Aik Raat Ki Dulhan Part 13 – New Urdu Novels Online | Romantic & Bold Love Story

Aik Raat Ki Dulhan Part 13 continues the rollercoaster of emotions, heartbreak, and passionate romance. This episode is among the most searched new Urdu novels online, delivering intense storytelling with deep love, pain, and bold decisions.

Written in beautiful Urdu font, it offers smooth reading and connects deeply with lovers of bold romantic Urdu stories, emotional love plots, and free PDF Urdu novels. Each chapter brings suspense, passion, and reality-based feelings that keep readers hooked.

🔥 Viral romantic Urdu novel 2025
💞 New bold Urdu love story
📖 Read online in Urdu font
📥 Free PDF download available

New Urdu Novels Online

Aik Raat Ki Dulhan Part 13 – New Urdu Novels Online | Romantic & Bold Love Story

ایک سال بعد ۔ ۔ ۔ ۔

صبح صبح گھر میں عجیب سا شور مچا ہوا تھا ۔ ہمدان واک کر کے آیا تو ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا لیکن اس کی امی نے اندر جانے سے روک دیا۔

کچھ نہی ہوا ۔ ۔ ۔ تمہارے تایا ابو اور تائی امی کا ذاتی مسئلہ ہے ۔ ناشتہ کرو اور جاو فیکٹری کے لیے ۔ ۔ ۔

جی امی ۔ ۔ ۔ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

تیار ہو کر ڈائینگ ٹیبل کی طرف بڑھا اور پانی کا گلاس پینے ہی والا تھا کہ ڈرائینگ روم سے

باہر آتے تایا جان کے ساتھ آتے وجود کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھوٹ کر

زمین بوس ہو گیا ۔

حیرت زدہ سا کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔

شیشہ ٹوٹنے کی آواز پر سب ہمدان کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی پل ملک صاحب کے ساتھ کھڑی رملہ نے چونک کر ہمدان کی طرف دیکھا اور چند قدم پیچھے ہٹی ۔

دونوں حیرت زدہ انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔

 کیا ہو گیا ہے صبح صبح ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

بینی بستر پر پڑی ہے تو کیا اس کے کارنامے اب تم انجام دو گے ، اچھے بھلا نظر آتا ہے

تمہیں۔

میں تم سے بات کر رہی ہوں ہمدان ۔ ۔ ۔ دھیان کہاں ہے تمہارا؟

تم تو ایسے دیکھ رہے ہو اسے جیسے یہ لڑکی نہی کوئی عجوبہ ہے ۔

انسان ہی ہے یہ اور اب یہی رہنے والی ہے ۔ زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہی ہے ۔ معزرت تائی امی ۔ ۔ ۔ غلطی سے میرے ہاتھ سے پھسل گیا گلاس ۔ ۔ ۔ آخر کا ر ہدان ہمت

کرتے ہوئے بول ہی پڑا۔

بینی کے ذکر پر رملہ مزید چونک گئی اور ڈر کر چند قدم مزید پیچھے ہوتی ہوتی ڈرائینگ روم میں

واپس آگئی ۔

نہی ۔ ۔ ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟

جس انسان سے اماں کو سب سے زیادہ نفرت تھی مجھے اس کے پاس کیسے بھیج سکتی ہیں ؟ اس کا مطلب ہمدان میرے کزن ہیں اور بینی میری بہن ۔ ۔ ۔ نہیں نہی یہ نہی ہو سکتا ۔

ملک صاحب ڈرائینگ روم میں چلے آئے اور رملہ کو پریشان دیکھ کر مسکراتے ہوئے اس

کی طرف بڑھے۔

میں جانتا ہوں میری بیٹی کیوں پریشان ہے ۔ ہمدان کو یہاں دیکھ کر حیران ہونے کی

ضرورت نہی ہے ۔

وہ آپ کے چاچو کا بیٹا ہے اور ۔ ۔ ۔ بینی آپ کی بڑی بہن ہے ۔

میں جانتا ہوں اس نے زیادتیاں کی ہیں آپ کے ساتھ لیکن تب وہ اس رشتے سے انجان تھی۔ جب اسے تم دونوں کے رشتے کا پتہ چلے گا وہ بہت خوش ہوگی ۔

اب چلو میرے ساتھ میری گڑیا ۔ ۔ ۔ ناشتہ کرتے ہیں اور پھر آپ کو آپ کا کمرہ دکھاتی ہیں

آپ کی ماما۔

جی ۔ ۔ ۔ نا چاہتے ہوئے بھی سر ہلاتی ہوئی ان کے پیچھے چل دی۔ ملک صاحب نے اس کے لیے کرسی باہر نکالی تو پہنچاتی ہوئی بیٹھ گئی۔ سامنے بیٹھے ہمدان کی جھکی نظر میں اسے اپنے چہرے پر جھی محسوس ہو رہی تھیں۔ اپنی جگہ سے ہل بھی نہی پا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ملک صاحب کے زبر دستی کھلانے پر ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی مگر نوالہ حلق سے اتر نے مشکل ہو رہا تھا ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سانس ہی گلے میں اٹک گیا ہو۔

اسلام و علیکم ۔ ۔ ۔ یہ کون ہیں ؟

جو سوال کب سے ہمدان کے دماغ میں گردش کر رہا تھا کہ آخر تایا جان کا کیا رشتہ ہو سکتا ہے

رملہ سے وہ سوال علی نے پوچھ لیا۔

یہ آپ کی آپی ہیں بلکل ویسے جیسے بنیش ہے ۔ پڑھائی کے لیے گئی ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ کچھ

دیر پہلے واپس آئی ہیں۔

سیدھی طرح کیوں نہی بتاتے آپ کہ یہ آپ کی دوسری بیوی اور میری خوشیاں کھانے والی سوتن کی بیٹی ہے ۔ ۔ ۔ میری بیٹی سے کیوں تعلق جوڑ رہے ہیں اس کا ؟ اس کی اتنی اوقات ہے کہ یہ میری بیٹی سے مقابلہ کر سکے ۔ ۔ ۔ آپ اس کی رشتہ داری خود تک ہی محدود رکھیں تو بہتر ہے۔

ہمارے ساتھ زبردستی اس کا تعلق جوڑنے کی ضرورے نہی ہے ۔ مسز ملک غصے سے ناشتہ

چھوڑ کر چلی گئیں ۔ علی رملہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا ۔ بدلے میں وہ بھی پھیکا سا مسکرا دی اور نظریں جھکائے

ناشتہ کرتی رہی۔ آنکھوں سے آنسو گر کر اس کے گال بھگونے لگ گئے ۔

 کاش میں یہاں آئی ہی نہ ہوتی ۔ ۔ ۔ اماں کی وصیت نے مجبور کیا مجھے اس گھر میں قدم رکھنے کے لیے ورنہ جس گھر

والوں نے میری ماں کو قبول نہی کیا وہ مجھے بھی قبول نہی کریں گے ۔ ۔ ۔ اس حقیقت سے

واقف تھی میں ۔

ان سب باتوں کو نظر انداز کرو بیٹا ۔۔۔ ابھی آپ کی ماما غصے میں ہیں ۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو

جائیں گی۔

تھوڑا وقت چاہیے ان کو ۔ ۔ ۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے ۔ آپ کے بابا ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ باپ کی تسلی پر پھیکا سا مسکرادی ۔ ۔ ۔ کاش آپ کو اس رشتے کی قدر میری ماں کی زندگی میں

ہو جاتی۔

دل ہی دل میں سوچتی ہوئی بولی لیکن زبان پر شکوے کا ایک لفظ نہی آنے دیا کیونکہ اس کی اماں نے وصیت میں یہی لکھا تھا کہ تم اپنے باپ سے کوئی سوال نہی کرو گی۔ اماں آپ کیوں چلی گئیں مجھے اکیلا چھوڑ کر ۔ ۔ ۔ آپ کی بیٹی کیسے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی

ہیں۔

کہنے کو تو یہاں پر سب اپنے ہیں لیکن اپنوں کے بھیس میں کچھ دشمن بھی ہیں ۔ میں نہی جانتی آپ ہمدان کے بارے میں سب جانتی تھیں یا نہی ۔ ۔ ۔ آپ نے یہ نکاح پلاننگ سے کیا یا پھر بدلے میں میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔

یا پھر شاید آپ ہمدان کے زریعے بابا سے بدلہ لینا چاہتی تھیں ۔ ۔ ۔ کیونکہ ہمدان کی شادی بینی سے ہونے والی تھی اور آپ نے مجھے اس کی بیوی بنا دیا تا کہ بینی کو تکلیف پہنچ سکے۔

اس میں بینی بیچاری کا کیا قصور تھا؟ اور ہدان انہوں نے تو کسی کو کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ پھر آپ نے کیوں کیا ہمارے ساتھ یہ سب کچھ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا میں کیسے کروں گی ہمدان کا سامنا یہ تو مجھے ہی غلط سمجھ رہے ہوں گے ۔

پتا نہیں اماں نے کیا سوچ کر یہ اتنا بڑا قدم اٹھایا اور مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ صحیح کہتی تھی اماں آپ کہ آپ کے فیصلوں کو میں نہیں سمجھ سکو گی ۔ ۔ ۔ واقعی آپ کے فیصلے کو میں نہیں سمجھ سکی۔

لیکن آپ کا مقصد مجھے سمجھ آچکا ہے ۔ آپ کا مقصد تھا اپنی بیٹی کی کفالت ایک مضبوط ہاتھ میں دینا لیکن اب یہ کیوں بھول گئی کہ اس کی قسمت میں کوئی اور لڑکی لکھی ہے۔

آپ کیوں اتنی خود غرض ہو گئیں؟

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں گی

ایک طرف میری بہن ہے اور دوسری طرف میرا شوہر میں کس کا ساتھ دو اور کس کا ساتھ

نه دو ؟

پتہ نہیں ان دونوں کی شادی ہو چکی ہے یا نہیں، جو بھی ہو میں یہاں نہیں رہ سکتی میری وجہ سے کسی کو بھی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے ۔

مجھے اپنے یہاں سے جانے کا کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ نہیں پڑے گا ۔

 کن سوچوں میں گم ہیں بیٹا آپ ؟

وہ اپنی پریشانی میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ملک صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ چونک کر مسکرادی نہیں بابا جانی میں تو یہاں پر ہی ہوں ۔

بس اچانک سے سب کچھ اتنا بدل چکا ہے کہ میں تھوڑی پریشان ہوں۔ مجھے وقت لگے گا سب رشتوں کو سمجھنے میں آپ میری طرف سے بے فکر رہیں۔

ہمدان اٹھا اور ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ اس نے دوبارہ پلٹ کر ایک نظر رملہ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔ رملہ حیرت زدہ سی اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہمدان

اسے ایسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔

اسے تو لگا تھا کہ وہ اس کے پاس بیٹھے گا اس سے باتیں کرے گا اس سے پوچھے گا جانے کی وجہ ۔ ۔ ۔ کیوں نہیں رابطہ کیا آپ نے ؟

لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا ، وہ حیرت زدہ سی اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ بنا لیٹے دروازے کی دہلیز پار کر گیا۔

Welcome

تایا جی اور ہمدان کے وہاں سے جاتے ہی علی نے بڑے پر جوش انداز میں رملہ کی طرف ہاتھ

بڑھایا۔

میں آپ کا چھوٹا بھائی علی مجھے تو جانتے ہی ہو گی آپ ۔ ۔ ۔ چلیں اگر نہی جانتی تو جان جائیں

گی۔ میں ہمدان بھائی کا چھوٹا بھائی ہوں اور آج سے آپ کا بھی بھائی ہوں۔ کوئی بھی کام ہو آپ نے مجھ سے کہنا ہے ویسے اتنے دنوں سے کہاں تھی آپ ؟ یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ۔ ۔ ۔ خیر جو بھی ہو صبح کا بھولا بھٹکا شام کو گھر آئے تو اسے

بھولا نہیں کہتے۔ دیر سے ہی سہی آپ کو ہماری یاد تو آئی۔ ہم دونوں بھائیوں کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

تائی امی کی تو بالکل ٹینشن نا لیں ۔ ۔ ۔ کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جا ئیں گی تو ان کی فکر کرنے کی

ضرورت نہیں ہے۔

ان کی تو عادت ہے بولنے کی ۔ آپ کا چھوٹا بھائی ہے ناں ۔ ۔ ۔ اس کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

اس سے پہلے کہ رملہ اس کا ہاتھ تھا متی ہمدان کی امی بول پڑیں۔

چپ کر کے بیٹھو تم ۔ ۔ ۔ اس سے زیادہ رشتے داریاں بنانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ علی کو کب سے بولتا ہوا دیکھ رہی تھی لیکن آخر کا ر غصے سے بولی پڑیں ۔ انہیں رملہ کے ساتھ

علی کا اس طرح سے فری ہونا پسند نہیں آیا ۔

چپ چاپ ناشتہ کرو اور جاؤا اپنے کمرے میں یو نیورسٹی کی تیاری کرو۔ جب دیکھو بک بک ۔۔۔ ہر کسی کے ساتھ رشتہ داری بنانے کی ضرورت نہی ہے ۔ بھائی تمہارا کب سے چلا گیا ہے اور تم ابھی تک یہی بیٹھے ہو۔

جی امی میں جا رہا ہوں آپ تو میرے ہی بیچھے پڑ جاتی ہیں۔

اب یہ ہماری فیملی میں آئی ہے تو کیا ان کا اچھے سے استقبال نہ کروں ؟ جو بھی ہوا تھا تائی امی کو ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ میری بڑی بہن ہیں اور میرا ان سے رشتہ کوئی ختم نہیں کروا سکتا۔ کچھ زیادہ بڑے نہیں ہوں گے تم ۔ ۔ ۔ زیادہ ہی باتیں آنا شروع ہو گئی ہیں تمہیں زیادہ

ٹرٹر نہ کرو اور جو کہا ہے وہ کرو۔

غصے سے کچن کی طرف بڑھ گئی اور علی کو بھی ساتھ گھسیٹتی ہوئی لے گئیں ۔ کیوں بہن بہن لگا رکھی ہے اس کے سامنے ؟

جانتے بھی ہو کون ہے وہ اور کہاں سے آئی ہے ؟ کیسے ماحول میں پلی بڑھی ہے کچھ اندازہ ہے تہیں ۔۔۔؟

خوامخواہ بولتے جارہے ہو۔ ۔ ۔ تمہاری  پتہ چل گیا تو زبان کھینچ لیں گی تمہاری۔

سوتن کا مطلب سمجھتے ہو ۔ ۔ ۔؟ اگر تمہارا باپ تمہاری دوسری ماں لے آئے تو کیا اس کی اولاد کو بہن ، بھائی قبول کر لو گے

جس بات کا پتہ نہ ہو وہ بات کرنی بھی نہی چاہیے ۔ ۔ ۔ جاو تیار ہو جاو جا کر۔ صبح صبح دماغ خراب کر رہے ہو ۔ ۔ ۔ خبر دار جو دوبارہ اس لڑکی کے آس پاس بھی نظر آئے تو ٹانگیں توڑ دوں گی میں تمہاری ۔

امی جی بس کر دیں آپ ۔ ۔ ۔ وہ جو بھی ہے جیسی بھی اور کہاں سے آئی ہے اس بات سے

کچھ فرق نہی پڑھتا ، آپ بس اتنا یا درکھیں کہ وہ تایا ابو کی بیٹی ہیں۔

یہ سوتن ووتن کا تو نہی پتہ مجھے لیکن اتنا ضرور پتہ ہے میرے ابا جی کو کسی نے بیٹی نہی دینی اب ۔ ۔ ۔ تو آپ اپنی سوتن اور میرے سوتیلے بہن بھائیوں کی فکر چھوڑ دیں کیونکہ آپ کا

یہ خواب کبھی نہی پورا ہونے والا ۔

مزاق میں بات بدلتے ہوئے مسکراتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا۔

دوپہر کو ملتے ہیں آپی ۔ ۔ ۔ بھاگتے بھاگتے رملہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول کر اپنے کمرے

میں بھاگ گیا ۔

رملہ اسے جاتے دیکھ مسکرادی۔

اگر ناشتہ کر لیا ہو مہارانی تو کمرہ دکھا دوں ؟

مسز ملک کی آواز پر رملہ چونک کر اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔

جی ۔ ۔ ۔ ماما ۔۔۔ میرا مطلب بڑی ماما ۔ ۔ ہچکچاتی ہوئی نظریں جھکائے بولی۔

 ماں نہی ہوں میں تمہاری ۔۔۔ آئیندہ مجھے ماں کہنے کی کوشش بھی مت کرنا ، ملک صاحب کی وجہ سے مجبور ہوں میں ورنہ جو تمہاری ماں نے میرے ساتھ کیا تھا کبھی اس گھر میں جگہ نہ

دیتی تمہیں ۔

غصے سے انگلی دکھاتی ہوئی بولیں اور آگے بڑھ گئی۔

جی ۔ ۔ ۔ رملہ نے مختصر جواب دیا اور ڈرائینگ روم کے دروازے میں پڑا اپنا بیگ گھسیٹتی

ہوئی ان کے پیچھے چل دی۔

آنکھوں سے آنسو بہتے چلے گئے ۔ نا چاہتے ہوئے بھی روتی چلی گئی۔

رو تو ایسے رہی ہو جیسے بہت ظلم کر دیا ہو میں نے تم پر ۔ ۔ ۔ مسز ملک اس کی طرف پلٹتی

ہوئی بولیں ۔

نہی وہ میں ۔ ۔ ۔ رملہ نے کچھ بولنا چاہا لیکن بول ہی نہ سکی۔

کیا میں ۔۔۔۔؟

چلواب ۔ ۔ ۔ اور بھی کام ہیں مجھے تمہیں تو کوئی کام ہو گا نہی ۔ اب ساری زندگی سکون سے

یہاں بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑو گی ۔

آپ فکر نہی کریں ۔ ۔ ۔ میں بہت جلد کوئی نوکری ڈھونڈ لوں گی اور ہاسٹل میں رہ کرا پر میں رہ کراپنی پڑھائی مکمل کروں گی ، زیادہ دن نہی رہوں گی آپ کے گھر ۔

آپ نے مجھے اپنے گھر میں جگہ دی یہی بہت ہے میرے لیے ۔ ۔ ۔ چاہے اپنی زندگی میں

جگہ دیں یا نہ دیں لیکن آپ کا یہ احسان زندگی بھر یا د رہے گا مجھے ۔

مسر ملک نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوتی ہوئی حیرت زدہ سی رملہ کی طرف

پلیٹیں۔

کونسی نوکری کرو گی تم ۔ ۔ ۔ وہی جو تمہاری ماں کرتی تھی ؟

جس خاندان میں تم آگئی ہو ناں یہاں کی بیٹیاں نوکری نہی کر تہیں ۔ ۔ ۔ لیکن تم کیا سمجھو گی خاندان کو تمہاری پرورش تو کوٹھے میں ہوتی ہے۔

تمہاری ماں نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا تھا ۔ وہ واپس تو آ گئے تھے لیکن ان کا دماغ

آج بھی ماضی میں تھا ۔

اس کا نتیجہ ۔ ۔ ۔ تم آج میرے سامنے کھڑی ہو ۔ پہلے تمہاری ماں اور آج تم ۔ ۔ ۔ میری

زندگی کی خوشیاں کھا گئی تم دونوں ۔

تم کیا یہاں سے جاو گی ۔ ۔ ۔ میں خود تمہیں زیادہ دن ٹکنے نہی دوں گی۔ بہت جلد تمہیں یہاں سے بھیجنے کا انتظام کرتی ہوں فکر نہی کرو۔ اب آہی گئی ہو تو اپنے دادا دادی سے بھی مل لینا ۔ ۔ ۔ ان کو بھی تو پتہ چلیے ان کے بیٹے کے کرتوت, وہ ہمیشہ مجھے ہی غلط سمجھتے آئے ہیں۔

چلو میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ بلکہ پہلے تم ان سے ہی مل لو۔

زبر دستی رملہ کا بازو تھامے اسے کھینچتی ہوئی اپنے ساتھ اوپر لے گئیں۔ ٹیرس کا جالی والا دروازہ دھکیلی ہوئی آگے بڑھیں اور رملہ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

یہ کون ہے ؟

دادی اماں نے سر تا پاوں رملہ کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ یہ آپ کے بیٹے کی لاڈلی بیٹی ہے میری سوتن میں سے ۔ ۔ ۔ اس سے ملیں آپ دونوں اور ٹھنڈک پہنچائیں خود کو ۔ ۔ ۔ میں کہتی تھی ناں اماں کہ ان کی زندگی سے وہ طوائف ابھی گئی نہی

لیکن آپ مانتی نہی تھیں ۔

نتیجہ دیکھ لیں آپ آج ۔۔۔ غور سے دیکھیں آپ گلناز کی اس بیٹی کو ۔ آپ دونوں کی

آپ کی پوتی مبارک ہو۔

غصے سے بولتی ہوئیں وہاں سے چلی گئیں اور رملہ نظریں جھکائے آنسو بہاتی رہی۔

ادھر آو میرے پاس ۔ ۔ ۔ دادی اماں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ انہوں نے رملہ کی طرف بازو پھیلائے تو وہ تیزی سے ان کے گلے گئی اور جی بھر کر رودی ۔ بہت پیاری ہے میری بیٹی ۔۔۔ بلکل اپنے بابا جیسی آنکھیں ہیں اور اپنی ماں کا عکس ہو

بلکل ایسے لگ رہا ہے جیسے گلناز میرے سامنے بیٹھی ہو۔

بہت پیار کرتا تھا میرا بیٹا تمہاری ماں ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ہم نے اس کی ایک نہی سنی اور اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنے بیٹے کی زندگی خراب کر دی۔

پھر جب اس کی دوسری شادی کی خبر ہم تک پہنچی تو ہم بہت لاچار ہو چکے تھے۔

اس عورت نے ساری زندگی عزاب بنا کر رکھ دی میرے بیٹے کی ۔

بہت بڑی غلطی ہو گئی ہم سے جو ہم نے اپنے بیٹے کا یقین نہی کیا اور اس پر اپنا فیصلہ مسلط

کر دیا۔

دادا جی بھی آگے بڑھے اور پوتی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہمیں معاف کر دینا بیٹا ۔ ۔ ۔ تمہاری ماں کے ساتھ بہت زیا دتیاں کی ہیں ہم نے ۔

اس خاندان کی بہو ہونے کے باوجود اسے اس حق سے محروم رکھا۔ لیکن اب تم فکر ناں کرنا ، تمہارے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہی ہونے دیں گے ہم۔ جب تک ہماری سانس چل رہی ہے ہماری بیٹی کو کوئی اس گھر سے بے گھر نہی کر سکتا ۔ نہی دادا ابو آپ معافی نہ مانگیں ۔ ۔ ۔ ماں باپ ہونے کے ناطے جو کچھ آپ کو بہتر لگے

آپ لوگوں نے وہی کیا ۔ مجھے آپ سب سے کوئی شکایت نہی ہے ۔ جو کچھ ہماری قسمت میں لکھا تھا ہمارے ساتھ

وہی ہوا ہمارے مقدر میں ایسے ہی ملنا لکھا تھا۔

میں اپنا سامان کمرے کے باہر چھوڑ آئی ہوں ۔ اندر رکھ کر آتی ہوں آپ کے پاس۔ بہانہ بناتی ہوئی وہاں سے چلی آئی کیونکہ اپنے آنسووں سے انہیں مزید شرمندگی کے دلدل

میں نہی دھکیلنا چاہتی تھی۔

نیچے آئی کمرے کا دروازہ بند کیا اور آنسو بہانے بیٹھ گئی۔

صبح سے دوپہر اور دو پر سے شام ہو گئی لیکن کسی نے اسے باہر نہی بلایا ۔ گاڑی کے ہارن کی آواز سنی تو کھڑکی سے تھوڑا سا پر وہ پیچھے ہٹا کر دیکھا تو ہمدان اور علی گاڑی سے باہر آتے

دکھائی دیے ۔

جلدی سے پردہ آگے کر دیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

اپنے بابا کے پاس ٹی وہ لاونج میں بیٹھ گئی۔ ہمدان کی اس پر نظر پڑی مگر نظر انداز کرتا ہوا

وہاں سے چلا گیا ۔

با با جان مجھے آپ سے ضروری بات کرنی تھی۔

جی بیٹا کیا بات کرنی ہے آپ کو ۔ ۔ ۔ بلا جھجک بتائیں۔ وہ ٹی وی کا رپورٹ رکھتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

بابا جان میں لاہور جانا چاہتی ہوں اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے ۔ اس کی بات پر سیڑھیاں چڑھتے ہمدان کے قدم وہی رک گئے ۔ ۔ ۔ چند پل رکنے کے بعد

آگے بڑھ گیا۔

فی الحال اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیں آپ اور کچھ دن آرام کریں پھر ہمدان سے مشورہ

کرتا ہوں میں وہ کیا کہتا ہے ۔

کھانا تیار ہے ۔ ۔ ۔ علی پر جوش انداز میں سلام کرتے ہوئے سامنے صوفے ہر بیٹھتے ہوئے

بولا۔

چلیں کھانا کھاتے ہیں ۔

جی ۔۔۔ رملہ مسکراتی ہوئی ان کے ساتھ ڈائیٹنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔

کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آئی عشا کی نماز پڑھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی ۔ خالی

جگ پر نظر پڑی تو چونک کر اٹھ بیٹھی اور پانی بھرنے کچن میں چلی آئی۔

واپس آئی اور دروازہ بند کرتی ہوئی بیڈ کی طرف بڑھ گئی ریمورٹ اٹھا کر لائٹ بند کی اور سائیڈ

لیمپ آن کیا ۔

جیسے ہی لیٹی کھڑکی کا پردہ پیچھے سر کا اور کوئی بیڈ کی طرف بڑھا ۔ ۔ ۔ اپنی طرف بڑھتے اس

وجود کو دیکھ کر رملہ کا تو جیسے سانس خشک ہو گیا۔

کون آیا ہو گا کمرے میں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

رملہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھنے ہی والی تھی کہ ہمدان نے اس کے دونوں بازو تھام لیے اور اسے

اٹھنے سے روک دیا ۔

کچھ دیر خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن پھر اسی کے سینے میں منہ چھپائی جی بھر کر رو

دی۔

دونوں ہی بے آواز آنسو بہا رہے تھے ۔

کیا اتنی سزا کافی نہی میری؟

مجھے بتائی تو سہی آخر میرا قصور کیا تھا؟

کیا تم اتنی مجبور تھی کہ ایک کال بھی نہی کر سکی؟ ایسا بھی کیا مجبوری تھی رملہ ۔۔۔؟

بولو جواب دو مجھے ۔ ۔ ۔ ہدان تیزی سے پیچھے ہٹا اور غصے سے اسے کندھوں سے تھام کر

جھنجوڑا۔

رملہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر سر نفی میں ہلایا ۔

 پلیز ۔ ۔ ۔ اپنی آواز آہستہ رکھیں ۔ ۔ ۔ کوئی سن لے گا ۔

کوئی سنتا ہے تو سن لے ۔ ۔ مجھے کسی کی پرواہ نہی ہے اب ۔ کیا پلاننگ تھی تمہاری اور تمہاری اماں کی ؟ یہی ناں کہ بدلے کی آڑ میں ہی سہی لیکن مجھ پر اور اس جائیداد پر قبضہ جمانے کے لیے یہ نکاح کروایا انہوں نے ۔ ۔ ۔ کیا تم بھی اس سازش میں ان کے ساتھ شامل تھی ؟

ہمدان کے سوال پر رملہ کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے ۔ میں سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ آپ

ایسا سوال کریں گے مجھ سے ۔

میری اماں اب اس دنیا میں نہی ہیں۔۔۔ ایک مہینہ پہلے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے وکیل نے مجھے وصیت سنائی اور بابا سے رابطہ کرنے کو کہا ۔ ۔ ۔ میں نے جیسے ہی

ان سے رابطہ کیا یہ مجھے لینے پہنچ گئے۔

میری اماں کی ایسی کوئی سازش نہی تھی ۔ ۔ ۔ ان کا مقصد میں اب تک نہی سمجھی لیکن شاید

وہ بینی کو تکلیف دینا چاہتی تھیں کیونکہ اس نے مجھے تکلیف دی تھی۔

یا پھر شاید وہ بابا سے بدلہ لینا چاہتی تھیں۔ مجھے کچھ نہی پتہ ۔ ۔ ۔ لیکن جائیداد کے لیے وہ اپنی بیٹی کا سودا نہی کر سکتی اتنا مجھے یقین ہے ۔

سہی ۔ ۔ ۔ ایسے کہہ رہی ہو جیسے ہمارے نکاح کے بعد والا سین تمہیں یاد نہیں ۔ ۔ ۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ہم۔

ایک بات کا جواب دو پہلے مجھے اپنے بابا سے رابطہ کرنے سے پہلے مجھ سے بھی تو رابطہ کر

سکتی تھی ناں ؟

کیوں نہی کیا مجھ سے رابطہ ۔۔۔؟

کیا اتنا غیر ضروری ہوں میں تمہارے لیے ، شوہر کا کوئی مقام نہی تمہاری نظر میں ؟

کیسے مقام کی بات کر رہے ہیں آپ؟

وہ مقام جس کے لیے آپ بھی راضی نہی تھے ۔ ۔ ۔ آپ نے کونسا اپنی مرضی سے مجھے

سے نکاح کیا تھا۔

وہ ایک زبر دستی کا نکاح تھا ۔ ۔ ۔ نکاح زبر دستی ہو سکتا ہے لیکن رشتہ زبردستی نہی نبھایا جا

یہ بات میری آنکھوں میں دیکھ کر بولو ۔ ۔ ۔ ادھر دیکھو میری طرف اور غور سے دیکھو

میری طرف ۔

میری آنکھوں میں جدائی کا غم نظر نہیں آرہا تمہیں ؟ کیا میرے آنسو جھوٹے ہیں ؟

تمہیں لکھتا ہے میں یہ رشتہ نہی نبھانا چاہتا ؟

افسوس ہے مجھے تمہاری سوچ پر ۔ ۔ ۔ آج بھی تمہاری نظر میری اہمیت صرف ایک بے

جس مرد کی ہے ۔

تمہاری نظر میں میں ایک ایسا مرد ہوں جس کو بس جو بصورتی کی چاہ ہے، میرے جزبات اور

میرے احساسات اور ان آنسووں کی کوئی قدر نہی۔

اگر واقعی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں اس رشتے کو نہی نبھانا چاہتا تو ٹھیک ہے جیسے تمہاری

مرضی ۔ ۔ ۔ تمہیں جہاں جانا ہے جاو۔ مجھے تڑپتا دیکھ کر سکون ملتا ہے ناں تہیں ۔۔۔؟ اب یہ سکون زندگی بھر ملے گا تمہیں ۔

میری اس تڑپ کے باوجود بھی اگر تمہارا دل نہی پگھلا تو ایسی تڑپ کو یہی ختم ہو جانا

چاہیے۔

پچھلے ایک سال سے میری زندگی میں جو بے رونقی ہے وہ تو بس ایسے ہی تھی۔ مجھے فرق نہی پڑتا کہ کوئی میرے پاس آئے یا مجھ سے دور جائے ۔

اگر مجھ سے دور جانا چاہتی ہو تو کیا کر سکتا ہوں میں؟

میں چاہتا تو اس ایک سال کے عرصے میں خود تمہیں تلاش کر سکتا تھا لیکن نہی

کیا ۔ ۔ ۔ جانتی ہو کیوں ؟

کیونکہ مجھے یقین تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے تم ایک دن میرے پاس لوٹ کر ضرور آوگی ۔ اسی انتظار کے سہارے اب تک زندہ لاش بنے جی رہا تھا میں لیکن آج میرا یہ مان بھی

ٹوٹ گیا۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ میں کوئی زور زبردستی نہی کروں گا تمہارے ساتھ ۔

 جیسا چاہو گی ویسا ہی ہو گا لیکن ۔۔۔ اس اب یہاں سے جانے کے بعد اگر تم واپس پلٹ کر

آنا چاہوگی تو میں یہاں موجود نہی ہوگا۔ کچھ لوگ اچانک زندگی میں آتے ہیں اور ایسے محبت نچھاور کرتے ہیں جیسے آپ سے خوبصورت اس دنیا میں کوئی ہے ہی نہی, زندگی خوبصورت لگنے لگتی, ہمیں اپنا عادی بناتے ہیں اور پھر اچانک ہماری زندگی سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہی اور ان کی کسی سے زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے ، تنہائی سے دوستی ہو جاتی ہے اور پھر زندگی محض دو لفظوں پر رک سی جاتی ہے اور وہ ہے ” عشق “، تب سمجھ آتی ہے عشق پانے کا نہی بلکہ کھونے کا نام ہے”

یہ عشق ہو تا پتہ ہے کیسے انسان سے ۔ ۔ ۔ ؟

ایک ایسا انسان جس سے آپ چاہ کر بھی محبت نہی بٹور سکتے۔

ایک ایسا بے حس انسان جس کی نظر میں نہ تو آپ کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی احساس ۔ ۔ ۔ آپ خود ہی یک طرفہ محبت کی کشتی پر سوار ” عشق ” میں بستے چلے جاتے

ہیں۔

اس سفر میں اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ جب واپسی کے لیے پلٹتے ہیں تو راستہ ہی نظر نہی

آتا۔

ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوا ہے۔ اس نکاح کے بندھن کو محبت سمجھ کر انتظار کے بیڑے

پر سوار چلتا رہا اور آج جب منزل خود میرے پاس آئی تو میرے ہاتھ خالی ہیں۔ جس رشتے کو میں محبت سمجھتا رہا وہ تو  عشق نکلا ۔ ۔ ۔ اب میں ہار نہی مانوں گا بلکہ

دیکھوں گا یہ عشق اور کتنا دوڑائے گا مجھے ۔

اور کتنے سال از بہت ملے گی مجھے ۔ ۔ ۔ میرے برداشت کی مرکب کی عبور ہو چکی ہے ۔

اب تو بس اس زندہ لاش کا وجود لیے صبر کا دامن تھامنا ہے مجھے ۔

دوبارہ کبھی تمہارے سامنے نہی آوں گا اور نہ ہی ہمارے رشتے کو بچانے کی بھیک مانگوں

Asuwish

چلتا ہوں ۔ ۔ ۔ معزرت اگر میری وجہ سے کوئی پریشانی ہوتی ہے تو ۔ ۔ ۔ بے بس سا

دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

دروازے تک پہنچ کر رک گیا اور پلٹ کر دیکھا لیکن رسلہ سر جھکائے ایسے بیٹھی تھی جیسے اسے کسی بات سے کوئی فرق ہی نہ پڑا ہو۔

ہمدان کے کمرے سے جاتے ہی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی اور دروازہ اچھی طرح

بند کر کے واپس سونے کے لیے لیٹ گئی۔

کتنی ہی دیر تک اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی رہی ۔ ۔ مجھے معاف کر دیں آپ ۔ ۔ ۔ میں بہت

مجبور ہوں ۔

اپنا گھر بسانے کے لیے کسی اور کا گھر برباد نہی کر سکتی ہیں۔

کسی ایک کی خاطر آپ سب کو نہی چھوڑ سکتے۔ جانتی ہوں بڑی بڑی امی کبھی نہی ما نہیں گی اس رشتے کے لیے اور بینی ۔ ۔ ۔ وہ تو پہلے ہی مجھے مجھے اپنی دشمن سمجھتی ہے۔ اب اگر اسے اس نکاح کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو یہ بہت غلط ثابت ہو گا ہم سب کے لیے ۔ ۔ ۔ پہلے ہی نفرت کرتی ہے وہ مجھ سے اور اور اب تو ایک رشتہ جڑ چکا ہے اس کے

ساتھ۔

ایک رشتے کی خاطر میں باقی رشتوں کا خون نہی کر سکتی ۔ ۔ مجھے اپنی خوشیوں کا گلا گھوٹنا ہی

پڑے گا ۔ ۔ ۔ یہاں سے دور جانا ہی پڑے گا ۔ کیونکہ اگر میں بار بار آپ کے سامنے آتی رہی تو آخر کار آپ مجھ پر حق جتائیں گے ۔ ۔ ۔ آپ نے کہہ تو دیا کہ میرے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے لیکن اس پر عمل کرنا اتنا آسان نہی ہو گا آپ کے لیے ۔

آپ کو کیا لگتا ہے آپ اکیلے ” عشق کی چکی میں پس رہے ہیں ؟ نہی ۔ ۔ ۔ غلط ہیں آپ ۔ ۔ ۔ میں بھی بھی اتنا ہی تڑپی ہوں آپ کے لیے جتنا آپ تڑپے ہیں لیکن مجبوریوں کی قید سے کبھی آزاد ہی نہی کر سکی خود کو ۔

آپ کے لیے کہنا بہت آسان تھا کہ میری ماں نے یہ نکاح دولت حاصل کرنے کے لیے کروایا لیکن ان کے لیے لیے یہ فیصلہ کرنا کتنا مشکل تھا۔

یہ بات صرف میں سمجھ سکتی ہوں۔ وہ تو بس اپنی بیٹی کو ایک مظبوط مرد کا تحفظ دینا چاہتی تھیں جسے آپ نے دولت کی حوس سمجھ لیا ۔

میری اماں نے اپنی پوری زندگی مجھ پر لٹا دی ۔ ۔ ۔ چاہتی تو بابا سے خلالے کر دوسری جگہ اپنا گھر بسا سکتی تھیں لیکن انہیں اس دنیا کے باقی سارے مرد بھی ایک جیسے ہی لگے ۔ شاید اسی لیے ڈر چکی تھیں ۔ ۔ ۔ لیکن انہوں نے آپ کو میرے لیے منتخب کیا اس کا مطلب آپ قابل بھروسہ تھے لیکن آپ نے ان کی نیت پر ہی شک کیا۔

اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔

پریشانی سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ دروازہ کھولوں یا نہی ؟ اگر ہمدان ہوئے تو ۔ ۔ ۔ ۔؟

خود سے ہی سوال کرتی ہوئی آخر کار دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

سامنے ہمدان کھڑا تھا لیکن اس کے ساتھ کوئی خاتون بھی تھیں۔

یہ پھوپھو ہیں نور کی ماما ۔ ۔ ۔ ہمدان نے ان کا تعارف دیا اور چہرے پر سنجیدگی لیے وہاں سے

چل دیا۔

اسلام و علیکم پھوپھو جان ۔ ۔ ۔ آپ اندر آئیں ۔ ۔ ۔ رملہ ان کا بازو تھامے انہیں اندر لے

آئی اور لائٹ جلاتے ہوئے انہیں بیڈ پر بٹھا دیا۔

و علیکم اسلام ۔ ۔ ۔ میں ملنے آئی تھی تم سے بیٹا ۔ ہمدان نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے ۔

سب کچھ مطلب ۔ ۔ ۔ میں کچھ سمجھی نہی پھوپھو جان ۔ ۔ ۔ ان کی بات پر رملہ تھوڑی حیران

ہوئی۔

یہی کہ تم دونوں کا نکاح ہو چکا ہے ۔ مجھ سے کوئی بات نہی چھپا تا ہمدان ۔ ۔ ۔ اس گھر میں

صرف مجھ پر بھروسہ کرتا ہے وہ ۔ تمہارے آنے کی خبر ملی تو مجھ سے رہا ہی نہی گیا ۔ سوچا پہلے تم سے مل لوں۔

ان کے جواب پر رملہ نے سر جھکا لیا اور مزید کچھ نہی بولی۔

میں جانتی ہوں بھا بھی نے جو فیصلہ کیا وہ بہت اچھا ہے ۔ اس گھر میں کسی کو کسی دوسرے

کی خوشیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میری بیٹی بھی اسی بے حسی کی بھینٹ چڑھی ہے ۔ اگر بھا بھی مان جاتی تو شاید آج میری نور

زندہ ہوتی۔

مجھے پتہ ہی نہی چلا کب اسے ہمدان سے محبت ہو گئی ۔ ۔ ۔ بہت سمجھایا تھا اپنے دل کو سمجھائے جو وہ چاہتی ہے نہی ہو سکتا لیکن اس نے میری ایک نہی سنی اور دل برداشتہ ہو کر

چلی گئی اس دنیا سے اپنی ماں کو تنہا چھوڑ کر ۔

بیٹی کے ذکر پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔

نور مجبور تھی لیکن تم مجبور نہی ہو ۔۔۔ تمہارا نکاح ہو چکا ہے ہمدان سے اور تمہارا حق ہے  یہ حق کوئی نہی چھین سکتا تم سے ۔

اپنی خوشیاں کسی کے لیے قربان مت کرو ۔ ۔ ۔ اپنی ماں کے فیصلے کو قبول کرو اور زندگی میں

آگے بڑھو۔ کسی کے لیے کوئی قربانی دینے کی ضرورت نہی ہے۔ آج پھر ایک بار مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میری نور میرے سامنے ہے تمہاری شکل میں۔ ایک بار پھر میں اپنی نور کو ٹوٹتے ہوئے نہی دیکھ سکتی ۔ ۔ ۔ ہمدان جو کہہ رہا ہے اس کی بات

مان لو بیٹا ۔

وہ بہت سمجھدار ہے ، سب کچھ سنبھال لے گا ۔ اس کے ہوتے ہوئے تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہی ہے اور میں بھی ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔

کسی بھی میری ضرورت پڑی میں حاضر ہوں لیکن یہاں سے جانے کی بات مت کرنا اب ۔ بہت ٹوٹ چکا ہے میرا بیٹا ۔ ۔ ۔ اسے مزید کوئی دکھ نہ دو۔ پچھلے ایک سال میں بہت دکھ

برداشت کیے ہیں اس نے ۔

تم چاہو تو اسے زندگی کی طرف واپس لا سکتی ہو ۔ جب اس نے مجھے تمہارے آنے کی خبر سنائی تو اس کی آنکھوں میں خوشی دیکھ کر بہت سکون ملا مجھے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتا یا کہ تم یہاں سے جانا چاہتی ہو۔

یہ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا میں سمجھ گئی تھی کہ تم کیوں ایسا کرنا چاہتی ہو ۔ اسی لیے سمجھانے آگئی۔

ہمدان مجھے نہی آنے دے رہا تھا میں زبر دستی آئی ہوں تمہیں سمجھانے ۔ ۔ ۔ میری بیٹی ان ۔ بے حس لوگوں کے لیے لیے اپنی خوشیاں برباد مت کرو۔

نور کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو گیا لیکن تمہیں تھوڑی خود غرض بننا پڑے گا ورنہ میری طرح

خالی ہاتھ رہ جاو گی ۔

سمجھ رہی ہو ناں میری بات ۔۔۔؟

پھوپھو جان میں سمجھ رہی ہوں لیکن ۔۔۔

کیا لیکن ۔ ۔ ۔ ؟

لیکن ویکن کے چکر سے باہر نکل آو ۔ ۔ ۔ یہاں تمہاری قربانی کسی کام نہی آئے گی۔ اپنے

شوہر کی بات مانو بس ۔

وہ تمہاری خاطر ساری دنیا سے لڑ سکتا ہے اگر تم اس کا ساتھ دو۔ اس طرح کب تیک در بدر دھکے کھاتی رہوگی ؟ عورت کا اصل گھر وہی ہوتا ہے جہاں اس کا شوہر ہوتا ہے ۔ ہمدان نے نکاح کیا ہے تمہارے ساتھ اور اور اب تم اس کی زمہ داری ہو۔

جب وہ اپنی زمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار ہے تو کیوں اپنے قدم پیچھے کھینچ رہی ہو؟ زندگی میں کبھی نہ کبھی انسان کو خود غرض ہونا ہی پڑتا ہے ورنہ در بدر کی ٹھوکریں انسان کا

مقدر بن جاتی ہیں ۔

جب تک تمہاری ماں زندہ تھیں سب ٹھیک تھا بیٹا لیکن اب وہ زندہ نہی ہیں ۔ اس وقت تمہیں اپنے باپ کے ساتھ ساتھ ایک اور مظبوط سہارے کی ضرورت ہے ۔ تم کسی کا حق نہی چھین رہی ۔ ۔ ۔ ہمدان کے نکاح میں ہو، ایک دوسرے کی زندگی کا حصہ ہو تم دونوں اور کوئی تیسرا تم دونوں کو الگ نہی کر سکتا ۔

جہاں تک بینی کی بات ہے اس کی قسمت میں اللہ نے کچھ بہتر سوچا ہوگا۔ ہو سکتا ہے اس ایک سال میں ان دونوں کی شادی ہو جاتی لیکن ہوئی نہیں ۔ ۔ ۔ شاید اللہ نہی

چاہتا تھا۔

جس دن تم یہاں سے گئی تھی اسی دن بینی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ ایک سال سے بستر پر

پڑی ہے۔

چلنے پھرنے سے محروم ہے وہ اور پتہ نہی کب تک ایسی ہی رہے ۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔

اچھا ۔ ۔ ۔ میری بیٹی کی معزوری کو استعمال کرتے ہوئے یہ پٹیاں پڑھا رہی ہیں آپ اپنی

بھتیجی کو ۔

وہ رملہ کو سمجھا ہی رہی تھیں کہ مسز ملک کمرے میں داخل ہوئیں۔

انہیں سامنے دیکھ کر رملہ کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے۔ نہی بھا بھی میں تو ۔ ۔ ۔ انہوں نے کچھ بولنا چاہا لیکن مسز ملک نے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بس ۔ ۔ ۔ خبردار جو دوبارہ آپ نے میری بیٹی کو معزوری کا طعنہ دیا تو مجھ سے برا کوئی نہی ہو

زبان کھینچ لوں گی ہیں ۔ ۔ ۔ وہ رملہ کی طرف دیکھتی ہو ئیں بولی۔

Updated: July 11, 2025 — 12:02 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *