Badnaseeb Beti Part 8 – Best Urdu Stories 2025 | Bold and Emotional Urdu Novel


Best Urdu Stories Badnaseeb Beti Part 8 is now live — one of the most viral Urdu novels of 2025! This part takes the emotional journey to the next level, featuring a bold Urdu love story filled with heartbreak, passion, and social challenges.

If you’re searching for the best Urdu stories 2025, this gripping tale of a young girl’s struggle with fate, family, and forbidden love will keep you hooked. Perfect for fans of romantic Urdu novels, free Urdu PDF stories, and realistic Urdu fiction.

This novel is written in beautiful Urdu font, making it easy to read online or download and enjoy offline.

Best Urdu Stories 2025

Badnaseeb Beti Part 8 – Best Urdu Stories 2025 | Bold and Emotional Urdu Novel

Read Here Badnaseeb Beti Part 7 – Free PDF Stories

میں نے تم سے کہا تھا کہ سلطانہ بیگم ایسی چال چلے کی کے وہ تمہیں شاہ میر کی نظروں میں گرا دیگی ۔ ۔ ۔ تمہاری طلاق کروا دیگی ۔ ۔ ۔ پھر تمہارا بچہ تم سے چھین کر کائنات سے شاہ میر
کی شادی کروا کر بچہ کا ئنات کی جھولی میں ڈال دے گی ۔
حریم وہ عورت جب تک زندہ ہے تب تک یہی کرے گی ۔
پچھلے اٹھائیس سال سے وہ شاہ میر کو یہ کہانی سناتی آرہی ہے کہ اُس کی ماں بد کردار تھی جو اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ۔ ۔ ۔
اور شاہ میر اُس کی بات کا یقین کیے ہوئے ہے یہ جانے بغیر کے اس کی ماں پر کتنا ظلم کیا
حویلی والوں نے ۔ سلطانہ بیگم نے مجھے اتنا مارا کے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ۔ ۔ ۔ وہ مجھے مارتی جاتی اور کہتی جاتی ک—
میرے منگیتر کو پھانستی ہے ؟؟؟ اس حویلی کے خواب دیکھتی ہے ؟ شاہ میر کی ماں
ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ؟
ایسی باتیں کہتی جاتی اور مجھے مارتی جاتی ۔ ۔ ۔
میں اتنے سالوں سے اس عورت کے ظلم سہہ رہی ہوں صرف شاہ میر کو ایک جھلک
دیکھنے کے لیے ۔ ۔ ۔

حریم اب میں تمہیں بتاتی ہوں ۔ ۔ ۔ سلطانہ بیگم اب شاہ میر کے دل میں تمہارے اور مراد کے لیے شک پیدا کر دے گی ۔ ۔ ۔ پھر ایسا منظر تخلیق کرے گی کے شاہ میر تمہیں اور
مراد کو ساتھ دیکھ لیگا ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہیں طلاق دے دیگا ۔ ۔ کائنات سے شادی کرلیگا۔
اور تمہارا بچا تم سے چھین لیا جائیگا ۔۔۔ حریم ۔ ۔ ۔ تم جانتی ہو شاہ میر تم پر ظلم کیوں نہ کر سکاونی میں ہونے کے باوجود؟؟؟؟ کیوں کے اس کی رگوں میں سلطانہ کا نہیں بلکہ سعدیہ کا خون ہے ۔ ۔ ۔ کیوں کے وہ سلطانہ کی
طرح ظالم نہیں میری طرح نرم دل ہے ۔ سلطانہ بیگم نے اتنے سال محنت کی شاہ میر کو ظالم بنانے میں مگر وہ ناکام رہی ۔ ۔ ۔ کیوں کے شاہ میر کی فطرت مجھ پر گئی ہے ۔ ۔ ۔ وہ چاہ کر بھی تم پر یاں کسی اور اور ظلم نا کر
سکا ۔ ۔ ۔
اب سلطانہ بیگم ظفر کو شاہ میر کے ہاتھوں قتل کروانا چاہتی ہے اور عبید یعنی اپنے سگے بیٹے کو چھپا کر رکھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ وہ شاہ میر سے اپنا کام نکلوا کر پھر اُسے دودھ میں سے ” کی طرح نکال دیگی اور عبید کو اُس کی جگہ سر دار بنا دیگی ۔
اگر تمہیں میری بات کا یقین نہ آئے تو جاؤ سلطان میر کے پاس ۔ ۔ ۔ اور پوچھو اس سے کے شاہ میر کی ماں کون ہے اور کہاں ہے ۔ ۔ ۔

فقط ۔ ۔ ۔ حلیمہ سعدیہ “
وہ خط پڑھ کر اب حیرت سے اُس خط کو دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔
کیا نہیں تھا اُس کے اندر ۔ ۔ ۔ بے یقینی ۔ ۔ ۔ حیرت ۔ ۔ ۔ غصہ ۔ ۔ ۔ سوال ۔ ۔ شاہ میر نے وہ خط واپس سائڈ ٹیبل پر رکھا اور بوجھل قدموں سے اٹھا ۔ ۔ ۔ اب اس کا رخ کچن کی طرف تھا ۔ ۔ ۔ جہاں اُس کی سگی ماں تھی ۔ ۔ ۔

شاہ میر لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا ۔
اس نے گھر کے تمام ملازموں ، اور وہاں رہنے والے تمام رشتے داروں ، جو بھی وہاں تھے
سب حیرت سے شامیر کے گرد گھیر اڈالے کھڑے ہیں تھی اور وہ صوفے پر بیٹھا ہوا تھا دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے ہوئے ۔
شاہ میر بیٹا آخر ایسا کیا ہو گیا جو تم نے سب حویلی والوں کو یہاں اکٹھا کیا ہے ؟

سلطانہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا وہ بھی اچھی خاصی پریشان ہو گئی تھیں کیونکہ شاہ میر کی آنکھیں سرخ تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ بہت غصے میں ہے اب وہ کیا کہنے جا رہا ہے کوئی
نہیں جانتا تھا ۔
کافی دیر تک خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو شاہ میر کی گھمبیر آواز نے چیرتے ہوئے سوال
کیا۔
آپ میں سے یہاں حلیمہ سعدیہ کون ہیں ؟ “
شاہ میر کے سوال پر سب کی گردنیں حلیمہ کی طرف مڑگئیں تو سمجھ گیا کہ ان سب خواتین میں
کھڑی ہوئی حلیمہ کون سی ہے ۔
اور سلطانہ بیگم کا دل اس سوال پر ڈوب گیا تھا ۔
حلیمہ دیکھ رہی تھی جو کھڑا ہو چکا تھا اور
لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے بہت آرام سے اس کی طرف چلتا آ رہا تھا ۔
جیسے جیسے شاہ میر چلتا ہوا حلیمیہ کے پاس آ رہا تھا اس کے بوٹوں کی آواز وہاں حویلی میں گونجنے لگی کیونکہ اس قدر سب اس کو سننے کے لیے خاموش کھڑے تھے ۔
پن ڈراپ سائلینٹ کا منظر تھا۔ شاہ میر بالکل حلیمیہ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

