Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Zulm aur Bagawat Ki Dastan Part 1


“Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Zulm aur Bagawat Ki Dastan” ek emotional aur gripping Urdu novel hai jo mohabbat, zulm aur bagawat ki kahani ke zariye aurat ki tahqiqat aur uski jang ko dikhata hai. Yeh kahani ek aise aurat ki hai jo hamesha doosron ke faislon ka khilona samjhi gayi, lekin kya woh apni pehchaan bana paayegi? Agar aap Urdu novel, social issue stories, aurat ki struggle, emotional stories pasand karte hain, toh yeh novel aapke liye hai.

Aurat Aik Khilona

Aurat Aik Khilona Urdu novel story

اگر آپ کو کہانی پسند آئے تو برائے مہربانی کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کیا کریں
دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پہنچا ئیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ ۔ ۔ ۔
ہمیں خون بہا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ خون کے بدلے خون اور نہ ہی خون معاف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب خان آفریدی کی دھاڑ سے ہر طرف سکوت چھا گیا وہ پنچائیت کے سر براہ کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا سے چھاگیا سردار
خاقان آفریدی نے پر شکوہ نگاہ بیٹے پر ڈالی جسے دیکھ کر وہ نظریں جھکا گیا گیا پنچائیت کے سربراہ نے دلاور خان کو دیکھا انہوں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پاس بیٹھے غصہ ضبط
کرتے شمس دلاور خان کو مخاطب کیا
جاؤ ہیر کو لے آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مدھم شکستہ آواز میں بولے
شمس خاموشی سے اٹھ کر گاڑی کیطرف چل پڑا دلاور خان نے شمس کے جانے کے بعد ایک دکھ بھری نظر خاقان آفریدی پر ڈالی ۔۔
مگر وہ نظریں چرا گئے ۔ ۔ ۔ ۔

یہ فیصلہ صرف اور صرف یشب کا تھا مگر اس وقت وہ اتنے لوگوں میں بیٹے کے فیصلے سے اختلاف
کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔

میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔۔بابا جان ۔۔۔۔ یشب ، خاقان آفریدی کی بات پر آپے سے باہر ہوا
میں نے تمہیں لندن اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ واپس آکر قتل و غارت شروع کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ قتل انہوں نے کیا ہے بابا جان اور میں ہر گز اس خون کو معاف نہیں ہونے دوں گا ان لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ چکانا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بضد تھا
یشب بچے تیرے بابا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں معاف کر دینے میں ہی بڑائی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بی بی جان پلیز ۔۔۔۔۔ آپ سب شاید بھول چکے ہیں کہ محض بیس دن پہلے اس حویلی کے بڑے وارث کا جنازہ اٹھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر میں نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی آخری دم تک بھولوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ لوگوں نے معافی نامہ بھیج دیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا ۔۔۔۔۔ دیٹس اٹ۔۔
اپنا فیصلہ سناتا سیڑھیاں پھلانگ گیا
باباجان نے پاس کھڑی مہرو کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتی یشب کے پیچھے ہی سیڑھیاں چڑھ گئی یشب چیزوں کی اٹھا ٹھیک کر کے غصہ نکال رہا تھا جب مہر و کمرے میں داخل ہوئی یشب ۔ ۔۔۔۔۔ وہ اس پرکار پر ایک لمحے کو رکا اور مڑے بغیر پھر سے چیز میں الٹنے لگا یشب ۔۔۔۔۔ پھر سے پکارا گیا۔

بھا بھی اگر آپ یہاں اس لیے آئیں ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں تو ایسا بلکل نہیں ہو گا ۔ ۔ ۔ میں لالہ کا
خون کبھی معاف نہیں کرنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کرنے سے تمہیں کیا ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
زیادہ نہ سہی کچھ تو اس اذیت کا مداوا ہو گا جو لالہ کے خون سے لت پت وجود کو دیکھ کر مجھے ہوئی تھی تو کیا اس خاندان کے بیٹے کا خون کرو گے جا کر ۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔
تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ تو خون بہا میں کیا لو گے پیسے یا پھر عورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ مہرو نے اسکے سرخ چہرے پر نظریں فوکس کرتے ہوئے غصے سے پوچھا
بھا بھی آپ ۔
کیا میں ۔۔۔۔ بولو یشب کیا میں ۔۔۔۔ تم ایک مرد کا بدلہ مظلوم عورت سے لوگے جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔۔۔

Read Best Most Famous | Main Hoon Badnaseeb – Complete Urdu Novel


بھا بھی آپ اس ایموشنل تقریر سے میرا فیصلہ نہیں بدل سکتیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈٹا رہا
ٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں خون بہا میں آنے والی لڑکی سے تمہیں کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کرنے دوں گی سمجھے ۔۔۔۔۔ مہر و غصے سے بات مکمل کرتی کمرے سے نکل گئی۔
بھا بھی خون بہا میں آنے والی لڑکی سے مجھے کوئی سروکار نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں صرف اور صرف شمس خان کو اسی تکلیف سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے جھیلی تھی ۔ ۔ ۔

اسے بھی تو پتہ چلے کہ جب جان سے پیاری چیز ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی ہے تو کس قدر اذیت سہنی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے ہمکلامی کرتے ہوئے پوری قوت سے ایش ٹرے دیوار پر دے ماری ۔
۔۔۔۔
اسے چادر اوڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شمس نے ہال کمرے میں موجود خواتین سے کہا ں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی لالہ – ۔ ۔ ۔ میں کہیں نہیں جا رہی ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بابا ۔۔۔۔ بابا مجھے ونی نہیں کر سکتے لالہ میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔ ہیر پنچائیت اور آفریدی خاندان کا فیصلہ سن کر پاگل سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔

نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔۔ نہیں لالہ آپ ۔۔۔۔ آپ اپنی ہیر اپنی گڑیا کو کیسے کسی کے حوالے کردیں گے نہیں لالہ آپ مجھے چھپا لیں کہیں ۔ ۔۔۔ میں پنچائیت میں نہیں جاؤں گی لالہ چھپالیں مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ روتی ہوئی شمس کے سینے سے لگ گئی شمس نے بہت ضبط سے ہیر کے ہچکیاں لیتے وجود کو خود سے الگ کیا اور پاس کھڑی پروشہ سے چادر
پکڑ کر ہیر کو اوڑھائی اور اسکا بازو پکڑ کر باہر کیجا نب بڑھا
لالہ آپ ان کو بتاتے کے آپ نے جان بوجھ کر یشار خان کا خون نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اچانک غلطی سے ہوا۔ —- – پلیز لالہ میں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔ ہیر روتی ہوئی کھسیٹتی جارہی تھی۔

وہاں موجود حویلی کی عورتوں اور ملازموں نے افسردگی سے وہاں کی لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے جاتے دیکھا
مگر اسے روکنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنچائیت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شمس نے گاڑی کو بریک لگائی
ہیر نے خوفزدہ نظروں سے چند گز دور بیٹھے مردوں کے ہجوم کو دیکھا اور کپکپاتے ہوئے شمس کا بازو
پکڑا
لالہ مجھے بچا لیں ۔۔۔۔۔ میں آپ سب کے بغیر مر جاؤں گی لالہ ۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے ملتجی ہوئی شمس اس کے ہاتھ ہٹا کر گاڑی سے نکل گیا
دوسری سائیڈ سے اس کا دروازہ کھول کر اسے بھی باہر نکالا۔ ۔
اگر تمہارا لالہ تم کو بچا سکتا تو کبھی اپنی لاڈلی کواس پنچائیت کی زینت نہ بنے دیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سنجیدگی سے کہتا اسے لیے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاقان آفریدی نے دو شادیاں کی تھیں ۔ ۔ ۔ پہلی شادی بی بی جان
) صور یہ خانم (سے کی مگر دس سال تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں بی بی جان نے ان کی شادی خود ہی اپنی پچازاد گل با نو سے کروادی ۔۔۔۔۔۔ گل بانو نے خاقان آفریدی سے شادی کے ڈیڑھ سال

بعد حویلی کے پہلے وارث یشار خان آفریدی کو جنم دیا ۔ ۔ ۔ جس پر پوری حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔ مگر بد قسمتی سے گل بانویشار کی پیدائش کے چھ سال بعد یشب خان آفریدی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یوں یشار اور یشب کی ذمہ داری بی بی جان پر آپڑی انہوں نے پورے دل سے یہ ذمہ داری نبھائی اور خوشدلی سے ان دونوں کو سینے سے لگالیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے کبھی ان دونوں
بھائیوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی چھ سال پہلے وہ اپنی بھانجی مہر و کویشار آفریدی کی دلہن بنالا ئیں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ مہرو اور یشار کا چار سالہ
بیٹا حدید آفریدی بھی تھا
یشب چند ماہ پہلے ہی لندن سے اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا جب قسمت نے ان پر بہت بھاری وار کیا بشار آفریدی کو ان سب سے ہمیشہ کے لیے جدا کر کے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابھی پنچائیت میں کروا کر ہی آفریدی خاندان کیساتھ بھیجوں ۔ ۔ ۔ ۔ دلاور خان نے جھکے سر سے اپنا مدعا کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں حاکم خان آپ نکاح شروع کریں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب اور دلاور خان کی بیٹی کا نکاح ابھی سب کی موجودگی میں ہی گا —— خاقان آفریدی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بات مکمل کی۔۔
بابا جان یہ – – – یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب انکی جانب جھک کر آہستگی سے بولا

میں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں لوں گا ۔۔۔۔
ایک فیصلہ تمہارا تھا تو دوسرا میرا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے بھی آہستگی سے اسے باور کروایا اور حاکم خان کی طرف متوجہ ہو گئے جو کلمات شروع کر چکے تھے
یشب کی بازی اسی پر الٹ چکی تھی ۔۔۔۔ اس نے خون بہا میں دلاور خان کی بیٹی اور شمس خان کی بہن
کو ہی مانگا تھا تاکہ وہ اسکو ان سے جدا کر کے تکلیف دے
سکے ۔ ۔ وہ صرف اس لڑکی کو اپنی قید میں لانا چاہتا تھا نہ کے نکاح میں ۔ ۔ ۔
نکاح کے لیے تو وہ اپنے خاص ملازم حشمت خان کو سوچ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر بابا جان نے بیچ میں آکر سارا قصہ ہی پلٹ دیا تھا۔۔۔۔

وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آکر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولا

ہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے نا کہ بیوی اور ہو۔ ۔۔۔۔۔ وہ غرایا
تو تمہیں کیا لکھا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے ٹھہرے
ہوئے لہجے میں طنز کیا
نکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجود
ہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتے
ہوش کرو کچھ یشب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہوش میں ہی تو آچکا ہوں ۔۔۔۔۔ اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر کیطرف بڑھا
چھو ۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخی
یشب چھوڑو بچی کو۔ ۔ ۔ ہوش کرو یشب کیا پاگل پن ہے یہ ۔ ۔ ۔ بابا جان یشب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ ہیر کی گردن دبوچ چکا تھا ۔ ۔ ۔۔۔۔
بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختم
یشب . —– بابا جان کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ ہیر کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایک
جھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کی
ہمیر اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی اس لیے توازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گری
گرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑا۔

یشب سر جھٹتا ہال سے نکل گیا
مہر و بیٹا دیکھو بچی کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان مہر و کو کہتے مردانے کیطرف چلے گئے مہرونے ہیر کو صوفے پر بیٹھایا اور جلدی سے فسٹ ایڈ باکس لے آئی ۔ ۔ ۔ ۔ زخم صاف کر کے بینڈ ج
کی اور ہال سے نکل گئی
اب ہال میں ہیر اور تخت پر بی بی جان موجود تھیں یہاں آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے ہیر کو اپنے پاس بلایا وہ آہستگی سے چلتی ہوئی پاس آکر کھڑی ہو گئی
بیٹھو۔۔۔
ہیر زمین پر بیٹھنے لگی تھی جب بی بی جان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کو کہا
وہ انکے سامنے صوفے پر ٹک گئی۔
کیا نام ہے تمہارا ۔ ۔ ۔
ہیر۔۔۔۔
دلاور خان کی بیٹی ہو یا بھتیجی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
بیٹی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکلوتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
جی ۔۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔ شم۔۔۔۔۔ شمس الالہ بھی ہیں ہوں ۔۔۔۔۔ بی بی جان نے لمبی سی سانس خارج کی۔۔۔

یشب کا غصہ یہاں کے روایتی مردوں کے جیسا ہی ہے مگر دل کا برا نہیں وہ ۔۔۔۔ اصل میں یشار نہ صرف اسکا بڑا بھائی تھا بلکہ بہت اچھا دوست بھی تھا ۔ ۔ ۔ اور وہ اسی صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ ۔ ۔ ۔ بی بی جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا بیگ …. بیگم صاحبہ – شمس لالہ نے یشار آفریدی کو جان بوجھ کر نہیں مارا وہ اچانک۔۔۔۔ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں بچے ۔ ۔ ۔ ۔ جانے والا تو چلا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ افسر دگی سے بولیں م ۔ ۔ ۔ ۔ میں معافی مانگتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے ہاتھ جوڑے
تم کیوں معافی مانگ رہی ہو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس سب میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں ۔۔۔۔
اتنے میں مہر و دودھ کا گلاس لے کر وہاں آئی
یہ لو یہ پین کلر لے کر یہ ہلدی ملا دودھ پی لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سکون ملے گا
ہیر نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ ۔ ۔ حویلی کا ایک فردز خم دے رہا ہے تو دوسر امر ہم رکھ رہا ہے مہرو نے اسکی حیرت دیکھتے ہوئے آہستگی سے گلاس اسکے ہاتھ میں دے کر ہاتھ تھپتھپایا
پی لو۔ ۔۔۔ہاں بچے لے لو آرام ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا مہر میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں ۔ ۔ ۔ تم کھانا کھلا
دینا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوں ۔۔۔
جی بی بی جان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہرونے ہاں میں سر ہلا دیا

یشب آگیا کیا ۔۔۔۔؟؟؟ بی بی جان نے مہرو سے پوچھا جو انہیں گرم دودھ کا گلاس دینے آئی تھی
نہیں ابھی تک تو نہیں آیا ۔ ۔ ۔ ۔
ہیر کہاں ہے ۔ ۔
گیسٹ روم میں ۔ ۔ کھانا کھلا دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ؟
جی ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑا سا ہی کھلایا ہے وہ بھی زبر دستی
ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا کروا سے یشب کے کمرے میں چھوڑ آؤ
بی بی جان یشب کا غصہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
غصہ ٹھنڈا کر کے ہی واپس آئے گا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آکر نیا ہنگامہ مچا دے گا اس لیے بہتر ہے ہیر کو چھوڑ آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی لانے والا ہے اسے ۔۔۔۔۔ اب رکھے بھی ۔
جی۔۔ آپ یہ دودھ پی کر لیٹ جائیں۔۔
میں چھوڑ آتی ہوں ۔
ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ سلامت رہو ۔ ۔ ۔ ۔ بی بی جان نے افسردہ سی نگاه مہر و پر ڈالتے ہوئے دعا دی پہلے وہ اسے سدا سہاگن رہو کی دعا دیتی تھیں مگر اب حالات کے پیش نظر ۔ ۔
وہ بھی اپنی دعا بدل چکیں تھیں
رات ڈھائی ، تین کے قریب یشب اپنے کمرے میں داخل ہوا۔۔

مگر بیڈ پر سوئے وجود کو دیکھ کر اسکا دماغ بھک سے اڑار وہ غصے سے کھولتا بیڈ کے پاس آیا اور جھٹکے سے رضائی کھینچی ہیر کی آنکھ بمشکل اتنی دیر رونے کے بعد ابھی لگی تھی کہ یہ طوفان آگیا وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جیسے ہی نظر سامنے کھڑے یشب آفریدی کی لال انگارہ آنکھوں پر پڑی
تو وہ جلدی سے لرزتی کا نپتی بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوئی
کیا کر ہی ہو یہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بمشکل غصہ ضبط کرتا ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا
وہ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا وہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لگا رکھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاف اور سیدھی بات کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ غراتا ہوا پاس آیا
ہیر دو قدم پیچھے ہٹی
وہ مزید پاس آیا
وہ پھر سے پیچھے ہٹتی دیوارسے جالگی
تمہاری ہمت کی داد دینی پڑے گی ۔ ۔ ہیر دلاور خان —- – واه —- وہ اتنا پاس آکر بولا کہ ہیر
کو اس کی سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی
ن ۔۔۔۔۔ نہیں ۔ میں نہیں آئی۔ مجھے مہر و ۔۔۔۔۔ مہرو بھا بھی چھوڑ کر گئیں ہیں
وہ جلدی سے بولی
مہر و بھا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ استہزائیہ ہنسا
کس رشتے سے وہ تمہاری بھا بھی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بولو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے سختی سے اسکا منہ جکڑا

تمہارے بھائی نے ان کے شوہر کو قبر میں اتارا کر انہیں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور تم یہاں رشتے
داریاں بناتی پھر رہی ہو
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ پوری طاقت سے چلایا
مم ۔ ۔ ۔ ۔ نن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ میں
چپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکل چپ آج کے بعد اگر یہ زبان بلاضرورت ملی تو کاٹ دوں گا سمجھی ۔ ۔ ۔ ۔
اب چلو میں تمہیں تمہاری اصلی آرام گاہ دکھا دوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہیر کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹا باہر لایا
ہیر اسکی ٹانگوں کیساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی
یشب اسے لے کر تہہ خانے میں آیا
ید ۔۔۔ یہ ہے تمہارا اصل ٹھکانہ ۔۔۔۔ اس سے آگے کا سوچنا بھی مت ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گھور کر کہتا وہاں
سے چلا گیا
پیچھے ہیر اس تہہ خانے میں سسکتی اکیلی رہ گئی
ہیر کو تہہ خانے میں بند ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ کوئی وہاں آیا اور نہ ہی اسے باہر بلایا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سکینہ نامی ملازمہ اسے کھانا پانی سب دے جاتی تھی ۔۔۔۔۔

اور آج وہ بارہ دن کے بعد ہیر کے پاس یشب آفریدی کا بلاوا لے کر آئی تھی کہ چھوٹے خان تمہیں
اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں
ہیر کو رات کے اس پہر یشب آفریدی کا اپنے کمرے میں بلانا نا مناسب لگا اسی لیے وہ سکینہ کو منع کر
چکی تھی جب یشب آفریدی خود وہاں آیا ۔۔۔۔
سکینہ کے جانے کے بعد وہ مضبو ط قدم اٹھاتا ہیر کے بلکل سامنے آکھڑا ہوا
کیا سنانا چاہتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
ک ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا
ابھی کہ رہی تھی ناں سکینہ سے خان سے کہو جو کہنا سننا ہے یہاں آکر سن لیں ۔۔۔۔
نن ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں
میری بات یاد ہے تمہیں ۔ ۔
کونسی ۔ ۔
اگر ۔۔۔ اگر بلاضرورت زبان بلائی تو کاٹ دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ معصومیت سے اسکی بات دہرا گئی گڈ۔۔۔۔۔ تم تو بہت ذہین ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو بتا ؤ جب میری بات یاد تھی تو پھر آنے سے منع کیوں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کے وہ اپنی مخصوص دھاڑ نما آواز سے غرایا۔

غلطی ہو گئی ۔۔۔۔ معاف – – – – معاف ۔ ۔ ۔ ۔ کر دیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کپکپاتی آواز میں بولی۔ معاف کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اب چلو گی ساتھ یا پھر ۔۔۔

چلوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ فٹافٹ بولی
گڈ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلو
وہ یشب آفریدی کے پیچھے پیچھے ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اسکے کمرے تک آئی یہ دیکھ رہی ہو میرا کمرہ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
جی۔
آج سے تم اس کمرے میں رہو گی
یشب کی بات پر ہیر نے حیرانگی سے اسے دیکھا
زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تم اس کمرے کی مالکن نہیں بلکہ ملازمہ بن کر رہو
گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انڈراسٹینڈ
اس میں رہنے کے عوض جو جو کرنا ہوگا وہ میں
ساتھ ساتھ بتا تار ہوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود سے
مجھے مخاطب کرنے کی کوشش میں مت کرنا ۔
جی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے ٹرانس میں سر ہلایا
اب فلحال تو تم ایسا کرو کبڈ سے اگر کوئی بستر ملتا ہے تو نکال کر یہاں زمین پر بچھا لو۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ اب
یہیں سویا کرو گی تم
اسکی بات پر ہیر کی ریڑھ کی ہڑی میں سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔۔اتنی ٹھنڈ میں زمین پر۔ ۔۔۔۔ وہ بمشکل اپنی
ٹانگیں کھسیٹتی کبڈ تک گئی یشب اپنی بات مکمل کرنے کے بعد واش روم میں گھس چکا تھا۔

وہ کبڈ میں اتنی کوشش کے بعد بھی صرف ایک شال نما موٹی چادر ہی تلاش کر پائی اب وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس چادر کو نیچے بچھائے یا پھر سردی سے بچنے کو اوپر اوڑھے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسی کشمکش میں تھی جب یشب ٹاول سے بال رگڑتا با ہر آیا
ایک سرسری نظر ہیر کے ساکت وجود پر ڈال کر بالوں کو برش کیا اور پلٹ کر بیڈ پر موجود خوبصورت سی شہنیل کی نرم و ملائم رضائی میں گھسا ( یہ شہنیل کی رضائیاں بی بی جان کی نگرانی میں بنائی جانے والی اسپیشل سوغات تھی جنکو سردی کے موسم میں ہر کمرے میں موجود کمبل کو ہٹا کر پہنچا دیا جاتا تھا ) ہمیر نے ایک للچائی نظر رضائی پر ڈالی اور آگے بڑھ کر چادر کو بیڈ کے بائیں جانب ذرا فاصلے پر بچھایا اور بڑے حوصلے سے اس چادر پر لیٹ کر اپنی سر پر اوڑھی شال کو سارے جسم کے ارد گرد لپیٹ کر
آنکھیں بند کر لیں اسکی بند آنکھوں کے سامنے اپنا کمرہ گھوم رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں آسائش و آرام کی ہر چیز موجود تھی اور
اب وہ ہیر دلاور خان زمین پر پڑی تھی
ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں کے بند پوٹے سے نکل کر زمین پر گرا مگر وہاں ان آنسوؤں کو دیکھنے
اور پونچھنے والا کوئی نہ تھا ہائے یہ قسمت ۔ ۔ ۔ ۔
جو لمحوں میں بادشاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بنا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ صرف اپنی دعاؤں سے ہی قسمت کو بدلنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور ہیر بھی دعا گو تھی۔

کہ اسکی قسمت ، اسکی زندگی بھی پھر سے پہلے جیسی ہو جائے …. جہاں نہ تو کوئی دکھ تھا اور نہ ہی کوئی
تکلیف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اب دیکھنا یہ تھا کہ ہیر کی یہ خواہش پوری ہوتی بھی ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔
ہیر تہ خانے سے نکل کر اب اس کمرے میں قید ہو چکی تھی
وہ یشب آفریدی کے حکم کے مطابق خود کو اسے مخاطب کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی تھی تین دن سے وہ اس کمرے میں تھی جہاں کی ایک ایک چیز اسے ازبر ہو چکی تھی اب تو وہ آنکھیں بند کر
کے بھی بتا سکتی تھی کہ کونسی چیز کہاں پڑی ہے
اس رات وہ زمین پر لیٹ تو گئی تھی مگر سو نہیں پائی تھی ۔۔۔۔
ٹھنڈ تلوار کی مانند ہڈیوں میں گھسے جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔ دو گھنٹے کے کھٹن صبر کے بعد وہ بلا آخر وہ اٹھ بیٹھی کمرے میں مدھم روشنی کیساتھ یشب آفریدی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے
خود تو مزے سے سورہا ہے جنگلی اور مجھے یہاں مرنے کو لٹا دیا ۔ ۔
میرے مالک مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے آخر ۔ ۔ ۔ کونسا گناہ ہو گیا مجھ سے کہ اتنی بھیانک سزا بھگتنی پڑ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ افسردگی سے سوچتی کھڑی ہوئی
ہیر مدھم روشنی میں صوفہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اس پر لیٹ سکے آنکھوں کو اچھی طرح کھول کر دیکھنے پر وہ صوفہ تلاشتی آگے بڑھی ہی تھی کہ یشب آفریدی کے
پشاوری چپل میں اڑ کر زمین بوس ہوئی۔جاری ہے


1 thought on “Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Zulm aur Bagawat Ki Dastan Part 1”

  1. Pingback: Aurat Aik Khilona Part 2: Urdu Story Novel Ki Dardnaak Kahani

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top