In Part 25 of the Haifa and Zanisha series, the story takes another powerful turn. This part is packed with bold romance, heartbreak, and emotional twists that keep readers hooked from the first line to the last.
Whether you’re looking for a romantic Urdu story, a bold love drama, or simply a high-quality Urdu story PDF, this chapter gives you all that and more.

Haifa and Zanisha Novel Part 25 – Urdu Story PDF
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 24 – Best Urdu Novel Story
زوہان کی دھیمی سرگوشیاں زنیشہ کی جان مشکل میں ڈال رہی تھیں۔۔۔۔ وہ اب تک جتنا لڑ چکی تھی اور زوہان کو ستا چکی
تھی۔۔۔۔ آپ اُسے اپنی خیر معلوم نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
@ @ a aa a a a a
ماورا حاعفہ اور زنیشہ کے لہنگے سیٹ کرتی سٹیج سے کچھ فاصلے پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔اُسے آج بہت عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔ اُسے لگ رہا تھا کوئی مسلسل اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔ مگر کون ؟؟؟؟
یہ بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی وہ پتا نہیں لگا پائی تھی۔۔۔۔۔
ماورا بیٹا فریحہ اوپر گئی ہے۔۔۔۔ زنیشہ کی کچھ چیزیں اُٹھانے۔۔۔ جاؤ زرا دیکھ کر آؤ بھی تک واپس کیوں نہیں آرہی
حمیر ابیگم کی ہدایت پر ماورا اثبات میں سر ہلاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ نیچے کی نسبت
او پر قدر لائٹنگ کم کی
گئی تھی۔۔۔۔ اوپر کے حصے میں مین لائٹنگ آف کر کے نیچے کا بہت زبر دست ماحول بنایا گیا تھا۔۔۔۔۔
مدھم مدھم سی روشنی میں وہ اپنا بھاری لہنگا سنبھالے آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ جب اُسے سامنے ہی فریحہ فون پر بات کرتے دوران مسکراتی اُسی جانب آتی دکھائی دی تھی ۔۔۔۔۔
تمہیں نیچے سب ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ اور محترمہ یہاں قہقے لگانے میں مصروف ہیں۔۔۔ جلدی سے زنیشہ کی یہ چیزیں لے
کر جاؤ نیچے ۔۔۔۔ماما انتظار کر رہی ہیں۔۔۔۔
ماورا اُسے مصنوعی گھوری سے نوازتی آگے بڑھی تھی۔۔۔
“بیٹا جب تمہارے پاس ایسا امپورٹنٹ بندہ ہو گا تو دیکھتی ہوں کیسے تمہیں ایسی امپورٹنٹ کال نہیں آتی ۔۔۔۔۔
فریحہ بھی اُسے جو ابا چھیڑتے بولی تھی۔۔۔۔
میں ایسے ہی بہت خوش ہوں ۔۔۔۔ تم جاؤ نیچے ۔۔۔۔ مجھے لہنگے کی یہ ہک بہت تنگ کر رہی ہے۔۔۔۔ بار بار ڈھیلا ہو جاتا
ہے۔۔۔۔ میں اسے سیٹ کر کے آتی ہوں۔۔۔”
ماورا اُس کی بات پر مسکراتی اپنے روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
جب اچانک کسی نے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اُسی کے روم میں کھینچ لیا تھا۔۔۔
خوف کے مارے ماورا کی چیخ بر آمد ہونے ہی والی تھی۔۔۔ جب مقابل نے اُسے دیوار کے ساتھ لگاتے ، اس کے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر ایسا کچھ بھی کرنے کی مہلت نہ دیتے اُس کی سانسوں کو قید کر لیا تھا۔۔۔۔۔
ماورا کی آنکھوں کی پتلیاں ناقابلے یقین حد تک پھیل گئی تھی۔۔۔۔ اُس نے ہاتھ ہلاتے مزاحمت کرنی چاہی تھی۔۔۔۔ مگر اُس کی دونوں کلائیوں پر مضبوط گرفت کرتے پیچھے دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تھا۔۔۔۔
مقابل کا شدت بھر المس جس میں غصہ ، ناراضگی، اذیت، محبت اور جنون کا عنصر شامل تھا۔۔۔۔ماورا کی جان نکال گیا تھا۔۔۔۔ اگر وہ منہاج کی خوشبو اور لمس کی شدتوں سے انجان ہوتی تو اب تک کسی اجنبی کو اپنے اتنے قریب محسوس کر کے اُس کی سانسیں تھم چکی ہو تیں۔۔۔۔۔
مگر یہ تو اس کی زندگی کے محبوب ترین شخص کی خوشبو تھی۔۔۔۔ اس کے دل میں پیدا ہوتی خوش فہی اس کی آنکھوں میں رنگ بھر گئی تھی۔۔۔۔
لیکن وہ پوری طرح شیور نہیں تھی۔۔۔۔ اس لیے مسلسل مزاحمت کرتی خود کو اس جان لیوا قید سے رہاع کر وانے کے لیے
بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپی۔۔۔۔ منہاج کے جنون کو مزید ہوا دے رہی تھی۔۔۔۔
اُس کا لمحہ بالمحہ شدت پکڑتا عمل ماورا کی آنکھوں میں نمی لانے کے ساتھ ساتھ اس کے منہ میں خون کا ذائقہ گھول گیا۔۔جس کے ساتھ ہی مقا بل کو جیسے اس پر رحم آگیا
مگر گردن کے پچھلے حصے پر موجود ہاتھ کی گرفت ہنوز تھی۔۔۔۔
” منہاج ۔۔۔۔۔؟؟؟”
ماورا کے کپکپاتے لب بمشکل پھڑ پھڑائے تھے۔۔۔۔ وہ گہرے گہرے سانس لیتی اپنی کا نپتی ٹانگوں کی وجہ سے لڑکھڑا کر گرنے کو تھی جب مقابل نے کچھ نرمی دیکھاتے اُس کے گرد باز و حمائل کرتے اُسے سہارا دیا تھا۔۔۔۔
ہر طرف چھائے اند ھیرے کی وجہ سے ماورا اس کا چہرا نہیں دیکھ پاری تھی۔۔۔ مگر وہ مضبوط جسامت کے مالک اپنے سامنے کھڑے اُونچے لمبے شخص کو دیکھ کر اور اس کا لمس محسوس کر کے نانوے فیصد یقین کر چکی تھی کہ یہ منہاج ہی
تھا۔۔۔۔۔
مگر وہ کچھ بول کیوں نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔
ماورا کو اُس ایک پر سنٹ نے بھی خوفزدہ کر دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ شاید فریحہ سے کہی اُس کی بات سن چکا تھا۔۔۔۔ اس لیے اُس کے ہاتھوں کا لمس اپنے لہنگے پر محسوس کرتے ماورا کے رہے سہے حواس بھی ساتھ چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔
” چھوڑو مجھے۔۔۔۔
اُس نے مقابل کے سینے پر ہتھیلیاں جما کر دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اُسے بے حد قریب کھینچ لیا گیا تھا۔۔
ماور اسید ھی اُس کے سینے سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی اُس کے ہاتھ کا لمس اپنی ہک ہر محسوس ہوا ماورا بُری طرح لرزنے لگی تھی۔۔۔۔۔ اُسے لگا تھاوہ ابھی بے ہوش ہو کر گر جائے گی۔۔۔۔۔ لیکن اُس کے گرد قائم مضبوط سہارے نے ایسا نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔۔
ماورا کا چہرا اس لمس پر خطر ناک حد تک لال ہو چکا تھا۔۔۔۔
جب ہک ٹائٹ ہونے پر اس کے منہ سے ہلکی سے کراہ نکلی تھی۔۔۔۔ اس نے سختی سے سامنے والے کی شرٹ سینے سے
دبوچ لی تھی۔۔۔۔۔
” منہاج پلیز ۔۔۔۔۔۔
اب کی بار ماورا کو اُس کا سنگین لمس اپنی گردن پر محسوس ہو ا تھا۔۔۔۔ ماور بری طرح تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔ وہ اس کی
شفاف نازک گردن پر لو بائٹ کا گہر انشان چھوڑتا اگلے ہی پل وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔
ماورا نے دیوار کا سہارا لیتے بمشکل خود کو گرنے سے بچایا تھا۔۔۔۔۔وہ اُسے روکنا چاہتی تھی۔۔۔۔ مگر اُس کی آواز کوشش
کے باوجو د نہیں نکل پائی تھی۔۔۔۔۔
“ماورا کہاں رہ گئی ہو تم ؟؟؟؟ ماورا؟؟؟؟؟”
باہر سے فجر کی آتی آوازوں پر ماورا نے اُسی طرح اندھیرے میں کھڑے اپنا بکھر احلیہ ٹھیک کیا تھا۔۔۔۔
“فجر دیکھو باہر کوریڈور میں کوئی ہے۔۔۔۔ یا سیڑھیوں پر تمہیں کوئی نظر آیا۔۔۔۔؟؟؟”
ماورا اندر ہی کھڑی بے قراری سے چلائی تھی۔۔۔۔
” نہیں ماورا باہر تو کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟؟؟”
فجر فکر مندی سے بولی تھی۔۔۔۔
نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔ تم جاؤ میں بس ابھی آتی ہوں۔۔۔
ماورا کمزور سی آواز میں بولتی روم کا دروازہ لاک کرتی لائٹ آن کرتے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُس شخص کی ستمگری پر پوری طرح مٹ چکی لپسٹک دوبارہ سے لگاتے۔۔۔۔۔۔ اُس کی نظر اپنی گردن پر پڑی تھی۔۔۔۔
اُس کا چہر الال انگارہ ہو چکا تھا۔۔۔ جلدی سے بال درست کر کے گردن کو کور کرتی وہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ بے قراری سے اُس نے ایک ایک روم چھان مارا تھا۔۔۔۔ اور اُس کے بعد ہال کا بھی کوئی کونا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ مگر اُسے منہاج کہیں نہیں ملا تھا۔۔۔
بہت سے واہموں اور وسوسوں کے ساتھ خوف بھی اُس کے اندر انگڑائی لینے لگا تھا۔۔۔
اگر خدانخواستہ وہ منہاج نہیں تھا پھر کون تھا ؟؟؟
اس خیال کے آتے ہی ماورا کی دھڑکنیں رُک جاتی تھی۔۔۔۔
نہیں وہ منہاج کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ میں منہاج کی خوشبو اچھے سے پہنچاتی ہوں۔۔۔۔ اُسے پہچاننے میں تو میں غلطی کر ہی نہیں سکتی۔۔۔۔۔ مگر وہ ہے کہاں میرے سامنے کیوں نہیں آرہا۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ بہت ناراض ہو گا مجھ سے۔۔۔۔ مگر ایک بار سامنے تو آئے نا۔۔۔۔ یہ آنکھ مچولی کا کھیل میری جان نکال دے گا۔۔۔۔”
دیوانہ وار چاروں طرف نگاہیں دوڑاتی اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔۔۔۔۔
مگر پھر جلدی سے اپنے آنسو صاف کرتی وہ سٹیج کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ جہاں دونوں دلہنوں کی رخصتی ہونے والی تھی
@@@@@@@@@
زوہان نے زنیشہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھایا تھا۔۔۔۔۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی ویران آنکھوں میں خوشی کی چمک مزید واضح ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔
ہمیشہ سے خود کو تنہار کھنے والا وہ آج تنہا نہیں بچا تھا۔۔۔۔ اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی بہار بن کر اُس کے آنگن میں اتر آئی تھی۔۔۔۔۔
زوہان کا دل اپنے اللہ کے خضور تشکر سے جھک گیا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ سب گھر والوں سے باری باری مل رہی تھی۔۔۔ آژمیر کے علاوہ تقریباً ہر فرد نے ہی اُسے زوہان کے غصے اور اُس کی
اُکھڑ مزاجی سہنے کی تلقین کی تھی۔۔۔۔
کیونکہ اُن میں سے شاید اس بات سے کوئی بھی واقف نہیں تھا کہ چاہے زوہان سڑیل اور غصے کا تیز تھا۔۔۔۔ مگر باقی لوگوں کے لیے۔۔۔۔۔ ورنہ زوہان سے زیادہ تو ز نیشہ اس سے اپنے نخرے اُٹھواتی تھی۔۔۔۔
اور وہ ہر بار بنا ایک شکن بھی لائے اُس کی بہت ساری باتیں مان بھی جاتا تھا۔۔۔۔ لیکن جس بلیک میلنگ سے وہ زنیشہ سے
اپنی باتیں منوا تا تھا اس معاملے میں زنیشہ ابھی اس سے جیت نہیں پائی تھی۔۔۔
سب سے مل کر زوہان کا ہاتھ تھامے میر ان پیلس کی دہلیز پار کرتی آج وہ اس صدی شخص کی ایک ضد تو نہایت محبت سے پوری کر گئی تھی۔۔۔۔
مگر اب اُسے اسی محبت کے ساتھ زوہان کو بدلنا تھا۔۔۔۔۔ جس کے لیے وہ دلوں جان سے تیار تھی ۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
حاعفہ سٹیج پر بیٹھی تھی جب آژمیر اُس کے قریب آکر اپنے دل کی خواہش پر سر تسلیم خم کرتا اُسے بانہوں میں اُٹھا گیا
اُس کے اس عمل پر حاعفہ کا دل اچھل کر حلق میں آن گرا تھا۔۔۔۔ جبکہ پورا ہال ہو ٹنگ سے گونج اٹھا تھا۔۔۔حاعفہ نے لال چہرے کے ساتھ آژمیر کو گھورنا چاہا تھا۔۔۔ مگر گھونگھٹ کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ اُس نے شرم کے مارے بے ہوش ہو جانا تھا۔۔۔۔ اُسی کا خیال کرتے آژ میر نے سٹیج سے نیچے اتر کر حائفہ کو اتار دیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ بقول لیڈیز کے انہیں ابھی کچھ رسمیں کرنی تھیں۔۔۔۔
اس لیے اُسے اپنی دلہن کو نا چاہتے ہوئے بھی کچھ دیر کے لیے اُن کے حوالے کرنا پڑا تھا۔۔۔۔
” اماں سائیں یہ فضول کی رسمیں ضروری ہیں کیا۔۔۔؟؟؟”
آژ میر اچھا خاصہ تپا کھڑا تھا۔۔۔۔
” جی ضروری بھی ہیں اور آپ کی دلہن کو یہ سب رسمیں پسند بھی بہت ہیں۔۔۔۔”
شمسہ بیگم نے اُسے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔
“ہمہ اسی وجہ سے ہی تور کا ہو ا ہوں۔۔۔۔”
آژ میر آج کے دن کم از کم اپنی مرضی نہیں چلانا چاہتا تھا حائفہ پر ۔۔۔۔ جو اس وقت اپنی شادی کی کی جانے والی رسمیں
انجوائے کر رہی تھی۔۔۔۔
لالہ آپ بھی ادھر آئیں نا پلیز۔۔۔”
فجر نے ڈر کے مارے نہایت ہی آہستہ آواز میں اُسے پکارا تھا۔۔۔۔ آژ میر سے اُن میں سے کوئی فری نہیں تھا۔۔۔ اور اُس کے شدید غصے کی وجہ سے تقریباً تمام کزنز ہی اُس سے بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے تھے۔۔۔۔
لیکن آج تو آژ میر کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔۔۔۔ اُسے آج کسی کی بات کا برا نہیں لگنا تھا۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے جاکر حائفہ کے پہلو میں جاکر بیٹھا تھا۔۔۔۔
لالہ یہ چھوٹی سی رسم ہے۔۔۔۔۔ ہم نے اس تھال میں ایک انگوٹھی ڈال دی ہے۔۔۔۔ آپ میں سے جو پہلے اسے ڈھونڈ لے گا۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہو گا۔۔۔ کہ آگے کی لائف اسی پارٹنرز کی حکمرانی ہو گی ۔۔۔۔۔”
فریحہ دودھ میں گلاب کی پتیاں مکس کیے۔۔۔ ایک سجا سجایا خو بصورت سا تھال اُن کے سامنے ٹیبل پر رکھ گئی تھی۔۔۔۔ آثر میر کو اس رسم کی لاجک تو فضول ترین لگی تھی۔۔۔۔ مگر رسم انتہائی انٹر سٹنگ تھی۔۔۔۔ اس لیے وہ اسے کرنے کے لیے دل و جان سے راضی ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
حاعفہ نے آژمیر کے ساتھ اپنالرز تا کانپتا ہاتھ اندر ڈالا تھا۔۔۔ جب پہلی ہی بار میں آنکھوں پر گھونگھٹ آجانے کی وجہ سے انگوٹھی کی جگہ اُس نے آژ میر کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔۔۔
باقی سب تو آژمیر کی وجہ سے حائفہ سے کوئی چھیڑ خانی نہیں کر سکے تھے۔۔۔۔ مگر آژ میر کا امڈ آنے والا قہقہ حائفہ کو شرم سے لال کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے بعد آژمیر نے دوبار حائفہ کی اُنگلیوں کو چھوا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ اُس کی ان مستیوں پر حیا سے سرخ ہونے کے سوا کچھ
نہیں کر پائی تھی۔۔۔ اُس کی دھڑکنوں کا شور بڑھنے لگا تھا۔۔۔۔ سانسیں الگ رفتار پکڑ چکی تھیں۔۔۔۔۔۔ حائفہ کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آژمیر میر ان جیسا سخت مزاج شخص انار و مینٹک اور بے باک ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ حائفہ کا وجو د آنے والے لمحوں کا سوچتے لرزنے لگا تھا۔۔۔
آژمیر کا فوکس انگوٹھی ڈھونڈنے سے زیادہ حائفہ پر تھا۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے انگو ٹھی حائفہ کے ہاتھ میں آچکی
جو مل جانے پر وہ بہت خوش ہوئی تھی۔۔۔۔ آژ میر تو اس کی اس خوشی پر ہی نہال ہو ا تھا۔۔۔۔ ” سویٹ ہارٹ ایسی چاہے جتنی رسمیں بھی جیت لو۔۔۔۔۔ تم پر حکمرانی تو میری ہی رہے گی۔۔۔”
آژمیر اُس کے کان میں مہم سے سر گوشی کرتا ایک امپورٹنٹ کال آجانے کی وجہ سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
زنیشہ زوہان کے سہارے زوہان ولا میں انٹر ہوئی تھی۔۔۔۔۔ زوہان کا مضبوط لمس اپنی کمر پر محسوس کرتے زنیشہ کا دل
دھک دھک کر رہاتھا۔
وہ تو زوہان ولا کی سجاوٹیں دیکھ کر ہی دھنگ رہ گئی تھی۔۔۔۔ ہر شے گلاب کے پھولوں اور برقی قمقموں سے سجی ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
انٹرنس پر ہی سجی سنوری بہت ساری لڑکیاں ہاتھوں میں پھول اُٹھائے اُن کی راہ میں نچھاور کر رہی تھیں۔۔۔۔ زنیشہ زوہان کی سنگت میں آگے بڑھتی بے پناہ خوش تھی۔۔۔۔ اُس نے بھی زوہان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔۔۔۔ جب سامنے ہی نفیسہ بیگم کے ساتھ کھڑی ثمن کو دیکھ اُس کا موڈ خراب ہوا تھا۔۔۔۔
اُسے پوری شادی میں نہ دیکھ وہ بہت خوش تھی ۔۔۔۔ مگر اب یہاں دیکھ اُسے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ جس طرح وہ دیوانہ وار نظروں سے زوہان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ برداشت کر ناز نیشہ کے لیے بہت مشکل ہو اتھا۔۔۔۔
اُس نے زوہان کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
جس کاریزن زوہان منٹوں میں سمجھ گیا تھا۔۔۔۔
ویلکم ہوم۔۔۔۔۔ ورلڈ ز بیوٹیفل اینڈ چار منگ کپل۔۔۔۔۔
ثمن نے آگے بڑھتے زنیشہ کے گلے لگتے دل سے مبارک باد دی تھی۔۔۔۔۔
تھینکس۔
زوہان کے مسکرا کر جواب دینے پر زنیشہ مزید تپ گئی تھی ۔۔۔۔
سامنے موجود کمرے کی جانب جاتی اتنی لمبی سیڑھیاں دیکھے زوہان زنیشہ کا اٹھانے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا۔۔۔۔ جب ثمن
نے مسکراتی نظروں سے اُسے دیکھتے روک دیا تھا۔۔۔۔
مسٹر زوہان میر ان ہم آپ کی دلہن کو بغیر کوئی تکلیف پہنچائے آپ تک پہنچا دیں گے۔۔۔۔ یہ آپ ہی کی ہیں۔۔۔ مگر ابھی
تھوڑی دیر کے لیے انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔۔۔۔
ثمن زنیشہ کے گرد باز و حمائل کرتی اسے اپنے ساتھ لگاتے بولی۔۔۔۔ جبکہ زنیشہ کا دل چاہا تھا اس لڑکی کا منہ توڑ
دے
او کے مگر جسٹ ٹین منٹس اس سے زیادہ نہیں۔۔۔۔۔”
زوہان نفیسہ بیگم کو بھی رسموں کے لیے تیار دیکھ انکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔
زنیشہ جو یہی سمجھ رہی تھی کہ زوہان انکار کر دے گا۔۔۔۔ اُس کے اتنی آسانی سے مان جانے اور مردوں کی طرف جاتا
دیکھ زنیشہ کا پارو بری طرح چڑھ گیا تھا۔۔۔
مطلب صرف یہاں تک لانے کے لیے یہ شخص پاگل ہو رہا تھا۔۔۔۔ اب میری کوئی پرواہ ہی نہیں۔ ۔ ۔ زنیشہ کا اس وقت
غصے سے بُرا حال تھا۔۔۔۔
اُسے شادی کی یہ رسمیں بہت پسند تھیں۔۔ مگر یہاں موجود ثمن کو دیکھ جو پوری طرح اُس کے شوہر پر فدا تھی۔۔۔۔
زنیشہ کے لیے وہ ہضم کرنا آسان نہیں تھا۔۔۔
@@@@@@@@@
ٹيريل
ماورا کا پورا فنکشن اسی ٹینشن کو لے کربے چینی میں گزرا تھا۔۔۔۔ اُس نے پورامیر ان پیلس چھان مارا تھا۔۔۔ مگر منہاج اُسے کہیں
نہیں ملا تھا۔۔۔۔ وہ یہ سوچ سوچ کر ہی پاگل ہو رہی تھی کہ اگر وہ منہاج نہ ہوا تو۔۔۔۔۔
واش روم سے چنج کر کے نکلتے اُس نے بالوں کو کیچر کی مدد سے جوڑے میں مقید کیا تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت معمول کے
مطابق سیاہ نائٹی میں اپنے دلکش رُوپ کے ساتھ سوگوار سی بہت پر کشش اور حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔ جوڑا بنانے کی وجہ سے گردن کانشان واضح تھا۔۔۔ جسے پورے فنکشن میں چھپانے کے لیے ہلکان ہوتی رہی تھی وہ۔۔۔۔۔
منہاج ۔۔۔۔ بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ بہت غلط کیانا آپ کے ساتھ ۔۔۔۔ میں جانتی ہوں میرے اس قدر
قریب آنے والا شخص آپ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
ماورا اُسے دل ہی دل میں پکارتی رو دی تھی۔۔۔۔
جب اچانک کسی خیال کے تحت بناروم لاک کیے بیڈ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ سائیڈ دراز سے موبائل نکالتے اُس نے منہاج کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔۔ مگر پچھلی بار کی طرح اس بار بھی بند ہی ملا تھا۔۔۔۔
ماورا موبائل اسی طرح سینے سے لگاتی بیڈ پر اوندھے منہ گرتی آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔۔ بنا کمبل کے جمادینے والی سردی پر
سکری سمٹی خود کو اذیت دینے کی خاطر ایسے ہی پڑی رہی تھی۔۔۔۔۔
اُسے اب احساس ہو رہا تھا کہ منہاج اُس کے یوں اچانک غائب ہو جانے پر کس قدر اذیت سے گزرا ہو گا۔۔۔۔ وہ اُس پر تو
اعتبار کر کے اُسے سارا معاملہ سمجھا سکتی تھی ۔۔۔۔
مگر اس نے تو منہاج کے بارے میں اس رخ پر سوچنا گوارہ ہی نہیں کیا تھا۔۔۔۔ اب جب وہ خود اس کے لیے تڑپ رہی
تھی تو اسے منہاج کی تڑپ کا اندازہ ہو ا تھا۔۔۔۔
اُسے شدید ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔۔۔ روم میں ہیٹر بھی آن نہیں تھا۔۔۔۔۔ مگر اُسے پرواہ نہیں تھی۔۔۔۔کھلی کھڑیوں سے آتی ٹھنڈی ہوا اُسے اپنی ہڈیوں میں گھستی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ باہر شاید برف باری سٹارٹ ہو چکی تھی۔۔۔ درجہ حرارت منفی میں جاچکا تھا۔۔۔۔۔
اس کا نازک وجود اتنی ٹھنڈ برداشت نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر بعد وہ آنکھیں موند ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی
تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ کو آژ میر کے سجے سجائے شاندار کمرے میں اُس کی سیج تک پہنچا دیا گیا تھا۔۔۔۔ جہاں سر جھکائے بیٹھی وہ دل و جان
سے اپنے ستمگر کی منتظر تھی۔۔۔۔
جس کے لیے وہ تڑپی بھی بہت تھی اور اُسے خود کے لیے تڑپایا بھی بہت تھا۔۔۔۔ مگر آج وہ اُس ہر تکلیف اور اذیت کا ازالہ
کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔۔
جس کے لیے وہ اپنے آپ کو بہادر بنار ہی تھی۔۔۔۔۔
اتنا ہیوی لباس اور جیولری پہننے کے باوجو د وہ تھکن کا شکار بالکل نہیں تھی۔۔۔۔ اُس کی ساری تھکن اور تکلیفیں کہیں دور جا
سوئی تھیں۔۔۔۔
اب صرف خوشیاں اور مسکراہٹیں تھی اس کی زندگی میں۔۔۔۔ اور اُس محبوب ترین شخص کا مہکتا ساتھ۔۔۔۔۔
حائفہ بالکل فریش لگ رہی تھی۔۔۔ چہرے پر گھونگھٹ کرائے وہ اس کی منتظر تھی ۔۔۔۔
جب دروازے پر ہوئی آہٹ کے ساتھ اس کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں۔۔۔۔ ہتھیلیوں کی نمی میں مزید اضافہ ہوا
تھا۔۔۔۔
آژمیر کے بھاری قدموں کی چاپ اُسے اپنے دل پر سنائی دی تھی۔۔۔۔ مگر یہ کیا وہ دروازہ لاک کرتا۔۔۔ بیڈ پر اس کے قریب آنے کے بجائے صوفے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اُسے صوفے پر بیٹھ کر سیگریٹ سلگھا تا دیکھ حائفہ پہلے حیران ہوئی تھی مگر اگلے ہی لمحے ایک دلفریب مسکان اُس کے
ہو نٹوں کا احاطہ کر گئی تھی۔۔۔۔
آژمیر کا یہ عمل اس کی ناراضگی کا اظہار تھا۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا وہ اسے منائے۔۔۔۔ جس کے لیے وہ دل و جان سے تیار تھی۔۔۔۔
حائفہ چند گہرے گہرے سانس لیتی۔۔۔۔۔ اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو قابو کرتی بیڈ سے اٹھی تھی ۔۔۔۔۔
کمرے میں پھیلی مدھم روشنی اور گلابوں کی مہک ماحول کو رومانوی بنارہی تھیں۔۔۔
حائفہ کے اُٹھنے سے اُس کے زیورات چھنک اُٹھے تھے۔۔۔۔ اور آژ میر کے جذبات کو اچھا خاصہ ڈگمگا گئے تھے۔۔۔ جنہیں بہت مشکل سے قابو کیے بیٹھا تھاوہ۔۔۔۔
حائفہ کے ہر اٹھتے قدم پر اُس کے نازک پیروں میں بندھی پائل کی چھنکار آژمیر کی دھڑکنوں کو الجھارہی تھی۔۔۔۔ حاعفہ نے ابھی تک اپنا گھونگھٹ نہیں اُٹھایا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے آژمیر کے سیگریٹ کے دھویں سے بچاؤ ہورہا
تھا۔۔۔۔
میں جانتی ہوں آپ کو مجھ سے کوئی وضاحت نہیں چاہیئے مگر میں اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے آپ کو کبھی دھوکا نہیں دینا چاہا۔۔۔۔۔ اکرام حنیف کے آدمیوں نے مجھے ماورا کی زندگی کے بدلے ایک کام سونپا تھا۔۔۔۔ جس پر حامی بھرنے سے پہلے مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میری ملاقات آپ سے ہو گی۔۔۔۔ جس کے آگے پہلی ملاقات میں ہی میں اپنا دل ہار بیٹھوں گی۔۔۔۔ میں آپ کو نقصان پہنچانے سے پہلے خودمر جانا پسند کرتی۔۔۔۔ میں نے اس دن بھی یہی کیا تھا۔۔۔۔ جس میڈیسن اُنہوں نے مجھے آپ کی چائے میں ملانے کے لیے دی تھی وہ میں نے زہر سمجھ کر اپنی چائے میں ملادی تھی۔۔۔۔ اور نہ ہی میں اُس دن آپ کے گھر سے بھاگ کر گئی تھی ۔۔۔۔ مجھے وہاں سے اغوا کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
اور اُس رات جب مجھے آپ کے پاس بھیجا گیا تھا تو میں صرف اسی خوف سے آپ سے دور چلی گئی تھی کہ مجھے لگا تھا آپ مجھے
طلاق دے دیں۔۔۔۔
مجھے لگا تھا آپ مجھ سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں۔۔۔۔۔
میرا خدا گواہ ہے آپ کے حوالے سے پہلے دن سے لے کر آج تک کبھی کوئی غلط خیال میرے دل میں نہیں آیا۔۔۔۔ نہ آج تک اپنی زندگی میں آپ سے بڑھ کر کسی کو چاہا ہے۔۔۔۔ کل رات بھی اکرام حنیف نے مجھے بلیک میل کیا تھا کہ اگر میں نے یہ سب نہ کہا تو وہ آپ کے یہاں آتے ہی آپ کو مروا دے گا۔۔۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔۔۔۔ اس لیے وہ سب کہا جو کبھی بھی دل میں آپ کے لیے نہیں رہا۔۔۔۔۔
آپ میری دنیا ہیں۔۔۔۔ اور آپ سے الگ ہو کر اب ایک پل بھی جینا میرے لیے ناممکن ہے۔۔۔
حائفہ ایک ایک لفظ صدقے دل سے بولتی آژمیر کو اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
اسے اس پل اپنا آپ دنیا کا خوش قسمت ترین انسان لگا تھا۔۔۔۔ جس کی زندگی میں اس قدر محبت کرنے والی، اُس کے لیے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہ کرنے والی ایک با کردار لڑکی لکھ دی گئی تھی۔۔۔
بہت بڑی دشمنی نبھاتے نبھاتے اکرام حنیف زندگی بھر کے لیے اُس پر ایک بہت بڑا احسان کر گیا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ کو اُس
کی زندگی میں بھیج کر۔۔۔۔۔
آژمیر اپنی جگہ سے اُٹھا تھا اور آگے بڑھ کر اُس کے ماتھے پر مہر محبت ثبت کی تھی۔۔۔۔
“لیکن میں ناراض ہوں ابھی۔۔۔۔۔”
آژ میر اُس سے دور ہتا واپس پلٹا تھا۔۔۔۔ اُس کے سہانے رُوپ سے نگاہیں چرانا آسان نہیں تھا۔۔۔۔ مگر جتناوہ اُسے تڑپا چکی تھی۔۔۔۔ اُس کے بدلے اتنا حق تو اُس کا بھی بنتا تھا۔۔۔۔
” میں آپ کو منانا چاہتی ہوں۔۔۔۔”
حائفہ اُس کے راستے میں آتے خفگی سے بولی۔۔۔۔ جو آج بھی کٹھور بنا کھڑا تھا۔۔۔
” تو مناؤ۔۔۔۔۔
آژمیر نے ہاتھ بڑھا کر اس کا گھونگھٹ الٹ دیا تھا۔۔۔
میں مناؤں گی مگر آپ کچھ نہیں کریں گے۔۔۔۔۔”
حائفہ اپنے ایکشن کے جواب میں ملنے والے اُس کے ری ایکشن سے ہی خوفزدہ تھی۔۔۔۔۔ جبکہ اس کی کانپتی آواز پر آژ میر اپنے ہونٹوں پر امڈ آئی بے ساختہ مسکراہٹ نہیں روک پایا تھا۔۔۔۔ جبکہ حائفہ تو پل بھر
کے لیے اس حسین منظر میں کھو سی گئی تھی۔۔۔۔
کوئی مرد بھلا اتنا حسین اور دل کا اتنا پیارا کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔۔
وہ ہمیشہ کی طرح بس سوچ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
دیکھ لو۔۔۔۔ تم منالو گی ۔۔۔۔ میں بالکل بھی نہیں چاہتا کہ میری آج کی رات بے ہوش ہو۔۔۔۔” آژمیر نے دوسر اسیگریٹ سلگھاتے اُس کے لرزتے وجود پر ایک سلگھتی نگاہ ڈالتے چوٹ کی تھی۔۔۔۔۔
جس پر حائفہ اندر تک لرز اٹھی تھی۔۔۔۔
” آژمیر پلیز۔۔۔۔۔”
حائفہ لال چہرے کے ساتھ بولی تھی۔۔۔۔
” جی جانِ آژمیر ۔۔۔۔۔”
آژمیر اس کی نتھ کو ہونٹوں سے چھوتا مخمور لہجے میں بولا تھا۔۔۔
حائفہ کی تھوڑی دیر پہلے کی اکٹھی کی گئیساری بہادری دم دبا کر بھاگ چکی تھی۔۔۔۔
آپ سیگریٹ نہیں پیئں گے اب۔۔۔۔۔”
حائفہ اُس کا دھیان دوسری جانب لے جانے کی کوشش کرتی نہایت ہی دلیری کا مظاہرہ کرتی اس کے ہاتھ سے سیگریٹ
چھین کر دور اچھال گئی تھی۔۔۔۔
او کے ۔۔۔۔ تو اس کے بدلے کیا کرنا چاہیئے مجھے۔۔۔۔
حائفہ کا یہ حق جتا تا انداز اُسے بہکا رہا تھا۔۔۔۔
حائفہ کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے ایک بار کہنے سے اپنے عزیز ترین شغل سے دستبردار ہو جائے گا۔۔۔۔
اُس کے ہونٹوں پر دل موہ لینے والی مسکراہٹ اُبھری تھی۔۔۔۔۔
جسے آگے بڑھ کر آژ میر نے ہونٹوں سے چھوتے اُسے سر تاپالر زنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ مزید کوئی گستاخی کر تا حائفہ اُس کے ہونٹوں پر اپنی نازک ہتھیلی جماگئی تھی۔۔۔۔۔ اُس کی گستاخیوں پر حد بندیاں باندھنے کی معصوم سی کوشش کی گئی تھی۔۔۔۔ جس پر آژ میر شرافت کا مظاہرہ کر تا خاموشی سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔ ” مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔ کہ میری بیوی منانے کے معاملے میں اتنی اناڑی ہے۔۔۔” آژ میر اُس کے گھبر ائے شرمائے رُوپ کو بے باکی بھری نظروں سے دیکھتے بولا تھا۔۔۔ ” مجھے منانا آتا ہے۔۔۔ مگر آپ مسلسل چیٹنگ کر کے مجھے کنفیوزکر رہے ہیں ۔۔۔۔ “
حاعفہ نے اپنی بزدلی کا الزام اُس پر عائد کیا تھا۔۔۔۔
با بابا میری جان ابھی تو میں انتہائی شرافت کا مظاہرہ کر کے تمہارا بھر پور ساتھ دے رہا ہوں۔۔۔ مگر جو تمہاری منانے کی سپیڈ ہے۔۔۔ اُسے دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ آج کی رات اسی طرح یہاں کھڑے کھڑے گزر جاتی ہے۔۔۔”
آژمیر آج کسی صورت سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں تھا۔۔۔۔
” آپ ہی نے ہمیشہ غصہ دکھا دکھا کر مجھے خود سے اتنا خوفزدہ کر کے رکھا ہوا تھا۔۔۔۔”
حائفہ زیر لب بڑبڑاتی شکوہ کرتے بولی تھی۔۔۔۔ مگر وہ بھول چکی تھی کہ مقابل کمال کی سماعتیں رکھتا تھا۔۔۔۔ اُس کی
سرگوشی با آسانی سن چکا تھا۔۔۔۔
” میں نے تم پر کبھی غصہ نہیں کیا ۔۔۔۔ تم مسلسل مجھ پر الزام لگار ہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
آژمیر نے اُسے مصنوعی گھوری سے نوازا تھا۔۔
” اچھا اُس رات جو آپ نے۔۔۔۔۔
حائفہ بولتے بولتے زبان دانتوں تلے دبا گئی تھی۔۔۔ لیکن سمجھنے والا سمجھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اُس کا اشارہ اسی رات کی جانب
تھا۔۔۔ جب اُسے سجا سنوار کر آژمیر کے پاس بھیجا گیا تھا۔۔۔۔ اور آژ میر اپنی کا اظہار غصے اور جنون کے ذریعے اُس پر
اُنڈیل گیا تھا۔۔۔۔۔
آژمیر کی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گئے تھے۔۔۔۔
جس کے ساتھ ہی اُس کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے۔۔۔۔ حائفہ کا ہاتھ اپنے بازو سے جھٹکتاوہ دور ہو ا تھا۔۔۔ جبکہ ایک بار پھر اپنی بے وقوفی پر حائفہ خود کو کوس کر رہ گئی تھی۔۔۔ بھلا اُس رات کا ذکر کر ناضروری تھا کیا۔۔۔۔
آئم سوری میر اوہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔۔ پلیز آپ مجھ سے مزید خفقانہ ہوں۔۔۔۔۔ آپ نے میری باقی باتیں تو سن لی
مگر جو مین بات میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں وہ تو سنی ہی نہیں۔۔۔۔
حائفہ کی تو جان پر بن آئی تھی اُسے خفا ہوتے دیکھ ۔۔۔۔۔ ہمیشہ اُس نے اس پیارے سے انسان کو ہرٹ کیا تھا۔۔۔ مگر آج
وہ اُسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اُس کے لیے کیا تھا۔۔
کچھ پل کے لیے اپنی ساری شرم و حیا بلا طاق رکھتے حائفہ اُس کے مقابل آتی۔
اُسی کے پیروں پر اپنے مہندی لگے نازک پیر رکھتی، اس کی گردن میں بازو حمائل کرتی اس کے بے حد قریب آن کھڑی بازو حمائل کرتی اس کے بے حد قریہ
ہوئی تھی۔۔۔۔
آژمیر مسمرائز ساکھڑ ااپنی اس نازک جان کی کاروائی دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو اُس کی ناراضگی پر تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔ یہ پل اُسے اپنی زندگی کا سب سے حسین ترین پل لگا تھا۔۔۔ جب حائفہ خود اسے کے اس قدر قریب آئی تھی۔۔۔۔ آژ میر نے دھیرے سے ہاتھ بڑھاتے اُس کے نازک وجود کو سہارا دیا تھا۔۔۔۔ اُسے ڈر تھا جس طرح وہ کانپ رہی تھی۔۔۔۔ کہیں زمین بوس ہی نہ ہو جائے۔۔۔۔۔
آپ میری سانسوں میں بستے ہیں۔۔۔۔ میری نادانیوں سے آپ کو لگا کہ میں آپ پر اعتبار نہیں کرتی ۔۔۔۔ مگر حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔۔۔۔۔ میں نے اپنی ذات سے بھی زیادہ آپ پر بھروسہ کیا ہے۔۔۔۔ محبت نہیں عشق ہے مجھے آپ سے۔۔۔ ہمیشہ اسی ڈر سے نجانے کتنی غلطیاں سرزد کرتی گئی کہ کہیں آپ مجھ سے جدا نہ ہو جائیں۔۔۔۔۔ آپ کو کھونے سے بڑا خوف میرے لیے کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ اب کبھی مجھے خود سے دور نہ کیجئے گا۔۔۔ اور نہ خود کبھی مجھ سے دور جانے کا سوچیئے گا۔۔۔۔ ورنہ آپ کی یہ دیوانی آپ کے بغیر مر جائے گی۔۔۔۔۔
دیوانہ وار بھیگی نظروں سے اُس کے وجیہہ نقش کو دیکھتی وہ عقیدت بھرے انداز میں اُس کی شہ رگ پر اپنے ہونٹ رکھ گئی تھی۔۔۔۔
آژ میر بے خود سا اُس کا یہ انوکھا اور بے حد دلفریب انداز دیکھ کر مزید اُس کا دیوانہ ہوا تھا۔۔۔۔۔
وہ اتنا عظیم انسان بالکل بھی نہیں تھا۔۔ جتنا یہ لڑکی اس معتبر کر گئی تھی ۔
آژمیر نے اپنی مضبوط بانہیں اُس کے گرد پھیلا کر اسے اپنے حصار میں اُٹھاتے مضبوط چوڑے سینے میں بھینچ لیا تھا۔۔۔۔ اپنی گردن پر محسوس ہوتا اُس کی نازک کلائیوں کا لمس آژمیر کو پاگل کر رہا تھا۔۔۔۔۔
میں اس قدر خوش قسمت انسان ہو نگا۔۔۔۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ۔۔۔۔۔ تم اس دل میں کیا مقام رکھتی ہو۔۔۔ شاید یہ کبھی میں لفظوں میں بیان نہ کر پاؤں۔۔۔۔ مگر میری سنگت میں گزارا جانے والا زندگی کا ہر لمحہ تمہیں اُس کا احساس
دلا تار ہے گا۔۔۔۔۔
آژمیر اس کی مدھم مد هم سی نرم گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتا اب مزید اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں رکھ پایا
تھا۔۔۔۔
اس کی زندگی اُس کی بانہوں میں دھڑک رہی تھی۔۔۔۔ وہ کنٹرول رکھتا بھی کیوں۔۔۔۔۔
آژمیر نے ہاتھ بڑھا کر حائفہ کے دوپٹے کی پنیں کھولتے۔۔۔ اُسے بھاری بوجھ سے آزاد کر دیا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ اُس کی گرم سانسیں اور بڑھتی گستاخیوں پر جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔۔ مگر اُس سے دور ہونے کی غلطی نہیں کی
تھی۔۔۔۔
“ویسے میں آج بھی اُس رات کی طرح ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔
آژ میر اس کی گردن سے نیکلس نکالتا۔۔۔۔ اس کی سختی سے دودھیا گردن پر بنے نشانات پر جھکا تھا۔۔۔۔ اس کے دہکتے لمس اور مونچھوں کی گہری چھن پر حائفہ خود میں سمٹی تھی۔۔۔۔۔
وہی آژمیر کے جملے پر اُس نے جھٹکے سے سر اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ مطلب ابھی جو وہ ناراضگی جتلائی تھی وہ
سب مذاق تھا۔۔۔۔
حائفہ نے فوراً اپنی کلائیاں اس کی گردن سے ہٹائی تھیں۔۔۔۔ لیکن آزمیر کا مضبوط حصار نہیں تو ڑ پائی تھی۔۔۔۔
” مجھے چینج کرنا ہے۔۔۔۔۔”
حائفہ جو کچھ دیر پہلے اس کے آگے بہادری کی داستان رقم کر چکی تھی۔۔۔ اب اُس کے نتائج دیکھ اس کا گھبراہٹ کے
مارے بُرا حال تھا۔۔۔۔
صاف ظاہر تھا۔۔۔ آژمیر آج اسے کسی طرح بخشنے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔
او کے وہ بھی کر لینا مگر پہلے مجھے میرے ان تمام لمحوں کا حساب تو دے دو۔۔۔۔ جو تمہاری جدائی میں تڑپتے گزرے ہیں
میرے۔۔۔۔
آژمیر کی بات پر حائفہ نے لرزتی گھنیری پلکوں کی باڑ اٹھاتے گھبر اگر اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔ بنادوپٹے کے آژ میر کے سامنے کھڑا ہونا اُسے سر تا پا لال کر گیا تھا۔۔۔۔
کیونکہ نہ آج آژمیر کی گہری تپش زدہ شوخ نگاہیں قابو میں تھیں اور نہ ہی اس کے گستاخیاں کرتے ہاتھ۔۔۔۔۔
لک کیسا حساب۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
حائفہ کے سرخ لپسٹک سے سجےہونٹ کپکپائے تھے۔۔۔
اُس سے آژ میر کی جانب دیکھا محال ہو ا تھا۔۔۔۔۔
یہ اُس کے لیے جب تم نے اُس شام میری توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی پیشانی کو زخمی کر کے یہ زخم اپنی پیشانی پر سجایا تھا۔۔۔۔۔
آژ میر نے اُس کی پیشانی کے مٹے مٹے نشان پر لب رکھتے حائفہ کے ہوش اُڑا دیئے تھے۔۔۔۔ تو مطلب وہ اس بات سے واقف تھا۔۔۔۔ کہ حائفہ نے جان بوجھ کر خود کو زخمی کر کے اُسے اپنے قریب لانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔
حائفہ کے گال شرم و خفت کے مارے تپ اُٹھے تھے۔۔۔ وہ اس شخص کی سوچ تک کبھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔۔۔۔
” آپ جانتے تھے۔۔۔۔۔؟؟؟”
حائفہ شرمندگی کے مارے نگاہیں نہیں اُٹھا پائی تھی۔۔۔۔
“تمہارے بارے میں۔۔۔ میں اتنا بے خبر کبھی نہیں تھا جتنا تم مجھے سمجھتی رہی ہو۔۔۔۔۔۔”
آژمیر نے ہولے سے جھکتے اُس کی نتھ کھولتے سرخ ہوئی اُس کی ستواں ناک پر ہونٹ رکھتے اُس کی بولتی بند کر دی
تھی۔۔۔۔
حائفہ کا دل اس بُری طرح سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ کہ اُسے لگا ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔۔۔۔
یہ اُس دن کے لیے جب تم نکاح کے دن۔۔۔۔ مجھے کانٹوں پر لوٹتا چھوڑ کر مجھ سے دور چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔”
آژ میر نے اُس کے گلابی گال پر اپنا شدت بھر المس چھوڑتے اُن کی سُرخی مزید بڑھادی تھی ۔۔۔۔
حائفہ کے آژمیر کی اس جان لیوا قربت پر حواس صلب ہو چکے تھے۔۔۔۔ لیکن وہ اب ہمیشہ کے لیے انہیں محبت بھری پناہوں میں رہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
آژمیر کو اُس کا یہ شر ما یالجایا انداز مزید بہکنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی تو شروعات ہے میری جان۔۔۔۔۔ ابھی سے یہ حال ہے۔۔۔۔۔ تم اتنی نازک کیوں ہو ۔۔۔۔ کہ تمہیں سختی سے
چھونے سے بھی ڈر لگتا ہے مجھے۔۔۔۔۔”
آژ میر کی بات پر حائفہ کے لبوں پر ایک میٹھی سی شر میلی مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔۔ جسے آژ میر کا چین و قرار لوٹ لیا
تھا۔۔۔۔۔وہ جھکا تھا اور اُس مسکان کو نہایت ہی محبت سے چن لیا تھا۔۔۔۔۔
حائفہ اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔۔ آژمیر کا گریبان مٹھیوں میں بھینچتے اس نے اپنی پاگل ہوتی دھڑکنوں اور لرزتے کانپتے وجود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔۔۔۔
اُس کی مدھم ہوتی سانسوں اور سینے پر محسوس ہوتے اُس کے ہاتھوں کے لمس پر آژ میر دلکش مسکراہٹ اُس کی بکھری
حالت پر ڈالتا پیچھے ہٹا تھا۔۔۔۔
” یہ حساب اس رات کے لیے جب تم مجھے اسی طرح ہوش سے بیگانہ کر کے چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔۔”
آژ میر اُس کی غیر ہوتی حالت کو شوخ نگاہوں کے حصار میں لیے بولا تھا۔۔۔۔۔ جو اُس سے بچنے کے لیے گہرے گہرے
سانس لیتی اُسی کی پناہوں میں جا چھپی تھی۔۔۔۔
مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔
حائفہ کافی دیر بعد بولنے کے قابل ہوئی تھی۔۔۔۔۔ آژ میر کو خفگی بھری نگاہوں سے گھورتے شکوہ کیا تھ۔۔۔۔
” میں بھی اب باتیں کرنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔”
آثر میر کو اُس کی اس معصومیت بھری خفگی پر بھی پیار آیا تھا۔۔۔۔
” آپ خاموشی سے وہاں بیٹھ جائیں۔۔۔۔ مجھے اب چینج کرنا ہے۔۔۔۔۔”
حاعفہ نے اگلا حکم صادر کیا تھا۔۔۔۔
” تم مجھے آرڈر دے رہی ہو ۔ ؟؟؟؟؟۔۔۔ مجھے آژ میر میر ان کو۔۔۔۔؟؟؟؟”
آژمیر نے اُس کے دور ہونے پر اُس کی کلائی تھام کر نرمی سے اُس کی کمر کے گرد موڑتے اُسے اپنے قریب کرتے اپنے
مخصوص رعب بھرے انداز میں آنکھیں دکھائی تھیں۔۔۔۔ ۔
جی ہاں۔۔۔۔۔ آپ شاید تھوڑی دیر پہلے کی جانے والی رسم بھول چکے ہیں۔۔۔۔۔ اب آگے کی لائف میں ، میں ہی آپ
پر حکم چلا سکتی ہوں آپ نہیں۔۔۔۔۔
حائفہ بھی دیدہ دلیری سے بولتی اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی ۔۔۔۔۔ آژ میر کی محبت نے اُسے اُس کے سامنے
بولنا سیکھا دیا تھا۔۔۔۔
مجھے عادت نہیں ہے کسی کی سننے کی۔۔۔۔ اور کافی غصہ بھی آتا ہے مجھے۔۔۔۔
آژ میر نے اُسے اپنے بارے میں ایسے آگاہ کیا تھا جیسے وہ تو کچھ جانتی ہی نہ ہو اسے کے بارے کے۔۔۔۔ مگر میری سننے کی عادت ڈالنی پڑے گی ۔۔۔۔۔ لیکن ہاں غصہ کرنے کی اجازت ہے آپ کو۔۔۔۔ کیونکہ۔۔۔۔۔ حاعفہ نے اُس سے اپنی کلائی چھڑوانے کی کوشش کرتے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
” کیونکہ ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟”
آژ میر کا دل حائفہ کے ہر رُوپ کا دیوانہ ہو رہا تھا۔۔۔۔
“کیونکہ غصے میں کافی کیوٹ لگتے ہیں آپ۔۔۔۔۔”
حائفہ اُس کی ٹھوڑی پر لب رکھ کر اسے اپنے سحر میں الجھاتی آژمیر کی گرفت ڈھیلی پڑتے دیکھ اس کے حصار سے نکل گئی
جبکہ اُس کی اس چلا کی پر آژ میر کا قہقہ بر آمد ہوا تھا۔۔۔۔۔ اُسے آج سے پہلے اپنے بارے میں ایسا جاننے کو کبھی نہیں ملا تھا۔۔۔۔ حائفہ کے یہ دلفریب رُوپ اُسے نئے سرے سے حائفہ کی محبت میں مبتلا کر رہے تھے۔۔۔۔
” اوہ تو میں تمہیں غصے میں کیوٹ لگتا ہوں۔۔۔؟؟؟؟”
حائفہ کو اپنی جیولری اُتار تادیکھ وہ سینے پر باز و باند ھے اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
آپ مجھے ڈسٹرب نہیں کریں گے۔۔۔۔۔
حائفہ اُسے خطر ناک تیوروں سے اپنی جانب بڑھتا دیکھ ملتجہی لہجے میں بولی تھی۔۔۔ اور جو تم نے ابھی جملہ بول کر مجھے بُری طرح ڈسٹرب کر دیا ہے وہ۔۔۔۔۔”
آژمیر نے اُس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر کے اُسے اپنے قریب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔ حاعفہ سیدھی اُس کے سینے سے آن
ٹکرائی تھی۔۔۔۔
” آژمیر آپ کو اس بازو پر گولی لگی ہے۔۔۔۔۔”
حائفہ کو اب خیال آیا تھا۔۔۔۔ کہ وہ کس قدر لا پرواہی برتا اپنے بازو کو مسلسل حرکت دے رہا تھا۔۔۔۔
تم نے مجھے کسی اور جانب دھیان دینے کے لائق چھوڑا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟
اُس کے جوڑے کی آخری پن کھولتا وہ اس کی گھنی سیاہ زلفوں کو آبشار کی طرح اُس کی نازک کمر پر بکھیر تے اُن میں چہرا
چھپائے مخمور لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
“مگر آپ۔۔۔۔۔
حاعفہ نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر آژمیر کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے اُس کی آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی
تھی۔۔۔۔
آژ میر اس پر اپنی شد تیں نچھاورکر تا بانہوں میں اُٹھا تا بیڈ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
آژمیر ۔۔۔۔۔
حاعفہ نے اُس کی بے پناہ محبت اور وارفتگی پر دوہری ہوتی اُس کے سینے میں پناہ ڈھونڈنی چاہی تھی۔۔۔ جس پر آژمیر اُسے اپنے مزید قریب کر تا نہایت ہی محبت اور چاہت سے اُسے خود میں سمیٹتا اپنی پیاسی تڑپتی بھکتی روح کو سیر اب کرتا چلا گیا
جدائی اور ہجر کی لمبی مسافتیں طے کرتے آج آخر کار اُن دو محبت کرنے والے کو وصل کی رات نصیب ہوئی تھی۔۔۔۔
آہستہ آہستہ بھیگی رات کٹتی اُن دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک کر گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
زوہان اپنے دوستوں کو رخصت کر تا اُس طرف آیا تھا۔۔۔ جہاں نفیسہ بیگم اور شمن پہلے ہی اُس کی بیوی کو اُس کی خواب گاہ خصت کرتا اس طرف آیاتھا تک پہنچانے کا کام کر چکی تھیں۔۔۔۔
زوہان سر شار سا گہری سانس ہوا میں خارج کر تا روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ جہاں اُس کی عزیز از جان ہستی موجود
تھی۔۔۔۔
زوہان نے بہت شدت سے اُسے پانے کی چاہت کی تھی۔۔۔۔ اور اُس کے رب نے آج اُسے اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی عطا کر دی تھی۔۔۔۔ وہ آج بے پناہ خوش تھا۔۔۔۔
زوہان نے جیسے ہی دروازہ کھولنے کے لیے ہینڈل گھمایا اُسے شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔ دروازہ اندر سے لاک تھا۔۔۔۔
اور ایسی جرآت زنیشہ میر ان کے سوا کوئی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
زوہان کو اُسی کے کمرے سے باہر رکھنا صرف اُس کی یہ خونخوار جنگلی بلی ہی کر سکتی تھی۔۔۔۔
ز نیشہ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔
زوہان نے لہجے کو سخت رکھتے اُسے آواز لگائی تھی۔۔۔ وہ جانتا تھا نیشہ قریب ہی ہو گی۔۔۔۔ نہیں کھولوں گی۔۔۔۔ جائیں آپ اپنی ثمن کے پاس۔۔۔۔ اب کیوں آئے ہیں یہاں۔۔۔ اب بھی نہ آتے
نیشہ ترخ کر بولی تھی۔۔۔ وہ زوہان کی سخت سے سخت بات، اس کا شدید غصہ۔۔۔۔سب کچھ برداشت کر سکتی
مگر کسی لڑکی کا زوہان کے قریب بھٹکنا اُسے ایسے ہی غصے سے پاگل کر دیتا تھا۔۔ سے ا
” تم دل سے کہہ رہی ہو …. چلا جاؤں میں اُس کے پاس۔۔۔۔”
زوہان دروازے سے کمر نکائے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ سجائے بولتا اُسے سر تا پا آگ میں جھلسا گیا تھا۔۔۔
ہاں چلے جائیں۔۔۔۔۔
زنیشہ آنکھوں میں نمی بھرے غصے سے چلائی تھی۔۔۔۔ اُسے زوہان سے ایسے جواب کی توقع بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔
” او کے ڈارلنگ۔۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔ صبح ملاقات ہو گی۔۔۔۔”
زوہان کی آواز کے ساتھ ہی دور جاتی اس کے بھاری قدموں کی چاپ زنیشہ کی سانسیں روک گئی تھی۔۔۔ آنسو جھڑی کی صورت اُس کے گالوں پر بکھر گئے تھے۔۔۔۔
اُس نے جھٹکے سے دروازہ کھولتے باہر نکل کر دیکھا تھا۔۔۔۔۔ وہ واقعی جا چکا تھا۔۔۔ زنیشہ بھیگی آنکھیں لیے پلٹنے ہی والی ما۔۔۔۔ جب پیچھے سے دو مضبوط بانہوں نے اُس کے نازک وجود کو پھولوں کی طرح اُٹھاتے خود میں سمیٹ لیا تھا۔۔۔
زنیشہ کے منہ سے بے ساختہ چیخ بر آمد ہوئی تھی۔۔۔۔
لیکن زوہان کا چہرہ دیکھتےہی اس کی آنکھوں کے بجھے دیپ جل اٹھے تھے۔۔۔
وہ بھلا سوچ بھی کیسے سکتی تھی۔۔۔۔ کہ زوہان اُسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس جاسکتا تھا۔۔۔۔ وہ صرف اُس کا تھا۔۔۔۔ اُس
سے بے وفائی کسی صورت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کو اسی طرح بانہوں میں اُٹھائے وہ روم میں داخل ہو تا۔۔۔۔۔ دروازہ لاک کر گیا تھا۔۔۔۔
نیچے اتاریں مجھے ۔۔۔۔۔ بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔
Share with your friends on Facebook
1 Comment
Add a Comment