو ابھی تیار ہونے کے لیے او پر جانا تھا۔۔۔۔ قاسم صاحب کے شہاب درانی سے ملنے کے لیے روکنے پر اس نے سرسری سا پوچھا تھا۔۔۔۔
میر اجگری دوست۔۔۔۔ جو آج تک میری ہر خوشی اور غم میں شریک رہا ہے۔۔۔۔۔”
قاسم صاحب کے لہجے میں شہاب درانی کے لیے بے پناہ محبت تھی۔۔۔۔ جسے محسوس کرتیں وہ دونوں بہنیں مسکرادی
تھیں۔۔۔ جب اُسی لمحے شہاب درانی اپنے بیٹے شہریار کے ساتھ اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔۔۔ شہر یار سولہ سترہ سالہ نوجوان تھا۔۔۔
جسے دیکھ کر کسی کی شبیہہ ماورا کے تصور میں ابھرتی اس کا زخم تازہ کر گئی تھی۔۔۔۔
وہ حائفہ سے بات کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اسے اتنا خوش دیکھ ، اس کی زندگی کہ اتنے اہم وقت میں وہ اسے اپنی وجہ سے دوبارہ پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
اس لیے بے بسی سے کچھ دنوں کا مزید انتظار کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔۔۔۔
وہ پچھلے دنوں کئی بار منہاج سے رابطہ کرنے کی کوشش کر چکی تھی۔۔۔۔ مگر اس کا نمبر مسلسل آف جاتا دیکھ اب اس
جانب سے بھی مایوس ہو چکی تھی۔۔۔۔

” یہ میری چھوٹی بیٹی ماورا ہے۔۔۔۔۔”
قاسم صاحب کی آواز اُسے سوچوں کی دنیا سے واپس حقیقت میں کھینچ لائی تھی ۔۔۔۔
” السلام وعليكم انکل” !
ماورا نے جلدی سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے انہیں سلام کیا تھا۔۔۔
جبکہ ماورا پر نظر پڑتے ہی اُس کے سر کی جانب بڑھایا اُن کا ہاتھ ہوا میں معلق ہوا تھا ۔۔۔ جس لڑکی کو اُن کا بیٹا دیوانوں کی
طرح ملک کے کونے کونے پر ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔وہ اُن کے سامنے تھی۔۔۔
اچانک لگنے والا یہ جھٹ کا شدید ترین تھا۔۔۔۔ مگر وہ خود کو فور اسنبھالتے انتہائی شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر تے پیچھے
ہوئے تھے۔۔۔۔
اتنے دنوں سے دل پر چھائی پژمردگی پل بھر میں چھٹ گئی تھی۔۔۔۔ اُن کا دل خوشی کے مارے بے قابو ہوا تھا۔۔۔۔ اُن کے بیٹے کا امتحان ختم ہونے والا تھا۔۔۔۔
ا اور ان کی بہو کوئی اور نہیں اُن کے عزیز ترین دوست کی بیٹی نکلی تھی ۔۔۔۔ وہ اس حسین اتفاق پر خوش نہ ہوتے تو کیا
کرتے۔۔۔۔۔
ماشاء اللہ ہماری دونوں بیٹیاں بہت پیاری ہیں۔۔۔۔۔ اللہ ان کے نصیب اچھے کرے۔۔۔
شہاب درانی کو زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں آکر انہیں اتنی بڑی خوشی ملے گی۔۔۔۔۔اگر اس بارے میں جانتے ہوتے تو
بہت پہلے یہاں آجاتے۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھ کر وہ دنوں معذرت کرتی وہاں سے اُٹھ گئی تھیں۔۔۔۔۔ اُنہیں تیار ہونے کے لیے دیر ہو رہی تھی۔۔۔۔
اُن کے جاتے ہی شہاب درانی پوری طرح قاسم صاحب کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔
” مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔۔ بلکہ یوں کہوں اپنی امانت واپس مانگنی ہے۔۔۔۔۔” شہاب درانی تو ابھی ہی سارے معاملات سیٹ کر لینا چاہتے تھے۔۔۔۔ جبکہ ان کی اس غیر متوقع بات پر قاسم صاحب نے
اچھنبے سے اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
” تم کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟”
وہ حیرت سے شہاب درانی کی اس عجیب و غریب بات پر اُن کی جانب دیکھے گئے تھے۔
جس پر شہاب درانی ایک گہری سانس ہو ا میں خارج کرتے انہیں ساری حقیقت سے آگاہ کرتے چلے گئے تھے ۔۔۔۔ قت
@@@@@@@@@@@
ا بابا میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہہ رہا ہوں۔۔۔ مجھے آپ کے دوست کی بیٹی کی شادی میں آنے میں کوئی
دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔”
منہاج ایک بار پھر اُن کے کال کر کے ایک ہی بات کے اصرار کرنے پر زچ ہوتے بولا تھا۔۔۔۔
اُس کا پہلے ہی دماغ کافی خراب تھا۔۔۔۔ اس لیے اب بھی بہت مشکل سے غصہ ضبط کرتے بولا تھا۔۔۔

“بیٹا جی آنا تو آپ کو ہر حال میں پڑے گاوہ بھی آج ہی۔۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنے دوست کی بیٹی سے تمہارا رشتہ طے کر دیا
ہے۔۔۔۔ وہ لوگ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔”
شہاب درانی نے بڑے سکون سے اُس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔۔
بابا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔ پلیز میں اس وقت ایسے کسی بھی مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔۔۔”
منہاج اپنی جگہ سے اچھل پڑا تھا۔۔۔۔
میری جان میں مذاق کر بھی نہیں رہا آپ سے۔۔۔۔ میں بالکل سیر میں ہوں۔۔۔۔کسی بے وفالڑ کی کی خاطر میں تمہیں اپنی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گا۔۔۔۔۔ میں نے ایک بہت ہی اچھی لڑکی سے تمہارارشتہ طے کر دیا ہے۔۔۔۔اِس یقین کے ساتھ کہ میر ابیٹا
میر امان ضرور رکھے گا۔۔۔۔ میرے دوست کے سامنے میر اسر نہیں جھکنے دے گا۔۔۔۔ تم
ابھی اور اسی وقت یہاں آنے کے لیے نکل رہے ہو ۔۔۔۔ میں اس سے آگے کچھ نہیں سنوں گا۔۔۔ شہاب درانی جانتے تھے اُن کا لاڈلہ نرمی سے ماننے والا بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔ اس لیے انہوں نے یہ طریقہ آزمایا تھا۔۔۔۔
وہ اُسے یہاں بلا کر اس کی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز دینا چاہتے تھے۔۔۔
“بابا پلیز۔۔۔۔۔”
منہاج چاہے ماورا پر بہت غصہ تھا۔۔۔۔ مگر اُسے ماورا کے بارے میں کچھ بھی سننا گوارہ نہیں تھا۔۔۔

آپ اچھے سے جانتے ہیں میں کتنی محبت کرتا ہوں آپ سے۔۔۔۔ مگر میں وہ بالکل بھی نہیں کر پاؤں گا جو آپ مجھے کرنے کو کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ میر ادل صرف ایک ہی لڑکی کے لیے دھڑکتا ہے۔۔۔ جس کے سوا میں کسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔
منہاج تو کسی صورت اُن کی بات مانے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔ جیسے ماورا کے علاوہ کسی اور کا نام لینا گناہ ہو اس کے
لیے۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ زبر دستی نہیں کروں گا۔۔۔۔ لیکن تمہیں میری خاطر یہاں آنا ہو گا۔۔۔۔۔ ایک بار اس لڑکی کو دیکھ تو لو۔۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے اُسے دیکھنے کے بعد تم انکار کر ہی نہیں پاؤ گے۔۔۔۔ اتنی پیاری ہے وہ۔۔۔۔۔ اور اگر تمہیں پسند نہ آئی تو بھی میں تمہارے فیصلے کا احترام کروں گا۔۔۔۔اب اپنے باپ کی خاطر اتنا تو کر ہی
سکتے ہو تم۔۔۔۔” شہاب درانی نے اُسے ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔۔۔۔ اُن کی ایموشنل بلیک میلنگ کے بعد اس کے پاس انکار کرنے کا جواز نگ کے بعد اس کے پاس انگار
ہی نہیں بچا تھا۔۔۔ ” او کے آرہا ہوں میں۔۔۔۔۔”
منہاج بے دلی سے جواب دیتا فون بند کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس کی تکلیف میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔ اس کے دل کی بے چینی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی
تھی۔۔۔۔۔ کسی طور قرار نہیں تھا اُسے۔۔۔۔۔۔

گزرتا ایک ایک پل اُسے یہ باور کروارہا تھا کہ ماورا اس کے لیے کتنی ضروری تھی۔۔۔۔ماورا کے بغیر اب مزید جی پانانا ممکن
ہو چکا تھا اُس کے لیے۔۔۔۔۔۔
ایک بوجھل سانس ہوا میں خارج کرتاوہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
زویان بارات لے کر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ جس کا آژ میر نے ہی آگے بڑھ کر استقبال کیا تھا۔۔۔۔ آژ میر کی گرمجوشی کا جواب زوہان نے بھی اُسی کے انداز میں مصافحہ کر کے دیا تھا۔۔۔۔
دونوں ہی جانتے تھے وہ یہ سب صرف زنیشہ کی خوشی کے لیے کر رہے تھے ۔۔۔ ورنہ اُن کے در میان موجو د خلا بھی بھی ویسے کا ویسا ہی تھا۔۔۔۔ زوبان ابھی بھی آژ میر کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔۔۔۔ اور آژ میر اب بھی پوری طرح دشمنی کے اصول نبھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
زوہان بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس اپنی سحر انگیز پرسنیلٹی کے ساتھ محفل پر چھایا وہاں موجود ہر شخص کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔۔۔۔ وہیں آژمیر سیاہ کلف لگی قمیض شلوار میں عنابی لبوں پر سبھی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتے قاسم صاحب
کی کسی بات پر مسکراتا وہ اس لمحے کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔ اُسے دیکھ کر لگا رہا تھا جیسے آج ایک دنیا فتح
کرلی ہو اُس نے۔۔۔۔۔

اتنا خوش آج تک کسی نے اُن دونوں کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ ہمیشہ چہرے پر مغرور یت بھرے سخت تاثرات سجائے وہ لوگوں سے فاصلے پر ہی رہتے آئے تھے۔۔۔۔ مگر آج اُن کے انداز بہت مختلف اور سب کے لیے حیرانی کا باعث بھی
تھے۔۔۔۔
اُن دونوں سے نظریں ہٹائے نہیں ہٹ رہی تھیں۔۔۔۔ بقول فریحہ کے آج خاندان کی بے شمار لڑکیوں کے دل ٹوٹے تھے۔۔۔۔ کیونکہ خاندان کے دوسب سے زیادہ خوبر و شخصیت کے مالک نوجوان اُن کی پہنچ سے دور جاچکے تھے۔ اب بس انہیں شدت اور بے قراری سے انتظار تھا اپنی دلہنوں کا۔۔۔۔۔۔
میری زندگی کا ایک مقصد تو پورا ہو چکا ہے۔۔۔ اب بہت جلد ۔۔۔۔ میں دوسرے کی تکمیل بھی پالوں گا۔۔۔۔۔ زوہان نے فاتحانہ نظریں اپنے سامنے کھڑے آژ میر پر ڈالتے اُسے آنے والے وقت سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔۔ ملک زوہان بھی خوش فہمیوں کے زیر اثر جینے لگا ہے۔۔۔۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔
آژمیر نے طنز یا لہجے میں جواب دیتے اُس کی بات مذاق میں اڑائی تھی۔۔۔۔ خود پر اتنا غرورکبھی کبھی نقصان کا باعث بنتا ہے آژمیر
میر ان۔۔۔۔ میں تو تمہیں صرف آگاہ کر رہاہوں۔۔۔ایسے نہ ہو۔۔۔۔ ملک فیاض میر ان ہاسپٹل کے بیڈ پر پڑے پڑے ڈاکٹر ز کی کوتاہی سے دم توڑ جائے۔۔۔ اور تم کچھ نہ کر
پاؤ۔۔۔۔۔
زوہان سفاکیت سے بولتا دبے لفظوں میں آرمیر کو بہت بڑی دھمکی دے گیا تھا۔۔۔۔ جس پر آژ میر نے نفرت آمیز نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔

اور جس دن ایسا ہو ا۔۔۔۔ وہ تمہارا بھی اس دنیا میں آخری دن ہو گا۔۔۔۔۔ میں زنیشہ کا خیال بھی نہیں کروں گا۔۔۔۔ آژ میر نے بھی بنا کوئی لحاظ رکھتے حساب بے باک کیا تھا۔۔۔۔۔
اُن دونوں کو شعلہ برساتی نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھتا پا کر قاسم صاحب اور شاکر صاحب جلدی سے اُن کے قریب آئے تھے۔۔۔۔ اِن دونوں کا غصہ ہی خطر ناک تھا۔۔۔۔ وہ اتنے اہم موقع پر کوئی بد مزگی نہیں چاہتے
تھے۔۔۔۔۔۔
آژ میر ، زوہان یہ وقت ان باتوں کا بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ سب گیسٹ آپ دونوں کی طرف ہی متوجہ ہیں۔۔
قاسم صاحب کے احساس دلانے پر وہ دونوں ہی رُخ موڑتے پلٹ گئے تھے۔۔۔
” ان دونوں بھائیوں کی دشمنی نجانے کب ختم ہو گی ۔۔۔۔ اور ختم ہونے سے پہلے نجانے مزید کتنی تباہی لائے
گی۔۔۔۔۔۔۔
قاسم صاحب پریشانی بھرے لیے میں بولتے شہاب درانی کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔ بیٹا آپ لمبے سفر سے آئیں ہیں۔۔۔۔ اگر چاہیں تو کچھ دیر ریسٹ کر لیں۔۔۔۔۔”
قاسم صاحب منہاج کی جانب دیکھتے فکر مندی سے بولے تھے۔۔۔
@@@@@@@@@
شہاب درانی نے قاسم صاحب کو ماورا اور منہاج کے بارے میں سب بتادیا تھا۔۔۔ قاسم صاحب کچھ لمحوں کے لیے تو کچھ
بول ہی نہیں پائےتھے۔۔۔۔

اُن کی دونوں بیٹیوں نے کیا کیا مشکلات دیکھی تھیں۔۔۔ اُن کی ندامت مزید بڑھی تھی۔۔۔ مگر وہیں اپنے پروردگار کے حضور شکر گزار بھی تھے۔۔۔ جنہوں نے اُن کی بیٹیوں کو غلط ہاتھوں میں نہیں جانے دیا تھا۔۔۔۔
بلکہ دونوں کے نصیب میں محبت کرنے والے باکردار مرد لکھے تھے ۔۔۔۔ جو نہ صرف اُن سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ انہیں عزت بھی دیتے تھے۔۔۔۔۔
روشن پیشانی اور چوڑے دینے والا سامنے کھڑ انوجوان اُنہیں اپنی ماورا کے لیے بہت پسند آیا تھا۔۔۔ اگر حائفہ کے لیے آژمیر کسی انعام سے کم نہیں تھا۔۔۔ تو ماورا کو بھی منہاج درانی سے بہتر کوئی نہیں مل سکتا تھا۔۔۔۔ یہ اُس کی خوش بختی تھی کہ اتنا اچھا انسان اُس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔
قاسم صاحب کو اس سے بڑھ کر کچھ چاہیے ہی نہیں تھا کہ شہاب درانی کا بیٹا اُن داماد بن تھا۔۔۔۔ منہاج کا غیر معمولی سنجیدہ اند از اور چہرے کا سر دین دیکھ شہاب درانی مسکرادیئے تھے۔۔۔۔کیونکہ یہ کچھ پل کے مہمان
ہی تھے۔۔۔۔
منہاج اس وقت گرے پینٹ شرٹ میں ملبوس سلیوز کہنیوں تک فولڈ کیے۔۔۔۔ بڑھی ہوئی شیو اور شکن آلود پیشانی کے ساتھ بہت ہی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔۔۔۔ نجانے کتنی ستائش بھری نگاہیں اُس پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ مگر منہاج کو اس سب کی
پر واہ نہیں تھی۔۔۔۔۔
وہ بس جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔۔۔۔

اُس نے خفگی بھری نگاہوں سے شہاب درانی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جنہیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ اُسے بلانے کا مقصد
فراموش کر چکے ہیں۔۔۔۔
اُسے اپنے بابا کو اتنا خوش دیکھ حیرت ہوئی تھی مگر وہ بنا کچھ بولے خاموش ہی رہا تھا۔۔
میں زرااُن سے مل لوں۔۔۔۔”
قاسم صاحب دوسرے گیسٹ کی جانب بڑھ گئے تھے ۔۔۔۔ جب منہاج شہاب درانی کی جانب پلٹا تھا۔۔۔۔ آپ شاید بھول رہے ہیں۔۔۔ آپ نے مجھے یہاں کسی مقصد کے تحت بلایا تھا۔۔۔ مجھے ابھی واپسی کے لیے بھی نکلنا
ہے۔۔۔۔۔
منہاج بھنویں تنے خفگی سے بولا تھا۔۔۔۔
” مجھے نہیں معلوم تھا تم لڑکی کو دیکھنے کے لیے اتنے اتاولے ہو۔۔۔۔۔”
شہاب درانی تو آج الگ ہی موڈ میں تھے۔۔۔۔ جسے سمجھنے سے وہ قاصر تھا۔۔۔۔
وہ رہی۔۔۔۔۔ گولڈن ڈریس میں۔۔۔۔ یہ لڑکی مجھے اپنی بہو کے رُوپ میں بہت پسند آئی ہے۔۔۔” ماور جو لہنگا پکڑے سیڑھیاں اترتی ساتھ آتی لڑکیوں کی باتوں پر مسکراتی منہاج درانی کی پوری دنیا ساکت کر گئی تھی۔۔۔۔ جس ہستی کے لیے وہ دیوانوں کی طرح تڑپ رہا تھا اُسے یوں اپنے سامنے آتا دیکھ اُس کا بے جان دل زور سے دھڑک اُٹھا
وہ بالکل ٹھیک تھی۔۔۔۔ اور اُس کے سامنے تھی۔۔۔۔

منہاج کے لیے یقین کر پانا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔
اُس نے ماورا کی جانب قدم بڑھانا چاہے تھے۔۔۔۔ جب شہاب درانی نے اُس کا بازو تھام کر روک دیا تھا۔۔۔۔ تم لوگوں کے رشتے سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے۔۔۔۔ بی کیئر فل۔۔۔۔ وہ ایک لڑکی ہے اور اس گھر کی بیٹی
بھی۔۔۔۔۔ تمہاری کسی بھی حرکت سے اُس کا امیج مشکوک ہو سکتا ہے۔۔۔۔
شہاب درانی اُسے رسانیت بھرے انداز میں سمجھاتے وہیں روک گئے تھے۔۔۔ جس کی بے قرار نگاہیں ماورا پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔۔
لیکن اگلے ہی لمحے اُس کے رگوں وپے میں غصے کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔۔ وہ اُس کی جدائی میں مجنوں بنا پھر رہا تھا۔۔۔ جبکہ ماورا کا سجا سنورا کھلکھلا تارُوپ دیکھ کر یہی لگارہا تھا کہ وہ بہت آسانی سے اُسے فراموش کیے بیٹھی ہے۔۔۔۔ منہاج کا دل تو اسی لمحے جا کر اُس کی عقل ٹھکانے لگا دینے کا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر ارد گر د موجود لوگ اس وقت ماورا کے لیے ڈھال ہی ثابت ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
آپ کو بہت مزا آیانا مجھے مزید تڑپا کر ۔۔۔۔ یہ بات آپ مجھے فون پر بھی بتاسکتے تھے نا۔۔۔ منہاج کو لگا تھا نجانے کتنا بڑا بوجھ اُس کے اوپر سے ہٹ گیا ہو ۔۔۔۔ اُسے اُس کی چھینی سانسیں واپس لوٹا دی گئی تھیں۔۔۔
وہ بے پناہ خوش تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کی مخصوص دلکش مسکراہٹ واپس لوٹتی دیکھ شہاب درانی بے حد خوش تھے۔۔۔

اگر فون پر بتادیتا تو اپنے بیٹے کی یہ خوشی کیسے دیکھ پاتا۔۔۔۔ میں نے قاسم سے سارے معاملات طے کر لیئے ہے
بہت جلد ہم اپنی بہو کو رخصت کروا کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔۔۔۔۔
شہاب درانی اُسے خوش دیکھ خوش تھے۔۔
ہمہ ۔۔۔ مگر اُس سے بھی پہلے آپکی بہو کے ہوش ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ جو اُس نے میرے ساتھ کیا ہے۔۔۔۔ اتنی آسانی سے تو میں اُسے بخشنے والا بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔
منہاج درانی اب اپنی تڑپ کا بدلہ سود سمیت لینے کا ارادہ کر چکا تھا۔۔۔۔ ماورا کب کی سیڑھیوں سے ہٹ چکی تھی۔۔۔۔ مگر اُس منہاج کی نگاہوں میں تو اس کا ہوش ربارُوپ جم کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
” کیا مطلب۔۔۔۔ ؟؟؟”
شہاب درانی نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔
ماورا کو کوئی نہیں بتائے گا کہ اُس کا رشتہ مجھ سے طے ہوا ہے۔۔۔۔ جو پرینک میرے ساتھ کیا ہے۔۔۔۔ اب وہ زرا اپنی
بہو کو بھی برداشت کرنے دیں۔۔۔۔
منہاج کا پلان سن کر شہاب درانی اُسے باز رکھنے کا کہتے ساتھ مسکرادیئے تھے۔۔۔
مگر منہاج اب کسی کی سننے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔ اُس نے متلاشی نگاہوں سے ارد گرد دیکھا تھا۔۔۔ لیکن اب وہ کہیں
نہیں تھی۔۔۔۔
@@@@

ماشاء اللہ ماشاء اللہ اللہ نظر بد سے بچائے میری بچیوں کو ۔۔۔۔ آج تو لگتا ہے۔۔۔۔ آسمان سے حوریں زمین پر اتر آئی
ہیں۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے اُن دونوں کے دلہنا پے کو دیکھ کر بے ساختہ نظر اُتاری تھی۔۔۔۔۔ دونوں پر ٹوٹ کر رُوپ آیا تھا۔۔۔۔ وہاں موجود تمام خواتین سے نظریں ہٹانا مشکل ہو ا تھا۔۔۔۔
آج تو خیر نہیں اُن دونوں کی۔۔۔۔۔ کیا غضب ڈھار ہی ہو یار تم دونوں۔۔۔۔
ماورا نے دونوں کی بلائیں لیتے محبت سے چور لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔ وہ خود بھی گولڈن لہنگے میں سٹریٹ بالوں کو نازک کمر پر کھلا چھوڑیں، لائٹ سے میک اپ اور نفیس سی جیولری زیب تن کیے نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ ماتھے پر لگی بندیاں اُس کے سراپے کو چار چاند لگارہی تھی۔۔۔۔۔ مسکراتے چہرے اور اُداس آنکھوں کے ساتھ ہر طرف کھکھلاتی پھرتی وہ حائفہ کو بہت بے چین سی لگی تھی۔۔۔۔
مگر چاہنے کے باوجود حافظہ اس وقت سب کے بچ گھرے ہونے کی وجہ سے کچھ پوچھ نہیں پائی تھی۔۔۔ اُوپر سے آنے والے لمحوں کا سوچتے اُس کی سانسیں مدھم سے مدھم تر ہوتی جارہی تھیں۔۔۔۔ جب اُسے پوری طرح خود کو اُس دشمن جاں کے حوالے کر دینا تھا۔۔۔۔ جو اُس کی پور پور کا مالک تھا۔۔۔۔ جس کی وہ دیوانی تھی۔۔۔۔ اور آج کے دن دل و جان سے اُسے منانے کو تیار اُس کی ساری ناراضگی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
مگر اگلے ہی لمحے اُس کا تصور کرتے دھڑکنیں بے قابو ہو جاتی تھیں۔۔۔۔ کیونکہ آژمیر کی شدتوں کی معمولی سی جھلک وہ دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ اب تک وہ اُس سے دور رہ کر اُسے جتنا تر پا چکی تھی۔۔۔۔ آج اُسے اپنے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں

آرہی تھی۔۔۔۔ اور وہ بچناچاہتی بھی نہیں تھی۔۔۔۔ وہ خود بھی اتنا ہی تڑپی تھی اس کے لیے۔۔۔۔ اب وہ بھی اُس کی
مضبوط پناہوں میں سکون و آسودگی بھری زندگی گزارنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
“ماورا۔۔۔۔۔۔”
ماورا اپنی لپسٹک ٹھیک کرتے پلٹی تھی جب زنیشہ نے اُس کا ہاتھ پکڑتے مخاطب کیا تھ۔۔۔۔
” زوہان اور آژمیر لالہ میں باہر سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔” زنیشہ کو بہت سی باتوں کے ساتھ ایک یہ فکر بھی ستارہی تھی۔۔۔۔۔
ہاں سب بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ تم اس بارے میں فکر مت کرو۔۔۔۔۔ بلکہ اپنے اُس کھڑوس اور اکڑ و ہنر بینڈ سے نبٹنے کا
سوچو۔۔۔۔۔”
ماورا سے چھیڑ تی فریحہ کی پکار پر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔
“ماورا تمہیں قاسم چاچابلارہے ہیں نیچے۔۔۔۔
فریحہ کی بات پر ماور سر ہلاتی نیچے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔
پورے ہال میں نظریں دوڑانے کے باوجود اسے قاسم صاحب تو کہیں نظر نہیں آئے تھے۔۔۔۔ مگر خود پر کسی کی نگاہوں کی تپیش محسوس کرتے ماورا نے اُلجھی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا تھا۔۔۔۔ لیکن اُسے وہاں کوئی بھی اپنی جانب متوجہ
نظر نہیں آیا تھا۔۔۔۔

ماورا کی گھبراہٹ ایک دم بڑھی تھی۔۔۔ اُسے مسلسل اپنا آپ کسی کی گہری نگاہوں کے حصار میں معلوم ہوا تھا۔۔
مگر کس کی ۔۔۔۔۔ ؟؟؟
زوہان اپنے دوست کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا جب اُس کی نظر انٹرنس سے داخل ہوتی زنیشہ پر پڑتی واپس پلٹنا بھول گئی تھی۔۔۔۔
اُسے لگا تھا کوئی اپسر الال جوڑے میں ملبوس اُس کی جانب چلتی آرہی ہے۔۔۔۔ آژمیر کا ہاتھ تھامے دھیرے دھیرے
قدم اُٹھاتی لال جوڑے میں وہ اپنا پور پور اُس کے لیے سجائے سولہاں سنگھار کیے ہوئے تھی۔۔۔۔ بلڈریڈ لینگے میں شارٹ فل سلیو بلاؤز کے ساتھ سر پر بھاری دوپٹہ سجائے، بالوں کو جوڑے کی شکل میں قید کیے وہ نازک سی گڑیا معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
مہندی لگے ہاتھ اور نازک کلائیاں سونے کے کنگن اور گجروں سے سجیں زوہان کو ہوش بھلا گئی تھیں۔۔۔۔ وہ پہلے ہی اُس
کی کلائیوں کا دیوانہ تھا۔۔۔ آج تو اُن کی سجاوٹ نے اُس کے دل پر قیامت برپا کر دی تھی۔۔۔۔ گردن میں جڑاؤں ہار ، کانوں میں بھاری جھمکے اور ماتھے پر لگائی ماتھا پٹی۔۔۔۔۔ زنیشہ کا ایک ایک سنگھار زوبان کی
دھڑکنوں کو پاگل کر گیا تھا۔۔۔۔
اسے قریب آتے دیکھ زوہان آگے بڑھا تھا۔۔۔۔۔ آج پھر وہ دونوں آمنے سامنے تھے۔۔۔۔ زنیشہ نے سر اُٹھا کر دونوں کے پتھریلے تاثرات خوفزدہ نظروں سے دیکھے تھے۔۔۔۔

“میری بہن کو کبھی ہماری دشمنی میں مت لانا۔۔۔۔۔” آژمیر کچھ دیر پہلے کی ہوئی تلخ کلامی کے زیر اثر بولا تھا۔۔۔
اگر ایسا کرنا ہو تا تو بہت پہلے کر چکا ہو تا۔۔۔۔۔ زنیشہ میرے لیے کیا ہے۔۔۔۔ تم میر ان پیس والے کبھی جان ہی نہیں
پاؤگے۔۔۔۔
زنیشہ کا ہاتھ آژمیر کی گرفت سے لیتا وہ اُسے اچھی طرح باور کر وا گیا تھا۔۔۔۔
آژمیر اُس سے یہی اگلوانا چاہتا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کے سر پر لب رکھتا اُسے زوہان کے حوالے کر گیا تھا۔۔۔۔ دشمنی سہی مگر دونوں کی جان زنیشہ میں بستی تھی۔۔۔ اس بات سے دونوں ہی آگاہ تھے۔۔۔۔
@@@@@@@@@
ہال میں دو سٹیج بنائے گئے تھے۔۔۔۔ ایک پر زوہان زنیشہ کو لے کر بڑھ گیا تھا ۔۔ جبکہ دوسرا ابھی خالی تھا۔۔۔۔۔ آژ میر زوبان کے حوالے تو اُس کی دلہن کر چکا تھا مگر اب اُسے شدت سے اپنی زندگی کا انتظار تھا۔۔۔ کچھ ہی لمحوں بعد
حائفہ کو قاسم صاحب کی چھاؤں میں اندر داخل ہو تاد یکھ آژ میر اپنی سانسیں روک گیا تھا۔۔۔۔
ریڈ زمین کو چھوتے بھاری کا مدار لہنگے میں بیچ بیچ چلتی وہ نظریں جھکائے خود پر آژمیر کی نگاہوں کی تپش اچھے سے محسوس
کر پارہی تھی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کی ہتھیلیاں نم ہوئی تھیں۔۔۔۔

آج تو اُس کی چھب ہی نرالی تھی۔۔۔۔ آژمیر یقین سے کہہ سکتا تھا اتنی حسین دلہن اُس نے آج تک نہیں دیکھی
تھی۔۔۔۔ جیسی اُس کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی۔۔۔۔
آژمیر کو تو یہی فکر ہورہی تھی کے اتنے بھاری لہنگے میں اُس کی وہ نازک سی جانن چل کیسے رہی تھی۔۔۔۔ ایک پل کو تو اُس
کا دل چاہا تھا۔۔۔ آگے بڑھ کر اُسے بانہوں میں اُٹھالے۔۔۔۔۔۔
کسی کی پر واہ کیے بغیر وہ ایسا کر بھی گزر تا مگر اُسے ڈر تھا کہ اُس کے اس عمل پر حاعفہ نے شرم وحیا کے مارے بے ہوش ہو جانا ہے۔۔۔۔ اس لیے وہ ضبط کیے کھڑارہاتھا۔۔۔۔
حائفہ کے ماتھے پر سجائے بالوں میں سے جھانکتی بندیاں اور ناک میں پہنی ہو نٹوں کو چھوتی نتھ آژمیر کے دل پر بجلیاں گرا گئی تھی۔۔۔۔ کانوں میں پہنے بھاری جھمکے اور نازک گردن کو پوری طرح زیورات سے ڈھکے وہ اپنا پور پور اُس کی خاطر سجائے ہوئے تھی۔۔
آژمیر اس وقت اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان تصور کر رہا تھا۔۔۔ جس کی قسمت میں حائفہ جیسی لڑکی لکھی گئی تھی۔۔۔۔ جو اُس سے محبت نہیں عشق کرتی تھی۔۔۔۔۔ اُس کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتی تھی ۔۔۔۔ اُس کی صنف نازک قاسم صاحب کے ساتھ چلتی اُس و مقابل آن پہنچی تھی ۔۔۔۔ اُس کے وجود سے اٹھتی دلفریب مہک اور ہاتھوں میں کنگن اور گجروں کے ساتھ پہنی کا نچ کی سرخ چوڑیوں کی کھن کھن نے اُسے اپنی زندگی کی حسین حقیقت سے اُجاگر کر وادیا تھا۔۔۔۔

