
میں ابھی طلاق چاہتی ہوں، آپ نے سنا وہ جو آج ہی اس کی شادی میں آئی تھی، 16 سنگھار کیے اور اس کی سیج سجائے بیٹھی تھی، منہ دکھائی میں وہ اس سے طلاق مانگ رہی تھی۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم آج کی رات مجھ سے طلاق مانگو گے اور میں تمہیں طلاق دے دوں گی؟ کیا سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے اور اسے بازو سے تھامے پکڑتے ہوئے چھوڑ دیا جبکہ شانزے کا دل پسلیاں توڑ کر بری طرح باہر آنے کو مچلا رہا تھا۔ میں آپ سے کہہ رہی ہوں، مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ، مجھے طلاق دیں۔ غزان بھائی، وہ بے دھیانی میں اسے بھائی کہہ گئی تھی کہ اگلے ہی پل غزان اس کے ہونٹوں پر جھکا اور اسے اس بات کی سخت سزا دے گیا۔ وہ بے آواز ماحی کی طرح تڑپ رہی تھی، بری طرح جھٹپٹے ہوئے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہچکیاں لے گئی۔ غزان اپنی شدت سے اسے بھائی کا مطلب اچھی طرح سمجھاتا ہوا پیچھے ہٹا اور کہا: “آئندہ اس زبان کو محدود رکھنا، ورنہ نوماہ بعد اپنا بچہ تمہاری کوکھ سے پیدا کرتے ہوئے تمہیں اچھی طرح سمجھا دوں گا کہ میں تمہارا کیا لگتا ہوں۔” غزان نے اپنی واسکٹ ایک طرف اچھالتے ہوئے اپنی قمیض کے اوپر کے دو بٹن کھولے، اس وقت اسے شدید گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ نوما شانزے اپنے ہونٹوں کو رگڑتی ہوئی اس کی جانب طنزیہ انداز میں دیکھنے لگی: “یہاں نو دن کس نے دیکھے ہیں؟ آپ نو ماں کی بات کر رہے ہیں۔” شانزے کے اپنے ہونٹوں کو رگڑ کر اس کا دیا ہوا لمس مٹاتے دیکھ کر وہ انگاروں میں جلا تھا، اور اگلے ہی پل پھر سے اس پر جھکا، اس بار شدید سختی سے اس کی سسکیوں کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ اس کی رُکتی ہوئی سانس کو محسوس کرتے ہوئے وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا: “آئندہ میرا دیا ہوا لمس بھی مٹانے کی کوشش کی تو وہاں وہاں لمس بکھیر دوں گا کہ تم سمیٹ نہیں پاؤ گی۔” اور اسے سخت نظروں سے نوازتے ہوئے جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑ دی۔ “بہت برے ہیں آپ۔” غزان کے اس انداز پر وہ اس کی جانب شکوہ کنایہ انداز میں دیکھتے ہوئے بولی، جبکہ غزان نے سر جھٹکا اور باتھ روم کا رخ کیا۔ اس کے جاتے ہی شانزے غصے سے لہنگا سنبھالتی ہوئی بستر پر ڈھیر ہو گئی۔ اسے اپنے ہونٹوں پر شدید جلن محسوس ہو رہی تھی، ابھی تک یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ غزان نے اسے اتنی بے دردی سے اپنا نشانہ بنایا۔ وہ تو جب بھی سامنے آتا تھا، بہت شائستہ طریقے سے بات کرتا تھا، نرم لہجہ استعمال کرتا تھا، بلکہ زندگی میں کبھی غزان نے اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ اور آج جب وہ ایک حادثے کی وجہ سے اس کی زندگی میں داخل ہو گئی تھی، تو وہ اپنی شریفانہ طبیعت بھول کر بے باکی پر اتر آیا تھا۔ لیکن شانزے سے بھی سوچ چکی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ جھٹ سے اٹھتی ہوئی وہ ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔ غزان مگل باہر آتے ہوئے کمرے میں اسے ناپاکر ڈریسنگ روم کا بند دروازہ دیکھا، غصے سے گہری سانسیں بھرتے ہوئے اور دراز سے سگریٹ کی ڈبیا نکالتے ہوئے لائٹر سے سگریٹ سلگا کر بالکونی میں چلا گیا۔ آج سب کچھ کتنی جلدی جلدی ہوا تھا، اسے تو اب تک یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔ شام سے اپنی خالہ کے بیٹے فرزاد کی بچپن کی منگیتر تھی، اور یہ رشتہ اس کے والدین کی وفات کے بعد بھی اس کی خالہ نے جوڑے رکھا، کیونکہ وہ شانزے سے بہت پیار کرتی تھی۔ شانزےاپنی خالہ کی بہت عزت اور احترام کرتی تھی، لیکن فرزاد سے کبھی آزاد نہیں ہوئی۔ اس منگنی کو اس نے کبھی اتنی اہمیت نہیں دی تھی کہ وہ فرزاد کے بارے میں کوئی خواب سجاتی، لیکن ایک سکون تھا کہ شادی کے بعد اس کا بھی اپنا گھر ہوگا۔ لیکن یہ سکون آج اس کی شادی والے دن ہی بے سکونی میں بدل گیا، کیونکہ شانزےکی بارات نہیں آئی تھی۔ فرزاد کسی اور لڑکی سے محبت کرتا تھا، اس لیے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس کی والدہ بہت روئیں، اشفاق مغل کے آگے ہاتھ جوڑے اپنے بیٹے کے کیے کی معافی بھی مانگی، لیکن شانزےکا سامنا نہ کر سکی۔ شانزےاپنے تایا جان اشفاق مغل کو بہت عزیز تھی، اور اس کے ساتھ یہ سب ہوتے دیکھ کر وہ برداشت نہ کر پائے۔ ان کے سامنے ان کا آخری سہارا، آخری امید، ان کا بیٹا غزان مغل آیا تھا۔ غزان کو اچانک ہی اشفاق صاحب نے اس نکاح کے لیے کہا تو وہ گم سم ہو گیا، لیکن پھر اپنے ابّا کی عزت اور ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس نکاح کے لیے مان گیا۔ لیکن مسز شازیہ بری طرح پیچ و تاب کھاتی رہ گئیں۔ غزان کے لیے انہوں نے اپنی بہن غزالہ کے گھر مہروک کا رشتہ طے کیا تھا۔ وہ اپنی بہن کی بیٹی لانا چاہتی تھیں، اور اس بات سے سب واقف تھے۔ لیکن قسمت نے ایسا کھیل کھیلا کہ کوئی کچھ کر ہی نہ سکا۔ جوڑا شانزےسے بنا تھا، تو مہروک سے کیسے شادی کر لیتا۔ سگریٹ کو جوتے کے نیچے مسلتے ہوئے اور تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارتے ہوئے وہ گرل پر ہاتھ جمائے کھڑا ہو گیا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے کافی حد تک اسے پرسکون کر دیا تھا۔ اس نے نیچے دیکھا تو اس کی نظر مہروک پر جا ٹھہری۔ اس کی نظریں بھی غزان پر ہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیروں آنسو تھے، جنہیں دیکھ کر غزان نے ہونٹ بھینچے اور شیشے کا دروازہ بند کر دیا، جبکہ مہروک نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے۔ غزان واپس اندر آیا تو نزہت کو بستر پر کمبل منہ تک لپیٹے دیکھ کر وہ ہونٹ بھینچتا ہوا بستر کی جانب بڑھا کہ اسی لمحے شانزےنے کھٹ سے اٹھ کر کہا، “آپ یہاں نہیں سو سکتے۔” “کیوں نہیں سو سکتا؟” وہ اس کی جانب رخ پھیرتے ہوئے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھنے لگا۔ “بس نہیں سو سکتے، آپ یہاں پلیز۔” وہ بے بسی سے بولی۔ “اپنی زبان کو کنٹرول کر لو، شنج۔ میں بہت لحاظ کر رہا ہوں۔ اگر مجھے غصہ آیا تو ساری رات سوچتی رہو گی کہ میں بستر پر کیوں سوئی۔” وہ اپنا تکیہ زور سے پٹکتی ہوئی آنکھیں میچ گئی۔ “میرے اوپر غصہ نہ کریں، آپ غزان۔” پھر سے زبان کے جوہر دکھانے لگی کہ اس کی تیز نظروں کو محسوس کرتے ہوئے وہ یکدم چپ ہو گئی نزہت، پلیز چپ کر کے سو جاؤ۔ میرے دماغ کو مت گھماؤ، ورنہ ایک ہی رات میں ایک سے زیادہ ایک بار اپنا حق لے لوں گا تو تم صبح چلنے کے قابل نہیں رہو گی۔ وہ اتنی بے باک باتیں کر رہا تھا کہ شانزے لاجواب ہو کر خاموش ہو گئی۔ بلکہ وہ تو حیران تھی کہ آخر غزان اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں کیوں کر رہا تھا۔ خیر، اگر کچھ کرنا ہوتا تو وہ بولتا نہیں۔ وہ دل ہی دل میں خود کو مطمئن کرتی ہوئی، خود بھی اس سے فاصلہ رکھتے ہوئے تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ اس بار اسے خاموشی سے لیٹتا دیکھ کر وہ بھی خاموشی سے آنکھیں بند کر کے سو گئی۔ شانزے نے رخ بدل کر مدھم روشنی میں اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔ 28 سالہ غزان مغل خاندان کا ایک بہت ہی خوبصورت مرد تھا، اور خاندان کی بہت سی لڑکیوں کی نظر اس پر تھی۔ لیکن اس کی والدہ نے اس کا نام اپنی بھانجی مہروک کے ساتھ جوڑا تھا، جس پر نہ تو وہ ناراض تھا اور نہ ہی راضی۔ اس کا زیادہ تر دھیان اپنے کاروبار کی طرف تھا۔ اپنے ہوٹل کو وہ دن دگنی، رات چوگنی ترقی دے رہا تھا۔ اس کا کاروبار ہواوں میں اڑ رہا تھا، اور پیسے کی ریل پیل اتنی تھی کہ اس کی تائی امی شازیہ بیگم ہر روز نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے لینا، گھر کی سجاوٹ، قیمتی اور مختلف قسم کی چیزیں گھر میں لاتی رہتی تھیں اور بہت خوش بھی تھیں۔ لیکن ان کی خوشی کو شانزے کے نام کا گرہن لگ چکا تھا۔ وہ ابھی تک پیچ و تاب کھا رہی تھیں کہ اسی دوران اشفاق صاحب اندر داخل ہوئے تو وہ ان کی طرف مڑی، “کیا سوچ کر آپ نے غزان کا نکاح شانزے سے کر دیا؟ آپ جانتے ہیں کہ غزان اور مہروک کا رشتہ طے تھا، تو پھر آپ نے کیسے اس کا نکاح کر دیا؟” وہ تیز لہجے میں بولی۔ آپ اپنے لہجے کو تھوڑا کم رکھیں گی۔” اپنی کلائی سے گھڑی اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی سے کہنا شروع کیامیرے بیٹے کی شادی کر دی آپ نے، مجھے اس فیصلے میں شامل تک کرنا ضروری نہیں سمجھا، اور اب کہہ رہے ہیں میں بھڑکوں بھی نہیں؟” وہ ان کے پاس بیٹھتی ہوئی، دھیمے لیکن مضبوط لہجے میں بولی، “بالکل، آپ جانتے ہیں کہ یہ نکاح وقت کی ضرورت تھا، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ اس لیے بحث مت کریں میرے ساتھ۔ میرا دماغ پہلے ہی بہت بری طرح دکھ رہا ہے۔” اشفاق صاحب نے بیٹ کراون کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا، “یہ نکاح وقت کی ضرورت تھا یا نہیں، لیکن ایک بات آپ یاد رکھیں گا، شانزے کو میں کبھی اپنی بہو تسلیم نہیں کروں گا۔ میرے لیے غزان کی بیوی صرف مہروک ہی بنے گی، اور میں غزان کی مہروک سے دوسری شادی کرواؤں گا۔” صاحب اپنی بیوی کے نادر خیالات سن کر دنگ رہ گئے۔ “آپ ہوش میں تو ہیں؟ کیا بات کر رہی ہیں؟ شانزے آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہو گی، لیکن میرے لیے وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے، اور مجھے دل و جان سے عزیز ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کروں گا۔ آپ اسے میری وارننگ سمجھیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔” وہ غصے سے کہتے ہوئے اٹھے اور باتھ روم کا رخ کر گئے، جبکہ مسز شازیہ نے غصے سے اپنی مٹھی بھینچی۔ وہ خاموش ہو گئی تھی، لیکن ان کے ارادے بہت مضبوط تھے۔خطرناک تھے۔ وہ غزان کو دیکھتے دیکھتے سو گئی تھی۔ اس کی نرم سانسوں کا احساس کرتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھنے لگا۔ وہ بھی تین دن پہلے ہی اپنی اٹھارہویں سالگرہ خوشی سے منا رہی تھی۔ وہ چھوٹی سی معصوم لڑکی غزان کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی، جس کا اندازہ غزان کو بھی نہیں تھا۔ اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کی زندگی ایک ایسی لڑکی سے جوڑ دی جو اسی کے گھر میں رہتی تھی، ہمیشہ اس کی نظروں کے سامنے رہی، لیکن کبھی غزان نے اسے کسی غلط نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن آج تو وہ اس کے ساتھ نکاح ہوتے ہی کیسی جسارت کر گیا تھا۔ غزان نے اپنی آنکھیں بند کیں، “مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نہ جانے وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی۔” غزان دل ہی دل میں سوچتا ہوا اسے دیکھنے لگا۔ “مجھے طلاق چاہیے۔” اس کی کہی ہوئی بات کو یاد کرتے ہوئے اس نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچے۔ “ضروری تھا۔ غزان، آج ہی نکاح ہوا اور آج ہی وہ ہم کلام میں سوچتی ہوئی رخ بدلنے لگی کہ اچانک شانزے نے کر وٹ لی اور اس کی طرف ہوتی ہوئی اس کے قریب ہوئی اور اپنی بازو غزان کے سینے پر رکھ دی۔ اس کا دل ایک دم سے دھڑکا۔ خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے آہستہ سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ پھر قریب ہو گئی۔ اس بار غزان نے جھٹکے سے اس کی بازو ہٹا دی، جس سے اس کی نیند سے بھاری آنکھیں کھل گئیں۔ “سونے دے، تنگ کیوں کر رہے ہو؟” وہ نیند میں ڈوبی آواز میں بولی۔ “تمہارا دل ہے کہ تمہارے ساتھ زبردستی کر کے اپنا حق وصول کروں؟” وہ جو معنی خیز انداز میں کہتا، اسے ایک پل میں ڈرا گیا، لیکن وہ جانتی تھی کہ غزان کبھی بھی اسے اس کی مرضی کے خلاف نہیں چھوئے گا۔ جبکہ یہ سوچتے ہوئے وہ کچھ دیر پہلے اپنے ہونٹوں پر کی گئی اس کی جسارت کو بھول گئی تھی۔ “شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرتے۔” وہ اب بھی آنکھیں بند کیے سادگی اور معصومیت سے بولی۔ “اچھا، تو پھر پیار محبت سے اپنا حق وصول کر لوں گا۔ کیا خیال ہے؟” وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کرتا ہوا اس کی نیند بھگا دی۔ “غزان بھائی۔” وہ بولتے بولتے پھر رک گئی۔ “بولو، بولو نا۔ ویسے بھی میری زبان کچھ میٹھا چاہتی ہے۔” غزان نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ “نہیں، میں کچھ نہیں کہہ رہی۔” اب وہ بری طرح بے چین ہو کر خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی پیچھے ہٹی اور اپنا سر تکیے پر رکھ لیا۔ تو وہ اس کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔ “ہمیں امید ہے کہ آئندہ کے لیے احتیاط کرو گی اور طلاق جیسا لفظ دوبارہ اپنے ہونٹوں پر نہیں لاؤ گی۔ میرے لانے یا نہ لانے سے کیا ہوگا؟ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ کچھ دنوں میں ہی آپ مجھے خود طلاق دے دیں گے۔” وہ پورے یقین کے لہجے میں بولی۔ “اچھا، اور میں ایسا کیوں کرنے لگا؟” غزان اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت اور غصے سے پوچھنے لگا۔ “ٹاٹ میں پیوند اچھا نہیں لگتا۔ مجھے میری حیثیت اور اوقات کا بہت اچھے سے اندازہ ہے۔” وہ درد بھرے لہجے میں بولی۔ غزان کو بہت کچھ بے قرار کر دیا، جس پر غزان صرف ہونٹ بھینچ کر رہ گیا، جبکہ اس کی خاموشی شانزے کو بری طرح تکلیف دے گئی۔ “آنی، پلیز، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہی غزان کی دلہن بنوں گی۔ پھر کیسے آج وہ وعدہ ٹوٹ گیا؟” مہروک کی باتوں پر شازیہ بیگم نے اپنی مٹھی سختی سے بھینچی۔ “تھوڑا صبر کر لو، میری جان۔ یہ سب وقتی ہے۔ کیونکہ غزان اور شانزے کا کوئی جوڑ نہیں۔ دو دن بعد ہی اس رشتے کو نبھانے کا بوجھ جو سر پر چڑھا ہے، وہ اتر جائے گا۔ اور تم دیکھنا، جو جس کا ہوتا ہے، اس سے مل ہی جاتا ہے۔ غزان تمہارا تھا، تمہارا ہے، اور تمہارا ہی رہے گا۔اردو میں ترجمہ: یاد رکھنا، وہ اسے دوبارہ حوصلہ دے رہی تھی۔ مہروک نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا، “چلو، ناشتہ کرو، میری جان۔ اگر ابھی سے ہمت ہار گئی تو آگے کا مقابلہ کیسے کرو گی؟ اور ویسے بھی، اس لڑکی میں اتنی جان نہیں کہ ہمارا مقابلہ کر سکے۔ تو پریشان مت ہو۔” مسز شازیہ نے مسکراتے ہوئے اسے حوصلہ دیا، تو وہ اس بات پر سر ہلا دی۔ اب نکلو باتھ روم سے، یا اندر ہی رہنا ہے؟ آج غزان مسلسل باہر چکر لگا رہا تھا، اور شانزے کو باتھ روم سے نکلتے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ وہ باتھ روم سے نکل ہی نہیں رہی تھی۔ ایسے میں غزان کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا، جبکہ وہ مسلسل ایک جگہ کھڑی اپنی فراک کے ساتھ الجھی ہوئی تھی، جس کی زپ بند ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ شاور لینے کے بعد اس وقت ٹھنڈ سے کانپ بھی رہی تھی، اور اپنی گیلی فراک کو دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ “کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ باہر چلے جاتے اور میں کوئی اور ڈریس الماری سے نکال لیتی۔” ایک بار پھر زپ کے ساتھ الجھتے ہوئے اور بری طرح پریشان ہو کر سوچ رہی تھی۔ “شانزے، میں آخری وارننگ دے رہا ہوں۔ اگر اب بھی تم باہر نہیں آئی تو میں چابی لگا کر دروازہ کھول کر اندر آ جاؤں گا۔ پھر روتی رہنا۔” باہر سے غزان کی غصے بھری آواز سن کر وہ گھبرا گئی۔ اپنا حلق تر کرتے ہوئے آگے بڑھی اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی وہ آگ بگولہ بنے کھڑا تھا۔ “ہٹو، راستے سے۔” اسے بازو سے پکڑ کر دور کھڑا کرتے ہوئے خود باتھ روم کی طرف بڑھا۔ ایک پل کے لیے اس کے قدم رک گئے۔ وہ اپنی ڈھلکی ہوئی فراک کو مشکل سے سنبھالے سینے سے لگی ہوئی تھی، جبکہ اس کی پوری کمر کھلی ہوئی تھی۔ “کیا بے ہودہ پن ہے یہ؟ یہ کون سی ڈریس پہن رکھی ہے تم نے؟” غزان کے خون میں شرارے پھوٹ پڑے۔ وہ گھبرا کر اس کی طرف مڑی۔ “یہ بند نہیں ہو رہی تھی۔” پلکیں اٹھاتے ہوئے جھپکی اور بمشکل بول پائی۔ “بند نہیں ہو رہی تھی، تو کیا اس حالت میں باہر آ جاتی؟” وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا۔ “آپ جائیں نا، باتھ روم میں آپ نے اتنا شور مچا رکھا ہے۔ اب آپ کو جلدی نہیں۔” اور اپنے قریب آتا دیکھ کر بے اختیار اپنے قدم پیچھے لے گئی۔ غزان نے اچانک اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا، اسے تھامتے ہوئے اپنی طرف کھینچا۔ وہ سیدھی اس کے سینے سے لگ گئی۔ دونوں کی دھڑکنوں میں شدید تیزی آ گئی۔ غزان اپنے جذبات پر بمشکل قابو پاتے ہوئے ہاتھ پیچھے لے گیا اور اس کی زپ کو اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے بند کرنے لگا، جبکہ اس دوران دونوں کی نظریں ایک دوسرے میں گڑی ہوئی تھیں۔ کسی نے بھی اپنی پلک نہیں جھپکائی۔ زپ بند کرتے ہوئے اسے آہستہ سے چھوڑ دیا اور بغیر کچھ کہے باتھ روم میں غائب ہو گیا، دروازہ زور سے بند کرتے ہوئے۔ “اف! کتنے غصے والے ہیں یہ۔ میری تو پہلے ہی ان سے جان جاتی تھی۔ اب تو بیوی بن گئی ہوں، ہر وقت غصہ ناک پر رہتا ہے۔ میرا کیا ہو گا؟” وہ اوپر دیکھتے ہوئے گہری سانس بھری۔ “فکر کیوں کرتی ہو؟ کون سا یہ رشتہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے؟ تائی جان اتنی صفائی سے اس رشتے کو ختم کریں گی کہ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔” وہ تلخی سے سوچتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ہیئر ڈرائر سے اپنے بالوں کو خشک کرتے ہوئے وہ اردگرد سے بے خبر ہو گئی تھی۔ اس کے لمبے، گہرے بھورے بال اس کی خوبصورتی کا سب سے بڑا حصہ تھے، اور وہ اپنے بالوں سے عشق ہی کرتی تھی۔ اسی وجہ سے شانزے کے بال بے انتہا خوبصورت تھے۔ وہ اردگرد سے بے خبر اپنے بالوں کو سنوار رہی تھی کہ غزان کب اس کے پاس آ کھڑا ہوا، اسے پتا ہی نہ چلا۔ وہ تو تب چوکی جب غزان نے اس کے ہاتھ سے ڈرائر لے لیا۔ “اب ہٹو یہاں سے۔” منہ بناتے ہوئے کہا۔ اب وہ اپنے گیلی بالوں کو خشک کر رہا تھا۔ شانزے کے ماتھے پر بل پڑ گئے، لیکن بغیر کچھ کہے وہ واپس مڑی۔ “کہاں جا رہی ہو؟” اسے دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ کر اس کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔ “باہر، اور کہاں؟ رکو، ایک ساتھ چلتے ہیں۔” وہ ڈرائر کو تیزی سے ادھر ادھر کرتے ہوئے بولا۔ “آپ اتنا وقت لگا رہے ہیں۔ دیکھو تو کتنا وقت ہو گیا ہے، پتا بھی ہے؟ تائی امی کا فون بھی آ گیا ہے۔” “میں نے دیر کرائی ہے یا تم نے جو بعد میں گھس کے جا کر بیٹھ گئے اور نکلنا ہی ضروری نہیں سمجھا؟” وہ اس پر بھڑک اٹھا۔ شانزے نے منہ بسور لیا۔ “چلو اب۔” وہ اس کے لیے کمرے سے باہر نکلا کہ ایک پل کو رکا۔ “اپنا چہرہ درست کرو۔” اس بار گہری نظروں سے اس کا سراپا دیکھتے ہوئے کہا۔ “میری شکل ایسی ہی ہے۔” وہ تڑپ کر بولی۔ غزان نے ماتھے پر بل ڈالے اسے گھورا۔ “شانزے، جتنا کہوں، اتنا کیا کرو۔ مجھے فضول میں بحث کرنے والی تمہاری عادت اچھی نہیں لگتی۔” “مجھے تو آپ سرے سے ہی اچھے نہیں لگتے۔” بے اختیار شانزے کے منہ سے نکل گیا۔ ایک پل کو خاموشی چھا گئی۔ تمہیں جو اچھا لگتا تھا، اللہ نے وہ تمہاری قسمت میں نہیں لکھا۔ اس لیے زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں، میرے سامنے۔ اردو ترجمہ: اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ وہ بھی حساب پورا کرتے ہوئے باہر نکلا تو شانزے نے اس کی بات پر اپنے آنسو روکے اور اس کے پیچھے ہی نکلی۔ ناشتے کی میز پر اشفاق صاحب، شازیہ بیگم اور مہروک بھی موجود تھیں۔ اس کا خاندان تو جا چکا تھا، لیکن اس کا یہاں کتنے دنوں کا قیام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ اپنی تائی امی کی نظروں سے بچتی ہوئی غزان کے پیچھے چھپ گئی۔ غزان نے مشترکہ سلام کیا تو اشفاق صاحب نے جواب دیتے ہوئے محبت سے بیٹے کو گلے لگا لیا اور شانزے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ دونوں ایک ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ شانزے کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ “شانزے بیٹا، ناشتہ کرو۔” اسے ایسے ہی بیٹھا دیکھ کر اشفاق صاحب نے مخاطب کیا تو وہ گھبرا کر ناشتے کی پلیٹ اپنے سامنے رکھتے ہوئے ایک نظر اپنی تائی امی کو دیکھی، جو اسے گھور رہی تھیں۔ پھر نظریں جھکاتے ہوئے پلیٹ سے آملیٹ اور بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنانے لگی، جبکہ اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پاس بیٹھے غزان سے چھپی نہ رہ سکی۔ “ارے بیٹا، آج تو آپ کا ریسیپشن ہے، تو آپ کا ہوٹل جانا ضروری ہے۔ آج آف لے لو۔” اشفاق صاحب نے غزان کی میٹنگ کی بات سن کر نرمی سے کہا۔ “نہیں بابا، جانا ضروری ہے۔ اور یہ ریسیپشن پری پلان تو تھا نہیں، ورنہ میٹنگ نہ رکھتا۔ لیکن میں جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔” مہمان نوازی بھرے انداز میں کہتے ہوئے اٹھا۔ شانزےبھی اس کے پیچھے ہی اٹھی۔ “تم کہاں جا رہی ہو؟” غزان نے اسے ٹوکا۔ “میں آپ کو تیاری میں مدد کرنے جا رہی ہوں۔” شانزے کا سارا کانفڈینس کہیں دور جا چکا تھا۔ جس انداز سے وہ غزان کے ساتھ کمرے میں بات کرتی تھی، اس وقت سامنے کھڑی شانزے تو بالکل ہی مختلف تھی۔ “میں چھوٹا سا بچہ تو نہیں، جسے تیاری کے لیے تمہاری ضرورت پڑے۔ خاموشی سے بیٹھ کر اپنا ناشتہ مکمل کرو۔” اور اسے دھیمے لہجے میں ڈانٹا۔ وہاں سے چلا گیا۔ اشفاق صاحب کو بھی کال آنے لگی تو وہ بھی اٹھ گئے۔ اب میز پر شازیہ بیگم، مہروک اور شانزے تھیں۔ شانزے ڈرتے ڈرتے واپس بیٹھی اور سر جھکائے اپنی پلیٹ سے ناشتہ کرنے لگی۔ “یہ سب عارضی ہے۔ اس سے زیادہ اہمیت مت سمجھ لینا۔” شازیہ بیگم نے اپنی کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اسے بے چین کر دیا۔ شانزے ہونٹ بھینچے رہ گئی۔ “بہتر ہوگا کہ ایسے حالات پیدا کرو کہ غزان خود تمہیں چھوڑ دے۔ ورنہ اگر میں کچھ کرنے پر آ گئی تو تمہارے پاس رونے کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا، اور نہ ہی کھونے کے لیے۔” اور اسے سرد لہجے میں دھمکی دے رہی تھیں۔ شانزے نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ “تائی امی، میرا کیا قصور ہے جو آپ مجھ سے اس قدر نفرت کرتی ہیں؟” آنسوؤں کے گولے کی وجہ سے بات مکمل نہ کر پائی۔ “نفرت بہت چھوٹا لفظ ہے، شانزے۔ میں تمہاری شکل بھی گھر میں برداشت نہیں کر سکتی۔ کیا میں اپنے بیٹے کے ساتھ تمہیں ساری زندگی دیکھوں؟ کبھی نہیں۔ میرے وار سہنے کی تم میں طاقت نہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ میرے بیٹے کی زندگی سے خود ہی نکل جاؤ۔” شانزے نے بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی کہ کمرے سے نکلتے ہوئے غزان کے ساتھ بری طرح ٹکرا گئی۔ غزان نے اسے ٹکرا کر پیچھے گرتے دیکھا تو اس کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ سیدھی اس کے سینے سے ٹکرائی۔ “کس ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو؟” وہ شانزے سے بات نہ بن پائی۔ “خود اس کی زندگی سے نکل جاؤ تو بہتر ہے، ورنہ میرے وار سہنے کی طاقت تم میں نہیں۔” وہ ہونٹ بھینچے ایک طرف ہٹتی ہوئی غزان کو جانے کا راستہ دے گئی۔ “امید کرتا ہوں کوئی گڑبڑ نہیں کرو گی۔ سکون سے رہو گی اور سب کو رہنے دو گی۔” اور دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے سیڑھیاں نیچے اتر گیا۔ اس کی چوڑی پشت دیکھتی رہ گئی۔ “آپ کی والدہ محترمہ نے سکون سے رہنے دیا تو سکون سے رہوں گی نا۔” وہ تلخی سے سوچتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ ایک عجیب دو راہے پر زندگی لے آئی تھی۔ نہ وہ آگے بڑھ پا رہی تھی، نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔ ولیمہ کی تقریب غزان نے اپنے ہوٹل میں ہی منعقد کرائی تھی۔ تمام انتظامات بھی خود دیکھے۔ اتنی کم نوٹس پر وہ خود ہی کچھ کر سکتا تھا۔ اسٹیج کو اصل پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ غزان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، جسے کچھ ہی دیر بعد شانزے چھیننے والی تھی۔ وہ اسٹیج پر دلہن بنی غزان کے ساتھ بیٹھی ایک کم سن اپسرا لگ رہی تھی، جس کے حسن کے قصیدے ہر کوئی پڑھ رہا تھا۔ اور مہروک غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ خوبصورت تو وہ بھی تھی، لیکن وہ غزان کی ہم عمر تھی، جبکہ شانزے غزان سے دس سال چھوٹی تھی۔ میک اپ آرٹسٹ نے اس کا میک اپ بھی اس انداز میں کیا تھا کہ وہ اپنی عمر سے بڑی لگ بھی نہیں رہی تھی۔ اس کا اصل روپ اسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا۔ اس کی ساری دوستیاں اس وقت اس کے پاس اسٹیج پر موجود تھیں اور اسے چھیڑ رہی تھیں۔ وہ ان کی باتوں کا بھی کم ہی جواب دے رہی تھی۔ “شمعہ، مجھے باتھ روم جانا ہے۔” اچانک وہ اپنی ایک دوست کے کان میں جھانک کر بولی۔ اسے چوکا دینے کے بعد وہ اس کے ساتھ اسٹیج سے اتری اور باتھ روم کا رخ کیا۔ شانزے کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اب وہ جو کرنے کا سوچ رہی تھی، اسے سوچ کر ہی اس کی جان نکلنے لگی تھی۔ نہ جانے اس کے اس عمل سے غزان کا رد عمل کیا ہوگا۔ لیکن اسے یہ سب کرنا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے باتھ روم سے باہر نکلی اور شمعہ کے ساتھ چلتی ہوئی اسٹیج کی طرف جا رہی تھی کہ ایک لمحے کو اس نے شمعہ کا ہاتھ چھوڑا۔ سب طرف نگاہ دوڑائی اور اگلے ہی پل سامنے سے آتے غزان کو دیکھا۔ سارے الفاظ حلق میں ہی دم توڑنے لگے۔ سب کی نظریں دونوں پر اٹھیں۔ شازیہ بیگم دھماکے کا انتظار کر رہی تھیں، لیکن شانزے کی خاموشی انہیں تیزی دلا رہی تھی۔ “مجھے آپ سب کے سامنے غزان مغل سے کچھ کہنا ہے۔” اس کی بات پر سب نے انتہائی گہری نظروں سے انہیں دیکھا۔ “جو بھی کہنا ہے، سوچ سمجھ کر کہنا۔ بند کمرے میں کی گئی غلطی کی معافی ہے، سب کے سامنے کیے گئے گناہ کی معافی نہیں۔ سزا بھی ملے گی۔” وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کے ارادے بھانپ چکا تھا، اس لیے سرگوشی کے انداز میں سخت لہجے میں بولا۔ شانزے کا روم روم سلگ اٹھا۔ “میںاردو میں ترجمہ: “میں آپ سے نہیں ڈرتی، سمجھے؟ مجھے غزان مغل کے ساتھ نہیں رہنا۔ مجھے آپ سے بکواس بند کرو۔” شانزے اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کی کلائی سختی سے پکڑ لی۔ شانزے کا سارا خون سکڑ کر چہرے پر آ گیا۔ دل ہی دل میں وہ غزان سے بری طرح خوف کھا گئی۔ “مجھے چھوڑ دو۔” اسے کلائی سے پکڑے ہوئے ہال سے باہر لے جانے لگا۔ کچھ نے حیرت سے، کچھ نے طنز سے، اور کچھ نے بے یقینی سے ان دونوں کو دیکھا جو ہال سے باہر نکل گئے تھے۔ غزان اسے لے کر ہوٹل کی پچھلی طرف آ گیا، جہاں اس وقت اندھیرا تھا اور کوئی نہیں تھا۔ وہاں لے جا کر اس کا ہاتھ جھٹکے سے چھوڑ دیا۔ وہ گھومتی ہوئی اس کے سامنے کھڑی ہو گئی، گہری سانسیں لیتی ہوئی خوف سے اسے دیکھنے لگی، جو اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ “کیا بکواس کرنے لگی تھی وہاں اندر؟” وہ بولا۔ شانزے نے ڈر کر اپنی آنکھیں سختی سے بند کر لیں۔ “آنکھیں کھولو اور میری بات کا جواب دو۔” وہ اسے کن سے جکڑے چلایا۔ شانزے کا پورا وجود جھنجھلاہٹ میں آ گیا۔ اس کے پاس غزان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے اس کی کالی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ “بولو، ورنہ تمہاری جان لے لوں گا۔” آج پہلی بار وہ غزان کو اس قدر غصے میں دیکھ رہی تھی۔ “میں نے سب کے سامنے آج آپ سے طلاق…” وہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ “بولو، کیوں رک گئی؟” وہ دانت چباتے ہوئے اسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔ “مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔ مجھے الگ ہونا ہے۔ آپ کو مجھے چھوڑنا ہوگا، ورنہ…” شانزے بھی اب بنا سوچے سمجھے اپنے لہجے میں واپس آ گئی۔ “ورنہ کیا؟” اس نے اکسایا۔ “ورنہ میں سب کو چلا چلا کر بتاؤں گی کہ آپ نامرد ہیں۔ آپ کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ مجھے مطمئن نہیں کر سکے، اس لیے مجھے آپ سے…” وہ بے خوف بغیر رکے بولتی چلی جا رہی تھی کہ اچانک رک گئی۔ اپنی شرم کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اسے یہ تک پتا نہیں چلا کہ وہ جس شخص کے بارے میں بات کر رہی ہے، وہ سامنے ہی کھڑا ہے، بالکل خاموشی سے اور اسے سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شانزے کے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اب غزان اسے نہیں چھوڑے گا اور سخت سزا دے گا۔ اس کی گہری خاموشی پر اس نے لرزتے ہوئے غزان کی آنکھوں میں دیکھا۔ “ڈیل ہے؟” اس کی ایک لفظی بات پر شانزے کا تھر تھرانا ایک پل کو رک گیا۔ ایسا لگا جیسے وقت ہی تھم گیا ہو۔ وہ دو قدم اس کے قریب ہوتے ہوئے سپاٹ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔ “ڈیل ہے۔ تم اندر جاؤ اور سب کے سامنے یہ الفاظ کہو۔ غزان مغل کا وعدہ ہے، تمہیں یہیں طلاق دے کر جاؤں گا۔” وہ اسے صاف شفاف لہجے میں کہتا ہوا اس کی سانسیں کھینچ گیا۔ “چلو۔” وہ اس کی کلائی کھینچتے ہوئے آگے بڑھا کہ ایک پل کو رکا۔ شانزے اس کے سینے سے آ کر ٹکرائی۔ “لیکن یاد رکھنا، اگر نہ کہہ سکی تو آج کی رات میں بہت اچھے طریقے سے ثابت کروں گا کہ میں کتنا مرد ہوں اور کس کس انداز سے تمہیں آج مطمئن کروں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکو گی۔ آخری موقع دے رہا ہوں، جاؤ، بولو اور ہو جاؤ آزاد۔ بچا لو خود کو مجھ سے۔” وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بول رہا تھا۔ شانزے کی آنکھیں بھیگتی جا رہی تھیں۔ وہ اسے سختی سے کلائی سے پکڑے ہوئے ہال کی طرف واپس لوٹا۔ شانزے کی ٹانگوں سے جان نکل رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی سب کے سامنے ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتی تھی۔ ان کے واپس لوٹنے پر سب کی نظریں پھر ان پر جا ٹھہریں۔ غزان نے ہونٹ بھینچے اسے دیکھا، جس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔ “بولو۔” وہ دھیمے لیکن سخت لہجے میں بولا۔ شانزے کی سانسیں گہری ہو گئیں۔ اس کی زبان تالو سے جا لگی۔ اتنی بڑی بات وہ صرف غزان کے سامنے ہی بول پائی۔ وہ بھی نہ جانے کہاں سے اتنی ہمت لے آئی۔ ایسی بھری محفل میں اپنے شوہر پر الزام لگانا، وہ بھی اس صورت میں جب اس کی بارات نہ آئی اور اس نے اس سے نکاح کر کے اسے بدنامی سے بچایا۔ آج وہ سب کے سامنے بلاوجہ اسے بدنام کیسے کر دیتی؟ اس کے دماغ میں شدید ٹیس اٹھی۔ وہ اپنی تائی امی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے مجبور ہوئی تھی۔ “اگر تم نے آج کے دن میرے بیٹے سے الگ ہونے کا فیصلہ نہ کیا تو تمہیں بھری محفل میں ذلیل و خوار کروں گی۔ میرے غزان سے دور ہو جاؤ۔ بے شک اس پر الزام لگاؤ۔ ہم جانتے ہیں، رات بھر وہ تمہارے قریب نہیں آیا، اس لیے اس پر الزام لگا دو کہ وہ نامرد ہے۔” اس کے کانوں میں مہروک کی بے جا گھسپٹ سنائی دی۔ “سب کے سامنے یہ الفاظ کہو۔ غزان مغل کا وعدہ ہے، تمہیں یہیں طلاق دے کر جاؤں گا۔” شانزے نے سامنے کھڑے غزان کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں سب الفاظ گڈمڈ ہو رہے تھے۔ “اگر نہ کہہ سکی تو آج کی رات میں بہت اچھے طریقے سے ثابت کروں گا کہ میں کتنا مرد ہوں اور کس کس انداز سے تمہیں آج مطمئن کروں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکو گی۔ آخری موقع دے رہا ہوں، بولو اور ہو جاؤ آزاد۔ بچا لو خود کو مجھ سے۔” اور اگلے ہی پل وہ چکرا کر گر گئی، لیکن غزان کی باہوں نے اسے سنبھال لیا۔ وہ جانتا تھا کہ شانزے میں اتنی جرات ہی نہیں کہ ایسی کوئی بات سب کے سامنے کہہ سکے۔ لیکن اس نے غزان کے سامنے بھی ایسے الفاظ کیسے کہے، اس کا حساب تو وہ آج رات لینے ہی والا تھا۔ “آنی، وہ لوگ ابھی تک گھر نہیں آئے۔ نہ جانے کہاں ہیں۔ کہیں وہ ایک دوسرے کے قریب نہ ہو جائیں۔” اس وقت وہ سب واپس حویلی آ چکے تھے۔ ان سب کو واپس آئے دو گھنٹے سے بھی زیادہ کا وقت ہو چکا تھا، لیکن غزان اور شانزے ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔ غزان اس کے بے ہوش وجود کو اٹھائے ہوئے ہال سے جو نکلا تھا، ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا۔ “اشفاق صاحب، آپ غزان سے پوچھیں نا، وہ کہاں ہے؟ ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا؟” اشفاق صاحب کو اندر آتے دیکھ کر مسز شازیہ نے بے چینی سے پوچھا۔ “موسم خرابی کی وجہ سے وہ شانزے کو اپنے فارم ہاؤس لے گیا ہے۔” “فارم ہاؤس؟ لیکن کیوں؟” وہ بھڑک اٹھی۔ “کیوں کا کیا مطلب؟ اس کا دل کیا، وہ لے گیا۔ شانزے اس کی بیوی ہے، وہ لے جا سکتا ہے جہاں چاہے، جہاں اس کی مرضی ہو۔ ویسے بھی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، تو کوئی قباحت نہیں اس میں۔ میرے خیال سے رات بہت ہو گئی ہے، آپ لوگوں کو بھی اب آرام کرنا چاہیے۔” وہ دونوں کو ایک تیز نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ دیکھا آپ نے؟ اب وہ وہاں فارم ہاؤس میں ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں گے، اور ہم یہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جائیں گے۔ مہروک رو پڑی۔ اردو ترجمہ: مجھے پورا یقین تھا کہ آج وہ غزان کی زندگی سے نکل جائے گی، لیکن وہ بولنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو گئی۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ خود کو بے حد بے بس محسوس کر رہی تھی۔ اگر وہ حویلی آ جاتے تو وہ کچھ نہ کچھ کر کے دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی، لیکن اب وہ صرف رو ہی سکتی تھی اور مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اسے ہوش آیا۔ وہ کسمسا کر اٹھی، اپنا سر تھامتے ہوئے اس نے سامنے سوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے غزان کو دیکھا، جو گہری سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ بلکہ دیکھنے سے زیادہ گھور رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک جلتی ہوئی سگریٹ تھی، جبکہ سامنے ڈھیروں جلی ہوئی سگریٹوں کے ٹکڑے تھے اور کچھ باہر گرے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل ایک گھنٹے سے سگریٹ پی رہا تھا۔ شانزے کا دل دھک سے رہ گیا، جبکہ سانس سینے میں اٹک گئی۔ ایک بار پھر اس کے الفاظ یاد آئے تو شانزے نے ہمت جمع کرتے ہوئے بستر سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی، لیکن دروازہ لاک تھا۔ وہ بار بار لاک کو گھما رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر گر رہے تھے۔ اچانک زور سے بجلی کڑکی تو وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر چلائی۔ اس وقت اس پر غزان کا اتنا خوف چھایا ہوا تھا کہ وہ بہت بری طرح لرز رہی تھی۔ اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنتے ہوئے اس کے کانپنے میں اضافہ ہو گیا۔ غزان نے جھٹکے سے اس کا رخ اپنی طرف پھیرا تو وہ دروازے کے ساتھ جا سمائی۔ پلیز، مجھے مت مارنا۔ اسے لگا کہ غزان اس پر ہاتھ اٹھائے گا، لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ غزان کے ارادے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اس کے سر سے پاؤں تک گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے اور جھٹکے سے اس کا دوپٹہ اتار کر دور پھینک دیا۔ دوپٹہ پنوں کے ساتھ اس کے بالوں میں اٹیچ تھا، کھینچنے سے بہت سختی سے کھینچا گیا کہ وہ تڑپ کر رہ گئی۔ کہاں بھاگ رہی ہو؟ کہا تھا نا، آج رات بتاؤں گا میری مردانگی۔ پلیز، غزان، مجھے معاف کر دو۔ میں کبھی شانزے نے روتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ ایک لمحے کو غزان کا دل پسیج گیا، لیکن اگلے ہی لمحے اس کے الفاظ یاد کرتے ہوئے اس کے دماغ میں پھر زہر اُتر آیا۔ “تمہیں معاف کرنے کا مطلب ہے تمہیں دوبارہ موقع فراہم کرنا، جو تم آج نہیں کر سکی، وہ تم آگے کر سکتی ہو۔” غزان نے کھینچ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی مدھم چلتی سانسیں مزید مدھم ہو گئیں۔ “میں وعدہ کرتی ہوں، میں کبھی ایسا نہیں بولوں گی۔” وہ آنسو روکتے ہوئے بولی۔ اگلے ہی لمحے وہ اسے بستر پر پٹخ دیا۔ وہ سراسیمہ کی حالت میں پیچھے ہٹتی ہوئی بیڈ کے کنارے سے جا لگی۔ “میرے ساتھ برا مت کرو۔” وہ غزان کو شرٹ لیس دیکھ کر اب باقاعدہ رونے لگی تھی۔ “جو تم نے آج میرے ساتھ کیا، اس کا کیا؟” غزان نے تلخی سے کہا۔ اس پر سایہ فگن ہوا۔ اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے دونوں ہاتھوں کو اوپر تکیے پر پن کرتے ہوئے ایک ہی لمحے میں وہ اس پر جھک گیا۔ “میں مر جاؤں گی، غزان۔” وہ بمشکل سانس لیتے ہوئے غزان کو انگاروں پر گھسیٹ رہی تھی۔ “کیا میں مرا ہوا ہوں تمہاری باتوں سے؟” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ وہ آنکھیں سختی سے بند کرتے ہوئے اپنے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست کر گئی۔ وہ جان گئی تھی کہ اب راہِ فرار نہیں۔ اس سالم انسان سے اب کوئی رحم کی بھیک مانگنا بیکار تھی، اس لیے خود کو ہمت دیتے ہوئے اور اس کی دی ہوئی سزا کو بھگتنے کے لیے خود کو تیار کرنے لگی۔ اور پھر اگلے ہی لمحے غزان اس کی گردن پر جھک گیا۔ وہ اپنی سانس روک کر سزا کو سہہ گئی، بنا ایک سسکی لیے۔ غزان نے اوپر ہوتے ہوئے اس کی بندپتا نہیں، اس لڑکی نے وہ سب کیوں نہیں کہا آنکھوں کو دیکھا اُس نے اپنا پورا جسم اکڑا لیا وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ غزان لائٹس آف کرتے اُس پر اور خود پر کمبل ڈالے اُس کو ہر پردے سے آزاد کر گیا۔ دھیرے سے اُس کے گالوں پر لب رکھتے وہ اُس پر اپنا لمس چھوڑ گیا۔ شانزے سے سانس لو، وہ دھیرے سے اُسے پکار رہا تھا جو اپنا سانس روکے ہوئی تھی۔ شانزے سے سانس لو، ورنہ میں اپنے طریقے سے تمہاری سانسیں کھینچ لوں گا۔ وہ سرگوشی کے انداز میں بولتا اُس سے بہت کچھ باور کرا گیا۔ وہ گہری سانسیں بھرتی اندھیرے میں غزان کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ غزان نے ڈِم لائٹس آن کیں تو اُس کی ہرنی سی آنکھیں دکھائی دیں۔ کیا ہوا اگر اتنا ہی ڈر تھا میری قربت کا تو ایسے کام کرتی ہی کیوں ہو؟ اب کی بار غزان کا لہجہ نرمی لیے ہوئے تھا۔ معاف کر دو، وہی رُکا ہوا ڈرا ہوا لہجہ، لیکن غزان کی نرمی پر وہ اپنے لب وا کر گئی۔ معافی چاہیے۔ وہ گمبھیر لہجے میں بولتے ایک بار پھر اُس پر جھکا تھا۔ شانز کا دل ایک الگ ہی لے میں دھڑکا۔ وہ تو سن ہی ہو گئی۔ بتاؤ نا، معافی چاہیے؟ وہ بےباکی سے خود کا سارا وزن شانز پر ڈال گیا۔ اُس کی نازک مہسوس کرتے اُس کے دل میں انگنت جذبات جاگے۔ شانز نے اس بات میں سر ہلا دیا۔ پھر اس قربت میں میرا ساتھ دو، مجھے بھی سکون پہنچاؤ اور خود بھی پُر سکون ہو جاؤ۔ وہ اپنی محبت کی باتوں سے اُس کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھا گیا تھا۔ غزان، یہ وہ بمشکل اُس کا آدھا نام پکار پائی۔ دور نہیں جاؤں گا، شانزے سے وہ گہری سانسیں بھرتا اُس کو اپنی حالت نہیں سمجھا پا رہا تھا۔ مجھے ہٹ مت، وہ پھر سے ڈر رہی تھی۔ نہیں کروں گا۔ وہ ایک بار پھر اُس پر جھکا، نرمی سے اُس کی سانسوں کو ہیل کرنے لگا۔ وہ ایک دم سے جنون ہونے لگا کہ شانز کی سانس ہی رک گئی۔ اُس کی دونوں کلائیاں چھوڑتے اب اپنے ہاتھ اُس کی دھڑکنوں پر لے آیا۔ وہ سسکیاں بھر رہی تھی جبکہ دھیرے دھیرے اپنی شدت میں اضافہ کیے جا رہا تھا۔ وہ بہت محبت سے اُسے سمٹے ہوئے اُس کی گردن میں اپنا چہرہ چھپا گیا۔ نہیں دے رہا تکلیف، اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ اُس کو اپنے سینے میں بچھا کر دھیرے سے اُس کے کانوں میں سرگوشی کرتے ایک بار پھر اُس کی گردن میں منہ چھپا گیا۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ باہر برستی بارش اور اندر بستر پر موجود اُن کے گرم جسم ایک دوسرے کو مکمل پسینے سے شرابور کر چکے تھے۔ غزان کے جسم کی تپش میں شانز کو اپنا پورا جسم لپٹا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ رہی سہی کسر روم ہیٹر نے نکال دی تھی۔ شانز، ریلیکس یور باڈی، وہ بہت نرمی سے کہتے اُس پر چھائے تو شانز کی سسکی نکل گئی۔ وہ سانس روکے غزان کو دیکھتی رہ گئی۔ اب ایسے دیکھو گی تو شدت کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے گی اور تمہاری نازک چاند سہ نہیں پائے گی۔ وہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے بہت محبت سے گویا ہوئے۔ آپ نے کہا تھا ہرٹ نہیں کروں گے، وہ معصومیت سے بولتی غزان کے دل میں گھر کرتی جا رہی تھی۔ نہیں کر رہا یار، صرف سیٹسفائی کر رہا ہوں تمہیں۔ اُسے ایکانک وِن کرتا اور اُس پر چھایا چلا گیا۔ شانزے سے کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، جس سے غزان مزید مدہوش ہوتا اُس کو اپنی باہوں میں سمٹ چلا گیا۔ اُسے شانزے سے کی حرکات پر بےانتہا غصہ تھا اور اُس کو سزا بھی دینا چاہتا تھا۔ قربت کی ایسی مار مارنا چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ اُس کے ساتھ اس طرح کی زبان استعمال کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ پر اُس کا ڈر اور خوف دیکھ کر اُس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ اُسے اتنا خوف کھا رہی تھی کہ غزان کو خود کو نارمل کرنا پڑا۔ وہ پہلی بار اُس کے قریب جا رہا تھا اور اپنی قربت کا خوف اُس پر نہیں ڈالنا چاہتا تھا، ورنہ وہ ہمیشہ اُس کی قربت میں خوف ہی کھاتی رہتی۔ وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ وہ بہت چھوٹی تھی، 18 کی ہوئی تھی، ابھی صرف اُسے ایک ہفتہ ہی تو ہوا تھا۔ ایسے میں ایک مرد کی جاندار قربت ہی سہہ جاتی تو بہت تھا، نہ کہ غصے بھری قربت سہہ سکتی تھی۔ مہروک کی ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔ اُس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر غزان کے نمبر پر تین سے چار بار کالز بھی کیں، لیکن اُس کا نمبر بند تھا۔ رات بھر رونے سے اُس کی آنکھیں سوج گئیں۔ صبح شازیہ بیگم کو دیکھتی اور اُن کے پاس آئی، جو کچن کی جانب بڑھتے ملازم سے ناشتہ لگوانے لگی تھی۔ آنی، گاجی نہیں آیا؟ وہ اُس کے ساتھ اپنا رشتہ شروع کر چکا ہو گا۔ مہروک ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ تو اب کیا ماتم بناؤں؟ شازیہ بیگم رات بھر ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں سکی تھی۔ اوپر سے اب پھر سے مہروک کی وہی باتیں، وہ ضد سی ہونے لگی۔ آنی، آپ کیا بول رہی ہیں؟ آپ تو نہیں چاہتی تھیں کہ شانز اور گاج ایک ہوں، پر ہو گئے نا۔ شازیہ بیگم نے اُس کی بات کاٹی اور گہرا سانس بھرا۔ کچھ باتیں اللہ کی طرف سے ہو جاتی ہیں۔ مہروک، ہم چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں، نہیں بدل سکتے، کیونکہ وہ اوپر والا ہے نا، اُس سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ اگر غزان اور شانز ایک ہو گئے ہیں تو اُن کو پھر کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے بہتر ہے جو جیسا چل رہا ہے، اُسے چلنے دو۔ شازیہ بیگم نے تلخی بھرے لہجے میں کہا۔ آنی، آپ اتنی جلدی بدل جائیں گی، مجھے اندازہ نہیں تھا۔ وہ آنسو پونچھتی زخمی لہجے میں بولی اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔ تو وہ لب پہ چبائے دروازے کو دیکھتی رہ گئی۔ اُن کو تو اب بس ایک ہی فکر ستا رہی تھی کہ یہ نہ ہو شانز غزان کو سب کچھ بتا دے۔ ایسے میں غزان اُن سے بدگمان ہو جائے گا، اور وہ ہرگز نہیں چاہتی تھیں۔ صبح آنکھ کھولی تو شانز کو یوں لگا جیسے وہ ہواؤں میں ہے۔ گھبرا کر یکدم آنکھیں کھولیں تو نظروں کے سامنے غزان کا چہرہ لہرایا اُس کے چہرے پر ایک بہت گہری اور معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ وہ اُس کے لیے باتھ روم میں آیا۔ شانز نے گھبرا کر غزان کو دیکھا۔ “باتھ ٹب رومانس سنا تو ہوگا؟” ایک آنکھ ماریں کرتے ہوئے وہ باتھ ٹب میں گر گیا۔ شانز کا پانی میں ایک دم سانس بند ہو گیا۔ وہ گہری سانسیں بھرتا سر باہر نکالا۔ غزان کو باتھ ٹب میں آتا دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی۔ “سر، آپ کیا کر رہے ہیں؟ کوئی آ جائے گا!” شانز کا دل 120 کی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ “یہاں میرے علاوہ تمہارے پاس کون آئے گا؟” گلاب کے پھولوں کی پتیوں کو اُس کے چہرے پر گراتے اور مسکراہٹ چھپاتے بولتا۔ باتھ ٹب کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا، شانز کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ “آپ بہت بی…” اُس کی بات پوری ہونے سے پہلے غزان نے اُس کے الفاظ چُن لیے تھے۔ “شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔” غزان نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ شانز نے اُس کے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔ “یار، یو آر ٹو سافٹ۔” وہ اُس کو اپنے ساتھ لگائے بہکے انداز میں بولا۔ “آپ بہت ہارڈ ہیں۔” وہ بھی بے ساختہ اُس کے کان میں بول گئی، جس پر غزان کا قہقہہ گونج اٹھا۔ شانز خجل سی ہو کر واپس اُس کے سینے میں چھپ گئی۔ لیکن غزان کی نظروں سے زیادہ دیر کہاں بچ سکتی تھی؟ غزان کا شدت بھرا لمس پھر سے ایک بار اُس پر طاری ہو گیا۔ “اب کیا خیال ہے؟” وہ جی جان سے لرز اٹھی تھی۔ “ہاں، سیٹسفائی۔ یہ ایک راؤنڈ اب ڈریسنگ روم میں لگاتے ہیں۔” وہ گہری سانسیں بھرتا شانز کی بھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرتے بہکے انداز میں بولا۔ “نہیں، آ گیا یقین۔” اُس کے گھبرا کر بولنے پر اُسے باتھ روم سے باہر لے آیا۔ اُس کا نیا ڈریس اُسے ہاتھ میں تھما دیا۔ “یہ، یہ کہاں سے آیا؟” وہ حیران ہوئی۔ “تمہاری ہر چیز کا خیال ہے مجھے۔ بیوی ہو میری، میں نہیں رکھوں گا خیال تو کون رکھے گا؟” اُس کی کچھ خاص اور پرسنل چیزیں بھی اُسے تھما دیں، اُسے شرمانے پر مجبور کر دیا۔ “جاؤ، چینج کرو۔ پھر چلتے ہیں گھر۔ اماں ابّا ویٹ کر رہے ہوں گے۔” اپنے کپڑے کپڑے سے نکالتے ہوئے نرمی سے شانز سے کہا۔ خود بھی تیار ہونے لگا۔ وہ تیار ہو کر باہر آیا تو شانز ابھی بھی ڈریسنگ روم میں بند تھی۔ اُس کی جانب پیش قدمی کرتا کہ ایک دم سے شانز کا فون بجنے لگا۔ غزان نے آگے بڑھ کر نمبر دیکھا تو ماتھے پر بل پڑ گئے۔ مہروک، شانز کو کیوں کال کر رہی تھی؟ غزان نے کچھ سوچتے ہوئے کال ریسیو کر لی۔ “کہاں ہو تم؟ اور میرا غزان کہاں ہے؟ کیا کہا تھا تمہیں میں نے کہ میرے غزان سے دور رہنا؟ لیکن تمہیں ایک بات سمجھ نہیں آتی، نا؟ بولتا تھا، ختم کر دو یہ تعلق، لیکن تم نہیں مانی میری بات۔ اب تم واپس آؤ، دیکھو تمہارا کیا بندوبست کرتی ہوں۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔” کال بند ہو چکی تھی، جبکہ غزان کے ماتھے پر ان گنت بلوں کا جال بنا ہوا تھا۔ “چلو، ریڈی؟” اپنے اکب سے شانز کی آواز سن کر وہ اُس کی جانب پلٹا۔ اُس کے لیے کے ڈریس میں وہ اُس کو اپنی ہی سی محسوس ہوئی۔ لیکن وہ اُس سے اتنا بڑا سچ چھپائے ہوئے تھی۔ غزان کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ “کیا ہوا؟ ٹھیک نہیں لگ رہی؟” وہ تھوڑا سا شرماتے ہوئے بولی۔ “یہاں آؤ میرے پاس۔” شانز تھوڑی چچکتی ہوئی اُس کے قریب ہوئی۔ غزان نے اُس کے ماتھے پر لب رکھے تو وہ آنکھوں میں آنسو لیے اُسے دیکھنے لگی۔ “کیا ہوا؟” اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پیار سے اُس کے گال پر ہاتھ پھیرتے پوچھنے لگا۔ “آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟” ایک معصومیت تھی شانز کے لہجے میں۔ “کیوں، رات کے گزرے لمحوں کے بعد بھی یہ پوچھنے کی گنجائش بنتی ہے؟” وہ جو معنی خیز انداز میں کہتا، اُس کی شرماہٹ پر اپنا انگوٹھا ملنے لگا۔ “بتاؤ نا، غزان۔” وہ اصرار کرنے لگی۔ “لگتا ہے ایک اور راؤنڈ لگانا پڑے گا۔ ابھی بیوی سیٹسفائیڈ نہیں ہوئی ہم۔” وہ اُس کے رخسار پر شدت سے جھکا، اُسے سسکنے پر مجبور کر دیا۔ “اُف، یوں تو نہ کریں۔ اب میں سیٹسفائیڈ ہوں، پلیز، اگین نہیں۔” وہ گھبراتے ہوئے بولی۔ تو غزان کے چہرے کو مسکراہٹ نے چھو لیا۔ “تم تو میری تھوڑی سی شدت پر بے حال ہو جاتی ہو۔ ابھی تو مکمل شدت ڈھائی ہی نہیں ہے۔” “کیا ?
س کے ساتھ باہر کی جانب قدم بڑھاتے حیرت سے پوچھنے لگی۔ “میرے جنون کا ایک فیصد بھی نہیں سہا ابھی تم نے۔ جو رات بھر کیا، وہ کیا تھا؟” اُسے شرم تو آ رہی تھی ان باتوں سے، لیکن اُسے کلئیر بھی تو کرنا تھا۔ “اگر یہ جنون نہیں تھا تو جنون کیا ہوتا ہے؟ پھر کبھی بتاؤں گا۔ ابھی گھر چلتے ہیں۔ اماں ابّا کا بھی دو دفعہ فون آ چکا ہے، تمہارا پوچھ رہے تھے۔” اُسے گاڑی میں بٹھاتے اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا۔ “غزان، ہم گھر کی بجائے کہیں اور چل…” اُس کے چہرے پر ڈر سوار تھا۔ “کیوں؟ گھر کیوں نہیں جانا؟” وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے بولا۔ “نہیں، وہ بس ایسے ہی۔” وہ اپنی انگلیوں کو چٹخا کر بولی۔ غزان نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر توجہ ساری ڈرائیونگ پر کر دی، جبکہ دماغ سے مہروک کی باتیں نہیں نکل رہی تھیں۔
اس وقت وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ اشفاق صاحب نے شانز کی طبیعت کا پوچھا تو وہ سر جھکائے ہاں میں جواب دینے لگی، جبکہ مہروک کی تیز نگاہیں اُسی پر تھیں۔ اُس کا ڈریس چینج تھا اور کافی قیمتی بھی۔ جس طرح وہ سر جھکائے غزان کی کسی بات پر شرما کر اُسے دیکھتی تھی، مہروک کے دل پر بجلیاں گر رہی تھیں۔ وہ اپنے دماغ میں پلاننگ کرتی وہاں سے اٹھ گئی۔ موبائل فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے وہ اب نفرت سے اپنے گندے کھیل کو سَرانجام دینا چاہتی تھی۔
“شانز، تمہارے بڑے ابّا تمہارے ہاتھ کی چائے بہت شوق سے پیتے ہیں، تو بنا لاؤ۔” شازیہ بیگم نے اُسے کچن کی طرف بھیجا تو وہ جلدی سے اٹھ گئی۔ جیسے ہی وہ کچن میں آئی، مہروک نے اُسے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ “بہت شوق ہے نا تمہیں غزان کی بانہوں کا ہار بننے کا؟ دیکھو، اب میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ تم اب غزان کے ساتھ تعلق رکھنے پر خود پچھتاؤ گی۔” مہروک اُسے نفرت اور حقارت سے کہتی باہر نکل گئی۔ شانز کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ تبھی اُس کی تائی اماں شازیہ بیگم وہاں آ موجود ہوئیں۔ “غزان سے کوئی بات تو نہیں ہوئی تمہاری؟” اُنہوں نے تلاش کرتی نگاہوں سے شانز کو دیکھا۔ “نہیں، تائی اماں، کوئی بات نہیں ہوئی۔” وہ گھبراتے ہوئے بولی۔ “تعلق چھوڑ دو غزان سے۔” اُسے سر سے پاؤں تک چانسی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اُنہوں نے پوچھا۔ شانز کا سر شرم سے جھک گیا۔ شازیہ بیگم نے گہرا سانس بھرا۔ “ٹھیک ہے، سب باتیں بھول کر تم بھی غزان کے ساتھ اپنی زندگی میں آگے بڑھو۔” وہ منہ بناتی کہتی باہر نکل گئیں۔ شانز کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اُس کی تائی اماں اُس سے قبول کر چکی تھیں۔ اس خیال نے اُس کے دل سے ایک بوجھ سرکا دیا تھاتھینکس، اللہ کا شکر ہے۔ اب لگتا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔” وہ چائے بناتی سب کو چائے سرو کرنے لگی۔ رات کے کھانے پر رخ نے
میٹھے کی فرمائش کی، وہ بھی شانز کے ہاتھ کی رس ملائی کھانے کی۔ وہ اتنی محبت اور شیریں لہجے میں بولی کہ شانز نہ چاہتے ہوئے بھی بنانے چلی گئی، لیکن نہیں جانتی تھی کہ مہروک اُس کے لیے گڑھا کھود کے بیٹھی ہے۔ ابھی وہ رس ملائی بنا کے فریج میں رکھ رہی تھی کہ کچن میں کسی کی موجودگی کا احساس جاگا۔ وہ مسکرا کے پلٹی تو کسی اجنبی کو دیکھ کر وہیں ٹھٹک کے رُک گئی۔ “کون ہیں آپ؟” شانز کی ڈرتی ہوئی آواز پر وہ مسکرایا۔ “تمہارا عاشق۔” اتنا کہتے ہوئے اُس نے شانز کا ہاتھ تھام لیا۔ شانز نے شور مچانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اُس شخص نے شانز کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُس کی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ شانز نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی اور اسی کشمکش میں اُس کا ہاتھ کانچ کے جگ سے جا لگا اور نیچے گرتے گرتے جمنے والا تھا۔ اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوئے غزان ٹھٹکا اور کچن کا رخ کیا، لیکن مہروک اُس کی راہ میں حائل ہو کر اُس کے سینے سے لگ گئی۔ “غزان، وہاں کوئی ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔” وہ گھبراتے ہوئے بولی۔ اُس کی بات پر غزان کو شانز کی فکر ہوئی۔ وہ ایک منٹ کی دیر کیے بغیر کچن کی جانب بھاگا۔ وہ شخص شانز کی کمر میں ہاتھ ڈالے اُسے شیلف پر دھکیل رہا تھا اور اُس کے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ غزان نے آگے بڑھ کر اُس شخص کو کھینچ کے پیچھے کیا۔ شانز خوف زدہ ہو کر اپنا سانس بحال کرنے لگی جو اُس شخص نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر روکا ہوا تھا۔ غزان نے غصے سے اُس شخص کو دھو کے رکھ دیا۔ “میں نہیں آیا، مجھے بلایا تھا اِس لڑکی نے۔” وہ منہ سے خون صاف کرتے بولا۔ غزان نے ایک اور تھپڑ رکھ کر اُس کے منہ پر مارا۔ اشفاق صاحب نے آ کر غزان کو روکا، ورنہ وہ تو اُسے آج مارنے کے درپے تھا۔ “میں نے پولیس کو کال کر دی ہے۔ بس بیٹا، سنبھالو خود کو۔” وہ اُسے روک رہے تھے، جبکہ وہ شخص زخموں سے چور زمین پر ادھم پڑا تھا۔ پولیس کا نام سن کر مہروک کا دل سوکھے پتے کی مانند لرز گیا۔ غزان پھر سے اُسے مارنے کو بڑھا کہ شازیہ بیگم نے غزان کو روکا۔ “بیٹا، شانز کو سنبھالو۔ وہ ڈر گئی ہے۔” شازیہ بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔ “جب تک اُسے اُس کے کیے کی سزا نہیں دے دیتا، میں اِسے نہیں چھوڑوں گا۔” اتنی دیر میں ملازم نے انسپکٹر کے پہنچنے کی اطلاع دی۔ غزان اُس شخص کو گردن سے تھامے باہر صحن میں لے آیا اور پٹک دیا۔ انسپکٹر دانش نے اُس شخص کو اپنی حراست میں لیا۔ “میں خود نہیں آیا، مجھے بلایا تھا اُس لڑکی نے۔” اُس شخص نے مہروک کی جانب اشارہ کرتے کہا۔ مہروک کا دل بری طرح دھڑکا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔ غزان اُس کی جانب بڑھا۔ “مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اِس حد تک گر جاؤ گی۔” غزان کی اونچی آواز پر وہ بری طرح سہم کے پیچھے ہٹی۔ “میری بیوی کو کچھ بھی ہو جاتا تو یقین کرو، تمہاری روح کھینچ لیتا۔” غزان کے غصیلی لہجے پر مہروک نے روتے ہوئے اُسے شکوہ بھری نظروں سے دیکھا۔ “اِس سے پہلے کہ میں کچھ کر گزرُوں، یہاں سے دفع ہو جاؤ اور دوبارہ اِس گھر میں قدم مت رکھنا۔” وہ کٹھور انداز میں بولا۔ “بیٹا، وہ تمہاری خالہ کی بیٹی ہے۔ اِسی لیے لحاظ کر رہا ہوں، اماں جان۔ ورنہ پولیس کے حوالے کرنے میں مجھے دیر نہیں لگنی تھی۔” غزان نے لب بھر کر کہا تو مہروک کو شازیہ بیگم نے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ پلک جھپکتے وہاں سے نکل گئی۔ اگر غزان اُسے پولیس کے حوالے کر دیتا تو وہ کیا کرتی؟ اپنی جان بچ جانے پر شکر کرتی ہوئی وہ وہاں سے نکل گئی۔ شازیہ بیگم نے اُسے ڈرائیور کے ساتھ اُس کے گھر روانہ کر دیا تھا۔ “مجھے معاف کر دیں۔ آج کے بعد ایسا کچھ نہیں کروں گا۔” وہ شخص بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا۔ اشفاق صاحب نے پولیس انسپکٹر دانش کو اشارہ کیا کہ وہ اُسے یہاں سے لے جائے۔
غزان شانز کو کمرے میں لے آیا۔ اُس کے چہرے کو تھام کر وہ اُس پر شدت سے جھکا۔ شانز اِس اچانک واقعے پر یکدم بےقابو ہو گئی۔ اُسے یوں اچانک خود پر حاوی ہوتے دیکھ کر وہ بری طرح گھبرا گئی تھی۔ غزان اُسے پھر سے ایک بار قریب آتے دیکھ کر وہ کانپتی ہوئی پیچھے ہٹی۔ “جب وہ تمہیں دھمکیاں دے رہی تھی تو تم مجھے نہیں بتا سکتی تھی؟” غزان اُس پر اپنی شدت نچھاور کرتے بولا۔ “میری بات…” وہ کچھ بولنے لگی کہ غزان نے اُس کے ہونٹوں پر پھر سے کفن لگا دیا۔ “اب کچھ بھی نہیں سنوں گا۔ بس سزا اور سزا میں میری قربت۔” وہ اُسے پیار سے اپنے قریب کرتے بولا۔ شانز چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر فُوٹ فُوٹ کے رو دی۔ “کیا ہوا؟ رو کیوں رہی ہو؟” غزان بےقابو ہو گیا۔ “اب مجھے پھر سے سزا دیں گے۔ میرا قصور نہیں تھا۔ سارا قصور مہروک کا تھا۔ اُسی نے مجھے یہ سب کرنے پر اکسایا۔ تو آپ سزا مجھے کیوں دے رہے ہیں؟” “کیا مطلب؟ یہ سزا اُسے دوں؟ پاگل لڑکی، میری قربت صرف تمہارے لیے ہے۔ میرا پاگل پن، میرا جنون، میری پیاس، میری زندگی کا حاصل، سب کچھ تمہارے لیے ہے۔” وہ اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ شانز کی ٹون پھر سے وہی آ کر ٹوٹی۔ وہ اُس سے لفظوں میں اظہار چاہتی تھی، اور غزان اُسے اتنا ہی تڑپا رہا تھا۔ “پیار کرنے دو گی تو بتاؤں گا نا، کتنا پیار کرتا ہوں۔” وہ لائٹس کو ڈِم کرتا اُس کے لیے بستر تیار کرنے لگا۔ “آج کسی اور انداز سے نہ کریں، تاکہ مجھے پتہ چل سکے کہ غزان مغل تم سے کتنا پیار کرتا ہے
پیار کرتا ہوں۔ اُس کی ناک کے ساتھ ناک رگڑتے ہوئے بولانہیں، میں سمجھ گئی۔ آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ شرماتے ہوئے بولی، جبکہ غزان کی زندگی سے بھرپور قہقہہ گونج رہا تھ
Kanwari bivi ki kahani next part
G yeh Mukamal hai ..