“Haifa and Zanisha” (Part 1) is a new Urdu novel that will take you through a rollercoaster of emotions. It’s a story of love, betrayal, and revenge as Haifa faces deep heartbreak and tries to get back at those who hurt her. With plenty of twists and drama, this novel will keep you hooked from start to finish. If you love emotional and intense Urdu stories, this is a must-read!

Haifa and Zanisha Novel Part 1 | A New Urdu Story of Love, Betrayal, and Revenge
اُس کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ پائل کی چھن چھن کی آواز سنسان پڑے کوریڈور میں ایک ارتعاش سا پیدا کر رہی تھی۔ اسے آج پھر پور سجایا گیا تھا کسی نا محرم کے لیے۔ کل کے اس کے رقص میں اسی شخص نے اس کی سب سے بڑی بولی لگائی تھی۔ اتنی بڑی قیمت شاید ہی آج تک کبھی کسی طوائف کی لگائی گئی ہو ۔ پورے کوٹھے پر اُس کی واہ واہ کی جارہی تھی، نگینہ
بائی اُس کے واری صدقے جارہی تھیں۔ وہ تو پہلے ہی اُسے اپنے کو ٹھے کی ملکہ بلاتی تھیں۔ اُس کا دو آتشہ حُسن تھا ہی ایسا، مومی مجسمے پر ایک نظر ڈالنے
کے بعد اگلا شخص اُس کے قدموں میں ڈھیر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا تھا۔ آج تو اس کا قیامت خیز روپ مزید اپنے حسن کا قہر ڈھانے کو تیار تھا۔ مگر اس وقت اس نے اپنے حسن کی تباہ کاریوں کو ایک سیاہ چادر میں چھپارکھا
تھا۔ جسے اُس نے اپنے آج رات کے خریدار کے آگے آشکار کرنا تھا۔
اُس نے سر دوسپاٹ تاثرات کے ساتھ نیم تاریک خواب گاہ میں قدم رکھا تھا۔ میں اس محل نما گھر کے مالک کا کمرہ تھا شاید ، وہ تاریکی میں بھی اس بات کا اندازہ لگا سکتی تھی۔ پورے بیڈ روم میں جگہ جگہ رنگ برنگے دیے روشن تھے۔ جو اس کمرے کی خواہنا کی اور رومانوی ماحول میں مزید اضافہ کر رہے
اُس نے کمرے کے چاروں اطراف نظریں گھمائی تھیں۔ جب اُس کی نظر سامنے کرسی پر بیٹھے شخص پر پڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا،
مگر رخ مخالف سمت ہونے کی وجہ سے وہ اس کا چہرا نہیں دیکھ پائی تھی۔ نہ ہی
اس کے اندر ایسی کوئی خواہش تھی۔
خوش آمدید حاعفه، آخر تم میری دسترس میں آہی گئی۔ پہلے بتاتی تمہاری یہ اوقات ہے، تو بہت پہلے تمہیں پیسوں سے خرید لیتا، یہ کام تو کبھی میرے
لیے مشکل نہیں تھا۔
وہ شخص بنا رخ اس کی جانب موڑے بولی جار ہا تھا۔ جبکہ حاعفه اس جانے پہچانے لب و لہجے پر اپنی جگہ گنگ کھڑی تھی۔ جس شخص کا سامنا کرنے سے پہلے وہ موت کو گلے لگانا پسند کرتی، اس کے یہاں ہونے کا تصور اس کے وجود سے جان نکال گیا تھا۔ اُس کے دل نے شدت سے خواہش کی کاش یہ اُس کا وہم ہو ، نہیں وہ شخص بھلا یہاں کیسے ہو سکتا تھا۔
ک۔۔۔۔کون۔۔۔؟”
یہ لفظ ادا کرتے اُس کی زبان ہکلا گئی تھی۔
کیا ہوا ایک طوائف زادی سے اس کے علاوہ اور کیا سوال کر سکتا ہوں
میں ۔۔۔۔۔۔؟
زہر خند لہجے میں بولتاوہ اُس کے بہت پاس آن پہنچا تھا۔ حائفہ پتھر بنی اپنی
جگہ پر جم چکی تھی۔
مگر اگلے ہی لمحے اُس آگ اُگلتے شخص کی جارحانہ کاروائی پر حائفہ کی آنکھ سے آنسو نکلتے بے مول ہوئے تھے۔ جن کی اب مقابل کے آگے کوئی قیمت
نہیں تھی۔
اُس نے حائفہ کی کلائی موڑ کے کمر سے لگائی تھی۔ اُسے اپنی کلائی ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔ مگر وہ کچھ بھی بول کر اس بپھرے زخمی شیر کے غصے کو
مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔
کیوں کیا میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا۔۔۔۔۔ صرف پیسوں کے لیے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ تم ایک بار بولتی میں دنیا کی ہر چیز تمہارے قدموں میں
ڈھیر کر دیتا، مگر تم نے تو مجھے انسان سے وحشی بنا کر وہ نقصان کیا ہے، جس کی کبھی بھر پائی نہیں ہو سکے گی۔۔۔۔۔
اُس نے اپنی بات ختم کرتے حائفہ کو کسی اچھوت شے کی طرح دھکا مارتے
دور پھینکا تھا۔
اُس کے اتنے ناروا سلوک کے باوجود حائفہ کے منہ سے زراسی آواز تک نہیں نکلی تھی۔ ابھی یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس شخص کی قہر برساتی نگاہیں بتا رہی تھیں کہ جو کچھ وہ اس کے ساتھ کر چکی تھی ، اس کی سزا بہت اذیت ناک ہونے والی تھی۔
سٹوری سٹارٹ
پورے میران پیلس کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ آج اس خاندان کی لاڈلی بیٹی کی مہندی تھی۔ ہر طرف بجتی شہنائیاں،اشتہار انگیز کھانوں کی خوشبو اور ہنستے مسکراتے خوبصورت چہرے ماحول کو چار چاند لگا رہے تھے
میران پیلس کے بڑے سے لان میں مردوں کے بیٹھنے کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں محفل موسیقی جاری تھی۔ جبکہ سب خواتین کے لیے اندر ورنی حصے
میں ہی ساری در پیجمنٹس کی گئی تھیں۔ بڑے سے بال کمرے میں پہیلی
چادر میں بچھائی گئی تھیں۔ جس کے وسط میں لڑکیاں بیٹھی ڈھولکی رکھے مختلف گانوں پر سر بکھیر رہی تھیں۔ رقص کی شوقین لڑکیاں اور خاندان کی باقی عورتیں ان کے ارد گرد دائرے کے شکل میں لڈی اور ڈانس کرتی
محفل کو مزید دو بالا کر رہی تھیں۔ ہر طرف خوشیاں تھیں، مسکراہٹیں مزید دوبالا کرہی تھیں۔ ہر ، تھیں۔
مگر کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسے میں ایک ہستی ایسی بھی تھی جو زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنی سوچوں میں الجھی بیٹھی تھی۔ اس سے فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ زندگی کے اس موڑ پر موت کو گلے لگانا ٹھیک تھا۔۔۔ یا زندگی کو
تھوڑی مہلت اور ملنی چاہیئے تھی۔
لیکن جو آگے چل کر اُس کے ساتھ ہونے والا تھا۔ وہ اُسے اپنے لیے موت سے بھی بد تر سمجھتی تھی۔
کچھ دیر اسی سوچ کے زیر اثر رہنے کے بعد اُس کی ویران آنکھیں ایک فیصلے پر پہنچ کر چمک اُٹھی تھیں۔۔۔۔
اس سے بہتر فیصلہ اس کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔
نیچے ہال میں ابھی بھی ویسا ہی ماحول جما ہوا تھا۔ رونق میلا اپنے عروج کو پہنچ
چکا تھا۔ جب اچانک ملازمہ کی طرف سے دی جانے والی خبر نے ہر طرف سناٹا
طاری کر دیا تھا۔
“بی بی سر کار بی بی سرکار۔۔۔ غضب ہو گیا۔۔۔”
نوراں بھاگتی ہوئی ہال میں ایک جانب سے سنورے لکڑی کے تخت پر بیٹھی شمسہ بیگم کے پاس آئی تھی۔ انہوں نے دل پر ہاتھ رکھتے دہل کر ملازمہ کی جانب دیکھا تھا۔ اُن کے اشارے پر میوزک رک چکا تھا۔ ملازمہ کے ہوائیاں اُڑاتے چہرے سے لگ رہا تھا، بات چھوٹی بالکل بھی نہیں تھی۔
کسی انہونی کے خیال سے اُن کا دل دھڑک اُٹھا تھا۔
” کیا ہوا نوراں؟”
اُن کے ساتھ ساتھ باقی سب کی نظریں بھی نوراں پر نکی ہوئی تھیں۔۔۔ “بی بی سر کار وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ زنیشہ بی بی۔۔۔” نوراں پھولی سانس کے ساتھ الفاظ ادا نہیں کر پا رہی تھی۔
وجود تھر تھر کانپ رہا تھا۔
” کیا ہواز نیشہ کو۔۔۔؟”
فضیلا بیگم کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔ وہ بھی آگے بڑھی تھیں۔
ان۔ نن۔۔۔ اُنہوں نے زہر لے لی۔۔۔”
نوارں کے الفاظ تھے یا آسمان ٹوٹا تھا میر ان پیلیس پر ۔۔ سب خواتین پھٹی پھٹی نظروں سے نوراں کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
ہال کے دروازے پر کھڑے سر فراز کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی۔ وہ اُنہیں قدموں پر باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
جس لڑکی کی شادی پر کچھ دیر پہلے شہنائیاں بج رہی تھیں۔ اب کچھ لمحوں بعد اُسی کی وجہ سے وہاں صفحہ ماتم بچھ گیا تھا۔۔۔۔
گھر کے مرد حضرات بھی یہ خبر ملتے بھاگے اندر آئے تھے۔ اور زنیشہ کو فوری طور پر ہاسپٹل لے جایا گیا تھا۔ کچھ دیر پہلے کے کھلے چہرے اب مر جھا چکے تھے۔
بہت سوں کے چہرے پر آنے والے وقت کا سوچ کر تفکر نمایاں تھا۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ زنیشہ کی اس حرکت کے بعد آنے والا طوفان کتنی بڑی تباہی لا سکتا تھا۔۔۔
ملک آژ میر میر ان تک بھی یہ خبر پہنچادی گئی تھی۔ وہ کسی بھی وقت پہنچ سکتا تھا۔ جس کے بعد کیا کیا ہو سکتا یہ سوچ ہی اُن سب کے دل لرزانے کے لیے کافی تھی۔
زنیشہ کی حالت کافی سیر یسں تھی، اس کو فوری طور پر آئی سی یو لے جایا گیا تھا۔۔۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ لڑکی اتنا بڑا قدم اُٹھا سکتی تھی ۔ مگر
اب جو ملک آژ میر میر ان اُس کے اس اقدام کے بعد کرنے والا تھا یہ بات
بھی اُن سب کی سانسیں رو کے ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سچی محبت کرتے ہو مجھ سے ۔۔۔۔”
وہ معصوم شہزادی سامنے کھڑے شخص کی جانب اُمید بھری نظروں سے
دیکھتے ہو کر روتی جیسے گالوں پر پڑنے والی مسکائی
گڑھے نمایاں ہوئے تھے۔ یہ دل موولیتا منظر سامنے کھڑے شخص کی
دھڑکنیں تیز کر گیا تھا۔
محبت نہیں عشق ہے تم سے ۔۔۔۔ چاہو تو آزمالو۔۔۔ کبھی پیچھے ہٹتا نہیں پاؤ”
گی۔۔۔۔
اُس کے گلابیاں چھلکا تے نرم و ملائم ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے وہ اُس کی اُمید پر کھڑا اترا تھا۔ اُس معصوم شہزادی کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
” مجھے دھوکا تو نہیں دو گے نا۔۔۔۔۔” وہ معصوم شہزادی جیسے ابھی بھی مقابل کے جواب سے مطمئین نہیں لگ رہی تھی۔ شاید اس کا دل اس سامنے کھڑے شخص کی باتوں پر ایمان نہیں لا پارہا تھا۔
کبھی نہیں۔۔۔۔ اپنی سانسوں سے دھو کا کر جاؤں گا۔۔۔ مگر تم سے کبھی نہیں۔۔۔۔
اس نے معصوم شہزادی کی اد اس کا نچ سی سبز آنکھوں میں جھانکتے اپنے سچے ہونے کا یقین دلا یا تھا۔
“کیا تمہاری دنیا والے مجھے قبول کر لیں گے ؟؟؟”
یہ بات پوچھتے اس معصوم شہزادی کی آنکھوں میں نمی جھلملا گئی تھی۔ جسے
اُس نے پلکیں جھپکتے اندر دھکیل دیا تھا۔
اُس کے اندر کچھ ایسا تھا جو اُسے چین لینے نہیں دے رہا تھا۔ وہ ٹھیک سے خوش نہیں ہو پارہی تھی۔
“کیا تمہارے لیے اتنا کافی نہیں کہ میں نے قبول کر لیا تمہیں۔۔۔؟؟” مقابل اسے کسی بھی طرح مطمن کرنا چاہتا تھا۔۔۔
لیکن اگر تمہیں مجبور کر دیا گیا مجھے چھوڑنے کے لیے تو مجھے چھوڑ دو”
” گے۔۔۔۔؟
وہ پھر سے اُداس ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
شاہد اس کےلئے کسی
بھی مرد پر بھروسہ کر نازندگی کا سب سے مشکل ترین
کام تھا۔ اسے دھوکے سے ، تمہارہ جانے سے سب سے زیادہ ڈر لگتا تھا۔ قسمت کے کھیلے جانے والے کھیل سے انجان وہ مقابل کے تسلی دیتے الفاظ پر بجھے دل سے یقین کرتی مسکرادی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تارکول کی سیاہ دور تک بچھی سڑک پر پانچ گاڑیوں کا قافلہ ارد گرد کی ہر شے ہوا کے دوش پر اڑاتا اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جیسے اُن کے مالک کو اپنی منزل پر پہنچنے کی بہت جلدی ہو۔۔
راستے میں آئی کسی بھی چیز کی پرواہ کیے بنا وہ قافلہ آگے سے آگے بڑھتا جارہا تھا۔۔۔۔
وہ بہت ہی خوبصورت پہاڑی راستہ تھا۔ جس کے ایک جانب بہت ہی خوبصورت جھیل بہہ رہی تھی۔۔ جبکہ دوسری جانب سر سبزے سے ڈھکی اونچی اونچی پہاڑیاں واقع تھیں ۔ اس روڈ پر سفر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی حسین نظارہ ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت اُس گاڑی میں سوار شخص کے اعصاب ناقابلے یقین حد تک تنے ہوئے تھے۔ انگلیوں میں دبا سگریٹ جل کر راکھ ہوتا اُس کی اُنگلیوں کو بھی جلا گیا تھا۔ مگر اُس شخص کو تو اس تکلیف کی
پر واہ تک نہیں تھی۔ نہ اُنگلیوں کو جلاتے سگریٹ کی پر واہ تھی اور نہ ہی آس پاس سے دوڑتے بھاگتے حسین مناظر اس کے بے تاثر چہرے پر کوئی خوشگواریت لا پائے تھے۔
حسین وادیاں آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد کے سب خوبصورت گاؤں نیاز پورا کی جانب جاتی تھیں۔ وہ شخص بھی جلد از جلد وہاں پہنچ جانا چاہتا تھا۔
وہ واش روم سے شاور لے کر نکلی تھی۔ اس کا نازک کو مل بدن وائٹ کلر کی نائٹی میں مزید رعنائیاں بکھیر تادیکھنے والے کے ہوش گم کرنے کے لیے کافی تھا۔ مگر اُس کا دیدار کرنا بہت کم خوش قسمت دعویداروں کے نصیب میں آتا تھا۔ اس تک رسائی حاصل کر پانا ہر ایک کی بس کی بات نہیں تھی۔ نگینہ بائی کے اِس کو ٹھے پر سب سے زیادہ بولی اُسی کی لگائی جاتی تھی۔
اسی بات نے اُسے کافی مغرور بنادیا تھا۔ پر غرور بھی اُس حُسن کی ملکہ پر جچتا تھا۔ اُس کی کانچ سی شہر آگہیں نگاہیں اتنی قاتلانہ تھیں کہ دیکھنے والا ان کے
وار سے بچ نہیں پاتا تھا۔ اُسے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنانا اچھے سے آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس کو ٹھے پر راج کرتی تھی۔۔۔ وہاں کی باقی تمام لڑکیاں اُس کے بے پناہ حُسن سے خار کھاتی تھیں۔ جو اپنی مرضی کی مالک تھی۔۔۔ بہت کم وہ رقص کرتی تھی۔ وہ بھی اُس وقت جب اُس کا موڈ ہوتا تھا۔ مگر جس دن اُس کا رقص ہو تا شہر بھر کے تمام شرفاء شرکت ضرور کرتے۔۔۔۔ “رانی صاحبہ آپ کا لباس تیار کر دیا ہے میں نے۔۔۔۔” وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے گداز ہاتھوں پیروں پر لوشن سے مساج کر رہی تھی۔ جب ملازمہ اُس کی ساری چیزیں تیار کرتی اس سے
مخاطب ہوئی تھی۔
اُسے اُس کے مزاج اور اد او انداز کی وجہ سے رانی صاحبہ کہہ کر ہی پکارا جاتا تھا۔ اُس کے ناز نخرے رانیوں سے کم کے بھی نہیں تھے۔ کسی سے دبنا اُس
نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ سوائے ایک انسان سے اور وہ تمھیں اُس کی نگینہ ہائی۔۔۔۔ جن کے ہاتھ میں اس کی ایک ایسی کمزوری تھی ۔۔۔۔ جس کی خاطر حائفہ ہر بار ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ اُس کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری تھی جس کی خاطر وہ اپنی جان بھی اُن کی ہتھیلی پر
رکھنے سے باز نہ آتی۔۔۔۔
گولڈن فل کام والے شرارے میں وہ اپنے قیامت خیز حسن کے ساتھ غضب ڈھارہی تھی۔ اوپر سے اُس کا اداؤں بھرار قص نجانے کتنوں کے
دلوں پر کاری وار کر گیا تھا۔ مگر وہ مغرور حسینہ اپنی اداؤں کا جادوں چلاتی
واپس اپنی خواب گاہ میں لوٹ آئی تھی۔ کسی کی جرات نہیں تھی اُس کی
مرضی کے بغیر اُس کے قریب آئے۔۔۔
اس کی ایک بات تھی جو شاید ہر شخص کی توجہ مزید اپنی جانب کھینچی تھی۔ کہ اُس نے ہمیشہ پور الباس پہنا تھا . اس کے رقص کے دوران وہ خود کو بھاری لہنگے اور دوپٹے میں ایسا کو رکھتی تھی کہ دیکھنے والے کا دل مزید للچا جاتا تھا۔ اوپر سے اس کے قاتلانہ اداؤں بھرے نین نقش جلدی پر تیل کا کام کرتے تھے۔ اس اپسرا کی مانگ ہر رقص کے بعد بڑھ جاتی تھی۔ مہینے میں اُس کا رقص صرف دو بار ہی ہوتا تھا۔ جس پر نگینہ ہائی اپنی جھولی اچھی طرح بھر لیتی تھیں۔ وہ ان کی سونے کی چڑیا تھی جسے وہ ہمیشہ کے لیے اس میں قید رکھنا چاہتی تھیں۔
حاعفہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی تھی۔ اُس کی خاص ملازمہ اُس کی جیولری اُتار رہی تھی۔ جب اچانک اُس کے کانوں میں کسی کی دل دہلا دینے والی چھنیں پڑتی اس کی سانسیں روک گئی تھیں۔ حاعفہ نے جھٹکے سے آنکھیں
کھولی تھیں۔
” یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ آواز تو میری۔۔۔میری ماورا کی ہے۔۔۔۔”
حائفہ یہ آواز لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔ اس کے جینے کی اکلوتی وجہ تھی
حائفہ ملازمہ کے ہاتھ جھٹکتی باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔۔ جہاں باہر دونوں برآمدے لڑکیوں سے بھرے پڑے تھے۔ نگینہ بائی کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ مگر سب کے کان اور آنکھیں ادھر ہی نکلی ہوئی تھیں۔ اندر سے آتی ماورا کی چینیں حائفہ کا دل چیر گئی تھیں۔۔۔ وہ لڑکیوں کو سائیڈ پر کر کے راستہ بناتی آگے بڑھی تھی۔ اور نگینہ بائی کے کمرے کا دروازہ دھکیل کر سیدھی اندر گھسی تھی۔۔۔
Main Hoon Badnaseeb – Complete Urdu Novel (All Parts) | Read Online for Free
اندر کا منظر دیکھ اس کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔ نگینہ بائی ماورا کے بال اپنی مٹھی میں جکڑے اُس کے منہ پر تھپڑ مار تھیں، اس کا چہر الال کر گئی تھیں۔ ماورا کا ہونٹ پھٹ چکا تھا۔ مگر نگینہ کو اُس پر زرا برابر بھی رحم نہیں آیا تھا۔ وہ اُسے
کوئی حیوان سے سمجھتیں مسلسل بیٹے جارہی تھیں. ہر وقت چہرے پر اداؤں بھری مسکراہٹ سجائے رکھنے والی حاعفہ کا چہرا غصے اور نفرت سے خطر ناک
حد تک لال ہو چکا تھا۔
ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیسے بناوہ ماور اتک پہنچی تھی۔ نگینہ بائی کو زور دار دھکا مار کر ماور اسے دور دھکیلتی و ماورا کو اپنی مہربان آغوش میں بھر گئی تھی۔ ستاروں بھری چمکتی دھمکتی ساڑھی ، فل میک اپ اور ہیوی جیولری سے لدی پھندی نگینہ بائی حائفہ کے دھکے پر اوندھے منہ بیڈ پر جا گری تھی۔ ” تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری ماور اپر ہاتھ اٹھانے کی۔۔۔” حائفہ آنکھوں میں شعلے بھرے خونخوار نظروں سے بیڈ سے سنبھل کر اٹھتی
نگینہ بائی کو گھورتے ہوئے بولی۔۔۔
” تم جانتی بھی ہو ۔۔۔ تمہاری یہ لاڈلی کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے۔۔۔۔” نگینہ بائی بھی جوا با اسی انداز میں بولی تھی۔
وہ جو بھی گل کھلائے مگر تمہیں یہ اجازت کس نے دی ہے اُسے یوں اتنی “
بے دردی سے پیٹوں۔۔۔ یہ بہت مہنگا پڑے گا تمہارے لیے یاد
رکھنا۔۔۔۔
حافظہ تو جیسے اس وقت آپے میں ہی نہیں تھی۔ اور اک لال چہرا اس کے سینے میں آگ بھڑ کا گیا تھا۔ ماور ا اُس کے سینے سے لگی بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اُس کا ڈرا سہما انداز دیکھ حاملہ نے اسے مزید خود میں بھینچ لیا تھا۔
جائزہ تم جانتی بھی ہو یہ۔۔۔۔۔” نگینہ بائی اس سے پہلے کے مزید کچھ بولتی جب غیض و غضب کی تصویر بنے
کرامت خان کواندر آتے دیکھ وہ خاموش ہوئی تھی۔
تمہارے کہنے پر ہم نے اس لڑکی کو اس کام سے دور رکھا ، اسے پڑھنے کے “
” لیے ہاسٹل بھیجا۔۔۔۔
کرامت خان کی قہر برساتی نگاہیں اور اپر ٹکی ہوئی تھیں۔ کرامت کو وہاں دیکھ حافظہ سمجھ گئی تھی، معاملہ کچھ سیر میں ہے ہے۔۔۔
ہاں اور اُس سب کی بھاری قیمت بھی ادا کر رہی ہوں میں تم لوگوں
“کو۔۔۔۔
حائفہ نے ہونٹ سختی سے آپس میں پیوست کرتے خود پر ضبط رکھا تھا۔ تو تمہاری یہ لاڈلی اُس سب کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر اپنے کسی عاشق کے ساتھ ” بھاگی جارہی تھی۔۔۔۔
کرامت خان نے حائفہ کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی بے یقینی بھری نوں کے ادوار کو دیکھتے ھی تھی نظروں سے ماورا کو دیکھنے لگی تھی۔ ماورا نے بے اختیار اپنی بڑی بہن سے
نگاہیں چرائی تھیں۔
ہمارے کہنے پر ادارے کی انتظامیہ کی جانب سے اس پر کڑی نظر ر کھی” جارہی تھی۔ ورنہ اب تک یہ ہمیں دھوکا دے کر اپنے عاشق کے ساتھ فرار
” ہو چکی ہوتی۔۔۔۔
کرامت خان کا بس نہیں چل رہا تھا اور ا کو آنکھوں سے ہی سالم نگل جاتا۔ اُس کی بات سننے کے بعد حائفہ کے الفاظ جیسے ختم ہوئے تھے۔ اُس کی بہن نے اُس کی دی قسم توڑ دی تھی۔
تمہاری وجہ سے بہت مہلت دی ہم نے اسے مگر اب اور نہیں۔۔۔ اب ” اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ یہ بھی اب وہی کرے گی جو تم سمیت یہاں کی سب لڑکیاں کر رہی ہیں۔۔۔ کوئی پڑھائی،
“کوئی ہاسٹل نہیں۔۔۔۔
کرامت خان اپنی بات کہتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ نگینہ بائی بھی سخت نگاہ ماورا
پر ڈالتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔
. حاعفہ نے ماورا کے گرد سے اپنا حصار ہٹالیا تھا
” آپی میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔ میری ایک بار بات سن لیں۔۔۔۔ ماور انے اس کی کلائی تھامتے اُسے روکنا چاہا تھا۔ حائفہ کی بے اعتباری بھری نگاہیں برداشت کرنا اُس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا
وہ کچھ بھی سہہ سکتی تھی۔ مگر حائفہ کی ناراضگی اُس سے نہیں دیکھی جاتی
تھی۔
” چلوروم میں ۔۔۔۔۔”
حائفہ اُسے سرد نگاہوں سے گھورتی اپنے ساتھ کمرے میں آنے کا کہتی باہر کی
جانب بڑھ گئی تھی۔
اس کے دل کی بے چینی مزید بڑھ چکی تھی۔ اب وہ کیسے بچائے گی اپنی بہن کو اس دلدل میں اُترنے سے۔۔۔۔ کتنی مشکل سے لڑ جھگڑ کر ، منتیں کر کے اُس نے ماورا کو یہاں سے نکال کر پڑھنے کے بہانے دور بھیج رکھا تھا۔ مگر ماورا اپنی ہی نادانی کی وجہ سے خود کو واپس اُسی ذلالت میں گھسیٹ لائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد کشمیر جو اپنی بے پناہ قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ سر سبزے اور پہاڑوں پر مشتمل فرحت آمیز نظارے بخشا یہ حسین
خطاز مین پر جنت قرار دیا گیا ہے۔۔۔
یہاں کی دلفر یہی آنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ یہاں کا خوبصورت موسم بھی وہاں کی دلکشی کو مزید بڑھا دیتا تھا۔
آج بھی مظفر آباد کے علاقے دواریاں میں برف باری ہو رہی تھی۔ ٹھنڈ کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ اپنے گرم بستروں سے نکلنا
ان کے لیے مشکل تھا۔
و ہیں ایک شخص ایسا بھی تھا جو اپنے کمرے کے ٹیرس پر کھڑا اپنے اندر لگی آگ کو بجھانے کے لیے اس برف باری کا حصہ بن چکا تھا۔ اُسے اپنے برف سے شل ہوتے وجود کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس کا چہرا مسلسل برف میں کھڑے رہنے اور یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑوں کی وجہ سے خطر ناک حد تک سفید پڑ چکا تھا، مگر اُس کی آنکھوں سے ابھی بھی شعلے نکل رہے تھے۔ برف ہوتی ریکنگ کو تھامے وہ منجمند ساکھڑ ا تھا جب اُس کا موبائل فون بجا تھا۔ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے اس کے ہاتھ بالکل سن ہو چکے تھے۔ اُسے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ اپنی شرٹ کے ساتھ ہاتھ مسلتے اس نے ہتھیلی کو تھوڑی
حرارت بخشی تھی۔ اور اوپری پاکٹ میں بجتا فون نکال کر آن کرتے کان
سے لگایا تھا۔
سر کار سائیں ایک خوشخبری ہے آپ کے لیے۔۔۔۔۔”
دوسری جانب سے بتانے والا مسکا یا تھا۔
” بولو۔۔
اس کا لب ولہجہ برف سے بھی زیادہ سرد تھا۔
ملک آخر میر میر ان کی لاڈلی بہن زندیشہ میر ان کی آج مہندی تھی اور کل “
” بارات۔۔۔۔۔
اُس کے خاص آدمی حاکم نے تمہید باندھنی چاہی ” جانتا ہوں آگے بولو۔۔۔۔”
اُس کی بات کاٹتے اصل بات کی جانب لاتے لہجہ ہنوز سخت ہی تھا۔
سائیں زندیشہ میران نے زہر کھالی ہے۔۔۔۔۔”
حاکم نے ابھی اتناہی جملہ ادا کیا تھا جب مقابل کے احمریں لبوں پر اُمڈ آنے والی مسکراہٹ اُسی کی طرح انتہائی دلکش تھی۔ دیکھنے والوں کو دیوانہ بنا لینے
والی۔۔۔۔
ابھی اسے ہاسپٹل لے جایا گیا ہے۔۔۔ اس کی حالت کافی سیریس ” ہے۔۔۔۔ میران پیلس کی شہنائیاں ماتم میں بدل چکی ہیں سائیں۔۔۔ حاکم کا ایک ایک لفظ اس کے سینے میں بھڑکتی آگ پر ٹھنڈی پھوار ثابت ہوا
تھا
” اب اگلا کیا حکم ہے میرے لیے سائیں۔۔۔۔”
حاکم اپنے مالک کو سکون میں آناد یکھ خود بھی جیسے پر سکون ہوا تھا۔ وہاں ہمیشہ ماتم ہی بچھار ہنا چاہیئے۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں، ملک آثر میر ” میران کیا کرے گا اب۔۔۔۔۔ اپنی لاڈلی بہن کی جانب سے دی جانے والی
اس بدنامی کے بعد۔۔۔۔۔
اُس کے لبوں کے گوشوں میں جیسے مسکراہٹ قید ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ ابھی
ٹیرس پر ہی کھڑا تھا۔ مگر اب اُس کے اندر کا ماحول بدل چکا تھا۔
” جو حکم سائیں۔۔۔۔۔”
حاکم اُس کی بات سننا فون بند کر گیا تھا۔
میری جانب
سے بھیجی جانے والی بر بادی تمہاری طرف بڑھ رہی
ہے۔۔۔ دیکھتا ہوں کب تک بچتے ہو میرے دوست۔۔۔ ملک آژمیر
میران۔۔۔۔
یہ نام زیر لب میں دہراتے ہو ئے اس کی آنکھوں میں انتقام کی واضح جھلک لہرائی
تھی۔
اس کو آج کے لیے اُس کا سکون مل چکا تھا۔۔۔ وہ خاموشی سے اپنے پر حدت
روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی پلیز میری بات تو سنیں نا۔۔۔۔
حائفہ ہاتھوں میں سر گرائے صوفے پر بیٹھی تھی۔ جب ماورا اُس کے قدموں میں دوزانے بیٹھی اُس کے گٹھنے پر ہاتھ رکھتے بولی۔
کیا ہو گا تمہاری بات سن کر ؟ ۔۔ یہ لوگ تمہیں واپس پڑھنے کے لیے بھیج دیں گے۔۔ تمہیں اس دلدل میں نہیں پھینکیں گے۔۔۔۔۔ تم جانتی بھی نہیں ہو تمہاری خاطر میں اب تک کتنی جنگیں لڑتی آئی ہوں۔۔۔ مگر تم نے میرے بارے میں ایک بار بھی نہیں سوچا۔۔۔ ایک مرد کی محبت نے تمہیں
اتنا پاگل کر دیا۔۔۔ اگر وہ تم سے اتنی ہی محبت کرتا تھا تو کہاں ہے اس وقت۔۔۔۔ کیوں نہیں کھڑا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔ کیوں بھاگ گیا تمہیں چھوڑ کر ۔۔۔۔۔ کہا تھا نا میں نے تمہیں، یہ مرد اعتبار کے قابل بالکل بھی نہیں ہوتے۔۔۔۔ان کے نزدیک عورت ایک کھلونے سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی ، اُن کی محبت دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ انہیں صرف عورت کے جسم کی چاہ ہوتی اُس کی روح چاہے چھلنی ہو یا ان کے ستم سہتی فتا
ہو جائے ،انہیں قطعا پر واہ نہیں۔۔۔۔ بلکہ میرے نزدیک محبت ہوس کا
کا دوسرا نام ہے۔۔۔ تمہیں سمجھایا تھا نا میں نے ایسا مرد کی محبت رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ اس پر فریب راستے پر چلنے کا نتیجہ دیکھ لیا تم نے اب ؟؟؟ تمہیں واپس اُسی جگہ لا پھینکا جہاں آنے سے پہلے عورت مر جانا پسند کرتی ہے ۔۔۔ عورت ہمیشہ مرد کی محبت کو ترستی رہتی ہے۔۔ اور طوائف اُس کے لیے تواس کا نام لینا بھی گناہ
ہے۔۔۔۔
حائفہ کے لہجے میں مردذات کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری
تھی۔
جبکہ اس کے یوں خود کو طوائف کہے جانے پر ماور اٹرپ کر رہ گئی تھی۔ ہم طوائفیں نہیں ہیں۔۔۔ آپ کیوں بولتیں ہیں ہر بار ہم دونوں کو ایسا۔۔۔ ہم دونوں گواہ ہیں ایک دوسرے کی۔۔۔اس گندگی میں رہنے کے باوجود ہم پاک دامن ہیں۔۔۔۔ ہمارے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے۔۔۔
ماورا اُس کا چہرا ہا تھوں میں تھامتے ہچکیوں کے درمیان بولی تھی۔
کون یقین کرے گا تمہاری گواہی پر ۔۔۔۔ طوائف زادیاں ہیں ۔۔ہم ۔۔۔۔۔ ایک طوائف کی بیٹیاں۔۔۔۔۔ نامحرم مردوں کے ساتھ
کیلئے
حائفہ اُس کے ہاتھ جھٹکتی تلخی سے جملا کمپلیٹ کرتی جب ماور انے اس کے گلابی ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے بارے میں کچھ بھی غلط کہنے سے روکا
فار گاڈ سیک آبی ۔۔۔۔ آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی کہ آج تک آپ نے کسی مرد کو خود کو چھونے نہیں دیا۔۔۔۔ تو پھر خود کو کیوں بار بار طوائف کہہ کر میرادل مزید زخمی کر رہی ہیں۔۔۔ اس گندگی میں گھرے ہونے کے
باوجود آپ نے خود کو محفوظ رکھا ہے۔۔۔۔
ماورا نے اُس کی دل جلاتی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ٹوک دیا تھا۔ اچھا اور تمہیں لگتا تمہاری یہ بات ہمارا معزز معاشرہ تسلیم کرلے گا۔۔۔ اور ہمیں پاکدامنی کا سرٹیفیکیٹ مل جائے گا۔۔۔۔؟؟
حامہ تلخی سے ہنسی تھی۔
حائفہ کا دماغ یہ بات سوچ سوچ کر ہی بے سکون ہو چکا تھا کہ وہ اب ماورا کو اس سب سے کیسے دور رکھے گی۔ کرامت خان اور نگینہ بائی کے انداز سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ اب اُسے مزید مہلت دینے والے بالکل بھی نہیں
دیا تھا
ڈاکٹر ز نے فوری طور پر زنیشہ کا میدہ صاف کر دیا تھا۔ وہ اب خطرے سےباہر تھی۔ مگر ہوش میں نہیں آئی تھی
گھر سے صرف ایک دو
خواتین کو ہی ساتھ لایا گیا تھا۔ باقی سب مرد حضرات ہی موجود تھے۔ آز میر نے کب تک پہنچنا ہے۔۔۔؟
شمسہ بیگم عدیل کے قریب آتے تشویش زدہ لہجے میں بولی تھیں۔ بس کچھ ہی دیر میں پہنچنے والے ہیں۔۔۔۔ اللہ خیر ہی کرے اب۔۔۔۔ نہ کسی کا فون اٹھا ر ہے نہ کسی کو کوئی جواب دے رہے ۔۔۔۔ عام حالت میں وہ
اپنے مزاج کے خلاف کسی کو جواب نہیں دیتے، آج تو پھر غضب ہی ہو گیا
” ہے۔۔۔
عدیل سمیت وہاں ہر شخص اسی ٹینشن کا شکار تھا۔ اللہ خیر کرے گا۔۔۔۔اچھے کی اُمید ہی رکھو۔۔۔۔”
شمسہ بیگم نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی۔
آز میر سائیں آچکے ہیں۔۔۔۔” اُسی لمحے شور اُٹھا تھا۔ سب کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں۔ جب کچھ لمحوں بعد آثر میر چہرے پر پتھر یلے تاثرات سجائے اندر داخل ہوا تھا۔ ہر طرف موت
کاساسناٹا چھا گیا تھا۔
آژمیر ۔۔۔۔
شمسہ بیگم اس کی راہ میں آئی تھیں۔ آژمیرنے نظریں اٹھا کر ان کی جانب
دیکھا تھا۔
بیٹا وہ۔۔۔۔۔
بھیگے چہرے کے ساتھ اُن سے بولنا محال ہوا تھا۔ آژمیربنا کچھ بولے اُن کے قریب ہوتے اُن کے چہرے سے آنسو صاف کیے تھے۔ شمسہ بیگم اُس کا چہرا دیکھ کر ہی اندازہ لگا گئی تھیں کہ وہ اس وقت کس قدر شدید غصے میں
ہے۔۔۔۔
انہوں نے کچھ بولنا چاہا تھا۔ جب آژمیران کے ماتھے پر بوسہ دیتا آگے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔ جتنے غصے میں وہ تھا، اپنی ماں کے آگے کوئی گستاخی
سرزد نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اپنی بہن پر پڑی تھی۔ جہیں کیا
روم میں داخل ہوتے اس کی نگاہ بستر پر پڑی اپنی بہن پر پڑی جس
سہمی نگاہیں اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ آژمیرکو اندر آنادیکھ زنیشہ کی جان حلق میں اٹکی تھی۔ شرمندگی اور ندامت کے مارے اُس سے سر اُٹھانا محال ہوا تھا۔ اُس نے عین شادی کے وقت یہ حرکت کر کے اپنے بھائی کے نام کا خیال بھی نہیں کیا تھا۔ جس نے ہمیشہ اُسے پلکوں پر بیٹھا کر رکھا تھا۔ اُس کو زراسی گرم ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
” لالہ میں ۔۔۔۔۔”
آژمیر سرد تاثرات سجائے اُس کے قریب آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ زنیشہ بولنا چاہتی تھی مگر اس کی زبان ساتھ دینے سے انکاری تھی۔ مجھے بہت غرور تھل اس بات پر کہ میرے خاندان کا کوئی ایک فرد بھی میری”
مرضی کے بغیر کچھ نہیں
۔ مگر میری تو اپنی بہن نے ہی مجھے غلط ٹھہرا دیا ۔ میرے فیصلے سے بچنے کے لیے موت کو گلے لگاناچاہا تم نے۔۔
آژمیر مٹھیاں بھیجے ہوئے تھا۔ اس کی کنپٹی کی رگیں شدت ضبط کی وجہ
سے ابھر کر باہر آگئی تھیں ۔۔۔۔
زنیشہ نقابت زدہ سی سر نفی میں ہلاتی ، ہاتھ سے ڈرپ کی نیڈل نکالتی اس کے قدموں میں جا بیٹھی تھی۔ وہ اپنے بھائی کامان تھی بھلا اُس کا سر جھکانے
کا باعث بننا کیسے برداشت کر سکتی تھی۔
لالہ مجھے معاف کر دیں۔۔۔ میں نے یہ سب آپ کی زندگی کی خاطر کیا۔۔۔۔ میں آپ کی سربلندی کے لیے مرمٹ سکتی ہوں۔۔۔ مگر آپ پر زراسی آنچ آتی برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔اس نے کہا تھا اگر میں نے یہ نکاح کیا تو وہ مار دے گا آپ کو ۔۔۔۔۔ مم میں کیا کرتی۔۔۔۔ میرے
پاس۔۔ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔زنیشہ کے منہ سے نکلنے والےالفاظ
آژمیر کے سینے میں تیر کی طرح پیوست
ہوئے تھے۔ اس نے اپنے ہونٹ سختی سے ایک دوسرے میں بھینچ رکھے
تھے۔
تم اس سے رابطے میں ہو ؟ کیوں ؟ کس نے اجازت دی تمہیں ؟ کیسے ہوا
اُس کا رابطہ تم سے ؟
زنیشہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کرتے آژمیر چلا یا تھا۔۔۔
لالہ وہ جم۔۔۔ جمشید نے۔۔۔۔۔
زنیشہ کے منہ سے خوف کے مارے بات مکمل ہی نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔ آژمیر کا سفید چہرا خطرناک حد تک لال ہو چکا تھا۔ اس کی مقناطیسی سیاہ آنکھیں غضبناکی کی حد کو چھوتیں مقابل کی جان نکالنے کے در پر تھیں۔۔۔ اس نے اسی وقت موبائل پاکٹ سے نکالتے کال ملائی تھی۔۔۔۔
جمشید کل کا سورج نہ دیکھ پائے۔۔۔۔ ورنہ میں تمہاری سانسیں سلامت”
” نہیں رہنے دوں گا۔۔۔۔
آژمیر سے اب مزید خود پر قابورکھ پانا مشکل تھا۔ وہ ایک دم سفاک ہوا تھا۔ زنیشہ نے سہمی نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔
کل مقررہ کردہ وقت پر تمہار اذیشان سے نکاح ہو گا۔۔۔۔ اگر تم نے پھر سے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میں اپنے ہاتھوں سے تمہارا اگلاد باکر قصہ ہی
ختم کر دوں گا۔۔۔۔۔
آژمیر کے لفظوں کی سنگینی پر زنمیشہ نے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔مگر ملک زوہان۔۔۔۔۔ اُس نے دھمکی دی مجھے۔۔۔۔۔
زنیشہ کے لب ہولے سے پھڑ پھڑائے تھے۔۔۔۔
وہ اُس شخص کی دہشت سے بھی اچھی طرح واقف تھی۔۔۔۔۔ اُس سمیت خاندان کا کوئی فرد نہیں چاہتا تھا کہ یہ دو طوفان ایک دوسرے سے
ٹکرائیں
کے لیے اتنا ہی
اگر وہ اپنی موت کے یتا اتاولا ہو رہا ہے تو آ جائے۔۔۔۔ میرے”
کتے کافی دنوں سے من پسند شکار نہ ملنے کی وجہ سے بھو کے گھوم رہے
ہیں۔۔۔۔ اُنہیں کی دعوت ہو جائے گی۔۔۔
آژ میر کے سفاکیت بھرے لہجے میں کسی قسم کی کوئی مہلت نہیں تھی۔ زنیشہ کا دل ڈوب کر اُبھرا تھا۔ اُسے شدت سے احساس ہوا تھا، وہ ان دو مضبوط چٹانوں کے بیچ میں پھنس کر بری طرح لینے والی تھی۔
لالہ پلیز آپ۔۔۔۔۔
زنیشہ نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اُسے روکنا چاہا تھا۔ وہ کسی بھی صورت آژ میر کو خطرے میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ملک زوہان جیسا جنونی شخص کچھ
بھی کر سکتا تھا آژ میر کو تکلیف دینے کے لیے۔
مگر آژ میر اس کے ہاتھوں پر سرد نگاہ ڈالتا
نکل گیا تھا۔
اُس کے اندر جھکڑ چل رہے تھے۔ ملک زوہان کی ہمت بھی کیسے ہوئی تھی،
اس کی بہن سے رابطہ کرنے کی ۔۔۔۔
اُس کی زراسی نرمی برتنے کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جارہا تھا۔ مگر اب آژ میر میران
کوئی لحاظ نہیں کرنے والا تھا۔
” زنیشہ میرے بچے۔۔۔۔”
شمسہ بیگم اندر اگر زنیشہ کو فرش پر بیٹا دیکھ اس کے قریب آئی تھیں ماما وہ دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہیں۔۔۔۔ کیوں ہیں یہ لوگ ایسے ؟ کب ختم ہو گی انکی نفرت۔۔۔۔ماما میں یہ سب نہیں دیکھ سکتی
میں مر جاؤں گی۔۔۔۔
ز نیشہ اپنی ماں کی آغوش میں چھپتی پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔ شمسہ بیگم اُسے سینے سے بھینچے تسلی دیتی رہی تھیں۔ کیونکہ اس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی چارہ تھا ہی نہیں۔ اُن کی آنکھوں کے گوشے بھی نم ہوئے تھے۔ جسے وہ بہت ہی مہارت سے چھپا گئی تھیں ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔
نگینہ بائی تم جو کہو گی میں مان جاؤں گی۔۔۔ جس کے ساتھ جانے کو بولو گی، میں چل پڑوں گی۔۔ مگر پلیز ماورا کو اس کی نادانی کی اتنی بڑی سزامت دو
تم لوگ۔۔۔
حائفہ ایک بار پھر اپنی بہن کی وکالت کرنے کی خاطر وہاں پہنچ چکی تھی۔ اُسے اُن لوگوں کے پیر بھی پکڑنے پڑتے یا اپنی جان بھی اُن کے قدموں میں
رکھنی پڑتی وہ تب بھی پیچھے نہ ہٹتی ۔۔۔۔
میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ یہ معاملہ اب کرامت کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔ وہ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔ اُس کی نظر میں بھی اور ویسے بھی ماورا کی غلطی بہت بڑی ہے۔ اس نے دھوکا دیا ہے جس کی سزا تو
سے مل کر رہے گی۔۔۔۔۔
نگنیہ بائی سگریٹ جلا کر ہونٹوں میں رکھتی حائفہ کو دوٹوک انکار کر گئی تھی۔ حائفہ نے اس کی بات اور حرکت پر انتہائی ناگواری سے اُسے دیکھا تھا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ جانے والے اور سہم جانے والوں میں سے تو بالکل بھی نہیں تھی۔ اگر یہ لوگ سیدھے طریقے سے اُس کی بات نہیں مان رہے تھے ، تو وہ
اپنی بہن کا بچانے کے لیے کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتی تھی اپنی بہن کی حفاظت ہی اُس کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ اپنی مرتی ماں سے کیا آخری وعد ہ تھا۔ وہ بھلا اپنی ماں سے کیا وعدہ کیسے توڑ سکتی تھی۔ ٹھیک ہے جو تم لوگوں نے کرنا ہے کرو۔۔۔۔ مگر پھر جو میں کروں گی، تم لوگ بھی اُس کے لیے مجھے روک نہیں پاؤ گے۔
حاعفہ اُسے چیلنجنگ انداز میں دیکھتی واپس مڑی تھی۔
جب عین اپنے پیچھے کھڑے کرامت کو دیکھ اُس کے قدموں کو بر وقت
بریک لگی تھی۔
تو تم ہمیں دھمکی دے رہی ہو ۔۔۔ ؟”
کرامت نگینہ بائی کے برابر بیٹھتا اس کی جانب استہزا یہ نظروں سے دیکھتے
بولا تھا۔
اپنی بہن کو اس دلدل میں نہیں گھنے دوں گی۔ اُسے بچانے کے لیے کی گئی۔ میری کوشش تم دھمکی سمجھو یا نصیحت میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔۔ حائفہ اُسے بھی بناڈرے جواب دیتی پلٹی تھی۔ اس حسین ملکہ کا یہی نڈر انداز اور زہانت سے چمکتی آنکھیں اُسے سب سے نمایاں رکھتی تھیں۔ ڈر نا تو جیسے حائفہ نور نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ جب بات اُس کی بہن کی آتی تھی تو اس کے لیے اچھائی برائی میں کوئی فرق نہیں رہتا تھا۔
اگر تم چاہتی ہو ماورا کے ساتھ نرمی برتی جائے ،اُسے واپس پڑھنے کے لیے
” بھیجا جائے تو تمہیں ہمارا ایک کام کرنا ہو گا۔۔۔۔
کرامت کی بات پر دروازے کے قریب پہنچتی حائفہ جھٹکے سے پلٹی تھی۔
“کیسا کام۔۔۔؟؟؟
حائفہ کی آنکھوں میں واضح چمک در آئی تھی۔ ابھی بھی ماورا کو بچانا اس کے
ہاتھ اس کے رب نے دوسرا موقع دے دیا تھا۔کام کافی حد
مشکل اور کافی حد تک نا ممکن بھی ہے۔۔۔اس
کامل تھا۔ اسے میں تمہاری جان
” بھی جاسکتی ہے۔ سوچ سمجھ کر حامی بھر نا۔۔۔۔۔
کرامت کی بات پر نگینہ بائی نے بھی حیرت بھری نظروں سے اس کی جانب
دیکھا تھا۔
حاعفہ کو بھلا اپنی جان کی پر واہ تھی ہی کہاں۔۔۔ وہ تو ماورا کے لیے کچھ بھی کر
سکتی تھی ۔
کیا کام ہے؟
حاعفہ ہمہ تن گوشہ ہوئی تھی۔
ایک بہت بڑی مچھلی کا شکار کرنا ہے تم نے۔۔۔۔ مگر اُس شکار کو زندہ ہم
تک لانا ہے۔۔۔۔۔
کرامت کی بات پر حاعفہ نے بوجھل سانس ہوا میں خارج کی تھی۔ اس کے لیے تمہیں یہاں نہیں ایک علیحد ہ گھر میں رہنا پڑے گا۔۔۔۔ کرامت کی اس بات پر حائفہ نے نگاہیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ چلو کسی ریزن سے ہی سہی مگر اسے اس کو ٹھے سے کچھ وقت کے لیے چھٹکارا تو
ملنے والا تھا۔
” مجھے منظور ہے ۔۔۔۔ تم سمجھو تمہارا کام ہو گیا ہے۔۔۔”
جاعفہ نے اُسے یقین دلا یا تھا۔ نام تو سن لو۔۔۔۔ وہ شخص کوئی ایسا ویسا شخص نہیں ہے۔۔۔ ایک باکردار اور مضبوط اعصاب کا مالک کافی شاطر ہے۔۔۔ اُسے دھوکا دینا تقریباً ناممکن
ہے۔۔۔اگر اُسے زرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو تمہیں ختم کرنے میں ایک پل
” نہیں لگائے گا۔۔۔۔
کرامت نےاُسے معاملے کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہا تھا۔
اگر مجھے اتنا بڑا کام سونپ رہے ہو تو مجھ پر اعتبار بھی کرو۔۔۔۔ حائفہ کے دماغ میں اس وقت صرف ماورا کو بچانا ہی چل رہا تھا۔ اس نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی کہ جس کام کے لیے وہ حامی بھر رہی تھی وہ
اُس پر کتنا بھاری پڑ سکتا تھا۔
حائفہ اپنی بات کہتی وہاں سے نکل گئی تھی۔
کرامت یہ سب کیا ہے ؟ تم حائفہ جیسی سونے کی چڑیا کو اپنے پنجرے سے باہر بھیجنے کی بات کر رہے ہو ۔۔۔
نگینہ بائی کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا۔
جس کام کے لیے بھیجنے جارہا ہوں ،اگر وہ ہو گیا تو تم سوچ بھی نہیں سکتی ہمیں کتنا پیسہ دیا جائے گا۔ اس کام کی ایڈوانس رقم بھی ہمارے اتنے سالوں
سے کیے جانے والے کام سے بھی کہیں زیادہ ہے۔۔۔۔ تو سوچوا گر حاعفہ اس میں کامیاب ہو گئی تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ کرامت کی بات پر نگینہ بائی کی آنکھیں بھی لالچ سے چمک اُٹھی تھیں۔ حائفہ تو ماورا کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اتنے وقت سے ہم اس یہی کمزوری ہی تو استعمال کرتے آئے ہیں۔ حائفہ یہ کام ہر حال میں کرے گی اُس کے حُسن کے جلوے کے آگے بڑے بڑے زاہد و عابد اپنا ایمان نہ
ا سنبھال پائیں۔۔۔ نگینہ ہائی پر امید تھی۔
نہیں یہ کام اتنا آسان بالکل بھی نہیں ہے۔ وہ شخص اتنی آسانی سے پگھلنے والا بالکل بھی نہیں ہے۔ انتہائی خطرناک اور طاقتور آدمی ہے۔۔۔۔ اگر اُسے زرا سی بھی بھنک پڑ گئی حائفہ کے حوالے سے تو بنا کوئی سوال کیے اُدھر ہی ختم کر دے گا۔۔۔۔ اور ہمیں بھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔
کرامت کی بات پر اب کے نگینہ بائی بھی چونکی تھی۔
“کون ہے وہ۔۔۔؟؟”
نگینہ بائی نام جاننے کے لیے متجسس ہوئی تھی۔
ملک آژ میر میر ان۔۔۔۔۔ اگر حاعفہ حسن کی ملکہ ہے تو وہ بھی طاقت اور زہانت کا بادشاہ ہے۔۔۔ بہت سے لوگوں نے اُسے طاقت سے ہرانے کی کوشش کی ہے مگر آج تک ہر کوئی ناکام رہا ہے۔۔۔۔اب اس کے دشمن اس کے دماغ سے نہیں دل سے کھیل کر مات دینے کا ارادہ رکھتے
ہیں۔۔
کرامت خان نے نگینہ بائی کی لانچ کی بھڑکتی آگ پر پانی ڈال دیا تھا۔ کیونکہ یہ کام شیر کے پنجرے میں جاکر اُس کے منہ سے کھانا چھین کر لانے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام تھا ۔۔۔۔ انہیں شاید حائفہ کے بدلے ایڈوانس کی
ملنے والی رقم پر ہی گزارا کر نا تھا۔۔۔۔
رات بھر وہاں برفباری ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے ٹھنڈ مزید بڑھ گئی تھی۔ لوگوں سے ہیٹر کے آگے سے ہٹنا اور بستر چھوڑ نا محال تھا. وہیں ملک زوہان ٹھنڈے پانی سے شاور لیتا، اپنی جلتی تڑپتی روح کو سکون بخشنے لگا تھا۔ اُس کے اندر لگی آگ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پار ہا تھا، آخر اس کو سکون کیوں نہیں مل یار ہا تھا۔ آژمیر میر ان کو وہ اس کی بہن کے ذریعے مات دے تو رہا تھا۔ پھر کس چیز میں کمی یا جھول تھا آخر ۔۔۔۔ اُس نے شدید ٹھنڈ کے باوجود بلیک ٹراؤزر کے اوپر بلیک بنیاں پہن رکھی تھی۔ اس کے کسرتی باز و بنیان سے جھانکتے اس کی وجاہت میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ روشن پیشانی پر بکھرے سیاہ بال، بھوری خوبصورت آنکھیں جود یکھنے والوں کو اپنا اسیر کیے بنا نہیں رہتی تھیں، کھڑی مغرور ناک اور ایک دوسرے میں پیوست احمری لب۔۔۔۔ جن کی سگریٹ کی طلب روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ اس کے سامنے کم لوگ ہی ٹک پاتے تھے۔ اس کی پر سنیلیٹی ایسی تھی کہ لوگ زیادہ دیر اس کے مقابل کھڑے ہو کر بات نہیں
کر سکتے تھے۔ ٹھیک بات کرنے کے باوجود اگلا بندہ اُس کی ساحرانہ خود پر اُٹھتی نگا ہیں دیکھ سہم جاتا تھا۔ وہ انتہا کا موڈی شخص تھا کب اُسے کیا بات بُری
لگ جائے ہو ئی نہیں جانتا تھا۔
اُسے سمجھناد نیا کا مشکل ترین کام تھا۔ مگر ایک شخص تھا جو اسے سمجھتا بھی تھا اور اُس کے مقابل آکر اُسے مات دینے کی ہمت بھی رکھتا تھا۔ اور وہ شخص تھا ملک آژ میر میران۔ ان دنوں کا ٹکراؤ ہمیشہ کوئی نہ کوئی تباہی ضرور لاتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کس کی جیت اور کس کی مات ہونے والی تھی۔۔۔۔۔اور کون ٹوٹ کر بکھر نے والا تھا۔۔۔۔
زوہان ٹاول بالوں میں رگڑتا نیچے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ یہ اندر سے لکڑی کا بنا بہت ہی خوبصورت کا تیج تھا۔ جس کو باہر سے خالص سفید پینٹ کیا گیا تھا۔
اس کے بالکل کنارے سے دلکش اور دلفریب نظارہ پیش کرتی جھیل بہتی تھی۔ جو اس کا ٹیج کی لوکیشن کو مزید حسین بنادیتی تھی۔ اس جگہ کی دلفریبی بھی ملک زوہان کے دل پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال پائی تھی۔ وہ تنہائی پسند
شخص تنہارہ کر مزید بے حس ہو چکا تھا۔ اس پر اب نہ کسی کے جذبات اثر
کرتے تھے نہ احساسات۔۔۔۔
وہ ناشتے سے سجے ڈائننگ ٹیبل پر آن بیٹھا تھا۔ جہاں اُس اکیلے شخص کے لیے چار چار ملازمین ہاتھ باندھے کھڑے تھے . کیونکہ یہ ٹیڑھا شخص ایک دو کو تو منگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیتا تھا۔ ان چار پر بھی وہ اکثر بھاری پڑ جاتا تھا۔ ناشتے
کے تھوڑے سے ٹائم پر وہ انہیں گھما کر رکھ دیتا تھا۔
وہ اپنے اندر ہیر و والی نہیں ولن والی خصوصیات لانا چاہتا تھا۔ جو دوسروں کو بر باد کرنے پر خوش ہونا جانتا ہو صرف۔۔۔
اُس کو ناشتہ کرتا دیکھے دروازے میں کھڑا حاکم اندر نہیں آیا تھا۔ وہ اتنی بری خبر سنا کر اُس کا ناشتہ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر بعد اُسے اُٹھ کر ڈرائینگ روم میں جاتے دیکھ حاکم بھی اُس کے پیچھے آیا تھا۔
حاکم تم یہاں؟… میں نے تم سے کہا تھا ابھی اُدھر ہی رہنا۔۔۔۔ابھی “
” ہمار اوہاں سے کام ختم نہیں ہوا۔۔
جاری ہے
please share this with your friends on Facebook
Keywords:
- Haifa and Zanisha
- Urdu novel
- Love and betrayal
- Revenge story
- Urdu fiction
- Best Urdu novels
- New Urdu novel 2025
- Emotional Urdu story
- Gripping Urdu novel
- Urdu love and revenge


Pingback: Haifa and Zanisha Novel Part 2 – Urdu Digest Novel Read Online
Salam download link plz