Badnaseeb Beti Novel Part 3 – Romantic Urdu Novel | Read Full Episode in Urdu Font


Badnaseeb Beti Part 3 brings a new layer of romance to this emotional Urdu novel. As the characters face heartbreak, unexpected love, and difficult choices, this part offers a powerful blend of romantic drama and emotional storytelling.

Written in elegant Urdu font, this part will touch your heart and keep you turning pages. It’s perfect for readers who enjoy romantic Urdu novels that are both soulful and bold.

romantic Urdu novels

Read here Badnaseeb Beti Novel Part 2 – Urdu Social Novel

ساجدہ نے کہا تو وہ اٹھی ۔
مجھے چائے پلا دو ۔ ورنہ میرے سر میں درد ہو جائے گا۔ پھر جو کام کہو گی کرلوں گی ۔ حریم
نے ساجدہ سے کہا ۔
نوکر نہیں ہوں تمہاری ۔ جا کر کچن میں خود بنالو۔ پھر جلدی سے کام پر لگ جاؤ۔ ساجدہ نے کہا تو مجبور اسے خود ہی کچن میں آنا پڑا جہاں پر پہلے سے چائے تیار تھی ۔ اس نے ایک کپ بھرا اور پینے لگی ۔
اسے رات والا سارا واقعہ یاد آیا۔
جو کام وہ کرنے گئی تھی وہ بھی نہیں ہوا ۔ الٹا شاہ میر کا اتنا بھیانک روپ اسے دیکھنا پڑا ۔ چلو پراٹھے بنانا شروع کرو ۔ ” نوری نے اسے دیکھ کر کہا ۔پونچھا مارنے کا حکم صادر ہوا ہے سلطانہ خاتون کی طرف سے ۔ آج پراٹھے نہیں بناؤں گی
میں ۔ حریم نے آرام سے کہا
چلو پھر لگاؤ ۔ ” نوری نے کہا۔
چائے ختم کرنے دو مجھے ۔ تمہاری نوکر نہیں ہوں میں ۔ ۔ ۔ شاہ میر کی غلامی میں آئی ہوں ۔ تمہاری غلامی میں نہیں ۔ اپنی اوقات میں رہو تو بہتر ہوگا ۔

حریم نے جیسے دھمکی دی۔
واہ جی واہ ۔ ۔ ۔ رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا ۔۔۔
نوری نے منہ بنا کر کہا ۔
اور وہ کسی نوکر کی دباؤ میں آتی بھی تو کیوں ۔ ۔ ۔ عادت جو نہیں تھی اسے ایسے رویے کی ۔ لیکن اب حریم شاہ میر کو اپنی عادت بدلنے کی سخت ضرورت تھی اس حویلی میں ۔ ۔ ۔ مگر
ابھی اسے اندازہ نہیں تھا ۔
سلطانہ خاتون نے اسے پونچھے کا کام صرف اس لئے دیا تھا تا کہ اسے غلامی کا زیادہ احساس ہو ۔ وہ اس کی نظروں کے سامنے جھکی رہے ۔ اور وہ حقارت آمیز لہجے میں اسے دیکھتی
جائے۔
حریم نے لاؤنج سے پوچھنا شروع کیا ۔
سلطانہ خاتون ایک شان سے آکر صوفے پر بیٹھ گئی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر حریم کو دیکھنے لگی ۔ اسے باور کرارہی تھی کہ وہ باندی ہے ۔
تھوڑی دیر بعد شاہ میرا اپنے کمرے سے باہر نکلا۔ دیکھا تو حریم پونچھا لگا رہی ہے۔ حریم نے سر اٹھا کر ایک نظر شاہ میر کی آنکھوں میں دیکھا ۔ ۔ ۔ دونوں کی آنکھیں چار
ہوئیں ۔

زخمی نظروں سے شاہ میر کو دیکھنے کے بعد اس نے نظریں جھکا لیں اور پھر سے پونچھا
شروع کیا۔
شاہ میر نے اپنا نچلا لب دانتوں سے کاٹتا ہوا وہاں سے گزرنے لگا تو جان بوجھ کر سلطانہ
خاتون نے اسے مخاطب کیا ۔
یہاں آوشاہ میر مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ۔ ” سلطانہ خاتون نے حکم دیا تو وہ آکر بیٹھ گیا ۔
“جی بولیں اماں ۔ ” ہمیشہ کی طرح اس نے فرما نبرداری سے کہا۔
میں سوچ رہی ہوں کہ تمہاری شادی کر ہی دواب ۔ ۔ کب تک جنید کا غم مناتے رہیں گے ہم ۔ آخر تمہاری زندگی تو آگے پڑھی ہے ۔ میری تو کوک اجاڑ گئی ۔ مجھے تو اب اس زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ لیکن تمہارا تو حق ہے ناکہ تمہاری شادی وقت پر ہو۔ تمہاری نسل بڑھے ۔
سلطانہ خاتون نے حریم کی طرف دیکھتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہا ۔ ان کا مقصد یہی
تھا کہ وہ ہر وقت اس کا دل جلاتی رہیں۔
اماں میرا دل دکھ سے لبریز ہے اس وقت۔ آٹھ ماہ بھی کوئی عرصہ ہو تا ہے اپنے بھائی کی
موت بھلانے کے لیے ؟ ” شاہ میر نے کہا ۔

لیکن بیٹا دنیا تو یہی سوچے گی نہ کہ میں سوتیلی ماں ہو اور تمہاری خوشیوں کے بیچ میں آرہی ہوں ۔ جتنا بھی خیال رکھو تمہارا لیکن یہ سوتیلی ماں کا لیبل تو ہمیشہ سے مجھ پر لگا ہوا ہے ۔
سلطانہ خاتون نے کہا ۔
عبید سے بات ہوئی آپ کی ؟ “شاہ میر نے موضوع بدلا۔
نہیں وہ شہر میں ہوتا ہے تو اسے ماں کی یاد کہاں آتی ہے ۔ ایک جنید جو مجھے ہر پل یاد کرتا
تھا ۔ عبید کی تو اپنی ہی ایک دنیا ہے ۔ “سلطانہ خاتون نے کہا۔
عبید ان کا جنید سے چھوٹا بیٹا تھا ۔ جو کہ ابھی کالج میں پڑھ رہا تھا ۔ اور شہر میں رہتا تھا ۔
اچھا اماں میں چلتا ہوں مجھے ضروری کام سے جانا ہے ۔ “شاہ میر کہتا ہوا اٹھااس کی نظر سے حریم کی طرف چلی گئی ۔ دونوں کی نظر ایک بار پھر سے مل گئی۔ رات والا سارا منظر دونوں کے ہی ذہن میں گھوم
سے ہوتے ہیں جو شاہ میر کے جوتوں کی آواز سن کر اس نے پھر نے لگاتے
گیا۔
آنکھیں دیکھیں تو میں دیکھتا رہ گیا

اس کی آنکھیں دیکھ کر پھر سے شاہ میر کے دل سے آواز آئی ۔ لیکن وہ سر جھٹک کر آگے
بڑھ گیا ۔
حریم کو آج اپنا آپ بہت چھوٹا لگ رہا تھا شاہ میر کے سامنے ۔ ۔ ۔ آج واقعی اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ” غلامی ” میں آگئی ہے ۔ ۔
حریم کو احساس ہوا کہ کام کرنا کتنا مشکل ہے ۔ اسے آج فائقہ کا یا د رہی تھی جو اس کی حویلی
میں پونچھا لگا یا کرتی تھی ۔

کیا اسے بھی ایسے ہی کمر میں تکلیف ہوتی ہو گی جیسے آج مجھے ہو رہی ہے ؟ کتنے بے حس ہوتے ہیں ہم لوگ ۔ کبھی میں نے اس سے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ کیا تمہیں
درد کی گولی چاہیے یا نہیں ۔
حریم کو آج شدت سے احساس ہو رہا تھا اپنے گھر کے ملازموں کا ۔ اس کی کمر کی ایسی حالت تھی کہ اس سے بیٹھا تک نہیں جا رہا تھا ۔ حویلی بہت بڑی تھی ۔ اس نے تو صرف آدھے حصے کو پونچھ لگایا تھا کیونکہ دوسری طرف مردوں کا آنا جانا تھا ۔ “سنو مجھے درد کی کوئی گولی لا کر دو مجھے کمر میں بہت درد ہو رہا ہے ۔ ” اس نے بے بسی سے ساجدہ سے کہا جو کہ سونے کی تیاری کر رہی تھی ۔ پہلے تو ساجدہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے پھر اسے ترس آگیا۔ وہ گولی لینے کے خاتون کے کمرے میں آئی جہاں پہلے سے شاہ میر بیٹھا ہوا تھا۔
سر دار بی بی ۔ وہ جو لڑکی ہے نہ ونی والی ۔ وہ کہہ رہی ہے کہ اس کے کمر میں بہت درد ہورہا ہے اسے گولی چاہیے ۔ ساجدہ نے کہا تو شاہ میر نے سر اٹھا کر دیکھا سلطانہ بیگم کو ۔ وہ
یقینا اس کے ذکر پر چونک گیا تھا ۔

اگر کوئی عام سی لڑکی ہوتی تو شاید وہ اس کے بارے میں سوچتا ہی نہیں ۔ لیکن جس قسم کی بہادری اس نے دکھائی تھی شاہ میر کے سامنے اس کے بعد شاہ میر کے لئے مشکل ہو گیا
تھا اسے اگنور کرنا ۔
ایسی ہی بہادر لڑکیاں اسے پسند تھیں ۔ جو نڈر ہو ، جس طرح سے اس نے شاہ میر کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے جواب دیے تھے یقینا شاہ میر وہ سب بھول نہیں پا رہا تھا۔ اور خاص کر تب جب لڑکی اس قدر حسین ہو ۔ ایک حسین عورت مرد کی کمزوری ہوتی ہے اور کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ “وہ کیا سمجھتی ہے کہ میں اُس کے زخموں پر مرہم رکھوگی ؟ ؟ ؟ میں اسے درد کی دوا دوں
میں اسے صرف درد دینا چاہتی ہوں دوا نہیں ۔ بلاؤ سے یہاں میرے پاس۔ ‘
سلطانہ خاتون نےکہا۔۔
تم کہاں چلے شاہ میر ۔ ؟ ” سلطانہ خاتون نے پوچھا میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ لڑکی میری نظروں کے سامنے نہیں آنی چاہیے ۔ آپ نے اسے یہاں بلایا ہے تو میں جا رہا ہوں ۔ کیوں بار بار آپ اُسے حویلی کے اندر بلاتی ہیں ؟ ” شاہ میر نے کہا ۔

تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ۔ “سلطانہ خاتون نے کہا تو وہ بیٹھ
گیا۔
سلطانہ خاتون حریم کو شامیر کے سامنے ذلیل کرنا چاہتی تھی ۔ اسے تکلیف اور اذیت دینا چاہتی تھی ۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ ایسا کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی
کرنے جا رہی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حریم اندر آئی ۔
میرے پاؤں دباؤ مجھے درد ہو رہا ہے ۔ سلطانہ خاتون نے حکم دیا تو اس نے حیرت سے پہلے سلطانہ خاتون کی طرف دیکھا اور پھر شاہ میر کی طرف ۔
” مجھے کمر میں بہت درد ہو رہا ہے ۔ “حریم بولی
شرافت سے جو کہا ہے وہ کرو ورنہ نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔
“سلطانہ خاتون نے
دھمکی آمیز لہجے میں کہا ۔
وہ آکر بیٹھ گئی اور سلطانہ خاتون کے پاؤں دبانے لگی ۔
میں نے تمہارے لئے اعلی خاندان کی لڑکیاں دیکھ رکھی ہیں جن کے باپ بھائی غیرت مند ہیں۔ کسی بیغیرت باپ کی بیٹی کو اپنی بہو ہر گز نہیں بناؤں گی میں ۔ “سلطانہ خاتون نے
جتانے والے انداز میں کہا تو حریم کا روم روم جل اٹھا ۔
اُس نے زور سے سلطانہ کا پاؤں دبانے کی بجائے دبوچ لیا اور ان کی بیخ بلند ہوئی۔ یہ کیا کر رہی ہو لڑکی تم جان بوجھ کر مجھے اذیت دے رہی ہو؟ ” سلطانہ خاتون نے لات
ماری اسے ۔
“شاہ میر نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر اپنی آنے والی ہنسی روکنی چاہی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے ہنسی آرہی تھی کیوں کے وہ سمجھ گیا کے حریم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے
اپنا غصہ نکالنے کے لیے ۔
میں سونے جارہاہوں۔ وہ اٹھا
“ٹھیک ہے شب بخیر یہ سلطانہ خاتون نے کہا
حریم پاؤں دباتی ہوئی تھک گئی تھی دو منٹ میں ہی ۔ اُس کی تکلیف اس کے چہرے سے
عیاں ہو رہی تھی۔
شاہ میر اُسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا مگر پھر بھی نظر باز نہ رہی۔

“جاؤ دفا ہو جاؤ تم بھی میری نظروں کے سامنے سے “سلطانہ خاتون نے ٹھوکر مارتے
ہوئے حریم سے کہا ۔
اتنی تذلیل حریم سے برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔ اسے سلطانہ خاتون سے شدید قسم کی
نفرت ہو گئی تھی۔
شاہ میر نکل گیا۔ وہ بھی باہر آئی ۔
تیزی سے راہ داری کی طرف بڑھی اور شاہ میر کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔
شاہ میر اپنے کمرے میں آیا اور کچھ سوچنے لگا ۔
پھر سائڈ ٹیبل سے ایک پین کلر نکالا اور باہر آیا ۔ ۔ لاؤنج میں کوئی نہیں تھا سب سونے گئے تھے ۔
“سنو یہ اُس لڑکی کو دے آو ۔ ” شاہ میر نے گولی اُس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔
“کونسی لڑکی سائیں ؟ ” نوری نے پوچھا ۔
وہ ۔ ۔ جو ونی میں آئی ہے ۔ “شاہ میر بولا ۔

ونی تو نہ کہیں سائیں اُسے ۔ ۔ ۔ رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا ۔ مجھے کہتی ہے میں شاہ میر کی غلامی میں آئی ہوں تمہاری نہیں ۔۔۔ تم اپنی اوکات میں رہو۔ ” نوری نے اُس کی نقل
اسارتے ہوئے کہا ۔
” تم سے جو کہا ہے وہ کرو ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ ” جی جی سائیں ۔ ” نوری بولی۔
کہاں سوتی ہے وہ ؟ ” نجانے کیا سوچ کر شاہ میر نے پوچھا ۔ ساجدہ کے کمرے میں اُس کے ساتھ ۔ “نوری نے بتایا۔
شاہ میر وہاں سے چلا گیا ۔
“اے لڑکی ۔ ۔ ۔ اٹھو یہ لو ۔ ۔ ۔ شاہ سائیں نے دیا ہے تیرے لیے ۔ نوری نے اُسے
اٹھایا۔
وہ کہاں سو رہی تھی ۔ ۔ ۔ درد کے مارے اُس کی حالت غیر تھی ۔ نیند آتی بھی تو کیسے ۔ ۔ ۔ حریم نے حیرت سے پین کلر کی طرف دیکھا ۔ اس نے فورا سے دوائی کھالی ۔
پھر واپس آکر لیٹ گئی ۔
وہ سوچ رہی تھی کہ شاہ میر کو اس کے درد کا احساس تھا۔

اچانک سے اسے اپنے والد شاہ نواز کی بات یاد آئی جو نکاح سے تھوڑی دیر پہلے انہوں نے
حریم سے کہی تھی ۔
میری بچی کوشش کرنا کہ شاہ میر کا دل جیت لو اور اس کے دل میں اپنے لیے بیوی کا مقام بنا لو۔ جو بھی ہے اب شاہ میر ہی تمہارا مقدر ہے ۔ ایک مرتبہ اگر تم نے اس کے دل میں اپنے لیے جگہ بنالی تو تمہاری زندگی آسان ہو جائے گی ۔ اور اگر تمہارے ساتھ وہاں بر اسلوک ہوا تو میں کچھ نہ کچھ کر کے تمہیں واپس لے آؤں گا ۔ اس وقت مجھے جو صحیح لگ رہا
ہے میں وہی کر رہا ہوں ۔ بس میری بچی مجھے معاف کر دینا ۔
جب شاہ میر نے اسے تھپڑ ماری تھی تو اس کی ہر امید ٹوٹ گئی تھی کل رات ۔
آج اس کے درد کا احساس کرتے ہوئے جب شاہ میر نے اسے درد کی دوائی بھیجی تو وہ ی کی ایک احساس کرتے ہوے اس کا مطلب تھا کہ وہ اتنا بھی بے رحم نہیں ہے جتنا بن رہا ہے ۔ یعنی کہ اس کے دل میں جگہ
بنانا بہت آسان ہے ۔ ) اس نے مجھ پر غصہ اس لیے کیا کیوں کہ میں اس کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ اور اسے برا بھلا کہتی رہی ۔ اگر میں اس کے سامنے مظلوم بننے کی اداکاری کروں ۔ تو یقینا اس کا دل نرم پڑ
سکتا ہے۔

حریم کو اچانک آئیڈیا آیا ۔ میں اس طرح غلامی کی زندگی نہیں گزار سکتی ۔ میں یہی سوچ کر آئی تھی کہ میں غلامی میں زندگی گزار دوں گی۔ میں کام کرنے کے لیے تیار ہوں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے عادت ہو جائے گی ۔ لیکن میں دن رات اپنی تذلیل برداشت نہیں کر سکتی جو سلطانہ خاتون میری کرتی ہے ۔ کل کو اگر شاہ میر نے شادی کرلی تو اس کی بیوی بھی مجھے اسی طرح سے ذلیل کرے گی جس طرح سے سلطانہ خاتون کر رہی ہے ۔ میرے پاس اب فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تذلیل میں نہیں سہ سکتی ۔ ۔ ۔ آخری اور واحد راستہ میرے پاس صرف یہی ہے کہ میں شاہ میر کا دل جیت لوں ۔ جو مجھے تھپڑ مارنے کے بعد اپنا ہاتھ زخمی کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ جو میرے درد کا سن کر مجھے دوائی بھیج سکتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ مجھے بیوی کا مقام بھی دے سکتا ہے ۔ ۔ ۔ بس مجھے
ہوشیاری سے کام کرنا ہوگا۔ ۔ ۔ بہت چالاکی سے ۔ ۔ ۔ بہت معصوم اور مظلوم بننا ہوگا شاہ
میر کے سامنے ۔ ۔ ۔ اور سب سے بڑی بات ۔۔۔ اپنی خوبصورتی سے فائدہ اٹھانا ہوگا ۔ ۔ ۔ میرا شوہر ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کا حق ہے مجھ پر ۔ ۔ ۔ اور میرا حق ہے کہ میں اپنی زینت صرف اور صرف شاہ میر پر ظاہر کروں ۔ ۔ ۔ ہاں میں ایسا ہی کروں گی ۔ ۔ ۔ سلطانہ خاتون اس تذلیل کا بدلہ تو تم سے لے کر رہوں گی ۔ ۔ میں بھی حریم شاہ نواز ہوں ۔ ۔ ۔ تم
مجھے ہلکا لے رہی ہو ۔ ۔ ۔

یہ ساری باتیں سوچ کر حریم کے اندر ایک نئی توانائی آگئی تھی۔ خود سے عہد کر لیا تھا کہ کل سے وہ شاہ میر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے جو بن بڑا وہ کرے گی ۔ ایک بار اگر شاہ میر اس کے قابو میں آگیا تو وہ اس کے کہنے پر ظفر کو معاف بھی کر سکتا ہے ۔
وہ یہ ساری باتیں سوچتے سوچتے ہی سو گئی ۔
صبح سویرے جا گی تو اسے اپنا رات والا منصو بہ یاد آیا ۔ اس پر عمل درآمد کرنے کا وقت
شروع ہو چکا تھا ۔
وہ وہ کچن میں آئی جہاں نوری شاہ میر کے لیے ٹرے میں ناشتہ رکھ رہی تھی ۔
کس کے لئے ہے یہ ناشتہ ؟ ” حریم نے پوچھا ۔ کے لیے ہے ” نوری نے ۔
“شاہ سائیں جاگ گئے ؟ “حریم نے پوچھا تو نوری –
حریم کی طرف دیکھا ۔
آج پہلی بار حریم شاہ میر کے لیے عزت سے بول رہی تھی ۔
ظاہر سی بات ہے جاگ گئے ہیں اور ناشتہ منگوایا ہے تب ہی لیکر جا رہی ہوں ۔ ” نوری
نے کہا۔
اچھا مجھے یاد آیا تمہیں ساجدہ بلا رہی تھی یہ ناشتہ مجھے دو میں لے کر جاتی ہوں ۔ “حریم نے کہا تو نوری نے ٹرے اُس کے حوالے کیا ۔

اب وہ دل میں دعا کر رہی تھی کہ سلطانہ خاتون بیچ میں دیوار بن کر نہ آجائے ۔ طویل را بداری اُس نے عبور کی اور شاہ میر کے کمرے کے پاس آئی ۔ دروازے پر دستک
دی۔
“آجاؤ ۔ ” شاہ میر بولا ۔
وہ آرام سے اندر آئی ۔
شاہ میر موبائل میں سر جھکا کر کچھ دیکھ رہا تھا ۔
شاہ میر نے سر نہیں اٹھایا ۔
“آپ کی پٹی چینج کر دوں ؟ “حریم نے اس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کہا تو وہ اُس کی
آواز پر چونکا ۔
تم ؟ تم کیوں آئیں میرے کمرے میں ؟ جرات کیسے ہوئی تمہاری ؟ ؟

“آپ کے لیے ناشتہ لائی تھی ۔ ایک منٹ میں آپ کی پٹی چینج کرتی ہوں ۔ ورنہ زخم خراب ہو جائیگا ۔ “حریم اُس کے قریب آئی اور ایک دم اُس کا پٹی شدہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور
ایسے جتایا جیسے جائزہ لے رہی ہو پٹی کا۔

دفاع ہو جاؤ تم میری نظروں کے سامنے سے ۔ ” شاہ میر نے اُس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے
کیا۔
میں تو آپ کے بھلے کے لیے کہہ رہی تھی آپ تو ناراض ہو گئے ۔ “حریم مظلومیت کی شاندار اداکاری کرتے ہوئے کہا اور سر جھکا لیا چہرے پر ایک دم سے اداسی لے آئی ۔ “سب سمجھ رہا ہوں میں تم میرے قتل کا منصوبہ بنا کر اس حویلی میں آئی ہو اور اسی لئے بار بار میرے کمرے میں آنے کی کوشش کر رہی ہو ۔ آخر ہو تو ایک قاتل کی بہن نا ۔ ۔ ۔ “
شاہ میر نے غصے سے کہا۔
حریم کو غصہ تو بہت آیا تھا اس کی اس بات پر ۔ ایک پل کو تو دل کیا کہ اس کا زخمی ہاتھ دبوچ لے تاکہ اسے اور زیادہ درد ہو ۔ لیکن یہ وقت جذباتی پن دکھانے کا نہیں تھا بلکہ حکمت عملی
پہلے بھی اس کے غصے کا جواب غصے سے دے کر اس نے تھپڑ کھائی تھی ۔ اور آج بھی شاہ
میر یہی امید کر رہا تھا کہ وہ بدلے میں غصہ ہی کرے گی اس پر ۔
شاہ سائیں میں اُس رات صرف وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لئے آپ کے کمرے میں آئی تھی تاکہ آپ میرے گھر والوں کو وہ ویڈیو نہ بھیجیں ۔ پہلے ہی میری ماں تڑپ رہی ہے
میری جدائی میں جس طرح سے میری رخصتی ہوئی ہے میری ماں تو اسی وقت غش کھا کر گر

پڑی تھی دیکھا تھا نہ آپ نے ۔۔۔ ادھر آپ نے وہ ویڈیو حویلی میں بھیج دی تو میری ماں مر جائے گی ۔
حریم نے اپنے آنکھوں میں نمی لاتے ہوئے مظلومیت کی بھر پورا دا کاری کی ۔ اور میری ماں ؟؟؟ میری ماں جو دن رات روتی رہتی ہے اپنے لخت جگر کے لیے ان کا
کیا ؟ ؟ “شاہ میر نے کہا۔ حریم سوچ میں پڑ گئی کہ کیا بولے ۔
جب کچھ بولنے کو نہیں ملا اسے تو اس نے رونا شروع کر دیا اس کے آنسواب تواتر سے
بہنے لگے رونا تو اسے ہر وقت ہی آتا تھا ۔
شاہ میر اُسے روتا ہوا دیکھ کر حیران ہو گیا ۔
آج تو یہ لڑکی بالکل ہی بدل گئی تھی
چلی جاؤ میرے کمرے سے ابھی اسی وقت ۔ ” ۔ شاہ میر نے حریم کے عقب میں جنید کی
تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
حریم اپنے آنسوؤں کو پہنچتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ اب اس نے پونچھا اٹھایا اور لگا نا شروع کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس انتظار میں تھی کہ کب شامیر کمرے سے باہر نکلے اور اسے پونچھا لگاتے ہوئے
دیکھے۔
کافی دیر تک جب وہ باہر نہیں آیا تو حریم کو مایوسی ہوئی.
وہ نہ جانے کب سے شاہ میر کے دروازے کے سامنے ہی پونچھا لگائے جا رہی تھی بار
بار۔
مجبور ہو کر وہ راہداری کی طرف چلی آئی اور وہاں بیٹھ گئی ۔ تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے اور وہ تھوڑا آرام بھی کرلے ۔ ۔ ۔ جو بھی تھا یہاں سے باہر جانے کے لیے شاہ میر نے اسی را بداری سے گزر کر باہر جانا تھا وہ اس کے انتظار میں بیٹھی رہی۔
اس نے ایک دم سے اپنے آگے کی کچھ لٹیں
وہ آرام سے پھر سے پونچھا لگانے لگی ۔
ا اور شال سر سے ڈھلکا دی ۔
شاہ میر آج سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا ۔ اس کی تیاری سے لگ رہا تھا کہ
وہ شہر جا رہا ہے ۔
ہاں ٹھیک ہے میں ابھی نکل رہا ہوں شہر کے لیے ۔

شاہ میر اس کو نوٹس کیے بغیر ہی تیزی تیزی سے وہاں سے نکل گیا تو حریم کو بہت غصہ
آیا ۔
اس نے پونچھا ایک طرف پھینک دیا ۔
بد تمیز انسان ۔ ۔ ۔ دیکھا تک نہیں میری طرف ۔ ۔ ۔ ساری محنت بر باد گئی ۔ ایک جگہ کو
نجانے کتنی دیر سے رگڑتی جا رہی تھی میں ۔ (
وہ منہ بنا کر بولی ۔
شاہ میر کو اس رات رات اس بہادر لڑکی نے بہت متاثر کیا تھا۔ جو فر فر اسے جوابات دیتی جارہی تھی ۔ ۔ ۔ اور اسے حیران پر حیران کئے جا رہی تھی۔ مگر آج کی مظلوم حریم اسے متاثر نہ کرسکی۔
سارا دن یوں ہی انتظار میں گزر گیا وہ مختلف کام کرتی رہی اور سلطانہ خاتون کے ہاتھوں
ذلیل ہوتی رہی ۔
شاہ میر صبح کا گیا تھا ابھی تک واپس نہیں آیا ۔
یہاں تک کہ سب اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے اور حویلی میں ہو کا عالم ہو گیا ۔ حریم سونے کی کوشش میں بار بار پہلو بدل رہی تھی لیکن آج اسے نیند نہیں آرہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد گاڑیوں کی آواز سنائی دی تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
یقین شاہ میر واپس آ گیا تھا ۔
وہ فورا اٹھیں اور تیزی سے سے کچن اور راہداری عبور کرتی ہوئی لاؤنج تک آئی ۔ آدھے بال کیچڑ میں قید کی آدھے اپنے شانوں میں پھیلا دیئے ۔ شاہ میر کے قدموں کی چاپ اب را بداری سے سنائی دے رہی تھی۔ حریم فوراً فرش پر لیٹ گئی ایسے جیسے کے بے ہوش ہو کر گری ہو۔ شاہ میر کو دیکھ کر اُس نے آنکھیں بند کیں ۔
شاہ میر تیزی سے فون پر باتیں کرتا ہوا آ رہا تھا اسے دیکھ کر رک گیا ۔ دیکھا تو وہ بے ہوش پڑی ہوئی ہے۔ وہ بے ہوش نہیں تھی بےہوش ہونے کی اداکاری کر رہی تھی۔
” اوہ میرے خدا۔ ” شاہ میر نے اسے دیکھ کر کہا ۔ وہ سمجھا شاید وہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے کمزوری سے گر پڑی ہے ۔ اٹھو ۔ ۔ “شاہ میر نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا
شاہ میر نے حریم کو جھنجوڑا مگر وہ آنکھیں کھولنے کو تیار ہی نہیں تھی ۔

حریم اس امید میں آنکھیں نہیں کھول رہی تھی کہ شاہ میر اسے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے
جائے گا۔
مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہ رہی تھی۔
شاہ میر جو صبح سے شہر گیا ہوا تھا اس قدر تھکا ہوا تھا اس کی آنکھیں نیند سے لبریز تھیں ۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ فورا جا کر سو جائے گا سر درد سے الگ پھٹا جا رہا تھا۔ کافی جھنجوڑنے پر جب حریم نہیں اٹھی تو شاہ میر کھڑا ہو گیا۔
میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ ۔ ” اس نے کہا اور حریم کو پھلا نگتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر دیا۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہ میر اسے پھلانگتا ہوا چلا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ایسی حالت میں بے یارو مددگار ۔ ۔ ۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور وہ حیرت سے بیٹھ گئی۔
کتنا گھٹیا انسان ہے یہ ۔ ۔ ۔ اور میں اس سے محبت کی امید لگائے بیٹھی تھی ۔ ۔ ۔ بھاڑ
جائے میری طرف سے ۔ ۔ ۔ “
حریم اپنے کپڑے جھاڑتی ہوئی اٹھی۔

وہ واپس کمرے میں آکر چار پائی پر لیٹ گئی۔ غصے سے اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے پر آرہی تھیں۔ سخت غصہ تھا اسے شاہ میر کی اس حرکت پر ۔ یعنی کہ اس کا یہ مظلوم بننے کا پلان ناکام ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ بیگم اپنے ہاتھوں میں حریم کی ڈاکٹری کی ڈگری لیے بیٹھی رو رہی تھیں ۔ ابھی پچھلے مہینے ہیں وہ اپنی ڈگری لے کر آئی تھی واپس حویلی ۔
اس کی شدید خواہش تھی کہ گاؤں میں ہسپتال بنے اور وہ گاؤں کے لوگوں کی خدمت
سب کا اتنا خیال رکھنے والی میری نرم دل بچی نہ جانے کس حال میں ہوگی ۔ ” آمنہ بیگم نے روتے ہوئے کہا
وہ اپنے شوہر کے گھر میں ہے ۔ میں نے جو کیا مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے ۔ ایک نا ایک دن تو میں نے اپنی بیٹی دینی ہی تھی۔ میں نے تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنی بیٹی کو شاہ میر کے نکاح میں دیا ہے ۔ اب آگے اس کا اپنا نصیب ہے ۔ کتنی ہی لڑکیاں ہیں دنیا میں جو سسرال کے مظالم سہتی ہیں۔ کیا پتا شاہ میر کو اس سے محبت ہو جائے ۔ مجھے میری بیٹی پر

پورا بھروسہ ہے ۔ اسے سمجھا کر بھیجا ہے۔ وہ بہت ذہین ہے ۔ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لے گی ۔ میں جانتا ہوں حریم ظلم سہنے والوں میں سے نہیں ہے ۔
شاہنواز نے کہا تو آمنہ بیگم کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔
بہ سب دل بہلانے کی باتیں ہیں ۔ شاہ میر چاہئیں کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔ حریم چاہے کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری بیٹی خون بہا کے ایوز گئی ہے ۔
آمنہ بیگم نے کہا ۔
” تمہیں ظفر کا ذرا احساس نہیں ؟ ماؤں کو تو بیٹے پیارے ہوتے ہیں۔ شاہنواز نے کہا ۔
ماؤں کو بیٹے پیارے ہوتے ہیں بیٹیوں سے زیادہ ۔ دونوں ہی برابر ہوتے ہیں ۔ آمنہ بیگم نے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے وہ تقریبا تیسرا راؤنڈ جاگنگ کا مکمل کر کے تھک کر میچ پر بیٹھ گیا جہاں پر رشید
پہلے سے بیٹھا ہوا تھا ۔

انتہائی بیزار آگیا ہوں میں اس روٹین سے ۔ “
ظفر نے بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا
سائیں آپ صبر کر لیتے۔ مجھے ہمیشہ سے خوف کھاتا تھا کہ آپ کا یہ جذباتی پن آپ کا یہ
غصہ کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچا دے اور ایسا ہی ہوا ۔
رشید نے کہا ۔
حریم نے اپنی ڈگری مکمل کرلی ہوگی اب تک ۔ اب ضرور بابا سائیں اس کی اور ولید کی شادی کر دیں گے ۔ یا پھر میرے واپس آنے کا انتظار کریں گے ۔ ” ظفر نے کہا تو رشید کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حریم صبح دیر سے جاگی ۔ آج کسی نے اسے اٹھانے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔ ہر کوئی اپنے
کاموں میں مصروف ہو گیا ۔ وہ اٹھی اور کچن تک آئی چائے پینے کے لئے ۔
چھوٹے شاہ سائیں تمہیں یاد کر رہے تھے ۔ “نوری نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو اسے
حیرت ہوئی۔
جاگ گئے وہ ؟ حریم نے بے زاری سے کہا ۔

” ہاں” نوری بولی ۔
حریم سوچ میں پڑگئی کہ آخر کیوں یاد کیا ہے شاہ میر نے اسے ۔ وہ تو اس کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ خیر جو بھی تھا وہ اچھی امید لے کر اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ وہ خدا
سے ہمیشہ اچھا گمان رکھتی تھی۔
“کیوں بلایا ہے مجھے ؟ “
حریم نے اندر آتے ہوئے کہا ۔
وہ جو لیپ ٹاپ میں سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا اس کی آواز پر سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
پھر سے نظریں لیپ ٹاپ پر جھکا لیں اور بولا.
“طبیعت کیسی ہے تمہاری اب ؟ “
شاہ میر نے لیپ ٹاپ کی سکرین پرنظر مرکوز کرتے ہوئے پوچھا۔
کیوں کیا ہوا تھا میری طبیعت کو ؟ حریم نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے پوچھا ۔
کل تم بے ہوش پڑی ہوئی تھیں میرے کمرے کے دروازے کے باہر ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ وہ ابھی بھی لیپ ٹاپ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔
ہاں اور آپ مجھے پھلانگتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔
حریم نے بتایا۔
تم تو بے ہوش تھیں نہ ؟ ۔ ۔ پھر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں تمہیں پھلا نکتا ہوا اندر گیا ہوں ؟ اب کی بارشاہ میر نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور کھڑا ہو کر سینے پر ہاتھ باندھ کر اس کی
آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کر پوچھا ۔
غصہ تو بہت آیا تھا حریم کو اس کی بات پر لیکن پی گئی۔
“ڈرامے باز لڑکی ۔ “
شاہ میر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہا جیسے کہ وہ اس کا
سب ڈراما سمجھ گیا ہو ۔
کیونکہ عزت راس نہیں ہے تمہیں۔ “حریم اپنا ضبط کھو بیٹھی اور پھٹ پڑی ۔ کل سارا دن تمہیں سائیں سائیں بول کر میرے جبڑے تھک گئے ۔ ۔ ۔ تمہارے لئے ناشتہ لائی ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری بینڈ پیج پینج کروانا چاہی ۔ ۔ ۔ لیکن اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ تم
کسی بھی نیکی کے حقدار نہیں ہو ۔
حریم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر کہا ۔
اچھی طرح سے سمجھ گیا تھا میں تمہارا ڈرامہ ۔ بے وقوف نہیں ہوں میں۔ سردار ہوں
اپنے قبیلے کا ۔ مجھے ہلکا مت لینا مس ۔ ۔ ۔ پتا نہیں کیا نام ہے تمہارا ۔

شاہ میر بولا
مس نہیں مسزز، مسز ز حریم شاہ میر “حریم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے
بہادری سے کہا ۔
اور یہی وہ بہادری تھی جس سے شاہ میر متاثر ہوا جا رہا تھا ۔ کل والی مظلوم حریم اسے بالکل
بھی پسند نہیں آئی تھی ۔
لیکن آج پھر وہ اپنی ٹون میں واپس آگئی تھی۔ لاشعوری طور پر شاید شاہ میر اُسے ایسے ہی دیکھنا چاہتا تھا۔
بہت شوق ہے تمہیں شاہ میر سلطان کی بیوی کہلانے کا ؟ ” اس کا انداز طنزیہ تھا جیسے کہ اس کا مذاق اڑا رہا ہو قسمت کا کھیل ہے سارا ۔ ۔ ۔
اور تم اس طرح کا اپنا نوکر بھی نہ رکھتی ۔ ۔ ۔ قسمت نے شوہر بنا دیا ۔ ۔ ۔ زبر دستی کا شوہر ۔ ۔ ۔ “حریم بولی۔ ” تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے ۔ ۔ ۔ کہ قسمت نے تمہیں یہاں ونی بنا کر بھیجا ہے ۔ ۔ پر تمہاری یہی اوقات ہے ۔ کیوں مجھے بار بار مجبور کرتی ہو کہ میں تمہیں تمہاری اوقات یاد
دلاؤں ؟ “
شاہ میر نے کہا۔

” ویسے اب تمہارا بھائی آزاد ہے ۔ میں خون بہا لے چکا ہوں ۔ اپنے باپ سے کہو کہ اسے
واپس بلائے ۔ “
تم ماں بیٹے کی یہ چال کبھی کامیاب نہیں ہوگی ۔ ساری برادری تھوکے گی تو ان دونوں کے منہ پر اگر تم نے خون بہا لینے کے بعد بھی ادا سائیں کو کوئی نقصان پہنچایا تو۔ پنچایت کا
تم پر سے اعتبار اٹھ جائے گا ۔ اور پھر کوئی بھی جرگہ کبھی بھی تمہارا ساتھ نہیں دے گا ۔ “
حریم نے کہا۔ “زبان تو کینچی کی طرح چلتی ہے تمہاری ۔ ۔ ۔ اسے کھینچنا جانتا ہوں میں ۔ اور تم مجھے مت
بتاؤجر گے کے اصول ۔ ۔
۔ حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے باپ نے اسے کہیں روپوش کروا دیا ہے ۔ میں چاہتا تو تمھاری قسمت سے بدلہ لے لیتا اسے مار کر ۔ یا پھر تمہارے اس منگیتر کو قتل کر دیتا بدلے میں جس نے میرا گریبان
پکڑنا چاہا تھا بھری پنچایت میں ۔ ۔ ۔ لیکن مجھے سکون نہیں آئے گا جب تک ظفر زندہ ہے ۔ ۔ ۔ میرا مقصد کسی اور کو مارنا نہیں صرف اور صرف ظفر کو مارنا ہے ۔ اور میں قسم کھا

کر کہتا ہوں کہ میں ظفر کو اپنے ہاتھوں سے ماروں گا ۔ اس کے بعد جو بھی نتائج ہوئے مجھے
اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی ۔ “
یہ سب کہتے ہوئے شاہ میر کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں ۔
حریم نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں وحشت ہی وحشت تھی۔
یہ شخص کبھی میرے ادا سائیں کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔ ۔ ۔ آج مجھے یقین ہو گیا ہے ۔ کیسے بچاؤں میں اپنے ادا سائیں کو ۔۔ مجھے حویلی پیغام بھجوانا ہو گا کہ خون بہا ان کا صرف
ایک چال ہے ۔ ۔ ادا سائیں کو واپس لانے کے لیے ۔ (
حریم شاہ میر کی آنکھوں میں دیکھ کر کھوسی گئی۔ وہ سوچے جا رہی تھی۔
اتنا نظر بھر کر مت دیکھو مجھے ۔ نہیں میسر آنے والی میری قربت تمہیں ۔ سب سمجھتا ہوں تم ایک دل ھینک لڑکی ہو۔ جومیری قربت حاصل کرنے کے لیے عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہے ۔ “
شاہ میر نے سوچا شاید وہ اس کے چہرے میں گم ہو گئی ہے ۔
کیا بکواس ملاحظہ فرمائیے تم نے ابھی ابھی میرے بارے میں ؟ ؟ ؟ میں تمہاری قربت
چاہتی ہوں ؟ ؟ ؟ میں ؟ ؟

حریم نے حیرت سے پوچھا
تو کیا نہیں چاہتی ؟ ؟ ؟ ” شاہ میر نے کہا ۔
“تمہاری ” موت ” چاہتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ موت ۔ ۔ ۔ “حریم عجیب سے انداز میں کہ “تم ما روگی مجھے ؟ ایک چھٹانک لڑکی ؟ ؟ مجھے ؟ ؟ سر دار شاہ میر سلطان کو مارو گی ؟ “
شاہ میر نے کہہ کر قہقہہ لگایا۔
جو دل پر حکومت نہ کر سکے وہ کیا خاک سر دار ہوا؟ ” حریم نے طنزیہ کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔
آج پھر وہ لڑکی سے حیران کر گئی تھی ۔
“حریم ” ۔ ۔ ۔ شاہ میر نے زیر لب اس کا نام دوہرایا ۔
سلطانہ بیگم اپنے کمرے میں بیٹھی مراد سے محو گفتگو تھیں ۔ اور اسے دن بھر کی مختلف ہدایات دیتی جا رہی تھی کہ اسے کیا کیا کام کرنے ہیں کہ اچانک ساجدہ اندر آئی ۔ بیگم صاحبہ آپ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹھی ہوئی ہیں ۔ اور وہ ونی والی لڑکی ۔ ۔ ۔ کوئی نہ
کوئی کارنامہ ضرور کرے گی ۔
ساجدہ نے اندر آتے ہوئے عجلت میں کہا ۔

مراد حریم کا ذکر سن کر چوکنا ہو گیا ۔ اب کیا کر دیا اس لڑکی نے ؟ “سلطانہ بیگم نے پوچھا ۔
صبح سویرے ہی چھوٹے سردار نے اسے اپنے کمرے میں طلب کیا تھا ۔ اور پورا ایک گھنٹہ ہو گیا وہیں پر تھی ۔ اب دیکھا تو باہر نکلی ۔ آپ غفلت کرتی رہیں گی اور وہ لڑکی چھوٹے سر دار کو قابو میں کرلے گی ۔ اور آپ کا سارا کیا کرایا مٹی میں ملا دے گی ۔ ہمیشہ سے نئی خبریں دینے کی شوقین ساجدہ نے چسکالیتے ہوئے کہا ۔ سلطانہ بیگم کو لگا کے کمرے کی چھت اس کے سر پر آن گرمی ہے ۔
وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہو ئیں ۔ اور کمرے سے باہر نکلیں ۔
شاہ میر ۔ ۔ ۔ شاہ میر
وہ زور سے چلائیں ۔
ان کی آواز سن کرشاہ میر فورا کمرے سے باہر نکلا۔
کیا ہوا اماں سب خیریت تو ہے ؟ “
شاہ میر نے پوچھا۔

کیا تم اپنے بھائی کا خون بھول گئے ہو ؟ ” سلطانہ خاتون نے گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔
” بلکل بھی نہیں۔
شاہ میر بولا۔
” تم نے وہ ویڈیو بھیجی اس لڑکی کے گھر والوں کو ؟
سلطان خاتون نے پوچھا۔
نہیں مجھے یاد نہیں رہا۔”
وہ بولا ۔
شور سن کر حریم اور نوری بھی آگئیں ۔
سلطانہ خاتون نے کہا ۔جی سردار بیبی ، شاہ نواز کے بھتیجے ولید کا نمبر ہاتھ لگا ہے میرے ۔ مراد نے حریم کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے ہی نظریں چرا بھی گیا ۔
بھیجو وہ ویڈیو بھی کے ابھی ۔ انہوں نے حکم صادر کیا۔

شاہ میر نے فوراً ویڈیو مراد کو سینڈ کی ۔۔۔
مراد بھیجنے لگا۔
حریم تو جیسے پتھر کی ہوگئی تھی ۔
اس کا دل اس تصور سے بھی کانپ گیا تھا۔
میری ماں باپ میں سے کہیں کوئی اس ویڈیو کو دیکھ کر ۔ ۔ ۔ نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ اللہ میرے والدین کی حفاظت کرنا ۔ ۔ ان کی زندگی اور صحت کی حفاظت کرنا
حریم نے دعا کی۔
” ہو گیا سردار بیبی ۔ “
مرادنے کہا۔
حریم کی آنکھوں کےسامنے واقعی اب اندھیرا چھا گیا۔ اور اگلے ہی پل وہ ایک جھٹکے سے زمین بوس ہو گئی ۔ ۔
اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ تے ہوئے مراد فوراً اس کی جانب بڑھا۔ ۔ ۔
مراد نے حریم کو کندھوں سے پکڑ کر اس کا گال تھپتھپایا اور بولا۔ “آپ ٹھیک تو ہیں ؟

ارد گرد سے بالکل بیگا نہ ہو کر وہ حریم کیلئے پریشان تھا یہ منظر دیکھ کر شاہ میر کی آنکھوں میں تو جیسے خون اتر آیا ۔
کیا کر رہا ہے مراد یہ میری بیوی ہے ۔ “
شاہ میر نے مراد کو پرے دھکیلتے ہوئے کہا اور حریم کو اٹھا لیا ۔ مراد ایک پل کو شر مندہ ہوا ۔ ۔ ۔ دل ہی دل میں خود کو لعنت ملامت کر رہا تھا ۔ شاہ میر اسے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا اور بیڈ پر لیٹا دیا ۔
“پانی لاؤ۔ ” اس نے فورا نوری کو ہدایت دی ۔
وہ اب پانی کے چھینٹے اس کے منہ پر رہ گئے تھے ۔ سب اس کے پیچھے ہو مر جانے دو اسے مرتی ہے تو مر جائے ۔ ۔ ۔ کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے تمہیں اس کی ؟ “
شاہ میر کی حریم کے لئے پریشانی دیکھ کر سلطانہ خاتون نے کہا ۔
اماں اس کا زندہ رہنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے ورنہ جس مقصد کے لیے ہم اسے یہاں لائے ہیں وہ مقتصد فوت ہو جائے گا ۔ بات کو سمجھیں ۔ ۔ ۔ یہ وقت غلطی کرنے کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا ہے ۔

شاہ میر نے کہا تو سلطانہ خاتون سمجھنے والے انداز میں سر کو اوپر نیچے جنبشِ دی ۔
سلطانہ بیگم پاس صوفے پر بیٹھ گئیں ۔
مراد ڈاکٹر کو لیے آؤ جلدی ۔ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے شاید ۔
شاہ میر آج واقعی پریشان ہو گیا تھا ۔ مراد ڈاکٹر کو لینے گیا۔
ڈرامہ کر رہی ہے یہ لڑکی ۔ “سلطانہ خاتون نے کہا ۔
نہیں ۔ ۔ ۔ آج یہ ڈراما نہیں کر رہی ۔ ” شاہ میر نے ہولے سے کہا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آگیا اور اُسے دیکھنے لگا ۔
” شاید اسٹریس کی وجہ سےنروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ۔ ان کو آرام کی شدید ضرورت
ہے ۔ میں نے نیند کا انجکشن دے دیا ہے ۔ آج رات انہیں آرام کرنے دیں ۔ اور کوشش کریں کہ کسی قسم کا شور نہ ہو ۔ ڈاکٹر نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
شاہ میر نے انگلی کے اشارے سے سب کو کمرے سے باہر نکلنے کا کہا اور خود بھی باہر نکل
آیا۔
وہ سلطانہ بیگم کے ساتھ اُنکے کمرے میں بیٹھا تھا۔

تم کچھ زیادہ ہی پریشان نہیں ہو رہے ہو اس لڑکی کے لیے ؟ ” سلطان بیگم نے جتانے والے انداز میں کہا ۔
پریشانی والی بات ہے تو پریشان ہو رہا ہوں ۔ “شاہ میر بولا ۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔ “سلطانہ خاتون نے کہا ۔
آپ کو اندازہ ہے کہ اگر وہ لڑکی مرگئی تو ہمارے لیے کتنا بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو شاہ نواز اور ظفر اور ساری برادری یہی سوچے گی کے سردار شاہ میر سلطان نے اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ اک لڑکی کو قتل کر کے لیا ہے ۔ اس طرح سے بدنامی تو ہوگی ہی ہوگی اوپر سے ظفر پھر سے بپھر جائیگا ۔ ۔ ۔ مجھے اپنی نہیں اپنے چھوٹے بھائی عبید کی فکر ہے ۔ وہ شہر میں پڑھتا ہے وہاں کھلم کھل گھومتا ہے ۔ میں تو یہاں رہتا ہوں اور یہاں کوئی
دوبارہ بھی ایسی حرکت کر سکتا ہے ۔ اماں میں اسی لیے پریشان ہو گیا ہوں ۔ “
شاہ میر نے کہا۔
ہاں یہ بات تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے میں نے تو یہ سوچا ہی نہیں ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا. لیکن ایک بات میری یا درکھنا ۔ ۔ ۔ وہ لڑکی ہمارے دشمن کی بہن ہے ۔ کبھی بھی اپنے دل میں اس کے لئے کوئی نرم گوشہ مت بنا نا ۔ ۔ ۔ کبھی بھی اس کے حسن کے آگے بہک

مت جانا ۔ تمہارا اُس سے جائز رشتا ہے ۔ اور وہ اس بات کا فائدہ اٹھا کر تم کو اپنے بس میں کرنے پوری کوشش کرے گی ۔ یہ جو عورت ذات ہوتی ہے نا یہ مرد کا بیڑہ غرق کر کے
رکھ دیتی ہے ۔ تمہیں ہوش سے کام لینا ہوگا ۔ اپنا مقصد ہمیشہ یا درکھنا ہو گا ۔ اور سب سے
بڑی بات اس لڑکی سے فاصلہ رکھنا ۔ ” سلطانہ بیگم نے جتانے والے انداز میں کہا۔
آپ غلط سمجھ رہی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے بیج ۔ ” شاہ میر نظریں چراتے ہوئے
بولا ۔
“آج صبح تم نے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں طلب کیا تھا کیا یہ بات سچ ہے . ؟ “
سلطانہ بیگم کے دل کی بات منہ پر آگئی ۔
میں اس سے ظفر کے متعلق پوچھنا چاہ رہا تھا۔
میرے خیال سے اسے ضرور معلوم ہوگا ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔
“جب تم اتنی نرمی دکھاؤ گے تو وہ کیسے اگلے گی ؟ ؟ ؟ اس مقصد کے لئے تو تمہیں بہت زیادہ سختی دکھانی پڑے گی ۔ وہ کہاوت تو تم نے سنی ہوگی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ ۔ ۔ وہ تمہاری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ جتنی نرمی دکھاؤ گے وہ اتنا ہی شیر
بنتی جائے گی تمہارے آگے ۔ ۔ ۔ تھوڑا سختی سے کام لو۔ غصہ دکھاؤ اپنا ۔ ۔ ۔

سلطانہ خاتون اس کا برین واش کر رہی تھیں ۔
“مجھے بہت عجیب لگتا ہے اماں خود سے کمزور پر ظلم کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ وہ بھی ایک لڑکی پر
کیا سر دارشاہ میر سلطان اتنا کمزور اور بزدل ہے ؟
شاہ میر نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
اس طرح سے سردار نہیں بن سکتے تم شاہ میر ۔ ۔ ۔ جانتی ہوں تم فطرتاً ایک نرم طبیعت انسان ہو ۔ لیکن انسان کو اپنے آپ کو حالات کے سانچے میں ڈھالنا ہی ہوتا ہے ورنہ اس
کے لیے بہت مشکل ہو جاتی ہے ۔
سلطانہ بیگم مسلسل کوشش کئے جارہی تھیں ۔ ان کا یہی مقصد تھا کہ شاہ میر حریم پر تشدد کرے ۔ تاکہ ان کے دل کو سکون ملے ۔ وہ خود بھی شاہ میر کی وجہ سے حریم پر ہلکا ہاتھ رکھےتھی
سلطانہ بیگم ایک سخت طبیعت اور ظالم قسم کی خاتون تھیں ۔ ۔ ۔ اور جوان بیٹے کی موت کی
بعد تو وہ مزید پتھر ہو گئی تھیں ۔ سلطان میر سے زیادہ حویلی میں انکا روب و دبدبہ رہا تھا ہمیشہ سے ۔ سلطان میر سے لے کر ہر کوئی ان کے اشاروں پر چلتا تھا ۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ بھی

اس حویلی میں ان کے اور بھی کافی رشتے دار رہائش پذیر تھے ۔ کچھ ان میں سے فی الحال
شہروں میں گئے ہوئے تھے ۔
سب سے زیادہ روب اُن کا شاہ میر پر چلتا تھا ۔
وہ جب سلطان میر کی دوسری بیوی بن کر اس گھر میں آئی تھیں تو انہوں نے یہی طے کیا تھا کہ وہ شروع سے ہی شاہ میر کو اپنی مٹھی میں لے لیں گی ۔
شاہ میر بچہ تھا اور اس نے اپنی مامتا اس پر نچھاور کی ۔ ۔ ۔ اور ہر پل اسے یہ احساس دلایا کہ وہ اپنے سگے بیٹوں سے زیادہ شاہ میر سے محبت کرتی ہیں ۔ اور شاہ میر بھی ان کی ہر بات پر
یقین کر لیتا تھا ۔
ابھی دوپہر کا وقت تھا ۔
اماں میں باہر کام سے جا رہا ہوں ۔ ” وہ رخصت لے کر چلا گیا ۔ باہر آیا اور نوری کو آواز دی
حریم بی بی کا خاص خیال رکھو میرے واپس آنے تک ۔
شاہ میر نے نوری کو ہدایت دی ۔
“حریم کون ؟ ” نوری کو سمجھ نہیں آیا ۔
میری بیوی۔ ” شاہ میر نے کہا۔

لیکن سائیں آپ کی تو ابھی شادی ہی نہیں ہوتی ہے ۔ ” نوری سدا کی معصوم ۔ ۔ ۔ اسے لگ رہا تھا کہ جو شادی دھوم دھام سے ہوتی ہے وہی شادی شادی کہلاتی ہے اور وہی بیوی
بیوی کہلاتی ہے ۔
ونی والی لڑکی کی بات کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ شادی نہیں نکاح تو ہوا ہے نا ۔ “شاہ میر نے کہا ۔ “سائیں ۔۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ شادی اور نکاح میں کیا فرق ہے ؟ “
نوری ہمیشہ سے اس طرح کی باتوں میں الجھ جاتی تھی۔
شامیر کو اس کے معصومانہ سوال بہت اچھے لگتے تھے ۔ ۔ ۔ لیکن فی الحال وہ پریشان تھا اور اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
جو دھوم دھام سے ہو وہ شادی کہلاتی ہے ۔ ۔ ۔ اور جو سادگی سے ہو وہ صرف نکاح ۔
شاہ میر نے جواب دیا ۔ “ہم ۔ ” نوری نے سمجھنے والے انداز میں اثبات میں سر ہلایا ۔
شاہ میر باہر چلا گیا ۔
یہ مجھے کیا ہوگیا تھا اچانک ۔ ۔ ۔ کیوں میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور سب کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ ۔ ۔ کیا سوچ رہا ہو گا اس وقت شاہ میرے متعلق ۔ ۔
مراد گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا سوچتا جا رہا تھا ۔
سامنے سیٹ پر شاہ میر بیٹھا تھا ۔
دونوں ہی بہت گہری سوچ میں تھے اور الگ سیچویشن میں پھنس گئے تھے ۔ ان دونوں کی دوستی بہت پرانی تھی ۔
مراد صرف ایک ملازم نہیں تھا بلکہ شاہ میر کے دور کا رشتے دار بھی تھا ۔ ۔ ۔ اس کی بہادری کی وجہ سے شاہ میر نے نوکری پر رکھ لیا تھا ۔
ایک دن اس نے مراد کو کسی سے لڑتے ہوئے دیکھ لیا تھا لڑکپن میں ۔ ۔ ۔ اس نے ایک
ساتھ کئی لڑکوں کو ڈھیر کر دیا تو شاہ میر بہت متاثر ہوا اس کی طاقت سے ۔ اسی دن وہ مراد کو اپنے ساتھ حویلی لے آیا اور اپنا خاص بندہ بنالیا ۔ پچھلے تیرہ چودہ سال سے وہ شاہ میر کے ساتھ تھا۔ ۔ ۔اس کا دوست تھا ۔ اس کا باڈی گارڈ ۔ ۔ ۔
تھا ۔ ۔ ۔

کیونکہ وہ لڑکپن میں اسے لے کر آیا تھا تو اس وقت سر داری والی طبیعت نہیں تھی اس کی
اس لئے دونوں میں دوستی ہو گئی تھی ۔
وہ ہر کام مراد سے مشورہ لے کر ہی کر تا تھا۔
مگر آج والے واقعے کے بعد مراد نے محسوس کیا کہ شاہ میر اس سے بات نہیں کر رہا ہے ۔

راستہ لمبا تھا اور ان دونوں کے مابین خاموشی طویل ہوتی جا رہی تھی۔ ناراض ہو ؟ “مراد نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔ وہ میری بیوی ہے ۔ ۔ ۔ تمہاری جگہ اگر کوئی اور اسے ہاتھ لگا تو یقین میں اسے جان سے مار دیتا ۔ مگر میں تمہیں مار نہیں سکتا تھا اس لئے
ضبط کیا ۔
شاہ میر نے انتہائی سخت تاثرات کے ساتھ جواب دیا تو مراد کا دل ایک پل کو ڈوب گیا ۔ زندگی میں پہلی بارشاہ میر اس سے ناراض تھا ۔ ۔ ۔ اور وجہ تھی ایک لڑکی ۔ ۔ ۔
ولید بلاوجہ اپنا فیس بک اسکرول کرتا جارہا تھا کہ اچانک اسے واٹس ایپ پر ایک انجان نمبر سے ویڈیو موصول ہوئی
اس نے ایک نظر انجان نمبر کو دیکھا جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو کہ کس کا ہے ۔ ۔ ۔
جب نمبر کو پہچان نہ سکا تو اس نے ویڈیو اوپن کی ۔
ویڈیو شروع ہوئی تو وہ ایک جھٹکے سے کھڑا ہو گیا ۔ سامنے جو منظر تھا اس نے اس کا دل دہلا کر رکھ دیا تھا ۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی تھی ۔ پھر شاید اس سے بھی کم ۔

لیکن یہ چھوٹی سی ویڈیو ایک داستان سنا رہی تھی۔ ایک مظلوم کی بربادی کی داستان ۔ ۔ ۔
ولید کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی ۔
اسے لگا کہ اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی اسی پل ۔
“شاہ میر ۔ ” اس نے لرزتی ہوئی آواز میں شاہ میر کا نام لیا۔ ۔ ۔ اُس کی آواز کی یہ
لار زاھٹ غصے کی وجہ سے تھی ۔
وہ فورا بھاگتا ہوا حویلی کے لاؤنچ میں آگیا ۔
“چا سائیں ۔ ۔ ۔ چا سائیں ۔ “
وہ چیخ رہا تھا کہ تمام گھر والے جمع گئے تھے ۔
اس حویلی کے مکینوں کے سر پر پچھلے آٹھ مہینے سے ایک تلوار لٹکی ہوئی تھی ۔ ۔ جو کہ خون بہا

دینے کے باوجود بھی نہیں ہٹی ۔
برباد کر دیا چا سائیں نے حریم کو ۔ ۔ ۔ ظفر کو بچانے کے لیے میری حریم کی قربانی دے دی ۔ دیکھیں آپ سب لوگ یہ کیا سلوک ہو رہا ہے اس کے ساتھ

ولید نے موبائل ریان کی طرف اچھالتے ہوئے کہا ۔ باری باری سب ویڈیو دیکھنے لگے ۔
اتنا برا سلوک بھول جیسی حریم کے ساتھ وہ بھی پہلے دن ۔ ۔ ۔ اتنا بھیانک استقبال کیا گیا
میری بچی کا اس حویلی میں ؟ ؟ ؟ “
نسیمہ پھوٹ کر رونے لگی اور جو بھی ویڈیو دیکھتا گیا رونے لگا۔
“حریم ۔ ۔ ۔ ۔ “آمنہ بیگم نے دیکھا اور گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئیں ۔ “کیا ہوا خیریت تو ہے ؟ ” شاہنواز کمرے سے باہر نکلے شور سن کر ۔
دیکھ لیں نتیجہ اپنے اس فیصلے کا آپ اپنی آنکھوں سے ۔ ۔ ۔ ” ولید نے ویڈیوان کو دکھانا
شروع کی ۔ یڈیو دیکھتے وقت ان کادل جیسے کسی نے مٹی میں ہوا یا ہوا ہو
” خاموش ہو جاؤ تم سے رونا دھونا بند کرو اور اس کے اچھے نصیب کے لئے دعا کرو ۔ ‘
شاہنواز سے بولا نہیں جا رہا تھا ٹھیک طریقے سے ۔
انہیں اندازہ تھا ایسا ضرور ہو گا مگر پھر بھی ۔ ۔ ۔ آنکھوں سے یہ سب دیکھ کر انہیں لگا
ان کا دل بند ہو جائے گا ۔ ۔ ۔

لیکن ان کا دل بند نہیں ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ایسا ہونا ہوتا تو اسی وقت وہ جانتا جب انہوں نے حریم
کو رخصت کیا تھا ۔ ۔ ۔
شاہ میر رات گئے لوٹا ۔
اُسے صبح والا واقعہ یاد آیا ۔ ۔ ۔
را بداری میں ہی اسے نوری مل گئی۔
“حریم کو ہوش آیا طبیعت کیسی ہے اب اس کی ؟ “
شاہ میر نے نوری کو دیکھتے ہوئے فوراً سوال دغا ۔
“شام کو ہوش آیا تھا میں نے کھانا کھلا دیا اور پھر کہنے لگی کہ نیند آرہی ہے اور سوگئی ۔ ۔ تب سے لے کر سورہی ہے۔ کہ رہی تھی کسی نے نیند کا انجیکشن دیا ہے کیا؟ “
نوری نے بتایا۔
کھانا نہیں دیا تم نے اسے ؟ ” شاہ میر بولا ۔
“شام کو دیا تو تھا تب سے لے کر سورہی ہے ۔ ” نوری بولی۔ ٹھیک ہے تم جاؤ ۔ اور میرا کھانا کمرے میں لے آؤ۔ “
شاہ میر نے کہا اپنے کمرے کی طرف بڑھا آرام سے دروازہ کھولا ۔

دیکھا تو حریم اپنے اوپر کمفرٹ تانے سورہی ہے گہری نیند ۔ وہ اس کے قریب آیا اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کیا ۔ اُسے بخار نہیں
تھا۔
پھر وہیں پر اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا اور اسے دیکھتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد نوری کھانا گرم کر کے لائی ۔ اور شاہ میر کے سامنے رکھ دیا ۔ اُس نے بڑے اٹھائی اور بیڈ کے دوسری جانب آکر بیٹھ گیا اور کھانا کھانے لگا ۔ کھانا کھاتے وقت وہ بار بار حریم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے کھانا ختم کرنے کے بعد برتن ایک طرف رکھے اور بیڈ میں آکر لیٹ گیا ۔
وہ بہت تھک چکا تھا اور سونا چاہتا تھا۔
لیکن وہ سونہیں پا رہا تھا۔ ۔ ۔
بس سامنے اُس پری پیکر کو دیکھتا جا رہا تھا
رات کے نجانے کونسے پہر حریم کی آنکھ کھلی ۔ دیکھا تو شاہ میر اُس کے پہلو میں گہری نیند سو رہا ہے ۔
وہ اپنا سر پکڑتے ہوئے اٹھی۔

اگر وہ ایسے پہلے اُسے کمرے میں لاتا تو یقیناً حریم اسے اپنی پہلی فتح جھتی۔
لیکن آج اُسے یہ سب اچھا نہیں لگا رہا تھا۔ آج اُسے شاہ میر بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ اچھا تو اُسے پہلے بھی نہیں لگتا تھا ۔ مگر اس نے اس کا دل جیتنے کا سوچا ضرور تھا ۔ مگر کل جو ہوا اُس کے بعد حریم کا شاہ میر سے دل اٹھ گیا
تھا ۔ اب وہ اُس کا دل جیتنا نہیں چاہتی تھی۔
ٹیبل لیمپ روشن تھا جس کی ڈم لائٹ میں وہ شاہ میر کو دیکھنے لگی ۔
جب میں چاہتی تھی کہ تم مجھے اپنے کمرے میں لاؤ مجھے بیوی کا مقام دو ۔ ۔ ۔ تب تم مجھے پھلانگ کر چلے گئے ۔ اب مجھے بھی نہیں چاہیے تم سے کچھ ۔ ۔ کتنا دل دکھایا ہے تم نے میر اوہ ویڈیو بھیج کر۔ اب نجانے کیا حالت ہوگی میری ماں کی ۔ ۔ ۔ کیسے اور کس سے اُن کی
حریم دکھ سے شاہ میر کو دیکھ رہی تھی
پھر اٹھی اور آرام سے کمرے سے باہر نکل آئی۔
کچن میں فرج کھول کر کھا نا تلاش کیا ۔ اور بنا گرم کیے ہی کھانے لگی ۔ پھر واپس ساجدہ کے کمرے میں آئی اور اپنی جگہ پر سوگئی ۔

صبح شاہ میر حریم کو کمرے میں نہ پا کر پریشان ہوا اور اس کی تلاش میں باہر نکل آیا ۔
دیکھا تو حسب معمول وہ پونچھا لگا رہی ہے۔
شاہ میر کو غصہ آگیا ۔
یہ کیا طریقہ ہے ؟ طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہاری اور تم یہ سب ؟ ” شاہ میر نے اس کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور بولا۔
حریم نے بنا کچھ کیسے ناراض انداز میں اپنا بازو چھڑایا اور پھر سے کام شروع کیا ۔ آج وہ چپ چاپ تھی ۔۔۔ بلکل خاموش ۔ ۔ ۔ شاید وہ مایوس ہو گئی تھی۔ اُسے اپنی حیثیت کا اندازہ ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی کہ شاہ میر کبھی اُسے بیوی کا مقام نہیں دے گا ۔ جو تھوڑی
بہت اُمید اسے شاہ میر سے تھی وہ بھی آج ختم ہو گئی تھی ۔
تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی ؟ ” وہ دھاڑا ۔
مجھے میرا کام کرنے دو۔ “حریم بلکی آواز میں بولی میں کہہ رہا ہوں چھوڑو یہ سب ۔ ” اس نے پھر اُسے ویسے ہی کھڑا کیا ۔ میری نظر میں گر گئے تم کل ہی ۔ ۔ ۔ مجھے اب تمہاری کوئی ہمدردی نہیں چاہیے ۔ “حریم
نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
شاہ میر اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

ہمدردی نہیں کر رہا۔ تمہیں کچھ ہو گیا تو ساری برادری یہی سمجھے کی کہ ہم نے تمہیں قتل کیا ہے۔ مجھے بلکل تمہاری فکر تمہارے لیے نہیں ہے ۔ مجھے تمہاری فکر ا پنے اور اپنی خاندان
کی عزت کے لیے ہے ۔ “شاہ میر نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
اُس کی بات سن کر حریم کا دل بری طرح سے ٹوٹا تھا ۔ اس کی آنکھوں کے کنارے نم
ہو گئے ۔ اُس نے انہی نم آنکھوں سے شاہ میر کو دیکھا اور اُسے دھکا دے کر وہاں سے
بھاگ گئی۔
شاہ میر ایک قدم پیچھے لڑکھڑا یا ۔۔۔
حریم اب اس کی نظر سے اوجھل ہو گئی ۔ وہ سلطانہ خاتون کے کمرے میں آیا ۔
اماں حریم کو کام کرنے کے لیے آپ کہا
شاه
میر کا انداز دھیما تھا مگر تھوڑا خفا سا
“کون حریم ؟ ” سلطانہ نے کہا۔
میری بیوی .. وہ میرا مطلب ہے ونی ۔ “شاہ میر نے پہلے جلدی میں بیوی کہا پھر سلطانہ
بیگم کے خوف سے جلدی ہی ونی بول دیا ۔

میں نے اُسے دیکھا تک نہیں صبح سے ۔ تم نے تو اُسے اپنے کمرے میں سلایا تھا نہ ؟ ” سلطانہ بیگم کا انداز بہت جتانے والا تھا ۔
” میں نے آپ کو وجہ بتائی تھی ۔ ” وہ نظریں چراتے ہوئے بولا۔ “دیکھو شاہ میر ، اب وہ ٹھیک ہے ۔ تم جتنا اُس کا خیال رکھو گے وہ اتنا ہی خد کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی ۔ جب تم نے اُسے ایک دن چھوڑ ہی دینا ہے تو اس سب کا کیا فائدہ؟ کونسا تم نے اُسے ساتھ رکھنا ہے ۔ یاں بیوی کا مقام دینا ہے ۔ ۔ ۔ یاں وارث چاہیے تمہیں اُس لڑکی سے ۔ ۔ ۔ پھر کیوں نرمی دیکھا کر اُس کے دل میں اُمید جگا رہے ہو ؟ “
سلطانہ بیگم پیار کی ماردے رہی تھیں اُسے ۔ “آپ غلط سمجھ رہی ہیں اماں ، وہ مجھ سے شدید نفرت کرتی ہے ۔ وہ میرے ساتھ رہنے کا خد بھی نہیں سوچ سکتی ۔ اور نا ہی تو وہ اُمید جگانے والوں میں سے ہے ۔ ” شاہ میر بولا۔ بہت جان گئے ہوا سے اتنے کم دنوں میں ؟ ” پھر معنی خیز انداز میں سلطانہ بیگم نے کہا ۔
شاہ میر پریشان تھا کیوں کے سلطانہ بیگم مسلسل اُسے غلط سمجھ رہی تھیں ۔ ،
اچھا اماں میں شہر کے لیے نکل رہا ہوں ۔ ہفتہ وہاں رہوں گا ۔ ایک کیس کا فیصلہ آنا ہے
اس وجہ سے ۔ ” وہ کہتا ہوا اٹھا ۔
ایک ہفتہ ۔ ۔ ۔ سلطانہ بیگم نے زیر لب کہا۔

Share with your friends on Facebook


Updated: May 27, 2025 — 3:53 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *