Haifa and Zanisha Novel Part 10 – Best Urdu Novel of 2025 Love Story


The much-anticipated Part 10 of ( Best Urdu Novel ) Haifa and Zanisha is now available! This best Urdu love story of 2025 continues with even more drama, passion, and suspense that will keep you hooked from start to finish. If you’re a fan of romantic Urdu novels, this part will take you deeper into the lives of Haifa and Zanisha as their love story faces new trials and emotional turns.

For those who prefer offline reading, you can easily download the PDF and enjoy this thrilling story anytime.

Best Urdu Novel

Best Urdu Novel of 2025 Love Story

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 9

سرد مہری کی بھی حد ہوتی ہے۔۔۔۔ انسان اس بات کا جواب نار مل اند از میں بھی دے سکتا ہے۔۔۔ مگر نہیں سنائے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا اس مغرور اور اکڑ و باس کا۔۔۔ مجھے تو لگتا یہ اپنی فیملی کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوتے
ہونگے۔۔۔ ہر وقت آرڈر دینے کے موڈ میں۔۔۔اور زراسی غلطی پر
جھڑکنے کے موڈ میں۔۔۔۔۔ بچاری ان کی بیوی کیا۔۔۔۔۔ حائفہ کی زبان کو اچانک بریک لگی تھی۔۔۔ آخری جملہ ادا کرتے اس کی
آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔۔
آژ میر کے جانے کے بعد وہ وہیں سائیڈ پر پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ وہ بھول چکی تھی اسے بھی اندر میٹنگ میں جانا ہے۔۔۔۔ آژ میر میر ان کی وائف۔۔۔۔ خوش نصیب ترین لڑکی ہو گی۔۔۔۔۔ آنکھوں میں نمکین پانی بھرے وہ ہونٹوں پر مبہم مسکراہٹ لیے گویا ہوئی تھی۔۔۔۔اس بات سے انجان کہ وہ کسی کی نگاہوں کی حصار میں ہے۔۔۔۔
اوہ شٹ مجھے بھی تو میٹنگ میں جانا تھا۔۔۔۔۔
حائفہ کو اچانک خیال آیا تھا۔۔۔ پہلے وہ اپنی روئی صورت درست کرنے واش روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
اس بات سے انجان کے اس پر نظر ر کھا شخص بھی لیڈیز واش روم میں اُس کے پیچھے داخل ہو چکا تھا۔۔۔
حائفہ اپنا چہر اصاف کرتے جیسے ہی پلٹی دروازے کے قریب کھڑے شخص کو دیکھ اُس کے ہاتھ سے مو بائل چھوٹ کر زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
ماور ابیلا اور باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ کیمپنگ کے لیے نکل چکی تھی۔۔۔ اُن کے ساتھ دو پروفیسر ز بھی تھے۔۔۔ وہ سب ایک ہی بس میں جار ہے سب گروپ لیڈرز اپنے اپنے گروپ کے ساتھ تھے۔۔۔ جبکہ اُن کا لیڈ رہی سرے سے غائب تھا۔۔۔
سرنے اور اُس کے اپنے دوستوں نے اُس کو بہت کالز کی تھیں مگر اُس کا فون مسلسل آف جار ہا تھا۔۔۔ کافی دیر انتظار کے بعد وہ لوگ نکل آئے تھے۔۔۔ لیکن پور اراستہ منہاج کو ہی ڈسکس کیا گیا تھا۔۔۔ ماور ا اُس انسان کا اب نام بھی نہیں سننا چاہتی تھی۔۔۔ بیلا کے ایک دو بار کہنے پر اُس نے بیلا کو بُری طرح جھڑک دیا تھا۔۔۔۔
جس کے بعد اب بیلا بھی خاموش ہی تھی۔۔۔۔
سوات میں داخل ہوتے وہاں کی خوبصورتی نے ماورا کی بو جھل طبیعت کو تازگی سی بخش دی تھی۔۔۔۔
وہ لوگ سوات کے ایک بہت ہی خوبصورت مگر پسماندہ گاؤں میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ جہاں ہوٹل کا کسی قسم کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھ لائے گئے کیمپس میں ہی رہنا تھا۔۔۔۔
وہاں بہت زیادہ ٹھنڈ تھی۔۔۔۔ ہر طرف دھند ہی دھند چھائی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
کیمپس لگانے کے لیے انہوں نے جو جگہ سلیکٹ کی تھی وہ خوبصورت بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان سر سبزے سے گھری ہموار سطح تھی۔۔ جس کے ایک طرف نیلے پانی کی جھیل واقع تھی۔۔۔۔ ماور ایہاں آکر بہت زیادہ خوش تھی۔۔۔ وہ پہلی دفعہ یوں باہر نکلی تھی۔۔۔اس لیے اُس کی
ایکسائٹمنٹ سب سے زیادہ تھی۔۔۔۔
بیلا مجھے وہ جھیل دیکھنی ہے۔۔۔۔ آؤ اس طرف چلتے ہیں۔۔۔
ماور انے بیلا کا ہاتھ پکڑے اپنے ساتھ کھینچا تھا۔۔۔۔ جو سگنل کی تلاش میں
موبائل ہاتھ میں پکڑے ادھر ادھر پھر رہی تھی۔۔۔۔
مادر ا پاگل ہو گئی ہو ۔۔۔ اس سائیڈ پر نہیں جانا۔۔۔ سر نے سختی سے منع کیا ہے۔۔۔۔اگر ز ر ا سا بھی پیر سلپ ہوا تو یہ نیلا خو بصورت پانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہیں اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔۔۔۔ یہیں پر کھڑی ہو کر
” انجوائے کرو۔۔۔
بیلاا سے منع کرتی کسی کی پکار پر دوسری جانب بھاگ گئی تھی۔۔۔
یہ تو ہے ہی ڈرپوک۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ میں سنبھل کر جاؤں گی
نہیں ہوتی سلپ۔۔۔۔۔
ماور ادور جاتی بیلا کو گھور کر دیکھتی جھیل کے اونچے نیچے راستے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ ڈھلوانی سطح پر پتھر رکھ کر چلنے کے لیے تھوڑی سی روکاوٹیں
بنائی گئی تھیں۔۔۔۔
ماورا کی نظریں جھیل کے پانی سے ہو تیں۔۔۔ کناروں پر پڑے رنگ برنگے پتھروں پر ٹک گئی تھیں۔۔۔اس کے لیے یہ سب بہت نیا اور انتہائی دلفریب تھا۔۔۔۔ دور سے چمکتے پتھروں کو جگمگاتی آنکھوں سے دیکھتے اس کی نظر راستے سے ہٹی تھی۔۔۔ جس کے نتیجے میں وہ سامنے پڑے پتھر کی ٹھوکر کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی تھی۔۔۔۔
ماورا کے منہ سے خوف اور حواس باختگی کے عالم میں چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔
وہ اس اونچائی سے سیدھی جھیل میں جا گرتی جب کسی مہربان گرفت نے اس کی یخ بستہ کلائی اپنی گرفت میں لیتے اسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔ ماورا کسی ٹوٹی شاخ کی طرح اپنے اُس مسیحا کے سینے سے جالگی تھی۔۔۔۔ماورا کا پور اوجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔ موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کے
خوف سے اُس کا پورا چہرا آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔۔۔
جب منہاج درانی نے اپنی مضبوط بانہیں پھیلاتے اُس کے کپکپاتے نازک سراپے کو پوری طرح اپنی آغوش میں سمیٹ لیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@
میران پیلس کے تمام لوگ مہندی کے بڑے سے پنڈال میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ زنیشہ کی توقع کے عین مطابق میل اور فی میلز کا کمبائن فنکشن رکھا گیا تھا۔۔۔ جو دیکھ کر ہی زنیشہ کو کوفت محسوس ہوئی تھی۔۔۔ گاڑی میں آنے کے باوجود وہ گھر سے شال کر کے آئی تھی۔۔۔۔ اور اب یہاں اُس کے شال کو خود سے جدا کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔۔۔
باقی سب اپنے دوپٹوں کو ہی ہلکاساسر پر لیتی کمفرٹیبل ہو چکی تھیں۔۔۔ ز نیشہ میلز ایک طرف ہی ہیں تم اُتار دو شال۔۔۔۔ فجر نے زنیشہ کو اسی طرح شال لیٹے دیکھ ٹو کا تھا۔۔۔ مگر ہیں تو سامنے نا۔ میں نہیں اتاروں گی۔۔۔۔
زنیشہ سب کزنز کی گھوریوں کے باوجود ضدی لیجے میں بولی تھی۔۔۔ شمسہ بیگم اپنی کی احتیاط پر دھیمے سے مسکرادی تھیں۔۔۔ زنیشہ خود بھی اپنے
پردے کا بہت خیال رکھتی تھی
مگر اس وقت یہاں اس کی متلاشی
نظریں کسی اور کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔۔ فائزہ کی جس سے شادی ہو رہی
تھی وہ زوہان کا بہت اچھا دوست تھا۔۔۔ یہاں زوبان کا پایا جانا سو فیصد متوقع تھا۔۔۔ اور ا گروہ زنیشہ کو اتنے مردوں کے بیچ بنا دوپٹے کے دیکھ لیتا تو زنیشہ کی خیر نہیں تھی۔۔۔ آژ میر اور زوہان میں سب سے بڑی بات جو کا من تھی وہ تھی زنیشہ کے حوالے سے پوزیسو نیسں۔۔۔۔
” آپی آپ کو فائزہ آپی ادھر برائیڈل روم میں بلا رہی ہیں۔۔۔۔
فائزہ کی چھوٹی بہن اُسے بلانے آئی تھی۔۔۔۔
جس پر نا چاہتے ہوئے بھی زنیشہ اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔۔۔ وہ آج کے دن فائزہ کی کسی بات کا انکار نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
ایک منٹ آپی۔۔۔۔ زوہان بھائی آگئے میں زرا ان سے مل لوں۔۔۔۔ کرن زنیشہ کو آدھے راستے میں ہی چھوڑتی زوہان کو ہال میں دلہا بنے کاشف کے ساتھ انٹر ہوتا دیکھ اس جانب بھاگ گئی تھی۔۔۔۔۔
زنیشہ نے بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں وہ سیاہ قمیض شلوار پر سیاہ کوٹ پہنے ، بالوں کو اپنے مخصوص سٹائل میں جیل لگا کر سیٹ کیے، ہونٹوں پر دل پر قابض ہونے والی دلفریب مسکراہٹ سجائے وہ دور کھٹر از نیشہ کا دل بُری طرح دھڑ کا گیا تھا۔۔۔۔
وہ کرن کے ساتھ اُس کی جانب ہی بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اتنی تیاری کے ساتھ زوہان کے سامنے جانے کا سوچ کر پزل ہوئی تھی۔۔۔اُس نے اُس لمحے کو کو سا تھا جب اس نے فریحہ کو اپنے فیس پر یہ
سب تھوپنے دیا تھا۔۔۔ زوہان کی نظر ابھی تک اُس پر نہیں پڑی تھی۔۔۔ زنیشہ نے جلدی سے اپنے ماتھے پر لٹکتی بندیاں کو شال کے نیچے چھپایا تھا۔۔۔۔ اس کا دل کر رہا تھا اپنے فیس پر نقاب چڑھالے یا یہاں سے
غائب ہو جائے ۔
ز نیشہ آپی آئم سوری۔۔۔۔”
کرن کو اچانک زنیشہ کا خیال آیا تو وہ شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔
اس نام کی پکار پر کاشف سے بات کرتے زوہان نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جب زنیشہ پر نظر پڑتے ہی اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔ وہ یک ٹک اُس کا حسین رُوپ دیکھے گیا تھا۔۔۔
زوہان کا یہ رد عمل زندیشہ نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔۔۔ اُس کی گہری نظروں کی تپیش پر زنیشہ کے پسینے چھوٹ چکے تھے۔۔۔۔
زوہان کو تو کبھی کسی کی پر واہ رہی نہیں تھی۔۔ مگر اس وقت وہاں ہال میں اُن کے خاندان کے تقریباً سبھی لوگ موجود تھے۔۔۔ جن کی نظریں پہلے سے ہی زوہان پر فکس تھیں۔۔۔ زوہان خاندان کے کسی فنکشن میں نہیں آتا تھا۔۔۔وہ ہمیشہ سب سے الگ رہنا ہی پسند کرتا تھا۔۔۔ مگر کاشف سے اُس کی دوستی بہت پرانی تھی۔۔۔ کاشف اس کے بہت زیادہ کلوز تھا۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اُسے انکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔ اور اپنی زندگی کے سب سے
ناپسندیدہ لوگوں کے درمیان موجود تھا اس وقت۔۔۔۔
مگر ایک انسان کو دیکھ ملک زوہان اپنے احساسات پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔ جس ہستی کی اپنی لائف میں موجود اہم مقام کو وہ شروع سے جھٹلاتا آرہا تھا۔۔۔ ہمیشہ اُسی کے سامنے جا کر ہی وہ بے خود ہوتا تھا۔
” چلیں۔۔۔۔”
ز نیشہ کرن کو اشارہ کرتی وہاں سے آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔ زوہان کی نظروں نے دور تک زندیشہ کا پیچھا کیا تھا۔۔۔
جو بات وہاں موجود میر ان خاندان کے افراد کے ساتھ ساتھ باقی سب نے
بھی بہت گہرائی سے نوٹ کی تھی۔۔۔ زوہان وہ چلی گئی ہیں
کا شف اُسکی جانب دیکھتے شرارتی لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔
” تم مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔”
زوہان نے اسے گھوری سے نوازا تھا۔۔۔
صرف میں نہیں سارا میران خاندان دیکھ رہا ہے کہ کیسے ملک زوہان آژمیر میر ان کی لاڈلی بہن کوگھور رہا ہے۔۔۔۔
کاشف کی بات پر زوہان کے چہرے پر مسکراہٹ کاز راسا تاثر نمایاں ہوا تھا۔۔۔ زنیشہ کی ایک جھلک اس کے خراب موڈ پر بہت خوشگوار اثر چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔
بہت جلد میران خاندان دیکھتا رہ جائے گا۔۔۔ اور میں ان کی لاڈلی کوان
کے بیچ سے لے جاؤں گا۔۔۔۔
زوہان زیر لب بڑ بڑا تا کاشف کے ساتھ آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔ اُسے زنیشہ کا یوں خود کو ڈھانپ کر رکھنا بہت اچھا لگا تھا۔۔۔۔ اس کا دل ایک بار پھر ز نیشہ کو دیکھنے کا خواہشمند ہوا تھا۔۔۔ لیکن اب وہ وہاں کہیں بھی نہیں تھی۔۔۔
@@@@@@@@
ماور ا پانی میں ڈوب جانے کے خوف سے اتنی سہم چکی تھی۔۔۔ کہ کتنے ہی پل وہ اس اپنائیت بھرے حصار سے لگی گھڑی رہی تھی۔۔۔
جب کچھ لمحوں بعد مقابل کی گرم سانسیں اپنی پیشانی پر محسوس کرتے ماورا نے جھٹکے سے دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔ مگر منہاج درانی اس بات کے لیے ابھی تیار نہیں تھا۔۔۔
اُس نے ماورا کے خوف سے کانپتے نازک وجود کو پوری طرح اپنے حصار میں
قید کر رکھا تھا۔۔۔
ماور احواس بحال ہوتے ہی سمجھ چکی تھی کہ یہ دلفریب خوشبو اور استحقاق بھرا انداز کس کا ہو سکتا ہے۔۔۔۔
جب رہی سہی کسر پیشانی پر محسوس ہوتے منہاج کے ہونٹوں کے لمس نے
کسر پر
پوری کر دی تھی۔۔۔۔
اس دھکتے لمس نے ماورا کو جی جان سے لرزا کر رکھ دیا تھا۔۔۔ منہاج کی یہ نرم گرم قربت اُس پر سکون بخشتا ایک سحر طاری کرنے لگی تھی۔۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔۔
ماور ااس شخص کے فریب میں دوبارہ نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔اس لیے اچانک ہوش میں آتے اور انے اُس کا حصار توڑ کر دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔۔
اب ایسا ممکن نہیں ہے۔
منہاج درانی تو آج اُسے الگ ہی زون میں لگا تھا۔۔۔
اس کی خمار آلود آواز اور کانوں کی لوح پر محسوس ہوتے ہونٹ کے لمس پر ماور اکا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔
وہ دونوں جھیل کے سائیڈ پر قدرے نچلے حصے میں کھڑے تھے۔۔۔ جہاں وہ باقی سٹوڈنٹس کی نگاہوں سے بالکل او جھل تھا۔۔۔اور اس بات کا منہاج درانی خوب فائدہ بھی اُٹھا ر ہا تھا۔۔۔
تم سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔۔۔ میرے وجود کو کھلونا سمجھ رکھا ہے تم نے۔۔۔ جب دل چاہے گا قریب آؤ گے۔۔۔۔ اپنی تسکین حاصل کرو گے۔۔۔ اور پھر کوئی نئی تہمت لگا کر دھتکار کر چلے جاؤ گے۔۔۔۔ میں نے تمہیں کہا تھا میرے قریب مت آنا۔۔۔
ماورا کو اُس کا یہ استحقاق بھرا انداز آگ لگا گیا تھا۔۔
یہ انسان اُس کی سوچ سے زیادہ ڈھیٹ اور خود سر تھا۔۔۔
واٹ ربش۔۔۔ یہ کیا بولی جارہی ہو تم۔۔۔ پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔۔ میں نے کب یوز کیا تمہیں۔۔۔ نکاح ہونے کے باوجود اپنا حق استعمال نہیں کیا۔۔۔۔ اور تمہارے منہ میں جو آرہا ہے۔۔۔ وہ اوٹ پٹانگ بولی جارہی ہو۔۔۔
منہاج اس کا چہرا اپنے مقابل کرتے حیرانگی بھرے مگر ذرا سخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ ماورا اپنے کچھ زیادہ الٹا بول جانے پر شرمندگی سے لال
ہوئی تھی۔۔۔
” تو کیوں آتے ہو میرے قریب۔۔۔۔ دور رہو مجھ سے۔
ماورا اُس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جما کر اُسے خود سے دور دھکیلنے کی
کو شش کرتے بولی تھی۔۔۔
جس کے رد عمل کے طور پر منہاج اُس کی کمر میں باز و حمائل کرتا اُسے مزید
قریب کر گیا تھا۔۔۔
اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا تو اور کس کے جاؤں گا۔۔۔
منہاج اُس کی لال پڑتی رنگت دیکھ شوخی سے بولا تھا۔۔۔
ماورا کو اس کے جارحانہ لمس پر کرنٹ سا چھو گیا تھا۔
چھوڑو مجھے ورنہ میں چیخ چیخ کر سب کو یہاں اکٹھا کرلوں گی۔۔۔ دنیا والوںکی نظروں میں میں تمہاری بیوی نہیں ہوں۔۔۔
ماورا اپنی کمر سے اُس کا باز و ہٹانے کی کوشش کرتے چلائی تھی۔۔۔
او کے چلاؤ۔۔۔۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ چلاتے ہوئے تم کتنی حسین لگوگی ۔۔۔۔ اور مجھے کتنی محبت سے تمہیں چپ کروانا پڑے گا۔۔۔
منہاج کو اُسے چھیڑنے میں مزا آنے لگا تھا۔۔۔۔اُس کے پھولے گال پر ہولے سے دانت گاڑھتے وہ ماورا کو غصے اور خفت سے لال کر گیا تھا۔۔۔
سب لوگوں کے سامنے بہت اچھا امیج بنارکھا ہے نا تم نے۔۔۔۔ اب دیکھوتمہاری اصلیت کیسے میں سب کے سامنے لاتی ہوں۔۔۔
ماور اُس کی بڑھتی جسارتوں پر لال پیلی ہوتی بولی بولی تھی۔۔۔
ماورا نے چلانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا۔۔۔ جب منہاج اُس کا چہرا ہا تھوں کے پیالے میں لیتا اُس کی سانسیں اپنی سانسوں میں اُلجھا گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
حائفہ لیڈیز واش روم میں کسی مرد کو کھڑا دیکھ خوف سے کانپ گئی تھی۔۔۔ اس وقت واش روم میں اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔۔۔ تت تم کون ہو ؟؟؟ یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟”
اس شخص کے دیکھنے کے انداز پر حائفہ کو اپنے گرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی
محسوس ہوئی تھیں۔۔۔
” تمہار ا عاشق۔۔۔۔۔”
وہ شخص خباثت سے مسکراتا اس کی جانب بڑھا تھا
” دیکھو۔۔۔ وہیں رک جاؤ۔۔۔ میرے قریب مت آنا۔۔۔”
حائفہ نے لرزتی لہجے میں اُسے وارن کر نا چاہا تھا۔۔۔اُسے سمجھ نہیں آرہی
تھی آژمیر کو مدد کے لیے یہاں سے کیسے پکارے۔۔۔
ملک آژمیر میر ان سے بہت حساب نکلتے ہیں میرے۔۔۔ ہر بار اُس نے بھری محفل مجھے بے عزت کیا ہے۔۔۔ آج اُس کی سیکرٹری کی صورت اُس کے سارے حساب کلیئر ہو جائیں گے۔۔۔۔ ویسے آژمیرمیر ان نے اتنی حسین سیکرٹری رکھی ہوئی ہے۔۔۔ یقین نہیں آرہا۔۔۔۔ لگتا ہے وہ بھی ہمارے جیسے شغل پالنے لگا ہے۔۔۔۔۔
وہ شخص حائفہ کے قریب آتا ہوس بھری نظروں سے اس کے چادر میں ڈھکے ہوئے سراپے کو گھورنے لگا تھا۔۔۔
حائفہ کو اس وقت شدت سے رونا آیا تھا۔۔۔ وہ جو کو ٹھے کی غلاظت سے آج تک اپنی عزت محفوظ رکھتی آئی تھی۔۔۔اس وقت اُسے بچانا مشکل لگا تھا۔۔۔
اُس نے شدت سے اپنے پروردگار کو پکارتے مددمانگی تھی۔۔۔ جو ہمیشہ اُسے
ایسی سچویشن سے بچاہتا آیا تھا۔۔۔۔
” دور رہو مجھ سے۔۔۔۔
حاعفہ نے اُسے اپنے قریب آتاد یکھ دور دھکیلتے وہاں سے نکلنا چاہا تھا۔۔۔۔ جب وہ شخص اسے بازو سے پکڑتا اپنی جانب کھینچ گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ اس سے اپنا باز و چھٹروانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔ مگر اس سے مقابلہ کر پانا بہت مشکل تھا۔۔۔
حاعفہ نے اللہ سے مددمانگتے آژمیر کو پکارا تھا۔۔۔۔ مگر تب تک اُس شخص کا
ہاتھ حائفہ کی چادر تک پہنچ چکا تھا۔۔۔۔۔
جب اُسی لمحے حائفہ کے کانوں میں دروازے پر ہوتی آہٹ سنائی دی
تھی۔۔۔
@@@@@@@@
میٹنگ روم میں سب لوگوں کے آتے میٹنگ سٹارٹ ہو چکی تھی۔۔۔سب لوگ باری باری پراجیکٹ کے حوالے سے اپنی پریزنٹیشن دے رہے تھے۔۔۔ آژمیر بھی بڑے افیکٹ وے میں اپنی پریزنٹیشن دیتا واپس کرسی
پر آن بیٹھا تھا۔۔۔۔
اُس کا دھیان بار بار حائفہ کی جانب جارہا تھا۔۔۔ جو ابھی تک میٹنگ روم میں نہیں آئی تھی۔۔۔ اس نے کام کے حوالے سے اتنی لا پرواہی کبھی نہیں برتی تھی۔۔۔ اور آج تو کام بھی اتنا امپورٹنٹ تھا۔۔۔ آژمیر کے دل کو عجیب سی
بے چینی نے آن گھیر تھا۔۔۔
وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اتنی امپورٹنٹ میٹنگ ، جس سے اس کی کمپنی کو کروڑوں کا فائدہ پہنچ سکتا تھا۔۔۔ اُس میں وہ چاہنے کے باوجود اپنا دھیان
حاعفہ سے نہیں ہٹا پار ہا تھا۔۔۔۔
فیصل میں ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔۔ یہاں سب سنبھال لینا۔۔۔۔
آژمیر اپنے منیجر کو ہدایت دے کر حیران چھوڑ تا میٹنگ روم سے نکل آیا تھا۔۔۔ جہاں ابھی کچھ دیر تک، کس کمپنی کو پراجیکٹ ملا اس فیصلے کی اناؤنسمنٹ ہونے والی تھی۔۔۔۔ مگر آژ میر میران جیسے سٹرانگ بندے کے دل و دماغ پر اس وقت عجیب قسم کی بے چینی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ آژمیر حائفہ کا نمبر ٹرائے کرتا اس کے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ مگر وہاں پہنچ کر روم اس کے روم کو لاک دیکھ آژمیر کی ٹینشن مزید بڑھی تھی۔۔۔ نہ وہ اس کی کال پک کر رہی تھی نہ وہ اپنے روم میں موجود تھی۔۔۔ یہاں وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تھی تو پھر آخر گئی کہاں تھی۔۔۔
ایکسکیوز می۔۔۔۔۔”
آژ میر نے پاس سے گزرتی ایک ویٹرس کو بلا کر حاعفہ کا حلیہ بتاتے اُس کے بارے میں پوچھا تھا۔۔۔۔ جس پر ویٹرس نے حائفہ کو آخری بار واش روم کے ایریا میں دیکھا تھا۔۔۔۔۔
آژ میر کواب تشویش ہونے لگی تھی۔۔۔ اس نے اُسی لمحے ہوٹل کے منیجر کو بلواتے اگلے پانچ منٹ کے اندر حائفہ کو ڈھونڈنے کا آرڈر دیا تھا۔۔۔۔ سر پلیز کول ڈاؤن۔۔۔۔ ہم ڈھونڈ لیں گے انہیں۔۔۔ شی ول بی
منیجر نے آژ میر کا جاہ و جلال بھرارُوپ دیکھتے اپنے پورے عملے کو متحرک کیا تھا۔۔۔۔ آژ میر کی بے چینی لمحہ بالمحہ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔
سر لیڈیز واش روم اندر سے لاک ہے۔۔۔۔
ویٹرس کی دور سے آتی آواز پر آژ میر فورا اس طرف دوڑا تھا۔۔۔ ” ڈوپلیکیٹ کیز کہاں ہیں ؟؟؟
دروازے کے قریب پہنچتا وہ اونچی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔ یہ ہوٹل کا سب سے لاسٹ پورشن تھا۔۔۔ جہاں لوگوں کا آنا جانا کم ہی ہوتا تھا۔۔۔۔ ویٹر کو کیز لے جانے کے لیے بھاگتا دیکھ آژمیر دروازے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اس کے پاس انتظار کرنے کا ٹائم نہیں تھا۔۔۔۔ پوری شدت سے
دروازے پر ضر میں لگاتے وہ اُس کے لاک کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ منیجر کے اشارے پر پاس کھڑے ویٹر ز بھی آژ میر کی مدد کے لیے آگے بڑھے تھے ۔۔۔ جب اگلے ہی لمحے دروازے کا لاک ٹوٹ جانے کی
وجہ سے وہ
کھلتا چلا گیا تھا۔۔
@@@@@@@@
فائزہ کی ضد تھی کہ زنیشہ اُس کے ساتھ باقی کزنز کے ساتھ سٹیج تک اُسے چھوڑنے آئے۔۔۔۔ مگر ز نیشہ اتنے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بننے کو کسی صورت تیار نہیں تھی۔۔۔ اور ملک زوبان کی موجودگی تو الگ ہی اُس کا خون
خشک کیسے دے رہی تھی۔۔۔
اُسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا کہ آخر اتنا تیار ہونے اور یہ ہیوی ڈریس پہننے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔ سمپل بن کر آنے میں آخر کیا گناہ تھا۔۔۔ لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اور نہ فائزہ اور باقی اسے میک اپ صاف کرنے دے رہی تھیں۔۔۔
” زوہان لالہ تمہیں کھا نہیں جائیں گے جو اتنا کانپ رہی ہو ۔۔۔۔” فائزہ اُسے بار بار اپنی شال درست کرتا دیکھ چھیڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ جتنا اچھا تم لوگ اُسے سمجھتی ہو ۔۔۔ اتنا اچھاوہ اکٹر و انسان ہے نہیں
زنیشہ اپنی ہی روانی میں فائزہ کو ا سکے مطلب کا جواب دے گئی تھی ۔۔۔۔ مطلب واقعی تمہارا یہ گھبر اناشر ماناز وہان لالہ کے لیے ہی ہے۔۔۔۔ فائزہ فور اس کی جانب مڑتی ایکسائیڈ ہوئی تھی۔۔۔
مجھے لگتا ہے۔۔۔ تم آج اپنی مہندی والے دن بھی میرے ہاتھوں مار کھانے والی ہو۔۔۔۔ میرا اس انسان سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔۔ اور نہ ہی
مجھے اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔۔
زنیشہ فائزہ کو گھوری سے نوازتے وارن کر گئی تھی۔۔۔ چلو دیکھ لیں گے۔۔۔ اپنی اس بات میں کتنی غلط ہو تم ۔۔۔۔ فائزہ اسے چھیڑ نے سے باز نہیں آئی تھی۔۔۔۔
کاشف اور فائزہ کا نکاح پہلے ہو چکا تھا۔۔۔اسلیے اب اُنہیں ایک ساتھ بیٹھا کر مہندی کا فنکشن کیا جانا تھا۔۔۔
فائزہ کے بے حد اصرار پر ز نیشہ اس کے ساتھ دوپٹے کی چھاؤں میں چلتی برائیڈل روم سے نکل کر سیڑھیاں اترتی ہال میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ ہال کی انٹرنس پر کھڑے ہو کر زنیشہ کی نظر سٹیج پر کاشف کے ساتھ بیٹھے زوہان پر پڑی تھی۔۔۔وہ بھی اب اُس کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔۔۔ اور کافی گہری
نگاہوں سے اُسے گھور بھی رہا تھا
میں آگے تمہارے ساتھ نہیں آسکتی۔۔۔۔ زنمیشہ فائزہ کے کان میں آہستہ سے بولی تھی۔۔
ہاں جی وہ تو مجھے بھی لگ رہا ہے۔۔۔ جو تمہاری حالت ہے ابھی تھوڑا آگے چل کر تو تم نے بے ہوش ہی ہو جانا ہے ۔۔۔ میرے بجائے سب کو تمہیں
“سنبھالنا پڑے گا۔۔۔
فائزہ اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔۔۔ اُس کی کیفیت اچھے سے سمجھ
رہی تھی۔
فائزہ کےساتھ جو ہے یہ زنیشہ ہی ہے نا۔۔۔ آژ میر میر ان کی بہن۔۔۔ یہ تو میری سوچ سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔ بہت تعریفیں سن رکھی ہیں اس حسنیہ کی ، آج دیکھنے کا اتفاق بھی ہو گیا۔۔۔ سٹیج پر بیٹھے کاشف کے ایک کزن فاخر نے زنیشہ کی جانب پسندیدگی بھری
نظروں سے دیکھتے کاشف سے پوچھا تھا۔۔۔
زنیشہ نے اپنے آپ کو پوری طرح شال میں چھپارکھا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی اُس کا سجا سجا یاد و آتشہ حسن چھپائے نہیں چھپ رہا تھا ۔۔۔
فاخر کی بات زوہان کے کانوں میں پڑتی اسے آگ لگا گئی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بنا کسی کا لحاظ کرتافاخر کا حشر بگاڑ دیتا کاشف نے جلدی سے زوہان کے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے کول رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
“ز وہان پلیز ۔۔۔۔۔’
کا شف التقائی لہجہ میں بولا تھا۔۔
مگر وہ زوہان ہی کیا جو کسی کی سن لے۔۔۔ وہ بھی زنیشہ کے حوالے سے کی
جانے والی کوئی بات۔۔۔
زوہان اپنی جگہ سے اٹھتا فاخر کا گریبان دبوچ چکا تھا۔۔۔
وہ لڑکی میری ہونے والی بیوی ہے۔۔۔۔ اگر آئندہ اُس کی جانب ان غلیظ نگاہوں سے دیکھا تو دوبارہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔
زوبان فاخر کو منہ پر ایک زور دار پنچ رسید کر کے واپس صوفے پر پھینکتا سٹیج سے اتر گیا تھا۔۔۔ ہال میں موجود زیادہ لوگ دلہن کی جانب متوجہ تھے ۔۔۔ لیکن کچھ نے سٹیج پر پیش آیا یہ منظر بھی دیکھا تھا۔۔۔
کاشف بھی فور از وہان کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔
پلیز وہ زوبان پلیز کول ڈاؤن میں اُسے سمجھا دوں گا۔۔۔ آئندہ وہ ایسی کوئی بات نہیں کرے گا۔۔
کاشف زوبان کو بازو سے پکڑ کر روکنے کی کوشش کرتے بولا تھا۔۔۔ وہ دونوں سائیڈ پر تھے ، اِس وقت کوئی ان کی جانب متوجہ نہیں تھا۔۔۔۔ یہ کیسے گھٹیا لوگوں کو گھر کی عورتوں کے بیچ بلارکھا ہے تم نے ۔۔۔۔۔ زوہان اِس وقت جتنے غصے میں تھا کوئی بعید نہیں تھی۔۔۔ کہ وہ کاشف کو
بھی ایک پنچ رسید کر دے۔۔۔
ز نیشہ کہاں ہے۔۔۔؟؟؟”
زوہان نے سٹیج کی طرف جاتی فائزہ کے ساتھ زنیشہ کو تلاشنہ چاہا تھا۔۔۔ مگر
زنیشہ اب اس کے ساتھ نہیں تھی۔۔۔
اس نے بے چینی سے ہال کے چاروں اطراف نظریں دوڑائی تھیں۔۔۔
جب اسے وہ ایک کونے میں کھڑی نظر آئی تھی۔۔۔۔
زوبان تیز قدم اٹھانا مشتعل سا اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
ابھی ان موصوف کا کہنا ہے کہ انہیں زنیشہ سے محبت نہیں ہے ۔۔ محبت نہیں ہے تو یہ حال ہے اگر محبت ہو گئی تو نجانے کیا ہو گا۔۔۔۔ کاشف مسکراتا ہوا سٹیج کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
زنیشہ کو سب کی نگاہوں کا مرکز بننے کی وجہ سے کوفت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔اس لیے وہ ایک کونے میں قدرے الگ تھلگ جگہ پر آن کھڑی
ہوئی تھی۔۔۔ جب اچانک اُسے زوہان اپنی جانب آتادیکھائی دیا تھا۔۔۔
زنیشہ کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ اس نے گھبرا کر ارد گرد دیکھا تھا مگر اس جلاد سے بچانے کے لیے اس وقت آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔۔ زوہان کے بگڑے تیور زنمیشہ کی سانسیں روک گئے تھے۔۔۔
“آ۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔
اس کے قریب پہنچنے پر زنیشہ ابھی اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔۔ جب زوبان اسے بنا کچھ بولنے کا موقع دیئے بغیر اس کی کلائی انتہائی نرمی مگر مضبوطی سے تھامتا اُسے لیے بال سے نکلتا برائیڈل روم کی جانب جاتی سیڑھیاں چڑھنے
لگا تھا۔۔
زنیشہ بنا کوئی مزاحمت کیسے بے جان گڑیا کی طرح اس کے ساتھ کھینچتی چلی
گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
سامنے کا منظر دیکھ آژمیر کا خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔ اُس کار وایتی بزنس حریف جمال قریشی حائفہ کی چادر کھینچتا اُسے زبردستی اپنے قریب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ حائفہ کے سر اور کندھوں سے شال ڈھلک چکی تھی۔۔۔ جسے دیکھ آژمیر کا دماغ بالکل الٹ گیا تھا۔۔۔۔
جمال قریشی آژمیر اور ہوٹل کے عملے کو اتنی جلدی وہاں پہنچتا دیکھ ہکا بکا رہ گیا
تھا۔۔۔۔
” کمینے۔۔۔ میں چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔۔ آژمیر کی کنپٹی کی رگیں باہر کو ابھر آئی تھیں۔۔
وہ جمال قریشی کو گریبان سے پکڑتا اُسے بُری طرح پیٹنے لگا تھا۔۔۔ اُس کے بالوں کی گدی سے پکڑتے آژمیر نے اس کا سر سائیڈ پر بنے واش بیسن پر دے مارا تھا۔۔۔۔ جس کے بعد اُس نے یہ عمل روکا نہیں تھا۔۔۔ جمال قریشی کوشش کے باوجود اس بھرے شیر کی گرفت سے خود کو آزاد نہیں کروا پایا تھا۔۔۔۔
حائفہ ایک کونے میں ساکت سی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اُس نے ایک بار ہی تو پکار ا تھا اس شخص کو۔۔۔۔اور وہ فرشتہ بن کر اسکی مدد کو پہنچ چکا
آژمیر کے جنونی عمل پر جمال قریشی کا سر پھٹ گیا تھا۔۔۔۔ اور خون کی ندیاں جاری ہو چکی تھیں۔۔۔ مگر آژمیر کا جنون کم ہونے کا نام نہیں لے رہا لے تھا۔۔۔
منیجر اور ویٹر اسے روکنے کی کوشش کرتے ہلکان ہو چکے تھے۔۔۔۔
آخر میر تو جیسے آج اس خبیث کو مارنے کے بعد ہی چھوڑنے والا تھا۔۔۔۔
ویٹر ز میں سے کسی نے فیصل اور آژمیرکی باقی ٹیم کو انفارم کر دیا تھا۔۔۔۔ وہ سب بھی بھاگے آئے تھے۔۔۔۔ فیصل آژمیر کے غصے سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔۔
” سر پلیز چھوڑ دیں اُسے وہ مر جائے گا۔۔۔۔”
فیصل اور باقی سب نے بہت مشکل سے آژمیر کے چنگل سے خون میں لت پت جمال قریشی کو آزاد کر وایا تھا۔۔۔۔
آژمیر اسے نیچے پھینکتا غصے سے گہرے گہرے سانس لیتا حائفہ کی جانب پلٹا تھا۔۔۔ جو دھندلائی آنکھوں سے آژمیر کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔ اُس کا ڈھکا وجود دیکھ آژمیر کا غصہ کچھ حد تک نارمل ہوا تھا۔۔۔۔ آژمیر کے اشارے پر اس کی ٹیم ممبر ثنا حائفہ کو لیے اس کے روم کی جانب
بڑھ گئی تھی۔۔۔
حائفہ کچھ دیر پہلے اپنے ساتھ پیش آئے واقع کے خوف سے تو کچھ حد تک باہر آگئی تھی۔۔۔ مگر آژمیر میر ان کا اپنے لیے یہ روپ دیکھ اس کا دل خوف سے بھر گیا تھا۔۔۔ آژمیر کا انداز عام بالکل بھی نہیں لگا تھا ا سے۔۔۔ وہ اُس کی اتنی کیئر کرنے لگا تھا کہ اپنی اتنی امپورٹنٹ میٹنگ چھوڑ صرف اُس
کی تلاش میں نکل آیا تھا۔۔۔
تو کیا وہ واقعی اس سے محبت کرنے لگا تھا۔۔۔
حائفہ اپنے دل میں اُٹھتے سوالوں سے اُلجھتی پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔ اگر آژمیر واقعی اس سے محبت میں گرفتار ہور ہا تھا۔۔۔ تو یہ بات آگے چل کر آژمیر کے لیے کافی دردناک ثابت ہونے والی تھی۔۔۔ یہی وہ خوف تھا جو آج رو نما ہوئے باقی واقعات کے ساتھ اُس پر حاوی ہوتا
حائفہ کو کرر لا گیا تھا۔۔۔
مس حائفہ پلیز سب ٹھیک ہے۔۔۔۔ سر نے ٹائم پر پہنچ کر آپ کو بچا لیا۔۔کچھ
نہیں ہوا ۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔۔
ثناحاعفہ کی حالت کے پیش نظر مسلسل اُسے تسلی دینے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔ مگر حاعفہ کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔ وہ چہرا ہا تھوں پر گرائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔۔ ثنا اُسے چپ کروانے میں ناکام ہوتی باہر نکل گئی تھی۔۔۔
جب کچھ دیر بعد آژ میر اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
حائفہ چہرا ہا تھوں میں چھپائے پوری طرح رونے میں مگن تھی۔۔۔۔ جب اپنے قریب رکھتے قدموں کی آواز پر حائفہ نے سر اُوپر اُٹھایا تھا۔۔۔ اُس کی رونے کی وجہ سے لال ہوئی آنکھیں دیکھ آژمیر نے مٹھیاں بھینچتے بہت مشکل سے اپنے غصے پر قابو پایا تھا۔۔۔
اس سے پہلے کے آژمیر ا سے کوئی بات کہتا۔۔۔۔ حائفہ اپنے آپ پر کنڑول نہ رکھ پائی تھی۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کر آژمیر کے مقابل آتی۔۔۔ اس کے سینے پر اٹے زور و شور سے رودی۔۔۔۔ اُس کے نرم گرم لمس پر آژ میر کو لگا تھا کہ جسے کسی نے اُس کے جلتے دل پر ٹھنڈی پھوار رکھ دی ہو۔۔۔۔
مگر وہیں اُسے حائفہ سے اس جذباتی عمل کی اُمید بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔ وہ بنا اسے اپنے حصار میں لیے اُسی طرح باز و گرائے کھڑارہا تھا۔۔۔اُس کے پاس ایسا کوئی حق نہیں تھا کہ ہاتھ بڑھا کر اس روتی بلکتی لڑکی کو اپنے سینے میں چھپالے۔۔۔۔
اُسے حائفہ کا یوں شدت سے رونا تکلیف دینے لگا تھا۔۔۔ جو اُس کی شرٹ کو دونوں مٹھیوں میں دبوچے سینے سے بالکل گیلا کر چکی تھی۔۔۔
“حائفہ ۔۔۔۔”
کافی دیر کی خاموشی کے بعد آژمیر نے اسے پکارا تھا ۔۔۔ حائفہ کے رونے میں کمی آچکی تھی۔۔۔ مگر وہ ابھی بھی ویسے ہی ساکت سی اُس کے سینے سے لگی کھڑی تھی۔۔ آژمیر کو تشویش ہونے لگی تھی۔۔۔ اس نے حائفہ کا ہاتھ تھام کر اسے پکارا تھا۔۔۔ جب اُس کے سینے پر بے ہوش ہوئی حائفہ کا سر ایک جانب لڑھک گیا تھا۔۔۔ آژ میر نے فورااس کے گرد اپنے بازو پھیلاتے اُسے اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔۔۔
وہ روتے روتے بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔
” حاعفہ آنکھیں کھولو۔۔۔ کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔۔
آژ میر اُس کا سر اپنے کندھے پر ٹکاتا اس کا آنسوؤں سے بھیگا گلابی گال
سہلاتے ہوئے پریشانی سے بولا۔۔۔۔
حاعفہ اتنی دیر کی ذہنی اذیت کے بعد اس مضبوط اور محفوظ حصار میں آتے ہی اپنا آپ اُس انسان کو سونپ گئی تھی۔۔۔ جو اُس کی سانسوں میں خوشبو بن کر بنے لگا تھا۔۔۔ جس کے بغیر جینے کا تصور کرناہی حاعفہ کو عذاب لگنے لگا
آژ میر حائفہ کو بانہوں میں اٹھاتے بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ اور نہایت احتیاط سے اُسے بیڈ پر لیٹا کر اس کے اوپر کمبل اوڑھادیا تھا۔۔۔
حاعفہ آنکھیں کھولو پلیز۔۔۔۔’
آژ میر کا بس نہیں چل رہا تھا کچھ بھی کر کے حاعفہ کو ہوش میں لے
آئے۔۔۔۔
جبکہ آژ میر کو بھی اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ نازک جان ذہنی طور پر
عذاب سے گزر رہی تھی۔۔
ا بھی اسی وقت ڈاکٹر کو میرے روم میں بھیجو۔
آژ میر نے فیصل کو کال کرتے ہوٹل کے ڈاکٹر کو لانے کو کہا تھا۔۔۔۔
جب کچھ ہی منٹ بعد ڈاکٹر وہاں پہنچ گیا تھا۔۔۔
سر پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ یہ کافی زیادہ ذہنی دباؤ اور ٹینشن لینے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی ہیں اور بہت ویک بھی ہیں یہ تو ان کی ڈائٹ کے حوالے سے بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ تھوڑی دیر میں ہوش آ جائے
“گاا نہیں آپ یہ میڈیسن کھلا دیجئے گا۔۔۔۔
ڈاکٹر آژ میر کو ہدایت دیتا اپنا سامان لیے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ آژمیر بیڈ کے قریب کھڑا خاموش نگاہوں سے حائفہ کا زر دیڑ تا چہرا دیکھے گیا
تھا۔۔۔
اس لڑکی کے حوالے سے اب تک اُسے جتنی معلومات بھی ملی تھی، وہ سب بہت ہی مشکوک تھی۔۔۔ حاعفہ کی حقیقت کافی پر اسرار طریقے سے اس کے سامنے آرہی تھی۔۔۔ مگر آژمیر چاہنے کے باوجود اس سب پر یقین نہیں کر پارہا تھا۔۔۔ یہ معصوم چہرا کہیں سے بھی دھوکے باز نہیں لگتا تھا اُسے۔۔۔

ہمیشہ حائفہ کو اگنور کرنے کی کوشش کی تھی اُس نے۔۔۔۔ مگر کب اُس کا دل اس پیاری لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا وہ سمجھ ہی نہیں پایا
تھا۔۔۔
جس محبت کا ادراک آج حائفہ کے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہو ا تھا۔۔۔۔ آژمیر اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑا اُس کے حسین چہرے کو اپنی آنکھوں کے راستے دل میں اُتارنے لگا تھا۔۔۔ آج وہ چاہ کر بھی اُس کی جانب سے رخ نہیں موڑ پارہا تھا۔۔۔ اُس کا دل اس لڑکی کو مکمل اپنا سمجھ بیٹھا تھا اور بہت جلدی حلال طریقے سے اپنے نام لگوانا چاہتا تھا۔۔۔۔ گھنی مڑی پلکیں اس کے آرزوں پر سایہ فگن ہولے سے کپکپائی تھیں۔۔ مسلسل آژ میر کی گہری نگاہوں کی تپیش سے اُس کے گال لال ہوئے تھے۔۔۔ شاید وہ نیند میں بھی آژمیر میر ان کی موجودگی اپنے آس پاس
محسوس کر پارہی تھی۔۔۔
“حائفہ ۔۔۔ آنکھیں کھولیں۔۔۔۔”
آژ میر نے اُس کے قریب ہلکا سا جھکتے گھمبیر بھاری لہجے میں ہولے سے پکارا
تھا۔۔۔
اُس کی پکار میں چھپی شدت ایسی تھی کہ حائفہ کو اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے کسمساتے ہولے سے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔ آژ میر کو اپنے قریب دیکھ اس کی آنکھوں کے کنارے پھر سے بھیگ گئے
تھے۔
حائفہ ڈونٹ کرائے۔۔۔۔ مجھے بتائیں مجھے بتائیں کیا پرابلم ہے ؟؟… میں سب ہینڈل “
کرلوں گا کیا بات آپ کو پریشان کر رہی ہے۔۔۔۔ کیا اُس گھٹیا
” انسان نے آپ کو کوئی دھمکی دی ہے۔۔۔۔
آژمیر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر حائفہ کو اچانک ہوا کیا ہے۔۔۔۔ وہ میٹنگ کے لیے جانے سے پہلے تو اسے بالکل ٹھیک چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔”
حائفہ نے چہرا جھکا کر آنسو پیتے بمشکل کہ دیا تھا ۔۔۔۔ اس کے دل نے چیخ چیخ کر اُسے آژمیر کو سب سچ بتانے کو کہا تھا۔۔۔۔ مگر حائفہ اپنادل کا خون کرنے کو تیار تھی۔۔۔ وہ اپنی بہن کی زندگی پر اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتی
تھی۔۔۔۔
وہ زندگی میں ہمیشہ ہر مقام پر مجبور ہی رہی تھی۔۔۔ اور اس بار تو وہ دوہری اذیت کا شکار تھی۔۔۔ اُس کی زندگی کی سب سے بھیانک حقیقت، اس کے
طوائف ہونے کا پتا جب آژ میر کو چلنا تھا۔۔۔ تو آژمیر جیسا شریف انسان
اس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا ۔۔۔۔ جو اپنی عورت کے سر سے ذرا سی چادر
ڈھلی ہوئی برداشت نہیں کر سکتا
تھا۔۔۔ وہ یہ کیسے برداشت کرتا کہ جس سے وہ محبت کرنے لگا ہے ۔۔۔ وہ
ایک بازاری عورت ہے۔۔۔
اگر آپ بالکل ٹھیک ہیں تو یہ آنسود و بارہ میں نہ دیکھوں آپ کی آنکھوں
میں۔۔۔
آژمیر اُس کی جانب میڈیسن بڑھاتے نرمی سے بولا تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے اُس کے ہاتھ سے میڈیسن لیتے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔۔۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

ماور ا کو منہاج سے ایسی کسی حرکت کی اُمید نہیں تھی۔۔۔ اُس کا پور اوجود ہولے ہولے لرزنے لگا تھا۔۔۔ اُسے اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی
منہاج کا شدت بھر المس مادر اسے برداشت کرنا مشکل ہوا تھا۔۔
وہ اس کے کالر کو دونوں مٹھیوں میں سختی سے دبوچے ہوئے تھی۔۔۔ وہ
پوری طرح سے منہاج کے سہارے کھڑی تھی ورنہ اب تک زمین بوس
ہو چکی ہوتی۔۔۔ خود کو سیراب کرتے ، اُس کی حالت پر رحم کھاتے آخر کار منہاج نے اسے آزادی بخش دی تھی۔۔۔
ماور اگہرے گہرے سانس لیتی اس کے سینے پر سر نکاتی آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔
کیا ہوا مائی لو۔۔۔۔۔ میرے ذرا سے لمس پر یہ حال ہے۔۔ ابھی تو میری
” محبت کی شد تیں باقی ہیں۔۔۔
منہاج اُس کی گردن پر ہونٹ لگاتے بولتا ماورا کو شرم سے لال کر گیا
یہ شخص اس کی سوچ سے زیادہ بے باک تھا۔۔۔ جسے نہ جگہ کا خیال تھا اور نہ
ہی لوگوں کا۔۔۔۔
آئی ہیٹ یو منہاج درانی۔۔۔ تم یوں زبر دستی مجھ سے اپنی ہوس پوری نہیں کر سکتے۔۔۔۔ میں اب مزید تمہارے ہاتھوں کھلونا نہیں بنوں
گی۔۔۔
ماورا بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس پر چلائی تھی۔۔۔
اُس کے آنسو دیکھ منہاج بھی سیر یس ہوا تھا۔۔۔
میں مانتا ہوں بہت غلط کیا میں نے تمہارے ساتھ ۔۔۔ جو کہ اتنی آسانی سے معاف کیے جانے کے قابل بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ تم سے محبت کے
باوجو د اعتبار نہیں کر پایا۔۔۔۔ یہ بات اب احساس ہونے کے بعد میرے لیے کتنی تکلیف دہ ہے میں بتا نہیں سکتا۔۔۔ میں نہیں چاہتا تم مجھے معاف کرو۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم سزاد و مجھے۔۔۔۔ جب تک تمہارے دل میں میرے لیے جمع غصہ ختم نہ ہو جائے۔۔۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔ نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔۔۔۔ تم پر اعتبار نہ کر کے جو میں نے کیا ہے۔۔۔۔ اس کے لیے میں کبھی خود کو معاف
نہیں کر پاؤں گا۔
منہاج بول رہا تھا جبکہ ماورا خاموش نگاہوں سے اُسے تکے جارہی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
اُسے برائیڈل روم میں لا کر زوہان زنیشہ کی کلائی آزاد کرتادورازے کولاک لگا گیا تھا۔۔۔ جو دیکھ زنیشہ کا دل اچھل کر باہر آیا تھا۔۔۔
آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں۔۔؟
زنیشہ نے اس کے غصے بھرے تاثرات دیکھ ہلکی سی آواز میں پوچھا تھا۔۔ اتنا تو جانتی تھی کہ جب وہاں شدید غصے میں ہوتا تھا اس کی نہیں سنتا
تھا۔۔۔
زوبان اُس کے دلنیشن سے سنورے حلیے کو سر سے پیر تک تیز نظروں سے گھورتا سامنے پڑے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھا تھا۔۔
زوہان کی اپنے سراپے پر گڑھی گہری نگاہوں پر زنیشہ گھبراہٹ اور خوف سے اندر تک کانپ اُٹھی تھی۔۔۔ زوہان کو مسلسل اپنی جانب گھورتا دیکھ
زنیشہ کے گال تپ اُٹھے تھے۔۔۔ زوہان کی تپیش زدہ نگاہوں کے ارتکاز
میں کچھ ایسا تھا جو اس کی جان نکال رہا تھا۔۔۔۔
صاف کرو یہ سب
زوہان ٹیبل سے ٹشو کا باکس اُٹھاتا اس کے مقابل آن کھڑے ہوتے
بولا۔۔۔۔
سیاہ لباس میں زوہان خود بھی اپنی سحر انگیز پرسنیلٹی کے ساتھ پوری محفل پر چھایا ہوا تھا۔۔۔ زنیشہ نے اپنی کرنڑا اور خاندان کی باقی لڑکیوں کو زوہان کو گھورتے اور اُس کے بارے میں باتیں کرتے بھی سنا تھا۔۔۔ زنیشہ جو یک تک اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ اُس کی پکار پر شرمندہ سی ہوتی نظریں پھیر گئی
تھی۔۔۔۔
” جلدی سے اپنا چہرا صاف کرو۔۔۔۔”
زوہان ٹشو پیپر اُس کے ہاتھ میں تھماتا کچھ فاصلے پر رکھے صوفے پر جا بیٹھا تھا۔۔۔ اُس کا دھیان ابھی بھی پوری طرح زنیشہ پر تھا۔۔۔ پر
کیوں میں آپ کے کہنے پر کیوں صا ف کروں
میک اپ۔۔۔ میں اتنی “
” محنت سے تیار ہوئی ہوں میں بالکل صاف نہیں کروں گی ۔۔۔۔
زنیشہ کو بھی اُس کے دھونس بھرے انداز پر ضد سی ہوئی تھی۔۔۔ خود تو اُس کی کوئی بات مانتا نہیں تھا۔۔۔ اور اُس پر ایسے حکم صادر کرتا تھا۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے تک زنیشہ خود بھی اسی موقع کی تلاش میں تھی۔۔۔ کہ
کسی طرح اپنا میک اپ صاف کرلے۔۔۔۔
کیونکہ میں یہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا کہ میری ہونے والی بیوی کا یہ حسین روپ کوئی اور دیکھے۔۔۔۔ یہ صرف میرے لیے ہونا اور
چاہیئے۔۔۔ کسی غیر مرد کی نگاہ پڑے نہیں دیکھ
سکتا میں۔۔۔۔میرے گھر
میں آکر تم چاہے ہر وقت تیار ہو کر پھرتی رہنا، میں تمہارے لیے فل ٹائم بیوٹیشن کا انتظام کر دوں گا وہاں کوئی پابندی نہیں ہو گی۔۔۔ مگر اس وقت نہیں۔۔۔۔۔
زوہان نے تفصیل سے جواب دیتے زنیشہ کے چودہ طبق روشن کر دیئے

Share with your friends on Facebook


Updated: April 3, 2025 — 5:52 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *