The story of Haifa and Zanisha ends here — and this is not just any conclusion. It’s the best Urdu novel last part, packed with emotional twists, romantic drama, and unforgettable moments. As one of the most viral Urdu love stories, this final chapter delivers closure, intensity, and the kind of storytelling that readers never forget.
If you’re a fan of bold Urdu novels, free romantic stories in Urdu, or love to read the top trending Urdu novels online, this last episode is a must-read. Written in beautiful Urdu font, it’s available to read online or download the free PDF without any hassle.

Haifa and Zanisha Novel – Best Urdu Novel Last Part
Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 29 – Urdu Font Novel
” میں نے بھی۔۔۔۔۔
زنیشہ کے لب ہولے سے ہلے تھے۔۔
” یہ پکچر بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔”
زنیشہ اس کی جانب چہر اموڑ تے بولی تھی۔۔۔
جبکہ زوہان بنا اس کی بات کا جواب دیئے۔۔۔ اُس کی سانسوں کی دلفریب مہک محسوس کرتا۔۔۔۔ چہرا اُس کے کندھے پر
جھکا گیا تھا۔۔۔۔ تھینکس۔۔۔۔”
زنیشہ اس کے مس پر کسمساتی ہوئی بولی تھی۔۔۔
” فارواٹ مائی لو۔۔۔۔۔؟؟”
زوہان اُس کا رخ اپنی جانب موڑ تا سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے بولا۔۔۔
جبکہ اُسے شرٹ لیس دیکھ زنیشہ کی لرزتی پلکیں عارضوں پر جھک آئی تھیں۔۔۔۔
فار ایوری تھنگ۔۔۔۔
زنیشہ کے لہجے میں زوہان کے لیے بے پناہ محبت تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی زوہان کے لیے اس گھر میں لوٹنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔ جہاں اُس نے اپنی ماں کو کھویا تھا۔۔۔۔ مگر وہ سب کی خوشی کی خاطر ۔۔۔ اُن سب کے حوالے سے دل سے ہر شکوہ مٹاتا یہاں لوٹ آیا تھا۔۔۔۔
شکریہ تو مجھے ادا کرنا چاہیے تمہارا ۔۔۔۔۔ تم نے میری زندگی میں آتے ہی اسے روشنیوں سے بھر دیا ہے۔۔۔ تم میرے رب کا عطا کر دہ وہ انمول تحفہ ہو۔۔۔ جس کے لیے میں ساری زندگی بھی اُس کا شکر ادا کروں تو کم ہو گا۔
زوہان اُس کے ماتھے پر عقیدت اور محبت بھری مہر ثبت کرتا اُسے خود سے قریب کر گیا تھا۔۔۔
زنیشہ اسکی بات پر دھیرے سے مسکرادی تھی۔۔۔۔
جب اچانک اُسے تمام کزنز سے کیا گیا وعدہ یاد آیا تھا۔۔۔ آج اُن سب کا مل کر رت جگا کر نے کا پلان تھا۔۔۔ جس کے ساتھ وہ ماورا پر منہاج کے حوالے سے سر پر ائز بھی اوپن کرنے والی تھیںمگر اگلے ہی لمحے زوہان اُس کی کلائی تھام کر اُسے واپس اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
ز وہان وہ سب میر اویٹ کر رہی ہو نگی۔۔۔۔۔
زنیشہ زوہان کے خطرناک تیور دیکھ گھبرا کر بولی تھی۔۔۔
اور تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے۔۔۔ کہ میں تمہیں جانے دوں گا۔۔۔۔”
ز وہان دروازہ لاک کر کے آتے اُس کی جانب مڑ ا تھا۔۔۔
“مگر ز وہان ۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے اُسے منانا چاہا تھا۔۔۔ جب اُسی لمحے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ز وہان کا موبائل بج اٹھا تھا۔۔۔۔ جس پر جگمگاتا ثمن کا نام
دیکھ زنیشہ کا موڈ فوراً آف ہوا تھا۔۔۔
اب تو وہ خود ہی باہر جانے کا ارادہ ترک کرتی۔۔۔ بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
اور شدید خفگی بھری نظروں سے ز وہان کو دیکھا تھا۔۔۔۔
جو آنکھوں میں شریر مسکراہٹ بھرے لیکن چہرے پر انتہائی معصومیت سجائے اُس سے کال اٹھانے کی اجازت مانگ رہا
تھا۔۔۔۔
جس کے جواب میں بھی زنیشہ نے اُسے گھورنے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔۔
بلیک ٹراؤزر کے اُوپر ۔۔۔ اب وہ بلیک کلر کی ہی سلیور لیس بنیان پہنے رف حلیے میں بھی بے حد وجیہہ لگ رہا تھا۔۔۔۔ کسرتی مضبوط کندھے ، چوڑا سینہ اور روشن پیشانی پر بکھرے سیاہ گھنے بال۔۔۔۔
وہ صرف اور صرف اُس کا تھا۔۔۔ جس پر وہ کسی لڑکی کا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ اور ثمن کو میڈیا میں جس طرح بے تکلفی سے زوبان کے ساتھ چپکتا دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ اُسے ثمن کسی صورت بھی زوہان کے دور دور تک بھی
برداشت نہیں تھی۔۔۔۔
ز وہان فون آن کر کے کان سے لگاتا۔۔۔ بیڈ پر اُس کے مقابل آن بیٹھا تھا۔۔۔۔
آف کورس یار میں ضرور آؤں گا۔۔۔۔ یہ تمہاری لائف کا اتنا اہم موومنٹ ہے۔۔۔ میرا ہونا تو لازم ہے۔
زوہان نے شمن سے بات کرتے چہرا موڑ کر جلن سے لال ہوتی اپنی بیوی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو ز وہان کی یہ بات سنتے شدید غصے کے عالم میں بھی وہاں سے اُٹھی نہیں تھی۔۔۔۔
ز نیشہ کے بارے میں۔۔۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ یہ اُس کی ہی چوائس ہو گی۔۔۔ تم خود بات کر لو اُس سے۔۔۔۔
دوسری جانب سے شاید زنیشہ کو بھی ساتھ لانے کا ذکر کیا گیا تھا۔۔۔۔
شمن تمہیں اپنی شادی میں انوائٹ کرنا چاہتی ہے۔۔۔
زوہان نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ زنیشہ کا لال چہرا دیکھتے اصل بات بتاتے موبائل اُس کی جانب بڑھایا تھا۔۔۔
جو کب سے کچھ اور ہی سمجھی بیٹھی تھی۔۔۔۔
اس کی شادی ہو رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟
زنیشہ کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدلے تھے۔۔۔۔ وہ ایکسائٹمنٹ میں بولتی زوہان کے ہاتھ سے موبائل لے گئی
لیکن اگلے ہی لمحے زوہان کی گہری بولتی نگاہیں خود پر مرکوز دیکھ اُس کے جوش کو زر ابر یک لگا تھا۔۔۔۔
ہاں ہم ضرور آئیں گے۔۔۔۔
زنیشہ نے فور حامی بھری تھی۔۔۔ آخر کو اُس کے شوہر کو ہمیشہ کے لیے چھٹکارامل رہا تھا۔۔۔۔ یہ سچ تھا۔۔۔ ثمن نے زوہان سے بہت محبت کی تھی۔۔۔۔ زوہان کے ساتھ رہنے کے لیے اُس نے اپنے امیج تک کا خیال نہیں کیا تھا۔۔ جہاں بہت سی جگہوں پر زوہان نے اُس کی مدد کی تھی۔۔۔۔ وہیں وہ بھی زوہان کے بنا کہے اُس کے ساتھ کھڑی رہی تھی۔۔۔۔ زوہان کی زندگی میں زنیشہ میر ان اُس کے ہوش سنبھالتے ہی اُس کے دل میں تھی۔۔۔۔ جس کی جگہ لے پانا کسی بھی لڑکی کے لیے ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔
زوہان نے شمن کو پہلے دن سے ہی آگاہ کر رکھا تھا کہ اُس کے دل و دماغ پر صرف اور صرف زنیشہ کا بسیرا تھا۔۔۔ یہ جاننے کے باوجود شمن خود کو زوبان سے محبت کرنے سے نہیں روک پائی تھی۔۔۔۔
لیکن زوبان اُس کی قسمت میں تھا ہی نہیں تو کیسے ملتا ہے۔۔۔۔ ثمن نے ساری زندگی زوبان کی محبت کے ساتھ کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ لیکن زوہان نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا تھا۔۔۔ جیسے ثمن نے شروع سے زوہان کی ہر بات مانی تھی۔۔۔ یہاں پر بھی زوہان کے کہے کا انکار نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ اور اپنے کزن شاہزیب سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا
تھا۔۔۔ جو ثمن سے بہت محبت کر تا تھا اور ثمن کی زوہان کے لیے چاہت سے بھی آگاہ تھا۔۔۔ لیکن اُس کی محبت نے اُسے
اتنا ظرف بخشا تھا اور اُسے پورا بھروسہ تھا کہ وہ ثمن کا دل اپنی محبت سے اپنی جانب موڑلے گا۔۔۔
تم یقین نہیں کرو گی۔۔۔ تمہاری شادی کا سن کر اس وقت شاہزیب سے بھی زیادہ میری بیوی خوش ہے۔۔۔۔
ثمن سے الوداعی کلمات ادا کرتے زوہان نے آہستہ آہستہ دور کھسکتی زنیشہ کی کلائی پکڑتے پر مزاح انداز میں طنز کیا تھا۔۔۔ جسے سمجھتے دوسری جانب سے ثمن اپنی ہنسی نہیں روک پائی تھی۔۔۔۔
” ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔”
زنیشہ نے اپنی کلائی آزاد کر واتے اُسے گھورا تھا۔۔۔
زوہان فون بند کر کے دور اُچھالتا۔۔۔ زنیشہ کو اپنے قریب بیڈ پر گراتے اُس کے اُو پر جھکا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کی سانسیں بکھر گئی تھیں۔۔۔۔ اُس نے بے اختیار پاگل ہوتے دل پر ہاتھ رکھتے دھڑکنوں کو نارمل کرنا چاہا تھا۔
تم اس طرح جیلس ہوتی پتا ہے کتنی کیوٹ لگتی ہو۔۔۔۔”
اُس کے دونوں ہاتھ پیچھے بیڈ پر ٹکاتے۔۔۔۔ زوہان نے اُس کے چہرے کو ڈھانپے بالوں کو پیچھے ہٹایا تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔ مجھے جاننا بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔
زنیشہ نے فوراً نفی میں سر ہلاتے اُسے باز رکھنا چاہا تھا۔۔۔۔ وہ ابھی بھی باہر جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔اس لیے زوہان کو خطر ناک تیوروں سے خود پر جھکتے دیکھ ۔۔۔ اُسے اپنی تیاری خراب ہونے کی فکر لاحق ہوئی تھی۔۔۔۔
“مگر میں تو یہ بات اچھے سے سمجھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔۔”
زوہان نے اُس کے گلابی گال پر ہونٹ رکھتے اُس کے کانوں کو ائیر رنگز کے بوجھ سے آزاد کیا تھا۔۔۔۔ اور بس یہیں زنیشہ کی فرار کی کوشش دم توڑ گئی تھی۔۔۔
وہ اس شخص کی مہکتی قربت کو چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔ زوہان کی والہانہ چاہت کے جواب میں اُسے اپنا
آپ سونپتی ز نیشہ آسودگی سے آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔
@@@@@
حاعفہ آژمیر سے بہت سخت خفا تھی۔۔۔۔ اور اس کے دوبار ملازمہ کے بھیجنے کے باوجو دوہ اس کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔۔ فجر لوگ اُس کی آژ میر سے ناراضگی جان کر اُسے آج رات کے لیے آژمیر سے دور رکھنے میں اُس
کی مدد کرنے کی حامی بھر چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شمسہ بیگم سے نیچے آئے مہمانوں کو رخصت کرتی ماورا کے روم کی جانب جارہی تھی۔۔۔۔ جہاں سب لڑکیاں جمع تھیں۔۔۔ جب اچانک آژ میر کے سامنے آجانے پر حائفہ اپنے قدموں کو بریک نہیں لگاپائی تھی۔۔۔۔ اُس کا سر بہت زور
سے آثر میر کے فولادی سینے سے ٹکراتا اُسے کراہنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔
” حائفہ آریو او کے۔۔۔”
آژمیر نے فوراً اُسے سہارا دیتے اپنے قریب کیا تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے بنا کوئی جواب دیئے سر اُس کے سینے پر ہی رکھ دیا
” درد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
آژ میر نرمی سے اُس کا سر سہلا رہا تھا جب حائفہ کی کمزور سی نرو بھی آواز اُسے بے چین کر گئی تھی۔۔۔
او کے ابھی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔”
آژ میر اُس کو ایسے ہی اپنے کندھے کے ساتھ لگائے۔۔۔۔ بچوں کی طرح اُسے او پر اُٹھا تا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ اُس کی گردن میں چہر اچھپائے وہ بالکل بچوں جیسا ہی بی ہیو کر رہی تھی۔۔۔
اور آژ میر دل و جان سے اُس کے یہ بچوں جیسے نخرے اُٹھانے کو تیار تھا۔۔۔۔
کیا ہو ا حائفہ کو۔۔۔؟؟؟
ڈرائنگ روم میں بیٹھے تمام افراد حائفہ کو اس طرح دیکھ پر یشان ہوئے تھے۔
مگر آژ میر سب ٹھیک ہونے کا اشارہ کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ کو احتیاط سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھاتے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو تا گاڑی وہاں سے نکال کر لیے گیا تھا۔
“کیا میں جان سکتا ہوں۔۔۔ میری بیوی مجھ سے کیوں ناراض ہے۔۔۔۔؟”
آژ میر اُس کا سر اپنے کندھے سے نکا تا۔۔۔۔ اُس کی نازک اُنگلیوں میں اپنی مضبوط اُنگلیاں پھنساتا ہو نٹوں سے لگا گیا
آپ سے بالکل بات نہیں کروں گی میں۔۔۔۔ جب بھی اُس لمحے کو تصور میں لاتی ہوں۔۔۔ میری روح کانپ اُٹھتی ہے۔۔۔۔ آپ کیسے بھلا خود کو یوں پیش کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر خدانخواستہ غلطی سے بھی گولی چل جاتی تو ۔۔۔۔ میں تو
مر جاتی نا۔۔۔۔
حائفہ بھیگے لہجے میں اذیت سے بولتی آژ میر کو تڑپاگئی تھی۔۔۔۔ وہ شام سے جو سوچ رہا تھا حائفہ کی نارضگی کاریزن وہی نکلا
حائفہ کی سوجی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ کل سے کئی بار اس بات پر رو چکی تھی۔۔۔۔ آژمیر کو اپنی اس دیوانی پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔
گاڑی ایک سائیڈ پر روکتے آژ میر جی جان سے اُن کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔ جان من ایک ہی دل ہے کتنی بار
لو ٹوگی۔۔۔۔ اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔ ؟؟؟
اُس کا چہر ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ اس پر جھلکتا اُس کی بھیگی آنکھوں کو چومتا چہرے پر پھسلے انمول موتیوں کو چتا
چلا گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ اپنی خفگی کے جواب میں ایسے والہانہ اظہار پر بوکھلا گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا چہرا آژ میر کے شدت بھرے لمس سے تپ
اُٹھا تھا۔۔۔۔
” میں ناراض ہوں آپ سے۔۔۔۔
حائفہ چہرے پر پھیلتی سرخی اور لرزتی کانپتی پلکوں کے زیر اثر اُسے ٹھیک سے گھور بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔ ” آپ کی ناراضگی سر آنکھوں پر ہے میری جان۔۔۔۔ اور میں اُسے محبت سے ختم کرنے کا پورا ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔
آژ میر نے اُس کے شرمگیں حسین رُوپ کو آنکھوں کے راستے دل میں اُتارتے گاڑی آگے بڑھادی تھی۔۔۔۔۔ جب کچھ لمحوں بعد گاڑی کو آژ میر آشیانہ میں داخل ہوتا دیکھ حاعفہ نے حیرت سے آث میر کو دیکھا تھا۔۔۔ اُسے تو اب تک یہی لگ رہا تھا کہ وہ دونوں ہاسپٹل کی جارہے تھے۔۔۔۔
آژمیر ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
حائفہ گاڑی سے نہیں نکلی تھی۔۔۔۔
تاکہ یہاں ہمیں تمہاری تیار کردہ فوج ڈسٹرب نہ کر سکے۔
حائفہ کو آگے بڑھ کر واپس بانہوں میں اُٹھاتے آژ میر اُس پر خفیف سا طنز کر گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ حاعفہ کا حیرت کے مارے منہ کھل گیا تھا۔۔۔۔ میر ان پیلس میں بھلاوہ آژمیر میر ان کے خلاف کوئی پلاننگ کرنے میں کامیاب ہو بھی کیسے سکتی تھی۔۔۔۔۔ جہاں جگہ جگہ پر اُس کے وفادار ترین ملازمین موجود تھے۔
حائفہ شر مندہ سی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اُسے روم میں لا کر صوفے پر بیٹھاتے آژ میر اُس کے سامنے دوزانوں بیٹھتا حائفہ کو پل بھر کے لیے ساکت کر گیا تھا۔۔۔۔ ہمیشہ اپنے سے پہلے اپنے سے منسلک رشتوں کے بارے میں سوچتے اور کرتے عادت ایسی پختہ ہو گئی ہے۔۔۔ کہ اُس وقت میں کچھ لمحے کے لیے یہ فراموش کر گیا تھا کہ اب میں اپنے فیصلوں میں تنہا نہیں ہوں۔۔۔ میری ذات سے اب ایک اور ہستی بھی جڑ چکی ہے۔۔۔۔ جسے میں اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہوں۔۔۔۔ میرے مطابق صرف بیوی کو ہی نہیں۔۔۔
بلکہ شوہر کو بھی اپنے اُٹھائے جانے والے ہر عمل پر اپنی بیوی کا جواب دہ ہونا چاہیے۔۔۔۔ آئندہ کبھی بھی میرے کسی عمل سے میں تمہیں ہرٹ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔ یہ میر اوعدہ ہے تم سے۔۔۔۔ لیکن تم
بھی مجھ سے وعدہ کرو کہ اس طرح آنسو بہا کر میری ملکیت کو تکلیف نہیں پہنچاؤ گی۔۔۔۔
آژمیر گھمبیر لہجے میں بولتا حائفہ پر اپنی سحر انگیز شخصیت کا سحر طاری کرتا چلا گیا تھا۔۔۔۔ وہ مسمرائزسی دیوانہ وار نگاہوں
سے اُسے تکتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
وہ ہلکاسا جھکی تھی اور آژمیر کی کشادہ پیشانی پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔
تھینکس مائی بیوٹیفل لائف۔۔۔۔
آژمیر نے اُس کی شہ رگ پر لب رکھتے اُسے اپنی شد تیں سونپی تھیں۔۔۔۔ حائفہ اُس کے کندھوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑتی جی جان سے لرز اٹھی تھی ۔۔۔۔۔
تمہارے لیے میرے پاس ایک گفٹ ہے۔۔۔۔
آژمیر اپنی جگہ سے اٹھتا سائیڈ ٹیبل سے مطلوبہ فائل اٹھاتا اس کی جانب بڑھا گیا تھا۔
حاعفہ نے نا سمجھی سے اُس کی جانب دیکھتے فائل اوپن کی تھی۔۔۔۔ مگر جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی تھی۔۔۔ اُس کے چہرے کی رونق میں کئی گنا اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔ اُس کے دل سے ایک آخری پھانس بھی نکل گئی تھی۔۔۔
آژمیر نے کوٹھے پر ریڈ کروا کر نہ صرب وہاں قید تمام لڑکیوں کو بازیاب کروا کر اُن کے گھر والوں تک پہنچا دیا تھا۔۔۔۔ بلکه نگینہ بائی اور خان کو بھی جیل کی سلاخیوں میں ڈلوادیا تھا۔۔ کبھی نہ نکلنے کے لیے۔۔۔۔
جس طرح کو ٹھے کی تمام لڑکیوں نے ان کے خلاف بیان دیا تھا۔۔۔ ان کا اب آزاد ہو پانا نا ممکن تھا۔
اُن سے منسلک ارد گرد باقی شہروں کے کو ٹھوں پر بھی چھاپے مارے جارہے تھے۔۔۔۔۔ آژ میر نے اُن سب کو ہلا کر رکھ
دیا تھا۔۔۔۔
جن لوگوں نے اتنے وقت تک حائفہ کی زندگی کو جہنم بنائے رکھا تھا۔۔۔ آژ میر انہیں یوں آزاد د ند نا تا کیسے دیکھ سکتا
تھینکیو سوچ آژ میر ۔۔۔۔ آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔”
حائفہ اپنے قریب صوفے پر آن بیٹھے آژ میر کے گلے میں بانہیں ڈال کر اُس کے ساتھ لپٹتی محبت سے چور لہجے میں بولتی
خوشی سے پاگل ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ ہمیشہ سے اپنے ساتھ ساتھ باقی لڑکیوں کو بھی وہاں سے آزاد کروانا چاہتی تھی۔۔۔۔ جو آج آژ میر نے کر دیا تھا۔۔۔۔۔
میری جان میں اتنا اچھا بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔
آژ میر کا اشارہ اس کے اتنے قریب آنے کے بعد خود سے شرافت کی امید رکھنے کی جانب تھا۔۔۔۔ حائفہ فورا گھبر اگر پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔ مگر آثر میر اُس کو ہلکا سا جھٹکا دیتا اپنے سینے پر گر گیا تھا۔۔۔
مجھے اپنے تحفے کے بدلے ایک پیارا سا تحفہ چاہیے۔۔۔۔
آژ میر نے اُس کے جوڑے میں مقید بالوں کو پھولوں اور پنوں سے آزاد کرواتے اُن کی مہک کو سانسوں میں اُتارا
تھا۔۔۔۔۔
حائفہ کچھ لمحے اُس کے مغرور نقوش سے سجے چہرے کو محبت پاش نگاہوں سے دیکھتی اُس کے سینے پر عین دل کے مقام پر
اپنے لب رکھ گئی تھی۔۔۔۔
مجھے محبت نہیں عشق ہے آپ سے۔۔۔۔
حائفہ آژمیر کے سامنے بہت بڑا اظہار کرتی اُس کے سینے میں چہرا چھپا گئی تھی۔۔۔۔اس کی اسیری اور اس خود سپر دگی پر
اپنا دل ہار تا وہ اُس پر محبت کی بارش کرتا چلا گیا تھا۔۔۔
@@@
میران پیلس کو آج پھر سے دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔۔۔ جہاں ابھی کچھ دیر پہلے ماورا کی بارات پہنچی تھی۔۔۔۔ میر ان پیلس کی تمام ینگ پارٹی تو ماورا کے ری ایکٹ کرنے کا انتظار ہی کرتے رہ گئے تھے۔۔۔ اور وہ اُن کی ہو نقوں زدہ شکلیں دیکھ اندر ہی اندر اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
ماورا آژ میر اور گھر کے باقی سب بڑوں کو پہلے ہی بتا چکی تھی کہ اُسے علم ہو چکا ہے۔۔۔۔ جبکہ باقی ڈرامے میں شریک لوگوں کو تنگ کرنے میں اسے بہت مزا آ رہا تھا۔۔۔
ماورا تمہاری بارات آچکی ہے۔۔۔۔
فجر نے اُسے کندھوں سے تھام کر یقین دلاتے انداز میں کہا تھا۔۔۔
“تو کیا نہیں آنی چاہیے تھی۔۔۔۔؟؟؟”
دلہن بن کر خوبصورتی اور دلکشی کے سارے ریکارڈ توڑتی ماورا نے بھنویں اُٹھاتے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
” نہیں وہ میر امطلب۔۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو نا۔۔۔۔ ؟؟؟”
فجر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ماور اسے کیسے اگلوائے۔۔۔۔۔۔ جو بات اُگلوانے کے لیے انہوں نے اتنی پلاننگ کی تھی۔۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ لیکن بہت زیادہ نروس بھی ہوں ۔۔۔۔ تم مزید میر ادماغ کھا کر مجھے پریشان مت
کرو۔۔۔۔
ماورا نے اُسے خفگی بھر اجواب دیا تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے فریحہ منہ سجائے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ گروپ میں منہاج بھائی کا میسج ملاحظہ فرمائیں سب۔۔ یہ دونوں میاں بیوی ہمارے ساتھ ہی کھیل گئے۔۔۔۔۔۔
فریحہ کی بات پر سب نے نا سمجھی سے میسج اوپن کیا تھا۔۔۔۔ جہاں منہاج کے ڈھیروں شکریہ کے ساتھ ماورا کی پرسوں ہی
ساری حقیقت سے باخبر ہونے کے بارے میں بتا دیا تھا۔۔۔۔
میرے شوہر کے ساتھ مل کر تم لوگ مجھے بے وقوف بناؤ گی۔۔۔۔ کیسی لگی میری جوابی کارروائی ۔۔۔۔ ماورا اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ باندھے بولتی اُن سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی
لیکن تھینکو سومچ ۔۔۔۔ میرے لیے میری زندگی کا سب سے بڑا سر پر ائر پلان کرنے کے لیے۔۔۔” ماورا کی آنکھوں کے چھلکتی سچی خوشی اور ہونٹوں پر سجی انمول مسکراہٹ حائفہ کے دل میں سکون بکھیر گئی تھی۔۔۔۔
اُس نے آج اپنی ماں سے کیا وعدہ پورا کر دیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@
محبت کی طویل اور اذیت سے بھری کھٹن راہیں طے کرتے آخر کار منہاج درانی آج اپنی محبت ، اپنی زندگی کی سب سے بڑی
خوشی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔۔
منہاج سر شار سا اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔
جہاں سُرخ لہنگے میں اُس کی سیج سجائے بیٹھی اُس کی زندگی اُس کی منتظر تھی ۔۔۔۔
منہاج سلام کر تا بیڈ پر دلہن بنی بیٹھی ماورا کے قریب بیٹھنے کے بجائے کچھ فاصلے پر رکھی الماری کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوا
تھا۔۔۔۔۔
ہر بار ہمیشہ میں نے ہی پہل کی ہے۔۔۔ مگر آج یہ دل تمہاری جانب سے پیش قدمی کا خواہاں ہے۔۔۔ کیا تم میری یہ
خواہش پوری کرتے چل کر میرے پاس آؤ گی۔۔۔۔
منہاج کی نگاہیں بیڈ کے عین وسط میں بھاری کا مدار دوپٹے کا مکمل گھونگھٹ لیے لرزتی کا نپتی اپنی دلہن پر ٹکی ہوئی
جس نے نہ اُس کے سلام کا جواب دیا تھا۔۔۔۔ اور نہ وہ اب کچھ بولی تھی۔۔۔۔
مسز منہاج درانی۔۔۔۔ میرے خیال میں اب یہ آنکھ مچولی والا کھیل ختم کرہی دینا چاہیے۔۔۔
کچھ دیر کے انتظار اُسے اسی طرح خاموش بیٹھے دیکھ منہاج آگے بڑھا تھا اور سیج پر اس کی نقلی دلہن بنے بیٹھے شہریار کے اوپر سے دو پٹہ کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
اور اس کے ساتھ ہی بیڈ کے نیچے چھپے حاشر اور عثمان، پردوں کے پیچھے دیکھی کھڑیں فریحہ اور فجر ، اور آدھ کھلے دروازے
سے جھانکتیں حائفہ اور زنیشہ کے ارمانوں پر پانی پھر گیا تھا۔۔۔۔
“بھائی وہ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔”
شہریار منہاج کے خطرناک تیور دیکھ ہکلا گیا تھا۔۔
موٹے گینڈے۔۔۔ تمہیں کیا لگا تھا۔۔۔ میں تمہیں اپنی دلہن سمجھنے کی سنگین ترین غلطی کروں گا۔۔۔۔ اور باقی سب
بھی جہاں جہاں ہیں۔۔۔ شرافت سے باہر نکل آؤ۔۔۔۔
منہاج کی فصیلی آواز پر سب اپنی اپنی جگہوں سے نکلتے باہر آئے تھے۔۔۔
یار کیا منہاج بھائی۔۔۔۔ تھوڑا سا بے وقوف بن کر ایک دو ڈائیلاگ مارنے کے ساتھ گھونگھٹ بھی اُٹھا دیتے تو ہم غریبوں کا تھوڑا سا بھلا ہی ہو جاتا۔۔۔۔ ہم اپنا پلان کامیاب ہونے پر خوش تو ہو لیتے۔۔۔۔اتنی دیر سے بیڈ کے نیچے لیٹ
لیٹ کر کمر اکڑ گئی ہے۔۔۔۔
حاشر بمشکل بیڈ کے نیچے سے نکلتے ساتھ ساتھ زبان چلانے میں بھی مصروف تھا۔۔۔۔ لیکن منہاج کے خون خوار تیور دیکھ کر سر جھکائے خاموش ہو ا تھا۔۔۔۔
تم لوگ خود جاؤ گے۔۔۔ یا لوگوںکےلیے مجھے کوئی ای سوار بلوایا ہے ۔
منہاج کے گھورنے پر وہ سب جلدی سے باہر کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔
ویسے آپ کی اصلی والی دلہن بھی کمرے کے اندر ہی موجود ہے۔۔۔۔ زرا احتیاط سے ڈھونڈیے گا۔۔۔۔ویسے کافی ڈری
ہوئی بھی ہے آپ سے۔۔۔ اور ہاں یہ پلان بھی اُسی کا ہی تھا۔۔۔۔۔
فجر دروازے میں سے سر نکال کر اُس کی معلومات میں اضافہ کرتی اگلے ہی سیکنڈ غائب ہوئی تھی۔۔۔۔
منہاج نے سب سے پہلے جاکر دروازہ لاک کیا تھا۔۔۔۔
یہ الگ بات تھی کہ اُس نے ماورا کی یہ شرارت انجوائے بہت کی تھی۔۔۔
وہ واش روم کے دروازے میں ماورا کی ہلکی سی جھلک پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔۔۔۔ اس لیے اب کسی اور کے روم میں نہ ہونے کی پوری تسلی کر تا دبے قدموں واش روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
ماوراجو گھونگھٹ میں سکڑی سمٹی کھڑی اُس کے ابھی تک خود کو نہ ڈھونڈ پانے پر شکر ادا کر ہی رہی تھی۔۔۔ جب اپنے بے
حد قریب منہاج کے سیاہ بوٹ دیکھ اُس کا دل بُری طرح دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔
بنا کچھ بولے منہاج خاموشی سے اُس کے نازک وجود کو بانہوں میں بھرے روم کے عین درمیان میں آکر کھڑا کر دیا
تھا۔۔۔۔
مجھے تڑپانے میں بہت مزا آتا ہے نا تمہیں۔۔۔۔ تمہیں پہچانے میں میں کبھی کو تاہی نہیں کر سکتا۔۔۔۔ تمہاری خوشبو ہر وقت میرے رگوں میں سمائی ہے۔۔۔۔ میری روح کو مہکاتا ایک ایک خوبصورت احساس ہو تم ۔۔۔۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہو تم۔۔۔۔
منہاج اُس کے ارد گر د محبت کے پھول کھلا تا اُس کے چہرے سے گھو نگھٹ الٹ گیا تھا۔۔۔۔۔
سامنے کھڑی سجی سنوری اپسراؤں کے حسن کو مات دیتی، اُس کے دل کی سب سے اونچی مسند پر بیٹھی ماور انور ایک ہی جھلک میں اُسے بُری طرح گھائل کر گئی تھی۔۔۔۔
بلڈریڈ کلر کے بھاری بھر کم لہنگے میں اُس کے دلکش وجود کی رعنائیاں چھپائے نہیں چھپ رہی تھیں۔۔۔۔ بھاری فل کام سے مزین سوٹ دوپٹے کو سر پر اوڑھ کر نازک کلائیاں میں الجھائے۔۔۔۔ وائٹ اور ریڈ گجروں سے مہکتی کلائیاں منہاج کی توجہ اپنی جانب کھینچ گئی تھیں۔۔۔
زیورات سے لدی پھندی منہاج کو وہ خود سے کہیں زیادہ ویٹ سنبھالے کھڑی معلوم ہوئی تھی۔۔۔ ” تمہاری سادگی نے تو پہلے دن سے ہی گھائل کر رکھا تھا۔۔۔۔ مگر آج تو جو تھوڑے بہت ہوش سلامت تھے وہ بھی ساتھ ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔ آج تو لگتا ہے اس کیل کانٹوں سے لیس قیامت خیز محسن کے آگے میں جان سے جاؤں
گا۔۔۔۔۔۔”
منہاج سے اپنے سامنے آنکھیں موندے چہرا جھکائے کھڑی ماورا کو دیکھ اپنے حواس قائم رکھ پانا مشکل ہوا تھ۔۔۔ جب اگلے ہی لمحے اُس کے لرزتے کانپتے وجود کو اپنے مضبوط حصار میں قید کرتے منہاج اُس کے چہرے پر جھکتا جابجا اپنی محبت کی نشانیاں چھوڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
ماورا اُس کے اس جارحانہ حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔۔۔ اُس کا پورا وجو د بری طرح لرز اٹھا تھا۔۔اگر منہاج کا بازو اُس کے گرد حمائل نہ ہو تا تو وہ زمین بوس ہو چکی ہوتی۔۔۔۔
بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔ تمہاری جدائی نے مجھے مجنوں بنا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔ اگر ابھی بھی نہ ملتی تو میں نے تو
دیوانہ بن کر سڑکوں پر نکل جانا تھا۔۔”
ماورا کے لال چہرے کو محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے وہ اپنا ہی مذاق اُڑاتے بولتاماورا کو بہت پیارا لگا تھا۔۔۔
لیکن یہ بھی سچ تھا کہ اس شخص کو اُس نے بہت ستایا تھا۔۔
جو آج کے دن اُس کے اظہار کا پورا پورا حقدار تھا۔۔۔
ماورا اُس کے مزید قریب ہوتی منہاج کا چہرا اپنے مہندی اور جیولری سے سجے نازک کپکپاتے ہاتھوں میں تھامتی اُسے پل بھر کے لیے ساکت کر گئی تھی۔۔۔۔
” میں بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہوں۔۔۔ آپ سے دور جانے کا تصور ہمیشہ سے میرے لیے سہانے روح رہا ہے۔۔۔ میں ایک بار نادانی کر کے آپ کو ہرٹ کر چکی ہوں۔۔۔۔ جس میں میں بھی آپ کے لیے اتناہی تڑپی ہوں جتنا آپ تڑپے ہیں۔۔۔۔ آپ کی محبت میری نس نس میں سما گئی ہے۔۔۔۔ میں اب مرتے دم تک انہیں بانہوں میں قید رہنا چاہتی
ہوں۔۔۔۔۔ کیونکہ آپ ہی میری پوری دنیا ہو اب۔۔۔۔”
ماورا آج تمام جھجک اور لحاظ ایک طرف رکھتی اپنے دل کی ایک ایک بات منہاج کی ساعتوں کی نظر کرتی اُسے اپنا تن من سونپ گئی تھی۔۔۔۔
” میں اب کبھی تمہیں خود سے دور جانے بھی نہیں دو گا۔۔۔۔”
اُسے اپنی مضبوط پناہوں میں لیتا منہاج اُس کے کانوں میں محبت بھری سرگوشیاں کرتا اُسے لیے محبت کے میٹھے نشے میں
ڈوبتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
@@@@
کچھ سال بعد .
“شہیر آرام سے بیٹھ کر کھانا کھالو۔۔۔ ورنہ میں بابا کو آواز سے کر یہیں بلالوں گی۔۔۔۔”
زنیشہ اپنے چار سالہ بگڑے نواب کو کھانا کھلانے کے لیے معمول کے مطابق اُس کے پیچھے دوڑتی ہلکان ہو رہی تھی ۔۔۔۔ لیکن وہ اُس کے ہاتھ آنے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔ زنیشہ کو شہیر کی بہت سی عادتیں بالکل زوہان کی طرح بگڑی ہوئی لگتی تھیں۔۔۔ جن کا وہ بر ملہ اظہار بھی کرتی تھی۔۔۔۔ مگر اُس کی باتوں کے جواب میں وہ دونوں باپ بیٹا ایسے فخر محسوس
کرتے تھے۔۔۔ جیسے یہ اُن دونوں کے لیے اعزاز کی بات ہو۔۔۔۔
“شہیر بیٹا آپ تو گڈ بوائے ہو نا۔۔۔ ماما کو تنگ مت کرو۔۔۔ آجاؤ آکر کھانا کھالو۔۔۔”
تین سالہ حورم کو گود میں اُٹھائے حائفہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ جہاں اب عنقریب زنیشہ کے ہاتھوں شہیر کی
پٹائی کنفرم تھی۔۔۔۔
گول مٹول سی گڑیا جیسی سرخ و سفید حورم نے شادی کے دو سال بعد ان کی زندگی میں داخل ہو کر ۔۔۔۔ اُن کی زندگی مکمل کر دی تھی۔۔۔۔ حورم نے آژمیر اور حائفہ دونوں کے نین نقش چرائے تھے ۔۔۔۔ اگر اُس کی معصوم سی دلکش مسکراہٹ آژمیر جیسی تھی تو اُس نے نزاکت بالکل حائفہ جیسی پائی تھی ۔۔۔۔ وہ اُن دونوں کی محبت کی نشانی تھی۔۔۔۔ آژمیر کی جان بستی تھی اپنی بیٹی میں۔۔۔۔۔۔۔ صرف آژمیر ہی نہیں حورم میر ان پیلس کی جان تھی۔۔۔۔ تو وہیں شہیر
اُن کا دل۔۔۔۔۔
شہیر نہ صرف زوہان کی کاربن کاپی تھا بلکہ اس کی عادت بھی بالکل زوہان جیسی تھیں۔۔۔۔ نخرے دکھانے میں دونوں باپ بیٹے کا کوئی ثانی نہیں تھا۔۔۔۔
لیکن جو بھی تھاز نیشہ کا اُن دونوں باپ بیٹے کے بغیر گزارا نہیں تھا۔۔۔ اور اُن کا ز نیشہ کے بغیر۔
جہاں حورم کی معصوم کلکاریاں میر ان پیلس کی رونق کا باعث تھیں۔۔۔ وہیں شہیر کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں سب کے چہروں سے مسکراہٹ نہیں ہٹنے دیتی تھیں۔۔۔
اوتے بڑی ماما۔۔۔۔ لیتن پہلے آپ تو بے بی تو میلی گودی میں بیتھانا ہو دا۔۔۔۔۔ اوکے بڑی ماما لیکن پہلے آپ کا بے بی کو میری گودی میں بیٹھانا ہو گا
شہیر اپنی زبان میں بولتا۔۔۔۔ حاعفہ کے ساتھ وہاں داخل ہوتے آژمیر اور زوہان کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھیر گیا
“تمہارا بیٹا اس معاملے میں بھی تم پر گیا ہے۔۔۔۔”
آژمیر کا اشارہ سمجھتے زوہان کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ کھیل گئی تھی۔۔۔
جیسے اُس نے بچپن سے ہی زنیشہ پر اپنا حق جمانا شروع کر دیا تھا۔۔۔ اسی طرح اُس کا لاڈلا اکثر حورم کے بارے میں یہ میلی
بے بی ہے۔۔۔ کہتا پایا گیا تھا۔۔۔۔
جو بات سب نے ہی نوٹ کی تھی۔۔۔۔
سارا الزام مجھ پر نہیں آسکتا۔۔۔۔ اُس کی بہت سی عادتیں تم پر بھی ہیں۔۔۔۔۔
زوہان کی بات پر آژمیر مسکرا تا اثبات میں سر ہلا گیا تھا۔۔۔۔۔ شہیر میں کبھی کبھار اسے اپنے بچپن کی جھلک دیکھتی
تھی۔۔۔۔
” آج پھر ماما کو تنگ کیا نا گندے بچے۔۔۔”
جبکہ آژ میر کا رخ اپنی کل کائنات کی طرف تھا۔۔۔۔
حورم کو اُٹھائے کھڑی حائفہ کو پیچھے سے ہگ کرتے اُس نے باری باری دونوں کے گال چوم لیے تھے۔۔۔۔
میں کچھ دنوں سے ایک بات سوچ رہا تھا۔۔۔۔
حورم کو حائفہ سے لیتے وہ اس کی جانب محبت پاش نظروں سے دیکھتا مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے بولا۔۔۔
حائفہ اُس کے اتنے سنجید گی بھرے انداز پر اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔۔
“کیوں نا اپنی محبت کی دوسری نشانی لانے کے بارے میں اب سوچا جائے۔۔۔۔”
آژ میر اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر کے اپنے قریب کرتا مبہوت ساہو کر اُس کے چہرے پر بکھرے حیا کے رنگ دیکھے
گیا تھا۔۔۔۔
آژمیر آپ کبھی تو جگہ کا خیال کر لیا کریں۔۔۔۔
حائفہ اُس کے بے باکانہ اند از پر آج بھی پہلے دن کی طرح ہی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔ جن سب باتوں نے مل کر آث میر کو اُس کا مزید گرویدہ بنار کھا تھا۔۔۔۔
زوہان آپ کا یہ بگڑانواب زادہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔۔۔ کسی دن میرے ہاتھوں اس کی پٹائی ہو جانی ہے۔۔۔”
زنیشہ مصروف سے انداز میں زوہان کے لیے کافی بناتی مخالف سمت ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔ اُس کے بھاری قدموں کی مخصوص دھمک سے ہی اس کی آمد کا انداز لگا گئی تھی۔۔۔
میرا ارادہ تو پوری کرکٹ ٹیم بنانے کا ہے۔۔۔۔ تم ایک سے ہی تنگ آگئی ہو سویٹ ہارٹ۔۔۔ باقی دس پر تمہارا کیا حال
ہو گا۔۔۔۔
اُس کا بازو تھام کر رخ اپنی جانب موڑ تا وہ اپنی بات کے جواب میں اُس کے ہونقوں جیسے تاثرات دیکھ اُس نے بہت مشکل
سے اپنی ہنسی ضبط کی تھی۔۔۔
آپ مذاق کر رہے ہیں۔۔۔ ؟؟؟
زنیشہ گیارہ بچوں کا سوچ کر ہی کانپ اُٹھی تھی۔۔۔
“نہیں میں بالکل سیریں ہوں۔۔۔۔۔”
زنیشہ کی خفگی سے لال ہوتی نوز پر ہونٹ رکھتے۔۔۔۔ اس کی صورت دیکھ زوہان کا گو نجتا قہقہ اس کی سانسیں بحال کر گیا منہاج کہاں ہیں آپ۔۔۔؟؟؟
ماورا اُس کے کال اٹینڈ کرتے ہی بولی تھی۔۔۔
کیا ہوا مائی لو۔۔۔۔ ایوری تھنگ از آل رائٹ۔۔۔۔؟؟؟
منہاج آپریشن تھیٹر سے نکلتے اُس کی پندرہ مس بیلز دیکھ فون ملانے ہی والا تھا۔۔۔۔ جب دوبارہ آتی ماورا کی کال پک کرتا فکر مندی سے بولا تھا۔۔۔۔
ابھی اور اسی وقت میرے آفس آکر اپنے اِن دونوں شیطانوں کو یہاں سے لے کر جائیں۔ ورنہ پھر بعد میں مجھے گلا مت کیجیئے گا
ماورا کی بات سنتے منہاج کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔۔ منہاج اور ماورا کو ان کے رب نے جڑواں اولا دوں سے نوازا تھا۔۔۔۔ شہر ام اور دائم دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر شرارتی تھے۔۔۔ماورا کے لیے انہیں اکیلے سنبھال پانا تو تقر یبانا ممکن ہی تھا۔۔۔۔ منہاج کے بغیر ان کو سنبھالتی وہ ایسے ہی پاگل ہو جاتی تھی۔۔۔۔
” پھر کیا کر دیا میرے معصوم بیٹوں نے۔۔۔”
منہاج اپنا کوٹ اُتار کر بازو پر ڈالتا شریر لہجے میں بولتاماورا کو مزید تپا گیا تھا۔۔۔
شادی کے بعد منہاج کی مدد اور فل سپورٹ سے ماورا نے بھی اپنی میڈیکل کی ڈگری کمپلیٹ کرلی تھی۔۔۔ اور اب وہ اپنی خواہش کے مطابق اُس کے ساتھ ہی شہاب درانی کے ہاسپٹل میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔۔۔۔ منہاج اچھے شوہروں کی طرح اُسے ہر معاملے میں پوری طرح سپورٹ کرتا آیا تھا۔۔۔ منہاج جیسے مرد کی سنگت میں ماورا خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تصور کرتی تھی۔۔۔۔
اُن کی اس خوشحال زندگی میں دائم اور شہر ام نے آکر مزید رنگ بھر دیئے تھے۔۔
” آپ کے جیسی معصومیت پائی ہے۔۔۔ آپ کے بیٹوں نے۔۔۔”
ماورا نے بھی اُسی کے انداز میں جواب دیتے منہاج کو قہقہ لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
اسی طرح فون کان سے لگائے چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُسے زچ کر تا منہاج تیز قدموں سے اُس کے آفس کی جانب بڑھ گیا
ملک فیاض مزید ایک ہفتہ ہی زندہ رہ پائے تھے۔۔۔۔ زوہان اُن کی درد ناک موت دیکھ اپنے خون ہوتے دل کے ساتھ انہیں معاف کر گیا تھا۔۔۔۔ چاہے جیسا بھی سہی مگر وہ شخص اُس کا باپ تھا۔۔۔۔ ملک فیاض کی میت کو میر ان پیلیس لایا گیا
تھا۔۔۔۔۔ آژ میر اور زوہان نے اُن کے جنازے کو کندھا دیتے اور قبر میں اُتارتے اپنے بیٹے ہونے کا فرض ادا کر دیا
اُن سب نے اپنے اپنے حصے کی مسافتیں طے کر کے اپنے حصے کی خوشیاں پالی تھیں۔۔۔۔ عشق و محبت کے راستے اُن سب کے لیے ہی اذیت اور تکلیف سے بھرے انہیں زخموں سے چور کر گئے تھے ۔۔۔۔ مگر اُنہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے سچی لگن کے ساتھ اپنی محبت کو حاصل کر لیا تھا۔۔۔۔
ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی ڈور سے جڑے وہ اپنی زندگیوں میں داخل ہوتی بہاروں کا کھلے دل سے استقبال کر رہے
تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد
share with your friends on Facebook