Aik Raat Ki Dulhan Part 12 – Urdu Font Novel | Bold Romantic Urdu Story PDF

Aik Raat Ki Dulhan Part 12 brings a fresh wave of emotions, drama, and bold romance that defines today’s most popular Urdu font novels. This chapter reveals secrets, pain, and passion that keep readers engaged from start to finish.

If you’re looking for a bold romantic Urdu story, this part will surely satisfy your love for emotional twists and powerful storytelling. It’s written in clear and elegant Urdu font, making it perfect for smooth reading.

Whether you’re a fan of free Urdu novels, romantic love stories, or viral bold Urdu content, Part 12 is a must-read.

💖 Read online in Urdu font
📥 Free PDF download available
🔥 Bold & emotional romantic Urdu novel
📚 Top trending Urdu story 2025

Urdu Font Novel

Aik Raat Ki Dulhan Part 12 – Urdu Font Novel | Bold Romantic Urdu Story PDF

یاد آنے پر ہمدان جلدی سے بولا ۔
وہاں ہی جہاں آپ ان سے پہلی بار ملے تھے ۔ بدقسمتی سے یہی ان کا گھر ہے ۔ ٹھیک ہے میں پہنچتا ہوں ۔ ۔ ۔ کال کاٹ کر تیزی سے پارکنگ کی طرف بڑھا۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور نکل گیا ۔ کیا مصیبت ہے ۔ ۔ ۔ ایک پریشانی ختم نہی ہوتی اور دوسری
شروع ہو جاتی ہے ۔
یہ ماں کم جلاد زیادہ لگتی ہیں مجھے ۔ ۔ ۔ کوئی اپنی اولاد پر اتنے ظلم کیسے کر سکتا ہے ۔ سوچ سوچ کر ہی حیرت ہو رہی ہے مجھے ۔ ۔ ۔ پہلے نکاح اور اب اسے یہاں سے کہی اور بھیج
رہی ہیں۔
پتہ نہی کیا چاہتی ہیں یہ مجھ سے ۔ ۔ ۔ آج کھل کر بات کرنی پڑے گی ان سے اور ان سے پوچھنا پڑے گا کہ آخر ان کی کیا دشمنی ہے میرے ساتھ جو یہ سب کر رہی ہیں ۔ ایک تو بینی نے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ ساتھ والی سیٹ پر مجھے اپنے فون کو دیکھ کر اسے
مزید غصہ آیا ۔ فون سائلنٹ پر لگا کر سیٹ پر واپس پھینک دیا۔ سمجھ نہی آرہی آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے
میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ ایک ہاتھ ماتھے پے رکھے سوچ میں پڑ گیا۔
نصیر نے جو کچھ کیا اس میں میرا کیا قصور تھا ۔ جتنا نقصان رملہ کا ہوا تھا میرا بھی اتنا ہی ہوا۔

پھر یہ نکاح ۔ ۔ ۔ اس نکاح کا مقصد کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے ۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کسی سے شئیر کر لوں شاید تکلیف کچھ کم ہو جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ
شئیر کروں بھی تو کس سے؟
کوئی ہے ہی نہی میرے پاس جس کے کاندھے پے سر رکھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لوں ۔ امی تو کبھی نہی سنیں گی میری بات ۔ ۔ ۔ واویلہ مچا دیں گی گھر میں اور تائی جان ۔ ۔ ۔ وہ بے
گھر کردیں گی سب کو ۔
بینی کو بتایا تو وہ تو شاید میرا قتل ہی کر دے اور مجھے ہی غلط سمجھے گی وہ اتنا تو مجھے پتہ ہے ۔ ایسا کوئی خاص دوست بھی نہی میرے پاس ۔ ۔ ۔ گہری سانس لیتے ہوئے مسکرا دیا ۔ ایک دوست تھی جسے میں نے گنوا دیا ۔ کاش اس کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہوتا میں نے تو
آج وہ میرے ساتھ ہوتی ۔
ایک کو تو کھو چکا ہے اب دوسری دوست کھونے کی ہمت نہی ہے مجھ میں ۔ ۔ ۔ یا اللہ میری مدد
کر د میں بہت مشکل میں ہوں ۔ تیرے سوا کوئی مدد نہی کر سکتا میری ۔ ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد آخر کار مطلوبہ جگہ پہنچ گیا۔
آج چہرہ چادر میں نہی چھپایا ۔ ۔ ۔ گاڑی لاک کرتے ہوئے تیزی سے کوٹھے کی سیڑھیاں
پھلانگتاچلا گیا ۔

ابے کون ہے توں ۔ ۔ ۔ کس سے ملنا ہے تجھے ؟
بوا جی سے بات ہوئی تمہاری ؟
مین دروازے پر پہنچا تو ایک آدمی تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
کون بواجی ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ہمدان نا سمجھی میں بولا ۔
بواجی ۔ ۔ ۔ میرا مطلب یہاں کی مالکن گلناز بیگم ۔
اس کی بات پر ہمدان مسکرا دیا اور اسے راستے سے ہٹاتے ہوئے اندر داخل ہو گیا۔ جا کر بتا دو اپنی ہوا جی کو کہ ان کا داماد آیا ہے۔
آرڈر دینے کے انداز میں اندر داخل ہوا اور ٹانگ پر ٹانگ جمائے صوفے پر بیٹھ گیا۔
ہمدان کو سامنے دیکھ کر گلناز بیگم کے چھرے کی ہوائیاں اڑ گئیں ۔ وہ تیزی سے نیچے آئیں اور سامنے والے صوفے پر اطمینان سے بیٹھ گئیں ۔
یہاں آنے کا مقصد ۔۔۔۔؟

انتہائی ادب سے سوال پوچھا گیا ۔ همدان طنزیہ مسکرا دیا ۔ ۔ ۔ کمال ہے ویسے آپ کا داماد پہلی بار گھر آیا ہے ۔ خاطر تواضع کرنے کی بجائے اس سے آنے کا مقصد پوچھ رہی ہیں آپ ۔ ۔ ۔ اپنی بیوی سے ملنے آیا
ہوں ۔
میری بیوی سے ملنے سے تو نہی روک سکتی آپ مجھے ۔ ۔ ۔ آخر کار شوہر ہوں اس کا, پورا حق
ہے مجھے اس سے ملنے کا ۔
وہ یہاں نہی ہے ۔ کسی دور گئی ہے اپنی ایک دوست کی شادی میں ۔ ۔ ۔ گلناز بیگم نے
بڑے اطمینان سے جواب دیا ۔
کوئی بات نہی آپ مجھے ایڈریس دے دیں ، میں خود پہنچ جاوں گا ۔
ہمدان کی بات پر انہوں نے حیرت سے ارد گرد نظر دوڑائی اور غصے سے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
تم اس سے نہی مل سکتے۔
کیوں نہی مل سکتا میں ۔۔۔؟
بھول کیوں جاتی ہیں کہ اب وہ صرف آپ کی بیٹی نہی ہے ۔ ایک اور رشتہ شامل ہو چکا ہے اس کی زندگی میں ۔

حقدار بدل چکے ہیں ۔ آپ سے زیادہ میرا حق ہے اب آپ کی بیٹی پر ۔ ۔ ۔ بہتر یہی ہو گا کہ
آپ اسے یہاں بلائیں میرے سامنے ۔
یہ رشتہ تو آپ نے ہی جوڑا تھا تو اب یہ پابندیاں کیسی ؟
میرا جب جب دل چاہے گا میں یہاں آوں گا اور اپنی بیوی سے ملوں گا ۔
صد کیوں کر رہے ہو؟
ایک بار کہہ دیا ناں کہ تم اس سے نہی مل سکتے تو نہی مل سکتے ۔ ۔ ۔ یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ
نہی ہے ۔
اپنا اور میرا وقت ضائع مت کرو۔
وقت کون ضائع کر رہا ہے یہ آپ بہتر جانتی ہیں۔ مجھے رملہ سے ملنا ہے وہ بھی
ابھی ۔ ۔ ۔ اسی وقت ۔
جب وہ یہاں ہے ہی نہی تو تم سے کیسے مل سکتی ہے ؟
فضول تماشہ مت لگاو یہاں ۔ ۔ ۔ میری بیٹی کے بارے میں بات کر رہے ہو ، آج تک کسی کو اجازت نہی دی کہ کوئی میری بیٹی پر حق جما سکے ۔
تمہارا لحاظ کر رہی ہوں اس کا مطلب یہ نہی کہ تم سر پے چڑھتے جاو۔ ۔ ۔ آئیندہ یہاں آنے
کی حماقت مت کرنا۔

ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ور نہ کیا کر لیں گی آپ؟
آج بتا ہی دیں مجھے ۔ ۔ ۔ جواب لیے بغیر یہاں سے نہی جاوں گا میں ۔
آخر ایسی کیا مجبوری تھی آپ کی جو آپ نے اپنی بیٹی کو اتنی بڑی سزا دی ہے ؟ اور جہاں تک بات ہے حق جتانے کی۔۔۔ تو ایک بات میں آپ کو صاف صاف بتا دوں اگر آپ بھول رہی ہیں تو ۔۔۔ یہ حق مجھے خود آپ نے ہی دیا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں یہ جاننا ضروری سمجھا ہی نہی آپ نے ۔ ۔ ۔ رملہ کیا چاہتی ہے کیا نہی اپنی بیٹی کی مرضی بھی جاننا ضروری نہی سمجھا آپ نے۔
آخر ایسی کیا دشمنی تھی آپ کی اپنی بیٹی سے ؟
پہلے حق دیتی ہیں آپ اور پھر حق چھینے کی بات کرتی ہیں ۔ آخر آپ کا مقصد کیا ہے ؟
مقصد اگر تمہیں بتانا ہوتا تو کب کا بتا چکی ہوتی ۔ ۔ ۔ تم ابھی نا سمجھ ہو نہی سمجھو گے۔
اماں ۔ ۔ ۔ کیا ہو رہا ہے یہ سب یہاں ؟
رملہ سیڑھیوں سے نیچے آتی ہوئی بولی ۔
اسے آتے دیکھ کر ہمدان کے چہرے پر سکون بھری مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اٹھ کر اس کی
طرف چل دیا ۔

اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر رملہ نے ماں کی طرف دیکھا اور نظریں جھکائے کھڑی ہو
گئی۔
آپ کیوں آئے ہیں یہاں ۔ ۔ ۔ ؟
با مشکل بولی ۔ اس کے لڑکھڑاتے الفاظ اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ دل سے نہیں کہہ رہی تھی بلکہ ڈر کی وجہ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہو چکی تھی ۔
لینے آیا ہوں میں تمہیں ۔ ۔ ۔ ہد ان اس کے رویے پر گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔ غصے سے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا اور رملہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے گلناز بیگم کی طرف بڑھ
کیا۔
لے کر جا رہا ہوں اپنی بیوی کو ۔ ۔ ۔ آپ اسے مجھ سے دور نہی رکھ سکتی۔
میرا حق ہے اس پر ۔ ۔ ۔ وہ بھی سب سے زیادہ اور اس کا فرض ہے میری ہر بات ماننا ۔ رملہ نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور ماں کے پاس جار کی ۔
ہمدان اپنے خالی ہاتھ کو دیکھتا رہ گیا اور گلناز بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ یہ میری بیٹی ہے اور اس پر سب سے زیادہ حق میرا ہی رہے گا ہمیشہ ۔ ۔ ۔ کسی غلط فہمی میں
مت رہنا تم مل گیا جواب ۔ جاواب یہاں سے ۔ ۔ ۔ کہی ایسا نا ہو مجھے دھکے مار کر نکلوانا پڑے ۔

یہ بیٹی آپ کی ہے لیکن اب میری بیوی ہے ۔ ۔ ۔ یہ مجبور ہو سکتی ہے لیکن میں نہی ۔ ۔ ۔ رملہ چلو یہاں سے ۔
میں لینے آیا ہوں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔ ۔ ۔ ایسے بے حس لوگوں میں جی نہی سکوگی تم میرا ہاتھ تھام لو اور پیچھے پلٹ کر مت دیکھنا۔
رملہ نے آنسو بہاتے ہوئے ہمدان کے ہاتھ کو دیکھا اور سر نفی میں ہلا دیا ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ یہاں سے چلے جائیں ہمیشہ کے لیے اور کبھی پلٹ کر مت دیکھئے گا۔
میری اماں نے میرے لیے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہی سہی ہے میرے لیے ۔ ۔ ۔ آپ اپنی
زندگی میں آگے بڑھ جائیں ۔
میری وجہ سے آپ کو رکنے کی ضرورت نہی ہے ۔ آپ اس نکاح کو ایک حادثہ سمجھ کر
بھول جائیں ۔
ہمدان نے بے بسی سے اپنے خالی ہاتھ کو دیکھا اور غصے سے رملہ کی طرف بڑھ کر اسے
کندھوں سے تھام کر جھنجوڑا ۔
ہوشمیں تو ہو تم ۔۔۔؟
نکاح کوئی حادثہ نہی ہوتا ۔ ۔ ۔ میں نے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس رشتے کو دل سے قبول
کیا ہے ۔

حالات چاہے جیسے بھی تھے لیکن اب میری بیوی ہو تم ۔ ۔ ۔ تمہیں اکیلا سسکنے کے لیے
نہی چھوڑ سکتا ۔
جانتا ہوں تم ایک بے حس ماں کی بیٹی ہو اور ماں کے پیار میں مجبور ہو لیکن میرا تو
سوچو ۔ ۔ ۔ کیا تم نہی جانتی میں زندگی میں پہلے کتنا کچھ کھو چکا ہوں۔
تمہیں کھونے کی ہمت نہی ہے مجھ میں ۔ ۔ ۔ چھوڑو اور چلو میرے ساتھ، میں تمہارے لیے ساری دنیا سے لڑوں گا لیکن تمہیں تڑپتے ہوئے نہیں چھوڑ سکتا ۔
کسی کی پرواہ نہیں کروں گا میں۔۔۔ بس تم میرا ساتھ دو۔
میں بھی آپ کی خاطر کر رہی ہوں یہ سب لیکن آپ کو بتا نہی سکتی ۔ ۔ ۔ بہت مجبور ہوں ۔ آپ کی زندگی مجھے اپنی خوشیوں سے زیادہ عزیز ہے ۔ دل ہی دل میں آنسو بہاتی ہوئی بولی
لیکن ہمدان کے سامنے ایک لفظ نہی بولا۔
چھوڑو میری بیٹی کو ۔ ۔ ۔ کیا کر رہے ہو تم ؟
گلناز بیگم غصے سے آگے بڑھی اور رملہ کو آزاد کرنا چاہا مگر ہمدان کی گرفت مظبوط تھی ۔ اگر تم اسی طرح کرتے رہے تو مجبور مجھے پولیس کو بلانا پڑے گا ۔ ۔ ۔ گلناز بیگم جب رملہ کو ہمدان کی گرفت سے آزاد نا کر سکی تو دھمکیوں پے آگئیں ۔

پولیس کیوں بلانی ہے آپ نے ۔ ۔ ۔ اپنے غنڈے بلائیں اور یہی ختم کر دیں مجھے تاکہ آپ
کے بدلے کی آگ ٹھنڈی پڑ جائے ۔
رلہ ڈر کر پیچھے ہٹی ۔ ۔ ۔ آج سے پہلے اس نے کبھی ہمدان کو اتنے غصے میں نہی دیکھا تھا۔ میں بھی دیکھتا ہوں کسی حد تک جا سکتی ہیں آپ ۔ ۔ ۔ آج یا تو آریا پھر پارا سے قصے کو کوئی
تو منزل دے ہی دیں آج ۔
قصہ تو تمہارا اسی دن ختم کر سکتی تھی میں اگر کرنا ہوتا ۔ ۔ ۔ اپنی بیٹی کی وجہ سے مجبور ہوں میں کیونکہ یہ چاہتی ہے کہ تمہاری زندگی بخش دوں ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ تو اس طریقے سے ٹارچر کر رہی ہیں آپ اسے ۔ ۔ ۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو میں
ابھی آپ کو اس مجبوری سے آزاد کر دیتا ہوں ۔
اپنی جیب سے پسٹل نکال کر اپنی کن پٹی پر رکھتے ہوئے رملہ کی طرف بڑھا۔ میری جان بچانے کے لیے کر رہی ہو ناں یہ سب کچھ ۔ ۔ ۔ اگر میں ہی نہی رہوں گا تو سب
ٹھیک ہو جائے گا۔
نہی ۔۔۔ رملہ چلاتی ہوئی آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے پسٹل چھینے کی کوشش کی مگر
ناکام رہی ۔
اماں پلیز کچھ کریں ۔ ۔ ۔ آپ جو کہیں گی میں کروں گی لیکن انہیں کچھ نہی ہونا چاہیے ۔

