Badnaseeb Beti Part 7 takes the story into a deeper emotional phase where secrets are revealed, relationships are tested, and the truth becomes harder to hide. This chapter is part of the growing collection of free PDF stories that readers can enjoy anytime, anywhere.
With a mix of romance, pain, and bold social themes, this novel connects with real-life emotions. Written in clean, readable Urdu font, it offers a smooth reading experience whether you’re online or offline.

Badnaseeb Beti Part 7 – Free PDF Stories | Bold Urdu Novel in Urdu Font
Read here Badnaseeb Beti Part 6 – New Best Urdu Novel 2025
وہ گھر کے اندر داخل ہوئے ۔
سائیں مجھے شہر گھمائیں گے نا ؟ ” نوری نے پر جوش ہو کر پوچھا ۔ پہلے پہنچ تو جاؤ ٹھیک طریقے سے ۔ “شاہ میر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ سائیں میں نے سنا ہے کہ یہاں سمندر ہے مجھے سمندر دیکھنا ہے ۔ ” وہ پھر بولی۔
اس مرتبہ شاہ میر نے کوئی جواب نہیں دیا صرف مسکرا دیا اس کی بات پر ۔ اس کمرے میں لے جاؤ حریم کو ۔ شاہ میر نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو نوری نے سہارا دے کر حریم کو وہاں بٹھا یا اور اس کا سامان بھی اسی کمرے میں رکھ
دیا ۔
وہ آرامدہ بیڈ میں لیٹ گئی اور سکون کا سانس لیا ۔ میرے رب تیرا شکر ہے تو نے میری مدد کی ۔ شاہ میر کے ارادے چاہے جو بھی ہو لیکن تیرا ارادہ سب پر بھاری ہے ۔ بس تو ہم غریبوں پر رحم
کرنا اور ہمارے حالات اچھے کر دے ۔
بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوئے حریم نے دل سے دعا کی۔ تھوڑی دیر بعد شاہ میر اندر داخل ہوا۔
جا کر کچن میں دیکھو ضمیر نے کھانا تیار کر دیا ہے تو حریم کے لئے لے آؤ۔ “شاہ میر نے کہا۔
نوری کچن میں چلی گئی۔ وہ آکر حریم کے سامنے کھڑا ہوا۔
حریم نے ناراض کیے چہر ہ دوسری طرف پھیر دیا ۔
شاہ میر اُس کے قریب آکر بیٹھ گیا تو وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔
” آرام سے ۔ ۔ ۔ کہاں جا رہی ہو ؟ کھا نہیں جاؤنگا میں تمہیں بیٹھ جاؤ۔ “شاہ میر نے اُس کا
ہاتھ پکڑ لیا ۔
تم مجھے دھوکہ دے رہے ہو
حریم بولی اور اپنا ہاتھ چھڑانے لگی ۔
شاہ میر نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا بلکہ وہ کھڑا ہو گیا ۔
وہ تو میں جان ہی گیا ہوں کہ تم بیوقوف نہیں ہو ۔ مگر مجھے صرف ایک سوال کا جواب دے
دو۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
کونسا سوال ؟ حریم بھی اس کی آنکھوں میں ہی دیکھ رہی تھی۔
کیا وہ محبت واقعی ایک ڈراما تھا ؟ ” شاہ میر نے پوچھا ۔
اگر یہی سوال میں تم سے کرو تو ؟ پھر جو تمہارا جواب ہو گا وہی میرا جواب ہوگا ۔ “حریم نے کہا تو اگلے ہی پل شاہ میر نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا ۔
حریم ۔ ۔ ۔ میں خود کو تم سے محبت کرنے سے روک نہیں پایا ۔ میں نے ہزار بار دل کی آواز کو دبانا چاہا۔ اپنے جذبات کا گلا گھونٹنا چاہا۔ ہر بار اس محبت سے انکار کیا مگر ۔ ۔ ۔ حریم سر دار شاہ میر سلطان آج تمہارے سامنے یہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ تم سے پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوا تھا ۔ اور تب سے لے کر اب تک وہ مکمل طور پر تمہاری محبت میں ڈوب
چکا ہے ۔ ” شاہ میر شدت جذبات سے بولے جا رہا تھا۔
حریم اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہیں تھی جہاں اسے سچائی نظر آ رہی تھی۔
یہی میرا جواب ہے اور اور اگر یہی تمہارا جواب نہ ہوا تو میرا دل بہت برے طریقے سے ٹوٹ جائے گا۔ تمہاری محبت نے مجھے تم سے محبت کرنے پر مجبور کر دیا اور میں ہار گیا ۔ اُس
ہفتے جتنی محبت تو نے مجھ پر نچھاور کیں اس محبت نے مجھے تمہارا دیوانہ بنا دیا۔ میں یہاں واپس آکر ہر پل ہر لمحے تمہارے بارے میں سوچتا رہا۔ ہر پل اس بات سے انکار کر تا رہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے اس لڑکی سے محبت ہو جائے گی جس سے میں نفرت کرتا تھا صرف اس
وجہ سے کہ اس کا بھائی میرے بھائی کا قاتل ہے ۔ مگر حریم میں بھی انسان ہوں ۔ اس محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ تم میری بیوی ہو ۔ اور اسی رشتے کی وجہ سے میں تمہاری طرف صرف کھچا چلا آتا تھا۔ اب مجھے مت ٹھکرانا ۔ شاہ میر نے کہا تو حریم کچھ بول ہی نہیں
پائی۔۔
“حریم میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں ۔ ” شاہ میر نے پھر کہا تو حریم روتے ہوئے اُس سے لپٹ گئی ۔
میں نے کہا تھا جو تمہارا جواب ہو گا وہی میرا جواب ہے ۔ ” وہ روتے ہوئے بول رہی
تھی۔
حویلی میں جیسے موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سلطانہ بیگم کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی خطبی دیوانہ ہو۔ وہ لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے سر پر دوپٹہ بندھا ہوا تھا ۔ جیسے کہ عموما گاؤں کی
عورتیں سر درد کی وجہ سے باندھ دیتی ہیں۔ ان کے سر ہانے بیٹھی ساجدہ ان کا سر دبا رہی تھی ۔ کائنات بھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
“لے گی نہ وہ لڑکی شاہ میر کو بالآخر کیسے برداشت کر سکتی ہوں میں کہ ظفر کی بہن شہر میں جا کر میرے بیٹے کے ساتھ عیش کرے ۔ اگر مجھے پتا ہوتا کہ وہ لڑکی اتنی شاطر ہے تو میں اسے کبھی بھی خون بہا میں نہ مانگتی ۔ میں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے اس لڑکی کو اس حویلی میں لاکر ۔ ” سلطانہ صدمے سے بولی جا رہی تھی۔
“خالہ آپ کا بی پی ہائی ہے زیادہ ذہن پر زور مت ڈالیں ۔ آپ کہیں تو میں شاہ میر کو فون کرتی ہوں کے آپ کی طبیعت صحیح نہیں ہے ۔ ” کائنات نے کہا۔
ہاں کروا سے فون ۔ کہو کہ مر رہی ہوں ہیں۔ تاکہ وہ اس لڑکی کو وہاں پر چھوڑ کر آ جائے میرے پاس ۔ میں اسے دکھانا چاہتی ہوں کہ شاہ میر دل میں میرا کیا مقام ہے۔ وہ کیا سمجھتی ہے کہ وہ شاہ میر کو مجھ سے چھین لے گی ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے ۔ اس نے ابھی میری طاقت دیکھی ہی نہیں ہے ۔ “سلطانہ بیگم نے کہا تو کائنات نے انہیں کے فون
سے شاہ میر کو فون ملایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آؤ تمہیں تمہارا گھر دکھاتا ہوں ۔ “اگلے دن شاہ میر نے حریم سے کہا ۔ اور اسے شانوں
سے تھام کر گھر دکھانے لگا ۔
” بہت خوبصورت گھر ہے ۔ “گھر دیکھنے کے بعد حریم بولی ۔
شاہ میر نے اسے ٹی وی لاؤنج میں موجود صوفے پر بٹھایا ۔ اور ٹی وی آن کیا ۔ حریم کو عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا اتنے عرصے کے بعد ۔ نہ اس سے یہ پریشانی تھی کہ اسے کام کرنا ہے ۔ نہ سلطانہ بیگم اس کے سر پر سوار تھی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ شاہ میر اس کے پاس تھا ۔ اس کے ساتھ تھا۔
میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے تم سے محبت ہو جائے گی ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ مجھے تم سے
ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ میں ایک بار پھر سے دھوکا کھا رہی ہوں ؟ مگر اس بار مجھے لگتا
ہے کہ یہ سچ بول رہا ہے۔
حریم نے شاہ میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ریموٹ سے ٹی وی کے چینل بدل رہا تھا ۔ “کوئی مووی دیکھوگی ؟ ” شاہ میر نے پوچھا.
نہیں میرا کچھ بھی دیکھنے کا دل نہیں کر رہا۔ تمہیں جو دیکھنا ہے دیکھو۔ “حریم نے کہا ۔
میں تو بس تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں اجازت دے دو سارا دن دیکھتا رہوں تمہیں ۔ ” شاہ
میر نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔
اچھا پھر اگر میرا دل کرے تمہیں دیکھنے کو تو ؟ “حریم بولی۔ ” تو دیکھ لوکس نے منع کیا ہے ۔ بندہ حاضر ہے ۔ “شاہ میر بولا ۔
کیا تم میری خاطر ادا سائیں کو معاف نہیں کر سکتے. ؟ ” نہ چاہتے ہوئے بھی حریم نے
پوچھا ۔
اس نے دیکھا کہ اس کے سوال پر شاہ میر کے چہرے کا رنگ بالکل تبدیل ہو گیا ۔ میں تمہاری محبت میں کچھ بھی کر سکتا ہوں حریم اپنی ماں کو ناراض کر کے تمہیں یہاں لایا ہوں ۔ لیکن مجھ سے ظفر کو معاف کرنے والی بات آئندہ نہ کرنا ۔ وہ مرے گا اور میرے ہاتھوں مرے گا۔ اور خود کو اس بات کیلئے تیار کر لو ۔ ” شاہ میر نے سخت
تاثرات کے ساتھ کہا تو حریم کا دل ڈوب گیا۔
پھر میں اپنے بھائی کے قاتل کے ساتھ کیسے زندگی گزاروں گی ؟ “حریم نے کہا ۔ جیسے میں گزارنے پر مجبور ہو گیا ہوں اپنے بھائی کے قاتل کی بہن کے ساتھ زندگی گزار نے
میں ۔ میں محبت کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہوں ۔ میں چاہ کر بھی تمہیں نہیں چھوڑ سکتا ۔ تم مجھے زندگی میں ملنے والی سب سے الگ لڑکی ہو ۔ جو میری بیوی پہلے بنی اور محبوبہ بعد میں ۔ تمہاری
تمہاری ۔ ہر اداہر بات ۔ ۔ ۔ تمہارا غصہ تمہارا پیار ۔ ۔ ۔ تمہارا حسن اور تمہاری بہادری ۔ ۔ ۔ کیا کچھ نہیں پسند ہے مجھے تم وہ پہلی انسان ہوں جس کی وجہ سے میں نے اماں کو ناراض کیا ہے ۔ ورنہ آج تک ان کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو میں نے مانا نہیں ہو ۔ “شاہ میر نے
کہا تو حریم سوچ میں پڑ گئی ۔
کیا واقعی یہ شخص میرے بھائی کو مار دے گا ؟ ۔ ۔ ۔ لیکن میرے بھائی نے بھی تو اس کے
بھائی کو مارا ہے ۔ ضرور اسے بھی اپنا بھائی ایسے ہی عزیز ہوگا جیسے مجھے میرا بھائی ۔ اور اس کے باوجود یہ میرے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تو پھر میں کیوں نہیں ۔ ۔۔ نہیں نہیں میں ادا سائیں کے متعلق ایسا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ میں نے اتنی بڑی قربانی دی ادا سائیں کی جان بچانے کے لیے لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ میری ساری قربانی رائیگاں گئی۔ اگر یہ لوگ خون بہا لے کر خاموش ہو جاتے تب میری قربانی رنگ
لاتی ۔ (
حریم سوچ رہی تھی ۔
“حریم میں بھی زہر کا یہ گھونٹ پی گیا ۔ ۔ ۔ محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ۔ ۔ ۔ اور تمہیں اپنا لیا ۔ ۔ ۔ اب زہر کا ایک گھونٹ تمہیں بھی ہر حال میں پینا ہے ۔ ۔ ۔ کیونکہ ظفر تک یہ خبر
پہنچ گئی ہے کہ تم میرے پاس ہو ۔ ” شاہ میر نے کہا تو حریم کا دل کسی بے لگام گھوڑے کی
مانند دوڑنے لگا ۔
یعنی کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ لیکن یہ بات ادا سائیں سے زیادہ دیر تک چھپی ہوئی نہیں رہ
سکتی تھی.
حریم کو اپنی حالت غیر ہوتی محسوس ہو رہی تھی اب ۔
کیا ہوا ۔ شاہ میر نے اس کے اڑے ہوئے رنگ کی طرف دیکھا تو پوچھا۔
” میرا سر چکرا رہا ہے ۔ “حریم نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.
“چلو تم آرام کرو ۔ میں تمہیں کمرے تک لے کر جاتا ہوں “شاہ میر نے سہارا دے کر
اسے اٹھایا اور کمرے میں لے کے آیا ۔
تم اپنے ذہن پر زیادہ زور مت دو اس وقت ۔ شاہ میر نے کہا اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھااے
احساس ہوا کہ اسی فلحال حریم کے سامنے اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہیے اس کی کنڈیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔
شامیر نے نوری کو آواز دی اور حریم کے لئے چائے بنانے کو کہا ۔ اور خود اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
ایسا کرتے ہیں کل شاپنگ پر چلتے ہیں۔ تمہیں ضرورت ہو گی بہت ساری چیزوں کی ۔ ” شاہ میر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہوئے کہا ۔ وہ بس موضوع چینج کرنا چاہ رہا
تھا کہ حریم کی حالت نارمل ہو سکے ۔
ہاں میں باہر نکلنا چاہتی ہوں ۔ کب سے حویلی میں قید تھی ۔ “حریم نے کہا ۔ شامیر کے ساتھ شاپنگ کرنے کا تصور اس کے لئے بہت خوش کن تھا ۔ ایک طرف زندگی حسین ہو گئی تھی تو دوسری طرف پریشانی تھی۔
یا خدا یا کوئی ایسا معاملہ کر دے کہ ہم سب خوشی سے رہیں.) حریم نے دل سے دعا کی ۔ اتنے میں شاہ میر کا فون بجا فون سنتے ہی وہ چونک کر کھڑا ہو گیا ۔ کیا ؟ اچھا میں بھی نکل رہا ہوں ۔ شاہ میر بولا اور فون کاٹ دیا ۔
کیا ہوا شاہ میر خیر تو ہے کس کا فون تھا ۔ اماں کی طبیعت صحیح نہیں ہے مجھے جلدی جانا ہو گا حویلی ۔ ” شاہ میر نے پریشانی سے کہا ۔ “لیکن آپ مجھے اس حالت میں اکیلیے کیسے چھوڑ کر سکتے ہیں میں بھی آپ کے ساتھ چلوں
حریم نے کہا ۔
” تم ابھی اتنا لمبا سفر کر کے آئی ہوں بار بار تمہارا سفر کرنا اس حالت میں صحیح نہیں ہے ۔ میں دو تین دن میں واپس آجاؤں گا اور میں گاڑی میں جا بھی نہیں رہا۔ فلائیٹ لے
لونگا۔ ” شاہ میر بولا ۔ “لیکن میں ؟ ” حریم نے کہا ۔
“تمہارے ساتھ مراد اور نوری ہیں تمہارا خیال رکھنے کے لئے اور مجھے ان دونوں پر بھروسہ ہے ۔ ان دونوں کے علاوہ مجھے کسی پر بھروسہ نہیں ۔ حریم تم یہاں آرام سے رہو سکون کے ساتھ ۔ آج کے بعد یہی تمہارا گھر ہے اور تم یہیں رہوگی میں تمہیں اب حویلی لے کر کبھی نہیں جاؤں گا۔ تمہیں یہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا یہ شہر ہے طبیعت خراب بھی ہوئی تو تم مراد کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جا سکتی ہو مراد تمہیں لے کے جائے گا ۔ شاہ میر نے اس کا گال چھوتے ہوئے کہا۔
لیکن شاہ میر میں نے اتنے دن تمہارے بغیر گزارے ہیں اب میں تمہارے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی ۔ “حریم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر شدت جذبات سے کہا تو شاہ میر بیٹھ گیا ۔ “حریم میں سب کچھ صحیح کرنا چاہتا ہوں۔ میرا اپنا دل نہیں کر رہا تمہیں چھوڑ کر جانے کو ۔ مگر میری مجبوری ہے میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے ۔ ایک سال سے وہ جس تکلیف سے گزر رہی ہیں تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ لیکن میں تمہیں حویلی لے کر نہیں جانا چاہتا ۔ جو سلوک
وہاں پر تمہارے ساتھ ہوا ہے میں تمہارے سامنے بہت شرمندہ ہوں اسے لے کر مجھے مراد نے سب کچھ بتا دیا ہے کہ اماں تمہیں مردوں کے بیٹھک تک کس حالات میں لے کر گئی تھیں۔ اس بات کو لے کر میں خود اپنے آپ سے اتنا شر مندہ ہوں کے تم سے نظریں
نہی ملا پا رہا تھا ۔ وہ جیسی بھی ہے میری ماں ہیں ۔ اور مجھے ان کے پاس جانا ہے ۔ “شاہ میر
نے کہا ۔
ان کی اصلیت سامنے آنے کے بعد بھی ؟ “حریم نے پوچھا ۔ “اگر تمہیں پتا چل جائے کہ تمہاری ماں دنیا کی سب سے بری عورت ہے تو کیا تم ان سے نفرت کرنا شروع کر دوگی ؟؟؟؟ ہر گز نہیں ۔ ۔ ۔ تو میں بھی نہیں کر سکتا ساری حقیقت جان
لینے کے بعد بھی نہیں کر سکتا ان سے نفرت ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔
اتنی پیاری لگو گی تو تمہیں چھوڑ کر جانا میرے لئے بہت مشکل ہو جائے گا ۔ “شاہ میر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
وعدہ کرو جلدی واپس آؤ گے۔ “حریم نے اس کے سینے میں سر رکھتے ہوئے کہا ۔ وعدہ ۔ ۔ ۔ ” اس نے حریم کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا پھر رخصت لیکر چلا گیا ۔
حریم کا خاص خیال رکھنا ۔ تمہاری ذمہ داری پر چھوڑ کر جا رہا ہوں اسے ۔ ” باہر آکر اس
نے مراد سے کہا۔
” کہنے کی ضرورت نہیں تھی ویسے ۔ ” مراد بولا ۔
” اسے چھوڑتے ہوئے میرا دل ڈوب رہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ میں اسے دوبارہ نہیں
دیکھ پاؤں گا ۔ یا پھر شاید یہ میرا وہم ہے ۔ ” شاہ میر بولا ۔
“بہت محبت ہو گئی ہے ان سے ۔ ” مراد نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
“We find love in the hope less place…”
ہمیں محبت وہاں ملی جہاں سے ملنے کی امید نہ تھی ۔ “
شاہ میر بولا۔
اللہ نظر بد سے بچائے تمہاری محبت کو ۔ ” مراد نے دعا دی ۔
میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا کہ میں کس قدر اس لڑکی کی محبت میں ڈوب چکا ہوں ۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ساری دنیا اسی لڑکی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو رہی ہے ۔ جتنے دکھ اُسے میرے گھر میں ملے ہیں میں ان سب کا مداوا کرنا چاہتا ہوں ۔ اور میں نے خدا سے وعدہ کیا ہے کہ میں کبھی بھی کسی مظلوم سے کسی اور کا بدلہ نہیں لونگا ۔ جو ظالم ہیں اسی سے بدلہ لوں گا ۔ بس یہی سوچ کر پریشان ہوں کہ روز محشر جب خدا مجھ سے سوال کرے گا کہ حریم
کو کون سے گناہوں کی سزا مل رہی تھی تمہارے گھر میں تو میں کیا جواب دوں گا ۔ ۔ ۔ ” شاہ
میر کی آنکھ بھر آئی ۔
“تمہیں اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے اسی حالت میں ۔ ” مراد نے کہا ۔
میری ماں کو میری ضرورت ہے ۔ ” شاہ میر بولا
” تمہاری ماں کے پاس بہت سارے لوگ ہیں تمہاری بیوی کو اس وقت تمہاری زیادہ
ضرورت ہے ۔ ” مراد نے کہا.
جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن میری ماں کے پاس شاہ میر نہیں تو سمجھو کچھ بھی نہیں ۔ ” شاہ میر
بولا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ گاڑی گیٹ سے باہر نکلی تو نہ جانے کیوں اس کا دل ڈوب سا گیا ۔ ۔ ۔ اسے محسوس ہو رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر کو لاس اینجلس سے نکلے ہوئے چار دن ہو گئے ہیں ۔ اور وہ ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ۔
“شاہنواز نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے دونوں بھتیجوں سے کہا ولید اور ریان ۔ ولید کی عمر اٹھائیس سال تھی اور ریان کی چھبیس سال ۔
اب آپ کو کیا پریشانی ہے اب تو آپ نے خون بہا میں حریم کو دے دیا ہے اب تو آپ کا بیٹا آزاد ہے آپ جسے بچانا چاہتے تھے آپ نے اسے بچا لیا ۔ ” ولید نے جتانے والے انداز میں کہا۔
ولید تمہیں مجھ سے شکوہ ہے لیکن تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے ۔ ” شاہنواز نے
کہا۔
” میں اپنی بہن بیٹی ہر گز نہ دیتا ۔ ” ولید نے ناراضگی میں چہرہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے
کہا۔
” تم مجھے بار بار یہ کیوں جتاتے ہو ولید؟ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے اپنی بیٹی شاہ میر کے
نکاح میں دے دی ہے نکاح کا مطلب سمجھتے ہو نہ تم ؟ ایک جائز رشتے میں باندھا ہے اسے شاہ میر کے ساتھا ور اب شاہ میر اس کا مالک ہے، اور وہ اس کے جوڑ کا ہے ۔ اپنے علاقے کا نیا سردار ہے ۔ پڑھا لکھا باشعور لڑکا ہے ۔ وہ ہر لحاظ سے حریم کے لائق تھا ۔ “
شاہنواز نے کہا ۔
“دشمن چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا با شعور اور سر دار کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔ دشمن دشمن ہوتا ہے چاچا سائیں ۔ ۔ ۔ اور جو سلوک اس کے ساتھ ہو رہا ہے اس گھر میں اس کا کیا ؟ ” ولید نے یاد
دلایا ۔
تم سب اس بات کو بھول جاؤ یہ سمجھ لو کہ اس کا یہی نصیب تھا ۔ “شاہنواز نے زخمی آواز
میں کہا۔
نہیں چاچا سائیں حریم کا یہ نصیب نہیں تھا ۔ ۔ ۔ بالکل بھی حریم کا یہ نصیب نہیں تھا ۔ آپ نے ایسا نصیب لکھا ہے اس کا ۔ پھولوں کی سیج سے اٹھا کر کانٹوں کے بستر پر ڈال دیا ہے آپ نے اسے ۔ لیکن میں بھی قسم کھا کے کہتا ہوں جب تک اسے آزاد نہیں کرواؤں گا شاہ میر کی قید سے تب تک سکون سے نہیں بیٹھوں گا ۔ ” ولید غصے سے کھڑا ہوا۔ ولید تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گے ۔ “شاہنواز نے وار ننگ والے انداز میں کہا ۔ “آپ نے جو کرنا تھا کر لیاہ چا سائیں اب میں جو کروں گا مجھے کرنے دیں ۔ ” ولید نے کہا ۔
میری اطلاع کے مطابق حریم ماں بننے والی ہے اورشاہ میر سے شہر لے کر آیا ہے ۔ ” شاہنواز نے جتانے والے انداز میں کہا تو ولید کو جیسے سانپ سونگھ
گیا۔
“شاہ میر کا گاؤں کوئی اتنا دور نہیں ہے کہ مجھے وہاں کی خبر نہ مل سکے ۔ میرے بھی ہاتھ بہت لیسے ہیں ۔ میرے لئے شاہ میر کی خبریں رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ ” شاہنواز نے
کیا۔
ولید اب کسی گہری سوچ میں چلا گیا تھا ۔ ۔ ۔
شاہ میر کے جانے کے بعد حریم کافی گھنٹے تک بور ہوتی رہی یہاں تک کہ شام اتر آئی اور مسجدوں سے مغرب کی اذان ہی بلند ہونے لگیں ۔ وہ نماز قائم کرنے کے بعد ٹی وی لاؤنج میں چلی آئی اور ٹی وی آن کیا ۔ نوری بھی وہاں پر آلتی پالتی مار کر نیچے بیٹھ گئی ٹی وی دیکھنے
کے لئے ۔
یہ سب آسائشیں حریم کے لیے نئی نہیں تھیں وہ بچپن سے انہیں آسائشوں میں پلی بڑھی تھی ۔ لیکن اتنا عرصہ حویلی میں غلامی دینے کے بعد آج اسے ان آسائشوں کی قدر ہو رہی
تھی۔
میرے رب تو نے بچپن سے مجھے اتنے سکھ دیے ہیں ۔ لیکن کبھی میں نے تیرا شکر ادا نہیں کیا۔ مجھے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ تم نے مجھے کتنی آسائشیں دے رکھی تھیں ۔
لعمتوں کا احساس مجھے حویلی میں غلامی کے دوران ہوا۔ سچ کہتی تھی دادی ۔ ۔ ۔ ” بندہ بھی ناشکرا
ہے ۔ “) اُس نے سوچا۔
“میری تو جان چھوٹ گئی حویلی کے کاموں سے اور آپ کی بھی ۔ یہاں آکر میری ہڈیوں کو
بھی آرام مل گیا ہے ۔ ” نوری نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو حریم مسکرا دی ۔ اسے یاد آیا کہ شاہ میر نے کہا تھا اسے نوری کی معصومیت اچھی لگتی ہے ۔ یہ بات سوچ کر ایک پل کو اسے نوری سے جیلسی فیل ہوئی ۔
اُسے بار بارشاہ میر کی کہی ہوئی باتیں پریشان کر رہی تھیں ۔
ایک طرف بھائی تھا اور دوسری طرف شوہر ۔ اگر بھائی عزیز تھا تو اب شوہر بھی اتنا ہی عزیز
ہو گیا تھا۔ دونوں میں سے کسی ایک کا نا اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اتنے میں مراد واپس آگیا گاڑی کا ہارن سنائی دیا
چل گئی نہ چال اپنی سلطانہ بیگم مراد جیسے ہی اندر داخل ہوا حریم نے اسے دیکھ کر کہا۔ آپ فکر مت کریں آپ کی پوزیشن اب بہت مضبوط ہے ۔ اب وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتیں ۔ ” مراد نے وہاں بیٹھتے ہوئے کہا۔
کہیں شاہ میر اس بچے کو مجھ سے چھین تو نہیں لیگا ؟ ” حریم نے کہا۔ آپ کو لگتا ہے وہ ایسا کرے گا ؟ ” مراد نے کہا ۔
میں ۔ ۔ ۔ سمجھ نہیں پا رہی ۔ ۔ ۔ یا محبت واقعی اندھی ہوتی ہے جو مجھے نظر نہیں آرہا کچھ
اب ۔ ۔ ۔ “حریم بولی۔
( یہاں تو لگتا ہے عشق کی آگ برابر لگی ہوئی ہے ۔ ) مراد نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے
سوچا ۔
رات کے کھانے میں کیا بناؤں بیگم صاحبہ ؟ ” ضمیر نے آکر پوچھا ۔
” جو بھی بنالو۔ “حریم بولی۔
“صاحب کہہ کر گئے ہیں کہ آپ سے پوچھ لوں ۔ آپ کی پسند کا ہی بنے گا ۔ ” ضمیر نے کہا۔ بریانی بنا دو رائتے کے ساتھ ۔ اور کچھ کھانے کو دل نہیں کر رہا۔ ۔ ۔ جی متلا رہا ہے “حریم
نے کہا تو ضمیر کچن میں چلا گیا ۔
آپ کو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے شاہ میر نے کہ آپ کولے جاؤں روٹین چیک اپ کے
لئے ۔ ” مراد کو یاد آیا
ہاں ۔ ۔ ۔ جب تک کھانا تیار ہوتا ہے تب تک ڈاکٹر سے ہو آتے ہیں ویسے تو میں خود بھی ڈاکٹر ہوں ۔ ۔ ۔ مگر بچے کے ہارٹ بیٹ کے لیے الٹراساؤنڈ کروانا ہے ۔ “حریم نے
کہا۔
چلیں پھر چلتے ہیں مراد کہتا ہوا کھڑا ہوا۔
نوری میری شال لے آؤ اندر سے ۔ “حریم نے نوری سے کہا ۔
جیسے ہی ان کی گاڑی باہر نکلی ایک سیاہ رنگ کی کارگیٹ سے تھوڑا دور کھڑی تھی ۔ ” وہ نکل رہے ہیں گھر سے باہر “کار کے ڈرائیور نے کسی سے فون میں کہا ۔ “شاہ میر ساتھ ہے ؟ “آگے سے پوچھا گیا تھا ۔
ایک شخص ڈرائیونگ کر رہا ہے اب مجھے نہیں معلوم کون ہے ۔ ” وہ بندہ بولا۔ “اوکے ۔ ۔ ۔ پیچھا کروان کا ۔ “آگے سے ہدایت دی گئی تھی ۔ ۔ ۔
ان کی گاڑی ہاسپٹل کے باہر آکر کھڑی ہوئی ہے ۔ اب مجھے کیا کرنا ہے ؟ “سیاہ کا روالے
شخص نے پوچھا ۔ا بھی نہیں کچھ نہیں کرنا بھی تمہیں دو تین دن ان کی حرکات پر کڑی نظر رکھنی ہے اور مجھے ان کے پل پل کی خبر دینی ہے ۔ اس کاروالے جاسوس کو ہدایت دی گئی
تھی ۔
اگلے ہی پل اسے ایک تصویر موصول ہوئی ۔
یہ شاہ میر کی تصویر ہے اچھی طرح سے پہچان لو ۔ ” فون میں کہا گیا تھا ۔ اس کو مارنا ہے ؟ کار والے شخص نے پوچھا۔
نہیں یہ نیک کام میں اپنے ہاتھوں سے کروں گا ۔ تم بس مجھے اُن کے پل پل کی خبر دو۔”
آگے سے جواب آیا تھا ۔
” تمہاری ماں تمہیں جنم دیتے ہوئے مری نہیں تھی شاہ میر ۔ ۔ ۔ بلکہ وہ اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی ۔ پھر تمہارے بابا نے پورے خاندان میں یہ مشہور کر دیا کہ وہ زچگی کے درد میں مرگئی ہے ۔ تمہاری سگی ماں تو تمیں چھوڑ کر چلی گئی اور میں نے تمہیں پالا ۔ “سلطانہ بیگم آج پھر سے گڑھے مردے اکھاڑ رہی تھیں شاہ میر کے سامنے یہ آج کی بات نہیں تھی بچپن سے یہی کہانی وہ شاہ میر کو سناتی آرہی تھیں اور شاہ میر آنکھ بند کر کے ان کا یقین کر لیتا تھا کہ واقعی اس کی ماں اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی ۔
” میں تمہاری باپ کی خاندانی منگیتر تھی بچپن کی۔ پہلے تمہاری ماں نے اپنی محبت کے جال میں تمہارے بابا کو پھنسایا دولت کی خاطر ۔ ۔ ۔ اس کے عشق میں اندھا ہو کر تمہارا باپ مجھ سے شادی سے انکار کر کے حویلی چھوڑ کر شہر چلا گیا تمہاری ماں کے پاس ۔ پھر ایک دن وہ تمہیں لے کر آیا ۔ ۔ ۔ تمہاری دادی نے ایک سال تک تمہاری پرورش کی اور وہ رضائے الہی سے انتقال کر گئیں۔ پھر تمھارے بابا نے مجھ سے شادی کی ۔ اور تمہیں میری گود میں
ڈال دیا ۔ میں نے پورے دل سے تمہیں اپنا یا کیوں کہ تمہاری با با تم سے بہت محبت
کرتے تھے ۔ تمہاری ماں نے پلٹ کر تمہاری خبر نہیں لی اور میں جس نے تمہیں اپنے سگے بیٹوں سے زیادہ اہمیت دی تم ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی کی خاطر مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔
سلطانہ بیگم اپنا داؤ چل رہی تھیں ۔
سب جانتا ہوں اماں مجھے آپ کی قربانیوں کی قدر ہے ۔ اور یہ آپ کی سوچ ہے کہ میں آپ کو چھوڑ کر گیا ہوں دیکھیں میں تو دوڑا دوڑا چلا آیا آپ کی طبیعت خرابی کا سن کر ۔ لیکن اماں میں بھی انسان ہوں سینے میں دل رکھتا ہوں مجھے حریم سے محبت ہو گئی ہے اور میں بالکل بے بس ہوں اس معاملے میں ۔ “شاہ میر بولا۔
اگر تم میرے اتنے ہی فرمانبردار ہو تو کائنات سے شادی کر لو۔ کائنات حویلی میں رہےگی تمہاری بیوی بن کے اور حریم کو تم جہاں چاہے رکھوں مجھے
اس وقت اُن دونوں کے علاوہ اس سے کوئی غرض
نہیں ۔ سلطانہ نے کہا۔
اماں ایسا ہر گز نہیں کر سکتا ۔ ایسا کروں گا تو حریم کو دکھ ہو گا اور میں مزید اسے دکھ دینا نہیں چاہتا ۔ میں ایک لڑکی کی زندگی برباد کرنے کا گناہ اپنے سر پر لے کر قبر میں نہیں جانا چاہتا ۔ مجھ سے سب سے بڑی غلطی ہو گئی کہ میں نے آپ کی بات مان کر اس ونی میں مانگا ۔ اگر اس کا ساتھ میری قسمت میں لکھا تھا تو ایسے ہی مجھے مل جاتی وہ ۔ “شاہ میر نے
کہا۔
یہ غلطی تو مجھ سے ہو گئی اُسے خون بہا میں مانگ کر ۔ سلطانہ بیگم نے دل میں کہا۔ ” تم اسے مراد کے ساتھ تنہا گھر میں چھوڑ کر آئے ہو مجھے مراد پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے۔ تم مانو یا نہ مانولیکن مراد کو حریم میں غیر معمولی دلچسپی ہے ۔ دیکھا نہیں تھا کہ کیسے اس دن حریم کو تھام لیا مراد نے جب وہ بے ہوش ہوئی تھی ۔ یہی عشق ہوتا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے اور کسی کی پرواہ نہیں کرتا ۔ میں نے ہمیشہ مراد کو اس کی طرف داری کرتے دیکھا ہے ۔ تم مراد پر اندھا اعتماد نہیں کر سکتے اس معاملے میں کیوں کہ مراد جوان خون ہے اور تمہاری بیوی خوبصورت ہے ۔ “سلطانہ بیگم اُس کا برین واش کر رہی تھیں۔ مراد سے تو انہیں خدا واسطے کا بیر ہو گیا تھا اس دن کے بعد جب اس نے حریم کو بچایا اور وہ ساری باتیں شاہ میر کو بتائیں تو وہ اس کے پیچھے ہی پڑگئی تھیں ۔
ان کی یہ بات سن کرشاہ میر تھوڑا سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حریم سونے کے لیے لیٹی تو اچانک ہی اسے یاد آیا کہ یہاں آتے وقت ایک خط حلیمہ نے
اسے دیا تھا کہ اسے شہر جا کر پڑھ لے ۔
اوہ خدایا ۔ ۔ ۔ میں تو وہ وہیں پر بھول آئی۔ اگر حلیمہ کا وہ خط شاہ میر کے ہاتھ لگ گیا تو بڑی
گڑ بڑ ہو جائے گی ۔
حریم پریشانی سے اٹھ بیٹھی ۔ نوری نیچے فوم لگا کر سو رہی تھی ۔
وہ اب اندھیرے کمرے میں بیٹھی تھی ۔
نہیں رہنے دیا ایک دن بھی سلطانہ بیگم نے شاہ میر کو میرے پاس ۔ ۔ ۔ اب پتا تا نہیں پٹیاں پڑھا رہی ہوں گی یہ عورت اسے ۔
نہ جانے کتنی دیر تک وہ سوچتی رہی اور سوچتے سوچتے نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی ۔
“حریم
میں یہ خط تمہیں اس لیے لکھ رہی ہوں آج کے بعد میری شاید ہی تم سے ملاقات ہو پائے ۔ نہ تم واپس حویلی آ سکتی ہو اب اور نہ میں تمہارے پاس شہر ۔ اس خط میں اس حویلی کا اور شاہ میر کی زندگی کا سب سے بڑا راز تم سے بیان کرنا چاہتی ہوں ۔ جو شاید شاہ میر خود بھی
نہیں جانتا ۔ ۔ ۔” “سلطان میر ایک لاابالی سا نوجوان تھا ۔ اور سر دار سکندر میر کا اکلوتا وارث تھا ۔ اور تعلیم کے سلسلے میں شہر میں رہائش پذیر تھا ۔ وہ تھا تو سر دار کا بیٹا لیکن بہت سادہ سی زندگی گزار رہا
تھا ۔ وہ سر داری والے ماحول سے عاجز تھا ۔ اسے پابندیاں پسند نہیں تھیں ۔ اپنے والد کے
لاکھ کہنے کے باوجود بھی وہ اپنے ساتھ گارڈز نہیں رکھتا ۔
وہ ہواؤں میں اڑنے والا ایک زندگی سے بھر پور نوجوان تھا ۔ اس کے دوست غریب لڑکے تھے جو کہ اس کے ساتھ یو نیورسٹی میں پڑھتے تھے ۔
وہ سادہ سا لباس پہنتا تھا ۔ ۔ ۔ سادہ ساکھانا کھا تا تھا۔ سادہ سے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس کے والد سکندر میر اور اس کی والدہ نجمہ خاتون اسے لاکھ سمجھاتے تھے کہ وہ ایک سردار کا بیٹا ہے اور سر داروں کی طرح رہے مگر وہ اپنی مرضی کا مالک تھا اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا تھا اور وہ گاؤں کے ماحول سے دور ہی بھاگتا تھا ۔ پھر ایک دن اس کی نظر سعدیہ پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔ سعدیہ اک بے سہارا لڑکی تھی۔ جواس کے گھر کے قریب ایک کالج میں زیر تعلیم تھی اور روزانہ اس کے گھر کے سامنے سے گزرتی تھی ۔
سلطان میر شاید اُس سے پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوا تھا ۔ ایک دن اس نے سعدیہ کا راستہ روک کر سیدھا اس سے کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن سعدیہ نہ مانی سلطان میر نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر سعدیہ کے دل میں اس کے لیے محبت پیدا ہو
گئی
سلطان میر نے جب اپنے والدین سے سعدیہ کا ذکر کیا تو انہوں نے سخت غصے کا اظہار کرتے ہوئے انکار کر دیا ۔ یہ کہہ کر کے اسکی شادی اسکی خاندانی منگیتر شگفتہ سے ہوگی ۔ مجبور ہو کر سلطان میر سعدیہ کے گھر والوں کے پاس گیا ۔ اور اس کا ہاتھ مانگا ۔ سعدیہ اپنے چچا کے گھر رہتی تھی ۔ اور وہ لوگ پہلے ہی اس سے بیزار تھے ۔ اس کے گھر والوں کو بہانہ مل گیا اور اسی وقت سعدیہ پر ہزار الزامات لگاتے ہوئے اسے گھر سے نکال
دیا ۔
سعدیہ کے والدین حیات نہیں تھے اور وہ اپنے چچاوں کے رحم و کرم پر تھی
سلطان میر وہاں سے سیدھا مسجد لے آیا اور نکاح کر لیا ۔ سلطان میر نے اس نکاح کے متعلق اپنے والدین کو آگاہ کیا تو نے کہا کہ اس لڑکی کو اگر حویلی لائے تو ہم حویلی چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔
مجبور سلطان میر کو سعدیہ کو شہر میں ہی رکھنا پڑا۔ شادی کے دوسرے ماہ ہی سعدیہ امید
سے ہو گئی۔
سلطان میر سعدیہ کی محبت میں اس قدر غرق ہو چکا تھا کہ اس نے پلٹ کر اپنے گھر والوں سے رابطہ ہی نہیں کیا ۔
سلطان میر اور سعدیہ کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو سلطان میر نے حویلی فون کر کے اپنے والدین کو یہ
خوشخبری سنائی۔
سلطان میر کے والدین نے کہا کہ وہ سعدیہ کو طلاق دے دے اور حویلی کے وارث کو گھر
لے آئے ۔
ہر والدین کی طرح سلطان میر کے والدین بھی بیٹا پیدا ہونے کی خوشی سے سر شار ہو گئے
اور جلد از جلد بیٹے کو اپنی حویلی لانا چاہتے تھے۔
سعدیہ کو طلاق دینے والی بات سلطان میر کو ناگوار گزری اور اس نے اپنے والدین سے کہا
کہ وہ کبھی حویلی واپس نہیں آئے گا۔
نے اکلوتے بیٹے کی ہی سے کے وہ سلطان میں آگئے اور سعدیہ کو اغوا کروالیا ۔ اور
میر کے ساتھ مزید رہنا نہیں چاہتی اسے
آزادی چاہیے ۔ مایوس ہو کر سلطان میرا اپنے اکلوتے بیٹے کو لے کر حویلی واپس آگیا۔
ایک سال تک سلطان میر کے بیٹے کو اس کی دادی نجمہ نے ناز سے پالا۔ اور تمام علاقے
میں یہ اعلان کروا دیا کہ سلطان میر نے ایک لڑکی سے خفیہ نکاح کیا تھا جو بچے کو جنم دینے
کے بعد مر گئی۔
ایک سال بعد سلطان میر کی شادی شگفتہ عرف سلطانہ بیگم سے ہو گئی۔ جب سلطانہ بیگم نے دیکھا کہ حویلی کا اکلوتا وارث یعنی کے شاہ میر سلطان اپنے دادا دادی اور اپنے باپ کا انتہائی لاڈلا ہے تو سلطانہ بیگم نے بھی شاہ میر کو بہت محبت دی ۔ اُدھر سعدیہ کو اغوا کرنے کے بعد مسلسل سعدیہ سے فون کر واکر واکر سلطان میر سے طلاق
کی ڈیمانڈ کروائی جا رہی تھی زبر دستی ۔
مجبور سلطان نے سعدیہ کو طلاق دے دی۔
سکندر میر نے سعدیہ کو آزاد کروا دیا اور اُسے شاہ میر سے دور رہنے کا کہا ۔ کچھ سال بعد سکندر میر اور نجمہ خاتون کار کے ایک حادثے میں جانبحق ہو گئے تو سلطانہ بیگم نے حویلی پر مکمل کنٹرول کر لیا۔
کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سلطانہ بیگم نے ساری حویلی اور حویلی کے ملازموں پر قبضہ
کرلیا۔
جب شاہ میر پانچ سال کا ہوا تو سعد یہ کسی طرح سے حویلی پہنچ گئی ۔
سلطان میر اور سلطانہ بیگم کی
منت سماجت کرنے لگی کہ شاہ میر اُسے واپس دے دیں ۔
سلطان میر سے یہ بھی کہا کہ اس کے والد نے اسے اغوا کر لیا تھا۔
اپنے والدین کے متعلق ایسی بات سن کر سلطان میر کو غصہ آگیا۔ اور انہوں نے دھکے
دے کر سعدیہ کو نکال دیا ۔
بد چلن عورت ۔ میرے میرے ہوئے باپ پر الزام لگاتی ہے ؟ ابھی کفن بھی میلا نہیں
ہوا میرے ماں باپ کا اور تم اُن پر ایسے الزام لگا رہی ہو ؟ “
سلطان میرا اپنے والدین کے متعلق ایسی بات سن کر آپے سے باہر ہوگیا ۔ اور سعدیہ کو
مارنا شروع کیا ۔
چھوڑ دیں اسے سائیں۔ “صدا کی چالاک عورت سلطانہ نے یہاں بھی چال چلی۔ “مجھے یہاں رہنے دو۔ ۔ ۔ میں بیتےکو دیکھناچاہتی ہوں۔ میں ساری زندگی یہاں نوکرانی بن کر گزار دونگی ۔ میرا دنیا میں کوئی نہیں میرے بیٹے کے علاوہ ۔ ۔ ۔ میرے چچاؤں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے ۔ میرے پاس اب شہر میں کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ ‘ سعدیہ سلطانہ بیگم کے پیروں میں پڑ کر بولنے لگی۔
میر تو سعدیہ کو ٹھوکر مار کر چلے گئے ۔ لیکن سلطانہ بیگم نے اُسے اٹھایا۔
” تو حویلی میں رہ ۔ ۔ ۔ یہاں نوکرانی بن کر ۔ ۔ ۔ تجھے پیسے نہیں ملیں گے ۔ بس دو وقت کی روٹی اور چھت ملے گی ۔ اور بات سن ۔ کیسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کے تو شاہ میر کی ماں ہے ۔ اور اگر تو نے کسی کو بتایا تو اسی دن میں تیرے بیٹے کو جان سے مار دونگی ۔ “سلطانہ بیگم کی دھمکی سے ڈرگئی سعدیہ ۔ ۔ اُس نے وعدہ کر لیا اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیے۔ سعدیہ نے صرف اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے حویلی میں نوکرانی کی زندگی قبول کی تاکہ وہ شاہ میر کو دن رات دیکھ سکے ۔ مگر اسے شاہ میر کے سامنے آنے کی اجازت نہیں دی تھی
سلطانہ بیگم نے ۔ ۔ ۔ بس دور سے دیکھنے کی اجازت تھی ۔ ۔ ۔
اور حریم شاہ میر کی سگی ماں کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں ۔ ۔ حلیمہ سعدیہ ۔ ۔ ۔
مجھے لگا تھا میرا ساتھ دینے والا یہاں کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن جب تم آئیں تو مجھے لگا تم ہی ہو جو
اس ظالم عورت سے میرا بدلہ لے سکتی ہو۔ ۔
Aoa Bhai please agay b story ab bhej den kitnay din ho Gaye hayn… Please please please give us next part of story sooon.
Thnxx
w.salam sis ji aj ho jay g please … thanks for love and suport