Aurat Aik Khilona Part 7 | Urdu Novel 2025 Emotional Story in Urdu


Urdu Novel 2025 💔 “Aurat Aik Khilona” is a thrilling and emotional Urdu novel that explores themes of love, sacrifice, betrayal, and social injustice. In Part 7, the story takes a dramatic turn, keeping readers engaged with intense emotions and shocking revelations.

📖 If you love reading best Urdu novels of 2025, this Urdu romantic story is a must-read. This new Urdu story beautifully portrays deep love, societal oppression, and emotional struggles, making it an unforgettable experience.

🌟 What Will You Find in This Story?
✅ A heart-touching Urdu novel filled with emotions
✅ A captivating Urdu story that keeps you hooked till the end
Love, betrayal, and struggles of a woman’s life
✅ A deep reflection on social issues and women’s hardships

🔍 Related Keywords:

  • Urdu Romantic Novel
  • New Urdu Story
  • Best Urdu Novel 2025
  • Emotional Story in Urdu
  • Urdu Story About Women’s Sacrifices
  • Love Story in Urdu
  • Best Urdu Kahaniyan
  • Download Urdu Novel

📢 Read this thrilling and emotional Urdu story now & share your thoughts! 🖋️✨

Urdu Novel 2025

Aurat Aik Khilona – Part 7 | Urdu Novel 2025 | Emotional Story in Urdu

read here Aurat Aik Khilona Part 6: Urdu Romantic Novel – Urdu New Story

ہیر کہاں ہے بلائیں اسے۔۔۔۔۔وہ بھناتا ہوا بولا
یشب بیٹا بیٹھو۔۔۔۔بیٹھ کر بات ہوتی ہے۔۔۔۔دلاور خان نے اسکے تیوروں کے برخلاف تحمل سے کہا تھا
میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا ہیر کو لینے آیا ہوں۔۔۔
ہیر کو بے شک لے جانا ساتھ وہ بیوی ہے تمہاری مگر سکون سے دو گھڑی بیٹھو تو۔۔۔۔۔
پلیز آپ وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔۔۔۔نہ میں یہاں بیٹھنے کو آیا ہوں اور نہ ہی بیٹھوں گا۔۔۔۔۔یشب نے ایک تلخ نظر فاصلے پر کھڑے شمس پر ڈال کر کہا
ہیر پیلر کی اوٹ میں کھڑی یشب کا چلانا سن رہی تھی مگر سامنے آنے کی ہمت نہ تھی
ہیر کو بلاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔۔دلاور خان نے خدیجہ بیگم کو کہا
جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتیں اٹھنے ہی والی تھیں کہ ہیر انکے جانے سے پہلے ہی پلر کی اوٹ سے نکل کر جھکے سر سے سامنے چلی آئی
یشب نے اسے سرخ آنکھوں سے دیکھا ضرور مگر فلوقت اپنے غصے پر قابو پا کر ہی بولا
چلو لینے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔
ہیر جانتی تھی اس بلاوے کا مقصد مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی ایک طرف باپ اور بھائی تھے تو دوسری طرف شوہر تھا شوہر بھی وہ جو کبھی دل میں رہ چکا تھا جسکی ہر بات وہ پتھر پر لکیر جان کر مانتی آئی تھی مگر اب جب سے مس کیرج ہوا تھا وہ یشب کیساتھ کافی منہ ماری کر چکی تھی مگر اس وقت وہ کچھ ایسا کر کے نیا پینڈوراباکس کھولنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے خاموشی سے سر جھکائے کسی کی طرف بھی دیکھے بنا باہر کی جانب چل پڑی
جانتی تھی کہ اگر گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو جانا بہت مشکل ہو جائے گا
یشب بھی سب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اسکے پیچھے ہی باہر آ گیا تھا
واپسی کا راستہ خاموشی سے کٹا۔۔۔
بی بی جان راہداری میں بے چینی سے ٹہلتیں ان کا انتظار کر رہیں تھیں
جب وہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے ہیر کو دیکھ کر یشب پر ایک ملامتی نظر ڈالی۔۔۔
جس پر وہ نظریں چراتا آگے بڑھ گیا
ہیر بی بی جان کے پاس آئی۔۔۔۔ آپ کیوں کھڑی ہیں یہاں۔۔۔۔؟؟چلیں کمرے میں
بی بی جان خاموشی سے اسکے ساتھ کمرے میں آئیں
کسی کی بھی نہیں سنتا یہ۔۔۔۔ناجانے کس پر چلا گیا۔۔۔۔اتنا غصہ تو کبھی خان ) خاقان آفریدی ( نے بھی نہیں کیا جتنا یہ کرتا ہے۔۔۔۔اللہ ہدایت دے
بیٹھو یہاں۔۔۔۔بی بی جان نے ہیر کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھایا
میں شرمندہ ہوں تم سے ہیر۔۔۔میں کتنے مان سے تمہیں وہاں چھوڑ کر آئی تھی اور یشب نے تمہیں چند گھنٹے بھی رکنے نہیں دیا
بی بی جان آپ کیوں شرمندہ ہیں۔۔۔مجھے ملنا تھا سب سے۔۔۔۔مل لیا اس لیے رکنے یا نہ رکنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ بجھی بجھی سی بولی
پھر بھی اتنے مہینوں کی دوری تھی کچھ وقت تو ۔۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں بی بی جان مجھے بلکل بھی برا نہیں لگا بلکہ میں تو خوش ہوں کہ کم وقت کے لیے ہی سہی میں اپنے گھر والوں سے مل آئی اور ویسے بھی مجھے آج یا کل یہیں آنا تھا تو پھر آپ کیوں شرمندہ ہو رہی ہیں
بی بی جان نے بہت فخر سے اسے دیکھا تھا
تمہارے ہر عمل میں تمہاری ماں کی اعلی تربیت جھلکتی ہے ہیر۔۔۔۔اور مجھے فخر ہے کہ تم میرے یشب کی شریک حیات ہو۔۔۔وہ مسکرائیں
تم جس طرح کے حالات میں یہاں آئی تھی۔۔۔جس طرح سے یشب کا برا رویہ سہا اور سہہ کر برداشت کیا۔۔۔۔۔ سچ پوچھو تو میں تمہارے صبر اور دھیمے مزاج کی قائل ہو چکی ہوں۔۔۔۔۔میں بلکل ایسی ہی لڑکی یشب کی زندگی میں لانا چاہتی تھی۔۔۔۔
میری ایک بات مانو گی ہیر۔۔۔۔انہوں نے آس بھرے لہجے میں کہہ کر اسکے ہاتھ تھامے
جی بی بی جان کہیں۔۔۔۔۔
ہیر بچے یشب کو بھی اپنے جیسا بنا دو۔۔۔
ہیر نے حیرانگی سے انکی طرف دیکھا۔۔۔۔اپنے جیسا مطلب۔۔۔۔؟؟؟؟
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اپنے جیسا صابر اور دھیمے مزاج کا۔۔۔
میں ایک ماں ہونے کے ناطے یہ نہیں کر سکی مگر تم ایک بیوی ہونے کے ناطے یہ کرنے کی کوشش کرو ہیر۔۔۔۔۔تم جس رشتے میں اسکے ساتھ بندھ چکی ہو وہ رشتہ جتنا نازک ہے اتنا ہی مضبوط بھی اور اس رشتے کا تقاضہ بھی تو یہی ہے کہ جب دونوں فریق میں سے کوئی ایک غلط ہو تو دوسرے کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے اپنی محبت سے اسکی غلطیوں کو درگزر کر کے اصلاح کرے۔۔۔
میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ تم اپنی محبت سے اسے بدل دو۔۔۔۔کیونکہ اگر تم چاہو تو یشب کی کی گئی زیادتیوں کو بھلا کر اسے بدل سکتی ہو ہیر۔۔۔۔
جب سے مس کیرج والا واقعہ ہوا ہے میں نے دیکھا ہے وہ کافی بدل گیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔تم بھی دل بڑا کر کے سب بھلا دو میری جان۔۔۔۔دونوں خاندانوں میں موجود رنجشوں کو مٹانے کی کوشش کرو کہ یہ سب تم ہی ممکن کر سکتی ہو بچے۔۔۔۔۔
کرو گی ناں ایسا۔۔۔۔؟؟؟انہوں نے ہیر کے ہاتھوں پر دباؤ ڈالا
جج۔۔۔۔۔جی بی بی جان میں۔۔۔۔میں کوشش کروں گی کہ سب ٹھیک ہو جائے
ہوں۔۔۔۔مجھے تم سے ایسے ہی جواب کی امید تھی۔۔۔۔خوش رہو آباد رہو۔۔۔۔بی بی جان نے مسکراتے ہوئے اسکا سر تھپتھپایا
جاؤ جا کر کھانا کھا لو اور آرام کرو تھک گئی ہو گی
آپ نے کھا لیا۔۔۔۔؟؟
نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔تم ایسا کرو سکینہ سے کہو مجھے یہیں دے جائے اب باہر جانے کی ہمت نہیں۔۔۔۔
جی میں بھجواتی ہوں ابھی۔۔۔۔۔ہیر مسکرا کر کہتی باہر چلی گئی
ہیر کھانے سے فارغ ہو کر جب کمرے میں آئی تو یشب بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا ایک سرسری نظر اس پر ڈال کر پھر سے ٹی وی دیکھنے لگا۔۔
ہیر آہستگی سے چلتی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلی گئی
چینج اور وضو کر کے وہ کمرے میں آئی اور خاموشی سے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا
یشب ایک لمحے کو اسکی ہمت پر عش عش کر اٹھا مگر اسے جائے نماز اٹھاتے دیکھ کر کوئی بھی تلخ بات کہنے سے باز رہا
ہیر نے تسلی سے عشاء کی نماز ادا کی اور لائٹ آف کر کے بیڈ کے پاس آئی
مجھے کہاں سونا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
میرے پہلو میں۔۔۔۔فٹ جواب آیا
صد شکر کہ وہ لائٹ آف کر چکی تھی ورنہ بلاوجہ یشب اسکا مزاق اڑاتا۔۔۔۔ہیر اپنے بلش کرتے گالوں پر ہاتھ پھیر کر بیڈ کی دوسری سمت آ کر لیٹ گئی
یشب نے بھی خاموشی سے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔۔۔
ہیر اسکے خاموشی سے کروٹ بدل لینے پر حیران تھی۔۔
یہ۔۔۔۔یہ خاموش کیوں ہیں۔۔۔اور غصہ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔حیرت ہے لینے تو یوں گئے تھے جیسے آج ہی قتل کر دیں گے میرا اور اب۔۔۔۔۔چلو اچھا ہے خاموش ہیں ورنہ پھر سے جواب میں کوئی تلخ بات میرے منہ سے نکل جاتی اور پھر نئے سرے سے جھگڑا۔۔۔۔
اتنے دن کی تھکن تھی کب سوچتے سوچتے ہیر کی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا
ہیر گہری نیند میں تھی جب اسے گھٹن کا احساس ہوا یوں جیسے کوئی بہت بھاری چیز اس پر رکھی ہو۔۔۔۔۔
اس نے غنودگی میں ہی ایک دو بار ہاتھ کو ہلا کر اس چیز کو ہٹانے کی کوشش کی مگر یہ کیا۔۔۔؟؟وہ باوجود کوشش کے ہاتھ نہ ہلا پائی
اب کے ہیر نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ مگر کمرے میں چھایا گھپ اندھیرا اسکے دل کی دھڑکن مزید بڑھا گیا۔۔۔۔۔اسے یشب کی مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔۔
ہیر نے اسی اندھیرے میں اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔۔
چند منٹ کے غوروخوض کے بعد اسے اپنے کان کے پاس یشب کے ہلکے ہلکے خراٹوں اور سانسوں کی آواز محسوس ہوئی
اوہ۔۔۔۔۔میں یہاں کیسے آ گئی۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھی وہ تو بیڈ کی بلکل پائنتی سے لگ کر سوئی تھی پھر یشب کے اتنے قریب کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟
اس نے کسمسا کر اپنا ہاتھ آزاد کروایا جو یشب کی گرفت میں تھا یشب کا ایک بازو اسکے سر کے نیچے جبکہ دوسرا ہیر کے اوپر سے گزار کر دوسری سائیڈ پر رکھ کر اسے قید کیا گیا تھا
یشب کے بازو سے ہی ہیر کو خود پر کسی وزنی چیزکا احساس ہوا تھا۔۔۔۔
کیا مصیبت ہے۔۔۔۔۔ہیر زور لگانے کے باوجود بھی یشب کا بازو ہٹا نہ پائی
کونسی مصیبت۔۔۔۔۔یشب نے کہتے ہوئے اسے مزید قریب کیا
وہ ہیر کے جھٹکوں پر جاگ گیا تھا جو وہ اسکے بازو کو ہٹانے پر مار رہی تھی
بازو ہٹائیں خان۔۔۔۔مجھے گھٹن ہو رہی ہے۔۔۔۔
خان کی جان۔۔۔۔۔۔کیسی گھٹن۔۔۔۔۔؟؟؟وہ موڈ میں بولا
ہیر اس ڈائیلاگ پر سخت بدمزا ہوئی
خان پلیز۔۔۔۔لائٹ تو آن کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔
مجھ سے یا اندھیرے سے۔۔۔؟؟؟وہ یشب ہی کیا جو بات کی کھال نہ اتارے
دونوں سے۔۔۔۔۔۔ہٹائیں بازو کس قدر بھاری ہے یوں جیسے انسان کا نہیں بلکہ لوہے کا ہو۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی
یشب نے اسکے چڑنے پر مسکراتے ہوئے سائیڈ لیمپ آن کیا
ہیر اسکی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی پرے کھسکی۔۔۔۔۔۔
میں نے تمہاری جگہ اپنے پہلو میں بتائی تھی سنا نہیں تھا کیا تمہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ایکدم سے پنتیرا بدلتا اپنے مخصوص کرخت لہجے میں بولا
میں اکیلی ہی سوتی ہوں اس لیے مجھے کسی کے پہلو میں سونے کی عادت نہیں۔۔۔وہ بھی بنا لحاظ رکھے بولی
میں کسی کی نہیں اپنی بات کر رہا ہوں سمجھی۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سونے دیں خان اتنے دن کی تھکن ہے۔۔۔۔وہ جمائی روکتی اسے دیکھ کر صلح جو انداز میں بولی
تھکن تو مجھے بھی ہے مگر۔۔۔۔۔۔وہ بات روکتا مسکرایا
ہیر اسکے تیور سمجھ چکی تھی اسی لیے ایک ہی جست میں بیڈ سے نیچے اتری
یشب اسکی پھرتی پر مسکرا اٹھا
سو جاؤ۔۔۔۔۔۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم سے رومینس کرنے کا۔۔۔۔وہ جل کر کہتا لائٹر اور سیگرٹ اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔
یہ یشب کی دوسری بری عادت تھی کہ جب نیند سے ایک دفعہ جاگ جاتا تو پھر دوبارہ نہیں سوتا تھا
ہیر جانتی تھی یہ بات اسی لیے اس نے یشب کے جانے کے بعد پرسکون ہو کر کمبل لپیٹا اور نیند سے بھاری ہوتی آنکھیں سختی سے میچ لیں
مجھے بتا تو دیتی کہ تم اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی ہو میں ہر گز یشب کو کال نہ کرتی تو اسے پتہ بھی نہیں چلنا تھا تم ایک آدھ دن تک رہ لیتی وہاں۔۔۔۔۔مہرو کو یشب نے رات ہی بتا دیا تھا کہ بی بی جان ہیر کو اسکے گھر چھوڑ آئیں تھیں اور وہ اسی وقت جا کر واپس لے آیا تھا اس لیے اب وہ ہیر سے فون پر بات کرتی ایسا کہہ رہی تھی
آج نہیں تو کل پتہ چل ہی جاتا بھابھی پھر بلاوجہ غصہ ہوتے۔۔۔
اوہ تو اب نہیں ہوا کیا غصہ۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔۔۔
بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو حیران تھی
جی۔۔۔۔۔۔
ارے واہ۔۔۔۔یعنی کہ تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ آ چکی ہے۔۔۔۔مہرو شوخی سے بولی
اتنا سب ہو جانے کے بعد کیا فائدہ ایسی تبدیلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر بے دل ہوئی
دیر آید درست آید اس لیے ناشکری مت کرو۔۔۔۔ بلکہ شکر ادا کرو کہ یشب جیسا ہٹلر بدل رہا ہے۔۔۔اور پتہ ہے اسکے بدلنے سے سب سے زیادہ فائدہ تمہیں ہی ہونے والا ہے۔۔۔مہرو مسکراہٹ دبا کر بولی
وہ کیسے۔۔۔۔۔؟؟
تمہیں ہر وقت اسکی سڑی ہوئی غصے سے لال پیلی صورت ہی دیکھنے کو ملتی تھی ۔۔۔کم از کم اب وہ مسکرا تو دیا کرے گا تمہیں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔مہرو نے بات کے آخر پر خود ہی قہقہہ لگا کر مزا لیا
بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔ہیر لٹ کان کے پیچھے کرتی مسکرائی
اچھا اور کوئی نئی تازی سناؤ دو پھر۔۔۔۔۔
کیسی نئی تازی۔۔۔۔۔؟؟؟
یاد ہے تمہیں پہلے بھی جب میں لال حویلی سے واپس آئی تھی تو تم نے مجھے تائی بننے کی خوشخبری سنائی تھی اس لیے اس بار بھی میں ایسی ہی نیوز سننے کی منتظر رہوں گی تیار رہنا۔۔۔۔۔۔مہرو نے چھیڑا
بھابھھھھی۔۔۔۔۔ہیر بلش کرتی شرما گئی
ارے یار۔۔۔۔۔تم یقینا شرما رہی ہو گی۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟ مہرو ہنسی
بھابھی میں فون رکھ رہی ہوں پھر بات ہو گی خدا حافظ۔۔۔۔ہیر نے جلدی سے کہہ کر کال بند کی
توبہ ہے بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔وہ مسکرا کر پلٹتی یشب سے ٹکرائی جو اسکے بلکل پیچھے ہی کھڑا تھا
کیا برائیاں کر رہی تھی میری۔۔۔۔؟؟ بھابھی کیساتھ۔۔۔۔
مجھے کیا ضرورت ہے آپ کی برائیاں کرنے کی۔۔۔۔وہ کہتی ہوئی سائیڈ سے ہو کر بیڈ کیطرف آئی
ہیر کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔۔۔؟؟؟
کیا سب۔۔۔۔؟؟
تمہاری بےگانگی اور کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ خفا خفا سا بولا
اونہہ۔۔۔۔میری چند روزہ بےگانگی سہی نہیں جا رہی محترم سے اور خود جو بےگانگی دیکھائی تھی وہ بھول گئے شاید۔۔۔
کیا سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟
مجھے وقت چاہیے۔۔۔۔۔وہ سرگوشی میں بولی
کس لیے۔۔۔۔۔؟؟؟
آپ کے اس مزاج کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے۔۔۔۔
مگر میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہوں ہیر۔۔۔۔جو گزر گیا وہ کافی تھا مگر اب میں اس وقت کو تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا۔۔۔وہ محبت سے کہتا قریب آیا
کس قدر مطلب پرست ہیں آپ۔۔۔۔۔۔یعنی کہ اب بھی زبردستی مسلط ہونا چاہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پٹاخ سے بات اسکے منہ پر مار گئی
ہیر کی بات یشب کے دل پر گھونسے کی مانند پڑی۔۔۔۔
نہیں میں اب تم سے کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا کسی بھی قسم کی۔۔۔اس بار فیصلہ کرنے کا اختیار میں تمہیں دیتا ہوں ہیر۔۔۔۔
تمہارا فیصلہ ہی آخری ہو گا اور میں تمہارے ہر فیصلے کو قبول کروں گا۔۔۔۔
تم چاہو تو واپس اپنے گھر اور گھر والوں کے پاس جا سکتی ہو ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔اور اگر نہیں تو۔۔۔۔۔وہ رکا
تو پھر کبڈ کے 3rd ڈراڑ میں تمہارے لیے وہ چیز پڑی ہے جس میں میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
میں زیادہ وقت دینے کا قائل نہیں ہوں اس لیے ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس۔۔۔۔اس ایک ہفتے میں میں تمہیں بلکل ڈسٹرب نہیں کروں گا اسلیے اچھی طرح سوچ لو اور پھر فیصلہ کرو۔۔۔
مگر خیال رہے کہ میں ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔اگر تم واپس جانا چاہو گی تو میں بلکل بھی رکاوٹ نہیں بنوں گا اور اگر تمہارا فیصلہ میرے حق میں ہوا تو۔۔۔۔۔
اس ڈراڑ میں موجود تمہارے لیے خریدی گئی چیز کو پہن کر تیار رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ مطلب اگلے سنڈے۔۔۔۔۔یشب نے حساب لگا کر اسے فیصلہ سنانے کا دن بتایا
میں بے چینی سے اس دن کا اور تمہارے ڈسیزن کا منتظر رہوں گا
سو ٹیک یور ٹائم۔۔۔۔۔یشب سنجیدگی سے اسے اپنا فیصلہ سناتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا
پیچھے ہیر ساکت کھڑی تھی
کیا وہ واپس جانا چاہتی ہے ہمیشہ کے لیے۔۔۔؟؟؟اسکا دماغ اسکے دل سے سوال کر رہا تھا
یشب کے دئیے گئے وقت کے مطابق چار دن گزر چکے تھے۔۔۔ان چار دن میں یشب اس سے بلکل لاتعلق ہو گیا تھا
وہ ایک کمرے میں بلکل اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔اجنبی تو وہ پہلے بھی تھے مگر اس اجنبیت میں دشمنی تھی ، انتقام تھا اور اب وہ یکسر بےگانہ ہو چکا تھا
ہیر باوجود کوشش کے کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔دل اور دماغ میں ایک عجیب سی جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔
دماغ اسے واپس جانے کا مشورہ دے رہا تھا تاکہ یشب کو اسکے کیے گئے سلوک کی سزا مل سکے جبکہ دل اس کے برخلاف یشب کی حمایت کر رہا تھا۔۔۔۔
دل چیخ چیخ کر اسے یہیں رہنے کا مشورہ دے رہا تھا جہاں وہ شخص تھا جسے اس نے اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ ایک اچھے مرد کی حثیت سے سوچا تھا ورنہ اس پہلے تو کسی مرد نے ہیر کو اسطرح متاثر نہیں کیا تھا جیسے یشب خان آفریدی نے پہلی ملاقات کے بعد اسے بے چین کر دیا تھا
جو اب اسکا شوہر تھا اسکا محرم۔۔۔۔جسے کبھی اس نے اس روپ میں دیکھنے کی تمنا کی تھی۔۔۔۔۔چونکہ ایک نامحرم مرد کو سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں ہی آتا ہے اس لیے ہیر نے بروقت ہی اپنی تمناؤں کو لگامیں ڈال لیں تھیں
مگر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جسے بھی سہی اور جن حالات میں بھی سہی اسکی یہ تمنا پوری ہو چکی تھی۔۔۔پھر کیونکر وہ اس شخص سے الگ ہو پاتی۔۔۔۔؟؟؟
اسے بی بی جان کی چند دن پہلے کی گئی نصیحتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں انہوں نے اسے یشب کی غلطیوں کو درگزر کر کے دونوں فیملیز میں موجود رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا تھا۔۔۔
اسے مہرو کی وہ باتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں مہرو نے ہیر کے سامنے یشب کی اس سے محبت کا اقرار کیا تھا۔۔۔۔۔وہ محبت جو آج سے کئی سال پرانی تھی جسے وقت کی دھول مٹی میں اٹا ضرور گئی تھی مگر ختم نہیں کر پائی تھی۔۔۔
وہ محبت جو اب پھر سے اسکی منتظر تھی۔۔۔۔۔بانہیں پھیلائے اسے سمیٹنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔۔۔۔مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔۔
اسی کشمکش میں مزید دو دن پر لگا کر اڑ گئے۔۔۔۔
کل سنڈے تھا ہیر کے فیصلہ سنانے کا
دن۔۔
یشب بہت بے چینی اور بے قراری سے ایک ایک دن گن کر گزار رہا تھا
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اگر خدانخواستہ ہیر نے واپسی کا فیصلہ سنا دیا تو وہ کیا کرے گا کیسے کرے گا قبول اس کا یہ فیصلہ اور یہیں پر آ کر اسکا سارا غصہ سارا طنطنہ جھاگ بن کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔
کیا تھا اگر میں خود کے غصے پر تھوڑا سا کنٹرول رکھنا سیکھ جاتا تو کم از کم اتنا پریشان تو نہ ہونا پڑتا مجھے۔۔۔۔
انسان ہمیشہ غصے میں ہی کچھ ایسا کر جاتا ہے جو بعد میں اسکے اپنے لیے ہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے
اسی لیے تو ہمارے مذہب میں غصہ حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔تاکہ دونوں فریقین اسکے شر سے محظوظ رہیں۔۔۔۔مگر انسان اس وقت سمجھتا ہے یہ سب۔۔۔۔جب اسکے اپنے ہاتھ میں سوائے پچھتاوے کہ اور کچھ نہیں رہتا۔۔۔۔۔
یشب کا بھی یہی حال تھا۔۔۔۔وہ ہیر کیساتھ اپنے روا رکھے گئے سلوک،،،،اپنے عمل،،،،اپنے غصے پر پچھتا رہا تھا
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔
غصے میں خاموشی کے چند لمحات ،
پچھتاوے کے ہزار لمحات سے بہتر ہیں !
مگر یہ سمجھ یشب کو اب آیا تھا جب وقت اسکے ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل چکا تھا۔۔۔۔
“کاش”کہ یشار لالہ کا خون شمس خان نے نہ کیا ہوتا۔۔۔۔۔
“کاش” کے ہیر شمس خان کی بہن نہ ہوتی۔۔۔۔
“کاش” کہ میں نے بابا جان کی بات مان لی ہوتی۔۔۔۔۔
“کاش” میں اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر ہیر کیساتھ وہ سب نہ کرتا جو کر چکا۔۔۔۔۔
ایسے بہت سے “کاش” تھے یشب کہ پاس۔۔۔۔۔۔۔مگر وقت اب وہ نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے ان سارے “کاشں” کو پورا کر سکتا۔۔۔
گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنی ہر بات،،،،ہر عمل بہت سوچ سمجھ کر اٹھائے تاکہ بعد میں پچھتاوے کا کوئی “کاش” نہ رہ جائے ۔۔۔۔یشب آفریدی کی طرح۔۔۔۔۔۔۔

آج سنڈے تھا ہیر کے فیصلہ سنانے کا دن اور وہ فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔
مگر دل ناجانے کیوں بے چین سا تھا صبح سے۔۔۔۔اب بھی وہ حویلی کے پیچھلے احاطے میں درخت کے نیچے بنائے گئے پتھر کے بینچ پر بیٹھی اسی اداسی اور بےچینی کے بارے میں سوچ رہی تھی جب حدید کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ لائی
چاچی۔۔۔۔۔۔۔اس نے چہکتے ہوئے پیچھے سے بازو ہیر کے گلے میں ڈالے
ارے چاچی کی جان۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔؟؟ہیر نے خوشگوار حیرت سے کہتے ہوئے اسے اپنے سامنے کیا
ابھی ابھی۔۔۔۔۔۔وہ اچھلا
بتایا بھی نہیں آنے کا۔۔۔۔؟؟
میں نے ممی سے کہا تھا کہ آپ کو سرپرائز دیں گے
ہوں۔۔۔بہت اچھا سرپرائز دیا بھئی۔۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے اسکے گال چومے
ممی کہاں ہیں۔۔۔۔؟؟؟
ہال میں بی بی جان کے پاس۔۔۔۔
تو چلو پھر ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔۔۔وہ حدید کا بازو پکڑ کر کھڑی ہوئی
چلیں۔۔۔۔۔وہ اچھلتا کودتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
کاش کہ شمس لالہ سے یشار خان کا خون نہ ہوا ہوتا تو حدید اتنی سی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ہیر حدید کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچتی اسکے پیچھے پیچھے ہی ہال میں آئی
اسلام وعلیکم۔۔۔۔۔ہیر مسکرا کر کہتی مہرو کے گلے لگی
میں صبح سے ہی اداس تھی شکر ہے آپ لوگ آ گئے۔۔۔۔
ارے بھئی اداسی کی وجہ۔۔۔۔۔مہرو نے رازداری سے پوچھا
کوئی وجہ نہیں۔۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی بی بی جان کے تخت پر بیٹھی
اچھا اور سنائیں وہاں سب کیسے تھے۔۔۔۔؟؟
ہیر کے پوچھنے پر مہرو انہیں وہاں کی باتیں سنانے لگی
یشب ڈیرے پر تھا جب اسکا سیل بجا
بابا جان کا نام دیکھ کر اس نے کال اوکے کی
جی بابا جان۔۔۔۔۔۔۔
یشب کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔؟؟
میں ڈیرے پر ہوں باباجان خیریت۔۔۔۔۔
جلدی حویلی پہنچو۔۔۔۔۔وہ عجلت میں بولے
کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔یشب فکر مند ہوا
تم آو پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔۔بابا جان نے کہہ کر کال کاٹ دی
یشب پریشان ہوتا اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔
اگلے دس منٹ میں وہ ان کہ سامنے تھا
کیا بات ہے بابا جان آپ پریشان لگ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
ہوں۔۔۔۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر ہلایا
دلاور خان نے بندہ بھجوایا تھا پیغام دے کر۔۔۔۔۔۔
کیسا پیغام۔۔۔۔؟؟یشب انکی بات پر چونکا
ہیر کی بھرجائی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شمس خان کی بیوی کا۔۔۔۔
اوہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوا
یہ تو وہاں جانے پر ہی پتہ چلے گا تم ایسا کرو ہیر کو لے کر فورا نکلو کیونکہ عصر کے بعد جنازہ ہے اور دو بج چکے ہیں۔۔۔۔۔میں بھی تمہاری بی بی جان کو لے کر جنازے سے پہلے ہی آ جاؤں گا
جی۔۔۔۔۔یشب سر ہلاتا اٹھ کر ہال کیطرف آیا جہاں ہیر مہرو کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔۔یشب نے اسکے مسکراتے چہرے کو دل میں اتارا اور آہستگی سے اندر داخل ہوا
اسلام و علیکم آپ کب آئیں۔۔۔؟؟وہ سنجیدہ سا مہرو سے پوچھ رہا تھا
ابھی کچھ دیر پہلے تم سناؤ کہاں سے آ رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو خوش مزاجی سے بولی
میں ڈیرے پر تھا۔۔۔۔۔ہیر تم جا کر چادر اوڑھ آؤ ہمیں نکلنا ہے ابھی۔۔۔۔۔۔
نکلنا ہے کہاں کے لیے۔۔۔۔۔؟؟ہیر کے سوال کو مہرو نے زبان دی
ہیر کے گھر جانے کے لیے۔۔۔۔۔۔
ہیر یشب کے کہے گئے الفاظ پر دھڑام سے نیچے گری تھی۔۔۔۔
میرے گھر۔۔۔۔پر خان آپ نے تو مجھے فیصلے کا اختیار دیا تھا پھر کیوں۔۔۔۔۔؟؟وہ پریشان سی دل میں سوچ رہی تھی
ہیر تم کھڑی کیوں ہو جاؤ ہری اپ۔۔۔۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا عجلت سے بولا
خیریت ہے ناں۔۔۔۔۔۔ہیر کے وہاں سے چلے جانے کے بعد مہرو نے یشب کے چہرے پر پراسرار سنجیدگی کو دیکھ کر پوچھا
شمس خان کی بیوی کی ڈیٹھ ہو گئی ہے۔۔۔۔
اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔کیسے۔۔۔۔؟؟؟
پتہ نہیں کچھ بھی۔۔۔۔۔بندہ آیا تھا پیغام لے کر عصر کے بعد جنازہ ہے۔۔۔۔یشب نے مختصر بتایا
میں بھی چلوں ساتھ۔۔۔۔۔؟؟
آپ باباجان لوگوں کیساتھ آ جائیے گا۔۔۔
ہوں۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔مہرو نے سر ہلا دیا
اتنے میں ہیر چادر لپیٹے وہاں آئی۔۔۔
اوکے بھابھی۔۔۔۔آپ بی بی جان کو بتا دیجئے گا۔۔۔۔وہ مہرو سے کہتا ہیر کو چلنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
ہیر نے افسردہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور کچھ بھی کہے بغیر باہر کی جانب چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔
ہیر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔۔۔؟؟کیا کہے۔۔۔۔۔۔؟؟
آخر خان ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔جب فیصلہ میں نے سنانا تھا تو پھر مجھے میرے گھر لے جانے کا مقصد۔۔۔۔؟؟وہ بھی آج ہی۔۔۔۔۔آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟وہ دل میں ہمکلام تھی کیونکہ یشب کے سرخ چہرے کو دیکھ کر اس میں کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہ تھی۔۔۔
پندرہ منٹ بعد وہ لوگ ہیر کے گاؤں جانے والی سڑک پر چڑھ چکے تھے
ہیر دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتی خاموشی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔
مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟جیسے ہی پراڈو انکی حویلی کیطرف مڑی تھی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو حویلی تک جا رہی تھی۔۔۔
کافی رش تھا وہاں مردوں کا۔۔۔۔کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ہیر کو کسی انہونی کا احساس ہوا وہ فورا پلٹتی یشب کا اسٹئیرنگ پر موجود ہاتھ پکڑ چکی تھی
خا۔۔۔۔۔خان کک۔۔۔۔کیا ہوا یہاں۔۔۔۔آپ مجھے کیوں لائے ہیں یہاں۔۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں پوچھ رہی تھی
یشب جو گاڑی پارک کرنے کی مناسب جگہ دیکھ رہا تھا ہیر کے ہاتھ پکڑنے پر متوجہ ہوا
کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔تم پریشان مت ہو۔۔۔۔یشب نے اسکے اڑاے حواس دیکھ کر بتانا مناسب نہ سمجھا
خان پلیز۔۔۔بتائیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟وہ خوفزدہ سی بولی
گاڑی آگے نہیں جائے گی اس لیے تم یہیں سے حویلی تک چلی جاؤ۔۔۔میں گاڑی پارک کر دوں۔۔۔۔۔یشب اسکی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولا
نن۔۔۔۔نہیں مجھے نہیں جانا آپ۔۔۔۔۔آپ مجھے واپس لے جائیں میں حویلی نہیں جاؤں گی
کم آن ہیر۔۔۔۔چلو میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔یشب اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور
ہیر کیطرف آ کر اس کا ڈور اوپن کیا۔۔۔۔آؤ۔۔۔
میں۔۔۔نہیں۔۔۔۔اسکے مزید بولنے سے پہلے ہی یشب اسے باہر نکال چکا تھا
وہ ہیر کا ہاتھ تھام کر ساتھ چلتا ہوا حویلی کے گیٹ تک گیا
اب جاؤ تم میں بھی یہیں ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے دونوں ہاتھوں سے یشب کے بازو کو زور سے پکڑا۔۔۔۔۔جیسے کوئی ننھا بچہ کسی اپنے کے دور جانے سے خوفزدہ ہوتا ہے۔۔
یشب نے اسے دیکھ کر اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔مگر ہیر اسکا بازو تھامے وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔
یشب اپنے بازو سے اسکے ہاتھ ہٹا کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔چاروناچار ہیر بھی خوفزدہ سی پاؤں گھسیٹتی اندر داخل ہوئی اور وہاں عورتوں کا جھمگٹا دیکھ کر وہ جان چکی تھی کہ اس کا کوئی پیارا اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے۔۔۔۔
مگر کون۔۔۔۔؟؟فلحال وہ یہ جان نہیں پائی تھی
ہیر جب دس دن پہلے اپنی حویلی آئی تھی تو تب اسے پھوپھی بننے کی خوشخبری ملی تھی۔۔۔
شمس اور پروشہ کی شادی کے چھ سال بعد ان کو اولاد کی نوید ملی تھی۔۔۔۔حویلی میں خوب صدقے و خیرات کیے گئے تھے۔۔۔۔۔جہاں ہر کوئی اس خبر پر خوش تھا وہیں سب ہیر کی غیرموجودگی پر افسردہ بھی تھے۔۔۔۔۔۔
خدا خدا کر کے یہ وقت گزرا تھا اور آج وہ خوشی جسکا پیچھلے کئی ماہ سے بے چینی سے انتظار کیا گیا تھا اپنے ساتھ غم بھی لے آئی تھی
پروشہ ڈلیوری کے دوران ہی بیٹی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔۔۔
ہر آنکھ پرنم تھی ہر دل دکھی تھا پروشہ کی جواں موت پر۔۔۔۔۔۔۔
پر قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے بھلا۔۔۔۔؟؟
چار دن ہو گئے تھے پروشہ کو اس دنیا سے گئے۔۔۔۔
مہرو ، بی بی جان ، یشب اور خاقان آفریدی اسکے جنازے کے بعد واپس آفریدی حویلی آ گئے تھے
ہیر وہیں تھی۔۔۔۔بے چین سی افسردہ سی۔۔۔بہت بڑی قیامت ٹوٹی تھی انکی حویلی پر۔۔۔
ہیر چار دن کی بھتیجی کو چپ کرواتی خود بھی رونے لگی تھی۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا تھا ان کیساتھ۔۔۔۔۔وہ معصوم سی بچی ہمیشہ کے لیے ماں سے محروم گئی تھی یہیں سوچ ہیر کا کلیجہ کاٹ رہی تھی۔۔۔وہ ابھی شمس لالہ کے کمرے سے ہو کر آئی تھی۔۔۔۔۔۔
جو بھابھی کے جانے کے بعد سے بلکل خاموش ہو گئے تھے۔۔۔وہی خاموشی جس خاموشی سے آٹھ ، نو سال پہلے انہوں نے بہت مشکل سے باہر نکالا تھا اسے۔۔۔۔
ہیر بہت مشکل سے انہیں چند نوالے کھلا کر آئی تھی۔۔۔۔۔
وہ بچی کو گود میں لیے بیٹھی رو رہی تھی جب رحیمہ کمرے میں آئی
ہیر بی بی اسے مجھے دیں آپ سے چپ نہیں ہو گی۔۔۔۔رحمیہ نے بچی کو اسکی گود سے لیا اور جھلاتے ہوئے لوری دینے لگی۔۔۔۔چند منٹ بعد ہی بچی سو گئی
ہیر بی بی اسے یہیں لیٹا دوں۔۔۔۔۔؟؟
ہاں لیٹا دو۔۔۔۔۔ہیر نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر وضو کرنے چل دی
ہیر کو دیکھے آج چار دن ہو گئے تھے اور یہی بات یشب کو ڈسٹرب کر رہی تھی وہ اسے اس دن جس حالت میں چھوڑ کر آیا تھا اسے سوچ سوچ کر پیچھلے چار دن سے وہ بے چین تھا۔۔۔۔
مہرو اسے چائے دینے آئی تھی۔۔۔جب یشب کو کسی غیر مرئی نکتہ کو گھورتے پایا
کیا حالت بنا لی ہے یشب۔۔۔۔خدانخواستہ ہیر وہاں ہمیشہ کے لیے تو نہیں گئی جو تم مجنوں بنے بیٹھے ہو۔۔۔۔
بھابھی۔۔۔۔۔مجھے ہیر کی طرف سے پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔
کیسی پریشانی۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو پاس پڑے کاؤچ پر بیٹھی
وہ اسکی حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں تھی اس دن۔۔۔۔۔
صدمہ بھی تو اتنا بڑا ملا تھا ناں۔۔۔۔مہرو افسردہ ہوئی
ہوں۔۔۔۔۔پر ہم میں سے کوئی دوبارہ وہاں نہیں گیا
تو روکا کس نے ہے دیور جی جب چاہیں چلے جائیں دیدار یار کی خاطر۔۔۔۔۔۔مہرو نے اسکی بے چینی پر چھیڑا
یشب جھینپ کر مسکرا دیا۔۔۔
بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔۔
اچھا چلو جلدی سے یہ چائے ختم کرو اور جا کر ہیر سے مل آؤ تاکہ تمہاری شکل پر کچھ تو فریشنیس دیکھنے کو ملے۔۔۔مہرو اسکے بال بکھیرتی مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی
یشب نے جلدی سے چائے ختم کی اور چینج کرنے کے بعد ہیر کے گاؤں روانہ ہو گیا اس سے ملنے کے لیے۔۔۔۔۔
یشب مردانے میں دلاور خان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔۔۔
جب وہ آیا تھا تو شمس خان بھی وہیں موجود تھا۔۔۔۔۔۔اس دوران یشب اور شمس کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔نہ ہی شمس کچھ بولا اور نہ ہی یشب نے اس سے افسوس کیا۔۔۔۔کچھ دیر بعد شمس خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔اسکے جانے کے بعد یشب نے ہچکچاتے ہوئے دلاور خان کو ہیر سے ملنے کا کہا تھا۔۔۔
ہاں ضرور ملو بیٹا۔۔۔۔میں سمندر خان سے کہتا ہوں تمہیں وہاں چھوڑ آئے۔۔۔۔دلاور خان اسکا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئے
چند منٹ بعد یشب سمندر خان کیساتھ حویلی کے رہائشی حصے کی طرف آیا۔۔۔۔۔۔۔
ہیر ظہر کی نماز پڑھ کر نیچے آ گئی تھی جہاں عورتیں بیٹھیں یسین پڑھ رہیں تھیں۔۔۔۔ہیر بھی انکے درمیان آ کر بیٹھی اور یسین پڑھنے لگی۔۔۔۔
عصر کی اذان کے بعد وہ یسین رکھتی اٹھی اور نماز پڑھنے کے لیے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔وہ راہداری میں تھی جب اسکی نظر سامنے سے آتے یشب آفریدی پر پڑی۔۔۔
ہیر جہاں تھی وہیں رک گئی۔۔۔۔یشب بھی اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے چلتا پاس آیا۔۔۔۔
کیسی ہو۔۔۔۔۔؟؟مدھم سرگوشی ہوئی
ہیر نے اسکی طرف دیکھا اور اسکی نظروں میں اپنے لیے فکر دیکھتی خود پر کنٹرول کھو کر اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔
سب ختم ہو گیا خان۔۔۔۔۔میرے لالہ کا گھر اجڑ گیا۔۔۔۔وہ اکیلے رہ گئے خان۔۔۔۔۔۔ہمارے گھر کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔۔وہ اسکا گریبان پکڑے روتی ہوئی بول رہی تھی
کچھ دیر اسے روتے رہن دینے کے بعد یشب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔۔۔۔۔
مت روؤ پلیززز۔۔۔۔تمہیں یاد ہے ہیر۔۔۔۔ایک بار میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے عورتوں کے رونے سے نفرت ہے۔۔۔۔تب میرا مطلب صرف تمہیں رونے سے منع کرنا تھا۔۔۔۔
میں۔۔۔۔میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا ہیر مگر پھر بھی بہت سا رولایا ہے تمہیں۔۔۔۔۔
پر اب۔۔۔۔۔اب مزید نہیں۔۔۔۔۔۔میں ان آنکھوں میں مزید آنسو نہیں دیکھ سکتا ہیر۔۔۔۔۔یشب نے اسکے گال پر پھسلتے آنسو کو انگلی کے پوروں پر لیا۔۔۔۔
اب اور نہیں میری جاں۔۔۔۔۔یشب نے اسکی سرخ سوجی آنکھوں کو لبوں سے چھو کر سرگوشی کی
اسکی حرکت پر ہیر ہچکچاتی خود میں سمٹ گئی
میں تمہیں دیکھنے آیا تھا دیکھ لیا اب چلتا ہوں۔۔۔۔وہ پیچھے ہٹتا بولا
کچھ دیر تو رک جائیں خان۔۔۔۔ہیر بھاری آواز میں بولی رو رو کر اسکا گلا بیٹھ چکا تھا
یشب نے اسے ساتھ لگا کر سر پر بوسہ دیا۔۔۔میں پھر آؤں گا۔۔۔۔ہوں۔۔۔؟؟
جی۔۔۔گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟
ٹھیک ہیں مگر تمہارے بغیر اداس ہیں۔۔۔
میں کچھ دن اور رکنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ہیر نے سوالیہ نظروں سے یشب کو دیکھا
رہ لو۔۔۔۔جب تک چاہو مگر۔۔۔۔وہ رکا
مگر۔۔۔۔۔۔؟؟؟
مگر یہ کہ تم رو کر ان نینوں پر مزید ستم نہیں کرو گی ہاں۔۔۔۔۔
“ہائے رے تیرے جھیل سے نین !
ان نینوں میں ڈوبنے کو دل کرتا ہے،”
جی۔۔۔۔۔ہیر نے آہستگی سے سر ہلایا
اپنا خیال رکھنا میرے لیے۔۔۔۔۔یشب نے محبت سے کہہ کر اسکا ہاتھ چوما اور خداحافظ کہتا پلٹ گیا
ہیر اسکے اوجھل ہونے تک اسکی پشت کو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔
اس روز ہیر نے یشب کو یہی فیصلہ سنانا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اس کے ساتھ اسکی محرم،،،اسکی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے مگر اس روز وقت نے مہلت ہی نہ دی تھی کہ ہیر یشب کو اپنا فیصلہ سنا پاتی۔۔۔۔۔۔
مرد چاہے جو بھی کرے جو بھی کہے مگر ایک وفا شعار عورت ہمیشہ اپنے مرد کی محبت کی پجاری ہوتی ہے۔۔۔۔آپ اس پر جتنے بھی ظلم کرتے رہیں مگر محبت کی ایک نگاہ پڑتے ہی وہ سارے ظلم، سارے زخم بھلا کر پلٹ آتی ہے۔۔۔یہ ہے عورت کی عظمت۔۔۔
اور ہیر ایک عظیم عورت تھی۔۔۔۔۔۔
اماں میں دعا(شمس کی بیٹی)کو اپنے ساتھ ہی لے جاتی ہوں۔۔۔ہیر نے کچھ فاصلے پر کاٹ میں لیٹی اس معصوم پری کو دیکھ کر کہا
) پروشہ کی موت کے دس دن بعد ہیر کو ہی بچی کا نام رکھنے کا خیال آیا تھا۔۔۔۔اس نے شمس کو کہا مگر شمس ہیر پر چھوڑتا سائیڈ پر ہو گیا۔۔تب ہیر نے بچی کا نام دعا شمس خان رکھا تھا )
کیسی باتیں کر رہی ہو ہیر۔۔۔۔دعا کو تم کیوں لے جاؤ گی بھلا۔۔۔؟؟خدیجہ حیران ہوئیں
یہاں کون کرے گا اسکی دیکھ بھال۔۔۔؟؟
تم اپنے گھر اپنے سسرال میں خوش رہو ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔۔۔دعا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے میری جان۔۔۔میں زندہ ہوں ابھی اسکی دیکھ بھال کے لیے۔۔۔۔
مگر اماں یہ اتنی چھوٹی سی ہے۔۔۔۔۔ہیر فکرمند ہوئی
تم بھی اتنی سی تھی جب تمہیں بھی میں نے ہی سنبھالا تھا۔۔۔۔وہ مسکرائیں
ہوں۔۔۔۔ہیر بھی انکی بات پر مسکرا دی
اماں۔۔۔۔مجھ سے لالہ کی اداسی دیکھی نہیں جا رہی اب۔۔۔۔اب آگے کیا ہو گا۔۔۔۔؟؟چند منٹ بعد وہ پھر سے افسردہ ہوتی بولی
تم پریشان مت ہو۔۔۔جو زخم دیتا ہے وہ مرہم بھی رکھ دیتا ہے۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی سنبھل جائے گا۔۔۔۔تم بس اپنے گھر کی فکر کرو۔۔۔۔میں تمہارے بابا سے کہتی ہوں وہ خود جا کر چھوڑ آئیں تمہیں۔۔۔۔
نہیں اماں۔۔۔۔میری یشب سے بات ہو گئی تھی وہ کل صبح آئیں گے مجھے لینے۔۔۔۔
چلو اچھا ہے۔۔۔۔خدا میری بچی کو سدا سہاگن رکھے آباد رکھے۔۔۔۔انہوں نے ہیر کا ماتھا چوم کر ساتھ لگایا
آمین۔۔۔۔۔ہیر نے کہہ کر سر اماں کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں
اگلی صبح وہ سب کی دعاؤں تلے پورے ایک ماہ بعد یشب کیساتھ واپس آ گئی تھی
اس ایک ماہ میں مہرو اور یشب ایک ،دو بار اس سے آ کر مل گئے تھے۔۔
ہیر کچھ دیر بی بی جان اور مہرو کے پاس بیٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔۔
یشب کمرے میں موجود نہ تھا۔۔۔۔اس نے چادر اتاری اور بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل اتارنے لگی جب یشب سیل کان سے لگائے بات کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔
ہیر نے اسے دیکھ کر پاس پڑی چادر پھر سے اوڑھ لی۔۔۔
یشب نے ہیر کو دیکھ کر کال بند کی اور اسکے سامنے آ کھڑا ہوا
ویلکم بیک ٹو مائی لائف۔۔۔۔۔۔وہ مسکرایا
ہیر نے اسکی شوخ نظروں سے بچنے کو سر جھکا کر سائیڈ سے نکلنا چاہا مگر یشب نے اسکا ارادہ بھانپتے ہوئے دونوں طرف بازو پھیلا کر راستہ بند کیا
پلیز خان۔۔۔۔۔مجھے چینج کرنے دیں نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ہیر نے ٹھوس جواز پیش کیا
اوکے پڑھ لینا نماز۔۔۔۔مل تو لو پہلے مجھے۔۔۔میں تو ترس گیا تھا تم سے ملنے کو۔۔۔یشب نے اسکے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھ کر قریب کیا۔۔۔۔
پلیز خان تنگ مت کریں۔۔۔۔۔وہ منمنائی
ارے تنگ میں نہیں تم کر رہی ہو مجھے۔۔۔۔یشب نے محظوظ ہوتے ہوئے اسے سینے سے لگا کر کان کے پاس سرگوشی کی
آئی لو یو
میری نماز۔۔۔۔۔ہیر یشب کی گرفت میں کسمسائی
اوہ یس۔۔۔۔۔نماز زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔وہ ہنستا ہوا پیچھے ہٹا
یار مسکرا تو دو یوں لگ رہا ہے جیسے میں گن پوائنٹ پر رومینس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔
ہیر اسکی بات پر بے اختیار مسکرا دی
ڈیٹس گڈ۔۔۔۔۔اب جاؤ اس پہلے کہ میرا دل بے ایمانی پر اکسائے۔۔۔۔یشب نے آنکھ دبائی
ہیر نے اسکی بات سن کر بھاگنے کے انداز میں ڈریسنگ روم میں جا کر دروازہ بند کیا
یشب کا بلندوبالا قہقہہ اسے بند دروازے سے بھی باخوبی سنائی دیا تھا

if you like share with your friends on Facebook


1 thought on “Aurat Aik Khilona Part 7 | Urdu Novel 2025 Emotional Story in Urdu”

  1. Pingback: Aurat Aik Khilona Part 8 | Best Urdu Novel | Best Urdu Kahaniyan

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top