Aik Raat Ki Dulhan Urdu Novel Last Part – Full Romantic Love Story | Read Online & Free PDF Download

Aik Raat Ki Dulhan Urdu Novel is a bold, emotional, and heart-touching love story that has taken the Urdu novel world by storm. Written in beautiful Urdu font, this story explores intense passion, betrayal, emotional twists, and unforgettable moments between love and fate.

This novel is one of the most viral romantic Urdu stories of 2025, loved by thousands of readers for its realistic characters, gripping plot, and bold storytelling. From the first chapter to the last, it keeps you hooked.

Whether you’re a fan of bold Urdu novels, emotional love stories, or yum Urdu font stories, this one is a must-read.

Complete romantic Urdu novel
📥 Free PDF download
📖 Read full novel online
🔥 Bold & emotional love story
📚 Top trending Urdu novel 2025

Aik Raat Ki Dulhan

Aik Raat Ki Dulhan Urdu Novel – Full Romantic Love Story | Read Online & Free PDF Download

Read here Aik Raat Ki Dulhan Part 15 – Yum Urdu Font Stories

کیا شور مچا ہوا ہے گھر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

مسزملک ہمدان کو آتے دیکھ کر بولیں لیکن ہمدان ان کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی طرف دیکھے بغیر بیرونی دروازے کی طرف چلا گیا۔ وہ ہمدان کو جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئیں ۔ کیا ہوا ہے آخر اسے ؟

آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہی کیا تھا ہمدان نے تو پھر آج ۔ ۔ ۔ پہلے اس لڑکی کے لیے ہم سے بد تمیزی کی اور اب میری بات کا جواب دیے بغیر چلا گیا۔

آخر حل کیا رہا ہے یہ سب ۔۔۔؟ جب سے یہ لڑکی اس گھر میں آئی ہے تب سے ہمدان کا رویہ کچھ بدلہ بدلہ سا ہے۔

اس کا مطلب بینی سہی کہہ رہی تھی کہ ان دونوں کے درمیان کچھ ہے ۔ کہی یہ دونوں ۔ ۔ ۔ اگر ہمدان اس کے ساتھ رات گزارتا رہا ہے تو اس کا مطلب میری بیٹی کی

خوشیاں خطرے میں ہیں ۔ مجھے بات کرنی ہو گی ان سے آج ہی ۔۔۔ جتنی جلدی ہو سکے بینی اور ہمدان کا نکاح پڑھوا دینا

چاہیے۔

جب نکاح ہو جائے گا تو ہمدان کے سر پر بینی کی زمہ داری آجائے گی اور وہ اس لڑکی کو

بھول جائے گا۔

یہ قدم مجھے بہت پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا ۔ خیر ابھی بھی وقت ہے زیادہ دیر نہی ہوئی۔ آج ہی بات کرتی ہوں ان سے لیکن پہلے زرا اس لڑکی کی تو خبر لے لوں۔ وہ رملہ کے کمرے کی طرف چل دیں ۔ ابھی دروازے میں ہی تھیں کہ رملہ کی آواز سن کر

وہی رک گئیں ۔

روشنی پلیز کچھ کرو میرے لیے ۔ ۔ ۔ میں ہمدان کو ٹوٹتے ہوئے نہی دیکھ سکتی۔ میری خاطر وہ سب سے لڑرہے ہیں اور خود کو جواز بیت دے رہے ہیں وہ الگ ۔ ۔ ۔ ان کو اس حال میں نہی دیکھ سکتی ہیں۔ ٹھیک ہے میں ان کی بیوی ہوں لیکن میں اس گھر میں نہی رہ سکتی ۔ ۔ ۔ میرے رہنے کا

انتظام کرو۔

ایک ہفتے تک میں ویسے بھی ہاسٹل شفٹ ہو جاوں گی تب تک کے لیے ۔ ۔ ۔ رملہ جیسے ہی

پلٹی اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔

میں بعد میں بات کرتی ہوں تمسے ۔ ۔ ۔ کال بند کر کے حیرت زدہ سی مسز ملک کو دیکھتی رہ

گئی۔

وہ غصے سے کمرے میں داخل ہوئیں ۔ ۔ ۔ کیا کہا تم نے تم ہمدان کی کیا لگتی ہو؟ دوبارہ کہنا زرا ۔۔۔

بڑی ماما وہ میں ۔ ۔ ۔

زبان کھینچ لوں گی میں تمہاری ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ رملہ کوئی جواب دیتی وہ غصے سے

چلائیں ۔

کیا بکواس کر رہی تھی تم ؟

تم ہمدان کی بیوی ہو ۔ ۔ ۔ دماغ تو ٹھیک ہے ناں تمہارا؟ تم نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا؟

غصے سے آگے بڑھیں اور رہ کے بال کھینچتی ہوئی دروازہ تک آئیں اور دروازہ بند کردیا۔

بولو کیا کہہ رہی تھی تم ؟

پلیز میرے بال چھوڑ دیں ماما ۔ ۔ ۔ بہت درد ہو رہا ہے ۔ جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ

نہی ہے ۔ بیچاری درد سے کراہ اٹھی۔ ابھی تو تم کہہ رہی تھی کہ ہمدان کی بیوی ہو اور اب کہہ رہی ہو ایسا ویسا کچھ نہی ہے ۔ سچ سچ

بتاو کسی ارادے سے آئی ہو یہاں ؟

میرا ایسا کوئی ارادہ نہی ہے ماما ۔ ۔ ۔ آپ کی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔

 تو پھر بیوی کا لفظ کیوں استعمال کیا تم نے ؟

انہوں نے غصے سے اسے چھوڑا تو رملہ بیڈ پر جاگری ۔

ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا اور سانس بحال کیا۔ میں کسی مقصد سے نہی آئی یہاں ۔ ۔ مجھے تو یہ بھی نہی پتہ تھا کہ ہمدان یہاں رہتے ہیں۔ وہ نکاح ایک حادثہ تھا۔ ۔ ۔ اماں نے زبر دستی کی تھی میرے ساتھ بھی اور ہمدان کے ساتھ

آپ فکر مت کریں میں آپ کو شکایت کا موقع نہی دوں گی ۔ جیسا آپ چاہیں گی ویسا ہی ہو

تم چاہویا نہ چاہو ہوگا تو ویسا ہی جیسا میں چاہوں گی ۔ ۔ ۔

 تم یہ بتاو کہ نکاح سے زیادہ بھی کچھ

ہے تم دونوں کے درمیان ؟

نہی ۔ ۔ ۔ رملہ نے سر نفی میں ہلایا اور نظریں چرا لیں ۔

تم کہ تو رہی ہو مگر تمہاری آنکھیں تو انکار کر رہی ہیں ۔ وہ پھر سے غصے سے رملہ پر جھپٹی اور

اس کا جبڑا سختی سے دبوچ لیا ۔

میری بیٹی کا حق چھینا ہے تم نے ۔ ۔ ۔ معاف نہی کروں گی تمہیں میں۔

پہلی تمہاری ماں اور اب تم ۔ ۔ ۔ تم دونوں نے میری خوشیوں کو آگ لگانے کی قسم کھائی

بے شاید۔

اپنی ساتھ ہوئی زیادتیوں پر تومیں خاموش رہی ہوں لیکن اپنی بیٹی کی زندگی بربادی ہونے

دوں گی۔

تیاری کرو یہاں سے جانے کی ۔ ۔ ۔ کہاں جاوگی تمہیں پتہ ہولیکن اب یہاں نہی رہ سکتی

تم

ایک منٹ سے پہلے نکلو یہاں سے ۔ ۔ ۔ اسے چھوڑتی ہوئی الماری کی طرف بڑھیں اور سارے کپڑے بیڈ پر پھینکنے شروع کر دیے۔

ایک منٹ بھی یہاں برداشت نہی کر سکتی ہیں تمہیں ۔ ۔ ۔ اپنا سامان سمیٹو اور شکوفوراً ۔

لیکن ماما —–

خمیر دارا مجھے مامامت کہنا دوبارہ ۔ ۔ ۔ میں صرف بینی کی ماں ہوں ، تم سے کوئی رشتہ نہی ہے میرا۔

میں کہاں جاوں گی ؟ ابھی ہاسٹل شفٹ ہونے میں ایک ہفتہ لگ جائے گا اور یہاں پر کسی کو جانتی بھی نہی میں ۔

میری طرف سے جہنم میں جاؤ ۔ ۔ ۔ لیکن یہاں نہی رہ سکتی تم ۔

تمہاری ماں کا دل نہی بھرا تھا میری خوشیوں کو آگ لگا کر اسی لیے مرنے سے پہلے پہلے وہ ماں کا نہی بھرا اسی میری بیٹی کی زندگی میں بھی آگ لگا گئی ۔

فکر نہی کرو بینی کی ماں زندہ ہے ابھی ۔ ۔ ۔ اپنی بیٹی کی خوشیاں چھیننے والوں کو سکون کی نیند

نہی سونے دوں گی ۔

 خوشیاں تو آپ نے چھینی ہیں میری اماں کی ۔ ۔ ۔ بابا آپ سے شادی نہی کرنا چاہتے تھے ۔ وہ میری اماں سے پیار کرتے تھے ۔

حق تو آپ نے چھینا ہے میری ماں کا اور میرا بھی ۔ ۔ ۔ ایک بیوی سے اس کے شوہر کو الگ کیا آپ نے اور ایک بیٹی کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھین لیا پھر بھی آپ

میری اماں کو قصوروار ٹہرارہی ہیں۔

آپ کو آپ کی بیٹی اس کی خوشیاں اور اپنا شوہر بہت بہت مبارک ہو ۔ ۔ ۔ جارہی ہوں میں یہاں سے لیکن ایک بات آپ یا درکھئیے گا میری ۔

اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ کو اپنے گناہوں کی سزا نہی ملے گی تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے آپ کی ایک نہ ایک دن آپ اپنے کیے پر بہت پچھتائیں گی۔

پہلے میری ماں کا حق چھین لیا آپ نے اور آج میرا حق چھین رہی ہیں۔ آپ چاہیں تو زبر دستی ہمدان کو مجھ سے چھین لیں لیکن ان کے دل سے کبھی نہی نکال سکیں

کی مجھے ۔

یہاں آپ غلطی کر رہی ہیں ، اپنی بیٹی کی زندگی خود عذاب بنا رہی ہیں ۔ خیر ۔ ۔ ۔ میرا اس گھر میں رہنے کا ویسے بھی کوئی پلان نہی تھا۔

آپ نے میرا کام آسان کر دیا ۔ ۔ ۔ اب ایک ٹھوس وجہ موجود ہے میرے پاس یہاں ۔

سے جانے کی۔

سوچیں کیا ہو گا آپ کے ساتھ جب بابا اور ہمدان کو یہ پتہ چلے گا کہ آپ نے مجھے گھر سے نکالا

دھمکیاں لگا رہی ہو مجھے ؟؟؟

لیکن میں تمہاری ان دھمکیوں سے ڈرنے والی نہی ہوں ۔

جلدی سے اپنا سامان سمیٹو اور چلتی بنو یہاں سے اس سے پہلے کہ ہمدان واپس آئے ۔ رملہ نے گال پے بستے آنسو پونچھے اور اپنا سامان سمیٹتی ہوئی ایک نظر اس بے حس عورت

پر ڈالتی ہوئی گھر سے باہر نکل گئی۔

وہ گیٹ تک اس کے پیچھے آئیں ۔ ۔ ۔ جب رملہ گیٹ سے باہر نکل گئی تو تیزی سے اندر آ گئیں تاکہ کوئی انہیں دیکھ نہ سکے ۔ رملہ آنسو بہاتی ہوئی بیگ گھسیٹتی ہوئی چلتی گئی۔ ایک رکشے کو روک کر بس اڈے پہنچی ۔ جیسے ہی رکشے سے باہر نکلی گاڑی سے ٹکرا کر گر گئی۔

گاڑی کا دروازہ کھلا اور گاڑی والا گاڑی سے باہر آیا۔

آپ ٹھیک تو ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بس اتنا ہی بولا تھا کہ بولتے بولتے رک گیا۔

رملہ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور چونک کراٹھ گئی ۔ چند پل لگے اسے اس کے چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر تیزی سے نظریں چراتی ہوئی اپنا بیگ کھسیٹتی ہوئی آگے بڑھ

گئی۔

رملہ بنا پلٹے تیز تیز چلتی گئی اور ٹکٹ خرید کر بس میں بیٹھ گئی۔ نہیں ۔ ۔ ۔ یہ نہی ہو سکتا ، یہ یہاں کیسے آگیا ؟ اس نے دیکھ لیا مجھے اب پیچھا کرے گا میرا اور اگر ہمدان نے دیکھ لیا تو بہت مسئلہ بن

جائے گا۔

جلدی سے گاڑی اسٹارٹ ہو جائے ۔ ۔ ۔ ٹینشن ہو رہی ہے بہت ۔

کیسے مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے زندگی نے ۔ ۔ ۔ اپنے ہی دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ سمجھ نہی آرہا

میر اوہاں جانا مناسب ہو گا یا نہی۔

ہمدان جب واپس آئیں گے میں گھر میں نظر نہ آئی تو طوفان مچا دیں گے ۔ ان کو بتاوں یا نہی

کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

سنا تھا سوتیلی ماں بہت ظالم ہوتی ہے ۔ آج دیکھ بھی لیا ۔

اگر آج اماں زندہ ہوتی تو مجھے در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں ۔ ۔ سچ کہتے ہیں ماں اگر ساتھ ہو دنیا بھی جنت لیکن اگر ماں ساتھ نہ ہو تو دنیا کسی جہنم سے کم نہی۔

میں نے تو کسی کے ساتھ برا نہی کیا تھا جو بڑی ماما اور بینی مجھے برا بھلا کہہ رہی ہیں ۔ میں تو خود ایک ایسی کشتی پر سوار ہوں جس کی کوئی منزل نہی ہے ۔

سیٹ سے ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی ۔ آنسو بہانے سے بھی گریز کر رہی تھی کہ ارد گرد کے لوگ پتہ نہی کیا سمجھ بیٹھیں۔

دس منٹ بعد بس اسٹارٹ ہوئی تو سکھ کا سانس لیا۔

دو گھٹنے بعد بس رکی تو اپنا سامان سمیٹتی ہوئی بس اڈے سے باہر آئی ۔

ابھی سڑک پر رکی ہی تھی کہ وہی گاڑی اس کے سامنے آکر رک گئی۔

رملہ نے چونک کر گاڑی کو دیکھا اور پھر گاڑی سے باہر آتے شخص کو دیکھ کر نظریں جھکالی

اور آگے بڑھ گئی۔

بس کر دو اور کتنا بھا گوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

وہ تیز تیز قدم اٹھا تا رملہ کے سامنے آگیا۔

اس کے بکھرے بال چھرے پر ابھی سی داڑھی آنکھوں کے نیچے حلقے اور درد بھری

مسکراہٹ ۔ ۔ ۔ رملہ چاہ کر بھی آگے نہ بڑھ سکی۔

چند لمحے اس کی خاموش آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر سر نفی میں ہلا دیا۔

کوئی مسئلہ ہے تمہارے ساتھ نصیر ؟

کیوں میرے راستے میں کھڑے ہو؟

ہٹو جاو سامنے سے اور مجھے جانے دو ۔ ۔ ۔ یہاں کوئی تماشہ مت بنانا ۔ ۔ ۔ پہلے ہی میری زندگی کے ساتھ جو کھیل تم کھیل چکے ہو اس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہی ہوں میں ۔

حال نہی ہو چھوگی میرا؟ اس کے سوال پر رملہ نے حیرت زدہ انداز میں اسے دیکھا اور پھیکا سا مسکرا دی ۔ میں کیوں پوچھوں گی تمہارا حال بھلا ؟ ہمارے درمیان کونسا کوئی خاص رشتہ ہے اور ویسے بھی حال دل میں بسنے والوں کا پوچھا

جاتا ہے اجاڑنے والوں کا نہی ۔ ۔ ۔ راستہ چھوڑو میرا لوگ دیکھ رہے ہیں ۔

تمہیں کیا لگتاہے تم اکیلی اجڑی تھی ؟

میرے چہرےکی بے رونقی نظر نہیں آرہی کیا نہیں ؟

دیکھو میری آنکھوں میں ۔ ۔ ۔ یہ جو درد ہے ناں اس کو محسوس کر کے دیکھو۔ ۔ ۔ ٹوٹ چکا

ہوں میں تمہیں توڑتے توڑتے ۔

رملہ نے بے رخی سے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا ۔

۔

جائز ہے ۔ ۔ ۔ تمہاری بے رخی جائز ہے ۔ مانتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ کیا چند لمحے میرا درد بانٹ

سکتی ہو؟

فقط چند لھے ۔ ۔ ۔ زیادہ نہی ۔

درد دینے والوں سے درد نہی بانٹا جا سکتا ۔ ۔ ۔ اپنی دل لگی کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر

لو اور مجھے جانے دو۔

رملہ غصے سے بولی اور سائیڈ سے نکلنا چاہا مگر نصیر راستے میں آگیا۔

نہی ۔ ۔ ۔ تم ایسے نہی جا سکتی ۔ میری بات مان لو زیادہ نہی بس چند لھے ۔ ۔ ۔ بھیک مانگتا

ہوں تم سے ۔

رملہ نے افسردگی سے اس کی طرف دیکھا اور سر اثبات میں بلا دیا۔

جی ۔ ۔ ۔ بولو کیا کہنا ہے ؟

اس طرح بے رخی سے نہی ۔۔۔ آو میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو کہاں جانا ہے میں ڈراپ

کر دیتا ہوں ۔

زبر دستی رملہ کے ہاتھ سے بیگ کھینچ کر لے گیا۔

رملہ نا چاہتے ہوئے بھی گاڑی کی طرف بڑھی اور بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جبکہ نصیر اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے کھڑا تھا ۔ چپ چاپ مسکراتے

ہوئے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

گاڑی میں گہری خاموشی تھی ۔ آخر کا ر خا موشی رملہ کی سیکیوں پر ٹوٹی ۔

کیوں کیا تھا تم میرے ساتھ ایسا ؟

صرف اس لیے کہ میں نے تم سے دوستی نہی کی تم نے اتنی بڑی سزا دی مجھے ۔

تمہارا دل ایک بار بھی نہی کا نیا وہ سب کرتے ہوئے ؟

میں کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ تم اس حد تک گر جاو گے ۔

میں کوٹھے میں رہتی ضرور تھی مگر میں کوٹھے والی نہی تھی ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں پتہ چل ہی گیا تھا تو

اس بات پر پردہ رکھ سکتے تھے ۔

لیکن تم نے کیا کیا ۔ ۔ ۔ تم نے تو مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا۔

میرے ساتھ جو کرنا تھا کرتے لیکن ہمدان کے ساتھ نہی کرنا چاہیے تھا۔ میری وجہ سے

اسے کتنا کچھ سہنا پڑا کچھ اندازہ ہے تمہیں ؟

سب اندازہ ہے مجھے ۔ ۔ ۔ انا کی آڑ میں بہت بڑا گناہ ہوگیا مجھ سے ۔ ۔ ۔ اس کی سزا آج تک

بھگت رہا ہوں میں ۔

اس واقعے سے ایک ہفتے بابا کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔

باپ کا سایہ سر سے اٹھتے ہی میرا ساری انا اور غرور خاک ہو گیا ۔

ہر گزرتے دن اور ہر گزرتی رات کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوتا چلا گیا کہ کتنا بڑا گناہ ہوا

ہے مجھ سے۔

ماما اکیلی رہ گئیں ۔ ۔ ۔ ان کو سنبھالتے سنبھالتے میری اپنی پہچان گم ہو کر رہ گئی۔ میں نہی کہوں گا کہ مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ مجھے سزاملنی چاہیے ۔ میں اسی

لائق ہوں ۔

آج ایک سال بعد تمہیں دیکھا تو مجھے لگا شاید دوبارہ نہ دیکھ سکوں اسی لیے پیچھا کرتے

ہوئے یہاں تک آ گیا ۔

کہاں جانا ہے مجھے بتا دو میں ڈراپ کر دیتا ہوں ۔

پتہ نہی ۔ ۔ ۔ جہاں قسمت لے جائے کسی ہوٹل ڈراپ کر دیں۔

ہوٹل کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ سب خیریت؟

نصیر حیرت زدہ سا اس کی طرف پلٹا۔

ہاں ۔ ۔ ۔ کسی ہوٹل کے باہر ڈراپ کر دیں ۔ اسی ہفتے ہاسٹل شفٹ ہو جاوں گی۔

 لیکن ہوٹل کیوں ۔ ۔ ۔ اپنے گھر کیوں نہی جا رہی اور اب کہاں سے آ رہی تھی ؟ اب اپنے گھر سے آرہی تھی ۔ ۔ ۔ اپنا نہی بلکہ میرے باپ کا گھر جہاں میری موجودگی کسی کو اچھی نہی لگی اور مجھے دھکے مار کر وہاں سے نکال دیا گیا ۔

اوہ ۔ ۔ ۔ یہ تو بہت برا ہوا ۔ ۔ مجھے بہت دکھ ہوا سن کر ۔ اپنے بابا سے رابطہ کیا ؟

نہی ۔ ۔ ۔ اور کروں گی بھی نہی کیونکہ میں نہی چاہتی کہ میری وجہ سے ان کی بیوی اور بیٹی کو

کوئی تکلیف پہنچے ۔ اس گھر میں دوبارہ نہی جانا چاہتی ۔ ۔ ۔ مجھے ہوٹل ڈراپ کر دیں ۔

ہر گز نہی ۔ ۔ ۔ میں ایسا رسک نہی لے سکتاد حالات ٹھیک نہی ہیں ۔ ایک اکیلی لڑکی کا ہوٹل

میں رہنا سہی نہی ہے ۔

ایسا کرو میرے ساتھ چلو میرے گھر ۔ ۔ ۔ ڈرنے کی ضرورت نہی ہے گھر میں صرف ماما

اور میں ہوں ۔ اس کے علاوہ چند ملازم ہیں۔

جب تک ہاسٹل شفٹ نہی ہو جاتی تب تک وہاں رہ سکتی ہو ۔ ۔ مجھے بہت خوشی ہو اگر میں تمہارے کسی کام آسکا۔

ویسے آج تک دکھ کے سواکچھ دیا تو نہی تمہیں لیکن ۔ ۔ ۔ پھر بھی اس نادان دل کی چھوٹی سی

خواہش ہے کہ تمہارے کام آسکوں ۔ رملہ سوچ میں پڑ گئی ۔

اب اس میں سوچنے والی کونسی بات ہے ؟

میں مانتا ہوں بہت دھو کے دیے ہیں میں نے تمہیں لیکن اب بہت سدھر چکا ہوں

یار ۔ ۔ ۔ میرا یقین کرو۔

میں تمہیں کسی ہوٹل نہی لے کر جا رہا بلکہ اپنے گھر جانے کا کہہ رہا ہوں ۔

میں نہی جا سکتی ۔ ۔ ۔ خوامخواہ تمہیں پریشان ہونا پڑے گا ۔

نہی ہوتا میں پریشان بلکہ امی بہت خوش ہوگی ۔ سارا دن گھر میں اکیلی رہتی ہیں۔ ڈیڈ کے جانے کے بعد بہت اکیلی رہ گئی ہیں۔ ان کا بھی دل لگ جائے گا کچھ دن ۔ اس طرح کب تک ہوٹلز میں خوار ہوتی رہوگی ؟

اور ہاسٹل میں بھی کب تک رہوگی، میرا خیال ہے تمہیں بات کرنی چاہیے اپنے بابا سے اپنی سوتیلی ماں کے بارے میں ۔

اس طرح تو وہ بہت پریشان ہو جائیں گے اور اگر ان سے رابطہ نہی کرو گی تو وہ تمہیں ہی

غلط سمجھیں گے ۔

کروں گی رابطہ ان سے رات تک ۔ ۔ ۔ جب وہ گھر پہنچیں گے تو انہیں خود ہی پتہ چل جائے گامیری خیر موجودگی کا ۔۔۔ جب رابطہ ہو گا تو بتا دوں گی انہیں کہ ایک دوست کی طرف

ہوں۔

ایسے بہانے ہم لڑکوں کے منہ سے اچھے لگتے ہیں میڈم ۔ ۔ ۔ کوئی اور بہانہ ڈھونڈ لیے ۔ نصیر کی بات پر رملہ مسکرادی ۔ ۔ ۔ کوئی بات نہی بابا یقین کرتے ہیں میرا اور بہت محبت

کرتے ہیں مجھ سے لیکن مجبور ہیں۔

میری سوتیلی ماں مجھے پسند نہی کرتی اور گھر میں ان کی بہت سنتے ہیں سب ۔ ۔ ۔ یہ سمجھ لوکہ

پورے گھر میں حکمرانی چلتی ہے ان کی۔

میں نہی چاہتی میری وجہ سے باقی سب کے لیے کوئی مسئلہ ہے۔ کبھی رشتوں کو بچانے کے لیے ہمیں خود کی قربانی دینا پڑتی ہے

تو پھر چلیں میرے گھر ؟

رملہ نے سر اثبات میں بلایا ۔ ۔ ۔ جی ۔۔۔ اور کوئی راستہ بھی نہی ہے فی الحال میرے

پاس۔

بے بس سی سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر لی۔

نصیر نے بیک مرد سے اسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

کہی میں جلد بازی تو نہی کر رہی نصیر پر بھروسہ کر کے ؟

جیسے ہی گاڑی اسٹارٹ ہوئی رملہ نے آنکھیں کھول لی اور بیگ سے فون نکال کر فون بند کر

دیا۔

پتہ نہی کیا ہو گا جب ہمدان گھر آئیں گے ۔ ۔ ۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ میں اپنی مرضی سے

گھر چھوڑ کر آئی ہوں ۔ با با کو کیا جواب دوں گی ؟

اماں کا وعدہ ۔ ۔ ۔ اور ہمدان کو اگر پتہ چل گیا کہ میں نصیر کے ساتھ ہوں تو کیا جواب دوں گی

انہیں۔

پتہ نہی میں جو کر رہی ہوں سہی ہے بھی یا نہی ؟ عجیب بے چینی لگی ہوئی ہے ۔ کسی نصیر نے پھر سے کوئی چال چلی ۔ ۔ ۔ نہی اس کی حالت دیکھ کر لگتا تو نہی کہ یہ اب ایسا کچھ کرے گا۔

بہت پریشان لگ رہا ہے اور سمجھدار بھی ہو گیا ہے اپنے ڈیڈ کی دیتھ کے بعد ۔ ۔ ۔ امید ہے

اس بار کوئی دھوکہ نہی دے گا۔

چند گھ آخر کار وہ دونوں پہنچ ہی گئے۔

…Welcome

نصیر گاڑی سے باہر آیا اور رملہکے لیے دروازہ کھولا۔

یہ ہے میرا چھوٹا سا گھر ۔ ۔ ۔ وہ کسی انجانی سی خوشی میں مسکراتے ہوئے آگے بڑھتا جا رہا

تھا اور رملہ بھیجتی ہوئی اس کے پیچھے قدم بڑھاتی چلی گئی۔

جیسے ہی اندرونی دروازے تک پہنچے سامنے سے ایک خاتون باہر آئیں ۔ انہیں دیکھ کر نصیر کے پاوں کو بریک لگی ۔ سنجیدگی سے رملہکی طرف پلٹا ۔

My Mom…and Mom She is Ramlah My Friend

اسلام و علیکم ۔ ۔ ۔ رملہنے مجھکتے ہوئے سلام کیا۔ وعلیکم اسلام ۔ ۔ ۔ وہ سلام کا جواب دے کر اندر چل دیں ۔ نصیر نے پلٹ کر رملہکو دیکھا اور مسکرا دیا ۔ چلیں ۔۔۔؟

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

شام کو ہمدان گھر آیا تو ڈائینگ ٹیبل پر رملہ کسی نظر نہی آئی ۔ بے دلی سے کھانا کھا کر اپنے

کمرے میں آگیا۔

رملہ کہاں ہے ؟

اپنے کمرے میں بھی نہی ہے اور باقی گھر میں بھی دیکھ چکا ہوں میں ۔ ۔ ۔ ملک صاحب

پریشان سے ٹی وی لاونج میں آئے ۔

مسز ملک نے حیرت زدہ انداز میں ان کی طرف دیکھا ۔ ۔ ۔ ہمیں کیا پتہ ؟ ہمیں کو نسا وہ کچھ سمجھتی ہے جو بتا کر جائے گی ۔ ۔ ۔ کال کر کے پوچھ لیں اس سے ۔ کال کر رہا ہوں لیکن نمبر بند ہے اس کا ۔ ۔ ۔ سچ سچ بتاو میری بیٹی کہاں ہے ؟ کہی تم نے اسے گھر سے تو نہی نکال دیا ؟

میں ایسا کیوں کروں گی بھلا ؟

میری مرضی چلتی ہی کہاں ہے اس گھر میں ۔ ۔ چلی گئی ہوگی اپنی ماں کے ٹھکانے پر آخر

بیٹی تو اسی کی ہے ۔

جنہیں گندگی میں رہنے کی عادت ہو وہ محلوں میں بسیرا نہی کر سکتے۔

بکواس بند کرو اپنی ۔ ۔ ۔ خبر دار جو میری بیٹی کے خلاف ایک لفظ بھی اور بولا تم نے تو زبان

هیچ لوں گا تمہاری ۔ ملک صاحب کی گرجدار آواز پر ہمدان کمرے سے باہر نکل آیا۔

کیا ہوا تا یا ابوسب خیریت ؟

کچھ خیر یت نہی ہے ہمدان ۔ ۔ ۔ رملہ اپنے کمرے میں نہی ہے اور پورے گھر میں بھی دیکھ

چکا ہوں میں ۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔ ۔ ۔ ؟

صبح تو گھر پر ہی تھی ۔ ۔ ۔ کہاں جا سکتی ہے ؟

ہدان تیزی سے رملہ کے کمرے کی طرف بھاگا۔ ۔ ۔ وارڈ روب چیک کی تو رملہ کا سامان

وہاں نہی تھا ۔

م ۔۔ مجھے اندازہ نہی تھا کہ تم اتنی جلدی یہ فیصلہ کر لوگی ۔

خیر ۔۔۔ جیسے تمہاری مرضی, تمہارے پیچھے ہر گز نہی بھاگنے والا اب میں ۔ ۔ ۔ اگر میری اتنی قربت اور ہمارے رشتے کی حقیقت جان کر بھی تمہارے دل میں میرے لیے زراسی

بھی اہمیت نہی ہے تو پھر پیچھے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہی ہے۔ غصے سے الماری بند کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

مجھے ایک کال کرنی ہے ۔ میں آتی ہوں ۔ نصیر کی ماں کے روبے پر رملہ شر مندہ سی

دروازے پر ہی رک گئی ۔

ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ میں انتظار کر رہا ہوں ۔ نصیر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ رملہ نے بیگ سے فون نکال کر آن کیا اور اپنے بابا کا نمبر ڈائل کیا ۔

پہلی بیل پر ہی کال پک کر لی گئی۔

رملہ بیٹا کہاں ہو آپ ؟

ملک صاحب فکر مندی سے بولے ۔

سوری بابا جان میں بتا کر نہی آئی ۔۔۔ ایکچولی ایک فرینڈ کی شادی ہے اس کی طرف آئی

ہوں۔

دو چار دن دن تک واپس آجاوں گی ۔ ۔ ۔ آپ پریشان نہ ہو۔

وہ سب تو ٹھیک ہے بیٹا لیکن آپ کو بتا کر جانا چاہیے تھا۔ میں بہت پریشان ہو گیا تھا۔ سوری بابا جانی ۔ ۔ ۔ فون بند تھا میرا ابھی چارج کیا ہے اور سب سے پہلے آپ کو کال کی

ہے کہ آپ فکرمند ہوگے میرے لیے ۔

ہمدان دونوں بازو سینے پر فولڈ کیے غصے اور بے بسی سے چپ چاپ سب سن رہا تھا کیونکہ

اسپیکر آن تھا۔

اچھا ٹھیک ہے بیٹا ۔ ۔ ۔ جب واپس آنا ہو تو بتا دینا آپ ۔ میں کسی کو بھیج دوں گا آپ کو

لینے اور کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتا دیں۔

نی با با جانی کسی چیز کی ضرورت نہی ہے مجھے ، آپ بس اپنا خیال رکھیں ۔ میں بتا دوں گی آپ کو جب واپس آنا ہو گا۔ اچھا بابا جانی ٹھیک ہے میں کھانا کھا کر بات کرتی ہوں آپ سے ۔ ۔ ۔ گال پے بہتے آنسو

پونچھے اور جلدی سے کال بند کر دی ۔

ہمدان نے بے بسی سے دایاں ہاتھ بالوں میں پھیرا اور خصے میں وہاں سے چلا گیا ۔ دیکھا آپ نے کہا تھا ناں میں نے کہ ٹھیک ہوگی ۔ ۔ ۔ رملہ نے کال بند کی تو مسٹر ملک کی جان میں جان آئی کہ رملہ نے ان کا نام نہی لیا۔

آپ خوامخواہ اس کے لیے ہلکان ہو رہے ہیں اور ہم سب کو بھی پریشان کر رہے ہیں ۔ اس لڑکی کی کتنی فکر ہورہی تھی آپ کو لیکن اس نے آپ کی زرا عزت نہی رکھی ۔ ۔ ۔ فون

بند تھا تو ہم سب میں سے ہی کسی کو بتا کر جا سکتی تھی۔

اس نے ضروری ہی نہی سمجھا ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ ہم سب کو کچھ سمجھتی ہی نہی ہے ۔ اس کا رشتہ بس آپ سے ہے ۔ اسی لیے تو ابھی بھی آپ کو ہی کال کی ہے اس نے ۔ ہمدان سے مزید سننا مشکل ہو رہا تھا اس لیے بے بس سا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

بس بھی کر دواب ۔ ۔ ۔ بچی سہی سلامت ہے ۔ تمہیں خدا کا شکر ادا کر نا چا ہیے لیکن تم تو ابھی

تک اس میں کیڑے نکالنے میں مصروف ہو۔

ملک صاحب غصے سے بولے اور وہاں سے اپنے کمرے میں آگئے ۔ ہمدان کمرے میں آیا اور رملہ کا نمبر ڈائل کیا لیکن پھر رک گیا ۔ ۔ ۔ دوست کی شادی وہ بھی اچانک ۔ ۔ ۔ یہ بہانہ کچھ سمجھ نہی آیا مجھے ۔

سیدھی طرح کیوں نہی کہتی کہ مجھ سے پیچھا چھڑا رہی ہو ۔ ۔ ۔ جتنا بھاگ سکتی ہو بھاگ لو لیکن ایک بات میں واضح کر دوں ، منزل تمہاری مجھ پر ختم ہوگی۔

کال بند ہوئی تو رملہ فون بیگ میں رکھتی ہوئی اندر کی طرف چل دی ۔ آجائیں میڈم ۔ ۔ ۔ اتنا ڈر کیوں رہی ہو؟

اپنا ہی گھر سمجھو ۔ ۔ ۔ نصیر اسے لینے دوبارہ دروازے تک آیا۔

بدلے میں رملہ بس پھیکا سا مسکرادی اور اس کے پیچھے چلتی گئی۔

آو بیٹھو۔ ۔ ۔ ماما کچن میں گئی ہیں تمہارے لیے کچھ لینے ۔ ۔ ۔ نصیر نے اس کے لیے

ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا۔

Take it easy…Relax

اپنا ہی گھر سمجھو۔ ۔ ۔ میں سمجھ سکتا ہوں یہ فیصلہ مشکل ہے تمہارے لیے لیکن میرا یقین

کرو یہاں تم بلکل محفوظ ہو۔ گھر میں میرے اور ماما کے علاوہ صرف چند ملازم ہیں۔

دو بہنیں ہیں لیکن وہ اپنے اپنے گھر میں مصروف ہیں ۔ بہت کم آتی ہیں ملنے اور اگر آ بھی گئیں تو میں ہوں یہاں سب سنبھالنے کے لیے۔

ماما بهت فرینڈلی ہیں بس ڈیڈ کے جانے کے بعد تھوڑا ڈ پریشن رہتا ہیں انہیں لیکن اب کافی

بہتر ہیں۔

لو آ گئیں ماما۔ ۔ ۔ نصیر تیزی سے ماں کی طرف بڑھا اور ان کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے سے

جوس والا گلاس اٹھا کر تیزی سے رملہ کی طرف بڑھا۔ رملہ نے گھبرا کر نصیر کی ماں کو دیکھا اور ڈرتے ڈرتے گلاس تمام لیا۔

Thanks

آرام سے بیٹھو بیٹا ۔ ۔ ۔ جب تک رہنا چاہو رہ سکتی ہو مجھے کوئی مسئلہ نہی ہے ۔ نصیر کی دوست ہو تم اور میرے لیے میری بیٹی کی طرح ہو۔

رملہ حیران رہ گئی ان کے رویے پر کہ ابھی کچھ دیر پہلے تو ان کا رویہ کچھ اور تھا اور اب اچانک

سے اتنی نرم دل کیسے ہو گئیں ؟

جی ۔ ۔ ۔ شکریہ میں کسی ہوٹل میں بھی رہ لیتی لیکن اچانک نصیر سے ملاقات ہو گئی اور اس

نے زبر دستی روک لیا مجھے ۔

بہت اچھا کیا ہے اس نے ۔ ۔ ۔ تم جوس پیو اور فریش ہو جاو ا تب تک میں کھانا لگواتی

ہوں۔

رملہ نے سر اثبات میں بلایا تو وہ کمرے سے باہر چلی گئیں ۔

نصیر پر سکون سا صوفے پر بیٹھ گیا اور محبت بھری نگاہوں سے رملہ کو دیکھنے میں مصروف ہو

گیا۔

رملہ نے اس کی طرف دیکھا تو مسکراتے ہوئے نظریں جھکا گیا۔

ماما سے کہتا ہوں روم سیٹ کر دیں تمہارے لیے ۔ ۔ ۔ اچانک سے سنجیدہ ہوا اور کمرے

سے باہر نکل گیا۔

کسی میں نے یہاں آکر غلطی تو نہی کر دی ۔ ۔ ۔ رملہ سوچ میں پڑگئی۔

کچھ دیر بعد ملازمہ اسے لینے آئی ۔

کھانا کھانے کے بعد نصیر کی ماما اسے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی۔

دروازہ بند کرتی ہوئی صوفے کی طرف بڑھ گئی لیکن بیٹھنے کی بجائے کھڑکی کے پاس رک گئی

اور کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی۔

نصیر کی نظریں ۔۔۔ وہ جس طرح سے مجھے دیکھ رہا تھا کہی اسے مجھ سے ۔ ۔ ۔ نہی نہی میں

بھی پتہ نہی کیا سوچ رہی ہوں ۔

ایک سال بعد ملے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا ہو گا ویسے بھی کونسا ایسے مجھ

سے محبت تھی ۔

دل لگی کے لیے دوستی کرنا چاہتا تھا مجھ سے ۔ ۔ ۔ اپنے کیے پر پچھتایا ہے شاید بہت واسی

لیے ہمدردی کر رہا ہے میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ اور کوئی بات نہی ۔

میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں ۔ ۔ ۔ اب تک تو ہمدان گھر پہنچ چکے ہو گے ۔ مجھے کال نہی آئی ان کی بہت ناراض ہو گے مجھ سے ۔ ۔ ۔ پتہ نہی کیا کچھ کہا ہو گا بڑی ماما

نے۔

وہ تو یہی سمجھ رہے ہو گے کہ ان سے جھگڑ کر آئی ہوں میں ۔

بہت غصہ آرہا ہو گا انہیں مجھ پر ۔ ۔ ۔ پتہ نہی کیسے رہوں گی میں ان کے بغیر ۔ ۔ ۔ اتنا قریب آنے کے بعد ان سے دور رہنا محال ہو رہا ہے میرے لیے ۔

جیسے جیسے رات بڑھتی جارہی ہے میرا دل بیٹا جا رہا ہے ۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے سانس بند

ہو جائے گا۔

یہ کیسے مقام پر آگئی ہوں میں ۔ ۔ ۔ جن اپنوں کے لیے میں اپنے سب سے عزیز رشتے سے

دور ہو رہی ہوں ان اپنوں کے دل میں میرے لیے کوئی احساس ہی نہی ہے ۔ کاش آج اماں زندہ ہوتی ۔۔۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی حالات سے اتنا ڈر نہی لگا لیکن اب حالات سے زیادہ اپنوں سے ڈر لگتا ہے ۔

بہت دور آچکی ہوں میں اپنوں سے ۔ ۔ ۔ اپنا سب سے قیمتی رشتہ بھی آج کھو دیا میں نے پتہ نبی اللہ مجھے معاف کرے گا یا نہی ۔

بے بس سی صوفے پر گر گئی ۔ ۔ ۔ کتنے ہی گھنٹے ہد ان کی کال کا انتظار کرتی رہی ۔ پتہ ہی نہی

چلا کب آنکھ لگ گئی۔

دروازہ بجنے کی آواز پر بڑ بڑا کر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ گھڑی پر نظر ڈالی تورات کے دو بج رہے

تھے۔

نا چاہتے ہوئے بھی دروازے کی طرف بڑھی ۔ ۔ ۔ دروازہ کھولا تو سامنے نصیر کی ماں کھڑی

تھی۔

میرے ساتھ آو بیٹا ۔ ۔ ۔ کچھ دکھانا ہے تمہیں ۔

لیکن ۔ ۔ ۔ رملہ نے کچھ کہنا چاہالیکن وہ اس کی بات نظر انداز کرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں ۔ رملہ حیرت زدہ سی ڈوپٹہ سہی کرتی ہوئی ان کے پیچھے چلتی گئی۔

وہ ایک کمرے کے باہر رک گئیں اور رملہ کو آگے آنے کا اشارہ دیا۔ رملہ ڈرتی ڈرتی بو جھل قدموں کے ساتھ آگے بڑھی۔

کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی روح تک کانپ گئی۔ نصیر فرش پے گرا سو رہا تھا اور اس کے بازووں پر جگہ کٹ لگے ہوئے تھے ۔ خون کے چند

قطرے ابھی بھی فرش پر بکھرے تھے۔

رملہ بے بس سی آگے بڑھی اور اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کو دبایا۔

نصیر کے ہاتھ پر رکھا بلیڈ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ نصیر نے تیزی سے مٹھی بند کر

تھوڑی سی آنکھیں کھول کر رملہ کی طرف دیکھا اور پھر چونک کر تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

رملہ ۔۔۔۔ تم یہاں؟

پلٹ کر دروازے کے پاس کھڑی ماں کو دیکھا اور سر نفی میں ہلاتے ہوئے سر جھکا گیا ۔

کیوں کر رہے ہو یہ سب کچھ ؟

آخر کس بات کی اذیت دے رہے ہو خود کو ؟

تمہارے ساتھ جو کچھ کیا تھا اسی گناہ کی سزا دے رہا ہے یہ خود کو۔ جواب نصیر کی ماں کی طرف سے آیا۔

نصیر سر جھکائے ایسے بیٹھا تھا جیسے یہاں ہے ہی نہی ۔

اپنے گناہ پر بہت شرمندہ ہے میرا بیٹا ۔ ۔ ۔ تم اس کو معاف کر دو۔ پچھلے کئی مہینوں سے یہ ہر رات ایسے ہی خود کو اذیت دیتا ہے ۔ بہت سمجھایا ہے میں نے

اسے لیکن میری ایک نہی سنتا ۔

دن تو کسی طرح گزار لیتا ہے لیکن رات کو اسی طرح حالت خراب کرتا ہے اپنی ۔ خود کو بھی ازیت دیتا ہے اور بیوہ ماں کو بھی ۔ ۔ ۔ جانتا ہے اچھی طرح کہ میرا اس کے سوا

کوئی نہی ہے پھر بھی ایسا کرتا ہے ۔

ایسا لگتا ہے جیسے اس نے جینا ہی چھوڑ دیا ہے۔

مت کرو اپنے ساتھ ایسا ظلم نصیر ۔۔۔ تمہارا گناہ اتنا بھی بڑا نہی تھا جو تم اس طرح سے خود

گوازیت دے رہے ہو ۔ رحلہ آنسو پو نچھتی ہوئی اس کے سامنے فرش پر بیٹھتی ہوئی بولی۔

انسان ہیں ہم ۔۔۔ غلطیاں ہو جاتی ہیں ہم سے دمجھ سے بھی ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ تم سے بھی ہو

گئی۔

اتنی بڑی سزا نہ دو خود کو ۔ ۔ ۔ اپنا نہی تو آنٹی کا ہی سوچ لو۔

کتنی تکلیف ہوتی ہوگی انہیں جب تمہیں اس حال میں دیکھتی ہیں ، دیکھو ان کے چہرے

کو ۔ ۔ ۔ رورہی ہیں ۔

اکلوتے بیٹے ہو تم ان کے ۔۔۔ اس طرح اذیت نہ دو خود کو ۔

تم نے بھی تو سہی تھی یہ ازیت ۔ ۔ ۔ نصیر نے مسکراتے ہوئے سر اٹھا کر رملہ کی طرف

دیکھا۔

تم بھی تو گزری تھی ناں اس اذیت سے ۔ ۔ ۔ ؟

کیا تمہیں تکلیف نہی ہوئی تھی ؟

جو کچھ میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا کیا اس کے بعد تم نہی روئی تھی؟ نا جانے کتنی ہی راتیں تم نے بھی ایسی ازبیت میں گزاری ہوگی۔ کتنے ہی دن تم اس صدمے سے باہر نہی نکلی ہوگی۔

آج بھی یاد ہے مجھے تمہاری بے بسی ۔ ۔ ۔ تمہارا درد اور تمہارے آنسو۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ ظلم جو میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا؟

نہی بھول سکتا ہیں ۔ ۔ ۔ جب تک زندہ ہوں خود کو سزا دیتا رہوں گا۔ رملہ کی نظر اس کے ہاتھ سے بہتے خون پر پڑی تو تیزی سے اس کے ہاتھ سے بلیڈ چھیننے کی

کوشش کی مگر نصیر مٹھی کھولنے کو تیار ہی نہی تھا۔

مت کروا پنے ساتھ یہ ظلم نصیر ۔ ۔ ۔ مت کرو۔

رملہ  بس ہو چکی تھی ۔ ۔ ۔ دونوں ہاتھ نصیر کے سامنے جوڑ دیے ۔

چھا ۔ ۔ ۔ ریلیکس رہو تم میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ کچھ نہی ہوا بس معمولی زخم ہیں ۔ تھوڑا سا درد ہو گا بس ۔ ۔ ۔ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔ اب تو عادت ہو گئی ہے ۔

ادھر دو مجھے یہ بلیڈ ۔ ۔۔

س بار نصیر نے ہتھیلی کھول دی اور اذیت بھرے لہجے میں قہقہ لگایا۔ بیٹاتم جاو میں سنبھال لوں گی اسے ۔ ۔ ۔

س کے ہنسنے پر رملہ  ڈر کر پیچھے ہٹی ۔ ۔ ۔ ایسے جیسے اس کی دماغی حالت پر شک ہو۔

بلیڈ ا ٹھائے وہاں سے اپنے کمرے میں آگئی۔

Oh  MyGod

یہ سب کیا تھا ؟؟؟

نصیر ایسا ہو جائے گا میں سوچ بھی نہی سکتی ۔ ۔ ۔ دروازے بند کرتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی در سر گھٹنوں ہے گرائے آنسو بہانا شروع ہو گئی۔

 م کیوں لائی ہیں آپ اسے یہاں ۔۔۔؟

آپ جانتی بھی ہیں آپ کے اس قدم سے وہ کتنی پریشان ہو جائے گی ؟

میں اسے پریشان نہی دیکھ سکتا ۔۔۔ نہی دیکھ سکتا ۔ نصیر زور زور سے چلانا شروع ہو گیا۔

نچھ نہی ہوتا نصیر ۔ ۔ ۔ میں بات کروں گی اس سے وہ تم سے شادی کے لیے مان جائے

تا۔

تی کرنی مجھے اس سے شادی ماما۔۔۔ اس قابل نہی ہوں میں اس سے محبت نہی ” عشق ” کرتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ محبت مکمل ہو سکتی ہے لیکن عشق ۔ ۔ ۔ عشق ہمیشہ ادھورا رہتا ہے ۔ س کی آنکھوں میں آنسو نہی برداشت ہو رہے مجھ سے ۔ ۔ ۔ آپ نے کیوں کیا ایسا؟ س کے چلانے کی آواز پر رملہ کمرے سے باہر آچکی تھی لیکن اس کے الفاظ سن کر

روازے سے آگے ہی نہ بڑھ سکی۔

پ چپ کروائیں اسے ۔ ۔ ۔ میں اسے روتے ہوئے نہی دیکھ سکتا ۔ ۔ ۔ میری وجہ سے

نہی رو سکتی وہ ۔

چھا ۔ ۔ ۔ میں جاتی ہوں اس کے کمرے میں ۔ ۔ ۔ نہی رونے دوں گی اسے تم فکرمت

یہ دوائی کھاو ۔ ۔ ۔ وہ زبر دستی اسے نیند کی گولی کھلا رہی تھیں ۔

لیٹ جاو یہاں آرام سے ۔ ۔ ۔ اسے بیڈ پر لیٹا کر اس کا سر دباتی رہی اور ساتھ آنسو پو نچھتی

رہی۔

جب وہ سو گیا تو کمرے سے باہر آگئی اور دروازے پے کھڑی آنسو بہاتی رملہ کو دیکھ کر

چونک کر مسکرا دیں ۔

کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ ہو جائے گا ٹھیک۔

رملہ تیزی سے ان کے گلے لگ گئی اور ان کے کندھے پر سر رکھے جی بھر کر رودی ۔ آو بیٹا میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ وہ رملہ کو ساتھ لیے اپنے کمرے میں آگئیں ۔

بچپن سے ہی بہت مندی ہے نصیر – – – لاڈ پیار میں بہت بگڑ چکا ہے ۔ جس چیز کے پیچھے پڑ جائے اسے حاصل کیے بغیر چین نہی ملتا اسے ۔

تمہارے ساتھ جو کچھ اس نے کیا تھا سب بتا چکا ہے مجھے ۔ ۔ ۔ میرے بیٹے کو معاف کر دو

بیٹا اور اس سے شادی کرلو۔ مجھے کوئی اعتراض نہی تم کون ہو ، کہاں رہتی ہو ، کس گھرانے سے تعلق رکھتی ہو ۔ ۔ ۔ میں

بس اپنے بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتی ہوں ۔

پلیز اسے معاف کر دو ۔

آنٹی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟

آپ اس طرح معافی مانگ کر مجھے شرمندہ مت کریں ،میں نے آپ کے بیٹے کو کبھی بددعا

نہی دی تھی اور جہاں تک شادی کی بات ہے ۔

میرا نکاح ہو چکا ہے میرے چاچو کے بیٹے کے ساتھ ۔ ۔ ۔ میں آپ کی یہ خواہش کبھی پوری

نہی کر سکتی ۔

بس کچھ دن اور میں یہاں سے چلی جاوں گی بلکہ اگر آپ بولیں تو صبح ہی چلی جاتی ہوں۔

میری وجہ سے نصیر خود کو مزید اذیت دے گا۔

آنسو بہاتی ہوئی اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ اگلی صبح ۔۔۔۔ نصیر آفس جانے کے لیے تیار ہو کر ڈائینگ ٹیبل پر پہنچ ہی تھا کہ گیٹ کیپر اندر آیا ۔ سر باہر کوئی آیا ہے ۔ ۔ ۔ رملہ میڈم سے ملنا ہے اسے ۔

کون ۔ ۔ ۔ ؟

نصیر حیرت زدہ سا کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور سامنے سے آتی رملہ کو دیکھتے ہوئے بیرونی

دوازے کی طرف بڑھا۔

رملہ بھی اس کے پیچھے چل دی ۔ ۔ ۔ کون ہو سکتا ہے ؟

میں نے تو کسی کو بتایا بھی نہی اس گھر کے بارے میں ۔ ۔ ۔ پریشان سی باہر کی طرف بڑھی اور جیسے ہی نظر گیٹ کے پاس کھڑے شخص پر پڑی قدم وہی رک گئے۔ سامنے کوئی اور نہی ہدان کھڑا تھا ۔

نصیر جہاں کھڑا تھا وہی کھڑا رہ گیا ۔ ۔ ۔ آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہی کر سکا ۔ پلٹ کر دروازے کے پاس کھڑی رملہ کی طرف دیکھا اور پھر ہمدان کی طرف ۔ نصیر کو سامنے دیکھ کر ہمدان حیرت زدہ سا کبھی اس کو اور کبھی رملہ کو دیکھتا رہ گیا۔

غصے سے نصیر کی طرف بڑھا ۔ تم یہاں کیسے ؟

یہ سوال تو مجھے آپ سے کرنا چاہیے ملک ہمدان ۔ ۔ ۔ آپ یہاں کیسے ؟ یہ میرا گھر ہے ۔ ۔ ۔ آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے یہ سوال کرنے والے ؟

ہمدان اس کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوا رملہ کی طرف بڑھا لیکن اس سے پہلے ہی نصیر رملہ

کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا۔

دور رہو اس سے ملک ہمدان ۔ ۔ ۔ تمہاری ملکیت نہی ہے یہ جو ہر بار اس کے پیچھے کسی بھی

پہنچ جاتے ہو۔

میرا دماغ خراب مت کرو نصیر ۔ ۔ ۔ راستے سے ہٹو۔

نہی ہٹوں گا میں راستے سے ۔ ۔ ۔ اس وقت رملہ میرے گھر میں موجود ہے اور مجھے پورا حق

ہے اس کی حفاظت کرنے کا ۔

یہ یونیورسٹی نہی میرا گھر ملک ہمدان صاحب ۔ ۔ ۔ آپ یہاں سے جاسکتے ہیں ۔ ۔ ۔ باہر

جانے کا راستہ اس طرف ہے ۔

ہم ۔ ۔ ۔ اب تم مجھے سمجھاو گے کہ مجھے اپنی بیوی پر حق جتانا چاہیے یا نہی ؟

 بیوی ۔ ۔ ۔ ہمدان کے منہ سے رطہ کے لیے بیوی کا لفظ سن کر نصیر نے بھنویں سکوڑتے ہوئے پلٹ کر رملہ کی طرف دیکھا۔

رملہ نے سر اثبات میں ہلایا ۔ ۔ ۔ نصیر سامنے سے پیچھے ہٹ گیا لیکن پھر سے سامنے آ گیا۔ بیوی ۔ ۔ ۔ خود کو اس کے شوہر کہتے ہو اور کل کہاں تھے جب یہ سڑکوں پر خوار ہو رہی

تھی؟

فقط نکاح کے چند بول پڑھ لینے سے بیوی بن گئی یہ تمہاری اور تم نے اسے اپنی ملکیت سمجھ لیا کہ جب دل چاہے زندگی میں رکھو گے اور جب دل چاہے زندگی سے باہر نکالو گے ۔

آخر چاہتے کیا ہیں آپ ہمدان صاحب ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نصیر کسی صورت اسے آج بخشنے والا نہی تھا ۔

تمہارے ان سوالوں کا جواب دینا میں ضروری نہی سمجھتا ۔ ۔ ۔ راستے سے ہٹو۔ ہمدان نے اسے کندھے سے جھنجوڑتے ہوئے پیچھے کیا اور رملہ کا ہاتھ تھام کر گیٹ کی طرف

بڑھ گیا۔

نصیر تیزی سے گیٹ کے سامنے آگیا ۔ ۔ ۔ رک جاوہ اس طرح سے نہی لے جا سکتے تم

اسے یہاں سے سمجھے ؟

میں پولیس بلواوں گا ۔ ۔ ۔ کسی بھول میں نہ رہنا۔ مجھے ثبوت چاہیے نکاح کا ۔ ۔ ۔ اس کے

بغیر میں رملہ کو کہی نہی جانے دوں گا۔

ہدان نے بے بسی سے رملہ کی طرف دیکھا جو کچھ نہی بول رہی تھی ۔

سہی کہہ رہا ہے میرا بیٹا ۔ ۔ ۔ اگر واقعی یہ تمہارے نکاح میں ہے تو ہمیں ثبوت دکھاو۔ اس

طرح زبر دستی نہی کر سکتے تم بچی کے ساتھ ۔ نصیر کی ماں بھی باہر آگئیں ۔

یہ سچ کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ آخر کا رملہ نے چپ توڑ دی ۔ اس دن جب اماں نے تمہیں اخوا کروایا تھا تب ہمارا نکاح ہوا تھا لیکن تم حوش میں نہی تھے ۔

سہی ۔ ۔ ۔ تب حوش میں نہی تھا لیکن اب تو جوش میں ہوں ۔ ۔ ۔ دیکھتا ہوں کیسے لے کر

جائے گا یہ تمہیں زبردستی یہاں سے۔

میرا دماغ خراب مت کرو نصیر ۔ ۔ ۔ پہلے ہی بہت پریشان ہوں میں یہ نہ ہو سارا غصہ تم پر

نکال دوں ۔

ہمدان حوش کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے نصیر کی طرف بڑھا اور اسے بازو سے کھینچتے ہوئے گیٹ کے سامنے سے ہٹا کر رملہ کی طرف بڑھا۔

گارڈ سامنے آ گیا ۔ ۔ ۔ یہاں سے نہی جا سکتے آپ ۔

میری بیوی ہے یہ ۔ ۔ ۔ ایک بار کی کہی بات سمجھ کیوں نہی آرہی تم لوگوں کو ؟

تو آپ ثبوت دکھا دو ناں بیٹا ۔ ۔ ۔ اگر نکاح نامہ دکھا سکتے ہو ہمیں کوئی اعتراض نہی ہے لیکن اس طرح بچی کو نہی جانے دے سکتے ۔

ہدان نے بے بسی سے رملہ کی طرف دیکھا۔

رملہ نے نظریں جھکا لی ۔۔۔ میرے پاس ہے ثبوت میں دکھاتی ہوں۔ وہ ہمدان کا ہاتھ چھوڑ کر آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ ہمدان نے سر نفی میں ہلایا ۔ میں ساتھ

جاوں گا ۔

ہم ۔۔۔ رملہ اس کا ہاتھ تھامے ہی اندر کی طرف بڑھ گئی۔

پیچھے کھڑے نصیر کو ایسالگا جیسے اس کا وجود کرچی کرچی ہو گیا ہو۔ اپنی جگہ سے ہل ہی نہی

پایا۔

ماں نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو پھیکا سا مسکرا دیا اور ان کے ساتھ اندر چلا آیا۔ رملہ نے بیگ سے نکاح نامہ نکال کر ہمدان کی طرف بڑھایا۔ ہمدان نے نصیر کے سامنے لہرایا ۔ ۔ ۔ دیکھ لو اچھی طرح ۔

نصیر خاموش نظروں سے بس دونوں کے نام اور دستخط دیکھ کر کسی گہری سوچ میں گم ہو سے بس دونوں نام اور دیکھ کرکسی گہری میں گم ہو

گیا۔

ہر بار تم ۔ ۔ ۔ ملک ہمدان تم مجھ سے ہر بار جیت جاتے تھے لیکن آج میں سہی معنوں میں تم

سے ہار گیا۔

صرف ہارانہی ختم ہو گیا آج میں ۔ ۔ ۔ میرے وجود میں جو تھوڑی سی جان باقی تھی آج نکال

دی تم نے ملک ہمدان – – – – برباد ہو گیا ہیں۔

میرے جینے کی جو تھوڑی سی امید جاگی تھی آج وہ امید بھی چھین لی تم نے ۔ ۔ ۔ گہری سانس لیتے ہوئے آگے بڑھا اور ہمدان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے بسی سے مسکرا

دیا۔

معاف کرنا میں نے آپ کو غلط سمجھا ۔ ۔ ۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے اور زندگی کی جو بھی مشکلات ہیں ان سے محفوظ رکھے آمین۔

ایک نظر رملہ پر ڈالتے ہوئے تیزی میں کمرے سے باہر نکل گیا اور آنکھ سے گرتا آنسو انگوٹھے سے مسل کر خود کو مظبوط ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے

کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

چلیں ۔۔۔؟

جی ۔ ۔ ۔ رملہ نا چاہتے ہوئے بھی ہمدان کے سوال پر سر ہلا گئی اور اپنا سامان سمیٹتی ہوئی اس

یلہ

کے پیچھے چلتی گئی۔

ملازمہ اس کا بیگ ھسیٹتی ہوئی گیٹ تک لائی۔ رملہ نے پلٹ کر نصیر کی ماں کی طرف دیکھا

اور خدا حافظ بولتی ہوئی گیٹ پار کر گئی ۔

اوپر کھڑکی کا پردہ تھوڑا سر کا اور ان کی گاڑی کے وہاں سے جاتے ہی نصیر بے بس سا کھڑکی

کے پاس فرش پر بیٹھ گیا۔

دروازہ بند کیے کتنی ہی دیر آنسو بہاتا رہا ۔ ۔ ۔ آخر کا راٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کے انتظار میں دروازے کے باہر کھڑی اس کی ماں بیٹے کی آنکھیں دیکھ کر تڑپ اٹھیں۔

نصیر مسکراتے ہوئے بنا لیے گھر سے باہر نکل گیا۔

گاڑی میں گہری خاموشی تھی ۔ ۔ ۔ نہ رملہ نے کوئی بات کی اور نہ ہی ہمدان نے ۔ آخر کار ہمدان کا ظبط ٹوٹ ہی گیا ۔ اس نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی اور اسٹیرنگ

وہیل پے سر گرائے بیٹھ گیا۔ کیوں کیا ایسا بتا و مجھے ؟

غصے سے رملہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

رملہ نے کوئی جواب نہیں دیا بس چاپ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے میں مصروف رہی۔ کچھ پوچھا ہے میں نے ۔ ۔ ۔ بتاو کیوں گئی تھی نصیر گھر اور اس کے ساتھ کب سے رابطے

میں ہو؟

ہمدان کے اس سوال پر رملہ نے چونک کر ہدان کی طرف دیکھا اور سر نفی میں ہلا دیا۔ میرا اس سے کوئی رابطہ نہی تھا ۔ اچانک ملے ہیں ہم کل ۔

اچانک ملے اور اتنی بے تکلفی کے تم اس کے ساتھ اس کے گھر ہی چلی گئی ۔ ۔ ۔ داد دینی

پڑے گی تمہاری ہمت کی۔

اور کیا کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ کسی ہوٹل کے کمرے میں رہتی ؟

میں تو جانے ہی والی تھی لیکن نصیر نے روک لیا ۔ بہت بدل چکا ہے وہ ۔

ہم ۔ ۔ ۔ بدل چکا ہے ۔ بھول گئی کیا اس نے کیا کیا تھا ہم دونوں کے ساتھ ؟

پھر بھی تم نے اس کا بھروسہ کیا ۔ ۔ ۔ کیوں ؟ مجھے اس پر بھروسہ کرنا ہی پڑا۔ ۔ ۔ کیونکہ میرے پاس سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ نہی تھا۔

میں مر گیا تھا کیا ۔۔۔۔؟ میرے کہنے پر بنا بتائے گھر سے نکل آئی اور دشمن کے گھر پر پناہ لے لی ۔ ۔ ۔ میرا کوئی

مقام ہے تمہاری زندگی میں یا نہی ؟

غلط سمجھ رہے ہیں آپ ۔ ۔ ۔ میں آپ کی وجہ سے نہی آئی گھر سے بلکہ ماما نے مجھے جانے کو کہا ۔ ۔ ۔ وہ سب کچھ جان چکی ہیں ہمارے نکاح کے بارے میں۔

میں روشنی سے فون پر بات کر رہی تھی اور وہ اچانک کمرے میں آئیں اور میری ساری

باتیں سن لیں ۔

OhThats Great …

اگر تائی امی کو بیچ پتہ چل ہی گیا تھا تو اس میں ڈرنے والی کونسی بات تھی ؟

مجھے کال بھی تو کر سکتی تھی ناں؟ اگر انہوں نے گھر سے نکال دیا تھا تو دروازے کے باہر میرا انتظار بھی تو کر سکتی تھی ؟ لیکن تم نے کیا کیا ۔ ۔ ۔ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر یہاں دشمن کے گھر میں پناہ لے لی۔

تنها را یہ قدم میرے منہ پر بہت بڑا تمانچہ رہ ۔ ۔ ۔ تم دشمن پر تو اعتبار کر سکتی ہو لیکن ساری غلطی میری ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اب اور نہی تمہیں مزید کوئی من مانی کرنے کی اجازت

نہی دوں گا میں ۔

ایک شوہر کو جیسے اپنی بیوی کو رکھنا چاہیے اب میں تمہیں ویسے ہی رکھوں گا ۔ بھاڑ میں گئی پڑھائی ۔ ۔ ۔ اب میں تمہاری ایک بات نہی سنوں گا ۔ ۔ ۔ جو آج ہوا اس کے

بعد تو ہر گز نہی ۔

آج سے جو میں کہوں گا وہی کروگی تم ۔ ۔ ۔ گھر جارہے ہیں ہم ۔

اس سے پہلے بیٹی بن کر گئی تھی اس گھر میں لیکن آج میری بیوی بن کر جاو گی۔

ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خبر دار جو ایک لفظ بھی بولی تم ۔

رملہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ ہمدان نے بولنے سے منع کر دیا۔

خاموش ۔ ۔ ۔ بلکل خاموش کوئی سوال نہی ۔ ۔ ۔ ورنہ میں کچھ ایسا کر بیٹھوں گا جس پر تم

ساری زندگی پچھتاوگی۔ مزاق سمجھ رکھا ہے مجھے ۔ ۔ ۔ میری محبت میرا خلوص سب میرے منہ پر مار کر یہاں چلی

آئی۔

اگر تائی امی کو سب پتہ چل ہی گیا تو ڈٹ جاتی ان کے سامنے ۔ ۔ ۔ میں سب سنبھال لیتا

لیکن نہی ۔ ۔ ۔ تمہارے سر پر تو اچھا بننے کا جنون سوار ہے ۔

تمہاری زندگی میں میری کیا اوقات ہے یہ آج دیکھ لیا میں نے ۔

اب تک میری محبت دیکھی تھی تم نے لیکن اب میرا دوسرا روپ دیکھنے کے لیے تیار ہو

جاو۔

غصے سے گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔

رملہ بے بس سی کھڑکی سے سر ٹکائے آنسو بہانے میں مصروف ہو گئی۔ سارے راستے روتی رہی لیکن آج ہمدان پر اس کے کسی آنسو کا کوئی اثر نہی پڑا ۔ ۔ ۔ وہ بس

چپ چاپ گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔

گھر پہنچتے ہی غصے میں گاڑی سے باہر نکلا اور رملہ کی سائیڈ والا دروازہ کھول کر اسے بازو سے

کھینچتے ہوئے باہر نکالا۔

گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا اور اندر کی طرف چل دیا۔ پلیز ایسا مت کریں ۔ ۔ ۔ بینی کے بارے میں سوچیں۔

وہ بولتی رہ گئی لیکن ہمدان نے اس کی ایک نہی سنی ۔ ۔ ۔ جیسے ہی دونوں ٹی وی لاونج میں ی لاونج میں داخل ہوئے سب کے چھرے حیرت زدہ سے کھلے رہ گئے۔

مسمز ملک حیرت زدہ سی آگے بڑھی ۔ ۔ ۔ کیوں آئی ہو تم یہاں ؟ میں نے کہا تھا ناں کہ تم یہاں نہی آوگی دوبارہ ۔ ۔ ۔ تو پھر یہاں آنے کہ گستاخی کیوں کی ؟

اور ہمدان تم ۔ ۔ ۔ تم کیا کر رہے ہو اس کے ساتھ ؟

چھوڑو اس کا ہاتھ ۔۔۔

معزرت تائی امی ۔ ۔ ۔ میں اس کا ہاتھ نہیں چھوڑ سکتا ، زندگی بھر کے لیے یہ ہاتھ تھاما ہے میں نے ۔۔۔ رملہ میری بیوی ہے اور اس کا ساتھ میں زندگی بھر نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کو جو کرنا ہے آپ کر لیں ۔ ۔ مجھے اب کسی کی پرواہ نہی ہے اور ایک بات ۔ ۔ ۔ آئیندہ میری بیوی کو اس گھر سے جانے کے لیے مت کہئیے گا۔ یہ آپ کی سوتن کی بیٹی کی حیثیت سے نہی بلکہ میری بیوی ہونے کی حیثیت سے ہے اب

یہاں۔

ہمدان ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہو رہا ہے یہ سب ؟

ملک صاحب کی گرجدار آواز پر سب سیڑ ہیوں کی طرف لیے ۔

کیا کہا تم نے ابھی ابھی؟

دوبارہ کہنا زرا ۔ ۔ ۔ رملہ تمہاری کیا ہے؟

جی تایا اہو ۔ ۔ ۔ بلکل ٹھیک سنا ہے آپ نے رملہ میری بیوی ہے پچھلے ایک سال سے ۔

آنٹی نے خود ہمارا نکاح پڑھوایا تھا ۔ ۔ ۔ آپ چاہیں تو رملہ سے پوچھ سکتے ہیں ۔ رملہ نے اپنا ہمدان کے ہاتھ سے آزاد کروانا چاہا لیکن ہمدان نے اس کے ہاتھ پر گرفت مزید

مظبوط کی۔

باقی سب ایسے کھڑے رہ گئے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ملک صاحب سر پکڑ کر وہی سیڑھیوں میں بیٹھ گئے۔ بابا ۔۔۔۔ رملہ نے باپ کی حالت دیکھی تو تیزی سے ان کی طرف بھاگی ۔ ۔ اس بار ہمدان

نے اسے جانے دیا۔

بابا جانی آپ ہمیں غلط مت سمجھیں ۔۔۔ اماں نے یہ نکاح زبر دستی کروایا تھا ہم سے ۔ آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا ۔ ۔ ۔ میں مینی کی خوشیوں میں رکاوٹ نہی بنوں گی۔

ہمدان مجھے طلاق دے دیں گے ۔

رملہ ۔ ۔ ۔ خبر دار ۔ ۔ ۔ خبر دار جو دوبارہ طلاق کا لفظ نکالا اپنے منہ سے ۔ ۔ ۔ ہمدان تیزی سے

اس کی طرف آیا۔

ملک صاحب نے مسکراتے ہوئے بیٹی کے سر پے ہاتھ رکھ دیا ۔ ۔ ۔ نہی ایسا کبھی نہی ہو گاہ میرے لیے بینی میں اور تم میں کوئی فرق نہی ہے ۔

تم دونوں میں میری جان بستی ہے۔ اس کے لیے اللہ نے کچھ اور سوچا ہوگا۔ اس کی فکر

مت کرو۔

ویسے تو تمہاری ماں کو کوئی سکھ نہیں دے سکا میں لیکن اس کے اس فیصلے کو میں دل و جان

سے قبول کرتا ہوں ۔ مجھے کوئی اعتراض نہی اس رشتے سے۔

لیکن مجھے اعتراض ہے ۔ ۔ ۔ مسز ملک غصے سے چلا ئیں ۔

پہلے اس کی ماں میری خوشیاں کھا گئی اور اب یہ میری بیٹی کی خوشیاں نگلنے آگئی ۔ ۔ ۔ لیکن

میری زندگی میں تو یہ ممکن نہی ہوگا۔

ہمدان تم اس کو طلاق دو گے اور وہ بھی ابھی ۔ ۔ ۔ ورنہ ۔

ور نہ کیا ۔ ۔ ۔؟

ملک صاحب بھی سیڑھیوں سے اٹھ کر نیچے آگئے ۔ دیکھ لوں گا میں تم کیا کر سکتی ہو۔ پہلے میری بیوی کو مجھ سے دور کیا اور اب بیٹی کو کرنا چاہتی ہو۔

اس بار اگر کچھ غلط کرنے کی کوشش کی تو اپنا ٹھکانہ کسی اور ڈھونڈ لینا ۔ ۔ ۔ تم جیسی کم ظرف عورت کو مزید برداشت نہی کر سکتا ہیں۔

ٹھکانہ میں نہی آپ لوگ ڈھونڈ لیں ۔ ۔ ۔ شاید آپ بھول رہے ہیں یہ گھر میرے نام پر

ہے۔

سہی ۔ ۔ ۔ توپھر ایسا کرتے ہیں ہم کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کیا خیال ہے ہمدان ؟

تایا ابو ۔ ۔ ۔ لیکن ۔

لیکن ویکن کو چھوڑو یار ۔ ۔ ۔ جاو جا کر پراپرٹی ڈیلرز کو وزٹ کرو, جو گھر پسند آجائے بتا مجھے آ

کر۔

اگر تمہاری تائی امی کی یہی صد ہے تو یہی سہی ۔ ۔ ۔ ہمیں کونسا پیسوں کی کمی ہے ۔ بھائی جان آپ کیوں ایسی ضد لگا رہے ہیں بھا بھی جان کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ؟

ہمدان کی ماما بھی بول پڑیں ۔ گھر چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟

بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ رہنے دیں بھا بھی ۔ ۔ ۔ بڑے سال ہو گئے ہیں مجھے اس معاملے کو حل کرتے کرتے

لیکن کچھ نہی ہوا اور آگے بھی کچھ نہی ہوگا۔

اس کا بس یہی حل ہے ۔ ۔ ۔ اس کو اس کی پراپرٹی مبارک ہو۔ ملک صاحب غصے میں گھر سے نکل گئے۔

ہمدان علی کی طرف پلٹا۔

علی گاڑی سے سامان نکلوا کر اپنی بھابھی کے کمرے میں پہنچا دو۔ جی بھائی ۔۔۔ علی معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے گیراج کی طرف بڑھ گیا۔

اپنے کمرے میں جاو۔

ہمدان کے کہنے پر رملہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

ہمدان تم مت کرو ایسا بیٹا ۔ ۔ ۔ جانتے ہو ناں بینی تم سے کتنی محبت کرتی ہے ۔ وہ تو کل سے اس بات پر ہم سے الجھ رہی ہے کہ رملہ اس گھر میں کیوں ہے ۔ اسے جب یہ پتہ چلے گا کہ رملہ تمہاری بیوی ہے تو مر جائے گی میری بیٹی۔ تھوڑا سا ترس کھا لو میری بیٹی پر ۔ ۔ ۔ کیوں اس پر اتنا بڑا ظلم ڈھارہے ہو ؟ تائی امی اس میں میرا کوئی قصور نہی ہے ۔ یہ نکاح چاہے زبر دستی ہوا تھا لیکن میں رملہ کا ساتھ

نہی چھوڑ سکتا ۔

بینی کے لیے اللہ نے مجھ سے بہتر سوچا ہوگا۔ اس کے لیے فکر مند نہ ہو آپ ۔ ۔ ۔ اور آپ

شاید انجان ہیں تو میں آپ کو بتا دوں ۔

ہمارا نکاح بھی بینی کی ہی مہربانی ہے ۔ اگر اس دن انے رملہ کو ہاسپٹل نہ پہنچا یا ہوتا تو یہ

سب نہ ہوتا ۔

نال رملہ ہاسپٹل پہنچی نا تائی ابو اور چھوٹی تائی امی کی ملاقات ہوتی اور نہ یہ نکاح ہوتا۔

آپ زرا پوچھیں بینی سے کہ اس نے کیا کچھ کیا تھا نصیر کے ساتھ مل کر ۔ جب اپنے ہی دشمن کی چال میں شامل ہو جائیں تو ہارنا طے ہوتا ہے ۔ اسے یقین نہیں تھا بس مجھ پر ۔ ۔ ۔ یہ سب اس کی بے یقینیوں کا نتیجہ ہے۔

Excuseme

کوئی کام اچھا نہی کیا آج تک اس لڑکے نے ۔۔۔

ہمدان سیڑھیوں کی طرف بڑھا ہی تھا کہ باپ کی آواز پر رک کر ان کی طرف پلٹا ۔ پوری زندگی گزرگئی میری لیکن مجال ہے جو اس لڑکے نے باپ کی ایک بھی بات مانی ہو۔ ہر وقت اپنی من مانی کرتا آیا ہے اور آگے بھی کرے گا ۔ بس یہی دن دیکھنا باقی رہ گیا تھا ۔

اب اس بڑھاپے میں اس کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑیں گی مجھے ۔ یہ سب تمہارے لاڈ پیار کا نتیجہ ہے ۔ ۔ ۔ تم نے ہی بگاڑا ہے اسے ۔ ۔ ۔ وہ بیوی پر بھی تپ گئے۔ مسز ملک افسردگی سے ان دونوں کو دیکھتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں ۔

میں نے کیا کر دیا اب ؟

یہ سب میرے لاڈ پیار کا نہی آپ کی لاپر واہیوں کا نتجہ ہے ۔

آپ کو فرصت ہی کہاں ہے شراب اور سگریٹ سے جو بیٹے پر دھیان دیں ۔ میں اکیلی کیا

کیا کروں ؟

ہمدان نے گہری سانس لی اور سر نفی میں ہلاتے ہوئے اوپر چلا گیا۔ رسلہ کے کمرے میں پہنچا اور دروازہ بند کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر رملہ تیزی سے پلٹی ۔ ہمدان کو خونخوار نظروں سے اپنی طرف

بڑھتے دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔

آپ یہاں ۔ ۔ ۔ ؟

د و در روازہ کیوں بند کیا آپ نے؟

اس کے الفاظ اس کا ساتھ نہی دے رہے تھے ۔ ڈر کے مارے زبان کپکپا رہی تھی۔ ہمدان نے اسے غصے سے صوفے پر بٹھایا اور خود برابر میں بیٹھ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کیا ۔ کیا لگا تھا تمہیں کہ کسی بھی چلی جاو گی اور مجھے پتہ نہی چلے گا؟ سوچ بھی کیسے لیا تم نے کہ میں تم تک نہی پہنچ سکتا ؟

تمہاری ہر ایک سانس سے باخبر ہوں میں ۔ ۔ ۔ تو اس گھر کا ایڈریس کیسے نہ ملتا مجھے ؟

مجھے بس ایک بات کا دکھ ہے کہ تمہیں پناہ لینے کے لیے وہی گھر کیوں ملا ؟ روشنی کے پاس چلی جاتی ۔ ۔ مجھے کال کر دیتی لیکن تم نے ضروری ہی نہی سمجھا کیوں؟ میں روشنی کے پاس ہی جا رہی تھی ۔ ۔ ۔

جھوٹ ۔ ۔ ۔ پہلے بھی جھوٹ بولا اور اب بھی جھوٹ بول رہی ہو سچ کیا ہے مجھے وہ سننا

کوئی بھی بہانہ نہی سنوں گا میں ۔۔۔ جس لحاظ سے نصیر تمہارے لیے میرے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا۔ اس لحاظ سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت گہرا رشتہ ہے تم دونوں کے

درمیان ۔

رملہ کچھ پوچھا ہے میں نے تم سے ؟

رملہ کی خاموشی پر ہمدان مزید تپ گیا اور اسے کندھے سے جھنجوڑا ۔

اس سے پہلے کہ رملہ کوئی جواب دیتی دروازہ نوک ہوا۔

Yes Comein…

ہمدان تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گیا۔

دروازے پر علی تھا ۔ رملہ کا بیگ گھسیٹتا ہوا صوفے تک لایا۔

I am sorry Bhai And Bhabi

میں نے آپ دونوں کو ڈسٹرب کیا ۔۔۔ بھائی آپ نے ہی کہا تھا کہ بیگ کمرے میں رکھوا

دوں بھائی کا ۔

رکھ دیا بیگ ۔۔۔ چلتا ہوں میں ۔۔۔ معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر

نکل گیا۔

مزید بولتا رہتا اگر ہمدان کے چھرے کے بدلتے تیور نہ دیکھتا۔ اس لیے چپ چاپ یہاں

سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔

اس کے کمرے سے نکلتے ہی ہمدان اٹھا اور دروازہ لاک کرتے ہوئے واپس صوفے پر بیٹھ

گیا۔

رملہ کنفیوز ڈسی ہاتھ پر ہاتھ رکھے سر جھکائے پریشان بیٹھی تھی۔ کچھ پوچھا ہے میں نے ۔ ۔ ۔ جواب چاہیے مجھے آج ہی ۔ ہمدان پھر سے اس کی طرف پلٹا۔

میں سچ کہہ رہی ہوں میرا نصیر سے کوئی رابطہ نہی ہے ۔ اچانک ملے ہم بس اسٹاپ پر ۔ ۔ ۔ میں روشنی کے پاس ہی جارہی تھی۔

آپ سے رابطہ نہ کرنے کی وجہ ۔ ۔ ۔ میں آپ کو پریشان نہی کرنا چاہتی تھی۔ میں نہی چاہتی کہ آپ میری وجہ سے اپنی فیملی سے الجھیں ۔

اپنی فیملی ۔ ۔ ۔ ؟

ہمدان نے اسے بازو سے جھنجوڑتے ہوئے اس کا رخ اپنی طرف موڑا ۔ شوہر کے لیے اس کی فیملی میں بیوی سب سے پہلی فہرست میں ہوتی ہے نکاح کے بعد ۔ ۔ ۔ میری فیملی اب تم سے شروع ہوتی ہے۔ کیسے سوچ لیا تم نے کہ مجھے پریشانی ہوگی ؟

صرف اور صرف تمہاری مند کی وجہ سے چپ تھا میں ۔ ۔ ۔ لیکن اب سے میں وہی کروں گا جو مجھے بہت پہلے کرنا چاہیے تھا ۔

تم مجو بہ نہی ہو میری جو تمہارے لیے سب سے لڑتے لڑتے تھک جاوں گا ۔ ۔ ۔ بیوی

ہو۔

بہت بڑی غلطی کر دی تم نے نصیر کے گھر جا کر ۔ ۔ ۔ میرا خون کھول رہا ہے ۔ دل چاہ رہا

ہے ختم کر لوں خود کو۔ کیا سوچتا ہوگا وہ کہ ملک ہمدان اتنا گرا ہوا مرد ہے جو اپنی بیوی کو تحفظ بھی نہی دے سکا اور وہ

تمہاری طرف دیکھ کیسے رہا تھا ؟

اس کی تمہارے چھرے پر جمی نظریں اور ہمارا نکاح نامہ دیکھ کر اس کا بدلتا لہجہ ۔۔ مجھے کچھ اور ہی دکھائی دے رہا تھا ۔

اس کی آنکھوں میں تمہارے لیے جو محبت اور بچھڑنے کا درد تھا ناں ۔ ۔ ۔ مجھ سے نہی

برداشت ہو رہا۔

کیوں تھا اس کی آنکھوں میں وہ درد؟

کہی وہ تم سے ۔ ۔ ۔ میں سوچ بھی نہی سکتا ۔ آئیندہ اگر مجھے تمہارے آس پاس بھٹکتا ہوا بھی نظر آگیا ناں تو جان لے لوں گا میں اس کی۔

برداشت نہی کر سکتا میں اس کی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت اور درد ۔ ۔ ۔ غصے سے اپنے بال مٹھی میں جکڑے غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن غصہ تھا

کہ کم ہونے کا نام ہی نہی لے رہا تھا۔

رملہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے آنسو بہانا شروع ہو گئی۔ تم کیوں رو رہی ہو ۔ ۔ ۔ کیا تمہیں بھی اس کے لیے درد محسوس ہو رہا ہے ؟

نہی ۔۔۔ رملہ نے تیزی سے سر اوپر اٹھایا۔ اگر ایسا ہے تو تمہاری آنکھوں میں یہ درد کیسا ہے ؟ اس بار ہمدان غصے سے چلایا۔

میں تو آپ کے غصے کی وجہ سے ۔ ۔ ۔

نہی ۔ ۔ ۔ تم میرے غصے کی وجہ سے اس کی وجہ سے رورہی ہو ۔ ۔ ۔ اس کے نام کے آنسو

بھی برداشت نہی کر سکتا میں ۔ خاموش ۔۔۔ بلکل خاموش ۔ ڈریسنگ کی طرف بڑھا اور ٹشوز باکس رملہ کی طرف اچھالا۔ صاف کروا پنے آنسو ۔ ۔ ۔

اس سے پہلے کہ ہمدان مزید ہوتا دروازہ نوک ہونے کی آواز پر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ سامنے پھوپھو کھڑی تھیں۔ کیا ہو گیا ہدان ۔ ۔ ۔ تم کب سے اتنا چلانے لگے ہو؟ پورے گھر میں تمہارے چلانے کی آواز میں سنائی دے رہی ہیں ۔ جاوا اپنے کمرے میں اور

فریش ہو۔

عجیب ماحول بنا رکھا ہے آج تم نے ۔ ۔ ۔ آج سے پہلے سنی کسی کی اتنی اونچی آواز گھر میں ؟

I amsorry

میں تھوڑا غصے میں تھا ۔ ۔ ۔ اندازہ ہی نہی ہوا کہ میری آواز کمرے سے باہر جا رہی ہے۔ اپنے غصے پر قابو رکھو اور جو بھی معاملہ ہے کمرے کے اندر ختم کرو ۔ ۔ ۔ کسی دوسرے کو اس بات کی خبر نہی ہونی چاہیے کہ تم دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے ۔

یا اللہ خیر ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسی آواز تھی ۔ ابھی وہ بول ہی رہی تھیں کہ کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز پر کمرے سے باہر بھاگی۔

رملہ اور ہمدان بھی ان کے پیچھے کمرے سے باہر آگئے۔

بینی سیڑھیوں میں گرمی پڑی چیز میں اٹھا اٹھا کر نیچے پھینک رہی تھی ۔ شیشے کی میز ٹوٹ کر

بکھر چکی تھی۔

تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ ؟

ہمدان کو دیکھتے ہی زور سے چلائی۔

اس کا ہاتھ سیڑھیوں میں پڑے گلدان کی طرف بڑھتے دیکھ ہمدان تیزی سے رملہ کے سامنے

آگیا۔

خبر دار بینی ۔ ۔ ۔ خبر دار جواب تم نے ایسا کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو اچھا نہی ہوگا۔ تسلی سے میری بات سنو ۔

مسز ملک بیٹی کی حالت دیکھ کر آنسو بہا رہی تھیں اور اسے سنبھالنے کی ناکام کوشش کر

رہی تھیں۔

نہی سنوں گی میں تمہاری کوئی بھی بات آج ۔ ۔ ۔ میرا دل ایسے ہی نہی ڈرتا تھا ۔ میں جانتی

تھی تم دونوں کے درمیان کچھ ہے ۔

تم ایسے ہی اس کے پیچھے پیچھے نہی بھاگتے تھے ۔

علی اپنی ماما کے ساتھ سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور بینی کو سہارا دیتے ہوئے نیچے صوفے تک

لایا۔

اتنا بڑا دھوکا دیا تم نے مجھے ۔ ۔ ۔ میں سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ میرا دوست میرے ساتھ

ایسا بھی کر سکتا ہے ۔

میری حالت کچھ بہتر ہو رہی تھی اور میں ہماری آنے والی زندگی کے خواب دیکھ رہی تھی

لیکن تم نے میری زندگی ہی ختم کر دی۔

تسلی سے میری بات سنو جینی ۔ ۔ ۔ جو کچھ ہوا اس میں نہ تو رملہ کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی

میرا۔

اس کا نام کیسے لیا تم نے ۔ ۔ ۔ ؟

بینی کے ہاتھ ٹی وی کا ریمورٹ لگا اس نے وہی ہد ان کی طرف اچھال دیا۔ ہمدان نے ریمورٹ کیچ کرتے ہوئے فرش پے بیچ دیا ۔ کیا بد تمیزی ہے یہ بینی ؟ جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔ ۔ ۔ تمہارے اس طرح کرنے سے بدل تو نہی جائے گا سب کچھ ۔

رملہ میری بیوی ہے اور اس سچ کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ اس سچ کو میں بدلوں گی ۔ ۔ ۔ تم ابھی اسی وقت طلاق دوا سے ورنہ میں خود کو ختم کر لوں گی ۔

همدان تمہیں زرا ترس نہیں آرہا میری بیٹی پر ؟

تم دونوں کی بچپن کی دوستی کا کیا ہوا؟

یہ لڑکی تمہیں ہم سب سے عزیز ہو گئی ۔ بھول گئے وہ دن جب میں نے تمہیں اور تمہارے

گھر والوں کو سہارا دیا تھا ؟

سب یاد ہے مجھے تائی امی ۔ ۔ ۔ لیکن میری مجبوری کو بھی سمجھیں آپ لوگ۔ میرے پاس آپ سب ہیں لیکن رملہ کے پاس میرے سوا کچھ نہی ہے ۔ میں اسے

چھوڑنے کا سوچ بھی نہی سکتا۔

طبیعت ٹھیک نہی ہے تمہاری آو تمہارے کمرے میں چھوڑ دوں تمہیں۔

ہدان نے بینی کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن بینی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔ نہی چاہیے مجھے تمہارا سہارا ۔ ۔ ۔ زندہ لاش بنا کر رکھ دیا ہے مجھے ۔ ۔ ۔ اتنی تکلیف مجھے اس بے بیماری میں نہی ہو رہی تھی جتنی بے بس میں اب محسوس کر رہی ہوں خود کو ۔ سانس گھٹ رہا ہے میرا ۔ ۔ ۔ یہی بیٹھوں گی میں ۔

کب تک بیٹھو گی یہاں ؟

تمہارے یہاں بیٹھنے سے یہ سب بدل تو نہی جائے گا۔

دیکھو اس میں کسی کا قصور نہی ہے ۔ جو کچھ ہوا میں اور رملہ دونوں مجبور تھے ۔ اگر میں اس وقت نکاح نامے پر سائن نہی کرتا تو تمہیں اور نصیر کو مار دیتے وہ لوگ ۔

مر تو میں اب بھی گئی ہوں ہمدان ۔ ۔ ۔ کاش تم بے وفائی نہ کرتے ۔ یا تو اس لڑکی کو چھوڑ دو

یا پھر اپنے ہاتھوں سے میرا گلہ دبا دو۔

مجھے نہی جینا ۔ ۔ ۔ نہی دیکھ سکتی تمہیں کسی اور کے ساتھ ۔ میرا وجود کرچی کرچی ہو چکا ہے تمہارے نکاح کی خبر سن کر ۔

کچھ وقت لگے گا تمہیں سنبھلنے میں بینی ۔ ۔ ۔ میں تمہارے لیے کچھ نہی کر سکتا ۔ رملہ چلو یہاں سے ۔۔۔ بینی کی طرف دیکھتے ہوئے رملہ کا ہاتھ تھامے اس کے کمرے میں

لے گیا۔

پیچھے سے بینی چیختی چلاتی رہ گئی کہ رک جاو ۔ ۔ ۔ مگر وہ نہی رکا۔

رملہ پلٹ پلٹ کر بینی کو دیکھ رہی تھی ۔ اس کی یہ حالت اس سے دیکھی نہی جا رہی تھی۔

کیوں کر رہے ہیں آپ بینی کے ساتھ یہ سب ؟

اس میں اس کا بھی تو قصور نہی ہے ۔ وہ محبت کرتی ہے آپ سے ۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ میں آپ دونوں کے درمیان آگئی تھی ۔ اس کی بے بسی اور آہیں ہیں

خوش نہی رہنے دیں گی بھی۔

رملہ کمرے میں آتے ہی بولنا شروع ہو گئی۔ ہدان غصے سے اس کی طرف پلٹا اور اس کا چہرہ دونوں ہاتھ میں تھام لیا۔

اس کی آنکھوں میں چند لمحے دیکھتا رہا اور پھر اسے چھوڑ دیا ۔

ہمیں خوش رہنے کے لیے اس کی دعاوں کی نہی بلکہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کی

ضرورت ہے ۔

کوشش کرو کہ ہمارا ایک دوسرے پر بھروسہ ہمیشہ قائم رہے اور کسی تیسرے کا ہماری زندگی میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔

اسے کچھ وقت لگے گا لیکن سنبھل جائے گی ۔ بچپن سے جانتا ہوں میں اسے ۔ ۔ ۔ تم اس کی

زیادہ فکر نہ کرو۔

تھوڑی ضد ی ہے اور اپنی ضد پوری کرنے کے لیے کسی بھی مقام تک جا سکتی ہے پھر چاہے وہ ضد کوئی چیز ہو یا انسان ۔ ۔ ۔ لیکن اس وقت اس کی جو حالت ہے وہ صبر کے سوا

کچھ نہی کر سکتی۔

آہستہ آہستہ اسے صبر آجائے گا۔ تھوڑا وقت لگے گا۔

کیا آپ اس سے محبت نہی کرتے ؟ رملہ کے سوال پر ہمدان نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا ۔ یہ کیسا سوال ہے ؟ میں تمہیں سب کچھ بتا چکا ہوں اپنے ماضی کے متعلق ۔ ۔ ۔ ہم بس اچھے دوست ہیں اور جہاں تک شادی کی بات ہے ۔ وہ ایک مجبوری کا بندھن تھا۔

صرف منگنی ہوئی تھی نکاح نہی ۔۔۔

تو آپ کے خیال میں آپ کا یہ مجبوری کا بندھن بینی کے لیے بھی مجبوری تھا ؟ اس کی چھرے کا درد اور بے بسی کیا وہ سب اس کی ضد ہے یا پھر کچھ اور ؟ وہ جو کچھ بھی ہے میں اس بارے میں سوچنا بھی نہی چاہتا ۔ ۔ ۔ فی الحال تم میری زندگی کی

سب سے بڑی زمہ داری ہو۔

تمہیں چھوڑنے کا تصور بھی نہی کر سکتا ہیں۔

اس کا مطلب آپ بہت خود غرض ہیں۔ اپنی خوشیوں کی پرواہ ہے آپ کو لیکن بینی کی نہی ۔ ۔ ۔ وہ دوست جو زندگی کے ہر اچھے برے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑی رہی ۔

آج ایک اجنبی لڑکی کے لیے اسے چھوڑ دیا آپ نے ؟

اجنبی لڑکی ۔۔۔؟ تم اجنبی لڑکی نہی بیوی ہو میری ۔ ۔ ۔ تمہاری ایک ایک سانس سے باخبر رہنے والے کے لیے اجنبی کیسے ہو سکتی ہو تم ؟

وہ دن جس دن تمہاری اماں نے تمہارا سودا کیا تھا ۔ اس دن سے ہر ایک دن کی خبر ہے مجھے ۔ ۔ ۔ اس بند کمرے میں کیا ہوا تھا جہاں تمہیں اس آدمی کے ساتھ بھیجا گیا تھا اور تم کتنے بجے کی فلائٹ سے کونسے ملک اور کونسی یونیورسٹی گئی سے واپس آنے تک ۔

بس ایک بات کی خبر دیر سے ملی مجھے ۔ ۔ ۔ آنٹی کی دیقہ اور تایا ابو سے تمہارے رشتے کے

متعلق ۔

ان دنوں میں ملک سے باہر تھا اور میرا رابطہ نہیں ہو سکا روشنی سے ۔ ۔ ۔ جب واپس آیا تو

اچانک سے تم سامنے آگئی۔

ور نہ ایسا کوئی دن نہی گزرا تھا جب میں نے روشنی سے تمہاری خیریت دریافت نہ کی ہو۔ تمہارا سودا صرف ایک دکھاوا تھا مجھے نیچا دکھانے کے لیے ۔ ۔ ۔ اس آدمی نے تمہیں ہاتھ

تک نہی لگایا تھا ۔

میرے بے ہوش ہوتے ہی تمہیں کمرے سے باہر بھیج دیا گیا تھا اور اس کمرے میں روشنی تمہارے ساتھ موجود تھی۔

یہ بات مجھے روشنی نے اسی رات بتا دی تھی فون پر لیکن میں تمہارے منہ سے سب سننا

چاہتا تھا۔

لیکن تم نے بتانا ضروری ہی نہی سمجھا ۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔ ۔ اب بتانے اور کہنے کے لیے کچھ بچا

بھی نہی۔

مجھے کسی کے بتانے یا نہ بتانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تمہاری پاکدامنی کا سب سے بڑا

گواہ میں خود ہوں ۔

رملہ کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے مسکرا دیا۔ مجھے لگا تھا میں تمہاری حفاظت نہی کر سکا۔ لیکن ان لمحوں میں جس سے تمہاری حفاظت کی

دعا کی تھی اس نے تمہاری حفاظت کی ۔ میں آنٹی کی اس صد سے انجان تھا ۔ تایا جی اور ان کے رشتے کے لحاظ سے وہ بس تمہیں

پروٹیکٹ کر رہی تھیں ۔

جانتی تھیں کہ میں ان کی بیٹی کے لیے ایک مظبوط سہارا ہوں ۔ اسی لیے تو تمہارا ہاتھ میرے

ہاتھ میں دے دیا ہمیشہ کے لیے ۔

تو پھر آج ایک بے جان رشتے کے لیے ان کا مان کیسے توڑ دوں میں ؟ جس کے سہارے پر وہ اپی بیٹی کو تنہا چھوڑ گئی ہیں وہ سہارا ان کی بیٹی سے کیسے چھین لوں

میں؟

نکاح صرف الفاظ نہی ہیں بلکہ دو روحوں کے ملن کی گواہی ہے جس کا گواہ خود اللہ ہے ۔ “

تو پھر اپنے اللہ سے کیا وعدہ کیسے توڑ دوں میں؟

تمہیں تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا اللہ ہے ۔ ۔ ۔ تو آج جب تمہیں میرے سہارے کی سب

سے زیادہ ضرورت ہے کیسے اکیلا چھوڑ دوں ؟

سب کی فکر چھوڑ کر کیا چند لمحوں کے لیے تم میری فکر نہی کر سکتی ؟

جو تمہارے لیے پوری دنیا سے لڑنے کے لیے تیار ہے کیا اس کے لیے اپنی انا کو نہی مار

سکتی؟

میں نہی جانتا تھا کہ میرا دل نا چاہتے ہوئے بھی تمہاری جانب کیوں کھینچ چلا آتا تھا۔ مجھے بلکل اندازہ نہی تھا کہ ہمارا تعلق روح کا تعلق بن جائے گا۔

وہ اللہ ہے ناں دلوں میں محبت ڈالنے والا ۔ ۔ ۔ جب وہ ہمارے دل میں کسی کے لیے محبت ڈالتا ہے ناں تو اس کے پیچھے اس کی کوئی تدبیر چھپی ہوتی ہے ، ہم انسان کم عقل اور نا سمجھ ہیں جو وقتی طور پر اس کے فیصلوں کو نہی سمجھ پاتے لیکن وہ اپنی آزمائیشوں سے ہمیں اپنے فیصلے سمجھاتا ہے ہماری قسمت میں جو لکھا جاتا ہے اس کے گن ” سے ہی ممکن

ہوتا ہے”

زیادہ مت سوچو اور اللہ کے اس فیصلے کو دل سے قبول کر کے دیکھو ۔ ۔ ۔ تمہیں سکون ملے

وقتی طور پر تمہیں میں خود غرض لگوں گا لیکن میری یہ خود غرضی اپنے لیے نہی تمہارے لیے ہے ۔ سوچو اگر میں تمہیں چھوڑ کر بینی کے پاس چلا جاوں تو کیا تم خوش رہ سکو گی ؟ ہمارا رشتہ اب صرف کاغزات کی حد تک نہی رہاد ہمارے جسم اور روحیں بھی جڑ چکی ہیں ۔ روح کے جسم سے جدا ہونے کا مطلب جانتی ہو تم ؟

اس وقت یہ جسم تو میرا ہے لیکن اس میں بہنے والی روح تمہاری ہو چکی ہے ۔ تمہیں خود

سے دور بھیجنے کا تصور بھی نہی کر سکتا ہیں۔ تم سے کوئی رابطہ نہ ہونے کے باوجود بھی صبح کا سورج نکلنے سے پہلے تمہارے پاس پہنچنے

والا اپنے لیے خود غرض کیسے ہو سکتا ہے ؟

بینی سے میرا رشتہ روح کا نہی ہے ۔ ۔ ۔ کچھ دن لگیں گے اسے سنبھلنے میں لیکن سنبھل جائے گی اور دوسری طرف اگر میں تم سے تعلق ختم کر دوں تو تم زندگی بھر نہی سنبھل سکو

گی۔

سمجھی ۔ ۔ ۔ ۔ یا اور سمجھاوں ؟

مسکراتے ہوئے رملہ کا سر سینے پے رکھتے ہوئے اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھ دیے ۔ رملہ نے آنسو بہاتے ہوئے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور مظبوطی سے اس کی شرٹ کو

مٹھیوں میں جکڑے مسکرا دی ۔

دروازہ کھلا ہے مسز ہمدان ۔ ۔ ۔ اب اتنی بے تکلفی بھی اچھی نہی ہے ۔ آرام کرو میں کھانا بھجواتا ہوں ۔ اور فکر کرنے کی بلکل ضرورت نہی ۔ تمہاری فکر کرنے

کے لیے میں ہوں ۔

بس اپنی آنے والی زندگی کا سوچو ۔ ۔ ۔ تایا ابوہماری شادی کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔

بینی کے لیے اللہ نے بہت بہتر سوچا ہوگا۔

تا یا ابو کی بیٹی ہے وہ بھی اور اس وقت سب سے گہرا صدمہ انہیں لگا ہے لیکن پھر بھی وہ خوش کیونکہ ان کی دوسری بیٹی کی خوشیاں مجھ سے جڑی ہیں۔

بعد میں ملتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک ضروری کام ختم کرنا ہے مجھے ۔

ہمدان کمرے سے باہر چلا اور رملہ مسکراتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی ۔ آپ کا فیصلہ غلط نہی تھا

اماں ۔

ہمدان میری زندگی کا سب سے مظبوط سہارا ثابت ہو رہے ہیں ۔

یونہی گہری سوچ میں گم صوفے پے سر ٹکائے آنکھیں بند کرلی۔

دو دن بعد —

شام کے وقت گھر کی بیل بجی اور اندرونی دروازے سے کوئی اندر آتا دکھائی دیا۔ اسے آتے دیکھ بینی نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور پہچانے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ

ہمدان کی آواز پر چونک گئی ۔

نصیر ۔ ۔ ۔ تم یہاں؟ تمہاری اتنی ہمت کہ تم میرے گھر تک پہنچ گئے۔ ہمدان سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے غصے سے اس کی طرف بڑھا۔

Cool Down mr Hamdan

کیا آپ کے گھر میں مہمان کا استقبال ایسے کرتے ہیں؟

بندہ سلام کرتا ہے حال پوچھتا ہے ۔ آپ تو بڑے چھوٹے دل والے نکلے ۔ نصیر ا بھی بول ہی رہا تھا کہ سیڑھیوں سے نیچے آتی رملہ پر نظر پڑی۔ اسے سامنے دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہمدان کا راستہ کاٹتے ہوئے تیزی سے اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ رملہ کے پاس پہنچتا ہمدان تیزی میں رملہ کے سامنے آکر رک گیا ۔ بینی بڑی دلچسپی سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

GetOut!

ہمدان بنا کوئی لحاظ کیسے غصے سے بولا۔

چلا جاوں گا ملک ہمدان ۔ ۔ ۔ آپ فکر نہی کریں ۔ کسی ضروری کام سے آیا تھا یہاں۔ یہ للہ ۔ ۔ ۔ میرا مطلب آپ کی مسنز کا پرس ہمارے گھر رہ گیا تھا بس وہی واپس دینے آیا

تھا۔

بہت لمبا سفر تھا ۔ ۔ ۔ لیکن خیر مجھے منزل مل ہی گئی۔ یہ لیجئیے ۔ ۔ ۔ اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے رملہ کا پاونچ نکال کر ہمدان کی طرف بڑھایا۔ ہمدان نے غصے سے اس کے ہاتھ سے پاونچ کیا اور اسے باہر جانے کا راستہ دکھایا۔

اتنی بے عزتی پر بھی نصیر مسکرا دیا۔ میں نہی آتنا مسن ہمدان لیکن اس میں آپ کا فون اور

آئی ڈی کارڈ تھا تو مجھے مجبوراً آنا پڑا۔

وہ رملہ کا نام لینے کی بجائے اسے مسٹر ہمدان کہ کر مخاطب کر رہا تھا۔ آپ نے اتنی زحمت کی اس کے لیے شکریہ ۔ ۔ ۔ لیکن اب آپ جاسکتے ہیں مسٹر

نصیر ۔ ۔ ۔ ہمدان نے ایک بار پھر اسے باہر کا راستہ دکھایا ۔

ہم ۔ ۔ ۔ نصیر بے بس سا ایک نظر رملہ پر ڈالتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گیا لیکن پھر

رک کر پلٹا اور بینی کو دیکھا۔

اسے دیکھ کر بینی مسکرادی۔

نصیر نے آگے بڑھنا چاہا لیکن پھر ہمدان کی نظریں خود پر جمی دیکھ کر مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف چل دیا اور دوبارہ پلٹ کر نہی دیکھا۔

عجیب ہی ہے یہ ملک ہمدان بھی ۔ ۔ ۔ بندہ گھر آئے مہمان کو پانی کا ایک گلاس تو پلا ہی سکتا ہے لیکن نہی ان محترم پر تو بس عشق کا بھوت سوار ہے ۔

رملہ کے سامنے تو ایسے کھڑا ہو گیا جیسے میں ابھی اسے چھین کر لے جاوں گا جناب

سے ۔ ۔ ۔ مسکراتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے کے لیے چابی لگائی

ہے۔۔۔

ہی تھی کہ فون کی رنگ ٹون بجی۔

سکرین پر جگمگاتا نمبر اور نام دیکھ کر ماتھے پر بل پڑے ۔ ۔ ۔ اسے کیا کام ہو سکتا ہے مجھ

ے؟

سوچ میں پڑ گیا ۔ ۔ ۔ مسلسل کال آتی رہی تو مجبورا کال اٹھالی ۔ جی ۔ ۔ ۔ مس بینش کیسے یاد کیا آپ نے اس ناچیز کو؟

میرا نمبر ا بھی تک سیور کھا تم نے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی مجھے ۔ ہم ۔ ۔ ۔ کام کی بات کریں مس بیش, کیسے خیال آیا مجھے کال کرنے کا ؟ ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی اچھی نہی لگی مجھے ۔

نصیر کے جواب پر مینی نے قہقہ لگایا ۔ ۔ ۔ سہی کہا تم نے ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی اچھی نہی مگر کبھی کبھی بے تکلفی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔

جانتی ہوں تم پسند کرتے ہو رملہ کو ۔ ۔ ۔ جو کچھ اس کے ساتھ کیا اس کا بہت پچھتاوا ہے

تمہیں لیکن کیا ہو اگر وہ تمہاری ہو جائے ۔ ۔

میری ۔ ۔ ۔ وہ کیسے ؟

شاید آپ بھول رہی ہیں وہ ہمدان کے نکاح میں ہے ۔

نکاح ہی ہوا ہے رخصتی تو نہی ۔ ۔ ۔ اگر تم ساتھ دو تو ہم ان دونوں کا یہ نکاح رخصتی سے

پہلے ختم کروا سکتے ہیں۔

پھر نہیں تمہاری محبت مل جائے گی اور مجھے میری ۔ ۔ ۔ کیا خیال ہے ؟ دماغ خراب ہو گیا آپ کا ۔ ۔ ۔ جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ دماغی کمزوری بھی لاحق ہو چکی

ہے شاید آپ کو مس بینی ۔

نصیر نے کال کاٹ دی اور فون ساتھ والی سیٹ پر پھینک کر گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔ کال بند ہونے پر بینی نے بے یقینی سے فون کو دیکھا ۔ اس نے میری کال کاٹ دی ۔ ۔ ۔ اس کی اتنی ہمت ۔ ۔ ۔ دوبارہ کال ملانے لگی ہی تھی کہ رک گئی ۔ نہی نہی۔۔۔ میں نہی اب تم خود مجھے کال کرو گے ۔ جو آگ میں نے تمہارے دل میں لگائی ہے ناں یہ تمہیں مجبور کرے گی مجھ سے بات کرنے کو ۔

فون وہاں رہ گیا تھا بتا یا کیوں نہی مجھے ۔۔۔۔؟

کمرے میں آتے ہی ہمدان رملہ پر تپ گیا۔

مجھے لگا آپ ناراض ہو گے ۔۔۔ اسی لیے نہی بتایا میں نے مجھے اندازہ نہی تھا کہ نصیر یہاں

آجائے گا۔

itsok…

اس بات کو یہی ختم کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ہمدان گہری سانس لیتے ہوئے کمرے سے باہر چل دیا

اور ٹیرس پر آگیا ۔

یہ دیکھنے کے لیے کہ نصیر چلا گیا یا نہی ۔ ۔ ۔ جب اس کی گاڑی نظر نہی آئی تو پر سکون سا اندر

واپس آ آ گیا ۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

ایک ہفتے بعد ۔۔۔

مسر ملک صبح سے تیاریوں میں مصروف تھیں شاید ان کے کچھ رشتہ دار آنے والے تھے ۔ سب کو یہی لگ رہا تھا مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی۔

دوپہر کے دو بج رہے تھے کہ گھر کے اندرونی دروازے سے آتے شخص کو دیکھ کر ہمدان

کے ماتھے پے بل پڑے ۔

سامنے نصیر کھڑا تھا لیکن اس بار اکیلا نہی تھا اس کی والدہ بھی ساتھ تھیں ۔

مسز ملک خوشی خوشی آگے بڑھیں اور ان کا ویلکم کیا۔ ہمدان ٹی وی لاونج کے صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا۔ لیپ ٹاپ سائیڈ پر

رکھتے ہوئے دونوں بازو سینے پر فولڈ کیسے حیران سا کھڑا ہو گیا ۔

سامنے صوفے پر لیٹی بینی کے چہرے پر فاتخانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ نصیر کی ماں بینی کے پاس آئیں اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی مسکرا دیں۔

بہت پیاری ہے میری بیٹی ۔۔۔ نصیر کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں ۔ همدان اس سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس کے دماغ میں خطرے کی

لھنٹی بجی۔

کیوں آئے ہیں آپ لوگ یہاں ۔ ۔ ۔ ؟

تیزی سے نصیر کی ماں کی طرف بڑھا اور بنا کوئی لحاظ رکھے بولا۔

بدلے میں وہ مسکرادیں ۔ ۔ ۔ بیٹا پرانی باتیں بھلا دیں اب رشتہ دار بننے والے ہیں ہم ۔

رشتہ دار ۔۔۔؟

What?

میں کچھ سمجھانی ۔ ۔ ۔ رشتہ دار کیسے بن سکتے ہیں ہم ؟ مسز ملک غصے سے آگے بڑھیں ۔ تم سے مطلب؟

کی

تم جاواپنے کمرے میں اور اپنی بیوی کو سنبھالو۔ تمہیں کوئی حق نہی ہے ہمارے معاملات

میں بولنے کا ۔

ملک صاحب بھی وہاں آگئے اور سلام کرتے ہوئے صوفے پر براجمان ہو گئے۔ مجھے کوئی بتائے گا آخر کیا چل رہا ہے یہاں؟

ہدان کو سیخ پا ہوتے دیکھ بینی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ بالوں کی لٹ کو انگلی پر

لیٹتے ہوئے طنز بھری نظروں سے ہمدان کو دیکھا۔

میرے رشتے کی بات چل رہی ہے یہاں نصیر سے ۔ ۔ ۔ تمہیں کوئی اعتراض ہے ؟ اس کی اتنی بے باقی پر ہمدان حیران رہ گیا۔

تمہارا رشتہ نصیر سے ۔ ۔ ۔ دماغ تو خراب نہی ہو گیا تمہارا؟

تو ۔ ۔ ۔ اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے ؟

تم چوری چھپے نکاح کر سکتے ہو اور میں عزت سے رخصت بھی نہی ہو سکتی ؟

تا یا ابو آپ جانتے ہیں سب ؟

ہمدان بینی کی بات کا جواب دینے کی بجائے ملک صاحب کی طرف بڑھا۔ نصیر ٹانگ پے ٹانگ جھائے پر سکون سا صوفے پر بیٹھ گیا اور ماں کو بھی بیٹھنے کا کہا۔

وہ بھی مجبور اور بے بس سی بیٹھ گئی۔

ہاں بیٹا ۔ ۔ ۔ مینی کی خوشی اسی میں ہے تو کیا کہہ سکتا ہوں میں؟

ملک صاحب کے اتنے پر سکون جواب پر ہمدان نے ایک غصے بھری نظر نصیر پر ڈالی اور ایک نظر مینی کو دیکھ کر افسردگی سے سر ہلایا اور وہاں سے چل دیا۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

چھ ماہ بعد

ہمدان اور رملہ کے ولیمے والے دن بینی اور نصیر کی منگنی طے پائی ۔ ہمدان کچھ نہی کر سکا کیونکہ ملک صاحب نے انہیں لاجواب کر دیا تھا۔ وہ سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے رملہ کا ہاتھ تھامے اپنی خوشیوں میں مگن بیٹھا تھا۔

نصیر اپنی پوری فیملی کے ساتھ ہال میں داخل ہوا اور ہمدان کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ

گیا۔

بینی اپنے پاوں پر چلتی ہوئی اسٹیج تیک آئی اس کی حالت اب کافی بہتر ہو چکی تھی۔ ملک صاحب نے نکاح خواں کو نکاح پڑھوانے کا بولا تو بینی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ

گئیں۔

اس نے حیرانگی سے نصیر کی طرف دیکھا۔

نصیر نے چہرہ دوسری طرف موڑلیا اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ڈیڈ ۔ ۔ ۔ منگنی کو نکاح میں کیسے بدل سکتے ہیں آپ؟ اس نے ملک صاحب کے کان میں سر گوشی کی مگر وہ بھی انجان بنے رہے اور نکاح

شروع ہو گیا۔

بینی نے ایک نظر مسکراتی ہوئی رملہ کو دیکھا اور اس کے چھرے پے جمی ہمدان کی گہری

نظریں اسے نظر جھکانے پر مجبور کرگئی۔

کپکپاتے ہو ٹوں اور لڑکھڑاتی آواز میں نکاح قبول کیا اور کانپتے ہاتھوں سے سائن کرنے

کے بعد وہی بیٹھی آنسو بہاتی رہ گئی۔

سب نے مبارک باد دی اور رخصتی کا شور مچ گیا ۔ رخصتی کے نام پر وہ مزید چونک گئی ۔ حیرت زدہ سی کبھی نصیر کو اور کبھی ماں باپ کو دیکھتی رہ گئی ۔ ۔ کچھ بولنے اور پوچھنے کا موقع

ہی نہی ملا ا سے ۔

خوش تب آیا جب نصیر ے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔ ۔ کیسا گا سر پر از ؟ بینی نے چونک کر اپنا ہاتھ واپس پیچ لیا۔

تم نے یہ کیا کھیل کھیلا ہے میرے ساتھ ؟

ہماری ڈیل تو منگنی کی ہوئی تھی ناں ۔ ۔ ۔ پھر یہ نکاح اور رخصتی کہاں سے آگئی ؟ نصیر اسٹیرنگ وہیل پے پے نظریں جمائے مسکرا دیا۔

ایک ڈیل تم نے کی تھی مس بینی اور ایک ڈیل میں نے خود سے کی تھی کہ تمہیں رملہ کی خوشیاں برباد نہی کرنے دوں گا ۔

اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم نہی بدلی ۔ ۔ ۔ آج بھی اتنی ہی خود غرض ہوگی میں سوچ

نہی سکتا تھا۔

تم منگنی چاہتی تھی لیکن میں نے انکل آنٹی سے ڈائر یکٹ نکاح کی ڈیمانڈ کی وہ بھی تمہیں نا

بتانے کی شرط رکھتے ہوئے ۔

ان کی معزور اور بے بس بیٹی کو کون بیا بنے آنے والا تھا ۔ ۔ ۔ بس مجبوری میں انہوں نے

ہاں کر دی۔

You….

آواز نچی ۔ ۔ ۔ عمر میں چاہے مجھ سے چار پانچ سال بڑی ہیں آپ محترمہ لیکن شوہر کی عزت

بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ جب ساری زندگی ساتھ رہنا ہے تو پھر جھگڑنے کا کیا فائدہ؟

میں زہر کھالوں گی مگر تمہارے ساتھ نہی رہوں گی ۔ ۔ ۔ دیکھنا بہت جلد تم سے طلاق لے کر تمہاری اس مڈل کلاس محبوبہ کی زندگی عزاب نہ بنائی تو میرا نام بدل دینا ۔

Lets See

اپنے لیے نیا نام ڈھونڈ لو پھر کیونکہ میں نے بھی قسم کھائی ہے کہ تمہیں ان دونوں کی

خوشیاں برباد نہی کرنے دوں گا۔

اور تمہاری خوشیوں کا کیا ؟

تم تو رملہ سے محبت کرتے تھے ناں اس کا کیا ؟

محبت نہی ” عشق ” کرتا ہوں اس سے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا ۔ ۔ ۔ ضروری نہی ہے جس سے محبت ہو اس کا ساتھ ملے جو مل کر بھی نہ ملے اسی کو تو عشق کہتے ہیں۔ محبوب کی یاد میں جو سکون ملتا ہے ناں ۔ ۔ ۔ اس سکون کا نام ہے ایک ایسا جنون ہی جس کی کیفیت طاری ہوتے ہی اپنا آپ تو بھول سکتے ہیں لیکن

خیال یار سے غافل نہی ہو سکتے آپ ۔ خیر آپ کے بس کی بات نہی ان باتوں کو سمجھنا مسنز ۔ ۔ ۔ آپ سو جائیں آرام سے سفر

بہت لمبا ہے ۔ چاہیں تو میرے کندے پے سر رکھ سکتی ہیں میں برانہی مانوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کوئی ضرورت نہی تمہارے سہارے کی ۔ ۔ ۔ پورے راستے آنسو بہاتی

رہی۔

گھر پہنچتے ہی نصیر کی بینی اور ماں اسے اس کے کمرے میں لے آئیں اور دعائیں دیتی ہوئی کمرے سے رخصت ہو گئیں ۔

کچھ دیر بعد نصیر کمرے میں آیا تو بینی چوڑیاں اتارا اتار کر پھینک فرش پر پھینک رہی تھی۔ مجھے نہی رہنا تمہارے ساتھ ۔ ۔ ۔ آخر میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ہے یہ سب کچھ ؟ میں نے تو کسی کا کچھ نہی بگاڑا تھا ۔ ۔ ۔ بے فانی ہدان نے کی تھی میں تو اس کے ساتھ مخلص تھی۔

کچھ نہی چاہیے مجھے ۔ ۔ ۔ میری زندگی ہی فضول ہے ۔ میں کسی کی زندگی میں شامل ہوئی بھی تو اس کی محبوبہ کی خوشی کے لیے میرا اپنا کیا مقام ہے؟

نصیر مسکراتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ مظبوطی سے تھام لیا ۔ مقام حاصل کرنے کے لیے مقام بنانے پڑتے ہیں۔

ایک سال پہلے جو کچھ میں نے رملہ کے ساتھ کیا مجھے بھی ایسا لگ رہا تھا کہ میری زندگی اب فضول ہے۔ خود کو بہت اذیت بھی دی لیکن قسمت دیکھو میں مرا ہی نہی ۔۔ مجھے موت

اس وقت آئی جب رملہ کے نام کے ساتھ ہمدان کا نام دیکھا۔

اس دن میں واقعی مر گیا تھا ۔۔۔ پھر اس کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیوں پر پر فاتحہ پڑھ لی

میں نے ۔

پھر تم سے ملاقات ہوئی ۔ ۔ ۔ تمہیں اس حال میں دیکھنا بہت درد ناک تھا میرے لیے ۔ خیر پھر محترمہ نے شادی کی آفر کی ۔۔۔ کچھ دن سوچا اور پھر بہت سوچنے کے بعد مجھے فیصلہ

کرنا ہی پڑا۔

سوچا دونوں ہی ٹوٹ چکے ہیں تو کیوں ایک دوسرے سے جڑا کر مزید بکھرنے سے بچالیں

خود کو ۔ ۔ ۔ آخر تمہارا قصور وار تو میں ہی تھا ۔

ناں میں وہ سب کچھ کرتا اور نہ ان دونوں کا نکاح ہوتا ۔ ۔ ۔ تمہیں تو بغیر کسی جرم کے سزا

ملی۔

سوچا کیوں ناں تمہاری زندگی سے سارا درد تم سے چھین لوں اور تمہارا ہمدرد بن جاوں ۔ بینی کے مزید نزدیک ہوا اور اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے اس کے چہرے پے

بکھرتے آنسووں کو ہونٹوں سے چنتا چلا گیا ۔ کیوں ناں ایک دوسرے کے ہمدرد بن جائیں ؟ بینی نے بے پر سکون ہو کر اس کے سینے پے سر رکھ دیا۔ اسے واقعی ایک سہارے کی ضرورت تھی۔ اپنی زندگی کے سارے باب بند کرنے کی دعا کرتی ہوئی جی بھر کر رو دی ۔ نصیر نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے گرد بازو پھیلا دیے۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

رملہ نماز پڑھ کر دادو اور دادا جی کے پاس ٹیرس پر آگئی ۔ ہمدان پہلے سے ہی وہاں موجود تھا ۔ وہ دونوں اس سے رملہ سے پہلی ملاقات سے لے کر نکاح تک کی کہانی سننے میں مصروف

تھے۔

رملہ دادو کے پاس بیٹھ گئی اور ان کے کندھے پر سر ٹکائے مسکراتی ہوئی ہمدان کی باتیں سن میں مصروف ہو گئی۔

دل چاہ رہا ہے آپ ایسے ہی بولتے رہیں اور میں آپ کو دیکھتی رہوں ۔ ۔ ۔ دل میں سوچتی

ہوئی مسکرادی۔

ہمدان اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا ۔

ویسے یہ بینی کا نکاح کچھ زیادہ ہی جلد بازی میں نہی کر دیا تمہاری تائی امی نے ہمدان؟ اور رخصتی کا تو کوئی ذکر ہی نہ ہوا تھا گھر میں پھر اچانک نکاح اور رخصتی کیسے کر دی ؟

داد و پریشان سی بولیں ۔ پتہ نہی کیسے رہے گی میری نازک سی بچی ان انجان لوگوں میں ۔ ۔ ۔ لڑکا دیکھنے میں تو بہت اچھا لگ رہا تھا ویسے رپتہ نہی اس کی ماں اور بہنیں کیسی ہو ۔

میری بینی نے تو کبھی سوچا بھی نہی تھا اس گھر سے جانے کا۔ ۔ ۔ پتہ نی کیسے دل لگے گا اس کا وہاں انجان گھر دانجان لوگ اور انجان شہر میں ۔

Don’t worry Dado jan

وہ مینیج کرلے گی ۔ نصیر بہت اچھا لڑکا ہے اور اس کی والدہ بھی بہت اچھی ہیں ۔ تایا ابو نے مجھ سے مشورہ کیا تھا نکاح اور رخصتی کے بارے میں۔ میں نے کہا جیسا آپ کو مناسب لگے۔

نصیر چاہتا تھا کہ بینی کو بتائے بغیر یہ سب ہو اور میں نے فیصلہ تا یا ابو پر چھوڑ دیا۔

توکیا میری بیٹی ساری زندگی تمہارے انتظار میں گزار دیتی؟ مسز ملک کرسی تینچ کر بیٹھتی ہوئی بولیں ۔

میرا یہ مطلب نہی تھا بڑی ماما ۔ ۔ ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بس بس رہنے دو ۔ ۔ ۔ سب جانتی ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو ، یہی ناں کہ میری بیٹی باقی کی

زندگی تمہارے انتظار میں گزار دیتی ؟ تم نے تو شادی کر لی اس لڑکی ہے ۔ ۔ ۔ نہ آگے کا سوچا نہ پیچھے کا کیا کیا خواب تھے میری بیٹی کے ۔ تم نے سب کچھ برباد کر دیا اس لڑکی کی وجہ سے ۔

ہمدان چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ رملہ بھی اٹھنے ہی لگی تھی کہ مسز ملک نے روک لیا۔

بیٹھ جاو تم آرام سے ۔ ۔ ۔ تم کہاں چلی؟

ان کی آواز پر ہمدان دروازے کے پاس ہی رک گیا لیکن آگے نہی آیا۔ جو بھی ہو اب تم اس گھر کی بڑی بہو ہو ، بیٹی تو نہیں مان سکتی میں تمہیں اپنی لیکن ہو تو بن ہی

چکی ہو تم چاہے زبر دستی ہی سہی ۔

اس گھر کی زمہ داریاں اب تمہیں سنبھالنی ہیں, سمجھ آئی یا نہی ؟

جی ۔ ۔ ۔ آنٹی ۔۔۔ رملہ نے مختصر جواب دیا ۔

ہمدان کی ماما با باعلی پوپھو اور ملک صاحب بھی وہی آگئے۔

ان کو آتے دیکھ ہمدان بھی واپس اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ اچھا کلاس ہو رہی ہے بھا بھی کی ۔ ۔ ۔ علی نے ہمدان کے کان میں سر گوشی کی۔ بدلے میں ہمدان نے اس کے کندھے پر مکا رسید کیا۔ افف بھائی کتنی زور سے مارا ہے آپ نے ۔ ۔ ۔ یہ کل سے جم جانا بند کر دیں آپ ورنہ

میری ہڈیاں پکا توڑ دیں گے آپ ۔

تم اپنی چونچ بند کرو گے علی؟

ماں کے علی کو ٹوکنے پر ہمدان مسکرا دیا اور علی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔

اس گھر کی بڑی ہمیشہ میں ہی رہوں گی سن لو تم بھی یہ بات کان کھول کر ہمدان ۔ ۔ ۔ ہوگے تم بہت بڑی فیکٹری کے مالک لیکن اس گھر میں تمہاری نہی میری ملے گی سمجھا دینا اپنی

بیوی کو اچھی طرح ۔

جی جی تائی امی ۔ ۔ ۔ بلکل آپ کا حکم سر آنکھوں پر رملہ ویسا ہی کرے گی جیسا آپ چاہیں گی۔

آپ کی بیٹی ہے جیسے چاہیں اس سے اپنی باتیں منوا سکتی ہیں۔

بیٹی نہی ہے یہ میری ۔۔۔ البتہ تم میرے بیٹے ہو اس لحاظ سے اسے ہو مان سکتی ہوں ۔

چلو شکر ہے کچھ تو مانا آپ نے ورنہ آپ کو مانے کی کی عادت ہی کہاں ہے ۔ آپ تو

منوانے کی عادی ہیں ۔

ملک صاحب کی بات پر سب ہنس دیے تو مسز ملک بھی مسکراتی ہوئیں وہاں سے چلی گئیں ۔ آہستہ آہستہ سب دونوں کو دعائیں دیتے ہوئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔

رملہ اور ہمدان اکیلیے وہاں رہ گئے ۔ رملہ نے تحیہ اٹھا کر ہدان کی طرف اچھالا۔ ہدان کا دھیان فون میں تھا تو تحیہ سیدھا اس کی ناک ہے لگا اور اس کے ہاتھ سے فون گر گیا۔

رکو زرا ابھی بتاتا ہوں تمہیں ۔ ۔ ۔ وہ رملہ کے پیچھے دوڑا اور رملہ نے کمرے کی طرف دوڑلگا

دی۔

دونوں کو بھاگتے دیکھ علی بھی ان کے پیچھے کمرے میں آگیا۔ کو نسائیم کھیل رہے ہیں آپ

دونوں ؟

مجھے بھی ساتھ کھلا لیں ۔

بیٹا آپ جا کر اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔ ہمدان اسے کان سے کھینچتے ہوئے اس کے کمرے

میں لایا اور مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔

ویسے سہی کہتے ہیں لوگ شادی کے بعد لوگ بدل جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ خیر مجھے کیا ؟

پڑھائی کس نے کرنی ہے ، میں تو سووں گا سکون سے ۔ ۔ ۔ تیزی سے بیڈ پر چھلانگ لگائی اور

سونے کے لیے لیٹ گیا۔

ہمدان کمرے میں واپس آیا اور دروازہ بند کرتے ہوئے رملہ کی طرف بڑھا ۔ وہ پر سکون سی

سورہی تھی ۔ اتنی جلدی سو بھی گئی؟

ہمدان نے لائٹ بند کی اور اس کا سر اپنے بازو پے رکھتے ہوئے اس کے ماتھ پر ہونٹ

رکھ دیے۔

وہ واقعی سو چکی تھی ۔ ۔ ۔ اسے سوتے دیکھ ہمدان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک ہفتے بعد بینی اور نصیر کے ویسے کا فکشن رکھا گیا۔ دونوں کو خوش دیکھ کر پورے گھر والے پر سکون ہو گئے ۔

ہمدان بینی سے ملنے اسٹیج پر آئی تو پہلے بینی نے اسے گھور الیکن پھر ہاتھ ملانے کی بجائے اسے گلے سے لگا لیا ۔ خوش رہو ہمیشہ میری دعا ہے ۔

دوسری طرف ہمدان نے بھی نصیر کو گلے سے لگایا اور اس کے کان میں سر گوشی کی ۔ ۔ ۔ خبر دار جو میری بینی کو کبھی کو دکھ دیا ۔ اس کی یہ مسکراہٹ ہمیشہ قائم رہنی چاہیے۔

آپ کا حکم سر آنکھوں پر ملک ہدان صاحب ۔ ۔ ۔ نصیر نے الگ ہوتے ہوئے سینے پے

ہاتھ رکھتے ہوئے سر خم کیا۔

ہمدان بینی کی طرف بڑھا اور اس کی ناک کھینچتے ہوئے شادی کی مبارک باددی۔ رملہ نصیر کی طرف بڑھنے کی والی تھی کہ ہمدان نے اس کی کمر میں بازو ڈالتے ہوئے اسے

آگے بڑھنے سے روک دیا ۔ مسٹر اینڈ مسز نصیر ۔ ۔ ۔ آپ دونوں کو ہماری طرف سے شادی بہت بہت مبارک ہو اللہ سے دعا ہے کہ آپ دونوں ہمیشہ اسی طرح ہنستے مسکراتے رہیں آمین ۔

سم آمین ۔ ۔ ۔ بینی اور نصیر نے ایک ساتھ جواب دیا ۔ نصیر ہمدان کو رملہ کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے دیکھ کر مسکرا دیا اور بینی کی طرف پلٹ گیا۔ چلیں ۔ ۔ ۔ ان دونوں کو مصروف دیکھ کر ہمدان رملہ کو ساتھ لیے اسٹیج سے نیچے آگیا ۔ رملہ نے اپنے ہاتھ ہد ان کی مظبوط گرفت میں دیکھا اور مسکرادی ۔

سچ کہتے ہیں جو آپ کا نصیب ہوتا ہے وہ کسی بھی کیسے بھی آپ کو مل کر ہی رہتا ہے پھر چاہے تو آسانی سے مل جائے یا پھر ” عشق ” کی چکی پیس کر حاصل ہو, نصیب کا لکھامل کر ہی رہتا ہے ۔

ہمدان نے چلتے ہوئے رک کر رملہ کی طرف دیکھ کر آنکھیں بند کیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے

ہوئے اس کا ہاتھ ہو نٹوں سے لگاتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھ کر ۔

رملہ نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر سر ٹکا دیا اور دو نوں گھر کے لیے روانہ ہو

ختم شد

Updated: July 16, 2025 — 11:27 am

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *