Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Nafrat Aur Insaaf Ki Dastan – Part 3 | Story For Sleep ka Urdu Novel


📖 Aurat Aik Khilona: Bewafaai, Qaid Aur Azadi Ki Kahani – Part 3 | Story For Sleep Urdu Novel

A gripping tale of love, sacrifice, and rebellion against cruelty, where emotions, pain, and reality merge. For fans of Story For Sleep, this Urdu novel offers an unforgettable journey, where every twist will shock and captivate you. If you’re looking for an Urdu Novel, Emotional Story, Heartbreaking Story, or the Best Urdu Story, this narrative is the perfect choice for you.

💔 This Urdu tale of love, betrayal, captivity, and the fight for freedom will touch your heart.

📢 Read now and lose yourself in the magic of this story!

 Story For Sleep Urdu

tory For Sleep Urdu Novel

Read Here Part 2

Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Zulm Aur Bagawat Ki Dastan – Part 2

خان خدا کا واسطہ ہے ۔ ۔ ۔ مجھے میری بچی سے ملوا دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو بے قصور ماری گئی ۔ ۔ ۔ ناجانے وہ لوگ کیا حال کر چکے ہوں گے ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں میری بچی وہاں ٹھیک سے کچھ کھاتی بھی ہوگی کے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدیجہ روتی ہوئیں دلاور خان کو ہیر سے ملوانے کا کہہ رہی تھیں
تم جانتی ہو حالات خدیجہ پھر اس واویلے کا مقصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ؟ ؟ وہ دکھ بھری آواز میں بولے اندر سے وہ بھی ڈھے چکے تھے جب سے لاڈلی بیٹی اسطرح سے رخصت ہوئی تھی جسکا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا انہوں نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں کچھ نہیں جانتی بس مجھے ہیر سے ملوا دیں ۔ ۔ ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں اپنی بچی کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں سکون میں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں خدیجہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں میں تو خود اسکی ایک جھلک
دیکھنے کو بے چین ہوں مگر ۔ ۔ ۔ ۔ مگر کیا خان —- بولیں ناں کیا۔۔۔ ……
میں کیا کروں ۔۔۔ کیا کروں ا۔ ۔ وہ بے بس تھے
شمس جو کر چکا ہے اسکا نتیجہ ایسا ہی ہونا تھا ۔ مجھے خاقان آفریدی سے امید نہیں تھی کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ کرے گا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اسکے بیٹے یشب آفریدی کا ہی فیصلہ تھا جو ۔ ۔ ۔ ۔
خان آپ اپنا بندہ بھجوائیں ناں خاقان آفریدی کی حویلی میں کہ وہ ہمیں ہیر سے کبھی کبھی ملنے کی اجازت
دے دیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدیجہ جلدی سے آس بھری آواز میں بولیں
ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ تم فکر مت کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتا ہوں کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دلاور خان نے پر سوچ انداز میں سر ہلا کر
بیوی کو مطمن کیا۔

یشب چائے پی رہا تھا جب ملازمہ بابا جان کا پیغام لے کر آئی میں مردانے میں بابا جان کی بات سننے جا رہا ہوں ۔ ۔ ۔۔۔ میرے آنے تک سب صاف ستھرا ہونا
چاہیے ۔ ۔ ۔ رائٹ ۔ ۔ ۔ ۔
جی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب ہیر کی آواز آئی
خان ۔ ۔ ۔ ۔وہ ۔۔۔۔۔۔وہ
کیا وہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کرتی رہتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ بچپن سے مبتلا ہو اٹکنے کی بیماری میں یا پھر میرے سامنے ہی یہ
دورا پڑتا ہے
ہیر اسے مخاطب کر کے سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا اور کیسے کہے ۔ بولواب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منہ سیے کیوں کھڑی ہو ۔ ۔ وہ گھڑی دیکھتا چڑ کر بولا
میں ۔ ۔ ۔ ۔ میں کمرے سے باہر نکل سکتی ہوں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ وہ ہو نٹوں پر زبان پھیرتی بمشکل بات
مکمل کر پائی
کیوں پہلے نہیں نکلتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ یشب نے تیوری چڑھائی
ن ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ صبح آپ ۔ ۔ ۔ آپ کا ناشتہ بنانے جاتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈرتے ہوئے بولی

ہوں ۔۔۔ چلی جاؤ مگر اور سمارٹ بننے کی کوشش مت کرنا سمجھی۔

جی اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا
یشب رضامندی دے کر کمرے سے نکل گیا
ہیر نے تشکرانہ سانس خارج کی
چلو قید خانے سے تو رہائی ملی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جب یشب کا ناشتہ بنانے جاتی تھی تو نیچے کوئی بھی نہ ہوتا اور اسکی ملاقات کسی سے بھی نہ ہو پاتی اس لیے وہ آج مکمل رہائی ملنے پر خوش تھی اتنے دن کے بعد ہیر
کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔

بیٹھو۔۔
با با جان نے یشب کو اپنے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھنے کو کہا
جی بابا جان آپ نے بلوایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب آج دلاور خان نے اپنا بندہ بھجوایا تھا
کس سلسلے میں ۔ ۔ ۔ ؟ حسب معمول یشب کی تیوری چڑھی
وہ لوگ ہیر سے ملنا چاہتے ہیں۔ ۔۔
مگر میں ایسا نہیں چاہتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو ٹوک جواب آیا
یشب وہ بیٹی ہے انکی ۔ ۔
مگر اب میرے نکاح میں ہے ۔ ۔ میں اجازت دوں ملنے کی یا نہ دوں یہ میری مرضی ۔
بچی کو ماں ، باپ سے الگ کر کے کیا مل رہا ہے تمہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس اذیت سے گزر چکے ہو تم بھی کہ
جب جان سے عزیز چیز دور ہو جاتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ بابا جان نے قائل کرنا چاہا۔

اسی تکلیف کا مزا چکھا نا چاہتا ہوں ان کو بھی تو پتہ چلنا چاہیے اس تکلیف کا ۔ ایک آدھ بار ملوا دو ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی حرج نہیں یشب ۔ ۔
نہیں بابا جان ہر گز نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اگر انہیں بیٹی سے ملنے کی اتنی خواہش ہے تو پھر تیار رہیں میں ڈیڈ باڈی
پہنچا دوں گا وہاں مگر زندہ سلامت بلکل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یشب کچھ خوف خدا کرو ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں دشمنی کو ہوا دے رہے ہو
دشمنی کی ابتداء انکی طرف سے ہوئی تھی اور اختتام میں کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھی یشب تھا اپنی بات پر ڈٹا رہا اگر میں تمہاری مرضی کے بغیر ملنے کی اجازت دے دوں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ بابا جان نے سوالیہ نظریں
اٹھائیں۔۔۔۔
تو میں دو کام کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلا ہیر کو طلاق دوں گا اور دو سر اشمس خان کا قتل کروں گا اور میں ایسا کر بھی سکتا ہوں بابا جان آپ سے بہتر مجھے کوئی نہیں جانتا۔ ۔ ۔ ۔ یہ خون خرابے سے میں صرف آپکی وجہ سے رکا ہوا ہوں ورنہ بندہ مارنا یا مروانا کونسا مشکل کام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لاپرواہی سے بولا تم ایسا کچھ نہیں کرو گے یشب کیونکہ تم خاقان آفریدی کے بیٹے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ خاقان آفریدی جس نے بہت مشکلوں سے برسوں پرانی خونی دشمنیوں کو دوستی میں بدلا تھا۔۔۔۔۔
بلکل بابا جان میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ پر اگر مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تو شاید کچھ کر
بیٹھوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آگاہ کرتا کمرے سے چلا گیا
باباجان نے ایک ملامتی نظر اسکی پشت پر ڈالی نہ جانے کس پر چلا گیا ہے یہ ۔ ۔ ؟؟؟ وہ سر جھٹکتے
بڑبڑائے۔۔۔

ہیر یشب کے جانے کے بعد فورا اپنی شال درست کرتی کمرے سے نکلی ۔ وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب مہرو کی نظر اس پر پڑی
ارے ہیر ۔ ۔ ۔ ۔ تم ۔۔۔۔۔ وہ حیران ہوئی
جی ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام و عليكم

وعلیکم السلام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے باہر آنے کی اجازت دے دی ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟
جی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر نے ہاں میں سر ہلایا
یہ تو اچھی بات ہے ۔ ۔ ۔ آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں کیوں رک گئی
بھا بھی اگر کوئی کام ہو تو بتا دیں میں کر دیتی ہوں ۔۔۔۔۔ وہ سادگی سے بولی ارے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کام کو ہزاروں ملازم ہیں یہاں ۔ ۔ ۔ ۔ تم آکر بیٹھو۔ ۔ ۔ ۔ کچھ باتیں ہی کر لیتے ہیں۔
ہیر اسکی بڑائی کی دل سے مشکور تھی کہ اس نے اپنے شوہر کے قاتل کی بہن کو قصور وار ٹہرا کر ذرا بھی برا
سلوک نہیں کیا تھا
بیر آکر مہرو کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھی بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کھاؤ گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ارے نہیں بھا بھی کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
شر ماؤمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں یشب نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ مہرو نے اسے شرماتے دیکھ کر چھیڑا

یشب کے ذکر پر ہیر کی کھلتی مسکراہٹ فورا سمٹ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ جسے مہرونے نوٹ کیا
وقت بہت بڑا مر ہم ثابت ہوتا ہے ہیر ۔ ۔ ۔ ۔ وقت کیساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ مجھے دیکھویشار کے ساکت وجود کو دیکھ کر لگا تھا کہ اب جی نہیں پاؤں گی ۔ ۔ ۔ ۔ مر جاؤں گی ۔ ۔ ۔ مگر زندہ ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زندہ رہنا بھی چاہتی ہوں یشارکی نشانی کی خاطر ۔ ۔ ۔ اپنے حدید کی خاطر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کے مکینوں کی خاطر جو مجھ پر جان چھڑکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وقت کے ساتھ اوپر والا صبر بھی دے ہی دیتا
ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ افسردگی سے بولی
اسی طرح یشب کو بھی صبر آجائے گا وقت کیساتھ اسکا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا مگر تب تک تمہیں
بہت ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔
وہ شروع سے ہی غصے کا تیز ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشار اور بابا جان کے بلکل بر عکس ۔ ۔ ۔ ۔ باباجان اور یشار بہت کم غصہ کرتے تھے اگر کبھی آ بھی جاتا تو کنٹرول کر لیتے مگر یشب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جب تک اپنا غصہ اگر
نکال نہیں لیا جب تک چین سے نہیں بیٹھا ۔۔۔
پر دل کا ہر گز برا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جب محبت کرنے پر آتا ہے تو جان چھڑکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر تم ہی تنگ پڑ جایا کرو گی اسکی محبتوں سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہرو نے آخر میں بات کو مزاق کا رنگ دیا ہیر سر جھکا ئے خاموشی سے مہرو کی باہمیں سن رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ جس روپ میں یشب آفریدی کو دیکھ چکی تھی اس کے بعد ایسا کوئی روپ یقینا عجیب و غریب ہی ہوتا ۔ ۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ ؟؟؟ یشب کی آواز پر وہ اچھل کر کھڑی ہوئی۔۔۔۔

یشب کتنی دفعہ کہا ہے کم از کم گھر والوں سے تو آہستہ آواز میں بات کیا کرو ۔ ۔ ۔ ۔ مہرونے ڈپٹے
ہوئے کہا
گھر والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونہہ
تم چلو کمرے میں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہیر سے مخاطب تھا
ابھی تو نکلی ہے تمہاری قید سے کچھ دیر تو آزادی فیل کرنے دو ۔ ۔ یشب نے شکایتی نظروں سے مہرو کو دیکھا
سنا نہیں تم نے ۔۔۔۔۔ وہ ہیر کو ہنوز کھڑے دیکھ کر چیخا
ہیر اسکی گرج پر الٹے قدموں پلٹی اور تخت پر بجھے کور کی نوک میں اڑ کر گرتی کہ یشب نے ہاتھ بڑھا کر بازو
سے تھاما
یہ گول گول بنٹے کس لئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ اس ہیر کی آنکھوں کے گرد انگلی گھما کر پوچھا
مہر و ہیر کی بیچاری شکل
کو دیکھ کر مسکراہٹ چھپاتی ہوئی ہال سے نکل گئی۔۔
وہ ۔ ۔ ۔ وہ پاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ اڑ گیا ۔ ۔ ۔
تو دیکھ کر چلا کرو ناں ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر والے نے یہ بڑے بڑے ڈیلے دیکھنے کے لیے دیے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اب جاؤ کمرے میں ۔ ۔ ۔ ۔ میں آکر خبر لیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چاچو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ حدید کی آواز پر پلٹا ارے چاچو کی جان ۔ ۔ ۔ کہاں تھے صبح سے ۔ ۔ ۔ یشب نے اسے بازؤں میں بھر کر چٹا چٹ پیار کر ڈالا
سکول ۔

اوہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو بھول ہی گیا کہ میرا شیر اب سکول جانے لگا
چاچو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کون ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ حدید نے وہاں کھڑی ہیر کی طرف اشارہ کیا یہ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے اسکے شال میں لیٹے وجود پر ترچھی نظر ڈالی اور آرام سے بولا ۔ ۔ ۔
یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چڑیل ہے ۔ ۔ ۔ ۔
” اے خوبصورت چڑیل ” ہیر کے آس پاس ماضی کی سر گوشی ابھری
چڑیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ حدید نے تصدیق چاہی
یسں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چڑیل
پر یہ تو بہت کیوٹ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ معصومیت سے بولا
کہاں سے ۔ ۔ ۔ ۔ یشب اسکی بات پر محفوظ ہو تا مسکرایا
ہیر نے اس سڑیل کو اتنے دن میں پہلی دفعہ ہنستے دیکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ ۔ خود کیا ہے جن ، بھوت وہ کڑھتی ہوئی وہاں سے چلی آئی۔

حدید بیٹا مولوی صاحب آگئے ہیں چلو سیپارہ پڑھنے —- مرو کی آواز پر وہ یشب کی گود سے اترا اوکے چاچو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں چلتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سی یو اگین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ کا مکا بنا کرپنچ مارنے کو آگے کیا یشب نے آنکھوں میں آئے پانی کو اندر دھکیلا اور بمشکل مسکرا کر پہنچ مارا
سی یو اگین مائی چائلڈ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حدید مسکراتا ، اچھلتا ہال سے نکل گیا
یشب نے خود کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے ایک افسردہ سی سانس لی اور بی بی جان کے روم کیطرف بڑھ گیا۔۔

میں آکر خبر لیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ میں آکر خبر لیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
ہیر پیچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے میں چکر کاٹتی یشب آفریدی کی بات دہرائے جارہی تھی
اب کیا ہو گیا ہے مجھ سے جو یشب خان نے ایسا کہا ۔ ۔ ۔ ؟؟
اف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا میرے مالک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اس ظالم انسان کی قید سے ہمیشہ کے لیے نجات عطا
فرما ۔ ۔ ۔ ۔ آمین وود عاآواز بلند دعا کے کر جیسے ہی پلٹی پیچھے پیشب آفریدی کو گھورتے پا کر جلدی سے نظریں جھکا گئی دل ہی دل میں وہ آیت الکرسی کا ورد کرتی یشب آفریدی کا غصہ ٹھنڈا ہونے کی دعا کر رہی تھی۔۔

مجھ جیسے ظالم انسان کی قید سے رہائی چاہتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بولتا ہوا پاس آیا ہیر نے
ہو نٹوں پر زبان پھیر کر ہونٹ تر کیے اور آہستگی سے نفی میں سر ہلا دیا
ابھی دعا مانگ رہی تھی تم۔۔ .
ن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں وہ ۔۔۔۔۔ وہ میں ۔
کتنی دفعہ کہا ہے میرے سامنے بات صاف اور سیدھی کیا کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ہر بات اٹک کر کرنا ضروری ہے
کیا ۔ ۔ ۔ ؟؟
سی ۔ ۔ ۔ سوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر سر جھکا کر منمنائی
ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے والد محترم کا پیغام آیا تھا آج ۔ ۔ ۔ تم سے ملنا چاہتے ہیں وہ لوگ ۔ ۔ ۔ ۔
یشب نے جیکٹ اتارتے ہوئے اطلاع دی۔۔۔

با با ملنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہیر درمیانی فاصلہ عبور کرتی یشب کے بلکل قریب آئی یشب نے ایک ناگوار نگاہ ڈالتے ہوئے گھڑی سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور واش روم کیطرف بڑھ گیا ہیر بے چینی سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی
بات تو پوری بتا دیتے ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جواب دیا پھر ۔ ۔ ؟؟
بابا ۔ ۔ ۔ ۔ اماں کاش کے میں آپ لوگوں سے مل پاؤں ۔ ۔ ۔ وہ افسردگی سے سوچتی یشب کے باہر
نکلنے کا انتظار کرنے لگی
پندرہ ، بیس منٹ بعد یشب نہا کر بال رگڑتا با ہر نکلا
ہیر نے اسے دیکھ کر جھر جھری لی اتنی سردی میں بھی نہانا نہیں چھوڑتا ۔ ۔ ۔ کیا ہے ایسے کیوں گھور رہی ہو ۔ ۔ ۔ یشب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر پوچھا وہ ۔ ۔ ۔ وہ خان آپ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے بابا کو کیا جواب دیا پھر ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہچکچاتی ہوئی بولی ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے خیال میں مجھے کیا کہنا چایئے تھا یشب نے اسے دیکھ کر پوچھا۔۔
جو ۔ ۔ ۔ جو بھی آپکی مرضی ہو ۔ ۔
میری مرضی تمہیں قبول ہوگی ۔ ۔ ۔ ؟؟
حج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔
تو پھر ٹینشن کس بات کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جب میری ہی مرضی پر چلنا ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔
آپ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے منع کر دیا ۔ ۔ ۔ ؟؟ ایگر یکٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جاؤ اور میرے لیے چائے لے کر آؤ۔ ۔ ۔ وہ حکم دیتا سیل پر بڑی ہو گیا۔۔

جی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر مایوس سی سر بلاتی چائے لانے چلی گئی
دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے ڈھیر سارے دن بیت گئے تھے ہیر کو وہاں آئے ۔ ۔ ۔ ۔ اب تو اس نے حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی یشب خان کے بتائے اصولوں
کے مطابق اچھی یا بری بسر ہو ہی رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
یشب نے ہیر کو اسکی فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے بھی دوبارہ اس ٹاپک
پریشب سے کوئی بات نہیں کی ۔ ۔ ۔
ہیر بھی وقت کیساتھ کافی سے زیادہ ایڈ جسٹ ہو گئی تھی ۔۔۔ اور اسکی ایڈجسمنٹ میں زیادہ ہاتھ مہر و کا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر کی مہرو سے کافی دوستی ہو گئی تھی
مہرو بھی اکیلی تھی اسے بھی کسی دوست کی ضرورت تھی اس لیے وہ بھی دل میں بغر کھے بغیر ہیر سے
مل جل گئی تھی ۔
یشب کو یہ دوستی کافی کھلتی تھی ۔ ۔ ۔ اور اسکا غصہ وہ بند کمرے میں ہیر کو اپنی طنز یہ باتوں سے ٹار چڑ کر
کے نکال لیتا تھا ۔ ۔ ۔ ہیر بھی اب پہلے کی طرح یشب کے غصے سے نہ تو ڈرتی تھی اور نہ ہی روتی تھی ۔۔۔۔۔ وقت کیساتھ وہ کیساتھ وہ بھی عادی ہو چکی تھی یشب کے اس رویے کی اس لیے چپ چاپ سر جھکا کر اسکی کڑوی کسیلی باتوں کو صبر سے اندر اتار لیتی ۔ ۔

مہرو کی عدت کب کی ختم ہو چکی تھی مگر وہ حدید کے سکول کیوجہ سے رکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی حدید کے ایگزیمز ختم ہوئے تو وہ حدید کو لیے اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔
بی بی جان زیادہ وقت اپنے کمرے میں عبادت میں مصروف رہتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان مردان خانے
میں ۔ ۔ ۔ ۔ اور یشب ڈیرے اور زمینوں پر کبھی دو ، چار دن کے لیے پشاور چلا جاتا ۔ ۔ مہرو کو بھی گئے کئی دن ہو گئے تھے مگر ابھی تک واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔ ۔ ۔ ہیر سارا وقت بولائی بولائی سی رہتی پہلے مہر و کیساتھ اچھا خاصہ وقت گزر جاتا تھا اور اب وہ فارغ رہ رہ کر اکتا چکی تھی ۔۔۔۔ اوپر سے گھر والے بھی بہت یاد آرہے تھے آجکل ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب سی کسلمندی چھائی ہوئی تھی
طبیعت پر ۔ ۔ ۔
اب بھی وہ ٹیرس پر بیٹھی ۔۔۔۔۔ اپنے بابا۔۔۔ اماں اور لالہ کو ہی یاد کر رہی تھی جب یشب کی پراڈو کا
ہارن بجا ۔ ۔ ۔
وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی ۔
یشب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کو کبڈ میں گھسے پایا
کیا کر رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی دفعہ کہا ہے میری چیزوں میں مت گھسا کرو مگر تم وقت کیساتھ ساتھ ڈھیٹ ہوتی جارہی ہو جس پر میری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ وہ دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر
غصے سے بولا
آپ بھی ہر وقت مجھ پر غصہ کر کر کے تھکتے نہیں ہیں کیا ۔ ۔۔؟؟

یشب کا گھڑی اتارتا ہاتھ اسکی دلیری پر ایک لمحے کو ساکت ہوا اور پھر وہ درمیانی فاصلہ مٹاتا اس تک
آیا
کیا بکو اس کی ہے ابھی ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر لا پرواہی سے بولی
کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسکا بازو جکڑتا خود کے قریب لایا
خود کو اس قابل سمجھتی ہو کے یشب آفریدی تم سے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک خونی کی بہن سے نرمی برتے ۔
استهزا یا ہنسا
جب یشب آفریدی رات کے اندھیرے میں ایک خونی کی بہن کو نرمی برتتے ہوئے سینے سے لگا سکتا ہے تو پھر دن کے اجالے میں کیوں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر بازو چھڑواتے طنزیہ بولی یشب نے اسکی بات پر غصے سے سرخ پڑتے ایک زور دار ٹھپڑ اسکی گال پر جڑا
پہلے تو کچھ نہیں سمجھتی تھی یشب خان مگر اب بہت کچھ سمجھنے لگی ہوں ۔ ۔ ۔ وہ نم آنکھوں سے
بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب سے آپ نے مجھے چھوا ۔ ۔ ۔
بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے آگے ایک لفظ نہیں ۔ ۔ ۔ یشب ہاتھ اٹھاتے دھاڑا ۔۔
کیوں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ ہیر دو قدم پیچھے ہٹی اب اپنی بزدلی کی داستان بھی تو سنئیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود کو بہت مہان سمجھتے تھے ناں آپ ۔ ۔ ۔ کیا ہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ وہ استہزائیہ کہتی مزید پیچھے ہوئی ۔ ۔ ۔


ذرا سے لمحے میں کمزور پڑ جانے والے مرد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا وجود اچھوت تھا ناں آپ کے لیے اسی لیے تو اتنی سردی میں مجھے زمین پر سلاتے تھے اور خود اس نرم گرم بستر پر مزے لے کر سوتے تھے ۔ ۔ ۔ مجھے خونی کی بہن ۔ ۔ ۔ ۔ کتے کی بہن اور ناجانے کن کن القابات سے مخاطب کرتے تھے ۔ ۔ ۔ اور اب ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رکی
جیسے بھی سہی آپ مجھے اپنی بیوی کا درجہ دے چکے ہیں
یشب ۔ ۔ ۔ ۔ خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آفریدی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ناصرف بیوی کا بلکہ اپنے بچے کی ماں کا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے آپکی اصلیت ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے خوفی سے یشب کی آنکھوں میں دیکھتی
چلائی
یشب اپنی سرخ انگارہ آنکھیں ہیر کے بے خوف چہرے پر گاڑے ساکت سا کھڑا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چھ سال قبل
آج صبح سے ہی موسم کافی ابر آلود تھا ۔ ۔ ۔ ۔ سردیاں جارہیں تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی ۔ ۔ ۔ ۔ پہاڑی علاقوں میں ان دنوں محسوس کرنے والوں کو ایک عجیب سا پر سوز لطف محسوس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہی
پر سوز لطف ہیر کو بہت اٹریکٹ کرتا تھا
آج بھی وہ اماں سے اجازت لے کر اسی لطف کا مزا لینے حویلی کے پیچھلے باغ میں آئی تھی ۔ ۔۔۔ پورے باغ میں اچھی طرح گھوم پھر کر وہ چپکے سے پگڈنڈی پر چلتی ٹھنڈے پانی کی جھیل کیطرف بڑھی جو حویلی کی پچھواڑ میں منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود تھی
وہ منہ ڈھانپے ادھر ادھر دیکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ دل میں ایک خوف بھی تھا کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔ ۔ ۔ ۔ گھر سے تو باغ تک جانے کی اجازت لے کر نکلی تھی مگر اب وہ کافی آگے جھیل
تک جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں اکیلے جانے سے اماں اور شمس لالہ نے سختی سے منع کیا ہوا تھا ہیر نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر چاروں طرف ایک چور نگاہ گھمائی اور کسی کی بھی موجودگی نہ پاکر چادر کے
پلو کو پیچھے کھسکا کر منہ باہر نکالا
آرام دہ حالت میں پتھر پر بیٹھ کر پاؤں جوتے سے آزاد کیے اور ٹھنڈے ٹھار پانی میں ڈبو دیے ۔ ۔ اوئی ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئی
اپنی چیخ پر وہ خود ہی ڈرتی کھلکھلا کر ہنسی ۔ ۔ ۔ تو پھر ہنستی ہی چلی گئی
کچھ فاصلے پر لیٹے یشب آفریدی نے سر اونچا کر کے دائیں جانب دیکھا جہاں کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس خوبصورت سی چڑیل قہقہے لگانے میں مصروف تھی۔۔

ازشی میڈ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ وہ پتھر سے ٹیک لگا تا اٹھ بیٹھا
کہیں واقعی چڑیل تو نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی سوچ پر مسکرا تا وہ اٹھ کھڑا ہوا
چلو یشب آفریدی آج تمہیں لا ئیو ایک چڑیل سے ملنے کا موقع ملا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ گواینڈ انجوائے ۔
ہاتھ جھاڑتا اسطرف چل پڑا
ہیر ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر اپنی ہنسی روک کر اب مختلف آوازمیں نکالنے میں بزی تھی۔۔۔۔۔ یہ بچپن سے اسکا محبوب مشغلہ تھا جب پہاڑوں میں اسکی آواز گونج کر واپس پلٹتی تو وہ اپنی ہی آواز کو سن کر
انجوائے کرتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب بھی وہ ایسا ہی کر رہی تھی جب
اس کی آواز پر اسکی توجہ ہٹی
ہیر نے پلٹنے سے پہلے چادر کھینچ کر منہ چھپایا اور پیچھے کو مڑی
اپنے سامنے ہیر و نماینگ سے لڑکے کو دیکھ کر وہ پلکیں جھپکائے بغیر یک تک اسے دیکھنے لگی بلیو جیز پر بلیک ہائی نک پہنے ، ہلکے بھورے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ۔ ۔ ۔ آنکھوں کو بھینچے اسے مشکوک انداز میں گھورتا ۔ ۔ ۔ ۔ کسی انگریزی فلم کا ہیر وہی لگ رہا تھا
یشب اسکے مسلسل دیکھنے سے ہلکا سا کنفیوز ہوتا ۔ ۔ ۔ کھنکارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کون ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
وہ صرف ہیر کی کا جل لگی بڑی بڑی آنکھوں کو ہی دیکھ سکتا تھا باقی چہرہ وہ پیچھے مڑنے سے پہلے چھپا چکی ےتھی

تم ۔ ۔ ۔ ۔ تم بتاؤ ۔ ۔ ۔ تم کون ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ ہیر پلکیں جھپکاتی اپنا حوصلہ بحال کر کے بولی

میں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ ۔
میں ۔۔۔۔
یشب ۔ ۔ ۔ ۔ خان ۔ ۔ ۔ ۔ آفریدی ۔ ۔ ۔ ۔ یشب ٹہر ٹہر کر بولا
اور میں ۔ ۔ ۔ ۔
ہیر ۔ ۔ ۔ ۔ دلاور ۔ ۔ ۔ ۔ خان ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر بھی اسی کے انداز میں بولی
سیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسا نام ہے
یشب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا عجیب سا نام ہے ۔ ۔ ۔ ہیر نے چادر کے اندر ہی منہ بگاڑا یشب اسکے کانفیڈینس کی داد دیتا مسکرا اٹھا
میں نے جوک نہیں سنایا تمہیں ۔۔۔ ہیر نے اسکی خوبصورت مسکراہٹ پر چوٹ کی
توسنا دو۔ ۔ ۔ ۔ وہ ببل کا پٹاخا چھوڑتے بولا۔۔۔
مجھے شوق نہیں اجنبی غنڈوں سے فری ہونے کا ۔ ۔
پر مجھے شوق ہے اجنبی چڑیلوں سے فری ہونے کا ۔ ۔ ۔ ۔
تم ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے مجھے چڑیل کہا
تم نے بھی مجھے غنڈا کہا
وہ تو تم ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم بھی تو ہو ۔ ۔ ۔ ۔ مگر خوبصورت چڑیل ۔ ۔ ۔ یشب نے مسکراہٹ دبا کر کہا

ارے کس قدر بے شرم ہو تم ۔۔۔ مجھے اکیلی سمجھ کر لائن مار رہے ہو.
کیوں تم پر لائن مارنا ممنوع ہے کیا ۔ ۔ ۔ ؟؟ وہ دو بد و بولا
یشب خان آفریدی ۔۔۔۔ اپنی حد میں رہو ۔ ۔ ۔ ہیر نے دانت کچکچائے ۔

ہیر دلاور خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا آپ میری حدود بتا سکتی ہیں۔
ہٹو میرے راستے سے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جو تا پہنتی جانے کو تیار ہوئی
کہاں جا رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
تم سے مطلب ۔ ۔
مطلب ہے تو پوچھ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تمہارے مطلب سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میرا راستہ چھوڑو ۔
میں نے کب روکا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے کندھے اچکائے
سامنے سے ہٹو گے تومیں گزر پاہوں گی ۔ ۔ وہ غصے میں چڑکر بولی لی
لیجئے جناب ۔ ۔ ۔ ۔ یشب مسکراہٹ روکتا سر خم کرتا پیچھے ہٹا
ہیر نے اس پر غصیلی گھوری ڈالی اور سائیڈ سے ہو کر گزر گئی
پھر کب ملو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ” اے خوبصورت چڑیل ” ۔ ۔ ۔ ۔ ہیر کے تھوڑا آگے گزر جانے پر یشب نے
پلٹ کر بلند آواز میں پوچھا ۔
جہنم میں ۔ ۔ ۔ ۔
تم وہاں بھی جاتی ہو۔ ۔ ہ محفوظ ہوتا فورا بولا۔۔

نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں بائے بائے کرنے ضرور آؤں گی ۔ ۔۔۔ یشب کا چھت پھاڑ قہقہ بلند ہوا
اونہہ ۔ ۔ ۔ ۔ بد تمیز انسان ۔ ۔ ۔ ۔ ہنستے ہوئے بھی قیامت لگتا ہے ۔ لاحول ولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی سوچ پر تو بہ کرتی تیز تیز قدم اٹھائی آگے بڑھ گئی۔۔۔
یشب ہو نٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ سجائے تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ تھی ہیر دلاور خان اور یشب خان آفریدی کی پہلی ملاقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


1 thought on “Aurat Aik Khilona: Mohabbat, Nafrat Aur Insaaf Ki Dastan – Part 3 | Story For Sleep ka Urdu Novel”

  1. Pingback: Urdu novel download Aurat Aik Khilona Part 4 Novel – Urdu Kahani

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top