Aik Raat Ki Dulhan Part 11 – Viral Urdu Novels Online | Free Romantic PDF Download


Aik Raat Ki Dulhan Part 11 continues to dominate among viral Urdu novels online, thanks to its bold romance, intense emotions, and gripping storytelling. This chapter uncovers deeper layers of love, regret, and heartbreak, written beautifully in Urdu font.

For fans of romantic Urdu stories, this part is filled with passion, powerful dialogues, and a storyline that keeps you turning pages. Whether you enjoy bold Urdu novels, emotional romantic kahaniyan, or free Urdu novels in PDF, this episode delivers everything you’re looking for.

💞 Romantic Urdu novel with bold twists
📖 Smooth Urdu font for easy reading
📥 Free romantic PDF download available
🔥 Read the most viral Urdu love story of 2025

Viral Urdu Novels Online

Aik Raat Ki Dulhan Part 11 – Viral Urdu Novels Online | Free Romantic PDF Download

اس کی جان پیاری ہے تو فوراً اس پتہ پر پہنچ جاور نہ اس کی جان لے لیں گے ہم۔

آپ مجھے ایڈریس بتائیں کہاں پہنچتا ہے مجھے ۔ ۔ ۔ میں ابھی آتا ہوں ۔

آپ اسے کچھ مت کرنا پلیز ۔ ۔ ۔ آپ کو جتنے پیسے چاہیے مجھے بتا دیں میں لے آوں گا لیکن

اسے کچھ نہی ہونا چاہیے ۔

اوئے منہ بند رکھ ۔۔۔ تیرے پیسے نہی چاہیے ہمیں ۔ ۔ ۔ بس توں آجا یہی کافی ہے ۔ پتہ

لکھ ۔

اوکے ۔ ۔ ۔ ہمدان نے جلدی سے پین نکالا اور ہاتھ پر ہی ایڈریس نوٹ کر لیا۔ کون ہو سکتا ہے ۔۔۔ اسے پیسے بھی نہی چاہیے تو پھر بینی کو اغوا کرنے کا مقصد ؟

تیزی میں گاڑی بھگاتے ہوئے مطلوبہ جگہ پہنچا اور اسی نمبر پر کال کی۔ نمبر تو بند تھالیکن اچانک کسی نے اس کے سر پر کپڑا ڈال دیا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتے

ہوئے خفیہ مقام پر لے گئے۔

ہمدان کے چہرے سے کپڑا ہٹایا گیا تو اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے سامنے دیکھا تو رملہ کی اماں ایک بڑے سے صوفے پر براجمان تھیں۔

منہ میں پان رکھتے ہوئے ہمدان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیں۔

یہ سب آپ نے کیا ہے ؟

ہاں میں نے کیا ہے یہ سب کچھ ۔ ۔ ۔ اور کسی میں اتنی ہمت ہے نہی۔

کیوں کر رہی ہیں آپ ایسا ؟

بینی کہاں ہے ؟

میں آگیا ناں یہاں ۔ ۔ ۔ آپ میری گاڑی کی چابی لیں اور اسے جانے دیں یہاں سے ۔

 جانے دیں گے ۔ ۔ ۔ جانے دیں گے ۔ ۔ ۔ اتنی بھی کیا جلدی ؟

ابھی ابھی تو آئے ہو تھوڑا خدمت کا موقع تو دو ہمیں ۔ 

بوا جی آپ کہیں تو ابھی گردن مروڑ دوں اس کی ؟

ایک بھاری بھر کم آدمی ہمدان کی طرف بڑھا مگر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے

آگے بڑھنے سے روک دیا ۔ نہی گردن توڑنے کی ضرورت نہی ہے ۔ ۔ ۔ یہ معاملہ پیار سے بھی حل ہو سکتا ہے ۔

آخر چاہتی کیا ہیں آپ ہم سے ؟

لے کر آوا سے ۔ ۔ ۔ وہ اس آدمی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولیں تو وہ نصیر کو بازو سے

کھینچتے ہوئے اندر لے آیا۔

نصیر کی حالت دیکھ کر ہمدان چونک گیا ۔ آپ نے اسے کیوں مارا؟ 

یہ اپنی غلطی کی سزا بھگت چکا ہے ۔ 

اس طرح تشدد کرنا اچھی بات نہی۔

تشدد ۔ ۔ ۔ تشد د تو ابھی کیا نہی ہم نے ملک ہمدان ۔ ۔ ۔ اسے زندہ چھوڑا ہے یہی غنیمت

ہے اس کے لیے ۔

تصویریں بنانے کا بہت شوق ہے اسے ۔ ۔ ۔ آج اس کا یہ شوق اچھی طرح اتر گیا ہو گا ۔ 

ہمدان تیزی سے آگے بڑھا اور نصیر کو سہارا دیتے ہوئے دیوار کے پاس بٹھا دیا ۔ اسے مار

کر نڈھال کر دیا گیا تھا ۔

سامنے ہمدان کو دیکھ کر اسے تھوڑا ہوش آیا۔ مجھے بچالیں پلیز۔

ہمدان افسردگی سے ان کی طرف پلٹا ۔ ۔ ۔ ابھی پلٹا ہی تھا کہ دروازے سے اندر آئی آنسو بہاتی

رملہ پر نظر پڑی ۔ اماں مت کریں یہ سب ۔ ۔ ۔ وہ ہمدان کو دیکھتی ہوئی ماں کے پاوں پکڑ کر بیٹھ گئی۔ انہوں نے بینی کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہی کیا۔ یا تو میری بیٹی سے نکاح کر لو یا پھر ان دونوں کی میت اٹھانے کے لیے تیار ہو جاو ۔ ۔ ۔ وہ

صوفے سے اٹھ کر ہمدان کی طرف بڑھیں ۔

نکاح ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نکاح کہاں سے آگیا اس سارے معاملے میں؟ ہمدان ایک نظر فرش پر بیٹھی رملہ کو دیکھتے ہوئے تقریباً چلایا۔ کیوں ۔ ۔ ۔ میری بیٹی سے رابطہ رکھ سکتے ہو تو نکاح کیوں نہی کر سکتے؟

کیا یہی تربیت ملتی ہے تمہارے خاندان میں ؟

آنٹی آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ہم بس اچھے دوست ہیں اور کچھ نہی ۔ آپ کو ضرور کوئی

غلط فہمی ہوئی ہے ۔

اس لڑکی کو لاو یہاں ۔ ۔ ۔ وہ ہمدان کی بات نظر انداز کرتی ہوئی دوبارہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی

بولیں ۔

دو عورتیں بینی کو سہارا دیتی ہوئی وہاں لائیں اور فرش پر لٹا دیا۔

وہ بے ہوش تھی اور اس کی یہ حالت دیکھ کر ہمدان نے ظبط سے آنکھیں بند کر لیں ۔ ایک آدمی آگے بڑھا اور بینی کی گردن پر چاقو رکھ دیا ۔

خبر دار جو ایک بھی قدم آگے بڑھایا تم نے ۔ ۔ ۔ میرے ایک اشارے پر اس کی گردن

کاٹ دے گا یہ ۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ جلدی بنا و ورنہ دیر ہو جائے گی ۔

آپ بہت غلط فیصلہ لے رہی ہیں اپنی بیٹی کے لیے ۔ میرا رشتہ بینی سے طے ہو چکا ہے اور

یہ بات آپ کی بیٹی جانتی ہے ۔

اس طرح زبر دستی رشتہ نہی جوڑ سکتی آپ ۔ ۔ ۔ زیادتی کر رہی ہیں آپ تین لوگوں کے

ساتھ۔

میرے اور بینی کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کی زندگی تباہ کر رہی ہیں آپ ۔

ہمدان نے انہیں سمجھانا چاہا لیکن بدلے میں انہوں نے قہقہ لگایا ۔

کل کے بچے ہو تم ۔ ۔ ۔ اب تم مجھے سکھاو گے کہ میرا کونسا فیصلہ سہی ہے اور کونسا غلط؟ 

نہی آنٹی جی ۔ ۔ ۔ اپنا اچھا برا آپ بہتر جانتی ہیں لیکن آپ کا یہ فیصلہ بہت غلط ثابت ہو گا آپ کے لیے ۔۔۔ میں نکاح تو کرلوں گا لیکن شادی نہی کر سکوں گا آپ کی بیٹی سے ۔ میرا رشتہ بینی سے طے ہو چکا ہے اور شادی بھی اسی سے ہوگی ۔ میرا خاندان کبھی نہی مانے

گا اس نکاح کو ۔

تو رخصتی کرنے کو کہہ کون رہا ہے ؟

تم بس نکاح کرو ۔ ۔ ۔ باقی فکر میں چھوڑ دو ۔ اب بتا و جلدی زیادہ وقت نہی ہے تمہارے

پاس۔

انہوں نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے بینی کی کلائی پر ہلکا سا کٹ لگا دیا ۔

پاگل ہو گئے ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

همدان تیزی سے اس کی طرف بھاگا لیکن اس نے چاقو دوبارہ گردن پر رکھا تو وہی رک گیا ۔ ہمدان نے مدد طلب نگاہوں سے رملہ کی طرف دیکھا ۔ وہ بھی اتنی ہی مجبور تھی جتنا مجبور وہ تھا

اس وقت ۔

نظریں جھکائے آنسو بہاتی رہی ۔

همدان نے گہری سانس لی اور سر اثبات میں ہلا دیا ۔

ٹھیک ہے اگر یہی آپ کی ضد ہے تو مجھے منظور ہے لیکن ایک بات یادرکھئیے گا ۔ آپ زبر دستی مسلط کر رہی ہیں اپنی بیٹی کو مجھ پر اور میرے لیے یہ رشتہ کا غذات تک ہی 

محدود رہے گا ۔

اس سے زیادہ کی امید مت رکھنا آپ مجھ سے ۔

منظور ہے ۔ ۔ ۔ بلاو نکاح خواں کو ۔ ۔ ۔ وہ خوشی خوشی بولیں ۔

اماں یہ

یہ ظلم ہے ان کے ساتھ بھی اور میرے ساتھ بھی ۔ ۔ ۔ آپ بہت غلط کر رہی

ہیں ۔ رملہ چلاتی رہی مگر انہیں کوئی فرق نہی پڑا۔

زور زبردستی سے دونوں کا نکاح پڑھوا دیا گیا ۔ ہمدان سائن کرتے ہی بغیر دعا کیسے تیزی سے صوفے سے اٹھ کر مینی کی طرف بھاگا اور اس کا سر گھٹنے پے رکھے گال تھپتھپا تا رہا لیکن

وہ ہوش میں نہی تھی ۔

اب چاہو تو لے جاسکتے ہو اپنی ہونے والی بیوی کو لیکن ۔ ۔ ۔ میری بیٹی پر تمہارا کوئی حق نہی

ہوگا ۔

رملہ 

سر گھٹنوں پر گرائے آنسو بہا رہی تھی ۔ ماں کی بات پر سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔ آج سے تمہارا اس کے ساتھ ہر تعلق ختم ۔ ۔ ۔ ناں تم دوبارہ اس سے بات کرو گے اور نہ

ہی ملو گے ۔

اسے میرا حکم سمجھ لو یا پھر دھمکی۔۔۔ جیسے تمہاری مرضی ۔ ۔ ۔ کیونکہ دوبارہ اگر میں نے تمہیں اپنی بیٹی کے آس پاس بھی دیکھ لیا تو زندہ نہیں بچو گے تم اور تمہارے ساتھ ساتھ اور

بھی کئی جانیں جائیں گی ۔

بے گناہ جائیں ۔ ۔ ۔ جس کے زمہ دار صرف تم ہو گے ۔

آپ کے لیے نکاح کا تعلق ایک مزاق ہے ؟ اگر تعلق ختم کرنا ہی تھا سیدھا کہہ دیتیں آپ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہمیں ازیت دینے کا مقصد ؟

مقصد تو بہت گہرا ہے اس کے پیچھے ۔ ۔ ۔ لیکن تم ابھی سمجھو گے نہی, میرے مقصد کو سمجھنے کے لیے بہت گہری چوٹیں کھانی پڑیں گی تمہیں ۔ ۔ ۔ تب جا کر سمجھو گے ۔ 

مجھے افسوس ہو رہا ہے آپ کی بیٹی کے لیے ۔ ۔ ۔ یہ آپ کی خاطر اپنی ہر خواہش کا گلہ گھونٹ سکتی ہے اور آپ نے اس کا ہی گلہ گھونٹ دیا ۔

ایک بات تو واضع کر دی آپ نے کہ آپ کے لیے بدلہ لینا بیٹی کی خوشیوں سے زیادہ عزیز

ہے۔

بدلہ لینا تھا تو آپ مجھ سے لیتیں ۔ ۔ ۔ اپنے خون کو تکلیف کیوں دے رہی ہیں ؟

دیکھنا چاہتے ہو کیوں ؟

آوایک کھیل دکھاتی ہوں تمہیں ۔ ۔ ۔ چلو میری ساتھ ۔

وہ ہمدان کو بازو سے بھینچتی ہوئی ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں لے گئیں جہاں بہت

سارے مرد تکیوں سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھے تھے ۔

رملہ بھی دوڑتی ہوئی ان کے پیچھے چلی آئی۔

اچھا ہوا تم خود یہاں چلی آئی ۔ ۔ ۔ میں تمہیں ہی بلانے والی تھی۔

وہ ہمدان کا بازو چھوڑتی ہوئی رملہ کی طرف بڑھیں اور اسے کندھے سے جھنجوڑ تی ہو ئیں ہال

کے درمیان لے آئیں ۔

آج آپ سب کی خدمت میں پیش ہے میرے جگر کا ٹکرا ۔ ۔ ۔ میری نازوں سے پلی نازک سی گڑیا , آج میں اس کی بولی لگاوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ تو کون خرید نا چاہے گا ؟

ہر طرف عجیب سا شور برپا ہو گیا ۔ سب حیران تھے ان کے اعلان پر کہ وہ اپنی بیٹی کی بولی

کیسے لگا سکتی ہیں ؟

ہمدان حیرت زدہ سا دیکھتا رہ گیا ۔ ۔ ۔ ان کے الفاظ کسی دھماکے کی طرح محسوس ہوئے

اسے۔

پچاس ہزار ۔۔۔ ایک آدمی بے باقی سے رملہ کو سر تا پاوں دیکھتے ہوئے بولا۔ بڑے سستے نکلے آپ جناب۔۔۔ وہ ہنستی ہوئی بولیں اور پلٹ کر ایک نظر خاموش

کھڑے ہمدان کو دیکھا ۔ ایک لاکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور آواز گونجی۔

دولاکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور آواز آئی ۔

تین لاکھ ۔ ۔ ۔ چار لاکھ ۔ ۔ ۔ ساڑھے چار لاکھ ۔ ۔ ۔ اسی طرح بڑھتے بڑھتے بات دس لاکھ

تک جا پہنچی۔

دس لاکھ ایک ۔ ۔ ۔ دس لاکھ دو ۔ ۔ ۔ دس لاکھ تین, مبارک ہو آپ کو آج سے یہ آپ کی

ہوئی۔

وہ بیٹی کا ہاتھ اوپر اٹھائی ہوئی فخریہ انداز میں بولیں۔ رملہ نے بھیگی آنکھوں سے ہمدان کی طرف دیکھا۔

وہ رملہ کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام کر اس کی ماں کے ہاتھ سے آزاد کیا۔ ” یہ بیوی ہے میری کوئی سامان نہی ” ۔ ۔ ۔ جو آپ اس کی بولی لگا رہی ہیں ۔ 

کیا کہا تم نے میں نے سنا نہی ۔ ۔ ۔ ؟

وہ ایسے ظاہر کر رہی تھیں جیسے کچھ سنا ہی نا ہو۔

میں نے کہا بیوی ہے یہ میری ۔ ۔ ۔ ہمدان غصے میں بولا ۔

طوائف کی بیٹی کسی کی بیوی نہی ہو سکتی ۔ ۔ ۔ چھوڑو میری بیٹی کا ہاتھ اور جاو یہاں سے ۔ ۔ ۔ اس کا سودا کر دیا ہے میں نے ۔ وہ غصے سے آگے بڑھیں اور رملہ کو ہاتھ تھامنا چاہا لیکن ہمدان اس کے سامنے ڈھال بن چکا

تھا۔

میں نے کہا ناں آپ ایسا نہی کر سکتی ۔ ۔ ۔ مزید کوئی بات نہی سنوں گا میں چاہے مجھے جان

سے کیوں نہ مار دیں آپ ۔

اچھا ۔ ۔ ۔ تمہارا یہ شوق بھی ابھی پورا کر دیتی ہوں ۔

ان کے اشارے پر چار آدمی ہمدان کی طرف بڑھے اور اسے مارنا شروع کر دیا لیکن اس

نے رملہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔

کسی نے پیچھے سے اس کے سر پر وار کیا تو وہ چکراتے سر کے ساتھ فرش پر بیٹھ گیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔

اس کے کمزور پڑتے ہی رملہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا گیا ۔

لیں جائیں اسے کمرہ تیار ہے آپ کے لیے ۔ ۔ ۔ انہوں نے رملہ کا ہاتھ اس بولی جیتنے والے

خبیث انسان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اماں ۔ ۔ ۔ مت کرو یہ ظلم ۔

بیٹی ہوں میں آپ کی ۔۔۔۔ کوئی ماں اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے ؟ رملہ جتنا چلا سکتی تھی چلائی مگر اس زوروار آدمی کے سامنے اس کی طاقت کمزور پڑ گئی ۔ مکراسی زور دار آدی کی پڑگئی۔ اس آدمی کے ساتھ پیچتی چلی گئی اور کمرے کے دروازے کو تھام کر زور سے

ہمدان کا نام پکارا۔ ہمدان اس کی آواز پر خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے پیچھے چل دیا لیکن

اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ آدمی کمرے کا دروازہ بند کر چکا تھا۔ وہ دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس کا وجود اس کا ساتھ نہی دے رہا تھا ۔

دروازے کے پاس ہی فرش پر گر گیا اور آخری الفاظ جو اس کے منہ سے نکلے وہ یہ تھے ۔ ۔ ۔ “مجھے معاف کرنا میں تمہاری عزت کی حفاظت نہی کر سکا ۔ ” اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہی تھا کہ وہ کہاں ہے اور کہاں نہیں ۔ جب آنکھ کھلی تو خود کو اپنے کمرے میں دیکھا۔

چونک کر بیٹھ گیا۔ سر پے پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس کی امی جائے نماز بچھائے نماز پڑھ کر

دعا میں مصروف تھیں ۔ سر تھام کر بیٹھ گیا ۔ ۔ ۔ امی ۔

بیٹے کی آواز سن کر وہ جائے نماز تہ لگا کر تیزی سے اس کے پاس آئیں ۔ ماں صدقے جائے میرا بچہ ۔ ۔ ۔ شکر ہے ہوش آگیا میرے بیٹے کو ۔

میں یہاں کیسے آیا ؟

میں تو ۔۔۔۔ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ بولتے بولتے رک گیا ۔ بینی کہاں ہے ؟

اچانک سے بینی کا خیال آیا۔

وہ اپنے کمرے میں ہے ہمدان ۔ ۔ ۔ طبیعت ٹھیک نہی ہے اس کی ۔ ۔ ۔ کیا ہوا تھا تم

دونوں کے ساتھ ؟

کون لوگ تھے وہ ؟

وہ لوگ تم دونوں کو بے ہوشی کی حالت میں پچھلے دروازے کے پاس چھوڑ گئے

تھے ۔ چوکیدار نے دیکھ لیا تھا اسی لیے فوراً ہمیں اطلاع دی۔

کل رات جب تم دونوں کو اس حال میں دیکھا تو ہم سب کی تو جیسے جان ہی نکل گئی تھی ۔ کون تھے وہ لوگ اور کیوں کیا انہوں نے ایسا؟

امی میں نہی جانتا وہ لوگ کون تھے اور کیوں کیا انہوں نے ہمارے ساتھ ایسا ۔ ۔ ۔ رملہ کا سوچ کر اسے اپنی بے بسی یا د آ گئی ۔

جو بھی ہو وہ میری بیوی ہے اور میں اس کی حفاظت نہی کر سکا ۔ ۔ ۔ ایک بار پھر ہار گیا

میں شوہر ہونے کا فرض نہی نبھا سکا۔

گھٹنوں پے سر گرائے ظبط اور بے بسی سے آ نکھیں زور سے بند کیں ۔

ہمدان ۔ ۔ ۔ بیٹا کیا ہوا ہے کچھ بتاو تو سہی ۔ ۔ ۔ تمہاری خاموشی مجھے پریشان کر رہی ہے ۔ کچھ نہی امی ۔ ۔ ۔ آپ پریشان نہ ہو میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ بس سر پے زرا چوٹ لگی ہے تو

درد ہے سر میں ۔

میں بینی سے مل کر آتا ہوں ۔ ۔ ۔ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ بینی کے کمرے میں گیا تو وہ اٹھ کر بیٹھی رو رہی تھی۔ پریشان سا اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ کیا ہوا رو کیوں رہی ہو تم ؟

بہت ڈر گئی تھی میں ۔ ۔ مجھے لگا تھا شاید زندہ واپس گھر نہی آسکوں گی ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے

زندگی ختم ہورہی تھی۔

ایک دن میں کیا سے کیا ہو گیا ہمارے ساتھ ۔ ۔ مجھے تو لگتا ہے رملہ نے کروایا ہے یہ سب

کچھ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے ۔

اگر اس نے بدلہ لینا تھا تو صرف تم سے لیتی مجھ سے نہی ۔ ۔ ۔ اسے چوٹ تم نے دی تھی

میں نے نہی دکچھ بھی سوچتی رہتی ہو۔

حلیہ ٹھیک کرو یارا اپنا عجیب شکل بنا رکھی ہے ۔ سب پریشان ہیں گھر میں ۔

پریشان تو ہیں ہم سب ۔ ۔ ۔ بینی کی ماں کمرے میں داخل ہوئیں۔

اور اس پریشانی کی وجہ کیا ہے یہ جاننا ہے مجھے تم بتانا پسند کرو گے آخر یہ سب کس نے کیا

ہے ؟

تائی امی مجھے کیا پتہ کس نے کیا یہ سب کچھ مجھے تو خود ہوش نہی تھا آپ جانتی ہیں۔ ہمدان تیزی سے بول کر جانے کے لیے اٹھ گیا۔

یہاں بیٹھو آرام سے اور میری بات کا جواب دو ہمدان ۔ ۔ ۔ تم اس طرح بھاگ نہی سکتے ۔ آخر چل کیا رہا ہے تمہاری زندگی میں ؟

ایسا کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے تم نے تمہارے ساتھ ساتھ میری بیٹی کی جان کو بھی خطرہ

ہے؟

آج میرے سوالات کے جواب دیے بغیر کہی نہی جاؤ گے ۔ ۔ مجھے بچ جاننا ہے ۔ بینی نے گھبرا کر ہمدان کی طرف دیکھا اور سر نفی میں بلایا ۔ ۔ ۔ جس کا مطلب تھا کہ میں نے

کچھ نہی بتایا ۔

جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ نہی تائی امی ۔۔۔ میں نہی جانتا وہ لوگ کون تھے اور کیوں کیا انہوں نے ایسا ۔ ۔ ۔ ہم دونوں زندہ اور سہی سلامت آپ سب کے سامنے ہیں خدا کا شکر

ادا کریں ۔ آجکل ویسے ہی لوگ پیسہ بنانے کے چکر میں قصائی بنے ہوئے ہیں ۔ دوسرے کی جان کی

کوئی قدر و قیمت ہی نہی ہے ایسے لوگوں کی نظر میں ۔

کہہ تو تم سہی رہے ہو بیٹا لیکن اگر بات پیسہ کی ہوتی تو وہ لوگ پیسوں کا مطالبہ کرتے ۔ ۔ ۔ جبکہ انہوں نے ہم سے ایسا کوئی مطالبہ نہی کیا۔

تم دونوں کو سہی سلامت تمہاری ہی گاڑی میں گھر کے باہر پھینک گئے اور حیرت تو اس بات کی ہے کہ انہیں ہمارے گھر کا ایڈریس بھی پتہ تھا ۔

یہ سب کچھ اتفاق تو نہی ہو سکتا ناں ؟

ایسا کچھ تو ہے جو میں نہی جانتی ۔ ۔ ۔ کچھ تو چھپا رہے ہو تم دونوں ۔

میں اس بارے میں کچھ نہی جانتا تائی امی ۔ ۔ ۔ ابھی میں خود پریشان ہوں ، کچھ پتہ چلا تو بتا دوں گا آپ کو ۔ ۔ ۔ ہمدان بینی کو اشارے میں سمجھاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دو دن بعد طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو یو نیورسٹی کے لیے نکل گیا۔ بینی ابھی جانا نہی چاہتی تھی

لیکن ہمدان کا دل نہی لگ رہا تھا گھر پر یو نیورسٹی پہنچا تو رملہ بھی یو نیورسٹی آئی ہوئی تھی لیکن اکیلی نہی اس کی اماں بھی ساتھ تھیں ۔ کسی انجانے احساس کے زیر اثر ان کی طرف بڑھا لیکن رملہ نے اسے دیکھ کر سر نفی میں بلا

دیا اور چہرہ دوسری طرف موڑ لیا ۔

اور بھی جس جس کو یہ تصویر میں دی ہیں اکٹھی کر کے لے کر آوورنہ تمہارا وہ حشر کروں گی کہ

زندگی بھر یا درکھو گے ۔

وہ نصیر سے بحث کر رہی تھیں اور ہمدان ان کے سامنے آرکا ۔

اسے دیکھ کر وہ بلکل خوش نہی ہو ئیں ۔ رملہ نظریں جھکائے ایسے کھڑی رہی جیسے اسے

دیکھا ہی نہ ہو۔

اس سے تو اچھا تھا آپ اپنی بیٹی کا گلا گھونٹ دیتی ۔ ۔ ۔ اگر اتنی تعلیم و تربیت دلانے کے

بعد بھی اس کا سودا ہی کرنا تھا ۔ ہمدان غصے سے بے خوف بولتا چلا گیا ۔

ماں تو اولاد کو آنے والی زرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے ۔ آپ کیسی ماں ہیں ؟ آپ نے خود اپنی بیٹی کو اس ظالم درندے کے حوالے کر دیا ۔

سچ کہو تو مجھے شرم آرہی ہے اپنے مرد ہونے پر ۔۔۔ ایک ایسا مرد جسے ایک عورت نے

ہرا دیا ۔

اپنی عزت کی حفاظت نہی کر سکا میں ۔ ۔ ۔ اس بات کا افسوس مجھے اپنے آخری سانس تک

رہے گا۔

میرا درد تو شاید کم ہو جائے لیکن آپ نے جو تکلیف اپنی بیٹی کو دی ہے ۔ یہ دردوہ تا عمر نہی بھول سکے گی ۔

مجھے لگا تھا شاید آپ نے اپنی بیٹی کو پڑھنے کی اجازت دی ہے تو اس کے اچھے مستقبل کا بھی سوچا ہو گا لیکن نہی ۔ ۔ ۔ پیسے کے لالچ میں آپ رشتوں کا تقدس بھی بھول چکی ہیں ۔

 ہمدان پلیز ۔ ۔ ۔ رملہ آنسو بہاتی ہوئی دونوں ہاتھ ہمدان کے سامنے جوڑتی ہوئی بولی۔

بس آنسو ہی بہاتی رہو ۔ ۔ کبھی اپنے حق کے لیے آواز مت اٹھانا ۔ ۔ ۔ ہمدان اسی پر تپ

کیا۔

میری بیٹی کے لیے کیا سہی ہے اور کیا غلط اس کا فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو؟ زیادہ سر پے مت چڑھو میرے ۔ ۔ ۔ پرانے زخموں کے نشان ابھی مٹے نہی

تمہارے ۔ گلناز بیگم بھی تپ گئیں ۔

یہ نشان تو مٹ جائیں گے لیکن ۔ ۔ ۔ جو زخم آپ نے ہماری روح پر لگائے ہیں اس کے

نشان کبھی نہی مٹ سکتے ۔

ہر غلطی کی ایک سزا ہوتی ہے لیکن جو سزا آپ نے ہم دونوں کو دی ہے اس کے حقدار

ہم نہی تھے ۔

اچھا ۔ ۔ ۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ابھی لے جاو میری بیٹی کو اپنے گھر ۔ ۔ ۔ جاو بتا دوا اپنے

سارے گھر والوں کہ تم نے نکاح کر لیا ہے ۔

اعلان کرو سب کے سامنے کہ تم نے ایک طوائف کی بیٹی سے نکاح کیا ہے اور اسے اپنی

عزت بنانا چاہتے ہو۔

بولو کر سکتے ہو ایسا ۔ ۔ ۔ ۔ ہے ہمت ؟

بس ہو گئے خاموش ۔ ۔ ۔ بولواب ، بڑی بڑی باتیں کرنا آسان ہے لیکن ان باتوں پر عمل

کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

مجھے عزت دلانے بھی آیا تھا ایک کم ظرف مرد ۔ ۔ ۔ اپنے خاندان کے سامنے ہار گیا

وہ ۔ ۔ مجھے کیا ملا یہ ذلت بھری زندگی ۔

میری بیٹی کا مقدر بھی یہی زندگی ہے تو پھر میں کیوں اسے ایسے راستے پر چلنے دوں جس کی

کوئی منزل ہی نہی ہے ۔

تم مجھ سے میری بیٹی کو چھیننا چاہتے تھے ۔ اسی لیے میں نے تم سے اس کا نکاح پڑھایا تاکہ اسے سمجھا سکوں کہ یہ تمہارے ساتھ وقت تو گزار سکتا ہے لیکن اپنی عزت نہی بنا سکتا ۔ اگر تمہیں اس کی اتنی ہی فکر ہوتی تو جوش میں آنے کے بعد اسے ڈھونڈتے چلے آتے لیکن

نہی ۔ ۔ ۔ تم نے کوشش بھی نہی کی ۔

آپ نے موقع ہی کب دیا میری مرضی جاننے کا ؟

جس طرح پانچ انگلیاں ایک برابر نہی ہوتی بلکل اسی طرح ہر مرد کم ظرف نہی

ہوتا ۔ ۔ ۔ 

آپ کی سوچ غلط ہے ۔ میں رملہ کو بھی بھی اپنانے کے لیے تیار ہوں ۔ جہاں تک بات میرے گھر والوں کی ہے تو

مجھے اس بات کی فکر نہی ہے ۔

کوئی اسے قبول کرے یا نا کرے ۔ ۔ ۔ میں اسے قبول کر چکا ہوں یہ میرے لیے کافی ہے ۔ رہنے دو بیٹا ۔ ۔ ۔ جاو اپنی پڑھائی پر دھیان دو ۔ جس دن ساری دنیا کے سامنے اسے اپنانے کی ہمت آگئی تم میں اس دن چلے آنا۔

میں خوشی خوشی اپنی بیٹی تمہارے ساتھ رخصت کر دوں گی۔

انہوں نے آگے بڑھ کر رملہ کا ہاتھ تھامنا چاہالیکن ہمدان اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ مت کریں ایسا ۔ ۔ ۔ اس بے گناہ کو سزا مت دیں ۔ اس کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی

ہے ۔ کم از کم آپ تو ترس کھائیں ۔

کیا آپ کو تکلیف نہی ہوتی اس کے آنسو دیکھ کر ؟

کیسی ماں ہیں آپ ۔ ۔ ۔ آپ مجھے بتائیں اگر آپ کو پیسے ہی چاہیے تو, جتنی رقم آپ چاہیں گی آپ کو ملے گی لیکن بدلے میں مجھے اس کی خوشیاں چاہیے ۔

ہمارے معاملات پیسوں سے بڑھ کر ہیں۔۔۔ تم ابھی نہی سمجھو گے اور میں ابھی سمجھانا بھی نہی چاہتی۔ بہتر یہی ہو گا کہ تم اپنے راستے الگ کر لو۔ میری بیٹی کا اچھا بر اسب پتہ ہے مجھے

تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہی ہے ۔ چلور ملہ ۔ ۔ ۔ وہ رملہ کو بازو سے بھینچتی ہوئی وہاں سے لے گئیں اور رملہ بس پلٹ کر ہمدان کو دیکھتی رہ گئی ۔

I am Sorry

سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے۔ رملہ نے میری انسلٹ کی تھی سب کے سامنے بس اسی

کا بدلہ لے رہا تھا میں ۔

ان دونوں کے وہاں سے جاتے ہی نصیر ہمدان کے پاس آرکا اور شر مندگی سے سر

جھکائے معافی مانگنے لگا۔

آج تمہاری نظریں زمین پر کیوں جھکی ہیں ؟

میری طرف دیکھ کر بات کرو نصیر ۔ ۔ ۔ تمہاری یہ شرمندگی اب کسی کام کی نہی ہے ۔ کچھ اندازہ بھی ہے تمہیں کہ تم نے کیا کیا ہے ؟

ایک نہی بلکہ تین زندگیاں برباد کرنے کی کوشش کی ہے تم نے ۔۔۔ تمہاری اس بدلہ لینے والی گھٹیا سوچ نے مجھے اور رملہ کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔

تم خود بھی سکون میں نہی رہو گے ۔۔۔ لکھ لو میری بات آج ۔ کبھی وقت ملے تو اکیلیے بیٹھ کر سوچنا کہ تم نے ایک معصوم لڑکی کو کس طرح بر باد کیا ہے ۔

وہ لڑکی جس نے اپنے سنہر سے مستقبل کے خواب دیکھ کر اس یو نیورسٹی میں قدم رکھا تھا ۔ آج زلت کا تمانچہ لیے یہاں سے جا رہی ہے ۔

شرم آرہی ہے مجھے کہ میری وجہ سے ایک معصوم لڑکی کی زندگی زلت کا گڑھ بن گئی ۔

قصور میرا تھا کہ مجھے اس سے ہمدردی تھی ۔ ۔ ۔ بس یہی غلطی ہوئی مجھ سے, میری ہمدردی

اس کے لیے وبالِ جاں بن گئی۔

پوری یونیورسٹی میں اس وقت دو ہی نام زیر بحث ہیں ۔ رملہ اور ہمدان ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کا

سارا کریڈیٹ تمہیں جاتا ہے ۔ تمہاری وجہ سے ہی تو یہ اعزاز ہمیں ملا ہے ۔ میں تو کسی طرح سامنا کر ہی لوں گا دنیا کہ لیکن رملہ کے لیے یہاں پڑھنا اب کسی عزاب سے

۔

کم نہی ہے ۔ خیر مناو تم اپنی ۔۔۔ ہم سے نہی بلکہ اللہ سے کیونکہ اللہ ا پنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے

لیکن حقوق العباد نہی ۔

آئیندہ میرے سامنے مت آنا ۔ ۔ ۔ اسے غصے سے گھورتے ہوئے اپنی کلاس کی طرف

بڑھ گیا ۔ نصیر بے بس سا سیڑھیوں میں بیٹھ گیا ہے ۔ ۔ ۔ بدلے لینے کی آگ میں بہت بڑا گناہ ہو گیا مجھے

سمجھ نہی آرہا کیسے ٹھیک کروں یہ سب ۔ ۔ ۔ رملہ کی بے بسی اور اس کے آنسو مجھے سونے

نہی دیتے۔

دن بدن میری بے چینی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس سے معافی بھی مانگوں تو کیسے ۔ ۔ ۔ اس کی اماں اسے اکیلا چھوڑنے کو تیار ہی نہی ہیں اور اس کا نمبر بھی بند ہے ۔ اگر میں نے اس سے معافی نہ مانگی تو میری زندگی تباہ ہو جائے گی ۔ میرا سکون برباد ہو چکا

ہے ۔ یہ کہانی اس طرح بدل جائے گی یہ تو میں نے سوچا ہی نہی تھا۔

میں تو بس رسلہ کو ڈی گریڈ کرنا چاہتا تھا لیکن اس سے زیادہ ڈی گریڈ میں خود ہو چکا ہوں ۔ ڈیڈ نے بولا ہے کہ گھر نہ آوں اور مام الگ ناراض ہیں ۔ ابھی انہیں میری اس حالت کا نہی

پتہ چلاور نہ معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے ۔ سمجھ نہی آ رہا کروں تو کیا کروں ؟

شرمندگی کے دلدل میں پھنس چکا ہوں میں ۔ ۔ ۔ کوئی تو راستہ ہو گا اس سے باہر نکلنے کا۔ بے بسی سے اپنے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے اٹھہ کر اپنی کلاس کی طرف بڑھ گیا۔ کلاس میں داخل ہوا تو سب اس کو گھور رہے تھے ۔ اس کی حالت ہی ایسی تھی ۔ چہرے پر زخم کے نشان اور ہاتھ پر بندھی پٹیاں اس کی بے بسی واضح کر رہی تھیں ۔ 

کیا ہے تم سب کو ۔ ۔ ۔ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو مجھے ؟

میرے چہرے پر کوئی لیکچھ لکھا ہے کیا جو میرے کلاس میں داخل ہوتے ہی سب سیریس

ہو گئے۔

ایکسیڈنٹ ہوا میرا ۔ ۔ ۔ کوئی شوق نہی مجھے پٹیاں باندھنے کا ۔ رملہ کی خالی سیٹ پر نظر پڑی تو بولتے رک گیا۔

بس کر یار کتنا جھوٹ بولے گا ۔ ۔ ۔ سب جانتے ہیں ہم کونسا ایکسیڈنٹ ہوا ہے تمہارا ۔ رملہ کے گھر والوں نے پھینٹی لگانی ہے تجھے وہ بھی کپڑے دھونے والے ڈنڈے

سے ۔ ۔ ۔ سہی ہڈیاں توڑی ہیں انہوں نے تمہاری ۔

لڑکے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے اور ساری کلاس ہنسنا شروع ہوگئی ۔ نصیر غصے سے ان میں سے ایک پر جھپٹا اور اسے گریبان سے بھینچتے ہوئے زمین پر بیچ دیا ۔ نام مت لینا آئیندہ اس کا ۔۔۔ ورنہ زبان کھینچ لوں گا تمہاری سمجھے ؟

کس کس کو روکو کے اس کا نام لینے سے ؟

ایک لڑکی غصے سے اس کی طرف بڑھی ۔

تمہیں کیا لگا ایک لڑکی کی عزت اتنی سستی ہوتی ہے کہ تم اسے کسی بھی اچھال دو ۔ تم نے اس بیچاری پر اتنا گھٹیا الزام لگایا ہے کہ وہ یو نیورسٹی چھوڑ کر چلی گئی صرف تمہاری

وجہ ہے۔

ڈوب کر مر جاو تم ۔ ۔ ۔ تم جیسے گھٹیا انسان کو اس یو نیورسٹی میں نہی ہونا چاہیے ۔

گھٹیا کم ظرف ۔ ۔ ۔ تمہیں تو جان سے مار دینا چاہیے تھا انہیں تا کہ آئیندہ کوئی بھی گھٹیا

انسان ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتا ۔

نصیر کچھ نہی بولا کیونکہ اس کے پاس کوئی جواب ہی نہی تھا ۔ چپ چاپ کلاس سے باہر نکل

گیا۔

ہمدان یو نیورسٹی سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک انجان نمبر سے کال آنا شروع ہو گئی۔

اس نے کال پک کر لی ۔۔۔ ہیلو۔

ہمدان بھائی میں روشنی ۔۔۔۔ کون روشنی ؟

میں نے پہچانا نہی آپ کو ۔ ۔ ۔ ہمدان سوچ میں پڑ گیا ۔

همدان بھائی میں روشنی رسلہ کی دوست ۔ ۔ ۔ بڑی مشکل سے آپ کا نمبر ملا ہے۔ مجھے آپ کو بتا نا تھا کہ رسلہ بی بی کو ان کی اماں یہاں سے کسی دوسرے ملک بھیج رہی ہیں ۔ رطہ بی بی بہت پریشان ہیں ۔ آپ ان کو روک لیں آکر کیونکہ آپ ہی ہیں جو انہیں بچا سکتے

ہیں۔

جتنی جلدی ہو سکے آپ یہاں پہنچ جائیں ۔ وہ بہت رو رہی ہیں ۔

میں آرہا ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن آنا کہاں ہے ؟


Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top