Aurat Aik Khilona Part 2: Urdu Story Novel Ki Dardnaak Kahani takes readers on an emotional journey through love, oppression, and rebellion. In this gripping Urdu story novel, the struggles of a woman caught in the web of Mohabbat (love), Zulm (oppression), and Bagawat (rebellion) unfold in heartbreaking detail. The story dives deep into societal issues, showcasing the pain and courage of a woman fighting for her azadi (freedom). A tale of strength, resilience, and determination, Aurat Aik Khilona Part 2 is a must-read for those who seek intense Urdu novels filled with raw emotions and life-changing lessons. Don’t miss this powerful sequel to a story that will leave you reflecting on the true meaning of love and freedom.

Urdu Story Novel Ki Dardnaak Kahani
Read Part 1 Here Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Zulm Aur Bagawat Ki Dastan – Part 1
کھٹکے کی آواز پر یشب بھی آنکھیں مسلتا لیمپ آن کر چکا تھا ہیر کو زمین پر اوندھے منہ گرے دیکھ کر وہ مسکراہٹ روکتا اٹھ بیٹھا یہ آدھی رات کو کس فلم کی ریہرسل ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
ہیر اسکی آواز پر شرمندگی کے مارے اٹھ ہی نہ پائی اٹھ جاؤ اب یا پھر کرین منگواؤں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ یشب نے ہیر کی بھری بھری جسامت پر چوٹ کی وہ شر مندہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھی
کیا کر رہی تھی تم آدھی رات کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
مم ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے سردی لگ رہی ہے
اوه تو سردی سے بچنے کے لیے میرے لحاف میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ یشب نے
سگریٹ سلگاتے ہوئے پوچھا۔
نن ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ صوفے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تمہاری جگہ تمہیں بتادی تھی پھر کس کی اجازت سے تم صوفے پر جارہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تیز
لہجے میں بولا۔۔۔
سر ۔ ۔ ۔ سردی بہت ۔ ۔ ۔ ہے ۔ ۔۔۔ میں گرمیوں میں زمین پر لیٹ جایا کروں گی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سر
جھکائے جلدی سے بولی۔۔
کافی سے زیادہ چالاک ہوا اپنے بھائی کیطرح ۔ ۔ ۔ ۔ طنز کیا گیا۔
میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر یشب کی بات پر چلا کر بولی یشب اسکے چلانے پر رضائی ہٹا تا اس تک آیا
تمہارے لاڈلے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر کس نے مارا ہے یشار خان کو ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ لالہ نے جان بوجھ کر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ غلطی سے ۔ ۔ ۔ ۔
ہیر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی یشب کے بھاری ہاتھ کا ٹھپڑا سکی بولتی بند کر وا گیا میرے سامنے دوبارہ اس کتے کی حمایت میں مت بولنا ورنہ ۔۔۔۔۔
ورنہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ ہیر کو اپنے لالہ کے لیے لفظ کتا برداشت نہیں ہوا تھا اسی لیے ہمت کرتی بولی ور نہ کیا کریں گے ۔ ۔ ۔ مجھے ماریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر جان سے مار دیں گے تو مار دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ماردیں مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بھی اس اذیت بھری زندگی کو جینا نہیں چاہتی اسلیے مہربانی ہوگی اگر آپ مجھے مار کر اپنا بدلہ پورا کر لیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی ۔ ۔ ۔
یشب نے اسکے ہچکیوں لیتے وجود کو دیکھ کر جھٹکے سے اسکا سر اٹھا کر منہ جکڑا ۔۔۔ مجھے روتی ، بلکتی عورتوں سے سخت نفرت ہے اس لیے آج کے بعد اگر تم نے دوبارہ میرے سامنے رو دھو کر خود کو مسکین شوکرنے کی کوشش کی تو واقعی جان سے مار دوں گا سمجھی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ وار ننگ
دیتا کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیا ہیر اسکے جانے کے بعد بلند آواز میں ہچکیوں سے رونے لگی اور روتے روتے نا جانے کب نیند کی پری اس پر مہربان ہوئی کہ وہ وہیں زمین پر ہی سوگئی ۔۔۔۔۔
ہیر مسلسل تین دن سے بنا کسی لحاف کے زمین پر سورہی تھی جسکا نتیجہ بخار کی صورت میں سامنے
آیا ۔۔۔۔
یشب کے اٹھنے سے پہلے یشب کے حکم کے مطابق ہیر نے اسکے سوٹ پریس کرنے ہوتے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اسکی ڈیوٹی تھی جو یشب خان نے کمرے میں لانے کے بعد بتائی تھی ۔ ۔ ۔
یشب روزانہ صبح پانچ بجے تک اٹھ جاتا تھا اور ہیر کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے کپڑے تیار کرنے
پڑتے ۔۔۔۔
مگر آج یشب اٹھ چکا تھا پر ہیر گٹھڑی بنی اپنی جگہ پر لیٹی تھی
یشب خاموشی سے اٹھ کر غسل کرنے چلا گیا ۔ ۔ غسل کر کے جب وہ کمرے میں آیا تو ہیر ویسے ہی لیٹی
تھی ۔۔۔
ہیر ۔ ۔ ۔ رر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے پاس آکر پکارا مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی
یشب نے جھک کر اٹھانا چاہا۔ ۔ ۔ تو پتہ چلا کہ وہ بخار میں پھنک رہی تھی
لوجی نئی مصیبت ۔۔۔۔۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے ہیر کے وجود کو اٹھا کر بیڈ پر پٹخا ۔ پٹخنے پر ہیر نے غنودگی میں ہی آنکھیں کھولیں مگر سمجھ نہ پانی کہ کیا ہوا ہے اس لیے پھر سے آنکھیں
موند لیں ۔
یشب نے سیل اٹھا کر حشمت کو کال ملائی
ڈاکٹر شاکر کو لے کر فورا میرے کمرے میں پہنچو ۔ ۔ ۔ اگر سویا ہوا بھی ہوا تو اٹھا دینا۔ ۔ کال بند کر کے رضائی سیدھی کر کے ہیر کے وجود پر انڈیلی اور خود باہر نکل گیا کچھ دیر بعد حشمت ڈاکٹر شاکر کو لیے حاضر تھا ۔ ۔۔۔۔
سردی لگ جانے کی وجہ سے فیور ہو گیا ہے خان صاحب میں یہ میڈیسن دے رہا ہوں کچھ کھلانے کے بعد دے دیں ۔ ۔ ۔ ان شا اللہ آرام آجائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر شاکر نے بخار کی وجہ بتائی اور میڈیسن
دینے کے بعد چلا گیا ڈاکٹر کے جانے کے بعد یشب نے گھڑی دیکھی چھ بجے تھے ۔ ۔ ۔ وہ نیچے آیا تا کہ کسی ملازمہ سے ہیر
کے لیے کھانے کو کچھ بنوائے مگر نیچے کوئی ذی روح موجود ہوتا تو وہ کہتا ۔ ۔ ۔ ۔ دن چڑھ آیا مگر نواب زادیوں کو آرام سے فرصت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بھا بھی نے کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے سب کو ۔ ۔ ۔ وہ غصے سے کھولتا کچن میں آیا
چند منٹ غائب دماغی سے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اس نے دودھ گرم کیا ۔ ۔ ۔ ۔ بریڈ اور دودھ کا گلاس ٹرے میں رکھ کر کمرے کی طرف چلا آیا
اونہ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب بھی کرنا پڑنا تھا تجھے یشب خان وہ بھی دشمنوں کے لیے ۔ ۔ ۔ وہ بڑبڑاتا ہوا
دروازے کو لات مار کھوتا اندر داخل ہوا۔
ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر رضائی ہٹائی اور ہیر کو بازو سے پکڑ کر بیٹھایا
وہ بیچاری بخار سے تپتی دائیں جانب لڑھکی کیا ہو تمیزی ہے …. تمہارے باپ یا بھائی کا نوکر نہیں ہوں میں جو تمہاری تیمارداری کرتا پھروں سمجھی ۔ ۔ ۔ سیدھی ہو کر بیٹھو اور کھاؤا سے ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے دھاڑ سے کہہ کر اسے پھر سے سیدھا کر کے
ٹرے سامنے رکھی
ہیر اسکی دھاڑ پر مشکل سے ہی سہی پر آنکھیں کھول چکی تھی.
کھاؤ اسے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کھڑے کھڑے عجلت میں بولا ہیر نے ٹرے میں دودھ کا گلاس اور دو سو کھے سلائس پڑے دیکھے دودھ تو میں پیتی نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ پر ان کو کیسے بتاؤں ۔ ۔ ۔ بیٹھی بیٹھی فوت ہو گئی ہو کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
ن ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ناں میں سر ہلا کر جلدی سے سلائس اٹھا کر منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی
دودھ کا گھونٹ بھرا ۔کھا کر یہ میڈیسن لے لینا ۔ ۔ ۔ وہ حکم جاری کر کے اپنی چیز یں اٹھا تا کمرے سے نکل گیا ۔ ۔ ہیر نے بمشکل سوکھے سلائس اور دودھ زہر بار کیا اور دوا لے کر پھر سے بستر پر ڈھیر ہو گئی۔۔
رات دس بجے کے قریب یشب واپس کمرے میں آیا تھا اور ہیر کوا بھی تک رضائی میں گھسا دیکھ کر سر جھٹکتا چیج کرنے چل دیا ۔ ۔ ۔ ۔ واپس آکر انٹر کام پر گل کو چائے لانے کا کہا ۔ ۔
چند منٹ بعد گل چائے لیے حاضر تھی ۔ ۔۔۔
دوپہر کا کھانا کھایا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ؟ ؟ یشب نے گل سے ہیر کے کھانے کا پوچھا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میں آئی تھی لے کر مگر ہیر بی بی سورہی تھیں ۔ ۔ ۔
ہوں ایسا کرواب لے آؤ جا کر ۔ ۔
جی ۔۔۔۔ وہ سر ہلاتی چلی گئی۔۔
یشب چائے ختم کر کے بیڈ کے پاس آیا اور ایک جھٹکے سے ہیر کے اوپر سے رضائی کھینچی ملکہ ہیر صاحبہ آپ کے غلام سارا دن آوارہ گردی کر کے لوٹ آئے ہیں کچھ خدمت کا موقع تو
دیں ۔ ۔ ۔
یشب کی طنز یہ بات سنتے ہی ہیر نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ بیٹھی
یشب کچھ اور بھی کہتا کہ اسکی لال قندھاری انار سی صورت دیکھ کر خاموش ہو گیا کھانا آ رہا ہے کھا کر یہ میڈیسن لو ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ہاں دشمنوں کی بس اتنی تیمارداری کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہارے باپ کی حویلی نہیں ہے کہ دس ، دس دن یونہی بستر توڑتی رہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ میں جب کل واپس آؤں تو تم مجھے بیڈ پر نہیں بلکہ بیڈ کے آس پاس چلتی پھرتی نظر
آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ انڈراسٹینڈ
ج ۔ ۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے فٹ ہاں میں سر ہلایا
یشب نے اس کے ماتھے اور گال پر ہاتھ رکھ کر اسکا بخار چیک کیا
جواب صبح کے مقابلے میں بہت کم ہو گیا تھا۔
اور اپنی چیز یں اٹھا کر پھر سے کمرے سے نکل گیا ۔ ۔ ۔ ۔
ہیر چاہنے کے باوجود بھی پوچھ نہ پانی کہ اب اس وقت کہاں جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ابھی بیٹھی ہی تھی جب گل کھانے کی ٹرے لیے آگئی ۔ ۔ ۔
کچھ اور چاہیے ہیر بی بی ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے ٹرے ہیر کے سامنے رکھ کر پوچھا
نہیں ۔ ۔۔۔
میں جاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
ہاں جاؤ ۔۔۔۔۔ ہیر کے کہنے پر گل پلٹ گئی
ہیر نے کھانے کی ٹرے دیکھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس معاملے میں اس پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا گیا تھا دشمن سمجھ کر ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی تھی کھانا ہمیشہ اچھا ہی ملا تھا اسے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس معاملے میں
یشب نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں لگائی تھی ۔۔۔۔
ہیر نے دو چار نوالے لے کر دوالی اور لیٹ گئی کیونکہ کل اسے بیڈ سے نیچے ہونا تھا حکم آچکا تھا ۔۔۔۔۔ اور حکم کی تعمیل کرنا ہیر کی ڈیوٹی میں شامل تھا
اگلے دن ہیر کمرے کی صفائی کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ صفائی بھی ہیر کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ ۔ ۔ ۔ جب سے وہ
کمرے آئی تھی کسی بھی
ملازمہ کو بلاضرورت کمرے میں آنے کی اجازت نہ تھی ۔۔۔ اسلئیے ہیر کو صفائی کیساتھ ڈسٹنگ بھی خود کرنا پڑتی اور یشب صفائی کے معاملے میں کافی سخت ثابت ہوا تھا ذرا جو گرد کسی جگہ نظر آجاتی تو پھرہیر کو اچھی خاصی بے عزتی سہنا پڑتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اب بھی وہ ڈسٹنگ کر رہی تھی جب یشب کمرے میں اینٹر
ہوا ۔ ۔ ۔
ہیر نے جھاڑن رکھ کر ہاتھ دھوئے اور روم فریج سے پانی کا گلاس لے کر یشب کی طرف گئی جو ٹانگیں پھیلائے ریلیکس ساصوفے کی پشت پر سر رکھے ترچھا سا لیٹا تھا۔
خان ۔ ۔ ۔ ۔ پانی ۔ ۔
ہیر کی آواز پر وہ آ نکھیں کھول کر سیدھا ہوا اور گلاس اس کے ہاتھ سے پکڑا
کیسی طبیعت ہے اب تمہاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
جی ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہلکا سا منمنائی
ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے خالی گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور پھر سے ایزی ہو گیا ۔ ۔ ۔
ہیر ٹرے لیے پلٹی ہی تھی جب یشب نے اسے پکارا
حج ۔ ۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ واپس مڑی
میرا جوتا اتارو ۔ ۔ ۔ ۔ حکم آیا
میں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
تمہارے علاوہ کوئی اور ہے یہاں ۔ ۔ —
یشب کی تیوری چڑھی دیکھ کر ہیر جلدی سے پاس آکر زمین پر بیٹی اور یشب کا جوتا اتارا اور پھر جرابیں بھی اتار دیں ۔ ہیر کے نرم و ملائم ہاتھوں کی نرمائش سے یشب کو سکون کا احساس ہوا۔ ۔ ۔ پاؤں بھی دبا دو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہلکا سا سر اٹھا کر اگلا حکم جاری کرتا آ نکھیں موند گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے خاموشی سے یشب کا پاؤں گود میں رکھا اور دبانے لگی ۔۔۔۔
یشب نے کچھ دیر ہیر کے ہاتھوں سے ملنے والے سکون کو وجود میں اتارا اور سیدھا ہو کر بیٹھا ۔ ۔ ہیر جھکے سر سے اسکی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی ۔ ۔۔۔۔
یشب نے آہستگی سے ہیر کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر پھیلایا اور بہت غور سے اسکی ہتھیلی دیکھنے لگا ہوں جیسے ابھی قسمت کا حال بتائے گا
چند منٹ بہت غور سے دیکھنے کے بعد اس نے جھک کر لب ہیر کی پھیلی ہتھیلی پر رکھے اور اٹھ کر واش روم چلا گیا ہیر نے پلٹ کر اس ظالم شخص کی پشت کو دیکھا اور اپنی ہتھیلی پر اس کا پہلانرم لمس پوری شدت سے محسوس کیا ۔ ۔ ۔ ورنہ اس سے پہلے تو یشب آفریدی نے اسے صرف دبوچا ، ، گھسیٹا اور جکڑا ہی تھا اس نے سر جھکا کر چند منٹ اپنی ہتھیلی کو بہت غور سے دیکھا اور پھر جھک کر اپنے لب بھی اسی جگہ رکھے جہاں کچھ دیر پہلے یشب آفریدی اپنا لمس چھوڑ کر گیا تھا ۔
⦁ کہاں تلاش کرو گے تم مجھ جیسا شخص
⦁ جو تمہارے ستم بھی سے اور تم سے محبت بھی کرے
شام میں گل کمرے میں ہیر کو گرم لحاف دینے آئی تھی
یہ کس لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ ہیر حیران ہوئی
پتہ نہیں بی بی خان سائیں نے کہا تھا
ٹھیک ہے رکھ دو وہاں ۔۔۔۔ ہیر کے کہنے پر کل بستر رکھتی چلی گئی ۔۔۔
رات کو یشب کے بتانے پر ہیر کو پتہ چلا کہ یہ بستر اسکے اپنے لیے تھا ۔ ۔ ۔ اس کے بخار کیوجہ سے شاید یشب کو اس پر ترس آگیا تھا اسلیے گرم بستر منگوایا تھا مگر جگہ ابھی بھی نہیں بدلی تھی ۔۔۔۔ ہیر نے اس گرم بستر کو زمین پر ہی بچھا کر سونا تھا
چلو شکر ہے کچھ تو بچت ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اتنی سی عنایت پر ہی خوش ہوتی بستر بچھا کر شہنیل کی نرم گرم رضائی میں باخوشی گھس گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
يشب صبح پانچ بجے اٹھتا تھا اور ہیر کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے دو کلف لگے سوٹ روزانہ پریس کرنے
ہوتے تھے
ہیر نے آج تک کبھی اپنے کپڑے پریس نہیں کیے تھے اور اب دو مردانہ سوٹ وہ بھی کلف لگے پریس کرنا اسکے لیے بہت ہی بھیانک تجربہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اب دن گزرنے کیساتھ اسکے ہاتھوں میں تیزی آہی گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کپڑوں پر استری پھیر رہی تھی جب یشب ڈریسنگ روم میں داخل ہو کر ایک نظر اس پر پھینکتا واش روم چلا گیا ۔ ۔ ۔
ہیر نے جلدی سے کپڑے پریس کر کے ہینگ کیے اور یشب کا ناشتہ بنانے چلی گئی یشب صرف ناشتہ ہی کمرے میں کرتا تھا دوپہر کے وقت وہ باہر ہوتا اور رات کا کھانا وہ ڈائنگ ٹیبل پر ہی کھا تا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے یشب کے ناشتے کی ڈیوٹی گل کی تھی مگر اب ہیر کے آنے سے یہ ڈیوٹی بھی ہیر کو ہی سونپ دی گئی تھی ۔ ۔ ۔
ہیر کو پہلے دن یشب کے لیے ناشتہ بنانے کا تجربہ یاد تھا اس لیے اب وہ بہت محتاط ہو کر اسکا ناشتہ تیار کرتی تھی تاکہ یشب کو پھر سے کوئی شکایت کا موقع نہ ملے
پہلے دن جب یشب نے صبح سویرے اٹھا کر اسے ناشتہ لینے بھیجا تھا تو اس نے سوئی جاگی کیفیت میں ناشتہ بنا یا اور ٹرے میں چائے اور ٹوس لیے واپس کمرے میں آئی یشب نے چائے کا پہلا گھونٹ بھرنے کے بعد ہی کپ زمین پر الٹ دیا یہ چائے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے چائے کہتے ہیں تمہارے خیال میں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دھاڑا
لک ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ خان ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈرتی ڈرتی بولی
تمہارے ہاں ایسا جوشاندہ صبح ناشتے میں پیتے تھے سب.
نن ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں ۔ ۔ ۔ بناتی تھی چائے تب ۔ ۔ ۔ تو یہاں تمہیں ہی بنانی ہے ابھی اس لیے بہتر ہے کہ جلدی سیکھ جاؤ ۔ ۔ اب جاؤ اور جا کر ہلکی چینی والی چائے بنا کر لاؤ میرے لیے ۔۔۔۔
جی ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر فٹ کمرے سے نکل گئی
اب کہ ہیر نے بہت احتیاط سے ہلکی چینی والی چائے بنائی اور کپ ٹرے میں رکھے واپس کمرے میں
آئی ۔۔۔۔
خان چائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے یشب کو متوجہ کیا جو سیل پر بزی تھا۔ ۔ ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے کپ تھاما اور منہ سے لگایا ہیر کھڑی اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی کہ آیا اب چائے ٹھیک ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔
یشب نے کوئی بھی تاثر دیے بنا دوسرا اور پھر تیسرا گھونٹ بھر کر سیل سائیڈ پر رکھا اور ہیر کو اپنے
سامنے موجود ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جھجھکتی ہوئی سمٹ کر سامنے ٹیبل پر بیٹھی ۔ ۔ ۔ دل میں وہ آیتہ الکرسی کا ورد کر رہی تھی تاکہ جلد از جلد
جان خلاصی ہو ۔ ۔ ۔
یہ کپ پکڑو اور ایک ہی گھونٹ میں یہ ساری چائے ختم کرو ۔۔۔ ج ۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس حکم پر ششدر تھی
بھاپ اڑاتی چائے اور وہ بھی ایک گھونٹ میں ۔ ۔ ہیر کو سوچ کر ہی وحشت ہوئی
کچھ کہا ہے میں نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے سٹل دیکھ کر یشب کی تیوری چڑھی
جی ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے ڈر کے مارے جلدی سے گرم کپ منہ کو لگایا ۔ ۔ ۔ تین گھونٹ پینے کے بعد اس نے کپ ہٹا یا کیونکہ اس سے زیادہ گھونٹ وہ بھی اتنی گرم چائے کے وہ پی نہیں سکتی تھی بہت گرم ہے ۔ وہ منمنائی
یشب نے غصے سے ہاتھ کپ پر مارا جس سے چائے ہیر کی ٹانگوں پر گری اورودہ سی ۔ ۔ ی ۔ ۔ ہی ۔ ۔ ہی ۔ ۔ کی آواز نکالتی کھڑی ہوئی آج کے بعد اگر ذرا سا بھی حکم عدولی کا سوچا تو اس سے بھی بھیانک سزا ملے گی سمجھی ۔ ۔ ۔ وہ ہیر کی
گال تھپتھپا کر کہتا دراز سے برنال نکال لایا یہ لولگالینا ۔ ۔ ۔ ۔ برنال اسکے ہاتھ میں تھما کر اپنا سیل اٹھا تا کمرے سے نکل گیا ۔ ۔
اونہ ۔ ۔ ۔ ظالم انسان زخم دے کر مرہم بھی خود ہی رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ہیر نے جھٹکے سے ٹیوب دیوار پر
دے ماری
نہیں چاہیے مجھے ترس اور ہمدردی کی یہ بھیک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی ۔ ۔ اب تو وہ روتی بھی یشب کی غیر موجودگی میں ہی تھی چونکہ یشب کا حکم تھا کہ اسے روتی ، بلکتی عورتوں
سے نفرت ہے اس لیے ہیر اسکے سامنے رو کر خود کو قابل نفرت نہیں بنا نا چاہتی تھی یشب خان
آفریدی کی نظروں میں ۔ ۔ ۔ ۔
⦁ بکھر ے گا جب تیرے رخسار پر تیری آنکھ کا پانی
⦁ تجھے احساس تب ہو گا محبت کس کو کہتے ہیں
Pingback: Story For Sleep | Urdu Novel Aurat Aik Khilona : Part 3 urdu story