💔 “Aurat Aik Khilona Part 9” takes the emotional journey to new heights, focusing on the intense struggles of a woman against societal cruelty and betrayal. This best Urdu story delves deep into the theme of zyadati (injustice), portraying a woman’s fight for justice, dignity, and survival in a world full of hardships.
📖 Part 9 of this Zyadati Urdu Novel unfolds with heart-wrenching twists that will keep you hooked. From the pain of betrayal to the emotional struggles of the protagonist, this best Urdu novel will resonate deeply with readers who appreciate strong emotional storytelling.
🌟 What You’ll Discover in This Part:
✅ Best Urdu Story showcasing the struggles of women
✅ A Zyadati Urdu Novel focused on injustice and its aftermath
✅ Emotional depth with themes of betrayal, love, and survival
✅ A gripping plot that reflects the challenges faced by women in society
🔍 Related Keywords:
- Zyadati Urdu Novel
- Best Urdu Story
- Best Urdu Novel 2025
- Urdu Novel About Women’s Struggles
- Emotional Urdu Novel
- Injustice in Urdu Novels
- Urdu Story of Betrayal and Love
📢 Dive into this powerful emotional journey now and share your thoughts! ✨📖

Zyadati Urdu Novel
Read Here >>>> Aurat Aik Khilona Part 8 | Best Urdu Novel
آپ کا مطلب ہے آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔؟؟ہیر لرزتی آواز میں بولی
میں نے ایسا کب کہا۔۔۔۔؟؟؟ یشب اسکے پانیوں سے بھرے نین کٹورے دیکھ کر نرم پڑا
ابھی کہا آپ نے کہ اگر ایسا ہوا تو میری بھی یہاں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔۔پانی پلکوں کی باڑ توڑ کر گال پر پھسلا
“جھانکیے مت ان آنکھوں میں جناب،
ان میں خطرہ ہے ڈوب جانے کا۔۔۔۔!”
ارے کیا ہوا۔۔۔۔؟؟یشب نے اسکا بازو تھام کر قریب کیا اور مسکراتے ہوئے ہیر کے آنسو پونچھ کر نم آنکھوں کو لبوں سے چھوا
غصے میں کہہ دیا یار تم تو سیریس ہی ہو گئی۔۔۔۔میں ایسا کر سکتا ہوں کبھی۔۔۔؟؟وہ پیار سے بولا
ہیر جانتی تھی یشب کو جب اس پر ٹوٹ کر پیار آتا تھا تو ہی وہ اسکی آنکھوں کو چھوتا تھا۔۔۔اسلئیے ریلیکس ہوتی سیدھی ہو بیٹھی
آج کے بعد اگر غصے سے بھی ایسا کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔
تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچی
تم بیویاں بہت چالاک ہوتی ہو ذرا بھنک لگ جائے کہ شوہر کی کمزوری ) ہیر کے آنسو ( کیا ہے ہر بات پر اسی سے بلیک میل کرتی ہو۔۔۔۔
ہاں تو آپ شوہروں کو بھی چاہیے کہ ایسی بات ہی نہ کریں کہ بیویوں کو بلیک میل کرنا پڑے۔۔۔۔وہ اٹھلائی
اچھا اٹھو کھانے کو لاؤ کچھ بھوک لگ گئی ہے۔۔۔۔
پہلے میری پوری بات بنا غصے اور ٹوکنے کے سنیں پھر جاتی ہوں کھانا لینے۔۔۔
بولو۔۔۔۔۔یشب نے ریلیکس ہو کر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کیں وہ جانتا تھا ہیر ایسے نہیں ٹلے گی
یشب اگر ایسا ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی اتنی ینگ ہیں ساری زندگی بیوگی کی چادر اوڑھ کر تو نہیں گزار سکتی حدید تو بہت چھوٹا ہے ابھی۔۔۔۔۔بھابھی کے بھی کچھ ارمان ہوں گے خواہشات ہوں گی جو یشار خان کے چلے جانے سے ادھورے رہ گئے ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ انکی ادھوری خواہشات اور خوشیاں ان کو لٹا دیں۔۔۔کیونکہ اب ان کے بارے میں مجھے آپکو اور باقی گھروالوں کو ہی سوچنا ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔وہ رسان سے بولی
مجھ بھابھی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے ہیر۔۔۔۔۔
تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟
پھر یہ کہ مجھے انکی شمس خان سے شادی پر اعتراض ہے۔۔۔
یشب۔۔۔۔آپ نے ہی مجھ سے کہا تھا ناں کہ ہیر ماضی میں جو بھی ہو چکا اس سب کو بھلا کر نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں تو پھر اب خود کیوں ماضی میں جھانک رہے ہیں۔۔۔۔
دیکھیں میں مانتی ہوں شمس لالہ سے یشار خان کا خون ہوا مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کسی دشمنی کے تحت نہیں بلکہ غلطی سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔آپ کا رویہ لالہ کیساتھ کیسا ہے میں جانتی ہوں مگر میں نے کبھی بھی آپ سے اس بات کی شکایت نہیں کی۔۔۔۔پھر کیوں آپ سب بھلاتے نہیں ہیں۔۔۔۔
لالہ میں کس چیز کی کمی ہے خان۔۔۔وہ پڑھے لکھے ہیں۔۔۔اچھی شکل وصورت کے مالک ہیں۔۔۔۔اتنی بڑی جاگیر کے اکلوتے وارث ہیں۔۔۔۔کچھ دیر کو اس بات کو بھول جائیں کہ لالہ سے آپ کے بھائی کا خون ہوا تھا۔۔۔۔پھر سوچ کر بتائیں کہ کیا وہ ایک مکمل انسان نہیں جس کو ہم مہرو بھابھی کو سونپ سکیں۔۔۔۔۔۔۔
ایک منٹ۔۔۔یشب پلیز میری بات مکمل ہونے دیں پہلے۔۔۔۔ہیر نے اسے منہ کھولتے دیکھ کر روکا
مہرو بھابھی بمشکل ہی تیس کی ہوں گی ابھی تو بہت لمبی زندگی پڑی ہے یشب جسے وہ تنہا نہیں گزار سکتی ہیں۔۔۔۔کسی سہارے کی ضرورت ہے جو ان کو سنبھال سکے انکی خوشیاں لوٹا سکے انہیں مان دے سکے۔۔۔۔اور مجھے پورا یقین ہے شمس لالہ انکے لیے ایک اچھا سہارا ثابت ہوں گے یشب۔۔۔۔وہ دونوں ایک جیسے غم سے گزر چکے ہیں اسلئیے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔وہ پراثر انداز میں اسے قائل کر رہی تھی
تمہیں کیا لگتا ہے بھابھی کے لیے سب کچھ بھلا کر اپنے شوہر کے قاتل کیساتھ زندگی گزارنا آسان ہو گا۔۔۔؟؟
آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں ہو گا میں جانتی ہوں بھابھی اپنے بڑوں کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے بس آپ چپ رہیں اس معاملے میں۔۔۔
ہم مہرو بھابھی کیساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کریں گے یشب۔۔۔اگر وہ مان جاتی ہیں تو پھر آپ کوئی ایشو کری ایٹ نہیں کریں گے اس معاملے کو لے کر۔۔۔۔آپ کو میری قسم۔۔۔ہیر نے یشب کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا
پوری بلیک میلر ہو۔۔۔۔
آپکے ساتھ رہ رہ کر ہو گئی ہوں۔۔۔۔وہ مسکرائی
فائن نہیں کروں گا کوئی ایشو کری ایٹ۔۔۔اب خوش۔۔۔
بہت خوش۔۔۔۔مننه او ستا سره مینه لرم ډیر خان صاحب۔۔۔۔
) تھینکس اینڈ لو یو آ لوٹ خان صاحب)۔۔۔۔۔۔وہ شرارت سے پشتو میں کہتی بیڈ سے نیچے اتری
اب جا کہاں رہی ہو جواب تو لیتی جاؤ اپنی بات کا۔۔۔۔۔یشب نے اسے باہر کیطرف جاتے دیکھ کر آواز لگائی
آ کر لوں گی جناب۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتی کمرے سے نکل گئی
یشب قائل تو لال حویلی سے ہی ہو کر آیا تھا کہ مہرو بھابھی کی شادی کر دینی چاہیے مگر دل شمس خان سے شادی پر راضی نہیں تھا
وہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ شمس نے کسی دشمنی کی بنا پر یشار کو قتل نہیں کیا تھا کیونکہ ان لوگوں کی کبھی کسی بھی قبیلے سے کوئی دشمنی نہ رہی تھی۔۔۔۔خاقان آفریدی صلح جو اور نرم طبیعت کے مالک تھے لہذا انکی نہ ماضی میں کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی حال میں۔۔۔۔۔تو پھر شمس یشار لالہ کا خون کیوں کر کرتا۔۔۔۔؟؟
زبیر خان نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔
اگر شمس ارادتا یشار کو قتل کرتا تو پھر اسکی ڈیڈ باڈی لے کر خود حویلی نہ آتا۔۔۔اور نہ ہی زبیر خان کو فون کر کے بتاتا کہ اس کے ہاتھوں سے یشار خان آفریدی کو گولی لگ گئی ہے۔۔۔۔
یہ سب اچانک ہوا تھا جس میں شمس کا کوئی قصور نہیں تھا یشب۔۔۔تو پھر کیونکر اس بات کو لے کر انکار کیا جائے۔۔۔۔۔زبیر نے یشب کو سمجھاتے ہوئے کہا
وہ سب اس وقت لال حویلی کے دالان میں بیٹھے شمس کے پرپوزل پر بات کر رہے تھے۔۔۔۔
اور ویسے بھی میں شمس کو ایک عرصے سے جانتا ہوں ہم کلاس فیلوز رہ چکے ہیں وہ دوست تھا میرا۔۔۔۔ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان ہے وہ۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کے زمانے میں وہ اکثر حویلی آتا جاتا رہتا تھا اماں بھی مل چکی ہیں شمس سے۔۔۔۔زبیر خان نے اماں کی طرف اشارہ کیا
ہاں یشب بچے۔۔۔۔شمس اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے زبیر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔اماں نے بھی شمس خان کی حمایت کی
اس گھر کے بڑے اور مہرو کے بھائی ہونے کے ناطے مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے یشب۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اپنی بیٹی تمہیں دے رکھی ہے پھر اس رشتے کے پیچھے ان لوگوں کی بری نیت نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو۔۔۔۔۔زبیر نے بات مکمل کر کے یشب کا کندھا تھپکا
مجھے بھابھی کی شادی پر کوئی مسلہ نہیں ہے لالہ میں شمس خان کو انکے شوہر کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتا بس۔۔۔۔کوئی اور اچھا رشتہ بھی تو مل سکتا ہے ہمیں۔۔۔۔یشب شکستہ سا بولا
مل سکتا ہے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔
مگر کچھ نہیں زبیر۔۔۔۔یہ یہاں کا بڑا نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو ترجیع دی جائے۔۔۔۔مجھے تمہیں اور بھرجائی (مہرو کی امی) کو جب کوئی اعتراض نہیں تو پھر یشب کا اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔خاقان آفریدی نے بھی زبیر خان کے فیصلے کی حامی بھری
جب میرا انکار یا اقرار کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو پھر اس محفل کا حصہ کیوں بنا رکھا ہے مجھے۔۔۔۔آپ لوگوں کا جو دل کرے وہ فیصلہ کریں۔۔۔میں صرف مہرو بھابھی کے فیصلے کو ہی ترجیع دوں گا اگر انکو کوئی مسلہ ہوا تو میں ان کیساتھ کھڑا ہوں گا بابا جان۔۔۔۔
میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔وہ سپاٹ چہرے سے کہتا باہر نکل گیا
وہاں تو سب راضی تھے شمس خان کے رشتے پر سوائے یشب کے۔۔۔۔۔
جب میں مہرو بھابھی کے فیصلے کیساتھ ہوں تو پھر مزید اس معاملے پر کچھ اور سوچنے کو باقی نہیں بچتا۔۔۔یشب نے لال حویلی میں ہوئی بات چیت کو سوچ کر لمبی سی سانس خارج کی اور خود کو ریلیکس کرتا تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا
میں یشب کو تو ٹھنڈا کر چکی ہوں اس معاملے پر مگر مہرو بھابھی کو کیسے قائل کروں گی۔۔۔۔؟؟
یشب نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔
مہرو بھابھی کے لیے ہر گز آسان نہیں ہو گا شمس لالہ کو اپنے شوہر کے روپ میں قبول کرنا۔۔۔۔وہ سوچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب گل نے بی بی جان کا پیغام دیا وہ ہیر کو اپنے کمرے میں بلا رہیں تھیں۔۔۔
ہیر بلاوے پر انکے کمرے کی طرف بڑھ گئی
بی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔؟؟اس نے بی بی جان کے کمرے میں آ کر پوچھا
ہاں آؤ بیٹھو یہاں مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
ہیر جانتی تھی کہ ضروری بات کیا ہو گی اسلیئے سر ہلاتی انکے سامنے بیٹھ گئی
خان نے مجھے بتایا کہ لال حویلی والوں نے کیوں بلوایا تھا انہیں۔۔۔۔بی بی جان نے گلا کھنکار کر بات شروع کی
جی۔۔۔۔۔
تم جانتی تھی پہلے سے یہ بات۔۔۔۔۔؟؟انہوں نے سوالیہ نظروں سے ہیر کو دیکھا
نہیں بی بی جان اماں اور بابا نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی بھابھی کہ گھر والوں سے بات کر لی تھی مجھے بھی کل ہی بتایا اماں نے۔۔۔۔۔اگر مجھے علم ہوتا تو میں آپ لوگوں سے اجازت کے بعد ہی مہرو بھابھی کہ گھر والوں سے بات کرنے کا کہتی انہیں۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔۔۔بی بی جان مطمعین ہوئیں
آپ کو برا لگا بی بی جان۔۔۔۔؟؟
نہیں بچے مجھے کیوں برا لگے گا مہرو میری بھتیجی بھی ہے میں بھی چاہتی ہوں کے وہ ایک خوشگوار زندگی گزارے۔۔۔اس رشتے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لال حویلی میں۔۔۔۔یہاں
بھی صرف یشب اور مہرو کو ہی اعتراض ہے۔۔۔۔۔
بی بی جان یشب سے بات ہو گئی ہے میری انہوں نے کہا کہ اگر بھابھی راضی ہوئی تو انکو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔۔بھابھی سے بات کر لی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟
ہاں ابھی تمہارے آنے سے پہلے کی تھی بھابھی ) مہرو کی امی )کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی کہ وہ زبیر کو بھیج رہی ہیں مہرو کو لینے کے لیے اس لیے ایک دفعہ میں بات کر لوں اس سے۔۔۔۔
پھر کیا کہا بھابھی نے۔۔۔۔؟؟ہیر پرجوش ہوئی
کہہ رہی ہے اسے شادی ہی نہیں کرنی۔۔۔۔وہ حدید کیساتھ ہی زندگی گزار لے گی۔۔۔۔اسے اب کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔۔۔۔
بی بی جان کی بات پر ہیر کا منہ لٹک گیا
میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے ہیر بچے مہرو سے بات کرو جا کر کہ زندگی بغیر کسی مرد کے سہارے کے گزارنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے اس بارے میں۔۔۔۔
جی بی بی جان میں کرتی ہوں بات۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔زبیر کے آنے سے پہلے ہی بات کر لینا شاید شام تک وہ آ جائے مہرو کو لینے۔۔۔۔
جی میں جاتی ہوں ابھی۔۔۔ہیر سر ہلاتی کمرے سے باہر نکلی اور بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ترتیب دیتی مہرو کے کمرے کیطرف چل پڑی
ہیر جب مہرو کے کمرے میں داخل ہوئی تو مہرو صوفے پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی
بھابھی۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکارا
ہوں۔۔۔۔مہرو آنسو پونچھتی سیدھی ہوئی
آپ رو رہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا
نہیں۔۔۔۔بس ایسے ہی تم آؤ بیٹھو۔۔۔۔وہ افسردہ سا مسکرا کر بولی
ہیر اسکے ساتھ ہی صوفے پر ٹک گئی
بھابھی وہ میں۔۔۔۔ہیر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات شروع کرے۔۔۔۔
وہ میں آپ سے ضروری بات کرنے آئی تھی۔۔۔۔وہ ہچکچا کر بولی
اگر تمہیں بی بی جان نے یہاں بھیجا ہے تو میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہیر۔۔۔۔۔۔
بھابھی پلیز ایک دفعہ میری بات سن لیں۔۔۔وہ ملتجی ہوئی
ہیر پلیز میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہے۔۔۔۔
بھابھی شمس لالہ بہت اچھے ہیں۔۔۔
ہیر کی بات پر مہرو نے پرشکوہ نظروں سے اسے دیکھا
لالہ نے یشار خان کو جان بھوج کر نہیں مارا تھا بھابھی۔۔۔۔ہیر نے وضاحت دی
میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔
تو پھر اس بات کو سوچنے میں کیا برائی ہے بھابھی۔۔۔۔
کوئی برائی نہیں ہے پر میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تو پھر سوچ کر کیا کروں گی۔۔۔۔؟؟مہرو دکھی لہجے میں بولی
بھابھی آپ لالہ کیساتھ بہت اچھی زندگی گزاریں گی مجھے پورا یقین ہے۔۔۔۔ایک بار۔۔۔۔صرف ایک بار سب کچھ بھلا کر اس بارے میں سوچیں تو۔۔۔۔
سوچ لوں گی۔۔۔۔وہ کہہ کر کھڑی ہوئی
بھابھی پلیز ہم سب آپ کے اچھے کے لیے ہی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔
میں جانتی ہوں ہیر۔۔۔۔سب میری بھلائی چاہتے ہیں۔۔۔۔
آپ خفا ہو گئی ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟
میں کیوں خفا ہوں گی تم سے ہیر۔۔۔۔
بھابھی میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی پہلے کل ہی اماں نے بتایا کہ بابا زبیر لالہ سے رشتے کی بات کر چکے ہیں۔
میں تم سے خفا نہیں ہوں ہیر۔۔۔۔تم بہت اچھی ہو اور میں تم سے خفا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔مہرو نے اسکے گال پر ہاتھ رکھے پیار سے کہا
تو پھر میری بات مان لیں ناں بھابھی۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
کہا ہے ناں سوچوں گی۔۔۔
آپ مجھے ٹال رہی ہیں۔۔۔۔
نہیں ٹال رہی ہوں۔۔۔ابھی لال حویلی جاؤں گی تو وہاں بھی سب یہی بات کریں گے جیسے صبح بی بی جان اور بابا جان نے کی۔۔۔۔اور اب تم۔۔۔۔
سب کے بار بار کہنے سے مجھے ماننا پڑے گا ہیر۔۔۔۔کیونکہ میں ایک عورت ہوں
میری اپنی کوئی مرضی ہو نہ ہو پر مجھے اپنے گھر والوں کی مرضی کے مطابق ہی چلنا پڑے گا
یہی زندگی ہے ہم عورتوں کی ڈگڈگی بن کر زندگی گزارتے جاؤ۔۔۔۔وہ تلخی سے کہتی کبڈ کیطرف بڑھی
تم بھی تو جانتی ہو۔۔۔۔تمہارے ساتھ ایک عورت ہونے کے ناطے جو ہو چکا ہے وہ سب بھولا تو نہیں ہو گا تمہیں۔۔۔؟؟مہرو نے کبڈ کا ایک پٹ کھولتے ہوئے کہا
مجھے یاد ہے سب بھابھی شاید چاہ کر بھی بھول نہیں پاؤں گی مگر اسکے بدلے مجھے اتنا کچھ مل چکا ہے کہ میں اس سب کو خود ہی یاد نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔
آپ کو یاد ہے ایک دفعہ آپ نے ہی کہا تھا کہ ہیر صبر سے برداشت کر لو ایک نہ ایک دن تمہیں اس صبر کا پھل ضرور ملے گا۔۔۔۔تو بھابھی مجھے وہ پھل مل چکا ہے۔۔۔اس لیے میں چاہتی ہوں آپ بھی دل میں کوئی خوف، وہم یا زبردستی رکھے بغیر سوچیں۔۔۔
ہم عورتوں کی واقعی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہم اپنے باپ، بھائیوں اور شوہروں کی خواہشات کے آگے سر جھکاتی آئی ہیں اور آگے بھی جھکاتی رہیں گی۔۔۔
مگر اس بات پر بھی انکار نہیں کہ ایک عورت کو زندگی گزارنے کے لیے مرد کے سہارے کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔چاہے وہ سہارا باپ کی صورت میں ہو بھائی یا پھر شوہر کے۔۔۔۔ان سہاروں کے بغیر ہم عورتیں کچھ بھی نہیں ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر رسان سے کہتی مہرو کو قائل کر لینا چاہتی تھی
