Aik Raat Ki Dulhan Part 6 – Trending Urdu Novels Online | Read Free PDF

Aik Raat Ki Dulhan Part 6 adds another thrilling chapter to this emotional and bold Urdu novel. With its powerful storyline, romantic tension, and shocking truths, it’s quickly becoming one of the most trending Urdu novels online.

This part explores deeper emotions, unexpected turns, and a love that refuses to fade. Written in an easy-to-read Urdu font, the novel is perfect for fans of free romantic Urdu stories, sad love tales, and bold Urdu kahaniyan.

Trending Urdu novel of 2025
📖 Available to read online
📥 Free PDF download included
🔥 Romance, drama, and mystery in Urdu
💔 Emotional and bold storytelling

Trending Urdu Novels Online

Aik Raat Ki Dulhan Part 6 – Trending Urdu Novels Online | Read Free PDF

Read here Aik Raat Ki Dulhan Part 5 – Best Urdu Font Novel 2025

اگر اب تک اللہ نے آپ کی حفاظت کی ہے تو ضرور اس میں اس کی کوئی تدبیر چھپی ہو گی ۔ ۔ ۔ اللہ کی مصلحت کو سمجھنا ہم انسانوں کے بس کی بات نہی ہے ۔

آئیندہ اپنے لیے ایسا کچھ نہی سوچنا ۔ ۔ ۔

ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ فون بجنا شروع ہو گیا ۔ ڈیش بورڈ سے فون اٹھا کر نمبر دیکھا ۔ تائی جان کی کال ۔ ۔ ۔ اللہ کرے سب خیریت ہو ۔ جلدی سے کال پک کی اور فون کان

سے لگا لیا ۔

اسلام و علیکم تائی جان ۔۔۔

و علیکم اسلام ۔ ۔ ۔ دوسری طرف بینش تھی ۔ تائی جان نہی آپ کی جان بات کر رہی ہوں۔

کوئی مسئلہ ہے؟

ہمدان بے زار سا بولا ۔

ہاں مسئلہ تو ہے وہ بھی بہت بڑا ۔ ۔ ۔ کب سے کال کر رہی ہوں تمہیں لیکن میری کال اٹینڈ

ہی نہی کرتے ۔

تو مجبوراً مجھے ماما کے فون سے کال کرنی پڑی۔

جب یقین نہی ہے مجھ پر تو کال کیوں ایکسیپٹ کروں میں بینی ؟

بینی کے نام پر رملہ چونک گئی اور پریشان سی گاڑی سے باہر دیکھنے لگی ۔ ہمدان نے مائیک بند کیا اور رملہ کی طرف دیکھا ۔

Don’t worry Relax

فون کے اندر سے باہر نہی آجائے گی وہ ۔

جی ۔ ۔ ۔ رملہ نے مختصر جواب دیا ۔

ہیلو ۔ ۔ ۔ ہمدان ۔ ۔ ۔ میری آواز نہی آ رہی کیا ؟

بینش بولتی جا رہی تھی لیکن ہمدان کوئی جواب نہی دے رہا تھا۔

مائیک آن کرتے ہوئے بے زار سا بولا ۔۔۔ ہاں آرہی ہے تمہاری آواز لیکن میں سننا نہی

چاہتا نہیں۔

 اچھا معافی مانگ رہی ہوں ناں تم سے غلطی ہو گئی ۔ ماما کی باتوں میں آگئی تھی ۔ میں نے انہیں بتایا کہ تم ہر سال نور کی برسی پر گھر آتے ہو تو وہ کہنے لگیں کہ میں نے تو نہی دیکھا اسے آتے اور جاتے ہوئے ۔ پھر وہ پھوپھو کے پاس گئی تو ان کی تسلی ہوئی ۔

کیا ۔ ۔ ۔ تائی جان پھوپھو سے ملنے گئی تھیں ؟

ہاں ماما گئی تھیں ۔ پھوپھو نے بتایا کہ تم ان سے ملنے آتے ہو تو ان کی تسلی ہو گئی۔

تم بھی اچھی طرح تسلی کر لیتی پھوپھو سے ۔ ۔ ۔ تم نے کیوں تائی جان کی باتوں پر یقین کر لیا ؟

کہا ناں سوری ۔ ۔ ۔ اب کیا پاوں پکڑوں تمہارے وہاں آکر ؟

میری طبیعت کا ایک بار بھی نہی پوچھا تم نے اور اس مری ہوئی نور کی یاد میں رونے کے لیے ہر سال رات کو بھی خطرناک راستوں پر سفر کر کے پہنچ جاتے ہو یہاں ۔

نور کے بارے میں ایک لفظ بھی اور مت بولنا بینی ۔ میں برداشت نہیں کروں گا ۔

 اللہ جوڑی سلامت رکھے بیٹا تھوڑی مدد کر دو ۔ اماں دعائیں دیں گی ۔ رملہ نے شیشہ نیچے کیا تو ایک بزرگ خاتون وہاں آگئیں ۔

رملہ نے چونک کر ہمدان کی طرف دیکھا اور ہمدان نے فون کو ۔ کال چل رہی تھی ۔

جوڑی سلامت رکھے ۔ ۔ ۔ کس کے ساتھ ہو تم ؟

بینش چونک گئی ۔

رملہ نے جلدی سے اپنا پرس کھول کر اسے پیسے دیے اور شیشہ اوپر کر دیا۔

ہمدان تم کچھ بول کیوں نہی رہے میں نے پوچھا کس کے ساتھ ہو تم ؟

کسی کے ساتھ نہی ہوں ۔ ۔ ۔ اشارے پے کھڑا ہوں ۔

اشارے پے کھڑے ہو لیکن مجھے ابھی ابھی ایک اماں کی آواز تمہارے فون سے آئی کہ اللہ

جوڑ می سلامت رکھے ۔

بینی میری گاڑی اشارے پے کھڑی ہے سمندر میں نہی جو یہاں کوئی آنہی سکتا ۔ ۔ ۔ ساتھ والی گاڑی سے کہہ رہی تھیں وہ مجھے نہی اور اگر تمہیں اتنا ہی شک رہتا ہے مجھ پر تو بات نہ کیا

کرو مجھ سے ۔

غصے سے کال کاٹ کر فون سائلنٹ پر لگا کر رکھ دیا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔

بہت شک کرتی ہے بینی ۔ ۔ ۔ اس کی شک کرنے کی عادت سے بہت تنگ آچکا ہوں میں ۔

رملہ

 مسکرا دی ۔ وہ آپ کو کھونا نہی چاہتی شاید اسی لیے ۔ ۔ ۔ کوشش کیجئیے گا ان کا اعتبار ہمیشہ برقرار رہے کیونکہ جب ایک عورت دھوکا کھاتی ہے پھر دوبارہ اعتبار نہی کرتی ۔ میری اماں نے بھی اعتبار کیا تھا ایک شخص پر اور نتیجہ کیا نکلا۔ ۔ ۔ اماں کے حصے میں سر

چھپانے کے لیے یہ ناپاک جگہ آئی۔

محبت کی تھی انہوں نے کسی سے اور اس کی خاطر اپنا گھر اور بھائیوں کو چھوڑ کر محبت کی راہ

میں نکل پڑی لیکن اس محبت نے راستے میں ہی دم توڑ دیا ۔

میرا باپ میری ماں کو تڑپتی ہوئی حالت میں ہاسپٹل کے بستر پے چھوڑ گیا ہمیشہ کے لیے ۔ ہو سکتا ہے میری ماں دم توڑ دیتی لیکن وہ زندہ رہی کیونکہ اس وقت میں ان کی

قسمت میں آئی ۔

وہ اندر سے تو اسی دن مر چکی ہیں لیکن زندہ ہیں صرف میرے لیے ۔ اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہیں لیکن زبان پر کبھی شکوہ نہی آنے دیتیں ۔

میرے باپ کی بے وفائی نے انہیں ایک بات اچھی طرح سکھا دی کہ محبت بس ایک بے جان لفظ ہے ۔ اس محبت کا حقیقت میں کوئی وجود نہی ۔ “جب کسی مرد کو عورت تک رسائی

چاہیے ہوتی ہے تو وہ بڑی آسانی سے اس لفظ محبت کا سہارا لیتے ہوئے عورت کو بے وقوف بناتا ہے اور جب وہ عورت اس کی محبت کے سمندر میں خود کو پوری طرح سیراب کر لیتی ہے تو وہ مرد اسے سمندر کے وسط میں ڈوبنے کے لیے تنہا چھوڑ کر مجبوریوں کی کشتی میں سوار ہو کر کنارے سے باہر نکل جاتا ہے ۔ “

اس وقت ایک کوٹھے والی نے انہیں سہارا دیا اور میری پرورش کا زمہ اٹھایا ۔ اس دن سے لے کر آج تک اماں دوبارہ کسی پر اعتبار نہی کر پائیں ۔

سی کہا آپ نے مرد واقعی بہت بے وفا ہے ۔ ۔ ۔ عورت کی محبت کو سمجھ نہی سکتا ۔

واقعی ۔ ۔ ۔ یہ آپ کہہ رہے ہیں؟ رملہ کو حیرت ہوئی ہمدان کے جواب پر ۔

بدلے میں ہمدان مسکرا دیا ۔ وہ بھی ایسی ہی تھی میری محبت میں پاگل اور میں اسے اس کا پاگل پن سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ محبت کے سمندر میں ڈوب رہی تھی اور میں مجبوریوں کا سہارا لے

کر کنارے پر پہنچ گیا لیکن جب میں واپس پلٹا تو وہ مجھے زندگی بھر کے لیے پچھتاوے کے سمندر میں دھکیلتی ہوئی مجھ سے بہت دور جا چکی تھی ۔

کون ۔ ۔ ۔ ؟

رملہ کے سوال پر ہمدان مسکرا دیا ۔

نور ۔ ۔ ۔ تین سال کی تھی جب ہمارے ساتھ رہنے آئی ۔ ننھی سی پری تھی وہ ۔ مجھ سے چار سال چھوٹی تھی ۔ گول گول فراک پہنے پورے گھر

میں گھومتی تھی ۔

پتہ ہی نہی چلا کب وہ بڑی ہو گئی اور اس کے دل میں میرا خیال آیا۔ میرے ساتھ وہ خود کو بہت محفوظ سمجھتی تھی ۔ شاید میری توجہ کو محبت سمجھ بیٹھی تھی ۔

وقت گزرتا گیا اور اس کی شادی کا وقت آ پہنچا ۔

اس کی مہندی کی رات تھی جب وہ میرے کمرے میں آئی

تم یہاں کیا کر رہی نور ؟

جاوا اپنے کمرے میں آرام کرو ۔ ۔ ۔ بہت تھک گئی ہوگی ۔ میں بہت حیران تھا اسے رات

کے اس وقت اپنے کمرے میں دیکھ کر ۔

نہی میں یہاں سے نہی جاؤں گی ۔ ۔ ۔ وہ صند پر اٹک گئی ۔ میں حیران بھی تھا اور پریشان بھی ۔

وہ روتی ہوئی میرے گلے لگ کر آنسو بہانا شروع ہو گئی ۔ میں نے دور کرنا چاہا لیکن اس کی گرفت بہت مظبوط تھی ۔

نا چاہتے ہوئے میں نے بھی اس کے گرد بازو پھیلا دیے اور پوچھا کہ آخر ہوا کیا ہے ؟

میرے سوال پر اس نے جو جواب دیا اس جواب نے مجھے بلا کر رکھ دیا۔ میں آپ کو چھوڑ کر کہی نہی جاؤں گی مجھے آپ سے شادی کرنی ہے ۔ آپ امی کو سمجھائیں ۔ ۔ ۔ میں بہت محبت کرتی ہوں آپ سے ۔

کیا ۔ ۔ ۔ ؟

میں چونک گیا اور بہت مشکل سے اسے خود سے دور کیا ۔ نور تم پاگل تو نہی ہو گئی ؟

دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟

بھائی ہوں میں تمہارا ۔ ۔ ۔ تم نے ہمارے رشتے کے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے لیا ؟ نہی ہیں آپ میرے بھائی ۔ ۔ ۔ پیار کرتی ہوں آپ سے میں اور یہ شادی نہی کرنا چاہتی ۔ آپ سب کو سمجھائیں اور شادی کو رکوا دیں ۔ میں آپ کے علاوہ کسی سے شادی نہی

کروں گی۔

میں سر تھام کر بیٹھ گیا اور پھر ہنس دیا ۔ مزاق کر رہی ہو میرے ساتھ ؟ اچھا مزاق ہے لیکن مزاق کرنے کا یہ سہی وقت نہی ہے جاوا اپنے کمرے میں شاباش ۔

میرے ہنسنے پر اس کے رونے میں مزید روانی آگئی اور وہ میرے پاوں پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ میں مزاق نہی کر رہی آپ کے ساتھ ۔ ۔ ۔ کوئی لڑکی اپنی زندگی کے اتنے خاص دن ایسا مزاق کیوں کرے گی کیا آپ کو میری محبت نظر نہی آرہی ؟

نور یہ تم کیا کر رہی ہو ۔ ۔ ۔ اٹھو یہاں سے ۔ میں نے اسے اٹھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ میرے پاوں چھوڑنے کو تیار ہی نہی اسے اٹھانے کی

تھی۔

اس وقت پھوپھو کمرے میں آئیں اور تیزی سے نور کی طرف بڑھیں ۔ اسے بازو سے ہوئے کھڑا کیا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر لگایا ۔

میں تیزی سے آگے بڑھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا لیکن آج میرے قدم لڑکھڑا گئے ۔

میری امی بھی کمرے میں آچکی تھیں اور ایک تھپڑ میرے گال پر بھی پڑا۔ بے شرم بے حیالڑ کی ۔ ۔ مجھے تھپڑ مارنے کے بعد وہ نور کی طرف بڑھیں اور اسے مارنا

شروع ہو گئیں ۔

پھوپھو خاموش تماشائی بنی چپ چاپ دور کھڑی آنسو بہاتی دیکھتی رہی۔

میں تیزی سے آگے بڑھا اور نور کوامی سے آزاد کرتے ہوئے اسے اپنی بانہوں کے حصار

میں چھپا لیا ۔

مجھے نہی پتہ چلا اس وقت امی کے کتنے تھپڑ مجھے لگے ۔ مجھے اس وقت خود سے زیادہ نور کی فکر

تھی۔

بے شرم بے حیاد یکھو کیسے میرے بیٹے کے گلے لگی ہوئی ہے ماں اور ممانی کی بھی شرم نہی ہے ۔ امی لفظوں کے تیر چلاتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ ہم دونوں پر تھپیڑوں کی برسات

بھی کرتی رہی ۔

اچانک مجھے احساس ہوا جیسے نور کا وجود بے جان ہو چکا ہے ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو

اس کا چہرہ پھیکا پڑچکا تھا اور وجود سر د ہو رہا تھا ۔

میں کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر گاڑی کی چابی اٹھائے اسے بازوں میں اٹھائے گاڑی کی طرف

بھاگا ۔

پیچھے سے امی اور پھوپھو بھی میرے پیچھے دوڑیں ۔

میں نے نور کو پچھلی سیٹ پر لٹایا تو پھوپھو تیزی سے اس کا سر گود میں رکھ کر بیٹھ گئیں ۔ نور

آنکھیں کھولو بیٹا ۔

وہ بہت رو رہی تھیں

امی بھی زبر بر دستی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہو چکی تھیں اور اس وقت ہاتھ پیر کا نپ رہے تھے یہ سوچ کر ہی کہ کسی نور کو کچھ ہو نہ جائے ۔

با مشکل میں ہاسپٹل پہنچا اور نور کو ایمر جنسی میں لے گیا۔

 بے شرم ہو گئے ہو تم ہمدان ۔ ۔ مجھے تو پہلے ہی شک تھا یہ لڑکی کوئی گل ضرور کھکائے گی۔ میں تو شکر ادا کر رہی تھی کہ اس سے جان چھوٹ رہی ہے لیکن مجھے کہاں خبر تھی اس

آنے والے طوفان کی۔

امی خدا کے لیے چپ ہو جائیں آپ ۔ ۔ ۔ آپ کو اندازہ بھی ہے سچ کیا ہے ؟ نا سمجھ  ہے وہ اور آپ اس پر الزام لگائی جا رہی ہیں۔

نا سمجھ ہے وہ تمہارے لیے ہمدان؟ میں نے دیکھا ہے وہ کتنی نا سمجھ ہے تم دونوں ایسے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے جیسے کوئی بہت خاص رشتہ ہو دونوں کے درمیان اور ابھی بھی مجھے کہہ رہے ہو کہ میں

غلط ہوں ۔

مجھے تو پہلے ہی شک تھا اور تمہاری یہ نیک نام پھوپھو یقین نہی کرتی تھیں اپنی بیٹی کو حرکتوں پر اسی لیے سب سے پہلے اسے ساتھ لے کر آئی تاکہ اپنی آنکھوں سے سب دیکھ لے کہ

اس کی نیند کا فائدہ اٹھا کر اس کی بیٹی کیا چاند چڑھا رہی ہے ۔

امی چپ ہو جائیں پلیز ۔ ۔ ۔ آپ نے جو کیا وہ میں زندگی بھر یا درکھوں گا لیکن اس وقت مجھے نور کی فکر ہے اگر اسے کچھ ہو گیا ناں تو ہم سب برباد ہو جائیں گے ۔

یہ لڑکی مر ہی جائے تو اچھا ہے ۔ اس کا مرنا ہے ہمارے لیے بہتر ہے ۔ امی کسی صورت خاموش نہی ہو رہی تھیں اور پھوپھو الگ آنسو بہا رہی تھیں ۔

میں وہاں سے

اٹھ کر باہر چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد واپس آیا تو نور کو ہوش آچکا تھا۔ میں نے ڈاکٹر سے اس کے بے ہوش ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ سٹریس کی وجہ سے ہوا ہے ایسا لیکن اب وہ ٹھیک

ہے ۔ آپ گھر لے جاسکتے ہیں انہیں ۔ ہم نور کو ساتھ لیے گھر آ گئے ۔ پھوپھو اسے اپنے کمرے میں لے گئیں اور امی میرے کمرے میں مجھے نصیحتیں کرنے بیٹھ گئیں ۔

شکر ہے اللہ کا کہ گھر میں سب تھکے ہارے سورہے ہیں ورنہ میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہتی ۔ ۔ ۔ میرے بیٹے نے تو مجھے سب کی نظروں میں گرانے کا عہد کر لیا ہے ۔ امی میں نے ایسا کچھ نہی کیا جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ۔ ۔ ۔ میں نور کو چھوٹی بہن سمجھتا ہوں اور

بس اسے سمجھا رہا تھا۔

ایسے سمجھاتے ہیں گلے لگا کر ؟

واہ ۔ ۔ ۔ صدقے جاوں تمہارے سمجھانے پر ۔

ٹھیک ہے امی آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھتی رہیں لیکن میں نے بھی ایک فیصلہ کر لیا ہے ۔ میں یہ شادی نہیں ہونے دوں گا کیونکہ نور اس رشتے سے خوش نہی ہے ۔ پھوپھو زیادتی کر رہی ہیں اس کے ساتھ اور میں یہ برداشت نہی کروں گا۔

شادی رکوا کر کیا کر لو گے تم ۔ ۔ ۔ پھر خود اس سے شادی کر لو گے ؟

جی ۔ ۔ ۔ یہی کروں گا ہیں ۔ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور میں اسے دکھی نہی دیکھ سکتا۔

تو پھر ایسا کرنا اپنی ماں کو زہر دے دینا کیونکہ اس کے بعد ہم سب دور بدر کی ٹھوکریں کھانے

والے ہیں۔

یہ گھر تمہاری تائی کے نام ہے کیونکہ تمہارا باپ تو اپنا حصہ عیاشیوں میں اڑا چکا ہے ۔ جب تمہاری تائی کو یہ پتہ چلے گا کہ تم اس کی بیٹی کی بجائی نور سے شادی کرنا چاہتے ہو تو وہ ایک منٹ نہی لگائے گی ہمیں اس گھر سے بے دخل کرنے میں ۔

اگر تم نے ایسا کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو میں پیچھے میں رسی ڈال کر پھانسی پے لٹک جاوں گی اور اسے دھمکی مت سمجھنا ۔ امی مجھے دھمکا کر کمرے سے باہر چلی گئیں اور اس رات میں سو نہی سکا کہ یہ سب میرے ساتھ کیا ہو گیا ۔ نور کو ایسا کب محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے محبت کر بیٹھی ہے ۔

ایک طرف تائی جان کے احسانات تھے اور بابا کی غیر زمہ داریاں ۔ ۔ ۔ چھوٹا بھائی اور امی

تھیں اور دوسری طرف نور تھی۔

اس کی رو رو کر سرخ سوجھی آنکھیں ۔۔۔ میں سو ہی نہی سکا۔

اگلا پورا دن میں گھر سے باہر ہی رہا یہ سوچ کر کہ کہی پھر سے نور میرے کمرے میں نہ آ جائے کیونکہ میرے پاس اس کے لیے کچھ نہی تھا۔ میں رشتوں کی بندش میں ایسا جکڑ چکا تھا کہ چاہ کر اس کا ساتھ نہی دے سکتا تھا۔

ہال کی ٹائمنگ سے ایک گھنٹہ پہلے میں گھر آیا اور تیار ہو کر کمرے سے باہر جانے کی لگا تھا کہ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی نور پر نظر پڑی ۔

ایک بار پھر نور میرے سامنے ایک آزمائش بنی کھڑی تھی۔ اس کا دلہن والا روپ اور آنکھوں سے بہتے آنسو اور میری بے بسی آج تک یاد ہے مجھے ۔

میں اس کی حالت دیکھ کر اپنی جگہ سے ہل سبک نا سکا ۔ وہ ہمت کرتی ہوئی خود میری پاس آئی ا ا و

اور دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بے بسی سے دیکھنے لگی۔

اس کے مہندی سے بھرے ہاتھ اور چوڑیوں کی کھنگ ۔ ۔ ۔ میرا وجود کا نپ اٹھا ۔ میں نے بھی اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے ۔ پلیز نور ۔ ۔ ۔ اتنی بڑی آزمائیش میں

مت ڈالو مجھے ۔ تم جو چاہتی ہو وہ نہی ہو سکتا ۔

چاہ کر بھی تمہارے لیے کچھ نہی کر سکتا۔ مجھے معاف کر دینا ۔

میں سائیڈ سے نکل کر جانے ہی والا تھا کہ وہ میرے سامنے آگئی ۔

ایسے نہی جا سکتے آپ ۔ ۔ ۔ میں یہ شادی نہی کرنا چاہتی ۔ آپ سب کو سمجھائیں ۔ آپ کے ساتھ رہنا ہے ہمیشہ ۔ ۔ ۔ آپ کے بغیر رہنے کا سوچ بھی نہی سکتی ہیں ۔

یہ سب تم مجھے پہلے بھی تو بتا سکتی تھی ناں نور ؟

کیوں نہی بتایا ۔ ۔ ۔؟

اب جب تمہارے پاس وقت نہی ہے تب مجھے بتا رہی ہو ۔ ۔ ۔ میں کیا کر سکتا ہوں اب ؟ کوئی بھی اس رشتے کے لیے راضی نہی ہوگا ۔ صرف میرے اور تمہارے چاہنے سے کچھ

نہی ہو سکتا ، بارات ہال پہنچنے والی ہے ۔

چھوڑ دو یہ بے وقوفی اور آنے والی زندگی کا سوچو ۔ ۔ ۔ بند کرو یہ رونا ۔ ۔ ۔ تمہارے یہ آنسو میری جان لے لیں گے ۔

میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے تو اس نے میرا ہاتھ کر ہو نٹوں سے لگالیا اور میں

چونک کر پیچھے ہٹا ۔

نور بس کرو پلیز ۔ ۔ ۔ یہ سب سہی نہی ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہی آرہا کہ آخر میری ایسی کونسی غلطی تھی جو تم مجھ سے محبت کر بیٹھی ۔

اس نے میری بات کا کوئی جواب نہی دیا بس زار و قطار آنسو بہاتی رہی۔ چلو اپنے کمرے میں ۔ ۔ ۔ کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔ میں اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور سر نفی میں بلا دیا ۔ نہی جاؤں گی میں کہیں بھی ۔ ۔ ۔ میں نے کہہ دیا ناں مجھے آپ کے پاس رہنا ہے ہمیشہ ، آپ

سمجھ کیوں نہی رہے؟

آپ کے لیے میری محبت مزاق ہے ؟

دیکھو نور میں مانتا ہوں تمہارے جزبات سچے ہیں لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔ میں کچھ

نہی کر سکتا ۔

آپ کر سکتے ہیں بہت کچھ لیکن سچ تو یہ ہے آپ کرنا نہی چاہتے ۔ سچ یہ ہے کہ آپ اس

دولت کے چھن جانے کا ڈر ہے ۔

میں اسے سمجھانا چاہ رہا تھا لیکن وہ مجھے ہی غلط سمجھ رہی تھی۔

مجھے غصہ آگیا میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ میری طرف دیکھ کر بولو کیا تمہیں لکھتا ہے میں دولت کے لیے تمہارا ساتھ نہی دے رہا؟

مجبور ہوں میں ۔ ۔ ۔ میرے سر پے ماں باپ اور ایک چھوٹے بھائی کی زمہ داری ہے ۔ کیا ان کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دوں ؟

خود کو میری جگہ رکھ کر دیکھو نور اور خود فیصلہ کرو۔

اگر میں آپ کی جگہ ہوتی تو میں اپنے دل کی سنتی ۔ ۔ ۔ آپ کہہ دیں کہ آپ کا دل میرے

حق میں فیصلہ نہی سنا رہا ۔ ۔ ۔ آپ کی آنکھیں سب بتا رہی ہیں۔

آپ میرے حق میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈرتے ہیں ۔ میرے حق میں فیصلہ کیوں نہی کر دیتے ۔۔۔؟

وہ ایک بار پھر میرے سینے پے سر رکھے آنسو بہا رہی تھی مگر اس بار میں اس کی طرف ہاتھ نہی بڑھا سکا اور نہ ہی اسے خود سے دور کر پایا۔

بے بسی کی انتہا پر تھا میں ۔ ۔ ۔ میری آنکھوں سے بھی چند آنسو اس کے ڈوپٹے پر گر کر

جزب ہوئے ۔

میں مر جاوں گی آپ کے بغیر ۔ ۔ ۔

اس کے یہ آخری الفاظ تھے جو میں نے سنے تھے ۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی میں سوچ بھی نہی سکتا تھا ۔ میں نے غصے سے اسے خود سے دور دھکیلا ۔ تو مر جاو” ۔ ۔ ۔

ان الفاظ کو بولنا میرے لیے بہت مشکل تھا مگر میں بول گیا لیکن کہاں جانتا تھا کہ وہ میری اتنی فرما نبر دار نکلے گی۔

اس کے گرنے کی آواز پر میں اس کی طرف پلٹا تو وہ زمین پر گرمی سانس لینے کی کوشش کر

رہی تھی۔

مجھے دیکھتے دیکھتے اس نے آنکھیں بند کیں اور پھر کبھی اس کی آنکھیں کھل نہی سکی ۔ اس کا ہارٹ فیل ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ میں سوچ بھی نہی سکتا تھا میر ے ان الفاظ کا اتنا گہرا صدمہ

پہنچے گا اسے ۔

میں بے جان وجود لیے اس کی طرف بڑھا اور اس کا سر گود میں رکھے اسے جگانے کی کوشش کرتا رہا۔ میری ایک آواز پر دوڑی چلی آنے والی نور آج میرے بہت بار

پر کارنے پر بھی نہی اٹھی ۔

اس کا وجود سرد پڑ چکا تھا۔ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اور اس کی نبض رک گئی اور سانس تھم چکی تھی۔

اس کے ساتھ ہی مجھے بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے میری بھی سانس رک چکی ہے ۔

مجھے کچھ یاد نہی کب سب آئے اور اس کا بے جان وجود مجھ سے چھین کر چار پائی پر لٹا دیا گیا ۔ مجھے حوش تب آیا جب وہ کفن میں لپٹی سامنے لیٹی تھی اور اس کے آخری دیدار کا

فرمان میرے کانوں میں پڑا۔

تب میں اس کی چارپائی سے لپٹ کر جتنا چلا سکتا تھا چلایا ۔ ۔ ۔ مگر وہ میرے اتنا چلانے پر بھی نہی اٹھی۔

اس کی میت کا وجود اپنے بے جان کندھوں پے اٹھائے مجھے قبرستان جانا پڑا ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے میں کبھی قبرستان نہی گیا تھا لیکن اب ہر سال باقائدگی سے اس سے ملنے جاتا

ہوں ۔

سب چلے گئے سوائے میرے ۔ ۔ ۔ ابھر تے سورج کی کرنیں میری آنکھوں پڑیں لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میری زندگی کی شام ہو گئی ہو۔

میری ہنستی مسکراتی نور میری زندگی میں اندھیرا کر گئی ۔

اتنی محبت کرتی تھی تم مجھ سے کہ میرے کہنے پر مجھے ہمیشہ کے لیے تنہا کر گئی ؟ میں پتہ نہی کتنی دیر اس کی قبر پے بیٹھا سوال کرتا رہا جیسے امید ہو کہ وہ میرے کسی سوال کا جواب دے گی مگر وہ تو خاموش ہو چکی تھی ہمیشہ کے لیے اور اس کی یہ خاموش میرے منہ

پر ایسا تمانچہ تھی جو مجھے مرتے دم تک یادر ہے گا۔

شاید میں رات تک وہی بیٹھا رہتا اگر تایا جی وہاں نہ آتے ۔ ۔ ۔ وہ مجھے زبر دستی گھر لے آئے اور مجھے پھوپھو کے کمرے میں چھوڑ دیا۔

جاو سنبھالو اپنی پھوپھو کو اور خود کو بھی ۔ ۔ ۔ تایا جی مجھے وہاں چھوڑ کر خود وہاں سے چلے

گئے۔

میں اپنے وجود کا بوجھ لیے بھاری قدم با مشکل اٹھاتے ہوئے ان تک پہنچا اور ان کے

قدموں میں گر گیا۔

میری وجہ سے مرگئی نور پھوپھو ۔ ۔ ۔ میں سزا کا حق دار ہوں ۔ آپ جو سزا دینا چاہیں مجھے

منظورے۔

منظور ہے ۔

پھوپھو بے بسی سے آنسو بہاتی ہوئی کرسی سے اتر کر میرے سامنے فرش پر بیٹھ گئیں۔ تمہارا قصور نہی ہے ہمدان ۔ ۔ ۔ میں نے مارا ہے اپنی بچی کو۔

وہ مجھے کہتی رہی کہ اسے یہ شادی نہی کرنی لیکن میں نے اس کی ایک نہی سنی اور دیکھو وہ

اپنی ماں سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو کر چلی گئی۔

پھوپھو میرے کندھے پر سر رکھے آنسو بہاتی بہاتی بے ہوش ہو گئیں ۔

ان کی طبیعت اتنی خراب ہو گئی کہ انہیں ہاسپٹل شفٹ کرنا پڑا۔ جوان بیٹی کی موت وہ بھی

رخصتی سے چند گھنٹے پہلے اس صدمے نے انہیں نڈھال کر دیا۔

رشتہ داروں کی طرف سے الگ الگ الزامات سننے کو ملے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سب ہمارے غم میں شریک ہونے نہی بلکہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑ کنے آتے تھے ۔ امی کو اپنی غلطی کا زرا احساس نہی ہوا آج تک بھی ۔ ۔ ۔ وہ یہی سمجھتی ہیں کہ نور کو کوئی بیماری تھی جس نے اچانک حملہ کر دیا ۔ بھلا محبت میں کون مرتا ہے ؟

کوئی کسی کے لیے نہی مر تا سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

نور کی موت کا یہ دن میرے لیے بہت دردناک ہوتا ہے ۔ اس دن میں گھر نہی جاتا بلکہ گھر سے دور ایک ایسی جگہ جاتا ہوں جہاں ایک لڑکی دلہن بنی میرا انتظار کرتی ہے اور میں اسے

نوار سمجھ کر خود کو اذیت دیتا ہوں ۔

پہلا سال میرے لیے بہت درد ناک تھا۔ میں اپنے کمرے میں سونی پاتا تھا اور اس گھر میں

رہنا بھی دشوار تھا میرے لیے ۔

تو میں نے ہاسٹل میں رہنا شروع کر دیا ۔ امی نے روکنا چاہا لیکن میں نے کہہ دیا کہ مجھ سے یہاں پڑھائی نہی ہوتی ۔ ۔ ۔ میری پڑھائی کا حرج نہ ہو اس لیے وہ خاموش ہو گئیں ۔ لیکن اب جیسے جیسے یہاں سے جانے کے دن قریب آتے جا رہے ہیں میرا خوف مزید بڑھتا جا رہا ہے ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اپنے ہی گھر سے دور بھاگنے کے بہانے

تلاش کر رہا ہوں ۔

نور میری زندگی کا وہ راز ہے جسے میں نے آج تک کسی کے ساتھ شئیر نہی کیا ۔ وہ میری زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جو مجھ سے دور کر مجھ سے الگ نہی ہے ۔

آج بھی اس گارڈن میں اس کی ہنسی کی آوازیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اچانک میرے سامنے آجائے گی اور میں ہاتھ بڑھا کر اسے ہمیشہ کے لیے روک لوں

گا۔

بہت اذیت میں ہوں میں ۔ ۔ ۔ اس اذیت سے فرار کا کوئی راستہ نہی ہے میرے پاس میں چاہ کر بھی اپنی غلطی کا کفارہ ادا نہی کر سکتا ۔

وہ اکثر چھپ چھپ کر مجھے دیکھتی تھی۔ اس کی مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں کی وہ روشنی وہ واقعی ایک نور تھی جو ہمیشہ میرے دل میں جگمگاتی رہے گی۔

رملہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور اسٹیرنگ وہیل پے سر گرائے بیٹھے

ہمدان کے کندھے پر ڈرتے ڈرتے ہاتھ رکھا۔

ہمدان نے بھیگی آنکھوں سے سر اٹھا کر رملہ کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر

دی۔

I am sorry

میری وجہ سے آپ لیٹ ہو گئیں ۔ میں اپنی یادوں میں اتنا الجھ گیا تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہی

چلا۔

Its ok

آپ کو سوری بولنے کی ضرورت نہی ہے ۔ بلکہ مجھے خوشی ہوئی آپ نے اپنا غم کسی سے تو

بانٹا۔

خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں لیکن غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے ۔ ہمیں بس ایک سہارا چاہیے ہوتا ہے، جس کے کندھے پے سر رکھ کر اپنے سارے غم بھلا دیں ، ایک ایسا سہارا جو مظبوط ہو ہر خوشی میں بھی اور غم میں بھی”

نور کے ساتھ جو ہوا وہ واقعی بہت درد ناک تھا لیکن اس میں سارا قصور آپ کا بھی نہی

ہے ۔ تھوڑا قصور اس کا بھی تھا۔

اگر وہ سہی وقت پر آپ کے لیے اپنی محبت ظاہر کر دیتی تو شاید آپ اس کے لیے کچھ کر

سکتے۔

لیکن اگر آپ کچھ کرنا بھی چاہتے تو آپ کی فیملی آپ کو سپورٹ نہ کرتی ۔ ہر حال میں نقصان

نور کا ہی ہوتا ۔

وہ بیچاری تو اسی ازیت سے مرگئی کہ جس سے وہ محبت کرتی ہے اسی نے اس سے موڑ لیا۔

آپ نے بھی دل سے نہی کہا ہو گا کہ مر جاو ۔ ۔ ۔ یقینا آپ بھی اسی ازیت سے گزر رہے ہو گے جس ازیت سے وہ گزر رہی تھی ۔

دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مجبور تھے ۔ وہ اسی ازیت سے مر گئی اور آپ اس دن پل پل اس کے جانے کی ازیت سے مر رہے ہیں ۔ آہستہ آہستہ اندر سے ختم کرتے جا رہے ہیں خود لیکن کیا کبھی یہ سوچا کہ آپ کی یہ ازیت نور کی روح کی کتنی تکلیف پہنچاتی ہوگی ؟ کبھی سوچا آپ کے یہ آنسو ا سے کتنی اذیت پہنچاتے ہیں؟

وہ آپ کو خوش دیکھنا چاہتی تھی ۔ اسے لگا کہ آپ کی خوشی کسی اور میں ہے اور اگر آج آپ خوش نہی ہیں تو اس کی قربانی تو رائیگاں ہوئی۔

زندگی کسی ایک مقام پر رکنے کا نہی بلکہ غم کو ہنس کر جھیل کر آگے بڑھنے کا نام ہے ” آپ کو ایک مظبوط سہارے کی ضرورت ہے اور وہ سمارا بینی ہے ۔ آپ جتنی جلدی ہو سکے انہیں اپنی زندگی میں شامل کر لیں آپ کی ساری تکلیفیں, آزمائشیں اور زینتیں دور ہو

جائیں گے ۔

بینی کے ذکر ہمدان مسکرا دیا ۔ ۔ ۔ کہی سچ میں بینی میری مشکلات کم نہ کر دے ۔ اسے بس

مجھے اپنے اشاروں پر چلانے کا شوق ہے میرے درد بانٹنے کا نہیں۔

یہ رشتہ بس مجبوری کی زنجیر ہے جو زبردستی میرے پاوں میں باندھی جا رہی ہے ۔

وہ نہ تو میری عزت کر سکتی ہے اور نہ ہی میرا اور دبانٹ سکتی ہے وہ بس درد دے سکتی

ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں ۔ ہاسٹل پہنچ کر اسے کال کر لیں آپ سے ناراض ہے۔

بہت شکریہ میرا اتنا خیال رکھنے کے لیے اور اتنی اپنائیت کے لیے ۔ ۔ ۔ رملہ اپنا بیگ

سنبھالتی ہوئی گاڑی سے باہر نکل گئی۔

wait

ہمدان تیزی میں گاڑی سے باہر نکلا اور اس کے سامنے آرکا ۔ اپنی گاڑی کی کیر مجھے دیں میں ابھی مکینک ساتھ لے کر جاتا ہوں اور گاڑی ٹھیک کروا دیتا ہوں ۔

اس کی ضرورت نہی ہے ۔۔۔ رملہ مزید بولنے ہی والی تھی کہ ہمدان کے ماتھے پر بل پڑتے دیکھ کر خاموش ہو گئی اور بیگ سے کیز نکال کر اسے تھما دیں ۔ اللہ حافظ ۔ ۔ ۔ مسکراتی ہوئی

ہاسٹل کا جنگلہ پار کر گئی اور ہمدان بھی مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔

Share with your Friends on Facebook

Updated: June 25, 2025 — 12:47 pm

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *