The journey of Haifa and Zanisha reaches a deeper emotional level in Part 11. This is not just another romantic novel — it’s a real Urdu love story filled with pain, passion, sacrifice, and heartwarming moments.
If you’re someone who enjoys true emotions, relatable characters, and meaningful romance, this chapter is made for you. Whether you prefer reading online or want a PDF download for offline reading, it’s now available for free.

Real Urdu Love Story Haifa and Zanisha Novel Part 11
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 10 – Best Urdu Novel of 2025
زنیشہ اس کی اتنی لمبی پلینگ پر ہونق سی کھڑی اُسے گھور رہی تھی۔۔۔
جواب سیگریٹ سلگھا تا اُس کی حالت سے حظ اٹھارہا تھا۔۔۔۔
آپ ہر بار مجھ پر یوں حکم صادر نہیں کر سکتے ۔۔۔۔
زنیشہ ٹشو پیپر باکس سامنے پڑے ٹیبل پر پٹختی خود بھی صوفے پر ٹک گئی
تھی۔۔۔
کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔ میں آج ویسے بھی کافی فرصت سے آیا ہوں۔۔۔ میرے پاس بہت ٹائم ہے۔۔۔ جب تک تم میک اپ صاف نہیں کرتی دونوں یہیں بیٹھتے ہیں پھر ۔۔۔۔
زوہان سیگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑتا اطمینان سے بولتا صوفے پر ہی نیم دراز ہوا تھا۔۔۔ مگر اُس کی گہری بولتی نگاہیں زنیشہ کے حسین و دلکش سراپے پر ہی نکلی ہوئی تھیں۔۔۔ جو ز نیشہ کو کافی پزل کر رہی تھیں۔۔۔
ملک زوہان کو ضد میں ہر انا آسان کام نہیں تھا۔۔۔
زوہان دوسرا سیگریٹ سلگھا تا گہری نگاہوں سے اُسے گھورتا بہت مزے میں لگ رہا تھا۔۔۔ جیسے اس کی زندگی کا سب سے پسندید ہ منظر اس کی آنکھوں
کے سامنے ہو۔۔۔۔
“آپ کی پرابلم کیا ہے آخر ۔۔۔۔”
زوہان کی مسلسل گھورتی نگاہوں سے گھبراکر زنیشہ تپ کر بولی تھی۔۔۔۔
” تم اور تمہارا یہ حسین روپ۔۔
زوہان کی اس صاف گوئی پر زنیشہ کے گال مزید لال ہوئے تھے ۔۔۔
آپ کے پاس کوئی حق نہیں مجھ پر یوں کو منٹس پاس کرنے کا۔۔۔۔
ز نیشہ اُس سے کافی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے کافی بہادری کا مظاہرہ کر رہی
تھی۔۔۔
ابھی نہیں تو کیا ہوا بہت جلد تمہاری ذات کے حوالے سے سارے حق
“میرے پاس ہی آنے والے ہیں۔۔۔۔
زوہان اپنی جگہ سے اٹھتا اس کے قریب آن بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھتے دیکھ زنیشہ دور کھسک گئی تھی۔۔۔۔اس کا یہ گریز زوہان کو
کافی پسند آیا تھا۔۔۔۔
ایساکبھی نہیں ہو گا میرے لالہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے
زنیشہ صوفے کے کنارے پر پہنچی پورے یقین سے بولی تھی۔۔۔
اور میں کہوں اگر یہ کام تمہار اوہ جان سے پیارا بھائی خود کرے گا۔۔۔ تو پھر ۔۔۔۔ میری اس جیت پر کیا انعام ملے گا مجھے۔۔۔۔
زوہان نے زرا سا آگے جھکتے دھواں زنیشہ کی جانب چھوڑتے اپنی پلاننگ
بتائی تھی۔۔۔
جسے سنتے زنیشہ کا رنگ اُڑا تھا۔۔۔۔ اگر زوہان ایسا کہہ رہا تھا تو ضر ور اُس نے
کچھ بڑا سوچ رکھا تھا۔۔۔
جب آپ مجھ سے محبت ہی نہیں کرتے تو یہ سب کیوں کر رہے “
” ہیں۔۔
زنیشہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔۔۔۔ اُس نے جلدی سے زبان دانتوں
تلے دبائی تھی۔۔۔ مگر تب تک تیر کمان سے نکل گیا تھا۔۔۔
تو تم چاہتی ہو میں بھی تم سے محبت کروں۔
زوہان کو تو جیسے اسے چھیڑنے کے لیے کوئی بات مل گئی تھی ۔۔۔
” میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔
زنیشہ نظریں جھکائے منمنائی تھی۔۔۔۔ زوہان اس کے قریب صوفے پر تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے زنیشہ کی دھڑکنیں ناقابلے یقین حد تک تیز اور ہاتھوں میں لرزا طاری تھا۔۔۔۔
زوبان اس کی گھبراہٹ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔ کچھ دیر پہلے کا اُس کا غصہ اب کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔۔ یا شاید پھر وہ زنیشہ کے سامنے اپنا غصہ باہر لانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
باقی بہت سارے ریزنز کے ساتھ زنیشہ کا میک اپ صاف کروانے کا ایک ریزن یہ بھی تھا کہ اس سے اپنی خود کی نظریں ہٹانا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔ اُس کی بے خودی بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
ز نیشہ میر ان عام سے حلیے میں بھی اُس پر بجلیاں گرانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔ اور آج تو پھر وہ پوری طرح ہتھیاروں سے لیس تھی۔۔۔۔
اس ستمگر کی اس زراسی قربت پر زنیشہ کی اس وقت جو حالت ہو رہی تھی یہ
وہی جانتی تھی۔۔۔۔
وہ خاموشی سے کانپتے ہاتھوں سے ٹشو پیپر لیتے اپنا میک اپ صاف کرنے لگی
تھی۔۔
اسے نظروں کے حصار میں رکھے زوہان نے پرسنل نمبر پر بار بار آتی کال
” ثمن آریو او کے۔۔۔۔۔”
لپسٹک صاف کرتے زنیشہ کے ہاتھ اس پکار پر تھم سے گئے تھے۔۔
جب اگلے ہی لمحے زوہان کی فکر مند آواز قہقے میں تبدیل ہوئی تھی۔۔۔۔
ز نیشہ کا دل چاہا تھا وہان سے موبائل چھین کر کھڑ کی سے باہر پھینک
دے۔۔۔۔۔
آخر کیوں زوہان اس لڑکی کو اتنی اہمیت دیتا تھا۔۔۔
زنیشہ میک اپ صاف کرتی صوفے سے اٹھنے لگی تھی۔۔۔ جب زوہان نے اُس کی کلائی تھام کر روکا تھا۔
وہ زنیشہ کا غصے اور جیلسی سے لال پڑتا چہرا دیکھ چکا تھا۔۔۔
” چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔”
ز نیشہ اس وقت اچھی خاصی تپ چکی تھی۔۔۔۔ اُسے اس وقت آژ میر کی کہی بات ٹھیک لگنے لگی تھی۔۔۔۔ زوبان آژ میر کو نیچاد یکھانے کے لیے اس
کا استعمال ہی کر رہا تھا۔۔۔۔
ز نیشہ اس کے ہاتھ پر ناخن مارتی اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کر رہی
زوہان ثمن کا خدا حافظ کرتا اپنے سامنے بیٹھی جنگلی بلی کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔ جو غصے میں اُس کا ہاتھ پوری طرح نوچ چکی تھی۔۔۔۔
اُسے یہ بات ہی آگ لگا گئی تھی کہ زوہان اب رات کے ٹائم ثمن سے ملنے
جائے گا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔۔ زنیشہ میر ان کے اچانک اتنے غصے میں آنے کی “
زوبان اُس کا لال پڑتا چہرا دیکھ قدرے نرمی سے بولا۔۔۔۔ کیونکہ وجہ وہ جانتا
تھا۔۔۔
ز نیشہ اس سے اپنی کلائی آزاد کرواتی دور جاکھری ہوئی تھی۔۔۔ زوہان اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھتا اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اُسے زنیشہ کے اتنے شدید رد عمل پر حیرانی ہو رہی تھی۔۔۔۔
میں اچھے سے آپ کا مقصد سمجھ گئی ہوں۔۔۔ آپ مجھ سے شادی صرف آژ میر لالہ کو نیچاد کھانے کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ آپ کا دل و دماغ اُس ثمن خان کے پاس ہے۔۔۔۔ آپ اُسی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے ۔۔۔۔ چھوڑ دیں میری جان۔۔۔۔۔
زنیشہ زوہان کے قریب آنے پر الٹے قدموں پیچھے ہٹی تھی۔۔۔ جب اُس کا پیر کندھے سے ڈھلکی اپنی ہی شال میں الجھتا اسے لڑکھڑانے پر مجبور کر گیا
تھا۔۔۔
زوہان نے جلدی سے آگے آکر اسے تھامتے گرنے سے بچایا تھا۔۔۔ زوہان کا باز واس کی کمر میں حمائل تھا۔۔۔ اور وہ اُس کے اُوپر زرا سا جھکا ہوا
تھا۔۔۔۔
اُس سے تو میں نے دوسری شادی کرنی ہی ہے۔۔۔ مگر پہلی تم سے کروں
گا۔
زوہان زنیشہ کو تھام کر سیدھا کھڑا کرتے بولا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی دوسری شادی والی بات پر زنیشہ کے آنسو چھلک پڑے
اس میں رونے والی کیا بات ہے۔۔۔ تم تو شکر کرو۔۔۔ تمہاری جان چھوٹے گی مجھ سے۔۔۔۔
زوہان اُس کی شال کندھوں سے اُٹھا کر سر پر سیٹ کرتا معنی خیزی سے بولتا
اُسے چھیڑ نے سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کے اس حسین رُوپ نے اُس کا غصہ کیسے چٹکیوں میں ختم کیا تھا۔۔۔ یہ خود حیران تھا۔۔۔ یہ لڑکی واقعی اس کے ہر مرض کی دوا تھی۔۔۔۔ اسے ہر حال میں اُس کی دسترس میں ہی آنا تھا۔۔۔
آپ سے زیادہ سنگدل انسان اس پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔ اور نہ ہی کبھی آپ سے شادی کروں گی۔۔۔۔
ز نمیشہ اسے غصیلی نم آلود نگاہوں سے دیکھتی وہاں سے پلٹی ہی تھی۔۔۔
جب زوہان نے واپس اُس کی کلائی دبوچ کر اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔۔
میری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہو تم ۔۔۔۔۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔۔۔۔ صرف اُسی لمحے کا انتظار کیا ہے جب تم میرے نام لگائی جاؤ گی۔۔۔۔ زنیشہ میران صرف اور صرف زوہان کی ہے۔۔۔۔ تم خود بھی اپنے آپ کو مجھ سے دور رکھنے کا حق نہیں رکھتی۔۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو میں پوری دنیا کو آگ لگا کر رکھ دوں گا۔۔۔۔
زوہان شدت پسندی سے بولتاز نیشہ کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔ وہ ساکت سی اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ ایک طرف وہ اس کی محبت سے انکاری تھا تو دوسری طرف اُس کی یہ شدت پسندی۔۔
زنیشہ کے دل و دماغ میں الگ جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔
زوہان اُس پر ایک بھر پور نگاہ ڈالتا واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔ جبکہ زنیشہ اپنا دل
تھا متی وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
پلیز آپ مت جائیں مجھے یہاں اکیلے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔” آژمیر اس کو میڈیسن کھلا کر سونے کا کہتا جانے کے لیے پلٹا تھا۔۔۔ جب حائفہ نے نجانے کس خیال کے زیرا اثر اسے پکار لیا تھا۔۔۔۔ آریو شور۔۔۔۔ میں مت جاؤں؟؟؟”
آژمیر ر پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑا سوالیہ انداز میں بھنویں آچکانا اُس
سے بولا تھا۔۔۔
“جی۔۔۔۔”
حائفہ نے سر اثبات میں ہلاتے ایسے مجرموں کی طرح نیچے جھکا دیا تھا جیسے یہ
بات بول کر کوئی جرم کر لیا ہو۔۔۔۔
“اوکے۔۔۔۔۔ آپ ریسٹ کریں میں یہیں ہوں۔۔۔۔”
آژ میر ایک طرف رکھے صوفوں پر بیٹھتا فون کان سے لگاتا فیصل سے میٹنگ
کی اپڈیٹس لینے لگا تھا۔۔۔۔
حائفہ آژ میر کی جانب ہی کروٹ لے کر لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ تاکہ وہ دیوانی اپنے محبوب کا اچھے سے دیدار کر سکے جس سے بہت جلد وہ جدا ہونے والی
تھی۔۔۔
آژمیر فون پر بات کرتے مسکرایا تھا۔۔ میٹنگ میں سب سے بڑا پروجیکٹ
اُسی کی کمپنی کو ملا تھا۔۔۔
حائفہ تو جیسے اس دلکش مسکراہٹ پر مر مٹی تھی۔۔ اس کے دل نے بے اختیار اس شخص کو ہمیشہ کے لیے اپنے رب سے مانگ لیا تھا۔۔۔۔ آج تک حاعفہ نے اتنی شدت سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا تھا جتناوہ اب تک آژمیر میر ان کو اپنے لیے مانگ چکی تھی۔۔۔ اُس کا دل کسی ضدی بچے کی طرح آژمیر کو پانے کی چاہ میں اس کی جانب ہمک رہا تھا۔۔۔۔
آژمیر نے فون بند کرتے حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔ حاعفہ نے لمحے کے ہزارویں حصے میں آنکھیں جھپکتے خود کو سوتا ظاہر کیا تھا۔۔۔ مگر اس کی یہ
چلا کی آژمیر میر ان کی نظروں سے نہیں بچ پائی تھی۔۔
آژمیر بنا کچھ بولے مسکرانا آنکھیں موند تے صوفے کی بیک سے سر ٹکا گیا
تھا۔۔۔ جب کچھ دیر بعد اسے پھر سے حائفہ کی نگاہوں کی تپیش اپنے چہرے
پر محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اُسے اس لڑکی کی معصومیت پر
ہنسی آئی تھی۔۔۔ جو ابھی بھی شاید یہی سمجھ
رہی تھی کہ آژمیر اس کے جذبوں سے انجان ہے۔۔۔ مگر آژمیر توکب سے اُس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ چکا تھا۔۔۔
بلکہ کہیں نہ کہیں اسی لڑکی کی اسیری اُسے آہستہ آہستہ اپنا اسیر بنارہی
تھی۔۔۔
حائفہ کچھ دیر لیٹے لیٹے اسے گھورتی رہی تھی۔۔ جب کافی دیر تک آژمیر اسی پوزیشن میں لیٹا رہا تو حائفہ اُس کے سوئے ہونے کا یقین کرتی اپنی جگہ سے
اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔۔
چوڑا سینہ، روشن پیشانی، مضبوط کسرتی بازو، کھڑی مغرور ناک اور سختی سے ایک دوسرے میں پیوست عنابی ہونٹ۔۔۔۔ حائفہ بنا پلیکیں جھپکے اُسے
دیکھے گئی تھی۔۔۔
آژ میر کو اتنی دیر ایک ہی پوزیشن میں بناز راسا بھی ہلے نیم دراز دیکھ حائفہ یہی سمجھی تھی کہ وہ سو چکا ہے۔۔۔
حائفہ بنا سلیپرز پہنے دبے پاؤں اس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ اور اس سے چند قدموں کے فاصلے پر زمین پر ٹک گئی تھی۔۔۔ وہ اپنی جگہ فلحال آژمیر کے قدموں میں ہی سمجھتی تھی۔۔۔
آنکھیں موندے حائفہ کی ایک ایک حرکت محسوس کرتے آژ میر کو حاصفہ کی یہ بات بہت بُری لگی تھی۔۔۔ اُس کا اپنے قدموں میں بیٹھنا آژ میر کو
غصہ دلا گیا تھا۔۔۔ وہ آنکھیں کھولے اپنی جگہ سے اٹھنے ہی والا تھا جب حائفہ
کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے اُسے ساکت کیا تھا۔۔۔۔ آپ کی یہ دیوانی بہت محبت کرتی ہے آپ سے۔۔۔۔ کاش کہ میرا” پر ور دگار آپ کو میری قسمت میں لکھ دے۔۔۔
آژ میر ہاتھ کی پشت کو ہلکا سا ٹچ کرتے
سرگوشی کی تھی۔۔۔ بہت ہی آہستہ آواز میں
جو بہت غور کرنے کے بعد بامشکل آژ میر کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی
آژ میر پچھلے چند واقعات سے اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ حائفہ اس سے محبت کرتی ہے۔۔۔ مگر اس کی محبت کی شدت اتنی زیادہ ہے اس بات کا ادار ک ابھی
کچھ لمحے پہلے ہوا تھا اُسے۔۔۔۔
حائفہ اپنے دل کو تسکین پہنچاتی خاموشی سے وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔ جب اچانک اپنی کلائی پر محسوس ہوتی آژ میر کی گرفت حامہ کا خون خشک کر گئی تھی۔ اس کا دل بُری طرح سے دھڑکنے لگا تھا۔۔
مس حائفہ ابھی آپ نے کیا کہا ؟؟؟ میں نے ٹھیک سے سنا نہیں۔۔۔۔ آژمیر کے متبسم لہجے اور کلائی پر بنتی مضبوط گرفت نے حائفہ کی جان نکال
دی تھی۔۔۔۔
اُسے بے جان گڑیا کی طرح ساکت کھڑا دیکھ اگلے ہی لمحے آژمیر اُسے اپنی
اوور کھینچ چکا تھا۔۔۔۔۔
حاعفہ اس کھنچاؤ پر آژمیر کے بے حد قریب صوفے پر آن گری تھی۔۔۔ اس کے جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔۔۔۔ حیا، خفت ، شرمندگی اور گھبراہٹ جیسے بہت سے جذبات ایک ساتھ اُس پر اثر انداز ہوئے تھے۔۔۔۔ اُس کا دل دھڑکنے کی تمام حدود کر اس کرتا باہر آنے کے در پے
تھا۔۔۔۔
آژمیر خاموش نگاہوں سے اس حسین منظر کو دیکھتا اُس کی یہ گھبراہٹ
انجوائے کر رہا تھا۔۔۔۔
حائفہ آژمیر کے کافی قریب تھی۔۔
مس حائفہ آپ نے جو کچھ کہا ابھی میں دوبارہ سننا چاہتا ہوں وہ۔۔۔۔۔ آژمیر کی گھمبیر سرگوشی حائفہ کی سماعتوں سے ٹکراتی اس کی دھڑکنیں اتھل
پتھل کر گئی تھی۔۔۔
جس بات کا اقرار وہ کبھی آژمیر کے سامنے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی
تھی ۔
وہ اپنی ہی بے وقوفی کی وجہ سے اُس کے آگے بول چکی
تھی۔۔۔۔
اُسے لگا تھا کہ آژمیر ایسا کچھ سن کر اُس پر غصہ کرے گا۔۔۔۔ مگر آژمیر کا
اس بات کو اتنی نرمی سے لینا اسی جانب اشارہ کر رہا تھا کہ وہ بھی اُس کے
بارے میں کوئی خاص جذ بے رکھتا ہے۔۔۔۔
یہ سوچ حائفہ کی دھڑکنوں کی رفتار مزید تیز کر گئی تھی۔۔
س سوری سر ۔۔۔۔۔
حائفہ چہرہ جھکائے، آنکھیں سختی سے میچے اس کی پوری توجہ خود پر ہونے کی وجہ سے ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔۔۔
مس حائفہ اٹس اوکے ۔۔۔۔ آپ اتناڈر کیوں رہی ہیں ؟
آژ میر نے نہایت نرمی سے اس سے پوچھا تھا۔۔۔ شاید اتنی نرمی سے اس نے آج تک کسی سے بات نہیں کی تھی۔۔۔ مگر یہ لڑکی اس کے لیے اچانک سے بہت خاص ہو گئی تھی۔۔۔۔اس نازک سی لڑکی نے اس جیسے خشک مزاج اور اکھٹر آدمی کے دل میں اپنی محبت کی کونپل کھلا کر کوئی چھوٹا کام
نہیں کیا تھا۔۔
اس میں کچھ تو ایسا خاص تھا کہ آژ میر اس کی معصومیت کے آگے اپنا دل ہار
بیٹھا تھا۔۔۔۔
آج کا دن اُس کی زندگی کا سب سے خاص دن ہونے والا تھا۔۔۔ جس میں نہ صرف اُس کے آگے محبت جیسے طاقت ور جذبے میں گھر نے کا انکشاف ہوا
تھابلکہ ضرورت سے بھی کم بولنے والی ، اُس سے ڈری سہمی، اُس کی پلکوں کی
جنبش سے اس کے خراب موڈ کا اندازہ لگانے والی حائفہ نورانجانے میں ہی
سہی مگر اس کے آگے اپنی محبت کا اظہار کر گئی تھی۔۔۔۔
آژمیر کو ہمیشہ کی طرح لمحہ لگا تھا
آگے کا فیصلہ کرنے کا۔۔۔۔ وہ اب کم از کم اس لڑکی کو تو خود سے جدا کرنے کا ارادہ نہیں
رکھتا تھا۔۔۔
آژمیر نے حائفہ کے سامنے ظاہر نہیں کیا تھا
لیکن حائفہ کا اقرار سن کر
دماغ سے فرسٹیشن ختم ہو گئی تھی۔۔۔۔ وہ کچھ دیر کے
لیے اپنی تمام سوچوں کو پیچھے جھٹکتا پر سکون ہوا تھا۔۔۔
“سر پلیز۔۔۔۔۔”
حائفہ کی کلائی ابھی بھی آژمیر کی گرفت میں تھی۔۔۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا آج اُس کا دل پسلیوں کی مضبوط دیوار توڑ کر باہر آکر رہے گا۔۔۔
بے شک آژمیرکی قربت میں گزارا ایک ایک پل اُس کی زندگی کا حاصل تھا۔۔۔ مگر اس وقت آژمیرجس طرح اُس کی جانب اپنی ساری توجہ مرکوز کیسے ہوئے تھا۔۔۔۔ یہ برداشت کرنا بھی اُس کی نازک جان کے لیے بہت
زیادہ تھا۔۔۔۔
او کے چلی جائیے گا مگر اُس سے پہلے میرے ایک سوال کا جواب دینا پڑے گا۔
آژ میر جو ہمیشہ اس حُسن کی ملکہ سے نظریں چراتا آیا تھا۔۔۔ اُس کے ساتھ اپنی حدود کا پورا خیال رکھا تھا۔۔۔ آج وہ اپنے دل کی خواہش پر ہر احتیاط
بھلائے اُس سے نظریں بھی نہیں ہٹا پار ہا تھا۔۔۔۔
جواب میں حائفہ کچھ نہیں بولی
اُس کی بار اس نے اپنی
مزاحمت ترک کرتے نظریں ابھی بھی جھکار ہی تھیں۔۔۔
“کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی۔۔۔۔۔؟”
آژمیر نے ایک ہی جملے میں حائفہ کے سر پر بہت بڑا بم پھوڑا تھا۔۔۔۔حاعفہ نے جھٹکے سے سر اٹھاتے حیرت اور بے یقینی کے ساتھ پھٹی پھٹی آنکھوں
سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
مگر زیادہ دیر آژمیرکے خوبرو چہرے اور جذبے لوٹاتی آنکھوں میں نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔ اپنی تلخ حقیقت یاد آتے اس کی آنکھیں دھندلا سی گئی
تھیں۔۔۔۔
یہ حسین لمحات اور آژمیرکا اظہار حائفہ کے لیے کسی حسین خواب سے کم نہیں تھے۔۔۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ آژمیرکی یہ محبت بہت کم وقت کے لیے تھی۔۔۔۔ جس دن آژمیرکو اُس کی اصلیت پتا چلتی۔۔۔ وہ دوبارہ اُس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا
مگر وہیں حائفہ کے دل میں آژمیرکی عزت اور مقام مزید بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ اُسے جیسے ہی پتا چلا تھا کہ وہ حائفہ سے محبت کرتا ہے اور حائفہ بھی اُس کے
حوالے سے ایسی ہی فیلنگز کا شکار ہے تو اس نے ایک پل نہیں لگایا تھا۔۔۔۔ اس محبت کو حلال رشتے میں بدلنے کا فیصلہ کرنے میں۔۔۔۔ آژمیرجیسے باکردار اور عزت دار شخص کے ساتھ اس جیسی طوائف زادی کا
کوئی جوڑ نہیں تھا۔۔۔
اپنی بے بسی اور کم بختی پر حائفہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرے تھے
مس
آر یو او کے۔۔۔ کیا آپ کو میری بات بُری لگی۔۔۔۔؟”
آژ میر اُس کی کلائی اپنی گرفت سے آزاد کرتا اُس کی آنکھوں سے گرتے
موٹے موٹے آنسو دیکھے فکر مند ہوا تھا۔۔۔۔
حائفہ نے آنسو پونچھتے بے اختیاری میں فور ا نفی میں سر ہلا یا تھا۔۔۔ جس پر آژمیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔ تو مطلب میں ہاں سمجھوں۔۔۔
آژ میر ہلکا سا اُس کی جانب جھکا سیاہ شال میں پوری طرح لپٹے اُس کے نازک ہولے ہولے لرزتے وجود کو پر شوق نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ اُس کی تپیش زدہ نظروں کی تاب نہ لاتے حائفہ فوراوہاں سے اُٹھتی واش روم میں قید ہو گئی تھی۔۔۔۔ آژ میر اس کے اس گریز پر ہولے سے مسکرا
دیا تھا۔۔۔۔
اُس نے آج تک محبت کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔۔۔ کہ سچی محبت اتنی آسانی سے نہیں ملتی تھی ۔۔۔ محبت کا روگ پالنے والے اکثر زندگی ہار جاتے تھے مگر محبت حاصل کرنے میں ناکام رہتے تھے۔۔۔ محبت ایک حسین جذبے کے ساتھ زندگی کے بہت سارے درد سے بھی روشناس کرواتی تھی۔۔۔
لیکن آژ میر کو اس وقت اپنا آپ سب سے زیادہ خوش قسمت محسوس ہو رہا تھا کیونکہ اس کے لیے اس کی محبت پانا مشکل نہیں رہا تھا۔۔۔۔
مگر وہ شاید ابھی مقدر کے کھیلو ں سے پوری طرح واقف نہیں تھا۔۔۔۔ آنے والا وقت اُس کی زندگی کیسے پلٹ کر رکھنے والا تھا۔۔۔ وہ ابھی اس بات سے
انجان محبت کے میٹھے نشے میں گم تھا۔۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ اپنا حلیہ درست کرتی روم سے باہر آگئی تھی ۔۔۔۔ باہر آکر اس کی نگاہوں نے سب سے پہلے زوہان کو ڈھونڈنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ اُسے پورے بال میں کہیں دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کا غصے اور جلن سے بُرا حال ہوا تھا۔۔۔۔
اپنی اس لاڈلی کبوتری کے بلاوے پر نکل گئے ہونگے ۔۔۔۔ میری جھوٹی فکر کا ناٹک کرتے ہیں۔۔۔۔ اگر اتنی فکر ہوتی تو
آژ میر بھائی کی طرح مجھے مردوں کے بیچ زیادہ دیر نہ رہنے دیتے۔۔۔۔۔ میں ہی بے وقوف ہوں جو مغرور اور خود پسند انسان کی باتوں میں آجاتی ہوں۔ انہیں کبھی میری پر واور ہی ہی نہیں ہے۔۔۔
زنیشہ زوہان کو وہاں نہ پا کر اُس سے شدید بد گمان ہو ئی تھی۔۔۔۔ یہ سوچ کر ہی اس کی آنکھوں کے کنارے نم ہوئے تھے کہ زوہان اس وقت کسی
غیر عورت کے پاس تھا۔۔۔۔
زنیشہ ہونٹ چبھاتی اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔۔۔۔ جب شمسہ بیگم پریشانی زدہ چہرا لیے اس کے قریب آئی تھیں۔۔۔۔
کیا ہو اماں سائیں۔۔۔۔ آپ بہت پریشان لگ رہی ہیں۔۔۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔
زنیشہ شمسہ بیگم کا فکر مند چہرا دیکھ تشویش زدہ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔۔ حسیب پر پھر کسی نے حملہ کیا ہے۔۔۔۔ اسے بہت زیادہ چوٹے آئی ہیں۔۔۔۔ ہاتھ تک نہیں ہلا پارہا۔۔۔۔ ہڈی وغیرہ تو بچ گئی۔۔۔۔ مگر ویسے بہت تکلیف میں ہے وہ۔۔۔۔۔ پتا نہیں کس نے دشمنی نکالی اس مسکین پر ۔۔۔۔۔ اس نے بھلا کسی کا کیا بگاڑا ہے۔۔۔۔ بھیا بھا بھی جاچکے ہیں۔۔۔
ہم سب بھی ابھی تھوڑی دیر میں نکلنے والے ہیں۔۔۔۔ میں نے مزمل کو بلوایا ہے۔۔۔۔وہ تمہیں گھر چھوڑ دے گا۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم زنیشہ کوساری تفصیل بتا تیں آخر میں ہدایت دے گئی
تھیں۔
جبکہ زنیشہ صرف ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی تھی۔۔۔وہ اچھے سے جانتی تھی یہ سب کس نے اور کیوں کیا ہے۔۔۔۔ ملک زوہان کسی کو معاف
کر دے یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔۔
لیکن اسے اس جگہ ذوہان بلکل ٹھیک لگا تھا ۔حسیب اس کو مروانے کے جو پلان
بنا رہا تھا اُن کے انعام کے طور پر یہ زخم بالکل ٹھیک تھے۔۔۔ اگر زوہان پہلے سے اپنی سیکورٹی کے معاملے میں اتنا الرٹ نہ رہتا تو نجانے کتنی بڑی انہونی ہو سکتی تھی۔۔۔۔ جو سوچتے ہی زنیشہ کو اپنا دل رکتا ہوا
محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
” اماں سائیں۔۔۔۔ ہمیں مزمل کے ساتھ نہیں جانا ۔۔۔۔۔’
زنیشہ کا اب دوبارہ اُس دھو کے باز مزمل پر بھروسہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں
تھا۔۔۔۔
اگر وہ اُس دن کی مزمل کی غلط بیانی آژمیر کو بتادیتی تو اب تک آژمیر اُس کا کام تمام کر دیتا۔۔۔۔۔ اور زوہان سے اس کی ایک نئی جنگ شروع ہو جانی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ زنیشہ اب تک خاموش تھی۔۔۔۔
وہ ان دو بھپرے شیروں کو ایک دوسرے پر جھپٹنے کا کوئی نیا موقع نہیں دینا
چاہتی تھی۔۔۔
مگر بیٹا ہم سب با سپٹل ہی جارہے ہیں۔۔ آپ کو وہاں ۔ لے کرنہیں
جا سکتے ۔۔۔۔ مزمل آپ کو بحفاظت گھر پہنچادے گا۔۔۔۔ شمسہ بیگم نے اسے دو ٹوک جواب دیتے وہیں خاموش کر واد یا تھا۔۔۔۔ لالہ پلیز جلدی سے واپس آجائیں۔۔۔۔
آپ سے بہت ساری باتیں شیئر کرنی ہیں۔۔۔۔ آپ کے علاوہ کوئی میری بات سنتا ہی نہیں۔۔۔۔۔
زنیشہ کو اس وقت آژ میر کی شدت سے یاد آئی تھی۔۔۔ وہ کبھی اُسے رات کے ٹائم گارڈز کے ساتھ اکیلا نہ بھیجتا۔۔۔۔ اور یہ بات اُسے اگر ا بھی پتا چل جاتی تو اس نے کسی کو بخشنا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
زنیشہ پہلے زوہان کا ثمن کے پاس جانے کا سن کر ہی بہت ایمو شنل تھی۔۔۔ بیگم کے سختی سے بات کرنے کی وجہ سے مزید دلبر داشتہ ہوئی
وہ ناراضگی میں ایک ہی کرسی پر ٹک کر بیٹھی تھی۔۔۔ جب اُسے باہر آنے کا
بلاوا آیا تھا۔۔۔ مزمل گاڑی تیاری کر چکا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کو قاسم صاحب گاڑی تک چھوڑنے آئے تھے۔۔۔۔چند منٹوں میں اُنہیں بھی نکلنا تھا۔۔۔ مزمل نے آگے بڑھ کر زنیشہ کی سائیڈ کا دروازہ کھول دیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ خاموشی سے بیک سیٹ پر براجمان ہوئی تھی۔۔۔ اُس کا
موڈ سخت خراب تھا۔۔۔
جبکہ مزمل قاسم صاحب سے بات کر کے انہیں رخصت کر تا گاڑی کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔۔ زنیشہ کھا جانے والی نظروں سے اس نمک حرام کو ہی دیکھ
رہی تھی۔۔۔۔
لیکن اچانک سامنے کا بدلتا منظر دیکھ اس کی آنکھیں بے یقینی کے احساس سمیت باہر کو ابل پڑی تھیں۔۔۔۔ جب مزمل کے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولنے پر زوہان بڑے کروفر سے اندر داخل ہو تا سیٹ پر براجمان ہوا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ کو چیخنے چلانے کا زرا سا بھی موقع دیئے بغیر زوبان گاڑی وہاں سے
نکال کر لے گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
ہمیں جلد از جلد کچھ کرنا ہو گا۔۔۔۔ زنیشہ کے باڈی گارڈز میں اضافہ
ہونے والا ہے۔۔۔۔ پہلے صرف آژمیر اُس کی پاگلوں کی طرح حفاظت کر رہا تھا۔۔۔۔اب وہ جنونی انسان ملک زوہان بھی اِس کام میں شامل ہو چکا
ہے۔۔۔۔۔ ہمیں کسی بھی طرح زوہان کی زندیشہ سے شادی ہونے دینے سے روکنا ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر ایسا کچھ ہو گیا تو
ز نیشہ کو اپنے پاس لانے کے چانسز بھی کم ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔
اکرام حنیف اپنے بھائی اور بھتیجے کے ساتھ بیٹھ کر اپنی سگی بیٹی کے خلاف اس کے اغوا کا پلان بنانے لگا تھا ۔۔۔۔۔
میرے اب تک کے ریسورسز کے مطابق زوہان اور زنیشہ کی شادی کے لیے میران پیلس کے تمام افراد مان چکے ہیں سوائے آژمیر میران کے۔۔۔۔۔اور ہمارے لیے سب سے اچھی بات یہی ہے۔۔۔۔ کہ آژمیرکی اجازت اور رضامندی کے بغیر وہ لوگ کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔۔۔
مطلب آخری فیصلہ ہمیشہ آژمیر کے پاس ہی ہو گا۔۔۔۔ جعفر اکرام کی بات کے جواب میں تفصیل بیان کرتے بولا تھا۔۔۔۔ تو اس کے لیے آژمیرکو زوہان سے مزید بد گمان کرنا پڑے گا۔۔۔ تاکہ اگر اُس کا مائینڈ بن بھی رہا ہو تو وہ تب بھی زوہان کے لیے کسی صورت نہ
مانے۔۔۔۔ کیونکہ اگر ایک بار بھی زنیشہ کا نکاح زوہان سے ہو گیا تو وہ ہماری
پہنچ سے بہت دور چلی جائے گی۔۔۔۔
اکرام حنیف اپنا شاطر دماغ چلانا شروع کر چکا تھا۔۔۔۔
تو اس کے لیے ہمیں کیا کرنا پڑے گا چاچو۔۔۔۔
حامد نے جلدی سے پوچھا تھا ۔۔۔۔ اس کے تو یہ بات ہی خوشی سے سونے نہیں دے رہی تھی کہ وہ حسین پری بہت جلد اس کی ہونے والی تھی۔۔۔۔
مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ زوہان
زنیشہ کے حوالے سے اُس
کے ایسے خواب رکھنے کی بھی اُسے کتنی بڑی سزاد ینے والا تھا۔۔۔۔ آژمیر پر جان لیوا حملہ کروانا ہو گا۔۔۔۔ وہ بھی اس پلاننگ کے ساتھ کہ اُس کا الزام جائے زوہان کے سر ۔۔۔۔ جس کے بعد آژمیرتو دور کی بات میران پیلس کا کوئی فرد زوہان کو قبول نہیں کرے گا۔۔۔۔ زوہان اور آژ میر کے اسی جھگڑے میں ہم زنیشہ کو اپنے پاس لے آئیں گے۔۔۔۔۔
اکرام حنیف نے اپنی گھٹیا سوچ اُن کے سامنے رکھی تھی۔۔۔۔ جسے اُنہوں
نے خوب سراہا بھی تھا۔۔۔۔
مجھ سے میری بیٹی کو چھین کر اچھا نہیں کیا ان لوگوں نے۔۔۔۔ اب انہیں ان کے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔۔۔۔ بر باد کر کے رکھ دوں گا میں میران پیلس کو۔۔۔ اور وہ دونوں میران پیلس کے ہیر و اور ولن وہ تو ز نیشہ کے چھن جانے پر ہی پاگل ہو جائیں گے۔۔۔۔ اُن دونوں کی کمزوری زنیشہ ہی ہے۔۔۔۔ اور اُس کا خود سے دور جانا اُن دونوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔۔۔۔۔۔ اصل مزا تو تب آئے گا۔۔۔
اکرام حنیف کمینگی سے بولتا آخر میں ہنسا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
منهاج بنا کوئی ضد اور انا بیچ میں لئے ماورا
سے اپنی محبت کا اظہار
کر گیا تھا۔۔۔ اُسے وقت لگا تھا ماورا کی سچائی کو ایکسپٹ کرنے میں ۔۔۔۔ مگر
وہ اب پوری طرح دل و جان سے ماورا کو قبول کر چکا تھا۔۔۔۔۔ جس کا اظہار
وہ اپنے لفظوں اور عمل سے بھی کر چکا تھا۔۔۔۔
ماور اجو خاموشی سے اُس کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ اگلے ہی لمحے اس نے
ایک ہی جھٹکے سے منہاج کو خود سے دور دھکیلا تھا۔۔۔۔
تم نے کیا سمجھ رکھا ہے مجھے ۔۔۔۔ ہر بار ا پنی اس جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر مجھ سے اپنا مطلب نکال لو گے۔۔۔۔اس قدر بے وقوف سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے ۔۔۔۔۔ بعد میں اپنے دوستوں کے آگے ہنستے ہوگے نا مجھے پر۔۔۔۔ کہ کتنی بڑی ایڈیٹ اور تمہاری محبت میں ماری پاگل لڑکی ہوں
میں۔۔۔۔ تم ہر بار میرے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہو اور میں ہر بار تمہاری باتوں میں آجاتی ہوں۔۔۔۔۔ مگر اب مزید ایسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ اب مزید میں تمہیں اپنے جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دوں گی۔۔۔۔
ہم دونوں کی بہتری اسی میں ہے کہ تم مجھ سے دور رہو۔۔
ورنہ۔۔۔۔۔
ماور اغصے اور اذیت سے پُر نم لہجے میں بولتی آخر میں سانس لینے کور کی
تھی۔۔۔۔۔
ور نہ کیا۔۔۔۔
منہاج اُس کی بات کو زرا بھی سیر میں لیے بغیر اس کی کلائی اپنی گرفت میں لیتا اس کے ہو اسے اٹھکیلیاں کرتے بالوں کو انگلیوں پر لپیٹتا محبت پاش لہجے
میں بولتا اور ا کو مزید تپا گیا تھا۔۔۔۔
“تم”
ماورا اُس سے دور ہونے کی کوشش کرتی پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔ جب اُس کا پیر بُری طرح لڑکھڑا یا تھا۔۔۔۔ وہ گرنے کو تھی جب منہاج نے زرا سا
جھکتے اُسے کسی مومی گڑیا کی طرح اپنی بانہوں میں اُٹھا لیا تھا۔۔۔ چاروں طرف نیم تاریکی پھیل چکی تھی۔۔۔۔ دور کیمپس میں جلتی روشنیاں، جھیل میں بہتے پانی کی آواز اور یہ مہکتی ہوائیں بہت کی رومانوی ماحول پیش کر رہی
تھیں۔۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے چھوڑو مجھے۔۔۔۔
ماور اکا دل چاہ رہا تھا منہاج درانی کا یہ مسکراتا چہرانوچ لے۔۔۔۔ جو اس کی سیر یسں باتوں کو بھی ہوا میں اُڑادیتا تھا۔۔۔۔
تم جانتی ہو ان علاقوں میں اکثر کپلز ہنی مون کے لیے آتے ہیں۔۔۔۔ منہاج جھک کر اس کی ٹھنڈ سے لال ہوئی ناک پر ہونٹ رکھ کر انہیں حرارت بخشتا ماورا کی سانسیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔۔
ماورا اُس کی نگاہوں کی تپیش اور لفظوں کا مفہوم سمجھتی خود میں سمٹی
تھی۔۔۔۔
منہاج درانی چھوڑو مجھے ورنہ میں شور مچا کر سب کو اکٹھا کر۔۔۔۔۔ اُس کی بات سننے منہاج کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔۔۔ جسے دیکھتے ماورا کو بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنی اسی دھمکی کاری ایکشن یاد آیا تو وہ جلدی سے اپنی زبان دانتوں تلے دباتی بات ادھوری چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔
اُس کی اس احتیاط پر منہاج اپنا بے ساختہ اُمڈ آنے والا قہقہ نہیں روک پایا
تھا۔۔۔۔
کیا ہوا سویٹ ہارٹ خاموش کیوں ہو گئی۔۔۔۔ میں تو چاہتا ہوں تم شور مچاؤ۔۔۔۔ اور پھر میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ محبت سے تمہیں خاموش
” کرواؤں۔
منہاج اُس کے سختی سے آپس میں بھینچے گلابی ہونٹوں کو نگاہوں کو فوکس میں لیتے بولا۔۔
جبکہ اس شخص کی بے باکی پر ماورا کے کانوں کی لوتک
لال ہوئی تھیں۔۔۔۔
ماورا کو ابھی تک اس طرح بانہوں میں اُٹھائے اپنے سینے سے لگائے کھڑا
تھا۔۔
“ماورا کہاں ہو تم۔۔۔۔۔؟؟”
ماور اکو دور سے بیلا کی پکار سنائی دی تھی۔۔۔۔ پلیز نیچے اتارو مجھے ۔۔۔۔۔
منہاج کو ڈھلوانی راستے سے واپس اوپر چڑھتے دیکھ ماورا اس کا حصار توڑنے
کی کوشش کرتے چلائی تھی۔۔۔
اگر بیلا اُسے اِس حالت میں دیکھ لیتی تو اس کا الگ ہی ریکار ڈ لگ جانا تھا۔۔۔۔
” ایک شرط پر۔۔۔۔۔۔”
منہاج بھی اپنے نام کا ایک تھا۔۔۔۔اتنی آسانی سے اُسے بخشنے والا نہیں
” کیسی شرط۔۔۔۔۔”
ماورا کی نظریں لمحہ بالمحہ قریب آتی بیلا کی جانب اٹھ رہی تھیں۔۔۔ جو اس طرف روشنی ہونے کی وجہ سے انہیں دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔ مگر وہ تاریکی میں ہونے کی وجہ سے اُس کی نظروں سے اوجھل تھے۔۔۔۔
کس می ہیئر۔۔۔۔”
منہاج اپنے گال کی جانب اشارہ کرتاماوراکاخون منجمند کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس کا چہرا یہ سوچ کر ہی تپ اُٹھا تھا۔۔۔۔
” نن نہیں۔۔۔۔۔”
اُس نے منہاج کی بے باک نگاہوں سے نظریں چراتے لڑکھڑاتی زبان میں
کہا تھا۔۔۔۔
لوٹا دیتا ہوں تو ٹھیک ہے تمہاری دوست کو میں خود ہی واپس
منہاج نے اُسے جواب دیتے بیلا کو آواز لگانی چاہی تھی۔۔۔جب ماور نے جلدی سے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ایسا کرنے سے روکا تھا۔۔
” نن نہیں پلیز۔۔۔۔۔”
ماور اہمیشہ اس انسان کی بلیک میلنگ میں پھنس جاتی تھی۔۔۔ منہاج نے مسکراتی نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے اپنا گال اُس کے ہونٹوں کے قریب کیا تھا۔۔۔۔ ماورا سختی سے آنکھیں بیچے بے قابو ہوتے دل کے ساتھ اُس کی گال سے ہونٹ مس کرتی فوراً پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔
پ پلیز اب جانے دو۔۔۔۔
ماورا کا چہراحیا اور خفت سے لال انگارہ ہو چکا تھا۔۔۔۔
اب اتنا بھی بے مروت نہیں ہوں مائی لیڈی۔۔۔۔اس پیار کا جواب دینا تو “
بنتا ہے نا۔۔۔۔ منہاج یہ کہتے ساتھ ہی اس کی گردن پر جھک کر اپنے شدت بھرے لمس سے اُس کو نوازتا، اپنی محبت کا نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔ ماورا اس کے عمل سے پوری طرح کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔ اس نے سختی سے منہاج کا گریبان دبوچ رکھا تھا۔۔
تم مجھ پر یقین نہیں کرنا چاہتی مت کرو۔۔۔۔ میں خود اپنی چاہت سے بہت جلد تمہیں خود پر اور اپنی محبت پر اعتبار کرنا سیکھا دوں گا۔۔۔۔ منہاج نرمی سے اُس کی پیشانی کا بوسہ لے کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا
وہاں سے پلٹ گیا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ ماورا اپنی دھڑکنوں کا شمار لگاتی کتنے ہی لمحے وہاں سے ہل بھی نہیں پائی
تھی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
دنیا والوں کے سامنے بظاہر زنیشہ ملک فیاض میران اور شمسہ میر ان کی بیٹی اور آژمیر میر ان کی بہن سمجھی جاتی تھی۔۔۔۔ مگر حقیقت اس سے بر عکس
تھی۔۔
زنیشہ شمسہ بیگم کی بیٹی اور آژمیر کی بہن نہیں تھی۔۔۔۔ زنیشہ ملک فیاض کی اکلوتی چچازاد ثمینہ بیگم کی بیٹی تھی۔۔۔۔ جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی اور کروڑوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی۔۔۔۔ اسی لحاظ سے اُسے بہت پیار بھی ملتا تھا۔۔۔۔ اُسے اپنے پیر نٹس کی جانب سے شہر میں پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔۔۔۔۔ جہاں اُس کی زندگی کے شاید وہ سب سے سیاہ پل تھے۔۔۔۔ جب اُس کی ملاقات اپنے کلاس فیلوا کر ام حنیف سے
ہوئی تھی ۔۔۔ اکرام حنیف دیکھنے میں بے پناہ و جیہہ اور خوش شکل انسان تھا۔۔۔۔ وہیں ثمینہ بھی کسی سے کم نہیں تھی۔۔۔۔۔
بہت جلد ا کرام حنیف کی کوشش کی وجہ سے دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ استوار ہو گیا تھا۔۔۔۔ وہ نادان لڑکی محبت کی آڑ میں اکرام حنیف کی
آنکھوں میں چھپی لالچ نہیں دیکھ پائی تھی ۔۔۔ اکرام حنیف اُس سے شادی
کرنا چاہتا تھا
مگر اچھے سے جانتی تھی چاہے جتنی چاہے اس کے
پیر نٹس اُس سے محبت کرتے ہوں۔۔۔ مگر وہ اُس کی اکرام سے شادی کے
لیے کسی قیمت پر نہیں مانیں گے ۔۔۔
مگر وہ اکرام حنیف کی محبت سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔ اور یہیں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت بڑی بے وفائی کر گئی
تھی۔۔۔۔
اُس نے اکرام سے کورٹ میرج کا کہا تھا۔۔۔۔ مگر اکرام اُس کے پیر نٹس کو ناراض کر کے شادی کرنے کے حق میں نہیں تھا۔۔۔ بظاہر وہ یہ سب بول
کر ثمینہ کے سامنے اچھا بن رہا تھا مگر در پردہ بیچ یہی تھا کہ وہ خالی خولی ثمینہ کو حاصل نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ اُسے تو صرف ثمینہ کے پیر نٹس کی بے پناہ دولت سے پیار تھا۔۔۔۔ جو ثمینہ سے شادی کے بعد اُسی کے نام آنی
ثمینہ اکرام کے منہ سے اپنے پیر نٹس کا اتنا احساس سن کر بہت خوش ہوئی تھی ۔۔۔۔ مگر وہ اچھے سے جانتی تھی ایسے اس کے پیر نٹس کبھی بھی اکرام سے اُس کی شادی کے لیے نہیں مانیں گے۔۔۔۔
اگر وہ دونوں نکاح کر کے اس کے والدین کے پاس جائیں تو تب وہ
انہیں قبول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائیں گے ۔۔۔۔
اکرام حنیف ثمینہ کی بات سے متفق ہو تاراضی ہو گیا تھا۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ دونوں نکاح کر کے ثمینہ کے پیر نٹس کے پاس پہنچے اُن کاری ایکشن اُن کی سوچ کے بالکل بر عکس نکلا تھا۔۔۔۔ ثمینہ کے والدین بیٹی کے ہاتھوں پورے زمانے کے سامنے اپنی عزت ایسے اچھالے جانے پر اسے
معاف کرنے کا ظرف نہیں رکھ پائے تھے۔۔۔۔اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُن کی ناز و پلی بیٹی اُن کی بے پناہ محبت کا یہ صلہ دے گی۔۔۔۔ انہوں نے اپنے دل کو پتھر کرتے نہ صرف ثمینہ کو گھر سے نکال دیا تھا۔۔۔ بلکہ اپنی جائیداد سے بھی عاق کر دیا تھا۔۔۔۔
جو بات ثمینہ سے بھی زیادہ اکرام پر گراں گزری تھی۔۔۔۔ اسے ثمینہ سے
دلچسپی رہی ہی نہیں تھی۔۔۔ اسے تو ثمینہ کی دولت سے محبت
تھی ۔۔۔۔ مگر اب جو بھی تھا اسے ثمینہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانا پڑا
تھا۔۔۔۔
وہ جو اُس کے سامنے اپنے خاندان اور دولت کی نجانے کیا کیا باتیں کرتا تھا۔۔۔ اس کا ایک گندے سے محلے کی تنگ گلی میں واقع چھوٹا سا بوسید ہ گھر دیکھ ثمینہ بیگم کے اصل ہوش تب ٹھکانے آئے تھے ۔۔۔ اور ساتھ ہی اکرام کا بد صورت ہو تار و یہ رہے سہے پول بھی کھول گیا تھا۔۔۔۔ ثمینہ کو اپنے ماں باپ کا دل دکھانے کی بہت بڑی سزاملی تھی۔۔۔۔
آہستہ آہستہ اُس پر اکرام کی غلط سر گرمیوں میں انوالو ہونے کے انکشافات بھی ہونے لگے تھے ۔۔۔ اکرام کے ساتھ رہتے ثمینہ کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔۔۔۔
دن کے وقت مارتا پیٹتا اور رات کو اُس سے
وہ اسے اپنی ہوس پوری کرنے پہنچ جاتا ۔۔۔۔
شمینہ کو کسی نامحرم پر اعتبار کرنے کی بہت سنگین سزا ملی تھی ۔۔۔۔ اس کے لیے اس دوزخ میں رہنا نا ممکن ہو گیا تھا۔۔۔۔ یہاں سے بھاگ جانے کا فیصلہ اُس نے اُس وقت کیا تھا۔۔۔۔ جب وہ اُمید سے تھی۔۔ مگر اکرام اُسے پیٹتے وقت اس بات کا خیال بھی نہیں کرتا تھا۔۔۔۔۔ ثمینہ اپنی کوک میں پلنے والے بچے کی زندگی بچانے کی خاطر ایک دن خاموشی سے
اکرام کی دوزخ سے نکل آئی تھی ۔
اپنے گاؤں، اپنے ماں باپ کی حویلی پہنچنے تک اُس کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔۔۔۔ اپنی بیٹی کی ایسی حالت دیکھ اس کے ماں باپ کا کلیجہ باہر
نکل آیا تھا۔۔۔۔اُسے فوری ہاسپٹل پہنچایا گیا تھا۔۔۔۔ مگر ثمینہ زنیشہ کو جنم دیتے اپنی زندگی سے نادم وہیں دم توڑ گئی تھی۔۔۔۔
بیٹی کی جوان موت کا دکھ اُس کے والدین کے لیے بہت بھاری تھا۔۔۔۔ اُنہوں نے اکرام کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہ نجانے کہاں روپوش ہو گیا تھا۔۔۔۔ انہوں نے اپنی نواسی کو سینے سے لگاتے اس میں اپنی لاڈلی بیٹی کی شبیہ تلاشنی چاہی تھی ۔۔۔۔ مگر شمینہ کا دکھ انہیں
آہستہ آہستہ کھانے لگا تھا۔
جب انہیں دنوں اُن کا دکھ کم کرنے کے لیے اللہ کی جانب سے حج کا بلاوا آیا
تھا اُن کے لیے۔۔۔۔۔
وہ دونوں زنیشہ کو شمسہ بیگم کی جھولی میں ڈالتے حج پر روانہ ہوئے دوبارہ کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔۔۔۔ حج کے دوران ایک بس ایکسیڈنٹ میں اُن
دونوں کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔۔
Share with your friends on Facebook
1 Comment
Add a Comment