Best Urdu Font kahani Sajda Ki Kahani

ساجده دروازہ کھول کر سائیڈ پر ہو گئی تھی۔ کھلے-دروازے سے اندر داخل ہوتے احمد کو اس نے حسرت ویاس سے دیکھا۔ ہاتھوں میں رنگ کے خالی ڈبے اور ان میں موجود سوکھے برش کو تھکے وجود کے ساتھ احمد نے ساجدہ کی طرف بڑھایا۔ ایک تھکی سانس ساجدہ کے سینے سے خارج ہوئی۔ دن بھر کی آس کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔ کھانستے کھانستے احمدصحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ڈبے منڈیر پر رکھ کر ساجدہ پانی کا گلاس نے آئی۔-آج بھی دیہاڑی نہیں لگی ؟
ساجدہ کے سوال پر احمد
نے پانی کا گلاس گھونٹ بھر کر رکھ دیا۔-نہیں ۔ مختصر جواب کے بعد کھانسی کا شدید حملہ ہوا۔ وہ کچھ بولنے کے قابل نہ رہا۔ ساجدہ بیٹھ کر سہلانے لگی۔ خون کی الٹیوں کو آنسو بہاتی نظروں سے دیکھ کر اپنے دو پٹے سے اس کا منہ صاف کرنے لگی۔-اوپر تلے کی پانچ بیٹیاں اور آٹھ ماہ کا بیٹا۔ اس لالچ میں خاموش بیٹھے تھے کہ اگر انہوں نے شور کیا تو شور کرنے والے کو روٹی نہیں ملے گی۔-سب باپ کی آمد پر دم سادھے بیٹھی ساجدہ کا انتظار کر رہی تھیں کہ ابھی وہ کھانا لے کر آئے گی۔ باپ کے کھانسنے کی آواز آنے لگی تو سب دروازے سے جھانک کر-صحن میں دیکھنے لگیں۔
تمہاری بیماری تو برھتی جارہی ہے۔ دوا کا بندوبست کرو۔ ساجدہ فکر مندی سے کہہ رہی تھی۔-مر جانے دے مجھے لعنت ایسی زندگی پر جو اپنے معصوم بچوں کا پیٹ نہ پال سکوں۔ احمد بہت نڈھال ہو گیا تھا۔ اماں ان میں سے ایک نے ہمت کر کے ساجدہ کو آواز لگائی۔ ساجدہ کی خواہش ہوئی اس کے کان سن ہو جائیں۔ آنکھیں اندھی ہو جائیں۔ وہ معصوم کلیوں کے مرجھائے چہرے نہیں دیکھ سکتی تھی۔-اماں تم نے صبح سے کہا ہوا ہے جو شور کرے گا اسے روٹی نہیں دوں گی ۔ ہم سب نے تمہیں جنگ نہیں کیا۔ ابا روٹی لایا ہے تو ہمیں دے دو ۔ سب سے بڑی بیٹی نے اتنے دلسوز انداز میں کہا کہ ساجدہ دو پٹا منہ پر ڈالے سسکیاں بھرنے لگی۔ احمد کی آنکھوں سے بھی پانی بہنے لگا۔ بچیاں سہم کر-دروازے سے ہٹ گئیں۔ اگلی صبح احمد پھر ہمت کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی حالت دیکھ کر ساجدہ نے منع بھی کیا مگر وہ گھر کی چھت کو گھورتے بچوں کی سسکیاں نہیں سن سکتا تھا۔ پڑوسن سے تھوڑا سا آٹا مانگ کر اس نے تین روٹی بنائی تھی۔ رات بھوک سے بچیاں جس طرح نیند میں رورہی تھیں یہ دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔-تھا۔ چائے کے ساتھ ایک روٹی اس نے احمد کے آگے رکھی مگر وہ بچوں کو کھلا دینا ” کہہ کر مزدوری پر چلا گیا ۔۔-بچیاں بھی اٹھ کر دروازے سے لگی کھڑی تھیں۔ ساجدہ نے مسکرا کر انہیں اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ سب مرغی کے چوزوں کی طرح آکر اس سے لپٹ گئیں۔ بچیوں کو پیار کرتی وہ انہیں سراہ رہی تھی۔ اللہ نے اسے بہت صابر اولاد دی تھی ۔ چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھاتے گو کہ تین روٹی میں پانچ بچوں کا پیٹ نہیں بھرا تھا مگر ان کو سکون مل گیا تھا۔ بچیاں تیار ہو کر سرکاری اسکول کو سدھاریں تو گھر کے کام سے جلدی جلدی فارغ ہو کر چھوٹے بیٹے کو اٹھائے وہ ساتھ والی زینب کے گھر آگئی۔ وہ بھی کام پر جانے کو تیار بیٹھی تھی۔ زینب بنگلے میں ماسی تھی۔ ساجدہ نے اسے کہہ رکھا تھا کہ وہ اپنی مالکن سے اس کے لیے بات کرے۔ احمد بھلے غریب تھا مگر اس نے بھی ساجدہ کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ساجدہ نے احمد کو اپنے کام کرنے کی خواہش سے لاعلم رکھا تھا۔ احمد کے لوٹ آنے سے پہلے وہ لوٹ آتی اور مہینہ ملنے پر اسے آرام سے سمجھا دیتی کہ بھوک-سے بڑ ی کوئی بلانہیں ہے۔
زینب اسے لے کر عالیشان بنگلے میں داخل ہوگئی تھی۔ بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہی قیمتی چیزوں کا رعب و دبدبےسے خود میں سمٹنے پر مجبور کرگیا۔ مختلف راستوں سے زینب اسے ڈائننگ ہال میں لے آئی جہاں طرح دار حسین بنی سنوری نازک اندام کی مالکن ناشتا کرتی اپنے اسمارٹ فون کو بھی یوز کرتی جارہی تھی۔-بیگم جی! یہ ساجدہ ہے۔ آپ نے ڈسٹنگ کے لیے ملازمہ کا کہا تھا۔ زینب نے اس نازک پری کو طلب کیا۔ کلرو بالوں کی لٹ کو چہرے سے پیچھے کرتے مالکن نے ساجدہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ ساجدہ گود میں ہمکتے بیٹے کو سنبھالتے گلہ تر کر رہی تھی۔ ایسا عالیشان بنگلہ، اتنے ٹھاٹ بات اس نے صرف فلموں ، ڈراموں میں دیکھے تھے۔ تم نے کام سمجھا دیا تھاوہ زینب سے استفسار-کر رہی تھیں ۔
جی سمجھا دیا ہے اسے دیوار پر لگے فوٹو فریموں کی-صفائی کرنی
ہے۔ زینب نے
جلدی سع جواب اس کے گوش گزار کیا۔-اور تنخواہ بھنویں اچکا کر زینب سے ہی سوال جواب-کر رہی تھیں۔
جی دو ہزار۔ اسے منظور ہے جی ۔ زینب جلدی-سے بولی۔
ٹھیک ہے لیکن یہ کیا بچے کے ساتھ کیسے کام کرے گی ؟ مالکن کی نظریں بچے پر تھیں ۔-جی میں اسے گھر چھوڑ آؤں گی ۔ ساجدہ نے اس کی-نظروں کی ناگواری بھانپ لی تھی۔-ٹھیک ہے، کل سے ایک بجے آجانا۔ وسیم سے کہو فریش جوس کمرے میں بھیجے ۔ مالکن ٹشو سے ہاتھ صاف کرتی زینب کو حکم صادر کرتی ہال سے ٹک ٹک کرتی نکل گئی۔ ساجدہ کے ساتھ زینب نے بھی کھل کے سانس لیا۔ زینب کیسی پریوں سی ہیں مالکن ۔ ساجدہ اس کے-حسن کے سحر میں مبتلا ہوئی۔
پیسہ بہت ہے بیگم کے پاس پھر میاں بھی کروڑ پتی ہے۔ پیسہ تیرے میرے پاس ہوتا تو ہم بھی پری لگتیں زینب مالکن کے جھوٹے برتن اٹھائی اور اس میں بچا بوائل انڈا-نگلتے ہوئے بولی۔
ایسا حسن کس کام کا جب میاں کو قابو میں نہ رکھا سکے ۔ زینب کا انداز استہزائیہ تھا۔-مطلب؟ ساجدہ حیران ہوئی۔ اسے زینب کی مبہم بات سمجھ نہیں آئی۔ کوئی مطلب نہیں۔ تو ٹھیک سے دیواروں کو دیکھ لے۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں فریم ہیں بیگم کو ہر تصویر فریم کروا کے دیوار پر سجانے کا شوق ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کی اسکول پینٹنگ بھی فریم کروا کے لگا تی ہیں۔ ہونہہ بڑے لوگوں کے بڑے چونچلے ۔ زینب کے لہجے میں حد درجہ کڑواہٹ تھی۔-تیری بڑی مہربانی جو تو نے یہ کام دلوا دیا۔ ساجدہ شکر گزار تھی ۔-کوئی گل نہیں، تو بہن جیسی ہے اپنی لیکن چھوٹے کو تو کس کے پاس چھوڑ کر آئے گی۔ زینب کو روتے بچے کا-خیال آگیا۔
بچیاں بارہ بجے اسکول سے آجائیں گی۔ بڑی اسے-سنبھال لے گی ۔ ساجدہ سب سوچ کر آئی تھی ۔ شکر تھا مالکن نے خود ایک بجے کا ٹائم دیا تھا۔ اگر جلدی بلاتیں تو چھوٹے کا-مسئلہ ہو جاتا ۔
شام ڈھلے احمد گھر میں داخل ہوا تو اس کی چال میں خوشی تھی۔ پانچ سوکی دیہاڑی لگی تھی۔ وہ بچیوں کے لیے روٹی سالن کے ساتھ ٹافیاں بھی لایا تھا۔ سب باپ سے چمٹی ہوئی تھیں۔ ساجدہ نے مسکراتے ہوئے ان لمحوں کو آنکھوں میں قید کر لیا۔ کیا ضرورت تھی باہر سے کھانا لانے کی ، آلو اور آٹا لے آتے میں گھر میں پکا لیتی۔ دو پیسے بچ جاتے۔ ساجدہ کے ہاتھ میں احمد نے بچے ہوئے دو لال نوٹ دیئے تو وہ بول پڑی۔ ایک وقت کا کھانا تین سو کا آیا تھا۔ کل کے خیال سے وہ ہولنے لگی تھی۔ نہ بول کچھ، چھ دن بعد میری بچیوں کو ڈھنگ کا کھانا نصیب ہوا ہے۔ کل ان کے نصیب ہے اور آجائے گا۔ احمد آسودہ تھا۔ بچیاں بوٹی کے لیے لڑ رہی تھیں ساجدہ نے سب کے الگ الگ حصے بنا دیے۔
ساجدہ کام پر جانے لگی۔ زینب نے ٹھیک کہا تھا۔ پانچ ہزار کے قریب فریم تھے۔ ڈھونڈے سے بھی کوئی دیوار خالی نہیں ملی تھی۔ مالکن نے اپنے آباؤ اجداد کی فوٹوز بھی رکھی ہوئی تھیں ۔ بچپن سے جوانی تک ہر تصویر میں وہ ساجدہ کو پہلے سے زیادہ کم عمر لگی تھیں۔ گھر میں گنتی کے دو لوگ تھے مگر نوکروں کی فوج تھی ۔ مالکن کی بیوٹیشن بھی صبح آتی اور رات کو جاتی تھی۔ مالکن کی فٹنس انسٹرکٹر بھی تھی جو اپنی نگرانی میں ڈائیٹ کھانا تیار کرواتی تھی۔ مالکن کو یوگا اورا یئرویکس کرواتی تھی۔ ساجدہ کو رج کے مالکن کی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ مالک ان دنوں ملک سے باہر تھا۔ اسے اس نے صرف تصویروں میں دیکھا تھا۔ ایک بیٹا تھا جو بورڈنگ میں پڑھ رہا تھا ۔ وہ لاؤنج کی تصویر صاف کر رہی تھی۔ جب ماڈرن لباس میں بنا دوپٹے کے ٹک ٹک کرتی مالکن لاؤنج میں داخل ہوئی۔ ڈرائیور پیچھے مختلف شاپنگ بیگز اٹھائے آرہا تھا۔ میرے روم میں رکھو اور اے سی آن کر دینا۔ میں آرہی ہوں کمرے میں ۔ ڈرائیور کو ہدایت کرتی وہ لاؤنج میں براجمان ہوئیں۔ دومنٹ کمرے کی درجہ حرارت بھی گوارا نہ کی۔-سنو کیانام ہے تمہارا خیر جو بھی ہے۔ پروین سے کہو اور نج جوس لے کر آئے۔ ساجدہ کو مخاطب کر کے حکم صادر کیا۔ ساجدہ اپنا نام اپنے لبوں تک لائی۔ سر ہلا کر کچن میں چلی گئی۔ پروین کو پیغام دے کر واپس اپنے کام پر آئی تو مالکن فون پر لگی ہوئی تھیں۔-بس یار بہت ڈپریشن ہو رہی تھی۔ شاپنگ پر دو روز نہ جاؤں تو نیند نہیں آتی۔ میں نے جو ڈریس لیا ہے نا دیکھو گی تو داد دیئے بغیر نہ رہ سکو گی ۔ اس ویک میرا موڈ دبئی سے شاپنگ کا ہے۔ فیشن شو بھی ہے۔ وہ بھی اٹینڈ کروں گی مالکن بول رہی تھیں اور ساجدہ آنکھیں پھاڑے اس کی گفتگو سن رہی تھی-تم سے جوس کا کہا تھا۔ مالکن نے اس کی توجہ نوٹ-کر لی تھی قدرے ترش لہجے میں بولیں۔-حج جی میں نے پیغام دے دیا ہے
ساجدہ گڑ بڑائی۔
جاؤ دیکھو کہاں مرگئی پروین۔ ذرا دیر ہوئی تو تم دونوں فارغ ۔ ساجدہ الٹے پاؤں بھاگی۔-احمد کو بغیر بتائے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ احمد کی طبیعت دن پر دن بگڑ رہی تھی۔ اس نے ہمت کر کے مالکن سے ایڈوانس-رقم کی بات کی تھی۔ زینب یہ تم کس قسم کی ملازمہ کو میرے سرمنڈھ گئی ہو۔ ابھی پندرہ دن ہوئے ہیں کام کرتے اور یہ پیسوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تمہیں پتا ہے مجھے اس طرح کی حرکت پسند نہیں۔میں فکس ڈیٹ پر تنخواہ دیتی ہوں تم نے اسے بتایا نہیں تھا۔-اسے جواب دینے کی بجائے
مالکن نے زینب کو آواز دے کر بلایا۔ وہ گرتی پڑتی آئی تو اسے گھورنے لگیں۔ معافی مانگتی ہوں جی۔ زینب کی غلطی نہیں ہے۔ ساجدہ کو احساس ہوتا کہ اس کی وجہ سے زینب کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کبھی بھی نہ کہتی ۔ احمد کل سے بستر سے لگ گیا تھا اور بچیوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آج بھی وہ احمد سے جھوٹ بول کر گھر سے نکلی تھی۔ مالکن ٹک ٹک کرتی چلی گئی۔ ساجدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔-مالک اگر ہوتے تو میں تیرا کوئی بندوبست کروا دیتی مگر جانے وہ کب آئیں ۔ تو ابھی سورو پے رکھ لے اس سے-زیادہ میں تیری یہ نہیں کرسکتی۔ آئندہ مالکن سے بات کرنے سے پہلے مجھ سے کر لینا۔-زینب اس کے حالات سے واقف تھی۔ اس پر ترس آگیا۔ ساجدہ آنکھوں کو خشک کرتی سر ہلانے لگی۔-ڈرتے ڈرتے اس نے احمد کو اپنی نوکری کے بارے میں بتا دیا۔ اس نے ایک خاموش نظر ساجدہ پر ڈال کر چھت پر نظریں جمائیں۔ تو نے ٹھیک کہا۔ میرے بعد بچوں کو تو نے ہی پالنا ہے۔ یہ ٹی بی مجھے قبر تک لے کر جائے گی احمد اپنا مذاق اڑ اتا بولا۔ ساجدہ تڑپ کر اسے بدفعائیں نکالنے سے روکتی رہی۔ اگلی رات احمد کی آخری رات تھی۔ کھانستے کھانستے جانے کس پل اس کا دم نکل گیا۔-ساجدہ نے صبح اٹھایااتو وہ اٹھا ہی نہیں۔ ساجدہ اور بچیوں کی زندگی کھلے آسمان تلے آگئی۔ اس کے پاس تو کفن دفن کے پیسے بھی نہ تھے۔ محلے والوں نے ہی اس کا انتظام کیا۔ تین دن پڑوسیوں کے گھر سے کھانا آیا۔ بچیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ چوتھے دن پھر بھوک نے سراٹھایا تو ساجدہ عدت سے اٹھ کر کام پر چلی گئی۔ مالکن نے اسے دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور ہزار کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا۔ چند-دن سکون سے گزر گئے۔ مالک آچکا تھا۔ وہ بھی مالکن کی طرح شہزادہ تھا۔ ساجدہ اللہ کی بنائی زمین اور اس کی تخلیق کے بندوں کے نصیب میں اتنا تضاد دیکھ کر سوچتی تھی۔ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ آتا کہاں سے ہے اور آتا ہے تو کیا اسلام نے غریبوں کے لیے انہیں تلقین نہیں کیا۔ امیروں کو خیرات ، عید، بقرعید کا انتظام ہوتا ہے۔ شاپنگ، جیولری، جوتوں ، گھر کی زیبائش کے لیے روز ہزاروں خرچ کرتے ہیں۔ غریب رمضانوں میں فطرانے زکوة کے لیے بھکاری بنے ہوتے ہیں۔-عید قربان پر چند چھیچھڑوں کی ہوس میں ہر در کھٹکھٹاتے ہیں اور انہیں دھت کار دیا جاتا ہے۔ کیا فطرا نہ زکاۃ یا گوشت کا حق غریبوں کے لیے صرف عید پر ہے۔ باقی پورا سال کیا انہیں بھوک نہیں لگتی؟-بیگم ڈائمنڈ کا نیا سیٹ صراحی دار گردن میں پہنے صاحب سے داد لے رہی تھیں اور آنسو ساجدہ کے دل پر گر رہے تھے۔-چھوٹے کی طبیعت کئی دنوں سے خراب تھی۔ وہ دن گن ین کر گزار رہی تھی۔ تنخواہ ملنے میں ابھی دو دن باقی تھے۔ مالکن نے جو ہزار روپے دیئے تھے وہ بچا بچا کر بھی خرچ ہو گئے تھے۔ گھر کا کرایہ بھی سر پر آ گیا تھا۔-دو ہزار میں وہ بچوں کے پیٹ کا ایندھن بھرتی، کرایہ دیتی یا دوا لاتی۔ اس نے زینب سے دو تین گھروں کا اور کام دلوانے کا کہا تھا۔ اسے اپنے بچوں کے لیے ماسی بننا تھا مگر کہیں کوئی جگہ نہیں تھی ۔ احمد نے اسے زمانے سے بچا کے رکھا تھا مگر نصیب نہ بدل سکا۔ چھوٹا رات بھر سانس ٹھیک طرح سے نہ لے پانے کے باعث روتا رہا۔ صبح وہ نڈھال سے بچے کو تھپکی دے کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بچیاں اسکول سے آگئی تھیں۔ اس کا دل کام پر جانے کو نہیں چاہ رہا تھا مگر مزید چھٹی مالکن کو چراغ پا کر دیتی۔ دو سوکھی روٹی اور ایک پیالی چائے پانچ بچیوں کے آگے رکھ کر وہ واپس بیٹے کے پاس آئی ۔اماں! تیسرے نمبر کی بیٹی اس تک آئی۔ پیٹ نہیں بھرا۔ اندر کو دھنسے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اس نے رونی صورت بنا کر کہا۔-کل میں اپنی بیٹی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤں گی ۔ ٹھیک ہے اب جاؤ شاباش، اسکول کا کام کرو ضبط کر کے اس نے بٹنی کے میلے بالوں پر پیار کیا۔ صابن شیمپ جیسی عیاشی وہ افورڈ-نہیں کر سکتی تھی۔
زینب کو ڈھونڈتی وہ اوپر آئی تو زینب ، ایک کمرے سے نکلتی نظر آئی۔ اسے اچانک سامنے دیکھ کر زینب کا رنگ ایک پل کو بدلا اگلے پل وہ نارمل ہوگئی۔-خیریت تو یہاں! تجھے اس طرف کس نے آنے کو کہا۔ زینب گڑ بڑا گئی۔ تجھے ڈھونڈتی آئی ہوں۔ کئی ایک بار تجھے اس کمرے میں آتے دیکھا تھا۔ ساجدہ کو اس کے ڈرنے کی-وجہ سمجھ نہیں آئی۔
اچھا دیکھ لیا ہے تو کسی کو بتانا مت۔ زینب نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے اسے تنبیہ کی۔-تیرے پاس کچھ پیسے ہوں گے۔ مجھے چھوٹے کی دوا لینی ہے۔ ساجدہ کسی قصے میں الجھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس-کے سر پراپنے سو مسائل تھے۔
پیسے تو نہیں ہیں میرے پاس۔ زینب کے جواب پر-ساجدہ کا چہرہ بجھ گیا۔
میرا بچہ مر جائے گا زینب، وہ بھی احمد کے پاس چلا جائے گا۔ یا اللہ میں کہاں جاؤں ۔ نڈھال ہو کر ساجدہ گرل سے ٹیک لگا کر روہانسی ہو کر رو پڑی۔ زینب اس کے قریب آکر اس کا کندھا سہلانے لگی۔ دفعتا بند دروازے کو دیکھتے-اسے ایک خیال کو ندا۔
پہلے میں بھی تیری طرح کلستی رہتی تھی لیکن جب-سے ضمیر کی طرف سے آنکھ بند کی ہے تب سے میرے حال کچھ بہتر ہیں۔ صاحب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب-جتنے روپیے کہتی ہوں دے دیتے ہیں۔-ساجدہ چپ کر کے زینب کی کہانی سن رہی تھی۔ اس نے زینت کے منہ سے کئی بار صاحب کی تعریف سنی تھی۔ اچھا پھر مجھے بھی مدد دلوا دے۔ سجدہ کی آس بندھی۔ لیکن اس کے لیے تجھے صاحب کو خوش کرنا ہو گا-زینب نے اٹک اٹک کر کہا۔
خوش مطلب ساجدہ نا سمجھی سے زینب کو دیکھنے لگی جو نظریں چرا رہی تھی اور جب اس کے انداز سے مدعا سمجھ آیا-تو وہ ساری جان سے کانپ گئی ۔ زینب۔۔۔۔-بھوک بہت بری بلا ہے ساجدہ ضمیر، عزت، غیرت سب کو نگل جاتی ہے۔ ہم غریبوں کو پیٹ کی بھوک لے ڈوبتی ہے تو امیر کو جسم کی ۔-زینب کا لہجہ بہت دیکھی تھی۔ ساجدہ ساکت تھی۔ آج صاحب کا موڈ ہے۔ یہ ان کا خاص کمرہ ہے۔ جس کا بیگم کو بھی علم نہیں۔ آج مجھے اجازت نہیں ہے۔ صاحب ناراض ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں تیرا بھی پوچھا۔ اگر تو چاہے۔۔۔ تو زینب بات ادھوری چھوڑ کر سارا مفہوم سمجھا کر چلی گئی اور ساجدہ کو جیسے پل صراط پر تنہا چھوڑ گئی۔ ساجدہ نے دھندلائی آنکھوں سے بند دروازے کو دیکھا۔ اس کی نظروں کے سامنے بھوک سے بلکتی بچیاں آئیں۔ اب اسے جلدی طے کرنا تھا کہ بچیوں کے پیٹ کی بھوک اہم ہے یا نہیں اور کچھ دیر بعد اس کے قدم خود بخود اس بند دروازے کی جانب اٹھ رہے تھے۔