Contract Base Marriage Novel the captivating world of Arslan Shah and Iman Noor in this passionate Pakistani romance story that transforms a cold contract base marriage into an unforgettable tale of true love. Arslan, a ruthless and successful business tycoon, rules his corporate empire with an iron fist but guards a hidden vulnerability that isolates him from love. Iman, a determined and intelligent young woman, enters his life as his personal assistant, driven by her family’s financial struggles. When familial pressures force Arslan into a marriage of convenience, he proposes a business-like deal to Iman: a contract marriage to fulfill societal expectations in exchange for securing her family’s future. What begins as a transactional arrangement soon spirals into an emotional journey of sacrifice, trust, and unspoken desire.

یہ عدادوشمار کی سراسر بکواس ہے، مسٹر فاروقی۔ شاہ انڈسٹریز کے بلندوبالا دفتر کی آخری منزل پر بنے شیشے کی دیواروں والے بورڈ روم میں ارسلان شاہ کی گونجتی سرد اور بے رحم آواز سنائی دی۔ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ ہماری پچھلی سہ ماہی کی سیلز میں صرف 2% اضافہ ہوا۔ جبکہ مارکیٹ میں ہماری ساکھ سب سے زیادہ ہے۔ اس کی گونج کمرے میں موجود ہر شخص کے دل میں خوف پیدا کر رہی تھی۔ اس کے سامنے بیٹھے ادھیڑ عمر مارکیٹنگ ہیڈ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے ظاہر ہو گئے۔ ارسلان کی آنکھیں جو کسی شکاری کی طرح اپنے شکار کو دیکھ رہی تھیں۔ فاروقی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی کرسی پر تھوڑا سا آگے جھکا۔ اس کی انگلیوں کی پور مہنگی لکڑی کی میز پر ٹک ٹک کر رہی تھیں۔ ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ میں نے آپ کو اس پروجیکٹ کے لیے لامحدود بجٹ دیا تھا۔ بہترین ٹیم دی تھی اور بدلے میں آپ مجھے یہ ناکامی کا سرٹیفکیٹ دکھا رہے ہیں۔ ارسلان شاہ اعدادوشمار اور حقائق کے ساتھ اپنے مخالفین کو یوں مات دے رہا تھا جیسے کوئی شطرنج کا ماہر ہو۔ وہ الفاظ نہیں تیر برسا رہا تھا۔ میٹنگ میں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ ارسلان شاہ کو ناکامی سے نفرت ہے۔ وہ ایک ایسی مشین تھا جو صرف جیتنا جانتی تھی۔ میٹنگ کے اختتام پر جب سب اس کی ذہانت اور بے باکی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے تب بھی اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ اس کی دنیا میں صرف کامیابی کی جگہ تھی جذبات کی نہیں۔ شام کو جب وہ اپنی سیاہ مرسڈیز سے اتر کر شاہ ہاؤس کے وسیع پورچ میں داخل ہوا تو ماحول ہی اکثر بدل گیا۔ باہر کی دنیا کا بے رحم بادشاہ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک مطیع بیٹا بن جاتا تھا۔ ڈائننگ ہال میں اس کی والدہ صائمہ بیگم اور اس کی چھوٹی شادی شدہ بہن ثنا اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ میز پرتلذت کھانوں سے سجی تھی لیکن ہوا میں ایک تناؤ تھا۔ ارسلان نے کرسی کھینچی اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس کی خاموشی گھر والوں کے لیے نئی نہیں تھی۔ صائمہ بیگم نے ایک تصویر آہستہ سے اس کے آگے بڑھائی۔ ارسلان یہ کرنل آفتاب صاحب کی بیٹی ہے سارہ۔ بہت اچھی اور پڑھی لکھی بچی ہے۔ ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہے۔ ثنا نے لقمہ دیا۔ بھائی آپ ایک بار مل تو لیں۔ ارسلان نے تصویر کو دیکھے بغیر ایک طرف دھکیل دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی۔ امی میں اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے لہجے کی برف جیسی ٹھنڈک نے صائمہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو بھر دیے۔ آخر کب تک بیٹا؟ کب تک تم یوں اکیلے رہو گے؟ میری بھی کچھ خواہشیں ہیں۔ میں اپنے اکلوتے بیٹے کا گھر بستے دیکھنا چاہتی ہوں۔ لوگ کیا کہیں گے؟ شاہ خاندان کا اکلوتا وارث شادی سے بھاگتا ہے۔ ارسلان کرسی سے یوں اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے اسے کسی نے گرم انگاروں پر بٹھا دیا ہو۔ اس کی مٹھیوں بھیچی ہوئی تھیں۔ لوگوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں امی۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور اپنے پیچھے ایک بوجھل، خاموشی اور اپنی ماں کے ٹوٹے ہوئے خواب چھوڑ گیا۔ اگلی صبح ارسلان اسی غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں اپنے دفتر پہنچا۔ رات کا بوجھ اب بھی اس کے ذہن پر سوار تھا۔ اس نے ایچ آر مینیجر کو طلب کیا اور اپنے سامنے رکھی نئی ذاتی اسسٹنٹ کی تمام درخواستوں کی فائلیں۔ ایک جھٹکے سے میز سے گرا دی۔ کوئی بھی اس قابل نہیں ہے۔ سب کو فارغ کریں۔ اس کی دھار سن کر مینیجر سہم گیا۔ وہ گرجا۔ ان سب کو میری شکل سے زیادہ میرے بینک بیلنس میں دلچسپی ہے۔ مجھے کوئی کام کرنے والی پروفیشنل لڑکی چاہیے۔ کوئی گڑیا نہیں۔ مینیجر نے ہچکچاتے ہوئے ایک آخری فائل آگے بڑھائی۔ سر، یہ امیدوار انٹرویو کے لیے باہر بیٹھی ہیں۔ ان کا نام ایمان نور ہے۔ ان کی سی وی بہت متاثر کن ہے۔ ارسلان نے بے دلی سے اسے اندر بلانے کا اشارہ کیا۔ دروازہ کھلا اور ایمان نور اندر داخل ہوئی۔ ایک لمحے کے لیے ارسلان کی نظریں اس پر ٹک گئیں۔ وہ کسی ماڈل کی طرح حسین نہیں تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر ایک عجیب سا وقار اور آنکھوں میں گہری ذہانت کی چمک تھی۔ اس نے سادہ سا لباس پہن رکھا تھا۔ لیکن اس کے چلنے اور بات کرنے کے انداز میں ایک خود اعتمادی تھی۔ ایمان نور ارسلان شاہ کے دفتر میں اسسٹنٹ کی نوکری کے انٹرویو کے لیے بیٹھی تھی۔ ارسلان نے اس کی فائل کو سرسری نظر سے دیکھا۔ پھر اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر اسے یوں دیکھا جیسے اس کا ایکسرے کر رہا ہو۔ تو مس ایمان نور آپ کیوں سمجھتی ہیں کہ آپ اس نوکری کے لیے موزوں ہیں۔ یہاں کام کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ایمان نے بغیر کسی گھبراہٹ کے نظریں ملائیں۔ سر میں نے آپ کی کمپنی کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ آپ کو ایسی اسسٹنٹ کی ضرورت ہے جو صرف آپ کے شیڈیول کو نہ سنبھالے بلکہ آپ کے کام کے دباؤ کو بھی سمجھ سکے اور میں سمجھتی ہوں کہ مجھ میں وہ قابلیت اور صبر دونوں موجود ہیں۔ اس کے لہجے کے وقار اور ٹھہراؤ نے ارسلان کو چونکا دیا۔ اس کی آنکھوں میں چھپی پریشانی کے باوجود اس کے لہجے نے ارسلان کو کچھ اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ارسلان نے چند مزید سوالات کیے۔ اسے الجھانے کی کوشش کی۔ لیکن ایمان نے ہر سوال کا جواب انتہائی منطقی اور اطمینان بخش طریقے سے دیا۔ ارسلان اس کی ذہانت سے متاثر ہو رہا تھا۔ اس نے آخری سوال پوچھا۔ اگر آپ کو رات دیر تک رکنا پڑے یا چھٹی کے دن بھی کام کرنا پڑے تو ایمان ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں ایک سایہ سا لہرایا۔ پھر اس نے مضبوطی سے کہا سر مجھے اس نوکری کی ضرورت ہے۔ اور میں ہر طرح کی محنت کے لیے تیار ہوں۔ ایسے ایک جملے میں چھپی مجبوری اور خودداری ارسلان کے دل میں کہیں اتر گئی۔ ٹھیک ہے آپ کل سے کام شروع کر سکتی ہیں۔ ارسلان نے غیر متوقع طور پر کہا۔ اس نے خود بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنی جلدی فیصلہ کر لے گا۔ ایمان کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے حیرت اور پھر تشکر کے تاثرات ابھرے۔ شکریہ سر۔ وہ کہہ کر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد بھی ارسلان اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس لڑکی میں کچھ تو خاص تھا۔ کچھ ایسا جو اس کی بناؤٹی دنیا کی چکاچوند سے بالکل مختلف تھا۔ ایمان کی خدمت، ایمانداری اور غیر معمولی ذہانت نے چند ہی ہفتوں میں ارسلان کا اعتماد جیت لیا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔ اور اس دوران ایمان نور ارسلان شاہ کے کام کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ وہ اب صرف ایک ذاتی اسسٹنٹ نہیں تھی بلکہ اس کی کاروباری سلطنت کی وہ دیوار تھی۔ جس پر وہ آنکھیں بند کر کے بھروسہ کر سکتا تھا۔ ایمان اس کے کہے بغیر اس کی ضروریات سمجھ جاتی تھی۔ اس کے غصے کے پیچھے چھپی کام کی تھکاوٹ کو بھانپ لیتی اور ہر معاملے کو اتنی خاموشی اور قابلیت سے سنبھالتی کہ ارسلان خود بھی حیران رہ جاتا۔ اس عرصے میں جہاں ایک طرف ارسلانا کا ایمان پر پیشہ ورانہ انحصار بڑھ رہا تھا۔ وہیں دوسری طرف شاہ ہاؤس میں اس پر شادی کا دباؤ ایک طوفان کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ صائمہ بیگم کی ہر سکھ کا آغاز اسی موضوع سے ہوتا اور ہر رات کا اختتام اسی خواہش پر ہوتا۔ اس کی بہن ثنا جب بھی گھر آتی باتوں باتوں میں اسے طعنے دیتی اور نئی لڑکیوں کی تصویر دکھاتی۔ یہ دباؤ اب صرف باتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک نفسیاتی جنگ بن چکا تھا۔ جس نے ارسلان کو اپنے ہی گھر میں ایک اجنبی کر دیا تھا۔ اسے گھر جانا ایک بوجھ لگنے لگا تھا۔ وہ پھر وہ دن بھی آ گیا جب برداشت کی حد ختم ہو گئی۔ اس دوپہر صائمہ بیگم نے اسے فون کیا اور ان کی آواز سسکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ارسلان اگر تم میری خوشی کی پرواہ نہیں کرتے تو کم سے کم میری صحت کا ہی خیال کر لو۔ ڈاکٹر کہتا ہے میرا بلڈ پریشر ہر وقت ہائی رہتا ہے۔ میں تمہاری فکر میں گھل گھل کر مر جاؤں گی۔ امی کے الفاظ تیر بن کر اس کے سینے میں لگے تھے۔ اس نے غور اور بے بسی کے عالم میں فون بند کر دیا۔ لیکن اس کی ماں کی سسکیاں اس کے کانوں میں گونجتی رہیں۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور اس نے اپنی ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی۔ ایمان نے دور سے یہ سب دیکھا۔ اس نے ارسلان شاہ کے چہرے پر وہ بے بسی دیکھی جو اس نے کبھی کسی میٹنگ یا ڈیل میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ ایک لمحے کے لیے اس طاقتور شخص کے اندر چھپے۔ کمزور انسان کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ آج پہلی بار ایمان کو اس پر غصہ نہ ترس آیا۔ شام ڈھل رہی تھی اور دفتر کے لوگ ایک ایک کر کے جا رہے تھے۔ ایمان بھی اپنا بیگ اٹھا کر جانے ہی والی تھی۔ جب ارسلان کی بھاری آواز نے اسے روک لیا جو معمول سے زیادہ تھکی ہوئی تھی۔ ایمان ایک منٹ رکو۔ دفتر کی بلندوبالا عمارت میں رات کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صرف ایئر کنڈیشنر کی ہلکی آواز اور باہر شہر کی روشنیاں اس خاموشی کو توڑ رہی تھیں۔ ایمان نے پلٹ کر دیکھا۔ ارسلان اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کی طرف پیٹھ کیے شیشے کی دیوار سے باہر دیکھ رہا تھا۔ آج فون پر اپنی ماں کی سسکیوں نے ارسلان کو اندر سے توڑ دیا تھا۔ ایمان میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ارسلان کی آواز میں ایک عجیب سی سنجیدگی اور تھکاوٹ تھی۔ ایمان خاموشی سے اس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ جی سر کہیں میرا خاندان خاص طور پر میری والدہ وہ مجھ سے شادی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکا۔ جیسے الفاظ اس کے حلق میں اٹک رہے ہوں۔ پھر اس نے ہمت جمع کی اور کہا، “میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” یہ الفاظ ایک بم کی طرح ایمان کے سر پر گرے۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اسے لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کی ہے۔ سر سر آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ کوئی عام شادی نہیں ہوگی۔ یہ ایک معاہدہ ہوگا۔ ایک بزنس ڈیل میں تمہیں وہ سب کچھ دوں گا جس کا تم نے کبھی خواب دیکھا ہوگا۔ دولت عزت تمہارے بہن بھائیوں کا بہترین مستقبل۔ تمہارے خاندان کے تمام کرزے سب کچھ۔ بدلے میں مجھے تمہاری زندگی کے چند سال چاہیے۔ تمہیں دنیا کے سامنے میری بیوی بن کر رہنا ہوگا۔ شاہ خاندان کی بہو کا کردار نبھانا ہوگا۔ لیکن حقیقت میں ہمارا رشتہ میاں بیوی جیسا نہیں ہوگا۔ اس نے مڑ کر ایمان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں سالوں کا چھپا درد چھلک رہا تھا۔ ایک ایسی بے بسی تھی جسے ایمان نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں میں اس دواجی زندگی کے قابل نہیں ہوں۔ یہ کہتے اس کی آواز کانپ گئی۔ یہ راز صرف میرے اور تمہارے درمیان رہے گا۔ بولو کیا تمہیں یہ سودا منظور ہے؟ ایمان کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ گھر لوٹی تو اس کا دماغ ماؤف تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے کمرے کے بستر پر بیٹھی تھی۔ لیکن اس کا وجود اب بھی ارسلان شاہ کے دفتر میں قید تھا۔ ارسلان کے الفاظ، اس کی آنکھوں کا درد، اس کی پیشکش، سب کچھ اس کے ذہن میں ایک بھنور کی طرح گھوم رہا تھا۔ یہ کیسی پیشکش تھی؟ ایک زندگی کے بدلے دوسری زندگی کا سودا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ پیشکش قبول کرنے کا مطلب اپنی خواہشات کو زندہ درگور کرنا ہے۔ کیا وہ کبھی محبت کا وہ احساس نہیں جان پائے گی جس کے خواب وہ بچپن سے دیکھتی آئی تھی۔ اس نے اپنی ماں کو کھانستے ہوئے سنا اور دوائی لے کر ان کے کمرے میں چلی گئی۔ ماں جی آپ کی دوا۔ اس کی ماں نے کمزور ہاتھوں سے گلاس پکڑا اور تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ جیتی رہو بیٹی۔ تم ہی میرا سہارا ہو۔ ماں کے الفاظ ایمان کے دل میں تیر کی طرح لگے۔ وہ ساری رات جاگتی رہی۔
اپنے دل و دماغ سے لڑتی رہی۔ اس کا دل کہہ رہا تھا یہ غلط ہے۔ یہ خودکشی کے مترادف ہے۔ جبکہ اس کا دماغ اسے خاندان کی مجبوریاں اور ارسلان کی

پیشکش کے فوائد گنوا رہا تھا۔ اگلے دن اس کی ماں کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ وہ انہیں لے کر ہسپتال بھاگی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کہا کہ انہیں فوری طور پر دل کے آپریشن کی ضرورت ہے جس پر لاکھوں کا خرچ آئے گا۔ یہ سن کر ایمان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ لاکھوں روپے وہ یہ رقم کہاں سے لاتی؟ اس نے اپنے بھائی کو فون کیا۔ اس کی آواز میں بھی بے بسی تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایمان نے اپنا فیصلہ کر لیا۔ اس کے آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ اس کے سامنے اس کی ماں کی زندگی اور اس کے اپنے خواب تھے۔ اور ایک ماں کی زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑے ہو کر ارسلان کو فون کیا۔ فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور ایمان کا دل ڈوب رہا تھا۔ ہیلو۔ دوسری طرف ارسلان کی سنجیدہ آواز آئی۔ ایمان نے گہری سانس لی۔ اپنی آواز کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی۔ مجھے مجھے آپ کی پیشکش قبول ہے۔ اس کی آواز ایک سسکی میں ڈوب گئی۔ فون کی دوسری طرف ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ پھر ارسلان کی صرف اتنی آواز آئی۔ میں تمہیں لینے آ رہا ہوں۔ فون بند ہوتے ہی ایمان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ وہ ہسپتال کی بیروںک کوریڈور میں دیوار سے ٹیک لگا کر وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کا دل، اس کا دماغ سب کچھ سُن ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سودا کر لیا تھا۔ اپنی روح بیچ کر اپنی ماں کی سانسیں خرید لی تھی۔ کچھ دیر بعد ارسلان شاہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اٹھو۔ اس کی آواز میں حکم تو تھا لیکن تلخی نہیں تھی۔ ایمان نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ارسلان نے ہسپتال کے معاملات نپٹائے اور ایمان کے گھر والوں کو تسلی دی کہ کمپنی علاج کے سارے اخراجات اٹھا رہی ہے۔ اس رات اس نے اپنی والدہ کے کمرے میں جا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ امی میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔ صائمہ بیگم نے چونک کر اسے دیکھا۔ جی بیٹا ارسلان نے گہرا سانس لیا۔ میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صائمہ بیگم کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ سچ کون ہے وہ لڑکی؟ وہ میری اسسٹنٹ ہے۔ ایمان نور ایک بہت اچھی اور سمجھدار لڑکی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کل میرے ساتھ اس کے گھر چلیں۔ اس کا رشتہ مانگیں۔ بیٹے کے منہ سے اتنی نرمی اور عزت سے یہ بات سن کر صائمہ بیگم کا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ اگلے دن وہ ایمان کے گھر گئے اور بقایا طور پر اس کا رشتہ مانگا۔ یہ سب اتنی تیزی سے لیکن باوقار طریقے سے ہوا کہ کسی کو کچھ زیادہ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ شادی کی تقریب شہر کی سب سے شاندار اور یادگار تقریب تھی۔ اس میں ملک کے کونے کونے سے بڑے بڑے کاروباری، سیاستدان اور شوبیز کے ستارے شریک تھے۔ ہر طرف روشنی اور پھولوں کی بہار تھی۔ مہمانوں کے قہقہے اور موسیقی کی دھنیں ماحول میں رس گھول رہی تھیں۔ صائمہ بیگم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ وہ ہر آنے والے مہمان کو اپنی چاند سی بہو سے ملوا رہی تھیں۔ ثنا بھی اپنے بھائی کی شادی پر نہال تھی۔ وہ ایمان کے قریب آئی۔ بھابی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ بھائی کی پسند کتنی اچھی ہے۔ ایمان نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔ شکریہ۔ لیکن جن دو لوگوں کے لیے یہ محفل سجائی گئی تھی، وہ دونوں تو ایک خوبصورت مجسمے کی طرح اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ ایمان نے ڈیزائنر کا بھاری سرخ جوڑا پہن رکھا تھا۔ اور بلا شبہ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں خالی تھیں۔ ارسلان سفید شیروانی میں کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ یوں جڑی تھی جیسے کسی نے جبراً چپکا دی ہو۔ وہ تصویر میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر مسکراتے رہے لیکن ان کی انگلیاں ایک دوسرے کے لمس سے نا آشنا تھیں۔ ان کی آنکھیں ایک دوسرے سے نظریں چرانے رہی تھیں۔ ایمان کو لگا جیسے وہ اپنی زندگی کا نہیں اپنی خواہشات کا جنازہ پڑھ رہی ہے۔ اس ہجوم میں وہ بے انتہا تنہا تھی۔ رات کے آخری پہر جب وہ شاہ ہاؤس پہنچے تو ارسلان ایمان کو اس کے کمرے تک چھوڑنے آیا۔ کمرہ سفید اور سرخ گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا۔ بھینی بھینی خوشبو ہوا میں رچی تھی اور بستر پر پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ ماحول میں ہر وہ چیز موجود تھی جو کسی بھی نوبیاہتا جوڑے کی پہلی رات کو خاص بناتی ہے۔ سوائے محبت اور جذبات کے۔ یہ تمہارا کمرہ ہے۔ ارسلان نے بہت نرمی سے کہا تو اس کی آواز میں ایک عجیب سی تھکاوٹ تھی۔ میں برابر والے کمرے میں ہوں۔ اگر تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو پلیز جھجکنا مت۔ اس کا لہجہ حکم نہیں درخواست جیسا تھا۔ وہ جانے کے لیے مڑا۔ ایمان جو اب تک بت بنی کھڑی تھی اس نے ہمت کر کے اسے پکارا۔ ارسلان وہ رکا اور پلٹ کر اسے دیکھا۔ ایمان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جو اس نے بڑی مشکل سے روکے ہوئے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس نے صرف اتنا کہا شکریہ۔ یہ لفظ کئی مطلب لیے ہوئے تھا۔ شکریہ اس کی ماں کی زندگی بچانے کا۔ شکریہ اس کے خاندان کو سہارا دینے کا۔ اور شاید اس بات کا بھی شکریہ کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کر رہا تھا۔ ارسلان نے جواب میں صرف سر ہلایا۔ کچھ کہا نہیں اور خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ دروازہ بند ہونے کی آواز ایمان کے دل پر ہتھوڑے کی طرح لگی۔ وہ ان پھولوں سے سجے عالیشان کمرے میں اکیلی بیٹھی روتی رہی۔ اپنی قسمت پر، اپنے ادھورے خوابوں پر اور ایک ایسی شادی پر جس کی پہلی رات ہی جدائی کی رات تھی۔ جب آنسو خوشک ہو گئے تو وہ اٹھی اپنے بھاری وجود کو گھسیٹتے ہوئے واش روم تک لے گئی اور اس مہنگے اور اسی جوڑے کو اپنے جسم سے نوچ کر پھینک دیا۔ جیسے وہ کوئی قید ہو جس سے وہ آزاد ہونا چاہتی ہو۔ شاور کے ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑے ہو کر بھی اسے سکون نہ ملا۔ اس کا جسم بھیگ رہا تھا لیکن اس کی روح کی آنکھ ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی۔ شاور لینے کے بعد ایمان بستر پر آ کر بیٹھی۔ بہت دیر تک نڈھال سوچوں میں گھوم رہی۔ نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو صبح کی نرم روشنی کھڑکیوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اسے لگا جیسے یہ سب ایک برا خواب تھا۔ لیکن پھر کمرے میں پھیلی پھولوں کی باسی مہک اور بستر کی سلوٹیں اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔ وہ ابھی بستر پر ہی تھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اس نے گھبرا کر خود کو ٹھیک کیا اور دوپٹہ سر پر لے لیا۔ دروازے سے صائمہ بیگم مسکراتی ہوئی داخل ہوئیں۔ میری بچی ابھی تک سو رہی ہو۔ صائمہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ابھی تمہارا گھر ہے۔ جب دل چاہے اٹھو جو دل چاہے کرو۔ بس میں ارسلان کا خیال رکھنا۔ وہ باہر سے جتنا بھی سخت ہے۔ اندر سے اتنا ہی نرم ہے۔ جلدی سے تیار ہو کر ناشتے پر آ جاؤ۔ ہم سب تم لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں۔ ایمان تیار ہو کر نیچے ناشتے کی میز پر پہنچی تو ناشتے کی میز پر ارسلان پہلے ہی سے موجود تھا۔ اخبار میں نظریں جمائی۔ ایمان نے دھیمے سے اسے سلام کیا۔ تو اس نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔ صائمہ بیگم کے آتے ہی ماحول بدل گیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو توجہ دے رہے تھے۔ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ بالکل ایک نئی نوبیلی محبت کرنے والی جوڑی کی طرح ارسلان نے خود سلائس پر جیم لگا کر اس کی پلیٹ میں رکھا۔ تمہاری پسند کا سٹرابیری جیم اس نے مسکرا کر کہا۔ ایمان حیران رہ گئی کہ اسے یہ کیسے معلوم تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ ایک بار دفتر میں اس نے اپنے ساتھی سے اس کا ذکر کیا تھا۔ ارسلان شاہ کی یادداشت اور مشاہدہ بلا کا تھا۔ ایمان نے بھی فوراً اپنا کردار نبھایا۔ شکریہ۔ آپ کو میری پسند کا کتنا خیال ہے؟ اس نے ایسی محبت بھری نظروں سے ارسلان کو دیکھا کہ ایک لمحے کے لیے ارسلان خود بھی گڑبڑا گیا۔ اس کی انگلیوں کا لمس جب پلیٹ پر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکرایا۔ یہ سب اتنا حقیقی لگ رہا تھا کہ وہ خود بھی اس دھوکے میں آنے لگے تھے۔ ناشتے کے بعد جب صائمہ بیگم وہاں سے چلی گئی تو ارسلان کا رویہ فوراً بدل گیا۔ وہ سنجیدگی سے ایمان کی طرف متوجہ ہوا۔ میری ماں کے سامنے ہمیں اس طرح رہنا ہوگا۔ ایک خوش اور محبت کرنے والے جوڑے کی طرح کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے جس سے انہیں شک ہو۔ ایمان نے سکون سے اسے دیکھا۔ آپ فکر نہ کریں مسٹر ارسلان شاہ میں نے یہ سودا کیا ہے اور میں اسے نبھانا جانتی ہوں۔ اس کے لہجے کی خودداری نے ارسلان کو ایک بار پھر متاثر کیا۔ اگلی رات پچھلی رات سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ دونوں اپنے اپنے کمروں میں قید تھے۔ ایمان کے کمرے اور ارسلان کے کمرے کے درمیان ایک اندرونی دروازہ تھا۔ جو اس بڑے سے سویٹ کو آپس میں جوڑتا تھا۔ لیکن وہ دروازہ ان کے درمیان کھڑی دیوار کی طرح ہی بند تھا۔ ایمان کوئی کتاب پڑھ رہی تھی اور ارسلان اپنی فائلوں میں گھوم تھا۔ تبھی رات کے سکوت میں ایمان کے کمرے کے مرکزی دروازے پر دستک ہوئی۔ ایمان کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔ ارسلان کون ہے اس وقت؟ صائمہ بیگم کی محبت بھری آواز آئی۔ بیٹا دروازہ کھولو۔ یہ آواز سن کر ایمان کے حواس خطا ہو گئے۔ اسی لمحے اس کے اور ارسلان کے کمرے کا درمیانی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ارسلان اندر داخل ہوا۔ اس کی آنکھوں میں شدید پریشانی تھی۔ امی جلدی کرو۔ اس نے سرگوشی میں کہا۔ ایمان نے کانپتے ہاتھوں سے کتاب ایک طرف رکھی۔ وہ دونوں بجلی کی سی تیزی سے ایک ہی بستر پر لیٹے اور اوپر سے کمبل اوڑھ لیا۔ جلد بازی اور گھبراہٹ میں انہیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ کس طرح ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ ایمان کا چہرہ ارسلان کے سینے سے ٹکرا رہا تھا اور ارسلان کا ایک بازو بے خیالی میں اس کی کمر کے گرد تھا۔ صائمہ بیگم نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایمان نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا، “جی امی آ جائیے۔” دروازہ کھلا ہے۔ صائمہ بیگم ہاتھ میں زعفران ملے دودھ کے دو گلاس لیے اندر آئیں۔ انہیں یوں ایک ساتھ دیکھ کر ان کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہ ہماری خاندانی رسم ہے۔ میں خود اپنے ہاتھ سے بچوں کو دودھ پلاتی ہوں۔ انہوں نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ ڈھیروں دعائیں دی اور چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد بھی کئی لمحے وہ دونوں سانس روکے ویسے ہی لیٹے رہے۔ اس کے شوہر کے وجود کی تپش صرف کمبل کی حدت نہیں تھی۔ ایک ایسی آگ تھی جو اس کے اپنے خون میں اتر کر اسے پگھلا رہی تھی۔ اسے ارسلان کے دل کی دھڑکن اپنے کانوں میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ ارسلان کی بے ترتیب سانسوں کی گرمی جب اس کے بالوں سے ٹکرائی تو ایمان کے پورے بدن میں ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ یہ احساس اتنا شدید تھا کہ اس کے گال اور کان کی لوں دہکنے لگی تھی۔ وہ گرم ہو رہی تھی۔ ایک ایسی آنچ میں جل رہی تھی جو تکلیف دے نہیں بلکہ نشیلی تھی۔ آخر کار ارسلان نے خود کو ایک مقناطیسی سی گرفت سے آزاد کرایا۔ وہ دھیرے سے پیچھے ہٹا اور بستر سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ شبیر ایمان اس کی آواز میں ایک عجیب سی کھردراہٹ اور گہرائی تھی۔ اور وہ جواب کا انتظار کیے بغیر اندرونی دروازے سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اپنے پیچھے ایک ایسی عورت کو چھوڑ کر جو آج رات پہلی بار اپنے وجود کے نئے معنی سے آشنا ہوئی تھی۔ اس رات کے بعد آہستہ آہستہ ان کے فاصلے کم ہونے لگے۔ دنیا کے لیے وہ ایک آئیڈیل جوڑا تھا۔ شاہ ہاؤس کی تقریبات میں ارسلان کا ہاتھ تھامے چلتی ایمان کو دیکھ کر سب رشک کرتے تھے۔ لیکن بند دروازوں کے پیچھے ان کی دنیا بالکل مختلف تھی۔ رات کو کافی پیتے ہوئے دن بھر کی باتیں کرنا اب ان کا معمول بن گیا تھا۔ ارسلان اپنی کاروباری الجھنیں اسے بتاتا اور ایمان اپنے گھر کے چھوٹے چھوٹے قصے ان باتوں نے ان کے درمیان کی اجنبیت کو دوستی کی گرم چادر سے ڈھانپ دیا تھا۔ ارسلان کو ایمان کی سادگی، اس کی سمجھداری اور اس کے چہرے پر ہر وقت رہنے والی معصوم سی مسکراہٹ اچھی لگنے لگی تھی۔ اسے احساس ہوتا تھا کہ ایمان کی موجودگی اس کے اندر کے خالی پن کو کسی حد تک بھر دیتی ہے۔ وہیں دوسری طرف ایمان کو بھی ارسلان کے سخت اور بے رحم خول کے پیچھے چھپا ایک حساس خیال رکھنے والا اور تنہا انسان نظر آنے لگا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا دکھ بہت گہرا ہے۔ اتنا گہرا کہ اس نے خود کو دنیا سے الگ کر لیا۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ کاش وہ اس کے درد کو چھو سکتی۔ اسے کم کر سکتی۔ لیکن دوستی کی یہ حدیں کہاں ختم ہوتی تھی اور ایک بیوی کے حقوق کہاں سے شروع ہوتے تھے یہ وہ نہیں جانتی تھی۔ اس کے رشتے کی کوئی واضح لکیر نہیں تھی۔ وہ بس ایک معاہدے کے دھاگے سے بندھی دو اجنبی تھے جو اب ایک دوسرے کو جاننے لگے تھے۔ ایمان اب شاہ ہاؤس کی مکین تھی۔ اس کی ہر خواہش ہر ضرورت پلک جھپکتے پوری ہوتی۔ دنیا کی ہر آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ قیمتی لباس، مہنگی گاڑیاں، نوکر، چاکر سب کچھ تھا اس کے پاس۔ سوائے ایک ساتھی کے لمس کے، ایک شوہر کی قربت کے۔ ایک جب ارسلان اپنے کمرے میں جا چکا تو ایمان اپنے وسیع عریس خوبصورت سے سجے بستر پر تنہا لیٹی تھی۔ ریشمی چادر کی ٹھنڈک اس کے وجود کو چھو رہی تھی۔ لیکن اس کے اندر ایک آگ دہک رہی تھی۔ خواہشات کی ارمانوں کی۔ اس کا دل شدت سے چاہا کہ اس بڑے سے خالی بستر پر ارسلان اس کے پاس ہو۔ اس کا ہاتھ تھامے۔ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرے۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر اپنی نظروں کے سامنے کیا۔ نازک لمبی انگلیاں جن پر مہندی کا رنگ ابھی بھی ہلکا سا باقی تھا۔ اس نے سوچا کیا یہ ہاتھ کبھی کسی کی محبت بھری مضبوط گرفت محسوس نہیں کریں گے؟ کیا ان انگلیوں کے پوروں کو کوئی اپنے لبوں سے نہیں چھوئے گا؟ اس کے اندر ایک عورت کی فطری خواہشات، انگڑائیاں لے رہی تھیں اور یہ احساس اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے یہ سودا اپنی مرضی سے کیا تھا۔ اپنے خاندان کے لیے قربانی دی تھی۔ لیکن دل کے معاملات میں منطق کہاں چلتی ہے؟ اس کا جسم اور روح ایک ساتھی کی پیاسے تھے۔ اور یہ پیاس ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے کروٹ بدلی اور اپنے آنسوؤں کو تکیے میں جذب کر لیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کی رات اسی طرح تنہائی اور ادھورے پن کے احساس میں گزرے گی۔ کچھ دن اسی طرح سے گزرے ایک رات ایمان اپنے کمرے میں کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی جب ملازمہ گھبرائی ہوئی اس کے پاس آئی۔ بی بی جی صاحب کی طبیعت بہت خراب لگ رہی ہے۔ وہ دوپہر سے ہی اپنے کمرے سے باہر نہیں آئے۔ ایمان کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگتی ہوئی ارسلان کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ کھلا تھا اور وہ اندر داخل ہوئی تو دیکھا ارسلان بستر پر لیٹا تھا اور بری طرح سے کانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ تیز بخار سے تتما رہا تھا۔ ایمان نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ جلنے لگا۔ اسے شدید بخار تھا۔ ایمان نے فوراً ملازمہ کو ٹھنڈے پانی کا پیالہ اور پٹیاں لانے کو کہا۔ وہ ساری رات کسی ماں کی طرح اس کے پاس بیٹھی رہی۔ اس کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھتی رہی۔ اس کے ہاتھ پاؤں سہلاتی رہی۔ ارسلان بخار کی ہذیانگی میں کبھی کبھی بڑبڑاتا اور کبھی بے چینی سے کروٹیں بدلتا۔ ایمان خاموشی سے اس کی تیمارداری کرتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ رات کے آخری پہر بخار کی بے خودی میں ارسلان نے اچانک ایمان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی گرفت کمزور تھی۔ لیکن اس میں ایک التجا تھی۔ اس نے ایمان کا ہاتھ کھینچ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ مت جاؤ۔ وہ کسی بچے کی طرح بڑبڑایا۔ ایمان کا پورا وجود ساکت ہو گیا۔ ارسلان کے تپتے ہوئے جسم کی گرمی اور اس کے دل کی دھڑکن وہ اپنے ہاتھ پر صاف محسوس کر سکتی تھی۔ اسے ایک لمحے میں ایمان کو لگا جیسے وقت رک گیا ہے۔ یہ وہی ہاتھ تھا جس کے لمس کے لیے وہ راتوں کو ترستی تھی اور آج وہ خود اس کے ہاتھ کو تھامے ہوئے تھا۔ وہ وہیں بیٹھی رہی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیے ہوئے۔ ارسلان کی کمزور بے بس وجود کو دیکھ کر ایمان کو اس پر بے پناہ محبت اور ترس محسوس ہوا۔ یہ وہ طاقتور بے رحم اور سلطنت شاہ نہیں تھا جس سے دنیا ڈرتی تھی۔ ایک انتہائی تنہا بیمار شخص تھا جسے اس وقت کسی سہارے کی ضرورت تھی۔ اس رات اس بخار میں لپٹی قربت نے ایمان کے دل میں ارسلان کی محبت کو ہمیشہ کے لیے نقش کر دیا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کا رشتہ اب صرف ایک معاہدہ نہیں رہا۔ یہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ صبح کی پہلی کرن جب کھڑکی سے چھن کر ارسلان کے چہرے پر پڑی تو اس نے آنکھیں کھولیں۔ بخار ٹوٹ چکا تھا لیکن جسم میں اب بھی ہلکی سی ناکہت تھی۔ اس نے نظر گھمائی تو ایمان کو کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ اس کا سر کرسی کی پشت سے ٹکا ہوا تھا اور وہ اسی حالت میں سو رہی تھی۔ اس کا ایک ہاتھ اب بھی ارسلان کے ہاتھ میں تھا۔ ارسلان نے دھیرے سے اپنا ہاتھ چھڑائے بغیر اسے دیکھا۔ سوتے ہوئے اس کا چہرہ کتنا معصوم لگ رہا تھا۔ بکھری ہوئی لٹیں اس کے گالوں پر آ رہی تھیں۔ ارسلان کو یاد آیا کہ یہ لڑکی پوری رات اس کی وجہ سے جاگتی رہی ہے۔ ایک انجانا سا احساس اس کے دل میں پیدا ہوا۔ شکر گزاری اور اپنائیت کا ایک ایسا جذبہ جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اس نے بہت آہستگی سے اس کی انگلیوں پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ ایمان کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے ارسلان کو جاگتے دیکھ جلدی سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ شکر ہے بخار اتر گیا۔ اس کی آواز میں فکر اور راحت کا ملاجلتا تاثر تھا۔ ارسلان کچھ کہ نہ سکا۔ بس تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے ایک رات نے ان کے درمیان کی ہر دیوار گرا دی۔ وہ اب صرف دوست نہیں تھے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ساتھی بن گئے تھے۔ جن کے درمیان الفاظ سے زیادہ خاموشیاں بات کرتی تھیں۔ اس واقع کے بعد ارسلان کا رویہ ایمان کے ساتھ اور بھی نرم ہو گیا۔ وہ اب اس کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگا تھا۔ ایک دن اسے اپنی کمپنی کی ایک بہت بڑی کامیابی پر منعقد کی گئی پارٹی میں جانا تھا۔ وہاں تمام مہمان جوڑوں کی صورت میں مدعو تھے۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے ایمان سے پوچھا۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گی؟ ایمان نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تو اسے ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ پارٹی میں پہنچ کر ایمان کی خوبصورتی اور وقار سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ارسلان اسے اپنے بزنس پارٹنر سے ملواتے ہوئے ایک ناقابل بیان فخر محسوس کر رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت پرسکون اور خوش لگ رہے تھے۔ اسی دوران کسی نے ان سے ڈانس فلور پر آنے کی درخواست کی۔ ارسلان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ اس طرح کی چیزوں کا عادی نہیں تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ انکار کرتا۔ ایمان نے بہت نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔ اس کے لمس میں ایک یقین دہانی ایک خاموش درخواست ارسلان اس کی آنکھوں میں دیکھ کر انکار نہ کر سکا۔ جیسے ہی ارسلان نے ایمان کو اپنی باہوں میں لیا اور اس کی کمر پر ہاتھ رکھا تو اسے لگا جیسے اس کے وجود میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی ہو۔ ایمان نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرا اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ موسیقی کی مدھر سی دھن ماحول میں پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن ان دونوں کے لیے دنیا رک گئی تھی۔ وہ لوگ تو ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ جہاں لفظوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ارسلان نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی عورت کو اتنے قریب سے چھوا تھا۔ ایمان کی سانسوں کی مہک اس کے بالوں سے آتی بھینی خوشبو اور اس کے جسم کی گرمی ارسلان کے حواس پر چھا رہی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ ایمان اس کی باہوں میں کتنی نجاست سے سما گئی ہے۔ جیسے یہ جگہ بنی ہی اس کے لیے ہو۔ ایمان کا دل بھی زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ ارسلان کی مضبوط گرفت اسے تحفظ کا احساس دلا رہی تھی۔ یہ ان کے جسموں کا نہیں روحوں کا رقص تھا۔ جہاں ہر قدم ہر گردش ایک ان کہی بات کہہ رہی تھی۔ وہ دنیا اور مافیا سے بے خبر بغیر کچھ کہے صرف ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے۔ یہ چند لمحے ان کے معاہدے کے رشتے پر محبت کی پہلی مہر ثبت کر رہے تھے۔ اس رات جب وہ پارٹی سے واپس آ رہے تھے تو گاڑی میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کہ اچانک موسم خراب ہو گیا۔ تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور آسمان پر بادل منڈلائے۔ جب وہ گھر پہنچے اور جیسے ہی وہ گاڑی سے اترے تو بارش کی پہلی بوند ایمان کے چہرے پر گری۔ وہ جو پہلی اس شام کے شہر میں کھوئی ہوئی تھی بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اپنے بازو پھیلا کر بارش میں بھیگنے لگی۔ اور ارسلان اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ بھیگے بال، بارش کے قطروں سے سجا چہرہ اور اس کی بے ساختہ ہنسی۔ ایمان اس وقت اسے کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ایمان نے آگے بڑھ کر ارسلان کا ہاتھ تھاما اور اسے بھی کھینچ کر بارش میں لے آئی۔ ارسلان جو ہمیشہ خود کو بہت قابو میں رکھتا تھا۔ آج ایمان کی اس حرکت پر خود کو روک نہ سکا۔ وہ بھی اس کے ساتھ اس لمحے کو جینے لگا۔ اچانک آسمان پر بجلی زور سے چمکی اور بادل کی گرج سنائی دی تو ایمان ڈر کر ایکدم سے ارسلان سے لپٹ گئی۔ ارسلان نے بے اختیار اسے اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔ بارش کی تیز بوندیں ان دونوں کو بھیگو رہی تھیں۔ لیکن انہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ ایمان کا بھیگا ہوا وجود ارسلان کے جسم سے لگا ہوا تھا۔ اس کے گیلے کپڑے اس کے جسم کے نشیب و فراز کو واضح کر رہے تھے۔ اور ارسلان اپنے اندر ایک آگ بھڑکتی ہوئی محسوس کر رہا تھا۔ ایک ایسی کشش جسے وہ اب تک دباتا آیا تھا۔ اس نے ایمان کا بھیگا ہوا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما تو ایمان نے لرزتی پلکیں سے اسے دیکھا۔ اس کے لبوں کے درمیان چند انچ کا فاصلہ باقی تھا۔ ارسلان کی نظریں اس کے کانپتے ہوئے ہونٹوں پر جمی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف جھکا اور ان کی گرم سانسیں بارش کی ٹھنڈک میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ وہ اسے چومنے ہی والا تھا۔ اس کی زندگی کا پہلا بوسہ لینے ہی والا تھا کہ حقیقت کی ایک اور بجلی ان کے ذہن پر کوندھی اور دونوں کو اپنا معاہدہ اور اپنی حقیقت یاد آ گئی۔ وہ جھٹکے سے ایک دوسرے سے پیچھے ہٹ گئے۔ ان کی آنکھوں میں ایک طوفان تھا خواہش کا، تڑپ کا اور بے بسی کا۔ وہ بغیر کچھ کہے بھیگتے ہوئے اندر کی طرف بھاگ گئے۔ اپنے پیچھے بارش میں ایک ادھورا لمحہ اور دلوں میں ایک سلگتی ہوئی پیاس چھوڑ کر۔ اس رات کے بعد ان کے درمیان کی خاموشی مزید گہری اور معنی خیز ہو گئی تھی۔ یہ ایک ایسا انکا عہد بن گیا تھا جسے وہ دونوں محسوس تو کرتے تھے مگر زبان پر لانے سے قاصر تھے۔ کبھی کبھی جب رات ہو جاتی اور گھر کے درو دیوار پر سکوت تاری ہو جاتا۔ تو ایمان کے جذبات اس کے صبر پر غالب آتے۔ یہ انہی راتوں میں سے ایک رات تھی۔ وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ ادم روشنی میں خاموشی سے ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کر رہے تھے۔ ارسلان کسی کتاب میں کھویا ہوا تھا اور ایمان اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کا سکون، اس کی قربت کی تپش ایمان کے اندر ایک طوفان اٹھا رہی تھی۔ اسے رہا نہ گیا۔ وہ اٹھی۔ اس کی چال میں ایک بے اختیاری سی کشش تھی۔ وہ ارسلان کے پاس آئی۔ جو اسے سوالیا نظروں سے دیکھ رہا تھا اور بغیر کچھ کہے اس کی گود میں بیٹھ گئی۔ ارسلان نے کتاب ایک طرف رکھ دی۔ اس کے چہرے پر حیرانی بھی تھی اور ایک ہلکی سی اداس سی مسکراہٹ بھی۔ جسے وہ اس لمحے کا منتظر بھی تھا اور اس سے خوفزدہ بھی۔ اس کے حلق سے صرف ایک گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔ ایمان ایمان نے اپنی انگلی اپنے لبوں پر رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر اپنا چہرہ اس کی گردن کے گڑھے میں چھپا لیا۔ اس کی سانسیں ارسلان کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ ایمان نے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیا۔ مجھے چومیں ارسلان۔ یہ حکم نہیں تھا۔ ایک عورت کی التجا تھی جو اپنی تڑپ کے ہاتھوں مجبور تھی۔ مجھے محسوس کرنا ہے کہ میں زندہ ہوں۔ مجھے محسوس کروائیں کہ میں آپ کی ہوں۔ ارسلان ہلکے سے ہنسا۔ اس کی ہنسی میں خوشی سے زیادہ بے بسی تھی۔ اس نے بہت نرمی سے ایمان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ ایمان ضد نہ کرو۔ اس کی آواز میں ایک گہری شفقت تھی۔ ایک تو تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو اور اوپر سے اتنی ضد کی۔ پھر اس کی مسکراہٹ مدہم پڑ گئی۔ اس کی آنکھوں میں وہی درد ابھر آیا جسے ایمان پہچانتی تھی۔ کاش کاش میں تمہیں وہ سکون دے پاتا جس کی تم حقدار ہو۔ اس بار ایمان کے دل کو اس کے درد سے زیادہ اس کی بے بسی پر غصہ آیا۔ اس کا یوں ہر بار محبت سے اسے رد کر دینا۔ جیسے اس نے اپنی اس حالت کو قسمت مان لیا ہو۔ ایمان کو منظور نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ اس کی گود سے اٹھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں اس بار ایک سرد عزم تھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔ بس ایک نظر ارسلان پر ڈالی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ اس کی خاموشی ارسلان کو کسی طوفان کی پیشخیمی کی طرح لگی۔ اس رات ایمان سوئی نہیں۔ اس نے جنگ کا فیصلہ کر لیا۔ یہ جنگ ارسلان کی بے بسی کے خلاف تھی۔ اس کی قسمت کے لکھے کے خلاف تھی اور اپنی ادھوری محبت کے خلاف تھی۔ اس نے لیپ ٹاپ کھولا اور اس کی اس کیفیت پر تحقیق شروع کر دی۔ وہ ہر آرٹیکل، ہر میڈیکل جرنل، ہر مریض کے تجربے کو پڑھ رہی تھی اور اس کی آنکھوں کے سامنے امید کے نئے دروازے کھل رہے تھے۔ اگلی شام وہ پورے عزم کے ساتھ ارسلان کے کمرے میں داخل ہوئی۔ ارسلان اسے دیکھ کر چونکا۔ آج ایمان کے چہرے پر وہ بے چینی نہیں بلکہ ایک فاتح جیسی شان تھی۔ ارسلان کل رات آپ نے کہا تھا کاش آپ مجھے وہ سکون دے پاتے۔ میں نے اس کاش کو حقیقت میں بدلنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اس کے لہجے میں ایک ایسا یقین تھا کہ ارسلان دنگ رہ گیا۔ ایمان یہ میرا مسئلہ ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن ایمان نے اسے روک دیا۔ یہ تب تک آپ کا مسئلہ تھا۔ جب تک آپ نے اسے اپنی قسمت مان لیا تھا۔ لیکن میں نے آپ سے ہار ماننا نہیں سیکھا۔ اسی لیے اب یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ اس نے اپنے ٹیبلٹ کی سکرین ارسلان کے سامنے کی جس پر دنیا کے بہترین ڈاکٹروں کے نام اور علاج کی تفصیلات تھی۔ میں آپ سے جنگ کرنے کو نہیں کہہ رہی ارسلان۔ میں آپ کو اپنی محبت پر بھروسہ کرنے کو کہہ رہی ہوں۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولی کیا آپ تیار ہیں؟ ارسلان کی نظریں کبھی ایمان کے پر اعتماد چہرے کو دیکھتی تو کبھی اس سکرین کو جس میں اس کی کھوئی ہوئی زندگی کی امید چھپی تھی۔ آخر کار ارسلان کے اندر کا خوف ایمان کی محبت اور ثابت قدمی کے آگے ہار گیا۔ اس نے گہرا سانس بھرا اور سر جھکا لیا۔ جیسے کسی نے سالوں بعد اس کے کندھوں سے کوئی ناقابل برداشت بوجھ اتارنے کی پیشکش کی ہو۔ ارسلان نے تھکی ہوئی آواز میں کہا، میں تیار ہوں ایمان۔ میں تمہارے ساتھ ہر قدم اٹھانے کو تیار ہوں۔ ایمان کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔ اس نے آگے بڑھ کر ارسلان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ یہ صرف آپ کا نہیں ہمارا سفر ہے۔ ارسلان اور ہم اسے ایک ساتھ مکمل کریں گے۔ علاج کے منصوبے پر عمل شروع ہو گیا۔ دن میں ماہر نفسیات کے آن لائن سیشنز ہوتے ہیں۔ جہاں ارسلان اپنے بچپن کے ان زخموں اور خوف پر بات کرتا جنہیں اس نے کبھی زبان پر لانے کی ہمت نہیں کی تھی۔ ایمان سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتی۔ اسے یاد دلاتی کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ لیکن اصل امتحان رات کو ہوتا جب کمرے کا دروازہ بند ہوتا اور دنیا سو جاتی۔ ایمان نے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ورزشوں کی ایک فہرست بنا رکھی تھی۔ اس کے اس عمل میں خاموش ملکیت اور اٹل وعدہ تھا کہ وہ اسے اس اذیت سے نکال کر ہی دم لے گی۔ کمرے کا دروازہ بند ہوا تو جیسے دنیا کی ہر آواز ہر روشنی پیچھے رہ گئی۔ اب یہاں صرف وہ دونوں تھے اور ان کے درمیان اعتماد کا وہ نازک رشتہ شفا کا ایک نیا باغ کھل چکا تھا۔ ایمان نے اسے بستر پر آرام سے لیٹنے کو کہا۔ ارسلان کا دل دھڑک رہا تھا۔ مگر آج اس میں خواب سے زیادہ ایک انجانا سا اشتیاق تھا۔ ایمان اس کے پاس آ کر بیٹھی اور اس کی آنکھوں میں جھانکا اور سُنان آج ہم آپ کے جسم سے نہیں آپ کی روح سے بات کریں گے۔ اس کی آواز میں سرگوشی سے زیادہ ایک فسوں تھا اور اسے کہیں گے کہ وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ اس نے اپنا گرم ہاتھ ارسلان کے پیٹ کے سب سے نچلے حصے پر رکھا اور اس کے لمس کی تپش ارسلان کی جلد سے گزر کر سیدھا اس کے وجود کے مرکز تک پہنچی اور اس کے پورے جسم میں ایک میٹھی سی لہر دوڑ گئی۔ آنکھیں بند کریں اور میری آواز کو اپنے اندر اترنے دیں۔ ایمان نے کہا ہر سانس کے ساتھ اپنی پوری توجہ اپنی طاقت کے اس مرکز پر لائیں جہاں میرا ہاتھ ہے۔ وہ جگہ جہاں سے مرد کی جات شروع ہوتی ہے۔ ارسلان نے کوشش کی مگر سالوں کی بے حسی ایکدم سے ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ کچھ نہیں ہو رہا۔ اس کی آواز میں مایوسی ابھرنے لگی۔ ایمان جھکی اس کے لب ارسلان کے کان کو چھو رہے تھے۔ ہو رہا ہے ارسلان۔ اس کی گرم سانسوں نے ارسلان کے حواس پر جادو کر دیے۔ آپ کی طاقت میرا نام پکار رہی ہے۔ آپ بس اسے سن نہیں پا رہے۔ ایک بار کوشش کریں نہ میرے لیے۔ اس کی آواز میں چھپی محبت اور التجا نے ارسلان کے اندر جیسے کوئی سویا ہوا چشمہ جاری کر دیا۔ اس نے اپنی ساری کائنات اسے ایک نکتے پر مرکوز کیا۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کی گہرائیوں میں زندگی کی پہلی مدھم سی دستک ایمان اس کی آواز حیرت اور خوشی سے بھری تھی۔ یہ کیا تھا؟ ایمان کے چہرے پر وہ مسکراہٹ تھی جو کائنات فتح کرنے کے بعد آتی ہے۔ یہ آپ تھے۔ اس نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ یہ آپ کی طاقت تھی جو میرا لمس پا کر جاگ اٹھی۔ اب اسے مکمل طور پر بیدار کرنے کا وقت ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور اس کی چال میں ایک عجیب سی بے باکی تھی۔ وہ چند لمحوں بعد لوٹ آئی تو اس کے ہاتھ میں نیم گرم خوشبودار تیل کی پیالی تھی۔ کمرہ بلا شبہ کا نہیں ایک معبد گاہ بن کے لگ رہا تھا اور ایمان اس کی سب سے بڑی پجارن تھی۔ اس نے ارسلان کو پیٹ کے بل لیٹنے کا اشارہ کیا اور تیل کو اپنی ہتھیلیوں میں گرم کر کے اس کی کمر پر رکھ دیا۔ اس کے ہاتھ ارسلان کے جسم پر ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی شاعر اپنی سب سے خوبصورت غزل لکھ رہا ہو۔ اس کے ہر لمس میں محبت تھی۔ ہر حرکت میں شفقت۔ اس کے جسم کے ہر تناؤ کو ختم کر رہی تھی تاکہ اس کی روح مکمل طور پر آزاد ہو سکے۔ اب میری طرف رخ کریں۔ اس کی آواز میں اب ایک نشیلا سا حکم تھا۔ ارسلان بغیر کوئی سوال کیے پلٹ گیا۔ یہ مکمل سپردگی تھی ایک عاشق کے اپنے معشوق کے سامنے۔ وہ اپنی سب سے بڑی کمزوری اس کے سامنے بے نقاب کیے لیٹا تھا۔ ایمان نے تیل اس کی چھاتی پر لگایا۔ اس کے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کیا۔ اس کے ہاتھ نیچے بڑھے اس کی ناف سے ہوتے اس لکیر پر جو اس کی مردانگی کے محور تک جاتی تھی۔ اس کا لمس اس کی رانوں کے سنگم پر موجود اس مقدس مقام پر آ رک گیا۔ ارسلان کا سانس جیسے رک گیا۔ ایمان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ڈریں مت۔ یہ آپ کی طاقت کا گھر ہے اور آپ میں اس گھر کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دوں گی۔ اس نے گرم تیل براہ راست اس کی مردانگی کے سوئے ہوئے محور پر ڈالا۔ ارسلان کے منہ سے گہری سسکی نکلی۔ ایمان نے اپنی پوری محبت اور توجہ اپنی انگلیوں میں سمیٹ لی اور اس کے وجود سے اس کے مرکز کی مالش کرنے لگے۔ اس کا لمس اتنا گہرا اتنا مکمل تھا کہ ارسلان کو لگا جیسے اس کی انگلیاں اس کے جسم میں زندگی کا امرت انڈیل رہی ہیں۔ اس کے جادوئی لمس نے سوئی ہوئی رگوں میں تپش بھر دی۔ منجمد خون کو پگھلا کر ایک طوفان بنا دیا۔ ارسلان کو اپنے وجود کے اس حصے میں جہاں سالوں سے موت کی خاموشی تھی۔ زندگی کی واضح انگڑائی محسوس ہوئی۔ اس نے سوئے ہوئے شہزادے نے انگڑائی لے کر آنکھیں کھول دی۔ یہ محبت کے جواب میں جسم کا سر اٹھنا تھا۔ ارسلان کی بند آنکھوں سے دو گرم آنسو بہہ نکلے۔ ایمان نے جھک کر انہیں چوم لیا۔ یہ آنسو آپ کی کمزوری نہیں۔ آپ کی فتح ہے۔ ارسلان۔ اس رات اس لمس شفا کے بعد ان کے درمیان کوئی لفظ نہیں تھا۔ صرف سانسیں تھیں، ایک دوسرے کے وجود کا احساس تھا اور ایک ایسی خاموش تفہیم تھی جو ہزاروں لفظوں پر بھاری تھی۔ وہ رات انہوں نے ایک دوسرے کی باہوں میں گزاری۔ جسمانی طور پر الگ لیکن روح کے اعتبار سے ایک دوسرے میں جم یہ ان کی محبت کی نئی حقیقی صبح کا آغاز تھا۔ آنے والے ہفتوں میں ارسلان ایک نیا انسان بن کر ابھرا۔ اس کے چہرے پر اعتماد کی چمک لوٹ آئی۔ اس کی چال میں وہی پرانی شاہانہ بے باکی۔ لیکن اس کی آنکھوں میں اب ایمان کے لیے ایک ایسی گہری ناقابل بیان محبت اور پرستش تھی جو ہر نظر سے عیاں تھی۔ اس کی راتیں بلا شبہ سے زیادہ محبت کی تربیت گاہ بن چکی تھیں۔ جہاں وہ ایک دوسرے کے جسم کے بھید اور محبت کے نئے نئے طریقوں کو سیکھ رہے تھے۔ مہینوں کی محنت آخر کار رنگ لے آئی۔ اور ایک دن جب ایمان کچن میں شام کی کافی بنا رہی تھی۔ ارسلان دبے پاؤں اس کے پیچھے آیا۔ ایمان کو اس کی موجودگی کا احساس تب ہوا جب دو مضبوط بازوؤں نے اسے پیچھے سے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کا وجود ارسلان کے سنگین سینے سے جا ٹکرایا۔ اس سے پہلے کہ ایمان کچھ کہتی ارسلان کے گرم لب اس کی گردن کے نازک جلد پر ایک گیلا پرجوش بوسہ دے گئے۔ ایمان کے ہاتھ سے کافی کا مگ گرتے گرتے بچا۔ اس کے پورے جسم میں ایک میٹھی سی سنسنی دوڑ گئی۔ ارسلان اس کی آواز ایک کپکپاتی ہوئی سرگوشی تھی۔ ارسلان نے اسے اپنی طرف پلٹایا۔ اس کا ایک ہاتھ ایمان کی کمر پر تھا اور دوسرا اس کے بالوں میں۔ آج کے بعد کوئی علاج نہیں۔ کوئی ورزش نہیں ایمان۔ اس کی آواز میں گہری مردانہ خنک تھی۔ ڈاکٹر نے کہا، “میں مکمل طور پر ٹھیک ہوں۔” یہ کہتے اس نے ایمان کے کانپتے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے۔ یہ کوئی نرم بوسہ نہیں تھا۔ یہ ایک اعلان تھا۔ ایک فتح کا جشن تھا۔ ارسلان اسے شدت سے چوم رہا تھا….” اور اس کے لبوں کو اس کی روح کو جیسے پی رہا ہو۔ اس کی زبان بے باکی سے ایمان کی زبان سے الجھ گئی۔ ایک ایسا رقص شروع ہوا جس میں سالوں کی پیاس اور بے پناہ محبت شامل تھی۔ ایمان بھی اس کے بوسے کا بھرپور جواب دے رہی تھی۔ جب ان کی سانسیں اکڑنے لگیں تو وہ الگ ہو گئے۔ لیکن صرف چند لمحوں کے لیے ارسلان نے اسے دوبارہ چوما اور اس بار اس کا ہاتھ ایمان کی کمر سے پھسلتا ہوا سامنے آ گیا۔ اس نے کپڑوں کے اوپر سے ہی اپنی گرفت میں لے لیا اور ایمان کے منہ سے ایک بے اختیار سسکی نکلی۔ ارسلان کا لمس اسے پاگل کر رہا تھا۔ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ اپنی محبت کی شدت کا احساس دلا رہا تھا۔ وہ دونوں کچن میں ہی ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ آنے والی رات کے حسین خواب اپنی آنکھوں میں سجائے اور آخر وہ رات آ ہی گئی جس کا انہیں انتظار تھا۔ جس رات ان کے جسم اور روح کا وصال ہونا تھا۔ ارسلان نے پورے کمرے کو صرف موم بتیوں کی روشنی سے سجایا تھا۔ جن کا کانپتا ہوا عکس دیواروں پر رقص کر رہا تھا۔ ہوا میں ہلکی سی گلاب کی خوشبو تھی۔ ایمان جب کمرے میں داخل ہوئی تو اس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ ارسلان اس کے سامنے آیا اور اس کا ہاتھ تھاما۔ آج میں تمہیں سب کچھ دینا چاہتا ہوں۔ جس کے تم حقدار ہو ایمان۔ اس کی آواز میں جذبات کی شدت تھی۔ میری محبت، میری روح، میرا جسم آج سب تمہارا ہے۔ اس نے ایمان کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور بستر پر لا کر بہت نرمی سے لٹایا۔ وہ لمحے بہت نازک تھے۔ ان کی شروعات جھجک اور نرمی سے ہوئی۔ ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ان کی سانسیں بے ترتیب تھیں۔ اس نے بہت آہستگی سے ایمان کے کپڑے اتارے۔ اس کے جسم کی ہر آنچ کو اپنی نظروں سے پوجا۔ اپنے لبوں سے چھوا۔ اس کا پہلا لمس بہت نرم تھا۔ جیسے وہ کوئی مقدس راز دریافت کر رہا ہو۔ لیکن جیسے جیسے اس کی محبت کا سفر آگے بڑھا۔ جھجک کی جگہ جنون اور نرمی کی جگہ شدت نے لے لی۔ سالوں کا دبا ہوا لاوا پھٹ پڑا۔ ارسلان کے ہر لمس میں ہر بوسے میں ایک ایسی طاقت، ایک ایسی پیاس تھی جو ایمان کے ہوش اڑا رہی تھی۔ ان کے جسم ایک دوسرے میں ایسے جم ہو گئے جیسے وہ ہمیشہ سے ایک ہی ہوں۔ ان کی حرکت میں ایک ایسی ہم آہنگی تھی جیسے کائنات کی ہر شے رک گئی ہو اور صرف وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت کی دھن پر رقص کر رہے ہوں۔ ارسلان کو شدت لمحہ بلمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اپنی محبت کے ہر قطرے سے ایمان کو سیراب کر دینا چاہتا تھا۔ اس کا جنون اس قدر بڑھا کہ ایمان کو لگا اس کی جان نکل جائے گی۔ ارسلان اس کی آواز لذت اور شدت سے کانپ رہی تھی۔ آہستہ پلیز یہ التجا اس کی اذیت کی نہیں اس ناقابل برداشت لذت کی تھی جو ارسلان اسے دے رہا تھا۔ اس کی اسکی ارسلان کے لیے جیسے محبت کا آخری اقرار تھا۔ اس رات ان کے جسم اور روح کا وصال ہوا اور ان کی محبت کی کہانی مکمل ہوئی۔ جب صبح کی پہلی سنہری کرن نے کھڑکی کے پردوں سے چھن کر کمرے میں قدم رکھا۔ تو ایمان نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ ایک لمحے کے لیے اسے سب کچھ ایک خواب سا لگا۔ رات کا جنون، وہ شدت، وہ بے پناہ محبت جس میں وہ دونوں پگھل کر ایک ہو گئے تھے۔ پھر اسے اپنے ارد گرد ارسلان کے مضبوط بازوؤں کا محفوظ اور گرم حصار محسوس ہوا۔ اور اس کے لبوں پر ایک پرسکون سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہ خواب نہیں۔ اس کی زندگی کی سب سے خوبصورت حقیقت تھی۔ آج ان کے درمیان کوئی جھجک کوئی فاصلہ نہیں تھا۔ وہ دو وجود نہیں وہ ایک روح تھے جو محبت کی آگ میں تپ کر اور زیادہ پاکیزہ ہو چکی تھی۔ اس نے بہت آہستگی سے کروٹ بدلی تاکہ ارسلان کی نیند خراب نہ ہو۔ وہ اس کے پرسکون چہرے کو دیکھنے لگی۔ وہی چہرہ جو کل تک ایک انجانے درد اور بے بسی کی تصویر بنا رہتا تھا۔ آج اس پر بچوں جیسی معصومیت اور گہرا سکون تھا۔ ایمان نے سوچا محبت میں کتنی طاقت ہے۔ یہ مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا سکتی ہے اور ٹوٹے ہوئے انسان کو جوڑ کر مکمل کر سکتی ہے۔ اس نے بے اختیار آگے بڑھ کر اس کی پیشانی کو چھوا اور اس پر اپنے لب رکھ دیے۔ اس کے نرم لمس کی گرمی سے ارسلان نے دھیرے سے آنکھیں کھول دی۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار تھا اور ایک ایسا گہرا بے کنار سمندر تھا جس میں صرف اور صرف ایمان کا عکس تھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔ بس ایک مسکراہٹ کے ساتھ ایمان کو اپنی باہوں میں مزید قریب کھینچ لیا اور اس کا چہرہ اپنے چوڑے سینے میں چھپا لیا۔ جیسے وہ اسے دنیا کی ہر نظر سے محفوظ کر لینا چاہتا ہو۔ اس کے دل کی دھڑکن ایمان کو اپنے کانوں میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ ایک ایسی دھڑکن جو صرف اسی کے نام پر دھڑکتی تھی۔ ایمان کئی لمحوں بعد ارسلان کی آواز رات کے جنون کے بعد بہت گہری اور پرسکون تھی۔ تم نے مجھے دوبارہ جینا سکھایا ہے۔ یہ صرف الفاظ نہیں تھے۔ اس کی روح کا وہ اقرار تھا جسے آج زبان مل گئی تھی۔ ایمان نے اس کے سینے سے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ نہیں ارسلان اس کی آواز میں محبت کی نمی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کو جینا سکھایا ہے۔ آپ کے بغیر میں بھی ادھوری تھی۔ ارسلان نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ میں نے تمہیں کچھ سکھایا نہیں۔ صرف اپنی روح کا مالک بنایا ہے۔ یہ کہتے اس نے ایمان کے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے لیا۔ یہ ایک لمبا دھیرے دھیرے گہرا ہوتا ہوا بوسہ تھا۔ جس میں رات کی تھکن کا سکون اور ایک نئے مکمل رشتے کا سرور شامل تھا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے میں کھوئے رہے۔ اپنے سانسوں کی گرمی اور دل کی دھڑکن کو محسوس کرتے ہوئے۔ ان کی محبت کی کہانی جو ایک بے رحم سودے سے شروع ہوئی تھی۔ آج اپنی حقیقی اور خوبصورت تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ وقت جیسے پر لگا کر اڑنے لگا۔ ان کا ہر دن عید اور ہر رات شب وصال تھی۔ شاہ ہاؤس کی دیواریں جو پہلے اوجھل خاموشی اور ارسلان کی تنہائی کی عادی تھیں۔ اب ایمان کی ہنسی اور اس کی چوڑیوں کی کنک اور ان کی محبت بھری سرگوشیوں سے ہر وقت گونجتی رہتی تھیں۔ ارسلان اب وہ پہلا بے رحم بزنس ٹائیکون نہیں رہا۔ اس کی شخصیت میں محبت کی ایک ایسی نرمی اور ٹھہراؤ پیدا کر دیا کہ اس کے ملازمین بھی حیران تھے۔ وہ ہر لمحہ ایمان کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ اس کی ہر خوشی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ ایک شام وہ دونوں باغ میں ٹہل رہے تھے۔ چاندنی رات اور موتی کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ایمان چلتے چلتے اچانک خاموش ہو گئی۔ ارسلان جو اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا۔ اس نے خاموشی اور ہاتھ کی ہلکی سی کپکپاہٹ کو فوراً محسوس کیا۔ وہ رک گیا اور اسے اپنی طرف گھمایا۔ کیا ہوا ایمان؟ تم پریشان لگ رہے ہو۔ ایمان نے نظریں جھکا لی۔ ارسلان ہمیں ساتھ رہتے اتنے مہینے ہو گئے۔ پتہ نہیں ہمارا بچہ ہوگا بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کبھی کبھی اس مسئلے کے بعد وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔ اس کے لہجے میں ایک انجانا سا خوف تھا۔ اپنی محبت کی اس خوبصورت داستان کو نامکمل رہ جانے کا خوف۔ ارسلان نے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا اور اس کا سر اپنے سینے پر رکھا۔ میری طرف دیکھو۔ اس نے ایمان کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ایمان میں نے سالوں تک ایک ادھوری بے معنی زندگی گزاری ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ میری دنیا میں خوشی کا کوئی گزر نہیں۔ پھر تم میری زندگی میں آئی۔ تم میری خوشی ہو، میرا سکون ہو، میری منزل ہو۔ ایک بچہ ہماری محبت کا سب سے خوبصورت ثبوت ہوگا۔ لیکن ہماری محبت اس ثبوت کی محتاج نہیں۔ ہمارا عشق خود اپنی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اگر خدا نے ہمیں اولاد دی تو ہم مل کر اسے دنیا کی ہر خوشی دیں گے۔ اور اگر اس کی رضا کچھ اور ہوئی تو میں اپنی باقی کی ساری زندگی تمہیں یہ بتانے اور جتانے میں گزار دوں گا کہ تم اکیلی میرے لیے کس طرح سے کافی ہو۔ تم میری پوری کائنات ہو۔ ارسلان کے الفاظ نے اس کی آنکھوں میں موجود سچائی نے ایمان کے دل سے ہر خوف ہر وہم کو نکال باہر پھینکا۔ اس نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔ مکمل محسوس کیا۔ اور پھر کچھ مہینوں کے بعد وہ لمحہ آ ہی گیا جب ان کی محبت پر آسمان سے رحمت برسی۔ ایمان نے کانپتے ہاتھوں سے ایک چھوٹا سا خوبصورتی سے سجا ہوا ڈبہ ارسلان کو تھمایا۔ یہ کیا ہے؟ ارسلان نے مسکراتے ہوئے پوچھا، کھول کر دیکھ لیں۔ ایمان کی آواز خوشی سے کانپ رہی تھی۔ ارسلان نے ڈبہ کھولا تو اس میں ٹیشو پیپر میں لپٹی دو ننھی منی جوتیاں تھیں۔ ایک لمحے کے لیے ارسلان ساکت رہ گیا۔ اس نے جوتیاں اپنے ہاتھ میں لیں۔ اس کی ہتھیلی سے بھی چھوٹی تھیں۔ اس نے نظریں اٹھا کر ایمان کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک ناقابل یقین سوال تھا۔ تو ایمان نے ہنستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ ارسلان کے چہرے پر جو تاثرات ابھرے انہیں لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ خوشی، حیرت، شکر گزاری اور بے پناہ محبت کا ایک سیلاب تھا جو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور ایمان کو اپنی باہوں میں بھر کر ایسے اٹھا لیا جیسے وہ کوئی پنکھوں والی پری ہو۔ وہ دیوانہ وار اسے اٹھائے گھومنے لگا۔ ایمان ایمان تم سچ کہہ رہی ہو۔ میں میں باپ بننے والا ہوں۔ اس کی آواز خوشی سے بھر آ رہی تھی۔ ہاں ارسلان ہم ماں باپ بننے والے ہیں۔ یہ ہماری محبت کا ثبوت ہے۔ ایمان ہمارا اپنا ایک وجود۔ اسے باہوں سے اٹھائے اسے بالکونی میں لے آیا جہاں کبھی ایک ادھورا بوسہ رکھا تھا۔ آج وہیں وہ دونوں کھڑے تھے۔ اپنی آنکھوں میں آنے والے کل کے ان گنت حسین خواب سجائے۔ ارسلان نے اسے نیچے اتارا اور پیچھے سے اپنی باہوں کے حصار میں لے لیا۔ اس کے ہاتھ بہت نرمی اور حفاظت سے ایمان کے پیٹ پر تھے۔ یہاں سے ہماری کہانی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایمان ارسلان نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ یہاں تو صرف ایک سودا ہوا تھا۔ ہماری کہانی تو اس دن شروع ہوئی تھی جب تمہارے لمس نے میری ٹوٹی ہوئی روح کو جوڑا تھا۔ اور اب دیکھو ہماری محبت ایک نئی زندگی کو جنم دے رہی ہے۔ وہ دونوں خاموشی سے سامنے پھیلے آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ جس کی وسعتوں کی طرح ان کا مستقبل بھی روشن، حسین اور لامتناہی تھا۔ –

