Badnaseeb Beti Part 6 continues the heartbreaking yet inspiring journey of a girl struggling against fate. With every new episode, this novel cements its place as one of the new best Urdu novels of 2025. The emotional storytelling, bold characters, and social themes keep readers hooked.
If you love realistic Urdu fiction, romantic family drama, and powerful female-led stories, this chapter won’t disappoint. Written in smooth Urdu font, it’s perfect for mobile and offline reading.

Badnaseeb Beti Part 6 – New Best Urdu Novel 2025 | Emotional Story in Urdu Font
Read here Badnaseeb Beti Part 5 – Urdu Story World
اسے حویلی واپس آئے ہوئے چھ گھنٹے بیت چکے تھے ۔ وہ شام کو آیا تھا اور اب رات کے
بارہ بج رہے تھے ۔
وہ تھکا ہوا تھا لیکن اُسے نیند نہیں آ رہی تھی ۔ وہ لاشعوری پر حریم کے انتظار میں تھا اور
اسے غصہ آنا شروع ہو گیا تھا۔ ادھر حریم کی بھی یہی حالت تھی۔ وہی سوچ سوچ کر پریشان تھی کہ سلطانہ بیگم کے کمرے میں شاہ میر تقریبا ڈھائی گھنٹے بیٹھا رہا۔ اور ان ڈھائی گھنٹوں میں کائنات بھی اسی کمرے میں
موجود تھی ۔
ضرور اسے کائنات کا حسن بھا گیا ہو گا ۔ جیسے کہ میرا بھا گیا تھا ۔ وہ ایک حسن پرست انسان ہے ۔ میں خواہ مخواہ میں اس کے آگے بچھی جارہی تھی ۔ اپنی ذات کو اتنا ڈی گریڈ کر دیا میں نہیں
جاؤں گی ۔ وہ اندھیرے کمرے میں چارپائی پر لیٹی ہوئی سوچ رہی تھی کہ اچانک سے نوری
نے آکر اسے جھنجھوڑا ۔
اٹھو ، شاہ سائیں تمہیں بلا رہے ہیں ۔ ” نوری نے کہا تو اس کا دل کسی پتے کی مانند
لرزنے لگا ۔
کافی دیر تک تو وہ سوچتی رہی اٹھی نہیں۔ لیکن پھر خود کو روک نہیں پائی ۔ کب سے اُس کی آنکھیں شاہ میر کے دیدار کی منتظر تھیں ۔
وہ اندر آئی تو شاہ میر جولیٹا ہوا تھا اسے دیکھ کر ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے قریب
آیا ۔
طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری ؟ “شاہ میر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ اُسے وہ
واقعی آج مرجھائی ہوئی سی لگ رہی تھی ۔
حریم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
“بیٹھو ۔ “شاہ میر نے کہا تو وہ بیٹھ گئی۔
بخار تو نہیں ؟ شاہ میر نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
وہ پھر بھی نہ بولی۔
ناراض ہو کیا ؟ ” شاہ میر اب پریشان ہو گیا ۔
آگے سے ہنوز خاموشی ۔ ۔ ۔ اور اب یہ خاموشی طویل ہوتی جا رہی تھی۔ ” بس کر دوشاہ میر بس کر دو یہ سارا ڈراما ۔ ۔ ۔ ختم کر دواب اس محبت کے کھیل کو جو تم میرے ساتھ کھیلنا چاہ رہے ہو ۔ میں اچھی طرح سے جانتی ہو کہ تمہیں مجھ سے کبھی محبت
نہیں ہو سکتی کیونکہ میں تمہارے بھائی کے قاتل کی بہن ہوں ۔ “حریم جیسے پھٹ پڑی اور اپنے آخری جملے کو بہت زور دیکر کہا ۔
شاہ میر حیرت سے اسے دیکھنے لگا کہ اچانک سے حریم کو کیا ہو گیا ہے ۔ ” یہ کیا بولے جا رہی ہو ؟ ” شاہ میر بھی کھڑا ہو گیا۔
میں جو بول رہی ہوں بالکل ٹھیک بول رہی ہوں اور میں تھک چکی ہوں اس خیال سے جو ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ مجھے تم سے بالکل بھی کسی قسم کی محبت نہیں ہے ۔ اور میں یہ بھی جانتی ہو کہ تمہیں بھی مجھ سے بالکل محبت نہیں ہے ۔ میں کوئی بیوقوف لڑکی نہیں ہوں جسے تم پیار کا جھانسا دو گے اور وہ تمہاری غلام بن جائے گی نہیں ہوا تو تم مجھے پیار کی مار
دینے لگے ؟ تاکہ میں تمہاری محبت میں اندھی ہو کرا گل دوںگی- سب سے پہلی بات تو یہ کہ میں جانتی ہی نہیں کہ میرا بھائی کہاں ہے ۔ اور سو باتوں کی ایک بات ۔ ۔ ۔ اگر مجھے پتہ چل بھی گیا کہ وہ کہاں ہے ۔ ۔ تب بھی میں تمہیں نہیں بتاؤگی ۔ چاہے تم میرا سر ہی کیوں نہ قلم کر دو ۔ “حریم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
شاہ میر اس کی ذہنی کیفیت سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
تمہیں واقعی لگ رہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ کھیل کھیل رہا ہوں ؟ شاہ میر بولا ۔
مجھے لگ نہیں رہا ہے بلکہ یہی حقیقت ہے ۔ اور یہ تم خود بھی بہت اچھے طریقے سے
جانتے ہو ۔ “حریم نے جتانے والے انداز میں کہا۔
بہت سمارٹ ہو تم ۔ ” شاہ میں نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا ۔ ” میں کیسے بھول گیا تھا کہ تم ایک قاتل کی بہن ہو۔ میں تمہیں معصوم سمجھ رہا تھا ۔ لیکن اب اپنی بیوقوفی پر حیران ہو رہا ہوں کہ میں تمہیں حج نہیں کر سکا۔ ہاں بالکل صحیح کہا تم نے میں واقعی تم سے محبت کا کھیل کھیل رہا تھا تاکہ تم اپنے بھائی کا پتہ محبت کی اس کھیل میں مجھے بتا دو ۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ گھی جب سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے سو وہی کرنا چاہ رہا تھا میں ۔ مگر میں بھول گیا تھا کہ میرے سامنے کوئی عام لڑکی نہیں ۔ ۔ ۔ سردار شاہ نواز کی اکلوتی بیٹی ۔ ۔ ۔ اور قا تل ظفر نواز کی بہن ہے ۔ جس کا یقینا ونی میں آنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ مجھے جان سے مار دے نہ مجھے یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ تمہیں صرف ونی میں نہیں بھیجا ہے شاہنواز نے بلکہ تمہاری پوری ٹریننگ کر کے تمہیں بھیجا ہے ۔ سلام ہے تم لوگوں کی چالاکی پر ۔ شاہ میر اپنی پرانی ٹون میں واپس آچکا تھا۔ حریم کو اس کی آنکھوں میں اپنے لئے وہی نفرت اب نظر آنے لگی تھی جو شروع میں اُسے نظر آتی تھی ۔
” تمہیں میرے ساتھ جو کرنا ہے کر لو مگر میں اپنے بھائی کا پتا تمہیں مر کر بھی نہیں دوں
گی ۔ “حریم نے کہا ۔
” تم غلط سمجھ رہی ہو حریم ۔ ۔ ۔ میں تمہارے ساتھ کچھ برا نہیں کروں گا۔ میں تو آج بھی ان دو تھپڑوں پر پچھتا رہا ہوں جو میں نے تمہیں مارے تھے ۔ “شاہ میر نے اچانک اُسے اپنے
حصار میں لیتے ہوئے کہا اور اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
“میرے قریب مت آنا آج کے بعد “حریم نے خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے کہا ۔ ” تمہاری قریب نہیں آؤں گا تو پھر کس کے قریب آؤنگا مائی ڈیریسٹ وائف – ” شاہ میر نے پھر سے اپنے قدم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
اس کے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے کہا “جس کے دیدار کے لیے اپنی ماں کے کمرے میں تم ڈھائی گھنٹہ بیٹھے رہے اس کے پاس جاؤ ۔ “حریم کے دل کی بات زبان پر آہی گئی ۔
اوہ ۔ ۔ ۔ اب سمجھا ۔ ۔ ۔ اس غصے اور ناراضگی کی اصل وجہ ” شاہ میر اُس کی لٹ کے
ساتھ کھیلتا ہوا بولا۔
میں تمہاری فطرت اچھے طریقے سے جان گئی ہوں شاہ میر ۔ تمہارے سامنے جو بھی لڑکی ہوتی ہے تم اس سے متاثر ہو جاتے ہو۔ تم ایک حسن پرست انسان ہو۔ اسی لئے مجھ سے لاکھ نفرت کرنے کے باوجود بھی تم میرے قریب آنے سے خد کو روک نہ سکے ۔ اوراب وہ کائنات ۔ ۔ جس سے خاص طور پر حویلی میں صرف تمہارے لیے لایا گیا ہے ۔ تاکہ تمہاری ماں میرا پستہ کاٹ کر اس کا رستہ ہموار کر سکے ۔ “حریم بولی۔ “تمہارے قریب آنے کی میرے پاس صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ یہ کے تم میرے نکاح میں تھیں ۔ اور میں کوئی بد کردار مرد نہیں جو کسی نامحرم کے پاس جاؤں ۔ “شاہ میر
نے کہا ۔
تم کتنے باکردار ہو یہ بات میں اچھے طریقے سے جان گئی ہوں ۔ “حریم بولی ۔ میرا کا ئنات کے ساتھ ایک کرنے میں بیٹھنے پر نہیں آتی مرچیں لگ سکتی ہیںمجھے اندازہ نہیں تھا۔ یہ سب تو محبت میں ہوتا ہے، تم مجھ سے نفرت کرتی ہونا پھر تو میں اتنا برا کیوں
لگ رہا ہے میرا اس کے ساتھ بیٹھنا ؟ “شاہ میر بولا۔
مجھے تمہارا اس کے ساتھ بیٹھنا بالکل بھی برا نہیں لگ رہا۔ میری بلا سے تم جس کے ساتھ بھی بیٹھو۔ مگر میرے ساتھ کوئی گیم مت کھیلو۔ “حریم نے کہا۔
ٹھیک ہے مان لیتا ہوں کے میں تمہارے ساتھ گیم کھیل رہا تھا تو کیا تم میرے ساتھ نہیں کھیل رہیں تھیں گیم ؟؟؟ پہلے اپنے گریبان میں جھا نکو پھر مجھے موضوع الزام ٹھہراو ۔ “شاہ
میر بولا۔
“وہ کہتے ہیں نا ۔ ۔ ۔ ۔
تم عقل مند ہو ۔ ۔ ۔ عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے ۔
حریم نے کہا ۔
شاہ میر نے اسے دیکھ کر تالیاں بجائیں۔
مان گیا تم کو ۔ ” وہ بولا ۔
حریم کمرے سے باہر چلی گئی ۔
ظفر کا پتہ تو تمہارے اگلے پچھلے بھی بتائیں گے حریم بی بی ۔ تم یہ تو سمجھ گئی ہو کہ میں تمہارے ساتھ کھیل کھیل رہا تھا ۔ ۔ ۔ مگر بیوقوف لڑکی تمہاری سمجھ میں اب تک یہ نہیں آیا کہ میں تمہارے ساتھ کھیل ۔ ۔ ۔ کھیل چکا ہوں ۔ ۔ ۔
شاہ میراب جنید کی تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا
حریم کا غصے اور دکھ سے برا حال تھا ۔ یعنی کہ اس کا شک صحیح نکلا۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ اسے نیند ہی نہیں آئی ۔ کافی دیر تک جاگتی رہی لیکن پھر نیند آئی گئی ۔
اوراُدھر شاہ میر پچھلا سارا ہفتہ اس کی محبت کے حصار میں رہاوہ حصار ٹوٹ چکا تھا ۔ وہ یہی سوچ کر آیا تھا کہ اس بار بھی حریم اس پر ایسے ہی مہربان ہوگی۔ لیکن کہیں نہ کہیں ایک شوہر ہونے کی حیثیت سے اسے مایوسی ضرور ہوئی تھی ۔ یہ سن کر کے حریم بھی اس کے ساتھ گیم
کھیل رہی تھی ۔
ان ایسے ہی سوچوں میں گزر گئے دونوں طرف مایوسی تھی ۔ دونوں ہی اپنی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھے ۔ دل کہ رہا تھا جاؤ اس کے پاس ۔ اور عقل کہہ رہی تھی کہ
نہیں ۔ دونوں ہی دل اور عقل کے بیچ میں پھنس کر رہ گئے تھے ۔
حریم اسے دو دن سے نظر نہیں آئی وہ جان بوجھ کر اس سے چھپ رہی تھی ۔ بار بار را بداری میں آتے جاتے اس کی نظریں لاشعوری طور پر حریم کو تلاش کر رہی تھیں ۔ وہ بلاوجہ سارا دن لاؤنج میں بیٹھا رہتا تا کہ حریم کی ایک جھلک دیکھ سکے ۔ کیونکہ حریم کچن میں ہوتی تھی اور
لاؤنج میں فاصلہ نہیں تھا ۔ لاؤنچ میں ہونے والی تمام لفتگو کچن میں آسانی سے سنی جا سکتی
تھی۔
لیکن مسلسل دو دن شاہ میر کو مایوسی رہی ۔
( جب مجھے اس سے محبت نہیں ہے جب میں اس سے نفرت کرتا ہوں تو میں کیوں اس کو تلاش کر رہا ہوں؟) وہ بار بار خود سے سوال کرتا جا رہا تھا مگر اسے جواب نہیں مل رہا تھا یا پھر
وہ جواب سے نظریں چرا رہا تھا ۔
وہ شام کو لان میں چلا آیا اور سگریٹ کے کش لے رہا تھا کہ مراد اس کے سامنے آکر کھڑا ہو
گیا۔
میں ہر گز ایسا نہیں کہ تیری عزت پر ہاتھ ڈالوں ” مراد نے اس کی ناراضگی دور
کرنے کے لیے کہا۔
” میں تجھ سے ناراض تھا مگر اب نہیں ہوں ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ پھر مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر جاتا کہیں بھی ۔ ” مراد نے کہا۔
“تمہارا حویلی رہنا بہت ضروری ہے اس وقت ۔ ظفر کسی بھی وقت یہاں پہنچ سکتا ہے ۔ اگر وہ آئے تو مجھے فوراً مطلع کر دینا۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور آئے گا ۔ “شاہ میر نے کہا تو مراد
کو اُس کی بات سمجھ آگئی ۔
پھر دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور ماحول اچھا ہوگیا ۔ دونوں کی دوستی ایک بار پھر سے بحال ہو گئی۔
خالہ آپ کا بیٹا تو مجھے گھاس ہی نہیں ڈال رہا ہے . ” کا ئنات نے منہ بناتے ہوئے کہا. ” تم اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ “سلطانہ بیگم نے کہا
وہ میری طرف دیکھتا ہی نہیں ہے تین دن ہو گئے نہ جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا ہے ۔ جب بھی دیکھتی ہوں کبھی لان میں ٹہل رہا ہے ۔ کبھی باہر نکل جاتا ہے تو کبھی اپنے کمرے میں گھسا بیٹھا ہوتا ہے ۔ لاؤنج میں بیٹھا ہوتا ہے میں آتی ہوں تو اٹھ کر چلا جاتا ہے وہاں سے ۔ یقین مانے مجھے اس قدر برا محسوس ہو رہا ہے مگر میں آپ کی وجہ سے چپ ہوں ۔ کائنات نے شکوہ کیا تو سلطانہ بیگم پریشان ہو گئیں۔ “دیکھوں کا ئنات شاہ میر ایک بہت ہی مختلف قسم کا انسان ہے ۔ اس کی سوچ بھی بہت مختلف ہے ۔ اس کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہے ۔ وہ خوبصورتی سے
متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہے کہ تمہیں دیکھ کر تم پر فدا ہو جائے گا۔ اس کی پسند کا معیار بہت اونچا ہے۔ تمہیں اپنے آپ کو اس کے معیار کے مطابق ڈھالنا ہو گا ۔ سلطانہ
بیگم نے اسے سمجھایا ۔
“خالہ لڑکے کو ایک پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی چاہیے ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھلا کیا معیار ہو سکتا ہے کسی کو پسند کرنے کا ؟ میں تعلیم یافتہ ہوں حسین ہوں ۔ میں بھلے سردار کی بیٹی نہیں ہوں ۔ لیکن میرا بھی خاندان بہت اعلیٰ ہے ۔ ہم لوگ بھی کھاتے پیتے عزت دار
گھرانے سے ہیں ۔ ” کائنات نے کہا ۔
اس طرح تو ہمارے خاندان کی ہر لڑکی تعلیم یافتہ بھی ہے اور خوبصورت بھی ۔ لیکن آج یک شاہ میر کیسے باز نہیں ہو۔ شاہ میر کومتاثرکرنے کے لیے تمہیں منت کرنی ہوگی۔ یہ کام انا آسان نہیں ہے جتنا تم سوچ کر آئی ہو ۔ سلطانہ بیگم نے کہا۔ آپ صحیح کہہ رہی ہیں پہلے یہ کام مجھے واقعی بہت آسان لگ رہا تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا وہ مجھے دیکھے گا اور مجھے پسند کر لے گا ۔ مگر اس نے تو میری طرف ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں ۔ نہ
جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا ہے ۔ ” کا ئنات نے کہا۔
ہاں مجھے بھی تین دن سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ بہت گہری سوچ میں ہے لیکن مجھ سے کچھ کہہ بھی نہیں رہاور نہ مجھ سے وہ کوئی بات نہیں چھپاتا ہے ۔ جو بھی پریشانی ہوتی ہے اسے گھر
کیا باہر کی فورا مجھ سے ڈسکس کرتا ہے ۔ اب میں بھی یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو وہ مجھ سے نہیں کر رہا اور اندر ہی اندر سوچ میں غلطاں ہے ۔ “سلطانہ بیگم
شاہ میر کے رویے سے پریشان تھیں ۔
انہوں نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی کہ شامیر کھویا کھویا سا رہتا ہے آج کل ۔ اب اُنہیں اس بات کی تہہ میں پہنچا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے ۔ ۔ ۔
“وہ جو شاہ میر کی بیوی ہے ۔ میں نے اسے دیکھا ہے وہ بھی بہت خوبصورت ہے اور
پڑھی لکھی بھی لگ رہی ہے ۔ ” کا ئنات کو یا د آیا ۔
بیوی نہیں ونی ہے وہ ونی ۔ وہ میرے بیٹے کی بیوی کہلانے کے لائق نہیں ہے ۔ ہاں اس کی خوبصورتی سے تو میں خود بھی بہت پریشان ہوں ۔ میرا دل کرتا ہے اس کا چہرہ بگاڑ دوں۔ شاہ میر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے میں کھو جاتا ،جاتا ہے میں نے یہ بات نوٹ کی ہے ۔ اور وہ لڑکی حد سے زیادہ تیز ہے ۔ پڑھی لکھی تو ضرور ہوگی آخر سردار کی بیٹی ہے ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا۔
انہیں بہت عرصے بعد کوئی ایسا ملا تھا جس سے وہ دل کی ہر بات کر سکتی تھیں ۔ انہیں کائنات کی سنگت بہت بھا رہی تھی ۔
میرے پاس ایک آئیڈیا ہے ۔ آپ ایسا کریں اس لڑکی کی طلاق کروا دیں ۔ ونی تو پھر بھی رہے گی۔ لیکن اس طرح سے وہ شاہ میر پر ہر قسم کا حق کھو دیگی ۔ اور اگر وہ شاہ میر کے نکاح سے نکل گئی تو آپ کا بھی یہ خوف ختم ہو جائے گا کہ شاہ میر کہیں اس کے پاس نہ چلا جائے ۔ ظاہر سی بات ہے پھر وہ اس کے لیے نامحرم ہو جائے گی ۔ پھر کس بات کا ڈر ہو کہ
آپ کو ۔ ۔ ۔ کائنات نے مشورہ دیا تو سلطانہ بیگم حیران ہو گئیں۔
کتنی گہری بات کی ہے تم نے میرا تو اس طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔ بالکل ٹھیک کہہ رہی
ہو تم جب وہ شاہ میر کے نکاح میں نہیں رہے گی تو پھر یہ خوف ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا ۔ میں جلد ہی شاہ میر سے کہوں گی کہ اسے طلاق دے دے ۔ نہیں بلکہ میں ابھی اسے
بلا کر کہتی ہوں ۔ دیر نہیں کرنی چاہیے ہمیں اب۔ اس سے پہلے کہ وہ لڑکی اپنا سکہ جما دے۔ سلطانہ بیگم نے کہ کر اک دم سے شاہ میر کو فون کیا تو ان کے کمرے میں
حاضر ہو گیا ۔ “شاہ میر میں چاہتی ہوں تم اس لڑکی کو طلاق دے دو ۔ خون بہا میں تو وہ آہی گئی ہے ۔ اب وہ یہاں سے کہی جانے والی نہیں ۔ ساری عمر یہاں ہی نوکرانی بن کر رہے گی ۔ میں ابھی اس سے بلوائیں ہوں اور ابھی تم میرے سامنے اسے تین لفظ بول کر فارغ کر دو ۔ ” وہ جیسے ہی آیا تو سلطانہ بیگم نے سختی سے حکم صادر کیا۔
شاہ میر حیرت سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا ۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ سلطانہ بیگم سنجیدہ ہیں ۔ پھر اس نے ایک نظر کائنات پر ڈالی تو کائنات نے نظریں چرا لیں ۔ اگلے ہی پل وہ
سمجھ گیا کہ یہ مشورہ ضرور کائنات کا ہے ۔
معذرت اماں جی مگر میں ایسا نہیں کر سکتا ۔ “شاہ میر نے کہا۔ اس تصور سے ہی اس کا دل ڈوب گیا تھا کہ حریم پر اس کا کوئی حق نہیں رہے گا ۔ کیسے چھوڑ سکتا تھا وہ اس لڑکی کو جو دن بدن اس کے دل میں گھر کرتی جا رہی تھی ۔ کیسے چھوڑ سکتا تھا وہ اس لڑکی کو جو اسے زندگی میں ملنے والی لڑکیوں میں سے سب سے الگ لگی تھی ۔ کیسے چھوڑ سکتا تھا وہ اس بہادر لڑکی کو جس کے حسن سے زیادہ اس کے کردار نے اسے متاثر کیا تھا۔ وہ لڑکی جس سے نفرت کرنا چاہ رہا تھا مگر کر نہیں پا رہا تھا ۔ جسے اپنے قریب پاک کرو تمام دنیاسے برا نہ ہوجایا کرتا ہے ہے
اس نے یہ تو سوچا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کھیل کھیلے گا ۔ اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ وہ دونوں ساری زندگی اسی طرح سے لڑتے رہیں گے ۔ اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ وہ ساری زندگی اسی گھر میں رہے گی چاہے جیسے بھی حالات میں رہے ۔ وہ سے نفرت کرے یا محبت لیکن وہ
صرف اسی کی ہے ۔
اس نے سب کچھ سوچا ہوا تھا لیکن اس بات کا تصور تک نہیں کیا تھا جو بات سلطانہ خاتون اس سے کہہ رہی تھیں اس وقت ۔ اسی رشتے میں بندھے ہوئے اس نے بہت کچھ سوچا تھا
مگر اس رشتے کو توڑنے کا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ “کیوں نہیں کر سکتے ایسا ؟ جب تمہیں اس لڑکی میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تو اسے نکاح میں رکھنے کا کیا فائدہ؟ میں اس کا نکاح حویلی کے کسی ملازم سے کرادوں گی ۔ ۔ ۔ بلکہ ایسا کرتی ہوں میں اس کا نکاح مراد سے پڑھا دیتی ہوں ۔ اس طرح سے وہ محفوظ بھی رہے گی
اور ۔ ۔ ۔
اس سے آگے میں نہیں سن سکتا اماں جی ۔ ” وہ غصے سے کھڑا ہو گیا اور اس نے سلطانہ
بیگم کی بات آدھے میں کاٹ دی ۔ آپ نے سوچ بھی لیے لیا ٹھیک ہے میں اس سے محبت نہیں کرتا میں اس سے نفرت کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں بار بار آپ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ وہ میری غیرت ہے ۔ اور آپ مجھے کہ رہی ہیں کہ میں اس سے مراد کے حوالے کر دو یا کسی اور ملازم کے ؟؟؟؟ ” شاہ میر آپے سے باہر ہو گیا تو سلطانہ بیگم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
نہیں تم غلط سمجھ رہے ہو میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ تمہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔۔۔ اس کا بھی حق ہے کہ اس کا شوہر ہو اس کے بچے ہوں ۔ اس کا بھی دل کرتا ہوگا اس کا خاندان ہو ۔ بھلے وہ خون بہا میں آئی ہے مگر اس کے بھی جذبات ہوں گے ۔ اسی لیے میں نے ایسا کہا تھا کہ وہ اپنا گھر بنا سکے ۔ اور اسے اولاد ہو۔ اتنی ظالم تو نہیں ہوں میں شاہ میر ۔ بس دکھوں کی ماری ہوں۔ میں نے تو یہ سب اس کے بھلے کے لیے کہا ۔ کیونکہ تم سے تو کبھی بھی اس کا خاندان نہیں چل سکتا ۔ تم تو کبھی بھی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھو گے بھی نہیں ۔ تو اس کا حق ہے کہ اس کا شوہر ہو اس کے بچے ہو اس کا ایک گھرانہ ہو ۔ وہ بھلے ملازموں کی طرح ہے مگر اس کا بنیادی حق تو اسے ملے ۔ سلطانہ ہوئے بات سنبھالنے کی کوشش کی ۔ وہ میٹھی چھری بن گئی۔ ۔ ۔ لیکن انہوں نے جوبات کی تھی اس بات نے شاہ میر کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی ۔ ایک غیرت مند انسان سے یہ کہنا کہ اپنی بیوی کسی اور کو دے دو کتنا اذیت ناک ہے شاید اس کا اندازہ سلطانہ بیگم کو
نہیں تھا مگر آج ہو گیا تھا ۔
وہ خود اس کے ساتھ جو بھی سلوک کرے ۔ ۔ ۔ مگر وہ آتے جاتے کسی کی نظر تک حریم پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
وہ بیٹھ گیا تو سلطانہ بیگم کی جان میں جان آئی اور نہ انہیں لگا کہ شاہ میر شہر چلا جائے گا
وہ اتنے غصے میں لگ رہا تھا ۔
اس کی جانے کے بعد کائنات نے سلطانہ بیگم سے کہا ۔ ۔ ۔
دیکھا آپ نے خالا ؟ اس کا مطلب اگر میری شادی شاہ میر سے ہو بھی گئی تب بھی وہ اسے بیوی بنا کر رکھے گا ہمیشہ ؟ میں ہر گز اپنے شوہر کو کو کسی اور عورت کے ساتھ نہیں
دیکھ سکتی ۔ ” کائنات پریشان ہوئی۔
” تم پریشان نہ ہو ہم کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے ۔ مگر اب شاہ میر کے سامنے ہمیں بہت احتیاط کرنی پڑے گی۔ میں جانتی ہوں شاہ میر کو اس لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا بیٹا اس کے معاملے میں غیرت کھاتا ہے ۔ اور یہ فطری بات ہے ۔ وہ تو گھر کی ملازماوں کو بھی اتنی عزت دیتا ہے ۔ نوری کی ہر فضول بات کو
اہمیت دیتا ہے اور اس سے ہنسی مذاق چلتا رہتا ہے شاہ میر کا ۔ مراد اس کا ملازم ہے لیکن اس کا بہترین دوست ہے ۔ وہ امیر غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔ صرف اس کی وجہ سے مجھے احتیاط کرنی پڑتی ہے سب کے ساتھ ۔ کیونکہ میں اس کی نظروں میں بری نہیں بننا چاہتی ۔ جو مقام وہ مجھے دیے بیٹھا ہے ۔ میں وہ مقام اپنا اس کے دل میں ہمیشہ قائم رکھنا چاہتی ہوں ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا ۔
خالہ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ اپنے سکے بیٹوں سے زیادہ شاہ میر سے محبت کرتی ہیں ۔ ” کا ئنات واقعی حیران ہو گئی تھی ان کی باتیں سن کر ۔
‘یہ تو مجھے نہیں معلوم، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جس دن شاہ میر نے مجھے چھوڑ دیا اس دن
میرا تخت اُلٹ جائے گا۔ ” انہوں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا ۔
میں سمجھ سکتی ہوں جس انسان کے ساتھ آپ کا سب سے زیادہ وقت گزرتا ہے وہ آپ کے لیے دن بدن خاص ہو تا چلا جاتا ہے ۔ جو شخص ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے وہ سگوں
سے بڑھ کر ہو جاتا ہے ۔ “کائنات نے کہا ۔
“مجھے اس لڑکی کا بندوبست کرنا ہو گا مجھے بس لڑکی سے بہت خوف آنے لگ گیا ۔ ۔ ۔ “
انہوں نے ایک عزم سے کہا ۔ –
پھر دو دن خاموشی سے گزر گئے ۔ اس دن کے بعد حریم اسے نظر نہ آئی اور اب چوتھا دن
تھا ۔ اس کے شہر جانے کا وقت بھی اب ہونے والا تھا ۔ ایک عجیب سی بے چینی تھی اس
کے اندر اور اسے کسی طور قرار نہیں آرہا تھا۔
وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا مگر پہنچ نہیں پا رہا تھا۔
کہاں جا رہے ہو شاہ میر اور ہمارے ساتھ چائے پیو۔ چائے تیار ہونے والی ہے ۔ ” وہ شام کو جاگا اور باہر جانے لگا تو سلطانہ بیگم نے اسے پکارا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ ان کے کہنے پر وہ خاموشی سے آکر بیٹھ گیا۔ سلطانہ بیگم اور کائنات لاؤنج میں ہی بیٹھی ہوئی
تھیں ۔ سامنے ٹی وی پر خبریں چل رہی تھی۔
شاہ میر اس امید میں بیٹھ گیا کہ شاید حریم کا چہرہ نظر آجائے ۔ دل کو لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی دل باز نہیں آرہا تھا ۔ یہ جذبہ چڑھتے سورج کی طرح تھا جس سے چھپنا مشکل تھا ۔ اور شاہ
میر سلطان کو کوئی جگہ میسر نہیں تھی اس سے چھپنے کے لیے ۔
سامنے بیٹھی وہ لڑکی جس سے اس کی ماں نے اس کے لئے چنا تھا ۔ وہ اسے بہت عام سی
لگ رہی تھی ۔ اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ تھی کہ وہ متاثر ہوتا ۔ مگر وہ اس لڑکی کی آنکھوں وہ اس جذبے سے نظریں چرا رہا تھا ۔ اس کے بر عکس حریم کی آنکھوں میں اس کے لئے نفرت تھی ۔ لیکن وہ آنکھیں اس کے حافظے میں نقش تھیں ۔ اس کی باتیں اس کے ذہن میں ہر لمحہ گو نجتی تھیں ۔ اس کی ایک ہفتے کی محبت نے اس کے دل میں بہت گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ لیکن اس محبت کا دورانیہ بہت قلیل نکلا ۔ وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس محبت سے لطف اندوز ہو گا بہت لمبے عرصے تک ۔ غصہ
نفرت ہر جذبے کے باوجود اُسے وہ محبت مزہ دے رہی تھی۔
کن سوچوں میں کھوئے ہوئے ہو شاہ میر ؟ ” سلطانہ بیگم نے اسے کھویا ہوا دیکھا تو پوچھا۔
“ہاں ؟ ” وہ خیالوں میں چونکہ ۔
میں پوچھ رہی ہوں کہ خیالوں میں کھوئے ہوئے ہو آج کل میں نوٹ کر رہی ہوں تم کافی پریشان لگ رہے ہو کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا۔
” نہیں کوئی پریشانی نہیں ۔ ” وہ بولا
آج وہ ہمیشہ کی نسبت زیادہ سنجیدہ اور خاموش لگ رہا تھا ۔ سلطانہ بیگم نے ساجدہ کو آنکھوں سے اشارہ کیا ۔
وہ سمجھ گئی کہ اسے کیا کرنا۔
“چائے لے کر جو سلطانہ بیگم کے پاس وہ تمہیں بلارہی ہیں ۔ ساجدہ نے کہا تو کو چائے
لائی ۔
دیکھا کہ شاہ میر بھی وہاں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کا سر موبائل میں جھکا ہوا تھا لیکن اس نے حریم ہوا تھا لیکن اس کا لمس اپنے پاس محسوس کیا تو سر اٹھا کر دیکھا ۔ ایک لمحے کو دونوں کی نظریں چار ہوئیں ۔ حریم نے پہنچنے والے انداز میں ٹرے میز پر رکھی تو چائے کے کپ میں جیسے سونامی آ گیا ۔ چائے چھلک پڑی ۔
یہ دیکھ کر سلطانہ بیگم کو غصہ آگیا ۔ انہوں نے اسے بلایا ہی اس لیے تھا کہ اسے شاہ میر
کے سامنے ذلیل کر سکیں ۔
“کوئی تمیز نہیں ہے تمہیں لڑکی ؟ ” سلطانہ بیگم نے غصے سے کہا تو شاہ میر نے پہلے سلطانہ
بیگم کو دیکھا اور پھر حریم کو ۔
“حریم نے جان بوجھ کر ایسا کیا تاکہ وہ سلطانہ بیگم کو اشتعال دلانا سکے ۔ وہ چاہتی تھی کہ شاہ میر کے سامنے سلطانہ بیگم اس پر تشدد کریں ۔ تاکہ ان کی اصلیت شاہ میر کے سامنے آئے ۔ وہ پہلے ہی غصے سے بھری ہوئی بیٹھی تھی۔ وہ چاہتی تھی کوئی ہنگامہ ہو۔ اس کا سکون برباد ہوا ہے تو سب کا سکون برباد ہو ۔ وہ مکمل طور پر باغی ہو چکی تھی ۔ “آپ نے کہا چائے لے آؤ ۔ ۔ ۔ میں چائے لے آئی ۔ ۔ ۔ آپ کو پینی ہے تو پیئیں ورنہ
میں واپس لے جاتی ہوں ۔ وہ بولی۔
یہ تم کس طریقے سے بات کر رہی ہو مجھ سے ؟ دیکھا شاہ میر تم نے کتنی بد تمیزی سے یہ لڑکی مجھ سے بات کر رہی ہے ۔ تمہاری غیر موجودگی میں بھی یہ مجھ سے ایسے ہی بد تمیزی
سے بات کرتی ہے ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا۔
یہ تو خود کو پتہ نہیں کیا سمجھ رہی ہے ۔ اسے آپ کی عزت کرنی چاہئے مگر یہ تو ۔ ۔ ۔ ” کا ئنات سے رہا نہیں گیا تو بولی ۔
“شاہ میر کی نرمی نے اسے شیر بنا دیا ہے ۔ شاہ میراگر تھوڑی سی سختی اس پر کرتے تو یہ قابو میں ہوتی ۔ تمہاری وجہ سے میں بھی اسے کچھ نہیں کہتی تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ہتھے سے اکھڑ جائے ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا ۔
شاہ میر تو کچھ بول ہی نہیں رہا تھا ۔ اس کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا جیسے حریم داخل ہوئی اور ابھی تک وہ اپنی دھڑکنوں پر قابو نہیں پاسکا تھا ۔
حریم غصے سے میز کولات مرتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تو سلطانہ بیگم ایک دم اس کی
طرف لپکی۔ حریم جانتی تھی کہ سلطانہ بیگم زیادہ دیر تک اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتی ۔ اس کا مقصد انہیں غصہ ہی تو دلانا تھا۔
بڑے پر نکل آئے ہیں تیرے میں پر کاٹنے جانتی ہوں
سلطانہ نے اسے دھکا دے کر زمین پر گرایا اور لاتوں کی برسات شروع کر دیں ہمیشہ کی
طرح ۔
حریم کوئی مزاحمت نہیں کر رہی تھی ۔
اماں یہ آپ کیا کے رہی ہیں ؟ “شاہ میر فور کھڑا ہوا
میں جو کر رہی ہو مجھے کرنے دو اور یہ سب مجھے بہت پہلے کرنا چاہیے تھا بلکہ مجھے نہیں تمہیں کرنا چاہیے تھا ورنہ یہ آج اتنی بد تمیز نہ ہوتی اسے اپنی اوقات یاد دلاؤں گی میں ۔ ” سلطانہ بیگم جلدی سے کچن میں گئیں ۔ وہ اسی کوئے ڈنڈے نما چیز ان کے ہاتھ لگی ۔ انہوں نے واپس آکر حریم کو بہت بری طریقے سے اسی ڈنڈے سے مارنا شروع کر دیا۔
” اماں ” شاہ میر فور آگے بڑھا اور حریم کے اوپر گر گیا اُسے بچانے کے لیے ۔ ہٹ جاؤ میرے سامنے سے شاہ میر کوئی ضرورت نہیں ہے اس لڑکی سے ہمدردی
کرنے کی ۔ “سلطانہ بیگم نے شاہ میر سے کہا۔
شاہ میر نے سہارا دے کر حریم کو کھڑا کیا ۔
میں نے کہا چھوڑوا سے ۔ ” وہ آگے بڑھیں اور پھر سے ہماری پر حملہ کرنے کے لئے تیار ے دور کے ہیں اور سے جاری پر حملہ
ہوئیں ۔
شاہ میر نے حریم کو خد سے لگا کر بچانا چاہا۔ حریم نے اپنا سر شاہ میر کے سینے میں چھپا لیا ۔
سلطانہ بیگم یہ منظر دیکھ کر حیران ہو گئیں ۔
“شاہ میر تم اس لڑکی کی ڈھال بن رہے ہو؟ جس کے بھائی میں تمہارے بھائی کو مارا
ہے ؟؟؟ “سلطانہ بیگم نے کہا ۔
اماں جنید کا قتل ظفر نے کیا ہے حریم نے نہیں ۔ “شاہ میر نے تقریبا چیختے ہوئے کہا۔
لیکن ہمارے ساتھ ظلم تو ہوا ہے نا ۔ ۔ ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا ۔ “لیکن پھر بھی میں کہوں گا حریم کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔ ۔ ۔ “شاہ میرا اپنے دل کی زبان
بول رہا تھا ۔
“تمہاری جگہ پر کوئی اور ہو تا تو مر مار کر اس لڑکی کی درگت بنا چکا ہوتا اب تک ۔ پھر کیسے نہ
ظفر سامنے آتا ۔ ” سلطانہ نے کہا ۔
میں عورت پر ہاتھ اٹھانے کے حق میں بالکل بھی نہیں ہوں ۔ میں اسے یہاں مارنے کے لیے نہیں لایا اماں جان ۔ میں صرف اسی اس مقصد کے لیے لایا ہوں تاکہ میں ظفر تک پہنچ
سکوں ۔ “شاہ میر بولا۔ ” بنا سختی اور مار کے یہ کیسے بتائے گی ظفر کا پتہ تم خدسوچو۔ سلطانہ نے کہا ۔ ریم بھی شاہ میرے سینے میں سر چھپائے ہوئے تھی۔ سلطانہ نے آگے بڑھکر حریم کا ہاتھ کھینچا اور اسے شاہ میر سے الگ کیا ۔ پھر سے اُس پر حملا آور ہوئیں اور اس کے بال کھینچے ۔
اماں مجھے آپ سے ایسی اُمید نہیں تھی۔ شاہ میر نے دکھ سے کہا ۔ سلطانہ بیگم نے حریم کے بال چھوڑ دیے ۔ وہ غصے سے لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں ۔ شاہ میر نے حریم کو کاندھوں سے تھام لیا اور نوری کو آواز دی ۔
اسے اندر لیے جاؤ ۔ ” اس نے حریم کو نوری کے حوالے کرتے ہوئے کہا اور خد ایک زخمی نظر سلطانہ بیگم پر ڈالی اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
یہ کیا کر دیا آپ نے سردار بی بی میں نے آپ سے کہا بھی تھا خود پر قا بور کھیں ۔ آج کل آپ کو کیا ہوتا جا رہا ہے ؟ ” ساجدہ نے پریشان ہو کر کہا۔
“آج اُس لڑکی کی وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے بدگمان ہوا ہے ۔ ۔ ۔ میں چھوڑوں گی نہیں اسے ۔ ” وہ غصے سے بول رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا شاہ میر اپنا بیگ لیے باہر جا رہا ہے ۔ ” تم کہاں جارہے ہو شاہ میر ؟ “سلطانہ بیگم نے دکھ سے کہا.
یہ حویلی چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ وہ بولا اور باہر نکل گیا ۔ ۔
خیریت اتنی جلدی سے شہر واپس جا رہے ہو ؟ ” مراد نے پوچھا
“کب سے یہ سلوک ہو رہا ہے حریم کے ساتھ اس حویلی میں مجھے سچ سچ بتاؤ۔ ” شاہ میر نے سرخ آنکھوں سے پوچھا تو مراد سارا معاملہ سمجھ گیا۔
” جب جب تم شہر جاتے ہو ۔ ” مراد بولا ۔
اور مجھے بتانا بھی گوارہ نہیں کیا تم نے ؟ ” شاہ میر نے کہا ۔
اگر میں بتاتا تو کیا تم میرا یقین کرتے ؟ وہ تمہاری بیوی ہے ۔ ۔ ۔ کیا تم میں اس کے جسم کے نشانات نہیں دیکھے ہونگے ؟ ” مراد نے کہا تو شاہ میر کو وہ نشانات یاد آئے ۔ ۔ ۔ جن کے متعلق اس نے حریم سے پوچھا تھا اور اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ وہ سلپ ہو کر گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حسب معمول اسی نائٹ کلب میں بیٹھا ہوا تھا ۔ رشید واش روم چلا گیا تو اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔ پھر سے مشروب پینے میں مشغول ہو گیا کہ ایک ویٹر اس کے پاس آیا اور
ایک لفافہ اسے دیا ۔
“یہ آپ کے لئےکوئی دے کرگیا ہے۔ اس نے انگریز ی میں کہا اور چلاگیا ۔لفافہ کھولا۔ اس میں جو عبارت لکھی ہوئی تھی اسے پڑھ کر جیسے ظفر کے پیروں تلے سے
زمین سرک گئی تھی ۔ “شیر ہو تو اپنے کچھار سے باہر آؤ اور میرا مقابلہ کرو۔ تمہاری ایک بہت ہی قیمتی چیز میرے پاس ہے ۔ جسے تمہارے باپ سردار شاہ نواز نے میرے نکاح میں دیا ہے ۔ واپس لینی ہے تو میرے پاس آؤ۔۔۔ فقط شاہ میر ۔
وہ
ہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کون سی چیز کی بات کر رہا ہے شاہ میر ۔ اتنا تو اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ شامیر کو اس کی لوکیشن پتہ چل گئی ہے ۔ کیوں کہ کافی عرصے سے وہ اسی نائٹ کلب میں ایک مشکوک شخص کو دیکھ رہا تھا ۔ اور اس سوفیصد یقین تھا کہ یہ شاہ میر کا کوئی
جاسوس ہے ۔
لیکن وہ سوچ میں پڑ گیا کہ شاہ میر کون سی قیمتی چیز کی بات کر رہا ہے ؟
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ حریم کی بات کر رہا ہے ۔ اس نے دو تین بار پھر
وہی عبارت پڑھائی ۔
نکاح .. لفظ پر اس کی نظر میں اب ٹھہری ہوئی تھیں ۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک جھم کا ہوا۔
“حریم ۔ “
اس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہیں پا رہا تھا ۔
رشید واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔
اس نے دیکھا ظفر کے چہرے کا رنگ بلکل اُڑا ہوا ہے ۔
سائیں آپ ٹھیک تو ہیں ؟ ” رشید نے پوچھا ۔
بابا سائیں کو کال ملا کر دو مجھے ان سے بات کرنی ہے ۔ ظفر نے کہا ۔
“آپ کو جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھیں ۔ انہوں نے سختی سے منع کیا ہے کہ آپ کسی سے بھی فون پر بات نہیں کر سکتے ۔ ” رشید بولا ۔
“حریم کی یاد آرہی تھی ۔ اس سے بات کرنا چاہ رہا ہوں میں ۔ ظفر کا انداز معنی خیز تھا ۔ شاہ میر کا بھیجا ہوا پیغام ایک چال بھی ہو سکتا تھا اُسے واپس بلانے کے لیے ۔ ابھی وہ اتنی جلد ی کسی بھی بات کا یقین کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ خاص کر دشمن کے بھیجے ہوئے پیغام کا جب تک اس کی تصدیق خود نہ کرلے ۔
“حریم بیبی بالکل ٹھیک ہیں۔ سردار صاحب بتا رہے تھے کہ جلد ہی ان کا ولید سائیں سے نکاح ہونے والا ہے ۔ “رشید نے خوش ہونے کی بھر پور اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔
ظفر سوچ میں پڑ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے بہت برا محسوس ہو رہا ہے ۔ میری آنکھوں کے سامنے اسے مارا گیا گھسیٹا گیا اس کے بال کھینچے یہ منظر میرے لئے اتنا دکھ کا باعث ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ وہ میری بیوی ہے اور میں نے خود کبھی اس کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہیں کیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اماں اس کے ساتھ سختی کرتی ہیں لیکن اتنا برا سلوک کرتی ہوگی میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔
شاہ میر بولا۔
” یہ تو کچھ بھی نہیں اس سے آگے جو ہوا وہ تو تم سن ہی نہیں سکتے ” مراد بولا۔ اس سے اور برا کیا ہو سکتا ہے اس کے ساتھ ؟ ” شاہ میر بولا۔
اتنا برا ہوا ہے ۔ جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے ہو ۔ ” مراد نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
” بتاؤ مجھے ۔ ” شاہ میر بولا۔
“تمہاری عزت کو تمہاری ماں گھسیٹتے ہوئے مردوں کے بیٹھک تک لے گئیں ۔ اور سب کے سامنے اس کے تن سے اس کی چادر جدا کی ۔ اُسے زمین پر پھینک کر مارا ۔ ۔ ۔ شاہ میر اُن دو کوڑی کے مردوں کے بیچ جن کی نظریں تمہیں دیکھ کر خوف سے جھک جاتا کرتی ہیں ۔ جو مر دسارا دن تمہارے کام کرتے ہیں ۔ جو آتے جاتے تمہیں سلام کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ان مردوں کے بیچ تمہاری عزت کو گھسیٹا گیا ۔ مارا گیا اس کی چادر چھین لی ۔ کیا عورت یہی ہے سردار شاہ میر رسلطان کی حویلی میں ایک عورت کی عزت ؟؟ عورت بھی وہ جو سر دار کے نکاح میں ہو ۔ ۔ ۔ کیا تم اسے اس لیے اس حویلی میں لائے تھے کہ مردوں کے سامنے ذلیل کر سکو ؟؟؟ کیا گزری ہوگی اس مظلوم لڑکی کے دل میں اس وقت تمہیں اندازہ ہے ؟؟؟ کیا سوچ رہی ہوں گی وہ کس بات کی سزا مل رہی ہے اسے جبکہ اس نے کچھ کیا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ نہ اس نے جنید کا قتل کیا ہے نہ کروایا ہے ۔ اُسے صرف اس بات کی سزادی جارہی ہے کیونکہ وہ ظفر کی بہن ہے ؟ اگر میں اس وقت وہاں موجود نہ ہوتا تو تمہاری ماں
نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس بیچاری کو ذلیل کرنے میں ۔ پر تمہاری ماں نے یہ سب صرف اس لئے کیا کیونکہ تم نے کہا تھا کہ کسی نامحرم کی نظر نہیں پڑھنی چاہیے حریم پر ۔ اسی بات کا بدلہ لینے کے لئے اتنے سارے نامحرم مردوں کے سامنے بنا چادر کے پھینک دیا تمہاری ماں نے اسے ۔ بلکہ سب سے پہلے تو مجھے بھلا کر بھا بھی کو میرے پاس اچھال دیا ۔ ۔ ۔ بلکہ یوں کہوں کہ مجھے پیش کر رہی تھی تمہاری ماں تمہاری بیوی کو ۔ لیکن میں نے تمہیں اس وقت یہ بات نہیں بتائی کیونکہ تم مجھ سے
بھا بھی کولے کر پہلے ہی ناراض
تھے ۔ ” مراد نے کہا تو شاہ میر کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔
اماں ۔ ۔ ۔ ۔ نے ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ؟؟؟؟ ” بہت مشکل سے شاہ میر نے یہ الفاظ
ادا کیے تھے ۔ شاہ میر کو گا اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی ۔
وہ ایک دم سے سلطانہ بیگم کے پاس جانے کے لیے مڑا تو نوری بھاگتی ہوئی آئی۔ شاہ سائیں آپ کی بیوی بے ہوش ہو گئی ہے ۔ “نوری نے پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہا تو شاہ میراک دم اُس کے پاس بھاگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دیکھا کہ رشید گہری نیند سو رہا ہے ۔ بنا کوئی آواز پیدا کیے اس نے اپنا سارا سامان پیک کیا ۔ اپنا پاسپورٹ اٹھایا اور نقدی اٹھائیں اور وہ اسے آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر
نکل آیا ۔ اس کی بس ہو گئی تھی وہ مزید اس قید میں نہیں رہ سکتا تھا اس لئے وہ واپس جا رہا تھا اب جو
ہوگا دیکھا جائے گا ۔ ۔ ۔ وہ یہی سوچ کر جا رہا۔
رشید جب نیند سے اٹھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے یہ دیکھ کر کہ نہ سفر فلیٹ میں موجود ہیں
نہ اس کا سامان نہ اس کا پاسپورٹ ۔
اس نے فوراً شاہنواز کو کال ملائی ۔
میں نے تم سے کہا تھا اس پر کڑی نظر رکھنا نکل گیا نا وہ تمہارے ہاتھوں سے ۔ ۔ شاہ
نواز دھاڑے ۔
“مجھے لگتا ہے انہوں نے مجھے کوئی نیند کی گولی کھلادی تھی کسی چیز میں ڈال کر ورنہ میں نیند میں بھی چوکنا رہتا ہوں ۔ ” رشید بولا۔
اب وہ یہاں شاہ میر کے ہاتھوں مارا جائیگا ۔ ۔ ۔ رشید میرا ایک ہی بیٹا ہے اور تم اُس کی نگرانی نہ کر سکے ۔ “شاہ نواز نے غصے سے فون کاٹ دیا۔
مبارک ہو آپ کی وائف پریگنینٹ ہیں ۔ ” ڈاکٹر ثوبیہ نے حریم کا چیک اپ کرنے کے بعد کہا
ڈاکٹر ثوبیہ علاقے کے سر کاری میں تعینات تھیں ۔ اور شاہ میر انہیں حریم کا چیپ کرنے
کے لیے حویلی لیکے آیا تھا ۔
حریم ہوش میں آچکی تھی۔
بد کردار لڑکی ، بتا کس کا گناہ لیکے آئی ہے ہمارے گھر میں ؟ “ڈاکٹر ثوبیہ کے جانے کے
بعد فوراً سلطانہ بیگم اُس پر جھپٹ پڑیں ۔
امان ، پلیز بس کر دیں ۔ ” شاہ میر نے انہیں روکا۔
بس کر دوں ؟ ؟ ؟ اتنی بڑی بات پر بس کر دوں ؟؟؟ تم میں ذرا سے بھی غیرت ہے تو ابھی کے ابھی اسے قتل کر وہ کیا اب بھی اس کردار لڑکی کو یہ اس سے بھی
اماں وہ بد کردار نہیں ہے ۔ ” شاہ میر نظریں چراتے ہوئے بولا تو سلطانہ کو سانپ سونگھ
گیا۔
“شاہ میر ۔ ۔ ۔ تم ۔۔۔ تم اپنے بھائی کا خون بھول گئے ؟ ؟؟ ؟ ؟ مجھے یقین نہیں آرہا ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ تم اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گئے ؟ ؟ ؟ تم ۔ ۔ ۔ ایسا کیسے کر سکتے ہو شاہ میر ؟ ؟ ؟
میر اسارا کیا کرایا مٹی میں ملا دیا تم نے ۔ مجھے برباد کر دیا تم نے ۔ ۔ ۔ کیا اتنا ارضاں تھا
میرے جنید کا خون تمہارے لیے ؟؟ کے ایک لڑکی کے حسن کو دیکھ کر تم اپنے بھائی کا
خون بھول گئے ؟ “
سلطانہ بیگم صدمے سے بول رہی تھیں۔
حریم کو اس وقت اُن کی یہ حالت دیکھ کر بہت سکون مل رہا تھا ۔
میں کچھ نہیں بھولا اماں ۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں بھولا مجھے سب یاد ہے ۔ “شاہ میر بولا۔ تو پھر یہ بچہ ؟؟؟؟ کیا تمہیں چاہیے یہ بچہ ؟ اس لڑکی سے تمہیں وارث چاہیے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ ۔ میں ایسا ہونے نہیں دونگی۔ بہت کرلی تم نے اپنی من مانی ۔ ۔ میں کسی قیمت پر اس لڑکی کو اپنی بہو کے روپ میں تسلیم نہیں کر سکتی اور نہ ہی تو اس بچے کو اس حویلی میں
ملنے دوں گی ۔ “سلطانہ بیگم غصے سے پاگل ہو گئی تھیں۔
نوری حریم کو میرے کمرے میں جا کر سلادو۔ شاہ میر نے نوری سے کہا۔ ” ہر گز نہیں ۔ ۔ ۔ اگر تم نے اس لڑکی کو قبول کر لیا تو پھر میں اس حویلی میں نہیں رہوگی میں یہ حویلی چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ آخر تم نے ثابت کر ہی دیا نہ کہ جنید تمہارا سوتیلا بھائی تھا اگر اس کا سگا بھائی ہوتا تو یقیناوہ ایسا نہ کرتا۔ “سلطانہ بیگم نے اب رونا شروع کر دیا تھا ۔
ان کا آخری جملہ شاہ میر کے ایک دم دل پر لگا تھا۔
حریم نے ایک فاتحانہ نظر سلطانہ بیگم پر ڈالی اور نوری کے ساتھ شاہ میر کے کمرے میں
چلی گئی۔
آپ کمرے میں چلیں اماں ۔ شاہ میر سلطانہ بیگم کو شانوں سے تھام کر ان کے کمرے
میں لے آیا ۔
” نہیں ہوں میں تمہاری ماں مرگئی میں تمہارے لئے آج کے بعد مت کہنا مجھے اپنی
اماں ۔ ۔ ۔ ۔ “سلطانہ بیگم نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔
” اماں دو منٹ آرام سے بیٹھ کر میری پوری بات سن لیں ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ ۔ ۔ نہیں سنی ہے مجھے تمہاری کوئی بات۔ شاہ میر تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے ۔
میں نےآپ سے کہا تھاکہ میری عزت کی حفاظت کریں اور آپ میری عزت کو مردوں کے بیٹھک تک لیکر گئیں جو میرے
سامنے اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتے ۔ کون کون نہیں تھا وہاں پر مجھے بتائیں ۔ میرے ملازم ، میرے ڈرائیور، میرے کسان ، میرے منشی ، میرے چوکیدار، میرے دور پرے کے غریب رشتہ دار ۔ ۔ ۔ میری بیوی کو ان سب کے قدموں میں ڈال کر ۔ ۔ ۔ اس کے تن سے اُس کی چادر کھینچ کر ۔ ۔ ۔ بہت مایوس کیا ہے آپ نے مجھے ۔۔
میری بیوی کو میرے ہی دوست کے سامنے پیش کر کے ۔ ۔ ۔ بہت مایوس کیا ہے آپ
نے ۔ ۔ ۔ ” شاہ میر نے دکھ سے کہا تو سلطانہ بیگم کو سانپ سونگھ گیا۔ جھوٹ بول رہی ہے وہ لڑکی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا وہ تمہیں مجھ سے بدگمان کرنے کے لئے چال چل رہی ہے ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا۔
دکھ تو اس بات کا یہ کے اس لڑکی نے مجھ سے ایک لفظ تک نہیں کہا اس سارے واقعے کے بارے میں ۔ ۔ ۔ سلام ہے اس لڑکی کے صبر کو جس نے اتنا ظلم برداشت کیا ۔ شاہ
میر بولا۔
“مجھے لگتا ہے مراداس لڑکی کے عشق میں اندھا ہو گیا ہے اور اس نے تم سے یہ جھوٹ کہا ہے ۔ “سلطانہ بیگم سمجھ گئی کہ یہ سب مراد نے بتایا ہے ۔ اسی لئے الٹا مراد پر الزام لگانا
شروع کردیا
کہتی ہیں نا کہ میں نے سگا بیٹا ہونے کا ثبوت نہیں دیا ۔ ۔ ۔ مجھے صرف ایک بات کا جواب دیں۔ اگر میری بیوی کی جگہ جنید کی بیوی ہوتی تو کیا آپ اسے بھی اسی طرح سے مردوں کے پاس لے کے جاتیں ؟ “شاہ میر بولا۔
شاہ میر تم سمجھ نہیں رہی یہ سب چال چل رہے ہیں ۔ مراد اور حریم آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہ ان دونوں کی پلاننگ ہے تمہیں مجھ سے الگ کرنے کے لیے ۔ “سلطانہ بیگم کب
ہار ماننے والی تھیں ۔ میں حریم کو اپنے ساتھ شہر لے کر جا رہا ہوں ۔ “شاہ میر نے کہا۔ اور بدلہ ؟ ؟ ؟ کون لیگا میرے بیٹے کے خون کا بدلہ ؟ “سلطانہ بیگم نے کہا۔ ” میں نے بساط بچھا دی ہے۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ ظفر کہا ہے ۔ بس اب کتے کو ہڈی پھینکنی ہے ۔ خود بخود ہڈی کھانے کے لیے اب باہر نکل آئے گا ۔ “شاہ میر نے کہا تو
سلطانہ بیگم کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔
کہاں ہے
لاس اینجلس اور معلومات کے مطابق وہ اب تک وہاں سے
پاکستان کے لیے نکل چکا ہو گا ۔ شاہ میرا نے کہا ۔
“تمہیں یقین ہے وہ آئیگا ؟ ” سلطانہ بیگم نے کہا ۔ اگر اسے اپنی بہن سے محبت ہے تو آئے گا ۔ خود چل کر آئے گا ۔ اور اگر اسے اپنی جان پیاری ہے تو مجھے جل کر اس کے پاس جانا پڑیگا ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔
ٹھیک ہے ظفر کو قتل کرنے کے بعد تمہیں ہر حال میں حریم کو چھوڑنا ہوگا ۔ پھر تمہارے
بچہ تمہاری خاندانی بیوی کو دے دوں گی ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا۔ شاہ میر نے اُن کی بات سن کر اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے کاٹنے لگا۔
“تم ہارگئی ہو حریم ۔ ” حلیمہ نے گرم دودھ اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تو وہ سمجھ نہیں
پائی ؟ ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں آپ؟ شاہ میری طرف داری کر رہا ہے اپنی ماں کے خلاف ہو گیا ۔ اتنا سب کچھ ہو گیا شاہ میر کی ماں کی اصلیت اس کے سامنے آگئی ۔ میری جیت آپ کو
ہار لگ رہی ہے ؟ ” حریم نے کہا۔
یہ بچہ تمہاری ہار ہے۔ “حلیمہ بولی
سمجھی نہیں ۔ “حریم نے کہا۔
” میں
“شاہ میر تمہارے ساتھ کھیل کھیل نہیں رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ کھیل چکا ہے ۔ ۔ ۔ وہ تمہیں ہارا چکا ہے حریم ۔ وہ جیسا چاہتا تھا ویسا ہی ہوا ۔ ۔ وہ تم سے بچہ چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ تاکہ تمہارے بچے کو تم سے چھین لے ۔ اور جب تک تم اُسے ظفر تک رسائی نہ دے دو وہ بچہ تمہیں نہیں دیگا ۔ ۔ ۔ “حلیمیہ کے انکشاف پر حریم حیران ہوگئی ۔ ۔ ۔
“شاہ میر بدلے کے لیے اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتا ۔ “حریم بولی۔ یہاں پر لوگ ہیں ہیں سالوں تک بدلہ کیلئے انتظار کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ نوماہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ “حلیمہ نے کہا۔
ان نوماہ میں بہت کچھ بدل سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ابھی میں ہار نہیں مانوں گی ۔ اور جہاں تک بچے کی بات ہے ۔ ۔ ۔ تو جو بھائی میری جان بچانے کے لیے سات سمندر پار کر کے یہاں پہنچ سکتا ہے تو میں بھی اس بھائی کے لئے اپنا بچہ قربان کر سکتی ہوں ۔ “حریم نے کہا ۔
اس کا مطلب تم جانتی ہو ظفر کہاں ہے ؟ ” حلیمہ نے کہا ۔
“مجھے سر درد کی گولی لا دو ۔ “حریم حلیمہ کا سوال گول کر گئی۔
شاہ میر کمرے میں آیا تو حریم لیٹی ہوئی تھی اور نوری اس کے سرہانے بیٹھی اس کا سر دیا
رہی تھی۔
نوری حریم کا اور اپنا سامان اٹھاؤ ۔ ہم ابھی شہر جا رہے ہیں تمہیں حریم کے ساتھ رہنا ہے
وہاں ۔ “شاہ میر نے نوری کو ہدایت دی ۔
کیا سچ میں شاہ سائیں میں شہر جاؤں گی ؟ ” نوری خوشی سے بولی ۔ ہاں جلدی کرو ہمیں دیر ہو رہی ہے ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔
حریم حیرت سے شاہ میر کو دیکھ رہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی اسے اپنے
ساتھ شہر لے کر جا رہا ہے۔
( شکر اس سلطانہ بیگم سے تو میری جان چھوٹ جائے گی ۔ ) حریم نے سوچا۔ وہ کام کر کے کام کی عادی تو ہو گئی تھی مگر اب وہ آرام کرنا چاہتی تھی اور اسے بہا نہ مل گیا ۔ ورنہ اُسے لگ رہا تھا کہ شاہ میرا اسے حویلی میں چھوڑ کر جائے گا اور پھر سلطانہ بیگم اس حالت میں بھی اس سے کام کروائیں گی ۔
شاہ میر کی ویگو شہر کی طرف رواں دواں تھی ۔ مراد ڈرائیونگ کر رہا تھا اور نوری اور حریم
پیچھے بیٹھی ہو ئیں تھیں ۔ حریم کے ذہن حلیمہ کی باتیں گونج رہیں تھیں ۔ کیا واقعی وہ صرف اپنے بچے کے لئے مجھے شہر لے کر جارہا ہے ؟ یا پھر اس کے دل میں میرے لیے کوئی جگہ بن گئی ہے ؟ یا مجھے وہ سلطانہ بیگم کے مظالم سے بچانے کے لئے لے کر جا رہا ہے ؟ ) حریم سوچ رہی تھی اور کھڑکی سے باہر دیکھتی جا رہی تھی ۔ شاہ میر نے تب سے لے کر اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
مجھے امید نہیں تھی کہ یہ شخص میری ڈھال بنے گا اگر کوئی مجھے مارے تو ۔ ۔ ۔ لیکن کیسے یہ میری تکلیف پر تڑپ اٹھا اور اس نے مجھے بچایا ۔ حالانکہ مجھے لگا تھا کہ سلطانہ بیگم کے سامنے وہ بول نہیں سکتا تھا ۔ مگر وہ بولا اور میرے لئے بولا ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں۔ جب یہ بات مانتا ہے کہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں تو پھر وہ کیوں
مجھے سزا دینا چاہ رہا ہے ؟ ( حریم اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہی تھی ۔
لیکن جو بھی تھا وہ اس وقت بہت پر سکون تھی ۔ یہ سوچ کر کے سلطانہ کے ظلم سے اور حویلی کے کام کاج سے اسے آرام ملنے والا ہے اب ۔ اور اس کی اگلی سیٹ پر بیٹھا شخص ۔ ۔ ۔ وہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ یہ کیسا ہے۔ مہر بان ہے
شاہ میر حویلی واپس جائے گا بھی کہ نہیں ۔ کیونکہ جس طرح کی تیاری کر کے وہ حویلی سے نکلا
تھا اس سے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ جلدی واپس آنے والا ہے ۔
اگر وہ سلطانہ بیگم سے ملنے کے لیے نہیں بھی آنا چاہے تو اپنے والد سے ملنا ہی پڑتا ہے
سوچتے سوچتے یہ طویل سفر بھی اختتام پذیر ہوا اور گاڑی اس گھر کے سامنے آکر رکی۔
چوکیدار نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی ۔
یہ نئے طرز کا بہت ہی خوبصورت بنگلہ تھا ۔ بہت زیادہ بڑا نہیں تھا ۔ گاڑی سے اتری تو احساس ہوا کہ وہ تھکن سے چور ہے ۔ اتنے عرصے بعد شہر آنے کا احساس اس کے لیے بہت خوش کن تھا۔ اس کے اندر جیسے ایک نئی توانائی آگئی تھی۔
پچھلے جتنے مہینے جس ٹروما میں وہ رہی بالآخر اس سے نکل آئی تھی۔
یہ خوشی صرف شہر آنے کی حویلی سے آزادی کی نہیں تھی ۔ یہ خوشی اس بات کی بھی تھی کہ اب اس کا باربارشاہ میر سے سامنا ہو گا۔ اپنی مسکراہٹ دبانے کی بھر پور کوشش کر رہی
تھی ۔ اگر شاہ میر نے دیکھ لیا تو یقینا اس کا مذاق اڑائے گا۔
ہ سے نظریں نہی ملا پا رہا تھا ۔ جوکچھ مراد نے اُسے بتایا تھا
اس کے بعد اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ حریم کا سامنا کر سکے ۔ حریم کو لگ رہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اسے اگنور کر رہا ہے ۔ مگر اب اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی۔ اب سے اپنی پوزیشن کافی مضبوط لگ رہی تھی. ایک تو یہ کے وہ سلطانہ بیگم کا پتہ کاٹ چکی تھی۔ ان کی اصلیت شاہ میر کی نظروں میں ظاہر کر چکی تھی ۔ اور اب وہ اسے وارث دینے والی تھی ۔
Aoa apka novel buhat Acha hay ye wala b… But Haifa or Zunaisha wala novel kyu roka hwa hay apne? 30 SE agay episodes kyu Nahi ayen??? Please start it again.
achaa ji
We are addicted of Ur beautiful novels. Please upload new episodes of Zunaisha and haifa
Dear wo end ho gya hai