Badnaseeb Beti Novel Part 2 – Urdu Social Novel | Full Story in Urdu Font


Badnaseeb Beti Part 2 continues the emotional journey of a girl born into a world of injustice, pain, and betrayal. This bold Urdu story explores deep social issues faced by women in our society. Written in clear Urdu font, the novel blends raw emotion with strong storytelling.

If you’re looking for a realistic Urdu novel, a social issue-based story, or a heart-touching Urdu tale, this part will keep you hooked till the end.

urdu social novel

Badnaseeb Beti Novel Part 2 – Urdu Social Novel | Full Story in Urdu Font

“تمہیں بڑا ترس آرہا ہے اس پر ۔ ” ساجدہ نے منہ بنا کر مراد سے کہا ۔ مراد نے ایک نظر حریم پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔
شاہ نواز کی حویلی میں رات کے اس پہر موت کہ سا سناٹا تھا ۔ ہر فرد پہلو بدل رہا تھا مگر نیند
کسی کو بھی نہیں آرہی تھی ۔ یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا ۔ “آمنہ بیگم سجدہ ریز تھیں ۔ سو جاؤ آمنہ ، ” شاہ نواز نے اپنی بیگم سے کہا ۔
آپ سو سکتے ہیں ؟ “آمنہ بیگم بولیں۔ ایک نہ ایک دن تو اسے اس گھر سے رخصت ہونے ہی تھا ۔ “شاہ نواز بلوچ نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اس طرح سے ؟ ؟ ؟ اسے آپ رخصتی کہتے ہیں ؟ کوئی جنازہ بھی ایسے نہیں جاتا ۔ ۔ ۔ جیسے میری بیٹی گئی ہے ۔ مردے کو بھی اُمید ہوتی ہے کہ خدا اس کے ساتھ خیر کا معاملہ کرے گا ۔ ۔ ۔ مگر میری بیٹی تو درندے کے پاس گئی ہے ۔ “آمنہ بیگم نے کہا ۔
شاہ میر در ندا نہیں ہے ۔ ” شاہ نواز نے کہا۔

آپ دے لیں خد کو دلاسہ ۔ ۔ ۔ جتنا دینا ہے ۔ سچ یہی ہے کہ میری بچی ۔ ۔ ۔ “آمنہ بیگم
رونے لگیں ۔
نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے ۔ ۔ ۔ سواس حویلی کے مکینوں کو بھی آگئی تھی ۔
ولید اپنی رائفل صاف کر رہا تھا ۔ وہ بپھرا ہوا شیر بنا بیٹھا تھا ۔
شاہ میر مرے گا میرے ہاتھوں ۔ ۔ ۔ سمجھتا کیا ہے کہ میری منگ لے جائیگا اور میں
تماشہ دیکھتا رہوں گا ؟ ” ولید نے کہا ۔
“آرام سے ولید آرام سے ۔ ۔ ۔ ظفر والی غلطی نہ کرنا ۔ ” ریان نے سمجھایا ۔
سمجھ انہی آتا کہ ظفر کو زمین کھا گئی یاں آسمان نگل گیا ۔ ۔ ۔ ولید بولا ۔
مجھے تو لگتا ہے شاہ نواز چچانے اسے خود رو پوش کرا دیا ہے ۔ سب ڈراما ہے ہے کہ ظفر
بھاگ گیا ۔
ریان نے کہا۔
مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے ۔ ” ولید نے رائفل لوڈ کرتے ہوئے کہا۔

حریم بو جھل قدموں سمیت ساجدہ کے کمرے میں آئی جو کہ حویلی کے پچھلی طرف تھا ۔ وہاں
دو چار پائیاں رکھی ہوئی تھیں ۔
یہ تمہارا بستر ہے۔ ساجدہ نے ایک لحاف چار پائی پر بچھاتے ہوئے کہا۔
حریم وہاں لیٹ گئی ۔
پہلے تو مجھے لگا شاہ میر گیا کام سے ۔ ۔ ۔ جب اس نے تمہارا گھونگھٹ پلٹا تب ۔ ۔ ۔ پھر ضرور بھائی کی یاد آگئی ہوگی ۔ ساجدہ نے اپنی چارپائی اور لیٹتے ہوئے کہا۔
ویسے ایک بات بتاؤں ۔ ۔ ۔ یہ سلطانہ بیگم ہیں نا ۔ ۔ یہ شاہ میر کی سگی ماں نہیں ہیں ۔ شاہ میر کی ماں تو اسے جنم دیتے ہی زچگی کے درد میں مرگئی تھیں ۔ پھر سال بعد سلطان میر
نے سلطانہ خاتون سے نکاح کیا
اُن کا نام تو شگفتہ ہے ۔ ۔ ۔ لیکن سلطان میر کی وجہ سے اُن کا نام سلطا نہ رکھا گیا یہاں آکر ۔ ساجدہ بتانے لگی۔ وہ باتوں کی بے حد شوقین تھی ۔ ۔ ۔ اور نئے انکشافات کرنے کی
بھی ۔ تو وہ اپنا شوق پورا کر رہی تھی ۔
حریم اپنے ماتھے اور اپنا بازو رکھے کسی غیر مرئی نکتے کو تکے جارہی تھی ۔ پتا نہیں وہ ساجدہ
کو سن بھی رہی تھی یاں نہیں ۔ ۔ ۔

جنید سائیں نا سلطانہ خاتون کے بیٹے تھے ۔ یعنی شاہ میر سائیں کے سوتیلے بھائی ۔ ۔ ۔ لیکن پیار سگوں سے بھی بڑھ کر تھا دونوں میں۔ ساجدہ نے بتایا۔
شاہ میر سائیں تو سلطانہ خاتون کے حکم کے تابع ہیں ۔ جیسا وہ کہتی ہیں وہ ویسا ہی کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ تمہیں خون بہا میں مانگنے کا حکم بھی سلطانہ خاتون نے ہے دیا تھا شاہ میر سائیں کو
” ساجدہ نے کہا ۔
ساجدہ بولے جارہی تھی کہ اچانک حریم کو دیکھا تو وہ سو چکی تھی۔ بیچاری ۔ ساجدہ نے کہا اور لائٹ آف کر دی ۔
وہ پہلو بدل بدل کر تھک گیا تھا ۔پٹی شدہ ہتھیلی کو دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔
اُسے ہاتھ میں درد ہو رہا تھا۔ اس نے پین کر لیا اور پھر سے لیٹ گیا۔ بار بار آنکھوں کے سامنے حریم کا چہرہ آجاتا ۔ اب وہ اپنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے ایک نائٹ کلب میں بیٹھا وہ شراب کے گھونٹ پیتا ہوا بظاھر تو وہ سامنے منظر کو دیکھ رہا تھا لیکن حقیقت میں اس کی آنکھیں کسی
غیر مرئی نکتے کی طرف مرکوز تھی ۔
سامنے رنگ و بو کا ایک سیلاب سا تھا ۔
حسینائیں تھیں جو محور قص تھیں۔ مگر اسے نا حسیناؤں میں اس وقت کوئی دلچسپی محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی تو ان رنگ و بو میں ۔ ۔ ۔ وہ تو محض وقت گزاری کے لیے روزانہ رات یہاں آجایا کرتا تھا۔ پچھلے آٹھ مہینوں سے اس کا یہی معمول تھا ۔ اس کے سامنے بیٹھا ہوا رشید جو کہ اس کا ملازم بھی تھا اور باڈی گارڈ بھی اس کی ہر حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھے
ہوئے تھا ۔
وں کو اس کہیں جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہ سویرے وہ پاک میں اک پر جاتاتھا اور اس کے بعد تمام دوپہر سویا رہتا تھا ۔ شام کو وہ اس کلب میں آجاتا اور رات گئے تک یہاں ہی رہتا۔ یقینا اس روٹین سے بے حد اکتا چکا تھا ۔ مگر یہ اس کے بابا سائیں کا حکم تھا
کہ سے اسی شہر میں رہنا ہے ۔ اور روپوش ہو کر رہنا ہے ۔
بلو کر کی جینس پر بلیک کلر کی شرٹ اور اس کے اوپر لیدر کی جیکٹ پہنے ہوئے وہ کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ وقفے وقفے سے شراب کے گھونٹ پی رہا تھا ۔

ان آٹھ مہینوں میں اسے سب سے زیادہ نفرت رشید سے ہو گئی تھی ۔ جو ہمہ وقت کسی
سائے کی طرح اس کے پیچھے تھا۔
وہ اچانک اٹھا تو رشید بھی ایک دم اس کے پیچھے ہو لیا ۔
واش روم جا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ کم از کم وہاں تو پیچھا چھوڑ دو ۔ ” اس نے بیزاری سے کہا ۔ رشید واش روم کے دروازے کے باہر ہی کھڑا ہو گیا ۔ اس کی جیب میں پسٹل تھا جس کی کسی کو
خبر نہیں تھی سوائے ظفر شاہ نواز کے ۔
وہ پھر سے اپنی نشست پر بیٹھ گیا جہاں پہلے بیٹھا ہوا تھا ۔ رشید پھر سے اس کے ساتھ آکر بیٹھ
گیا۔
اتنے میں رشید کا موبائل بچا۔
نمبر دیکھ کر شیدا ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا۔ اور کلب کے باہر آ گیا ۔ حکم سائیں ۔ ” رشید نے کال اٹینڈ کی اور فوراً بولا۔
ظفر کو جرگے کے فیصلے کے بارے میں کچھ معلومات تو نہیں ہوا نہ ؟ “آگے سے
شاہنواز نے پریشانی سے پوچھا ۔
نہیں سائیں ابھی تک تو کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ رشید نے راز دارانہ انداز میں کہا ۔

رشید ا سے کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔ اگر اسے پتہ چلا کہ شاہ میر اس کی بہن لے گیا ہے خون بہا میں تو وہ یا تو خود کو شاہ میر کے آگے پیش کر کے حریم کو آزاد کروا دے گا ۔ یا پھر شاہ میر
کو ہی قتل کر دے گا ۔ میری بات سمجھ رہے ہو نا تم ؟ “
شاہنواز نے کہا ۔
جی سائیں سمجھ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ اگر چھوٹے سائیں کو یہ بات بتا چلی تو وہ دنیا کو آگ لگا دیں
گے ۔رشید بھی پریشان تھا ۔
میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ پیسے وہ لینے کو تیار نہیں تھا ۔ میں نے جو
بھی کیا اس کی جان بچانے کے لیے کیا ۔
شاہنواز نے کہا ۔
۔ اصل میں فکر تو اسے اپنی آزادی کی تھی ۔ ظفر کی وجہ سے وہ خود
آٹھ مہینے سے یہاں رہ رہا تھا ۔ میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ بظاہر تو خون بہا لے چکا ہے شاہ میر ۔ لیکن اگر ظفر آزاد ہو گیا تو اس کو مار بھی سکتا ہے طیش میں آکر مجھے حالات بہتر ہونے تک صبر کرنا ہوگا۔ بس تم ظفر پر کڑی نظر رکھو۔ اس کا فیس بک اکاؤنٹ سے ڈیلیٹ ہے نا؟ اسے سمجھاؤ کہ اگر اس

