In Part 27, the emotional and romantic journey of Haifa and Zanisha reaches a new height. This chapter is a perfect read for those who enjoy free Urdu love stories, romantic Urdu novels, and bold Urdu fiction packed with unexpected twists, deep emotional connections, and heart-touching drama.
Whether you’re a fan of classic Urdu love tales, modern romantic stories, or looking for a high-quality Urdu novel PDF, this episode offers a perfect balance of passion, emotion, and storytelling intensity.

Haifa and Zanisha Novel Part 27 – Free Urdu Love Story | Read Online & PDF
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 26 – Romantic Urdu Novels
کیا تمہیں میرے فیصلے سے اعتراض ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟
قاسم صاحب نے اُس کی خاموشی پر سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ماورا کو سمجھ نہیں آئی تھی وہ اُنہیں اپنے ماضی کے حوالے سے کیسے اگاہ کرتی تھی۔ کیسے یقین دلاتی۔۔۔۔؟؟؟ اس کے پاس تو نکاح نامہ بھی نہیں
تھا۔۔۔۔
” نہیں بابا۔۔
اس وقت خاموشی کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتی ہے بسی سے بولی تھی۔۔۔ قاسم صاحب کادل چاہا تھا ابھی ماورا کو سب کچھ بتادیں۔۔۔ مگر منہاج کے بہت زیادہ مجبور کر دینے کی وجہ سے انہیں
فلوقت خاموشی ہی رہنا پڑا تھا۔۔۔
اُس کی رضامندی پر وہ اُس کا ماتھا چومتے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔
جبکہ اُن کے جاتے ہی ماورا پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔ اُس نے منہاج کے ساتھ غلط کیا تھا۔۔۔ اور اب اُس کے
ساتھ اُس سے بھی زیادہ غلط ہو رہا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
بھینی بھینی دلفریب خوشبو بیدار ہوتے ہی زنیشہ کی نتھنوں سے ٹکرائی تھی۔۔۔ ایک بھر پور انگڑائی لیتے اس نے سب سے پہلے زوہان کو اپنے آس پاس ڈھونڈا تھا۔۔۔۔ زوہان تو اُسے کہیں نہیں تھا مگر اس کی نظر تکیے پر خود سے کچھ فاصلے پر رکھے سرخ گلابوں کے کے پر پڑی تھی۔۔۔۔
زنیشہ نے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر اُن کی دلفریب مہک کو اپنی سانسوں میں اُتارا تھا۔۔۔
اُسے پھول بہت پسند تھے۔۔۔۔ زوہان کا یہ دوسرا تحفہ اُسے بہت پسند آیا تھا۔۔۔۔
لیکن زوہان صبح صبح کہاں گیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے اس کی تلاش میں اٹھنا چاہا تھا۔۔۔ جب بکے سے ایک چھوٹاسا کارڈ نکل کر اُس کی گود میں آن گرا تھا۔۔۔ “میری زندگی کو خوشیوں سے بھری یہ حسین صبح مبارک ہو ۔۔۔۔ تم میرے لیے ہی ہو۔۔۔اس بات کا اندازہ تو تمہیں کل رات ہو گیا ہو گا۔۔۔۔ اس لیے اب کبھی یہ خیال دل میں مت لانا کہ میری زندگی میں تم سے اوپر کوئی آسکتا
ہے۔۔۔۔
میں آج کی صبح تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر ایک بہت اہم ریزن کی وجہ سے مجھے جانا پڑ رہا ہے۔۔ لیکن میں وعدہ کر تا ہوں۔۔۔ یہ دوری ایک دن سے زیادہ کی نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو اینڈ مس یو سو مچ۔۔۔۔۔”
زنیشہ جیسے جیسے زوہان کے لکھے الفاظ پڑھ رہی تھی۔۔۔ اُس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔۔۔۔
زوہان اُسے آج کے دن چھوڑ کر کہاں گیا تھا۔۔۔۔
وہ انتالا پر واہ بالکل بھی نہیں تھا کہ جان بوجھ کر ایسا کچھ کرتا۔۔۔۔ اور نہ یہ کام بزنس سے ریلیٹڈ کچھ ہو سکتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کا دل پریشان ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔ آژمیر کا آج کے دن ریپشن نہ رکھنا۔۔۔۔ اور زوہان کا صبح صبح اس طرح غائب
ہونا۔۔۔۔ زنیشہ کا دماغ تیزی سے چلنے لگا تھا۔۔۔۔
وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھتی واش روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
نفیسہ بیگم سے ہی اب اُسے کچھ پتا چل سکتا تھا۔۔۔۔
ڈارک پنک کلر کے شیفون کے ڈریس میں جس کے کناروں پر گولڈ کا نفیس کام کیا گیا تھا۔۔۔ زیب تن کیے لائٹ سے میک آپ کے ساتھ وہ نئی نویلی دلہن کے روپ میں بے پناہ حسین لگ رہی تھی ۔۔۔۔
کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اتر تے اُس کا رُخ ڈرائنگ روم کی جانب تھا۔۔۔ پاس سے گزرتی ملازمین جیسے اُسے محبت بھرے انداز میں سلام کر رہی تھیں۔۔۔ زنیشہ کو واضح طور پر اس بات کا احساس دلارہی تھیں کہ وہ اب اس گھر کی مالکن
ہے۔۔۔۔
ڈرائنگ روم میں قدم رکھتے اُس کی نظر سامنے صوفے پر بیٹھی نفیسہ بیگم پر پڑی تھی۔۔۔۔ وہ بھی اُسے دیکھ چکی
تھیں۔۔۔۔
“اُٹھ گئی میری بیٹی۔۔۔۔”
محبت بھرے انداز میں اُس کی جانب بڑھتیں وہ اُس کی پیشانی چوم گئی تھیں۔۔۔۔ زنیشہ کے سجے سنورے رُوپ کو دیکھتے
اُنہوں نے دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتاری تھی۔۔۔۔
” جی آنی جان۔۔۔۔”
زنیشہ ہولے سے مسکراتی اُن کے ساتھ صوفے پر جا بیٹھی تھی۔۔۔۔
” ناشتہ منگواؤں تمہارے لیے۔۔۔۔۔؟”
نفیسہ بیگم زنیشہ کی ارد گرد اشحتی متلاشی نگاہیں نوٹ کر چکی تھیں۔۔۔۔
ثمن تورات کو ہی شہر واپس چلی گئی تھی۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم کی وضاحت پر زنیشہ چونک کر اُن کی جانب متوجہ ہوتی شر مندہ سی ہوئی تھی۔۔۔۔
” زوہان کہاں ہیں۔۔۔۔؟؟؟”
زنیشہ نے آکر کار وہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جس کے لیے وہ اتنی بے قراری سے نیچے آئی تھی۔۔۔۔ تم پہلے اپنی ساس کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔۔۔ پھر مل لینا شوہر سے بھی۔۔۔
نفیسہ بیگم اُس کی بات مذاق میں ٹالتے ملازمہ کو ناشتہ لگوانے کا کہہ گئی تھیں۔۔۔
آنی پلیز۔۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ کو معلوم ہے زوہان کیوں اور کہاں گئے ہیں۔۔۔؟؟؟ پلیز آنی آپ مجھے سب سچ بتا دیں۔۔۔ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔۔۔
زنیشہ رو بانسی آواز میں بولتی اس سے نفیسہ بیگم کو بہت پیاری لگی تھی۔۔۔۔
” اس قدر محبت کرتی ہو میرے بیٹے سے۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم نے اُس کی ٹھوڑی محبت سے چھوتے پوچھا تھا۔۔۔
زوہان نے مجھے سختی سے منع کیا ہے کہ تمہیں یاکسی کو بھی کچھ نہیں بتانا۔۔۔۔ مگر میں زوہان کی یہ اب بالکل بھی نہیں مانوں گی جس میں اس کے لیے اذیت چھپی ہو۔۔۔۔ کیونکہ اب اُسے سنبھالنے والی یہ پیاری سی لڑکی آچکی ہے۔۔۔میر اضدی اور اکڑ و زوہان اس خوشمنا حقیقت کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم نے اُس کا ہاتھ تھامتے اُسے سچ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔۔ زوہان کی ماں کی برسی ہے آج۔۔۔۔ آٹھ سال پہلے آج ہی کہ دن اُس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کو زندہ جلتے دیکھا تھا۔۔اتنالمبا عرصہ گزر جانے کے باوجو د وہ اب تک اس بھیانک حادثے کو نہیں بھول پایا۔۔۔۔ پچھلے آٹھ سال اُس نے کس قدر اذیت میں گزاریں ہیں شاید کوئی اُس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔۔۔۔
اس نے صرف اپنی ماں کو نہیں کھویا تھا۔۔۔ بلکہ اپنے دوسرے عزیز ترین رشتے اپنے بھائی آژ میر کو بھی کھو دیا۔۔۔۔ اس واقع میں جو کچھ ہو اوہ اُس کا گناہ گار اپنی ماں کے اصل مجرم ملک فیاض میر ان کے ساتھ ساتھ آژمیر اور پورے میران پیلس کو سمجھتا ہے۔۔۔ کیونکہ آژمیر نے اس کے سب سے بڑے مجرم ملک فیاض کو پناہ دے رکھی ہے۔۔۔۔ زوہان بہت کوشش کے باوجود ابھی تک اپنے باپ تک نہیں پہنچ پایا۔۔ جس کی سزاوہ خود کو اتنی اذیت میں مبتلا کر کے دے رہا
ہے۔۔۔۔
نفیسہ بیگم کی بات پر زنیشہ کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔۔۔
اُسے زوہان اِس بارے میں بتا چکا تھا۔۔ مگر اُسے اس بارے میں علم نہیں تھا کہ آج زوہان کی ماں کی برسی ہے۔
زوہان اس وقت کہاں ہیں۔۔۔؟؟؟ مجھے اُن کے پاس جانا ہے۔۔۔”
زنیشہ کا دل زوہان کے لیے بے چین ہوا تھا۔۔۔۔ وہ ہر بار اس کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر اس کے ساتھ آن کھڑا ہو تا تھا۔۔۔۔ آژمیر سے اتنی نفرت کے باوجود اُسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔ مگر خود اپنی تکلیف اور اذیت میں کسی
کو شریک نہیں کرتا تھا۔۔۔
زوہان کی اذیت پر وہ تڑپ ہی تو گئی تھی۔۔۔
” تم ناشتہ کرلو پھر ڈرائیور تمہیں۔۔۔ تمہارے زوہان کے پاس چھوڑ آئے گا۔
نفیسہ بیگم اُس کی بے صبری دیکھ مسکرا کر رہ گئی تھیں۔۔۔۔
” نہیں آنی پلیز ۔۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔”
ز نیشہ ان کے بار بار کیے جانے والے اصرار پر بے چارگی سے بولی تھی۔۔۔۔
“ضد میں زوہان سے کم نہیں ہو۔۔۔۔ اچھی ٹکر دے سکتی ہو۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم محبت بھری خفگی کا اظہار کرتیں اُسے لیے باہر کی جانب بڑھی تھیں۔۔۔ جہاں ڈرائیور پہلے ہی اُن کے کہنے پر
گاڑی لیے تیار کھڑ ا تھا۔۔۔۔
زنیشہ دھڑکتے دل کے ساتھ گاڑی میں آن بیٹھی تھی۔۔۔ وہ زوہان کے غصے سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔۔ اُس کے
وہاں پہنچ جانے پر وہ اچھا خاصہ بھڑک سکتا تھا۔۔۔
مگر زنیشہ نے بھی دل میں ٹھان لی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔۔ وہ اُس کا غصہ تو بر داشت کرلے گی مگر اسے تنہا کسی
صورت نہیں چھوڑیں گی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
آژمیر حائفہ کا ہاتھ تھامے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ جہاں اُن کے آنے کی اطلاع ملتے ہی ناشتہ لگوا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔جب آژ میر میر ان پیلس میں ہو تا تھا تو وہ سب گھر والوں کے ساتھ ناشتہ اور ڈنر کر نا پسند کرتا تھا۔۔۔۔ اُس کی اسی روٹین کو دیکھتے سب نے آج بھی ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔ حاشر تو صبح سے دہائیاں دے رہا تھا کہ آژ میر لالہ آج کسی صورت اُن سب کو یہ شرف نہیں بخشیں گے۔۔۔۔ اور اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ روم میں ہی ناشتہ کرنا پسند کریں
لیکن آژ میر نے شمسہ بیگم کو سب کے ساتھ ناشتہ کرنے کا پیغام بھجواتے سب کو ہی ایکسائیٹڈ کر دیا تھا۔۔۔ آژمیر جو زیادہ تر غصے میں اور لیے دیے انداز میں ہی پایا جاتا تھا۔۔۔ کچھ ٹائم پہلے سب کے لیے اُس کی شادی ہونا ایک خواب کا سا ہی تھا۔۔۔۔
آژ میر میر ان جیسا خشک مزاج بندہ کسی لڑکی سے محبت کرتا تھا پہلے تو اُن سب کو یہی بات سن کر ہی گہر اجھٹکالگا تھا۔۔۔۔ اب سب یہی دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا شادی کے بعد اُس میں کوئی چینج آیا تھا۔۔۔ یا ابھی بھی وہ ویسا ہی تھا۔۔۔۔
لیکن آژ میر کو اعفہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر آتا دیکھ سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔
ڈارک براؤن شلوار سوٹ اور بلیک کوٹ میں ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تاثرات مگر آنکھوں میں اپنے پہلو میں چلتی نازک دوشیزہ کے لیے ڈھیروں محبت اور نرمی بھرے وہ سب کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
حاعفہ اِس وقت اور ینج شیفون کے گھٹنوں تک آتے ہلکے سے کام والے فراک میں دوپٹہ سر پر اوڑھے آژمیر کے ساتھ چلتی بے پناہ حسین لگی تھی۔۔۔۔ بار بار جوڑے سے پھسل کر چہرے پر آتی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستی نروس سی وہ سب کو اس پل بہت پیاری لگی تھی۔۔۔۔
حائفہ کے چہرے پر چھلکتی حیا کاریزن سامنے شوخ نگاہوں سے گھورتے کزنز سے بھی زیادہ آژمیر کی مضبوط گرفت میں قید اپنی نازک ہتھیلی تھی۔۔۔
جسے چھوڑنے کے موڈ میں وہ بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔ حائفہ روم میں تو اس کی ساری بے باکیاں برداشت کر چکی تھی۔۔۔ مگر اب یہاں سب کے سامنے اُسے لگ رہا تھا۔۔۔ آژ میر کی جانب سے کی جانے والی معمولی سی گستاخی پر اُس کا بے ہوش ہونا کنفرم تھا۔۔۔۔ ماور احائفہ کے چہرے پر سچی خوشی کے رنگ دیکھ دل سے خوش تھی۔۔۔۔ یہ الگ بات تھی کہ اس کا دل اپنی لائف میں
آنے والے طوفان کے خوف سے سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔۔۔۔۔
اُن دونوں کا کپل ایک دم پر فیکٹ تھا۔۔۔۔ آژمیر جیسے سحر انگیز شخصیت کے مالک شخص کے ساتھ نازک اندام اور پرکشش حسن کی مالک حائفہ کے سوا کوئی لڑکی اتنی نہیں جچ سکتی تھی۔۔۔۔
حائفہ دھڑکتے دل کے ساتھ سب کو سلام کرتی آژ میر کے ساتھ اُس کے پہلو میں آن بیٹھی تھی آج لگتا ہے کسی کا ناشتہ کرنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔۔۔
آژمیر کی کھنکھار پر سب جلدی سے اُن کی جانب سے نظریں ہٹاتے ناشتے کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
لالہ تو ویسے کے ویسے ہی کھڑوس ہیں۔۔۔ بچاری حائفہ بھا بھی۔۔۔۔ وہ تو اُن سے ڈر ڈر کر ہی آدھی ہو جائیں گے۔۔۔ کتنے ان رومینٹک ہونگے نالالہ۔۔۔۔
فجر جو صبح سے آث میر کا نیا انداز دیکھنے کو ایکسائڈ تھی۔۔۔ اس کی وہی پہلے جیسی رعب دار شخصیت دیکھ دل مسوس کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
بیٹا آژ میر لالہ کتنے رومینٹک ہیں یہ ذرا غور سے دیکھو۔۔۔ حائفہ بھا بھی کے لبوں کی مسکراہٹ صاف بتارہی ہیں۔۔۔ اور جس طرح لالہ سب گھر والوں کے سامنے اُن کا ہاتھ پکڑ کر لائے ہیں۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ایسی جرات ان سارے خاندان
کے شوخے لڑکوں میں سے کوئی کر سکتا ہے۔۔۔۔
فریحہ نے گلاس منہ سے لگاتے فجر کی سر گوشی کا جواب دیا تھا۔۔۔۔
آژمیر ہم سوچ رہے زرا ایک چکر میں اور حمیر از نیشہ کی طرف لگا آتے۔۔۔۔ کل سے ابھی تک اُس سے کوئی بات نہیں
ہوئی۔۔۔۔ نفیسہ بہن نے ناشتہ لے کر جانے سے تو منہ کر دیا تھا۔۔۔۔”
شمسہ بیگم کی بات پر آژمیر کا ہاتھ ساکت ہو ا تھا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ آج نہیں۔۔۔ میرے خیال میں کل جانا مناسب رہے گا۔۔۔۔
کچھ لمحوں کے توقف کے بعد آژمیر نے جواب دیا تھا۔۔۔۔
بظاہر وہ سب کے سامنے زوہان کے حوالے سے صاف لاپر واہی جتاتا تھا۔۔۔ لیکن اس حقیقت سے کوئی واقف نہیں تھا کہ
آثر میر کو زوہان کے بارے میں ایک ایک خبر رہتی تھی۔۔۔۔
“تم کچھ کھا کیوں نہیں رہی .. ؟؟؟؟ تمہیں تو صبح بہت بھوک لگی تھی نا۔۔۔۔”
آژ میر اُسے پلیٹ میں تھوڑے سے چاول ڈال کر اُن سے کھیلتے دیکھ اُس کا صبح فرار اختیار کرنے کے لیے بنایا بہانہ یاد دلا گیا
تھا۔۔۔۔
آژ میر کی سر گوشی پر اُس کے سامنے بیٹھی آمنہ اور کشمالہ بیگم نے پوری توجہ دی تھی۔۔۔۔ مگر کچھ بھی کانوں تک نہیں
پہنچ پایا تھا۔۔۔
جس پر اُن کے ساتھ بیٹھے شاکر صاحب شرمندہ ہو کر رہ گئے تھے۔
آپ دونوں تو یہ بچکانہ حرکتیں مت کرو۔۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش لگ رہے ہیں۔۔۔۔ شاکر صاحب نے بیوی اور بہن کی حرکت پر انہیں ٹو کا تھا۔۔۔۔۔ اُن کا پورا گھرانہ آژ میر کو ایک شوہر کے رُوپ میں دیکھ
پاگل ہو چکا تھا۔۔۔۔
آپ کو تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔۔۔۔ مگر جس طرح یہ سب مجھے گھور رہیں ہیں۔۔۔ میں کیسے کچھ کھا سکتی ہوں۔۔۔۔ آپ کی بیوی بنا اتنا مشکل ہو گا۔۔۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔
حائفہ کے معصومیت بھرے غصے پر اُسے ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔ اُس کے ہونٹوں پر دلکش مسکان کھیل گئی تھی۔۔
آژ میر نے ایک نظر سب پر ڈالی تھی۔۔۔ جو اُس کے دیکھنے پر اپنی پلیٹوں پر جھک گئے تھے۔۔
آپ سب لوگ میری بیوی کو کس خوشی میں گھور رہے ہیں۔۔۔۔ کیا نئی نویلی دلہن پہلی بار دیکھی آپ لوگوں
نے۔۔۔۔
آژمیر نے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے حائفہ کو مزید حیا سے لال کر دیا تھا۔۔۔۔ وہ اس لمحے اُسے گھور بھی نہیں پائی۔۔۔
آژمیر کی بات پر سب کے ہونٹوں پر مسکان بکھری تھی۔۔۔۔ آژ میر کا یہ پر مزاح انداز اُن کو بہت اچھالگا تھا۔۔۔۔
” نہیں لالہ۔۔۔۔ آپ کے پہلو میں بیٹھی نئی نویلی دلہن پہلی بار دیکھی ہے۔۔
حاشر کی زبان پھسلی تھی۔۔۔۔۔
لیکن آژ میر کی گھوری پر اگلے ہی لمحے سر جھکا گیا تھا۔۔۔۔
آئی نو میری والی سب سے حسین ہے۔۔۔۔ مگر یہ حق میرا ہے۔۔۔۔ اس لیے آپ لوگ خاموشی سے ناشتا کریں۔۔۔ اور چلتے پھرتے نظر آئیں۔۔۔۔
آژمیر لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولتا ان سب کو صدمے سے دو چار کر گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اب کی بار حائفہ اُن سب کے ری ایکشن دیکھ اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ چھپانے کے لیے گلاس ہو نٹوں سے لگا گئی تھی۔۔۔۔
ابھی جو میں نے دیکھا۔۔۔۔ کیا تم نے بھی وہی دیکھا ؟؟؟ یہ آژمیر لالہ ہی تھے نا۔۔۔؟؟؟
فجر کے بے یقینی بھرے انداز پر فریحہ نے بھی اُس کا ساتھ دیا تھا۔۔۔
” کمال کر دیا حاعفہ بھابھی نے تو ۔۔۔۔۔
فریحہ کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ آژ میر نے اتنے مسکرا کر ایسی بات کہی ہے۔۔۔۔
” میں کھانا کھارہی ہوں۔۔۔ آژمیر پلیز۔۔۔۔”
حائفہ اچھے سے جانتی تھی آژمیر کے سامنے وہ سب شریف بنے بیٹھے تھے۔۔۔ بعد میں انہوں نے اُسے نہیں چھوڑنا
اس سے پہلے کے آژ میر کوئی جواب دیتا۔۔۔۔ کوئی بہت امپورٹنٹ کال آجانے پر وہ وہاں سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
قاسم اور شاکر صاحب بھی اس کے پیچھے اٹھ گئے تھے۔۔۔۔
بھا بھی جان یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟ ایک ہی رات میں آپ نے ہمارے اُکھڑ مزاج اور سخت گیر لالہ کو اتناخوش مزاج کیسے بنا دیا۔۔۔۔
اُن کے جاتے ہی وہی ہوا تھا جس کا حائفہ کو ڈر تھا۔۔۔ سب نے ایک ساتھ اُس پر دھاوا بول دیا تھا۔۔۔۔۔ شمسہ بیگم نے بھی محبت بھری نظروں سے حائفہ کو دیکھا تھا۔۔۔ جو اُن کے بیٹے کی زندگی خوشیوں سے بھر گئی تھی۔۔۔۔ وہ آژمیر کو ایسے ہی تو خوش اور ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتی تھیں۔۔۔ جس نے وقت سے پہلے پورے خاندان کی زمہ داریاں اُٹھاتے اپنی زندگی کی خوشیاں فراموش کر دی تھیں۔۔۔۔
” وہ ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔۔۔ آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔۔”
آژمیر کے جانے کے بعد حائفہ بھی کچھ نارمل ہوئی تھی۔۔۔ ورنہ اس کی شوخ نگاہیں تو اُسے ہر ہوش بھلا دیتی
حائفہ کے جواب پر سب مایوس ہوئے تھے۔
یہ اب آژمیر میر ان کی بیوی ہیں۔۔۔۔ اُن کا رنگ چڑھ چکا ہے ان پر۔۔۔ یہ کچھ نہیں بتائیں گی اب۔۔۔۔
حاشر اُسے چڑھانے کے لیے مصنوعی افسوس کا اظہار کرتا اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔
مردوں کے اٹھتے ہی سب لیڈیز نے حائفہ کو اپنے شکنجے میں لیا تھا۔۔۔۔
” منہ دیکھائی میں کیا ملا؟؟؟”
پہلا سوال فجر کی جانب سے تھا۔۔۔۔
جس کے جواب میں حاعفہ نے گلے میں پہنا بیش قیمت نیکلیسں دیکھایا تھا۔۔۔ سب نے ستائش اور رشک بھری نظروں سے
حاعفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جبکہ اُسی لمحے وہاں داخل ہوتی سویر اجل بھن کر رہ گئی تھی۔۔۔ اُسے کسی طور ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی جگہ اس لڑکی نے لے لی تھی۔۔۔۔ جس کے اتنے بڑے دھو کے کے بعد بھی آژمیر نے اُسے معاف کر دیا تھا۔۔
بلکہ الٹا پلکوں پر بیٹار کھا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ اتنی آسانی سے یہ سب ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔
آژمیر کی آنکھوں میں اس نے حاعفہ کے لیے دیوانگی بھری محبت دیکھی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی آژ میر حاعفہ کے خلاف اس کی کوئی بات نہیں سنے گا۔۔۔۔ مگر وہ حاعفہ کو آژ میر کے خلاف ضرور کر سکتی تھی۔۔۔
جس کے لیے پہلے اُسے حائفہ سے اچھے تعلقات قائم کرنے تھے۔۔۔
” بہت مبارک ہو حاعفہ تمہیں۔۔۔۔ اور آئم سوری میں نے تمہارے ساتھ اب تک بہت غلط رویہ اختیار کیے رکھا۔۔۔ جس کے لیے میں بہت شر مندہ ہوں۔۔۔ اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔ تم آژ میر کی بیوی ہونے کے ناطے مجھے بہت
عزیز ہو اب۔۔۔
سویر ااپنے پلان کا آغاز کر چکی تھی۔۔۔۔
جس سے نابلد۔۔۔۔ حاعفہ نے اُسے مزید شرمندہ ہونے کا موقع دیئے بغیر گلے سے لگالیا تھا۔۔۔
آژ میر سے منسلک ہر رشتہ اُس کے لیے اہم تھا۔۔۔
حاعفہ نے ارد گرد نظریں گھمائی تھیں۔۔۔ اُسے ماور اکب سے کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ ناشتے کے ٹیبل پر بھی حاعفہ
کو وہ بجھی بجھی سی لگی تھی۔۔۔۔
وہ سب کو اُن کے اُلٹے سیدھے سوالوں کے جواب دیتی ماورا کی تلاش میں چل دی تھی ۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
بی بی آپ یہاں۔۔۔۔۔
حاکم زنیشہ کو زوہان کے وائٹ کا ٹیج میں آتا دیکھ بوکھلا گیا تھا۔۔۔ اُس کا دل چاہا تھا پیچھے کھڑے ڈرائیور کا بھیجہ اُڑا دے۔۔۔
جو بنا اُسے بتائے زنیشہ کو یہاں لے آیا تھا۔۔۔۔
اب زوہان کے ہاتھوں اُس کی ٹانگیں تو ٹوٹنے ہی والی تھیں۔۔۔۔
” مجھے دیکھ کر اتنے گھبر اکیوں رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟”
زنیشہ نے اپنی سیاہ شال درست کرتے اُسے کٹیلی نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔۔
“سر تو یہاں نہیں ہیں۔۔۔ پھر آپ یہاں۔۔۔۔”
زوہان کے ساتھ مل کر بڑے بڑے دشمنوں کی چالیں انہیں پر پلٹ دینے والا زوہان کا خاص ملازمہ اُس کی بیوی کے آگے
بالکل ہی بو کھلا چکا تھا۔۔۔
کیونکہ اُسے زوہان کے نزدیک اس لڑکی کی اہمیت کا اچھے سے اندازہ تھا۔۔۔۔
میں نے کب کہا۔۔۔ کہ میں تمہارے سر سے ملنے آئی ہوں۔۔۔ میں تو اپنے شوہر کا یہ دوسرا گھر دیکھنے آئی ہوں۔۔۔
زنیشہ اُس کے لڑکھڑاتے لہجے سے ہی سمجھ گئی تھی کہ زوہان اندر تھا۔۔۔۔
“بی بی جی وہ اندر کنسٹرکشن کا کام چل رہا ہے۔۔۔۔”
حاکم کو سجھ نہیں آریا تھاکیا بہانہ بنائے۔
حاکم کی لاکھ کوششوں کے باوجود اُس کی ایک نہ سنتی۔ زنیشہ اندر داخل ہو چکی تھی۔۔۔۔
جہاں ہر طرف چھایاسناٹا دیکھ اُس کا دل ہول کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
” زوہان کہاں ہیں۔۔۔۔؟ مجھے بتا دوور نہ اُنہیں ڈھونڈ تو میں لوں گی ہی سہی ۔۔۔۔”
زنیشہ کے انداز سے زوہان کی صحبت کا اثر واضح چھلک رہا تھا۔۔۔۔ جو زوہان کی طرح بات بعد میں کر رہی تھی۔۔۔ اور
دھمکیاں پہلے دے رہی تھی۔۔۔۔
سٹڈی روم میں۔۔۔۔”
حاکم مری مری آواز میں جواب دیتا اپنی اس ضدی مالکن کے آگے ہار مان گیا تھا۔۔۔۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ ایک زخمی
شیر کی کھچاڑ میں گھسنے جارہی تھی ۔۔۔۔
زنیشہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ سٹڈی کا دروازہ دھکیلتے اندر پھیلی نیم تاریکی کو دیکھا تھا۔۔۔ زوہان کا اس طرح خود کو
تاریکیوں کی نظر کرتا دیکھ زندیشہ کی تکلیف میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔
“کون۔۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان بلکی سے آہٹ پر آنکھیں کھولنا غضبناکی کا شکار ہو تا دھاڑا تھا۔۔۔
زنیشہ تو اس کے اتنے غصے پر خوف سے کانپ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ ایک پل کے لیے اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔۔۔۔ اُس نے یہیں سے واپس پلٹ جانا چاہا تھا۔۔۔ لیکن پھر خود کو تیار کرتی آگے بڑھ کر لائٹس آن کر گئی تھی۔۔۔۔
پل بھر میں پورا کمرہ روشنیوں میں نہا گیا تھا۔۔
زندیشہ کو وہاں دیکھ زوہان پل بھر کے لیے ساکت ہوا تھا۔۔۔
” تم یہاں کیوں آئی ہو۔ ….. ؟”
زوہان فوراًا جنبی بنا تھا۔۔
کیا مطلب میں یہاں کیوں آئی ہوں؟۔۔۔۔ آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کو اکیلا چھوڑوں گی۔۔۔۔؟
زنیشہ اس کے سر د لہجے کی پرواہ کیے بغیر اس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
ز نیشہ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ تم ابھی جاؤ یہاں سے۔۔۔۔”
زوہان نے اُس کی جانب سے رُخ موڑ لیا تھا۔ جبکہ اُس کے اتنے اجنبی انداز پر زنیشہ کا دماغ گھوم گیا تھا۔۔۔ آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو ؟؟؟ جب دل چاہا مجھے اپنے قریب کر لیا۔۔۔۔ جب دل چاہا دور کر دیا۔۔۔ کیا کوئی بے جان کھیلونا سمجھ رکھا ہے مجھے۔۔۔ اگر ایساہی برتاؤر کھنا تھا تو رہنے دیتے وہاں میر ان پیلس میں۔۔۔۔ کیوں لائے مجھے اپنے
جس طرح آپ مجھ سے اپنی نگاہیں چرار ہیں ہیں۔۔۔ اس سے صاف ظاہر ہے۔۔۔ کہ آپ کو مجھ سے رشتہ جوڑ کر پچھتاوا ہو رہا ہے۔۔۔۔ اگر ایسا ہی ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں آپ کی یہ غلطی سدھار دیتی ہوں۔۔۔ واپس جارہی ہوں میں
میر ان پلیس۔۔۔۔ بیٹھیں یہاں آپ اپنی تنہائی کے ساتھ۔۔۔۔”
زنیشہ ایک ہی سانس میں بولتی ملک زوہان کے شدید ترین غصے کو ہوا دے گئی تھی۔۔۔۔
زوبان نے اُس کی جانب بڑھتے اُس کی کلائی دبوچ کر اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔۔
کیا بکواس کر رہی ہو تم؟… تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا۔۔۔۔ ؟؟؟؟ اگر دوبارہ ایسی فضولیات بولنے کی کوشش کی
تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔۔”
زوہان اُسے اپنے قریب تر کر تا۔۔۔۔ بُری طرح بر سا تھا اس پر۔۔۔۔۔ اُس کی گرم سانسوں سے زنیشہ کو اپنا چہرا جلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
لیکن وہ دل ہی دل میں اپنا پلان کامیاب ہونے پر مسکائی تھی۔۔۔۔ زوہان کو پوری طرح خود میں اُلجھانے کا اُس کا پلان
کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔
تو اور کیا کہوں۔۔۔۔ جو آپ مجھے محسوس ہو گاو ہی بولوں گی نا۔۔۔۔۔
زنیشہ اُس کی لال آنکھیں دیکھ اندر ہی اندر خوف سے کانپ گئی تھی۔۔۔۔ مگر اُسے اپنے اس آندھی طوفان بنے شوہر کو
کیسے قابو کرنا تھا وہ اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔
تمہیں کیسے لگا کہ میر ادل بھر گیا ہے تم سے۔۔۔۔ یا میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر کے پچھتارہا ہوں۔۔ تم یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہو۔۔۔۔
زوہان کو اُس کے ادا کیے جانے والے الفاظ پاگل کر رہے تھے۔۔۔۔ اُس کے سامنے اگر زنیشہ کی جگہ کوئی اور آکر ایسی گستاخی کر تا تو اب تک اپنے انجام کو پہنچ چکا ہو تا۔۔۔۔۔
میران پیلیس والوں نے مجھ سے میر اسب کچھ چھین لیا ہے۔۔۔۔ تم مجھے چھوڑ کر اُن کے پاس جانا چاہتی ہو۔۔۔۔ اُس کے بالوں کی گدی پر ہاتھ کی مضبوط گرفت رکھتے اُس نے زنیشہ کا چہرا اپنے چہرے کے بے حد قریب کر رکھا تھا۔۔۔ اتنا کہ دونوں کی سانسیں اُلجھنیں لگی تھیں۔۔۔
میں نہیں جانا چاہتی وہاں۔۔۔۔ آپ چاہیں گے تو کبھی نہیں جاؤں گی وہاں۔۔۔۔۔ آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔۔۔ آپ کے قریب رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ آپ مجھ سے اجنبیت برت رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے خود سے دور رکھ رہے ہیں ۔۔۔۔
زنیشہ نے اُس کا چہرا تھامتے محبت بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
” چھوڑ سکتی ہو میری خاطر اُن سب کو۔۔۔۔؟؟؟؟ میر ان پیلس کے ہر فرد سے۔۔۔۔ آژ میر میر ان سے رشتہ توڑ سکتی ہو
میری خاطر ۔۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان اُس سے سوال کر تاستہز ا یہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
تم مجھے چھوڑ سکتی ہو۔۔۔ مگر انہیں نہیں۔۔۔۔ تم جانتی ہو اُن لوگوں سے اتنی نفرت کے باوجود آج تک تمہیں اِس دوہرائے پر کیوں نہیں لایا میں۔۔۔ اس خوف سے کیونکہ میں جانتا ہوں تم مجھے چھوڑ دو گی۔۔۔۔۔ تم سے لیے جانے
والے امتحان میں ہار میری ہوگی۔”
زوہان زخمی نگاہوں سے اُسے دیکھتا اپنا ذاق اُڑاتے بولتا اُسے خود سے دور کر گیا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ غم کی مورت بنی اپنی جگہ ساکت ہو چکی تھی۔۔۔۔
زوہان اندر ہی اندر خود کو اتنی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔۔۔ اور وہ لاعلمی کا شکار۔۔۔ ہر بار اپنی ضد اور نادانی میں اُسے کیا کیا با تیں بول کر ہرٹ کرتی آئی تھی۔۔۔۔
اُسے آژ میر کے رخصتی سے کچھ دیر پہلے کے ادا کیے جانے والے الفاظ یاد آئے تھے۔۔۔
زوہان کا خیال رکھناز نیشہ ۔۔۔ دنیا کے سامنے وہ خود کو جتنا بے حس اور سخت دل ظاہر کرتا ہے۔۔۔ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔۔۔۔ وہ اپنے آپ کو اپنی ماں کو نہ بچاپانے کا قصور وار سمجھتے۔۔۔۔ خود کو سزا دے رہا ہے۔۔۔۔وہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہا ہے۔۔۔۔ اُسے سنبھال لینا۔۔۔۔ مجھ سے نفرت نہیں کرتا وہ۔۔۔ ہاں مگر شدید غصہ ہے۔۔۔۔ اور مجھ سے بہتر
اُس کے غصے سے کوئی واقف نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے کبھی وہ اپنے پاس نہیں آنے دیگا۔۔۔۔اس لیے دشمنی کا سہارا لے کر ہی۔۔۔ میں اُس کے ساتھ جڑ اہو اہوں۔۔۔۔ لیکن تم سے بہت محبت کرتا ہے وہ۔۔۔۔ تم ہی وہ واحد ہستی ہو۔۔۔ جو اُسے اس اذیت باہر نکالنے دونوں ہ۔۔۔ وہ بھی خود ے دور نہیں اس اذیت سے باہر نکالنے کی ہمت اور حق دونوں رکھتی ہو۔۔۔۔ وہ تمہیں کبھی خود سے دور نہیں کرے گا۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے اس وقت انتہائی بے یقینی سے آژمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ اس نے ہمیشہ دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے جان لیوا دشمنوں کے رُوپ میں دیکھا تھا۔۔۔۔ دونوں آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت سجا کر پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو بھی بے وقوف بنائے ہوئے تھے۔۔۔۔
جبکہ حقیقت تو یہ تھی۔۔۔۔۔ جس نے زنیشہ کو سن کر دیا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ کے کانوں میں آژمیر کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔۔ جن کی وجہ سے اُسے فیصلہ کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں
آئی تھی۔۔۔۔
” میں جانتا تھا تم مجھے چھوڑ دو گی مگر انہیں نہیں۔۔۔۔”
زوہان اُس کی گہری خاموشی پر اُس پر ایک تلخ نگاہ ڈالتا اس کے پاس سے گزر تا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو۔۔۔ ہر بات کا علم ہے آپ کو ۔۔۔ میں کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔ یہ بھی جانتے ہیں
آپ۔۔۔۔؟؟؟
زنیشہ ہوش میں آتے اس کے پیچھے لپکی تھی۔۔۔۔
لیکن زوہان اُس کی بات پر کان بند کر تا تیز قدموں سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔
زنیشہ نے اُس کی اس قدر روڈ نیس پر ڈبڈبائی آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔ جو سیڑھیاں اتر رہا تھا۔۔۔۔
زوہان اُس کا فیصلہ سننے سے پہلے ہی وہاں سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔۔۔۔ ابھی وہ سیڑھیوں کے وسط میں ہی پہنچا تھا۔۔۔ جب
زنیشہ کی دلخراش چیخ پر زوہان نے تڑپ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کا پیر سیڑھیوں سے پھسل چکا تھا۔۔۔۔ وہ سر کے بل سیڑھیوں پر لڑھکنے ہی والی تھی جب زوہان ایک ہی جست میں دو دو تین زینے ایک ساتھ پھلانگتا اُس کو دوسری سیڑھی پر ہی تھام گیا تھا۔۔۔
زنیشہ اپنے پیر کو پکڑے بُری طرح رو دی تھی۔۔۔ اُس کا پیر شاید مڑ گیا تھا۔۔۔ زوہان کی تو جیسے جان پر بن آئی تھی۔۔۔۔
وہ خود کو کوستاز نیشہ کو پوری احتیاط سے اُٹھاتا اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
زنمیشہ اپنی ایکٹنگ پر خود کو داد دیتی زوہان کو دور جانے سے روک چکی تھی۔۔۔۔ بنا یہ سوچے کہ اگر زوہان کو اس کے جان بوجھ کر گرنے والے اس ڈرامے کا پتا چل جاتا تو اس کی کیسی شامت آئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
حاعفہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے بیٹھے قاسم صاحب کے کیے جانے والے انکشاف پر انہیں دیکھتی۔۔۔ کتنے ہی لمحے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
اُس کی بہن کے بارے میں اتنی اہم بات سب کو معلوم ہو چکی تھی۔۔۔۔سوائے اُس کے۔۔۔۔۔ وہ ماورا کی تلاش میں اُس کی جانب بڑھ رہی تھی جب قاسم صاحب اُسے ضروری بات کرنے کا کہتے اپنے ساتھ اپنے روم
میں لے گئے تھے۔۔۔۔ جہاں پہلے سے موجود شہاب درانی اور منہاج درانی کو موجود دیکھ وہ ٹھٹھک گئی تھی۔۔۔۔ لیکن قاسم صاحب نے اُن کے وہاں موجو د ہونے کا جو ریزن بتایا تھا اسے سن کر میر ان پیلیس کی در و دیوار اُس کی نگاہوں میں گھوم کر رہ گئی تھیں۔۔۔
ماورا کے ساتھ اتناسب ہوا تھا اور اس نے حاعفہ کو کچھ بھی بتانا گوارہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔ حاعفہ اس سے اپنی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف اس لیے شیئر کرتی تھی تا کہ وہ بھی اس کے ساتھ اپنی پر اہلم ڈسکس کرے۔۔۔۔
لیکن ماورا نے تو اپنی تکلیف کی بھنک بھی نہیں لگنے دی تھی اُسے۔۔۔۔
اُسے منہاج پر بھی بہت غصہ آیا تھا لیکن وہ اپنی سزا بھگت چکا تھا۔۔۔۔ اب اُسے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں تھا۔۔۔۔اُس کی آنکھوں میں اپنی بہن کے لیے بے پناہ محبت دیکھ حائفہ کے اُس سے سارے شکوے دھل گئے تھے۔۔۔۔
اور ماورا کو اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی دینے کے لیے وہ باقی سب کے ساتھ ان کے پلان میں شریک ہو چکی
حائفہ کو مانتے دیکھ منہاج نے گھر کے باقی لوگوں کو بھی وہاں بلا لیا تھا۔۔۔۔ وہ پہلے بھی شہاب درانی کے ساتھ کئی بار یہاں آچکا تھا۔۔۔۔اس لیے اُس کی سب سے جان پہچان تھی۔۔۔۔
باقی سب کی تو خیر ہے۔۔۔ماورا تک کو پٹالیں گے ہم۔۔۔ لیکن کسی نے اصل مسئلے پر غور کیا ہے۔۔۔؟؟؟
فجر کی بات پر سب نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
آژ میر لالہ۔۔۔۔ وہ کسی صورت ہمارے پلان میں شامل نہیں ہو نگے۔۔۔۔ اُن کی وجہ سے ہمارا پلان چوپٹ ہو سکتا
ہے۔
فجر کی بات پر سب کی نگاہیں بے ساختہ حائفہ کی جانب اُٹھی تھیں۔۔۔
“کیا۔
حائفہ اُن کی نگاہوں کا مفہوم سمجھ کر بھی انجان بنی تھی۔۔۔۔
منہاج لالہ ۔۔۔۔ یہ آخری مار کہ آپ کی سالی صاحبہ ہی سر کر سکتی ہیں ۔۔۔۔ ہم سب کو سوفیصد یقین ہے۔۔۔۔ آژ میر
لالہ ان کی بات کسی صورت نہیں ٹالیں گے۔۔۔
رامین نے بھی لمقہ دیا تھا۔۔۔
اچھا اور تمہیں یہ سو فیصد یقین کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہے۔۔۔۔”
حائفہ ان سب کی جانب سے خود کو بلی کا بکر اپنائے جانے پر خفگی سے بولی۔۔۔۔
آج صبح ناشتے کے ٹیبل پر ہی ہم سب کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہو گیا ہے۔۔۔۔اب آپ جائیں اور کام پر لگ
جائیں۔۔۔۔ ویسے بھی آپ کے شوہر نامدار آپ ہی کو ڈھونڈ رہے تھے ابھی۔۔۔۔۔
صدف نے تفصیل سے جواب دیتے حائفہ کی بولتی بند کر دی تھی۔۔۔۔ انکار کا مزید کو جواز نہ ملتے اُسے حامی بھرنی پڑھی
تھی۔۔۔۔۔
وہ سب جانتے تھے کہ آژ میر کو کسی بھی بات کے لیے منانا کتنا مشکل تھا۔۔۔اس لیے سب نے حاعفہ کا انتخاب ہی کیا
تھا۔۔۔۔۔۔
حائفہ سب کے پر زور اصرار پر مان تو گئی تھی۔۔۔ مگر اب آژمیر کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھتی وہ کانپتے دل کے ساتھ آگے بڑھی تھی۔۔۔۔ماورا کو وہ بھی یہ سرپرائز دینا چاہتی تھی۔۔۔۔ جس کے لیے اُس نے خود کو پوری طرح سے بقول
رامین کے مار کہ سر کرنے کے لیے تیار کر لیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
” بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔۔”
زوہان اُس کے لال ہوتے نازک پیر کو دیکھتے انتہائی فکر مندی سے بولا تھا۔۔۔۔ جس میں اُس کی پہنائی گئی پائل اُسے مزید حسین بنارہی تھی۔۔۔۔۔۔
آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ آپ جائیں۔۔۔ جہاں جارہے تھے ۔۔۔ میں اپنے درد سے خود ہی نبٹ لوں گی۔۔۔۔
زنیشہ اُس کی گرفت سے اپنا پیر کھنچنے کی ناکام کوشش کرتی نروٹھے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
زوہان نے گھورتی نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
زر اسے درد پر واویلا مچادینے والی زنیشہ میر ان اتنی بڑی چوٹ پر اتنے سکون سے بیٹھی پیر ہلا جلارہی تھی۔۔
زبان کو ایک سیکنڈ لگاتھا۔۔ اسکا یہ نانک پکڑنے میں۔۔۔۔
” او کے ایزیووش۔۔۔۔۔
یہ لڑکی جب سے آئی تھی۔۔۔ اپنی اُلٹی سیدھی حرکتوں سے اُسے زچ کر کے رکھا ہوا تھا۔۔۔۔ آج کے دن وہ کسی سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔ لیکن زنیشہ نے اُسے پوری طرح خود میں اُلجھاتے اُسے اُس کی تکلیف تو بھلا ہی دی تھی۔۔
زوہان نے اس کے پیر کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے اس کی جانب سے رُخ موڑ لیا تھا۔۔۔۔ لیکن وہاں سے اُٹھا نہیں
تھا۔۔۔۔۔۔
“واٹ۔۔۔۔
زنیشہ کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ حیرت کی زیادتی سی منہ بھی کھل چکا تھا۔۔۔۔ مطلب اُس کی تکلیف سے بھی اب اس
شخص کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔
” آئی ہیٹ یو۔۔۔۔”
زنیشہ آنکھوں میں آنسو بھرے بولتی زوہان کو اچھا خاصہ ڈسٹرب کر گئی تھی۔۔۔۔
زوبان کوشش کے باوجود خود کو اُس کی اس معصوم قاتلانہ اداؤں سے بچاپانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔۔۔۔
زوہان کا ایک بار پھر ویسا ہی سرد اور کھر در اجواب زنیشہ کا چہر اغصہ اور خفگی سے لال کر گیا تھا۔۔۔
اس سے پہلے کے پہلے کے زنیشہ کچھ بولتی۔۔۔۔ زوہان اُسے دونوں ٹانگوں سے تھام کر اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔ زنیشہ اُس کے اس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی ۔۔۔۔ اُس کے فولادی سینے سے ٹکراتی سیدھی اُس کی گود میں آن سمائی تھی۔۔۔۔
” کیوں ڈسٹرب کر رہی ہو مجھے۔۔۔؟؟؟”
زوہان اُس کی ریلنگ کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے لال ہوئی پیشانی سہلاتے گھمبیر سر گوشیانہ لہجے میں بولتا۔۔۔۔ اُس کی
سانسیں تیز کر گیا تھا۔۔۔۔
کیونکہ میں ڈسٹرب کرنے کا حق رکھتی ہوں۔۔۔۔ آپ مجھے روک نہیں سکتے۔۔۔۔۔
زنیشہ اُس کے سخت تیوروں سے بناگھبر ائے دوبدو بولی تھی۔۔۔ اُس نے اب تک زوہان کے حصار سے نکلنے کی کوشش بھی
نہیں کی تھی۔۔۔
اُس کا یہ بدلاؤ۔۔۔۔ زوہان کے لیے کافی خوش کن تھا۔۔۔
” تم تو مجھے چھوڑ کر جارہی ہو۔۔۔ پھر کیسا حق۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان کے دل میں اُس کی بات کھب کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
لیکن اس بار زنیشہ نے بھی ٹھان لی تھی اس شخص کی عقل ٹھکانے لگا کر رہے گی۔۔۔۔
زوہان کا گریبان دونوں مٹھیوں میں دبوچتے وہ اُس کا چہرا اپنے بے حد قریب کر گئی تھی۔۔۔۔
مسٹر زوہان میر ان۔۔۔۔۔ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ میں اتنی آسانی سے آپ کی جان چھوڑ دوں گی۔۔۔۔اس بات کو اپنے دل و دماغ سے نکال دیں کہ زنمیشہ میران کبھی بھی آپ سے دستبردار ہو گی۔۔۔۔ پوری دنیا کو چھوڑ سکتی ہوں۔۔۔ آپ کو
نہیں۔۔۔۔ چاہے پھر ان دنیا والوں میں میر ان پیس والے ہی شامل کیوں نہ ہوں۔۔۔۔ملک زوہان زندگی کے کسی بھی مقام پر ہارے یہ گوارہ نہیں ہے اس کی بیوی کو ۔۔۔۔ میں اب کبھی مڑکر نہیں دیکھوں گی ان کی جانب۔۔۔۔ کیونکہ
میرے لیے آپ اور آپ کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔۔”
زنیشہ مدھم سر گوشیانہ لہجے میں بولتی زوہان کا سارا غصہ، اضطراب اور بے چینی اپنے لفظوں میں سمیٹ گئی تھی۔۔۔۔۔ زوہان میر ان خود کو اس ساحرہ کے سامنے پگھلنے سے روک نہیں پایا تھا۔۔۔ جو ہر بار اُسے اپنے سحر میں جکڑتی کہیں اور
دیکھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی تھی۔۔۔۔
زوہان جھکا تھا اور اس کے چہرے پر اپنے جنون کی داستان رقم کرتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اُس کے لمس کی شدت پر جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔۔ جب زوہان نے اُسے خود میں سموتے اُس کے نازک وجود نے بنانے کے دور میں سوتے اس
کی کپکپاہٹ کو اپنے وجود میں اُتار لیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
حائفہ روم میں داخل ہوئی تھی جہاں اُسے آژ میر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑ ا تیار ہو تا نظر آیا تھا۔۔۔
حاعفہ اُسے کن اکھیوں سے دیکھتی الماری کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ جہاں سے اُسے کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔۔ تھوڑی دیر تک الماری میں کپڑے اندر سے اُدھر کرنے کے بعد وہ اُس کے پٹ بند کرتی آژ میر کی جانب پلٹی تھی۔۔۔۔
جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اُس کا پورا فوکس صرف اپنی کی تیاری پر ہے۔۔۔۔
” تیار تو ایسے ہو رہے ہیں۔۔۔ جیسے ڈیٹ پر جانا ہو۔۔۔۔”
حاعفہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔۔۔۔
مجھ سے کچھ کہا۔۔۔۔؟؟؟
اُسے صوفے کی جانب بڑھتے دیکھ آثر میر نے پلٹ کر اس سے پوچھا تھا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔
حاعفہ نے خفگی سے جواب دیا تھا۔۔ وہ دوہی دنوں میں اُس کی محبت اور توجہ کی اس قدر عادی ہو چکی تھی۔۔۔ کہ آژ میر کا
ذرا سا بھی اگنور کرنا اُس کو ایسے ہی بے چین کر دیتا تھا۔۔۔
وہ مسلسل آژ میر کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کی کوششوں میں تھی۔۔۔ اس بات سے انجان کہ آژ میر مرر سے پوری طرح
اُس کی حرکتوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔
جواب بیڈ پر بالکل سیٹ تکیوں کو اُٹھا کر دوبارہ سیٹ کر رہی تھی۔۔۔۔
ایک تو اُسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آژمیر کو کیسے منائے۔۔۔ اُوپر سے وہ اُس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔۔۔۔
حاعفہ کا موڈا چھی طرح خراب ہو چکا تھا۔۔۔۔
” حاعفہ کم۔ ہیر۔
حافہ کو باہر جاتا دیکھ آژمیر آواز دے کر روک چکا تھا۔۔۔۔ اُس کی گھمبیر بھاری آواز ہمیشہ حائفہ کی دھڑکنوں میں تغیانی بر پا کر جاتی تھی۔۔۔۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ۔۔۔ آژمیر کے لیے اُس کی دیوانگی میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔۔۔
” آپ کو شاید کہیں جانا ہے۔۔۔ آپ تیار ہو لیں۔۔۔ میری وجہ سے ڈسٹرب ہو جائیں گے۔۔۔۔”
حائفہ کو اُس کا آج کے دن بھی یوں جانا بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔ جو شخص ہمیشہ ہر ایک کو نخرے دیکھانے کا عادی تھا۔۔۔ اور کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔ پلٹ کر اس کی کسی بات کا انکار کرے۔۔۔۔ آج اُس کی چہیتی بیوی اُس
کے سامنے پورے حق سے ایسا کر رہی تھی۔۔۔۔
حائفہ کی بات پر آژ میر نے مڑ کر اُسے گھورا تھا۔۔۔
جہاں وہ اپنے نظر انداز کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتی روم سے نکلی تھی۔۔۔۔
“حاعفہ ۔۔۔۔۔ خاموشی سے واپس آجاؤ۔۔۔ ورنہ میں باہر سے سب کے سامنے اٹھا کر لانے کی بھی ہمت رکھتا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم اچھے سے جانتی ہو۔۔۔ میں کسی کا لحاظ نہیں کروں گا۔۔۔۔
آژمیر نے اُسے دھمکی دی تھی۔۔۔۔
جسے سنتے حائفہ کے قدم تھمے تھے۔۔۔ اُس نے پلٹ کر خفگی سے گھورا تھا آژمیر کو۔۔۔۔ جو اُس کے سامنے غصہ کر ناتو بھول
ہی چکا تھا اور اپنی پیار بھری دھمکیوں سے اُس سے ہر بات منوار ہا تھا۔۔۔۔
آپ کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔؟”
حائفہ منہ پھلائے اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
” تم کہوں تو کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔۔”
اُس کی نازک کلائیاں پکڑ کر اپنی کمر میں حمائل کرتے۔۔۔۔ آژمیر اُس کے ماتھے پر لب رکھ گیا تھا۔۔۔۔
” مجھے نہیں پتا تھا میری بیوی غصے میں اتنی ہاٹ لگتی ہو۔۔۔ تمہیں ایسے دیکھ کر میر ادل چاہتا ہے کہ۔۔۔۔” اس سے پہلے کے آژمیر کوئی بے باک جملہ ادا کر تا حائفہ اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی خاموش کروا گئی تھی۔۔۔۔ جس پر لب رکھتے آژمیر نے اُس کی نرماہٹیں محسوس کی تھیں۔۔۔۔
” آپ کے سامنے بھلا کسی کا غصہ ٹک سکتا ہے۔۔۔۔۔۔”
حائفہ اس کے خوبرو چہرے کو محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
تم کرونا۔۔۔۔ میں برداشت کرنے کو تیار ہوں۔۔۔۔۔
آژ میر نے ہاتھ بڑھاتے اُس کا کیچر بالوں سے نکال لیا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے اُس کی گھنیری زلفی آبشار کی طرح اس کےنازک وجود پر پھیل گئی تھیں۔۔۔۔ آژ میر نے مبہوت ہو کر یہ دلکشی بھر امنظر دیکھا تھا۔۔۔وہ حائفہ کے حسین کمر تک گرتے لمبے بالوں کا دیوانہ تھا۔۔۔۔ اس کی فرمائش پر ہی حاعفہ روم میں اپنے بالوں کو کھلا ہی رکھتی تھی۔۔۔ لیکن اگر جوڑے میں قید رہ جاتے تو آژ میر ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے یہ کام کر لیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔” مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔”حاعفہ نے ماوا والی بات کا آغاز کیا تھا۔۔۔ جس کے لیے اُن سب نے حائفہ کو خاص طور پر منتے ترلوں سے آژمیر کو منانے کے لیے اُس کے پاس بھیجا تھا۔۔۔۔ کیونکہ ایک آژمیر ہی اُن کا اتنی محنت سے بنایا گیا پلان چوپٹ کر سکتا تھا۔۔۔”ہمہ۔۔۔ بولو۔۔۔۔’ہواس کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹوں کو پیچھے ہٹاتے وہ نرمی سے بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی مسلسل کی جانے والی چھوٹی چھوٹی گستاخیوں پر حاعفہ کا چہر بالکل گلنار ہو چکا تھا۔۔۔” آپ پہلے پر امس کریں۔۔۔ میری بات مانیں گے۔۔۔۔۔”حاعفہ کی بات پر آژ میر نے مشکوک نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔”رئیلی۔۔۔۔؟؟؟ اتنی سیر یسں بات ہے۔۔۔۔؟؟”
آژمیر کے پوچھنے پر حاعفہ نے اُسے سارا پلان بتا دیا تھا۔۔۔۔” آپ کو اور کچھ نہیں کرنا بس۔۔۔ماورا کے سامنے منہاج کا کوئی ذکر نہیں کرنا تا کہ اُسے پتانہ چل سکے۔۔۔۔۔ پلیز میری خاطر مان جائیں۔۔۔۔” حاعفہ
آژ میر کو انکار کے لیے منہ کھولتادیکھ لجاجت سے بولتی آژمیر کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔۔یہ لڑکی اور اس کے نئے نئے خوبصورت رُوپ۔۔۔وہ فدا کیسے نہ ہو تا۔۔۔۔۔”
اور ایسا کرنے کے بدلے مجھے کیا ملے گا۔۔۔۔۔؟؟؟
آژ میر نے اُس کے حسین تل کو چھوا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ اُس کی مونچھوں کی چھبن پر کسمسائی تھی۔۔۔ آژمیر کا لمس ہمیشہ شدت لیے ہو تا تھا۔۔۔۔” آپ کو کیا چاہیے۔۔۔۔؟
حائفہ اُس کی نگاہوں کا فوکس اپنے ہونٹوں پر دیکھ لرزتی آواز میں بولی تھی۔۔۔۔”
جو اس لمحے میرے دل کو مزید خوش کر دے۔۔۔۔۔”
آژ میر نے اُس کے خوشی سے مسکاتے چہرے کی جانب وارفتگی سے دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔”
او کے آپ آنکھیں بند کریں۔۔۔۔
حائفہ کو اُس کے اتنی آسانی سے مان جانے پر اس لمحے اُس پر بہت پیار آیا تھا۔۔۔۔جس کا وہ اظہار کرنے کا ارادہ بھی رکھتی تھی۔۔۔۔ آژ میر اُس کے انداز پر مسکرا کر سر تسلیم خم کر تا آنکھیں بند کر گیاتھا۔۔۔
حاعفہ نے اُس کے سہارے اُوپر ہوتے۔۔۔۔۔ پہلے باری باری اُس کی دونوں آنکھوں پر لب رکھے تھے۔۔۔۔ اُس کے گداز لبوں کا لمس آژ میر میر ان کے لیے واقعی بہت خوشی کا باعث تھا۔۔۔۔
جس کے بعد حائفہ اُس کے دونوں گالوں کواُسی محبت سے چھوتی آژ میر میر ان کو اپنا مزید دیوانہ بنا گئی تھی ۔۔۔۔
حاعفہ نے اُس کی آنکھیں کھولنے سے پہلے آرام سے پیچھے ہٹتے اُس کے قریب سے فرار ہونا چاہا تھا۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اُس کے اس ایکشن کاری ایکشن اس کے چودہ طبق روشن کر دینے والا تھا۔۔۔۔لیکن آژ میر بند آنکھوں سے بھی اُس کا دور جانا محسوس کرتے اُسے کلائی سے تھام کر اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔
@@@@@@@
کل کے دن زنیشہ نے اُس کے بعد ایک پل کے لیے بھی زوہان کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔ زوہان بھی اپنی ضدی بیوی کے آگے ہار مانتا آج کے دن اپنا آپ اُس کے حوالے کر گیا تھا۔۔۔۔۔
زنمیشہ اسے لیے سب سے پہلے اس کی ماں کی قبر پر گئی تھی۔۔۔۔ جہاں زوہان جانے کی ہمت آج تک نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔لیکن زنیشہ کے آگے وہ بے بس ہو گیا تھا۔۔۔۔
قبر پر جاکر فاتحہ پڑھنے کے بعد اُسے ایک بے طرح سکون نصیب ہوا تھا۔۔۔۔اُن کی قبر پر ہاتھ
پھیر تے اُسے وہ اپنے بہت قریب محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔۔وہاں سے وہ دونوں زنیشہ کے کہے کے مطابق یتیم خانے میں گئے تھے۔۔۔۔ جہاں پہلے ہی زنیشہ سارا انتظام کرواچکی تھی۔۔۔۔ بڑی تعداد میں وہاں موجود ٹین ایجرز اور بچے زوہان کے ماں کے سیالِ ثواب کے لیے قرآن پاک کی پاک کلام پڑھنے میں مصروف تھے۔۔۔۔زوہان اور زنیشہ نے بھی کچھ وقت وہاں رہ کر اپنا حصہ ڈالا تھا۔
زوہان کے چہرے پر پھیلتی آسودگی زندیشہ کو بھی اندر تک پر سکون کر گئی تھی۔۔۔۔زوہان ہر سال اپنی ماں کے نام پر غریبوں پر لاکھوں خرچ کرتا تھا۔۔۔ مگر اتنا سکون اُسے آج تک نصیب نہیں ہواتھا۔۔۔۔جس کے بعد اُن دونوں نے مل کر یتیم خانے کے ہر بچے کی اُس کی ضروریات کے مطابق مدد کی تھی۔۔۔ کسی کے آگے پڑھنے کا خرچا اُٹھایا تھا زوہان نے تو کسی کے علاج کا۔۔۔۔ یہ سب کرتے اُس کے چہرے پر ایک سچی خوشی تھی۔۔۔۔ جسے
دیکھ دیکھ کر زنیشہ نہال ہو رہی تھی۔۔۔۔ وہ آج کے دن اپنا غم بھول کر دوسروں کا غم بانٹتا خوشی سے مسکرارہا تھا۔۔۔۔ یہ بات کافی انو کھی تھی۔۔۔۔ مگر وہ اپنی بیوی کا دل سے مشکور تھا۔۔۔۔ جس نے اُسے صحیح سمت دیکھائی تھی۔۔۔۔۔زنیشہ کے لیے اُس کی دیوانگی اور محبت میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔۔زندیشہ نے زوہان کو کہے کے مطابق میر ان پیلس والوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھا تھا۔۔۔۔ بلکہ اُسے تو اپنا موبائل اٹھانے کا بھی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔۔اس وقت بھی وہ زوہان کی فرمائش پر فریش ریڈ ڈریس زیب تن کیے۔۔۔۔ جس پر ہم رنگ کے دھاگوں اور موتیوں سےنہایت ہی خوبصورت ایمبرائیڈری کی گئی تھی۔۔۔ زوہان نے اُس کا یہ سوٹ خود سلیکٹ کیا تھا۔۔۔۔جسے پہن کر وہ لگ بھی بے پناہ حسین رہی تھی۔۔۔۔ زوبان تو اسے دیکھ کر ہی اُس کا دیوانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔” تو ملک زوہان کی بیوی اُسے چلانا اچھی طرح سے جان چکی ہے۔۔۔۔زنیشہ کے گیلے بالوں کو محبت سے اپنی انگلیوں میں پھنسا تا وہ اُس کے چہرے کی نرماہٹوں کو محسوس کر تاز نیشہ کے اوسان خطاکر گیا تھا۔۔۔۔
” زوہان پلیز۔۔۔۔ میں ابھی تیار ہوئی ہوں۔۔۔۔
“زنیشہ اُس کے خطرناک تیور دیکھ اُس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جمائے فاصلہ رکھنے کی ناکام کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔
اس سے پہلے کے زوہان اُس کے خمار میں بہک کر کوئی گستاخی کرتا۔۔۔۔ دروازہ ناک ہو ا تھا۔۔۔بہت اہم بات کے علاوہ کسی کو انہیں ڈسٹرب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔۔
زنیشہ جلدی سے زوہان سے جدا ہوئیتھی۔۔۔۔”
کم ان۔۔۔۔”زوہان نے اُس کی اِن پھر تیوں کو گہری نگاہوں سے ملاحظہ کیا تھا۔۔۔
“سر وہ میر ان پیلس سے شمسہ بیگم کی کال ہے۔۔۔ وہ زنیشہ بی بی جی سے بات کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔”ملازمہ کی بات پر زنیشہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔۔۔نہیں کہیں مجھے ان سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔زنیشہ مضبوط لہجے میں جواب دیتی پلٹ گئی تھی۔۔۔ اُسے اُس کی ماں نے ہی شوہر کی اہمیت کے بارے میں سمجھا کر بھیجاتھا۔۔۔۔وہ اپنے شوہر کو زرا سا ہرٹ کر کے اپنی ماں کو بھی ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔زنیشہ کے انکار پر زوہان ملازمہ کے ہاتھ سے فون لیتاز نیشہ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔بات کرو۔۔۔۔۔”زوہان نے سپیکر پر ہاتھ رکھ کر فون اُس کی جانب بڑھاتے کہا تھا۔۔۔۔۔
“مگر زوہان میں۔۔۔۔”زنیشہ نے انکار کرنا چاہا تھا۔۔۔”میرے لیے تم اور تم سے منسلک ہر رشتہ اہم ہے۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔ میں سچ میں تمہیں میر ان پیلس والوں سے دور کرنا چاہوں گا۔۔۔۔ تمہیں اُن میں سے کسی سے رشتہ توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔”
زوہان اُس کی کان کی لوح کو چھو تا محبت بھرے انداز میں بولا تھا۔۔۔
زنیشہ کو ایک بار پھر اپنے اِس اکر و شوہر سے محبت ہونے لگی تھی۔۔۔ جو اُس کی خاطر اُن لوگوں کو بھی قبول کرنے کو تیار تھا۔۔۔ جو اُس کی اب تک کی اذیت کا باعث تھے۔۔۔۔۔زنیشہ نے اس کے ہاتھ سے موبائل تھام کر اسی طرح اس کے حصار میں کھڑے۔۔۔۔ شمسہ بیگم سے بات کی تھی۔۔۔جو حال احوال پوچھنے کے بعد اب اُسے اور زوہان کو آج رات کے ڈنر پر انوائٹ کر رہی تھیں۔۔۔۔ زنیشہ جانتی تھی زوہان کو اُن سب کے بیچ بیٹھنا کتنانا گوار گزرتا تھا۔۔۔ اس لیے وہ انکار کر گئی تھی۔۔۔آئم سوری اماں سائیں ہم نہیں آسکتے۔۔۔۔”زنیشہ نے یہاں بھی اپنے سے پہلے زوبان کا سوچا تھا۔۔۔۔ زوہان کو اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیئے تھا۔۔۔۔
ہم دونوں آئیں گے آج۔۔۔۔
زوہان اُس کے ہاتھ سے موبائل لے کر شمسہ بیگم کو جواب دیتاز نیشہ کے ہونٹوں پر پیار بھری مسکان بکھیر گیا تھا۔۔۔ زنیشہ کو آژمیر کی بات سب بالکل سچ لگی تھی۔۔۔۔ زوہان جتنا سخت دل اور بے حس بننے کی کوشش کرتا تھا۔۔۔۔ وہ ویساتھا نہیں۔”
آئی لویو۔۔۔”
زنیشہ اُس کا حصار توڑ کر شریر لہجے میں بولتی دور ہوئی تھی۔۔
ایسی باتیں مجھے دور سے سمجھ نہیں آتیں۔۔۔۔۔” زوہان اُس کو دور کھسکتا دیکھ واپس اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔ زنیشہ اُس کے انداز پر کھلکھلاتی اُس کے سینے سے آن لگی۔۔۔۔۔۔
Share with your friends on Facebook
1 Comment
Add a Comment