جو اس وقت پورے ہوش و حواس میں اُس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔
آژمیر میں آنکھوں میں عقیدت اور محبت کے دیئے روشن کیے اُس کے سامنے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلا دی تھی۔۔۔۔ جس میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بنا حاعفہ نے اپنی مہندی اور انگوٹھیوں سے سجی نازک ہتھیلی آژمیر کے مضبوط ہاتھ پر رکھ دی
تھی۔۔۔۔
آج دونوں کی مسکراہٹ دیکھنے لائق تھی۔۔۔۔ اتنی مسافتیں طے کر کے انہیں نے ایک دوسرے کو پالیا تھا۔۔۔۔ خوش کیسے نہ ہوتے۔۔۔۔۔
حائفہ کے گرد باز و حمائل کرتے آژمیر نے نہایت ہی محبت اور احتیاط سے اسے سٹیج پر چڑھنے میں مدد دی تھی۔۔۔۔ حائفہ
بھاری لہنگے سے زیادہ اُس کی قربت کے زیر اثر کانپ رہی تھی۔۔۔۔۔
بہت بُری طرح گھائل کیا ہے تم نے مجھے۔۔۔۔۔ آج تو تمہیں میرے جنون کو داشت کرنا ہی ہو گا۔۔۔۔ خود کو پوری
طرح سے تیار کر لو میری زندگی۔۔۔۔۔
حائفہ کو وہاں بیٹھا کر اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے آخر میر بھی اُس کے ساتھ براجمان ہو ا تھا۔
نجانے کتنی رشک و حسد بھری نگاہیں اُن دونوں کپلز پر اُٹھ رہی تھیں۔۔۔۔

لیکن ایک پر اہلم جو دونوں دلہوں کو اس وقت ایک ساتھ ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور وہ تھی اُن کی دلہنوں کا یہ حسین رُوپ سبہ
کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔۔۔۔
اُن کے اس اعتراض پر اگلے ہی لمحے شمسہ بیگم آگے بڑھی تھیں۔۔۔۔ اور نیٹ کے خاص طور پر گھونگھٹ کے لیے
بنوائے دوپٹے باری باری دونوں کے اُوپر ڈال کر پن اپ کر دیئے تھے۔۔۔۔
جن پر گولڈن رنگ سے کندے الفاظ ” آثر میر کی دلہن ” اور “زوبان کی دلہن” اُن دونوں کے دلہنا پے کو چار چاند لگا گئے
اُن چاروں سے نظریں ہٹانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔
زوہان نے آج کے دن بھی ایسے ہی زنیشہ کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں جکڑ رکھا تھا۔۔۔ اُس کے لمس میں کچھ ایسا خاص تھا کہ زنیشہ کی دھڑکنیں بے قابو ہو کر بے ہنگم انداز میں شور مچانے لگی تھی۔۔۔۔
میں جانتا ہوں تمہیں ہمیشہ سے گلا رہا ہے۔۔ کہ میں کبھی تمہاری تعریف نہیں کرتا۔۔۔۔ لیکن اُن سب شکووں کا جواب اور تمہاری گزری ملاقاتوں کے ہر ہر حسین رُوپ کی تعریف میں آج کے دن کے لیے ہی بچا کر رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔۔ آج میں بہت تفصیل سے تمہیں یہ بتانے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ تم نے کب کب اور کہاں کہاں میرے دل پر بجلیاں گرائی ہیں۔۔۔۔

Share with your friends on Facebook

Updated: April 30, 2025 — 3:12 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *