Badnaseeb Beti Part 9 continues the intense emotional and romantic journey of a girl trapped between pain, love, and societal pressure. This part stands out among the most-read Urdu kahaniyan new in 2025, with a blend of bold drama and heartfelt moments.
Written in clear Urdu font, this episode connects deeply with fans of free romantic Urdu novels, bold Urdu stories, and emotional social fiction.
✨ Top trending Urdu kahani of 2025
💘 Romantic, bold, and deeply emotional
📖 Read online in Urdu font
📥 Free PDF download available for offline reading

Badnaseeb Beti Part 9 – Urdu Kahaniyan New | Bold Emotional Urdu Novel 2025
Read here Badnaseeb Beti Part 8 – Best Urdu Stories 2025
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ولید ۔ ۔ ۔ حریم نے کہا لیکن وہ خوفزدہ ضرور ہو گئی تھی اس کی
بات سن کر ۔
جس طرح سے اس کی آنکھوں میں خون نظر آرہا تھا ۔ ۔ اسے حریم کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ ایسا
کرنے کا پورا ارادہ کر چکا ہے ۔
سب سے پہلی بات کے تم ایسا نہیں کروں گے ۔ ۔ اور اگر تم نے شاہ میر کو نقصان پہنچایا
بھی تب میں تم سے شادی کسی قیمت پر نہیں کرنے والی ۔ “حریم نے کہا ۔ ” تم بھلے مجھ سے شادی نہ کرو ۔ ۔ ۔ لیکن میں شاہ میر سے اپنی بے عزتی کا بدلہ ہر حال میں لے کر رہوں گا ۔ میرے پاس لڑکیوں کی کمی نہیں ہے حریم ۔ لیکن میں زمانے کو صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی منگیتر شاہ میر سے واپس لے لی ہے ۔ تمہیں واپس لا کر میں
زمانے میں سر اٹھا کر چل سکتا ہوں ۔ “ولید بولا
اتنا بڑا گناہ اتنا گھٹیا کام… تم نے صرف اس لیے کیا ہے تاکہ تم زمانے میں سر اٹھا کر چل سکو ولید ؟ ؟ ؟ میری زندگی میرے احساس میرے جذبات کا کوئی خیال نہیں ہے تمہیں ؟ یہ جاننے کے باوجود کہ میں شاہ میر کے بچے کی ما بننے والی ہوں ؟ ؟ ؟ میرے ہی سامنے تو میرے شوہر کو مارنے کی بات کر رہے ہو ۔ ۔ اور مجھ پر سے امید کر رہے ہو کہ اتنا
سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی میں تمہارے ساتھ رہنا پسند کروں گی ؟ ؟ ؟
حریم نے کہا ۔
وہ کھڑے کھڑے تھک چکی تھی اس سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا وہ آہستہ سے چلتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی اس کا سر چکرا رہا تھا ۔
جب سے مجھے پتا چلا کہ تم شاہ میر کے بچے کی ماں بننے والی ہوں تب سے میرے اندر آگ لگ گئی۔ اس سے پہلے کے یہ بچہ دنیا میں آئے اور تمہارے پاؤں کی زنجیر بن جائے
میں تمہیں شاہ میر سے آزاد کروا کر رہوں گا ۔ ” ولید سامنے کھڑا ہو کر بولا ” تم ایک معصوم کی جان لینا چاہتے ہو؟ جس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا ۔ جو بھی اس دنیا میں
آیا ہی نہیں ۔ “حریم نے افسوس سے کہا ۔
پہلے حریم خوفزدہ نہیں ہوتی تھی لیکن جب سے ظفر نے قتل کیا تھا تب سے اس کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا کہ کبھی بھی، کوئی بھی، کسی کو بھی مار سکتا ہے ۔ ۔ ۔ چاہے خود کو بچانے
کے لئے ہی کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔
اور وہی خوف آج اسے ولید سے آ رہا تھا کہ واقعی میں شاہ میر کو مار دے گا۔ اور یہی خوف اسے شاہ میر سے تھا کہ وہ ظفر کو مار دے گا۔
اتنی دیر میں ولید کا ساتھی کھانا لیکر آگیا ۔ کھانا شاپر میں تھا۔ اُس نے سامنے رکھا اور وہاں
سے چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ پلیٹ لیکے آیا ۔
کھانا کھا لو۔ ” ولید نے کھانا پلیٹ میں نکال کر حریم کے سامنے رکھا ۔ اُس کی تو بھوک اُڑی ہوئی تھی لیکن اس ننھی سی جان کے لیے اُس نے کھانا شروع کیا جو
اُس کی کوک میں پل رہا تھا ۔
ولید بھی اُس کے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگا۔
” تم اس شخص سے کیسے محبت کر سکتی ہو جو تمہارے بھائی کا جانی دشمن بنا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ولید نے نوالہ منہ میں لے جاتے ہوئے کہا۔
میں اللہ سے بہتری کی امید رکھتی ہوں ولید ہمیشہ ہی اور ہمیشہ ہی اللہ نے میری مدد کی ہے ۔ اُسی اللہ نے شاہ میر کے دل میں میرے لئے محبت ڈالی ہے
۔ اور آگے ؟ بھی ہدایت دے کیوں کہ میری دعائیں دیر سے ہی سہی لیکن قبول ہوتی ہیں ۔ “حریم نے کہہ
کر نوالہ لیا۔ پتہ ہے مجھے پہلے شاہ میر کی یہ بات عجیب لگتی تھی کہ اس نے مجھے خون بہا میں مانگا ۔ ۔ ۔ لیکن آج جو تم نے حرکت کی ہے اس کے سامنے مجھے شاہ میر بہتر لگ رہا۔ ۔ ۔ جو بھی تھا شاہ میر عزت کے ساتھ مجھ سے نکاح کر کے اپنے ساتھ لے گیا ۔ ۔ ۔ لیکن اتنی گرمی ہوئی
حرکت کی ہے تم نے مجھے اغوا کر کے یہ جانتے ہوئے بھی میں اب کسی کی بیوی ہوں ۔۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں تمہاری اپنی عزت ہوں ۔ تمہارے چا کی بیٹی ہوں ۔ ۔ ۔ یہ جو غیرت کی گردان تم میرے آگے دوہرا رہے ہونا؟ اگر تم میں ذراسی بھی غیرت ہوتی تو اتنی گری ہوئی حرکت نہ کرتے ۔ شاہ میر کو مارنا تھا تو اسے مار دیتے مجھے کیوں اغواء کیا ؟
حریم نے کہا۔
“شاہ میر کا عشق سر چھڑ کر بول رہا ہے ۔ ۔ ۔ ایسا کیا جادو کیا ہے اُس نے تم پر ؟ ” ولید بولا ۔
اس نے مجھے عزت دی ہے ۔ ۔ ۔ جو تم نہیں دے سکے ۔ “حریم نے کہا ۔ ایسا کیسے کہہ سکتی ہوں حریم تم ۔ ۔ ۔ کیا میں تمہاری عزت نہیں کرتا تھا ؟ ؟ ؟ ولید نے کہا
تھا اس میں اور تم میں فرق ہے۔ ۔ ۔ پہلے یہ سوچ کر تم میری عزت کرتے تھے کہ میں تمہاری منگیتر ہوں اور تمہاری بیوی بنوگی اور تمہاری چا کی بیٹی ہوں ۔ لیکن آج تم مجھے صرف اور صرف شاہ میر کی بیوی سمجھ رہے ہو۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے یہ سب کیا ہے تم نے ۔ آج بھی تم میرا نہیں اپنا سوچ رہے ہو ۔ شاہ میر تمہارے ہاتھوں مرے یا نہیں یہ میں نہیں جانتی لیکن تم اب شامیر کے ہاتھوں مرنے والے ہوئے میں جان گئی ہوں ۔ حریم نے کہا ۔ ۔ ۔
چلو دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ اس بازی میں کس کی موت لکھی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ میری ، ظفر کی یاں
شاہ میر کی ۔۔۔”
ولید ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“شاہ میر ہمارا یقین کرو ہمیں ظفر کے متعلق کوئی علم نہیں ہے “آمنہ بیگم نے روتے
ہوئے کہا ۔
“کیسے یقین کروں آپ سب کا ؟ “شاہ میر گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا اور اپنا سر
دونوں ہاتھوں سے تھام لیا.
پھر کافی دیر کے لیے سب خاموش ہو کر وہاں پر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے۔ البتہ مرادرائفل
سنبھالے شاہ میر کے پیچھے صوفے میں کھڑا تھا۔
لڑ کے تم رائفل ایک طرف رکھو اور آرام سے بیٹھ جاؤ۔ یہ ہمارا داماد ہے ہماری بیٹی کا شوہر ہے ہم اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے بے فکر رہو ۔ “حریم کی پھوپھونے مراد سے کہا تو اس نے شاہ میر کی طرف دیکھا جیسے اجازت لے رہا ہو شاہ میر نے آنکھوں کے
اشارے سے بیٹھ جانے کے لیے کہا تو وہ بیٹھ گیا ۔ “حریم کو کسی نے اغوا کیا ہے ۔ ۔ ۔ میری بچی نجانے کہاں ہے ۔ ۔ ۔ شاہ نواز نے کہا ۔
“آپ کے ظفر کے پاس ہے اور کہیں نہیں ۔ “شاہ میر اب آرام سے بول رہا تھا ۔ وہ بہت تھک چکا تھا۔ اور مسلسل جاگ رہا تھا کل سے ۔ اوپر سے اتنا لمبا سفر ۔ ۔ اور
پریشانی ۔ ۔ ۔ قریب تھا کہ وہ گر پڑتا۔ لیکن وہ بہت مضبوط اعصاب کا ملک تھا ۔ ظفر کو اگر اپنی بہن لینی ہوتی تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر لیکر جاتا تمارےگھر سے ۔ ۔ ۔ وہ کیوں
اپنی بہن کو اس طرح سے لے جائیگا ؟ “حریم کی پھوپھو نفیسہ نے کہا۔
کیوں کے وہ بزدل ہے ۔ ۔ ۔ ڈرتا تھا شاید کے کہیں میں اُسے مار نہ دوں ۔ “شاہ میر نے
کیا۔
“شاہ میر مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ وہ لاس اینجلس سے نکلا ہے ۔ باقی وہ اب تک یہاں نہیں پہنچا ۔ اور میں کچھ نہیں جانتا۔ شاہ نواز نے کہا حریم کے اغوا کا سن کر ان کی حالت غیر
ہو گئی تھی ۔ اُن سے بولا نہیں جا رہا تھا وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگے
چاچا سنبھالیں خود کو ۔ مل جائیگی حریم . “ریان نے ان کو شانوں سے تھام کر کہا۔ “کیسے سنبھالوں خد کو ؟ اپنی بچی میں نے خد آگ میں جھونک دی ہے ۔ “شاہ نواز نے شاہ
میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
شاہ میر تم میری بچی کو مارتے رہے ۔ تھپڑ سے تم نے اُس کا استقبال کیا ۔ ۔ ۔ اور اس کی ویڈیو بنا بنا کر بھیجتے رہے ۔ تمہاری ماں اُسے جانوروں کی طرح مارتی رہی اور ہمیں ویڈیو
بھیجتی رہی ۔ ۔ مجھے بتاؤ یہ کہاں کی انسانیت ہے ؟ تمہارے بھائی کو حریم نے تو نہیں مارا تھا ۔ ۔ کیوں اُس کے ساتھ یہ سب کیا تم لوگوں نے ؟ “آمنہ بیگم روتے ہوئے شکوہ کر
رہی تھیں ۔
پلیز میں اس وقت بہت پریشان ہوں اپنی بیوی اور بچے کے لیے ۔ آپ پلیز ا بھی ایسی کوئی بات نا کریں ۔ میرا دماغ پہلے ہی ماؤف ہو چکا ہے ۔ “شاہ میر نے کہا ۔
تم میری بچی کی حفاظت نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ “آمنہ بیگم نے پھر کہا ۔
“آمنہ چپ کر جاؤ۔ دیکھ نہیں رہی وہ پہلے ہی پریشان ہے ۔ ” شاہ نواز نے کہا ۔ کیسے چپ کر جاؤں ؟؟؟ میری بچی اغوا ہوئی ہے ۔ اس کی ذمے داری تھی حریم کی حفاظت ۔ نہ جانے کس حال میں ہوگی ۔ “آمنہ بیگم نے کہا ۔
جس حال میں ایک بہن کو ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ اسی حال میں ہوگی
وہ ۔ اور آپ کا بیٹا مجھے میرے بچے کو مارنے کی دھمکی دے رہا ہے پیغام بھیج کر شاہ میر
نے بتایا ۔
ظفر حریم کے بچے کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ کوئی اور ہے شاہ میر ۔ اور تم ظفر سمجھ کر آرام سے بیٹھے ہو ” شاہ نواز نے کہا ۔
کوئی اور نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اور میں اپنی بیوی لیے بغیر یہاں سے نہیں جانے والا ۔ “شاہ میر
نے کہا ۔
ریان ، شاہ میر اور اس کے ساتھی کے لیے کھانا لے کر آؤ ۔ “شاہ نواز نے کہا ۔ “مجھے آپ کے کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے برائے مہربانی میری بیوی مجھے واپس کر دیں ۔ اور جو طلاق کی دھمکی دی ہے بیٹے نے دی ہے اس کا تو خیال اپنے ذہن سے نکال
دیں ۔ شاہ میر اپنی کنپٹیوں کو اپنی انگلی سے مسلتا ہوا بولا۔
ایسا کچھ نہیں ہے جس نے بھی تمہیں پیغام بھیجا ہے وہ یقینا ظفر نہیں ہے وہ حریم کے متعلق ایسی بات نہیں کر سکتا ہے ۔ وہ اس کی بہن ہے ۔ ظفر نا تو اس کے بچے کو نقصان پہنچے گا اور نہ ہی اس کا گھر تباہ کرنے کا سوچ سکتا ہے ۔ ” شاہ نواز نے کہا ۔ تہاری ماں کاکام ہوگا یہ میری کی کو جانوروں کی طرح مارتی ہے۔ آمنہ نے کہا۔۔۔۔
شاہ میر نے بیزاری سے آمنہ بیگم کی طرف دیکھا وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی
تھیں اور شاہ میران کی باتوں سے بہت پریشان ہو رہا تھا۔
آمنہ تم چپ ہو جاؤ ہم سب بہت پریشان ہیں ۔ “شاہ نواز نے کہا ۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی اتنے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔
سب نے گردن گھما کر آنے والے کو دیکھا تو ایک جھٹکے سے سب کھڑے ہوئے ۔ ظفر ۔ ۔ ۔ “آمنہ بیگم فوراً اُس کی طرف لپکیں تو اس کے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں
وہیں رک جانے جو کہا۔
اس کے تیوراتنے خطر ناک تھے کہ آمنہ بیگم ایک پل کو خوفزدہ ہو گئیں اور وہیں پر ان کے قدم جم گئے۔
ظفر نے ایک نظر وہاں پر موجود تمام افراد پر دوڑائی اور اس کی نظریں شاہ میر پر آکر ٹھہر گئیں ۔ وہ اسے پہچان گیا تھا کیونکہ اس نے اس کی کافی کی تصویر میں دیکھ رکھی تھیں ۔ شاہ میر آہستہ سے کھڑا ہوا اور اپنی جیب میں موجود پسٹل کی طرف اپنا ہاتھ لے جانے لگا آمنہ بیگم کی نظر اب شاہ میر پر تھی جو آہستہ سے پسٹل نکال رہا تھا۔
اُن کا دل ڈوب گیا۔
حریم کہاں ہے ؟ ” ظفر نے شاہ نواز کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔ تو سب کو جیسے
سانپ سونگھ گیا۔
میں پوچھ رہا ہوں کہاں ہے میری بہن ؟ ؟ ؟ ” ظفر اتنے زور سے چلایا کہ پوری حویلی میں اس کی آواز گونجنے لگی
اور یہ سن کے شاہ میر کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی تھی ۔ ۔ ۔
حریم تمہارے پاس نہیں ؟ ” شاہ میر ظفر سے مخاطب ہوا۔ “میرے پاس کہاں سے آئی وہ ؟ ؟ ؟ اس شخص نے ۔ ۔ ۔ اس شخص نے ۔ ۔ ۔ آگ میں
جھونک دیا میری بہن کو ۔ ۔ ۔
ظفر شاہنواز کی جانب لپکا اور ان کا گریبان پکڑ لیا۔
ظفر اپنے باپ کا گریبان پکڑے رہے ہو تمہیں کوئی تمیز ہے یا نہیں ؟ “آمنہ بیگم نے
اسے دور د ھکیلتے ہوئے کہا۔
انہیں تمیز تھی ؟ ؟ ؟ کوئی اپنی بیٹی دیتا ہے خون بہا میں ؟؟؟ مجھے بچانے کے لیے آپ نے میری بہن کو قربان کر دی ؟؟؟ اندازہ ہے آپ کو کے کیسا سلوک کیا جاتا ہے ایسی لڑکیوں کے ساتھ ؟ اس سے تو اچھا تھا یہ شخص مجھے مار ہی دیتا ۔ ظفر نے شاہ میر کی طرف اشارہ
پھر وہ شاہ میر کے سامنے آکر کھڑا ہوا
میں تمہارے سامنے ہوں شاہ میر ۔ ۔ ۔ بنا ہتھیار کے ۔ مجھے مار دو ۔ ۔ ۔ اور میری بہن کو آزاد کر دو اس غلامی کی زندگی سے ۔ ظفر نے شاہ میر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
میں تمہارا مجرم ہوں۔ مجھے مار دو ۔ ۔ ۔ میری بہن کو آزاد کر دو ۔ ظفر بولا
شاہ میر کی آنکھوں میں ظفر کو دیکھ کر خون اتر آیا تھا لیکن ابھی اسے صرف یہی پریشانی تھی کہ اگر حریم ظفر کے پاس نہیں ہے تو کہاں ہے ۔ ۔ ۔
“حریم اغواء ہوگئی ہے ۔ پہلے مجھے اسے ڈھونڈنا ہے ۔ تم سے بعد میں نمٹ لونگا ۔ ۔ ۔ چلو
مراد ۔ ۔ ” شاہ میر کہتا ہوا وہاں سے جانے لگا ۔
مراد اُس کے پیچھے ہولیا۔
“حریم ؟ ؟ ؟ اغواء ؟ ؟ “ظفر بولا۔
ر کوشاہ میر ۔ ۔ ۔ ظفر نے پیچھے سے پکارا تو وہ رک گیا ۔
ظفر چلتا ہوا اس کے قریب آیا ۔
اس کی حفاظت تمہاری ذمہ داری تھی نکاح کے بعد ۔ ۔ ۔ یہ حفاظت کی ہے تم نے اس
کی ؟ ” ظفر غصے میں تھا مگر کنٹرول کیے ہوئے تھا ۔
“مجھے تو ابھی بھی شک ہے تم پر ۔ ” شاہ میرا نے کہا
“مجھے اگر حریم کو لے کے جانا ہوتا تو مجھے اغوا والے ڈرامے کی ضرورت نہیں تھی شاہ میر ۔ وہ میری بہن ہے اور میں تمہارے سامنے اسے لے کر جا سکتا تھا ۔ ظفر بولا۔
پھر یقینا تمہارے کزن ولید کا کام ہے ۔ ” مراد نے کہا ۔
ولید پچھلے ایک ہفتے سے حویلی سے غائب ہے ۔ کہہ کر گیا تھا کہ بہت ضروری کام سے جا رہا ہوں اور اس کا نمبر بھی ایک ہفتے سے بند ہے ۔ مجھے بھی لگ رہا ہے کہ یہ ولید کا کام ہے کیونکہ اس نے ایسی بہت ساری باتیں مجھے بولی تھیں ۔ ” ریان نے کہا ۔ شاہ میر نے ریان کی طرف دیکھا ۔
کچھ اندازہ ہے تمہیں کہ وہ کہاں ہو گا ؟ ” شاہ میر نے پوچھا۔
نہیں مجھے نہیں پتہ ۔ ۔ مگر وہ تم سے بدلہ لینے کی باتیں کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ بلکہ تمہیں جان سے مار
دینا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ ” ریان نے کہا۔
اتنے میں شاہ میر کا فون بجا اس کے کزن کی کال تھی جو سیکرٹ سروسز میں تھا عدنان
بلوچ۔۔۔۔
پتہ چل گیا اغواہ کاروں کا ۔ “شاہ میر نے کہا
میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں مجھے میری بہن صحیح سلامت چاہیے ۔ ۔ ۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ۔ ۔ ۔ اس وقت حریم کا صحیح سلامت واپس آنا ضروری ہے ۔ ظفر نے کیا۔
” میں بھی چلوں ؟ ریان نے کہا ۔ کوئی ضرورت نہیں ۔ ” شاہ میر بولا۔
ریان کو یہی فکر تھی کہ شاہ میر حریم کی بازیابی کے بعد کہیں ظفر کو جان سے نہ مار دے ۔ او راگر یہ ولید کا کام ہے تو آج وہ نہیں بیچنے والا ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔
وہ تھک ہار کر سو گئی ۔
بہت گہری نیند سوئی وہ ۔ ۔ ۔
تقریباً رات کے تیسرے پہر ایک عجیب سے شور سے اس کی آنکھ کھلی ۔ ۔ ۔ اگلے ہی پل اسے احساس ہوا کہ یہ گولی چلنے کی آواز تھی ۔ ۔ ۔ گولی کی آواز سن کر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے ۔ ۔
“شاہ میر ۔ ۔ ۔ “
حریم کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا ۔ ۔ ۔
وہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی بھاگنے کے انداز میں وہ دروازے کی جانب لپکی اس وقت وہ یہ بھول چکی تھی کہ اب اسے احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ اب وہ اکیلی نہیں اس کے
ساتھ اک ننھی جان بھی تھی۔
پلک جھپکنے سے پہلے وہ کمرے کے باہر تھی اور باہر کا منظر اسے خوفزدہ کر گیا. ولید شاہ میر پر پسٹل تانی کھڑا تھا ۔ اور اُس کے پیچھے ظفر اور مراد کھڑے تھے ۔ ولید نے شاہ میر کو دیکھتے ہی گولی چلائی تھی لیکن نشانہ چوک گیا تھا اور اس وجہ سے شاہ میر بچ گیا ۔ شاہ میر کا سر اتنا گھوما ہوا تھا کہ وہ اپنی گاڑی سے پسٹل اٹھا نا بھول گیا ۔ اور نہ ظفر
کے پاس پسٹل تھا صرف مراد کے پاس رائفل تھی۔
مگر مراد چوکنا کھڑا تھا لیکن گولی نہیں چلائی کیونکہ ولید کچھ بھی کر سکتا تھا اس لئے مراد اپنی رائفل سبھالے کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن فائرنگ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا ۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا ۔ ۔ ۔ ورنہ میں اسے یہیں پر ڈھیر کر دونگا۔ ولید نے کہا۔۔۔۔
ولید ۔ ۔ ۔ خدا کا واسطہ ہے شاہ میر کومت مارنا ۔ ۔ ۔ تم جو چاہتے ہو میں ویسا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ ۔ ۔ میں چھوڑ دونگی شاہ میر کو ۔ ۔ ۔ تم سے شادی بھی کے لونگی ۔ ۔ ۔ جیسا تم چاہتے ہو ویسا کروں گی ۔ ۔ ۔ مگر میرے شاہ میر کو چھوڑ دو ولید ۔
حریم نے آگے بڑھ کر اپنا دوپٹہ ولید کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہا۔ شاہ میر نے حیرت سے حریم کو دیکھا ۔ ۔ ۔ وہ اُس کی جان بچانے کے لیے ایک بار پھر سے اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار تھی ۔۔۔۔
پہلے اس نے ظفر کی جان بچانے کے لئے اپنی زندگی کی قربانی دے دی تھی ۔ اور اب وہ شاہ میر کی جان بچانے کے لیے خود کو قربان کرنے جارہی تھی ۔ اس لڑکی نے ہر پل ہر لمحہ شاہ میر کو حیران کیا تھا ۔ ۔ ۔
کیا یہ لڑکیاں اپنے محرموں کے لیے لیے اتنا کچھ کر سکتی ہے شاہ میر نے سوچا نہیں تھا ۔ کیا اس لڑکی کے لئے اپنی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیا اس کے لئے صرف اس کے
محرم رشتے اس کا باپ، اس کا بھائی اور اس کا شوہر سب کچھ تھے
اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے وہ دشمنوں کے گھر چلی گئی ۔ ۔ ۔
اور اب اپنے شوہر کی جان بچانے کے لئے اپنی محبت کو چھوڑ کر ۔ ۔ اپنے بچے کو چھوڑ کر ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے سب سے نا پسندیدہ شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے تیار ہو گئی ہے صرف اس لیے کہ اس کا شوہر بچ جائے ۔ ۔ ۔
شاہ میر حیران تھا ۔ ۔ ۔ بہت حیران ۔ ۔ ۔ کیا وہ شاہ میر سے اتنی محبت کرتی تھی کہ اسے چیز کی پرواہ نہیں تھی ۔ ۔ ۔ نہیں اپنی زندگی کی ۔ ۔ ۔ نہ اپنے بچے کی ۔۔۔ اس علاقے کی رسم تھی کہ جب کوئی عورت دو پٹہ پیروں میں رکھ دے تو سامنے والا جان دینے اور لینے کے لیے راضی ہو جاتا ہے ۔ مگر آگے ولید تھا ۔ ۔ ۔ جس میں غیرت نہیں
تھی۔
ولید ۔ ۔ ۔ حرامزادے ۔ ۔ ۔ میری بہن کی چادر کا پاس نہیں رکھ سکتے تم اور اس سے شادی کی بات کر رہے ہو؟ ” ظفر ولید پر حملے کے لیے آگے بڑھا۔
تو ایک بار پھر سے ولید نے فائر کیا ہوا میں ۔ ۔ ۔
ان کو دیکھتے ہی حریم کی بے ساختہ چیخ نکلی۔ نہیں۔ ۔ ۔ پلیز سے ابھی کچھ نہ کیں میرے شاہ میر کو حریم نے روتے ہوئے ظفر کے سامنے ہاتھ جوڑے تو ظفر اُس کی بات پر حیران ہو گا ۔ ۔ ۔ وہ اتنی محبت کرنے لگی تھی شاہ میر سے ظفر کو اندازہ نہیں تھا ۔ ۔ ۔
اپنی بہن کو روتا ہوا دیکھ کر ظفر کی قدم وہیں منجمد ہو گئے۔
کیا سوچا تھا تم نے کیوں بھری پنچایت کے سامنے تم میری منگیتر کا نام لوں گا اور میں
تمہیں زندہ چھوڑ دوں گا ؟ ؟ ؟
تم میری حویلی سے ۔ ۔ ۔ میری ہی منگیتر کو نکاح کر کے اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور میں چپ بیٹھ کر تماشہ دیکھتا رہوں گا ؟
نہیں شاہ میر نہیں ۔ ۔ ۔ ولید بلوچ اپنے دشمنوں کو نہ معاف کرتا ہے اور نہ زندہ چھوڑ سکتا
ہے۔
ولید نے کہہ کر ٹریگر پر انگلی دہائی تو ظفر نے دیکھ لیا کہ وہ گولی چلانے والا ہے شاہ میر پر
اور اگلے ہی اس پل ظفر آگے بڑھ کر شاہ میر کے سامنے آگیا اور شاہ میر پر چلنے والی گولی
ظفر کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی۔
خون فرش میں تیزی سے بہہ رہا تھا ۔ یہ منظر دیکھ کر ولید کی حالت غیر ہو گئی اس کا اپنا ہی چا زاد بھائی اس کے اپنے ہی ہاتھوں
گولی کھا گیا تھا ۔
اس نے ظفر کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے تھوک نگلا۔
مار دیا میرے بھائی کو ۔ ۔۔۔ مار دیا تم نے میرے بھائی کو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ میرا نہیں تمہارا اپنا بھی بھائی تھا ۔ ۔ ۔ کیسے مار سکتے ہو تم میرے اداسائیں کو ولید ۔ ۔ ۔ تم نے ظلم کر دیا ہم
حریم چیختے ہوئے بول رہی تھی۔
میں اسے نہیں مرنا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔
ولید ایک دم سے آگے بڑھا اور ظفر کی سانسیں چیک کی جو ابھی تک چل رہی تھیں ۔
” اسے ہسپتال لے جانا ہو گا جلدی ۔ ۔ ۔
ولید گھبراتے ہوئے شاہ میر اور مراد کی طرف دیکھ کر بولا۔ ۔ ۔ کیونکہ اس کا اپنا واحد ساتھی
تھا ۔ ۔
ایک پل کو شاہ میر کو جنید کی لاش یاد آئی جو ایسے ہی پڑی ہوئی تھی اُس کے سامنے ۔ ۔ ۔ اور
اسی شخص نے اُسے مارا تھا ۔ ۔ ۔
اس کی سانسیں چل رہی ہیں ۔ ۔ ۔ اٹھاو ا سے میری شکل کیا دیکھ رہے ہو ۔ ۔ ولید نے مراد سے کہا۔
مگر نہ شاہ میر ہلا نہ مراد ۔
جو اس کی بچی کچھی سانسیں ہیں وہ میں ختم کر دیتا ہوں ابھی ۔ “شاہ میر نے کہہ کر وہ پسٹل
اٹھائی جو ولید نے پھینکی تھی ظفر کو گولی لگنے کے بعد ۔
“شاہ میر ۔ ۔ ۔ پھر مجھے بھی مار دو ۔ ۔ ۔ مار دو مجھے بھی ابھی ۔ پھر میرے لیے بچے گا کیا
حریم نے روتے ہوئے کہا تو شاہ میر کا ہاتھ رک گیا۔
اور تم ۔ ۔ ۔ گھٹیا انسان ہٹو میرے بھائی کے سامنے سے ۔ ۔ خبر دار جو تم نے میرے بھائی کو ہاتھ بھی لگایا تو ۔ “حریم نے ایک جھٹکے سے ولید کو پرے دھکیلتے ہوئے کہا ۔ “پاگل ہو گئی ہو کیا تم ؟ ؟ مر جائے گا یہ ۔ ۔ ۔ دیکھ نہیں رہی ہو کتنا خون بہ رہا ہے اس کا ۔ ۔ ۔ یہ وقت بحث کا نہیں ہے اس کی جان بچنا ضروری ہے ۔ ولید نے غصے سے کہا
اور ظفر کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
مراد پلیز ادا سائیں کو اٹھاؤ اُنہیں ہسپتال لے چلو۔ “حریم نے مراد کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔
شاہ میر انہوں نے تمہاری جان بچانے کے لئے اپنی جان کی قربانی دے دی ۔ ۔ ۔ پلیز اب تم میری مدد کرو ان کو کچھ ہو گیا تو میں بھی زندہ نہیں رہ پاؤگی ۔ اگر ادا سائیں کو کچھ ہوگیا تو
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی شاہ میر ۔ ۔ ۔ میں تمہارے ساتھ تو رہو گی لیکن ساری زندگی تم سے ناراض رہوں گی حریم ابھی شامیر سے کہہ رہی تھی اور روتی جا رہی تھی
پاگلوں کی طرح ۔
شاہ میر سے حریم کی یہ حالت دیکھی نہ گئی تو وہ مراد سے بولا۔ ۔ ۔
مراد ۔ ۔ ۔ اٹھاؤ اسے اور ہاسپٹل لے جاؤ ۔ ” شاہ میر نے حقارت سے ظفر کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا ۔
ولید اور مراد دونوں نے اسے اٹھایا اور ہسپتال لے آئے ۔
” یہ پولیس کیس تھا لیکن ڈاکٹروں نے اس کی حالت دیکھی تو فار آپریشن شروع کیا ۔ پولیس
کا انتظار کرنا مطلب ظفر کی جان سے ہاتھ دھونا ۔
وہ سب آپریشن تھیٹر کے باہر انتظار کر رہے تھے ۔ حریم نے رو رو حال کر لیا تھا اک گھونٹ پانی کا بھی حلق سے نہیں اتارا تھا۔
ولید کونے میں سر جھکائے کھڑا تھا ۔
شاہ میر حریم کے ساتھ بیٹھا اُسے چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور ولید کو خونخوار
نظروں سے بھی دیکھتا جا رہا تھا ۔
“حریم تم گھر چلو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ “شاہ میر نے اسے شانوں سے تھام کر
کیا۔
“نہیں جب تک مجھے اداسائیں کی طرف سے خیر کی خبر نہیں آتی میں یہاں سے ملنے والی بھی
نہیں ہوں ۔ “حریم نے سختی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ شاہ میر چپ ہو گیا ۔ ۔ ۔ اور پھر سے اُس نے اپنی آنکھیں ولید پر گاڑھ لیں ۔ ۔ ۔ ولید کو اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیر اچھا تا محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ اُس کا چچا زاد بھائی تھا ۔ ۔ اُس کے گھر کا اہم فرد تھا ۔ ۔ ۔ اس کے بچپن کا دوست تھا ۔ ۔ ۔ ہر پل ۔ ۔ ۔ ہر لمحہ ایک فلم کی طرح اُس کے ذہن میں چلنے لگا ۔ ۔ اُس کا اپنا بھائی ۔ ۔ ۔ اُس کے ہاتھوں مر رہا تھا ۔ ۔ ساری زندگی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ اس بوجھ کے ساتھ ۔
کیسے زندہ رہے یا تھا اپنے کیے اسے
اب سخت غصہ آرہاتھا اپنے کیے پر ۔ ۔ اپنی جلدبازی پر
وہ اپنے گھرمیں ۔۔۔ اپنے علاقے میں اس کے بعد اگر ظفر نہ رہا تو ۔ ۔ ۔ کیسے نظر ملا سکتا ہے وہ اپنی ماں
سے اپنے باپ سے اپنے بھائیوں سے اپنی پھوپھو سے ۔ ۔ ۔
سوچ سوچ کر اس کا سر پھٹا جا رہا تھا
لیکن میں پولیس بھی آگئی ۔
گولی کس نے چلائی ؟ ” پولیس میں شاہ میر سے سوال کیا۔
” نا معلوم افراد نے ۔ ” شاہ میر نے ولید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ولید سمجھ گیا کہ وہ اس کا نام صرف اس لیے نہیں لے رہا ہے تاکہ وہ خود اسے مارنا چاہتا
ہے پولیس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا ۔
“کیوں نہیں لیا تم نے اس شخص کا نام اسے پولیس کے حوالے کر دو ۔ “حریم نے شاہ میر
سے کہا ۔
اسے میں اپنے ہاتھوں سے عبرت کا نشان بنا نا چاہتا ہوں تم ابھی آرام سے بیٹھو۔ “شاہ میر نے کہا۔
شاہ میر میں پر یہ روم میں جانا چاہتی ڈھیروں دعائیں کرنی ہیں کہ میرا بھائی ٹھیک ہو جائے
گا۔
شاہمیر کے دل کو کچھ ہوا
“ہاں میں تمہیں لے چلتا ہوں لیکن پہلے یہ پانی پیو. ” اس نے پانی کی بوتل اس کی جانب بڑھائی اس نے دو گھونٹ پانی پیا اور بوتل واپس کر دی ۔
شاہ میر نے اس کے چہرے پہ بکھرے بالوں کو ٹھیک کیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
اس پر نظر رکھنا میں آتا ہوں۔ بھاگنے نہ پائے یہ ۔ ” شاہ میر نے مراد سے کہا اور حریم کو پر ئیر روم میں لئے گیا.
خدا خدا کر کے تین گھنٹوں کے طویل آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے باہر آکر بتایا کہ ظفر اب خطرے سے باہر ہے ۔ انہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا کچھ دیر تک آپ لوگ مل سکتے
ہیں پھر ۔
حریم وہیں پر ساجدہ ریز ہوگئی اور ولید کی جان میں بھی جان آئی ۔ ۔ ۔ وہ جو تین گھنٹے سے کھڑا تھا اب سے نشست پر بیٹھ گیا اور سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔
اس کا اٹھائے والا ایک غلط قدم آج اس کی زندگی میں کتنی بڑی قیامت لانے والا تھا اس کا اندازہ اب اسے ہورہا تھا بلکہ ہوچکا تھا-
اُن دونوں کے برعکس شاہ میر کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا ہر احساس سے عاری ۔ ۔ ۔ نہ خوشی ۔۔۔ نہ غصہ ۔۔۔ نہ دکھ ۔۔۔ بس حریم کی فکر تھی جو اتنے عرصے سے نہ کردہ گناہوں کی
سز لگ رہی تھی۔ اُسے اطمینان ہوا کہ کم از کم اب حریم کے دل کو تو سکون ملا۔ ولید موقع پا کر وہاں سے فرار ہو گیا ۔ جانتا تھا کہ اب ظفر اور شاہ میر اُسے نہیں چھوڑنے
والے۔۔۔
کتنا عجیب قانون ہے قدرت کا جس شخص کو میں اتنے عرصے سے اس کی جان لینے کے لیے ڈونڈھ رہا تھا وہ شخص آج میرے سامنے آیا تو میں اس کی جان بچانے چلا گیا ۔ ۔ ۔ ” اپنے گھر کے لان میں بیٹھ کر شاہ میر مراد سے کہہ رہا تھا۔
تقریبا ان کا سارا دن اسپتال میں گزرا اور اب وہ حریم کو لے کر گھر آ گیا تھا ۔
ان سب نے رات کا کھانا کھایا اور اب حریم سکون کی نیند سو چکی تھی ۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے باہر لان میں ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔ ۔ ۔ گرمیوں کی آمد کا اشارہ
تھا کہ یہ ہوا بھلی لگ رہی تھی ۔
شامیر اور مرد دونوں کے بال ہوا میں آگے پیچھے ہو رہے تھے ۔ وہ دونوں لان میں بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے”
تم جیسے مارنا چاہتے تھے آج اس نے تمہاری جان بچائی ۔ ” مراد نے کہا ۔ لیکن اس نے میرے بھائی کی جان تو لے لی تھی نہ اپنی جان بچانے کے لیے ۔ ۔ میرے بھائی میں نے تو صرف ارادہ کیا تھا اس کے قتل کا لیکن اس نے تو قتل کر ہی ڈالا میرے بھائی کو ۔
شاہ میر کا دل ابھی بھی ظفر کی طرف سے صاف نہیں تھا شاید کبھی ہوگا بھی نہیں وہ صرف حریم کی خاطر چپ ہو گیا تھا اور ظفر کو معاف کر دیا تھا اس نے ۔
“میرے خیال سے تمہیں اب آرام کرنا چاہیے بہت تھک گئے ہو ۔ ” مراد نے کہا ۔
“اگر تم یہاں حریم کا خیال رکھو تم آ کے پاس ہو کر آجاؤ ۔ ۔ ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ ” ابھی کچھ دن آرام کرو شامیر مجھے خود بھی سردار بی بی کی بہت فکر ہو رہی ہے لیکن تم مزید نہ سفر کرنے کی پوزیشن میں ہوں نا پریشانی کی پوزیشن میں ۔ اور اس حالت میں تم بھا بھی کو
چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہو۔ ” مراد نے کہا ۔
“مجھے جلد از جلد اماں کا اچھا علاج کروانا ہوگا تا کہ وہ چلنے پھرنے اور بولنے کے قابل ہو
جائیں ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ مراد اسے دیکھ کر حیران تھا ۔ ۔ ۔ وہ سمجھ سکتا تھا کہ اٹھا ئیس سال جس عورت کو اس نے
ماں کا درجہ دیا ۔ ۔ ۔ اس سے نفرت وہ چاہ کر بھی نہیں کر پا رہا تھا ۔ ۔ ۔
حریم کی ملاقات یہاں حلیمہ سے ہوئی اور ساری سچائی اسے پتہ چلی تو وہ حیران ہو گئی ۔ اور سلطانہ بیگم کے عبرتناک انجام نے بھی اسے حیران کر دیا تھا۔
ہو سکے تو آپ دونوں میری اماں کو معاف کر دیجیے ۔ شاہ میر نے حریم اور حلیمہ سے کہا اس کی آنکھیں نم تھی اور سر جھکا ہوا تھا ۔
شاہ میر تم نے میری خاطر میرے بھائی کو معاف کر دیا اور میں تمہاری خاطر تمہاری اماں کو معاف کرتی ہوں ۔ “حریم نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے کہا تو شاہ
میر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔
“مجھے تم سے یہی امید تھی ۔ “شاہ میر بولا
“لیکن مجھے تم سے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ تو ادا سائیں کو معاف کر دو گے مگر تم نے تو
میرا دل ہی جیت لیا ۔ ۔ ۔ حریم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
میں اپنے بھائی کی محبت میں اسے قتل کرنا چاہتا تھا پر تمہاری محبت میں نے اسے معاف کر دیا ۔ ۔ ۔ لیکن اس سے کہنا کہ میری نظروں کے سامنے کبھی نہ آئے ۔ ۔ ۔ کیوں کہ اگر وہ ایک بار پھر سے میری نظروں کے سامنے آگیا تو میں خود کو روک نہیں پاؤں گا اور تم سے کیا ہوا وعدہ بھول جاؤں گا ۔
شاہ میر نے کہا۔
نہیں ۔ ۔ ۔ وہ اب نہیں آئیں گے تمہارے سامنے ۔ “حریم بولی۔
“مجھے اسپتال چکر لگانا ہے ہے اماں ابا پھوپھو سب وہاں آئے ہوئے ہیں۔ “حریم نے
کہا۔
مراد کے ساتھ چلی جاؤ مجھے حویلی جانا ہے اماں کے پاس ۔ شاہ میر کہتا ہوا اٹھا اور گاؤں
کے لیے روانہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا سلطانہ بیگم بیڈ سے نیچے گری پڑی تھی اور جو نرس نے اس کی خدمت پر مامور کی تھی وہ گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہی تھی ۔ ساجدہ ۔ ۔ ۔ ساجدہ ۔ ۔ ۔ کائنات ۔ ۔ ” شاہ میر سلطانہ بیگم کے پاس آیا اور انہیں اٹھایا
اور چیختے ہوئے پکار رہا تھا ۔
وہ دونوں شاہ میر کی آواز سن کر ایک کمرے میں آگئیں ۔
“نمک حرام عورت ۔ ۔ ۔ آج جب میری ماں کو تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے تو تم نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل دیا ؟ ؟ ؟ ” شاہ میر ساجدہ پر دھاڑا ۔
اور تم ۔ ۔ ۔ تمہاری تو یہ خالہ ہیں۔ کتنی محبت سے وہ تمہیں اس حویلی میں لے کر آئی تھیں اور تم نے یہ صلہ دیا اس حال میں میری ماں کو چھوڑ دیا تم سب نے ؟ ؟ ؟ کیا سوچا تھا تم لوگوں نے کی شاہ میر اپنی اماں کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اُن کا کوئی نہیں ؟ ؟
شاہ میر نے سلطانہ بیگم کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے کہا ۔
شاہ میر کی باتیں سن کر سلطانہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اماں ۔ ۔ ۔ ” شاہ میر نے سلطانہ بیگم کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے پکارا ۔
لیکن وہ تو کچھ بولنے کے ہی قابل نہیں تھیں ۔
ان کی حالت کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کئی دن سے انہیں کھانا نہیں دیا گیا تھا ۔ ان کی دوائیں
ویسے ہی پڑی ہوئیں تھیں ۔
“نکل جاؤ تم میرے گھر سے ابھی کے ابھی ۔ ۔ ۔ اتنے پیسے اس لیے دے رہا تھا میں کہ تم سوئی رہو ؟ ” شاہ میر نے اس نرس سے کہا تو وہ فوراً وہاں سے بھاگی. کائنات پریشانی اور شرمندگی سے اپنی انگلیاں مروتی جارہی تھی ۔
اپنا سامان باند هو ۔ “
اور آئندہ مجھے اس حویلی میں نظر نہ آنا۔۔اس نے
غصے سے کہا۔
وہ غصہ کم ہی کرتا تھا مگر آج اس کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
اور تم ۔ ۔ ۔ کھانا لاؤ میری اماں کے لیے ۔ یخنی بنا کر لاؤ۔ ” اس نے ساجدہ سے کہا۔ اماں ۔ ۔ مجھے معاف کر دیں اماں ۔ ۔ شاہ میر کو ان کی حالت دیکھ کر رونا آگیا۔
“کیا کر رہے ہو عبید ؟ “
عبید جو سلطانہ بیگم کی حالت کا سن کر حویلی آیا تھا شاہ میر نے اسی رائفل لوڈ کرتے ہوئے
دیکھا تو پوچھا ۔ ” جو کام آپ سے ادھورا رہ گیا میں اسے پورا کرنا چاہتا ہوں ۔ ” عبید نے کہا ۔ نہیں عبید ۔ ۔ ۔ اس دشمنی کو یہیں پر ختم کر دو ۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا چھوٹا بھائی کسی کے
خون سے اپنے ہاتھ رنگے ۔ میں تمہیں اس راہ پر چلتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ۔ پہلے بھی میری غفلت کی وجہ سے جنید ایسی راہ پر چلا گیا ۔ ” شاہ میر نے رائفل اُس سے لیکے سائڈ پر رکھا۔ “لیکن بھائی ۔ لوگ کیا کہیں گے ؟ کہ ہم نے بدلہ نہیں لیا ۔ ۔ ہم کمزور ہیں ۔ ” عبید نے کہا ۔ صرف یہ چار الفاظ ۔ ۔ ۔ کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ ۔ ۔ ان چاروں الفاظوں نے کئی زندگیاں تباہ کر دیں ۔ ۔ ۔ کئی دشمنیوں کی بنیا درکھی ۔ ظلم کا آغاز ہوا ۔ ۔ ۔ صرف ان چار الفاظ کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ اس دشمنی کو یہیں پر دفن کر دو میرے بھائی ۔ ورنہ یہی سے نسل در نسل دشمنی کا آغاز ہو جائے گا اور ہمارے بچے مریں گے ۔ ہماری بچوں میں سے کوئی آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکتا تعلیم حاصل نہیں کر سکتا اگر ایسی دشمنی کی یا درکھیں گے تو اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا ۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے آس پاس کے علاقے کے حالات ۔ ۔ ۔ کس طرح سے قبائلی جھگڑوں نے لوگوں کی
بنیادرکھی
زندگیاں اجیرن کر رکھی ہے ۔ بہتر یہی ہو گا کہ ہم اس قصے کو یہیں پر ختم کر دیں ۔ معاف کرنے والوں کو اللہ پسند کرتاہے ۔ دوسرے کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے والدین کی صحت یابی کے لیے دعا کریں ان کی خدمت کریں اور ان کا خیال رکھیں ۔ ظفر کو مارنے کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی اس وقت ہمارے ماں باپ کو ہماری ضرورت ہے ۔ دشمن کوسزا دینے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے پیاروں کی خدمت کریں ۔ میں نے اسے معاف کر دیا ہے تم بھی معاف کر دو بس ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “تم اپنے گنہگاروں کو معاف کرو تاکہ میں تمہیں معاف کروں. ” شاہ میر نے عبید کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئی اسے سمجھایا تو یہ
نے ہونٹ بھیج کر اثبات میں سر ہلایا ۔
میں اور بابا سائیں دو نوں کو شہر لے کر جا رہا ہوں ۔ جس لڑکی سے وہ نفرت کرتے ہیں وہی لڑکی ان کی خدمت کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے ہے ۔ پر میں نے تمہارے لندن جانے کا بندوبست کر دیا ہے تو اپنا گریجویشن اور ماسٹر زوہ اسے مکمل کر کے آؤگے ۔ تم تیاری کرو جانے کی ۔ ” شاہ میر نے کہا تو عبید نے اُسے گلے سے لگا لیا۔
خوش رہو ۔ ” شاہ میر نے کہا ۔ “شاہ سائیں ۔ ۔ ۔ شاہ سائیں وہ سردار بی ۔ ۔ ” ساجدہ بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوا اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بولی ۔
کیا ہوا اماں کو ؟ ” شاہ میر پریشانی سے بولا۔ سر دار بی بی کی روح پرواز کر گئی ہے ۔ ” ساجدہ نے روتے ہوئی بتایا ۔
۔۔۔۔
پانچ سال بعد ۔ ۔ ۔ ۔
سورج سوا نیزے پر آچکا تھا ۔
تو ایک قبر کے سامنے بیٹھا سورہ ملک کی تلاوت کر رہا تھا ۔
پچھلے پانچ سال سے اس کا یہی معمول تھا کہ وہ جب بھی گاؤں آتا ۔ ۔ ۔ آتے اور جاتے وقت اس قبر پر ضرور حاضری دیتا ۔ ۔ ۔ سورہ ملک پڑھتا اور مغفرت کی دعا کرتا ۔ سورہ ملک ختم کرنے کے بعد وہ اپنے کپڑے جھاڑتا ہوں اٹھا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند
کتے۔
قبر کے کتبے پر سلطانہ بیگم کا نام لکھا ہوا تھا ۔
جلدی کرو سب سمیٹو ۔ ۔ ۔ آج میں بہت تھک گئی ہوں جلدی سے کینک بند کرو میرے بچے میرا انتظار کر رہے ہوں گے ۔ ۔ شاہ میر بھی گاؤں سے روانہ ہے ۔
حریم نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے عجلت میں اپنی ساتھی ڈاکٹر سے کہا جو اُس سے جو نیر
تھی۔
ایک مریض آیا ہے ۔ ۔ ۔ اچانک دروازہ کھول کر جمیلہ نے کہا جو وہاں کام کرتی تھی ” نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ میں بہت تھک گئی اُسے کہو ساتھ والے کلینک میں چلا جائے ۔ “حریم
نے بیزاری سے کہا۔
کہہ رہا ہے دل میں درد ہے ” جمیلہ نے کہا۔
“ہاں تو دل کے ڈاکٹر کے پاس جائے میں تو دل کی ڈاکٹر نہیں ۔ “حریم نے اپنا موبائل
بیگ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔
کہہ رہے ہیں انہیں عشق کا مرض لاحق ہو گیا ہے جلدی علاج کریں ورنہ حالت غیر ہو جائے گی ۔ “جمیلہ نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو ہر حریم میں اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر
پکارا ۔ ۔ ۔
“شاہ میر ۔ ۔ ۔ اندر آجاؤ۔ “
حریم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
ڈاکٹر صاحبہ جلدی علاج کریں ۔ ۔ ۔ ورنہ بندہ گیا کام سے ۔ “شاہ میر نے اندر آتے
ہوئے کہا ۔
” حد ہو گئی ۔ ۔ “حریم بولی ۔
چلو گھر اب ۔ “حریم نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
“لیکن میرا علاج ؟ “
شاہ میر بولا۔
اس مرض کا کوئی علاج نہیں ۔ ۔ ۔ اور میں اس کا علاج کروں گی بھی نہیں ۔ ۔ ۔ اگر اس عشق کے مرض نے تمہیں چھوڑ دیا تو تم مجھے چھوڑ دو گے ۔ “حریم نے کہا تو دونوں کا ایک
ساتھ قہقہہ بلند ہوا ۔ ۔ ۔
ختم شد
Share with you friends on Facebook