حلیمہ سمجھ رہی تھی کہ شاید اس خط میں جو حقیقت کبھی تھی وہ حریم نے پڑھ کر شاہ میر کو بتائی
تھوڑی دیر حلیمہ کو دیکھنے کے بعد شاہ میر ان کے گلے لگ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
تو وہاں موجود ہر نفوذ حیران ہو گیا ۔
سب کے ذہن میں صرف یہ سوال تھا کہ شاہ میر کیوں اس عورت سے لپٹ کر رو رہا ہے وہ
بھی بچوں کی طرح ۔
اور

سلطانہ بیگم کو لگا کے حویلی کی ساری کی ساری چھت اس کے سر پر آن گرمی ہے ۔

شاہ میر حلیمہ سے الگ ہوا اور اس کی دور ھوں کہ جس کو جیتے جی اس حویلی کے مکینوں سن لو سب ۔ ۔ ۔ یہ عورت میری سگی ماں ۔ ۔ ۔سب
نے مار دیا تھا ۔ ۔ ۔ دیکھ لو سب بھی میری سگی ماں ہے ۔ ۔ ۔ جس کے بارے میں مشہور کر دیا گیا تھا کہ یہ اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہے مجھے چھوڑ کر ۔ ۔ ۔ یہ عورت ۔ ۔ ۔ جس کا کردار پچھلے اٹھائیس سالوں سے اچھالا جا رہا ہے اس حویلی میں ۔ ۔ ۔ یہ عورت پچھلے پچیس سالوں سے اس حویلی میں صرف اس لئے غلامی دے رہی ہے تاکہ وہ اپنے بیٹے کو ایک جھلک دیکھ سکے دن میں ۔۔۔ 25 سال اس عورت نے غلامی میں گزار دیئے صرف مجھے

دیکھنے کے لیے ۔ ۔ ۔ مجھے اپنے آس پاس محسوس کرنے کے لیے ۔ ۔ ۔ یہ عورت جس کا مجھ پر سب سے زیادہ حق تھا ۔ ۔ ۔ وہ مجھے دیکھنے کے لیے ۔ ۔ ۔ ناصرف اٹھانے کے لئے نہ صرف پیار کرنے کے لئے صرف دیکھنے کے لئے پچیس سالہ غلامی دیتی ہے ۔ ۔
کیوں
کا لفظ شاہ میر نے سلطانہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ رو رہا تھا ۔ ۔ ۔ اُس کی
آنکھیں سرخ اور نم تھیں ۔
سلطان بیگم کا تو دل ہی دہل گیا ۔ ۔ ۔ شاہ میر کی باتیں اور اس کی آنکھیں دیکھ کر ۔ “آپ کے پاس نہیں ہے شاید اس “کیوں ” کا جواب ۔ لیکن میرے پاس ہے … اس لئے کہ اس حویلی کے لوگ ظالم اور جابر ہیں ۔ “
آخری جملہ شاہ میر نے غصے سے کہاتھا اور پوری حویلی میں اس کی آواز کسی شیر کی مانند گونج رہی تھی جیسے وہ کہ دھاڑ رہا ہو ۔
ظالم ہیں ۔ ۔ ۔ ظالم ہیں ۔ ۔ ۔ ظالم ہیں ۔ ۔ سب کے سب یہاں ظالم تھے ۔ ۔ ۔ ظالم
ہیں ۔ ۔ ۔ اور ظالم رہیں گے ۔ ۔ ۔آپ
شاہ میر پوری قوت سے چلاتے ہوئے بول رہا تھا ۔ شہادت کی انگلی سلطانہ بیگم
کی طرف پوک کرتے ہوئے۔۔۔

اور میں سردار شاہ میر سلطان ان ظالم لوگوں کے بیچ میں مزید نہیں رہ سکتا ۔ ۔ ۔ “شاہ میر کہتا ہوا سلطانہ بیگم کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ۔
وہ اپنی وحشی آنکھیں سلطانہ بیگم کی آنکھوں میں جمائے ہوئے کھڑا تھا ۔ “دنیا کی سب سے بڑی نعمت ” بے خبری ” ہے اماں ۔ “شاہ میر سلطانہ بیگم کی آنکھوں
میں دیکھ کر دکھ سے بولا ۔
” کاش کہ مجھے یہ سب پتہ نہ چلتا ۔ ۔ ۔ میں جیسے جی رہا تھا ویسے جی رہا ہو تا ۔ ۔ ۔ کاش کے میرا بھرم قائم رہتا جو آپ پر تھا ۔ ۔ ۔ کاش میں ساری زندگی لاعلم رہتا اس حقیقت سے تو آج اس تکلیف سے میں نہ گزرتا جس سے میں اس وقت گزر رہا ہوں ۔ میرے دادا دادی اور میرے باپ نے جو کچھ بھی کیا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ۔ ۔ ۔ میرے دل میں ۔ ۔
سب سے بڑا رتبہ آپ کا ہی نہیں رہا۔آج میں نے ایک ماں پائی ہے تو
دوسری کھودی ہمیشہ کے لئے ۔ جا رہا ہوں میں
شاہ میر سلطانہ بیگم کے قدموں کو چھونے کے لیے جھکا ۔
اس علاقے میں یہی رسم تھی کہ جاتے وقت چھوٹے بڑوں کے قدموں میں جھک کر رخصت
طلب کرتے تھے ۔
شامیر ویسے ہی جھکا تھا سلطانہ بیگم کے سامنے ۔

بد تمیزی آج بھی نہیں کروں گا ۔۔۔ میر دل دکھ سے لبریز ہے ۔ ۔ آج میں نے اپنی اماں کھودی ہے ۔ ۔ ۔ آپ نے میری ماں کو جیتے جی مار دیا تھا ۔ ۔ ۔ آج میں بھی بدلہ لے رہا ہوں ۔ ۔ ۔ آج میں بھی اپنی ۔ “اماں کو جیتے جی مار رہا ہوں ۔ آپ نے ہی مجھے ” بدلہ “
لینے کا ہنر سکھایا ہے ۔
اللہ حافظ ۔ “
شاہ میر سلطانہ بیگم کے سامنے سے ہٹا اور حلیمہ کو کندھوں سے پکڑ کر ساتھ لے جانے
لگا۔
حلیمہ روئے جارہی تھیں مسلسل اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا ۔
جاتے جاتے ہوئے ایک بار پھر سے پلٹ اور سب کی سر طرف دیکھا اور بولا۔ ” آخری بات ۔ ۔ ۔ میری ماں بد کردار نہیں ہے ۔
۔۔۔
شاہ میر نے کہا اور حلیمہ کو لیکر وہاں سے چلا گیا ۔ سلطانہ بیگم کو جیسے سکتا ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔ کافی دیر تک وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس دروازے کو دیکھتی رہیں جس سے شاہ میر گیا
تھا۔

اور اگلے ہی پل سلطانہ بیگم زمین بوس ہو کر گر پڑیں تو حویلی کے تمام افرادان کی طرف دوڑے۔۔۔

مراد کو شاہ میر کی کال آئی کہ اسے ایئر پورٹ سے پک کرلے ۔
مراد نے گاڑی نکالی۔ اور چوکیدار کو کافی ہدایت دیتا ہوا ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ شاہ میر کو ہوائی سفر پسند نہیں تھا اس لیے وہ بائے روڈ ہی سفر کر تا تھا ۔ لیکن کبھی جو بہت جلدی ہو تب ہی جہاز کا سفر کرنا پڑ جاتا تھا اُسے ۔
وہ ایک بندہ جو تھا وہ ابھی ابھی نکلا ہے ۔ میرے حساب سے گھر میں اب چوکیدار ملازم اور خواتین کے سوا کوئی نہیں ۔ اس جاسوس نے فون میں کہا۔
ٹھیک ہے ، یہی وقت مناسب ہے میں آرہاہوں ۔ آگے سے کہا گیا تھا۔
پیزا بوائے گیٹ اپ میں داخل ہونے والے اُس شخص نے اپنے ساتھی کے ساتھ مل کرنے چوکیدار کے کو بیہوش کیا پھر وہ دونوں تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوئے ۔ ضمیر کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہا تھا۔
کچن ایسی لوکیشن پر تھا کہ اسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ کوئی گھر کے اندر داخل ہوا ہے ۔

لاؤنج میں موجود نوری نے ان دونوں کو دیکھ کر ایک زور دار چیخ ماری تو ضمیر بھاگتا ہوا لاونج
تک آیا ۔
اپنی جگہ سے ہلنا نہیں . ان میں سے ایک شخص نے پستول دکھا کر ان دونوں کو وہیں پر
روک لیا ۔
وہ دونوں جانتے تھے ان کے پاس وقت بہت کم ہے ۔ اتنے میں نوری کی چیخ سن کر حریم کمرے سے باہر آئی تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین جیسے سرک گئی ۔
اس کے سامنے دو نقاب پوش تھے ۔ جن میں سے ایک نوری اور ضمیر پر پستول تانی ہوئی تھی اور دوسرا ایک دم سے حریم کے پاس آیا اور اس کے منہ پر کپڑا رکھا جس سے وہ بے
یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ حریم کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اس کے سامنے آنے والا شخص کیا
کرنے والا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب دو بندے آئے اور حریم بی بی کو اغوا کر کے لے گئے ہیں ۔ شاہ میر گاڑی میں بیٹھا تو اسے ضمیر کی کال آئی۔

شاہ میر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اس کے ساتھ یہ مسئلہ کیوں ہوتے جا رہے ہیں یکے بعد
دیگر ۔
مراد نے بہت تیزی سے گاڑی بھگائی وہ بھی بہت پریشان ہو گیا تھا۔ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا شاہ میر اپنی کنپٹیوں کو مسلتا جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت مشکل سے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔
پہلے تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے ۔ اگلے ہی پل اسے کچھ دیر پہلے ہونے والا واقعہ یاد آیا تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے دیکھا وہ ایک کمرے میں قید ہے جس میں صرف ایک بیڈ رکھا ہوا ہے ۔ وہ ایک دم سے دروازے کے پاس آئی ۔ دیکھا تو دروازہ لاک ہے باہر سے کوئی ہے ؟؟ کھولو ۔ ۔ ۔ دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ “حریم مسلسل دروازہ پیٹتی جا رہی تھی اور
پوری قوت سے چلا رہی تھی۔
نجانے کتنی دیر تک وہ دروازہ بجاتی رہی لیکن آگے سے کوئی جواب نہیں آیا ۔
بالآخر وہ تھک ہار کر واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی ۔
اب وہ اپنے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑے سوچ رہی تھی ۔

سلطانہ بیگم آخر تم نے اپنی اصلیت دکھا ہی دی۔۔۔ لیکن تم اپنی اس چال میں کامیاب نہیں ہوگی ۔ ۔ ۔ شاہ میر اگر مجھ سے واقعی محبت کرتا ہے جس کا وہ دعویدار ہے ۔ ۔ تو وہ
ضرور آئیگا مجھے بچانے ۔ ۔ ۔ “حریم خد کلامی کر رہی تھی ۔

یہ اماں نے کیا ہے سب ۔ ۔ ۔ ” شاہ میر کسی غیر مرئی نکتے کو دیکھ کر بول رہا تھا ۔ بہت
سنجیدہ ۔ ۔ ۔ بے حد پریشان ۔ ۔ ۔ بہت غصے میں ۔ ۔ ۔ وہ ایک ہی لمحے میں نجانے کتنی کیفیات سے گزر رہا تھا ۔
ظفر بھی ہو سکتا ہے ۔ ” مراد نے کہا ۔

“مجھے ظفر کی پرواہ نہیں ہے مراد ۔ ۔ ۔ حریم اُس کی بہن ہے ۔ ۔ ۔ اگر ظفر نے یہ سب کیا ہے تو مجھے کم از کم یہ تصلی تو ہوتی کے وہ حریم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ ظفر کے پاس تو وہ محفوظ ہی رہے گی ۔ ۔ ۔ لیکن اماں ۔ ۔ ۔ مجھے صرف یہ فکر ہے کہ اگر اماں نے یہ سب کروایا ہے تو حریم ۔ ۔۔ نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ مراد میں ایسا ہونے نہیں دونگا ۔ ۔ میں اُس کے بنا نہیں رہ سکتا ۔ ۔ ۔ میں تصور بھی بھی کے سکتا اُس کے بغیر زندگی کا “
شاہ میر کھڑا ہوا اور کسی کو فون ملانے لگا ۔
“کس کو فون کر رہے ہو؟ ۔ “مراد نے پوچھا ۔
میرا کزن ہے ایک ۔ ۔ ۔ سیکریٹ سروسز میں ہے ۔ اُسے بلا رہا ہوں ۔ ” شاہ میر کے کہہ

کے نمبر ڈائل کیا ۔ سارا معاملہ اپنے کزن عدنان کو سمجھایا اور خفیہ رکھنے کو کہا۔ اب عدنان بلوچ متحرک ہو چکا تھا حریم کی تلاش میں ۔
وہ اُن کا منگیتر ولید بھی ہو سکتا ہے ” مراد نے کافی دیر سوچنے کے بعد کہا ۔ وہ ولید بھی ہوا تب بھی حریم محفوظ ہوگی ۔ مجھے صرف اماں کی طرف سے خوف ہے “شاہ میر نے پھر سے صوفے اور بیٹھتے ہوئے کہا ۔
وہ سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اماں نے پہلے مجھے طبیعت خرابی کا کہ کر حویلی بلایا ۔ ۔ ۔ پھر یہ سب کیا ۔ ۔ ۔ حالانکہ ان کی طبیعت بلکل ٹھیک تھی ۔ اگر خراب ہوتی تو میں شک نہ کرتا ۔ اور جو کچھ میری ماں کے ساتھ
کیا حویلی والوں نے ۔ ۔ ۔ اب وہی سب میری بیوی کے ساتھ کرنا چاہ رہے ہیں ۔
شاہ میر کا سارا شک سلطانہ بیگم پر ہی تھا ۔
شاہ میر ۔ ۔ ۔ تم سارا کا سارا شک سردار بی بی پر ڈال کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔ اگر یہ
سب ظفر نے کیا تو ؟ ” مراد نے کہا ۔

یہ سلطانہ کے سوا کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ وہ پھر سے میری کہانی دوہرا رہی ہے ۔ حلیمہ سخت
تاثرات کے ساتھ بولی ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حریم کو اس کمرے میں بیٹھے تین گھنٹے بیت گئے تھے ۔ وہ اس انتظار میں تھی کے کوئی آئے تو پتہ چلے کہ یہ کس کی کارستانی ہے ۔ وہ جانتی تھی اب چیخنے چلانے یاں دروازہ پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ جو بھی ہو گا خد ہی آجائیگا سامنے ۔ ۔ ۔ مگر وہ آکیوں نہیں رہا تھا ؟ ؟؟
انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا ۔ اُس کا سر درد کرنے لگا ۔ جو نشا اور بواسے سونگھائی گئی تھی اُس کی وجہ سے اُس کا سر
بھاری ہوا جا رہا تھا ۔ ایسے میں اُسے چائے چاہیے تھی جو اس نشے کو توڑنے میں مدد دیتی
ہے ۔
وہ ڈاکٹر تھی ۔ ۔ ۔ جانتی تھی کہ اینستھیزیہ سے ہوش میں آنے کے بعد چائے دینا بہت ضرور ہوتا ہے ۔ تاکہ چائے میں موجود نیکوٹین نشے کو ختم کر سکے ۔
وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ نشا اس کے بچے کے لیے کتنا خطر ناک تھا ۔ اب اگر اُس کا بچہ بچ گیا تو یہ ایک معجزہ ہو ہوگا ۔ اور اس نشے کا ذرا سا زیادہ ہو جانا انسانی جان کے لیے کتنا خطر ناک
ثابت ہو سکتا ہے ۔

اب تک شاہ میر کو خبر ہو گئی ہو گئی ۔ کتنا پریشان ہو گا وہ ۔ کیا اب بھی وہ سلطانہ بیگم کا ساتھ دیگا ؟ کیا اب بھی وہ آنکھیں نہیں کھولے گا ؟ وہ کب سمجھے گا کہ یہ عورت سب کو برباد کر دیگی ۔ کیوں اُسے دوست اور دشمن کی پہچان نہیں ہے
حریم سوچے جارہی تھی کہ دروازہ کھلا ۔ اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ کر حریم کا اوپر کا سانس ایک پل کو اوپر اور نیچے کا نیچے
رہ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوری کیا اُس نے حریم پر پسٹل ستانی تھی ؟ یاں اُسے کچھ کہا ؟ یاں حریم نے پہنچنا اُسے ؟”
شاہ میر نوری سے پوچھ رہا تھا
نہیں سائیں اس نے پسٹل مجھ پر اور ضمیر پر تائی تھی۔ اس نے بس حریم بی بی کے منہ میں ایک کپڑا رکھا جس سے وہ بیہوش ہو گئی ۔ اور پھر وہی شخص جلدی سے حریم بی بی کو اٹھا کرلے گیا۔ دوسرے شخص نے ہم پر پستول تانی ہوئی تھی جب تک وہ حریم بی بی کو باہر نہ
لیکے گیا ۔
حریم نے انہیں نہیں پہچانا ؟ شاہ میر نے پوچھا۔

نہیں وہ نقاب میں تھے ۔ اور پہچاننے کا موقع ہی نہیں تھا سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کچھ
سمجھ ہی نہیں آیا ۔ ” ضمیر بولا۔
مراد ۔ ۔ ۔ ۔ اس ایکشن سے لگ رہا کہ اماں کی آدمی نہیں تھے ۔ جس طرح سنبھال کر وہ حریم کو لے کر گیا ہے وہ ظفر کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پستول والے شخص کو اس نے حریم کو ہاتھ لگانے نہیں دیا ۔ اور خود اسے اٹھا کر لے گیا ۔ اور حریم پر انہوں نے پسٹل بھی نہیں تانی اور اُسے خوفزدہ بھی نہیں کیا ۔ یہ ظفر ہی ہے ۔ شاہ میر نے کہا کہ اگلے ہی پل
اُسے انجان نمبر سے پیغام موصول ہوا۔
حریم کو طلاق دے دو ورنہ تمہارا بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی تم سے بچھڑ جائیگا ۔ پیغام پڑھتے وقت شاہ میر جیسے اس دنیا میں تھا ہی نہیں۔ جو کچھ ہورہا تھا اس کے لیے یقین
کرنا مشکل تھا ۔
ظفر ۔ ۔ ۔ “
شاہ میر کہتا ہوا اٹھا ۔
کہاں جا رہے ہو؟ ” مراد نے پوچھا
چلو میرے ساتھ ابھی شہنواز کی حویلی ۔ ۔ ۔ “شاہ میر نے کہا ۔ “لیکن شاہ میر تم ابھی اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہو۔ ” مراد بولا۔

وہ میرا بچہ مار دے گا ۔ ۔ ۔ ظفر میرا بچہ مار دیگا ۔ ۔ ۔ اور مجھے ظفر کو مارنا ہے میرے پاس
وقت نہیں ہے ۔ “شاہ میر نے کہا۔
“مجھے لگا تھا وہ یہاں آئیگا ۔ مگر اُس نے تو بزدلی دکھائی ۔ وہ حریم کو ہی لے گیا۔ یہ ظفر کے سوا کوئی نہیں۔ اماں کا آدمی ہوتا تو حریم کو مارنے کی بات کرتا ۔ ۔ ۔ میرے بچے کو نہیں ۔ شاہ میر اک دم کمرے میں گیا اور وہاں سے پسٹل اٹھا لایا ۔
چلو مراد ۔ ۔ ۔ اُس نے مراد سے کہا ۔
یہ طویل سفر تھا اور شاہ میر کو یقین تھا کہ ظفر اُسے واپس حویلی لے کر گیا ہے ۔
وہ تانے بانے بن رہا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حریم میرے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ اور وہ خود اپنی مرضی سے اپنے بھائی کے ساتھ گئی ہے ۔ اور وہ اغواہ اصرف ایک ڈرامہ ہو نوری اور ضمیر کے سامنے ۔ “وہ گاڑی کی کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھتا ہوا سو چتا جا رہا تھا ۔
وہ مناظر جو ہر دوسرے سیکنڈ تبدیل ہوتے جا رہے تھے گاڑی اسقدر سپیڈ سے چل رہی
تھی ۔
میں اپنے بھائی کے قاتل کے ساتھ کیسے زندگی گزاروں گی ؟

کیا تم میری خاطر ظفر کو معاف نہیں کر سکتے ؟ ( ) تمہاری “موت ” چاہتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ موت )
لیکن اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ تم کسی بھی نیکی کے حقدار نہیں ہو۔ (” ) میری نظر میں گر گئے تم کل ہی ۔ ۔ مجھے اب تمہاری کوئی ہمدردی نہیں چاہیے تو سر دار شاہ میر سلطان، اس ونی میں آئی ہوئی لڑکی کے حسن کے آگے ہار گیا ( قسمت کا کھیل ہے سارا ۔ ۔ ۔ اور تم اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قسمت نے
شوہر بنا دیا ۔ ۔ ۔ زبر دستی کا شوہر ۔ ۔ ۔
حریم کی کہی ہوئی تمام باتیں اُس کے ذہن میں گونجنے لگیں ۔
اُس کا چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔ ) سردار شاہ میر سلطان کے نکاح میں آئی ہوئی اس کی شرعی بیوی ہوں میں ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ سر دار شاہ میر چاہے جتنا اس حقیقت کو دنیا کے سامنے جھٹلا لے مگر اللہ کے سامنے نہیں جھٹلا سکتا ۔ اگر غلام بنا کر رکھنا ہے تو مجھے طلاق دو ۔ پھر غلام بناؤ۔ پھر بیوی نہیں باندی
بولو۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
شاہ میر نے بے چینی سے پہلو بدلہ ۔
سردار کی بیٹی نہیں ہوں مگر سردار کی بیوی تو ہوں نا۔۔۔۔

شاہ میر کو وہ آنکھیں یاد آئیں ۔ ۔ ۔ کیسے وہ شروع میں بے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر بولتی تھی۔ بے خوف ہو کر ۔ ۔ ۔
تمہیں بالکل ڈر نہیں لگ رہا مجھ سے ؟
“ضرور لگتا ۔ ۔ ۔ اگر تم مجھے تھپڑ مارنے کے بعد اپنا ہاتھ زخمی نہ کر لیتے تو ۔ ۔ ۔ تو ڈر لگا کہ تم مار مار کر میری جان ہی لے لو گے ۔ مگر جو انسان ایک لڑکی کو تھپڑ مارنے کے بعد اپنا ہاتھ زخمی کر لیتا ہے ۔ ۔ ۔ یقینا دوسرا تھپڑ مارنے کی ہمت اس میں نہیں ہے ۔
اُس کا دل ڈوب رہا تھا ۔ ۔ ۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ ۔
) جو بھی ہے میرے بھائی نے ایک مرد کو مار کر مردانگی دکھائی ہے ۔ تمہاری طرح کسی عورت کو سزا نہیں دی ۔ بھری پنچایت ہے تم نے مجھے مانگا۔ اس کی جگہ اگر تم میرے بھائی کوقتل کر دے توشاید میری نظروںمیں اتنا نہ کردے جتنا میری بولی لگانے پر گرے ہو ۔ تب میں سوچتی کے ہاں ٹھیک ہے اس شخص نے اپنے بھائی کے خون کے بدلے میرے بھائی کا خون کر کے صرف حساب برابر کیا ہے ۔ جب ادا سائیں تمہارے ہاتھ نہیں لگے تو تم نے مجھے مانگ لیا ۔ تاکہ ایک بے قصور اور مظلوم سے بدلہ لے سکو۔ ( یہ سفر سر دارشاہ امیر سلطان کو اپنی زندگی کا سب سے طویل سفر محسوس ہو رہا۔ سب سے مشکل سفر ۔ ۔ ۔

سب سے اذیت ناک سفر ۔ ۔ ۔
“شاہ میر تم دشمنوں کے علاقے میں جا کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہو ۔ ۔ ۔ مارے جاؤ
گے ۔ ۔ ۔ ” مراد نے کہا ۔
میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں ۔ ۔ ۔
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا ۔۔۔
میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف ۔ ۔ ۔ میں اپنے شوق شہادت میں مارا جاؤں گا ۔۔۔۔ میرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا۔ ۔ ۔ میں دوستوں کی حراست میں مارا جاؤں گا ۔ ۔ ۔
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر ۔
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
مرا کوئی میرے ہاتھوں مرا تو پھر بھی میں ہی مرا ۔ ۔ ۔
طرح طرح کی وضاحت میں مارا جاؤں گا ۔ ۔ ۔
اٹھایا جاؤنگا مارا ہوا قیامت کا ۔۔۔
پھر ایک اور قیامت میں مارا جاؤں گا۔۔۔
نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا ۔۔ میں اب کی بار محبت میں مارا جاؤں گا۔۔۔
شاہ میرا اپنے دل میں یہ شعر دہرا رہا تھا جو اسے بہت پسند تھا ۔ ۔ ۔ ” میں آپ کی بار محبت میں مارا جاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ” شاہ میر نے مراد سے کہا ۔ ۔ ۔
سلطانہ بیگم پچھلے کئی گھنٹوں سے بے ہوش تھی۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا تھا ۔ ۔ ۔
کائنات اور ساجدہ ہسپتال کے کاریڈور میں باہر بیٹھی ہوئی تھیں۔
انہوں نے ابھی آدھے سفر ہی طے کیا تھا کہ شاہ میر کا موبائل بجا سلطانہ بیگم کے فون سے
کال آرہی تھی ۔
شاہ میر ، خالا تمہارے جاتے ہیں بے ہوش ہو کر گر پڑی تھیں ۔ ہم انہیں ہوسپٹل لے کر آئی ہے مگر ۔ ۔ ۔ کائنات کی آواز موبائل اسپیکر میں اُبھری۔
مگر ؟ ؟ شاہ میر نے ایک دم کہا۔

مگر ڈاکٹر نے کہا ہے کہ بی پی شوٹ کرنے کی وجہ سے ان کو فالج کا اٹیک ہوا ہے اور آدھا حصہ پیر الائز ہو گیا ہے ان کا وہ اب چل پھر سکتی ہیں نہ بول سکتی ہیں ۔ ” کا ئنات نے بتایا ۔
” اوہ میرے خدا۔ ۔ ۔ ” شاہ میر نے آنکھیں بیچ لیں ۔
کیا ہوا شاہ میر ؟ ” مراد نے پریشانی سے پوچھا۔ سب میری وجہ سے ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مجھے ان کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے تھا مگر ۔ ۔ ۔ میں جا نتا تھا وہ ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں ۔ ۔ اتنا کچھ بول کر آگیا انہیں میں ۔ ۔ جانتا بھی تھا کہ میری جدائی نہیں سہہ سکتیں وہ ۔ ” شاہ میر اپنی کنپٹیوں کو مسلتا ہوا بولتا جا رہا تھا ۔
ہوا ہے بتاؤ تو سہی ؟ ” مراد نے پھر پوچھا ۔ اماں کا بی پی شوٹ ہونے کی وجہ سے اُن کو فالج کا اٹیک ہوا ہے اور آدھا حصہ پر الائز ہوگیا
یہ تو بہت برا ہوا ۔ ” مراد بولا
سب میری وجہ سے ہوا ہے “شاہ میر پھر بولا ۔ ” تم کیوں ہے بات کے لئے خود کو بلیم کرتے ہو شاہ میر ؟ جنید کی موت کا ذمے داری بھی خد کو سمجھتے ہو۔ بھا بھی کی حالت کا ذمے داری بھی خود کو سمجھتے ہو ۔ ۔ ۔ مت سوچو ایسا ۔
مراد نے کہا۔

میں اپنے بھائی کی حفاظت نہ کر سکا ۔ ۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا اور وہ پاکستان میں کیا کیا نہیں کرتا پھر رہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ کسی کو قتل کرنے کا سوچ سکتا ہے یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ظفر اسے نہیں بلکہ وہ ظفر کو مارنے آیا تھا ۔ ۔ ۔ اور ظفر نے خود کو بچانے کے لئے گولی چلا دی ۔ ۔ یہ ایک سیلف ڈیفنس کے سوا کچھ نہ تھا جسے میں قتل سمجھ رہا تھا ۔ “شاہ میر نے کہا ۔ “ہاں بھا بھی نے مجھے بتایا تھا یہی سب ۔ ” بے خیالی میں مراد کے منہ سے یہ فقرہ پیسل گیا ۔
” تمہیں بتایا ؟ ؟ حریم نے ؟؟ شاہ میر حیران ہوا۔
” تمہیں کس نے بتایا ” ؟ مراد نے فورا بات گول کرتے ہوئے کہا۔
وہ لڑکی ملی تھی مجھے سونیا ۔ ۔ ۔ اسی نے بتایا مجھے ۔ وہ وہاں پر موجود تھی اس وقت ۔ ۔ ۔ ظفر نے اس لڑکی کو شادی کا پیغام بھیجا تو ۔ ۔ جنید آپے سے باہر ہو گیا اور دونوں میں ہاتھا پائی شروع ہوگی ۔ ۔ ۔ جنید نے ظفر کے سر پر پٹ کر گولی چلانی چاہیں ۔ لیکن اس سے پہلے ظفر نے چلا دی ۔۔۔ سیلف ڈیفنس میں ۔ شاہ میر نے نیا انکشاف کیا ۔ ” تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی شاہ میر ؟ ” مراد کو دکھ ہوا ۔ بہت مشکل تھا میرے لیے یہ قبول کرنا کہ میرا بھائی کسی کا قتل کرنے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ اور اس بات کا ذکر میں کسی سے نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ “شاہ میر نے کہا ۔

اور یہ جاننے کے باوجود کہ ظفر نے سیلف ڈیفنس میں قتل کیا تم ابھی اس کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو ؟ ” مراد بولا ۔
” تم نہیں سمجھ سکتے ۔ ۔ ۔ میرے بھائی کا قتل ہوا ہے ۔ ۔ ۔ میں نے کندھا دیا ہے اس کی جوان میت کو ۔ ۔ ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنید سے صرف خوفزدہ کرنا چاہ رہا تھا اور اس نے ۔ ۔ ۔ میں نے امریکا جا کر بہت بڑی غلطی کی اور پیچھے میرے بھائی غلط کاموں میں لگ گیا ۔ ۔ ۔ میں ساتھ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتا میں اسے پل پل زندگی کے معاملات سمجھاتا رہتا
تھا ۔ “شاہ میر نے کہا ۔
اپنے ذہن پر زیادہ زور مت دو شا میر تو اس وقت پہلے ہی بہت پریشان ہو ۔ “مراد نے
میں چاہ کر بھی اس عورت سے نفرت نہیں کر پا رہا ہوں مراد۔ ۔ میں نے تم سے کہا تھا نہ که سلطانہ بیگم کے پاس اگر شاہ میر نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ ” وہ وٹ سکرین کو دیکھ کر عجیب
سے انداز میں بول رہا تھا ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تمہاری پریشانی ان کے لئے ویسے بنتی نہیں ہے شاہ میر ۔ ۔ ۔ جو دوسروں کے ساتھ برا کرتا ہے اس کے ساتھ برا ہوتا ہے یہ قدرت کا قانون

ہے ۔ سب نےجو تمہاری ماں کے ساتھ کیا ۔ ۔ ۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا ان کے ساتھ ۔ ۔
مراد نے کہا۔
پھر بھی میں سے محبت کرتا ہوں مراد میں خود کو ان سے محبت کرنے سے روک نہیں
سکتا ۔
کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔
باتوں ہی باتوں میں یہ طویل سفر بھی اختتام پذیر ہوچکا تھا سر دارشاہ نواز کی حویلی اب انہیں
دور سے نظر آ رہی تھی۔
کا ئنات اب مسلسل عبید کو فون ملائے جارہی تھی مگر وہ نہ جانے کہاں مصروف تھا جو اس
کی کال رسیو نہیں کر رہاتھا۔
ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں ہوسپٹل میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے وہ لوگ سلطانہ بیگم
کو واپس حویلی لے کر آئے تھے ۔
دونوں بیٹے ان کے غائب ہے اب میں تیمارداری کروں گی ؟ ” کا ئنات نے بے زاری سے کہا تو سلطانہ بیگم نے کنکھیوں سے اُسے دیکھا۔
بولنے کے قابل تو وہ رہی ہیں نہیں تھیں ۔

اب صرف خاموش تماشائی بن کر دیکھنا ہی تھا انہیں ساری زندگی ۔ انہوں نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی عجیب سی آوازیں نکل رہی تھیں ان
کے منہ سے ۔
میں بھی بہت تھک گئی ہوں ۔ مجھ سے بھی نہیں ہوگی ان کی تیمارداری ۔ ۔ ۔ کسی اور ملازمہ سے کہتی ہوں کہ ساری رات ان کے ساتھ جاگتی رہے مجھے تو بڑی نیند آ رہی ہے کب سے اسپتال میں خوار ہو رہی تھی میں ۔ ۔ ” ساجدہ نے بھی بیزاری دکھاتے ہوئے کہا تو سلطانہ بیگم کی آنکھ نم ہو گئی۔
” و یسے سچ کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ برے کا انجام برا ہوتا ہے سلطانہ بیگم ۔ ۔ ۔ اللہ بچائے ایسی حالت سے تو موت بہتر ہے۔ نہ کھانے پینے کے قابل نہیں رہی نہ چلنے پھرنے کے ۔ کسی
کے ساتھ کوئی نیکی کی ہوتی تو آج شاید آپ کے کام ہی آجاتی ۔ ساجدہ نے کہا ۔ سلطانہ حیرت سے ساجدہ کو دیکھ رہی تھی کہ کیسے گرگٹ کی طرح اُس نے رنگ بدل دیا ۔ یہی وہ عورت تھی جو اتنے سالوں سے اسے مشورے دیتی آرہی تھی اور آج یہی اس کے خلاف بول رہی تھی صرف اس لئے کہ سلطانہ بیگم بولنے کے قابل نہیں رہی۔ ان کی حالت دیکھ کر میں نے تو بہت بڑا سبق سیکھا ہے کہ کبھی کسی مظلوم پر ظلم نہیں کرنا
چاہیے ورنہ آخر میں یہی انجام ہوتا ہے ۔ “کائنات نے جمائی لیتے ہوئے کہا ۔

اتنے میں کائنات کا فون بجااس کی ماں کا فون تھا۔
بیٹا اپنی خالہ کا خاص خیال رکھنا ان کے پاس رہنا۔ شائستہ نے پریشانی سے کائنات کو
ہدایت دی ۔
امی اپنی اولاد تو بھاگ گئی ۔ ۔ ان کو اس حالت میں چھوڑ کر فون ہی نہیں اٹھا رہا عبید اور میں بیٹھ کر تیمار داری کرتی رہوں؟ مجھ سے نہیں ہو گئی ان کی خدمت میں واپس آرہی ہوں ۔
کا ئنات نے ماں کو صاف جواب دیتے ہوئے کہا۔
” بیٹا ایسے نہیں کہتے بہن ہے میری تمہاری خالہ ہیں ۔ “شائستہ نے کہا۔ امی جو دوسروں پر ظلم کرتا ہے نا اس کا یہی انجام ہوتا ہے ۔ ان کو سوچنا چاہیے تھا
، کائنات نے کہہ کر تو بولی پر ظلم کرتے ہوئے ۔ کہ کسی دن خدا ان کی
بھی پکڑ کر یگا ۔
یہ کہہ کر فون
کاٹ دیا۔
میں تو جارہی ہوں ہو سو نے اپنا سامان پیک کروں گی اور صبح نکل جاؤں گی یہاں سے ۔ “
کائنات بولی ۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک نرس اندر داخل ہوئی ایک ملازمہ کے ساتھ ۔ اس نرس کو شاہ میر سائیں نے بھیجا ہے انکی خدمت کے لیے یہ چوبیس گھنٹے ان
کا خیال رکھے گی ۔

نرس کے ساتھ آنے والی ملازمہ نے کہا تو سلطان بیگم کی آنکھوں سے آنسو رواں
ہو گئے۔ انہیں اپنی ہی کہی ہوئی بات یاد آئی ۔
جس دن شاہ میر نے مجھے چھوڑ دیا اس دن میرا تخت اُلٹ جائے گا ۔ ( دیکھ لیں سگا بیٹا فون نہیں اٹھا رہا اور سوتیلے بیٹے نرس بھیج دیں خدمت کے لیے ۔ تھوڑا سا اپنے بھی شاہ میر کی خوشی کا خیال رکھا ہوا ہے سر دار بی بی تو یہ سب نہ ہوتا ۔ اس کی ماں کے ساتھ جو کیا سو کیا آپ نے کم از کم اس کی بیوی کو تو قبول کر لیتیں ۔ یہ تو سوچا ہوتا کہ وہ آپ کے بیٹے کی محبت ہے ۔ مائیں تو بیٹوں کی محبت پر جان قربان کر دیتی ہیں ۔ لیکن آپ تو
سوتیلی ماں تھی نا ۔ ۔ ۔ ساری زندگی استعمال نہیں کرتی رہی شاہ میر سائیں کو آپ ۔ ” ساجدہ کی زبان آج بہت تیزی سے چل رہی تھی ۔ ۔ ایسالگ رہا تھا کہ سالوں کا غبار تھا اس کے اندر سلطانہ بیگم کے خلاف جسے آج وہ آج اگل رہی تھی اپنے اندر سے زہر یلے الفاظ کی صورت میں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف جارہا تھا ۔ اپنے آنے کی گھر میں اس نے کسی کو اطلاع نہیں دی تھی۔ مسلسل ایک ہفتہ خوار ہونے کے بعد بالآخر وہ پاکستان پہنچ گیا تھا۔

اب اُسے سیدھا اپنے باپ کے پاس جانا تھا اور صرف ایک سوال کرنا تھا ۔ ۔ ۔ کہ ۔ ۔ ۔
اُس کی بہن کہاں ہے ؟ ؟ ؟
اس نقاب پوش شخص کو دیکھ کر حریم کو چکر سے آنے لگے تھے ۔ ایک سیکنڈ میں نہ جانے کتنے خیال اس کے ذہن میں آرہے تھے ۔
سب سے پہلے تو اسے اپنی عزت کا تھا ۔ ۔ ۔ نجانے کون تھا یہ شخص ۔ ۔ جسے پہچاننے سے
وہ قاصر تھی ۔
وہ اُس سے کیا چاہتا تھا اور کمرے میں کیوں آیا تھا ۔ ۔ ۔
حریم کا سر چکرانے لگا۔
وہ شخص لمبے لمبے قدم بھر تا ہو اس کے قریب آرہاتھا ۔
“مجھے ہاتھ لگانے کی غلطی مت کرنا ۔ ۔ ۔ تم جو بھی ہواتنا تو جانتے ہو کہ میں شاہ میر کی بیوی ہوں ۔ ۔ اگر تم سلطانہ بیگم کے آدمی ہو ۔ ۔ ۔ تو یقین شامیر کی دہشت سے واقف ہو گے ۔ اگر تم نے میرے ساتھ کچھ بھی غلط حرکت کی تو انجام کے ذمہ دار تم خود ہو گے ۔

وہ جو بھی تھا اس نے ابھی تک پیزا بوائے والے کپڑے ہی پہنے ہوئے تھے ۔ چہرہ معمولی طور پر بڑے سے رومال سے نقاب میں چھپایا ہوا تھا ۔ اس کے بال بھی نمایاں نہیں تھی
صرف اس کی آنکھیں نمایاں تھیں ۔
میں کہہ رہی ہوں میرے قریب مت آنا ور نہ بہت برا ہوگا ۔ “حریم پیچھے ہوتی جا رہی تھی ۔ بڑا ناز ہے تمہیں اپنے شاہ میر پر ۔ ۔ ۔ ” نقاب کے اندر سے اُس شخص کی دبی ہوئی آواز
ابھری تھی۔
حریم اب المبی لمبی سانسیں لے رہی تھی پریشانی کی وجہ سے وہ پیچھے ہوتے ہوتے دیوار سے لگ گئی۔
اُس نقاب پو ے دونوں ہاتھ دیوار پ ا کے میک کے را کا راستہبند کر دیاتھا۔ حریم بے حد غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی لیکن پہچانے سے قاصر
“شاہ میر بھی میرے گا میرے ہاتھوں اور اس کا بچہ بھی ۔ ۔ “اس شخص نے حریم کی
آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔
کون ہو تم ؟ ” حریم نے اپنی جھیل سے آنکھوں میں حیرت سموئے سوال کیا ۔

اُس شخص نے اپنا ہاتھ دیوار سے الگ کیا اور اپنے چہرے کے قریب لایا ۔ ۔ اب وہ آہستہ
آہستہ سے اپنا نقاب اتارا تھا جا رہا تھا ۔
تم ؟ ؟ ؟ “حریم کی جیسے چیخ نکل گئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی سے ایک دم اتر کر فورا مراد نے اپنی رائفل لوڈ کی۔
شاہ میر نے بھی اپنی پسٹل سنبھالی اور دونوں حویلی کے اندر داخل ہوئے ۔ “کون ہیں آپ اور اندر کیسے جارہے ہیں ؟ ” چوکیدار اُن کے پیچھے بھاگا۔
اپنی بکواس بند کرو ۔ ” مراد نے اُسے رائفل دکھاتے ہوئے کہا تو وہ خوفزدہ ہو گیا ۔ وہ دونوں حویلی کے اندر داخل ہوئے جہاں پر بہت سی خواتین مرد بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ سب شاید ابھی ابھی رات کا کھانا کھاکر فارغ ہوئے تھے ۔ ان دونوں کو اندر داخل ہوتا ہوا دیکھ کر سب ایک پل کو ساخت ہو گئے ۔ تقریبا سبھی لوگوں نے شاہ میر کو پہچان لیا تھا۔
“شاہ میر ؟؟؟ تم یہاں ؟ “شاہنواز نے حیرت سے پوچھا ۔ “میری بیوی مجھے واپس کے دو۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ شاہ میر نے شاہنواز کی
سر پر بندوق تا نتے ہوئے کہا ۔

شاہ میر اُن کی سفید داڑھی کا تو لحاظ کرو ۔ آمنہ بیگم نے چیختے ہوئے کہا ۔ دشمن کسی کا لحاظ نہیں کرتا ۔ “شاہ میر بولا۔ ” شرافت سے بتاؤ میری بیوی اور تمہارا بیٹا کہاں ہے ؟ کہاں چھپا کے رکھا ہے ظفر نے حریم کو ؟ ورنہ تمھارے بیٹے نے تو ایک قتل کیا تھا میں یہاں بہت سی لاشیں گرا کر جاؤں گا
آج ۔ ” شاہ میر نے دھمکی دی ۔
“تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ حریم تمہارے پاس نہیں ہے ؟؟؟ “آمنہ بیگم نے حیرت سے
پوچھا ۔
“آپ کا بیٹا ظفر لے گیا ہے میری بیوی کو اغوا کر کے ۔ “شاہ میر نے پوری قوت سے
چلاتے ہوئے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید ۔ ۔ ۔ تم؟؟؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ ولید ؟ ؟ ؟ مجھے تم سے یہ امید نہیں
تھی. “حریم نے تقریبا چیختے ہوئے غصے سے کہا۔
” مجھے بھی تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم مجھے بھلا کر شاہ میر کو اپنے دل میں جگہ دوگی ۔۔
ولید بولا۔
” وہ شوہر ہے میرا ۔ “حریم نے کہا۔

اور میں؟؟؟ بچپن سے تمہارے ساتھ کے خواب دیکھتا رہا ہوں ۔ کتنا انتظار کیا تھا میں نے تمہاری ڈگری مکمل ہونے کا ۔ کتنا خوش تھا کہ مجھے اپنی بچپن کی محبت مل جائیگی ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ تم نے شاہ میر کو اپنا لیا ۔ ” ولید نے کہا ۔
” میں نے تمہارے ساتھ جینے مرنے کی کوئی قسمیں نہیں کھائیں تھیں ۔ وہ ایک بچپن کی نسبت تھی جو ہمارے بڑوں نے طے کی تھی اور میری نظر میں اب اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میری نظر میں اس نکاح کی اہمیت ہے جو میرا شاہ میر سے ہوا ہے ۔ اور مجھے تم سے
اتنی گری ہوئی حرکت کی توقع ہر گز نہیں تھی ۔ “حریم نے کہا ۔
” مجھے بھی توقع نہیں تھی چا سائیں سے کے وہ ایسا کریں گے ۔ ساری برادری میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا انہوں نے مجھے ۔ ۔ ۔ یقین کرو میں حویلی سے باہر ہی نہیں نکلتا ہوں اس وجہ سے ۔ جدھر بھی جاتا ہوں سب مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ جدھر بھی جانتا ہوں ۔ہر کسی کی زبان پر یہی فسانہ ہے کہ ولید کی منگیتر کو شاہ میر خون بہا میں لے گیا ۔ یہ الفاظ مجھے گالی کی مانند لگتے ہیں۔ دوستوں یاروں میں اٹھنے بیٹھنے جیسا نہیں رہا ۔ اتنی بے عزتی ہوئی ہے میری پورے علاقے میں ۔ ۔ ۔ پہلے میں سر اٹھا کر اپنے علاقے میں گھومتا تھا اب گھر سے باہر نکلنا محال ہو گیا ہے میرا اس وجہ سے ۔ تم لوگوں کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ میری کتنی بے عزتی ہوئی پورے علاقے میں ۔ کیا سوچا تھا تم لوگوں نے کہ میں چپ ہو کر کے بیٹھ

جاؤنگا اپنی اس عظیم بے عزتی پر ؟؟؟ میں بے غیرت ہوں جو چپ جاؤں گا ؟ ؟ ؟ ” ولید نے
کہا۔
” تو مجھے اغوا کر کے کون سی غیرت والا کام کر دیا ہے تم نے ؟ ؟ ؟ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ
اب شاہ میر تمہارا کیا حشر کرے گا ۔ “حریم نے کہا ۔
اور شاہ میر کو اندازہ نہیں ہے کہ میں اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہوں ۔ ۔ ۔ میں تواس دن سے اس کی جان کا دشمن بنا ہوا ہوں جس دن بھری پنچایت کے سامنے اس نے کہا تھا
کہ اسے ظفر کی بہن چاہیے ۔ ۔ ۔ یہ زندگی میں پڑنے والی پہلی گالی تھی جو شاہ میر نے مجھے دی ۔ تم اندازہ نہیں کر سکتی ہو وہاں پر کتنے سارے لوگ تھے ۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی اس کی بات سن کر میں تو اسی وقت اُسے جان سے مارنے والا تھا مگر مجھے سب
نے روک دیا ۔ مگر اب وہ زندہ نہیں رہے گا
” تم مارو گے شاہ میر کو؟؟؟ میرے شاہ میر کو؟ ؟ ” حریم نے کہا ۔
” ہاں ۔ ۔ ۔ میں ماروں گا شاہ میر کو ۔ ۔ ۔ تمہارے شاہ میر کو ۔ ۔ ولید نے اسی انداز میں
جواب دیا ۔

Share with your Friends on Facebook


Updated: June 9, 2025 — 3:45 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *