Aik Raat Ki Dulhan Part 4 – Bold Urdu Story 2025 | Read Online Free PDF

Aik Raat Ki Dulhan Part 4 enters a bold and intense chapter of the story. The emotional depth, powerful dialogues, and unexpected twists make it one of the best bold Urdu stories of 2025. As secrets come to light, the relationship between Haaya and her past takes a new turn—filled with drama, love, and heartbreak.

If you’re searching for a bold romantic Urdu story, this part offers everything—emotion, tension, and passion—perfectly balanced in a dramatic narrative.

Read online in Urdu font
📥 Free PDF available for download
🔥 Bold romance with emotional drama
🌙 One night changed everything… but the truth is darker

Bold Urdu Story 2025

Aik Raat Ki Dulhan Part 4 – Bold Urdu Story 2025 | Read Online Free PDF

Read here Aik Raat Ki Dulhan Part 3 – Emotional Urdu Novel 2025

بھا بھی پلیز نیکسٹ ٹائم بھائی نے کسی بھی جانا ہو آپ بھی ان کے ساتھ جایا کریں ۔ ۔ ۔ علی کے مشورے پر بینی نے مسکراتے ہوئے ہمدان کی طرف دیکھا۔

پہلے بھی یہ چڑیل میرے ساتھ ہی رہتی ہے ہر وقت پر ۔ ۔ ۔ ۔ ہمدان کے جواب پر سب ہنس دیے سوائے بینش کے وہ ہمدان کے پیچھے دوڑی ابھی بتاتی ہوں تمہیں ۔۔۔۔ ہمدان اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کر چکا تھا۔

ہمدان کمرے سے باہر آیا تو سب بینیش کے ارد گرد جمع تھے اور وہ اپنا پاوں تھام کر رو رہی

تھی ۔ ۔ ۔ وہ فکر مندی سے آگے بڑھا ۔

کیا ہوا تمہیں ایسے رو کیوں رہی ہو ؟

سیڑھیوں سے گر گئی سینڈل ٹوٹنے کی وجہ سے لگتا ہے پاوں میں موچ آگئی ہے ۔

تم بھی کمال کرتی ہو بینی ۔ ۔ ۔ دھیان سے چلا کرو ۔

اچھا اب رونا بند کرو میں کسی کو بھیج کر جراح کو بلواتا ہوں ۔

بھائی آپ فکر مت کریں میں نے بھیج دیا ہے ۔ ۔ ۔ علی ہمدان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے

ہوئے بولا ۔

ہم ۔ ۔ ۔ ۔ ہمدان مسکرا دیا۔ ۔

مجھے درد ہو رہا ہے اور تم دونوں کے دانت نکل رہے ہیں بابا دیکھیں زرا ان دونوں کو ۔ بینی کے انکشاف پر ہمدان سر تھام کر بیٹھ گیا ۔

ابھی تمہیں چوٹ لگی ہے اور تمہارا دھیان پھر بھی ہم پر ہے ۔ میں تو ویسے ہی مسکرارہا تھا ۔

 ہاں ہاں تم تو ویسے ہی مسکرا رہے تھے

میں ہی جھوٹ بول رہی ہوں۔

اب میں نے یہ کب کہا کہ تم جھوٹ بول رہی ہو ؟

بس بھی کر دو تم دونوں ۔۔۔۔ بینش کی ماما بولیں تو دونوں خاموش ہو گئے۔ میں پھوپھو سے مل کر آتا ہوں ۔ ۔ ۔ ہمدان بہا نہ بناتے ہوئے وہاں سے چل دیا ۔

وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں کہ ہمدان دروازہ ناک کرتے ہوئے

کمرے میں داخل ہوا۔

اسلام و علیکم پھوپھو ۔ ۔ ۔ کیسی ہیں آپ ؟ ۔

وعلیکم اسلام ۔ ۔ ۔ انہوں نے محبت سے ہمدان کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کے کندھے پے

سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں ۔

کیسی ہو سکتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ؟

چار سال ہو گئے ہیں میری نور کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آج بھی ایسا لگتا ہے جیسے وہ یہی ہے ۔ ابھی اچانک سامنے سے آئے گی کہ امی آپ نے اپنی دوائی کی یا نہی کھا نا پورا ختم کیا یا نہی ابو کو یاد کر کے رو تو نہی رہی؟

مجھے اپنے باپ کی یاد میں رونے سے روکنے والی خود ایک یاد بن کر رہ گئی۔ جانے سے پہلے ایک بار بھی نہی سوچا کہ اس کے بغیر کیسے زندہ رہوں گی میں ، میری زندگی کا سب سے قیمتی ہیرا تھی میری نور۔

تمہارا انتظار کرتی رہی میں بہت کہ شاید تم آو گے اور میرا درد با نٹو گے لیکن تم بھی نہی

آئے۔

پھوپھو میں کیا بتاوں آپ کو کہ میں کیوں نہی آسکا ۔ ۔ ۔ میری ندامت اس دن مجھے یہاں

آنے ہی نہی دیتی ہر بار کوشش کرنے کے باوجود بھی ہار جاتا ہوں میں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس دن کی طرح آج بھی وہ میرے کمرے میں موجود ہوتی ہے اور محبت کی بھیک مانگتی ہے مجھ سے ، اس کی درد بھری آنکھیں,ازیت بھرا لہجہ اور التجائیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں ۔

آتے ہی رونا ڈال دیا آپ نے آپا ۔ ۔ ۔ ابھی ابھی تو تھکا ہارا گھر پہنچا ہے میرا بیٹا اور آپ

اپنی بیٹی کا رونا لے کر بیٹھ گئی ہیں۔

ماں کی گرجدار آواز پر ہمدان سوچوں کے سمندر سے باہر نکلا اور چونک کرماں کی طرف

دیکھا ۔

کیا ہو گیا ہے اماں ۔ ۔ ۔ اگر یہ اپنے دکھ مجھ سے بیان نہی کریں گی تو اور کس سے کریں گی ؟ ویسے بھی اس گھر میں میرے علاوہ ان کا کوئی ہمدرد تو ہے نہی تو پھر میں ہی سنوں گا ناں ۔ بس کر دو اس عورت کے لیے اپنی ماں سے لڑنا ہمدان ۔ ۔ ۔ یہ نہ خود چین سے جیتی ہے نہ

ہمیں جینے دے گی ۔

پہلے اس کے شوہر کی موت اور پھر اس کی بیٹی کا رونا ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری خوشیوں کو کھا گئی ہیں یہ دونوں دیتہ نہیں تم کب سمجھو گے ۔

بس اماں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کا تھوڑا سا تو خوف کھالیں ۔ اس میں پھوپھو کا کیا قصور ہے ؟

 قصور تو سارا اسی کا ہے ۔ ۔ ۔ ناں یہ شوہر کو ملک سے باہر بھیجتی نہ وہ مرتا اور بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی طے نہ کرتی تو شاید آج وہ زندہ ہوتی ۔ ۔ ۔ مگر نہی اس عورت کو تو

بس پیسے کا جنون تھا ۔

پہلے شوہر کو دولت کی لالچ میں خود سے دور کر دیا اور پھر بیٹی کو دولت میں تولنا چاہا تو وہ بھی یہ دکھ برداشت نہیں کر سکی اور خود تو مر گئی لیکن اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے ہمارے سر پے

مسلط کر گئی۔

اماں جان بس کر دیں ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ ہوا اس میں پھوپھو کا کوئی قصور نہی تھا ۔ ۔ ۔ پھوپھا جان کی موت ایک حادثہ تھی اور نور کو کیا ہوا یہ بھی اللہ کے سوا کوئی نہی جانتا تو پھر آپ کیسے ہر بار

ان دونوں کی موت کا الزام پھوپھو پر ڈال دیتی ہیں ؟

کیوں کرتی ہیں آپ ایسا کیا آپ کو ان پر زرا ترس نہیں آتا ؟

اس پر ترس کھانے کے لیے تم اکیلیے کافی نہی ہو کیا جو ہم بھی ترس کھائیں, بینی بہت رو رہی ہے چلو نیچے ۔ ۔ ۔ ۔ اسے بازو سے بھینچتی ہو ئیں کمرے سے باہر لے گئیں ۔ اماں آپ زیادتی کر رہی ہیں پھوپھو کے ساتھ ۔ ۔ ۔ نور کی موت کا زمہ دار کون ہے جس دن آپ کو پتہ چلے گا ناں اس دن آپ بہت پچھتائیں گی ، یا د رکھنا آپ میری بات ۔ اپنا ہاتھ آزاد کرتا ہوا تیزی سے نیچے چلا گیا اور وہ سوچ میں پڑ گئیں ۔ ۔ ۔ ایسا کیوں بولا ہمدان

نے؟

کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر نیچے چلی آئیں ۔

جراح آیا اور بینیش کے پاوں کی مورچ نکال دی اور مرہم پٹی کر کے چلا گیا ۔

ہمدان دادا اور دادی کے پاس بیٹھا ان کا لیکچر سنے میں مصروف تھا ۔ ۔ ۔ کافی دیر ان کے پاس بیٹھا رہا پھر کمرے سے باہر آگیا ۔

گہری سنجیدگی میں صوفے پر ٹانگ پے ٹانگ جمائے دائیں گال پر ہاتھ رکھے کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔ ۔ ۔ مت کرو میرا ساتھ ایسا ہمدان ۔ ۔ ۔ روک دو یہ شادی, میں مر جاوں گی

تمہارے بغیر ۔

تو مر جاو۔ ۔ ۔ ۔ یہی بہتر ہے تمہارے لیے ۔

بھائی ۔۔۔۔ علی نے اس نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو چونک گیا ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔

بھائی کھانا کھا لیں ۔ ۔ ۔ علی نے میز کی طرف اشارہ کیا تو سب پر نظر ڈالتے ہوئے ازیت ، مسکرا دیا اور کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔

لکھتا ہے بھا بھی آپ تو اب ایک دو ہفتے یو نیورسٹی نہی جا سکیں گی ۔ ہاں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے علی ۔ ۔ ۔ علی کی بات پر بینش منہ پھلائے بولی۔ لکھتا ہے بھائی بھی نہی جائیں گے تب تک ہے ناں بھائی ؟

کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

علی کے سوال پر ہمدان نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

دھیان کہاں ہے آپ کا بھائی ؟

کہی نہی ۔ ۔ ۔ بس بینی کی وجہ سے تھوڑا پریشان ہوں, صبح واپس جانا ہے اور یہ چوٹ لگوا کر

گھر بیٹھ گئی ہے ۔

تو یہی بات تو میں پوچھ رہا ہوں کہ اب آپ بینش آپی کے ساتھ ہی یو نیورسٹی جائیں گے

ناں جب ان کا پاوں ٹھیک ہو جائے گا۔

ہاں ۔ ۔ ۔ میرا مطلب نہی میں صبح چلا جاؤں گا ۔ اتنی چھٹیاں افورڈ نہی کر سکتا ہیں ، جب یہ ٹھیک ہو جائے گی لینے آجاوں گا۔

کیوں افورڈ نہی کر سکتے تم اتنی چھٹیاں ، آخر ایسی بھی کیا مجبوری ہے تمہاری ؟

مجبوری نہی ہے اماں ۔ ۔ ۔ پڑھائی کا حرج نہی برداشت کر سکتا ہیں ۔

پڑھائی کا حرج یا پھر کچھ اور ۔ ۔ ۔ سچ بتاو کہ تمہارا ہم سے ملنے کو دل نہی کرتا، پچھلے چار سال سے تم نے یو نیورسٹی کو ہی اپنا گھر سمجھ لیا ہے ۔ فون کر کر کے تھک جاتے ہیں ہم کہ آکر مل جاولیکن تمہارے بہانے ہی ختم نہی

ہوتے ۔ آخر ایسا کیا ہے اس یونیورسٹی میں ؟

کیا ہو گیا ہے بھا بھی ؟

آپ خوامخواہ بات کو بڑھا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ اس کا دل لگ گیا ہے پڑھائی میں اور آپ الٹا غصہ کر رہی ہیں اس پر ۔

جی تایا جان میں بھی تو یہی سمجھا رہا ہوں اماں کو کہ بار بار گھر آنے سے پڑھائی میں رکاوٹ آتی ہے مگر یہ میری بات سمجھتی ہی نہی۔

اس نے آج تک میری بات نہی سمجھی تو تمہیں کیا سمجھے گی ۔

باپ کے جواب پر ہمدان مسکرایا لیکن ماں کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر فوراً مسکراہٹ سنبھلی ۔

سی تو کہ رہے ہیں تایا جی ۔ ۔ ۔ آپ کو تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کے بیٹے کا دل لگتا ہے پڑھائی ورنہ ایسی بھی مائیں ہیں جن کو اپنوں بچوں سے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ

اس کا پڑھائی میں دھیان نہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہمدان کا اشارہ منیش کی طرف تھا۔ بینش نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا اور ہمدان کو گھور کر چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔

جی بچی جان سہی تو کہہ رہا ہے ہمدان ۔ ۔ ۔ اسے جانے دیں صبح واپس ۔ میں جب ٹھیک ہو جاوں گی تو چلی جاؤں گی، آپ فکر نہی کریں ۔ میرا پاوں سہی ہونے میں

پتہ نہی کتنے دن لگ جائیں گے ۔

میرے انتظار میں یہ اپنی کلاسز مس تو نہی کر سکتا ناں ۔

سہی ہے ۔ ۔ ۔ جب سب اس کی ہمایت میں بولیں گے تو میں اکیلی کیا کر پاوں گی مجھے ہی بار ماننی پڑے گی ۔۔۔۔ چلو اب سب کھانے پر دھیان دیں ٹھنڈا ہو رہا ہے۔

جی ۔ ۔ ۔ ہمدان پھیکا سا مسکرا دیا اور کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا ۔ کھانے سے فارغ ہوا تو علی اسے اپنے ساتھ لے گیا اپنے کمرے میں۔

اسے میتھ کے سوال سمجھاتے سمجھاتے وہ خود بھی وہی سو گیا ۔

صبح آنکھ کھلی تو بے بسی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں گیا اور بھاری قدموں کے ساتھ الماری

تک پہنچ کر کپڑے نکال کر فریش ہونے چلا گیا ۔

فجر کی نماز ادا کی اور اپنا فون اٹھائے کمرے سے باہر آگیا ۔

با ہر گارڈن میں چلتے چلتے کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کر رہی تھی تم وہاں

درخت کے پیچھے ؟

ایسے چھپ چھپ کر کیوں دیکھ رہی تھی مجھے کوئی شرارت کرنے لگی تھی کیا ؟

سچ سچ بتاو مجھے ورنہ پھوپھو سے شکایت کر دوں گا میں تمہاری ۔

نہی ہمدان ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈری سہمی سی بولی ہی تھی کہ ہمدان نے ٹوک دیا ۔ چپ ۔ ۔ ۔ کتنی بار بولا ہے تمہیں کے ہمدان بھائی بولا کرو مگر تم سنتی ہی نہیں ۔ ۔ ۔ بڑا ہوں تم

سے تمیز کیا کرو۔

نہی بولوں گی میں آپ کو بھائی ۔ ۔ ۔ نور غصے سے چلائی ۔

کیوں نہی بولو گی مجھے بھائی ؟

پھوپھو سے شکایت کرتا ہوں تمہاری ۔ ۔ ۔ اور تم گھر پے کیا کر رہی ہو کا لج میں ایڈمیشن نہ

ہوا تمہارا ؟

نہی ہوا ایڈمیشن – – – امی کہہ رہی ہیں کہ بس میٹرک ہی کافی ہے ۔ لڑکیوں کو زیادہ نہی پڑھنا

چاہیے ۔

ضرور اماں نے کچھ کہا ہو گا ۔ ۔ ۔ آج ہی بات کرتا ہوں ان سے اور یو نیورسٹی سے واپسی پر تمہارا ایڈمیشن فارم لا تا ہوں ۔

نہی نہی ۔ ۔ ۔ ممانی نے کچھ نہی کہا امی سے ۔ ۔ ۔ میرے سارے فیصلے وہ خود ہی لیتی ہیں اور آپ فکر نہ کریں میری پڑھائی کی بلکہ اپنی پڑھائی پر دھیان دیں ابھی ابھی یونیورسٹی جوائن

کی ہے آپ نے میرے چکر میں اپنی پڑھائی کا حرج نہی کریں ۔

اچھا ۔ ۔ ۔ اتنی بڑی ہو گئی ہو تم کہ اب بڑے بھائی کو سمجھاو گی ۔ ۔ ۔ ہمدان نے اس کی چٹیا

کھینچی۔

بھائی نہی ہیں آپ میرے ۔ ۔ ۔ ایک بار سمجھتے کیوں نہی آپ ؟

غصے سے اپنی چٹیا ہمدان کے ہاتھ سے آزاد کرتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی اور ہمدان حیرت زدہ سا اسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔

آج چار سال بعد بھی چلتے چلتے اسی جگہ پے آکر رک گیا اور اپنے خالی ہاتھ کو دیکھتے دیکھتے اذیت بھری نگاہوں سے گارڈن میں اس کی ہنسی اور غصے بھرے لہجے کو محسوس کر رہا تھا کہ

فون کی آواز پر ہوش میں آیا ۔ بینش کی کال آرہی تھی ۔ ۔ ۔ نا چاہتے ہوئے بھی کال رسیو کی اور اپنے کمرے میں چلا

آیا ۔ نہی ناشتے کا انتظار نہی کر سکتا ۔

بس جا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ بیگ خالی کر کے دوسرے کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے وائلٹ اٹھائے بیگ کھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آیا۔

ہمدان – – – ناشتہ کر کے جانا۔ اس کی ماں آوازیں دیتی رہ گئی لیکن وہ بنار کے گاڑی میں بیگ رکھتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے یو نیورسٹی کے لیے نکل آیا ۔

کسی کی نہی سنتا یہ لڑکا ۔ ۔ ۔ کتنی آوازیں دی لیکن مجال ہے جو پلٹ کر ایک بار بھی ماں کی طرف دیکھا ہوا پتہ نہی کس بات کا بدلہ لے رہا مجھ سے اور کس جرم کی سزا دے رہا ہے خود

کو۔

چھوڑو بھی ۔ ۔ ۔ دیر ہورہی ہوگی اسے ۔ ۔ ۔ بینش کی ماں نے دیورانی کے کندھے پر ہاتھ

رکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔

بس کر دیں بھا بھی رہنے دیں, جھوٹی تسلیاں نہ دیا کریں آپ مجھے ۔ ۔ ۔ میں واقعی پریشان رہنے لگی ہوں اب اس کی وجہ سے وہاں کا زرا خیال نہی رہا اس کو کہ ماں کو سلام کرے اور

ماں کی دعاوں میں گھر سے رخصت ہو۔

اسے پھوپھو کے دکھڑے سننا تو یادرہتا ہے لیکن ماں کا حال پوچھنا کبھی یاد نہی رہتا ۔ ۔ ۔ بس مجبور اسا گھر آتا ہے ملتا ہے اور صبح ہوتے ہی بغیر کسی سے ملے چلا جاتا

آخر میری غلطی کیا ہے ؟

مجھے بتائے تو سہی ۔۔ مجھے تو ڈر ہی لگتا ہے کسی بینش کے ساتھ بھی ۔ ۔ ۔ میرا مطلب بینش کو خوش رکھے گا یا نہی ۔ ۔ مجھے بہت فکر ہوتی ہے ۔

کہی جزبات میں ہم نے کوئی غلط فیصلہ تو نہی کر لیا بینی کے لیے ؟

خبر دار ۔ ۔ ۔ ۔ خبر دار جو ہمدان نے میری بیٹی کو تکلیف پہنچانے کا سوچا بھی تو اس کی زندگی بلا کر رکھ دوں گی ۔۔۔ جانتا نہی ہے وہ ابھی اپنی سائی کو میری اکلوتی بیٹی کی آنکھ میں اس کی

وجہ سے اگر ایک آنسو بھی آیا تو دیکھ لینا ۔

سمجھا و بیٹے کو، تمہارے ساتھ اس کے جو بھی معاملات ہیں وہ سہی ہو یا نہ ہو لیکن میری بیٹی کے ساتھ اس کے سارے معاملات سہی ہونے چاہیے۔

تم کیا در در کی ٹھوکریں کھانا چاہتی ہو؟ تمہارا اپنا جو کچھ تھا وہ تو تمہارے شوہر نے جو ے میں ہارا دیا ۔ ۔ ۔ اب کیا اپنے سر سے اس چھت کو بھی چھیننا چاہتی ہو؟

بات کرو ہمدان سے ۔ ۔ ۔ اپنی بیٹی کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی برداشت نہی کروں گی میں چلتی ہوں بیٹی کو یہ بلدی والا دودھ دے آوں ۔ تب تک تم ناشتہ دیکھ لو۔

جی بھا بھی ۔ ۔ ۔ وہ شرمندگی سے سر جھکائے ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئیں۔

،

ہمدان کا کسی لڑکی کے ساتھ چکر چل رہا ہے کیا ؟

وہ بیٹی کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئی بولی ۔

نہی ما ما ایسا کچھ نہی ہے ۔ ۔ ۔ بینی نے حیرت سے ماں کو دیکھا جیسے اسے یقین ہی نہ آیا ہو

ان کے سوال پر ۔

ایسا کچھ ہونا بھی نہی چاہیے بیٹا ۔ ۔ ۔ ورنہ میں اس کا وہ حال کروں گی کہ پورا گاوں دیکھے گا۔ نہی ماما جانی ایسا کچھ نہی ہے ۔ آپ کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہیں ۔

ہمدان کو مجھ سے ہی فرصت نہی ہوتی وہ بھلا کیا کسی اور لڑکی کی طرف دیکھے گا ۔ ۔ ۔ میں اسے خود میں ہی اتنا الجھا کر رکھتی ہوں کہ وہ کسی اور سے بات کرنا تو دور دیکھ بھی نہی پاتا۔

اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے علی کو جو کال کی تھی کہ ہمدان ہاسٹل نہی ہے گھر آیا کہ نہی وہ سب کیا تھا ؟ کیا واقعی وہ اپنے دوست کی طرف تھا یا پھر کچھ اور معاملہ ہے اور اگر دوست کی طرف تھا بھی تو اس نے تمہیں بتانا ضروری نہی سمجھا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ؟

ماما وہ اس لیے کیونکہ اس کا فون چارج نہی تھا۔ مجھے لگا شاید گھر آیا ہو کیونکہ ہر سال وہ نور کی

برسی والے دن گھر ضرور آتا ہے ۔

اب مجھے نہی پتہ چلا کہ وہ گھر آیا ہے یا شادی پر ۔

تم سے کس نے کہہ دیا کہ وہ ہر سال نور کی برسی پر گھر آتا ہے ؟

ماں کے سوال پر بینش چونک گئی ۔ ۔ ۔ کیا مطلب ماما ؟

وہ ہر سال گھر آتا ہے پچھلے تین سال سے ۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر کہ پھوپھو سے ملنا ضروری

ہے ۔ وہ اس دن بہت دکھی ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ کیوں گھر نہی آتا کیا ؟

اب میری آنکھیں اتنی بھی بند نہی ہوتی جو وہ گھر آئے اور مجھے دکھائی نہ دے ۔ ۔ ۔ یا پھر وہ اتنی چھوٹی چیز تو ہے نہی جو دروازے کے نیچے سے اندر آجائے اور ہم دیکھ نہ سکیں ۔ ۔ ۔ آخر کیا کھیل کھیلنا چاہ رہا ہے وہ تمہارے ساتھ ؟

پتہ نہی ماما مجھے جو پتہ تھا میں نے آپ کو بتا دیا۔ مجھے تو یہی کہتا تھا کہ گھر جا رہا ہوں رات تیک

واپس آجاوں گا ۔

ہم ۔ ۔ ۔یہ ماں بیٹ مل کر کچھ تو کھچڑی پکا رہے ہیں لیکن میری نظروں سے بچ نہی پائیں

گے ، ان کی یہ حالاقیاں سمجھ رہی ہوں میں۔

میری بیٹی کا حق نہی مارنے دوں گی میں کسی کو ۔۔۔ تم فکر نہی کرو۔ یہ ہلدی والا دودھ پیو ۔ ۔ ۔ میں پتہ لگا لوں گی کیا معاملہ ہے ۔

جی ۔۔۔ بینش بھی پریشان ہو چکی تھی ۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم کمرے سے باہر آئیں اور نند کے کمرے کی طرف بڑھیں ۔

آئیں بھا بھی ۔ ۔ ۔ آپ کو دروازہ کھٹکھٹانے کی کیا ضرورت ہے ؟

آپ کا اپنا گھر ہے جب چاہیں آسکتی ہیں یہاں ۔ ۔ ۔ نور کی ماما خوشی خوشی ان کے میں کھڑی ہو گئیں ۔

بس بس رہنے دو سب یاد ہے مجھے کہ یہ میرا گھر ہے اور تم کسی بوجھ کی طرح میرے گھر میں پڑی ہو، پتہ نہی کب جان چھوٹے گی تم سے ۔ ۔ ۔ خیر میں کچھ پوچھنے آئی تھی تم سے ۔

جی بھا بھی پوچھیں ۔۔۔ کیا پوچھنا چاہتی ہیں آپ، شاید آپ کے کسی کام آسکوں میں۔

 جو میں پوچھنے والی ہوں اس کا سہی سہی جواب دینا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہی ہوگا ۔ ۔ ۔ نور کی

برسی پر ہر سال ہمدان تم سے ملنے آتا ہے کیا ؟

جی ۔ ۔ ۔ جی بھا بھی لیکن ہوا کیا ہے ؟

اچھا ۔ ۔ ۔ واقعی وہ ہر سال نور کی برسی پر گھر آتا ہے تو مجھے نظر کیوں نہی آتا ؟

میں نے تو ایک بار نہی دیکھا اسے یہاں آتے ہوئے اور جاتے ہوئے ۔

جی بھا بھی وہ رات کو آتا ہے اور رات کو ہی واپس چلا جاتا ہے ۔

ایسی کیا مجبوری اس کی جو وہ چوروں کی طرح آتا ہے اور چوروں کی طرح ہی چلا جاتا ہے ؟

پتہ نہی بھا بھی ۔ ۔ ۔ اب اس بات کا جواب تو آپ کو وہ خود ہی دے سکتا ہے۔ جواب تو میں اس سے لے ہی لوں گی تم فکر نا کرو اور اگر اس نے میری بیٹی کو دھوکا دینے کا سوچا بھی تو بہت پچھتائے گا ۔ ۔ ۔ غصے میں کمرے سے باہر نکل گئیں ۔

پچھتاتو ہم سب ہی رہے ہیں بھا بھی ۔ ۔ ۔ ہمدان کیا دھوکا دے گا آپ کی بیٹی کو وہ تو خود آپ کا قرض دار ہے ۔ بلکہ وہ ہی کیوں ہم سب ہی آپ کے قرض دار ہیں ۔

آخر آپ نے ہم سب پر رحم کھا کر اپنی چھت تلے پناہ جو دی ہے ۔ ۔ ۔ آپ کا قرض زندگی بھر نہی چکا پائیں گے ہم، میری بیٹی بھی اس قرض کا مداوہ ادا کر چکی ہے اب ہم سب

کی باری ہے ۔ بے بس سی کرسی پر بیٹھ کر بیٹی کی یاد میں آنسو بہانا شروع ہو گئیں ۔

همدان ہاسٹل پہنچ کر اپنا بیگ اٹھائے یونیورسٹی میں پہنچا ہی تھا کہ بینش کی کالز آنا شروع ہو

کیا مسئلہ ہے بینش صبح صبح ؟

ابھی ابھی پہنچا ہوں یو نیورسٹی ۔ ۔ ۔ کلاس میں جا رہا ہوں اور تم کال پے کال کری جا رہی

ہو۔

سب خیریت ہے ؟

کچھ خیریت نہی ہمدان ۔ ۔ ۔ تم پچھلے تین سال سے جو جھوٹ بولتے آرہے ہو وہ آج پکڑا جا

چکا ہے ۔

کیا جھوٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ہمدان نے چونک کر فون کان سے ہٹا کر بینش کا نمبر دیکھا اور دوبارہ کان سے لگا لیا۔ یہی کہ تم پچھلے تین سال سے مجھ سے یہ جھوٹ بول رہے تھے کہ پھوپھو سے ملنے گھر جا رہے ہو لیکن ماما نے تو تمہیں گھر آتے ہوئے نہی دیکھا، کیا میں پوچھ سکتی ہوں کیا گیم کھیل

رہے ہو تم میرے ساتھ ؟

ہمدان نے غصے سے اپنے بال مٹھی میں جکڑے اور گہری سانس لیتے ہوئے نچلا ہونٹ

دانتوں تلے دبایا۔

بتا واب کچھ بول کیوں نہی رہے تم ؟

کیا بولوں میں بینی ؟

جب تمہیں مجھ پر یقین ہی نہی ہے تو میرے بولنے کا فائدہ ؟

غصے سے فون بند کرتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھا لیکن سامنے کسی سے ٹکرا گیا ۔ سامنے رسلہ تھی اگر اس کا ہاتھ نہ تھامتا تو وہ منہ کے بل سیٹر ہیوں سے گر جاتی۔

ہمدان کے سینے میں منہ چھپائے ڈر سے آنکھیں بند کیسے کھڑی رہی ۔

Excuse Me

مجھے کلاس کے لیے دیر ہو رہی ہے میڈم ۔ ۔ ۔ آپ پیچھے مٹنے کی گستاخی کریں گی ؟

رملہ تیزی سے پیچھے ہٹی اپنا ڈوپٹہ سیٹ کیا ۔ ۔ ۔ ایک تو غلطی آپ کی ہی مجھ سے معافی مانگنے کی بجائے مجھے ہی باتیں سنا رہے ہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہی نظر ہمدان پر پڑی خاموش

ہو گئی۔

I am sorry

ہمدان نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے معزرت کرتے ہوئے

وہاں سے چل دیا ۔

رملہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی اور اس کی مسکراہٹ میں کھوسی گئی ۔ ۔ ۔ کتنا درد چھپا ہے اس کی مسکراہٹ میں بھی کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی ۔

Everything is ok

کسی جانی پہچانی آواز پر واپس پلٹی تو پیچھے نصیر کھڑا تھا ۔

رملہ اس کی بات کا جواب دیے بغیر چپ چاپ وہاں سے چلی گئی ۔

اپنوں پے ستم غیروں پے کرم ۔ ۔ ۔ ارے واہ کیا کہنے محترمہ کے ۔ ۔ ۔ ادھر ملک ہمدان نے مسکرا کر دیکھ کیا لیا اسی کے خیالوں میں کھو گئی اور ادھر میں ہوں جس کی بات کی جواب

دینا بھی گوارہ نہیں کیا ۔

خیر کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ نہ دو جواب کیونکہ کچھ دنوں تک تمہیں ایسا جواب دوں گا کہ

 یا درکھو گی ، بس کچھ ثبوت اور مل جائیں پھر دیکھنا تم دونوں کی دنیا کیسے پلٹتا ہیں۔

بے باقی سے فون میں اتاری رملہ اور ہمدان کی تصویریں دیکھ کر مسکرا دیا ۔ پہلے سوچا تھا بینش کو تم دونوں کی سچائی بتا دوں لیکن پھر سوچا بینش ہی کیوں پوری یو نیورسٹی کو تم دونوں کے رشتے کے بارے میں پتہ چلنا چاہیے ، آخر کار میری انسلٹ بھی تو پوری یو نیورسٹی کے سامنے کی تھی آپ نے مس رملہ ۔ ۔ ۔ تو پھر آپ کی اوقات بھی پوری یو نیورسٹی کو پتہ چلنی چاہیے ناں ۔ ۔ ۔ بے باقی سے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

فضول باتیں کرتا رہتا ہے ۔ دماغ خراب ہے اس لڑکے کا ۔ ۔ ۔ رملہ کینٹین میں بیٹھی جوس پی رہی تھی اور نصیر سے پیچھا چھڑانے کا طریقہ سوچ رہی تھی کہ وہ اچانک اس کے ساتھ والی

کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ گیا۔

رملہ نے گھورا مگر اسے کوئی فرق ہی نہی پڑا۔ آپ اکیلی بیٹھی تھیں تو میں نے سوچا تھوڑی کمپنی دے دوں آپ کو ۔

Excuse me

کیا میں نے آپ سے آپ کی کمپنی مانگی جو آپ منہ اٹھائے یہاں پہلے آئے ہیں ۔ آخر مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ آپ کیوں بار بار میرے راستے میں آرہے

 ہیں ؟ ایک بار کہہ دیا ناں میں کہ مجھے آپ سے دوستی کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہی ہے تو پھر اس طرح بار بار میرے سامنے آنے کی کوئی خاص وجہ؟

وجہ تو بہت خاص ہے بے بی لیکن کیا کروں ڈرتا ہوں کہی تم برا نامان جاو۔

ایسا کرو مجھے بتا دو وجہ ۔ ۔ ۔ ؟

ہمدان کرسی کھینچتے ہوئے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے بولا۔

وہ اچانک یہاں آیا اور رملہ اسے دیکھ کر بہت حیران بھی ہوئی اور پر سکون بھی ۔

 کیوں بتاوں میں آپ کو وجہ مسٹر ۔ ۔ ۔ آپ ہوتے کون ہیں؟

یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے ۔ تم دخل اندازی نہ ہی کرو تو بہتر ہے ۔ سینئیر ہو تو اپنی لمٹ می

زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش مت کرو۔

ہم ۔ ۔ ۔ اور کچھ کہنا ہے ؟

ہمدان غصے پر قابو کرتے ہوئے بس اتنا ہی بولا۔

ہاں بہت کچھ کہنا ہے لیکن تم کھسکو یہاں سے ۔

او کے ہمدان کرسی سے اٹھا اور رملہ کی طرف آیا ایک ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھاما اور دوسرے ہاتھ میں اس کا بیگ اٹھائے چل دیا اور دوسری میز سے اپنا بیگ بھی اٹھائے گراونڈ کی

طرف بڑھ گیا۔

رملہ بس دیکھتی ہی رہ گئی ۔

کچھ بولنے کی ہمت ہی نہی کر سکی جبکہ ہمدان کا لیکچر جاری رہا۔ بہت ہی آوارہ قسم کے لڑکے ہیں یہاں آپ کو اپنی حفاظت کرنی چاہیے ۔

ضروری نہی ہر خوش شکل خوش اخلاق بھی ہو ۔ جہاں اکیلی لڑکی دیکھی چانس مارنا شروع کر

دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ رملہ کا ہاتھ تھام چلتا گیا۔

آپ بھی تو وہی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ آخر کار رملہ بول ہی پڑی کیونکہ اردگرد سے گزرنے والے سٹوڈنٹس ان دونوں پر طرح طرح کے کمنٹس پاس کر رہے تھے ۔

کیا ۔۔۔

رملہ کی بات پر ہمدان رک کر پلٹ گیا ۔

موقع کا ایڈوانٹیج اٹھا رہے ہیں آپ بھی ۔ ۔ ۔ کس کی اجازت سے آپ نے مجھے ہاتھ لگا یا ؟

I am Sorry

ہمدان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو تیزی سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس کا بیگ اس کی

طرف بڑھا دیا ۔

میں تو بس آپ کو پروٹیکٹ کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ شر مندگی سے بولا ۔

اوہ تو آپ کی نظر میں اسے پروٹیکٹ کرنا کہتے ہیں ؟

اگر آپ کی ہونے والی بیوی دیکھ لیتی تو جانتے ہیں کیا ہو سکتا تھا ؟

ایک اور بہتان لگ سکتا تھا مجھ پر ۔۔۔ پہلے تو فون چوری کا الزام لگا تھا مگر اس بار وہ یہ سمجھتی کہ میں آپ کو اس سے چھینے کی کوشش کر رہی ہو ۔

وہ یہاں نہی ہے آپ اس کی فکر نہی کریں اور پلیز مجھے غلط مت سمجھیں ۔ ۔ ۔ ہمدان نے جیسے التجا کی د نا جانے کیوں وہ اس عام سی لڑکی کے لیے اتنا نڈھال ہو رہا تھا اسے واقعی سمجھ نہی آرہی تھی کہ ایسا کیوں کیا اس نے ۔

مطلب وہ یہاں نہی ہوگی تو آپ اس طرح لڑکیوں کے ہاتھ پکڑتے رہیں گے ؟ بہت ہی بری قسمت پائی ہے اس لڑکی نے ۔ ۔ ۔ آپ نے سوچا وہ یہاں نہی ہے تو کسی کا

بھی ہاتھ تھام لیتا ہوں ۔

ایسا کچھ نہی ہے میں ۔ ۔ ۔ جو بھی نام ہے آپ کا میں تو بس مدد کر رہا تھا آپ کی اور کوئی

پلان نہی تھا میرا ۔

Share With Friends on Facebook

Updated: June 22, 2025 — 10:54 am

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *