Badnaseeb Beti Part 5 – Urdu Story World | Bold & Emotional Novel in Urdu


Badnaseeb Beti Part 5 takes you deeper into the Urdu story world, where emotions run high and love faces new challenges. This part of the novel reveals painful truths, bold decisions, and dramatic turns that make the story even more gripping.

If you enjoy bold Urdu stories, emotional family dramas, and real-life inspired Urdu novels, this episode will leave you wanting more. Written in clean, easy-to-read Urdu font,

Urdu Story World

Read here Badnaseeb Beti Novel Part 4 – Best Urdu Novel 2025

مراد نے لاشعوری طور پر اُسے گرنے سے بچانے کے
لیے تھام لیا ۔
پھر اگلے ہی پل اُسے چھوڑ دیا ۔
حریم نے زخمی آنکھوں سے سلطانہ کو دیکھا۔۔
تیری عزت رول دونگی میں حویلی کے مردوں کے سامنے ۔ “سلطانہ بیگم نے پھر اُسے
مراد کے پاس دھکا دیا۔
سر دار بی بی ، یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ۔ “مراد ضبط کھو بیٹھا ۔
اسے اسی طرح بنا چادر کے لئے جاؤ وہاں جہاں سب مرد بیٹھتے ہیں ۔ سلطانہ بیگم نے
چیختے ہوئے مراد کو حکم دیا۔
میں ایسا نہیں کر سکتا ۔ ” مراد نے شال اٹھائی اور حریم کو اوڑھاتے ہوئے بولا۔ میں تو کر سکتی ہوں نا ۔ “سلطانہ خاتون نے حریم کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا اور اُسے وہاں لیکے جانے لگی جہاں مردوں کی بیٹھک تھی ۔ حریم خود کو چھڑانے کے کوشش میں لگی تھی ۔ مگر بے سود وہ اسے گھسیٹنے کے انداز نے لکیے جارہی تھیں۔
مرادان کے پیچھے بھاگا ۔ میں ہر گز آپ کو ایسا کرنے نہیں دونگا ۔ ” مراد نے انہیں روکنا چاہا۔
ہٹ جاؤ میرے سامنے سے ۔ ۔ ۔ میں اسے ذلیل کروں گی سب کے سامنے ۔ ۔ ۔ بڑی عزت دار بنتی ہے نا یہ ۔ ۔ ۔ سلطانہ بیگم نے غصے سے کہا ۔
اب سب تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہونے لگے ۔

حریم کو بہت برا لگ رہا تھا ۔ وہ اُسے مردوں کے بیٹک تک لے آئیں اور سب کے سامنے زمین پر پھینک دیا ۔ اس کی شال ایک بار پھر سے کھینچ لی اور اس پر لاتوں کی برسات
شروع کر دی ۔
بے غیرت لڑکی ۔ ۔ ۔ میرے بیٹے کی غیرت بنا چاہتی ہے ؟؟ میرے بیٹے کی غیرت ؟ دو ٹکے کی لڑکی ۔ ۔ ۔ میرے شاہ میر کو مجھ سے چھینا چاہتی ہے ؟
سب کھڑے ہو گئے کے یہ کیا ماجرہ ہے ۔
جان پیاری ہے تو سب یہاں سے غائب ہو جاؤ ۔ ” مراد نے اپنی جیب سے پسٹل نکال کر سب کو دھمکی دی ۔ سب جو وہاں موجود تھے کسی بوتل کے جن کی طرح غائب ہو گئے ۔
مراد تم اپنی اوکات میں رہو۔۔
سلطانہ بیگم نے کہا ۔
آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کیا کر رہی ہیں اس کے نتائج کی جواب دار
آپ خد ہونگی۔
مراد نے غصے سے کہا اور حریم کو سہارا دے کر اٹھایا ۔ اور شال اسے دی ۔ وہ میرا بیٹا ہے ۔ ۔ ۔
اور صرف میرا یقین کرے گا ۔ اس دو ٹکے کی لڑکی کا نہیں ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا

جیسے آپ دو ٹکے کی سمجھ رہی ہیں اس کی وجہ سے شاہ میر نے مجھ سے اب تک بات چیت بند کر رکھی ہے صرف اس لیے کے اس دن میں نے انہیں بے ہوش ہوتا دیکھ کر تھام لیا تھا ۔ ۔ تب سے لے کر شاہ میر مجھ سے ناراض ہے ۔ اور مجھے اپنے ساتھ بھی نہیں لے کے جاتا۔ اور جب اُسے پتہ چلے گا کے آج آپ نے کتنے مردوں کے سامنے ان کی تذلیل کی ہے تو وہ حویلی پلٹ کر ہی نہیں آئیگا۔ ۔ ۔ دو ٹکے کی نہیں رہی یہ لڑکی اب شاہ میر کے لیے ۔ میں آپ کو آگاہ کرتا چلوں ۔ ” مراد نے کہا اور ۔ نوری کو آواز دی ۔ نوری انہیں اندر لیے جاؤ ۔ ” مراد نے کہا
حریم کے منہ سے اب تھوڑا سا خون رس رہا تھا ۔
اُس نے اپنا خون اپنی ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے سلطانہ بیگم کو دیکھا ۔ اُس کی آنکھوں میں وحشت ہی وحشت تھی۔ اس کے مظالم پر
تم نے اچھا نہیں کیا سلطانہ بیگم) حریم نے جیسے نظروں سے انہیں پیغام دیا ۔ پھر نوری
کے ساتھ چلی گئی۔
دیکھ لیا تم نے اس عورت کا بھیانک روپ؟ ” حلیمیہ نے حریم کے ہونٹوں کے قریب زخم کو کپاس کے ٹکڑے سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔
یہ بساط اُسے الٹی پڑے کی “حریم نے کہا ۔
یہ عورت اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ۔ “حلیمہ نے اُس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
میں بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اب کسی بھی حد تک جاؤں گی ۔ “حریم کہاں ہار
ماننے والی تھی۔
ویسے مراد کہہ رہا تھا کہ شاہ میر نے میری وجہ سے اُس سے اب تک بات چیت بند کر
رکھی ہے ۔ “حریم کو اچانک یاد آیا ۔
“ہم، اس کا مطلب وہ تمہیں اپنی غیرت تسلیم کر چکے ہیں۔ “علمیہ بولی۔ ہاں شاید ۔ ۔ ۔ اسی لیے اُس نے کہا کہ میں کچن تک ہی محدودر ہوں ۔ “حریم نے اپنے ماتھے
پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
اس بات سے واضح ہے کہ شاہ میر سائیں تمہارے متعلق بہت سوچتے ہیں ۔ “حلیمہ نےسوچتے ہوئے کہا۔۔
“مجھے لگتا ہے شاہ میر میرے ساتھ کوئی کھیل کھیل رہا ہے ۔ محبت کا کھیل “حریم نے کہا ۔ “تو تم بھی کھیلو اس کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ محبت کا کھیل ۔ ۔ ۔ “حلیمہ نے معنی خیز انداز میں کہا۔

سلطانہ بیگم کی جگہ لے لو ۔ ۔ ۔ اور میں ساجدہ کی ۔ ۔ ۔ ہم دو طاقتیں یکجاں ہو کر سلطانہ
بیگم کو تخت سے تختے پر لا سکتی ہیں ۔ ” حلیمیہ نے کہا۔
آخر کیا دشمنی ہے تمہاری سلطانہ کے ساتھ ؟ “حریم نے پوچھا ۔ ” “وقت آنے پر بتاؤں گی ۔ “حلیمیہ نے کہا ۔
” تم تعلیم یافتہ ہو؟ “حریم نے پوچھا ۔
ہاں ۔ ” حلیمہ نے جواب دیا ۔
“پھر یہاں کیسے آئیں ؟ “حریم نے پوچھا ۔
“سلطان میر لائے تھے مجھے ۔ ۔ ۔ “حلیمہ نے بتایا۔
“سلطان میرمریم حیران ہوئی ہاں ۔ ۔ ۔ مگر میں سلطانہ کے ہتھے چڑھ گئی ۔ جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میرے ساتھ ہو
چکا ہے ۔ “حلیمیہ نے کہا تو حریم نے دیکھا اُس کی آنکھوں کے کنارے تر ہو گئے تھے ۔
ہفتے بعد آج شاہ میر پھر واپس آیا تھا ۔
یہ تمہارے ہاتھ میں زخم کیسا؟ شاہ میر نے حریم کی کلائی دیکھتے ہوئے کہا۔ گر گئی تھی ۔ ٹھوکر لگی ۔
حریم نے کہا ۔

آرام سے چلا کرو ۔ “شاہ میر بولا ۔
رات کا ایک بج رہا تھا اور وہ شاہ میر کے سینے پر سر رکھے ہوئے تھی۔ شاہ میر اُس کے بالوں میں انگلیاں پھیر تا ہوا اس سے باتیں کر رہا تھا ۔ ” اب تم جاتے ہو تو مجھے تمہارا انتظار رہتا ہے “حریم نے کہا۔ “اچھا ۔ ۔ ۔ لگتا ہے اکٹر ختم ہو گئی تمہاری ۔ “شاہ میر مسکرا کر بولا ۔ ” عشق اچھے اچھوں کی اکڑ ختم کر دیتا ہے ۔ “حریم نے کہا ۔
“۔ اسکا مطلب تمہیں مجھ سے عشق ہو گیا ہے ۔ ؟ ” شاہ میر نے پھر مسکراتے ہوئے
پوچھا۔
مجھے نہیں پتہ ۔ ۔ ۔ بس تمہارے بنادل نہیں لاتا اب میرا ۔ “حریم نے اس کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے معصومیت سے کہا۔
شہر چلو گی میرے ساتھ ؟ ” شاہ میر نے کہا
کیا سر دارشاہ میر سلطان میں اتنی ہمت ہے کہ مجھے شہر لے جائے ؟ “حریم نے کہا۔ ا بھی تم نے شاہ میر کی ہمت دیکھی ہی کہاں ہے ۔ ۔ ۔ وہ بولا۔

ہاں میرے سامنے تو ایک ایسا شاہ میر ہے جو اپنی ماں کے حکم سے مجھے تھپڑ مار دیتا ہے ۔ میں نے واقعی شاہ میر سلطان کی ہمت نہیں دیکھی ہے ۔ “حریم کہتے ہوئے بیٹھ گئی
” تم ابھی تک وہ بات دل میں لیے بیٹھی ہو؟ “شاہ میر نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتے
ہوئے کہا ۔
وہ کوئی بھولنے والی بات نہیں ہے شاہ میر ۔ “حریم نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے
ہوئے کہا ۔
اس ایک تھپڑ کے بدلے میں اتنا پیار دونگا کہ سب بھول جاؤ گی ۔ “شاہ میر اس کے
سامنے کی لٹ سے کھیلیتے ہوئے بولا۔
ایک نہیں دو تھپڑ مارے تھے۔ “حریم کو یاد آیا –
تھی۔
اس کا مطلب میری بیوی کو ڈبل پیار چاہیے مجھ سے “شاہ میر کی مسکراہٹ گہری ہوگئی
“ایسا ہی سمجھ لو۔ “حریم اُس سے لیٹتے ہوئے بولی ۔ شاہ میر آج اُس پر حیران تھا ۔ ۔ ۔ اس کی نرم گفتار پر، اس کے جذبات کے کھلم کھلا اظہار پر ۔ آج وہ اُس سے پہلے کمرے میں موجود تھی۔ وہ سارا ہفتہ اُس پر اپنی محبت نچھاور کرتی

رہی ۔ اُسے دکھایا کے وہ اُس کے لیے تڑپ رہی ہے ۔ اُس کے بولنے سے پہلے اُس کے پاس آنا ۔ ۔ ۔ یہ سب دیکھ کر وہ حیران تھا ۔ ۔ ۔ یہ لڑکی ہر روز اُ سے حیران کرتی تھی۔ ہفتے کے اختتام پر وہ تیار ہو کی جانے لگا اور آئینے میں آخری بار اپنی تیاری کا جائزہ لے رہا تھا کے حریم اندر آئی اور اس کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔
” نہیں جائیں دونگی میں تمہیں خد سے دور اس ہفتے بھی ۔ ” وہ شدت جذبات سے کہتی ہوئی اُس سے لپٹ گئی ۔ ۔ ۔ شاہ میر حیران ہو گیا ۔ ۔ ۔ وہ اُس پر حق جاتا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور اب شاہ میر سلطان کے لئے اُسے چھوڑ کر جانا بہت مشکل لگ رہا تھا
شاہ میر کے جیسے قدم منجمد ہو سے ہے ۔
حریم مجھے بہت ضروری کام سے جانا ہے ۔ شاہ میر نے اُس کے چہرے کو
ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے کہا
کیا اتنا ضروری ہے ؟ ” وہ معصومیت سے بولی ۔
ایک کیس کی ہیرنگ (سنوائی) ہے ۔ جانا ضروری ہے ۔ ” وہ بولا۔
پھر جلدی آنا ۔ “حریم بولی۔ کوشش کروں گا، کیوں کے یہ ہفتہ بہت بڑی رہے گا ۔
شاہ میر نے کہا۔

“۔ میں انتظار کروں کی ” وہ بولی۔
اچھا میں چلتا ہوں ۔ دیر ہو رہی ہے ۔ ” وہ اُسکا گال چھوتے ہوئے بولا اور چلا گیا۔ دیکھتی ہوں حلیمہ بیگم ۔ ۔ ۔ تمہاری یہ ٹرک میرے کام آتی ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ) وہ اب
آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔
میں تو کہتی ہوں کا ئنات بی بی کو بلا لیں جلدی ہے ۔ ۔ ۔ ورنہ یہ ونی والی لڑکی شاہ سائیں کو لے اڑے گی ۔ اور آپ ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ جلدی اُنہیں بلائیں تاکہ وہ شاہ سائیں کے دل میں اپنی جگہ بنا لیں اور جلدی شادی کے لیے راضی ہو جائیں شاہ سائیں ۔ ورنہ آپ دیکھ رہی ہیں سب ۔ ۔ ۔ دل میں غیرت آگئی اس کے لیے تو محبت بھی آجائے گی ۔ ” ساجدہ سلطانہ بیگم کے پاؤں دباتی ہوئی انہیں مشورہ دے رہی تھی۔ بات تو تمہاری سولہ آنے صحیح ہے ۔ “سلطانہ بیگم بولیں ۔
جی بس جلدی یہ کام کریں اب ۔ ساجدہ نے کہا ۔ میں ابھی آپا کو کہتی ہوں کے کائنات کو بھیجے شاہ میر کے آنے سے پہلے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں بلکہ مراد کو بھیجتی ہوں کہ وہ کائنات کو لیکے آئے ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا۔
ہاں یہ زیادہ مناسب رہے گا ۔ ” ساجدہ بولی ۔

سیاه بیجارو اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔
سفر کبھی طویل تھا وہ اچھا خاصہ چکی تھی ۔ اس کی گاؤں سے لیکر شاہ میر کے گاؤں تک راستہ چار گھنٹے کا تھا۔ اور دو پہر کو نکلے تھے اور اب شام ہونے کو آئی تھی۔
اور کتنا راستہ باقی ہے ؟ ” اس نے پریشان ہو کر مرادسے سوال کیا۔
” بس تھوڑا رہ گیا ہے ۔ “مراد بولا. مراد کو غصہ آرہا تھا کیونکہ یہ لڑکی صبح سے نجانے کتنی بار اس سے یہ سوال کر چکی تھی حالانکہ وہ اس لڑکی سے زیادہ تھکا ہوا تھا کیونکہ اس نے تو چار گھنٹے کا سفر کیا تھا۔ لیکن اس کے برعکس مراد کو چار گھنٹے آنے میں لگے تھے اور چار گھنٹے واپس جانے میں یعنی کے آٹھ گھنٹے اس
نے نان سٹاپ ڈرائیونگ کی ۔
مراد نے بیک ویو مر ر سے ایک غصے والی نظر اس پر ڈالی وہ ایک بہت ہی ماڈرن لڑکی تھی ۔ لیکن یہاں اس نے اپنا وجود نیلی شال میں چھپا رکھا تھا ۔ شہر میں تو وہ ماڈرن ہی بن کر رہتی تھی مگر جب بھی وہ اپنے علاقے میں آتی تو وہ اسے علاقے کے حساب سے ہیں ڈریسنگ کرنی ہوتی تھی۔
آج بھی وہ اسٹائل سے قمیض شلوار پر شال کو اوڑھے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔

کل رات ہی اس کی ماں شائستہ بیگم کو سلطانہ بیگم فون کر کے فوری طور پر اسے حویلی آنے
کو کہا تھا ۔
اس کی ماں شائستہ بیگم نے اسے صاف سمجھا دیا تھا کہ اس نے شاہ میر کا دل جیتنا ہے اور ہر حال میں اسے شادی پر آمادہ کرنا ہے ۔
شاہ میر کو اس نے بچپن میں دیکھا تھا ۔ اور اس کے بعد اتنے سالوں بعد وہ اب حویلی جا رہی تھی۔
اس دوران اس کی پڑھائی چلے رہی تھی اور وہ شہر چلی گئی ۔ وہ شہر میں ہی ہاسٹل میں رہتی
تھی ۔ اور یو نیورسٹی سے اس نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی ۔
سلطانہ بیگم کب سے اس کی تعلیم مکمل ہونے کے انتظار میں تھی جو کے اب ہو چکی تھی
بچپن سے ہی سلطانہ بیگم اور شائستہ بھی کم نہیں اس کے دماغ میں یہ بات فٹ کر دی تھی
کہ اس کی شادی شاہ میر سے ہوگی ۔ سلطانہ بیگم ہمیشہ شاہ میر سے کہتی تھی کہ وہ اس کے لئے لڑکیاں دیکھ رہی ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھیں کہ اپنی بھانجی کو جگہ دینے کے لیے اس نے شاہ میر کو زبر دستی شادی کیلئے راضی کیا
ہے۔

اور نہ ہی تو شاہ میر ایسا تھا کہ کسی کے دباؤ میں آکر شادی کرتا وہ اپنی مرضی کا مالک تھا ۔ ور نہ سلطانہ بیگم کیلیئے مشکل نہیں تھا کہ وہ حکم دیتی اور وہ مان جاتا۔
لیکن شائستہ بیگم اور سلطانہ بیگم دونوں ہی کائنات کی پڑھائی مکمل ہونے کے انتظار میں
تھے۔
اس نے اپنا گریجویشن مکمل کیا ۔ اس لیے وہ فارغ ہیں اور ماسٹر ز کرنے کا اُس کا کوئی ارادہ
نہیں تھا ۔
اس کی اپنی بھی دلی خواہش یہی تھی کہ اس کی شادی شاہ میر سے ہو ۔ حالانکہ اس نے بچپن
میں شاہ میر کو دیکھا تھا ۔ اور اب صرف اس کی تصویر دیکھی تھی تو اسے اچھا لگا۔ ان کے خاندان میں خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج نہیں تھا ۔
اس نے سوچا اگر اسے خاندان میں ہی شادی کرنی ہے تو شاہ میر ہی سب سے بیسٹ آپشن
ہے اس کے لیے ۔
اسے یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ شاہ میر خون بہا کے عوض ایک لڑکی سے نکاح کر کے اسے اپنے گھر لے کے آیا ہے ۔

لیکن اس بات کی کوئی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ یقینا خون بہا میں آئی ہوئی
ایک لڑکی سے بہت بہتر ہے ۔
اور اس یقین تھا کہ شاہ میرا اسے بیوی کا درجہ نہیں دیگا اس کی حیثیت حویلی میں نوکرانی سے
زیادہ کچھ نہیں ۔ اور کتنی دور ہے حویلی ؟ “۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے پھر مرد سے وہی سوال کیا ۔
مراد کواب شدید قسم کا غصہ آگیا ۔
آپ چپ کر کے نہیں بیٹھ سکتی ہیں کیا ؟ ” مراد نے غصے سے کہا تو وہ حیران ہو گئی۔ ایک ڈرائیور کی اتنی مجال کی وہ مجھ سے اس طرح سے بات کرے ؟ کائنات کو بھی غصہ
آگیا ۔
می نی نی بات کرتا ہوں کہ بھی اسوقت اس ویران سڑک پرآپ کو اتاروں اور
گاڑی لے جاؤ۔
مراد نے غصے سے کہا ۔
“خالہ سے شکایت لگاؤں گی تمہاری ۔ ” اس نے غصے سے کہا ۔ میں کسی کا نوکر نہیں ہوں ۔ ” مراد نے کہا۔
نوکر نہیں ہو لیکن ڈرائیور تو ہونا ؟ ” کا ئنات بولی۔

مراد نے گاڑی کو بریک لگا دی ۔
گاڑی کیوں روک دی ہے تم نے ۔ “؟ کائنات پریشانی سے بولی ۔ اگر آپ خاموش نہیں رہیں تو میں یہیں پر آپ کو اتار کر آگے چلا جاؤں گا ۔ ۔ ۔ پھر آپ اپنے گھر فون کر کے اپنے لئے گاڑی منگوا لیجیے گا ۔ “مراد نے کہا۔
” انتہائی بد تمیز انسان ہو تم ۔ شرافت سے گاڑی چلاؤ ورنہ میں شاہ میر کو بھی فون کر کے تمہاری شکایت لگاتی ہوں۔ کائنات نے دھمکی دی ہے کہ اس کے پاس تو شاہ میر کا
نمبر ہی نہیں تھا ۔
نا آپ کے پاس شاہ میر کا نمبر ہے اور نہ ہی تو شاہ میر کے موبائل میں آپ کا نمبر ہے میں اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔ اب مجھے کوئی آواز نہیں آنی چاہیے آپ کی صرف پندرہ منٹ کا راستہ باقی ہے ۔ “مراد نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کیا۔”
اس کے غصے کو دیکھ کر کائنات واقعی ڈر گئی تھی اور اسی یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص واقعی
اسے سنسان سڑک میں چھوڑ کر جا سکتا ہے ۔
اس علاقے میں موبائل کے سگنل بالکل بند تھے ورنہ وہ اسی وقت سلطانہ بیگم کو فون
کر کے سارا ماجرہ بیان کرتی۔
خدا خدا کر کے حویلی آگئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا۔

میراسامان میرے کمرے میں لیکے آؤ۔ ” اس نے حکم دینے والے انداز میں کہا اور
گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا ۔
انتہائی کوئی بد تمیزی ڈرائیور ہے آپ کا یہ ۔ “کائنات نے آتے ہی سلطانہ بیگم سے مراد
کی شکایت لگائی ۔
کیا مرادےنےتم سے بد تمیزی کی ؟ “سلطانہ بیگم نے پوچھا۔
ہاں مجھ پر بہت غصہ کیا ۔ اور یہ تک کہہ دیا کے ویران سڑک پر اتار کر پھینک دوں گا ۔ ” کائنات میں منہ بنا کر کہا اور صوفے پر بیٹھ گئی ۔
مراد ایسا کیوں کیا تم نے ؟ تم جانتی نہیں یہ میری بھانجی ہے . ” سلطانہ بیگم نے کہا ۔ ” معذرت سر دار بیبی لیکن میں خواتین کے کام نہیں کرتا آپ نے کہا تو میں چلا گیا ۔ میں شاہ میر کا ملازم ہے اور صرف اسی کے کام کرتا ہوں ۔ ” مراد نے گھمبیر لہجے میں کہا ۔ واہ جی یہاں تو ملازموں کے ہی مزاج نہیں مل رہے تو مالک کیسا ہوگا ۔ ۔ ۔ ” کا ئنات نے
آہ بھرتے ہوئے کہا ۔
میراشاہ میر میرے لاکھوں میں ایک ہے ۔ “سلطانہ بیگم نے فخریہ انداز میں کہا۔ دیکھ لیتی ہوں آپ کی شاہ میر کو بھی ۔ ۔ ۔
کا ئنات نے کہا ۔

حریم کافی دیر سے لاؤنج میں موجود سلطانہ اور کائنات کی باتیں سن رہی تھی ۔ لاؤنج میں ہونے والی تمام گفتگو کی کچن میں آسانی سے سنی جا سکتی تھی ۔
یہ شاہ میر سائیں کے لیے لائی گئی ہے ۔ شاہ سائیں کے دل میں تمہارے لئے نرم گوشہ کو دیکھ کر فوراً اسے بلالیا گیا تا کہ تمہاری جگہ لے سکے یہ ہوگی شاہ میر کی خاندانی بیوی ۔ “
حلیمہ نے شام کی چائے کا پتیلا چڑھاتے ہوئے کہا ۔
حریم کو واقعی خالص بیویوں والا غصہ آگیا تھا ۔ اسی کا ئنات بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی
میں ایسا ہونے نہیں دوں گی ۔ ۔ ۔ ” وہ پریشانی سے بولی ۔
” تمہارے پاس وقت بہت کم ہے ۔ جو کرنا ہے اس تقلیل مدت میں کرلو۔ ورنہ یہ لڑکی لے اُڑے گی تمہارے شاہ سائیں کو ۔ “حلیمہ نے اُسے خوف زدہ کرنا چاہا۔
سارا کام ختم ہونے کے بعد وہ سونے کیلئے لیٹی تو اسے پریشانی سے نیند نہیں آ رہی تھی کا ئنات کا سوچ سوچ کر ۔ اُسے لگا تھا کہ اس کے علاوہ شاہ میر کی زندگی میں کوئی اور لڑکی نہیں آ سکتی ہے اور وہ آسانی سے اس کے دل میں جگہ لے گی مگر آج وہ بہت پریشان اور مایوس ہو گئی تھی۔

یقینا وہ لڑکی بہت خوبصورت تعلیم یافتہ تھی ۔ تمام خوبیاں حریم میں بھی موجود تھیں ۔ لیکن اب اس کی حیثیت ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی کے سوا کچھ نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ایسا اب حریم کو
لگ رہا تھا۔
وہ پہلو بدل بدل کر کر تھک چکی تھی ۔ اور نیند کسی طور اس پر مہربان ہونے کے لیے تیار نہیں
تھی۔
اسے بند کمرے میں سکون نہ اایا تو وہ اٹھی اور پاؤں میں چپل گھسیڑے ۔ شال اوڑھا اور باہر نکل آئی ۔
وہ لان میں آگئی اور وہاں پر موجود بیچ پر بیٹ گئی۔ اس کھلی فضامیں بھی اسے اپنا دم گھٹتا ہوا
محسوس ہو رہا تھا ۔
یہ مجھے ہو کیا ہے اور اس نے خود سے سوال کیا
میں اس شخص کو کھونے سے اتنی خوفزدہ کیوں ہو گئی ہوں ؟ مجھے تو اس سے کوئی محبت نہیں ہے پھر میری ایسی حالت کیوں ہو گئی ہے میرا دم کیوں گھٹ رہا ہے ؟ یہ تصور کہ وہ کسی اور سے محبت کرنے لگ جائے میرے لئے اتنا بھیانک کیوں ہے ؟
وہ پریشانی سے سوچتی جا رہی تھی ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اور نہ ہی تو وہ کسی نتیجے پر پہنچ پا رہی تھی۔

اسی لگا کے وہ غش کھا کر گر پڑے گی ۔
کیا وہ لڑکی شاہ میر کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی ؟ کیا واقعی شامیر اس کی محبت میں مبتلا ہو کر اسے شادی کرلے گا ؟ (
وہ اب سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
مراد جو وہاں سے گزر رہا تھا اس نے حریم کو وہاں بیٹھا ہوا دیکھا تو پریشان ہوا ۔ اُس سے رہا نہیں گیا تو وہ اُس کے پاس آیا۔
“خیریت تو ہے آپ اس وقت یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں ؟ ” مراد نے پریشانی سے پوچھا. وہ جو اپنی سوچوں میں غلطاں تھی مراد کی آواز سن کر اچانک چونک پڑی ۔
پریشان حال بیٹھی ہوئی ہیں ؟ ” مراد پھر بولا ۔
نہیں میں تو پریشان نہیں ہوں بس ایسے ہی دم گھٹ رہا تھا میرا اندر ۔ ” وہ بولی ۔ لیکن یہاں کافی سردی ہے آپ کو نہیں لگ رہی ؟ ” مراد نے کہا ۔
جب انسان پریشان ہو تو اسے سردی گرمی نہیں لگتی ہے ۔ “حریم نے بے خیالی میں
کہا۔

ابھی تو آپ کہہ رہی تھی کہ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہے اور اب آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ
پریشان ہیں ۔ ” مراد بولا ۔
تم جو مجھ سے اتنی سوالات مت کرو پلیز ۔ “حریم پہلے ہی پریشان تھی اور اسے مراد کی
سوالات مزید پریشان کر رہے تھے ۔
میں جانتا ہوں آپ کا ئنات کی آمد کی وجہ سے پریشان ہو گئی ہیں یہی بات ہے نا ؟ “مراد
نے جیسے اس کا ذہن پڑھ لیا تھا اور بولا ۔
حریم اس کی بات پر ایک پل کو حیران ہو گئی کہ کیسے اسے اندازہ ہو گیا اس کی پریشانی کا۔ “مجھے معاف کر دو ۔ ۔ ۔ میں نے اس دن تم سے بہت غلط باتیں کی تھیں ۔ ۔ ۔ مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھی مگر مجھے جب کچھ سمجھ نہیں آتا ہے تو اول فول بول دیتی
ہوں ۔ “حریم کو لگا کہ مراد نے اس کی
بہت مدد کی ہے ۔ اگر مراد اُس دون اُسے نہ بچاتا تو سلطانہ خاتون نے اسے ذلیل کرنے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی ۔
میں آپ سے ناراض نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی معصومیت کو کھونے نہ
دیں۔ مراد بولا ۔

جب کسی انسان پر حد سے زیادہ ظلم ہونے لگے تو وہ خود بخود اپنی معصومیت کھو دیتا ہے ۔ جو سلوک اس حویلی میں میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ مجھے باغی بنانے کے لیے کافی
ہے ۔ “حریم نے کہا ۔
مراد بینچ کے دوسرے کونے میں بیٹھ گیا۔
اگر آپ سچے دل سے سوچیں تو ان لوگوں کے ساتھ بہت نا انصافی ہوئی ہے ۔ سلطانہ بیگم کا جوان جہان بیٹا بے موت مارا گیا ۔ شاہ میر نے اپنا عزیز ترین بھائی کھو دیا مجھے آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو میرا دل کانپ جاتا ہے ۔ جنید کی خون سے بھری ہوئی لاش اس حویلی میں لائی گئی تو وہ منظر کسی قیامت سے کم نہ تھا ۔ شاہ میر کی اس وقت جو حالت تھی میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اس کا بھائی بے حد عزیز تھا میں شاہ میر کی رگ رگ سے واقف
ہوں ۔ اچھا انسان ہیں لیکن حالات نے اسے بھی ہی باغی بنادیا ہے ہی بنا ہے جیسا کہ آپ کو ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ بھی حد سے زیادہ ظلم ہوا ہے ۔ ۔ ۔ آپ اپنے ادا سائیں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ اس لیے آپ نے قربانی دی اور آپ یہاں آگئی خون بہا کے عوض ۔ لیکن شاہ میر کے لئے تو کچھ نہیں رہا اب کہ وہ اپنے بھائی کو بچانے کے لیے کوئی قربانی دے دے ۔ ” مراد نے کہا تو حریم شر مندہ ہوئی۔

اگر حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہو تو ؟؟؟ اگر میرے ادا سائیں نے جنید کو نہیں مارا
تو ؟ ؟ ؟” وہ بولی ۔
” پورے ایک مجمے نے آپ کے بھائی کو دیکھا ہے گولی چلاتے ہوئے ۔ ” مراد نے کہا۔ ادا سائیں نے کہا کہ ان کا گولی چلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ ۔ ۔ وہ جنید کو جان سے نہیں مارنا چاہتے تھے ۔ بلکہ جنید ان پر گولی چلانے والا تھا انہوں نے صرف اپنے بچاؤ میں گولی چلائی ۔ اور سیلف ڈیفنس میں کیا جانے والا قتل قتل نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میرے بھائی کو میرے بابا سائیں نے بھی صفائی کا کوئی موقع نہیں دیا ۔ ” وہ ٹرانس کی سی
کیفیت میں بولے جا رہی تھی اور مراد اُ سے سن رہا تھا۔ یہ ایک من گھڑت کہانی ہے جو ظفر نے آپ سب گھر والوں کو سنائی ہے اس میں کسی
قسم کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ ” مراد بولا ۔ “میری نظر میں تو قا تل جنید ہے جو ادا سائیں کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا ۔ ۔ ۔ جب ادا سائیں نے دیکھا کہ وہ اس پر گولی چلانے والا ہے تو بے اختیار اداسائیں نے گولی چلا دی ۔ ہر انسان اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایسا کرتا ہے ۔ لیکن اصل قاتل وہ ہے جو
قتل کے ارادے سے آیا تھا ۔ “حریم نے کہا ۔

معذرت مگر مجھے اس بات میں کسی قسم کی کوئی صداقت محسوس نہیں ہو رہی ہے ” مراد
بولا ۔
سچ اور جھوٹ کا فیصلہ خدا کرے گا ۔ تو پھر ہم خدا پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ “حریم بولی ۔ میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں تم نے مجھے اس دن بچالیا ۔ ۔ ۔ ورنہ سلطانہ خاتون نے تو ۔ ۔ ۔ “حریم آگے کچھ بول ہی نہیں پائی ۔
وہ خواتین کے آگے چاہئے آپ کے ساتھ جو سلوک کریں میں کچھ نہیں بول سکتا مگر میں کسی بھی عورت کو اس طرح سے مردوں کے مجھے میں ذلیل ہوتا نہیں دیکھ سکتا ۔ خاص کر
اس عورت کو جو میرے دوست کی بیوی ہو ۔ ” مراد بولا ۔
” تم بول رہے تھے کہ شاہ میر تم سے میری وجہ سے ناراض ہے اب تک ؟ “حریم کو یاد
آیا ۔
یہاں پر سب لوگ اپنی بیویوں کے معاملے میں بہت زیادہ غیرت مند ہیں ۔ اس دن سلطان خاتون نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا اگر شاہ میر کو معلوم ہوگیا تو بہت برا ہوگا ۔ لیکن آپ شاہ میر کو بتانے کی غلطی نہ کرنا جب تک وہ خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے ۔ کیونکہ وہ سلطانہ بیگم پر اندھا اعتماد کرتا ہے ۔ اور ان سے سچی محبت بھی کرتا ہے ۔ ان کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتا ۔ ” مراد نے کہا ۔

نہیں میں نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا میں جانتی ہوں کہ اس کے دل میں سلطانہ بیگم کے لیے کیا مقام ہے ۔ میں بھی اس دن کے انتظار میں ہوں جب وہ اپنی آنکھوں سے سب
دیکھے ۔ “حریم بولی ۔ اور یہ نوبت سلطانہ بیگم آنے نہیں دیں گی ۔ “مراد نے کہا۔
وہ دونوں بہت دیر تک وہاں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔
حریم کو محسوس ہوا کہ اس کے ذہن کا کافی بوجھ ہلکا ہو گیا ہے مراد سے باتیں کر کے ۔ اسی بالکل بھول گیا کہ وہ کس بات کے لئے تھوڑی دیر پہلے پریشان ہو کر باہر آئی تھی ۔
شاہ میر کمرہ عدالت میں بیٹھا تھا ۔ وکیل دفع بہت کچھ بول رہے تھے ۔ کمرہ عدالت میں بہت کچھ ہورہاتھا لیکن شاہ میر تو وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں تھا جیسے ۔
وہ جسمانی طور پر تو وہ آتا لیکن ذہنی طور پر نہ جانے کہاں تھا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار حریم کا چہر ہ آرہا تھا ۔ ۔ ۔ اس کی سماعتوں میں حریم کی کہی ہوئی باتیں گونج رہی تھیں ۔ حریم کا لمس اسے اپنے بہت قریب محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی ایسی کیفیت پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی ۔ لیکن اس بار حریم کا بدلہ ہوا رو یہ دیکھ کر وہ اس کے بارے میں زیادہ ہی سوچ رہا تھا ۔

سارا دن مصروف گزارنے کے بعد وہ گھر آیا ۔ “صاحب کھانا لگا دوں ؟ ” ضمیر نے کہا ۔
ہاں لگا دو ۔ ” اس نے کیا اور ڈائٹنگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا کھانا کھانے کے لئے ۔ کھانا کھاتے وقت بھی اسے وہی خیال آرہا تھا ۔ اور جب میں سونے کے لئے لیٹا تو نیند کی
بستیاں سے کوسوں دور نظر آرہی تھی ۔
وہ آ نکھیں بند کرتا تو حریم کا چہرہ نظر آتا۔ سونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی باتیں یاد
آئیں ۔
یہ ایک ہفتہ نہ جانے کیوں اسے ایک صدی کے برابر لگ رہا تھا اس بار جو ختم ہونے پر ہی
نہیں آ رہا تھا ۔
خدا خدا کر کے یہ ہفتہ بھی اختتام پذیر ہوا ۔ اس ۔ تام پزیر ہوا۔ اس نے فور مولی کی طرف دوڑ طرف دوڑ لگائی۔ مگر وہاں صرف حریم ہی نہیں بلکہ کوئی اور بھی اس کی منتظر تھی ۔
حریم کچن میں رات کا کھانا بنا رہی تھی کہ اسے شاہ میر کی آمد کی اطلاع ملی ۔ پہلی بار اس کی آمد کا سن کر حریم کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے اپنی دھڑکنوں پر قابو پانا مشکل لگ رہا
تھا۔

جب سے کائنات آئی تھی اسے اپنی حالت غیر نظر آرہی تھی۔ ہر لمحہ اس کا اسی فکر میں گزر رہا تھا کہ کہیں شاہ میر کا ئنات کو دیکھ کر اس کی محبت میں مبتلا نہ ہو جائے اور اس سے شادی
نہ کرلے ۔ عدم تحفظ کے ایک خوف نے اسے گھیر رکھا تھا اتنے دنوں سے ۔ ہزار بار وہ اپنے دل کی اس بات کو جھٹلا رہی تھی جو گواہی دے رہا تھا کہ اسے شاہ میر سے محبت ہو گئی ہے۔ لیکن وہ بار بار انکار کر رہی تھی اور اپنے اس انکار پر صادق نہیں تھی۔ مجھے ایسے انسان سے ہر گز محبت نہیں ہو سکتی جو میرے بھائی کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے ۔ وہ بار بار اپنے دل کی گواہی کا یہی جواب دے رہی ۔ لیکن اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے دلائل بہت کمزور ہیں اس بار۔ (اگر یہی بات ہے پھر تو شاہ میر مجھ سے کبھی بھی محبت نہیں کر سکتا
۔ اس حساب سے تو شاہ میر کی نفرت مجھ سے بجا ہوگی ۔ ہمارے بیچ صرف نکاح کا رشتہ نہیں ہے بلکہ دشمنی کی ایک بہت مضبوط دیوار جو شاید اب کبھی نہ گر سکے ۔ اور میں کیسے سوچ رہی تھی کہ میں اس کا دل جیت لوں گی حالانکہ میں اس کے بھائی کی قاتل کی بہن اور وہ یہ بات کبھی نہیں بھولے گا ۔ ) وہ اپنی سوچوں کی جنگ لڑرہی تھی لیکن کسی نتائج
پر پہنچ نہیں پا رہی تھی ۔ ۔ ۔ وہ جلد از جلد کسی نتائج پر پہنچنا چاہتی تھی۔

اس کا میری طرف آنا ایک فطری طلب ضرورت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مجھے محبت کے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں ۔ کائنات سے تو شاید اسے واقعی محبت ہو جائے مگر مجھ سے کبھی نہیں ہوگی ۔ ۔ ۔ افففف میں کتنی بے وقوف ہوں ۔ ) وہ خود کو ملامت کرنے لگی ۔ “شاہ سائیں کے لیے جلدی کھانا نکالو۔ ” نوری نے حکم دیا۔
اس نے کھانا نکالا اور نوری کے حوالے کر دیا۔
” تم خود کیوں نہیں لے کر گئی ہو کھانا بیوقوف لڑکی ؟ ” حلیمہ کو اس پر غصہ آگیا ۔ میں مزید اپنی ذات کو اس کے سامنے حقیر نہیں بنا سکتی۔ تمہاری کہنے پر میں نے پچھلا سارا ہفتہ اسے یہ جھوٹ بولا کہ مجھے اس سے محبت ہے ہر پل اسے یہ باور کرایا ۔ ۔ ۔ لیکن اب مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا اور مجھ سے یہ سب کرنے کو کہنا بھی نہیں ۔ “حریم نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہا۔
کیا تم نہیں دیکھ رہیں کہ ایک ظالم عورت نے اسے بے تحاشا محبت دے کر اسے اپنا غلام بنا لیا ہے ؟؟؟ یہ محبت ہی ہے جو شاہ میر کو ہرا سکتی ہے ۔ اور اسی محبت سے تم شاہ
میر کو جیت سکتی ہوں ۔ اس کی فطرت یہی ہے کہ وہ محبت کرنے والوں کی قدر کرتا ہے ۔ اسی لئے وہ سلطانہ بیگم کی قدر کرتا ہے ۔ کیوں کہ سلطانہ بیگم نے ہر پل اسے یہ باور کرایا ہے کہ وہ اس سے اپنے سگے بیٹوں سے زیادہ محبت کرتی ہیں ۔ میں تم سے بار بار کہہ

رہی ہوں شاہ میر کو محبت کی ماردو۔ “حلیمیہ نے کہا لیکن حریم کو آج اس کی بات سے اتفاق
نہیں تھا وہ بہت مایوس تھی آج ۔
میں ان کے کام کر کے ان کی جسمانی غلام تو بن سکتی ہوں ۔ لیکن اپنی ذات کو ان کے آگے پیش کر کے ان کی ذہنی غلام نہیں بن سکتی ۔ “حریم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا
بولے اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا ۔
اپچھلے ہفتے میں کرنے والی محبت کا اثر تم دیکھ لینا اب ۔ میں نے یوں ہی اتنے سال اس حویلی میں نہیں گزارے ۔ سب کی فطرت سے کافی حد تک شناسا ہو چکی ہوں ۔ “حلیمہ نے کہا۔۔۔

اس کے سر میں بہت زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے اس کے ذہن میں صرف اس وقت شاہ میر اور کائنات کی پہلی ملاقات کا خوف بیٹھا ہوا تھا اور اس سے آگے اس سے کچھ سوچا نہیں جا رہا تھا ۔ ۔ ۔
وہ یہی سوچے بیٹھا تھا کہ حریم کھانا لے کر آئے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو اسے مایوسی ہوئی ۔

“حریم کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟” اس نے نوری سے پوچھا.
ٹھیک ہی ہوگی ۔ اس کے تو مزاج ہی نہیں ملتے کسی سے ۔ ” نوری نے بیزاری سے کہا ۔ “تمہیں حریم پسند نہیں ہے ؟ شاہ میر نے دلچسپی سے سوال کیا۔
ایک آنکھ نہیں بھاتی مجھے سچ بتاؤں تو ۔ اگر وہ نوکر بن کر گھر میں آئی ہے تو نوکر بن کر رہے ۔ مجھ سے ایسے بد تمیزی سے بات کرتی ہے مجھے اچھا نہیں لگتا ہے ۔ کون سا میری مالکن ہے وہ مجھے کہتی ہے اپنی اوقات میں رہو ۔ ۔ ۔ اور خود اپنی اوقات بھول گئی ہے کہ
وہ ونی میں آئی ہے ۔ ” نوری نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔
“وہ تمہاری مالکن ہے ۔ کیونکہ وہ میری بیوی ہے “شاہ میر نے کھا نا شروع کرتے ہوئے
کیا۔
تو پھر وہ آپ کے ساتھ کیوں نہیں رہتی ہے ؟ وہ ملازماوں کے ساتھ کیوں رہتی ہے ؟ “
نوری نے سوال کیا ۔
” تم اپنے چھوٹے سے ذہن پر اتنا زور مت ڈالو ۔ ” شاہ میر بولا ۔
نوری کے جانے کے بعد وہ یہی سوچتا رہا کہ حریم آئے گی مگر وہ پھر بھی نہیں آئی۔

یہ کائنات ہے میری بھانجی ۔ جانتے تو ہو گے تم اسے ؟ “شاہ میر جب سلطانہ بیگم کے کمرے میں آیا تو وہاں کا ئنات بیٹھی ہوئی تھی۔ سلطانہ بیگم کا ئنات کا تعارف کراتے
ہوئے کہا تو شاہ میر نے ایک نظر اسے دیکھا ۔
“مجھے لوگ یاد نہیں رہتے ہیں۔ مجھے بالکل بھی ان کے متعلق کچھ یاد نہیں ہے ۔ ” شاہ میر نے صاف گوئی سے کہا تو کائنات کو مایوسی ہوئی ۔
ایک دو بار بچپن میں آئی تھی آپ کی اس حویلی میں مجھے تو یا د ہے شاید آپ کو یاد نہیں ۔ “
کائنات کو برا لگا تھا اس کا یوں انجان بننا۔
معذرت لیکن بچپن کے حوالے سے میری یاداشت کافی کمزور ہو چکی ہے ۔ “شاہ میر
بولا ۔
آکڑ تو دیکھو جانب کی۔ ۔ ۔ کائنات نے دل میں کہا
پھر کافی دیر تک شاہ میر اُن کے کمرے میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔ ان سے بات کرنے کے دوران بھی بار بار اس کا دھیان حریم کی طرف ہی جا رہا تھا ۔ وہ جو
کچھ سوچ کر آیا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا۔

Share with your friends on Facebook


Updated: May 31, 2025 — 4:21 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *