Aurat Ek Khilona is a captivating romantic Urdu short novel that delves into the emotions of love, relationships, and self-realization. This beautifully written Urdu story explores the struggles and triumphs of a woman, making it a must-read for fans of romantic Urdu short novels. Experience a journey of passion and empowerment in this emotional tale.

Romantic urdu short novel
پچھلے آدھے گھنٹے سے جرگے میں جمع سب لوگ شاہ میر بلوچ کا انتظار کر رہے تھے ۔
اور وہ سردار ہی کیا جو انتظار نہ کروائے ۔
ہاں وہ سر دار تھا ۔ علاقے کا نیا سر دار ۔
ستائیس سالہ نوجوان ، سلطان میر بلوچ کا وارث ۔ امریکہ سے گریجویٹ اور ماسٹرز کی
ڈگری ۔ ۔ ۔ اسکی رگ رگ میں سرداری بھر ی ہوئی تھی۔
سلطان میر بلوچ نے نے ہر پل اُسے یہ باور کرایا تھا کہ اُسے وطن واپس آنا ہے اور اس کی
جگہ سر دار بننا ہے ۔ شاہ میر بلوچ کو خود بھی یہی زندگی پسند تھی ۔ وہ بادشاہ بننا پسند کرتا تھا۔ اسے حکومت چاہیے تھی چاہے وہ علاقے کی ہی کیوں نہ ہو۔ شاہ میر بلوچ کو تختہ نہیں تخت چاہیے تھا ۔ اور مل گیا ۔
امریکہ سے واپس آتے ہی اسکی دستار بندی کی محفل سجائی گئی اور اسے سردار بنا یا گیا ۔ لیکن اس کی خوشی اُسے دن ماتم میں بدل گئی جب اس کے چھوٹے بھائی جنید میر بلوچ کی لاش خون میں لت پت حویلی لائی گئی ۔
اور اب وہ بدلے کی آگ میں جل رہا تھا۔
لیکن مقابل گروہ بھی کوئی کم طاقتور نہیں تھا ۔
قاتل دوسرے علاقے کے سر دار کا اکلوتا بیٹا ظفر نواز بلوچ تھا ۔
مقابلہ ٹکر کا تھا۔
اچانک سے گاڑیوں کی ایک قطار سامنے سے آتی دکھائی دی۔ ویگو پہجا ور اور بہت سی گاڑیاں ۔
پہلے تمام مسلح گارڈز اترے پھر دروازہ کھلا۔
شاہ میر ایک شان سے اترا۔
سیاہ رنگ کی قمیض ، گھیر دار شلوار سر پر روایتی پگ ۔ اپنی شال بائیں کندھے پر ٹھیک کرتا
آکر بیٹھ گیا۔
شاہ میر ، یہاں بہت سی معزز ہستیاں صلح کی کوئی صورت نکالنے کے لیے جمع ہوئی ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کے علاقے کے دو سر داروں کے ما بین خون خرابا ہو اور علاقائی دشمنی کی
شروعات ہو۔
ہم سب یہاں اتنے سالوں سے امن کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور اسی امن کو قائم رکھنے کے لیے پیر شاہ تشریف لائے ہیں اور ساتھ دیگر شخصیات بھی ۔ شاہ نواز بلوچ تمہیں اپنے بیٹے کے بدلے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہے ۔
جرگے کے سردار نے شاہ میر سے کہا ۔
مجھے خون بہا میں ظفر کی بہن چاہیے ۔ اچانک شاہ میر کہا تو مقابل کے گروہ سے ولید اٹھ کھڑا ہوا۔
حرام زادے تیری ہمت کیسے ہوئی میری منگیتر کا نام لینے کی ؟
ولید بلوچ شاہ میر پر حملے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ سب نے اُسے روک لیا ۔ ولید آرام سے بیٹھ جاؤ۔ ہم یہاں خیر کروانے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ تمہاری ایک غلطی پھر سے شر کو ہوا دے سکتی ہے ۔
ولید کے چچا زاد بھائی ریان نے اُس کے کان میں سر گوشی کی۔
شاه نواز، تم اپنے لڑکوں کو آرام سے بیٹھنے کا کہو ۔ ہم سب سر داروں کو لے کے آئے ہیں تاکہ تم دونوں گروہ میں صلح کی کوئی صورت نکل سکے ۔ اگر تمہارے لڑکے ایسے ہی
جذباتی ہو نگے تو معاملہ بگڑ جائیگا ۔
سردار نبیل احمد نے ظفر کے والد شاہ نواز بلوچ سے کہا ۔
دوسری طرف شاہ میر چہرے پر سختی سجائے اطمینان سے بیٹھا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ مقابل گروہ کے لیے ان کی بہن بیٹی کا ذکر کرنا کیسے اُن کے تن بدن میں آگ لگانے کے مترادف
تھا۔
شاہ نواز بلوچ تمہارے پاس دو ہی آپشن رکھ رہا ہوں میں ۔ ۔ ۔ یاں تو ظفر کو میرے حوالے کر دو تاکہ میں اُسے گولیوں سے بھون دوں ۔ یاں پھر اپنی بیٹی مجھے خون بہا میں دے دو۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں نکل سکتی ۔ پیسے میں لونگا نہیں خون بہا میں
بیٹا دو یا بیٹی ۔ ۔ ۔ میری بات حرف آخر ہے
شاہ میر کہتا ہوا کھڑا ہوا ۔ اُس کے ساتھ اس کے مسلح گارڈز اور اس کے کزن سب کھڑے
ہو گئے۔
تھوڑی دیر میں اُن کی پجارو اور ویگو گاڑیوں کے ٹائروں سے اڑتی ہوئی دھول دکھائی دی ۔ اُس نے واقعی مقابل گروہ کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔
وہ پھولوں کی کیاریوں کو کریدتی ہوئی ان کو ٹھیک کر رہی تھی ۔ سرخ گلابوں کے بیج وہ بھی گلاب کے جیسے ہی لگ رہی تھی اس وقت ۔ اس کے ہاتھ مٹی میں لدے ہوئے تھے ۔ وہ اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑی ہوئی ۔ پھولوں کا جائزہ لینے لگی۔ بہت محبت سے اس
نے باغ میں پھول اگائے تھے ۔
ایک گھلا اٹھایا اور اس کے رکھنے کی جگہ تلاش کرنے لگی تھی کہ اچانک حویلی کی ملازمہ نسرین
بھاگتی ہوئی آئی۔
غضب ہو گیا بی بی صاحبہ ۔ نسرین نے پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔ کیا ہوا ؟ کیوں دل دہلا رہی ہو ؟ جلدی بتاؤ کیا بات ہے ؟ سامنے ہی چارپائیوں پر اس کی
، والدہ، چاچیاں، خالہ اور پھوپھیاں اور دادی بیٹھی باتیں کرہی تھیں نسرین کی بات سن کر
آمنہ بیگم بولیں۔
گملا ابھی بھی حریم کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسے گھمائے پوری طرح سے نسرین کی طرف
متوجہ تھی۔
ونی میں حویلی کی بیٹی کو مانگا ہے شاہ میر نے ۔
نسرین بات سن کر تمام خواتین ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئیں۔
اور دوسری طرف حریم کے ہاتھ گھلا چھوٹ کر نیچے گر گیا۔
یہ نہیں ہو سکتا ۔
حریم نے ایک دم کہا ۔
یہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی پھولوں جیسی حریم کسی صورت بھی اس درندے کو نہیں دے سکتے ۔ شاہ نواز نے اُسے منہ مانگی قیمت دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ شاہ نواز اپنی بیٹی ہرگز
نہیں دینگے. آمنہ بیگم نے کہا.
وہ دے چکے ہیں ۔ ۔ ۔
نسرین نے کہا تو وہاں موجود کسی کو بھی اپنی سما عتوں پر یقین نہیں آیا ۔ اگلے ہی بل حریم ایک جھٹکے سے زمین بوس ہوئی تو سب اُس کی طرف لپکے۔
حریم میری بچی ۔۔۔ ہوش میں آؤ۔ آمنہ بیگم اُس کے گال تھپتھپا کر پریشانی سے بول
رہی تھیں ۔

Main Hoon Badnaseeb – An Emotional & Thrilling Short Urdu Novel
**پورے گاؤں میں ایک عجیب سوگ کی کیفیت تھی**۔ گاؤں کے سردار شیر دل کی بیٹی کی لاش کو زیادتی کے بعد بڑی نہر کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔ سردار شیر دل نے جب اپنی اکلوتی بیٹی کی برہنہ لاش دیکھی تو سارا گاؤں ان کے غم وغصے کا شکار ہوا تھا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ گاؤں کے رہائشی خاور کو عابی کے ساتھ واقعہ سے پہلے دیکھا گیا تھا اور اس بات کی تصدیق خاور کی گمشدگی نے کر دی تھی۔
This emotional Urdu novel explores profound human emotions and social justice issues, making it an important read for those interested in Urdu literature and thrilling novels. It delves into the complexities of human nature, empathy, and the consequences of societal problems.
Read the Full Novelجرگے کے فیصلے سے واپس آتے ہیں وہ اپنے والد سلطان میر کے کمرے میں داخل ہوا۔
سلطان میر بلوچ کو اپنے چھوٹے بیٹے جنید کی موت کی خبر سنتے ہی دل کا دورہ پڑ گیا تھا اور تب سے لے کر وہ بستر پر تھے پچھلے آٹھ مہینے سے ۔ ۔ ۔ صدمے سے نڈھال ۔ کیا فیصلہ ہوا جرگہ کا ؟ ظفر کو تمہارے حوالے کیا یا نہیں شاہ نواز نے ؟
سلطان میر بلوچ نے سوال کیا ۔
شاہ نواز بلوچ کی بیٹی مانگی ہے میں نے خون بہا میں ۔
شاہ میر نے ان کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا ۔
بیٹی ؟ ایسا کیوں کیا تم نے مجھے میرے بیٹے کا قاتل چاہیے۔ نہ کہ قاتل کی بہن ۔
سلطان میر بلوچ نے کہا ۔
بہن میرے پاس آئے گی تو بھائی خود تڑپ کر آئے گا ۔ پہلے پہن کو اذیت دونگا۔ اس کی تکلیف دیکھ کر بھائی خود میرے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا ۔
شاہ میر نے کہا۔
سوچ ہے تمہاری، شاہنواز اپنے اکلوتے وارث کی قربانی ہر گز نہیں دے گا ۔ بیٹی قربان
کرنا آسان ہے اس کے لیے سلطان میر نے کہا۔
سنا ہے اسے سب کی بیٹی کہا جاتا ہے ۔ باپ بھائی چا چاما موسب کی لاڈلی ہے ۔ اس کی تکلیف پر تڑپ اٹھیں گے جب میں ان کے پاس اس کی ویڈیو بنا کر بھیجوں گا تب ۔
شاہ میر نے پورے یقین سے کہا ۔
عورت ذات پر ظلم کرنا میں نے تمہیں نہیں سکھا یا شاہ میر مجھے شاہنواز کے سارے
خاندان سے نفرت ہے ۔ مگر پھر بھی میں عورت ذات پر ظلم کے حق میں نہیں ہوں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں اس لڑکی کو اپنی حویلی میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کو حویلی میں
جس کے بھائی نے میرے جگر کا ٹکڑا لہولہان کر ڈالا ۔
سلطان میر نے کہا ۔ ان سے بولا نہیں جا رہا تھا ۔ وہ بیٹھنے کی بھی پوزیشن میں نہیں تھے لیٹے
ہوئے تھے ۔
میں جو کرنا چاہتا ہو ں مجھے کرنے دیں ابا سائیں ۔ میں نے بیت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ۔ میرا مقصد ظفر کی بہن کو حاصل کرنا نہیں ہے ۔ مجھے ظفر چاہیے ۔ وہ کہانی تو سنی ہوگی نہ آپ نے ؟ کہ ایک جادو گر کی جان طوطے میں ہوتی ہے ۔ جادوگر کو مارنا ہے تو طوطے کا گلا ودبا دو ۔ بس وہی کرنے جا رہا ہوں میں۔ پچھلے آٹھ مہینوں سے سکون کی نیند نہیں سوسکا میں ۔
شاہ میر کہتا ہوں ان کے کمرے سے نکل گیا۔
وہ بخار میں تپ رہی تھی ۔ آمنہ بیگم اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتی جا رہی
تھی۔ بائیس سالہ حریم بے یقینی سے چھت کو گھورے جارہی تھی۔
ماں بابا سائیں میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ اتنی نا انصافی ؟ اتنا ظلم ؟ کیا اسی لیے بچپن سے مجھے پھولوں کی طرح سنبھال کر رکھا تھا کہ ایک دن مجھے مسل دیں ؟
حریم افسوس سے بول رہی تھی ۔ آنے دو تمہارے بابا سائیں کو ۔ میں بات کرتی ہوں ان سے ۔ مجھے تو اب تک یقین نہیں آرہا ہے کہ واقعی تمہارے بابا سائیں نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ حریم کی ماں آمنہ بیگم نے کہا۔
اماں میں نے تو کل کبوتروں کو بھی آزاد کر دیا تھا کہ مجھے آزادی پسند ہے ۔ پھر مجھے قید کیوں
مل رہی ہے ؟
حریم بولے جارہی تھی کہ شاہنواز نواز اندر داخل ہوئے ۔
یہ کیا کر دیا آپ نے ؟ میں پوچھ رہی ہوں یہ کیا کر دیا آپ نے ؟ میری پھول جیسی بچی کیسے اس درندے شاہ میر کے حوالے کر سکتے ہیں آپ؟۔
بیگم نے شاہنواز کے شانے بھنبھوڑتے ہوئے پوچھا۔
تو اور کیا کرتا ؟ ظفر کو اس کے حوالے کر دیتا ؟تاکہ وہ اسے گولیوں سے بھون دے ؟
اپنا اکلوتا وارث اس کے حوالے کر دیتا ؟
شاہنواز نے روتے ہوئے کہا ۔
کو اندازہ ہے کہ ونی میں آئی ہوئی لڑکی کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ؟ آپ
آمنہ بیگم نے کہا ۔
سب جانتا ہوں ۔ شاہنواز بولے ۔
سب جانتے ہوئے بھی آپ نے مجھے کوئیں میں دھکیل دیا بابا سائیں ؟ صرف اس لئے کہ میں بیٹی تھی اور میری قربانی دینا آسان تھا ؟
ٹھیک ہے میری بچی تمہیں مجھ سے شکایت ہے نہ ؟ ٹھیک ہے میں نہیں دیتا تمہاری قربانی ۔ میں ابھی ان کے پاس جاتا ہوں اور ظفر کو اس کے حوالے کر دیتا ہوں ۔ تاکہ اس کی لاش شام کو میرے گھر آئے ۔ خون میں لت پت ہو کر ۔
کہتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گئے تو ایک دم سے حریم اٹھی اور ان کے پیچھے دوڑنے
لگی۔
نہیں بابا سائیں نہیں۔۔۔ میں ادا سائیں پر ایک خروچ بھی برداشت نہیں کر سکتی ہوں ۔ ۔ ۔ میرے ادا سائیں کو ان درندوں کے حوالے نہ کرنا ۔ ۔ ۔ بابا سائیں رک جائیں ۔ وہ لوگ مارد بینگے میرے ادا سائیں کو —- بابا سائیں میں ونی میں جانے کے لیے تیار ہوں۔
حریم نے کہا تو شاہنواز کے قدم تھم گئے۔ انہوں نے مڑ کر اپنی بیٹی کو دیکھا۔
حریم ایک بار پھر ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر کر گر پڑی ۔
سب کی بیٹی ، ڈاکٹر حریم نواز ونی میں جانے کے لیے تیار تھی ۔
چچا سائیں ۔ ۔ ۔ کہاں چھپا بیٹا ہے ظفر ، ڈھونڈ کر لائیں اسے۔ میں اپنی منگیتر ہر گزشاہ میر کے حوالے نہیں کروں گا ۔
ولید بپھرا ہوا شیر بنا ہوا تھا۔
فیصلہ ہو چکا ہے ولید شاہنواز نے کہا ۔
نہیں مانتا میں اس فیصلے کو ۔ اتنا بے غیرت نہیں ہوں میں ۔ ولید نے کہا۔
بے غیرت تو میں بھی نہیں ہوں ۔ اپنی بیٹی شاہ میر کے نکاح میں دے رہا ہوں بیچ نہیں
رہا۔ سردار ہے وہ اپنے علاقے کا ۔
شاہنواز نے کہا ۔
ونی میں دے رہے ہیں آپ اپنی بیٹی ونی ہیں ۔ ۔ ۔ اپنے اکلوتے وارث کی جان بچانے
کے لیے ۔ ۔ ۔ ولید نے غصے سے کہا ۔
میں اس معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔ آمنہ تم حریم کو تیار کرو ۔ ۔ ۔ آج شام
اس کا نکاح ہے شاہ میر سلطان کے ساتھ ۔
شاہنواز اپنی بیگم آمنہ کوحکم صادر کرتےہوئے وہاں سے چلے گئے۔
حریم شاہ نواز، کیا آپ کو شاہ میر سلطان اپنے نکاح میں قبول ہے ؟ ” نکاح خواں کے الفاظ حریم کی سماعتوں سے ٹکرائے ۔
قبول ہے
حریم کواپنی آواز کسی کھائی میں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
شاہ میر سلطان ، کیا آپ کو حریم شاہ نوازا اپنے نکاح میں قبول ہے ؟ شاہ میر سخت تاثرات لیے بیٹھا تھا جب پوچھا گیا ۔
قبول ہے ۔
شاہ میر کی آواز پر دے کے پیچھے بیٹھی ہوئی حریم کو سنائی دی ۔ اس کا دل پتے کی مانند
لرزنے لگا۔
باریک سی جالی سے اب وہ اُس شخص کو دیکھ رہی تھی جو اسکا بخت تھا ۔ اگلے ہی پل شاہ میر ایک جھٹکے سے اٹھا ۔
میرے پاس وقت نہیں ۔ جلدی لڑکی میرے حوالے کر دو ۔
شاہ میر نے شاہنواز کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور آگے اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے
لگا۔
حویلی کی خواتین نے زار و قطار رونا شروع کر دیا ۔ جیسے ایک کہرام برپا ہوگیا ہو۔ آمنہ بیگم غش کھا کر گر پڑیں ۔
شاہنواز نے اپنا سینہ تھام لیا جہاں انہیں درد شروع ہو چکا تھا ۔ اندر بیٹھے ہوئے ولید نے حویلی کی چیزوں کی توڑ پھوڑ شروع کر دی تھی ۔ شاہ میر نے گردن گھما کر یہ منظر دیکھا۔
اس کے دل کو عجیب سا سکون مل رہا تھا ان لوگوں کی بربادی دیکھ کر ۔ ۔ ۔
میں نے اپنے بھائی کی مروہ لاش اٹھائی ہے ۔ اب تم لوگ اس زندہ لاش کو کاندھا
دو ۔
شاہ میر نے حریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اب تک گھونگھٹ میں تھی ۔
شاہ میر کی ویگو اُس کے علاقے کی طرف رواں دواں تھی ۔ وہ آگے بیٹھا ہوا تھا ۔ پچیس سالہ مراد جو کے شاہ میر کا سب سے خاص بندہ تھا ۔ وہ گاڑی ڈرائیور کر رہا تھا ۔ حریم پیچھے بیٹھی اپنا کوئی گناہ یاد کر رہی تھی جسکی سزا سے آج اس صورت میں ملی تھی۔ سرخ رنگ کے گھیر دار فراق میں دو پٹے کے پلو سے گھونگھٹ بنائے وہ بیٹھی شاہ میر کو
دیکھ رہی تھی جس کا رخ آگے ونڈ اسکرین پر تھا۔
شفون کے باریک دو بیٹے سے وہ اُسے دیکھ حریم کے ساتھ شاہ میر کی ایک ملازمہ بیٹھی ہوئی تھی جو کے خاص اسی لیے لائی گئی تھی۔
راستہ کافی لمبا تھا ۔
اس سفر میں ان کو اب ڈیڑھ گھنٹہ بہت چکا تھا ۔ آگے جانے اور کتنا سفر باقی تھا۔
تقریبا دو گھنٹے کے بعد گاڑی شاہ میر کے گاؤں کے حدود میں داخل ہوئی تو حریم نے دیکھا کہ گاؤں کے کچھ لوگوں نے اسلحہ ہاتھوں میں لیا ہوا ہے اور انہوں نے فائرنگ شروع کر دی
شاید خوشی کے مارے ۔
یہ رسم ہوا کرتی تھی۔ جب کوئی بدلہ لے کر واپس آتا تھا تو گاؤں کے لوگ خوشی سے فائرنگ کرتے تھے ۔ لیکن اب بدلے کی وجہ سے نہیں بلکہ شاہ میر کے نکاح کی وجہ سے کی گئی تھی۔ گاؤں کے لوگ اس بات کو جیت سمجھ رہے تھے کہ سردار شاہ نواز کی بیٹی کو شاہ میرونی میں
لے کر آرہا ہے ۔
حویلی پہنچتے پہنچتے شام کے سائے ڈھل چکے تھے ۔ اور رات نے اپنی چادر پھیلالی تھی ۔ حویلی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھی ۔ یہ ماڈرن طرز کی حویلی تھی ۔ جس میں اسٹائلش قسم کی لائٹس لگی ہوئی تھیں۔ کچھ سال پہلے ہی اس حویلی کو توڑ پھوڑ کر کے ماڈرن لک دیا گیا
تھا۔
شاہ میر کو اس لڑکی میں کسی قسم کی کوئی دلچسی نہیں تھی جس سے کچھ دیر پہلے اس کا نکاح ہوا
تھا۔
اور حریم کی نظروں میں شاہ میر اسی وقت گر گیا تھا جب اس نے اسے ونی میں مانگا تھا ۔ پیسے ما نگتا تو شاید حریم اُس سے اتنی نفرت نہ کرتی۔
شاہ میر کی گاڑی کے بریک مارتے ہی اُس کے پیچھے والی تمام گاڑیوں نے بھی بر یک ماردی
تھی۔
حریم کی حالت غیر ہونے لگی۔ مگر اس نے خود کو مضبوط کیا ہوا تھا ۔
شاہ میر ایک جھٹکے سے اُترا۔
” اسے اندر لے آؤ۔ “
حریم کے ساتھ بیٹھی ہوئی سجدہ کو وہ ہدایت دیتا ہوا آگے بڑھا۔ سجدہ حریم لے وہاں کے آئی ۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئے ۔ سامنے سلطانہ خاتون کھڑی تھیں ۔
” لے آیا ہوں اماں ظفر کی بہن کو “شاہ میر نے سلطانہ خاتون سے کہا۔ یہ ونی والی پٹی بھی انہی کے پڑھائی ہوئی تھی شاہ میر کو۔
سلطانہ خاتون آہستہ سے چلتی ہوئی حریم کے قریب آئی ۔
شاہ میر نے وہاں موجود تمام گارڈز اور ملازموں کو انگلی کے اشارے سے جانے کے کہا تو وہ سب کسی بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو گئے۔ اب وہاں صرف مراد ، سجدہ ہی کھڑے تھے ۔
مرادشاہ میر کا خاص تھا اور سجدہ سلطانہ خاتون کی ۔ ۔ ۔
“شاہ میر سلطانہ خاتون نے نظروں کے اشارے سے کچھ حکم صادر کیا تو شاہ میر سمجھ گیا
کے اب اُسے کیا کرنا ہے ۔
حریم کسی مجرم کی طرح وہاں سر جھکے کھڑی تھی، جیسے کوئی بے جان مورتی ہو ۔ ۔ ۔ تراشی
ہوئی۔
شاہ میر آہستہ آہستہ سے چلتا ہوا اُس کے بلکل قریب آکر کھڑا ہو گیا ۔
” مراد ۔ ۔ ۔ ویڈیو بناو ۔ “
شاہ میر نے اپنا موبائل مراد کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ مراد نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کیمرہ آن کیا۔
حریم سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ شاہ میر کیا کرنے والا ہے اُس کے ساتھ ۔ حریم کی نظریں اب شاہ میر کے جوتوں کی طرف تھیں جو نوریزی طرز کے سیاہ چمکدار تھے ۔ شاہ میر نے اس کا گھونگھٹ پلٹا ۔
اُس نے دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور دیکھتا رہ گیا ۔ ۔ ۔
چہرہ ایک پھول کی طرح شاداب ہے چہرہ اس کا ہے یا کوئی مہتاب ہے چہرہ جیسے کلی ۔ ۔ چہرہ جیسے کنول
شاہ میر کے دل سے آواز آئی ۔ ۔ وہ ایک پل کو اس چہرے میں ایسے کھو گیا جیسے دنیا میں
اس چہرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں ۔ اور اگلے ہی لمحے جنید کا خون میں لت پت چہرہ
ا اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔
اس کی آنکھیں تپش سے سرخ ہو گئیں
دل کا گلا گھونٹ دیا ۔ ۔ ۔ بدلے کی آگ جلانے لگی ۔
اگلے ہی پل اُسکا ہاتھ اٹھا اور ایک زناٹے دار تھپڑ حریم کے گال پر اُس نے دے مارا۔
یہ تھپڑ اتنا شدید تھا کے حریم اپنا توازن قائم نہ کر سکی اور لڑکھڑتی ہوئی ماربل کے فرش پر جا
گری۔
حریم کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے ۔
اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہ میر نے اُسے تھپڑ مارا ہے ۔ حالانکہ وہ اس سب کے لیے
اپنا ذہن تیار کر کے آئی تھی ۔
حریم نے نظر اٹھا کر شاہ میر کو حیرت اور دکھ سے دیکھا۔
مراد ویڈیو بند کر چکا تھا۔
مراد کا دل بھی جیسے دہل گیا اس منظر پر جیسے اُس نے ابھی کیمرے کی آنکھ میں قید کیا تھا ۔ حریم شاہ میر کو دیکھ ہی رہی تھی کہ شاہ میر نے اپنا ہاتھ جس سے اس نے حریم کو تھپڑ مارا تھا اُسے سامنے والی کھڑکی پر دے مارا اور کھڑکی ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئی ۔ حریم نے دیکھا شاہ میر کی ہتھیلی سے اب خون رس رہا تھا ۔ وہ اُسے حیران پر حیران کیے جا رہا تھا ۔ کیا اس شخص نے خُد کو سزا دی ہے ؟؟؟ اس تھپڑ کی جو اس نے مجھے مارا؟ اور اپنا ہاتھ زخمی کر دیا ؟
حریم سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
وہ فرش پر ہی بیٹھ گئی ۔
شاہ میر – – – یہ کیا کیا تم نے ؟ ؟ ” سلطانہ خاتون فورا آگے بڑھیں اور اُس کا خون آلودہ
ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔
سجدہ جلدی سے پٹی لاؤ ” سلطانہ خاتون کی حکم پر سجدہ فورا بھاگتی ہوئی گی اور فرسٹ ایڈ کا
سامان لے آئی۔
تم سے ایسی بچگا نہ حرکت کی توقع نہیں تھی مجھے شاہ میر ۔ سلطان خاتون نے اس
کے ہاتھ میں پٹی باندھ دیتے ہوئے کہا ۔
شاہ میر نے ایک نظر حریم پر ڈالی ۔ جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی بچہ کسی جن سے خوفزدہ ہو کر اُسے دیکھ رہا ہو۔
شاہ میر کے دل سے پھر آواز آئی ۔ ۔ ۔ حریم کی جھیل سی آنکھیں دیکھ کر ۔
اُس نے پھر سر جھٹک دیا ۔
وہ اب صوفے پر بیٹھا تھا اور سلطانہ خاتون اُس کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھیں ۔ مراد بھی حیران تھا ۔ وہ اب حریم کو دیکھ رہا تھا ۔ پھر شاہ میر کے خوف سے نظریں ہٹا لیں۔ اس کے دائیں کندھے پر رائفل لٹک رہی تھی ۔ہلکی داڑھی ، سفید رنگ کا لباس ۔ ۔ ۔
کاندھے پر سیاہ شال اوڑھے ۔ ۔
حریم اُس کے ہاتھ میں موبائل کو دیکھنے لگی جس میں اُس نے ویڈیو بھری تھی ۔
مراد شاہ نواز کے گھر میں کسی کا نمبر دیکھ یہ ویڈیو ان کو بھیج دو ۔
آج کے لیے اس لڑکی کی رخصتی ہی کافی ہے ۔ سلطانہ خاتون نے مراد سے کہا ۔
یہ نہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔
میرے گھر والے تڑپ جائیں گے ۔ ) حریم کی حالت غیر ہو گئی ویڈیو
کا سوچ کر ۔
اماں میں تھک گیا ہوں ۔ مجھے آرام کرنا ہے ۔ شاہ میر کہتا ہوا اٹھا اور ایک نظر پھر حریم پر
ڈالی۔
اور یہ لڑکی سائیں ؟ سجدہ فوراً بولی۔
مجھے نہیں پتہ اس کا ۔ ۔ ۔ میری نظروں کے سامنے نہ آنے پائے یہ لڑکی آج کے بعد ۔ ۔ ۔ شاہ میر کہتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔
شاہ میر کے جانے کے بعد سلطانہ خاتون اٹھیں اور حریم کے قریب آئیں۔ اگر تیرے بھائی میں ذراسی بھی غیرت باقی ہے تو وہ تجھے آزاد کروانے ضرور آئیگا ۔ ۔ ۔ لیکن تب تو حویلی میں ایک ملازمہ کی حیثیت سے رہے گی ۔ اور شاہ میر کی بیوی کے مقام کا تو سوچنا بھی مت ۔ ۔ ۔ یہ تھپڑ جو آج تجھے پڑا ہے ہر پل تجھے تیری اوکات یاد دلائے گا۔ جس دن ظفر نے خُد کو شاہ میر کے حوالے کر دیا ۔ ۔ ۔ اُس دن تو آزاد ہو جائے گی ۔ سلطا نہ خاتون نے کہا اور کھڑی ہو گئیں ۔ ساجدہ اسے اپنے کمرےمیں لے جاؤ سلطانہ خاتون نےکہا اور وہاں سے چلی گئیں۔ اب وہاں صرف حریم ، سجدہ اور مراد موجود تھے
ساجدہ نے حریم کو بازو سے پکڑا ۔
چل اٹھ ۔ ساجدہ انتہائی ہتک آمیز لہجے میں بولی ۔
آرام سے ساجدہ – – – شاہ میر کی بیوی ہیں یہ ۔ مت بھول نکاح ہوا ہے ان کہ شاہ میر سے ۔ مراد سے یہ سلوک نجانے کیوں برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
تمہیں بڑا ترس آرہا ہے اس پر ۔ ساجدہ نے منہ بنا کر مراد سے کیا۔ مراد نے ایک نظر حریم پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