Discover the power and influence of Don of Punjab, including Syed & Gujjar Group of Gujrat, Shaki Gujjar Gandra, and Razi Shah Madina Syedan. Explore their history, dominance, and impact on Punjab’s underworld.

Don of Punjab | Syed & Gujjar Group of Gujrat
2004
میں گجرات کے نواہی گاؤں مدینہ سیدہ میں ضلع گجرات کی تقریبا سب سے بڑی خونی لڑائی ہوئی یہ خونی لڑائی اصل میں دو گروپوں جن میں گاؤں مدینہ سیدہ سے تعلق رکھنے والے ایک سید گروپ اور دوسرے گجرات کے گاؤں کندرا سے تعلق رکھنے والے چوہری اشتیاق گجر المعروف شاقی گجر کے درمیان ہوئی۔شاقی گجر ضلع گجرات
کا ایک نہایت طاقتور بااثر ترین اور مشہور شخص تھا شاقی گجر جب 12 سال کا تھا تو اس نے ایک شخص کو کیوں قتل کیا جبکہ اس قتل کے بعد شاقی گجر کو گجرات کے کون سے سیاستدان نے پناہ دی سید گروپ آف مدینہ سیداں اور شاقی گجر گروپ آف کندرا کے درمیان ضلع گجرات کی اتنی بڑی خونی لڑائی کا واقعہ آخر کس وجہ سے پیش آیا مدینہ سیدہ میں لگائی گی پنچائت میں شاقی گجر گروپ اور سید گروپ کے درمیان آخر کس بات پر طلخ کلامی ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں گروپوں۔
کے درمیان ساری رات فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا اور شاقی گجر سمیت دونوں گروپوں کے تقریبا 39 لوگ قتل ہوئے شاکی گجر نے گجرات کی کون سی مشہور شخصیت کی پھانسی رکوانے کے لیے ایک جج کو ڈرا دھمکا کر اس شخصیت کو باعزت بری کروا لیا
چوہدری اشتیاق المعروف شاقی گجر گجرات کے نواہی گاؤں کندرا میں پیدا ہوا 1987 میں چوہدری شاقی گجر نے 12 سال کی عمر میں پہلا قتل کیا اس قتل کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ چوہدری شاقی گجر کی۔
خاندانی دشمنی چلتی آرہی تھی اس شخص کو قتل کرنے کے بعد چوہدری شاقی گجر اپنے گاؤں سے فرار ہو گیا گجرات کے گاؤں مکیانہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور سیاستدان یونین کونسل ناظم چوہدری مشتاق احمد نے شاقی گجر کو اپنے ڈیرہ پر بنا دی ناظرین چوہدری مشتاق احمد چوہری برادران اپ گجرات کے نہایت قریبی دوست تھے انہوں نے چوہدری شاکی گجر کو اپنا ذاتی ڈرائیور رکھ لیا پناہ لینے کے بعد شاقی گجر کو اب کسی قسم کا بھی خطرہ نہیں تھا اس کے بعد اس شخصیت نے چوہدری مشتاق احمد کے کہنے پر کئی سیاستدانوں کا قتل کیا 12 سالہ یہ لڑکا قتل کرنے کے بعد اب سیاست دانوں کے ہاتھوں استعمال ہونے لگ گیا تھا بالاخر پنجاب پولیس نے تنگ ا کر سخت اقدامات اٹھائے اور چوہدری شاہ کی گجر کو اشتہاری قرار دے دیا گیا سیاسی پناہ لینے کی وجہ سے چوہدری ۔
شاکی گجر کو پولیس اب گرفتار نہیں کر سکتی تھی اس وقت تک اس نوجوان کا ڈنکا یوں ہی ضلع گجرات میں بجنے لگ پڑا تھا لیکن یہ شخصیت صرف یہاں تک نہیں رکی بلکہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مل کر قبضہ گروپ کی شکل اختیار کر لی ضلع گجرات میں کوئی بھی تھانہ ایسا نہیں تھا جس میں شاقی گجر کے خلاف 302 کا مقدمہ درج نہ ہو سن 2000 میں قادر کالونی میں شاکی گجر نے تین افراد کو قتل کر دیا زمین کے تنازے کی وجہ سے شاقی گجر نے ان تین لوگوں کو قتل کیا تھا جس کے بعد لالہ موسی شہر کی ایک بیکری میں جب شاکی گجر کا اپنے محالفین سے امنہ سامنا ہوا تو اس نے اپنے دشمنوں کے تین افراد موقع پر قتل کیے ان قتل ہونے والے تین لوگوں میں دو نوجوان بھائی اور ایک ان کا والد تھا۔
اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی گجرات پولیس موقع پر پہنچ گئی اور شاقی گجر کو گرفتار کر لیا گیا بعد میں قتل ہونے والوں کے خاندان نے یہ کیس واپس لے لیا یوں شاقی گجر ازاد ہو گیا اور اس نے اپنے ساتھ 20 گن مین رکھ لئے وہ جہاں کہیں بھی جایا کرتا تھا تو سات اٹھ گاڑیاں اور یہ 20 گن مین اس کے ساتھ ہوتے تھے اس طرح اب اس شخصیت کو کسی قسم کا بھی ڈر خوف نہیں تھا کیونکہ ضلع گجرات کے کئی بڑے اور بااثر ترین سیاستدان اس کی پشت پناہی کر رہے تھے ان وقتوں میں شاکی گجر کا ڈنکا پورے گجرات میں بجنے لگا لیکن اس کے ساتھ والے گاؤں مدینہ سیداں کا سید گروپ بھی کافی بااثر اور طاقتور تھا یہ سید گروپ اس وقت گجرات شہر میں بھتہ وصولی جگہ ٹیکس قتل اقدام قتل اغوا برائے تاوان اور۔
اس جیسی سرگرمیوں میں کافی مشہور تھا لیکن شاقی گجر کا رعب اور دبدبہ اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ سید گروپ بھی شاقی گجر سے قطرانے لگا تھا شاقی گجر نے سید گروپ کو گجرات شہر سے بھتہ اور جگہ ٹیکس وصول کرنے اور لوگوں کو ناجائز تنگ کرنے سے منع کیا جس کی وجہ سے سید گروپ اور شاقی گجر گروپ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے دوسری طرف شاقی گجر کے استاد یعنی چوہدری مشتاق احمد ناظم کو ایک قتل کی وجہ سے عدالت نے سزائے موت سنا دی شاقی گجر نے چوہدری مشتاق احمد سے وعدہ کیا کہ میں اپ کو سزائے موت سے ضرور بچاؤں گا اور اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے شاقی گجر نے جج کو ڈرا دھمکا کر چوہدری مشتاق احمد کو عدالت سے باعزت بری کروا لیا جبکہ چوہدری شاقی گجر کے سامنے قانون اور عدالتیں بے بس ہو۔
گئی چوہری مشتاق احمد کو رہا کروانے کے بعد جبکہ چوہدری شاقی گجر نے خوب جشن منایا اور پورے گجرات شہر میں ہوائی فائر کروائی ایک دفعہ یوں ہوا کہ جبکہ چوہدری شاقی گجر کے ڈیرا سے ایک بھینس کھل کر چلتے چلتے قریبی گاؤں مدینہ سیدہ میں جا پہنچی مدینہ سیدنا کے سید گروپ نے شاقی گجر کی اس بھینس کو پکڑ کر اپنے ڈیرا پر باندھ دیا اور شاقی گجر کو پیغام بھجوایا کہ اگر تم میں اتنی جرات ہے تو اپنی بھینس واپس لے کر دکھاؤ اس معمولی سی بات پر شاکی گجر گروپ اور سید گروپ اف مدینہ سیداں کے درمیان خوب ٹاکرا ا ہوا دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے درجنوں افراد قتل ہو گئے اس افسوسناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ہی ضلع گجرات کے کئی بڑے سیاست دانوں نے شاقی گجر گروپ اور سید۔
گروپ آف مدینہ سیداں کے درمیان راضی نامہ کرانے کی کوشش کی 2004 میں گاؤں مدینہ سعیدہ کے ایک ڈیرا سادات پر ان دونوں گروپوں کو راضی کروانے کے لیے ایک پنچائت بٹھائی گئی اس پنچائت میں شاکی گجر کو بھی بلایا گیا اور سید گروپ بھی وہاں پر موجود تھا شاکی گجر اپنی اٹھ سے 10 گاڑیوں اور درجنوں گن مینوںسمیت ڈیرہ سادات مدینہ سیدہ پر پہنچ چکا تھا اس پنچائت کا جب آغاز ہوا تو شاکی کو جج گروپ اور سید گروپ کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوئی معمولی سی تلخ کلامی بات بڑھی اور دونوں گروپوں کی طرف سے فائرنگ شروع کر دی گئی یہ فائرنگ کا سلسلہ دونوں گروپوں کے درمیان مدینہ سیدنا گاؤں میں تقریبا ساری رات جاری رہا اس فائرنگ کے نتیجے میں دونوں گروپوں کے تقریبا 39 افراد قتل ہوئے اس موقع پر سید گروپ نے شاقی گجر کو اس کے 14۔
ساتھیوں سمیت قتل کر دی اس طرح یہ راضی نامے کی پنچائت ایک بہت بڑے سانحے کا سبب بن گئی مدینہ سیدہ میں ہونے والا یہ واقعہ ضلع گجرات کا تقریبا سب سے بڑا قتل و غارت کا واقعہ تھا.۔
Disclaimer
The content provided in this video/post is for informational and entertainment purposes only. We do not endorse or promote any form of violence, illegal activities, or any actions that may be harmful to individuals or society. The names, characters, and groups mentioned in this content are either based on publicly available information or used in a general context without any intent to defame, misrepresent, or harm anyone’s reputation.
Any resemblance to real persons, living or dead, is purely coincidental. Viewers/readers are advised to conduct their own research and not take this content as absolute fact. We hold no responsibility for any interpretations, misinterpretations, or actions taken based on this content.
If you have any concerns or objections regarding the content, please contact us directly before taking any legal or social action.
Thank you for your understanding.