بیٹی کو نر پتے دیکھ کر گلناز بیگم آگے بڑھی اور اسے گلے سے لگا لیا ۔ اس طرح تو تم ٹارچر کر رہے ہو اپنی بیوی کو ۔ ۔ ۔ ایسا کرنے سے کچھ حاصل نہی ہوگا
تمہیں ۔
ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مان لیتی ہوں میں تمہاری بات اور بھیج دیتی ہوں اسے تمہارے ساتھ لیکن ۔۔۔ تم اکیلیے نہی لے کر جاؤ گے اسے بلکہ اپنے خاندان کے ساتھ آو گے میری بیٹی
کو رخصت کرنے ۔
ہمدان نے پسٹل واپس جیب میں رکھ لی ۔۔ مجھے تھوڑا وقت چاہیے لیکن ۔ ۔ ۔ تب تک یہ آپ کے پاس میری امانت ہے ۔
اگر میری امانت میں خیانت کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھ سے برا کوئی نہی ہوگا ۔ ہمدان کا یہ بدلہ ہوا روپ دیکھ کر رملہ ایک کونے میں کھڑی آنسو بہانے لگ گئی ۔ یہ چند دن کی ملاقات کا اثر تھا یا نکاح کے دو بول کا وہ نہی سمجھ پا رہی تھی۔
ہمدان کی یہ جنونیت اس کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی ۔ بے بسی سے چہرہ دونوں ہاتھوں
میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔
اس کے رونے کی آواز سن کر ہمدان اپنی بات درمیان میں چھوڑ کر اس کی طرف بڑھا ۔ ۔ ۔ پھر پلٹ کر گلناز بیگم کی طرف دیکھا۔

کیا میں تھوڑی دیر کے لیے بات کر سکتا ہوں اپنی بیوی سے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ گلناز بیگم نے بے بسی میں سر اثبات میں ہلایا اور روشنی کو رملہ کو اس کے کمرے میں
لیجانے کا اشارہ دیا ۔
ہمدان ان دونوں کے ساتھ کمرے میں پہنچ گیا ۔
آپ دونوں بیٹھیں میں آتی ہوں ۔۔۔ روشنی مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ ہمدان اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے پاس چلا آیا مجھے روشنی کی کال آئی تھی۔ کہ آنٹی کسی دوسرے ملک بھیجنا چاہ رہی ہیں تمہیں ۔ ۔ ۔ مجھ سے رہا نہی گیا تو میں فوراً چلا
آیا۔
سچ کہوں تو مجھے ڈر لگ رہا ہے آپ سے ۔ ۔ ۔ میں بھی آپ سے دور بھیجنے کے اماں کے اس فیصلے کو بہتر سمجھتی ہوں ۔ ۔ ۔ آپ کا یہ نیا روپ میرے لیے بہت خوفناک تھا۔ رملہ کی بات پر ہمدان مسکرا دیا۔ مجھے اس روپ میں آنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا ورنہ میں
ایسی چیزوں سے دور ہی رہتا ہوں ۔
کیوں میرے لیے اتنی بڑی قربانی دے رہی ہو ؟
میری جان کیا تمہاری خوشیوں سے عزیز ہے ؟ جانتی ہو ایک بار ٹوٹ چکا ہوں میں ۔ ۔ ۔ اب دوبارہ ٹوٹنے کی ہمت نہی ہے مجھ میں ۔

آگے بڑھا اور رملہ کے دونوں ہاتھ تھامے کھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔ میں نہی جانتا یہ سب کیوں ہو رہا ہے ہمارے ساتھ ۔ ۔ ۔ آنٹی کیوں کر رہی ہیں ایسا مجھے اب کسی سے ڈر بھی نہی لگ رہا۔ ۔ ۔ بے خوف ہوچکا ہوں میں ۔
اگر اس وقت مجھے کسی کی پرواہ ہے تو وہ تم ہو ۔ ۔ ۔ جب سے ہمارے درمیان یہ رشتہ جڑا
ہے ہر وقت تمہارا ہی خیال رہتا ہے اس دل میں ۔ ۔ ۔ رملہ کا ہاتھ سینے پے رکھتے ہوئے
جزبات سے چور لہجے میں بولا ۔
جھے کچھ مجھ نہی آرہا کہ ہمار مستقبل کا ہوگا لیکن میں اتا جاتا ہوں مستقبل چاہے کچھ بھی ہو
لیکن تم ہمیشہ میرے پاس رہو۔
محبت کھو یا عشق میں نہی جانتا ۔ ۔ ۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ یہ دل تمہیں کھونا نہی چاہتا ۔ وعدہ کرو تم میرا ساتھ نہی چھوڑو گی ۔ ۔ ۔ حالات چاہے جیسے بھی ہو میرا یقین کرو گی ۔ بس اتنا ہی بولا تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے رملہ کے
سامنے زمین بوس ہو گیا۔
پیچھے سے کسی نے اس کے سر پر وار کیا تھا۔
رملہ چلاتی ہوئی اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور ہمدان کے سر سے بہتا خون دیکھ کر تو اس کے جیسے
حوش ہی اڑ گئے ۔

گلناز بیگم کمرے میں داخل ہوئی اور مسکرا دیں ۔ ۔ ۔ اسے ہاسپٹل پہنچا دو اور اس کی گاڑی
سے فون لے کر اس کے گھر اطلاع پہنچا دو۔
اماں یہ ظلم ہے ۔ ۔ ۔ آپ کیوں کر رہی ہیں ایسا ؟
ہمدان کی حالت دیکھ کر مزید چپ نارہ سکی ۔ تم خاموش رہو ۔ ۔ ۔ کچھ نہی ہو گا اسے بچ جائے گا۔ اس کی فکر چھوڑ کر جانے کی تیاری کرو۔ میں نہی جاؤں گی اماں ۔ ۔ ۔ یہ ظلم ہے ۔ آپ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہیں ۔ تیزی سے ہمدان کی طرف بڑھی اور اس کے سر سے بستے خون پر اپنا ڈوپٹہ اتار کر رکھ کر
خون کو روکنے کی کوشش کی ۔
اٹھو یہاں سے رملہ ۔ ۔ مجھے مجبو ر مت کرو کہ میں تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک کروں ۔ لے کر جاوا سے جلدی یہاں سے اس سے پہلے کہ مرجائے یہ ۔ ۔ ۔ ۔ گلناز بیگم غصے سے
چلائی تو ان کے آدمی ہمدان کو اٹھائے وہاں سے لے گئے۔
رملہ آنسو بہاتی وہی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھوں پر لگے ہمدان کے خون کو دیکھنے لگ گئی۔
اماں جانتی ہیں اس کا قصور کیا ہے ؟
میں بتاتی ہوں آپ کو ۔ ۔ ۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے آپ کی بیٹی کا احساس کیا ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک طوائف کی بیٹی ہوں ہمیشہ میری عزت کی حفاظت کی ۔

لیکن آپ نے اس کے ساتھ کیا کر دیا ۔ ۔ ۔ اس گناہ کی سزا ملے گی ہم سب کو ۔ ۔ ۔ دیکھ لینا
اماں ۔
آپ کی بیٹی بھی اس ” عشق ” میں پل پل نڑ ہے گی ۔ ۔ ۔ جتنا درد آپ نے اسے دیا
ہے ناں اتنا ہی درد مجھے ہو رہا ہے ۔ جانتی ہے کیوں ۔ ۔ ۔؟ کیونکہ آپ کی بیٹی اس سے عشق کر بیٹھی ہے ۔ پہلی ہی نظر میں, پہلی ملاقات میں ۔ ۔ ۔ یہ
جانتے ہوئے بھی کہ وہ میرا نہی ہو سکتا پھر بھی اس کی تمنا کرتی رہی۔
اس بات سے انجان تھی کہ میرا اس کو چاہنا اس کے لیے اتنی بڑی سزا بن جائے گا۔ یہ سزا میں بھی تا زندگی بھگتوگی ۔ ۔ ۔ ” عشق کا یہ کھیل اب ساری زندگی دیکھیں گی
آپ ۔
اگر سکون میں وہ نہی رہے گا تو آپ کی بیٹی بھی تڑپے گی ۔ ۔ ۔ میرے دل پر تو پابندی نہی
لگا سکتی آپ ۔
اس دل میں بس ایک ہی نام رہے گا ہمیشہ ۔ ۔ ۔ ہمدان ،مدان ،ہمدان ۔ میری بے بسی مجھے زندگی بھر نہی بھولے گی اماں ۔ ۔ ۔ ۔ پتہ نہی کس جرم کی سزا دے رہی ہیں آپ ہم دونوں کو ۔

روشنی کمرے میں داخل ہوئی اور تیزی سے رملہ کی طرف بڑھی ۔ ۔ ۔ وہ روشنی کے گلے لگ
کر پھوٹ کر رودی ۔
سنبھالوا سے روشنی اور ایک گھنٹے تک اسے کمرے سے باہر لے آنا ۔ ۔ ۔ ائیر پورٹ جانا
ہے اس نے وٹائم ہو رہا ہے ۔
حکمانہ انداز میں بولتی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں ۔
چپ ہو جائیں بی بی ہی ۔ ۔ ۔ اللہ سب ٹھیک کرے گا ۔ روشنی اسے تسلیاں دینا شروع ہو گئی اور ساتھ ہی ساتھ خود بھی آنسو بہاتی رہی ۔
جیسے ہی ہمدان کے زخمی ہونے کی خبر گھر پہنچی گھر میں تو جیسے کہرام بچ گیا۔ اس کی امی نے
رو رو کر برا حال کر لیا ۔
وہ لوگ تو پہلے ہی پریشان بیٹھے تھے مینی کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ وہ سیڑھیوں سے گرمی تھی اسے ہاسپٹل لے کر گئے ہوئے تھے اور اب ہمدان کے ہاسپٹل پہنچنے کی خبر مل گئی۔

علی بھی پریشان ہو چکا تھا اور ساتھ جانے کی ضد کر رہا تھا لیکن اس کے بابا نے ساتھ لیجانے
سے سے انکار کر دیا کیونکہ اماں اور ابا جی گھر پر اکیلیے تھے ۔
علی کو ان کے پاس چھوڑ کر دونوں میاں بیوی ہاسپٹل کے لیے نکل گئے۔ بڑے ملک صاحب تک خبر پہنچی تو وہ بھی سر تھام کر بیٹھ گئے۔
وہ بینی کی وجہ سے پہلے ہی پریشان بیٹھے تھے ۔ اوپر سے ہمدان کی خبر آگئی ۔ انہوں نے اپنی بیگم کو یہ خبر سنائی تو وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں ۔ ۔ ۔ یا اللہ ہمیں معاف کر دے ہم سے ایسی کونسا گناہ ہو گیا جس کی اتنی بڑی سزا مل رہی ہے ہمیں۔ پہلے بیٹی کو ہاسپٹل لے کر آئے ہیں اور اب داماد کی خبر آگئی۔
پتہ نہی کس کی نظر لگ گئی ہے ہمارے گھر کو ۔ ۔ ۔ آنسو بہاتی ہوئی سجدے میں گر گئیں ۔ دوسروں کا گھر جلانے والے اکثر بے سکون ہی رہتے ہیں ۔ ۔ ۔
ملک صاحب کا لہجہ طنزیہ
تھا ۔
وہ جائے نماز سمیٹ کر ان کے پاس آگئیں ۔ ۔ ۔ میں نے کس کا گھر جلایا ہے جو آپ ہر
وقت مجھ سے ملبے کئے رہتے ہیں۔
کسی کا نہی ۔۔۔ اس وقت بخت کرنے کے موڈ میں نہی ہوں میں، اپنی بیٹی کی فکر ہے مجھے ۔ ۔ ۔ کسی اور دن بخث کر لینا ۔

آپ تو ایسے کہ رہے ہیں جیسے مجھے بینی کی فکر نہی ہے ۔ اکلوتی اولاد ہے میری ۔ ۔ مجھے اس کی فکر نہی ہوگی تو کس کو ہوگی ؟
اپنی بیٹی کی خاطر آپ کے بھائی اور اس کے پورے خاندان کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کے بچوں کے جوتے کپڑے سے لے کر یو نیورسٹی اور کالج کے خرچے اٹھا رہی ہوں ۔ میری بیٹی کو کسی دوسرے گھر نہ جانا پڑے اسی لیے ان سب کو برداشت کر رہی ہوں ورنہ جس طرح کی آپ کے بھتیجے کی حرکتیں ہیں ایک منٹ نہ لگاوں اسے گھر سے نکالنے میں ۔
بیٹی کی وجہ سے مجبور ہو چکی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ہاتھ بندھے ہیں میرے ۔

ضروریہ ہمدان کا ہی کوئی کارنامہ ہے جس کا نتیجہ اس کے ساتھ ساتھ میری بیٹی بھی بھگت
رہی ہے ۔
اس دن بھی کوئی ان دونوں کو زخمی اور بے ہوشی کی حالت میں گیٹ پر پھینک گیا تھا اور آج پھر ہمدان کی یہ حالت ۔ ۔ ۔ کچھ تو کچھڑی پک رہی ہے ہم سب کی ناک کے نیچے ۔ ایک بار خیریت سے سہی ہو کر آجائے تو تسلی سے جواب طلب کروں گی اس سے ۔
ملک صاحب نے افسوس سے سر ہلایا۔ بہت گھٹیا سوچ ہے تمہاری آج بھی ۔ ۔ ۔ وہ بے ہوش پڑا ہے زندگی اور موت کی کشمکش میں اور تم آج بھی اس سے جواب طلب کرنے کی
خواہش کر رہی ہو۔

کبھی تو کچھ اچھا بول لیا کرو اس کے بارے میں ۔ ۔ ۔ اگر تم ان پر احسان کرتی ہو تو کیا وہ
تمہاری کم عزت کرتا ہے ؟
اپنی ماں سے زیادہ اہمیت دیتا ہے تمہیں ۔ ۔ ۔ مگر تم نہی سمجھوگی تمہاری فطرت میں ہی
نہی کچھ اچھا سوچنا اور سمجھنا ۔
اور جہاں تک بات پناہ دینے کی ہے تو ایک بات جو تم ہمیشہ بھول جاتی ہو آج یاد کروا دوں
تمہیں ۔ ۔ ۔ ابا جی نے فیکٹری کا اپنا سارا حصہ ہمدان کے نام کر دیا ہے ۔
کچھ زمینیں علی کے نام کی ہیں تاکہ آنے والے وقت میں تمہارے ظلم سے بچ سکیں وہ ۔ ۔ ۔ فیکٹری کا آدھا مالک ہے ہمدان اور تم اسے دن رات باتیں سناتی رہتی ہو۔ بہت جلد اس کا حق اس کے حوالے کر کے اس فرض سے دستبردار ہو جاوں گا میں ۔ ۔ ۔ وہ
بچہ مجبور ہے اپنے ماں باپ اور چھوٹے بھائی کی خاطر ۔
اس کی تربیت ہی ہے جو وہ تمہیں پلٹ کر جواب نہی دیتا ور نہ کوئی اور ہو تا تو تمہیں چار سنا
کر اب تک یہاں سے جاچکا ہوتا ۔
بڑی آئی حق جتانے والی ۔۔۔
ابا جی نے کیسے آدھی فیکٹری ہمدان کے نام کر دی؟
اس علی کے نام زمینیں کر دیں اور ہماری بینی کے لیے کچھ بھی نہی چھوڑا ؟

گھر جا کر بات کرتی ہوں ان سے ۔ ۔ ۔ یہ کیسا انصاف کیا ہے انہوں نے ہماری بیٹی کے
ساتھ ؟
فی الحال اپنی بیٹی کی سلامتی کے لیے دعا کر لو یہی کافی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ملک صاحب نے دونوں
ہاتھ جوڑ دیے ۔
آپ کو ڈاکٹر صاحب نے بلایا ہے اپنے کمرے میں ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب
دیتیں نرس وہاں آگئی۔
ملک صاحب تیزی سے ڈاکٹر کے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔ وہ بھی ان کے پیچھے کمرے
میں داخل ہوئیں ۔ کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب سب خیریت ہے ناں ، میری بیٹی ٹھیک ہے ؟ جی الحمد للہ آپ کی بیٹی ٹھیک ہے کوئی بڑا مسئلہ پیش نہی آیا جس سے ان کی جان کو خطرہ ہو ۔ بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہو گیا ہے ۔ ان کے مہروں میں کچھ خرابی آگئی ہے اور وہ چل پھر نہی سکیں گی ۔ ۔ ۔ کمر کو تو بلکل حرکت نہی دے سکتی علاج ہو گا انشا اللہ بہت کم عرصے میں صحتیاب ہو جائیں گی ۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب آپ ۔۔۔؟
مسز ملک کی تو آ نکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں بیٹی کی حالت کا سن کر ۔

جی ہاں مسز ملک ۔ ۔ ۔ آپ کی بیٹی اب اپنے سہارے پر چل پھر نہی سکے گی لیکن کچھ عرصے
تک و علاج ہو جائے گا انشا اللہ ۔
ملک صاحب نڈھال سے کرسی پر بیٹھ گئے اور کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے ۔
حوصلہ رکھیں ملک صاحب ۔ ۔ ۔ اتار چڑھاو تو زندگی کا حصہ ہیں ۔ آپ لوگ اللہ کا یہ شکر ادا کریں کہ جان بچ گئی ہے ورنہ خدا نخواستہ جتنی اونچائی سے وہ گری میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ہمت رکھیں اور سنبھا لیں آپ دونوں خود کو ۔ ۔ ۔ اپنی بیٹی کا سہارا بنا ہے آپ لوگوں نے
اگر آپ لوگ ہی ہمت ہار گئے تو اسے کون سنبھالے گا ؟
اللہ سے اچھی امید رکھیں ۔ ۔ ۔ انشا اللہ ٹھیک ہو جائے گی آپ کی بیٹی ۔ ۔ ۔ بہت تکلیف
میں ہے وہ اور اس وقت اسے آپ کی دعاوں اور سہارے کی ضرورت ہے ۔ آئیں آپ لوگوں کو ملوا دوں ان سے ۔ ۔ ۔ دونوں کو ساتھ لیے وارڈ کی طرف بڑھ گئے ۔ بینی بے حس و حرکت لیٹی ہوئی تھی۔ مسز ملک کے آنسووں میں مزید روانی آگئی بیٹی کی حالت دیکھ کر ۔ ۔ ۔ ملک صاحب نے آگے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا اور دکھی سے واپس
پلٹ گئے۔
ابھی ان کو انجیکشن دیا ہے کیونکہ درد بہت زیادہ تھا ۔

کچھ دن تک انہیں رکھیں گے حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپ لوگ گھر لے جانا لیکن ان کا پورا
خیال رکھنا پڑے گا ۔
ہمدان آئی سی یو کے بستر پر پٹیوں میں جکڑ لیٹا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ کچھ دن پہلے جو حالت رملہ کی تھی
آج وہی حال اس کا تھا ۔
اس کی امی نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا ۔ جوان بیٹے کی حالت نے ماں باپ کو نڈھال کر دیا
تھا ۔
دیکھ لی آپ نے حالت میرے بیٹے کی ۔ ۔ ۔ یہ سب آپ کی غیر زمہ داریوں کا نتیجہ ہے ۔ اگر آپ آج کسی قابل ہوتے تو کسی کی ہمت نا ہوتی میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھانے کی ۔ پہلے گھر , دولت سب نشے میں ہار دیا اور اب ہماری آخری دولت دولت بچی تھی ہمارے پاس وہ بھی اس حالت میں ۔ ۔ ۔ خدا کے لیے تو بہ کر لیں اس نشے ۔
یہ سب کچھ اس حرام شراب کی وجہ سے بے برکتی ہے ۔

اللہ سے توبہ کر لیں ۔ ۔ مجھے میرا بچہ سہی سلامت چاہیے ۔ اللہ خیر کرے گا ٹھیک ہو جائے گا وہ ۔ ۔ ۔
تم مجھے کو سنے کی بجائے اس کے لیے دعا کرو۔ ہر وقت چڑ چڑلگائی رکھتی ہو ۔ ۔ ۔ بولنے سے پہلے موقع مناسبت تو دیکھ لیا کرو۔

اس وقت ہاسپٹل میں ہیں ہم گھر میں نہی ۔ ۔ ۔ اور میرے شراب پینے کا کیا تعلق اس بات
سے ؟
اپنے لاڈلے پر تھوڑی نظر رکھا کرو ۔ ۔ ۔ کیا پتہ کسی لڑکی کا چکر ہو اور اس کے گھر والوں نے
مارا ہوا ہے ۔
جتنی پریشان تم ہو اس وقت اتنا ہی پریشان میں بھی ہوں لیکن میں تمہاری طرح آنسو نہی بہا
ستا۔
شراب – – – شراب … شراب … بتاو سارے زمانے کے کہ تمہارا گھر والا شرابی ۔ ۔ ۔
ہے۔
جب دیکھو ہاتھ دھو کر میرے ہی پیچھے پڑی رہتی ہو ۔ ۔ ۔ زندگی خراب ہو گئی ہے میری تم
سے شادی کر کے ۔ قصور میرا نہی تمہاری قسمت کا ہے ۔ ۔ ۔ تم قسمت ہی ایسی لے کر آئی اپنے ساتھ ۔ اتنا ہی برا ہوں میں تو چھوڑ کر چلی کیوں نہی جاتی اپنے مائیکیے ؟
کیوں اپنا وقت ضائع کر رہی ہو میرے ساتھ ؟
آپ لوگ شور مت کریں ۔ ۔ ۔ مریض ڈسٹرب ہو رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ نرس نے ڈانٹا تو وہ خاموش ہوئے اور دور بینچ پر بیٹھ گئے۔

رات کے کسی پہر ہمدان کی آنکھ کھلی تو گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا اور بیٹھنے کی کوشش کی
مگر ناکام رہا۔
سر میں اتنا درد تھا کہ درد کراہ اٹھا ۔ ۔ ۔ اس کے جوش میں آنے کی خبر نرس نے ڈاکٹر تک
پہنچائی تو وہ تیزی سے کمرے میں آیا اور ہمدان کا معائینہ کیا۔
الحمد للہ آپ ٹھیک ہیں ۔ ۔ ۔ ہمیں تو ڈر تھا کہ کسی آپ کومہ میں نہ چلے جائیں ۔
پلیز مجھے جانے دیں ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ میرا یہاں سے جانا بہت ضروری ہے ۔ مجھے کوئی ایسی دوائی دیں جس سے یہ سر درد کچھ دیر کے لیے رک جائے ۔
میرا کسی پہنچنا بہت ضروری ہے ۔
کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ۔ ۔ ۔ میں ایسا نہی کر سکتا ۔ ابھی ابھی تو حوش آیا ہے آپ کو
اور آپ جانے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ آپ کی حالت ایسی ہے کہ چند قدم نہی چل سکتے آپ ۔ ۔ ۔ آرام کریں آپ کے گھر والے
بہت پریشان ہیں آپ کے لیے ۔
ان کے بارے میں تو سوچیں ۔۔۔ گھر والے ۔ ۔ ۔ وہ کب آئے ؟
ان کو بلانے کی کیا ضرورت تھی ۔ ۔ ۔ میں یہاں سے کیسے جاوں گا ؟

میر ارملہ تک پہنچنا بہت ضروری ہے ورنہ وہ مجھ سے دور چلی جائے گی ۔ ۔ ۔ وہ بڑبڑاتا رہا لیکن ڈاکٹر نے اس کی ایک نہی سنی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ہدان ۔ ۔ ۔ میرا بچہ ۔ ۔ ۔ ماں کے لمس پر آنکھیں کھول کر مسکرا دیا اور ان کا ہاتھ تھام کر
ہو نٹوں سے لگا لیا ۔
امی ٹھیک ہوں میں ۔ ۔ ۔ آپ پریشان نہ ہوا کریں اتنا ۔ پریشان کیوں ناں ہو ہم تمہارے لیے ۔ ۔ ۔ ؟
ایک اولاد کے سوا اور ہے ہی کیا ہمارے پاس ۔ ۔ ۔ یہ دوسری طرف چوٹ لگ چکی ہے تمہیں ۔ کیا ضرورت تھی کسی سے جھگڑنے کی ؟
اپنا نہی تو ہمارا ہی سوچ لیا کرو ۔ ۔ ۔ ادھر بینی ہاسپٹل میں ہے اور ادھر تم ۔
کیا ہوا بینی کو ۔ ۔ ۔ ؟
بینی کے نام پر ہمدان چونک گیا ۔
سیڑھیوں سے گری ہے اور کمر میں بہت بری چوٹ آئی ہے ۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اب
چل پھر نہی سکے گی کچھ مہینوں تک ۔
اوہ ۔ ۔ ۔ بس اسی کی کمی رہ گئی تھی ۔ ۔ ۔ افسردگی سر کو تھامتے ہوئے بولا۔ عجیب لڑکی ہے یہ ۔ ۔ ۔ پتہ نہی کب سدھر سے گی ؟

کتنی بار سمجھایا ہے آرام سے چلا کرو لیکن سنتی ہی نہی ۔ ۔ ۔ اب سکون سے لیٹی ہوگی ۔
ٹھیک ہو جائے گی وہ ۔ ۔ ۔ تم اس کی فکر مت کرو۔
آپ کس کے ساتھ آئی ہیں؟
تمہارے بابا کے ساتھ ۔ ۔ ۔ اور کس کے ساتھ آنا ہے میں نے بھلا ۔ باہر جا کر بھیجتی ہوں
ان کو ۔
ٹھیک ہے امی ۔ ۔ ۔ آپ جائیں اور آرام کریں میں ٹھیک ہوں اب ۔ ٹھیک نہی ہو تم ۔ ۔ ۔ اپنا بلکل خیال نہی رکھتے ۔ کیا ضرورت تھی جھگڑا کرنے کی ؟ آئیندہ خیال رکھوں گا امی ۔ ۔ ۔ آپ پریشان نہ ہوا کریں ۔
بھیجتی ہوں تمہارے بابا کو ۔ ۔ ۔ بہت پریشان ہیں وہ بھی تمہارے لیے ۔
ہم ۔ ۔ ۔ ہمدان نے سر اثبات میں ہلایا اور مسکرا دیا۔
کیسی طبیعت ہے شہزادے ؟
ملک صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔
ہمدان ان کا ہاتھ تھام کر مسکرا دیا۔ آپ جیسے بابا کے ہوتے ہوئے مجھے کچھ ہو سکتا ہے
بھلا ۔ ۔ ۔ کیوں اتنا پریشان ہوتے ہیں ؟ بلکل ٹھیک ہوں میں بس زرا سی چوٹ ہے اور زرا سا سر درد ہے ۔

میں کونسا چیف منسٹر ہوں ۔ ۔ ۔ آج تک تم لوگوں کے لیے کیا ہی کیا ہے میں
نے ۔ ۔ ۔ ہمیشہ دکھ ہی دیے ہیں تم لوگوں کو۔
نہی بابا ایسا کچھ نہی ہے ۔ ہم تینوں کی زندگی بس آپ سے ہے ۔ آج ہم جو کچھ بھی ہیں آپ
کی وجہ سے ہی ہیں۔
آپ نے بہت اچھی پرورش کی ہے میری اور علی کی ۔ ہمیشہ ہمارا خیال رکھا ہے ۔
میرا دل رکھنے کے لیے بول رہے ہو ناں ۔۔۔؟ ملک صاحب کا لہجہ افسردہ تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتے ان کی پاکٹ میں رکھا ہمدان کا فون بجنا شروع ہو گیا ۔ یہ تمہارا فون آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ شاید کوئی دوست ہوگی ۔
ان کی بات پر ہمدان مسکرا دیا اور ان کے ہاتھ سے فون لے کر نمبر دیکھا تو روشنی کا تھا۔ اس نے اپنے بابا کی طرف دیکھا اور کال کاٹ دی ۔ ۔ ۔
پتہ نہی کون ہے ۔ ۔ ۔ ایسے ہی
رانگ نمبر ہے ۔
ہم ۔ ۔ ۔ اس عمر میں اکثر رانگ نمبر نملتے رہتے ہیں ۔ خیر تم بات کرو شاید کوئی جاننے والی ہو میں ڈاکٹر سے مل لوں ۔ ۔ ۔ آنکھ دباتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔

ان کے کمرے سے باہر نکلتے ہی ہمدان نے فورا روشنی کا نمبر ڈائل کیا ۔ پہلی بیل پر ہی روشنی نے کال اٹھالی ۔ ۔ ۔
ہیلو ۔ ۔ ۔ روشنی, رملہ کہاں ہے ؟
مجھے اس سے بات کرنی ہے ابھی ۔ ۔ ۔ بے چین سا بولتا چلا گیا ۔
وہ یہاں سے چلی گئی ہیں ہمدان بھائی ۔ ۔ ۔ کہاں گئی ہیں یہ بواجی کے سوا کوئی نہی جانتا ۔ روشنی کے جواب پر ہمدان نے بے بسی سے آنکھیں بند کر لیں ۔
آپ کے لیے بہت پریشان تھیں وہ ۔ ۔ ۔ جانے سے پہلے بار بار کہہ رہی تھیں کہ میں آپ
کو کال کر کے آپ کا حال پوچھ لوں ۔
ان کا فون بھی چھین لیا گیا ہے ان سے ۔ ۔ ۔ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہی ہے ۔ ایک لڑکی کو ساتھ بھیجا ہے ان کے ۔ ۔ ۔ وہ خود رابطہ کرے گی اگر ہوا جی کو ان سے بات کرنی
ہوگی۔
ہم ۔ ۔ ۔ ہمدان نے بے بسی سے کال کاٹ دی ۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

Updated: July 10, 2025 — 4:11 pm

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *