Beti Ki Pehli Rar Ki Qeemat 15 Lakh | Best Urdu Kahani

is Best Urdu Kahani Main Ap ko bahot si Batain Mashray ke Bary Main samjny k liay milain g

Best Urdu Kahani For Elders

چمن آرا کی قیمت پارٹ رمضان شریف کی آمد آمد تھی۔ جہاں آرام، جو در اصل جہاں آرا بیگم بلکہ در اصل جنوں تھیں ۔ رمضان شریف میں بے حد پاک باز بی بی بن جاتی تھیں۔ ڈھولک اور ہارمونیم پر غلاف چڑھا دیتی تھیں کھلے روزے نہ رکھتیں، مجرے بھی نہ کرتیں اپنے خیالوں کی جنت میں ایک شان دار محل کی تعمیر میں منہمک ہو جاتیں۔
اکلوتی بیٹیا چمن آرا بیگم کو بھی ان کی سختی سے یہی تاکید اور تعلیم تھی، کہ بی بی اعمال جیسے کچھ بھی ہوں ۔ مذہب اپنی جگہ ہے ۔ دلداروں کا آنا جانا سال کے اور گیارہ مہینوں کی طرح اس مبارک مہینے میں بھی لگا لپٹا ہی رہتا۔ لیکن میں دور دور سے صاحب سلامت رہتی نزدیک آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چوما چاٹی کا کیا ہے وہ تو

چلتی رہتی ہے ۔

Read Also Best Urdu Stories In Urdu Font

Shakila Ki Story in Urdu Font Story
Nazo Ki Kshani Heart Touchin Urdu Story


ہاں، حرام کام سختی سے ممنوع قرار پاتے۔ ویسے چمن آرا

بیگم ان باتوں سے ابھی دور ہی تھیں چاند رات کو مین آرا نے بڑی لگن سے پوچھا امی جانے کل کا پہلا روزہ ہے ۔ رکھ نہ لوں۔ جہاں آرا سے پہلے کتھے خال بول اُٹھے ۔ ہاں ہاں رکھ لو کیا مضائقہ ہے ہاں ہاں رکھ لو کیا مضائقہ ہے جہاں آرا شیرنی کی سی گرج کے ساتھ ہاتھ نچا کر کلے خاں کو گھور کے بولیں
اور جو تیرے باپ آئیں گے اُن کے ساتھ ہنسے گا بولے گا کون؟ تیری ماں؟ یا میں ؟ چمن آرابلی کی طرح سہم کر دبک گئی ۔کلے خاں اس تو ترزاق کے ، آج کل سے نہیں مدتوں سے عادی تھے، جب سے جنیوں کو بھگا کر لائے تھے۔ پہلے ایسا بھی پتلا حال نہیں تھا کہ جو بھی وہ کہے یہ سُن لیا کریں ۔ پہلے تو یہ برابری کا معاملہ تھا،
بلکہ خود جنیوں کی ہی ان سے کو ردبھی تھی ۔ پہلے پہل گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا یہی حال ہوتا ہے، سوچیتوں کا بھی یہی تھا۔ ڈر تو گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ سوتیلی ماں کی مار پیٹ کوسنوں سے ڈر ڈر کے یہ حال ہو گیا تھا کہ کسی نے پکارا تو نظر اٹھا کے دیکھنا بھی قیامت ! لیکن جیسا کہ ہر لڑکی بہر حال ایک قیامت ہوتی ہے ہمینوں بھی اگر قیامت کبری نہیں تو قیامت صغری ضرور تھی۔
میرا شنوں کے دھندے میں یہی ایک خوبی ہے کہ لڑکی گھر سے بھاگ بھی جائے تو برادری میں چوں چوں نہیں ہوتی ۔ پڑیوں کا تو وطیرہ ہی ہوتا ہے آج اس ڈال تو کل اُس ڈال۔ ڈر سہتے سہتے ایسی معصوم ہرنی جیسی بن گئی تھی کہ اگر کسی کو نظر بھر کر دیکھ لیتی تو وہ وہیں گھائل ہو جاتا۔ محلے میں ایک بار ماں کے ساتھ پیٹی بچانے کسی رئیس کی محفل میں گئی۔
ہارمونیم بجاتے سجاتے دو ایک بار کسی سے آنکھیں میلا نبیٹھی ۔ ملاقاتیں بڑھتی گئیں ، پتہ چلا موٹر چلانے پر نوکر ہیں ۔ اتنی اتنی نہیں پورے ڈیڑھ سو تنخواہ پاتے ہیں۔ ہنر ہا تھ میں ہو تو انسان کہیں بھی ہاتھ پاؤں چلا سکتا ہے۔ آگرہ کیا اور بمبئی کیا ۔
ویسے تو دنیا جانتی ہے کہ سارے دنیا بھر کے بھگوڑوں کو پناہ دینے کا باقاعدہ ٹھیکہ بمبئی نے لے رکھا ہے۔ پھر کھلے خاں اور جینوں کیا دو آدمیوں کی جگہ اتنی بڑی سمیتی میں نہیں نکل سکتی تھی ۔ ؟ قدرت بھی بڑی فیاض ہے کم سے کم غریبوں کو حسن بخشنے کے معاملے میں ورنہ حسن بھی اگر بازار میں دکان پر بکنے والی شے ہوتی
تو یہ کم سخت امیر تو پیسے والے ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی بن کر بیٹھ جاتے ، مگر یہ بھی تو خدا کی بڑائی کا ایک بین ثبوت ہے کہ جسے چاہے حسن کی دولت سے نوازے ! ابھی تو ایک میرا ان بچی جس کی ساری زندگی لوگوں کی شادیوں کی جھوٹن کھاتے ، دلہن کی انترن پہنتے اور بیل اور صدقے کے پیسے چھنتے گزری۔
لیکن کوئی صورت دیکھتا تو دیکھتا؟ رہ جاتا ۔ شاہزادیوں جیسا تمکنت بھراشن پایا تھا کم بخت نے اور سوتیلی ماں کا ظلم بھی یہاں سونے پر سہاگے کا کام کر گیا ۔ آنکھوں میں ایسی مظلومیت اور سہماپن مقام کر گیا کہ جو بھی دیکھتا اس کا جی چاہتا کہ ایسی معصوم اور مظلوم مستی کو اپنے کلیجے میں بھرے۔ مردوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے
کہ وہ ہر دکھی لڑکی کو کلیجے سے لگا کر اس کا غم بھلا دینا چاہتے ہیں ۔ ! اگر سے بھاگ کر آئی تو جینوں کے دل میں ہزار دوسو سے تھے ۔ اللہ جانے بمبئی اور بمبئی والے کیا سلوک کریں ، لیکن جان پہچان کے کسی دور دراز کے دوست نے سہارا دیا تو اسے لگا کہ : دنیا اتنی بری بھی نہیں جتنی لوگ بتاتے ہیں کھلے خان نے اس سے باقاعدہ عقد تو کبھی نہیں کیا،
لیکن تھا بڑا عقل مند ، چار آنے والی سیاہ باریک موتیوں کا پیچ لڑا پہلے ہی اس کے گلے میں باندھ لایا تھا کہ شہاگن سمجھی جائے۔ اور بمبئی کے چلن کے مطابق منگل سوتر، گلے میں پڑا دیکھا تو کسی نے پوچھنے یا سوچنے کی بھی زحمت نہ کی کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ حالانکہ کلے خان بے حد رعب داب سے سمجھاتا آیا تھا۔ شادی ہم نے کی ہے نہ کریں گے۔
مگر کوئی بھی پوچھے ہر کتنا ہے تو کہہ دینیا گیارہ ہزار ہے ویسے وہ گیارہ ہزار چھوڑ گیارہ لاکھ بھی کہہ دیں تو کلے خاں کا کون سا دیوالہ پٹ جاتا۔ یوں بھی آج کل تو فیشن کے طور پر مہر باندھتے ہیں۔ ادا کون کرتا ہے۔ اس نے سر ہلا کر معصومیت سے کہہ دیا اچھااور کوئی پوچھے جہیز کا سامان کہاں ہے تو کہہ دینا کہ ابھی نئے نئے آتے ہیں کہاں سامان بٹورتے پھرتے ۔
اس لئے میکے ہی میں دھرا ہے کہہ دوں گی وہ بے حد فرماں برداری سے بولی اور اگر کسی نے زیورات کے بارے میں پوچھا تو ۔ ؟ اس معاطے میں خود کھلے خان بھی پریشان تھے ۔ کیوں کہ زیور تو ایسی چیز ہے بھی کہ عورت جسم پر لادے رہتی ہے۔ نہیں سو پچاس تولے تو دو چار توے ہی سہی ۔ میں بول دوں گی ابھی ماں کے پاس نہی دھرا ہے۔
کھلے خاں نے جزبز ہوکر اسے ٹو کا ماں نہیں پڑھے لکھوں کی طرح امی جان کہو بھئی۔ کتے خاں چھ کلاس پاس تھے ۔ اور بڑے گھر میں ڈرائیور تھے۔ اس لئے سزبان دانی کا خاص خیال تھا۔ جیوں نے مسکرا کر دیکھا۔ یہ مسکراہٹ بڑی ہی معنی خیز، بڑی ہی حوصلہ خیز بڑی ہی خاموش کٹاری جیسی تھی جیسے کہتی ہو سب سمجھتی ہوں تم چھ کلاس پڑھے ہو۔
دیکھنے دکھانے میں بھی اچھے ہو۔ عزت کا خیال رکھتے ہو نہیں چاہتے کہ کوئی سمجھے کہ یہ بیوی بیوی نہیں بھگوڑی ہے۔ تمہیں عزت چاہئے نا ؟ ٹھیک ہے میں تمہاری عزت کو اپنے ہاتھ میں رکھ رہی ہوں وہ دوسرا ہی دن تھا۔
نہا دھو کر جینوں جب گیلری میں آئی تو پاس پرونیں حیرت سے اسے دیکھنے لگیں کھلے خاں بھگا کر لایا تھا تو کیا ہوا ۔ اس کی جوانی کا میٹھا میٹھا رس پیا تھا تو کیا ہوا ، اس کے بدلے میں پیار بھی تو دیا تھا۔ اور
کپڑے لتے بھی سلیقے کے اس وقت وہ پھول دار جارجٹ کی ساڑی پہنے ہوئے کا جل بھری کالی کالی آنکھیں اور لپ اسٹک سے سجے سجے سرخ سرخ ہونٹ پڑوسنوں کی ہمت نہ ہوئی۔
کہ اُسے بہن یا آپا کے نام سے مخاطب کریں ایک نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ بیگم صاحبہ آپ کہاں سے آئی ہیں دیوالی کے پٹاخوں میں ایک چیز ہوتی ہے انار اس کم بخت کو آگ لگا کر چھوڑو تو بس پھر اوپر ہی اوپر چلا جاتا ہے نیچے آتا ہی نہیں بیگم صاحبہ کا فلیتہ ایسا لگا کہ جینوں اوپری او ر پر چھتی گئی ۔ اب نیچے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
آگرہ سے اس نے تمکنت سے جواب دیا جیسے پورا آگرہ اس کی تحویل میں تھا۔ آپ جتنی خوب صورت ہیں۔ آپ کا نام بھی اتنا ہی خوب صورت ہو گا یہ کسی اسکول کی لڑکی نے مسکرا کر پوچھا۔ بس یہی ایک لمحہ تھا جیسے وہ پاتال میں گر سکتی تھی ۔ لیکن وہ ہر وقت سنبھل گئی۔ اس نے نزاکت سے پیوسر کے گرد لپیٹا اک بیگانی شان اس کے چہرے سے چھلکنے لگی۔
وہ ذرا مسکرا کر بولی جہاں آرا بیگم پچھلی بار بھاگنے سے کچھ دن پہلے جس گھرانے میں ماں کے ساتھ ہارمونیم بجایا تھا ، وہاں دلہن کا نام جہاں آرا ب گیم ہی تو تھا۔ اور ایسے اچھی طرح یاد تھا پیار سے اس کی سہیلیاں جب اُسے دولہا کا نام لے لے کر چھیڑ رہی تھیں
تو بجائے پورا نام لینے کے جینوں جنیوں کہتی تھیں ۔ تو کیا وہ جینوں سے جہاں آرا بیگم نہیں بن سکتی۔ نام بدل لینے میں کون سے ہاتھی گھوڑے اور طمطراق لگتا ہے ؟ یہ ضرور ہے کہ اب تک کی زندگی بڑی بدمزگی ، بے معنی اور بے عزتی میں گزری تھی ۔ اب اپنے گھر میں توجو عزت تھی سو تھی۔
لیکن شادی کے گھروں میں ڈومنیوں اور میراثنوں کی کیا عزت ہوتی ہے ہ گھر والے ساتھ بٹھانا تو دور رہا کھانا تک زمین پر کھلاتے !! سب کے بعد میں دسترخوان لگا دیا جاتا ہے کہ اپنے کنبے کے ساتھ پھڑ پھڑ کھاتے رہو۔ اور پھر پیسے والوں کا برتا وکہ کتنی بار ایسا ہوا کہ اندھیرے اجالے کسی نہ کسی نے موٹر کے ہارن کی کی طرح سینہ پکڑ کر دبا دیا۔
اس میں بوڑھوں اور جوانوں کی بھی قید نہ تھی۔ بس موقع ملنے کا سوال تھا ۔ اور وہ رازوں کے اسرار سے پردے اٹھاتی ہوئی ایک عجیب و غریب ر ات !! گرمی کے مارے جب وہ شادی کے گھر کے باغ والے برآمدے میں اکیلی سوئی پڑی تھی تو کسی نے اندھیرے میں اس کا آزاربند کھول دیا تھا اور جب تک کہ وہ حالات کی پچیدگی کا جائزہ لیتی۔
یا کچھ سوچ ہی پاتی۔ سب کچھ برا بر ہو چکا تھا اور کڑ کڑاتے کاغذ کی ایک چھوٹی سی تہہ اس کی ہتھیلی میں پڑی فریاد کئے جارہی تھی۔ اجالے میں چلو اور مجھے دیکھو تمہیں پتہ تو چلے تمہاری قیمت کیا ہے۔ تمہارا مول کیا ہے۔ بڑی مشکل سے وہ اٹھی تھی۔ باہر جا کر ملگجے آجائے میں نوٹ کی تہہ کھولی اور بس دیکھتی ہی رہ گئی ۔ وہ ایک روپے کا نوٹ تھا ! اسے ہنسی آگئی۔
اگر وہ جواں مرد یہ ایک روپیہ بھی نہ دیتا تو میں اس کا کیا بگاڑ لیتی ہے لیکن چلو اچھا ہے اس نے راستہ تو بتا دیا کہ یہ بھی ایک دکان ہے جو چلائی جا سکتی ہے ؟ گویہ دکان ابھی زیادہ دنوں نہیں چلی تھی کہ اس کے دل پر محبت کا دار کھل گیا۔ اور وہ اپنے پیچھے ایک سڑی ماری دنیا چھوڑ کر کلے خاں کے ساتھ چلی آئی۔
اور دراصل اُسے آگے چلتے ہوئے پیچھے چھوٹ جانے والی دنیا کا رتی بھر بھی ملال نہ تھا ڈر ڈر ہوتا بھی کا ہے کا۔ دنیا میں سب سے زیادہ ڈرکسی بھی عورت کو اپنی عزت لٹے کا ہوتا ہے ۔ جب عزت ہی نہیں رہی تو پھر ڈر کا ہے کا؟ جو دکان آگرہ میں چار لوگ مل کر چلاتے تھے یہاں اکیلا کلے خاں چلائے گا ۔ بات بالکل ایک ہی تھی۔ بہر حال پیسے کی
ضرورت تھی جو پہلے بھی اب بھی تھی۔ پہلے بھی وہی طریقہ تھا اب بھی وہی طریقہ تھا۔ اور ویسے دیکھا جائے تو، اس نے ٹھنڈے دل سے سوچا۔ یہ مولوی کی موجودگی میں، وکیلوں کی گواہی میں جو نکاح پڑھائے جاتے ہیں اور عورت کو کسی ایک مرد کی قید میں زندگی بھر کے لئے دے دیا جاتا ہے تو بالکل وہی سلسلہ ہے عورت سے رات کو کچھ لیتے رہو
اور دان پھر اس کے معاوضے میں کپڑا لتا کھانا دانہ دیتے رہو۔۔۔!! ایک لفظ “بیگم صاحبہ” نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ !! اس کا رکھ رکھا تو دیکھ کر کسی کو اس سے زیادہ باتیں بھنگارنے کی ہمت نہ پڑی کلے خان کے دوست نے اپنے دوست اور بھابھی کی آمد کی خوشی میں محلے ہی میں ایک پارٹی کا انتظام کر ڈالا۔ ایک گھرمیں ہارمونیم بھی تھا۔
چائے پارٹی کے بعد گانے بجانے کی محفل جمی اور کسی نے یونہی سر راہ بھائی جہاں آرا بیگم سے گانے کی فرمائش کر ڈالی تو وہ تمکنت سے اپنا پلو سنبھالتی ہارمونیم پر انہیں نازک انگلیوں سے ایسے سر نکالے اور ایسا اچھا گیت گا یا کہ محفل دنگ رہ گئی ۔ اور پھر تعریف و توصیف کا ایسا سلسلہ اور شور اُٹھا کہ کلے خان کی، جو جہاں کو گھر چلنے کو کہہ رہا تھا، آواز ہی دب کر رہ گئی۔
اور پھر یوں ہوا کہ ہمیشہ کے لئے کلے خاں کی آواز ہی دب کر رہ گئی۔ کیوں کہ پھر یوں ہوا کہ جہاں آرا بیگم نے توڑ جوڑ کر کے اپنا ایک ہارمونیم خرید لیا اور رات کو گانے بجانے کا سلسلہ شروع کر لیا۔ پہلے پہل تو محلے والے آتے ، خوش ہو کر داد دیتے، اور اپنی خوشی کا اظہار پہلے تو روپے دو روپے دے کر کرتے۔ پھر ذرا بڑے پیمانے پر یہ محفلیں جمنے لگیں۔
جب عورت کمانے لگتی ہے تو عورت کے مونہہ میں زبان کی جگہ ایک دھار دار چھری آجاتی ہے ۔ اور یہ کمائی جب اپنی ہی دکان کی ہو تو چھری دو دھاری ہو جاتی ہے۔ اور مرو جب دیکھتا ہے کہ عورت کی دوکان خوب چل نکلی ہے۔
گر کی بہت بڑھ گئی ہے تو وہ اپنی زبان بند کر لیتا ہے کیونکہ بہر حال دو چیزیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یا تو دکان چلے یا زبان پہلے پہلے پہل کتنے خان کی زبان زیادہ چلنے لگی تو اسے اپنی محفلوں کی بد مزگی جان کر جہاں آرا نے اسے افیم دینی شروع کر دی۔ پھر وہ افیم کا اس قدر عادی ہو گیا کہ ہر بات سے بے فکر ہو گیا۔
بے فکری نے زبان بالکل ہی بند کر دی اور یوں جہاں آر ابیگم کی دوکان خوب چل اٹھی ۔ وقت نے ہر طرح کا سلیقہ اور قرینہ سکھا دیا۔ سب سے پہلے جہاں آرا بیگم نے اس گندے فلےٹ تھے کو چھوڑ کر ایک اعلیٰ سوسائٹی میں شاندار فلیٹ کرائے پر لیا۔ نئے فیشن کے رنگ ڈھنگ سے فلیٹ کو آراستہ کیا لیکن ایک کمرہ اپنے پرانے پن کی تہذیب کی یاد گار بنا کر رکھا ۔
بڑا سا نرم گدیلا۔ اس پر شفاف کی چاندنی بھی ہوئی۔ بڑے بڑے گاؤ تکیہ ۔ ملائم گال تکتے ، بازو تکئے۔ ایک کونے پر چاندی کا بڑا سا پاندان دھرا ہوا ۔ پان کی وضع کا ناگردان ہیں میں سلیقے سے لگے ہوئے پان رکھے ہوئے۔ کونے میں اگالدان، ایک کونے میں قالین پر طبلے، ہارمونیم ، ڈھونکی اور کچھ ساز محض سجاوٹ اور رعب داب کے لئے ۔ اور پھر اسی کمرے میں قالین اور گویلے کو چھوڑ کر چکنا بڑا سا فرشی حصہ یونہی چھوڑ دیا گیا تھا کہ ناچنے کے کام آئے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ لگا ہوا تھا۔ جو ہر چہار طرف سے آئینوں سے گھرا ہوا تھا۔ یہاں ایک ڈبل بیڈ مسہری نمانگا ہو ا تھا۔ ایک نو بیاہتا جوڑے کے کام آنے والی ہر چیز یہاں سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ کاروبار بڑھ گیا تھانا کئی بار ایسے موقع آ جاتے کہ کسی نہ کسی کو یہیں فلیٹ ہی میں ” سنبھالنا پڑ جاتا۔ یہ کمرہ ایسے ہی موقعوں کے لئے بطور خاص بنا یا اور سجایا گیا تھا۔ اندر اور بھی کئی کمرے تھے جن میں نوکر نوکرانیاں رہیں۔ ایک کمرے میں کلے خاں نشہ کئے پڑے رہتے۔ ان کے کمرے پر ہمیشہ پردے جھولتے رہتے۔ عورت جب تک پر دے میں رہتی ہے اسے قدم قدم پر مرد کے

سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جب وہ پردے سے باہر آتی ہے تو مرداس کے لئے بے مصرف چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ اور کھلے خال تو اس کے لئے بہت ہی جلد بے مصرف بن کر رہ گئے تھے بھگوڑی عورت کے لئے دنیا اپنے دروان سے کھول دیتی ہے۔ مگر مرد بھگوڑا ہو کر نکھٹو بن جاتا ہے۔ ڈرائیوری مل تو ضرور جاتی اگر گوشش کرتے مگر جس مرد کو گاڑی کی بجائے عورت چلانے کی عادت پڑ جاتے اسے پھر تو کر ہی کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی پہلے پہل گانے بجانے کے پیسے آئے تو تھے خیال کو بڑا بڑا لگا تھا ، لیکن جب کوئی اور بھی آمدنی گھر کی رونق بڑھانے لگی تو وہ مار پیٹ پر اتر آیا ۔ لیکن یہ سلسلہ بہت ہی کم دنوں چلا۔ کیوں کہ ایک دن لڑائی لڑائی میں جہاں آرا نے ایسی کم ظرفی کی بات کی کہ وہ سن ہو کر رہ گیا۔ اس کے پرس میں پانچ سو کے نوٹ دیکھ کر سکھتے خاں نے بد چلنی کا الزام لگایا تو وہ بڑی رعونت کے ساتھ بولی تم تو اپنا ہنر آگرہ ہی میں گروی رکھ کر آگئے تھے۔ یہاں آکر ایک دن بھی نوکری کی ؟ اگر میں ہی حالات کو نہ سنبھالتی تو پتہ چلتا وہ چلایا۔ حالات ایسے سنبھالے جاتے ہیں کمینی ۔وہ تڑاخ کے ساتھ بولی ۔ روپے روپے میں آزار بند کھوانے والی اگر ایک ایک رات کے پانچ پانچ سو کمانے لگے تو کیا پھر بھی وہ تجھ جیسے ڈھیلے نامرد کو اپنا شو ہر مانے گی؟؟ کمینی گندی اپنی زبان سے خود اپنے کرتوت مجھے منا رہی ہے وہ ہاتھ بڑھا کر لپکا۔ لیکن اس نے اپنا سونے کے کنگنوں سے جھم جھاتا ہاتھ بڑھ کر مرد کا ہاتھ مروڑ کر نیچے گرا دیا۔ آئندہ سے مارنے کی ہمت بھی نہ کرنا کلے خاں تم کو پتہ نہ ہو تو سنا دوں میرا نام جہاں آرام ہے، دنیا بھر کو آرام دینے کے لئے پیدا کی گئی ہوں صرف تم ا کیلے کو نہیں تسمجھے ؟ اور ویسے دنیا والے مجھے جہاں آرا بیگم کے نام سے جانتے ہیں میرا مہر گیارہ ہزار روپے ہے اور میرا سارا جہیز اور زیور ابھی تک میکے میں رکھا ہوا ہے۔ کسی بھی دن یہاں سے غائب ہو جاوے تو کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہاں گئی ۔ سب سمجھیں گے اپنے میکے چلی گئی لیکن کلے خان میں کہیں چھوڑ گئی تو تمہارا کیا ہوگا؟ نشہ پانی کہاں سے کروگے؟” پر ہاں آکر کلے خان مجبور محض ہو کر رہ جاتا تھا۔ اور اسی لئے اس نے ہونٹوں پر تالا ڈال لیا تھا اور اسی خاموشی سے خوش ہو کر جہاں آرا نے کلے خان کو مستقل ” خان بہادر ” کا خطاب دے دیا تھا ۔ جس میں تعریف اور عزت کم اور ذلت زیادہ نمایاں تھی ۔ انہی سالوں میں پتہ نہیں کس دل والے کی دین تھی ، ایک بیٹی جہاں آرا کے پیدا ہو گئی تھی جسے خان صاحب خوش ہورہو کر اپنی بیٹی کہ کر پال رہے تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مدتوں سے جہاں آرا نے کلے خان کے ساتھ بھائی بہن کا سا رشتہ ی مڈھ رکھا تھا۔ لیکن وہ سوچتی برا بھی کیا ہے دنیا میں رہنا ہے تو اپنے لئے نہیں، بیٹی کے مستقبل کے لئے ایک نام نہا د باپ کیا وجود بھی تو ضروری ہے ہی کیا نیا ہے اگر یہ پاپڑ بھی آڑ بن جائے ؟ ویسے یہ بات اپنی جگہ صحیح تھی کہ اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا اصلی باپ کون ہے۔ لیکن کلے خان نے چمن آرا کو واقعی بیٹی کی طرح چاہا نشےکی ٹوٹ ہوتی تو اسے اردو سے لے کر نماز ، روزه ، قرآن شریف تک سمجھا تا پڑھاتا ۔ زمانے کا رنگ دیکھتے ہوئے خود جہاں آرا نے ہی اسے انگریزی اسکول میں ڈانا چاہا لیکن ہوا یہ تھا کہ چند سالوں سے اس نے خود کو ڈیرے دار طوائف

کی حیثیت سے متعا لیا تھا سارا زمانہ جاننے لگا تھا کہ آگرہ کے نامی گرامی گھرانے کی تہذیب یافتہ مغنیہ ، گلو کارہ لیتی میں آبرا جی ہیں۔ پتہ نہیں کتنی چونی آشتی میں رات بتانے والی لمینتی آگر آگرہ غریب کی شان بڑھا رہی ہیں ، بہت۔ حال جہاں آرا نے تو خود کو اس حیثیت سے منوا چھوڑا تھا کہ تو ابوں کے ساحبزادے میرے گھر تہذیب اور رکھ رکھا ڈیکھنے آیا کرتے تھے !! اور یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی یہ بھی تو بھئی اب ایسی ڈیرے ما بیگم صاحبہ کی بیٹ کو انکا یہ تعلیم زیبا نہیں دیتی۔ اسی ماہے انہوں نے گھرکو ہر ہرقسم کی تعلیم دلواتی شروع کی اس میں پڑھائی لکھائی سے نے کرناچ گانا بجانا سب ہی کچھ شامل تھا۔ ناز و انداز سیکھنے اور دکھانے کی خاطر جہاں آرا اپنی محفلوں میں جان بوجہ کر بٹیا کو بھی بنا کر بٹھائیں۔ ہر چند کہ چڑیا کے بچے کو اُڑنا اور کھیل کے بچے کو تیرنا سکھانا نہیں پڑتا، لیکن اپنی طرف سے کسر کیوں چھوڑی جائے ۔ ؟؟ ایک طرف میک آپ کی تہیں دبیز سے دبیز تہ بند رہی تھیں ، اور دوسری طرف آگ پر ساقی جو آئی بہار پر آرہی تھی اور اس دن جہاں آن میگیم نے زمانے کے آگے ہتھیار ڈال دئے، جب ان کے ایک ملنے والے صاحب زادے قمر الزماں صاحب جو کہ عمرمیں چین آیا سے بھنے چو گئے ہوں گے ، ترچھی نظروں سے ہوس خیز نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا : بیگم صاحب اتنی تنی ناک میں یہ سونے کی حقیر تنی کچھ زیب نہیں دیتی ۔ جی ہاں، وہ سینے میں ابھرتے ہوئے ابال کو دبانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی بولیں : ” میں نے ایک نتھ صرافے میں دیکھی ہے، ہمت نہیں پڑتی ہیں تو چھوٹے چھوٹے پندرہ ہیرے لیکن کم بخت

سو الا حمید قیمت تبار ہا تھا – آپ بھی کمال کرتی ہیں سوالا کچھ بھی کوئی چیز ہے ؟” انہوں نے ہاتھ بڑھایا لیکن وعدہ رہا کہ یہ سعادت میں نہیں ہی حاصل ہوگی ۔ جہاں آر اینگیم نے ان کی تھیلی پر اپنی تھیلی رکھ دی ۔ یہی وہ ہاتھ تھا تو آج تک ان کے اپنے ہاتھ کے لئے بے قرار رہتا تھا کو تعلقات جسمانی حدود یں کبھی نہیں آپائے کیوں کہ جہاں آرا بیگم عمر کے اس دور میں تھیں جب کہ لاکھ بند ھے کے رہنے کے یا وجود کبھی جسم میں ڈھلک آجاتی ہے، اور کپڑوں سے بے نیاز جسم یہاں نہ بال سے اوجھڑی کی طرح لٹکا لٹکا نظر آتا ہے ، اور ایک منڈی جب اپنے جسم کی اس بے وفائی سے آگاہ ہو جاتی ہے تو محض بات چیت ، ادائوں اور لگاتے سے گاہکوں کو رجھانا اور ٹرخانات مروع کر دیتی ہے ۔ جہاں آرا نے بچپن سے غربی کیا مرتبہ دیکھا تھا۔ پیسے کے لئے بے آبرو ہوئی تھیں۔ روٹی کے چھوٹے ٹکروں کے لئے شادیوں میں بدہیاں گائی تھیں ۔ اور اندھیرے اجالے اپنے کو مل جوانی کے کچے پکے پھل پچھوائے تھے۔ وہ خوب سمجھتی تھیں پیسہ کیا ہوتا ہے۔ پیسے کی کیا قدر ہوتی ہے جو سبق انہوں نے زندگی میں سیکھا تھا ، اپنی بیٹی کو پڑھانے میں ذرا بھی شرم انہیں نہیں آئی تھی، نہ آتی تھی پیسہ ہی ایمان پیسے کے آگے ہر چیز ہی تھی لیکن اس وقت ایک عجیب کی کشمکش انہیں مروڑے ڈال ری تھی ایک شخص جو مدتوں سے صرف اُن کے دیدار کا پیاسا تھا۔ ان پر روپے زیور کی بارش کرتا ۔ ہا۔ اب اچانک کیسے بدل گیا لیکن ٹھیک ہے سب کچھ ٹھیک ہے ۔ پیسہ ہی سب سے بڑی چیز ہے ۔ یہ ملنا چاہئے. ہر طریقے سے ہر راستے سے انہوں نے اپنے اتھل پتھل کرتے دل کو قائد میں کر کے مسکراتے ہوئے کہا

یہ سعادت یوں تجھئے آپ کو حاصل ہو چکی شرائیوں میں زبان کیا ہی خیال رکھا جاتا ہے ، ورنہ اور دنیا میں رکھا گیا ہے ۔ تصاحب زادہ قمر الزماں اُٹھنے لگے تو جہاں آسما بیگم نے جھجھکتے ہوئے پوچھا : بیگم صاحبہ کیا خیال کریں گی۔ قمر الزمان مصاحب جاگیر تاروں کی اس کمل سے تھے جہاں بیوی کو بیاہ کر پاتے ہیں اور پھر وہ ایک راتوں کے اپنا رکھیں جاتے ہیں کہ محل میں کرونی ترین انفض موجود بھی بے بھی آخر تھان پر جانور بنا ھتے ہیں ہیں ۔ ایک آریہ کا اضافہ ہو جائے سے صاحب خانہ کی صحت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے ؟ قہقہہ لگا کر بولے : اس کی آپ فکر نہ کیجئے۔ ہم الگ کو ٹھی میں بھیجوا دیں گے انہیں ۔ اور موجودہ کو ٹھی ؟ انہوں نے رکھتے آنکھتے پوچھا : ” آپ کہیں گی ۔ تو میرین به برکھائی یا نستمد اترائی کی تقریش میں چمن آرا کر دے دیں گے ۔ جہاں آرا نے بے اختیار کجھک کر ان کے ہاتھ پوکم لئے ۔ رات کو تنہائی میں جہاں آر سی کی بیٹی سے بولیں : ” بیٹی مجھے تمہا را برا کھلا خوب سمجھنا ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے تمہارے لئے ایک بات سوچی ہے نئے زمانے کی پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکی جس ماحول میں میں کرہی سختی اس میں کچھ زیادہ کھول کر سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور پھر ماں کبھی نہیں تھی جس نے تیر ان ہوتے بھی بیٹی کو تمام اونچ نیچ سے آگاہ کر دیا تھا مرد کتنا بھی پر چائے بٹھائے دُور ہی دُور سے گھاس والو اپنے جال میں ایسا پھانسو کی تڑپے مگر نکلنے نہ پائے کبھی اپنا آپ اسے سونپنے کی کوشش

مت کرنا۔ ایک حماقت جس کا نام محبت ہے ، اس میں کبھی بھول کر مت پڑو ہم جس بہ زندگی اور پیشے میں جی رہے ہیں، اس میں صرف جسم ہی سب کچھ ہے ، اس کی قدر کرو کہ اس کا بھاؤ بڑھے جسم کو نس بن مجھے جو کھیں بھی سکتا ہے، ویسے اس صا بن کو استعمال نہ کریں تو سدا جوں کا توئی رہ بھی سکتا ہے ۔ لیکن یہ سارے وعظ اور نصیحتیں اس دن بے اثر ہو کر رہ گئے تھے، جس دان باقیمتی یا خوش قسمتی سے جہاں آرا بیگم گھر سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ سہ پہر کا سہانا وقت تھا چمن آرا چا نارنی پر نہا کر بال کھارہی تھی کہ کسی آیا نے آکر بتایا کہ کوئی صاحب ملنے آئے ہیں امی جان تھیں نہیں مجبوراً اسی کو آنا پڑا۔ بڑے ہال میں آئی تو دونوں ہی اپنی جگہ ٹھٹھک کر رہ گئے نیلے رنگ کی شرٹ اور نیوی بلوتیدین میں انھے بالوں شامل ایک بے فکرا سالہ کا لا پیران سے کھڑا ہوا تھا۔ آپ ؟“ وہ آگے کچھ بول ہی نہ سکی ۔ جی ۔۔میں لیکن امی جان یا ہر گئی ہوئی ہیں ۔ اجی امی جان کو مار وگولی … ایک دم وہ ٹھٹھکا معاف کیجئے میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ سچ یچ آپ اپنی امی جان کو گولی مار دیں۔ کچھ عادت سی ہو گئی ہے گولی چلانے کی وہ سادگی سے ہنس پڑا ۔۔ویسے مجھے کام تو آپ ہی سے تھا ۔ مجھ سے وہ بے حد حیرت سے اپنے سینے پر انگلی ٹکاکر بولی ” میں تو آپ سے کبھی ملی تک نہیں ٹھیک ہے نہیں ملیں لیکن وہ رکا … یہ دیکھئے وہ ہمارا

باورچی ہے نا اپنے کچن میں بیٹھ کر زعفران پیتا ہے تو پورے محلے میں خوشبو اڑ جاتی ہے ہے وہ ذرات یہ کی بنی ہنسا چیز اچھی ہونا تو آپی آپ شہرت ہو جاتی ہے۔ کیسی تعارف و عارف کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ گانا گاتی ہیں نا؟ اب تک اس کے حواس فورا بجا ہو چکے تھے مُسکرا کر بولی ” آپ کو غلط اطلاع ملی ہے ۔ گانا گا نا تو دور کی بات ہے، مجھے تو یہ تک نہیں معلوم کرے گا نا کسے کہتے ہیں۔ آپ چمن آرانہیں ہیں وہ اس کے قریب آکر بولا ہوں تو سہی ۔ تو میں آپ کو یہ اطلاح دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت شہر میں سب سے بہترین غزل گانے والی ہستی آپ ہیں اور میں وہ اچانک گھٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا میں آپ سے یہ درخواست کرنا ہوگی کہ ہم چند لڑکے ایک بہت ہی اچھے مقصد کے لئے ایک محفل منعقد کر رہے ہیں تا کہ کچھ دو پیسے جوڑ سکیں۔ اگر آپ اس میں دو تین غزلیں گا سکیں تو شاید میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہ بھول سکوں گا چمن پیدا نہ ہاں کر سکی نہ ناں کہد کی وہ یوں ہی تصو یہ حیرت بنی کھری رہی، اور وہ گھٹنے ٹیکے اسے ہاتھ جوڑے دیکھا کیا اچانک چمن آرا نے محسوس کیا کہ اپنی امی کی ساری تعلیمات دھری کی دھری رہ گئی ہیں ، اور وہ ایسے جال میں کبھی نہ نکلنے کے لئے پھنس چکی ہے جسے شاید لوگ محبت کہتے ہیں۔۔۔۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا بڑی دیر بعد شاید ہزاروں سال کی خاموشی کے بعد وہ لڑکا بولا تھا ۔ جی کے وہ ہر بڑا کر بولی ” اس وقت امی جان گھر پر نہیں ہیں اور نہیں بغیر ان کی اجازت کے کوئی کام نہیں کرتی۔ آپ مہربانی فرما کر یہاں تشریف لائیں اور جیسے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر، اس نے پھر باپٹ کر ال کر دیکھا تک نہیں، اور اپنے کمرے کو بھاگ آئی۔

اور اب امی جان کہہ رہی ہیں کہ بیٹی مجھے ہارا برا بھلا رہ جاتا ہے۔ پھر کبھی میں نے تمہارے لئے ایک بات سوچی ہے؟ کیا بات ہو سکتی ہے؟ صرف ایک ہی بات ایک ہی بات پوچھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ لیکن میں؟ میں تو آگے بی باک بینی مینوں اس نے ذرا شرما کر سوچا، امی جان تریہی کہیں گی تاکہ میں نے تمہارے لئے ایک اچھا سایہ کا دیکھ لیا ہے اور وہ شرم سے اور بھی جھاگ گئی۔

لیکن امی جان مجھے ابھی شادی نہیں کرتی ہے … … ” بے وقوف ای کی شادی کی تجھے کیا تو تھی؟ اور ہمارے خاندانوں میں کہیں شادیاں ہوا کرتی ہیں۔ میں تو سمجھے سنا رہی تھی کہ ہمارے خان امتی جان مجھے معلوم ہے۔ ہمارے خاندان کی ساری تاریخ، ابا جان نے مجھے سب بنا دیا ہے ……. وہ طنز سے بولی۔ اے ہے ابا جیان کی جگی اور وہ جام زادہ نکٹا کہاں سے تیرا باپ بن کر آگیا۔ سن لے حرام ناوکی میں جو کچھ کہوں گن اور عمل کرے ورنہ تیری کھال اور میری جوتی اور یہ شادی بیاہ کے چونچلے چھوڑ یہاں تو روز کو کان لگتی ہے اور روز پیسہ ملتا ہے۔ بیا تا بن کر ہ کی تجھے کیا ملنے والا ہے، وہی پابندی اور مجبوری کی ز ندگی نا؟ لیکن امی جان وہ ہمت باندھ کر بولی ” آپ ہی نے مجھے تعلیم ولوائی اور سوچنے سمجھنے کا حوصلہ دیا ہے۔ میں گناہ کی زندگی نہیں گزارنا چاہتیان اس کے تیور کسی سے دبنے والے نظر نہ آتے تھے ۔ وہ چاپلوسی سے بولیں ۔ اسے ہے بیٹی گناہ کو میں کب کہہ رہی ہوں ثواب کمانے کو مجھی میں کب منع کرے۔ ہی ہوں۔ اب دیکھ روزے تو تو رکھتی ہی ہے اپنے مذہب پر چلتی بھی ہے۔ کیا میں منع کرتی ہوں ۔ اپنے ہی سامنے کی اولا و حیران ہو جائے تو اس کے سامنے بھی تھوڑا بہت تو جھکنا ہی پڑتا ہے ۔۔! امتی جان روزوں اور عید کے بارے میں میں نہیں کہہ نہ ہی مہروں – وہ تن کر لبرٹی آپ جس راستے پر مجھے چلانا چاہ رہی ہیں نہ میں اچھی طرح جانتی ہوں میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جسے میرا جی نہ کرنا چاہے ” تو سن اے مندی لڑکی شریف زادیوں اور اونچے خاندان کی طور القنوں کی طرح میں نے جاگیر دار تصاحب سے تیر کی نتھ اتارنے کی بات پہنچی کرتی ہے۔ روزہ روز ایسے لوگ نہیں جوڑتے اور پھر یہ تنخورین ہے کہ متحد اترائی کے بعد تو ائی کی منکوحہ بیوی مر جائے گی ۔ وہ تو نئے راستے پر چلنے کی ایک شروعات مرتی ہیں اور جس پر تیرا دل آیا ہے ایسوں کو میں ترک پہنچانتی ہوں رنڈی کے لئے آنکھیں تو سب ہی بچھاتے ہیں لیکن اپنے گھر کے دروانے کی کنڈی کوئی نہیں کھوت تو پھر نہ زندگی بھر جھجک ماری۔ مجھے پر وا نہیں۔ لیکن مجھے بھی تو اپنا بڑھا پا دیکھنا ہے میرے دن تو گئے تیرے ہی سہائے تو اب زندگی کا جوا کھیلنا ہے ۔ تو بھی پتی درتا بن کر بیٹھ گئی تو میں کیا بڑھاپے میں فاتے کروں گی؟ آج سے دو تین دن بعد عید ہے ۔ عید پر جاگیر دار تصاحب آنے کو کہہ گئے ہیں، اسی دن تاریخ ہیں۔ جائے گی۔ ابھی تک تو نے میری محبت ہی محبت دیکھی ہے، نفرت اور خفتہ نہیں دیکھا۔ دیکھنا ہے تو اس مرگھنے کر دیکھ لے، اس چھاؤنی پر بھی تو نہ مانی تو اپنا انجام سوچ سکتی ہے۔ میں جیل میں خوشی خوشی جس کی نہیں لوں گی لیکن چھناں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔ کیسی پر سکون زندگی گزر رہی ہے، تختی بھی نہ پیلی شرٹ والا، نہ نامراد زندگی۔ تیرا یہ حشر ہوتا۔ اس کے بعد ایک بار وہ آیا کبھی تو ایسے موقع پر جب امی جان موجود تھیں۔ شکر ہے اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا کہ وہ پہلے کبھی آچکا ہے۔ میں کسی جگہ گانے کی فرمائش امتی جان کے سامنے کی اور انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ “بنیہ ہم لوگ رمضان شریف میں گاتے بجاتے نہیں ہیں۔” مایوسی سے چلا گیا، مگر کہ گیا تھا۔ پھر کبھی آؤں گا۔ اور ظاہر ہے وہ ان جان کے لئے تو آنے سے رہا۔ جاتے وقت کیسی بھولی اور معدوم نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ محبت کی وہ منزلیں جو لوگ برسوں میں نہیں پار کر سکتے۔ ہم نے محض دو ملاقاتوں میں الٰنگہ لیں۔ میں تمہاری نہیں ہو سکوں گی، شاید کبھی نہیں۔ مگر کاش قیمت تم سے یہ کہنے کا موقع ہی خطا کر سکے کہ میں نے اب تک سوائے تمہارے کسی کو نہیں چاہا، اور نہ شاید چاہ ہی سکوں گی۔ خادم جھجکتے ہوئے آیا اور بولا: چھوٹی بیگم صاحب آپ سے کوئی ملنے آتے ہیں۔ فلیٹ کے تین دروازے تھے، ہر دروازے پر کوئی بڑی بیگم صاحب پیرو تو دیتی نہیں رہتی تھیں۔ ایک دم چمن آرا کے دل میں امیدوں کا چاند سا روشن ہوگیا۔ “وہی تو نہیں اس نے گھیرا ہٹ اور خوشی کے جذبات کو چھپا کر کہا کرن نے وہ اپنا نام انوار بتاتے ہیں۔ نام تو اس دن اور دوسرے دن بھی اس نے پوچھا ہی نہیں تھا۔ وہی ہو گا۔ ور نہ مجھ سے ملنے تو خاص طور پر کوئی آتا نہیں، وہ ادھر ادھر دیکھو کہ فوراً دھیرے دھیرے بوٹی دیکھیں، پچھلے دروازے سے لے آؤ، تھوڑی ہی دیر میں دروازہ” کھولا اور وہی ہاں وہی کھڑا ہوا تھا جانے کہاں سے اتنی بے باکی چمن آرا میں آگئی مسکرا کر بول “کل ابر تھا۔ میں نے عید کا چاند دیکھنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن – دیکھو نہ پائی تھی!! اس نے اندر ہو کر دروازہ بند کیا، چٹنی پڑھائی اور بے تابی سے تقریباً دور تا ہوا آیا اور تمین آرا سے یوں لپٹ گیا جیسے برسوں کے بچھڑے محبوب ملتے ہیں۔ وہ دونوں مدتوں یوں ہی لیٹے کھڑے رہے۔ بڑی مشکل سے وہ خود کو الگ کر پایا۔ چمن میں میں شاید تمہارے بغیر زندہ نہ رہ پاؤں گا۔ میں مر جاؤں گا، چین میں مر جاؤں گامگر شاید میں تمہاری نہیں ہو پاؤں گی اور میرا سودا ہو چکا ہے سودا؟ وہ پیچھے ہٹا سودا؟ لڑکیوں کا کہیں سودا ہوا کرتا ہے؟ لڑکیاں تو بیاہی جاتی ہیں بیچی نہیں جاتیں۔ بیاہی پاگل وہ منی تم اس کو کٹھے پر تین بار آچکے ہو۔ یہاں تم نے گاریوں پر بچھی چاندنیاں نہیں دیکھیں چاندی کے پاندان، ناگردان، اور انگلی ایران نہیں دیکھے قالینوں پر سجے ہوئے ساز نہیں دیکھے اور کچھ دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو، مگر پالیسی پر کبھی گھور گھروں کی جوڑیاں تو منہ۔ دکھی ہوں اب تباہ کچھ کبھی کچھ مجھے یا نہیں؟ سودے ایسی ہی جگہ پر طے ہوتے ہیں ختم کھولے جو بہت کھوئے۔ انوار دھیرے سے مہری کی پانتین سے ٹک گیا۔ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے ہوئے چمن آرا اس کے پاس آبیٹھی۔ تم نے غلط جگہ دل لگایا ہے۔ – “میرا باپ کر دیتی ہے وہ شدت جذبات سے بھر گیا: وہ مجھے چاہتا کبھی بے دار ہے۔ مانہ کی مال پلیسیہ چاہتی ہے، تو میں تمہیں خریدنے کو بھی تیار ہوں میں نہیں کو نیا ویکھا دے کر خرید لوں گا، مگر پھر شادی کر کے با قاعدہ دلہن بنا کر اپنی بیوی بنا کر گھر لباؤوں گا۔ لیکن تم خدا کے لئے ہاں کر دو میں کچھ نہیں کر سکتی انوالہ میں اتنی ہی بے بس عبوں جتنی دُنیا کی کوئی بھی منظوم ایڈ کی اپنی ظالم ماں کے ہاتھوں ہو سکتی ہے۔ میں تمہارے لئے کچھ کر سکتی ہوں یا نہیں یہ بعد کی بات ہے لیکن ایک تحفہ تمہیں ضرور دے سکتی ہوں۔ اور اس نے دیوانگی کے جذبات کے ساتھ اپنے ان چھوتے اور کنوارے ہونٹ انوار کے کانپتے ہوئے گرم گرم ہونٹوں سے چپکا دئے ایک دم انوار پر پاگل پن ساچھا گیا۔ اس نے تسلی کی خاطر ایک بار بند کنڈی کی طرف دیکھا اور پھر بند قب جوانی کے ہاتھوں بے بس ہو تا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد کسی کام سے جہاں آرا بیگم کو بیٹی کی یاد آئی تو وہ ویپ کی ہوئی ہیں کے کمرے کو چلیں۔ مہری سے لگی آرام کرسی پر نادم تادم سا انوار بیٹھا ہوا تھا۔ اور پیٹی سے لگی چمن آرا اپنی خوشیوں کے بوجھ سے نڈھال تھکی جھکائی ان کی تجربہ کار آنکھوں نے ایک لمحے میں سب کچھ پڑھ لیا۔ ثبوت کے طور پر وہ کچھ اور دیکھنا چاہتی تھیں۔ سوئی کا راچمن ادھر آنا دنیا۔ چمن آرا اکھٹی چلی تو یوں ڈگر گاتی ہوئی جیسے اب گرمی کہ تب گیری۔ یہ چال اسی وقت بگڑتی ہے جب تھیلی پر مڑا تڑا نوٹ کڑکڑاتا ہے۔ انہوں نے اس کی میتی کھول کر دیکھی خالی تھی!! مشقتی خالی تھی، اور حرام زادی بھری بیٹھی تھی! انہوں نے بہت بہت، بہوت ہی بھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔۔۔ یعنی ہاتھ پکڑ کر انوار کو اٹھا کر کھڑا آیا اور سان سے بولیں۔ خالی بندوق داغنے والے تو میں زندگی بھر سے دیکھتی آرہی ہوں۔ جیب میں مال پانی ہو تبھی بہت سکون ڈھیل کرنی چاہیئے۔ مجھے اب نکل جاؤ یہاں ہے۔ چمن بید مجنوں کی طرح تھر تھر کاپنے جارہی تھی داماد سے نیٹ کر وہ بیٹی کی طرف مخاطب ہوئیں: کیا آج پتہ چلا چھنال کی اولاد چھال ہی ہوتی ہے تو کون سی مہرے تو روں کی بیاہی پیدا وار تھی کہ سہروں توروں کا انتظار کرتی اب جو میں کہوں اس پر عمل کرتی جا ورنہ تیری بوٹیاں تورج تورچ کر چیلوں کو توں کو کھیلا دوں گی وہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اونچی کرتی ہوئی بولیں۔ جاگیردار صاحب آج بھی پتے ہوتے ہیں۔ بھر پور لے میں ہیں۔ میں انہیں یہاں کیجاتی ہوں ، آدمی کیا ہوا ہو، اور بند کمرے میں جوان لڑکی ساتھ ہو تو پھر وہ کوئی وظیفہ نہیں کرتا ، وہی کرتا ہے جو مرد عورت ہمیشہ کرتے آتے ہیں تو انہیں سب کچھ کر گرز نے دنیا آگے میں نپٹ لوں گی ۔ مہندی لگے ہاتھوں میں نازک انگوٹھیاں جوانی کے خمار سے تیت چہرہ اور چہرے کو ڈھانپنے کے لئے مہندی لگے ہاتھ مہندی میں کی خوشبو خود ایمان متزلزل کر دیتی ہے اور اُن کا پاس جانا اور مارے نفرت کے اس کا دور دور ہٹنا ۔ جسے یہ ادائے دلبری مجھے اور پھر وہی گناہ جو ازل سے اب تک ہوتا رہا ہے ، ہوتا رہے گا ۔ رات کے اندھیرے سے صبح کے اجالے تک اور صبح کے اجالے سے رات کی سیاہیوں تک ہزاروں بار کا دہرایا ہوا مگر ہر بار نیا مگر اتنا ہی پرانا ۔ دروازہ کھلنے پر صاحبزادہ قمر الزماں صاحب جاگیر دار نے توقع کے بر خان منظر دیکھا دیکھتے کیا ہیں کہ جہاں آلہ اب گم رومال سے مونہہ ڈھاپنے رو رہی ہیں : بات کیا ہے آخر وہ سراسیمہ سے ہو کہ لوہے ۔ بات کیا ہوتی حضور میری عمر بھر کی کمائی کٹ گئی ۔ پہلی” بوسنی” آپ کے ہاتھوں ہوئی تھی سوا لاکھ میں اور اب آپ نے تو آج یوں ہی … وہ پرسکون ہوکر بنے افوہ بس اتنی سی بات بھی دھوم دھڑا کے سے تو نتھا ترے گی ہی ۔ یقین نہ ہو تو اس وقت یہ ساری انگوٹھیاں کھ لیجئے اور انہوں نے اپنی موٹی موٹی انگلیوں میں سے کھینچ کھینچ کر پیتے ہیں والی۔ قیمتی انگوٹھیاں ان کے قدموں میں ڈھیر کرنی شروع کردیں۔ نہیں نہیں کر کے بھی لاکھ سے کم کیا رہی ہوں گی یہ ساری انگوٹھیاں۔ اب تو اترائی نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑھے گا جہاں آرا نے خوش ہو کر دل میں۔ ڈیڑھ ما صاف نکل گیا اور دونوں باتیں ساتھ ہی ہوئیں۔ اس دن صحیح پہلی بار مورینہ ہوتے میں چمن آرا کو ایکانیاں آ کر تے ہوئی، اور اسی دن شام کو جاگیر دار صاحب اپنی فلیمی سی گاڑی میں بیٹھ کر آئے اور شناسائی گئی کہ بھئی کاروباری مصروفیت میں بات پیچھے پڑ گئی تھی اگلے بنتے نحمر اترائی کی تقریب ہوگی۔ اور انہوں نے پیشگی سوا لاکھ جہاں آرا کے قدموں میں ڈال دیئے، اور ساتھ یہ بھی سنا دیا یہ تو سمجھئے چین کا صدقہ ہے بیروں کی تختی تو ہم خود پر نہائیں گے، وہ سونے کی تھنی بھلے ہی ہم اتار دیں۔ ناک سونی کیسے رکھیں گے۔ جس ناک میں ہیرے کی تھی یا لونگ نہ ہو اس ناک کے نخرے ہی کیا؟! مقررہ تاریخ پر ایک ایسی یادگار تقریب بڑی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں جی ہوگئیں کیا کسی کی برات آرتنی شان دار ہوگی۔ جاگیر دار صاحب کسی موٹر کی برات لئے آئے چمن آرا کو اپنی لمبی سی گاڑی میں اپنے ساتھ ہی بٹھایا۔ جہاں آرا بیگم کو کبھی اس خاص تقریب کے لئے اپنے ہی ساتھ مدعو کیا اور پورے کروفر کے ساتھ اپنی جگہانی کو بھی پر پہنچ گئے۔ جہاں آرا بیگم کو خوشی یوں تھی کہ جوانی کا اولین تر و تازہ اور میٹھا میٹھاس جوہ حرام زادہ پہلے ہی پی گیا تھا، جاگیر دار صاحب پر ایک راز ہی رہا، اور وہ یہ سمجھے رہے کہ اس کنوارے کھیت میں پہلی پہل کاشت میں نے ہی کی اور دوسری۔ اس سے بھی زیادہ اہم خوشی یہ تھی کہ بٹیا رانی حمل سے بھی تھیں۔ مگر اب یہ کس کو پتہ کہ ایک ہی گھنٹے کے وقفہ سے جو دو دو ہل چلائے گئے ہیں تو سہرا کس کے سر بندھے گا کہ کیس کا بیج ہے، اچھا ہوا جاگیر دار صاحب کے سر ہی بلا جائے گی۔ ویسے تو ہاتھ کی بات ہے جی چاہے رکھوں گی، جی چاہے ٹھنڈ اگرم پلا کر پیٹ صاف کرا دوں گی۔ صبح کا انتظار امتی جان کو اصل میں یوں تھا کہ دیکھیں بٹیا رانی کو جاگیردار صاب کیا تحفہ دیتے ہیں؟ شان دار کو کھی کے شان دار ترین بیڈ روم سے ملحق سکاٹون میں صبح سویرے جب اماں جان بیٹی سے بات کرنے پہنچیں تو یہ دیکھ کر ان کا جی جل گیا کہ بیٹی تو کہتے پاتوں سے لدی ہوتی ہے مگر سنے وہی نا مراد کھڑا دانتوں میں برش کر رہا ہے۔ تم یہاں کیسے؟” وہ ذرا تیزی سے بولیں۔ اب همین آرا نے بھی گھونگھٹ ہٹا کر اسے دیکھا اور چکرا گئی۔ بالکل ہی چکرا گئی وہ تو انوار تھا سو فی صد اتوار – میاں میں کو چھتی ہوں تم یہاں کیسے آئے۔ وہ ہنستے ہوئے بولا، “میں اپنے گھر میں ہوں بھائی اپنے باپ کے گھر میں۔” اپنے گھر میں ہو نا گناہ ہے کیا؟ ” کالج کے ٹور پر گیا ہوا تھا۔ رات ہی تو واپس آیا ہوں ….. اور اسی لمحے اس کی نظر چمن آرا پر پڑی۔ وہ چکرا اٹھا۔ سودا سودا؟ سودا چمن آرا نے اُسے دیکھا اور پاگلوں کے سے انداز سے چلا چلا کر ہنسنے لگی۔ امی جان ذرا ایک رشتہ مجھے بجھا دیجئے۔ یہ بچہ جو میرے پیٹ میں ہے، میرا بیٹا بھی ہو سکتا ہے اور شاید میرا پوتا بھی ہے نا امی جان۔ ہو سکتا ہے اور بھی کئی رشتے ، رشتوں سے نکل آئیں تو میں اتنی جان میں خود اپنی بہو بھی ہوئی اور اپنی ساس بھی ۔ کیوں کہ امی جان آپ کی عنایت کی وجہ سے باپ بیٹے ایک ہی تھالی میں کھا کر گئے ہیں … اور ایک دم وہ چیختے چیچتے بے ہوش ہو گئی ۔ ہر یونگ سن کر جاگیر دار صاحب باہر نکل آئے ۔ ” ارے بھئی کیا ہو رہا ہے وہ چلائے ماں کے ہاتھوں میں بیٹی کو یوں دیکھا تو حیران ہو کر بولے : اسے کیا ہوا۔ ارے میں پوچھتا ہوں چمن کو کیا ہوا ۔ جہاں آنسا بیگم نے بڑی ادا سے سر اٹھا کر جواب دیا ۔ اے حضور مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ ایسی بھی کیا جوانی کہ پھول سی بچی کو رات بھر میں جھولا جھولا بنا دیا ، اور اوپر سے یہ سوال کہ کیا ہوا … اپنی لنگڑی جوانی کے سر ایسا شان دار سہرا بندھتے دیکھ وہ کھیل کھیلا اُٹھے اور مسکرا مسکرا کر سو سو کے مٹھی بھر بھر نوٹ اپنی جیبوں سے نکال کر جہاں آرا کے سامنے ڈھیر کرتے گئے۔

Updated: February 6, 2025 — 6:06 pm

3 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *