Aik Raat Ki Dulhan Novel Part 14 continues the intense and emotional journey that has captured readers across Pakistan and beyond. With every new episode, this bold romantic Urdu novel gets more dramatic, heartfelt, and unforgettable.
This part explores deep emotions, unexpected turns, and the growing love story between the main characters. It’s a must-read for fans of free romantic Urdu stories, emotional love novels, and Urdu font PDF books.
You can easily read this part online or download the full novel in PDF format, free of cost.
💞 Bold romantic Urdu love story
📖 Easy-to-read Urdu font
📥 Free PDF download available
🔥 One of the best Urdu novels of 2025

Aik Raat Ki Dulhan Novel Part 14 – Best Romantic Urdu Story | Free PDF & Read Online
Read here Aik Raat Ki Dulhan Novel Part 13
رملہ نے غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی نظریں جھکا لی۔
کیا کہہ رہی تھی آپ اس سے کہ اللہ نے بینی کے لیے کچھ اور سوچا ہوگا ۔ وہ معزور ہو گئی ہے اور پتہ نہی کب تک معزور رہے ۔ اس لیے تم موقع کا فائدہ فائدہ اٹھاو اور ہمدان سے شادی
کر کے اس گھر کی مالکن بن جاو۔
واہ ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے آپ کی ۔ ۔ ۔ اسے کہتے ہیں آستین کا سانپ ۔ برے وقت میں آپ کا ساتھ دیا ہم نے اور ہمارے برے وقت میں آپ میری بیٹی کے خلاف سازش تیار کر
رہی ہیں۔
اخر کس غلطی کی سزا دے رہی ہیں آپ میری بیٹی کو ؟ ابھی اس لڑکی کو اس گھر میں آئے چوبیس گھنٹے نہی ہوئے اور آپ نے اپنے رنگ دکھانے
شروع کر دیے ۔
جس تھالی میں کھاتے ہیں ناں اس میں سوراخ نہی کرتے ورنہ تھالی کسی کام کی نہی رہتی۔ اگر سر پر عزت کی چھت ملی ہے تو اس کی قدر کریں کیونکہ بڑھاپے میں در بدر کی ٹھوکریں
کھائی اچھی نہی لگیں گی۔ اور تم ۔ ۔ ۔ اب وہ رطہ کی طرف بڑھیں ۔
اگر تمہیں تمہارے باپ کی وجہ سے اس گھر میں جگہ دی ہے تو غنیمت سمجھوور نہ مجھے ایک منٹ نہی لگے گا تمہیں دھکے مار کر یہاں سے نکالنے ہیں۔
سمجھی۔۔۔؟
جی ۔۔۔ رملہ نے سر اثبات میں بلایا اور بھیگی پلکیں اٹھاتے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہمدان کی طرف دیکھا اور چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کیا ہوا تائی امی سب خیریت ۔۔۔؟
ہمدان رملہ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے پاس آر کا۔
کچھ خیریت نہی ہے ۔ تمہاری پھوپھو کا دماغ ہو گیا ہے ۔ سمجھاوا نہیں ۔ ۔ ۔ میرے بیٹی کے خلاف چالیں چلنے کا سوچ رہی ہیں یہ اس لڑکی کے ساتھ مل کر ۔ سمجھا دوا نہیں کہ آئیندہ اس لڑکی کے آس پاس بھٹکتی ہوئی بھی نظر نہ آئیں یہ مجھے ۔ غصے سے بولتی بولتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
پھوپھو چلیں یہاں سے ۔ ۔ ۔ انہیں زبر دستی کمرے سے باہر لے گیا۔ ان کے جاتے ہی رملہ سر گھٹنوں پے گرائے آنسو بہانے میں مصروف ہو گئی۔ کمرے کا دروازہ بند ہونے کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہمدان تھا۔ چلتا ہوا رملہ کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر کھینچتے ہوئے خود میں بھینچ لیا۔
رملہ نے خود کو آزاد کرنا چاہا مگر ہمدان کے بازووں کی مظبوط گرفت کے سامنے ہار گئی اور
اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسو بہاتی رہی۔
جی بھر کر رو لو آج جتنا رونا ہے ۔ ہو سکتا ہے پھر یہ سہارا موجود نہ ہو۔
ہدان کے لہجے میں بے بسی تھی۔ رملہ نے سر اٹھا کر کر اس کی طرف دیکھا اور سر نفی میں
ہلا دیا ۔
ایسا مت بولیں آپ ۔ ۔ ۔اللہ نا کرے آپ کو کچھ ہو۔ میری زندگی بھی آپ کو لگ
جائے۔
کیا کروں گا ایسی زندگی کا میں ؟
ایسی زندگی جس میں میرا سب سے خاص اور مخلص رشتہ ہی نہ ہو ایسی زندگی نہی چاہیے
مجھے ۔ ۔ ۔ ہمدان اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔
ایسی زندگی جس میں جینے کا کوئی مقصد ہی نہ ہو اور رونے کے لیے کوئی کندھا ہی میسر نہ ہو ایسی زندگی کے لیے کیا دعا کروں میں ؟
ویسے بھی تم فیصلہ کر چکی ہوں ۔ ۔ ۔ میرے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ میں چاہتا تو تائی امی کو جواب دے سکتا تھا۔ انہیں تمہاری اس گھر میں حیثیت بتا سکتا تھا لیکن رک گیا کیونکہ تم نے میری زبان پر بے بسی کا تالا لگا رکھا ہے۔
جب تک تم نہی چاہو گی کچھ نہی کر سکتا ہیں۔ تمہیں جانے سے تو نہی روک سکتا لیکن جب تک یہاں ہو شوہر ہونے کی حیثیت سے میرا فرض بنتا ہے کہ تمہارے ہر سکھ دکھ میں تمہارے ساتھ کھڑا رہوں ۔
سوجا و آرام سے میں یہی ہوں ۔ رملہ کو بیڈ تک لایا اور لیٹنے کا اشارہ کیا۔
نہی میں سو جاؤں گی آپ جائیں یہاں سے ۔ ۔ ۔ کسی نے دیکھ لیا تو طوفان آجائے گا۔
طوفان کا ڈر تمہیں ہو گا مجھے نہی ۔ ۔ ۔ اگر طوفان کا ڈر ہوتا تو میں یہاں آتا ہی ناں سو جاو
آرام سے میں کچھ دیر تک یہی ہوں ۔
جب تم رونا بند کر کے سکون سے سو جاو گی تو میں یہاں سے چلا جاوں گا۔
رملہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بول کر سوئچ بورڈ کی طرف بڑھ کر لائٹ آف کرتے ہوئے صوفے پر لیٹ گیا اور جیب سے موبائل نکال کر مصروف ہو گیا۔ رطہ بہت دیر تک اسے دیکھتی رہی اور پھر چادر سر تک اوڑھے سوگئی۔ جب وہ سو گئی تو ہمدان موبائل جیب میں رکھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
بے بس سا آ نکھوں میں بے جان سی مسکراہٹ لیے رملہ کی طرف بڑھا ۔ اس کے چھرے
سے چادر ہٹائی اور اس کے چہرے پر جھکا ہی تھا کہ پھر رک گیا۔
میں نہی چاہتا کہ تم مجھے غلط سمجھو ۔ ۔ ۔ مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹا اور بنا شور کیے دروازہ بند کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
اگلی صبح سب موجود تھے ناشتے کی میز پر سوائے رملہ کے ۔ ۔ ۔ ہمدان کی نظریں بے تابی
سے اسی کو تلاش کر رہی تھیں ۔
رملہ آپی نہی آئیں ۔ ۔ ۔ ؟ میں بلا کر لاتا ہوں ۔ ۔ ۔ علی مسکراتے ہوئے کرسی سے اٹھا ہی تھا کہ مسز ملک بول پڑیں ۔ کوئی ضرورت نہی ہے ۔ بیٹھ جاو آرام سے ۔ اس لڑکی کو زیادہ سر پر چڑھانے کی ضرورت
نہی ہے ۔
چند دن کی مہمان ہے وہ یہاں ۔ ۔ ۔ بہت جلد اس کے لیے کوئی مناسب سا رشتہ دیکھ کر رخصت کرتی ہوں اسے ورنہ میرے گھر کا ماحول خراب ہونے میں دیر نہی لگے گی۔
اس کا کھانا اس کے کمرے میں پہنچا دیا جائے گا ۔ تم فکر مت کرو بیٹا۔
میری بیٹی کوئی لاوارث نہی ہے ۔ اس کا باپ زندہ ہے ابھی اور اس کا اچھا بر اسب سمجھتا ہے ۔ آپ اپنا مناسب سا رشتہ اپنے پاس ہی رکھیں تو بہتر ہو گا۔
میری بیٹی کا اس گھر میں اتنا ہی حق ہے جتنا باقی بچوں کا ہے ۔ کوئی اسے اپنے گھر سے بے
گھر نہی کر سکتا۔
وہ کوئی مہمان نہی ہے ۔ ۔ ۔ یہ بات آپ اور اس گھر کے مکین جتنی جلدی سمجھ لیں بہتر ہو
ملک صاحب محصے سے بولتے ہوئے کرسی سے اٹھے اور رملہ کے کمرے کی طرف بڑھے ۔
کچھ دیر بعد اسے ساتھ لیے وہاں آئے اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
رملہ نے جھجکتے ہوئے کرسی کھینچی اور بیٹھ گئی ۔ ملک صاحب بھی بیٹھ گئے۔
سب ناشتہ کرنے میں مصروف رہے سوائے مسز ملک کے ۔ ۔ ۔ وہ غصے سے منہ پھیلائے
بیٹھی رہی۔ رملہ نظریں جھکائے ناشتہ کرنے میں مصروف رہی ۔ اچانک اس کی نظر سامنے بیٹھے ہمدان
کے ہاتھوں پر شہر سی گئی ۔
ہمدان کے ہاتھوں پے نظر میں جائے ناشتہ کرتی رہی اور پھر ڈرتے ڈرتے اس کی طرف دیکھا اور چند لھے دیکھتی ہی رہ گئی۔
نفاست سے سیٹ کیے ہال اور انتہائی خوبصورتی سے سیٹ کی داڑھی گلابی ہونٹ گھنی پلکیں اور داڑھی کے وسط میں سفید چہرہ ۔۔۔ شاید آج پہلی بار وہ فرصت سے اسے دیکھ
رہی تھی۔
نکاح کے رشتے کا احساس تھا یا پھر ایک بار پھر سے جدائی کا ڈر ۔ ۔ ۔ کچھ تو تھا اس کے دیکھنے میں ۔ ۔ ۔ اسی پل ہمدان کی نظر اس پر پڑی ۔ ۔ ۔ وہ حیران تھا رملہ کے اس طرح اس کی طرف دیکھنے پر ۔ جوس کا گلاس ہو نٹوں سے لگاتے ہوئے بے بس سا مسکرا دیا۔
کہتی ہے مجھے حق نہی اسے دیکھنے کا
لیکن اپنے حقوق اچھی طرح یا درکھتی ہے
نظریں تو چراتی ہے مجھ سے لیکن ۔ ۔ ۔
نظریں مجھ سے ہی چار کرتی ہے
رملہ نے جلدی سے نظریں پلیٹ پر جما دیں اور ایک بار سب کی طرف دیکھ کر پھر سے ہمدان
کی طرف دیکھا تو وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
بھنویں اچکاتے ہوئے مسکرا دیا ۔ جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو کہ کچھ چاہیے کیا ؟ رملہ نے تیزی سے سر ایسے کھانے کی پلیٹ پر جمایا کہ دوبارہ نظر میں اٹھا کر نہی دیکھا۔ ہمدان بیٹا کوئی ضروری میٹنگ تو نہی آج تمہاری ؟
ملک صاحب کے سوال پر ہمدان کے چھرے کی مسکراہٹ سمٹی اور ان کی طرف متوجہ ہوا ۔ نہی تا یا ابو آج کوئی ضروری میٹنگ تو نہی ہے ۔ لیکن کچھ چھوٹے موٹے کام نمٹانے
ہیں۔
ہم ۔ ۔ ۔ پھر تم ایسا کرو کہ آج فیکٹری نہ جاو۔ رملہ کو یو نیورسٹی لے جاو۔ اس کی پڑھائی خراب نہ ہو اس لیے جتنی جلدی ہو سکے ایڈیشن ہو جانا چاہیے۔
جی تایا ابو آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اتنی جلدی ؟
میرا مطلب اسے یہاں آئے ابھی ایک دن ہوا ہے ۔ میرا خیال ہے اوپن یونیورسٹی میں
ایڈیشن لینا بہتر رہے گا۔
یں کہنا چاہ رہا ہوں کہ یو نیورسٹی جائے گی ہاسٹل میں رہنا پڑے گا۔ یہاں رہ کر پڑھے گی تو
کیا ایسا ممکن نہی ہو سکتا ؟
تم سے جتنا کہا گیا ہے اتنا ہی کرو ہمدان ۔ ۔ ۔ زیادہ مشورے دینے کی ضرورت نہی ہے ۔ اگر یہ یہاں نہی رہنا چاہتی تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے ۔ ہم کون ہوتے ہیں اسے سمجھانے
والے۔
تم لے جاو ا سے اور ایڈیشن کروا کے وہی کسی ہاسٹل میں چھوڑ آو۔
مستر ملک غصے سے ہمدان پر پھٹ پڑیں۔
لیکن تائی امی ۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہی ۔ ۔ ۔ جتنا کہا ہے اتنا کرو, ویسے بھی اس کی منحوس شکل مجھے اس کی ماں کا
چہرہ یاد دلاتی ہے۔
جتنی جلدی ہو سکے اسے یہاں سے دفع کرو ۔ ۔ ۔ غصے میں وہاں سے چلی گئیں ۔ ہمدان نے مدد کن نگاہوں سے ملک صاحب کی طرف دیکھا ۔ ۔ ۔ وہ اس کا کندھا تھپتپاتے کی طرف دیکھا
ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ ہمدان نے رملہ کی طرف دیکھا اور گہری سانس لیتے ہوئے علی کی طرف مسکراہٹ اچھالتے
ہوئے وہاں سے اٹھ گیا۔ میں باہر انتظار کر رہا ہوں آپ کا ۔ ۔ ۔ ناشتہ کرنے کے بعد اپنے ڈاکومینٹس لے کر آ
جائیں۔
جی ۔ ۔ ۔ رملہ نے مختصر جواب دیا اور جلدی سے ناشتہ ختم کرتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اپنا بیگ اور ڈاکومینٹس سمیٹتی ہوئی نیچے آئی اور گیراج کی طرف بڑھ گئی۔ ہمدان گاڑی سے ٹیک لگائے دونوں بازو سینے پے فولڈ کیے کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔ رملہ کو آتے دیکھ کر اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
پورے راستے دونوں نے کوئی بات نہی کی۔ رملہ منتظر تھی کہ شاید ہمدان اسے روکے کا لیکن
وہ تو اس معاملے میں ایسے خاموش بیٹھا تھا جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ واپسی پر ہمدان نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی اور اسٹیرنگ وہیل ہے سر
گرائے بیٹھ گیا۔ کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں ؟
رطہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ہدان نے سر اٹھا کر اسے گھوری ڈالی۔ ہاتھ مت لگاو مجھے ۔۔۔ کوئی حق نہی تمہیں مجھے ہاتھ لگانے کا اور نہ ہی مجھے دیکھنے کا۔
میں تو بس ۔۔ مجھے فکر ہو رہی تھی آپ کی بس اسی لیے پوچھ لیا۔
I am sorry
اس نے تیزی سے بہت پیچھے کھینچ لیا لیکن ہمدان نے اس کا ہاتھ تھام کر ہو نٹوں سے لگالیا۔
یہ کیاکیا کر رہے ہیں آپ؟
چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔ اچھا نہی لگتا اس طرح سے ۔ ۔ ۔ وہ بولتی رہ گئی لیکن ہمدان بنا کوئی جواب دیے بس اس کی طرف دیکھتا رہا۔
چند لمحے دیکھنے کے بعد مسکرا دیا ۔ رملہ کا ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں قید
تھا۔
اب دیکھ سکتی ہو میری طرف مسز ۔ ۔ ۔ یہاں پر کوئی نہی دیکھے گا تمہیں مجھے دیکھتے ہوئے اور نہ ہی کوئی روکے گا۔ تو جی بھر کر دیکھ سکتی ہو جتنی بار دیکھنا چاہو۔
جتنی دیر تک چاہو دیکھ سکتی ہو مجھے کوئی اعتراض نہی ہے ۔
رملہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور نظریں جھکالیں اور پھر سے اپنا ہاتھ کھینچنا شروع کر
دیا مگر ہد ان کی گرفت مظبوط تھی ۔
ہمیں چلنا چاہیے ۔ ۔ ۔ بڑی ماما ناراض ہو جائیں گی اگر ہم دیر سے پہنچے ۔ تمہیں کب سے فکر ہونے لگی تائی امی کی؟ ان کی فکر مت کرو ان کو جواب دینا جانتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ آج بھی چپ کروا سکتا تھا انہیں لیکن تمہاری وجہ سے چپ رہا لیکن اگر وہ مسلسل اسی طرح تمہاری تزلیل کرتی رہی تو شاید کسی
دن میری برداشت ختم ہو جائے ۔ آپ جواب دے سکتے ہیں انہیں لیکن میں نہیں ۔ ۔ مجھے اپنے کردار سے لے کر اپنی مرحومہ والدہ کے کردار تک گواہی دینا پڑتی ہیں۔
رات کو جو کچھ ہوا اس کے بعد میر انہی خیال کے مجھے انہیں کوئی موقع دینا چاہیے ۔ آپ کو پھوپھو سے وہ سب شئیر نہی کرنا چاہیے تھا ۔ وہ بہت مان سے آئی تھیں میرے پاس اور الٹا میری وجہ سے بڑی ماما نے ان کی انسلٹ کر دی ۔
تائی امی کی پرانی عادت ہے رملہ ۔ ۔ ۔ ہم سب عادی ہو چکے ہیں ان کے رویے کے وہ ہم سب پر حکم چلانے کی عادی ہو چکی ہیں ۔ ان کے ایسے رویے کی وجہ میرے بابا ہیں ۔ وہ نشے کی لت میں پڑ گئے تھے اور اپنا سب کچھ ہار گئے ۔ تب ہمیں تایا ابو نے سہارا دیا ۔ بس اسی بات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے ہمیشہ ۔ ایسا نہی ہے کہ میرے پاس اپنا کچھ نہی ہے ۔ الحمد للہ آج سب کچھ ہے میرے پاس لیکن پھر بھی ان کو پلٹ کر جواب نہی دیا کبھی کیونکہ ماں باپ کی تربیت پر بات آجاتی ہے۔ لیکن ان کا تمہارے ساتھ ایسا رویہ مجھ سے بلکل برداشت نہی ہوتا ۔ ۔ ۔ جب تک بات میری تھی میں برداشت کر تا رہا لیکن اپنی بیوی کی تزلیل برداشت کرنا بہت مشکل ہے
میرے لیے ۔
صرف نکاح کر لینا کافی نہی ہوتا ۔ ۔ ۔ شوہر کو اپنی بیوی کی عزت کا بھی خیال رکھنا پڑتا
ہے ، بیوی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے کی ہمت رکھنی پڑتی ہے ۔ “
آپ میری وجہ سے کسی سے نہ الجھیں ۔ ۔ ۔ میں چند دن کی مہمان ہوں چلی جاؤں گی، آپ میرے لیے زیادہ فکر مند نہ ہو ۔ ۔ ۔ وہ نکاح زبر دستی ہوا تھا ۔ اماں نے زبر دستی کی تھی آپ کے ساتھ لیکن میں آپ کے ساتھ کوئی زبردستی نہی کروں گی اور ناں ہی خود کو آپ پر مسلط
کروں گی ۔
آپ کی اپنی زندگی ہے جیسے چاہے گزاریں ۔ ۔ ۔ یہی سمجھیں میں آپ کی ایک انجان کزن
ہوں۔
ہم سہی ۔ ۔ ۔ تمہارے لیے کہنا بہت آسان ہے رطہ لیکن میرے لیے ایسا سوچنا بھی
گناہ ہے۔
نکاح چاہے جن حالات میں بھی ہوا تھا ۔۔۔ تم میرے نکاح میں ہو یہی حقیقت ہے اور میں اس کو تسلیم کر چکا ہوں ۔ تمہیں جانا ہے تو جاو۔ ۔ ۔ میں نہی روکوں گا لیکن جتنے دن میرے ساتھ ہو مجھے ان لمحوں کو
جی بھر کے جینے دو۔ کیا پتہ جب تم واپس پلٹو میں کسی دور چلا جاو اتنی دیر جہاں سے واپسی کا راستہ میسر ہی نہ ہو۔ رملہ کے ہاتھ پر گرفت مزید مظبوط کی ۔
بدلے میں رملہ بعد ان کے کندھے پر سر گرائے آنسو بہانا شروع ہو گئی ۔ کیوں کر رہے ہیں
آپ ایسی باتیں ؟
آپ جانتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں وہ میں نہی کر سکتی ۔ ۔ ۔ اماں ایسا نہی چاہتی تھیں۔
ایسا ہی چاہتی تھیں وہ رملہ ۔۔۔ تم سمجھنے کی کوشش ہی نہی کر رہی ۔ ۔ ۔ ہمدان نے اس کی
بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔
جس دن تم ہاسپٹل میں تھی اس دن تا یا ابو اور آنٹی کی ملاقات ہوئی تھی اور یقینا وہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان چکے تھے لیکن ہمارے سامنے ظاہر نہی کیا ۔ یہ فیصلہ انہوں نے بدلے کی آڑ میں نہی بلکہ تمہیں تحفظ دینے کے لیے کیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں ان کی غیر موجودگی میں ان کی بیٹی اس کوٹھے کی چار دیواری میں محفوظ نہی رہ سکے گی۔ اسی لیے انہوں نے میرا انتخاب کیا ۔۔۔ وہ سمجھ چکی تھیں مجھے ۔ ۔ ۔ میں تمہارے لیے
بہت فکر مند تھا۔
مجھے نہی پتہ تھا کہ میں ایسا کیوں کرتا تھا۔ ایک انجان سا احساس تھا ۔ کبھی مینی اور کبھی نصیر ۔ ۔ ۔ جب جب انہوں نے تمہیں نیچا دکھانے کی کوشش کی میرا خون کھوتا تھا۔ پتہ نہی کیوں میرا دل چاہتا تھا تمہیں تحفظ دوں ۔ ۔ ۔ میرے دل تمہارے لیے ایک الگ ہی محبت ڈالی تھی اللہ نے مجھے کیا پتہ تھا میری وہ بے چینی تمہیں میری زندگی میں شامل کر
دے گی۔
میں سب سے لڑسکتا ہوں تمہارے لیے ۔ ۔ ۔ بس ایک بار تم ہاں کر دو میں سب کو بتا دونگا اس نکاح کا اور شادی بھی تم سے ہی کروں گا عزت سے ۔
بس تم میرا ساتھ دو ۔ ۔ ۔ زندگی کے ہر مقام پر تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا۔
رملہ نے اس کے کندھے سے سر اٹھایا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔ میرا خیال ہے ہمیں گھر چلنا چاہیے۔ مجھے اپنی خوشیوں سے بڑھ کر دوسروں کی خوشیاں عزیز ہیں۔ جس گھر میں مجھے پناہ لی ہے اس گھر کی بیٹی کی خوشیاں برباد نہی کر سکتی ہیں۔ بینی کی شادی آپ سے طے ہو چکی ہے اور میں اپنی بہن کا گھر برباد نہی کر سکتی۔
ہم ۔۔۔ مطلب میری کسی بات کی کوئی ویلیو نہی تمہاری نظر میں بس دوسروں کی فکر
ہے۔
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ۔ ۔ ۔ دوبارہ اس ٹاپک پر کوئی بات نہی کروں گا
میں ۔ ۔ ۔ بے بسا مسکرا دیا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔ شام کو جم سے واپس آیا تو نور کی ماما دروازہ ناک کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں ۔ پھوپھو آپ ۔ ۔ ۔ آپ کو کب سے دروازہ نوک کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے ۔ وہ مسکراتی ہو ئیں صوفے پر بیٹھ گئیں ۔ ہمدان بھی ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا اور
مسکرا دیا۔
سنا ہے تم آج رملہ کو یو نیورسٹی لے کر گئے تھے ؟
جی سی سنا ہے آپ نے ۔ ۔ ۔ کچھ دن تک چلی جائے گی ہاسٹل ۔ ۔ ۔ بے بسی سے جواب دیا۔۔
وہ نہی رہنا چاہتی یہاں میری وجہ سے ۔ ۔ ۔ کہتی ہے کہ بینی کا گھر نہی برباد کر سکتی۔
اچھا ۔ ۔ ۔ تواگر وہ نہی سمجھ رہی تو سمجھا واسے بیٹا۔ ۔ ۔ بیوی ہے وہ تمہاری اس کی زندگی
میں اپنی اہمیت واضح کرو۔ میں کچھ سمجھا نہی پھوپھو۔ ۔ ۔ ؟
ہر بات سمجھانے والی نہی ہوتی ہیا ۔ ۔ ۔ کچھ باتیں خود ہی بجھنی پڑتی ہیں ۔ میں چلتی ہوں نماز
کا وقت ہو رہا ہے ۔ بس یہی سمجھانے آئی تھی تمہیں کہ اگر وہ نا سمجھ ہے تو تم سمجھداری سے کام لو۔
سمجھ رہے ہوناں میری بات ۔۔۔؟
اگر نہی سمجھ آئی تو سمجھنے کی کوشش کرو, عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے ۔ مسکراتی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں اور ہمدان میں پڑگیا ۔
کیا مطلب ہو سکتا ہے اس بات کا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہم سمجھ گیا ۔ ۔ ۔ اب یہی واحد راستہ بچا ہے میرے پاس تمہیں روکنے کا ۔ ۔ ۔ دیکھتا
ہوں کیسے جاتی ہو مجھے چھوڑ کر ۔
بہت ہوگیا۔ ۔ ۔ اب تمہاری زندگی میں اہمیت واضح کرنی ہی پڑے گی ورنہ تم اس طرح دور
بھاگتی رہو گی مجھ سے ۔
مسکراتے ہوئے الماری کی طرف بڑھ گیا ۔ فریش ہو کر کمرے سے باہر نکلا اور کھانا کھانے
کے بعد سب کے کمروں میں جانے کا انتظار کرتا رہا۔
جب سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو رطہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔ دروازے کی ڈبلیکیٹ چابی کچن سے لی اور بڑے سکون سے کمرے میں داخل ہوا ۔ وہ سکون سے سورہی تھی ۔ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا اور نرمی سے اس کے گال
کو چھوا۔
رملہ کی آنکھ کھل گئی ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ چلاتی ہمدان اس کے ہونٹوں پر جھکا اور فرار کی ساری راہیں بند کر دیں ۔
رملہ صبح صبح بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی رو رہی تھی اور ہمدان سکون سے سو رہا تھا ۔ رملہ کی
سکیوں کی آواز کانوں میں پڑی تو اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر آنسو پونچھنے کی کوشش کی تو رملہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
بدلے میں ہمدان مسکرا دیا ۔ رونا کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ شوہر ہوں تمہارا اور میرا حق ہے تم
پر
حق زبر دستی حاصل نہی کیے جاتے رملہ غصے سے چلائی مگر پھر اپنی آواز اونچی ہونے کا ڈر
ہوا تو فورا سے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔
همدان
مسکرا دیا
No, you are wrong
اپنی بیوی کو پیار کرنا کوئی زبر دستی نہیں ہوتی ۔ جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی
ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے۔
بیوی ہو تم میری کچھ غلط نہیں کیا میں نے
اگر ثابت کر سکتی ہو کہ میں نے غلط کیا ہے تو کرو جو سزا دونگی میں بھگتنے کے لیے تیار
ہوں۔
میری زندگی تو خود ایک سزا بن چکی ہے اور رہی سہی کسر آپ نے پوری کر دی ہے ۔ مجھے آپ سے بالکل امید نہیں تھی کہ آپ ایسا بھی کچھ کر سکتے ہیں ۔ میں آپ کو بہت اچھا انسان سمجھتی تھی لیکن آج آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ ۔ ۔ ۔ ۔
ششش خبر دار جو اس سے آگے ایک لفظ بھی بولا ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ رملہ کچھ کہستی
ہمدان نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔
اپنی بیوی کو پیار کرنا کچھ غلط نہیں ہے ۔ جاو فریش ہو جاو۔ نیچے ناشتے کی ٹیبل پر ویٹ کر رہا ہوں میں تمہارا اور اگر نہ آئی تو میں پھر سے کمرے میں آرہا ہوں۔
اگر مجھے کسی نے اس کمرے میں آتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کا جواب میں ہی دوں گا۔ جانتی ہو ناں میں ڈرتا نہیں ہوں کسی سے ۔ ۔ ۔ بہتر یہی ہوگا کہ اس بحث کو یہیں ختم کرو اور نیچے آؤ میں بھی آتا ہوں فریش ہو کر نماز پڑھ کے تم بھی آجاؤ جلدی سے ۔
مجھے نہیں آنا کہیں بھی آپ جائیں آپ کو جانا ہے تو ۔ ہمدان بیڈ سے نیچے اتر ہی تھا کہ رملہ کی آواز پر پھر سے اس کی طرف بڑھا اور مسکرا دیا کیا کہا ؟ ذرا پھر سے کہنا میں نے سنا نہیں۔۔۔ نہی جانا چاہتی یہاں سے یا پھر میرا جانا اچھا نہی لگ
رہا تمہیں ؟
جو بات دل میں ہے کہ دو میں مائینڈ نہی کروں گا۔
ایک بار کہہ کر تو دیکھو ۔ ۔ ۔ تمہارے لیے جان بھی حاضر ہے ۔
ہمدان کا لہجہ اور اس کی نظروں کی تپش نے رملہ کو وہاں سے اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔ تیزی سے
اٹھ کر واش روم چلی گئی۔
1 Comment
Add a Comment