Badnaseeb Beti Novel Part 4 – Best Urdu Novel 2025 | Full Story in Urdu


Best Urdu Novel 2025 Badnaseeb Beti Part 4 continues this powerful and emotional Urdu story. This chapter reveals new twists, hidden truths, and emotional conflicts that make it one of the best Urdu novels for readers who love depth and drama.

Written in simple, clean Urdu font, this part adds more layers to the story of a girl struggling against society’s harsh judgment. If you enjoy realistic Urdu stories with romance, pain, and hope, this part is a must-read.

Best Urdu Novel 2025

Badnaseeb Beti Novel Part 4 – Best Urdu Novel 2025 | Full Story in Urdu

Read here Badnaseeb Beti Novel Part 3 – Romantic Urdu Novel

وہ مراد کو ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ تقریباً اگلے روز فجر کے وقت وہ کراچی پہنچا ۔
وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا۔ یہ اُس کا پیشن تھا ۔ وہ وکالت اور سر داری کو ایک ساتھ
لے کر چل رہا تھا ۔ ایک ہفتہ وہ حویلی میں رہتا ، اپنے علاقے کے لوگوں کے مسئلے مسائل سننا اور اُن کو حل کرنے کی کوشش کرتا ۔ تو ایک ہفتہ شہر آتا اور وکالت کو دیکھتا ۔ اُس کی زیادہ تر رہائش
شہر میں ہی ہوتی تھی۔
مگر جنید کے قتل کے بعد وہ زیادہ حویلی میں رہنے لگا تھا کیوں کہ اس کے والد بیمار تھے ۔ اور سلطنہ بیگم دکھی تھیں ۔۔تو اسے لگا کہ ۔ اس
کے والدین کو اُس کی زیادہ ضرورت ہے اس وقت ۔
وہ گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے گھر کے اندر آیا جہاں اُس کا ملازم ضمیر موجود تھا۔ “آپ اکیلے آئے ہیں آج صاحب؟ ” ضمیر نے اُسے بنا گارڈز کے دیکھا تو پوچھا۔ ہاں، تنگ آگیا ہوں میں گارڈز سے ۔ ساری پرائیویسی ڈسٹرب ہو کر رہ گئی ہے میری ان کی وجہ سے ۔ ” شاہ میر نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔

یہ ایک نئے طرز کا خوبصورت بنگلہ تھا ۔ جو خاص طور پر سلطان میر نے اپنے بیٹے شاہ میر اور جنید کے لیے لیا تھا سالوں پہلے ۔ تاکہ وہ دونوں آرام سے شہر میں رہ سکیں ۔ پھر شاہ میر توامریکہ چلا گیا ماسٹر ز کرنے مگر جنید کو پاکستان رہناتھا ۔ اس نے یہاں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور بہت پلاننگ کر رکھی تھی مستقبل کی ۔ مگر زندگی نے ساتھ نہیں دیا ۔ اب شاہ میر یہاں اکیلا رہتا تھا ۔ اور عبید کو اُس نے دشمنوں کے خوف سے باہر ملک بھیجوانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ عبید لاہور میں زیر تعلیم تھا۔
“صاحب کھانالے کے آؤں آپ کے لیے ہوٹل سے ؟ آپ بتا دیتے اپنے آنے کا تو میں بنا دیتا آپ کے لیے ۔ ” ضمیر نے کہا ۔
نہیں بس میں آڈر کر رہا ہوں کچھ موبائل سے ہی ۔ “شاہ میر صوفے سے ٹیک لگاتے
کھانا کھانے کے بعد وہ سونے کے لیے لیٹ گیا اپنے کمرے میں ۔ بہت تھکا ہوا تھا اتنی
لمبی ڈرائیو جو کی تھی ۔ ورنہ تو مراد ہی کرتا تھا۔
جیسے ہی اُس نے آنکھ بند کی حریم کی نم آنکھیں اُس کے سامنے آگئیں ۔
اُس نے آنکھیں کھول دیں۔

کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے پھر آنکھیں بند کیں ۔ ۔ ۔ مگر پھر وہی حریم کی شکوہ کنہ
آنکھیں ۔۔۔
اُس نے پھر آنکھیں کھول دیں ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُن آنکھوں نے ساری رات شاہ میر سلطان کو
سونے نہیں دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر کے جانے کے بعد سلطانہ بیگم نے مراد کو بلایا ۔ “آپ نے یاد کیا ؟ ” مراد نے کہا۔
ہاں ، نمبر ہے نہ تمہارے پاس شاہ نواز کے بھتیجے کا ؟ ” سلطانہ بیگم نے کہا ۔
” جی ” مراد بولا ۔
پھر انہوں نے ساجدہ سے کہا کہ ونی والی لڑکی کو لے آؤ۔
تھوڑی دیر بعد وہ حریم کو لے آئی ۔ حریم سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی ۔
وہ شاہانہ چال چلتی ہوئی حریم تک آئیں۔
لگتا ہے بہت نازک عصاب کی ملک ہو تم ۔ ۔ ۔ اسی لیے جلدی بے ہوش ہو جاتی ہو۔ ” سلطانہ بیگم نے کہا تو حریم نے غصے سے انہیں دیکھا۔

آنکھیں دکھاتی ہے مجھے ؟ بہت پر نکل آئے ہیں تمہارے شاہ میر کی نرمی کی وجہ سے ۔۔ سلطانہ بیگم نے اُس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتے ہوئے کہا ۔ حریم تکلیف سے کراہ رہی تھی اور اپنے بال چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ مراد ویڈیو بھرو” سلطانہ بیگم نے مراد کو حکم دیا ۔
مراد سوچ میں پڑ گیا ۔ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
سنا نہیں تم نے ؟؟؟ میں کہہ رہی ہوں ویڈیو بھر و۔ سلطانہ بیگم اونچی آواز میں دھاڑیں ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مراد نے ویڈیو بھرنی شروع کی۔
منہوس لڑکی، بیغیرت بھائی کی بیغیرت بہن۔ بیغیرت باپ کی بیغیرت بیٹی ۔ “سلطانہ بیگم نے بالوں سے پکڑ کر اسے فرش پر دھکا دے کے گرایا اور ۔ بولتی جا رہی تھیں ۔ سمجھتی ہے کہ میں تجھے پھولوں کی سیج پر بٹھانے کے لیےو نی میں لیے آئی ہوں ؟ ؟ ؟
سلطانہ بیگم نے اس پر لاتوں کی برسات کرتے ہوئے کہا ۔ .تو کیا سوچ رہی ہے میں شاہ میر کی سوتیلی ماں ہوں تو تو اسے مجھ سے چھین لیگی اپنی چالاکیوں سے ۔ ۔ ۔ بے ہوش ہونے کا ناٹک کرتی ہے شاہ میر کے آگے ۔ ” سلطانہ بیگم نے پھر اُسے بالوں سے دبوچا ۔

وہ میرا بیٹا ہے ۔ ۔ ۔ میرے حکم کا غلام ہے شاہ میر ، میرے اشاروں پر چلنے والا ۔ ۔ ۔ انہوں نے اُسے بالوں سے پکڑ کر اب کھڑا کیا ۔
اور یہ تیرا احسن ۔ ۔ ۔ تیزاب پھینک دونگی میں تیرے اس حسین چہرے پر ۔ ۔ ۔ پھر شاہ میر تجھ پر تھوکے گا بھی نہیں۔ خوبصورت عورت مرد کی کمزوری ہوتی ہے ۔ تیری اس خوبصورتی کو میں ایسے داغ لگا دونگی کے تیری روح کانپ جائیگی ۔ “سلطانہ بیگم نے اُس
کے جبڑے کو پکڑتے ہوئے کہا ۔
مراد ویڈیو بند کر چکا تھا۔ حریم اپنے دفاع میں نہ کچھ بول رہی تھی اور نا ہی تو خد کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
آج شاہ میر کے الفاظوں نے اسے جو تکلیف دی تھی اُس کے آگے سلطانہ بیگم کی ویسی نہیں ہورہی تھی تھی دی تھی۔
“سنورات کو مراد نے کچن میں داخل ہو کر راز دارانہ انداز میں نوری کو پکارا۔
بولو. نوری نے بھی ویسے ہی انداز میں جواب دیا ۔
یہ درد کی گولی ہے ۔ یہ جا کر بھا بھی کو دے آؤ ۔ ” مراد بولا۔

تمہارا تو کوئی بھائی یہاں نہیں رہتا ۔ ۔ ۔ تو بھا بھی کہاں سے آگئی ؟ ” نوری کے مصومانہ
سوال ۔ ۔ ۔
شاہ میر کی بیوی کی بات کر رہا ہوں ۔ “
مراد نے ہلکی آواز میں کہا ۔ نہ تو شاہ میر کی بیوی تمہاری بھا بھی کیسے ہوئی ؟ ” نوری نے کہا ۔
شاہ میر میرا دوست ہے۔ میں اُسے بھائی جیسا سمجھتا ہوں ۔ تو اس کی بیوی میری بھا بھی
ہوئی نا ۔ “مراد نے وضاحت کی۔
“اچھا ۔ ۔ ۔ ” انوری نے اچھا کو لمبا کھینچے ہوئے کہا۔
سر دار بی بی نے آج اُنہیں بہت مارا ہے ۔ درد ہو رہا ہو گا اُنہیں ۔ ” مراد بولا۔
” تم کو جو کہا ہے وہ کرو ۔
تمہیں کیوں اتنی ہمدردی ہو رہی ہے اس سے
نوری نے کہا۔
اچھا ، اچھا دیکے آتی ہوں ۔ ” نوری گولی لیکے حریم کے پاس آئی جس کے جسم سے اس وقت سلطانہ بیگم کی مار کھانے کے بعد درد ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔
“لے ۔ ۔ ۔ مراد نے دیا ہے تمہارے لیے ۔ “نوری نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
اُسے لگا حریم سوچکی ہے ۔
مراد نے ؟ “حریم نے آہستہ آواز میں کہا کہ کہیں ساجدہ نہ جاگ جائے ۔

ہاں کہہ رہا تھا سلطانہ بیگم نے بہت مارا ہے تمہیں آج ۔ ۔ تو درد ہو رہا ہوگا ۔ ” نوری نے
سر گوشی کے انداز میں کہا۔
پانی لا دو ۔ “حریم نے بے بسی سے کہا ۔ اُس کا انگ انگ درد سے دکھ رہا تھا ۔ نوری نے اُسے پانی لا کے دیا اُس نے گولی کھالی۔ واقعی اسے اس وقت درد کی گولی کی شدید ضرورت تھی ۔
وہ پھر سے لیٹ گئی۔
اس کا مطلب مراد کو مجھ سے ہمدردی ہے ۔ ۔ ۔ اور مجھے اُس کی ہمدردی کا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ جو درد کی دوا دے سکتا ہے وہ مدد بھی کر سکتا ہے ۔ حریم نے سوچا ۔
سارا ہفتہ شاہ میر بے چین رہا۔ پھر آج واپس آیا حویلی – سفر بہت طویل تھا تو وہ تھک چکا تھا۔
سب سے پہلے سلطان میر کے پاس آیا ۔ اُن سے کافی دیر باتیں کرتا رہا۔ پھر وہاں سے اٹھ
کر سلطانہ بیگم کے پاس آیا ۔
حالانکہ وہ تھک چکا تھا لیکن جتنا بھی تھکا ہوا ہو وہ اُن دونوں سے ملے بغیر نہیں سوتا تھا۔

سلطانہ بیگم کے کمرے سے نکل کر اُس کی نظریں لاشعوری طور پر حریم کو تلاش کرنے لگیں ۔ لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ اُس نے سوچا سوگئی ہوگی ضرور ۔
وہ مایوس ساکمرے میں آگیا ۔ تھوڑی دیر بعد دستک ہوئی تو نوری نے اجازت چاہی۔ سائیں ۔ سردار بی بی نے کہا کے آپ سے کھانے کا پوچھ لو ۔ ” نوری نے اپنے آنے کہ
مقصد بتایا ۔
نہیں، کھانا کھا لیا تھا میں نے راستے میں ہی۔ تم ایسا کرو میرے لیے ایک کپ چائے بنا کر لاؤ اچھی سی ۔ ” شاہ میر نے کہا تو نوری چائے بنانے چلی گئی۔
تھوڑی دیر میں وہ چائے لائی اور سائڈ ٹیبل پر رکھا ۔
سنو، حریم کہاں ہے ؟ ” وہ جانے لگی توشاہ میر نے اس سے پوچھا ۔
“سوگئی ہوگی ۔ ” نوری نے جواب دیا ۔
دیکھ آؤ۔ اگر جاگ رہی ہے تو اسے بلاؤ ۔ شاہ میرا نے کہا ۔
سنو… جاگ رہی ہو؟ ” نوری نے اس کے کان کے پاس سر گوشی کی۔ وہ کہاں سوتی تھی ۔۔۔ بس پہلو بدلتی رہتی تھی دیر تک ۔ ۔ ۔ نجانے کتنی دیر کوشش کے بعد جا کر نیند کی دیوی اُس پر مہر بان ہوتی تھی ۔

ہاں کیوں کیا ہوا ؟ ” حریم نے بیزاری سے پوچھا ۔ “شاہ سائیں بولا رہے ہیں تجھے ۔ ” نوری نے کہا ۔ ” وہ تو شہر گئے تھے ۔ “حریم بولی ۔
ابھی آئے ہیں گھنٹہ پہلے ۔ ” نوری نے کہا تو وہ اٹھی۔
(ماں نے بلا کر مارا تھا ۔ ۔ ۔ اب بیٹا مارے گا ۔ ) حریم ہارے ہوئے جواری کی طرح اٹھی ۔
دروازے پر دستک دی ۔
آجاؤ۔ “آگے سے شاہ میر کی آواز ابھری۔
وہ دروازہ کھول کر اندر آئی ۔
شاہ میر دیوار کے سامنے کھڑا اپنی اور جنید کی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ پھر سر گھما کر حریم کو
دیکھا ۔
“حریم نے عجیب نظر سے اسے دیکھا ۔ شاید غصہ اور ناراضگی ۔ ۔ ۔ یہاں پھر اپنی
بے بسی ۔ ۔ ۔ شاہ میر سمجھ نہیں پایا ۔
وہ اُس کے قریب آکر کھڑا ہوا۔ اور اسکے چہرے کو تکنے لگا ۔ “کیسی ہو؟ ” شاہ میر نے پوچھا ۔

تم سے مطلب؟ کیوں بلایا ہے ؟ جلدی بتاؤ مجھے نیند آرہی ہے ۔ ” اس نے چہرہ
دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا ۔
شاہ میر نے محسوس کیا کہ آج اُس کے لہجے میں اکڑ کم تھی ۔
اچانک شاہ میر نے اسے اپنے حصار میں لیا تو وہ چونکی ۔ دور ہٹو ” اس نے اُسے دکھا دیا مگر شاہ میر کی گرف مضبوط تھی ۔
میر کی نیند یں حرام کر کے خود سونا چاہتی ہو؟ ” شاہ میر نے اس کی شال اُس کے وجود
سے کھینچ کر دور پھینکتے ہوئے کہا ۔
بد تمیز ” حریم نے اب کی بار زور دار دھکا دیا اور دروازے کی جانب بھاگی ۔ شاہ میر نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
ہفتہ نہ جانے میں نے کیسے گزرا ہے تمہارے تصور میں ” شاہ میر نے پھر اسے قریب کرتے ہوئے کہا
انتہائی گھٹیا انسان ہو تم ۔ مطلبی، ظالم ، مکار ، اور ۔ ۔ ۔ “
شاہ میر نے اُس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے مزید بولنے سے روک لیا ۔ “جیسا بھی ہوں تمہارا شوہر ہوں ۔ اور شاہ میر سلطان نہ کسی کا حق مارتا ہے نہ اپنا حق چھوڑتا ہے ۔ اُس نے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا ۔

صبح سے کچھ دیر پہلے ہی اس کی آنکھ کھلی ۔ ۔ ۔ اس نے دیکھا شاہ میر سورہا ہے ۔ وہ اسے
دیکھتی رہی۔
سلطانہ بیگم ۔ ۔ ۔ اپنے زوال کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ ۔ ۔ کیوں کے تمہارا بیٹا اس ونی میں
آئی ہوئی لڑکی کے آگے ہار چکا ہے ۔
حریم نے شاہ میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ اُس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ
آگئی۔
وہ اٹھنے لگی تو شاہ میر نے اُس کا ہاتھ تھام لیا ۔
ساجدہ کے کمرے میں جا کر سوجاؤ ۔ ۔ ۔ اماں کے اور ملازموں کے جاگنے سے پہلے ۔
شاہ میر ے نیندمیں ڈوبی آواز میں کا
حریم اپنے بالوں کا جوڑا بنانے لگی ۔ اور چادر شال اوڑھ کے اٹھی ۔
کمرے سے باہر آگئی ۔
لاؤنج میں ابھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا روشنی ٹھیک سے پھیلی نہیں تھی۔
وہ آکر اپنی چارپائی پر لیٹ گئی۔

سلطانہ بیگم ۔۔۔ کل میں نے واقعی ہار مان لی تھی اپنی ۔ ۔ ۔ مگر اب نہیں ایک ایک زخم کا بدلہ لونگی تم سے ۔ ۔
اُس نے دل میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں
صبح شاہ میر اپنے کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا حریم راہداری میں پونچھا لگا رہی ہے ۔ ایک پل کو دونوں کی نظریں چار ہوئیں پھر حریم نے نظریں جھکا لیں ۔ وہاں سے بار بار گھر کے دیگر ملازم اور شاہ میر کے گاؤں میں رہنے والے رشتے دار گزر رہے تھے ۔ وہ آتے
جاتے حریم کو دیکھتے۔
یہ منظر دیکھ کر شاہ میر کو غصہ آگیا۔ وہ سلطانہ بیگم کے پاس آیا۔ اماں آپ اس سے جو چاہے کام لیے ہیں۔ کپڑے دھولیں، یاں کچن کا سارا کام اس سے کروالیں ۔ کھانا بنوالیں ، سارے برتن اُس سے منجوالیں ۔ مگر پلیز یہ پونچے والا کام اُس سے مت کروائیں ۔ ” وہ آتے ہی سلطانہ بیگم پر جیسے برس پڑا۔ سلطانہ بیگم ایک پل کو ششدر رہ گئیں ۔
کیوں اُس نے تم سے شکایت کی ہے کیا میری ؟ “سلطانہ بیگم نے اپنے غصے کو قا بو کرتے ہوئے کہا ۔

” اماں ، جیسی بھی ہے وہ میرے نکاح میں ہے ۔ میری عزت ہے ۔ آتے جاتے سب مردا سے دیکھتے ہیں۔ آخر میری بھی تو کوئی غیرت ہے ۔ کیا مجھے اچھا لگے گا کے حویلی کے مردا سے آتے جاتے دیکھیں ۔ اور وہ اُن کے قدموں میں گر کر پونچھا لگتی پھرے ؟ ” شاہ
میر آج سخت خفا لگ رہا تھا۔
اچھا ، اچھا تم آرام سے ہو جاؤ۔ میں اُسے کچن کا کام سومپ دیتی ہوں ۔ “سلطانہ بیگم نے
بات سبھالتے ہوئے کہا ۔
ہاں وہ مجھے کچن کے علاوہ کہیں اور حویلی میں نظر نہیں آنی چاہیے ۔ “شاہ میر کہتا ہوا اٹھا ۔
شاہ میر وہاں سے چلا گیا تو وہ پریشان ہو گئیں ۔
سن لڑکی، سر داربی بی کا حکم ہے کہ آج سے کچن کا کام کرے گی۔ کھانا وغیرہ۔ آج سے یہ پونچھے والا کام چھوڑ دے ۔ ساجدہ نے آکر کہا تو حریم حیرت سے دیکھنے لگی ۔ ایسے کیا دیکھ رہی ہے ؟ چھوڑا سے اور کچن میں چل میرے ساتھ ۔ ” ساجدہ نے کہا ۔
وہ اُس کے تعاقب میں کچن تک آئی ۔
ہاں اور چھوٹے شاہ سائیں کا حکم ہے کہ تم کچن اور لاؤنج تک ہی محدود رہنا ۔ جہاں حویلی کے مردوں کا گزر ہوتا ہے وہاں نہ جانا ۔ ساجدہ نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

شکر اس پونچھے سے تو جان چھوٹی میری) حریم نے دل میں شکر کیا ۔ سلطانہ بیگم جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں چکر کاٹ رہی تھیں ۔
یہ لڑکی تو ۔ ۔ ۔ لگتا ہے شاہ میر کو قابو کر لیگی ۔ کیا کروں میں اُس کا ۔ ۔ ۔ “سلطانہ بیگم نے
کہا۔
“آپ صبر سے کام لیں ۔ شاہ سائیں کے دل میں وہ لڑکی جگہ بنا چکی ہے ۔ اب آپ کی ایک غلطی آپ کو چھوٹے سائیں سے دور کے سکتی ہے ۔ پھر چھوٹے شاہ سائیں اسے شہر
لے جائینگے اور آپ ہاتھ ملتی رہ جائیں گی ۔ ” ساجدہ نے کہا ۔
یہی تو ۔ ۔ ۔ شاہ میر کے آگے برا نہیں بنا میں نے ۔ کچھ ایسا کروں کے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے ۔ سلطانہ بیگم نے کہا
و یسے سر داربی بی، کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ شاہ سائیں اُسے لے جائیں شہر ۔ ۔ ۔ اور حویلی میں آپ کے بیٹے عبید سائیں کا راج شروع ہو ۔ ۔ ۔ وہ سر دار بن جائیں ۔ شاہ سائیں تو
آپ کے سگے نہیں ۔ تو جانے دیں انہیں ۔ ۔ ۔ ” ساجدہ نے کہا ۔ ” نہیں ۔ ۔ ۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ساجدہ ۔۔۔ ابھی عبید چھوٹا ہے ۔ اور میں پہلے ظفر کو شاہ میر کے ہاتھوں مرواؤں گی ۔ پھر اس ونی کو بھی شاہ میر کے ہاتھوں ہی الزام لگوا کر

مرواؤں گی۔ دونوں بہن بھائی شاہ میر کے ہاتھوں قتل ہونگے ۔ تب میرے دل کو سکون آمیگا ۔ پھر میں شاہ میر کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر عبید کو سر دار بناؤں گی ۔ مگر ابھی مجھے شاہ میر سے بہت سارے کام کروانے ہیں ۔ اور اس کے لیے مجھے شاہ میر کی ہر بات ماننی ہوگی ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا ۔
پھر آپ چھوڑ دینگی چھوٹے شاہ سائیں کو؟ ” ساجدہ کے دل کو کچھ ہوا ۔ ۔ ۔ نہیں ، وہ بھی میرا بیٹا ہے ۔ شاہ میر تو میرا غرور ہے ، میرا فرماں بردار ہے ۔ شاہ میر کے بغیر تو کے کچھ بھی نہیں ساجدہ ۔ ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ مجھے میرے سگے بیٹوں نے وہ مقام نہیں دیا جو شاہ میر نے دیا ۔ اب عبید کو دیکھی جب سے جنید گیا ہے تب سے وہ پلٹ کر آیا ہی نہیں۔ یہ تک خیال نہیں کے ماں کس حال میں ہوگی ۔ جنید بھی کم ہی میری خبر لیتا تھا۔ لیکن شاہ میر کو دیکھو۔ وہ ہر ہفتے صرف میرے لیے یہاں آتا ہے ۔ “سلطانہ بیگم نے
آرام سے کہا۔
پھر ۔ اُن کی شادی ؟ ” ساجدہ کو شاہ میر کی شادی کے متعلق تجس تھا۔ اس کی شادی میں اپنی بھانجی کا ئنات سے کرواؤں گی ۔ تاکہ شاہ میر ہمیشہ میری مٹھی میں رہے ۔ شاہ میر ہیرا ہے ہیرا ۔ ۔ ۔ اور میں اس ہیرے کو کھونے کے غلطی کبھی نہیں
کروں گی ۔ “سلطانہ بیگم نے ایک عزم سے کہا ۔

مراد نے وہ ویڈیو نہیں بھیجی تھی اور سلطانہ بیگم سے جھوٹ بولا کے بھیج دی ہے ۔ یہ پہلا حکم تھا جس کی اُس نے تعمیل نہیں کی تھی ۔
اُس کا دل کیا کہ وہ یہ ویڈیو شاہ میر کو دکھائے ، تاکہ اُسے معلوم ہو کے شاہ میر کے جانے کے بعد حریم کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے یہاں ۔ مگر پھر خد کو روک دیتا ۔ اُس کی ایک غلطی
اُسے حویلی سے نکلوا سکتی تھی ۔
شاہ میر سارا دن گھر سے باہر رہا۔ علاقے کے لوگوں کے مسئلے سنتا رہا۔ اس دوران بھی بار بار اُس کا دہان حریم کی طرف جارہا تھا۔ رات دیر سے وہ تھکا ہارا واپس آیا ۔ حویلی آتے ہی اس کے حریم کی تلاش ہوتی تھی
وہ اب اُس کو معلوم نہیں تھا کہ ساجدہ کہاں سوتی ہے ۔
وہ حویلی کے پچھلے طرف نکل آیا۔ اب اتنے ساری کمروں میں سے حریم کونسے میں سورہی
تھی اُسے اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا۔

مایوس ہو کر کو اپنے کمرے میں چلا آیا ۔ پھر بھی اس انتظار میں جاگتا رہا کہ شاہد حریم خود
آجائے۔
(اس نے میری گاڑی کی آواز سنی ہوگی ۔ اُسے آنا چاہیے تھا ۔ ) شاہ میر سوچ رہا تھا ۔ (اُس دن بھی تو وہ میری گاڑی کی آواز سن کر آئی تھی اور بے ہوش ہونے کا ڈراما کیا
تھا ۔ ۔ ۔ تو اب کیوں نہیں آئی ۔ ) شاہ میر کو اب سوچ سوچ کر غصہ آنے لگا ۔ ادھر حریم نے اُس کی گاڑی کی آواز سنی تھی ۔ وہ جہاں سوتی تھی وہاں اندر داخل ہونے والی گاڑی کی آواز صاف آتی تھی۔ اور سردی کی وجہ سے خاموشی ہوتی تھی پیچھے کی آواز نہیں
تھی تو آسانی سے سنا جا سکتا تھا ۔
ضرور میرے انتظار میں ہوگا ۔ ۔ ۔ اگر میں گئی تو وہ مغرور ہو جائے گا ۔
اُس نے کہہ کر لحاف اپنے اوپر تان لی ۔
اگلی رات مجبور شاہ میر کو نوری کے ہاتھ پیغام بھجوانا پڑا تو وہ آئی۔
اب کیا روز روز تمہیں ملازموں کے ہاتھ بلاوا بھجوانا پڑے گا ؟ “وہ اندر آئی تو شاہ میر سینے پر
ہاتھ باندھے اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور بولا۔

“مجھے کوئی الہام نہیں ہوا تھا کہ تم بلارہے ہو ۔ “حریم نے چہرہ دوسری طرف پھیرتے
ہوئے کہا ۔
شاہ میر نے ایک آہ بھری ۔
میں یہاں ایک ہفتے کے لیے آتا ہوں ۔ اور اس ایک ہفتے میں مجھے کہنے کی ضرورت نہ پڑے تمہیں ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہی تم میری گاڑی کی آواز سنو ۔ ۔ ۔ جیسے ہی سب سو جائیں تمہیں میرے کمرے میں موجود ہونا چاہئے ۔ شاہ میر نے اُسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے حکم
صادر کیا ۔
“مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہارے پاس آنے کا۔ کوئی مری نہیں جارہی میں تمہاری
کے لیے جو تنہاپہنچ جاؤں یہاں ۔ “حریم نے کہہ کر خود کو اس
کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی
“ویسے تو ہر وقت بیوی بیوی کی رٹ لگائی ہوتی ہے تم نے ۔ ۔ ۔ اور بیوی کے فرائض
یاد نہیں ” شاہ میر اس کے پاس آکر کھڑا ہوا پھر سے ۔
وہ سر اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی عجیب نظروں سے ۔
” تم نے بھی توونی ونی کی رٹ لگائی ہوتی ہے ۔ اب میں بیوی ہو گئی ؟ “حریم نے طنزیہ کہا ۔
شاہ میر اُسے دیکھے گیا۔

صیح کہتی ہی نوری ۔ رسی جل گئی لیکن بل نہیں گیا ۔ ” شاہ میر اُس کے قریب بیٹھ کر بولا ۔
یہ نوری نے کہا ؟ میرے متعلق؟ “حریم کو غصہ آگیا ۔
ہاں ، یہ فقرہ تم اور صادق ہے بالکل. ” شاہ میر نے اس کی سامنے کی لٹ سے کھیلیتے
ہوئے کہا ۔
پتا ہے بڑی بنتی ہے تمہاری نوری سے ۔ “حریم نے بتایا۔
ہاں مجھے اُس کی معصومیت پسند ہے ۔ “شاہ میر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے
پھر تو میں تمہیں بالکل بھی پسند نہیں ہونگی ۔ ۔ ۔ “حریم کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ
آگئی۔
ہو تو قابل قتل ۔ ۔مگر
شاہ میر بولا۔۔
” مگر ؟ ” حریم نے پوچھا ۔
مگر بلا کی حسین ہو۔ شاہ میر نے پھر سے اُسے حصار میں لیتے ہوئے کہا ۔ تو سر دار شاہ میر سلطان ، اس ونی میں آئی ہوئی لڑکی کے حسن کے آگے ہار گیا ؟ “حریم نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

سر دارشاہ میر سلطان ہارتا نہیں ۔ ۔ ۔ ہارا دیتا ہے ۔ ۔ مگر تم نہیں سمجھو گی ۔
شاہ میر نے عجیب سے انداز میں کہا تو حریم کو کسی انہونی کا احساس ہوا۔ (کہیں یہ شخص میرے ساتھ کوئی گیم تو نہیں کھیل رہا) حریم سوچ میں چلی گئی ۔ کیا سوچ رہی ہو ؟ “شاہ میر نے اُسے کھویا ہوا دیکھا تو پوچھا۔
کچھ نہیں ۔ ” وہ پریشان ہو گئی ۔ ۔ ۔ لیکن اپنی یہ پریشانی شاہ میر پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
صبح چھے بجے اس کی آنکھ کھلی۔ اس نے پہلے سمجھنے کی کوشش کی کے وہ کہاں ہے ۔ اگلے ہی پل اُسے یاد آیا کہ وہ شاہ میر کے پاس ہے ۔ اُس کے خد کو آرام سے شاہ میر کی گرفت سے آزاد کی اور اندھیرے میں پریشان تھی ۔ باہر کھڑکی سے آنے والی روشنی سے کمرہ ہلکا سا واضح تھا ۔ سر دار شاہ میر سلطان ہارتا نہیں ۔ ۔ ۔ ہارا دیتا ہے ۔ ۔ مگر تم نہیں سمجھوگی ۔ (اُسے شاہ میر کی کہی ہوئی بات یاد آئی ۔ وہ اب بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھی ۔ یہ میرے ساتھ گیم کھیل رہا ہے ) حریم نے پورے یقین سے کہا۔

نہیں شاہ میر نہیں ۔ ۔ ۔ حریم شاہ نواز کسی کو اپنے ساتھ گیم کھیلنے نہیں دیگی ۔ اگر یہ تمہاری کوئی چال ہے تو تم پر ہی الٹی پڑے گی ۔ ۔ ۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو ۔ ۔ ۔ (وہ سوچے جارہی
تھی ۔ پھر اٹھنے لگی تو شاہ میر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
“میرے پاس رہو ۔ ” وہ نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں بولا ۔ “تمہاری سوکن اماں جاگ جائیگی۔ “حریم نے کہا۔
“میری ماں کے بارے میں ایک لفظ بھی غلط کہا تو یہیں پر تمہاری قبر بنا دونگا ۔ ” شاہ میر نے سختی سے کہا تو حریم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
(مجھے اس کے سامنے اُس عورت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہیے جب تک کے یہ خد نہ دیکھ لے اس کی اصلیت ۔ بنا بنایا کھیل بگڑ جائیگا میرا۔ ۔ ) حریم نے دل میں سوچا ۔ پھر اس کا دہان بنانے کے لیے اس کے بالوں میں انگلیاں پھرنے لگی۔ “مجھے جانا ہے ۔ اس لیے کہ رہی تھی ۔ سب جاگ جائیں گے ۔ تم نے خد ہی تو کہا تھا کہ سب کے جاگنے سے پہلے جانا۔ ” وہ بات بنانے لگی ۔
“حریم ” اس نے بند آنکھوں سے اُس کا نام پکارا۔
کیا ؟ ” وہ بولی ۔
نہیں رہ سکتا میں تمہارے بغیر ۔ ” شاہ میر نے اُسے خد سے قریب کرتے ہوئے کہا۔

میرے جذبات سے کھیلنا چاہ رہے ہو تم ۔ ۔ ۔ یہ تمہاری چال ہے ۔ ۔ ۔ میں ایسا ہونے نہیں دونگی ۔ ۔ ۔ یہ محبت کا کھیل میرے ساتھ مت کھیلنا سر دارشاہ میر سلطان ۔ ۔ ۔ بہت مہنگا پڑے گا یہ کھیل تمہیں ۔ “) حریم اب اُس کی گرف میں سوچ رہی تھی ۔ ۔ اُسے کیا کرنا ہے آگے کی پلاننگ کرنے لگی ۔ ۔ ۔
” مراد۔ “) حریم نے زیر لب مراد کا نام دہرایا ۔۔
کتنی بد نصیب ہو تم ۔ صبح جب وہ شاہ میر کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی تو حلیمیہ نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ حلیمہ یہاں برتن دھوتی تھی۔
کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے ؟ “حریم کو غصہ آگیا
ظاہر سی بات ہے ۔ ۔ ۔ ونی میں آئی ہو۔ نوکر ہی ہوئی ہو۔ ۔ ۔ حالانکہ ہوتو سر دار کے
نکاح میں ۔ ” حلیمہ نے کہا ۔ یہ ہے کہا
اپنی بکواس بند کرو تم . “حریم نے کہا۔
” تم چاہو تو اپنا مقام پا سکتی ہو ۔ اس حویلی پر راج کر سکتی ہو ۔ ۔ ۔ بس میری بات پر عمل کرو۔ ورنہ ساری زندگی سلطانہ بیگم کی مار کھانی پڑے گی ۔ “حلیمہ بولی۔
حریم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ۔ ۔ وہ پریشان تھی۔

“شاہ سائیں کا دل مٹھی میں کر لو ۔ ۔ ۔ سردار بی بی کا تخت صرف تم اُلٹ سکتی ہو۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب شاہ سائیں تم سے محبت کرنے لگ جائیں حلیمیہ نے کہا تو حریم نہ چاہتے ہوئے بھی سننے لگی ۔
“شاہ سائیں پر اپنی محبتیں نچھاور کرو ۔ اُنہیں اپنا اس قدر عادی بنالو کے وہ تمہارے بنارہ ہی نہ سکیں ۔ اب دیکھو ناشتہ کھانا سب تو نوری دیتی ہے انہیں ۔ ۔ ۔ یہ سب تم خد کرو۔ بار باران کے سامنے جاؤ ۔ اپنی محبت اُن کے دل میں جگاؤ ۔ ۔ ۔ رات کو جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔۔۔ وہ ایک حسین خواب سمجھ کر بھوک جائیگا ۔ ۔ ۔ محبت جگاؤ ان کے دل میں اپنی ۔ ” حلیمہ نے کہا تو حریم حیران ہوئی۔
اس کا مطلب اس اپنی ساس کو سرپرائز دینا ہے ۔ ۔ ۔ جب اسے پتہ چلے گا کہ وہ دادی بننے والی ہے ۔ ۔ ابھی تو نے یہ راز کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی ۔ ۔ جب تک مجھے کوئی خوشخبری نہیں مل جاتی تب تم کو اس تعلق کو پوشیدہ رکھنا ہے ۔ ۔ ۔ تاکہ میں اُس وقت سلطانہ بیگم کا چہرہ دیکھ
سکوں ۔ جب یہ تعلق اپنا رنگ دکھائے گا ۔ (حریم نے سوچا ۔
خبر دار جو تم نے منہ کھولا کسی کے آگے تو ۔ ۔ ۔ شاہ سائیں تمہیں زندہ درگور کرنے دینگے ۔ “حریم نے دھمکی دی ۔

میں صرف تمہارا بھلا چاہتی ہوں ۔ تم ان لوگوں کو جیسا سمجھ رہی ہوئے ویسے نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ یہ لوگ ناگ بنے بیٹھے ہیں ۔ تمہیں ڈسنے کے لیے ۔ شاہ سائیں کی قربت کی اپنی جیت سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کرنا ۔۔ بس میں جیسا کہتی ہوں ویسا کرتی جاؤ ۔ “حلیمہ نے کہا۔ کیا کرنا ہوگا مجھے ؟ ” حریم اب پوری طرح سے حلیمہ کی طرف متوجہ تھی ۔ ۔ ۔
حلیمہ کی ساری بات سننے کے بعد اب حریم سوچ میں پڑگئی تھی ۔ وہ کچن میں ہی کرسی پر بیٹھی اب کسی غیر مرئی نکتے کو تکے جارہی تھی۔ اب اتنا کیا سوچ رہی ہو ؟ کیا یہ سب مشکل لگ رہا ہے تمہیں ؟ ” حلیمہ نے اُسے کھویا ہوا دیکھا تو بولی۔
” یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ “حریم بولی۔
“پھر غلامی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ کیوں کے شاہ سائیں تم سے کچھ دن دل بہلا کر اپنی راہ لے
لینگے ۔ ” حلیمہ نے کہا۔ ” اور اگر میں نے اُسے وارث دے دیا تو ؟ کیا تب بھی ؟ “حریم کھوئی کھوئی سی بول رہی

وارث کے زوم میں مت رہنا ۔ ۔ ۔ وہ اپنا بیٹا تم سے لیگا اور تم کو سلطانہ بیگم کے رحم و رم پر چھوڑ دیگا ۔ اور تمہارا بچہ اس کی خاندانی بیوی پالے گی ۔ اور بچے کو یہ پتہ بھی نہیں لگنے
دینگے کہ اُس کی اصل ماں تم ہو ۔ ” حلیمہ کی باتوں پر حریم کو یقین آ رہا تھا ۔ ) یہ ۔ عورت صحیح کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا جتنا میں سمجھ رہی تھی ۔ واقعی بچہ ہونے کے بعد بھی میرے ساتھ غلط ہو سکتا ہے (
تم شاہ سائیں کے بھائی کے قتل کی بہن ہو ۔ ۔ ۔ یہ بات کبھی مت بھولنا ۔ ” حلیمیہ نے اُس کا بازو دباتے ہوئے سر گوشی کی۔
“تمہیں مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے ؟ “حریم نے پوچھا ۔ کہتے ہیں دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے “حلیمیہ بولی۔ کون ہے تمہارا دشمن ؟ مریم نے پوچھا۔
“سلطانہ بیگم ۔ “حلیمہ نے کہا۔ حریم نے دیکھا ۔۔۔ اُن کا نام لیتے وقت حلیمہ کی آنکھوں
میں عجیب سی وحشت اتر آئی ہے ۔
ایک ہی ہتھیار استعمال کر سکتی ہو تم ۔ ۔ ۔ عشق کا ہتھیار ۔ ۔ ۔ شاہ سائیں کو اپنے عشق میں
بتلا کر دو ۔
حلیمہ نے کہا ۔

“دشمن کی بہن سے کیسے عشق کرے گا سر دار شاہ میر ؟ ” حریم مایوس ہو گئی۔ بس میں جیسا کہتی جاؤں ویسا کرتی جاؤ ۔ “حلیمہ بولی۔
وہ سونے کے لیے لیتی تو ساجدہ کے سونے کا انتظار کرنے لگی ۔ ساجدہ جلدی سو جاتی تھی ۔ شاہ میر ہفتہ گزار کر شہر چلا گیا تھا۔
حریم آہستہ آہستہ سے اٹھی اور اپنی سیاہ چادر اوڑھ کر کمرے سے باہر آئی ۔ پھر وہ حویلی کے ایک گنجان حصے میں آئی ۔ جہاں مراد پہلے سے اُس کا منتظر تھا۔ حریم نے حلیمہ کے ہاتھوں مراد کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ آئے اُسے ضروری بات کرنی ہے ۔ جی چھوٹی سردار بی بی آپ نے یاد کیا ۔ ” جھکے ہوئے سر کے ساتھ انتہائی فرماں برداری سے مراد نے کہا تو حریم حیران ہوئی۔ یہ پلا ن تھا جو اسے ایسے مخاطب کر رہا تھا۔
” تم سے کام تھا مجھے ۔ “حریم نے کہا ۔
جی حکم کریں ” مراد بولا۔ کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے میرے حکم کی تعمیل فورا کرو گے “حریم کا انداز طنزیہ تھا۔ “جی بالکل ، اگر وہ سردار شاہ میر کے کسی حکم کے خلاف نہ ہوا تو ۔ وہ بولا۔ ” مجھے میری ماں سے بات کرنی ہے ۔ “حریم نے کہا ۔

مراد نے آہ بھری۔
” میں نے واضح کیا ہے کہ میں صرف اسی حکم کی تعمیل کر سکتا ہوں جو سردار شاہ میر کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ “مراد نے کہا ۔
کیا میرا حکم تمہارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ؟ “حریم نے کہا ۔ “شاہ میر نے مجھے آپ کا خاص خیال رکھنے کو کہا ہے ۔ لیکن آپ کی بات آپ کی والدہ
سے نہیں کروا سکتا ۔ ” وہ بولا۔
“اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو اس کا انجام بہت برا ہو گا ۔ ۔ میں تم کو حویلی سے نکلوا
بھی سکتی ہوں ۔ “حریم نے دھمکی دی تو مراد پریشان سا اُسے دیکھنے لگا ۔
“یقیناً شاہ میر ایسے انسان کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا جس کی اُس کی بیوی پر بری نظر ہو ۔ ۔ ویسے میں شاہ میر سے بالکل بھی یہ نہیں کہوں گی کے تم آدھی رات کو میرے کمرے میں نہیں سے آئے تھے ۔ “حریم نے معصومیت کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔
لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ” مراد پریشانی سے بولا۔
لیکن شاہ میر میرے جھوٹ کو بہت آسانی سے سچ مان لیگا ۔ ۔ ۔ “حریم نے اُس کی
آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔
میں آپ کا خیال رکھنا چاہتا ہوں ۔ اور آپ مجھے یہ صلا دینگی ؟ “مراد کو دکھ ہوا ۔

جس ذہنی اور جسمانی تکلیف میں میرے شب و روز کٹتے ہیں اس حویلی میں ۔ ۔ ۔ ان حالات میں مجھ سے کوئی بعید نہیں ۔ ۔ ۔ میں کچھ بھی کر سکتی ہوں ۔ “حریم نے کہا۔ اور تم وہی ہو نہ جو مجھے بچانے کی بجائے میری ویڈیو بھرتے ہو ۔ جب تم یہ سب کر سکتے ہو اور تمہارا ضمیر نہیں کا پتا ایک معصوم لڑکی کی ویڈیو بھرتے ہوئے تو پھر میرا ضمیر بھی مرچکا
ہے ۔ “حریم نے کہا ۔
میں بہت مجبور تھا چھوٹی سردار بی بی ۔ ” مراد نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ “مراد حسین ۔ ۔ ۔ تم آج بھی مجبور ہو ۔ ۔ ۔ تمہارے پاس میری بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ورنہ پھر شاہ میر کی غیرت پر ہاتھ ڈالنے والے کا وہ کیا حشر کر سکتا ہے تم
مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہو کر نہیں رہ سکا۔
” میں آپ کو معصوم اور مظلوم ۔۔۔۔۔۔۔
مراد حسین ۔ ۔ ۔ معصوم اور مظلوم اس ضمن میں کوئی بھی نہیں ہے ۔ ۔ حالات انسان کو اپنے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ میں معصوم تھی ۔ ۔ اور یہاں آکر نہیں رہی ۔ “حریم
بولی ۔
ولید کا نمبر ملاؤ ۔ “حریم نے سختی سے حکم دیا ۔

میں کل تک آپ کی بات کروا دونگا کسی اور نمبر سے ، آپ میری بھی مجبوری سمجھیں۔
میں ناحق مارا جاؤنگا اگر شاہ میر کو پتہ چلا کہ میں نے اپنے نمبر سے رابطہ کیا ولید سے تو ۔
مراد نے کہا۔
“ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ کل تک کا وقت ہے تمہارے پاس ۔ “حریم نے کہا اور اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
شاہ میر ۔ ۔ ۔ تو تو گیا کام سے ۔ ۔ ۔ یہ لڑکی تجھ سے دس ہاتھ آگے ہے ۔ “مراد نے دل میں کہا۔
شاہ میر کے شہر جانے کا سن کر سلطانہ بیگم نے آج لاؤنج میں بی حریم کو طلب کیا تھا ۔ “بڑی غیرت جگا دی ہے اس بیغیرت لڑکی نے شاہ میر کے دل میں ۔ ۔ ۔ ۔ کہتا ہے اس سے ایسا کام نہ کرواؤں کے کوئی نا محرم اسے دیکھئے ۔ “سلطانہ بیگم صوفے پر بیٹھی بول
رہی تھیں ۔
ساجدہ اُن کے عقب میں کھڑی تھی ۔
ساجدہ مراد کو بلاؤ ۔ ساجدہ نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔
حریم کو لگا کے مراد کو پھر سے ویڈیو کے لیے بلا رہی ہیں ۔ مگر اُس کا اندازہ غلط تھا ۔

جی سردار بی بی ۔ ” مراد سامنے آکر کھڑا ہوا۔
اس لڑکی کو دیکھ رہے ہو ؟ “سلطانہ بیگم نے حریم کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ مراد سمجھ نہیں پایا کے سلطانہ بیگم کیوں ایسا پوچھ رہی ہیں ۔
بیگم حریم کے پاس آئیں اور اس کی شال اُس کے وجود سے کھینچ کر دور پھینک دی
حریم حیرت سے دیکھنے لگی ۔ پھر اپنا شال اٹھانا چاہا مگر سلطانہ بیگم نے روک لیا ۔ ” تم نا محرم ہو نہ اس کے لیے؟؟ “سلطانہ بیگم نے مراد سے کہا ۔
مراد ابھی تک نہیں سمجھا ۔ “شاہ میر کہتا ہے اس لڑکی پر کسی نامحرم کی نظر نہیں پڑنی چاہیے۔ “سلطانہ بیگم نے حریم کو مراد کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا۔
حریم لڑکھڑاتی ہوئی مراد سے جا لگی ۔

share with your Friends on Facebook


2 thoughts on “Badnaseeb Beti Novel Part 4 – Best Urdu Novel 2025 | Full Story in Urdu”

  1. Pingback: Badnaseeb Beti Part 5 – Urdu Story World | Bold Novel in Urdu

  2. Pingback: Best Urdu Font kahani Sajda Ki Kahani -

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top