میں مانتی ہوں یہ بات کہ مرد کا سہارا ایک عورت کے لیے بہت ضروری ہے ہیر۔۔۔اس لیے میں سوچوں گی اس بارے میں۔۔۔
آپ یہ مت سوچئیے گا بھابھی کہ شمس لالہ میرے بھائی ہیں میں اس لیے آپ کو فورس کر رہی ہوں۔۔۔میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ آپ بھی ایک اچھی زندگی گزاریں ہماری طرح۔۔۔۔ہیر کہتی ہوئی اسکے پیچھے ہی کبڈ تک آئی
ہوں۔۔۔۔مجھے تمہارے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے ہیر۔۔۔۔مہرو نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا
بھابھی آپ شمس لالہ کیساتھ بہت خوش رہیں گی۔۔۔۔اس لیے میری ریکویسٹ ہے کہ آپ اس بارے میں ضرور سوچئیے گا کسی بھی دباؤ کے بغیر۔۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر دبائے
میری خواہش ہے کہ آپ میری بھابھی بنیں۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولی
ہوں سوچوں گی ضرور۔۔۔۔مہرو نے مدھم سا مسکرا کر ہیر کو مطمعین کیا
مگر وہ خود مطمعین نہیں تھی۔۔۔۔
زبیر خان مہرو اور حدید کو آ کر لے گیا تھا۔۔۔۔
ہیر کافی بے چینی سے مہرو کے فیصلے کی منتظر تھی۔۔۔۔
مہرو کو لال حویلی گئے دو ہفتے ہونے والے تھے مگر ابھی تک وہاں سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔۔۔
ہیر کی بات مہرو سے ہر دو ، چار دن بعد ہو جاتی تھی مگر اس بارے میں دوبارہ انکے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔
ہیر کی بے چینی آوٹ آف کنٹرول ہوئی تو وہ بی بی جان کے پاس آ بیٹھی
بی بی جان تسبیح کر رہی تھیں۔۔۔
مہرو بھابھی کب تک آ رہی ہیں بی بی جان آپ کی بات ہوئی ان سے۔۔۔۔؟؟وہ دوپٹہ انگلی پر لپٹتی بے چینی سے بولی
ہوں۔۔۔ہوئی تھی بات کہہ رہی تھی ابھی کچھ دن اور رکے گی وہاں۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایا اب وہ اگلی بات پوچھنا چاہ رہی تھی مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے پوچھے۔۔۔۔۔
بی بی جان نے اسے بے چینی سے پہلو بدلتے دیکھ کر خود ہی پوچھ لیا
ہیر بچے کوئی اور بات کرنی ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
جج۔۔۔۔جی بی بی جان۔۔۔۔
تو پھر پوچھو ہچکچا کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔وہ مسکرائیں
وہ۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان مہرو بھابھی نے کیا فیصلہ کیا پھر۔۔۔۔۔۔؟؟؟دل کی بات زبان پر آئی
تمہاری بات نہیں ہوئی مہرو سے۔۔۔۔۔؟؟؟
ہوئی تھی مگر اس بارے میں نہیں ہوئی۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔بھابھی سے بات ہوئی تھی انہوں نے ہی بتایا کہ مہرو نے وقت مانگا ہے سوچنے کے لیے۔۔۔۔۔وہ لوگ تو راضی ہیں مگر بھابھی کہہ رہی تھیں زبیر نے کہا ہے کہ مہرو کو فورس نہ کیا جائے اس معاملے پر وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہی جواب دلاور خان تک پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔۔اب دیکھو مہرو کب فیصلہ کرتی ہے۔۔۔۔۔بی بی جان نے تفصیلا ہیر کو آگاہ کیا
ہوں۔۔۔۔میں بھی منتظر ہوں بھابھی کے فیصلے کی۔۔۔وہ مایوسی سے بولی
یشب نہیں آیا پشاور سے ابھی۔۔۔۔؟؟؟
کل شام تک آئیں گے ابھی بات ہوئی تھی میری ان سے۔۔۔۔۔آپ کے لیے چائے لاؤں بی بی جان۔۔۔۔۔
ہوں لے آؤ۔۔۔۔۔۔سردی بڑھ رہی ہے اب تو ہر دو گھنٹے بعد چائے پینے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔۔بی بی جان مسکرا کر بولیں
میں ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔ہیر بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی
بی بی جان سے بات کرنے کے بعد ہیر کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔۔مہرو بھابھی ناجانے کیا فیصلہ کریں گی پہلے تو امید تھی کہ انکے گھر والے راضی ہیں اس رشتے پر اب تو زبیر خان بھی فیصلہ بھابھی کو سونپ چکا ہے۔۔۔اور بھابھی۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پریشانی سے ٹہلتی سوچ رہی تھی
میں بھابھی سے بات کروں پھر سے۔۔۔؟؟
نہیں۔۔۔وہ کیا سوچیں گی میرے بارے میں کہ میں نے اسکا اتنا خیال رکھا اور یہ صرف اپنے بھائی کے بارے میں ہی سوچ رہی ہے۔۔۔۔مجھے خاموشی سے انتظار کرنا ہو گا۔۔۔زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے بہتر ہے کہ وہ خود ہی بنا دباؤ کے فیصلہ کریں۔۔۔۔
کیا سوچ رہی ہو اسطرح اسٹیچو بن کر۔۔۔۔۔یشب ابھی کمرے میں آیا تھا ہیر کو ایک ہی جگہ سٹل دیکھ کر اسکے پاس آ کر بولا
آپ۔۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔۔؟؟ہیر یشب کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی
ابھی آیا ہوں۔۔۔۔آپ کس مراقبے میں مصروف ہیں۔۔۔۔وہ مسکرایا
کسی مراقبے میں بھی نہیں۔۔۔اور آپ تو کل آنے والے تھے ناں۔۔۔؟؟
تو واپس چلا جاؤں کیا۔۔۔۔؟؟یشب جیکٹ اتارتا خفگی سے بولا
ارے نہیں میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔اچھا بتائیں میری ساری چیزیں لائے ہیں ناں۔۔۔۔۔؟؟
نہ کوئی خیر خیریت نہ کھانا پینا۔۔۔بس اپنی چیزوں کی پڑی ہے۔۔۔۔بہت مطلب پرست ہو گئی ہو۔۔۔۔۔وہ خفا ہوا
ہیر اسکی بات پر کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔
اچھا بتائیں کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟پورے دو دن میرے بغیر کیسے گزرے۔۔۔۔؟؟ اور کیا کھانا پینا پسند کریں گے خان صاحب۔۔۔۔وہ شرارت سے کہتی دل پر ہاتھ رکھے جھکی
یشب اسکی حرکت پر مسکرا دیا۔۔۔۔
دو دن بہت خراب گزرے تمہارے بغیر تم جیسی چڑیل مجھے اپنا عادی ہی اس قدر بنا چکی ہے کہ اب تمہارے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے۔۔۔یشب بات کرتے اسکی طرف بڑھ رہا تھا
میں ہوں ہی ایسی کہ لوگ جلد ہی میرے اسیر ہو جاتے ہیں۔۔۔وہ اترا کر بولی
بلکل۔۔۔۔یشب مسکراہٹ دباتا اس تک پہنچا
یشب کیا کر رہے۔۔۔۔ہیر اس کی گرفت میں مچلی
اب دو دن کا رومینس بھی تو کرنا ہے جو ڈیو ہے۔۔۔۔۔وہ آنکھ دباتا بولا
بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔پہلے شاور لے کر فریش ہوں کچھ کھا پی لیں پھر رومینس کیجئے گا۔۔۔۔لہذا اب مجھے چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ کاموں کو ترتیب دے کر بولی
تم ایسا کرو ایک رومینس چارٹ بنا کر کمرے میں دروازے کے پاس لگا دو۔۔۔ جس پر رومینس کرنے کا دن اور ٹائم لکھا ہو۔۔۔۔تاکہ مجھے آسانی ہو سکے۔۔۔۔سارے موڈ کو خراب کر دیتی ہو۔۔۔۔یشب چڑتا خفگی سے بولا
اچھا بس اتنے معصوم مت بنیں جیسے میں تو آپ کو جانتی نہیں۔۔۔ہیر مسکراتے ہوئے اسکی گرفت سے نکلی
میں آپ کے لیے چائے لینے جا رہی ہوں تب تک فریش ہو جائیں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔۔۔
چائے تمہارے ہاتھ کی نہ ہو تو چلے گی ورنہ رہنے دو چائے۔۔۔۔یشب بدمزا منہ بنا کر بولا
اب اتنی بھی بری نہیں بتاتی۔۔۔وہ خفا ہوئی
یہ تو ان سے پوچھو جو تمہارے ہاتھ کی جوشاندہ نما چائے پینے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔۔۔۔۔
اونہہ۔۔۔۔خود تو ہل کر ایک گلاس پانی تک نہیں پی سکتے اور دوسروں کی بنی چیزوں میں سے نقص نکالتے ہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولی
بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو تم۔۔۔۔۔
پھر بھی آپ سے کم ہی ہوں۔۔۔۔وہ بھی بدلہ چکاتی باہر کو بھاگی کیونکہ یشب اسے پکڑنے کو آگے بڑھا تھا پر ہیر نے بروقت باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تھا
مہرو اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔۔اسے لال حویلی آئے دو ہفتوں سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ جب یہاں آئی تھی تو اماں نے زبیر لالہ کی موجودگی میں ہی اس سے شمس خان کے پرپوزل پر بات کی تھی۔۔۔۔اسکی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے زبیر نے یہ کہہ کر اسے مطمعین کر دیا تھا کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہو گی وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہی سب کو قبول ہو گا۔۔۔۔جسکی وجہ سے مہرو کافی پرسکون ہو گئی تھی
مگر اب وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے جو دوسرا آپشن اسکے سامنے رکھا تھا اس سے وہ پھر سے اپ سیٹ ہو گئی تھی۔۔۔
اس دن تو انہوں نے صرف شمس کے پرپوزل پر اسکا ذاتی ڈسیزن مانگا تھا مگر اس سے اگلے دن وہ مہرو کے کمرے میں آ کر اسکے لیے آیا دوسرا پرپوزل بھی بتا گئے تھے۔۔۔۔جس سے مہرو بے چین ہو گئی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے فیصلہ کرنے کی آزادی تو اسے دے دی تھی مگر پر کاٹ کر۔۔۔۔۔۔۔
انکا کہنا تھا کہ مہرو کو ان دو پرپوزلز میں سے ہی ایک کو فائنل کرنا ہے۔۔۔۔شطرنج کا صرف ایک پتہ ہی مہرو کہ ہاتھ میں دیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔
مہرو نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم عورتیں اپنے مردوں کے لیے قربانی دیتی آئی ہیں اور دیتی رہیں گی۔۔۔۔
دوسرا پرپوزل مہرو کے تایا زاد ابرار خان کا تھا جسکے تین بچے تھے۔۔۔بڑا بیٹا دس سال کا تھا۔۔۔۔بیوی چند ماہ پہلے چل بسی تھی اور اب پھر سے ابرار خان کو شادی کی سمائی تھی۔۔
مہرو ابرار خان کے رنگین مزاج کو برسوں پہلے سے جانتی تھی۔۔۔جانتے تو سب ہی تھے پھر بھی زبیر لالہ نے ناجانے کیوں ان لوگوں کو منع کیے بغیر پرپوزل مہرو کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اب مہرو کے پاس صرف دو آپشن تھے شمس خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابرار خان
اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا تھا انکار کا آپشن زبیر خان اس سے واپس لے چکا تھا
وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اسی لیے اس نے واپس جانے کا سوچا تھا تاکہ وہاں جا کر یشب سے مشورہ کر سکے۔۔۔۔۔وہ بھابھی دیور اور کزنز کے علاوہ اچھے دوست بھی تھے جو بلا جھجھک اپنے پرسنلز ایک دوسرے سے شئیر کر لیا کرتے تھے۔۔ اسی لیے مہرو نے یشب سے مشورہ کرنے کا سوچ کر خود کو مطمعین کر لیا تھا
مہرو جانے سے پہلے شہربانو سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔شہربانو مہرو کی خالہ زاد اور ابرار خان کی چھوٹی بھابھی تھی
وہ کافی دیر شہربانو سے باتیں کرنے کے بعد واپس آنے کے لیے راہداری میں سے گزر رہی تھی جب سامنے سے ابرار خان آتا دیکھائی دیا۔۔۔
مہرو نے اسے دیکھ کر سر جھکا لیا اور بڑے بڑے قدم اٹھانے لگی تاکہ جلدی سے باہر نکل جائے۔۔۔مگر ابرار خان نے اسکے برابر آتے ہی بازو پھیلا کر راستہ روکا
کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟؟وہ سر اٹھا کر ناگواری سے بولی
میں نے رشتہ بھجوایا تھا مگر زبیر نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولا
تو۔۔۔۔؟؟؟
تو یہ کہ کب تک جواب ملے گا۔۔۔۔وہ کلف لگی گردن اکڑائے کھڑا تھا
ابرار لالہ ابھی بھابھی کو مرے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو شادی کی پڑ گئی۔۔۔۔مہرو نے شرم دلانا چاہی
اسکی بات پر وہ مونچھوں کو بل دیتا مسکرایا
میں مرد ہوں۔۔۔۔مرد۔۔۔۔مہرو بی بی۔۔۔۔
مرد ہیں تو مرد بنیں یوں اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا راستہ روک کر۔۔۔۔
مہرو نے اسکی طرف دیکھا اور ابرار خان کی آنکھوں میں ہمیشہ والی گندگی دیکھ کر وہ بات ادھوری چھوڑتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی
اونہہ۔۔۔چیپ انسان۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی
مہرو نے جب سے جوانی میں قدم رکھا تھا تب سے ہی اسنے ابرار خان سے کترانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ایک تو وہ رنگین مزاج مرد تھا کلی کلی منڈلانے والا اور دوسرا مہرو کو ہمیشہ اسکی بے باک نظروں سے الجھن ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی مہرو کی نظریں اسکی نظروں سے ملتیں تھیں تو مہرو کا دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں چھپ جائے کسی ایسی جگہ پر جہاں ابرار خان کی گندی اور بےباک نظریں اس تک نہ پہنچ پائیں۔۔۔حالانکہ وہ مہرو سے چودہ، پندرہ سال بڑا تھا پھر بھی مہرو اس کے سامنے سے کتراتی تھی شادی سے پہلے تو وہ تایا کے گھر آتے ہوئے بانو کو ہمیشہ اپنے ساتھ لاتی تھی ابرار خان سے متعلق اپنے دل میں موجود خوف کی وجہ سے۔۔۔۔۔
اور اب وہ کیونکر اس شخص کے حق میں فیصلہ دے دے گی جس کی نگاہوں کی بےپردہ تپش سے ایک عرصہ اس نے کتراتے اور چھپتے گزارا تھا
مہرو نے واپسی کہ چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ابرار خان سے تھوڑی دیر کی ملاقات ہی اسکے ڈسیزن لینے میں مددگار ثابت ہوئی تھی
اوووف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔یشب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔ہیر خوشی سے بھرپور آواز میں چہکی
یشب ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے لال حویلی سے فون آیا تھا کہ مہرو بھابھی نے شمس خان کہ حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔
جب سے یہ خبر سنی تھی ہیر کے تو قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اسکے برعکس یشب سنجیدہ اور خاموش سا تھا۔۔۔۔
یشب نے ہیر کی بات پر سر اٹھا کر اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا اٹھ کر ہیر کی طرف آیا۔۔
میں ابھی ایک تھپڑ سے یقین دلا دیتا ہوں تمہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔یشب نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پیچھے سے حصار میں لیا
ویری فنی۔۔۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایا
اٹس ناٹ فنی۔۔۔آئی کین ڈو۔۔۔۔
میں جانتی ہوں آپ ایسا کر سکتے ہیں ماضی میں کافی تھپڑ کھا چکی ہوں۔۔۔۔
بھول جاؤ ماضی کو۔۔۔۔یشب نے اسکی لٹ انگلی پر لپیٹی
بھول چکی ہوں۔۔۔۔
پھر بھی طعنے دیتی ہو۔۔۔۔۔
کبھی کبھار دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔ہیر معصومیت سے بولی
مت دیا کرو کبھی کبھار بھی مجھے وہ سب یاد آ جاتا ہے جو میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولا
میں مذاق کر رہی تھی خان۔۔۔ہیر نے اسکے سنجیدہ سے تاثرات پر آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھ کر کہا
ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔یشب اسکی لٹ کھینچتا پیچھے ہٹا
آپ اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مہرو بھابھی کا فیصلہ آپ کو اچھا نہیں لگا کیا۔۔۔؟؟ہیر نے پوچھتے ہوئے یشب سے سیگرٹ چھینی جو وہ منہ میں لے چکا تھا
نہیں مجھے اس ڈسیزن پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں انکے ساتھ ہوں۔۔۔۔یشب نے سنجیدگی سے کہا
یہی بات مسکرا کر کہیں۔۔۔۔۔
یہ سیگرٹ واپس کرو اور جاؤ جا کر کچھ کام وام کرو دن بدن پھیلتی جا رہی ہو اور مجھے موٹی لڑکیاں بلکل پسند نہیں۔۔۔۔
او ہیلو مسٹر۔۔۔۔میں لڑکیاں نہیں آپکی بیوی ہوں۔۔۔۔موٹی، بھدی ،کالی، پیلی جیسی بھی ہو جاؤں آپکی بیوی ہی رہوں گی سمجھے۔۔۔۔۔ہیر انگلی اٹھا کر بولی
سمجھ گیا۔۔۔۔یشب نے اسکی انگلی پکڑ کر ہلکی سی مڑوری
اوئی ماں۔۔۔۔کسقدر جلاد صفت انسان ہیں آپ۔۔۔ وہ انگلی سہلاتی چیخی
جلاد صفت کے علاوہ بہت رومینٹک بھی تو ہوں۔۔۔۔یشب نے آنکھ ماری
اونہہ۔۔۔۔اس نے ناک چڑھایا
میں جا رہی ہوں نیچے بی بی جان نے بلوایا تھا مجھے۔۔۔۔۔آپ بھی آ جائیں۔۔۔۔
تم جاؤ۔۔۔۔مجھے کچھ کام ہے وہ کر کے آتا ہوں۔۔۔۔یشب نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے کہا
یہ تو دیتی جاؤ۔۔۔۔اس نے سیگرٹ کی ڈبی کیطرف اشارہ کیا جو ہیر کے ہاتھ میں تھی
اونہہ۔۔۔۔اسکے بغیر تو سانس بھی نہیں آئے گی محترم کو۔۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے ڈبی یشب کی طرف اچھالی
جسے یشب نے کیچ کر کے وکٹری کا نشان بنایا اور ہیر کی طرف ہوائی کس اچھالی
وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی
مہرو کے اقرار کے بعد دلاور خان اور خدیجہ لال حویلی جا کر شادی کی تاریخ لے آئے تھے
چونکہ اس شادی کو عام روایتی انداز میں نہیں کیا جانا تھا لہذا سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا
خاقان آفریدی کی خواہش تھی کہ ہیر انکی حویلی سے رخصت ہو۔۔۔۔پر یشب کو یہ گوارا نہیں تھا کہ شمس خان اسکی حویلی میں اسکے بھائی کی بیوہ کو بیاہنے آئے۔۔۔۔لہذا اس نے بابا جان کو منع کر دیا تھا۔۔
اب مہرو کو لال حویلی سے ہی رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی میں جانا تھا۔۔۔۔
وہ نہ تو خوفزدہ تھی اور نہ ہی کنفیوز صرف خاموش تھی۔۔۔۔
کیونکہ بسا اوقات انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نہ تو کوئی خوشی اثر کرتی ہے اور نہ ہی تسلی ، ،نہ باہر بسنے والی دنیا اور نہ ہی اندر کا موسم۔۔۔بس ایک عجیب سی خاموشی چھائی رہتی ہے طبیعت پر ۔۔۔۔۔
ایسی ہی کیفیت مہرو کی تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنی سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
ہیر یشب کیساتھ لال حویلی مہرو سے ملنے آئی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی کہ مہرو نے شمس خان کے حق میں فیصلہ کیا۔۔۔۔اسنے مہرو کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمس خان کیساتھ بہت خوش رہے گی
مگر مہرو تو یشب کی بات پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔
یشب نے باتوں باتوں میں مہرو سے کہا تھا کہ وہ حدید کو اپنے پاس ہی رکھے گا
مہرو تب تو چپ رہی مگر اب جیسے جیسے نکاح کا دن قریب آ گیا تھا وہ فکرمند ہو گئی تھی
یشب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں ماں ہوں حدید کی۔۔۔۔میں مانتی ہوں وہ اس حویلی کا وارث ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حدید کو مجھ سے دور کر دیا جائے۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے یشب کا نمبر ملایا
یشب لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔
بھابھی کالنگ لکھا دیکھ کر اس نے کال اوکے کی۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟
میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کیا مجھ نا چیز کو۔۔۔۔
خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔
کیا ہو سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟یشب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا
نہیں۔۔۔۔
ایگزیٹلی۔۔۔۔حدید کیسا ہے۔۔۔.؟؟وہ مصروف سا بولا
وہ ٹھیک ہے یشب۔۔۔۔مجھے حدید کے بارے میں ہی تم سے بات کرنی تھی۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی
کیسی بات۔۔۔۔؟؟؟
اس دن تم کہہ گئے تھے کہ حدید کو تم اپنے پاس رکھو گے۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر سینڈ کو کلک کیا اور لیپ ٹاپ آف کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی
یشب تم جانتے ہو میں اسکی ماں ہوں۔۔۔؟؟
جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔
پھر تم نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟
کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ یشار خان کا خون شمس خان کی حویلی میں پرورش پائے۔۔۔
پھر تو یشار خان کی بیوہ کو بھی اس حویلی میں جانا سوٹ نہیں کرتا۔۔۔
بھابھی مجھے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آپ نے ابرار خان کے مقابلے میں شمس خان کا پرپوزل ایکسیپٹ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔پر حدید کا وہاں رہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔وہ رسان سے بولا
ہیر نے تم سے کچھ کہا ہے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟مہرو مشکوک ہوئی کہ شاید ہیر کے گھر والوں نے منع کیا ہو حدید کو ساتھ لانے سے
نہیں وہ کیوں کہے گی کچھ۔۔۔۔مجھے ہی یہ مناسب نہیں لگا تھا
یشب میں حدید کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں اس کے بغیر رہ سکتی ہوں یا پھر وہ میرے بغیر۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی
بھابھی آپ زیادہ دور نہیں ہوں گی میں حدید کو ملوا لایا کروں گا۔۔۔۔یشب اسے قائل کر لینا چاہتا تھا
بلکل نہیں۔۔۔۔حدید میرے ساتھ ہی جائے گا یشب میں تمہاری یہ بات بلکل نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔
جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔یشب نے کہہ کر کھٹاک سے کال بند کی
کس سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔؟؟ہیر نے کمرے میں داخل ہو کر یشب کا سرخ چہرہ دیکھا
کسی سے نہیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا کشن کو لات مار کر کیز اٹھاتا باہر نکل گیا
ہیر نے افسردگی سے یشب کی پشت کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جب سے مہرو بھابھی نے لالہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا یشب کافی سے زیادہ سنجیدہ رہنےلگا تھا۔۔۔
یشب کا رویہ کچھ برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ہیر نے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچا تھا۔۔۔اس کا اکلوتا بھائی جوانی میں ہی چلا گیا تھا یہ دکھ بہت بڑا تھا اور اب اپنے بھائی کی بیوہ کو اسی شخص کے حوالے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔۔۔۔۔
مہرو کو یشب سے بات کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا ہو۔۔۔۔وہ افسردہ سی بیٹھی تھی جب اماں اسٹک کے سہارے چلی آئیں
ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔۔؟؟وہ پاس آ کر تخت پر بیٹھیں
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔مہرو مسکرا کر سیدھی ہوئی
پریشان ہو۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا
شمس اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔زبیر کے ساتھ پڑھتا رہا ہے اس لیے زبیر بھی مطمعین ہے۔۔۔۔مجھے بھی ابرار کے مقابلے میں وہ ہی مناسب لگا تھا۔۔۔تم پریشان مت ہو وقت کیساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے مہرو کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرا
مہرو ان کا لمس پا کر بے قابو ہوتی انکی گود میں سر رکھ کر رو پڑی
اماں بہت مشکل ہے میرے لیے یہ سب قبول کرنا۔۔۔۔۔ایسا مت کریں آپ لوگ اماں۔۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی
میں یشار کے قاتل کو شوہر کے روپ میں کیسے قبول کروں گی اماں۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا۔۔۔۔روک دیں سب انکار کر دیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔
ایسا مت کہہ میری بچی۔۔۔۔اللہ تجھے وہ ساری خوشیاں دے جنکی تجھے خواہش ہے۔۔۔۔۔میں ماں ہوں تیری مجھ سے تیری یہ اجاڑ زندگی نہیں دیکھی جاتی مہر۔۔۔ایسا مت کہہ جو ہو چکا اور جو ہو رہا ہے وہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لے میری جان۔۔۔۔۔۔میں مرنے سے پہلے تجھے خوش وخرم دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
اماں ایسا مت کہیں پلیز۔۔۔۔مہرو ماں کی بات پر تڑپ کر پیچھے ہٹی
اللہ آپ کو میری بھی زندگی لگا دے اماں آپ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔۔۔۔مہرو نے انکے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگایا
میں اپنی زندگی گزار چکی ہوں مہر اور اب پاک پروردگار سے اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔۔۔۔وہ پاک ذات میرے بچوں کو خوش رکھے مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے مہرو کے بال سنوارے
ماما۔۔۔واٹ ہیپنڈ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟حدید پھولے سانس سے وہاں کھڑا فکر مندی سے مہرو کو آنسو پونچھتے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ باہر بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا اور ابھی وہاں آیا تھا
کچھ نہیں میری جان میں رو نہیں رہی تھی۔۔۔گیم ختم ہو گیا آپ کا۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھا
یس پھوپھو۔۔۔۔گیم ختم ہو گیا اب جلدی سے ہم سب کو نوڈلز بنا کر دیں۔۔۔۔۔زیان (زبیر خان کا بیٹا )نے حدید سمیت اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کیطرف اشارہ کیا
اوکے میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔۔۔۔تم لوگ دادو کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی ان سب کے لیے نوڈلز بنانے کیچن کیطرف چلی گئی۔۔۔۔
آج جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن ہی شمس اور مہرو کا نکاح رکھا گیا تھا
بابا جان ، بی بی جان اور ہیر کل ہی لال حویلی آ چکے تھے یشب کو آج آنا تھا نکاح سے پہلے۔۔۔۔۔
ہیر اپنے گھر جا کر خدیجہ کیساتھ ساری تیاریاں کروا آئی تھی اور اب اسنے مہرو کی طرف سے ہی شامل ہونا تھا
جمعے کی نماز کے بعد نکاح کا ٹائم مقرر ہوا تھا اور اب سب مرد نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے
ہیر کے گھر والے بھی چند ایک مہمانوں کیساتھ آ چکے تھے مگر یشب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا
ہیر نے اسے کال کی مگر یشب کا سیل آف تھا
کہاں رہ گئے ہیں یشب۔۔۔؟؟؟وہ بے چینی سے ٹیرس پر ٹہلتی اسکا انتظار کر رہی تھی
جب مہرو اسکے پاس آئی۔۔۔۔
مہرو نے آف وائٹ کلر کی فراک پہنی تھی جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا ہیر ہی یہ ڈریس اسکے لیے لائی تھی اپنی پسند سے۔۔۔بالوں کو چوٹیا میں قید کر رکھا تھا جس میں سے چند ایک لٹیں ادھر أدھر بکھری ہوئی تھیں ہلکے میک اپ اور جیولری کے ساتھ سوگوار سی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
وہ نہیں آئے گا۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی
ہیر نے مہرو کی بات پر پلٹ کے اسے دیکھا۔۔
میری صبح بات ہوئی تھی بھابھی کہہ رہے تھے کہ نکاح سے پہلے آ جائیں گے۔۔۔
نکاح سے پہلے نہیں نکاح کے بعد آئے گا وہ۔۔۔۔۔مہرو لمبی سی سانس لے کر کہتی باہر دیکھنے لگی
آپکی بات ہوئی تھی ان سے۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔میں جانتی ہوں اسے۔۔۔۔
آپ انکی وجہ سے پریشان مت ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکی افسردہ شکل دیکھ کر تسلی دی
ہیر وہ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوا تھا پر اب ہو چکا ہے۔۔۔۔
یشب آپ سے خفا نہیں ہو سکتے ہیں بھابھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔وہ تسلی آمیز انداز سے بولی
ہاں میں جانتی ہوں پر وہ مجھ سے خفا ہے حدید کے معاملے پر۔۔۔۔
حدید کے معاملے پر۔۔۔۔۔کیسا معاملہ۔۔۔۔؟؟ہیر حیران ہوئی
وہ چاہتا ہے میں حدید کواپنے ساتھ نہ لے کر جاؤں بلکہ اس کے پاس چھوڑ دوں۔۔۔۔مہرو افسردگی سے بولی
ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھابھی حدید بہت چھوٹا ہے کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔۔ یشب نے ایسے ہی کہہ دیا ہو گا آپ پریشان مت ہوں میں بات کر لوں گی ان سے۔۔۔۔
نہیں ہیر۔۔۔۔اسنے ٹھیک ہی کہا تھا حدید یشار کا خون ہے۔۔۔۔۔وارث ہے اس خاندان کا پھر کیسے وہ کسی اور کے گھر میں پرورش پا سکتا ہے۔۔۔۔۔
وہ کسی اور کا گھر نہیں بھابھی آپ کا گھر ہو گا۔۔۔حدید کی ماں کا گھر۔۔۔ہیر نے محبت سےکہا
مہرو ہیر کی بات پر افسردگی سے مسکرا دی
تم بہت اچھی ہو ہیر۔۔۔۔
اور آپ مجھ سے زیادہ اچھی ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ تھامے
ہیر تم۔۔۔۔تم حدید کا خیال رکھنا۔۔۔۔میں اسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی وہ اپنے باپ کے گھر میں ہی پرورش پائے گا
مگر بھابھی وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔ ہیر فکرمند ہوئی
رہ لے گا وہ جیسے باپ کے بغیر رہ رہا ہے۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی
ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بھابھی حدید آپ کے ساتھ ہی جائے گا میں یشب کو منا لوں گی آپ ٹینشن مت لیں پلیز۔۔۔
تم یشب سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی ہیر میں نے حدید کو سمجھا دیا تھا رات کہ وہ تم لوگوں کیساتھ رہے گا۔۔۔۔
ایسا کیوں کیا آپ نے وہ بچہ ہے ابھی۔۔۔۔ہیر پریشان ہوئی
کل وہ بچہ بڑا ہو گا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ماما آپ نے بابا کے قاتل کیساتھ شادی کیوں کی تو میں کیا جواب دوں گی اسے ہیر۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو گالوں پر پھسلے
بچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بھابھی جہاں سے پیار ،، محبت اور توجہ ملے وہیں کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔پر آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے گھر پرورش نہیں پا سکتا تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی۔۔۔۔۔میں حدید کا خیال رکھوں گی مجھے بہت عزیز ہے وہ آپ فکر مت کریں۔۔۔۔ہیر سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی آئی
ناجانے کب تک لالہ قاتل ہی کہلاتے رہیں گے۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی نیچے ہال میں آ گئی
پہلے وہ یشب کے نہ آنے سے پریشان تھی اور اب بھابھی کی باتوں نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا
نکاح ہو چکا تھا اور مہرو کے کہنے کے مطابق یشب واقعی نہیں آیا تھا
ہیر بھی ٹھیک سے خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔پہلے جتنی وہ خوش تھی مہرو اور شمس کی شادی سے اب اتنی ہی افسردہ بیٹھی تھی
نکاح کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دلاور خان نے ان لوگوں سے واپسی کی اجازت چاہی تھی۔۔
ہیر اور شہربانو مہرو کو وہیں ہال میں لے آئیں تھیں جہاں مہمان خواتین بیٹھیں تھیں
ہیر یشب ابھی بھی نہیں آیا۔۔۔۔مہرو نے ہیر کے کان کے پاس سرگوشی کی
اسکا چہرہ گھونگھٹ نکال کر چھپایا گیا تھا
نہیں۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔مہرو نے افسردگی سے سر ہلا دیا
ہیر بچے چلو مہرو کو لے کر وہ لوگ باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔بی بی جان نے ہال میں داخل ہو کر کہا
جی بی بی جان۔۔۔۔ہیر نے سر ہلا کر مہرو کا بازو تھاما اور باہر کی جانب چل پڑی
راہداری میں کھڑیں سب رشتے دار عورتیں باری باری مہرو سے ملتی اور دعائیں دیتی جا رہی تھیں
کچھ آگے جا کر مہرو نے ہیر کا ہاتھ تھاما جو اسکے بازو پر تھا
یشب سے کہنا میں بھی اس سے خفا ہوں۔۔۔۔لہذا میرے سامنے مت آئے اب وہ۔۔۔۔
میں آپ کے سامنے آ چکا ہوں۔۔۔۔۔یشب کی آواز پر جہاں ہیر پلٹی وہیں مہرو نے بھی چادر پیچھے سرکائی اور پرشکوہ نگاہوں سے یشب کو دیکھا
آپ مجھ سے خفا ہو کر مت جائیں کیونکہ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا
تو پھر کہاں تھے اب تک جانتے ہو میں نے اور ہیر نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو پلکوں سے نیچے گرے
پلیز روئیں مت آپ ) آج وہ مہرو کو بھابھی کی بجائے آپ کہہ کر بات کر رہا تھا )۔۔۔۔۔یشب نے اسکے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا
بہت برے دوست ثابت ہوئے ہو تم ۔۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا
برا تو میں ہوں ہی اپنی نند سے پوچھ لیں۔۔۔۔یشب نے مسکرا کر ہیر کی ناک کھینچی
جوابا ہیر نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا جو خفگی کی علامت تھا
اور کتنی دیر ہے بھئی۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔زبیر خان نے انکی طرف آتے پوچھا
جی بس آ رہے ہیں۔۔۔۔ہیر نے مہرو کو دیکھا
مہرو نے ایک خاموش نظر پاس کھڑے یشب پر ڈالی
ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔یشب نے مہرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور باہر جانے کی بجائے اندر کیطرف چلا گیا
ہیر نے مہرو کی چادر کو درست کیا اور اسے ساتھ لیے باہر نکل گئی
مہرو سب بڑوں ، بزرگوں کی دعاؤں تلے رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی آ چکی تھی۔۔۔ہیر بھی اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔چند روایتی رسموں کے بعد ہیر مہرو کو اسکے کمرے میں لے آئی تھی۔۔۔یہ کمرہ ہیر نے ہی ڈیکوریٹ کروایا تھا وہ مہرو کو شمس اور پروشہ کے کمرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی اسی لیے اس نے مہرو اور شمس کے لیے نیا کمرہ سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔
ہیر نے مہرو کو کمرے میں لا کر بیڈ پر بیٹھایا
یہ آپ کا کمرہ ہے بھابھی۔۔۔۔اسکی ہر چیز آپکی ملکیت ہے بلکہ یہ حویلی یہ گھر بھی آج سے آپ ہی کا ہے۔۔۔۔امید ہے آپ بنا کسی تکلف کے یہاں کی ہر چیز کو یہاں کے مکینوں سمیت اپنا سمجھیں گی۔۔۔۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔۔وہ سب خوشیاں جو آپ کا حق ہیں۔۔۔۔۔
میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں۔۔۔ہیر نے تفصیلی بات کر کے پو چھا
نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے نفی میں سر ہلایا
ٹھیک ہے میں جاتی ہوں آپ ریلیکس ہو کر بیٹھیں بھابھی۔۔۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی سولاؤں گی
ہیر حدید کو بھی اپنے ساتھ ہی لے کر آئی تھی
ہوں۔۔۔۔۔
بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے چلی گئی
پیچھے مہرو بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ہتھیلیاں بار بار پسینے سے بھیگتیں جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑوں سے رگڑ کر صاف کر لیتی۔۔۔۔عجیب سی ہیزیٹیشن تھی حالانکہ نکاح سے پہلے وہ بلکل بھی کنفیوز نہ تھی پھر اب کیوں ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟؟
مہرو نے دل کی دھک دھک سے بے چین ہو کر پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور پینے لگی۔۔۔۔پانی پی کر وہ سیدھی ہوئی تھی جب آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمس اندر داخل ہوا۔۔۔۔مہرو نے اسے دیکھے بغیر ہی سر جھکا دیا۔۔۔۔
شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوا
مہرو بیڈ سے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ہاتھوں کو مضبوطی سے دبوچے سر جھکائے بیٹھی تھی
شمس نے ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر آہستگی سے سلام کیا
مہرو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے اسکے سلام کا جواب دیا
میں جانتا ہوں یہ سب آپ کے لیے آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں یشار کا قاتل ہوں اور اسکے قاتل کو کسی بھی رشتے میں قبول کرنا یقینا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
بے شک میں نے یشار خان کو جان بھوج کر نہیں مارا تھا مگر اسے گولی میرے ہاتھوں ہی لگی تھی۔۔۔۔۔جس کا پچھتاوا مجھے آج تک ہے اور شاید مرتے دم تک رہے گا۔۔۔۔شمس نے افسردگی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہا
بابا زبیر کو اچھے سے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ہی اس سے رشتے کی بات کر لی۔۔۔۔اگر مجھے انکے فیصلے کا علم ہوتا تو میں بلکل بھی انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتا کیونکہ جس طرح یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے اسی طرح میرے لیے بھی۔۔۔۔۔میں خود کو آپ کا مجرم تصور کرتا تھا اور شاید آگے بھی کرتا رہوں۔۔۔۔مجھ سے جو ہو چکا اسکی کوئی معافی نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا
مہرو دم سادھے شمس کو سن رہی تھی۔۔
آپکے گھر والوں کے دل بہت بڑے ہیں میں انکی بڑائی کی دل سے قدر کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنی بیٹی میرے حوالے کی۔۔۔۔۔
یہ گھر آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔آپ جس طرح چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں
میں کسی بھی معاملے میں آپ کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔آپ کو میری ذات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔وہ پھر سے رک کر سانس لینے لگا
مجھے کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آپ ریلیکس ہو کر رہیں۔۔۔۔۔میں خود کو اور آپ کو وقت دینا چاہتا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وقت ہی ہر زخم،، ہر دکھ کا بہترین مرہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔
آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتیں ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے ہر عمل ہر فیصلے کی دل سے قدر کروں گا۔۔۔لہذا آپ ریلیکس ہو جائیں
شمس اپنی بات مکمل کر کے ایک اچٹتی نظر مہرو کے جھکے سر اور انگلیاں چٹخاتے ہاتھوں پر ڈال کر اسٹڈی کی طرف چلا گیا
اور وہ واقعی ریلیکس ہو چکی تھی۔۔۔۔مہرو نے سر اٹھا کر شمس کی پشت کو دیکھا اور پرسکون ہو کر سر بیڈ کی بیک سے ٹکا دیا۔۔۔۔۔
وہ جس بات سے کنفیوز تھی اس بات کے لیے شمس اسے وقت دے چکا تھا
اور مہرو کو وقت ہی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔
اگلے دن چند ضروری مہمانوں کی موجودگی میں ولیمے کا چھوٹا سا فنکشن ارینج کیا گیا تھا
لال حویلی اور آفریدی حویلی سے سب آئے تھے سوائے یشب کہ۔۔۔۔۔
ہیر کی یشب سے ناراضگی کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ فنکشن کے بعد واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر بی بی جان کے کہنے پر وہ انکار نہ کر سکی تھی اسلئیے انکے ساتھ ہی واپس آ گئی۔۔۔۔۔۔
مہرو بھی حدید کو لیے ایک ، دو دن رہنے اپنے گھر والوں کیساتھ واپس چلی گئی تھی
وہ لوگ جب حویلی پہنچے تو یشب گھر پر نہیں تھا
ہیر نے چینچ کرنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔کافی دن کی تھکان تھی اسلیے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا
یشب جب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔۔وہ تو سوچ رہا تھا محترمہ چار ، پانچ دن تک واپس نہیں آنے والی ہیں۔۔۔۔مگر اب اسے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا
ہیر گہری نیند میں تھی یشب نے مسکراہٹ دبا کر اسکی چہرے پر آئی لٹ کو پکڑ کر زور سے کھینچا
کیا ہوا۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔؟؟ہیر ڈر کر اٹھ بیٹھی
سامنے یشب کو مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے چیخی
یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
بدتمیزی۔۔۔۔کیسی بدتمیزی۔۔۔؟؟وہ انجان بنا
اتنی اچھی نیند آئی تھی مجھے اور آپ نے جگا دیا شیم آن یو مسٹر۔۔۔۔اب کھڑے ہو کر دانت کیوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی
چڑیل لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔یشب نے اسکے بکھرے بالوں کی طرف اشارہ کیا
اور آپ بھی بھوت لگ رہے ہیں یوں ہنستے ہوئے۔۔۔۔
اچھا بتاؤ اتنی جلدی کیسے واپسی ہو گئی۔۔۔۔؟؟
میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں لہذا مجھے سونے دیں۔۔۔۔ہیر نے کمبل میں منہ چھپایا
پابند تو ہو تم میری۔۔۔۔مگر ہوا کیا ہے جانانه (ڈارلنگ) ۔۔۔۔؟؟؟یشب نے چھیڑتے ہوئے اسکا کمبل ہٹایا
یشب کیا مسلہ ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
کیا ہوا خفا کیوں ہو۔۔۔؟؟
آپ تو ننھے کاکے ہیں ناں جو جانتے نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔یشب اسکے لفظ ننھے کاکے پر دل کھول کر ہنسا
ہیر غصیلی نظروں سے اسے گھور رہی تھی
چلو ساری خفگی ختم کر کے دوستی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا ہاتھ بڑھا کر اسکے سامنے بیٹھا
مجھے کوئی دوستی ووستی نہیں کرنی آپ سے آپ جانتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
سوری فار ڈیٹ۔۔۔۔۔
کتنا آسان ہے آپ کے لیے کچھ بھی کر کے سوری کہہ دینا۔۔۔وہ ابھی بھی خفا تھی
مسلہ کیا ہے سوری کر تو رہا ہوں اب اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟؟
مجھ سے بات مت کریں۔۔۔۔
یہ تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔یشب نے اسکی ناک کھینچی
میرا نہیں تو بھابھی کا خیال کر لیتے وہ بار بار آپ کا پوچھ رہی تھیں۔۔۔میں نے کتنی کالز کیں آپ کو۔۔۔۔کیا یہی ویلیو ہے میری آپکی نظر میں کہ آپ میری کال کاٹ کر اپنا سیل آف کر دیں۔۔۔وہ خفگی سے بولی
سوری۔۔۔۔۔
آج کے فنکشن میں بھی نہیں آئے آپ۔۔۔۔؟؟
سوری۔۔۔۔۔
اور بھابھی سے آپ نے یہ کیوں کہا کہ حدید انکے ساتھ نہیں جائے گا بلکہ یہاں رہے گا۔۔۔۔۔ہیر بات یاد آنے پر گھور کر بولی
میں نے کہا تھا ان سے مگر اب میں اپنی بات سے پیچھے ہٹ چکا ہوں۔۔۔۔حدید بہت چھوٹا ہے اور اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔باپ تو مر چکا ہے اور اب میں اسے ماں سے جدا کر کے ماں کی ممتا سے محروم نہیں کرنا چاہتا لہذا میں اپنی یہ بات واپس لے چکا ہوں تم انہیں بتا دینا۔۔۔۔۔۔
انہیں۔۔۔کنہیں۔۔۔۔؟؟ہیر نے ابرو اٹھائے
مسز شمس دلاور خان کو۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
اونہہ۔۔۔مسز شمس۔۔۔بھابھی بھی تو کہہ سکتے تھے۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایا
اسے یشب کا مہرو کو بھابھی کی بجائے مسز شمس کہنا اچھا نہیں لگا تھا
دو دن بعد شمس مہرو کو لینے لال حویلی گیا تھا۔۔۔۔مہرو حدید کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔اس نے زبیر لالہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔زبیر خان نے جواب میں کیا۔۔۔۔؟؟کیوں۔۔۔۔؟؟جیسے سوال پوچھنے کی بجائے اچھا کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا
شمس حدید کو جانتا تھا۔۔۔وہ اس سے مل بھی چکا تھا اسلیے واپسی پر وہ مہرو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ حدید کو ساتھ کیوں نہیں لائی۔۔۔۔۔۔؟؟مگر عجیب سی ہچکچاہٹ آڑے آ رہی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا اور مہرو کو حویلی چھوڑ کر خود ڈیرے پر چلا گیا۔۔۔
زبیر خان اگلے ہی دن حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔جب بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی بات پتہ چلی تھی کہ وہ حدید کو مہرو کی بجائے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو بابا جان نے یشب کو اچھی خاصی سنائیں تھیں
جسے یشب سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر جانتی تھی یہ خاموشی کا لاوا اسی پر پھٹے گا کیونکہ ہیر نے ہی بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی حدید سے متعلق بات بتائی تھی مگر خلاف توقع یشب نے ہیر سے بازپرس کرنے کی بجائے اسے یہ کہا کہ کل وہ جا کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئے۔۔۔۔ہیر نے یشب کو بھی ساتھ جانے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا۔۔۔۔یوں ہیر اگلے دن بی بی جان کو ساتھ لے کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔
مہرو جہاں خوش تھی حدید کے آنے پر وہیں تھوڑی اپ سیٹ بھی تھی کہ شاید وہاں کے مکینوں کو حدید کا وہاں آنا اچھا نہ لگے۔۔۔۔۔۔مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔
وقت کسی کی پرواہ کیے بغیر گزرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔مہرو کو وہاں آئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اور شمس کے درمیان کچھ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح ایک ہی کمرے میں دو اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔
مہرو کے لیے صرف شمس خان ہی اجنبی تھا اب تک کیونکہ حویلی کہ باقی مکین جن میں دلاور خان ،، خدیجہ اور حویلی کی چار ، پانچ ملازمیں شامل تھیں وہ ان سب سے اپنی خوش مزاجی کے باعث گھل مل گئی تھی۔۔۔۔
مہرو آفریدی حویلی کی طرح یہاں بھی بہو ہونے کا پورا پورا حق ادا کر رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے حویلی کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تھیں۔۔۔۔جنہیں وہ بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی۔۔۔۔۔
خدیجہ مہرو کے اس رویے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھیں جنہیں مہرو کی شکل میں اتنی اچھی بہو مل گئی تھی اچھی تو خیر پروشہ بھی تھی مگر تھوڑی نخرے والی تھی جبکہ مہرو میں نام کا بھی نخرہ نہ تھا۔۔۔۔
اس لیے خدیجہ بھی خوشی خوشی ہر کام کو مہرو کے مشورے سے ہی کرتی تھیں۔۔۔۔یوں ساس ،، بہو کی اچھی بن گئی تھی۔۔
اس وقت مہرو روتی ہوئی دعا کو گود میں لیے بہلا رہی تھی جب حدید وہاں آیا
ماما یہ کیوں رو رہی ہے لائیں اسے مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں۔۔۔
نہیں اسے بھوک لگی ہے ابھی دودھ پی کر چپ ہو جائے گی۔۔۔۔مہرو نے رحیمہ سے فیڈر پکڑ کر دعا کے منہ کو لگائی
جسے وہ چپ ہو کر پینے لگی۔۔۔
ماما آپ کو پتہ ہے بابا کہہ رہے تھے وہ کچھ دنوں تک اسلام آباد جائیں گے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔حدید خوشی سے بولا
بابا۔۔۔۔؟؟بابا کون۔۔۔۔؟؟
شمس بابا اور کون۔۔۔۔۔؟؟
یہ انکل بابا کب ہوئے۔۔۔۔؟؟مہرو حیران تھی۔۔۔حدید تو شمس کو انکل کہتا تھا پھر اب بابا کیسے۔۔۔۔۔؟؟وہ شاکڈ تھی
وہ انکل ہیں آپ کے بابا نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے تحمل سے سمجھایا
وہ آپکے ہزبینڈ ہیں ماما تو میرے بابا ہی ہوئے ناں۔۔۔۔۔حدید سمجھداری سے بولا
مہرو اسکے منہ سے اتنی گہری بات سن کر ساکت تھی
کس نے کہا تم سے۔۔۔۔۔؟؟؟
کسی نے نہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں ان کی اور آپ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں اور میرے بابا۔۔۔۔
میری ان سے شادی ہو چکی ہے مگر وہ تمہارے بابا نہیں ہیں حدید۔۔۔۔مہرو غصے سے بولی
آپ نے ہی کہا تھا حدید دعا آپ کی بہن ہے۔۔۔۔۔دعا تو شمس انکل کی بیٹی ہے پھر میری بہن کیسے ہوئی۔۔۔؟؟حدید سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھتا پوچھ رہا تھا
وہ انسان کا بچہ تھا یا شیطان کا مہرو حیران تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔
دعا آپکی بہن ہے مگر شمس آپکے بابا نہیں ہیں وہ آپکے انکل ہیں اور آپ انہیں انکل ہی کہیں گے۔۔۔۔اب کے مہرو نے پیار سے سمجھایا
نو۔۔۔۔میں انہیں بابا ہی کہوں گا۔۔۔۔وہ بضد تھا
اسکی بات پر مہرو نے غصے سے اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا مگر پیچھے سے کوئی اسکا ہاتھ تھام کر روک چکا تھا
مہرو نے گردن موڑی اور پیچھے کھڑے شمس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا
حدید بیٹا میں آپکی وڈیو گیم لے آیا ہوں۔۔۔۔جا کر چیک کرو وہی ہے جو آپ نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا
اوکے بابا۔۔۔۔۔وہ اچھل کر کہتا نیچے بھاگ گیا
بچے پر ہاتھ اٹھا رہیں تھیں آپ۔۔۔۔؟؟چند منٹ کی خاموشی کو شمس کی آواز نے توڑا
بچے جب غلطی کریں تو سدھارنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔مگر صرف غلطی پر۔۔۔۔۔شمس نے تصیح کی
مہرو نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اٹھائیں
حدید کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا اگر وہ مجھے انکل کی بجائے بابا کہنا چاہتا ہے تو اس میں برا کیا ہے۔۔۔۔؟؟
آپ اسکے بابا نہیں ہیں۔۔۔۔
میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بابا کہے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی دعا بھی تو آپکی بیٹی نہیں ہے پھر بھی آپ اسے ایک ماں ہی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں میں نے تو آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔۔۔
دعا ابھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بڑبڑائی
حدید بھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اسے باپ کی ضرورت نہ رہے۔۔
مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی
شمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیا
فائن۔۔۔۔مجھے بھی اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔حدید مجھے بابا ہی کہے گا اور آپ اسے اس بات سے نہیں روکیں گی۔۔۔شمس کہہ کر جھکا
مہرو اسکے جھکنے پر سانس روک چکی تھی
شمس نے جھک کر مہرو کی گود میں لیٹی دعا کے گال پر بوسہ لیا اور مہرو کے اردگرد اپنی خوشبوئیں بکھیرتا واپس مڑ گیا
اس دن کے بعد مہرو نے حدید کے شمس کو بابا کہنے پر نہیں ٹوکا تھا۔۔۔۔حدید شمس سے کافی اٹیچ ہو چکا تھا۔۔۔۔جسکی بڑی وجہ شمس کیطرف سے ملنے توجہ اور محبت تھی
مہرو بھی شمس کی حدید سے محبت پر خاموش اور مطمعین ہو گئی تھی۔۔۔۔اب اکثر اسکے اور شمس کے درمیان حدید اور دعا ڈسکس ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔جس سے یہ ہوا تھا کہ دونوں کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہچکچاہٹ کافی کم ہو گئی تھی
ہیر اکثر وہاں آتی رہتی تھی مگر یشب کے بغیر۔۔۔۔یشب مہرو سے ہفتے دو ہفتے بعد فون پر بات کر لیتا تھا البتہ حدید کو وہ حشمت کو بھیج کر بلوا لیتا۔۔۔یوں حدید پورا دن یشب کیساتھ گزار کر شام میں واپس آ جاتا۔۔۔
دن نارمل روٹین کیمطابق گزرتے جا رہے تھے۔۔۔
مہرو اور خدیجہ تخت پر بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔قریب ہی دعا باکر میں بیٹھی اسے آگے پیچھے گھسیٹ رہی تھی جبکہ حدید کچھ فاصلے پر راہداری میں اپنی نئی سائیکل دوڑا رہا تھا جو شمس کل ہی اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔
رحیمہ۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔۔مہرو نے وہیں بیٹھے بیٹھے رحمیہ کو آواز دی
جی مہرو باجی۔۔۔۔۔وہ بوتل کے جن کیطرح حاضر ہوئی
یہ دعا کے فیڈر کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر رکھو پھر میں فیڈر بناتی ہوں
بی بی جی۔۔۔میں یہ خان سائیں کے لیے چائے لے جا رہی تھی یہ دے آؤں آ کر دھوتی ہوں۔۔۔۔رحیمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آگے کی
یہ میں لے جاتی ہوں تم جلدی سے یہ فیڈر دھو دو۔۔۔۔مہرو نے چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے پکڑی
اماں میں یہ چائے دے آؤں۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔خدیجہ مسکرا کر بولیں
مہرو چائے لیے کمرے میں آئی پر کمرہ خالی تھا شمس شاید اسٹڈی میں تھا
وہ اسٹڈی میں گئی مگر وہ بھی خالی تھی پر شمس کی چیزیں وہیں پڑیں تھی جسکا مطلب تھا وہ وہیں تھا مگر اب شاید باہر نکلا ہو۔۔
مہرو ٹرے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کے جیسے ہی مڑی اسکی نظر کتاب میں رکھی مخملی ڈبیا پر پڑی جو آدھی سے زیادہ کتاب کے اندر تھی صرف ایک سرا نظر آ رہا تھا۔۔۔
یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو کو تجسس ہوا
مجھے کیا جو بھی ہو۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر واپس مڑی
دیکھ لیتی ہوں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟؟وہ دل میں موجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس ٹیبل تک آئی۔۔۔۔
اس نے کتاب کو کھولا تو بیچ میں واقعی میرون مخملی ڈبیا تھی مگر وہ ڈبیا لمبی تھی جیسے کسی بریسلٹ کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔
مہرو نے ایک نظر اسٹڈی کے بند دروازے پر ڈالی اور جلدی سے ڈبی کھول دی
یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ ڈبی میں موجود پائل دیکھ کر ساکت تھی
وہ اور ناجانے کتنی دیر ساکت رہتی کہ شمس کی آواز پر چونک کر مڑی
آپ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ پائل آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟مہرو کے ساکن لبوں نے ہلکی سی جنبش کی تھی
یہ پائل۔۔۔۔شمس نے اسکے ہاتھ میں پکڑی پائل کیطرف اشارہ کیا
جی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔پائل۔۔۔۔۔”میری پائل”۔۔۔۔۔
مہرو نے لفظ میری پائل پر زور دے کر سپاٹ نظروں سے شمس کو دیکھتے ہوئے سردوسپاٹ انداز میں پوچھا تھا


Pingback: Aurat Ek Khilona Last Part | Best Urdu Short Novel Ziyadti