نے لوگن کیا تو آسانی سے اس کی لولیشن پتہ چل سکتی ہے ۔ تم نہیں جانتے شاہ میر کو میں
جانتا ہوں ۔ “شاہنواز نے کہا۔
آپ فکر نہ کریں سائین چھوٹے سائیں کو اپنی جان پیاری ہے ۔ ۔ رشید نے کہا۔مگر اسے اپنی جان سے بھی زیادہ حریم پیاری ہے تم جانتے ہو۔ ” شاہنواز نے کہا ۔
“جی سائیں اسی بات کا تو مجھے بھی خوف ہے ۔ ” رشید نے جواب دیا۔ میں کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گا ۔ فلحال مجھے جو بہتر لگا میں نے وہی کیا ۔ ” شاہنواز نے کہہ
کر کال کاٹ دی ۔ ظفر شیشے کے پار سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا سوالیہ نظروں سے ۔
کس سے بات کر رہے تھے ؟ ” رشید اندر آیا تو اس نے پوچھا۔
بڑے سائیں کا فونتھا ۔ پوچھ رہے تھے آپ نے فیس بک پر لا ان تو نہیں کیا کہ رہے تھے اس سے دشمنوں کو آپ کی لوکیشن کا پتہ چل سکتی ہے ۔ “
رشید نے پھر سے تصدیق چاہی۔ تم فکر مت کرو رشید ۔ ۔ ۔ سب جانتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ نا پولیس کے ہاتھ لگوں گا اتنی آسانی سے اور نہ شاہ میر کے ۔ ظفر شاہ نواز نام ہے میرا ۔ ۔ ۔
ظفر نے مشروب ختم کر کے گلاس میز پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح سویرے اس کی آنکھ عجیب سی چیز سے کھلی ۔
اگلے ہی پل اسے محسوس ہوا کہ اس کے منہ پر ٹھنڈا پانی کسی نے انڈیل دیا ہے اسے جگانے
کے لئے.
“تیرے باپ کی حویلی نہیں ہے یہ جو دن چڑھے تک سوتی رہی توں ۔ چل اٹھ اور کام پر لگ
سلطان خاتون اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی رہی تھیں۔
اس نے دوپٹے کے پلو سے اپنے چہرے سے پانی صاف کیا اور اٹھ بیٹھی۔
وہ ایسے سوئی تھی کہاں سے ہوشی نہیں رہا کہ رات کیا ہوا تھا ۔ لیکن اب پھر سے اسے سر
یاد آ گیا تھا۔
سب
اپنے گھر میں تو وہ سوتی تھی تو اس کی کمرے کے آگے کسی کو بیٹی کہنے کی بھی اجازت نہیں
تھی کہ کہیں اس کی نیند خراب نہ ہو۔ سر دار بی بی آپ کیوں تشریف لائیں ہیں یہاں میں خود اسی جگا لیتی ۔ ساجدہ نے پریشان ہو کر کہا۔ کیونکہ سلطانہ شاذ و نادر ہی اس کے کمرے میں آتی تھیں ۔ جب کوئی بہت رازداری کی بات ہو اور حویلی کے اندر نہ کی جا سکے تب ۔

اسے تکلیف میں دیکھ کر مجھے سکون ملا کل ، اسی سکون کی تلاش میں آئی ہوں ۔ ” سلطانہ بیگم نے حریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئیں ۔ حریم کھڑی ہو گئی اور اپنے سوٹ کیس کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جو اسے اسی کمرے کے ایک کونے میں پڑا ہوا ملا۔ وہ شاید ساجدہ نے رکھوایا تھا رات اُس کے سونے کے بعد ۔
اُس نے کھولا اور ایک سوٹ نکالا۔
اُس کے پاس برانڈڈ کپڑے تھے ۔ اسٹائلش سے ۔ اُس نے ایک سوٹ نکالا جو کہ سب سے
سادہ تھا ۔
واشروم کہاں ہے ؟ ” اس نے ساجدہ سے پوچھا تو اس نے اشارے سے بتایا۔ وہ واشروم گئی تو دیکھا وہاں ایک چھوٹا سانل تھا جس کے نیچے ایک بالٹی رکھی ہوئی تھی جس
میں ایک منزل واٹر کی کاٹی ہوئی بوتل تیر رہی تھی ۔ نہانے کا یہی سامان تھا یہاں ۔ حریم کی آنکھ بھر آئی ۔ خیر وہ جلدی نہا کر نکلی ۔ اور سوالیہ نظروں سے ساجدہ کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کے کیا کام کرنا ہے ۔ ۔ چل کچن میں ساجدہ اسے ہاتھ پکڑتے ہوئے لے گئی ۔ حریم اس کے ساتھ کھیچتی چلی گئی۔ یہ آٹا گوندھ اور پراٹھے بنانا شروع کر ۔ ساجدہ نے حکم صادر کیا۔
اب وہ سامنے پڑے آٹے کو دیکھ رہی تھی۔

“مجھے آٹا گوندھنا نہیں آتا ۔ ” تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ بولی۔
آٹا تو اسے ملازمہ گوندھ کر دیتی تھی ۔ وہ پراٹھے پکانا جانتی تھی ۔ کیوں کے اسے کوکنگ کا بیحد شوق تھا ۔ اُس نے کوکنگ کورس بھی کے رکھا تھا ۔ ۔ ۔ شاید اس دن کے لیے ۔
پر اٹھا پکانا تو آتا ہے نہ ؟ ” ساجدہ نے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔ چل میری طرف دیکھ میں کیسے گوندھتی ہوں ۔ پھر سیکھ لے ۔ ساجدہ نے اسے آٹا گوندھ
کر دیا۔
“لے اب پر کا اس آٹے کے پراٹھے ۔ ساجدہ نے گوندھے ہوئے آٹے کا پہاڑ اس کے
سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
وہ دیکھنے لگی۔
جلدی کرو۔ سائیں شاہ میر کو سویر ے بھوک لگتی ہے ۔ ساجدہ نے کہا۔ ساجدہ کچن کا کام کم ہی کرتی تھی ۔ باقی ملازمہ حریم کو دیکھ رہی تھیں ۔
ساجدہ چلی گئی ۔
حریم نے پراٹھے بنائے شروع کیے ۔

اُسے یاد آیا وہ جب بھی چھٹیوں میں حویلی آتی تھی تو ظفر کے لیے اپنے ہاتھ سے ناشتہ تیار کرتی تھی ۔ ظفر اُس کے ہاتھ کے پراٹھے کھانے کے بعد اُس کی تعریفوں میں زمین آسمان
ایک کر دیتا تھا۔ اُس کی آنکھ بھر آئی ۔
ارے نوری ، شاہ میر سائیں جاگ گئے ہیں ۔ ۔ چائے پر اٹھا مانگ رہے ہیں ۔ اچانک سے ایک لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور نوری سے کہا جوٹرے سجا رہی تھی شاہ میر کے لیے ہی۔
” لا رہی ہوں ۔ ” نوری ایک دم پر اٹھا لینے بڑھی تو اُس کا پاؤں مڑ گیا۔
” اللہ جی” نوری کی آہ نکلی ۔ وہ زمین پر ہی بیٹھ گی ۔ باہر سے پھر نوری نوری کی پکار سنائی دی ۔
۔ منٹ صبر نہیں کرتے
وہ ۔ ” نوری نے اپنا پاؤں مسلتے ہوئے کہا
اور یہی تو حریم چاہتی تھی ، شاہ میر کے کمرے تک رسائی ۔ ۔ ۔ اُس نے فوراٹر ے اٹھایا
اور آگے بڑھی ۔
سامنے ایک لمبائی راہداری تھی ۔ ایک قطار تھی کھڑکیوں کی ۔ اب شاہ میر کا کمرہ کو نسا تھا اُسے نہیں معلوم۔

ایک لڑکا وہاں سے گزرا تو اُس نے پوچھا سنیں شاہ میر سائیں کا کمرہ کہاں ہے ؟ “
اُس لڑکے نے سر تا پا پہلے اُس کا جائزہ لیا پھیر ایک طرف اشارہ کر کے بولا۔ ” ادھر سامنے سے بائیں مڑ جانا۔ پہلا کمرہ اُنکا ہوگا ۔ ” لڑکے نے بتایا۔ وہ آگے بڑھی سامنے لاؤنج تھا ۔ اُسے یاد آیا یہاں ہی تو کل اُسے پہلا تھپڑ پڑا تھا ۔ پھر اسے
یاد آیا کے کونسے کمرے میں شاہ میر گیا تھا رات ۔
اُس نے دروازے پر دستک دی۔
“آجاؤ۔ “آگے سے آواز آئی ۔
اس سے پہلے کے وہ سر اٹھا تا حریم جانے لگی ۔ “سنو ۔ ” موبائل سے سر اٹھائے بغیر ہی وہ بولا تو حریم کا دل ڈوب گیا ۔
اُس کے قدم منجمد ہو گئے ۔
فرسٹ ایڈ باکس لا کر میری پٹی چیلنج کرو وہ یقینا اُسے نوری سمجھ رہا تھا ۔
وہ فوراً باہر آئی ۔
شاہ میر تمہیں بلا رہا ہے اس نے واپس آکر نوری سے کہا ۔

” یہ کیسے بات کر رہی ہو تم چھوٹے سائیں کے بارے میں؟ بلا رہا ہے ۔ ۔ ۔ شاہ میر ۔
بولوشاہ میر سائیں بلا رہے ہیں ۔ ” نوری نے کہا ۔
حریم کچھ نہ بولی ۔
نوری اب لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی اور شاہ میر کے پاس آئی ۔
سائیں آپ نے بلایا ؟ ” نوری نے کہا ۔
میں نے ؟ ؟ ؟ میں نے تم سے کہا فرسٹ ایڈ باکس لا کر میری پٹی چینج کروسنا نہیں کیا ؟
میر نے سر اٹھا کر دیکھا اور بولا۔
” میں تو نہیں آئی تھی سائیں ۔ میرے پاؤں میں موچ آگئی تھی۔ وہ آپکی ۔ ۔ ۔ مطلب وہ ہے نہ سائیں ونی وہ لائی تھی ناشتہ ۔ اُس نے کہا کہ آپ نے بلایا مجھے ۔ “
نوری نے کہا ۔
“وہ ؟ ؟ ؟ وہ کیوں آئی تھی یہاں ؟ ” شاہ میر کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔
بتایا تو ہے سائیں میرے پاؤں میں موچ ۔ ۔ ” نوری نے کہا ۔ اچھا اچھا اب دماغ نہ کھاؤ میرا ۔ جو کہا ہے وہ کرو ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔
وہ اب ناشتے کو دیکھ رہا تھا ۔

وہ پراٹھے پکا پکا کر تھک گئی تھی ۔
مزید اُس میں جان نہیں رہی تھی کھڑا ہونے کی ۔
سنو میں تھک گئی ہوں باقی کے تم پکا دو ۔ اس نے نوری سے کہا ۔
دیکھ نہیں رہی میرے پاؤں میں موچ آئی ہے ۔ “نوری نے کہا ۔
میں بھی تھک گئی ہوں مجھے عادت نہیں کام کی ۔ آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی۔ میں بھی انسان ہوں کچھ تو خدا کا خوف کریں آپ سب ۔ “حریم نے بے بسی سے کہا تو نوری کو
ترس آگیا ۔
چل ہٹ ” نوری نے اُس سے کہا تو وہ سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ نجانے کیا حال ہوگا میرے گھر والوں کا ۔ حریم کو فکر تھی تو بس یہی۔
تھوڑی پشت سہلانے کے بعد اسے آرام ملا۔ ورنہ کھڑے کھڑے پیروں کی جان نکل گئی تھی ۔ وہ ایک صحت مند لڑکی تھی ۔ جم بھی جاتی تھی ۔ خوش خوراک تھی ۔ مگر سچ یہ ہے کہ کام
انسان کو کمزور نہیں کرتا جتنا دکھ انسان کو ختم کرتا ہے ۔
سنو لڑکی ، سلطانہ خاتون کہہ رہی ہیں پونچھا لگاؤ۔ بہت دھول جمع ہوگی ہے ۔ ساجدہ نے آکر نیا حکم صادر کیا اور ایک ٹاول اس کی طرف اچھالا جو کے شاید پونچھے کے
لیے استعمال ہوتا تھا۔

میں تھک گئی ہوں ۔ “حریم نے کہا ۔
اٹھ جاؤ اس سے پہلے کے سلطانہ خاتون تمہیں بالوں سے گھسیٹی ہوئی لے جائیں ۔ “
ساجدہ نے دھمکی دی تو وہ اٹھی۔
پو نچھا بھگو کر اس نے لاؤنج سے شروع کیا ۔ اُس نے سی گرین سوٹ کے اوپر سیاہ شال
اوڑھ رکھی تھی ۔ اپنا سر ڈھانپ لیا تھا ۔
“مراد تم نے رات والی ویڈیو بھیجی شاہ نواز کے گھر ؟ “
حریم کو دیکھ کر جان بوجھ کر سلطانہ خاتون نے کہا ۔ اور حریم کی تو جان ہی نکل گئی۔
نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ میری ماں مرجائیگی دیکھ کر) اس کی آنکھیں نم ہوئیں ۔ مراد نے اُس کی طرف دیکھا پھر بولا ۔ نہیں سردار بی بی، محرم کی وجہ سے آج سارا دن نیٹ کے سگنل بند رہیں گے ملک کے دیہاتوں اور شہروں میں ۔ ایسے موقعوں پر دہشت گرد ی کے واقعات ہوتے ہیں نا اس لیے ۔ کل بھیج دونگا ۔ اور ویڈیو شاہ میر کے موبائل میں ہے میرے پاس نہیں مراد نے کہا تو
حریم کی جان میں جان آئی۔
اب اُسے صبح سے پہلے پہل وہ ویڈیو شاہ میر کے موبائل سے کسی طرح ڈیلیٹ کرنی تھی ۔

سارا دن کام کر کر کی اُس کی جان ہلکان ہوگئی تھی ۔ دکھ اور پریشانی میں تو ویسے بھی انسان
سے کوئی کام نہیں ہو پاتا ۔
ادا سائیں، کاش آپ یہ سب نہ کرتے ۔ کاش آپ صبر سے کام لیتے ۔ تو آج ہم ساتھ
ہوتے ۔ ) حریم اندھیرے کمرے میں آنسو بہا رہی تھی۔
وہ ساجدہ کے سونے کا انتظار کر رہی تھی ۔ جب اُسے لگا کے وہ سو گئی ہے تو اس نے ساجدہ کے سرہانے پڑا ہوا ایک چھوٹا سا ٹارچ اٹھا یا اور شال صحیح سے پیٹ کر دبے پاؤں
باہر آئی ۔
رات کا ایک بج رہا تھا اور حویلی میں ہو کا عالم تھا ۔
وہ کچن کے ذریعے اندر داخل ہوئی ۔ سامنے وہی راہ داری تھی ۔ اسے عبور کر کے لاؤنج تک آئی ۔ یاد کر نے لگی کے شاہ میر کا کمرہ کو نسا تھا ۔ اُسے یاد آ گیا ۔
اُس نے دل سے دعا کی کے کمرہ لاک نہ ہو۔ اور یہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی ۔
اُس نے ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔
وہ اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کیا ۔
شاہ میر کے ہلکے خراٹوں کی آواز سن کر اُسے اطمینان ہوا کہ وہ گھری نیند سو رہا ہے ۔

بیڈ سائڈ پر پڑا اس کا موبائل اٹھایا ۔ تو اُس میں فنگر پرنٹ کا لاک لگا ہوا تھا ۔ یہ اس کے لیے آسان تھا ۔ اگر کوڈلگا ہوتا تو وہ نہیں کھول پاتی ۔
اُس نے ٹارچ ایک طرف رکھی اور شاہ میر کا ہاتھ دیکھنے لگی ۔ دائیں ہتھیلی پر ابھی بھی پٹی
بندھی ہوئی تھی ۔ حریم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اُسے پڑنے ولا پہلا اور آخری تھپڑ تھا ۔ اُس نے موبائل شاہ میر کے ہاتھ کے قریب کیا اور آرام سے انگوٹھے کی طرف لے گئی ۔ اگلے ہی پل شاہ میر نے کروٹ لی اور حریم کا ہاتھ شاہ میر کے دونوں ہاتھوں کے بیچ دب کر
رہ گیا ۔
اوہ ۔ ۔ ۔ نو ۔ ۔ ۔ ۔ اُس نے پریشانی سے کہا ۔ اب اگر ہاتھ کھینچ لیتی تو شاہ میر جاگ جاتا ۔ ۔ ۔ وہ بے بسی سے وہاں ہی بیڈ کے قریب
اب وہ شاہ میر کے دوبارہ کروٹ لینے کے انتظار میں تھی ۔
حریم کو اب وہاں بیٹھے ہوئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے ۔ اُس کا ہاتھ ابھی تک شاہ میر کے ہاتھوں تلے تھا۔ اب وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی بیٹھی تھک چکی تھی ، نیند سے آنکھیں

الگ بوجھل تھی۔ سارے دن کی تھکاوٹ ، اتنا کام اُس کی سات پشتوں میں کسی نے نہیں
کیا ہو گا جتنا آج ایک دن میں اُس نے کیا تھا۔
تھکاوٹ کی وجہ سے نیند کا شدید غلبہ تھا ۔
اور اسے پتہ ہی نہیں چلا نیند اُس پر مہربان ہو گئی ۔ وہ اپنا سر بیڈ کے کونے سے لگائے
تھوڑی دیر بعد شاہ میر کروٹ لینے کے لیے جاگا تو اُسے کچھ محسوس ہوا۔ پہلے تو وہ سمجھ نہیں آیا کے کیا ہے پھر اس نے سامنے سوئی ہوئی حریم کو دیکھا تو چونک گیا ۔ وہ ٹارچ جو حریم نے رکھی تھی اس کی روشنی سے شاہ میر اُسے آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہیں تھی اس وقت ۔
اُسے جھنجوڑ کر جگایا۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو میرے کمرے میں ؟ وہ دھاڑا تو حریم ہڑ بڑا کر اٹھ گئی ۔ ذرا سی آنکھ
لگ گئی تھی اُس کی بس ۔
وہ ایک دم کھڑی ہوئی تو شاہ میر کا موبائل اُس کے ہاتھ سے گر گیا۔
شاہ میر اپنا موبائل اُس کے ہاتھ میں دیکھ کر حیران ہوا ۔ وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

چوری کرنے آئی ہو تم میرے کمرے میں ؟ ” شاہ میر بھی کھڑا ہوگیا ۔ حریم کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے ۔
‘بتاؤ میرا موبائل چرانے آئی تھیں ؟ “شاہ میر نے غصے سے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے
ہوئے کہا ۔
۔ میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری ہر چیز پر ۔ “حریم کو غصہ آگیا ۔ ” تم مجھے جان سے مارنے آئی تھیں ؟ ہیں نہ ؟ اسی مقصد کے لیے شاہ نواز نے تمہیں ونی میں دے کر میرے پاس بھیجا ہے نہ ؟ تا کہ مجھے مار کر تم ہر ا باپ اپنے بیٹے کو اور تمہیں آزاد
کروا سکے ؟ “
شاہ میر نے اس کے شانے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا تو حریم نے ایک دم سے اُس کے ہاتھ جھٹک دیئے۔
“تمہاری طرح تمہاری سوچ بھی گرمی ہوئی ہے ۔ “حریم نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
“میری سوچ گرمی ہوئی ہے ؟ میری سوچ ؟ قاتل تمہارا خاندان ہے ۔ اور تم کہہ رہی ہوں کہ میری سوچ گری ہوئی ہے ؟ ” شاہ میر کو غصہ آگیا ۔

جو بھی ہے میرے بھائی میں ایک مرد کو مار کر مردانگی دکھائی ہے ۔ تمہاری طرح کسی عورت کو سزا نہیں دی ۔ بھری پنچایت ہے تم نے مجھے مانگا ۔ اس کی جگہ اگر تم میرے بھائی کو قتل کر دے تو شاید میری نظروں میں اتنا نہ گرتےجتنا میری بولی لگانے پر گرے ہو ۔ تب میں سوچتی کے ہاں ٹھیک ہے اس شخص نے اپنے بھائی کے خون کے بدلے میرے بھائی کا خون کر کے صرف حساب برابر کیا ہے ۔ جب ادا سائیں تمہارے ہاتھ نہیں
لگے تو تم نے مجھے مانگ لیا ۔ تاکہ ایک بے قصور اور مظلوم سے بدلہ لے سکو ۔ “
حریم بھی حریم تھی ۔ ایک سردار کی بیٹی ۔ ۔ ۔ نازوں سے پلی ہوئی ۔ ۔ ۔ ایک ڈاکٹر — ایک پڑھی لکھی باشعور لڑکی ۔ ۔ ۔ کیسی چپ رہ سکتی تھیں اتنی جہالت دیکھ کر ۔
حریم کی بات سن کرشاہ میر کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔
پھر تمہیں سب سے زیادہ نفرت اپنے باپ اور بھائی سے ہونی چاہیے ۔ تمہاری نظروں میں گرنے کے حقدار مجھ سے پہلے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہیں ونی میں دے دیا ۔ میں تو غیر تھا میں نے تمہاری بولی لگائی ۔ وہ تو تمہارے اپنے تھے ۔ تمہارے باپ نے اپنا بیٹا
بچانے کے لیے تمہیں قربان کیا ہے ۔
آخری جملہ بہت جتانے والے انداز میں شاہ میر نے کہا ۔

حریم ایک پل کو لاجواب ہو گئی ۔ “اگر کوئی مجھ سے میری بہن ما نگتا ۔ قسم خدا کی اپنی گردن کٹا دیتا ۔ ۔ اپنے باپ کو پیش کرتا ۔ ۔ ۔ اپنے بھائی کو قربان کرتا ۔ ۔ ۔ اپنے چا کا بیٹا آگے کر دیتا ۔ ۔ ۔ لیکن اپنی بہن نہ دیتا ۔ ۔ ۔ تف ہے تمہارے گھر کے مردوں پر جنہوں نے اپنی بیٹی دے دی ۔ ۔ ۔ میں نے یہاں لا کر کونسا تمہیں ہاتھ لگایا ہے ؟ جو تمہاری عورت ہونے کا مجھے کوئی فائدہ ہو۔ میں نے تو پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ تمہاری شکل مجھے نظر نہیں آنے چاہیے ۔ بے غیرت میں نہیں ہوں بی بی ۔ ۔ ۔ بے غیرت ہوتا تو اب تک اس جائز رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمہارے ساتھ زبردستی کر چکا ہو تا ۔ ۔ ۔ بے غیر ت تمہارے گھر کے مرد ہیں ۔ ۔ ۔ جنہوں نے ایسا
کیا ۔
حریم میں کچھ بولنے کے لئے لب کھولے مگر سمجھ نہیں آیا کہ کیا بولے ۔ اسی طرح بتاؤ کہ میرے کمرے میں تم کیوں آئی تھیں ؟ اور میرے موبائل کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہی تھی ؟ ورنہ وہ تھپڑ تمہیں یاد ہو گا ۔
شاہ میر نے کہا۔
میں تمہارے آگے جوابدہ نہیں ہوں ۔ “حریم نے فورا کہا ۔

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی ۔ ۔ ۔ شاہ میر نے افسوس سے نفی میں گردن ہلاتے
ہوئے کہا ۔
“کیا مطلب ہے اس بات کا ؟ “حریم نے پوچھا ۔
مطلب یہ کہ بھول جاؤ کہ تم سردار کی بیٹی تھی ۔ بس یہ یادر کھوکہ تم یہاں غلامی میں آئی ہو ۔ اور آداب غلامی سیکھ لو۔ نظر اور سر جھکا کر میرے سامنے بات کرو ۔ گردن اکڑ کر بات کرنے والی اوقات اب تمہاری نہیں رہی ہے ۔ سردار کی بیٹی نہیں ہو اب تم “
شاہ میر نے کہا۔
سردار کی بیٹی نہیں ہوں مگر سردار کی بیوی تو ہوں نا… حریم نے جتانے والے انداز میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔
ونی میں آئی ہوئی ایک لڑکی ۔ شاہ میر نے جواب دیا ۔
سر دار شاہ میر سلطان کے نکاح میں آئی ہوئی اس کی شرعی بیوی ہوں میں ۔ ۔ ۔ اور سر دار شاہ میر چاہے جتنا اس حقیقت کو دنیا کے سامنے جھٹلا لے مگر اللہ کے سامنے نہیں جھٹلا سکتا ۔ اگر غلام بنا کر رکھنا ہے تو مجھے طلاق دو ۔ پھر غلام بناؤ۔ پھر بیوی نہیں باندی
بولو۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا
حریم نے کہا

اس لڑکی نے شاہ میر کو حیران کر دیا تھا ۔ شاہ میر کے ذہن میں یہی تصور تھا کہ ایک ڈری سہمی لڑکی ہوگی ۔ جو اس کے دھاڑنے پر خوفزدہ ہو کر ایک کونے میں بیٹھ جائے گی ۔ مگر یہ سوچ تھی اس کی ۔ آگے بھی سردار کی بیٹی تھی ۔ ۔ ۔ سرداری شاید اس کی رگوں میں خون کی جگہ دوڑ رہی تھی ۔ اس لیے سارا دن غلاموں کی طرح کام کرنے کے باوجود بھی وہ شاہ میر
کے سامنے اکڑ کھڑی تھی ۔ “تمہیں بالکل ڈر نہیں لگ رہا مجھ سے ؟
شاہ میر نے پوچھا۔
ضرور لگتا ۔ ۔ ۔ اگر تم مجھے تھپڑ مارنے کے بعد اپنا ہاتھ زخمی نہ کر لیتے تو ۔ ۔ ۔ تو ڈر لگتا کہ تم مار مار کر میری جان ہی لے لو گے ۔ مگر جو انسان ایک لڑکی کو تھپڑ مارنے کے بعد اپنا ہاتھ زخمی کرلیتاہے ۔ دو سر اتھپڑ مارنے کی ہمت اس میں نہیں ہے ۔ ” حریم نے پورے یقین سے کہا ۔ اور اگلے ہی پل اس کا یقین ٹوٹ گیا ۔ جب شاہ میر کا ہاتھ
اٹھا اور اور اس کے گال پر ثبت ہو گیا۔
حریم بے یقینی سے اپنا گال چھو کر دیکھ رہی تھی ۔

پہلی بار تم ہی تھپڑ مار کر مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے غلط کیا ۔ ۔ ۔ اور آج مجھے لگ رہا ہے کہ اس کی تمہیں شدید ضرورت ہے ۔ میں یہاں تمہیں پھولوں کی سیج پر بٹھانے کے لیے نہیں لایا ہوں ۔ میں صرف تمہیں ظفر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے لایا ہوں ۔
شاہ میر نے کہا۔ اسی پٹی شدہ ہاتھ سے اس نے حریم کو تھپڑ مارا تھا۔ “میرا جوان بھائی کا قتل ہوا ہے بی بی ۔۔۔ میں وہ نرم دل شاہ میر نہیں رہا جو جانوروں کے
ساتھ بھی نرمی کرتا تھا ۔ ۔ ۔ میں اب پتھر ہو گیا ہوں ۔ آو دیکھواسے ۔ ” شاہ میر حریم کا بازو پکڑ کرتے ہوئے اسے گھسیٹ کر دیوار کے سامنے لے آیا ۔ جہاں پر شاہ میر اور جنید کی اٹھی تصویر لگی ہوئی تھی ۔ وہ دونوں اس تصویر میں مسکرا رہے تھے زندگی سے بھر پور۔ بہت بڑے اور خوبصورت فریم میں فریم کی ہوئی وہ تصویر اس بات کی گواہی
دے رہی تھی کہ شاہ میر کو اپنے بھائی سے کس قدر محبت تھی ۔ “دیکھوا سے ۔ ۔ ۔ کیا قصور تھا اس کا ؟ صرف اتنا کہ اس نے اس لڑکی سے محبت کی جس سے تمہارا بھائی محبت کرتا تھا ؟ میری معصوم سے بھائی کو اس کی محبت کی سزا دی ہے تمہاری ظالم بھائی نے ۔ صرف اس لیے کہ اس لڑکی نے میرے بھائی کی محبت قبول کرلی تھی ۔ ۔ ۔ اور حسد میں آکر تمہارے بھائی نے میرے بھائی کو مار دیا ۔ اور تم سوچ رہی ہوں

کہ میں تمہارے ساتھ نرمی کروں گا؟ نہیں بی بی نہیں ۔ ۔ ۔ سوچنا بھی مت کے شاہ میر سلطان تمہارے ساتھ نرمی کرے گا ۔ شاہ میر نے غصے سے کہا کہ وہ ابھی تک اس کے بازو پر اپنا پنجا جکڑے ہوئے تھا ۔ ” اب میری نظروں کے سامنے سے غائب ہو جاؤ اس سے پہلے کہ میں تمہارا خون کر
دوں
شاہ میں نے اسی دروازے کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا ۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئے بچی ۔
پھر تیزی سے وہاں سے بھاگتے ہوئے راہداری کی طرف بڑھی ۔ مراد جو اسی راہداری میں کھڑا کھڑکی کے باہر لان کو دیکھ رہا تھا
اچانک ہی اس نے دیکھا کہ حریم بھاگتی ہوئی جا رہی ہے اپنے آنسوؤں کو پہنچتی ہوئی ۔ اس نے شاید مراد کی موجودگی میں محسوس نہیں کی تھی۔ اس کی شال اس کے سر سے ڈھلک کر شانے پر آچکی تھی ۔ جوڑے میں قید لمبے سیاہ چمکدار بال بکھرے ہوئے تھے ۔ وہ تیزی سے راہداری عبور کرتی ہوئی کچن میں گھس گئی۔

اگلے ہی پل مراد کو خیال آیا کہ وہ شاہ میر کے کمرے سے نکل رہی تھی ۔ وہ سوچ کر پریشان
ہو گیا۔
مجھے یقین نہیں آرہا شاہ میر کے اتنا گر سکتے ہو۔ ایک مجبور لڑکی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے تم نے اُسے رات اپنے کمرے میں بلایا ۔
مراد نے دل میں کہا اور وہاں سے چلا گیا ۔
وہ اسی کمرے میں آکر چارپائی پر لیٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ کیسے سوچ لیا میں نے کہ وہ شخص نرم دل ہو سکتا ہے ۔ کتنا غلط اندازہ لگایا میں نے اس
کے متعلق ۔
حریم نے سوچا
اور دوسری طرف شاہ میر بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا اور سر جھکا لیا ۔ اس نے اپنے بال اپنی مٹھیوں میں جکڑ لئے پریشانی کی وجہ سے ۔ اور پھر سے اپنا زخمی ہاتھ بیڈ سائیڈ پر زور سے مارا۔ جس کی وجہ سے درد کی ایک ٹیس اس کے ہاتھ میں اٹھی ۔
لعنت ہے مجھ پر ۔ ۔ ۔ لعنت ہے مجھ پر ۔ ۔ ۔ لعنت ہے مجھ پر ۔ ‘ اب وہ روتا ہوا کہتا جا رہا تھا۔

ولید شاہ میر کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا ۔ اس کے علاقے میں اس کی اجازت کے بغیر تو جیسے کوئی پرندہ پر تک نہیں مار سکتا تھا۔ اس کے علاقے میں تو وہ اسے قتل نہیں کر
سکتا تھا ۔
اور اگر وہ کسی کام سے شہر جاتا تو اپنے ساتھ گارڈز کی فوج لے کر جاتا تھا ۔ اس واقعہ سے پہلے تو وہ ڈرائیور بھی ساتھ نہیں لے جاتا تھا خود ہی گاڑی ڈرائیو کرتا تھا ۔ لیکن اس واقعے کے بعد سلطان میر کے حکم پر اس نے گارڈ رکھ لیے تھے ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جو دکھ اس کے باپ نے سہا ہے وہ دکھ اسے دوبارہ ملے ۔ اس لیے وہ خود اپنی حفاظت کر رہا تھا۔ ولید نے ایک جاسوس شاہ میر کی جاسوسی پر مامور کر دیا تھا۔ موٹی رقم دے کر ۔
اگلے دن وہ پھر سوئی رہی۔
اٹھ جاؤاب روز روز سلطانہ بیگم تمہارے منہ پر پانی مارنے کے لیے نہیں آئے گی ۔ “
ساجدہ کی آواز سے سنائی دی تو وہ اٹھ بیٹھی۔
سلطان خاتون نے کہا ہے کہ تم ساری حویلی کو صبح سویرے اٹھ کر پونچھا لگاو گی ۔ آج کے
دن کا کام نہ کرنا فی الحال ۔

shre with your friends on F


Updated: May 26, 2025 — 3:06 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *