
دل کی دھڑکن – رومانوی اور جذباتی اردو فونٹ سٹوری
یہ واردات پاکستانی علاقے کی ہے لیکن اس وقت کی ہے جب ابھی پاکستان کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اس واسطے میں اصل جگہ کا نام اور اس واردات سے تعلق رکھنے والے افراد کے صحیح نام نہیں لکھوں گا ۔ یہ احتیاط بہت ہی ضروری ہوتی ہے تاکہ کسی کی رسوائی نہ ہو۔ رات کے دو بج چکے تھے جب مجھ کو گھر میں گہری نیند سے جگایا گیا۔ تھانے میں ہے ایک کانٹیبل یہ اطلاع لے کر آیا تھا کہ قتل کی ایک رپورٹ آئی ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے، کانٹیبل نے کہا کہ ٹھیکیدار ہے۔ اس نے ٹھیکیدار کا نام لیا۔ یہ ایک قصبہ تھا اور اس ٹھیکیدار کو سب لوگ جانتے تھے۔ اس کو صرف ٹھیکیدار کہہ دینا کافی ہوتا تھا۔ نام لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ میں بھی اس کو جانتا تھا۔ کانٹیبل کو اتنا ہی معلوم ہو سکا تھا کہ ٹھیکیدار کی بیوی قتل ہوگئی تھی ۔ ٹھیکیدار تو قصبے کی ایک بڑی شخصیت تھا، اگر اس کی بجائے کوئی بہت ہی معمولی اور غریب آدمی آجاتا تو بھی میں اس کو نہیں ٹال سکتا تھا اس واسطے کہ تھانے میں آنے والی کسی بھی رپورٹ کو ٹالنا انگریزوں کی نگاہ میں بہت بڑی کوتاہی اور ایک جرم تھا۔ میں بڑی جلدی سے تیار ہوا اور کانٹیبل کے ساتھ تھانے پہنچا۔
تھانہ میرے گھر کے بہت قریب تھا۔ میرا فوراً پہنچنا اس واسطے بھی ضروری تھا کہ یہ قتل کی واردات تھی ۔ جس طرح اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا جاتا ہے ایسے ہی انگریزوں کے قانون میں قتل کو یوں سمجھا جاتا تھا جیسے زمین و آسمان مل گئے ہوں ۔ اس کے علاوہ میرا تجربہ یہ تھا کہ قتل کی جائے وقوعہ پر جتنی جلدی پہنچا جائے اتنا ہی فائدے مند ہوتا ہے۔ کوئی گھر ا کھوج مل جاتا ہے یا کوئی چیز نظر آجاتی ہے جس کو عام لوگ اہمیت نہیں دیتے لیکن تفتیشی افسر کے واسطے وہ بڑی کارآمد چیز ہوتی ہے۔
ٹھیکیدار میرے دفتر میں افسردہ بیٹھا تھا۔ مجھ کو دیکھ کر اٹھا اور ہاتھ ملایا۔ میں نے پوچھا کون قتل ہو گیا، ٹھیکیدار صاحب!
میری بیوی اس نے جواب دیا ۔ ڈکیتی کی واردات تو نہیں ہوئی ؟ یہ میں نے اس واسطے پوچھا کہ رات کے اس وقت قتل کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ ڈاکہ پڑا اور مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں نے گھر کے کسی فرد کو مار ڈالا۔ کیا کیا کیا ہوا اور اس کے اہلکاروں نے گھر سے سی اس نے قریبی بڑے شہر کا نام لے کر بتایا کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں وہاں گیا ہوا۔ تھا اور ایک گھنٹہ پہلے واپس آیا ہے۔ اس وقت ایک ریل گاڑی گزرا کرتی تھی ۔ وہ اس پر واپس آیا تھا۔ گھر تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بیٹھک (ڈرائنگ روم) کا دروازہ ذرا سا کھلا ہوا ہے۔ وہ حیران ہوا کہ یہ دروازہ کیوں کھلا ہوا ہے۔ یہ دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ اس سے ذرا آگے حویلی کا بڑا دروازہ تھا۔ ٹھیکیدار نے اس بڑے دروازے پر دستک دینی تھی لیکن بیٹھک کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس میں داخل ہو گیا ۔ اس کے آگے ایک کمرہ تھا۔ اس کمرے میں گیا تو اس سے آگے ٹھیکیدار کا بیڈ روم تھا۔ اس کی بتی جل رہی تھی ۔ اتنی رات گئے بتی نہیں جلنی چاہئے تھی ۔
وہ بیڈ روم میں گیا تو دیکھا کہ اس کی بیوی کمر سے نیچے نگی پلنگ پر پڑی تھی اور اس کا جسم ذراسی بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔اس نے بیوی کو آواز دی تو بھی وہ نہ ہلی اور نہ بولی۔ قریب جا کر دیکھا تو ٹھیکیدار کو معلوم ہوا کہ وہ تو مرگئی ہے۔ اس کا منہ کھلا ہوا اور آنکھیں بھی کھلی اور ٹھہری ہوئی تھیں ۔ ٹھیکیدار ساری واردات سمجھ گیا۔ اس کی بیوی کے ساتھ کسی نے زیادتی کی تھی اور اس کو مار کر چلا گیا۔ بیٹھک کا کھلا ہوا دروازہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ قاتل باہر سے آیا تھا۔ حویلی کے صحن کی طرف یعنی اندرونی طرف کھلنے والے دروازے کی اندر سے چیخنی چڑھی ہوئی تھی اور کھڑکی کی چٹنیاں بھی چڑھی ہوئی تھیں ۔ اس سے یہ پتہ لگتا تھا کہ اندر کی طرف سے کوئی بیڈ روم میں نہیں آیا۔ ایک دروازہ پہلو والی چھوٹی گلی میں کھلتا تھا۔ یہ بھی اندر سے بند تھا۔ قاتل بڑی گلی کی طرف سے بیٹھک کے دروازے سے داخل ہوا اور ساتھ والے کمرے سے گزر کر بیڈ روم تک پہنچا۔ اس سے پتہ لگتا تھا کہ ملزم ان کمروں سے اور
اس راستے سے واقف تھا۔ میں نے بڑی تیزی سے ایف آئی آرکھی اور یہ سوچ کر اس کے ساتھ چل پڑا کہ ضروری باتیں اس سے راستے میں پوچھوں گا۔ اپنے ساتھ عملے کے دو چار آدمی لینے تھے وہ لے لئے ۔ تھانے سے نکلتے ہی میں نے اس سے پہلی بات یہ پوچھی کہ کسی کے ساتھ اس کی دشمنی ہوگی ۔ اس نے یہ جواب دے کر مجھ کو مایوس کر دیا کہ دشمنی کسی کے بھی ساتھ نہیں تھی ۔ یہ سن لیں کہ یہ ٹھیکیدار کس پائے کا آدمی تھا۔ جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ فوجوں اور محاذوں کے واسطے اتنا زیادہ سامان ضرورت پڑتا تھا کہ ٹھیکیداریاں بہت ہی زیادہ ہوگئی تھیں۔ مثلاً گولہ بارود آگے بھیجنے کے واسطے لکڑی کے بکس، ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں درکار ہوتے تھے ۔ کئی لوگوں نے یہ بکس بنانے اور سپلائی کرنے کے ٹھیکے لے لئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بہت سا سامان فوجوں کے واسطے سپلائی ہوتا تھا۔ لوگوں کے تو دن پھر گئے تھے۔ یہ ٹھیکیدار جنگ سے پہلے کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا تھا لیکن آدمی بہت ہی ہوشیار اور موقع پرست تھا۔ اس نے فوراً ٹھیکے حاصل کرلئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو جیسے آسمان پر چڑھ گیا ہو۔ اس کا کام اتنا زیادہ ہو گیا کہ قصبے میں ہی اس نے ایک قسم کا کارخانہ کھول لیا اور کئی بے روز گار لوگوں کا روز گار لگ گیا۔ دولت تو اس طرح برسنے لگی جس طرح مینہ برستا ہے۔ درمیانہ سامکان ایک کشاده تا این ان کے بچپن اور ساٹھ کے درمیان ہو تھی کہ عمر گئی تھی،
اولاد جوان تھی اور اس نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ شادی کرتی۔ اس لڑکی کی عمر بائیس سال تھی اور وہ خود دو تین سال بعد ساٹھ سال کا ہونے والا تھا۔ اس کی یہ نوجوان بیوی قتل ہو گئی تھی۔ میں اس کی یہ باتیں غور سے سنتا جارہا تھا اور یہ بھی سوچتا جارہا تھا کہ قتل کا باعث کیا ہو سکتا ہے اور قاتل کون ہے۔ اس نے یہ بتایا کہ دوسری بیوی نوجوان ہے تو مجھے کو خیال آیا کہ اس لڑکی کو پہلی بیوی نے قتل کروایا ہو گا لیکن ٹھیکیدار نے بتایا کہ پہلی یعنی پرانی بیوی ایک سال پہلے مرگئی تھی ۔ ٹھیکیدار نے دوسری شادی پہلی بیوی کی موجودگی میں کی تھی ۔ اس کو طلاق نہیں دی تھی ۔ دوسری شادی کے بعد پرانی بیوی ایک سال زندہ رہی۔ پھر ٹھیکیدار نے بتایا کہ اس کے تین بیٹے ہیں ۔ بڑے کی عمر ستائیس اٹھائیس سال تھی ، اس سے چھوٹا بیٹا تئیس چوبیس سال کا تھا اور اس کے بعد ایک اور بیٹا تھا جس کی عمر سولہ سترہ سال ہو گئی تھی۔اتنے میں اس کا گھر آگیا جو ایک کشادہ گلی میں تھا۔ وہ مجھ کو بیٹھک کے اس دروازے سے اندر لے گیا
- 🌟 منتخب کہانیاں برائے مطالعہ 🌟
- 📖 پیر کی کہانی – ایک دلچسپ کہانی، مکمل اردو فونٹ میںب!
- 📖 کنواری بیوی کی کہانی – مختصر ناول، دلچسپ اور منفرد تحریر!
- آپ ان کہانیوں کو پڑھ کر مزید لطف اٹھا سکتے ہیں! 😊📚
جو اس نے بتایا تھا کہ رات کو کھلا ہوا تھا۔ اس بیٹھک کے آگے جو کمرہ تھا اس میں ٹرنک اور ایک دو فرنیچر کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے آگے بیڈروم تھا۔ لاش کے اوپر چادر پڑی ہوئی تھی۔ پلنگ خاصا چوڑا اور بہت خوبصورت تھا۔ خوبصورتی یہ تھی کہ اس کا تکیہ لکڑی کا بنا ہوا نہایت اچھا تھا اور اس پر چتر کاری کی ہوئی تھی ۔ مقتولہ کی شلوار اس تکئے کے ساتھ لٹک رہی تھی جس طرح اس نے خود یہاں لٹکائی ہومیں نے ٹھیکیدار کو یہ کاغذ دکھا کر پوچھا کہ یہ کس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ ٹھیکیدار نے کاغذ دیکھ کر بتایا کہ اس کا ایک منشی ہے یا اس کو مینجر کہہ لیں ، وہ گھر میں آتا جاتا رہتا ہے اور میہ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چٹ ہے۔ یہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ بڑا شریف اور دیانتدار آدمی ہے۔ ٹھیکیدار نے اس کاغذ کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن میں نے کاغذ اس سے لے کر اپنے ہاتھ میں رکھ لیا
اور اس طرح جیب میں ڈال لیا کہ ٹھیکیدار نہ دیکھ سکے۔ ہو سکتا تھا یہ کاغذکوئی اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن میں ایسی کوئی چیز نظر انداز یا ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ تھا۔ سراغ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ملا کرتے ہیں اس وقت ٹھیکیدار کے تینوں بیٹے کمرے میں موجود تھے۔ میں جب لاش سے چادر ہٹانے لگا تو مینوں باہر نکل گئے ۔ انہیں معلوم تھا کہ لاش آدھی نگی ہے۔ میں نے چادر ہٹا کر لاش کی حالت دیکھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ مقتولہ کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ پھر میں نے لاش کی گردن دیکھی ۔ وہاں صاف نشان گلا گھونٹنے کے نظر آرہے تھے۔ خون کا ایک قطرہ بھی نظر نہیں آتا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جسم پر کوئی زخم نہیں ۔ میں نے جسم کو ہر طرف سے اچھی طرح دیکھا۔
چوٹ کا نشان بھی نہیں تھا۔ میں جب لاش کو کروٹ پر کر کے معائنہ کر رہا تھا تو مجھ کو جرسی کا ایک موٹا بٹن پلنگ پر نظر آیا جو میں نے اٹھا کر مٹھی میں دبا لیا تا کہ ٹھیکیدار یا اس کا کوئی بیٹا دیکھ نہ سکے ۔ وہاں کوئی بیٹا تو تھا نہیں ، وہ کمرے سے نکل گئے تھے۔ ٹھیکیدار نہیں دیکھ سکا تھا کہ میں نے پلنگ سے مٹن اٹھا کر مٹھی میں د بالیا ہے۔ یہ بٹن یقیناً کسی کی جرسی سے ٹوٹ کر گرا تھا۔ یہ چوڑا نہیں بلکہ گنبد نما بٹن تھا اور خاصا خوبصورت تھا۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا تھا کہ بڑی اچھی قسم کی جرسی کا بٹن ہے۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ مقتولہ کی آبرور پیزی جبری طور پر ہوئی ہے یا مقتولہ کی رضا مندی ہے ۔ مقتولہ کے جسم پر صرف قمیض تھی ۔
یہ قمیض کہیں سے بھی پھٹی ہوئی یا کھینچی ہوئی نہیں تھی ۔ تشدد کا اور مزاحمت کا کوئی نشان نظر نہیں آتا تھا۔ اس طرح کی تفتیشی کہانیوں میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ مزاحمت اور تشدد میں عورت کی چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور یہ ٹکڑے جائے وقوعہ پر بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ میں نے. لاش کے بازو د یکھے۔ دونوں بازوؤں میں سونے کا ایک ایک کڑا تھا اور اس کے ساتھ کانچ کی چوڑیاں بھی تھیں لیکن کوئی ایک بھی چوڑی ٹوٹی ہوئی نہیں تھی ۔ بستر پر اچھی طرح دیکھا، فرش پر بھی دیکھا، چوڑی کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آیا۔ یہ ایک قدرتی بات ہے اور یہ میرا تجر بہ اور مشاہدہ بھی ہے کہ مرد جب کسی عورت کو قابو کر نا چا ہتا ہے تو اس کی کلائی یا بازو پکڑ کر مروڑتا ہے یا عورت مزاحمت کرتی ہے تو اس کھینچا تانی اور دھینگا مشتی میں چوڑیوں کا ٹوٹنا لازمی ہوتا ہے۔ یہاں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے ۔
شلوار تکئے کے ساتھ اس طرح لٹکی ہوئی تھی جیسے خود لٹکائی گئی ہو۔ معاملہ زبردستی کا ہوتا تو شلوار پھٹی ہوئی ہوتی یا پلنگ پر یا فرش پر پڑی ہوئی ہوتی۔ میرے واسطے سوچنے والی بات یہ تھی کہ بیٹھک کا دروازہ کس نے کھولا تھا کہ ملزم اندر آیا۔ میں نے اس وقت ان باتوں پر زیادہ غور نہ کیا اس واسطے کہ میں لاش کو اور اس کے اردگرد دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد یہ دیکھنا تھا کہ کون کدھر سے آیا اور کدھر سے گیا۔ ایک بات فورآ میرے دماغ میں آگئی ۔ میں نے ٹھیکیدار کے تینوں بیٹوں کو دیکھ لیا تھا۔ تینوں جوان تھے ۔ چھوٹے کی عمر اس نے سولہ سترہ بتائی تھی۔ وہ بھی جوانی میں داخل ہو چکا تھا۔ میرے دماغ میں ان کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو گیا۔
لاش کو جب اچھی طرح دیکھ لیا تو اس کو پوسٹ مارٹم کے واسطے بھیجنے کا بندوبست کیا۔ ہیڈ کانسٹیبل میرے ساتھ تھا، اس کو لاش کے ساتھ بھیجنا تھا۔ اس کو بلا کر الگ سمجھا دیا کہ ایک تو لاش کا پوسٹ مارٹم ہو گا اور ٹھیکیدار کے تینوں بیٹے ساتھ جائیں گے اور ڈاکٹر کو بتانا ہے کہ ان کاشسٹ ضروری ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل سمجھتا تھا کہ میرا مطلب کیا ہے۔ میں نے تینوں بیٹوں کو بلایا اور ان کو کہا کہ وہ لاش کے ساتھ جائیں اور ڈاکٹر جو اور وہاں کسی قسم کا اعتراض یا کوئی اور ناگوار بات نہ ہو چھ بھی کہے وہ اس طرح کریں اب میں کمرے کی ایک خاص بات بیان کرتا ہوں ۔ ایک تو یہ کمرہ بہت ہی سجا سجایا تھا اور پلنگ بالکل نیا تھا اور اس کے ساتھ اعلیٰ قسم کا سنگار میز تھا۔ سنگار میز کی دو دراز میں تھیں اور دونوں کھوئی ہوئی تھیں۔ زیورات کے دوڈ بے کھلے ہوئے میز پر رکھے ہوئے تھے اور ان میں جو زیورات تھے وہ میز پر بکھرے ہوئے تھے۔ دروازوں کے اندر بھی ایک دو چیزیں پڑی تھیں ۔ صاف پتہ لگتا تھا کہ دراز کی تلاشی لی گئی ہے ۔ دوسری دراز کی اشیاء بھی الٹ پلٹ کی گئی تھیں۔ زنانہ پرس میز پر رکھا ہوا اور کھلا ہوا تھا۔ میں نے اس کے اندر دیکھا۔ تو اس میں پانچ نوٹ سوسو روپے کے کچھ دس روپے اور کچھ پانچ روپے کے نوٹ پڑے ہوئے تھے ۔
اتنے قیمتی زیورات اور اتنی رقم اس طرح چھوڑ کر جانے والا کوئی اندھا تو نہیں تھا یا۔ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ نہیں تھا۔ میں یہی کہہ سکتا تھا کہ وہ ڈکیتی یا چوری کی نیت سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ مقتولہ کوخراب کرنے آیا اور چلا گیا۔ قتل کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ مقتولہ نے اس کو پہچان لیا ہو گا اور قاتل نے ضروری سمجھا کہ اس کو ختم کر دیا جائے لیکن میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا کہ مقتولہ اپنی یہ اشیاء کیا اسی طرح بے احتیاطی سے میز پر پھینک دینے کی عادی تھی؟ ٹھیکیدار نے کہا کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرتی تھی بلکہ سنگار میز کو بڑی احتیاط سے صاف ستھرا رکھتی تھی اور یہ ساری اشیاء دراز کے اندر رہتی تھیں۔ یہ تو مجھ کو یقین ہو گیا تھا کہ زیورات کے ڈبے کھول کر دیکھے گئے اور پھر درازوں کی تلاشی لی گئی ۔ صرف ہار ہی دیکھا جائے تو بہت ہی قیمتی تھا۔ اس دور میں سو کے پانچ نوٹ آج کے سات آٹھ ہزار روپوں کے برابر ہوا کرتے تھے ۔
یہاں پر مجھ کو شبہ ہوا کہ ملزم اس گھر کا ہی کوئی فرد ہے یا کوئی ایسا شخص جس کو اتنے قیمتی مال کا ذرا سا بھی لالچ نہیں تھا یعنی وہ کوئی ٹھیکیدار جیسا ہی دولت مند آدمی تھا۔ مجھے کو زیادہ شبہ ٹھیکیدار کے اپنے ہی کسی بیٹے پر تھا۔ یہ خیال رکھیں کہ مقتولہ ٹھیکیدار کے بیٹوں کی ماں نہیں تھی۔ وہ باہر کی ایک لڑکی تھی جس کو ٹھیکیدار نے خریدا ہی ہوا ہو گا ۔
جنگ عظیم کے زمانے میں ایسے کئی کیس ہوئے تھے ۔ ایک تو لوگوں کو ٹھیکیداریاں مل گئیں اور پیسہ پانی کی طرح آنے لگا۔ فوج میں چونکہ افسروں کی ضرورت تھی اور فوجی مکھیوں کی طرح مر رہے تھے اس واسطے انگریزوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ پڑھے لکھے صو بیداروں اور جمعداروں کو کمیشن دے کر کپتان اور میجر بنا دیا۔ مسلمانوں کی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ پیسہ ہاتھ آجائے یا اونچا رتبہ مل جائے تو مرد مومن سب سے پہلے پرانی بیوی سے بیزاری کا اظہار کرتا اور نئی نویلی نوجوان دلہن لاتا ہے۔ بعض والدین ایسے تھے جن کی آدھی آدھی درجن بیٹیاں تھیں اور مالی لحاظ سے صرف ایک بیٹی کو بیاہنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ ایسے والدین نے منہ مانگی رقمیں لے کر بیٹیاں دولت مند بوڑھوں کے ساتھ بیاہ دی تھیں۔ اس کے نتیجے میں ایک تو بدکاری یعنی ناجائز تعلقات بڑھ گئے اور پھر اس قسم کی سنگین وارداتیں بھی ہوئیں جن میں سے ایک آپ کو سنا رہا ہوں۔
ایسی وارداتیں بھی ہوئیں کہ باپ نے اپنے جوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیا اس واسطے کہ بیٹے نے باپ کی نئی دلہن کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے تھے ۔ ایسا بھی ہوا کہ جوان بیٹا باپ کی نئی اور نو جوان بیوی کو ساتھ لے کر گھر سے ہی بھاگ گیا۔ یہاں بھی مجھ کو کچھ ایسا ہی ڈرامہ نظر آرہا تھا۔ ٹھیکیدار کی ایک بات نے میرے شک کو پختہ کر دیا تھا۔ یہ میں آگے چل کر بتاؤں گا۔ میں نے حویلی کو اندر سے دیکھنا اس واسطے ضروری سمجھا کہ اوپر سے کوئی شخص نیچے آ سکتا ہے یا نہیں۔ ٹھیکیدار مجھے کو اندر لے گیا۔ میں نے سب سے پہلے سیڑھیوں کی پوچھی ۔ ٹھیکیدار نے آگے بڑھ کر ایک دروازے کی زنجیر اتار دی یہ سیڑھیوں کا دروازہ تھا۔ میں او پر گیا۔ او پر ایک منزل اور تھی ۔ ادھر ادھر دیکھا تو پتہ لگا کہ اوپر سے ادھر آنا ممکن نہیں ۔ میں نیچے آ گیا۔ تصحن میں دو عورتیں کھڑی تھیں ۔ ایک جوان تھی جوشکل وصورت ، لباس اور ڈیل ڈول سے اسی گھر کی فرد گلتی تھی ۔ دوسری ادھیڑ عمر تھی جو نوکرانی معلوم ہوتی تھی یا محلے کی کوئی . کم درجہ عورت تھی۔ محلے میں ابھی کسی کو پتہ نہیں لگا تھا کہ اس گھر میں قتل کی واردات ہوگئی ہے اور پولیس آئی ہوئی ہے۔ یہ اس واسطے کہ ابھی آدھی رات کے بعد تین بجے تھے ۔ سارا قصبہ گہری نیند میں گم تھا۔ ٹھیکیدار نے جوان عورت کی طرف اشارہ کر کے مجھ کو کہا کہ یہ اس کی بہو ہے یعنی بڑے بیٹے کی بیوی ۔ اس کے ایک ہی بیٹے کی ابھی شادی ہوئی تھی ۔
یہ تو میں نے دیکھ لیا تھا کہ سیٹرھیوں کا دروازہ نیچے کی طرف سے بند تھا پھر بھی میں نے پوچھا کہ یہ ہر رات بند کر دیا جاتا ہے یا کھلا رہتا ہے۔ ٹھیکیدار نے بتایا کہ اسے جاتا ہے اور زنجیر چڑھی رہتی ہے۔
میں نے ٹھیکیدار کو بیٹھک میں لے جا کر بٹھایا اور اس کو کہا کہ وہ مجھ کو اپنی پہلی بیوی، بیٹوں اور پھر مقتولہ کے ساتھ شادی کی بابت کچھ بتائے ۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ پوری بات سنادے تو پھر میں اس سے سوال و جواب کروں ۔ یہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ ٹھیکیدار نے پہلی بیوی کی موجودگی میں اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی ۔ میرے سوالوں اور جرح سے یہ صورت سامنے آئی کہ قدرتی بات تھی کہ پہلی بیوی ناراض ہوئی لیکن اس کا بس نہیں چل سکتا تھا۔ اس کو ایک نو جوان سوکن قبول کرنی پڑی۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ ٹھیکیدار کے بیٹے کوئی دودھ پیتے بچے نہیں تھے کہ کچھ بھی محسوس نہ کر سکتے ٹھیکیدار نے بتایا کہ مینوں بیٹے اس کے ساتھ ناراض ہو گئے اور پھر گھر میں یہ فضا بن گئی کہ کوئی انتہائی ضروری بات ہوتی تو کوئی بیٹا باپ کے ساتھ بات کر لیتا تھا ورنہ فضا میں کھچاؤ اور چپقلش بھری رہتی تھی۔
تینوں بیٹوں نے نئی ماں کو قبول نہیں کیا تھا اور اس کا اظہار اس طرح ہوا کہ کوئی ایک بھی بیٹا اس لڑکی یعنی مقتولہ کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کوئی کھانا کھانا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ ٹھیکیدار نے اس کا یہ علاج کیا تھا کہ اس نوکرانی کو جس کو میں نے صحن میں کھڑے دیکھا تھا یہ کام سونپا تھا کہ وہ نئی بیوی کا پورا پورا خیال رکھے اور اسے کمرے میں کھانا دیا کرے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ نوکرانی نئی دولہن کی یعنی مقتولہ کی نوکرانی بن گئی تھی اور یہ ادھیڑ عمر عورت مقتولہ کا بہت ہی خیال رکھتی تھی ۔ میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا کہ گھر میں لڑائی جھگڑا رہتا ہوگا، یہ قدرتی بات تھی لیکن ٹھیکیدار نے کہا کہ اللہ کا کرم یہ رہا کہ لڑائی جھگڑا کبھی بھی نہیں ہوا۔ اس کا بیان یہ تھا کہ مقتولہ نے شروع سے ہی گھر کی مالکہ بننے کا دعویٰ کیا ہی نہیں، نہ کبھی اس نے گھر کے معاملات ، باورچی خانے یا انتظامات میں دخل اندازی کی ۔ وہ گھر میں ہر کسی کے ساتھ اچھے مراسم رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس کا مزاج لڑنے جھگڑنے والا نہیں تھا بلکہ ہننے کھیلنے کی عادی تھی۔ ٹھیکیدار نے یہ بھی بتایا کہ وہ نوکرانی سے اور اپنی بہو سے الگ رپورٹ لیتا رہتا تھا۔ مقتولہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتی یا اپنے ماں باپ کے ہاں چلی جایا کرتی تھی اور شام سے پہلے واپس آجاتی تھی۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی ٹیم کے قاتل کو پکڑوں؟ میں نے پوچھا۔
یہ کیا سوال کیا ہے آپ !“ ٹھیکیدار نے کہا ” میں تو کہتا ہوں کہ قاتل کو صبح یں اور اسے میرے حوالے کر دیں، میں اپنے ہاتھوں اس کا گلا گھونٹ کر مار دوں۔-
پھر یوں کریں میں نے کہا۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو پھر ان بیٹوں کو بھی کچھ دیر کے لئے بیٹے سمجھنا چھوڑ دیں۔ اگر آپ نوکرانی سے اور اپنی بہو سے رپورٹیں لیتے رہتے تھے تو آپ نے یہ ضرور معلوم کیا ہو گا کہ آپ کے بیٹوں کا مقتولہ کے ساتھ رویہ کیا تھا ۔ میرے دماغ میں کئی شکوک آرہے ہیں جو میں ابھی آپ کو نہیں بتاؤں گا”۔ یہ بھی سن لیں۔ اس نے کہا۔ ”میں جب گھر آیا اور بیوی کی لاش دیکھی اور لاش کو اس برہنہ حالت میں دیکھا تو اپنے بیٹوں کو جگایا اور ان کو اس کمرے میں لے آیا۔ میرا خدا گواہ ہے کہ اس وقت میں نے اپنے بیٹوں کو بھی دشمن سمجھا تھا۔ میں نے ان کو کہا کہ اگر تم میں سے کسی نے یا تم مینوں نے اس کو خراب کر کے قتل کیا ہے تو بتا دو، میں تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا اور اس کو دفن کر دوں گا۔ اگر نہیں بتاؤ گے تو میں تمہارے خلاف شک لکھوا دوں گا اور پولیس تمہارے ساتھ جو اچھا بر اسلوک کرے گی میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ تینوں بیٹوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے قتل ہی کرنا ہوتا تو اس وقت کر دیتے جب ہماری ماں زندہ تھی۔ یہ تو میں نے دیکھا تھا کہ بیڈ روم کا صحن کی طرف کھلنے والا دروازہ اندر سے پکا بند تھا اور کھڑکی کی پینٹنیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ پھر یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ بیٹھک کا باہر والا دروازہ کھلا تھا۔ اگر میرے بیٹوں میں کسی نے یہ اردات کی ہوتی تو باہر والا دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی۔
وہ اپنے بیٹوں پر شک کرتا یا نہ کرتا، مجھ کو ان پر شک تھا۔ اسی شک کی وجہ سے میں نے ان کو ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا تھا۔ ڈاکٹر نے لاش سے کچھ مواد لینا تھا اور کچھ موادان تینوں بیٹوں کا الگ الگ لے کر لاہورٹسٹ کے واسطے بھیجنا تھا۔ ٹھیکیدار کے ساتھ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تھانے سے دوسرا ہیڈ کانسٹیبل آ گیا۔ میرے ساتھ جو ہیڈ کانسٹیبل تھا اس کو میں نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے واسطے بھیج دیا تھا۔ اس کو کہا تھا کہ لاش ڈاکٹر کے سپرد کر کے تھانے جائے اور دوسرے ہیڈ کانٹیل کو کہے کہ انگلیوں کے نشان لینے والا سامان لے کر میرے پاس پہنچ جائے ۔ میں نے سنگار میز دیکھا تھا جو بڑی اچھی چمکدار سطح والا تھا۔ اس پر ملزم کی انگلیوں کے نشانات کی موجودگی ضروری تھی ۔ دراز پر بھی انگلیوں کے نشانات ہونے چاہئیں تھے۔ مقتولہ کا پرس سخت چمڑے کا تھا، اس پر بھی نشانات کی موجودگی کا یقین تھا۔ زیورات کے ڈبوں پر مل کا کپڑا چڑھا ہوا تھا اس واسطے ان سے نشان لینے ممکن نہیں تھے ۔ البتہ ٹین کی ایک چھوٹی صند و چی تھی یا اسے بڑی ڈبیا کہہ لیں جس پر رنگ کیا ہوا تھا اور اس پر پھول بنائے ہوئے تھے ۔ ایسی سطح انگلیوں کے نشان اپنے اندر محفوظ کرنے میں موزوں ہوتی ہے۔ ہر تھانے میں انگلیوں کے نشان منتقل اور محفوظ کر لینے کا پورا سامان ہوتا ہے۔ یہ میں اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ جائے ” وقوعہ پر دیکھا تو اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہیڈ کانٹیل سامان لے کر آ گیا تو میں نے اس کو وہ جگہیں اور اشیاء دکھا ئیں جن سے انگلیوں کے نشان (فنگر پرنٹ) لینے تھے۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور میں ٹھیکیدار کے ساتھ سوال و جواب کرنے لگا۔ اس کو کہا کہ وہ اپنے ہر بیٹے کی عادات ، فطرت وغیرہ کی بابت صحیح رپورٹ دے۔
بڑے بیٹے کی بابت اس نے یہ رپورٹ دی کہ پکا مولوی ٹائپ آدمی ہے اور بے حد شریف ۔ یہ خاص خیال رکھیں کہ کسی کو مولوی ٹائپ کہا جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ طبعا شریف آدمی ہے۔ اکثر مولوی ٹائپ دیکھے گئے جو ظاہری طور پر شریف لگتے ہیں لیکن اندر سے فتنہ اور فساد پیدا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اس بیٹے کی بابت ٹھیکیدار نے کہا کہ وہ ہر طرح کی قسم کھانے کو تیار ہے کہ مذہب کے معاملے میں اور اخلاقیات کی بابت بہت ہی سخت ہے ۔ اس سے چھوٹے بیٹے جس کی عمرتئیس چوبیس سال تھی ، کی بابت ٹھیکیدار نے بتایا کہ اپنے بڑے بھائی کے بالکل الٹ ہے۔ آوارہ زندہ مزاج ،کھلنڈرا، غیر ذمہ دار ، فضول خرج، پیسے کا دشمن اور فلموں کا شوقین ۔ یہ رپورٹ سنی تو میں نے اپنی یہ رائے قائم کی کہ ایسے شہزادوں پر جنسیات اور بدکاری کا غلبہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کو ذہن میں مشتبہ رکھ لیا۔۔
اس سے چھوٹے بیٹے کی بابت ٹھیکیدار نے بتایا کہ اس کو وہ ناریل سمجھتا ہے۔ نہ مولوی ہے نہ آوارہ اور اس کے خلاف کسی کو کوئی شکایت نہیں ۔ غصہ بہت کم اور خوش طبیعت لڑکا ہے۔ میں ٹھیکیدار کو کہتا تھا کہ وہ اپنی کوئی رائے دے اور اپنے کسی شک شبے کا اظہار کرے لیکن وہ نہ رائے دیتا نہ کسی پر شک کرتا تھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس کو کوئی خاص افسوس بھی نہیں تھا۔ اس کے پاس دولت تھی۔ وہ ایسی ایک اور لڑ کی خرید کر گھر لاسکتا تھا۔ اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار ضرور کیا کہ واردات اتنی شرمناک ہوئی ہے کہ لوگ سنیں گے تو ہر کوئی اپنی اپنی کہانی گھڑلے گا اور اس کی بہت رسوائی ہوگی. میں اس کو کہنے ہی لگا تھا کہ پہلے وہ کون سا نیک نام ہے جس نے اس عمر میں ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی لیکن مجھ کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل نہیں تھا اور کچھ فائدہ بھی نہیں تھا۔
اس گھر میں دوسری اہم فرد ٹھیکیدار کی بہو تھی ۔ میں نے ٹھیکیدار کو یہ کہ اندر بھیج دیا کہ اپنی بہو کہ میرے پاس بھیج دے۔ مجھ کو ڈر تھا کہ یہ اپنی بہو کے کان میں اپنی کوئی ہدایت نہ ڈال دے لیکن وہ اندر گیا اور ایک منٹ میں اس کی بہو میرے پاس آگئی ۔ بڑی اچھی شکل و صورت کی جوان لڑکی تھی اور جب اس کے ساتھ باتیں ہوئیں تو میری طبیعت خوش ہو گئی اس واسطے کہ بڑے اعتماد اور وثوق سے بات کرتی تھی۔ یہ شک ہوتا ہی نہیں تھا کہ بات کو گول کر رہی ہے یا غلط جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ چھپائے کچھ بھی نہیں اور اس کا ایک بھی لفظ کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا جائے گا۔ اس کو یہ بھی کہا کہ وہ اس گھر کے
یہ کہانی کا آخری حصہ ہے اگر آپ نے پہلا حصہ نہیں پڑھا تو چینل سے دیکھ سکتے ہیں
ماحول کی بابت ، مقتولہ کی بابت اور ٹھیکیدار کے بیٹوں کی بابت مجھ کو سب کچھ بتائے اور اس کے علاوہ کوئی اور بات جو وہ اہم اور ضروری سمجھتی ہے وہ بتائے۔
اس نے بات مقتولہ سے شروع کی اور پہلے لفظ یہ کہے کہ چال چلن کی ٹھیک نہیں تھی ۔ شادی سے پہلے بھی اس کا چال چلن مشکوک تھا اور اچھی خاصی چالاک لڑکی تھی ۔ اس کو بیدار جیسے بڑی عمر کے آدمی کے ساتھ شادی کر کے دکھ اور صدمہ ہونا چاہئے تھا لیکن عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ بہت خوش تھی جیسے وہ اسی ٹھیکیدار کے ساتھ شادی کی خواہشمند تھی اور اللہ نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔ اس خاتون نے بتایا کہ لڑکی بڑی شوخ ، بے حیا اور خوش رہنے والی تھی اور اس کی ہنسی مذاق میں فحاشی زیادہ ہوتی تھی۔ اس گھر میں ہر کسی کے ساتھ اس نے اچھے مراسم رکھے ہوئے تھے۔ ٹھیکیدار کی پہلی بیوی اس کے ساتھ بات بھی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن یہ لڑکی اس کے ساتھ بھی خوش رہتی تھی۔ گھر کے کام کاج اور دیگر امور میں وہ دخل اندازی کرتی ہی نہیں تھی ۔
ٹھیکیدار کی اس بہو نے کہا کہ مقتولہ کا خوش رہنا قابل فہم تھا۔ اس کے ماں باپ بھی اچھی شہرت کے لوگ نہیں تھے ۔ اس سے اندازہ کریں کہ انہوں نے نہ جانے کتنی رقم لے کر . اپنی نوعمر لڑ کی اتنی زیادہ عمر کے آدمی کے ساتھ بیاہ دی تھی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ مقتولہ ٹھیکیدار سے پیسے بٹور کر اپنے ماں باپ کو دیتی رہتی تھی۔ ٹھیکیدار کی بہو نے کہا کہ یہ
بات صرف وہی نہیں کہہ رہی بلکہ کسی سے بھی پوچھ لیں ، یہی جواب ملے گا۔
پھر اس نے اپنا کوئی در پردہ بندو بست کر رکھا ہوگا۔ میں نے کہا۔ ”اس کا کوئی دوست ہو گا جس کے ساتھ اس کی ملاقاتیں رہتی ہوں گی اور اس طرح یہ اپنے جذبات کی تسکین کرتی رہتی ہوگی۔ یہ سن کر بہو نے کہا کہ اس لڑکی نے اپنی ایک الگ تھلگ دنیا بنا رکھی تھی ۔ اس کے دو کمرے الگ تھے۔ ایک بیڈ روم اور ایک ساتھ والا کمرہ ۔ آگے بیٹھک تھی جس میں سے بندہ سیدھا مقتولہ کے بیڈ روم تک پہنچ جاتا تھا۔ مقتولہ دونوں کمروں کے دروازے جو اندر کی طرف کھلتے تھے کے بند رکھتی تھی۔ سیہ اس وقت کھلتے تھے جب وہ اندر حویلی میں آتی تھی ٹھیکیدار کی اس بہو کے ساتھ مقتولہ کے دوستانہ مراسم پیدا ہو گئے تھے ۔ بہو اس کو بچے دل سے اپنی دوست نہیں بجھتی تھی ، ظاہری طور پر اس کے ساتھ ٹھیک ٹھاک رہتی تھی لیکن زیادہ لفٹ نہیں کراتی تھی۔ اب ایک نہایت اہم بات بتاؤ میں نے پوچھا ” تینوں بھائیوں میں کون مقتولہ کے ساتھ ذرا بے تکلف تھا؟“ کوئی بھی نہیں۔ بہو نے جواب دیا۔ ” میرا خیال ہے کہ میں سمجھ گئی ہوں آپ کا بے تکلفی سے کیا مطلب ہے۔ میرا خاوند اور ان کا سب سے چھوٹا بھائی تو اس سے منہ ہی نہیں لگاتے تھے۔ درمیانہ بھائی ذرا آزاد خیال اور زندہ دل ہے وہ کبھی اس کے ساتھ کھل کر بات کر لیا کرتا تھا لیکن میں اسے بے تکلفی نہیں کہوں گی۔ ان تینوں بھائیوں میں کوئی ایک بھی اس کے کمرے میں نہیں جاتا تھا۔ اگر کبھی جانے کی ضرورت پڑی تھی تو ایک دو منٹ بعد باہر آ گئے۔
یہ نوٹ کریں کہ میں نے ٹھیکیدار کی بہو کے ساتھ بہت سی باتیں کی تھیں اور اتنے ‘ زیادہ سوال کئے تھے کہ خود مجھ کو یاد نہیں رہا تھا کہ کیا کچھ پوچھ چکا ہوں ۔ یہاں نہایت ضروری باتیں تحریر کر رہا ہوں تا کہ آپ کو کہانی سمجھنے میں آسانی ہو۔ میں نے مقتولہ اور ٹھیکیدار کے بیٹوں کے آپس کے تعلقات کی بابت اتنا زیادہ کریدا تھا جیسے بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ کو شک تھا کہ مقتولہ نے ان بھائیوں میں سے کسی کو پھانس رکھا ہو گا۔ میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں۔ بہو نے کہا ”یہ میں خود خیال رکھتی تھی بلکہ ایک قسم کا پہرہ دیتی تھی کہ ان بھائیوں میں سے کوئی بھی مقتولہ کے کمرے میں زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔ میں سمجھی کہ لڑکی غلط خیالات رکھتی ہے اور اس کا چال چلن بھی صحیح نہیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑ کے آخر جوان ہیں، کوئی لڑکا اس کے قابو میں آجائے ۔ میں بہت حد تک یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ کوئی ایک بھی بھائی اس کی باتوں میں نہیں آیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تینوں بھائی مقتولہ کو اپنی ماں کی دشمن سمجھا کرتے تھے۔
میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اس چال چلن کی لڑکیاں جس چال چلن کی مقتول تھی ، اپنی نوکرانیوں کو راز دان بنالیتی ہیں اور ان کو پیغام رسانی کے واسطے استعمال کرتی ہیں ۔ مجھ کو بتایا گیا تھا کہ گھر کی نوکرانی در اصل مقتولہ کی ذاتی نوکرانی بن گئی تھی اور زیادہ تر اس کے کمرے میں رہتی تھی۔ میں نے اس کی بابت ٹھیکیدار کی بہو سے پوچھا اور اپنا یہ خیال بھی راہ
ظاہر کیا کہ نوکرانی اس کی راز دار ہو گی ۔ بہو نے میرے اس خیال یا شک کی تائید کی اور کہا کہ مقتولہ کی در پردہ زندگی میں اس نوکرانی کا اچھا خاصا عمل دخل ہے۔ بہو نے ایک اور بات بھی بتائی ۔ اس نے ایک جواں : سال آدمی کا نام لیا جو ٹھیکیدار کا خاص ملازم تھا ، وہ زیادہ تر مقتولہ کے پاس آیا کرتا تھا۔ نوکرانی نے ایک بار بہو کو بتایا کہ مقتولہ نے اس کو بڑی سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ جب یہ آدمی اس کے کمرے میں ہو تو وہ کمرے میں نہ آیا کرے۔
یہ ایک نیا شخص تھا جو بہو کی زبانی میرے سامنے آیا۔ میری مختصر سی ڈائری میں اس کا اصل نام لکھا ہوا ہے لیکن میں اس کی بجائے اس کا نام اقبال تحریر کروں گا۔ بہو نے بتایا کہ اس کی عمر چوبیس پچیس سال ہے اور یہ ٹھیکیدار کا خاص ملازم ہے۔ اس کا بالکل مختصر سا ذکر بلکہ اشارہ ساٹھیکیدار نے بھی دیا تھا اور میں نے توجہ نہیں دی تھی۔ یہ شخص اس واسطے میری نگاہ میں اہم ہو گیا کہ بہو کہتی تھی کہ یہ بھی مقتولہ کے زیادہ قریب تھا۔ اس کے ساتھ ہی بہو نے اقبال کی شرافت اور دیانتداری کی بہت ہی تعریف کی ۔ وہ کہتی تھی کہ بڑے ہی ستھرے اور پاکیزہ کردار کا نو جوان ہے۔ میں اس کا تھوڑا سا تعارف ضروری سمجھتا ہوں جو بہو نے مجھے کو بتایا تھا۔ ٹھیکیداری کے کام کی چھوٹی چھوٹی وصولیاں اور ادائیگیاں اقبال کے ہاتھوں ہوتی تھیں ۔ مجھ کو یاد آیا کہ میری جیب میں کاغذ کا چھوٹا سا ایک ٹکڑا پڑا ہے جو مجھ کو مقتولہ کے پلنگ کے قریب سے ملا تھا۔ اس پر کچھ نام اور ان کے آگے رقمیں لکھی ہوئی تھیں
میں نے کاغذ کا یہ ٹکڑا اپنی جیب میں ڈال لیا تھا۔ گھر کا سارا انتظام اور اس کے اخراجات اور باورچی خانے کے اخراجات اقبال کے ہاتھ میں تھے۔ ٹھیکیدار کو اور خود بہو کو بیٹوں پر اتنا اعتبار نہیں تھا جتنا اقبال پر تھا۔ بہو نے ان لفظوں میں تعریف کی تھی کہ اس کے ہاتھ میں ہزاروں کی رقم دے دوخواہ چند آنے دے دو، یہ ایک ایک پائی کا حساب دیتا ہے اور چند روپے جو ٹھیکیدار کو بھی یاد نہ ہوں اور پھر گھر میں بھی ان کا کسی کو خیال نہ ہو، اقبال بتا دیتا ہے کہ فلاں جگہ خرچ ہوئے یا خرچ نہیں ہوئے۔
اور یہ واپس لے لیں۔ ی شخص اقبال چونکہ باہر کا آدمی تھا اور اس کی حیثیت ایک ملازم کی تھی اور اس کا گھر میں عمل دخل بہت زیادہ تھا اس واسطے میں نے ضرورت محسوس کی کہ اس کی بابت ساری معلومات لے لوں۔ بہو نے اس شخص کی بیک گراؤنڈ یہ سنائی کہ اس نے میٹرک پاس کی تو ایک ہندو آڑھتی کے پاس منشی لگ گیا۔ اس کا باپ آرے کی مشین پر کام کرتا تھا۔ یہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور دو بہنیں تھیں ۔ جب ٹھیکیدار کا کام خوب چل پڑا تو اس نے آرے کی دو مشینیں لگوالیں ۔ اقبال کا باپ کسی اور کی مشین پر کام کرتا تھا۔ ٹھیکیدار نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور تنخواہ زیادہ پیش کر کے اپنی مشین پر لگا لیا۔ ایک سال بعد نہ جانے کیسے یہ حادثہ ہو گیا کہ اقبال کے باپ کا بازو آرے میں آگیا اور کہنی کے قریب سے ہڈی بالکل کٹ گئی۔ بدقسمتی یہ کہ یہ دایاں بازو تھا۔ ہڈی کئی بھی ایسی کہ جڑ نہیں سکتی تھی اس واسطے ہسپتال میں وہاں سے بازو کاٹ دیا گیا۔
اقبال کی دو بہنیں تھیں جن کی شادی کے واسطے جہیز ، زیورات اور کپڑے وغیرہ. بنانے تھے لیکن باپ بے کار ہو گیا اور اقبال کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی ۔ ٹھیکیدارا اقبال کو آڑھتی کی نوکری سے ہٹا کر اپنے پاس لے آیا۔ اقبال نے بہت جلدی یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ پوری طرح دیانتدار اور محنتی آدمی ہے۔ ٹھیکیدار نے اس کی تنخواہ خاصی زیادہ مقرر کر دی اور اس کو ایک طرح کا مینجر بنا دیا۔ ورکروں اور دیگر مزدوروں وغیرہ پر وہی نظر رکھتا تھا اور ان کی تنخواہیں اور دیہاڑیاں وہی ادا کرتا تھا۔ پھر ٹھیکیدار نے اس کی دیانت داری کو دیکھتے ہوئے اس کو گھر کے انتظامات بھی دے دیئے اور یہ شخص ایک طرح کا گھر کا فرد بن گیا۔ ٹھیکیدار نے اقبال کو اس قدر قابل اعتماد سمجھا کہ اس کو مقتولہ کا جیسے باڈی گارڈ بنا دیا ہو۔ بہونے ذرا مسکراتے ہوئے کہا کہ ٹھیکیدار نے دراصل اقبال کو جاسوسی کے واسطے مقتولہ کے ساتھ لگا دیا تھا اور مقتولہ کو کہا تھا کہ اس کو وہ اپنا ذاتی ملازم سمجھے ۔ یہ وجہ تھی کہ اقبال مقتولہ کے پاس دن میں ایک آدھ مرتبہ ضرور آتا اور خاصی دیر کمرے میں رہتا تھا۔
بہو کا خیال یہ تھا کہ ٹھیکیدار در اصیل معلوم کرتا رہتا تھا کہ مقتولہ گھر رہتی ہے یا جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے اور گھر میں اس کا رویہ کیا ہے ۔ اقبال ٹھیکیدار کو پوری رپورٹ دیتا تھا ۔ ٹھیکیدار کی بہو کے ساتھ میری اتنی زیادہ باتیں ہو چکی تھیں کہ ہم میں بے تکلفی ہو گئی تھی۔ مجھ کو اس بہو کی بابت یہ اطمینان مل گیا تھا کہ کھل کر بات کرتی تھی اور عقل سے کام لیتی تھی۔ کوئی فضول بات اس کے منہ سے نہیں نکلی ۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وہ میری ہر بات اور میرا ہر سوال تہہ تک سمجھ لیتی تھی ۔ مثلاً میں نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ اقبال بھی آخر تئیس چو میں سال کا جوان لڑکا ہے، مقتولہ نے اس کے ساتھ دوسری قسم کی دوستی لگائی ہوگی۔ بہو میری بات فورا سمجھ گئی ۔ اس نے پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ اس واسطے نہیں ہو سکتا تھا کہ اقبال صرف دیانتدار ہی نہیں تھا بلکہ پکا نمازی بھی تھا اور وہ ٹھیکیدار کا اتنازیادہ احسان مند تھا کہ اس کے ساتھ بے وفائی اوردھوکہ دہی نہیں کر سکتا تھا۔ بہو نے یہ بھی بتایا کہ تین ساڑھے تین مہینے پہلے اقبال کی شادی ہو گئی ہے۔
وہ اپنی بیوی کو دو چار مرتبہ اس گھر میں لایا تھا۔ وہ بہو سے بھی ملی اور مقتولہ کے پاس بھی بیٹھی رہی تھی۔ بہو نے اقبال کا ذکر اس واسطے نہیں کیا تھا کہ اس کو کوئی شک شبہ نہیں تھا کہ اس واردات میں اس کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ بہو نے مجھ کو صرف یہ بتا نا چاہا تھا کہ نوکرانی کے علاوہ اقبال کا مقتولہ کی زندگی میں عمل دخل تھا اور میں مزید کچھ معلوم کرنا چاہوں تو اقبال سے پوچھوں۔ فجر کی اذان ہو چکی تھی اور صبح طلوع ہو رہی تھی ۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ میں نے ٹھیکیدار کی بہو سے کس قدر طویل گفتگو کی تھی۔ مجھ کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد لاش پوسٹ مارٹم کے بعد گھر آجائے گی اور اس گھر میں سارا محلہ اکٹھا ہو جائے گا اور ماتم کی فضا بن جائے گی اس واسطے میرا وہاں ٹھہر نا ٹھیک نہیں تھا۔ لاش آجانے سے میں وہاں کوئی تفتیش نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے نوکرانی سے لمبی پوچھ کچھ کرنی تھی اس واسطے میں نے یہ بہتر سمجھا کہ نوکرانی کو اپنے ساتھ تھانے لے چلوں۔ میں نے ٹھیکیدار کو اندر بلایا اور کہا کہ اس کی نوکرانی کو میں ساتھ لے جا رہا ہوں۔ اس کو یہ بھی کہا کہ وہ کوئی بچہ یا کم عمر آدمی نہیں ، وہ خود بھی جاسوسی اور سراغ رسانی کرتار ہے اور کہیں سے بھی اس کو ذرا سا اشارہ ملے تو فوراً مجھ کو تھانے اطلاع دے۔
ٹھیکیدار نے نوکرانی کو میرے ساتھ بھیج دیا۔ مجھ کو اس کے خاص ملازم اقبال کی سی ضرورت تھی لیکن ابھی باہر کسی کو بھی پتہ نہیں لگا تھا کہ اس گھر میں کیا قیامت ٹوٹی ہے۔ اسی وجہ سے اقبال بھی نہیں آیا تھا۔ اگر آیا ہوتا تو میں اس کو بھی تھانے لے جاتا۔ میں تھانے پہنچا تو صبح کی روشنی سفید ہونے لگی تھی ۔ میں دو بجے کا جاگا ہوا مغز مار رہا تھا اور کچھ آرام کی ضرورت تھی لیکن میں نے آرام کی بالکل نہیں سوچی اور پکا ارادہ کر لیا کہ کسی نتیجے پر پہنچ کر دم لوں گا۔ ایک کانسٹیبل کو اپنے گھر بھیجا کہ میرے واسطے ناشتہ لے آئے ۔ نوکرانی کو میں نے باہر بٹھا دیا تھا اور ایک ہیڈ کانٹیبل کو کہا کہ اس کے واسطے چائے اور ایک بند لے آئے۔ میں خود اپنے دفتر میں یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ قتل کا باعث کیا ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو باعث معلوم کرنا تھا ، یہ معلوم ہو جانے سے قاتل تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
میں دماغ کو لیموں کی طرح نچوڑنے لگا۔ مجھ کو یقین ہو رہا تھا کہ مقتولہ کے ساتھ زیادتی جبری طور پر نہیں ہوئی بلکہ اس میں مقتولہ کی رضا ورغبت شامل تھی۔ یہ بھی پہلے تحریر کر چکا ہوں کہ زبردستی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ مقتولہ کو کمر سے نیچے برہنہ کیا نہیں گیا تھا بلکہ وہ خود بر ہنہ ہوئی تھی ۔ ٹھیکیدار کی بہو نے مقتولہ کے چال چلن کی جو باتیں سنائی تھیں ان کی روشنی میں میری سوچیں کام کر رہی تھیں ۔ سوچنے والی بات یہ تھی کہ ملزم باہر سے آیا تو اس کے واسطے دروازہ کس نے کھولا تھاؤ مقتولہ نے ہی کھولا ہوگا اور یہ اس کا چاہنے والا کوئی دوست یعنی آشنا ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہو ر ہا تھا کہ اس نے قتل کیوں کیا ؟ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ قتل زیادتی کے بعد کیا گیا۔ پھر یہ بھی ایک معمہ تھا کہ اس نے زیورات کے ڈبے اور سنگار میز کی دراز میں کیوں کھولیں ؟ اگر کھولی تھیں تو زیورات اور پرس میں سے اتنی رقم چھوڑ کیوں گیا ؟
یہ خیال بھی آیا کہ ہو سکتا ہے ملزم کے پاس ریوالور یا خنجر تھا اور اس نے مقتولہ کو اس قدر خوفزدہ کر دیا تھا کہ اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور ملزم کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئی۔ مقتولہ کوئی شریف لڑکی تو تھی نہیں کہ اس کو اپنی عصمت کا اتنا زیادہ خیال ہوتا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ملزم نے چہرہ نقاب یا منڈا سے میں چھپا رکھا ہو اور کسی طرح چہرہ نگا ہو گیا اور ملزم کی شناخت ہو گئی۔ اس صورت میں ملزم نے مقتولہ کو قتل کر دینا ضروری سمجھا لیکن پھر وہی بات سامنے آگئی کہ ملزم آیا کس طرف سے تھا۔ اگر وہ بیٹھک کے دروازے سے آیا تھا تو دروازہ مقتولہ نے ہی کھولا ہوگا۔ وہ اس کی منتظر ہوگی ۔ اس صورت میں یہ ملزم کوئی غیر یا ایسا شخص نہیں تھا جس کو مقتولہ نہیں جانتی تھی ۔ پھر وہی سوال کہ ملزم اتنا قیمتی مال چھوڑ کیوں گیا ؟ یہ خیال بھی آیا کہ وہ جو کوئی بھی تھا اس کو معلوم تھا کہ آج رات ٹھیکیدار گھر میں نہیں ۔ ہو سکتا ہے مقتولہ کو معلوم تھا کہ ٹھیکیدار رات پھیلی گاڑی سے آئے گا۔ یہ کوئی اس کا اپنا آشنا ہو گا جس کو اس نے بلایا تھا۔ اس خیال کے آگے پھر اندھیرا آ گیا کہ وہ آشنا ہی تھا۔
تو وہ مقتولہ کو قتل کیوں کر گیا ؟ ایک اور امکان دماغ میں آیا۔ وہ یہ کہ مقتولہ کا آشنا بیٹھک سے واپس نکل رہا تھا تو ٹھیکیدار کے کسی بیٹے نے اس کو دیکھ لیا۔ وہ آدمی تو نکل گیا اور بیٹا بیٹھک سے مقتولہ کے بیڈ روم میں آ گیا۔ اس نے مقتولہ کو اس حالت میں دیکھ لیا۔ مقتولہ نے ابھی اپنے آپ کو سنبھالا نہیں تھا۔ بیٹے نے غصے سے پاگل ہو کر مقتولہ کا گلا دبوچ لیا اور اس کو مار ڈالا ۔ یہاں پھر بکھرے ہوئے زیورات میرے سامنے آگئے ۔ اگر بیٹا ہی قاتل تھا تو اس نے سنگار میز کی درازین کیوں کھولیں اور زیورات بکھیرے کیوں؟
پھر یہ امکان بھی دماغ میں آیا کہ مقتولہ نے در پردہ تعلقات ٹھیکیدار کے درمیانے بیٹے یا اس سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ بنا رکھے ہوں گے ۔ ان میں سے کوئی بیٹھک کی طرف سے مقتولہ کے بیڈروم میں آیا۔ وہاں سے جب نکل رہا تھا تو بڑے بھائی نے دیکھ لیا جو مولوی ٹائپ تھا اور مذہب کے معاملے میں بڑا ہی سخت تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو تو چھوڑ دیا لیکن بیڈ روم میں آکر مقتولہ کا گلا گھونٹ دیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ فساد کی جڑ یہ شیطان عورت ہے، اس کو دنیا کے تختے سے اٹھا دیا جائے۔ ایسا ممکن ہو سکتا تھا لیکن اس مولوی ٹائپ بھائی نے زیورات الٹ پلٹ کیوں کئے ؟ زیورات اور رقم کا سوال مجھ کو بار بار پریشان کرتا تھا۔ میں نے اس پر غور کیا تو یہ سوچ آئی کہ یہ حق ٹھیکیدار کو حاصل تھا کہ وہ مقتولہ کے زیورات اچھی طرح دیکھے اور اس کا پرس بھی کھول کر چیک کرے۔ اس سوچ سے مجھ کو یہ امکان نظر آیا کہ ٹھیکیدار ریل گاڑی سے اتر کر گھر آیا تو بیٹھک کا دروازہ کھلا دیکھا۔ دبے پاؤں بیڈ روم تیک گیا تو بیوی کو ایسی حالت میں دیکھا جیسے اس کے پاس کوئی اس کا دوست آشنا آیا تھا۔ ٹھیکیدار نے غصے میں آ کر اس کو پلنگ پر گرایا یا کھڑے کھڑے اس کا گلا گھونٹ دیا اور پلنگ پر ڈال دیا۔ پھر ٹھیکیدار نے دیکھا ہو گا کہ مقتولہ نے اپنے زیور کی کوئی چیز یا کچھ پیسے اپنے دوست کو دیے ہوں گے ۔ ایسے ہی اس کی یہ ساری اشیاء کھول کر دیکھی ہوں گی ۔ اس کے بعد اس نے اپنے بیٹوں کو بلا کر بتایا کہ مقتولہ کو کوئی قتل کر گیا ہے۔
میں ان امکانات پر غور کرتارہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ زبر دستی والا معاملہ نہیں تھا۔ بات ساری آشنائی کی تھی اور کچھ گڑبڑ ہوگئی جس کے نتیجے میں مقتولہ قتل ہو گئی ۔ ابھی تو میں نے اپنے مخبروں سے رپورٹیں لینی تھیں۔ مقتولہ کی سرگرمیاں بہر حال خفیہ اور پُر اسرار تھیں ۔ میں نے نوکرانی کو اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا۔ غریب عورت کچھ گھبرائی ہوئی تھی ۔ اس کو تسلیاں دیں اور حوصلہ افزائی کی۔ یہ بھی کہا کہ وہ کوئی بات چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ بڑے لوگوں کے گناہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اکثر ان کی سزا چھوٹے چھوٹے لوگوں کو ملتی ہے۔ میں نے اس کو یہ گھسے پٹے لفظ بھی کہے کہ کسی کو پتہ نہیں لگنے دیا جائے گا کہ اس نے میرے ساتھ کیا باتیں کی ہیں۔
میں نے اس سے ایک دو باتیں پوچھیں ، چھوٹے چھوٹے ایک دو سوال کئے اور کچھ باتیں اس نے از خود ہی بتا دیں، اس طرح جو معلومات حاصل ہوئیں وہ یوں تھیں کہ اس نوکرانی کو ٹھیکیدار نے کہا تھا کہ وہ نئی بیوی کا زیادہ خیال رکھا کرے اور زیادہ وقت اس کی خدمت خاطر میں لگایا کرے۔ مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مقتولہ کی ملازمہ سمجھے ۔ اس نوکرانی کو میں نے غور سے دیکھا اور اس کا بولنے کا انداہ دیکھا تو میں نے یہ رائے قائم کی کہ دکھاوے کے لیے بھولی اور سیدھی سادی بنی ہوئی ہے۔ ویسے اچھی خاصی چالاک اور جہاندیدہ عورت تی۔ میں نے کچھ باتیں واردات سے ہٹ کر بے تکلفی سے کیں تو وہ
میرے ساتھ ذرا اور فری ہوگئی۔ اس نے بتایا کہ مقتولہ نے اس کو پیسے دینے شروع کر دیئے اور اس کو اپنے ساتھ ہے تکلف کر لیا۔ نوکرانی نے مجھے کو صاف لفظوں میں کہا کہ وہ بچی تو نہیں تھی کہ کچھ نہ بجھتی ، وہ سمجھے گئی کہ مقتولہ اس کو اپنے خفیہ کاموں میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔
نوکرانی نے یہ خاص طور بتایا کہ مقتولہ ٹھیک چال چلن کی لڑکی نہیں تھی اور اس کی یہ تربیت اس کی ماں نے کی تھی۔ اس کے باپ کی بابت نوکرانی نے بتایا کہ لانچی اور دھو کہ فریب کرنے والا آدمی ہے لیکن بالکل غریب اور مسکین بنارہتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کہاں تک صحیح ہے کہ مقتولہ یہاں سے پیسے اڑا کر اپنے ماں باپ کو دیا کرتی تھی ؟ دوسروں کو شک ہوگا۔ نوکرانی نے جواب دیا۔ ” مجھ کو شک نہیں ، مجھے کو تو یقین ہے۔ یقین اس طرح ہے کہ کئی بار بی بی ( مقتولہ ) نے مجھ کو پیسے دیئے اور کہا کہ یہ اس کی ماں کو دے آؤں۔ ٹھیکیدار صاحب کو تو پتہ ہی نہیں کہ ان کی جیب میں کس طرح دولت آتی ہے اور یہ کدھر جارہی ہے۔ اس گھر میں دولت کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ٹھیکیدار صاحب کو کبھی شک بھی نہیں ہوا کہ ان کی نئی دلہن نے نہر کا رخ کدھر کو پھیرا ہوا ہے”۔ ا میں نے نوکرانی کو شاباش دی اور خوب حوصلہ افزائی کر کے کہا کہ وہ اگر پیسے اس کی ماں تک پہنچاتی رہی ہے تو پھر مقتولہ کے دوستوں کو اس کے پیغام بھی پہنچاتی ہوگی۔ نوکرانی اب بولنے پر آگئی تھی۔ اس نے بڑے صاف لفظوں میں بتایا کہ یہ تو اس کا ایک خاص اور خفیہ کام تھا جس کا اس کو مقتولہ سے بہت انعام ملتا تھا۔ اس نے مقتولہ کے محلے کے ایک نو جوان آدمی کا نام لے کر بتایا کہ شادی سے پہلے مقتولہ کی اس کے ساتھ دوستی چل رہی تھی ۔
یہ پاک محبت والی دوستی نہیں تھی بلکہ یہ ناپاک تعلقات والا معاملہ تھا۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ ان کی شادی ہو جائے گی۔ دونوں ایک ہی ذات اور برادری کے تھے لیکن ٹھیکیدار کو یہ لڑکی اتنی اچھی لگی کہ اس کے باپ سے رشتہ مانگا اور باپ نے بیٹی ٹھیکیدار کے – اتمی بیاہ دی۔ میرے کہنے پر نوکرانی نے بتایا کہ یہ تو سب کہتے ہیں کہ ٹھیکیدار نے لڑکی کو منہ مانگی قیمت دے کر خریدا ہے۔
نوکرانی نے خاص بات یہ بتائی کہ مقتولہ کے اس دوست کے ساتھ تعلقات شادی کے بعد بھی چلتے رہے تھے۔ ٹھیکیدار کو تو مقتولہ اپنا صرف شرعی خاوند بجھتی تھی، عملاً اس کا خاوند یہ دوست تھا۔ نوکرانی نے بتایا کہ ٹھیکیدار آٹھ دس دنوں بعد ایک دو راتیں باہر رہتا تھا۔ وہ ٹھیکیداری کے سلسلے میں بڑے شہر چلا جایا کرتا تھا۔ اس کی غیر حاضری میں مقتولہ اپنے دوست کر رت کے وقت اپنے گھر یعنی ٹھیکیدار کے گھر بلایا کرتی تھی ۔ پیغام نوکرانی نے جاتی تھی۔ دوست محموماً آدمی رات سے ذرا پہلے آیا کرتا تھا اور اپنے آنے کی اطلاع اس طرح دیتا تھا کہ پہلو والی چھوٹی گلی میں آ کر باہر دیوار پر چھوٹا سا پتھر اٹھا کر یا کوئی اور سخت چیز دو تین بار مارتا تھا۔ بیڈ روم کی دیوار اس گلی کی طرف تھی ۔ ٹک ٹک کی آواز بیڈ روم میں سنائی دیتی تھی ۔ مقتولہ اپنے دوسرے کمرے میں سے گزر کر بیٹھک میں جاتی اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر دوست کو اندر لے آتی تھی۔ اس کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ اندر سے کوئی بیڈ روم میں آجائے گا۔ اس کے کمرے میں تو دن کے وقت بھی کوئی نہیں آتا تھا۔ ٹھیکیدار کی بہو نے ٹھیک کہا تھا کہ مقتولہ نے اپنی الگ تھلگ ایک زندگی بنارکھی تھی ۔
پھر مقتولہ کے اس دوست کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد بھی مقتولہ اس کو بلاتی رہی اور وہ آثار ہا لیکن ایک روز دوست نے اچانک مقتولہ کے ساتھ یہ تعلق توڑ دیا۔ یہ چھ سات مہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ مقتولہ نے نوکرانی کو کہا کہ وہ اس کے دوست کو کہے کہ آج رات آجائے بہ نوکرانی دوست سے ملی اور پیغام دیا۔ دوست نے صاف لفظوں میں کہا کہ اس کو کہہ دو کہ آج سے ہمارا تعلق ختم ہے اور آئندہ کبھی مجھ کو نہ بلائے ۔
یہاں مجھ کو شک ہوا کہ یہ رقابت والا معاملہ ہو گا۔ رقابت بھی اتنی شدید ہو گی جس کا نتیجہ قتل کی واردات کی صورت میں سامنے آیا۔ میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ اس دوست کے علاوہ مقتولہ کا کوئی اور دوست ہوگا۔ نوکرانی نے کہا کہ مقتولہ کا چال چلن کچھ ایسا ہی تھا لیکن وہ اس کے کسی اور دوست کو نہیں جانتی نہ اس نے اس کو کبھی کسی اور شخص کے پاس بھیجا تھا۔ اس کے بعد ٹھیکیدار کا خاص ملازم اقبال تھا جو مقتولہ کے کمرے میں آتا جاتا تھا۔ نوکرانی نے وہی خیال ظاہر کیا جو ٹھیکیدار کی بہو میرے ساتھ کر چکی تھی۔ وہ یہ کہ ٹھیکیدار نے اقبال کو مقتولہ پر جاسوس مقرر کیا تھا کہ اس کی نگرانی کرتا رہے اور اگر یہ کوئی خفیہ حرکت کرے تو ٹھیکیدار کو بتائے۔ ظاہری طور پرٹھیکیدار نے یہ ظاہر کیا تھا کہ اقبال کو اس نے مقتولہ کی خدمت پر مامور کیا تھا۔
میں نے نوکرانی کو کہا کہ سنا ہے جب اقبال مقتولہ کے کمرے میں ہوتا تھا تو اس کو یعنی نوکرانی کو بھی کمرے میں جانے کی ممانعت تھی … نوکرانی نے میرے اس سوال کا جواب بھی خوب کھل کر دیا۔ اس نے بتایا کہ ایک روز اقبال مقتولہ کے کمرے میں تھا کہ نوکرانی اندر چلی گئی۔ نوکرانی نے دیکھا کہ اقبال کو مقتولہ نے اپنے بازوؤں میں لے رکھا تھا اور دونوں کے منہ جڑے ہوئے تھے ۔ نوکرانی کو دیکھ کر مقتولہ نے اس کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ جب اقبال اس کے کمرے میں ہو تو وہ کمرے میں نہ آیا کرے۔ اقبال چلا گیا تو مقتولہ نے نوکرانی کو بلایا اور اس کا منہ بند کرنے کے واسطے اس کو کچھ پیسے دیئے۔ نوکرانی کا منہ تو بند ہی رہنا تھا۔ اس کو تنخواہ کے علاوہ مقتولہ سے پیسے ملتے رہتے تھے ۔ غریب عورت کی یہی ضرورت تھی۔ اس کی تو بالائی آمد نی لگی ہوئی تھی۔ سنا ہے اقبال کا اس گھر پر بہت ہی اعتماد ہے۔ میں نے کہا۔ ” گھر کا ہر فرد کہتا ہے کہ اقبال بہت ہی شریف اور دیانتدار آدمی ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ نوکرانی نے کہا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال دیانتدار آدمی ہے اور ایک پیسے کا بھی دھوکہ نہیں دیتا اور اس کے خلاف کسی کو کوئی شکایت نہیں۔ یہ جو میں نے آپ کو سنایا ہے کہ اقبال کو بی بی کے کمرے میں کس حالت میں دیکھا تھا، یہ سب بی بی کی کرتوت ہے۔ اس کا چال چلن کچھ ایسا ہی تھا۔ اقبال کا اخلاق ایسا ہرگز نہیں۔
باتیں ہوتی رہیں اور اس دوران نوکرانی نے بتایا کہ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ مقتولہ اقبال کو بھی فالتو پیسے دیتی رہتی ہے۔ عید پر اقبال کو اس نے بڑھے اچھے کپڑے سلوا دئیے تھے اور ان سردیوں کے شروع میں اس کو ایک نئی اور قیمتی جرسی لے دی تھی۔ ایسی جرسی ٹھیکیدار کے بیٹے ہی پہن سکتے ہیں۔ میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ مقتولہ اقبال کو رات کے وقت اپنے بیڈ روم میں بلاتی ہو گی۔ نوکرانی نے بتایا کہ مقتولہ نے اس کو کبھی نہیں کہا تھا کہ اقبال کو کہنا کہ آج رات آ جائے۔ بہر حال نوکرانی کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا نہ وہ یقین کے ساتھ کچھ کہہ سکتی تھی ۔ پھر میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ ٹھیکیدار کے بیٹوں میں سے کوئی مقتولہ کے ساتھ اتنا بے تکلف ہوگا اور اس کے کمرے میں آتا جاتا رہتا ہوگا اور کبھی مقتولہ نے نوکرانی کو کہا ہوگا کہ وہ فلاں لڑکے کو اس کے پاس بھیج دے۔
نوکرانی نے وہی جواب دیا جو ٹھیکیدار کی بہو سے میں پہلے ہی سن چکا تھا۔ بڑا بیٹا تو نمازی پرہیز گار آدمی تھا اور وہ مقتولہ کے ساتھ بولتا چالتا ہی نہیں تھا۔ سب سے سے چھوٹے بیٹے کا رویہ بھی یہی تھا البتہ درمیانے بیٹے کی بابت نوکرانی نے کہا کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں پھر بھی اس نے اس لڑکے کو مقتولہ کے کمرے میں بیٹھے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لڑکے پر اس وجہ سے شک کیا جا سکتا تھا کہ اخلاقی لحاظ سے وہ اپنے بھائیوں سے بہت مختلف تھا۔ آوارہ سالڑ کا تھا اور آزاد خیال بھی تھا۔ میں ابھی نوکرانی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا کہ ٹھیکیدار کے تینوں بیٹے بڑے غصے کی حالت میں میرے دفتر میں داخل ہوئے ۔ وہ ہسپتال سے آرہے تھے ۔ میں نے ان کو ایک خاص ٹسٹ کے واسطے بھیجا تھا۔
یہ ٹسٹ تو لاہور میں ہونا تھا لیکن یہاں کے ڈاکٹر نے ان کے جسموں سے کچھ مواد لیتا تھا۔ پوسٹمارٹم ہو چکا تھا اور یہ تینوں فارغ ہو کر سید ھے میرے پاس آگئے ۔ وہ احتجاج اور غصے سے بھرے ہوئے تھے ۔ میں نے ان سے اس ناراضگی کی
وجہ پوچھی ۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ میں نے ان کو مشتبہ سمجھا ہے اور اس واسطے ڈاکٹر کے پاس اس ٹسٹ کے واسطے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مینوں بھائیوں میں سے کسی نے بھی کبھی مقتولہ سے منہ بھی نہیں لگایا تھا اور ان پر بڑا ہی تو ہین آمیز اور شرمناک شک کیا گیا اور ڈاکٹر کے پاس بھیجا گیا۔ دو کیا ہمارے والد صاحب نے ہمارے خلاف شک کیا ہے؟“۔ درمیانے بیٹے
نے پوچھا۔ میں نے نوکرانی کو باہر بیٹھا دیا اور ان تینوں بھائیوں کو بٹھایا۔ میں ان کے غصے کے جواب میں غصہ نہیں جھاڑنا چاہتا تھا۔ ان کو ٹھنڈا کرنے کا ارادہ تھا۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ ٹھیکیدار گھر آیا تو اپنی بیوی کو مرا ہوا دیکھ کر اس نے تینوں کو بلایا اور یہ شک کیا کہ ان تینوں میں سے کسی نے اس کو قتل کیا ہے اور وہ بتادے۔ اس وقت بھی ان کو غصہ آیا تھا لیکن باپ پر وہ غصہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
میں نے ان کو سمجھایا کہ ان کے باپ نے میرے آگے ان پر شک ظاہر نہیں کیا اور یہ تفتیش کا معمول ہے کہ تفتیش کرنے والے کے ذہن میں جو آتا ہے اس کی وہ پوری طرح تسلی کر لیتا ہے۔ مختصر بات یہ کہ میں نے ان کو بہت کچھ کہ سن کر ٹھنڈا کر لیا۔ یہ میں نے اس واسطے کیا کہ ان سے کچھ باتیں معلوم کرنی تھیں ۔ یہ باتیں وہی تھیں جو میں ٹھیکیدار کی بہو اور نوکرانی سے پوچھ چکا تھا۔ امید تھی کہ شاید کوئی اور بات سامنے آجائے یا کم از کم ان تین بھائیوں کی بابت ہی کچھ اندازہ ہو جائے کہ مقتولہ کی بابت ان کے خیالات کیا ہیں ۔ یہ میں آپ کو مختصر بتا دیتا ہوں تفصیلی باتیں پہلے تحریر کر دی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ مقتولہ کے ساتھ ان کا کوئی لڑائی جھگڑا اور کوئی تنازعہ نہیں تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ مقتولہ . نے اس گھر میں آکر کبھی یہ دعویٰ کیا ہی نہیں تھا کہ وہ اس گھر میں مالک ہے اور اس کا حکم چلے گا۔ ٹھیکیدار کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تو گھر کا کام کاج ، باورچی خانہ اور دیگر انتظامات بڑے بیٹے کی بیوی نے سنبھال لئے جس میں مقتولہ نے کبھی دخل اندازی نہیں کی تھی اور نہ کبھی ایسی فرمائش کی تھی
کہ آج وہ فلاں چیز کھانا چاہتی ہے وغیرہ۔ سیدھی بات ہے صاحب! بڑے بیٹے نے کہا۔ ”یہ لڑکی ہمارے باپ کی بیوی نہیں داشتہ تھی اور ہم اس کو اپنی سوتیلی ماں سمجھتے ہی نہیں تھے۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اس نے ہم تینوں کے ساتھ فری ہونے کی کوشش کی تھی ۔ ہم تینوں جانتے تھے کہ یہ اچھے چال چلن کی لڑکی نہیں“۔ اس کے ساتھ ہماری دوستی بھی نہیں تھی دشمنی بھی نہیں تھی۔ درمیانے بھائی نے کہا۔ اصل قصور تو ہمارے جناب والد صاحب کا ہے جنہوں نے اس عمر میں اس نو عمر لڑکی کے ساتھ شادی کی اور یہ بھی نہ دیکھا کہ لڑکی بدنام ہے۔ اس لڑکی کا ایسا قصور ہرگز نہیں کہ اس نے زبر دستی آکر ہمارے والد صاحب پر قبضہ کر لیا تھا۔ قصور ہمارے باپ کا تھا جس نے اس لڑکی کو خریدا اور اس سے بڑا قصور وار لڑ کی کا باپ ہے جس نے ہمارے باپ سے رقم وصول کی۔
نوکرانی نے میرے دل میں اقبال کی بابت شک ڈال دیا تھا۔ میں نے ان تینوں بھائیوں سے اقبال کی بابت پوچھا۔ تینوں بھائی جیسے بیک زبان بول اٹھے کہ اقبال ایسا آدمی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیج ہے کہ وہ زیادہ دیر مقتولہ کے کمرے میں رہتا تھا لیکن وہ سو فیصد دیانتدار اور وفادار آدمی ہے۔ وہ بیچارہ تو اپنے گھر کی ضروریات کی خاطر دن رات اس نوکری میں مصروف رہتا ہے۔ بھائی نے کہا کہ اقبال اپنی نوکری کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔ اکیلا کمانے والا ہے۔ باپ معذور اور بہنیں شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ان تینوں بھائیوں نے جو شور شرابہ اور احتجاج کیا تھا وہ اگر کوئی اور سنتا تو فورا فتویٰ دے دیتا کہ یہ تو بالکل ہی بے گناہ ہیں اور اپنے خلاف معمولی سے شک کو بھی اپنی تو ہین سمجھتے ہیں لیکن میرا دماغ ایک عام آدمی کا دماغ نہیں بلکہ پولیس آفیسر کا دماغ تھا۔ اصل مجرم اسی طرح شور شرابا کر کے یا آنسو بہا کر یا جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ظاہر کیا کرتے ہیں ۔ بعض بے گناہی کی ایکننگ بڑی ہی مہارت سے کرتے ہیں ۔ میں ان تینوں کی باتوں اور احتجاج سے ایسا نہیں کر سکتا تھا کہ ان کو اسی طرح چھٹی دے دیتا۔ میں نے اپنا شک رفع کرنا تھا۔ ان کو مزید ناراض بھی نہیں کرنا تھا۔
میرے پاس ایک اور ذریعہ تھا۔ میں نے ایک ہیڈ کانسٹیبل کو سنگار میز، اس کی درازوں اور ٹین کی چھوٹی سی صندوقچی سے فنگر پرنٹ (انگلیوں کے نشان) اتارنے کا کام دیا تھا۔ یہ کام اس نے کر لیا تھا اور میں نے دیکھا کہ انگلیوں کے بڑے صاف نشان ہمارے خاص کا غذ پر منتقل ہو گئے تھے۔ میں نے ان تینوں بھائیوں سے کہا کہ میں ایسا بندو بست کر رہا ہوں کہ ان کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی اور کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا ۔ ان کو کہا کہ وہ کورے کاغذ پر اپنی پانچوں انگلیوں کے نشان لگا دیں۔ انہوں نے کچھ پس و پیش کی ۔ میں نے ان کو کہا کہ یہ انہی کے فائدے میں ہے۔ بہر حال میں نے تینوں کے انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشان الگ الگ کاغذ پر لے لیے۔ اصل نشانات اور ان بھائیوں کے لئے ہوئے نشانات کو معائنے اور رپورٹ کے واسطے پھلور جانا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ مجھ کومل گئی تھی ۔ ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ مقتولہ کا گلا گھونٹ کر اس کو مارا گیا ہے۔ یہ بھی لکھا تھا کہ مرنے سے پہلے مقتولہ کی آبروریزی ہوئی ہے۔ موت کا وقت رات گیارہ بجے لکھا گیا تھا۔ ٹھیکیدار کی انگلیوں کے نشانات بھی لینے تھے لیکن میں نے سوچا کہ اس کو بیوی کی لاش واپس مل گئی ہے اور وہ کفن دفن کے انتظامات میں مصروف ہو گا۔ اس کو میں نے دن کے پچھلے پہر تھانے بلانا تھا۔ میں نے ان بھائیوں کو رخصت کر دیا۔ تینوں میرے دفتر سے نکلے لیکن درمیان والا بھائی برآمدے سے واپس آگیا اور میرے سامنے آن بیٹھا ۔ اس . نے کہا کہ وہ میرے ساتھ تھوڑی سی الگ تھلگ بات کرنا چاہتا ہے۔
میں یہ بات اپنے بھائیوں کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے کہا۔ ہمارے باپ کی اس بیوی نے مجھ کو پھانسنے کی انتہا درجے کوشش کر ڈالی تھی لیکن میں نے اس کو لفٹ نہیں کرائی ۔ ہماری امی فوت ہو گئی تو اس لڑکی نے اپنی کوششیں تیز کر دیں ۔ کبھی تو موقع دیکھ کر میرے کمرے میں آجاتی تھی یا مجھ کو اپنے کمرے میں بلاتی رہتی تھی ۔ میں دو تین مرتبہ اس کے کمرے میں چلا گیا تو اس نے بڑے ہی جذباتی اور پیارے سے انداز میں میرے ساتھ محبت کا اظہار کیا۔ میں اس محبت کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ میں نے تو یہاں تک سوچا تھا کہ اپنے والد کو بتا دوں لیکن اس واسطے چپ رہا کہ یہ بڑی چالاک اور فریب کارلڑکی ہے، کہیں ایسا نا تک نہ کھیل جائے کہ مجھے کو لینے کے دینے پڑ جائیں ۔ آخر میں نے بڑی سختی سے اس کو دھتکار دیا حالانکہ میں کوئی شریف آدمی نہیں ۔ میرے بارے میں آپ کسی سے بھی پوچھیں گے تو وہ یہی بتائے گا کہ یہ لڑکا اچھے کردار والا نہیں ، عیاش اور آوارہ طبع بندہ ہے. میں نے آپ کو حقیقت بتادی ہے، آپ اپنا شک رفع کرلیں۔ یہاں میں پھر کہوں گا کہ وہ تو بات کر کے چلا گیا جیسے مجھ کو اس نے اپنی بات سے قائل کر لیا ہو لیکن میرے دماغ میں شک قائم رہا۔ یہ شک کسی ثبوت یا قابل اعتماد شہادت کے بغیر رفع نہیں ہو سکتا تھا۔
تینوں بھائی چلے گئے تو میں نے نوکرانی کو پھر بلایا۔ اسے کہا کہ وہ کسی کو نہ بتائے کہ اس کی میرے ساتھ کیا با تیں ہوئی تھیں ۔ اس کو بھی رخصت کر دیا۔ بھائیوں کے پیچھے پیچھے میں نے ایک کانسٹیبل کو یہ کہہ کر دوڑا دیا کہ وہ ٹھیکیدار کے گھر جائے اور اس کے ایک ملازم اقبال کو اپنے ساتھ لے آئے ۔ مجھ کو معلوم تھا کہ اب اقبال ٹھیکیدار کے ساتھ ہی ہو گا۔ کانسٹیبل کو میں نے خاص طور پر یہ بات کہی کہ یہ تینوں بھائی جا رہے ہیں، خیال رکھنا کہ ان کی اقبال کے ساتھ کوئی بات نہ ہو سکے ۔ کہنا کہ اس کو بہت جلدی تھانے جانا ہے۔ جیسا کہ ایسی وارداتوں میں ہوتا ہے کہ ادھر واردات ہوئی ادھر ایک دوخوشامدی قتسم کے معزز افراد اپنے نمبر بنانے کے واسطے تھانیدار کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اندر کی خبر میں سناتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر بڑی کارآمد باتیں بتا جاتے ہیں اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو محض چغل خور ہوتے ہیں۔ میں جب کانسٹیبل کو بھیج چکا تو ایسا ہی ایک بظاہر معزز آدمی آگیا ۔ اس کو دیکھ کر مجھ کو خوشی ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کوئی کارآمد بات معلوم ہو جائے گی ۔ مجھے کو یہ بھی معلوم تھا کہ ٹھیکیدار چونکہ دولت مند آدمی ہے اور وہ آدھے راستے میں آکر دولت مند بنا ہے اس واسطے قصبے میں اس کے حاسد بھی موجود ہوں گے ۔
میں نے اس شخص کا بڑا خندہ پیشانی سے استقبال کیا ، بٹھایا اور پوچھا کہ وہ کس طرح آیا ہے اور میں اس کی کیا خدمت کروں۔ یہ میں رسمی طور پر کہہ رہا تھا، مجھ کو تو معلوم تھا کہ وہ کیوں آیا ہے۔ وہ ہو گیا ہے جو سب کو معلوم تھا ہوگا اس شخص نے کہا۔ ٹھیکیدار کو دولت نے اندھا کر دیا تھا، یہ بھی نہ سوچا کہ کم سن لڑکی کو ہی گھر لانا ہے تو کسی عزت دار گھرانے کی لڑکی لاتا۔ لڑکی بھی ایک بے غیرت خاندان کی لایا اور لڑکی نے ٹھیکیدار کے گھر میں چکلا کھول لیا۔ اس لڑکی کی ماں ابھی تک اپنے آپ کو چلاتی ہے۔ ٹھیکیدار کو اسی عورت نے پھانسا اور لڑکی دے کر رقم وصول کی تھی ۔ اب وہ لڑکی کو چلا رہی ہے۔
چوھدری صاحب! میں نے کہا۔ یہ باتیں تو مجھ کو معلوم ہو چکی ہیں، آپ یہ بتائیں کہ مقتولہ نے اپنے خاوند کے گھر میں چکلا کھول لیا تھا تو اس کے گاہک کون کون تھے اور وہ گاہک کون ہو سکتا ہے جولڑ کی کو قتل کر گیا ؟“
مجھ کو تھوڑی سی مہلت دیں۔ اس نے کہا ” میں آپ کو دو چار نام بتاؤں گا۔ یہ ہن میں رکھ لیں کہ مقتولہ کی ماں کی چور ہے اور یہی عادت مقولہ میں تھی ۔ آپ ابھی اس تھانے میں تعینات نہیں ہوئے تھے ۔ اس عورت نے ایک چوری کی تھی اور مال اس کے گھر سے برآمد ہوا تھا۔ کچھ بھلے لوگوں نے بیچ بچاؤ کر کے یہ معاملہ تھانے میں نہیں آنے دیا تھا۔ اس لڑکی کے قصے تو بہت ہی مشہور ہیں ۔ میں نے یہ سنا کہ مقتولہ میں ماں والی چوری کی عادت تھی تو مجھ کو یہ شک ہوا کہ یہ جو اس کے زیورات بکھیرے گئے اور سنگار میز کی تلاشی لی گئی تو یہ اس لیے کیا گیا ہو گا کہ گھر میں کوئی چیز چوری ہوگئی ہوگی اور ٹھیکیدار کے بیٹوں نے مقتولہ کی یہ اشیاء اور دراز میں اچھی طرح دیکھی ہوں گی لیکن یہاں سوال پھر سامنے آتا ہے کہ اس کو بے آبرو کیا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا۔ کیا یہ اس کو سزا دی گئی تھی؟ یہاں سے آگے مجھے کو پھر اندھیر انظر آتا تھا، بہر حال میں نے اس شک کو اپنے دماغ میں محفوظ کر لیا۔ اس معزز مخبر اور خوشامدی نے اس کے بعد جتنی باتیں کہیں وہ محل حسد تھا جس کا وہ اظہار کر رہا تھا۔ ٹھیکیدار کو دو زبر دست پائی اور نہ جانے کیا کیا ثابت کر رہا تھا۔ وہ ابھی رخصت ہونے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اتنے میں میرا بھیجا ہوا کا نشیبل اقبال کو لے کر آ گیا۔ اقبال کو باہر بٹھا کر وہ میرے دفتر میں آیا اور اطلاع دی۔
میں نے اس معزز آدمی کو چلتا کیا۔ ایک خاص بات سن لیں صاحب !“ کا نشیبل نے مجھ کو کہا۔ ”میں جس شخص اقبال کو ساتھ لایا ہوں، اس پر مجھ کو کچھ شک ہو گیا ہے۔ تھانے آنے سے تو ہر کوئی گھبراتا ہے لیکن اس کی گھبراہٹ دیکھنے والی تھی۔ میں نے ٹھیکیدار کے گھر کے باہر اس کو کہا کہ تھانے چلو تو اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور منہ کھل گیا پھر اس طرح لگا جیسے اس پر غشی آ جائے گی۔ میرے ساتھ چل تو پڑا لیکن اس سے چلا نہیں جا تا تھا اور منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی ۔ راستے میں اس نے مجھ کو روک لیا اور کہنے لگا کہ میں تمہیں پیسے دوں گا تم یہ بتاؤ کہ مجھ سے تھانیدار کیا پوچھے گا اور میں کیا جواب دوں ۔ میں نے اس کو تسلی دی تو پھر یہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ وہ لوگ جو جرم کرتے ہیں وہ تھانے میں کس طرح کا بیان دیتے ہیں ۔ اس نے پھر کہا کہ میں تمہیں بہت پیسے دوں گا، مجھ کوٹھیک بتاؤ کہ میں تھانیدار صاحب کے ساتھ کس طرح بات کروں … یہ تھانے تک مجھ سے یہی پوچھتا آیا اور میں اس کو حوصلہ اور تسلی دیتا رہا۔ مجھ کو اس پر بڑا شک ہے ۔ یہاں میں ایک بات کہتا ہوں ۔ آج کل کے کانٹیل آپ نے دیکھے ہوں گے ۔ میں . ان کو دیکھتا ہوں تو اس طرح لگتا ہے جیسے یہ لوگ پولیس کے محکمے کے واسطے ہی نہیں بلکہ جو وردی انہوں نے پہنی ہوئی ہوتی ہے اس وردی کے واسطے بھی یہ سراسر تو ہین کے مجسمے ہوتے ہیں۔ یہ کانٹیبل اپنی وردی کی بے ادبی کرتے ہیں۔
ہمارے وقتوں میں ایسے کانسٹیبل ہوا کرتے تھے جو اپنے کام میں مہارت رکھتے تھے اور میں تو یہاں تک کہوں گا کہ آج کل کے تھانیداروں سے زیادہ سیانے اور تجربہ کار ہوتے تھے ۔ اپنا کچھ وقار بھی رکھتے . تھے۔ میرا یہ کانسٹیبل ایسے ہی کانٹیبلوں میں سے تھا۔ اس نے اقبال کی باتیں غور سے سنیں ور اس کا انداز اور رویہ دیکھا تو اس نے مجھ کو بتا دیا کہ یہ شخص بہت ڈرپوک ہے یا واردات کے ساتھ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ اس کو اندر بھیج دو۔ کانسٹیبل باہر نکلا تو ایک دو منٹ بعد ایک خوبرو جوان، دروازے میں آن کھڑا ہوا۔ مجھ کو اس کا قد کاٹھ بڑا اچھا لگا لیکن سر آگے کو جھکا ہوا اور کندھے بھی کچھ سکیٹرے ہوئے تھے۔ اس کی بابت کانسٹیبل نے مجھ کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ اگر یہ نو جوان سیدھا کھڑا ہوتا تو دل کو بہت ہی اچھا لگتا۔
آ جاؤ اقبال ! میں نے مسکرا کر کہا۔ ” آؤ اس کرسی پر بیٹھ جاؤ“۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا کرسی تک آیا۔ مجھ کو ایک بار پھر کہنا پڑا کہ بیٹھ جاؤ۔ تب وہ نظریں میرے چہرے پر جمائے کرسی پر بیٹھ گیا۔ نظریں جمائے بیٹھنے کو بیٹھنا نہیں بلکہ ڈھیر ہونا کہا
جاتا ہے۔ تم اتنا زیادہ ڈرے ہوئے کیوں ہوا قبال ؟“ میں نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر میرے منہ کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اس کے منہ سے جو جواب نکالا وہ نہ نہیں تھا اور نہ ہی ہاں تھا بلکہ وہ کچھ کہنے لگا تو اس کی زبان ہکلا گئی۔ وہ غالبا یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ ڈرا ہوا نہیں لیکن اس کا یہ خیال بھی تھا کہ کہہ دے کہ میں آپ سے ڈر گیا ہوں ۔ میں نے اس کی گھبراہٹ یا خوف قائم رہنے دیا۔ کانٹیل میرے دماغ میں ایک شک پیدا کر گیا تھا۔
تمہاری بی بی قتل ہوگئی ہے۔ میں نے کہا۔ ” کیا تم میری کچھ رہنمائی کر سکتے ہو؟ مجھے کو معلوم ہے کہ اس کے ساتھ تمہارا بڑا گہرا اور راز داری والا تعلق تھا۔ نہیں جناب!“ اس نے کانپتی ہکلاتی زبان میں کہا۔
تمہارے تو منہ سے بات بھی نہیں نکل رہی ۔ صاف کہہ دو کہ اس کے ساتھ تمہارا کوئی ایسا ویسا تعلق نہیں تھا لیکن میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس خاصی زیادہ شہادت آگئی ہے کہ تہارا اسکے ساتھ گہراتعلق تھا۔ اگر ہوتو میں ایک رومالی سنادیتا
ہوں۔
میں نے اس کو وہ بات سنائی کہ نوکرانی بیڈ روم میں گئی تو اقبال مقتولہ کے بازوؤں میں تھا اور ان کے منہ جڑے ہوئے تھے ۔ اب تو اس اقبال کی حالت اور ہی زیادہ بگڑ گئی۔ میں نے اس کو ایک بار پھر کہا کہ مقتولہ کے ساتھ اگر اس کی کچھ بے تکلفی تھی تو یہ کوئی جرم نہیں . تھا وہ اس کا اقرار کرنے سے نہ گھبرائے لیکن اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ میں نے اس سے بے تعلق ہی دو تین اور باتیں کیں تو میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے بھی بے ق ہوتا جارہا تھا۔ یہاں تک کو مجھے کہ اس پر کچھ غصہ آنے لگا۔
میں نے جیب سے کاغذ کا وہ ٹکڑا نکال جو مجھ کو مقتولہ کے پلنگ کے نیچے پڑا ملا تھا۔ اس کا زر کی نہیں کھول کر میں نے کاغذ اس کے آگے رکھا اور پوچھا کہ یہ کس کے ہاتھ کی تحریر ہے۔ اس نے عجیب حرکت کی ۔ پہلے اس کا غذ کو دیکھا اور یک لخت اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھے اور ایک ہاتھ میں کی اوپر والی جیب میں لے گیا پھر جرسی کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے جیسے اس نے کوئی چیز گم کردی ہو اور اس کو جیبوں میں تلاش کر رہا ہو۔ میں فورا سمجھ گیا کہ اس نے یہ پر چی اپنی جرسی کی جیب میں یا قمیض کی جیب میں رکھی تھی اور اب اس کو پتہ لگا ہے کہ یہ پر چی کہیں گر پڑی تھی ۔ اس کو جب اپنی جیبوں میں یہ پر چی نہ ملی تو اس کا جسم سے بالکل یا ہو یا ہو ں یا نہ ہوا اور مایا کہ اس سے کی ہے جیسے بالکل ہی جام ہو گیا ہو۔ میں نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ یہ کس کے ہاتھ کی تحریر ہے۔
پتہ نہیں جناب ! اس نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔
پھر اپنی جیبوں میں کیا ڈھونڈ رہے تھے ؟“ میں نے پوچھا۔ کچھ دیر اس نے جواب نہ دیا تو میں نے کہا۔ یہ تحریر تمہاری ہے اور تم یہ پر چی اپنی جیبوں میں ڈھونڈ رہے تھے ۔ تم جانتے ہو کہ مجھے کو یہ پرچی کہاں سے ملی ہے۔ اب بتاؤ کہ یہ پر چی وہاں مقتولہ کے پلنگ کے قریب کس وقت گری تھی۔
مجھ کو پتہ ہی نہیں چلا کہاں گری تھی ۔ اس نے رک رک کر جواب دیا۔ یہ تم نے اپنی کس جیب میں رکھی تھی ؟ میں نے پوچھا۔ شاید جرسی کی کسی جیب میں رکھی تھی۔ اس نے بڑی ہی نحیف اور مریل سی آواز میں جواب دیا ۔
مجھ کو اچانک یاد آ گیا کہ مقتولہ کے پلنگ سے مجھ کو کسی جرسی کا ایک بٹن ملا تھا۔ تب خیال آیا کہ اقبال نے جرسی پہن رکھی ہے اور یہ خاصی قیمتی جری ہے۔ نوکرانی نے مجھے کو بتایا تھا کہ مقتولہ نے اقبال کو ان سردیوں کے شروع میں بڑی قیمتی اور نئی جرسی دی تھی ۔ میں نے اقبال کی جرسی کے بٹن دیکھے تو وہ سو فیصد ویسے ہی تھے جیسا بٹن مجھ کو پانگ سے ملا تھا۔ میں نے اس کو کھڑا ہونے کو کہا۔ وہ کھڑا ہوا تو اس طرح لگا کہ بجلی بڑی زور سے چمکی ہو اور مجھ کو
دونوں جہاں نظر آگئے ہوں۔ اقبال کی جرسی کا نیچے سے اوپر کو دوسرا بٹن ٹوٹا ہوا تھا یعنی بیٹن تھا ہی نہیں ، وہاں صرف
دھا گہ تھا۔
یہ لو اقبال ! میں نے اپنی جیب سے بٹن نکال کر اس کے آگے رکھ دیا اور کہا۔ “تمہاری جرسی کا بٹن میرے پاس ہے ۔ اتنی اعلیٰ جری کا ایک بٹن ٹوٹا ہوا ہے اور یہ اچھی نہیں لگتی۔ بٹن لے لو لیکن اس سے پہلے مجھ کو یہ بتا دو کہ بٹن مقتولہ کے پلنگ پر کس طرح گرا تھا۔ یہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ یہ گزشتہ رات اس کے پلنگ پر گرا تھا۔ میرے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ نہیں جن کے ذریعے میں بیان کر سکوں کہ بٹن دیکھ کر اس نوجوان کی کیا حالت ہوئی۔ میرا تو خیال ہے کہ اس پر غشی طاری ہو گئی تھی ، صرف آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں ۔ اس کے چہرے پر تریلی سی پھوٹ آئی۔ جرم کے اقرار کا اس سے زیادہ واضح اظہار اور کیا ہوسکتا ہے! میں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور دل ہی دل میں کہا ، یا اللہ ، کیا تیری ذات باری مجھے جیسے گناہ گار پر بھی اس قدر مہربان ہو سکتی ہے؟ یہ تو ایک معجزہ ہے. پھر میں نے دل ہی دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
میں انگریزوں کے وقت کی بات کر رہا ہوں جب تھانیدار اپنی تفتیش کی کامیابی پر خوشیاں منایا کرتے تھے کہ اصل ملزم پکڑ لیا ہے۔ آج کے تھانیدار اپنی اس کامیابی پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی مرضی اور ڈیمانڈ کے مطابق مک مکا ہو گیا ہے خواہ کسی کا پورا خاندان ہی قتل ہو گیا ہو۔
میں نے اس ہیڈ کانٹیبل کو بلوایا جس نے انگلیوں کے نشان لیے تھے ۔ اس کو کہا کہ وہ اقبال کی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشان کا غذ پر لے لے ۔ ہیڈ کانٹیبل لے آیا اور اقبال کا ایک ہاتھ پکڑ کہ انگوٹھا اور انگلیاں پیڈ پر رکھے ۔ اقبال نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور ہنگامہ بپا کر دیا۔ وہ لڑتا جھگڑتا نہیں تھا بلکہ روتا اور منتیں کرتا تھا کہ پہلے اس کی بات سن لی جائے اور اس پر رحم کیا جائے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آپ مسلمان ہیں اور اللہ اور رسول اور قرآن کے نام پر مجھے پر رحم کریں میں غریب باپ کا بیٹا ہوں ۔ پہلے میری مجبوریاں سن لیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے آنسو بہے جا رہے تھے اور میں خاموشی سے اس کا واویلا اور فریادیں سن رہا تھا۔
وه در اصل یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس کے انگوٹھے لگوا لیے اور انگلیوں کے نشان لے لیے تو اس کو پھانسی کی سزا مل جائے گی ۔ میں اس پر تشدد کر کے خاموش کروا سکتا تھا اور اس کی ہڈی پلی ایک کر کے کہتا کہ تم اگر قاتل ہو تو فورا اقبال جرم کرو لیکن میں نے اس کی بجائے شفقت اور پیار کا رویہ اختیار کیا۔ اس کو کہا کہ میں مسلمان ہوں جیسا کہ اس نے کہا ہے اور میں ثابت کر دکھاؤں گا کہ پکا مسلمان ہوں اور ایک مسلمان بھائی کی خاطر کچھ قربانی دے سکتا ہوں ۔
قصہ مختصر یہ کہ میں نے اس کو پہلا پھسلا لیا اور اس کو کہا کہ وہ بے تکلفی سے بات کوے، چھپائے کچھ بھی نہیں اور پھر میں اس کی مدد کر نے قابل ہوں گا۔ اس کو بولنے کے موڈ میں لانے کے واسطے مجھ کو محنت کرنی پڑی جس میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ جرائم پیشہ نہیں تھا۔ نمازی پر ہیز گار اور دیانت دار آدمی تھا۔ وہ تو تھانے اور تھانیدار کا رعب برداشت کرنے کے بھی قابل نہیں تھا۔ میں نے اس کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا لیا اور پوچھا کہ یہی وہ جرسی ہے جو مقتولہ نے اس کو دی تھی۔ اس نے جواب دیا کہ یہی ہے پھر میں نے پوچھا کہ یہ بٹن کہاں اور کس طرح ٹوٹ کر گرا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ اس کو کچھ پتہ نہیں ۔ صبح اس کو خبر ملی کہ ٹھیکیدار کی بیگم مقتل ہو گئی ہے تو وہ بڑی تیزی میں کپڑے بدل کر اور یہی جرسی پہن کر دوڑ پڑا اور ٹھیکیدار کے گھر پہنچا۔ میں نے کہا کہ پرسوں یہ بٹن جرسی کے ساتھ تھا یا نہیں۔ اس نے جواب دیا کہ پرسوں بٹن جرسی کے ساتھ تھا اور یہ گزشتہ رات ہی ٹوٹا ہو گا۔ اگر یہ شخص مجرمانہ ذہنیت کا ہوتا تو یہ جرسی پہن کر تھانے نہ آتا یا تھانے آنے سے پہلے یہ جری اتار آتا لیکن اس کو اتنی بھی ہوش نہیں تھی کہ اس کا ایک بٹن ٹوٹ کر کہیں گر گیا ہے۔ میں نے اس سے ایسے ہی ایک بات پوچھی تو اس نے ہاتھ جوڑ کر منت کی کہ میں شروع سے اس کی بات سنوں اور وہ آخر تک پوری اور بالکل سچی بات سنائے گا۔
میں نے کہا کہ چلو ایسے کرلو۔ اس نے بات اپنے گھر کی مالی حالت سے شروع کی۔ یہ میں نے پہلے تحریر کر دی ہے یعنی وہ ایک ہندو آڑھتی کا منشی تھا پھر اس کا باپ آرے میں بازو کٹ جانے سے معذور ہو گیا۔ ٹھیکیدار نے اقبال کو اپنے ہاں رکھ لیا۔ اس کو ہندو آڑھتی سے جو تنخواہ ملتی تھی اس سے تین گناہ زیادہ تنخواہ ٹھیکیدار نے مقرر کر دی۔
اقبال شریف باپ کا دیانتدار بیٹا تھا اور اپنے گھر کی حالت اور ضروریات کو بھی سمجھتا تھا۔ اس نے اتنی محنت اور لگن سے کام کیا کہ ٹھیکیدار نے اس کو ایک رتبہ دے دیا اور حساب کتاب اس کے حوالے کر دیا۔ یہ باتیں تو پہلے میں نے تحریر کر دی ہیں۔ اس کے بعد ” ٹھیکیدار نے دوسری شادی کر لی۔ اقبال نے بتایا کہ اس کے دوست اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے کہ نئی بیگم کو خوش رکھنا وہ بہت انعام دے گی ۔ یہ سب جانتے تھے کہ یہ لڑکی اچھے چال چلن والی نہیں لیکن اقبال کے ساتھ اس نے کوئی ایسی ویسی بات نہ کی۔ اقبال کی فطرت میں ذراسی بھی بد معاشی نہیں تھی۔ ٹھیکیدارا قبال پر پوری طرح اعتماد کرتا تھا۔ اس نے اقبال کو ایک اور ڈیوٹی دے دی۔ پہلے تو اقبال ٹھیکیدار کے گھر کے انتظامات اور اخراجات چلاتا تھا اور اس سلسلے میں ٹھیکیدار کے گھر آتا جاتا ہی رہتا تھا۔ نئی بیوی آ گئی تو ٹھیکیدار نے اقبال کو کہا کہ وہ اس لڑکی سے بھی پوچھ لیا کرے کہ اس کو کچھ چاہئے تو وہ لاد نے گا۔ ٹھیکیدار نے دوسری بات یہ کہی کہ نئی بیوی پر نظر ر کھے اور اس کو پتہ لگے بغیر اس کی نگرانی کرتا رہا کرے کہ وہ گھر سے اگر باہر جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ ٹھیکیدار کو بھی معلوم تھا کہ اس کی بیوی اچھے چال چلن والی نہیں۔
اقبال نے مقتولہ کے پاس جانا شروع کر دیا۔ مقتولہ سے وہ اس کی کوئی ضرورت یا اس کا کوئی کام ہوتو پوچھتا تھا اور وہ جو کچھ بھی کہتی اقبال کر دیتا تھا۔ قتل سے آٹھ نو مہینے پہلے مقتولہ نے اقبال کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلفی شروع کر دی۔ پہلے وہ کام کی بات پوچھتا اور کام کر دیتا تھا اور مقتولہ نے اس کو کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ بیٹھ جائے یا کچھ دیر کے واسطے رک جائے ۔ اب یعنی آٹھ نو مہینے پہلے مقتولہ نے اس کو اپنے پاس بٹھانا شروع کر دیا اور اس سے اس کی گھر یلو اور ذاتی باتیں پوچھنے اور ان میں دلچسپی ظاہر کرنے لگی۔ صاف پتہ لگتا تھا کہ مقتولہ اقبال کو دوست بنانا چاہتی ہے۔
نوکرانی نے جو بیان دیا تھا، میں نے حساب جوڑا تو پتہ لگا کہ یہ وہ دن تھے جب مقتولہ کے پہلے دوست نے اس سے ملنے اور اس کے حکم پر اس کے ہاں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب اس کو پہلے دوست جیسا ایک دوست چاہئے تھا۔ اقبال اس کے خاوند کا ملازم تھا، جوان بھی خوبرو بھی تھا۔ وہ ہر لحاظ سے مقتولہ کے پیمانوں پر پورا اترتا تھا۔
اس نے اقبال پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیے اقبال اس کو ٹالتا رہا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مقتولہ چاہتی کیا ہے۔ اقبال کو ایک خیال یہ آتا تھا کہ وہ مقتولہ کے خاوند کا ملازم ہے اور خاوند اس پر پورا اعتماد رکھتا ہے۔ اقبال اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانا گناہ سمجھتا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ تھا ہی گناہ جس کی مقتولہ اس کو دعوت دیتی رہتی تھی ۔ اقبال نمازی تھا اور اس کا کردار بڑا ہی صاف اور ستھرا تھا۔
ایک روز اقبال روز مرہ کے کمرے میں مطابق ٹھیکیدار کے گھر گیا اور مقتولہ کے کمرے میں گیا۔ مقتولہ کی حالت تو ایسی تھی جیسے کوئی نشئی نشے سے ٹوٹا ہوا ہوتا ہے ۔ اس نے انتہائی بے ہودہ اور مخش حرکتیں کر کے اقبال کے حیوانی جذبات کو ابھارا۔ اقبال نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا تو مقتولہ نے دوسرا حربہ استعمال کیا۔ اس کو معلوم تھا کہ اقبال کس قدر حاجت مند ہے اور اس کا باپ معذور ہے اور اس کی وہ بہنیں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں ۔ مقتولہ نے اقبال کو دھمکی دی کہ اس نے اس کی بات نہ مانی تو وہ ٹھیکیدار کو کہہ کر نوکری سے نکلوا دے گی اور الزام یہ لگائے گی کہ اقبال نے اس پر دست درازی کی ہے اور پہلے بھی کرتا رہا ہے اور مقتولہ برداشت سے کام لیتی رہی ہے۔
یہ ضرب اتنی کاری ثابت ہوئی کہ اقبال نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ویسے بھی یہ قدرتی بات ہے۔ اقبال کی عمر تیس چوبیس سال ہی تو تھی ۔ اقبال جب مجھے کو یہ بیان دے رہا تھا تو وہ ایک بار پھر رو پڑا اور کچھ دیر روتا ہی رہا اور اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ اس کا اب خوف دور ہو گیا تھا اس واسطے کہ وہ اپنے ضمیر سے اور اپنی روح سے بوجھ اتار کر پھینک رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس پہلے گناہ کے بعد وہ رات کو مسجد میں گیا، نفل پڑھے اور اس کے بعد اللہ کے حضور بہت رویا اور گناہوں کی معافی مانگی۔ وہ کچھ اطمینان اور سکون میں آگیا اور اس نے ارادہ کر لیا کہ آئندہ ایسا گناہ نہیں کرے گا لیکن وہ ایک چکر میں آگیا تھا۔ مقتولہ نے یہ گناہ ہر تیسرے چوتھے روز سرزد کرانا شروع کر دیا۔ اقبال تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آکر بُری طرح پس رہا تھا۔ ایک طرف وہ اللہ کے حضور تو بہ تابع کرتا اور بخشش مانگتا اور دوسری طرف وہ اس قدر مجبور اور بے بس تھا۔ کہ یہ نوکری چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ وہ جب معذوز باپ اور جوان بہنوں کو دیکھتا تو ان کے واسطے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر تیار ہو جاتا تھا۔ مولوی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص کو گناہ نہیں کرنا چاہئے تھا،
اس کی بجائے وہ بھو کا مر جاتا لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔ بہتر وہی جانتا ہے جو کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ مقتولہ نے اب اقبال کی یہی کمزوری بھانپ لی تھی اور اس کو نوکری سے نکلوا دینے کی دھمکیاں دے کر ایک قسم کی بلیک میلنگ کر رہی تھی ۔ اقبال نے کہا کہ اس نے مقتولہ کے آگے ہاتھ جوڑے تھے اور کہا تھا کہ وہ اس کو معاف کر دے لیکن مقتولہ اتنی آزاد اور بے حیا عورت تھی کہ کوئی اور بات سمجھتی ہی نہیں تھی۔ وہ دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے ہٹ کر اقبال کو پیسے بھی دیتی رہتی تھی۔ دو مرتبہ اس نے اقبال کو بڑے اچھے کپڑے سلوا کر دیے تھے اور تیسری بار عید پر اس نے اقبال کو اور ہی زیادہ قیمتی سوٹ یعنی شلوار میں دیا تھا۔ پھر ان سردیوں کے آغاز میں اس کو یہ قیمتی جرسی دی تھی۔ مقتولہ نے گزشتہ چار مہینوں سے یہ معمول شروع کر دیا تھا کہ دن کی بجائے اقبال کو ہفتے میں ایک اور کبھی دو دفعہ رات کے وقت بلاتی تھی ۔ جس رات بلانا ہوتا اس روز اس کو کہہ دیتی تھی کہ ساڑھے دس اور گیارہ کے درمیان آجائے اور اس کو بیٹھک کا دروازہ کھلا ملے گا۔ اقبال کبھی چوری چھپے آجاتا اور کبھی اپنے گھر یہ جھوٹ بولتا کہ آج کام زیادہ ہے اور ٹھیکیدار بھی جاگ رہا ہے۔
اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا اور اقبال کی شادی ہوگئی ۔ مقتولہ نے اقبال کی دلہن کو نہایت اچھا سوٹ دیا تھا اور سلامی بھی بے شمار دی تھی۔ اب اقبال اس گناہ کو اور ہی زیادہ گناہ سمجھنے لگا اس واسطے کہ اس کو بہت برا لگتا تھا کہ ۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بے وفائی کر رہا ہے۔ اپنی بیوی کے ساتھ وہ کوئی دھوکہ فریب اور بد دیانتی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مقتولہ کو ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اب وہ اس کو معاف کر دے اس واسطے کہ اس نے شادی کر لی ہے اور اس کی بیوی اس کو چاہتی ہے اور اس پر بھروسہ بھی کرتی ہے لیکن مقتولہ نے اپنا رویہ اور زیادہ سخت کر لیا۔
قتل کی رات سے تقریباً پندرہ روز پہلے کا واقعہ اقبال نے اس طرح بتایا کہ وہ پکا ارادہ کر کے مقتولہ کے پاس گیا اور اس کو کہا کہ اب وہ اس گناہ سے تو بہ کرتا ہے اور اگر وہ اس کو نکلوانا چاہتی ہے تو نکلوادے اور وہ فوج میں بھرتی ہو جائے گا۔ اقبال نے بتایا کہ اس نے بات کہہ تو دی لیکن وہ ٹھیکیدار کی اتنی اچھی اور اتنی زیادہ تنخواہ والی نوکری چھوڑ نا نہیں چاہتا اور چھوڑ سکتا ہی نہیں تھا۔ مقتولہ نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور کہا کہ وہ اس کو بھرتی ہونے کے قابل چھوڑے گی ہی نہیں ، اس کو گرفتار کروادے گی ۔ اقبال کو معلوم تھا کہ ٹھیکیدار بڑے شہر میں بڑے افسروں کے ساتھ ملتا جلتا ہے اور وہ اس کا بیڑہ غرق کر سکتا ہے ۔
اسی روز کا ذکر ہے کہ مقتولہ نے ہنسی مذاق میں اقبال کی انگلی سے اس کی شادی کی انگوٹھی اتاری اور اپنے پاس رکھ لی۔ مقتولہ نے کہا کہ اس کو اس انگوٹھی کی کوئی ضرورت نہیں ، اس کے پاس اتنے زیادہ زیوارات ہیں کہ وہ اس کو ایسی دس انگوٹھیاں دے سکتی ہے
لیکن اس انگوٹھی کو وہ نشانی کے طور پر رکھے گی ۔ اقبال نے جب ضد کی تو مقتولہ نے اس کو دوسری انگوٹھی دے کر کہا کہ اس کی بجائے یہ انگلی میں ڈال لو۔ یہ انگوٹھی زیادہ وزنی ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمتی تھی لیکن اقبال نے قبول نہ کی ۔ اقبال کے واسطے یہ ایک نئی مصیبت پیدا ہوگئی۔ وہ گھر جاتا تو انگوٹھی والی انگلی بیوی سے چھپا کر رکھتا۔ بیوی خالی انگلی دیکھ کر ضرور پوچھتی کہ انگوٹھی کہاں ہے۔ ادھر ہر روز مقتولہ کی منتیں کرتا کہ انگوٹھی اس کو دے دے لیکن وہ نہیں دیتی تھی۔
قتل سے تین دن پہلے اقبال کی بیوی نے خالی انگی دیکھ کر پوچھ ہی لیا کہ انگوٹھی کہاں ہے۔ اقبال نے یہ جھوٹ بولا کہ دفتر میں ویسے ہی اتاری تھی اور دراز میں رہ گئی ہے۔ بیوی نے کہا کہ ایسی بے احتیاطی نہ کیا کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انگوٹھی گم ہی ہو جائے ، کل ضرور لے آئے ۔
اگلے روز دن کے وقت اقبال روزمرہ معمول کے مطابق مقتولہ کے کمرے میں گیا اور ہاتھ جوڑ کر اس سے انگوٹھی مانگی لیکن مقتولہ بدکردارلر کی تھی جس میں جذبات کا نام و نشان نہ تھا، اس نے انگوٹھی نہ دی اور یہ تو اس نے قبول ہی نہ کیا کہ اقبال اپنی بیوی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔
اس روز اقبال نے اپنے دل و دماغ میں زبر دست طوفان اٹھتا محسوس کیا۔ عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی اور اس کے بعد جب سارے نمازی مسجد سے نکل گئے تو اس نے نفل پڑھنے شروع کیے اور اس کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کتنے پڑھ چکا ہے اور کتنے اور پڑھے گا۔ نفل پڑھنے کے دوران اس کے آنسو بہتے رہے۔ دعا میں اس نے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگی اور بخشش بھی مانگی۔
اقبال نے قسمیں کھا کہ یہ بات سنائی کہ اس رات ایک سفید ریش بزرگ خواب میں آئے اور انہوں نے اتنا ہی کہا کہ ایسے گناہ گار کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دو، تمہاری نجات اس میں ہے۔ اس کے بعد بزرگ غائب ہو گئے اور اقبال کی آنکھ کھل گئی۔ اس روز تو اس کی جذباتی حالت اس قدر بُری تھی کہ وہ پاگل ہو جاتا تو کوئی بعید نہیں تھا۔
اس نے کہا کہ اس بزرگ کی بات اس کے دل پر ایسی نقش ہوئی کہ اس نے مقتولہ کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اتفاق سے اگلے روز مقتولہ نے اس کو کہا کہ رات اسی وقت آجانا ، بیٹھک کا دروازہ که رات ای کھلا ملے گا۔ اقبال چلا گیا۔ جاتے ہی اس نے انگوٹھی کا مطالبہ کیا لیکن مقتولہ نے ہنسی مذاق میں یہ بات ٹال دی اور اقبال کو اپنے مقصد کی طرف لے گئی۔ وہ اتنی استادلڑ کی تھی کہ اقبال کو ہر حالت میں رام کرنے کا گر جانتی تھی ۔
اقبال نے اس کا یہ نشہ پورا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس کا دماغ پھر گیا اور اس پر وہ پاگل پن طاری ہو گیا جس میں انسان اپنی یا کسی کی جان لے لیا کرتا ہے۔ مقتولہ ابھی پلنگ پر چت لیٹی ہوئی تھی کہ اقبال نے اس کی گردن اپنے ” دونوں ہاتھوں میں لے لی اور دانت پیس کر پورا زور لگا یا جس سے اس کی گرفت لوہے کے جیسی ہوگئی اور مقتولہ جینے کے حق سے محروم ہو گئی۔
اقبال تیزی سے پلنگ سے اتر اور سنگار میز کی درازیں کھولیں اور ڈبے کھول کر اور درازوں کی تلاشی لے کر اپنے انگوٹھی ڈھونڈ لی اور جیب میں ڈال کر وہاں سے نکل گیا۔ وہ بہت ہی جلدی میں تھا اس واسطے زیورات اور دیگر اشیاء کو بکھرارہنے دیا۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ وہ انگلیوں کے نشانات کی صورت میں اپنی نشانی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم نہیں
تھا کہ قتل کر دینا کوئی مشکل نہیں ، اصل کام قتل کو ہضم کرنا ہے جو شاید کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ جرسی کے بٹن کی بابت اس نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کو بٹن ٹوٹنے کا کچھ پتہ نہیں لگا۔ اتنا یاد تھا کہ اس نے مقتولہ کا گلا دبایا تو مقتولہ نے تڑپتے ہوئے اس کی جرسی دونوں مٹھیوں میں بٹنوں والی جگہ سے پکڑی تھی پھر اس کے دونوں ہاتھ دائیں اور بائیں ہو گئے تھے۔ شاید اس وقت بٹن جرسی سے ٹوٹ کر پلنگ پر گر پڑا ہو گا ۔ کاغذ کی پر چی بھی اسی وقت جیب سے گری ہوگی۔اس طرح اقبال نے مقتولہ کو قتل کیا اور میرے آگے اقبال جرم بھی کر دیا۔
اس کے بعد اس نے مجھ کو کہا کہ میں اگر اپکا مسلمان ہوں تو اس کی مدد کروں ۔ اقبال نے جس دکھے ہوئے اندازہ میں مجھ کو یہ بات سنائی تھی اس کا میرے دل پر بہت بُرا اثر ہوا۔ مجھ کو معلوم تھا اور آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ امیر کبیر لوگوں کے گھروں کی عورتیں غریب نوکروں کو جس طرح چاہتی ہیں استعمال کر لیتی ہیں اور بجھتی ہیں کہ دنیا کا قانون ہی نہیں بلکہ خدائی بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے۔
میں نے دل میں عہد کر لیا کہ اقبال کو سزا نہیں ہونے دوں گا لیکن اس کے واسطے کوئی استادی کھیلنی پڑتی تھی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ میں اس کو بے گناہ قرار دے دیتا اور یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میں مقدمہ اتناڈ ھیلا بنا تا جو کورٹ میں جاتے ہی ناکام ہو جاتا۔ اس طرح میری نالائقی ثابت ہوتی تھی۔ بہر حال میں نے ایک راستہ سوچ لیا اور اقبال کو بتا دیا کہ سیشن کورٹ سے اس کو عمر قید یا سزائے موت مل جائے گی لیکن اپیل میں وہ بری ہو جائے گا۔
میں ان تفصیلات میں اور ان باریکیوں میں نہیں جانا چاہتا اور ضروری بھی نہیں سمجھتا کہ میں نے کون سی گنجائش رکھ دی تھی اور کسی طرح رکھی تھی ۔ پولیس آفیسر اس استادی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میں نے خود اقبال کو کہا تھا کہ وہ سیشن کورٹ میں جا کر اقبالی بیان سے منحرف ہو جائے اور یہ بیان دے کہ اس کو تھانے میں مار پیٹ کر یہ بیان لیا گیا تھا۔
مقدمہ جب سیشن کوٹ میں گیا تو اقبال نے میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بیان وہی دیا جو میں نے اس کو بتایا تھا یعنی وہ اپنے اقبالی بیان سے منحرف ہو گیا۔ میں نے مقدمہ ٹھیک ٹھاک تیار کیا تھا صرف ایک آدھ خانہ خالی رکھا تھا اور آخر سیشن جج نے اقبال کو عمر قیدسنادی۔
اس سزا کے خلاف اقبال کے وکیل نے اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی میں نے سیشن کورٹ کے فیصلے کے روز اقبال کو الگ کر کے کہہ دیا تھا کہ اس سزا سے وہ گھبرائے نہیں اور اپنے وکیل سے کہے کہ مجھ کو الگ تھلگ ضرور ملے ۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر کے وکیل مجھ سے ملا تھا اور میں نے اس کو دو پوائنٹ بتائے تھے ۔ وکیل نے ہائی کورٹ میں وہی دو پوائنٹ پکڑے اور ایک آدھ خود پیدا کر لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہائی کورٹ نے شک کا فائدہ دے کر اقبال کر بری کر دیا۔
میں اللہ کے حضور سرخرو ہو گیا۔ اقبال بڑی لمبی سزا سے تو بچ گیا لیکن اس کے ماں باپ اور بہنوں نے بہت بُرا وقت دیکھا۔ بہنوں کے لیے جو تھوڑا سا زیور بنا تھاوہ بک گیا اور مقدمے میں لگ گی کی آمدنی اتنا عرصہ بند رہی۔ اقبال کا باپ بائیں ہاتھ سے جو محنت مزدوری کر سکتا تھا۔ برہا اور اس کی ماں اور بہنیں لوگوں کے کپڑے سی کر بھی اور میلے کپڑے گھر لا کر دھو کر بھی کچھ پیسہ کماتی رہیں، لیکن اللہ نے ان کی مدد کی۔ وہ اس طرح کہ سیشن کورٹ نے ابھی فیصلہ نہیں سنایا تھا کہ ٹھیکیدار بس پر بڑے شہر کو جارہا تھا کہ یہ بس ایک ٹرک سے ایسی زور سے ٹکرائی کہ بارہ چودہ مسافر مارے گئے اور ان میں ٹھیکیدار بھی تھا۔
چونکہ اس کے دونوں بڑے بیٹے اس کے ساتھ کام کرتے تھے اس واسطے انہوں نے ٹھیکیداری کو سنبھال لیا۔ اقبال جب بری ہو کر باہر آیا تو وہ مجھ سے ملا، میرا شکریہ ادا کیا اور اپنے گھر کی ۔ حالت بتائی ۔ وہ مجھ کو کہتا تھا کہ میں اس کے روز گار کا کوئی بندو بست کر دوں ۔ ایک روز ٹھیکیدار کے بڑے بیٹے سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے یہ کیس چھیڑ دیا اور اس کو وہ سارا بیان سنایا جو اقبال نے مجھ کو دیا تھا اور اس میں اقبال کی مذہب پرستی کا ذکر زیادہ کیا ۔ ٹھیکیدار کا بڑا بیٹا تو تھا ہی اسلام پسند اور پکا مومن ۔ اقبال کے کردار کا یہ پہلو اس کے دل میں اتر گیا۔ مقتولہ کے خلاف تو اس کے دل میں زہریلی نفرت بھری ہوئی تھی۔ اس نے مقتولہ کے قتل کو بالکل جائز سمجھا اور اس نے کہا کہ اس کو اپنے باپ کی موت کا بھی کوئی خاص افسوس نہیں اس واسطے کہ وہ ایک بد چلن لڑکی کو گھر لے آیا تھا۔
میں نے اس کو کہا کہ وہ اگر اچھا سمجھے تو اقبال کو اپنے ساتھ لگا ہے، یہ ایک نیکی ہو گی ۔ اس شخص نے کوئی دلیل نہ دی بلکہ یہ کہا کہ وہ آج ہی اقبال کو بلا لے گا اور اس کو روزگار پر لگا دے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اقبال کا روزگار پہلے کی طرح لگ گیا۔ میرے دماغ میں دراصل وہ بزرگ آگئے تھے جو اقبال کو خواب میں ملے تھے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ وہ محض ایک خواب ہی نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی اور وہ حقیقی اشارہ تھا جو اقبال کو ملا تھا۔