“Aik Raat Ki Dulhan Part 1 is a spellbinding romantic Urdu novel that weaves a tale of love, mystery, and deep emotions. Follow Ramla as she navigates a world of heartbreak and unexpected twists. Perfect for fans of Umera Ahmed and Nimra Ahmed, this novel promises an emotional journey that will leave you yearning for more. Download the free PDF now and immerse yourself in this unforgettable Urdu love story. Stay tuned for Part 2! #UrduNovels #RomanticUrduNovel”

Aik Raat Ki Dulhan Part 1: Romantic Urdu Novel of Love, Mystery, and Emotions
ارے یہ تم دلہن بن کر کہاں کی تیاری کر رہی ہو؟ کہی یہاں سے بھا گنے کا ارادہ تو نہی کر لیا ؟
اپنے ایسے نصیب کہاں ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے مقدر میں تو اس کو ٹھے کی چار دیواری لکھی گئی ہے جس سے میں چاہوں بھی تو دور نہی بھاگ سکتی۔
بھاگ کر جاوگی بھی کہاں روشنی ؟
وہ اپنے لیے گھنے سیاہ بال کندھے سے کمر پے جھٹکتی ہوئی ہوئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ آج کے اس دور میں تو عورت گھر کی چار دیواری میں اپنوں میں محفوظ نہی اور تم یہاں سے
باہر جانے کا سوچ رہی ہو۔
سوچنا بھی مت روشنی ۔ ۔ ۔ اس دور ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن بن چکے ہیں ۔ خود کو ہی دیکھ لوماں باپ کے گزرنے کے بعد شوہر نے دوسری شادی کرلی اور اولاد نہ ہونے کا طعنہ دے کر گھر سے نکال دیا ۔
اسی لیے مجھے نفرت ہے مرد کے نام سے ہی مرد مطلبی اور جسم کا بھوکا ہے ۔ ۔ ۔ مرد کو بستر پر عورت ایسی چاہیے جس کے سب طلب گار ہو اور گھر میں بیوی پاکیزہ چاہتا ہے جس کا ماضی پاک ہو لیکن مرد یہ نہی سوچتا کہ اگر وہ خود کو بدل لے تو کسی بھی عورت کا دامن داغدار
نہ ہو۔
کوئی مرد سے کیوں نہی پوچھتا کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تمہارا دامن پاک ہے ؟ ارے مرد زناہ بھی کرلے ناں تو اسے معافی ہے کیونکہ وہ مرد ہے ، مرد ہے تو بہکنا واجب ہے اس پر اور عورت کی ایک غلطی اس کے لیے ساری زندگی گلے کا کانٹا بن جاتی ہے جو نہ حلق سے نیچے اترتا ہے اور نہ باہر آتا ہے ۔ ۔ ۔ بس اسی لیے نفرت ہے مجھے دنیا کے ہر
مرد ہے ۔
بس کریں رملہ بی بی ۔۔۔ اتنی نفرت اچھی نہی ہوتی کل کو آپ کو بھی بیاہ کر جانا ہے کسی مرد کے ساتھ اگر اتنی نفرت دل میں رکھیں گی تو زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا آپ کے لیے ۔ ہونہہ ۔ ۔ ۔ رہنے دو روشنی مجھے نہی جانا کسی مرد کے ساتھ بیاہ کر کے میں تو یہی رہوں گی اور اسی کو ٹھے کی زینت بنوں گی۔
اس دنیا کے مردوں سے اچھے تو یہ گھنگھرو ہیں جو نہ تو بے وفائی کرتے ہیں اور نہ ہی چھوڑ کر جاتے ہیں ، جن پیروں کی زینت بن جائیں اسی کے ہو جاتے ہیں۔ کسی دوسرے پیر
میں جانا بھی چاہیں تو اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں ۔
اللہ نا کرے بی بی جی ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو اس گند بھری زندگی سے محفوظ رکھے آمین ۔ رہنے دو روشنی مجھے ایسی دعا نہ دو جس کا میں مان نہ رکھ سکوں ، اگر آج میرا باپ میرے سر پر ہو تا تو شاید میں تمہاری دعا پر آمین کہتی لیکن اب نہی کہہ سکتی کیونکہ جو باپ اپنی بیٹی کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہی رکھ سکے ، اپنی بیٹی کو دنیا کے سامنے بیٹی نہ کہہ سکے ایسے باپ سے
تو میں بن باپ کے ہی اچھی ہوں ۔ اگر میری ماں کو ذلت کے اس گڑھے سے نکالنے کا وعدہ کیا ہی تھا اس نے تو پورا نبھاتا مگر نہی۔ اس کے لیے میری ماں سے نکاح کرنا تو آسان تھا مگرا اپنے گھر کی زینت بنانے سے ڈر گیا کیونکہ وہ ایک عزت دار خاندان کا وارث تھا اور میری ماں اس کیچڑ کا داغ
تھی۔
یہ عزت دار خاندانوں کے مرد ہم جھیوں کو بستر تو سجا سکتے ہیں مگر گھر نہی بسا سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ گھر بسانے کے لیے تو انہیں ایک عزت دار عورت چاہیے جو بس ان کی ہو کر
رہے کسی اور خیال بھی ان پر حرام ہو اور خود چاہے دنیا کی ہر عورت پر نظر رکھ لیں انہیں
کوئی خوف خدا نہی ۔ میں تو یہ سوچتی ہوں کہ عورتیں پتہ نہیں کیسے مرد کی بے وفائی پر خاموش رہ لیتی ہیں صرف اس کے لیے کہ ان کا گھر نہ خراب ہو جائے ان کے دامن پر طلاق کا دھبہ نہ لگ جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ارے ایسی عورتوں کو تو ڈوب کر مر جانا چاہیے ۔ یہ خود مرد کو آزادی دیتی ہیں اور پھر کونوں میں منہ چھپا چھپا کر روتی ہیں۔
بی بی ابھی آپ کم عمر ہیں۔ ان باتوں کو نہی سمجھ سکتی، عزت کی روٹی زلت کی اس زندگی سے لاکھ گنا بہتر ہوتی ہے ۔ منافق مرد جیسا بھی ہو لیکن اپنی بیوی کی طرف اٹھنے والی ہر غیر نگاہ اس کا سینہ چیر سکتی ہے ، میرے شوہر نے طلاق مجھے خود نہی دی تھی بلکہ اپنی ماں اور بہنوں کے دباو میں آگیا تھا اور میرے بھائی نے مجھے اس لیے پناہ نہی دی کیونکہ میرے دامن پر بدکرداری کا دھبہ تھونپ دیا گیا تھا طلاق کی وجہ بنا کر ۔ ضروری نی که بر مرد ایسا ہو، میری زندگی جیسی بھی گزری گزر گئی لیکن آپ اپنے لیے ایسی زندگی کی دعا کبھی مت کرنا یہاں مرد عورت کو صرف گوشت کی دکان سمجھتے ہیں ، آتے ہیں جسم نوچتے ہیں اور ایک غسل سے خود کو پاک کر لیتے ہیں لیکن ہم عورتیں
اپنا نامہ اعمال گناہوں سے بھرتی جا رہی ہیں ، پتہ نہی کس منہ سے جائیں گی خدا کے سامنے دستہ نہی ہماری بخشش ہوگی بھی یا نہی ؟
صرف اور صرف اس پیٹ کی خاطر ہم خود کو ان حوسی بھیڑیوں کی سپر د کر دیتی ہیں جن کے
دل شاید ہیتھر ہو چکے ہیں۔
لیکن ایک بات تو صاف ہے روشنی ۔ ۔ ۔ ۔ رملہ نے روشنی کی بات درمیان میں ہی کاٹ
دی۔
یہاں جو مرد آتے ہیں وہ تمہارا جسم نوچتے ہیں : اذیت دیتے ہیں مگر ان کے جانے کے بعد تمہیں کوئی افسوس نہی ہوتا کیونکہ تمہیں ان سے کوئی امید ہی نہی ہوتی اس لیے میرے
خیال سے یہ زندگی زیادہ بہتر ہے ۔ تو بہ کریں بی بی جی ۔۔۔ اللہ آپ کو اس ذلت سے بچانے میں تو دن رات یہی دعائیں کرتی ہوں کہ کوئی نیک انسان آئے اور آپ کو یہاں سے لے جائے, ضروری نہی کہ ہر مرد ہی ایسا ہو اب اس کو ہی دیکھ لیں جو آج آنے والا ہے ۔
ہر سال آج کے دن یہاں آتا ہے اور اس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے بس ایک دلہن جو پوری رات گھونگھٹ اوڑھے کمرے میں اس کے سامنے بیٹھی رہی ۔ پچھلے تین سال سے یہ سلسلہ چل رہا ہے لیکن مجال ہے جو اس نے آج تک مجھے ہاتھ بھی لگایا ہو۔
بس چپ چاپ فرش ہے بیٹھ کر شراب پیتا رہتا ہے ۔ پتہ نہی کس بات کی سزا دیتا ہے خود کو۔
دیکھنے میں تو کسی اچھے گھر کا لتا ہے لیکن پتہ نہی کیا حادثہ ہوا ہے اس کے ساتھ جو وہ ہر سال ایسا کرتا ہے اور یہاں آتا بھی بس اسی دن ہے ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہانی تو پہلے کبھی نہی سنی روشنی، رملہ نے جیسے اس کی بات کا مزاق بنایا۔ روشنی نے افسوس سے سر بلایا ۔ ۔ ۔ یہ کہانی نہی حقیقت ہے رملہ بی بی, واقعی وہ ایک
غیرت مند مرد ہے ۔
اس ایک رات کی بہت بھاری قیمت ادا کرتا ہے بواجی اگر چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن میرا خدا گواہ ہے کہ اس نے آج تک مجھے دیکھا تک نہی۔
میں جس طرح رات کو جاتی ہوں اسی طرح صبح کمرے سے واپس آتی ہوں۔ میں تو خود حیران ہوں کہ آج کے دور میں ایسے مرد بھی موجود ہیں ۔ بس کر دو روشنی کم از کم اسے غیرت مند تو مت بولو اگر اتنا ہی غیرت مند ہوتا تو کبھی کوٹھے پر نہ آنا دل لگی کے لیے کوئی اور ذریعہ ڈھونڈلیتا، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ دل بہلانے کے لیے اسے کرایے کی دلہن کا ہی سہارا لینا پڑا۔
پتہ نہی کیا مجبوری ہے بیچارے کی جو اتنی چھوٹی سی عمر میں خود کو روگ لگا کر بیٹھ گیا ۔ خیر
ہمیں کیا ؟
مجھے باتوں میں لگا دیا آپ نے مجھے تیار ہونا تھا۔ یہ سرخ جوڑا مجھے دو روشنی، آج تمہاری جگہ میں دلہن بن کر جاوں گی اس کے کمرے میں۔ زرا میں بھی تو دیکھو آخر کون ہے وہ غیرت مند مرد ۔ ۔ ۔ آج کے دور میں اتنا نیک انسان
کہاں سے آگیا ۔
آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے بی بی ہی ۔ ۔ مجھے مروانا ہے آپ نے بوا جی سے۔ اگر انہیں پتہ چل گیا ناں تو آج کی رات میری زندگی کی آخری رات ثابت ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ روشنی اس کے ہاتھ سے انکا جھپٹتی ہوئی بولی۔
کچھ نہی ہو تا روشنی تم یہ مجھے دو اور تیار کرو مجھے ۔ ۔ ۔ اماں کی فکر مت کرو ویسے بھی وہ شہر
سے باہر ہیں اتنی جلدی نہی آنے والیں ۔ ان کا کچھ پتہ بھی نہی ہے رملہ بی بی وہ کب آجائیں، میں اتنا بڑا دھوکا نہی دے سکتی انہیں, آپ نے صبح یو نیورسٹی واپس جانا ہے اپنی پیٹنگ کریں اور پڑھائی پر دھیان دیں۔ ان سب کاموں کاموں میں پڑنے کی ضرورت نہی ہے آپ کو ۔
آج نہی تو کل ان کاموں میں پڑنا ہی ہے روشنی تو آج کیوں نہی ؟
آخر تمہیں ڈر کس بات کا ہے اماں کا یا پھر اس بات کا کہ وہ میرے ساتھ کچھ غلط نا کر دے ؟
دونوں کا ڈر ہے مجھے بی بی جی ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ابھی تو تم کہہ رہی تھی کہ وہ بڑا غیرت مند ہے تمہاری طرف کبھی آنکھ اٹھا کر نہی دیکھتا اور اب کہہ رہی ہو کہ ڈرلگ رہا ہے ۔
وہ اس لیے بی بی جی کہ آپ جوان ہو اور خوبصورت بھی لیکن میری تو عمر ہو گئی کہی اس کی
نیست بدل گئی تو ؟
آپ میں بھی اتنی پیاری کے کوئی بھی آپ کو دیکھ کر ڈگمگا جائے وہ تو پھر نشے میں ہو گا ۔ ۔ ۔ آپ خدا کے لیے مجھے یہ لہنگا واپس کر دیں اور اپنے کمرے میں جائیں ۔ نہی روشنی ۔ ۔ ۔ ایک بار جو میں نے سوچ لیا وہ کیے بغیر اپنے قدم پیچھے نہی بٹاتی ہیں ، تم مجھے تیار کرو جلدی اور اس کمرے میں پہنچاو۔
میرے کمرے میں میرے موجود نہ ہونے کا کسی کو پتہ نہ چلے یہ زمہ داری بھی تمہاری ہے۔
لیکن بی بی جی ۔ ۔ لیکن ویکن کچھ نہی روشنی میں یہ پہن کر آ رہی ہوں ۔ ۔ ۔ زبر دستی لہنگا اٹھائے واش روم چلی گئی اور کچھ دیر بعد باہر آکر ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ گئی ۔
کرو مجھے تیار ۔ ۔ ۔ ۔ انداز حکمانہ تھا۔
روشنی بے بسی سے آگے بڑھی اور اسے تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔ ایک بار پھر سوچ لیں بی بی جی اگر کچھ ہو گیا ناں تو اس کا انجام ہم دونوں کے لیے بہت بھیانک ہو گا ۔ جب روشنی اسے تیار کر چکی تو اسے روکنے کی ایک آخری کوشش کی مگر
رملہ نے گھونگھٹ چہرے پر گرالیا ۔
چلو روشنی مجھے اس کمرے میں چھوڑ دو چپ چاپ اور میرے کمرے میں جا کر میرے بستر پر لیٹ جاو تا کہ اگر کوئی آبھی جائے تو ٹینشن نہ ہو۔
روشنی کو بازو سے کھینچتی ہوئی کمرے سے باہر لے گئی اور روشنی نے ڈرتے ڈرتے مطلوبہ کمرے کا دروازہ کھول کر اسے اندر جانے کو بولا اور خود تیزی سے رطلہ کے کمرے میں چلی
گئی۔
یہ کسی کو ٹھے کا کمرہ ہے یا دلہن کا ؟
رملہ حیرت زدہ سی کمرے کی سجاوٹ پر نظر ڈالتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی حد ہے ویسے عجیب شوق
میں ان امیر زادوں کے ۔
یہی پیسہ کسی غریب کی بیٹی کو دے دیتا بھلا ۔ کسی کا بھلا ہو جاتا۔
موبائل کا کیمرہ آن کرتے ہوئے اپنی چند تصاویر بنائیں اور پھر دروازے کے باہر قدموں کی آہٹ سن کر تیزی سے فون تکیے کے نیچے چھپایا اور گھونگھٹ اوڑھے بیٹھ گئی۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ کالی شلوار قمیض پہنے کندھوں پر شال پھیلائے رملہ کی طرف دیکھے بغیر چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ارسلہ سر جھکائے بیٹھی رہی اس کے دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی ، آج پہلی با روہ کسی انجان مرد کے ساتھ ایک بند کمرے میں موجود تھی جس کی موجودگی اسے کسی انجانے خوف میں
گھیرا چکی تھی۔
وہ صوفے سے اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھا اور رملہ کا تو جیسے سانس ہی اٹک گیا ہو ، دم سادھے اس کے قدم بیڈ کی طرف بڑھتے دیکھنے لگی اور تھر تھر کانپنے لگ گئی۔
وہ جیسے جیسے قریب آتا گیا رملہ کے ہاتھ پیر سن ہوتے گئے ۔ ۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے
سانس ہی گلے میں اٹک گئی ہو ۔
وہ بیڈ کے قریب آیا لیکن سائیڈ ٹیبل پر پڑا کیلنڈر ٹھیک کرتے ہوئے آج کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے واپس صوفے پر چلا گیا اور رملہ کی جان میں جان آئی۔
شکر ہے یہ واپس چلا گیا اور نہ مجھے تو لگا تھا کہ میں گئی۔ آپ کو لگا شاید میں آپ کی طرف آرہا تھا ؟
اس کی آواز پر رملہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا لیکن چہرے سے گھونگھٹ نہی اٹھایا۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا، نظریں میز پر جھکائے بوتل اٹھا کر گلاس میں انڈ لیتے ہوئے
گلاس ہو نٹوں سے لگائے مسکرایا۔
مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہی ہے ۔ آپ آرام سے سوجائیں ۔
رملہ حیرت زدہ سی اس کے چہرے کو دیکھتی رہ گئی ۔ روشنی کی بات سچ تھی وہ واقعی ایک غیرت مند مرد تھا ۔ ۔ ۔ ۔ چاہتا تو کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن وہ تو بات بھی اتنی عزت سے کر رہا
تھا جیسے سامنے واقعی اس کی بیوی بیٹھی ہو۔
کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی لیکن جب رملہ بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تو چہرے سے گھونگھٹ
ہٹا دیا اور اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
آپ کیوں کرتے ہیں یہ سب ؟
رملہ کے سوال پر وہ تھوڑا چونک سا گیا لیکن اس کی طرف دیکھا ابھی بھی نہی نظریں جھکائے
مسکرا دیا۔
بس کچھ مجبوری ہے میری ۔۔۔ مختصر سا جواب دیا۔
ایسی بھی کیا مجبوری ہے جو آپ ہر سال اسی تاریخ کو ایک دلہن کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جو آپ کے انتظار میں بیٹھی ہو, آپ آئیں اور اسے بنا کوئی تعلق نبھائے یہاں سے چلے جائیں۔ بہت سنا تھا آپ کے بارے میں اور جب سنا تب یقین نہی آیا کہ آج کے دور میں ایسا بھی کوئی مرد ہے ۔ جو تنہائی کے باوجود ایک خریدی ہوئی عورت پر ترس کھائے اور اتنی بھاری
رقم فقط ایک دلہن کی موجودگی کی ادا کرے ۔
“آخر ایسی کیا مجبوری ہے آپ کی ؟ “
میں بتا نا ضروری نہی سمجھتا ، میری ذاتی زندگی پر تبصرہ کرنے کی اجازت کسی کو نہی دی میں نے آج تک ۔ ۔ ۔ آپ کا جو کام ہے آپ وہ کریں ۔
اس کے بدلتے لہجے پر رملہ لب بھینچ کر رہ گئی۔ آپ میری طرف دیکھ کر بات کیوں نہی کر رہے ؟
رملہ کے اس سوال نے اسے رملہ کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ۔ ۔ ۔ ٹکٹکی لگائے اس کے
چہرے کو دیکھتا رہ گیا ۔ اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر رملہ کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا ۔ ۔ ۔ ڈر کر خود میں سمت سی گئی۔ اس کی نظروں کی تپش اسے سلگا رہی تھی۔ نظریں جھکائے اپنے دونوں
ہاتھ مظبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے ۔
اب نظریں کیوں جھکا لی آپ نے ؟
میری آنکھوں میں دیکھ کر بات کریں ۔ ۔ ۔ رملہ کو کنفیوزڈ ہوتے دیکھ کر گہری سنجیدگی سے
بولا۔
آپ اگر اس طرح غصے سے دیکھیں گے تو مجھے خوف آرہا ہے آپ سے ۔ ۔ ۔ وہ نظریں
جھکائے ہی بولی ۔
رملہ کے جواب پر وہ مسکرا دیا اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبایا۔
خوف وہ بھی مجھ سے ؟
سچ کہوں تو اب مجھے بھی خود سے خوف آتا ہے ۔ پھر سے نظریں جھکائے بولا۔ میری تنہائی میری سب سے بڑی دشمن بنتی جا رہی ہے اور میں چاہ کر بھی اپنے لیے کچھ نہی کر سکتا ، ہر سال یہ رات مجھے بہت اذیت دیتی ہے ۔
ایسی اذیت جس سے میں بھاگ نہی سکتا ۔ ۔ ۔ بہت بے بس محسوس کرتا ہوں خود کو ایسے لگتا ہے جیسے یہ اذیت مجھے پورا سال جکڑے رکھتی ہے اور آج کی رات مجھے ہمیشہ کے لیے
خاموش کر دے گی۔
میرا دل ڈر سا جاتا ہے ۔۔۔ اپنے ہی گھر میں اپنے ہی کمرے میں خوف محسوس کرتا ہوں میں, ایسا لگتا ہے وہ یہی ہے اور مجھ سے حساب مانگے کی میری بے وفائی کا ۔
سمجھ نہی آتا کہ آخر کب یہ سلسلہ تھمے گا ۔ میں ایک ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہا ہوں اور شاید
صدیوں تک بھگتا رہوں گی ۔
ہوتا ہے ۔۔۔۔ مطلب آپ بھی بے وفا مردوں کی فہرست میں شامل ہیں، میرا اندازہ سہی
تھا ۔ ۔ ۔ آپ مرد ہوتے ہی بے وفا ہو۔
رملہ کے طنزیہ جملے اس کے کانوں میں کانٹوں کی طرح تھے ۔ ۔ ۔ ہاتھ میں تھامے شیشے کے گلاس کو اتنی زور سے دبایا کہ گلاس چکنا چور ہو گیا اور فرش پر بکھر گیا۔
رملہ ڈر کر خود میں سمٹ گئی ۔ ۔ ۔ اس کی حالت دیکھ کر اب واقعی اس پر خود طاری ہو گیا۔
اس کے ہاتھ سے بہتا خون دیکھ کر تو جیسے اس کے خوش ہی اڑ گئے ۔
وہ خاموشی سے اپنے ہاتھ کو دیکھتا رہا اور پھر جیب سے ایک رومال نکال کر زخم پر باندھ لیا ۔ کوٹھے پر آنے والا ہر مرد بے وفا نہی ہوتا ” ۔ ۔ ۔ ۔ رملہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اور اٹھ
کر اس کے پاس آگیا ۔ ” یقین” ۔ ۔ ۔ کہنے کو تو بس ایک معمولی سا لفظ ہے لیکن کبھی کبھی یہ معمولی سا لفظ آپ کو زندگی بھر شرمندگی کے دلدل میں دھنسا دیتا ہے ۔ جہاں سے نا تو آپ بھاگ سکتے ہیں اور نہ
ہی وہاں رہنا آپ کے بس میں ہوتا ہے۔
دایاں ہاتھ رملہ کی گردن پے مظبوطی سے رکھتے ہوئے اس کے چہرے کے قریب ہوا۔
اس کی درد بھری آنکھیں ، اذیت سے بھر الہجہ اور اتنی قربت ۔ ۔ ۔ رملہ کو اپنی دھڑکن
کانوں میں سنائی دی۔
کبھی۔
سوچا ہے کتنی اذیت ملتی ہے اس مرد کو جو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی سزا کا حق دار
ٹھرے ؟
کبھی سوچا ہے کتنی در دو دیتی ہے وہ تنہائی جو آپ کے سب سے دلعزیز شخص نے آپ کے
لیے چنی ہو ؟
سوچا ہے کبھی ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
بستر سجانا آسان ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر کسی کے دل میں چھپے درد کی گہرائی جاننا آسان نہی
ہوتا
ایک طنزیہ جملہ بولتے ہوئے رملہ کو چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا اور دونوں ہاتھ چہرے لیے رکھتے ہوئے گھر میں سانس لیتے ہوئے اپنے بال مٹھی میں جکڑ کر واپس صوفے پر بیٹھ
گیا۔
رملہ اپنی گردن پر اس کی انگلیوں کا دباو ابھی تک محسوس کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ درد کی اذیت اور اس کے طنزیہ جملے نے اسے اس کی اوقات یاد دلا دی تھی۔
I am sorry
۔۔۔۔
پھر سے صوفے سے اٹھ کر رملہ کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
رملہ مسکرا دی ۔ ۔ ۔ سہی کہا آپ نے کہ بستر سجانا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی کا درد محسوس کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک بات میں بھی آپ کو بتا دوں کہ کوٹھے کی چار دیواری میں آنکھ کھولنے والی ہر لڑکی طوائف نہی ہوتی”
مجھے پتہ چلا تھا آپ کے بارے میں تو سوچا آپ کے درد کی گہرائی جاننے کی کوشش کروں اسی لیے اپنی جان ہتھیلی پے رکھ یہاں آگئی ۔ ۔ ۔ سوچا دیکھوں تو سہی آخر ایسا کونسا مرد آ رہا ہے اس کوٹھے پر جس کی ڈیمانڈ بس ایک دلہن ہے اور دلہن بھی ایسی جسے وہ ہاتھ تک
نہی لگائے گا۔
بہت چرچے سنے تھے آپ کی تربیت کے ۔ ۔ ۔ سوچا اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لوں ۔
تو کیا تھا ہے آپ کو کہ میں یہاں جسمانی خواہش کے لیے ہی آسکتا ہوں؟
رملہ کی باتوں پر بے یقینی سے اس کی طرف پلٹا اور سوال کیا ۔
ہاں ۔۔۔ حقیقت میں تو یہاں آنے والے ہر مرد کی یہی خواہش ہوتی ہے ۔ وہ جواب دے کر اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو
پو چھتی ہوئی چہرہ دیوار کی طرف موڑ کر بیٹھ گئی۔ اور اگر میری جگہ کوئی اور مرد ہوتا اور آپ کی اس خوبصورتی پر فدا ہو کر اپنی خواہش کی تکمیل
کے لیے قدم بڑھاتا تو کیا کر تیں آپ ؟
میری ایک آواز پر سب یہاں جمع ہو جاتے اور اسے دوبارہ یہاں آنے کے قابل نہی
چھوڑتے ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ رملہ کے جواب پر وہ طنزیہ مسکرایا ۔
یہ کوٹھا ہے آپ کا گھر نہی میڈم ۔ ۔ ۔ یہاں آنے والا آپ پر حق جتانے کی پوری قیمت چکا کہ یہاں تک پہنچتا ہے اور آپ کی آواز اس کمرے کی چار دیواری سے باہر پہنچنے تک کی مہلت نہ دیتا آپ کو “ہر مرد ملک ہمدان نہی ہوتا ، ، ، یا درکھئیے گا میری بات ۔ اگر آپ واقعی ایسی نہی ہیں تو اپنی عزت کی حفاظت کریں اور دوبارہ بھول کر بھی ایسی غلطی مت کرنا جس سے زندگی بھر کا پچھتا واملے ۔
اگر اس غلیظ جگہ پر رہتے ہوئے بھی آپ کی عزت محفوظ ہے تو آپ بہت خوش قسمت ہے۔ ۔ ۔ میری دعا ہے کہ آپ کی عزت ہمیشہ ایسے ہی محفوظ رہے ۔
ونوں ہاتھ آگے بڑھائے اور اس کے چہرے پر دوبارہ گھونگھٹ اوڑھاتے ہوئے اپنا فون, وائلٹ اور کیز اٹھاتے ہوئے چہرہ شال میں چھپائے کمرے سے باہر نکل گیا۔
رملہ حیرت زدہ سی اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی ۔ کچھ دیر انتظار کرتی رہی لیکن وہ واپس نکل آیا تو وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور روشنی کے گلے لگ کر رودی۔
کیا ہوابی بی جی سب ٹھیک تو ہے ؟
share facebook
1 Comment
Add a Comment