The intense and bold journey of Haifa and Zanisha continues in Part 12, where their emotions run deeper and the story gets even more thrilling. This bold Urdu story combines romance, drama, and suspense in a way that keeps readers completely hooked.
Whether you love deep emotional plots or bold romantic moments, this part delivers it all. And for your convenience, the novel is available in PDF format for offline reading too.

Haifa and Zanisha Novel Part 12 – Bold Urdu Story
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 11
شمینہ کے والد جاتے وقت اپنی ساری جائیداد زنیشہ کے نام وصیت کر گئے تھے۔۔۔ اور اُس کی کسٹڈی بھی ملک فیاض کو سونپ گئے تھے۔۔۔۔ آژمیر کو شروع سے وہ گلابی گالوں والی گڑیا بہت پیاری تھی۔۔۔وہ ہمیشہ اُس کے معاملے میں بہت پروٹیکٹر رہا تھا۔۔۔۔
اکرام حنیف نے پہلے بھی ایک دو بار زنیشہ کو لینے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر ہر بارا سے منہ کی کھانی پڑی تھی۔۔۔ لیکن اس بار وہ بہت ہی ناپاک ارادوں کے ساتھ اپنے آپ کو مزید طاقتور بنا کر آیا تھا۔۔۔۔ اس کے لالچ نے ایک ہنستا بستا گھرانہ تباہ کر دیا تھا۔۔۔۔ مگر اس میں کمی ابھی بھی نہیں آئی
تھی۔۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
۔۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔۔ آپ اس گاڑی میں کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔
زندیشہ حیرت وبے یقینی کی کیفیت سے نکلتی با مشکل بول پائی تھی۔۔۔۔
تمہارے گھر والوں کی عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے اس کے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔ مگر میرے ہوش و حواس پوری طرح سلامت ہیں اس لیے میں تمہیں اتنے خطرے کے ساتھ رات کے اس پہر کسی گارڈ کے ساتھ اکیلا تو بالکل بھی نہیں بھیج سکتا۔۔۔۔۔
زوہان بنا اُس کی جانب دیکھے روڈ پر نظریں گاڑھے سرد لہجے میں گویا ہوا
تھا۔۔۔
زنیشہ تو بے یقینی سے اسے تکے گئی تھی۔۔۔۔ وہ جو سمجھ رہی تھی کہ زوبان شمن کے پاس چلا گیا ہے۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
زوبان اس کی فکر میں ابھی تک یہیں پر تھا۔۔۔۔
یہ سوچ آتے ہی زنیشہ کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔۔ جب اچانک زوہان نے گاڑی کو بریک لگاتے روڈ کے کنارے روکا تھا۔۔
ک کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
اتنی زور سے بریک لگانے پر زنیشہ کا سر اگلی سیٹ کی بیک سے ٹکرا گیا
تھا۔۔۔
“آگے آؤ۔۔۔۔
زوہان نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ ان لاک کیا تھا۔۔۔۔ جس کے لیے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ زنیشہ جانتی تھی اگر وہ انکار کرتی تو زوبان نے اسے زبر دستی اٹھا کر اپنے ساتھ آگے بیٹھا لینا تھا۔۔۔ اس لیے وہ بنا وقت ضائع کیے شرافت سے خود ہی اتر آئی تھی۔۔۔۔
آپ نے حسیب پر حملہ کروایا ہے نا؟؟؟؟”
زنیشہ اُس کے مقابل بیٹھتی رخ اُس کی جانب موڑ گئی تھی۔۔۔۔ ” جب پتا ہے تو پوچھ کیوں رہی ہو ؟؟”
مجال ہے جو وہ اُسے سیدھے طریقے سے کسی بات کا جواب دے دے۔۔۔۔ اگر لالہ کو پتا چل گیا تو وہ آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔۔۔۔۔” زنیشہ تنک کر بولتی وارن کر گئی تھی۔۔۔۔
اچھا اب تک کیا بگاڑ پایا ہے تمہارا بھائی میرا۔۔۔۔ جواب کچھ کرے گا’
زوبان اُس کی بچگانہ بات پر استہزیہ ہنسا تھا۔۔۔
اُس کی بات لمحہ بھر کو زنیشہ کو بھی الجھا گئی تھی۔۔۔۔ واقعی یہ سچ تھا کہ آژ میر جو کسی کی چھوٹی سے چھوٹی گستاخی معاف نہیں کرتا تھا بہت ساری
معاملات میں وہ زوہان کو معاف کر جاتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ ہمیشہ اُن دونوں کے بیچ اُلجھ جاتی تھی۔۔۔ ایک طرف دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے پھرتے تھے پھر وہیں دوسری جانب ایک دوسرے کے لیے اتنی رعایت زنمیشہ سمجھ نہیں پاتی تھی۔۔۔۔ آپ کو تو جانا تھا نا اپنی چہیتی ثمن خان کے پاس۔۔۔
زنیشہ اچانک خیال آتے ہی طنز یا لہجے میں اُس سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کی بات اور انداز پر زوہان نظریں گھمائے اُس کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوا تھا۔۔۔۔۔ وہ کب سے اُسے دیکھنے سے گریز برت رہا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ اُس
کے بالکل قریب بیٹھی تھی۔۔۔۔ زنیشہ کے وجود سے اٹھتی دلفریب مہک زوہان کے حواسوں پر چھاتی اُسے اپنے حصار میں پوری طرح جکڑ رہی
تھی۔۔
اس نے بہت مشکل سے خود کو لمحوں کے سحر میں بہکنے سے روک رکھا
تم اتنی جیلس کیوں ہوتی ہو ثمن سے۔۔۔۔۔۔ اتنی اچھی لڑکی ہے”
” وہ۔۔۔۔۔
زوہان نے زنیشہ کی جانب سے فوراً نظریں پھیر لی تھیں۔۔۔۔ جس کے رخسار جلن اور غصے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈ کی وجہ سے بھی لال ہو چکے تھے ۔۔۔۔ کیونکہ اس نے اپنی سائیڈ کی ونڈ واو پن کر رکھی تھی۔۔۔ جس سے آتی ٹھنڈی ہوا اب اُسے کپکپکانے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔۔ زوہان نے خاموشی سے ہاتھ بڑھاتے ونڈو بند کر دی تھی۔۔۔۔ زندیشہ بنا ہلے خاموشی سے بیٹھی رہی تھی۔۔اُسے زوہان کے منہ سے ثمن کی تعریف
بہت بُری لگی تھی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ سخت قسم کی ناراضگی کا اظہار کرتی اُس سے اب مزید کوئی بھی بات کرنے کا ارادہ ترک کر چکی تھی۔۔۔۔ زوبان کو اُس کا پھولا چہرا بہت کیوٹ لگا تھا۔۔۔۔
تم سے شادی کرنے کا مقصد ہی یہی ہے۔۔۔ کہ پھر میں جلدی سے ثمن سے دوسری شادی کرلوں۔۔
زوہان نے زنیشہ کے اس کیوٹ سے غصے کا مزید ہوادی تھی۔۔۔ جس کے بعد وہ مزید تپ بھی گئی تھی۔۔۔۔
زنیشہ نے بنا اس کے ڈرائیونگ کرنے کا لحاظ کرتے اس کی جانب مڑتے اُسے کالر سے دبوچ کر اُس کا رخ اپنی جانب موڑتے اس کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔ زوبان نے گاڑی کی سپیڈ سلو کرتے بنا کوئی مزاحمت کیے اپنے آپ کو اُس کی گرفت کے کھنچاؤ کے آگے ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ اُس کے لیے زنیشہ کا یہ غصے بھر اروپ بہت ہی نیا اور دلفریب تھا۔۔۔۔
آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔ میری امانت میں جو خیانت آپ کر رہے ہیں اُس کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گی آپ کو ۔۔۔۔۔
زنیشہ کمزور لمحے کے زیر اثر دونوں کے درمیان موجود ہر گریز بھلائے چہرا اُس کے چہرے کے قریب کیے۔۔۔۔ نم آلود لرزتی پلکوں، غصے اور اُس کی نزدیکی کی وجہ سے کپکپاتے ہو نٹوں سے بولتی زوہان کو مسمرائز ساکر گئی
وہ بنا ہلے ساکت سااُس ساحرہ کے سحر میں جکڑا اُس کی دلفریب خوشبو اپنی سانسوں میں اُتارتا اُسکے اتنے قریب ہونے کے باوجود خود کو اُس سے دور
رکھے وہ خود پر کتنی مشکل سے ضبط
کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔۔
اس لڑکی کے حواس ٹھکانے لگانے کے لیے زوہان اب پہلے سے زیادہ جلدی اس کے تمام جملہ حقوق اپنے نام لکھوانے کا سوچ چکا تھا۔۔۔۔
اب یہ کام اُسے کچھ دنوں کے اندر اندر ہی کرنا تھا۔۔۔۔
زنیشہ زوہان کی آنکھوں کے بدلتے تیور دیکھ پیچھے ہٹ چکی تھی۔۔۔۔ مگر زوبان ابھی اس لمحے کی خوبصورتی سے باہر نہیں آیا تھا۔۔۔۔
“کیا ہو از نیشہ میران صرف اتنا ہی تھا تمہارا غصہ۔۔۔۔۔
زوہان اُس کے دور ہو جانے پر بد مزاح سا ہوا تھا۔۔۔۔
مگر زنیشہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔۔ وہ جذباتی ہو کر ہمیشہ ایسا ہی کچھ الٹا سیدھا کر جاتی تھی۔۔۔
اب بھی اُسے اپنی تھوڑی دیر پہلے سرزد کی جانے والی حرکت پر شرمندگی ہوئی تھی کہ نجانے زوبان اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔۔۔ وہ اتنی
مری جارہی ہے اُس کے لیے۔۔
باقی کے راستے دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔
“میرا انتظار کرنا۔۔۔۔۔ بہت جلد تمہیں اپنے نام لگوانے آؤں گا۔۔۔۔۔
زوبان میران پیلس کے مین گیٹ کے سامنے گاڑی روکتا اُس کی ٹھوڑی تھام کر رخ اپنی جانب موڑتا پر یقین لہجے میں بولا تھا۔۔۔ اُس کی گھمبیر سر گوشی پر زنیشہ کی دھڑکنوں کار قص بڑھا تھا۔۔۔۔
ز نیشہ نے با مشکل لرزتی پلکیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ مگر وہ زیادہ دیر اس ستمگر کی مقناطیسی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی تھی ۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے ڈور او بین کرتی گاڑی سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔
زوبان کی وارفتگی بھری نگاہوں نے اُس کے گیٹ کے اند رانٹر ہونے
اس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔۔
گاڑی سے نکل کر اُس نے اپنے سامنے پوری شان سے کھڑے میران پیلیس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔ جس کے مکینوں سے اس کے بہت سارے حساب نکلتے تھے۔
@@@@@@@@
حائفہ واپس آچکی تھی۔۔۔۔ مگر اُس کا دل وہیں آژ میر میر ان کے پاس ہی
کہیں رہ گیا تھا۔۔۔۔۔
اُس پر نظر رکھنے والے آدمیوں کو بھی حاصفہ کی اس مشن میں کامیابی کے بارے میں علم ہو چکا تھا۔۔۔۔ جس کو اپنے باس تک پہچانے کے بعد حائفہ کو
اب اس ناٹک کادی اینڈ کرنے کا کہا گیا تھا۔۔۔۔
مگر جو اینڈ حائفہ کو پتا چلا تھا وہ سنتے حائفہ کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی
تھیں۔۔
بلکہ اسکے بعد اے اس کے اُسے آژمیر سے نہ صرف نکاح کرنا تھا۔۔۔ بلکہ اُس کے بعد اُسے اُس کے
دشمنوں تک بھی لے کر آنا تھا۔۔۔۔
حاعفہ نے یہ سنتے فوری انکار کیا تھا۔۔۔۔ آژمیر کو نقصان پہنچانے سے پہلے وہ خود مر جانا پسند کرتی تھی۔۔۔۔
مگر یہاں بات اُس کی نہیں اُس کی بہن کی تھی۔۔۔۔اُس کے انکار کے جواب میں اُنہوں نے ماورا کو شوٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔۔۔اگر حاعفہ
اُن کی بات نہ مانتی تو وہ ماورا کو ایک پل کے لیے بھی زندہ نہ
چھوڑتے۔۔۔۔۔
حاعفہ اپنی زندگی کے بہت بڑے امتحان میں پھنس چکی تھی۔۔۔۔ ایک طرف اُس کا واحد خونی رشتہ اُس کی بہن تھی تو دوسری جانب اُس کی سانسوں میں بستا ، اس کی دھڑکنوں کا امین آژمیر میران تھا۔۔۔۔ جس پر حاعفہ نور مرتی تھی اسے بھلا کیسے وہ اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاسکتی تھی۔۔۔۔ اُس کا دماغ سوچ سوچ کر ماؤف ہو چکا تھا۔۔۔ مگر ابھی تک کوئی سرا ہاتھ
نہیں لگا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
” اماں سائیں۔۔۔۔۔ اماں سائیں کہاں ہیں آپ۔۔۔۔؟ زنیشہ شمسہ بیگم کو پکارتی اُن کے روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
” اماں سائیں کہاں ہیں آپ۔۔۔۔”
ز نیشہ خالی واش روم چیک کرتی واپس پلٹی تھی۔۔۔ جب اُس کی نظر آدھ
کھلی الماری پر پڑی تھی۔۔۔۔
الماری بند کرنے کی نیت سے جیسے ہی وہ آگے بڑھی اُس کی نظر الماری کے اندر کھلے لا کر پر پڑی تھی۔۔۔ جو ناصرف کھلا ہوا تھا۔۔۔ بلکہ اس میں سے
کچھ کاغذات بھی باہر نکلے پڑے تھے۔۔۔
زنیشہ بنا ان کا غذات پر غور کیے تمام چیزیں لا کر میں رکھنے لگی تھی۔۔۔ جب اچانک اس کے ہاتھ سے ایک تصویر چھوٹ کر نیچے گری تھی۔۔۔۔
زنیشہ نے جیسے ہی تصویر اُٹھا کر سیدھی کی تصویر میں موجہ نفوس کو دیکھ کر
اُس کو گہرا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ شمسہ بیگم کے ارد گرد وہ دو پندرہ سولہ سالہ لڑکے آژ میر اور زوہان تھے۔۔۔۔ زنیشہ پہلے بھی اُن کی ایک دو بچپن کی تصویریں دیکھ چکی تھی۔ اس لیے اُسے پہچاننے میں مشکل پیش نہیں آئی تھی۔۔
مگر دونوں کا ایک ہی فریم میں شمسہ بیگم کے ساتھ ہونا اُسے ٹھٹھکا گیا نا
تھا۔۔۔
تجسس کے ہاتھوں مجبور اُس نے جلدی سے لا کر میں رکھے کاغذات نکالے تھے۔۔۔۔ جس میں موجود بے فارم پر لکھے ریکار ڈ کو دیکھتے زنیشہ کا دماغ
چکر ا گیا تھا۔۔۔۔
آژ میر اور زوبان سوتیلے بھائی تھے۔۔۔۔۔ زنیشہ لڑکھڑائی تھی۔۔۔۔ ان دونوں کی مائیں مختلف تھیں ۔۔۔۔ مگر وہ دونوں ملک فیاض کا خون
زنمیشہ سے اپنے پاوں پر کھڑا ہو نا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔ یہ حقیقت بہت بڑی تھی اس کے لیے۔۔۔۔
جب اپنے پیچھے سنائی دیتی قدموں کی آہٹ پر وہ پلٹی تھی۔۔۔۔
ز نیشہ نے پلٹ کر پیچھے کھڑی شمسہ بیگم کی جانب دیکھا تھا۔۔ جو اس کے ہاتھ میں موجود چیزیں دیکھ چکی تھیں۔۔۔۔۔ زنیشہ کے چہرے پر زلزلوں
کے سے آثار تھے۔۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زوبان اور
آژ میر بھائی ہیں۔۔۔۔
وہ ساکت و صامت کھڑی شمسہ بیگم کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی
تھی۔۔۔
اگر وہ دونوں بھائی تھے تو پھر آخر ایسا کیا تھا اُن کے بیچ جو اتنی نفرت کا باعث
بن رہا تھا۔۔۔۔
“اماں سائیں۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔
زنیشہ کے ہونٹ پھڑ پھڑائے تھے۔
وہ مزید کچھ بول نہیں پائی تھی۔۔۔ گہرے صدمے میں تھی وہ۔۔۔۔۔ اُسے اپنے حقیقی ماں باپ کے بارے میں آژ میر بہت پہلے بتا چکا تھا۔۔۔۔۔ آژ میر نہیں چاہتا تھا کہ اکرام حنیف زنیشہ کی لاعلمی کا فائد واٹھا کر اسے اپنے فریب میں پھنسالے۔۔۔۔اس لیے اُس نے زنیشہ کو اُس کے پیر نٹس کی ساری سچائی بتادی تھی۔۔۔ جسے سن کر زنیشہ بہت روئی تھی۔۔۔۔ وہ اتنے
گھٹیا اور لالچی شخص کا خون تھی۔۔۔ یہ قبول کرنا اس کے لیے بہت مشکل
رہا تھا۔۔۔۔۔
اپنی ماں پر ہوئے ظلم اُس کو خون کے آنسور لا گئے تھے۔۔۔ لیکن ہمیشہ کی طرح وہاں پر بھی اُسے آژ میر اور باقی گھر والوں نے سنبھال لیا تھا۔۔۔ اس
کے پاس ہمیشہ ان پیارے اور مہربان رشتوں کا سائبان رہا تھا۔۔۔۔ جتنی محبت ان دونوں بہن بھائی میں تھی۔۔۔۔ آج کل کے دور میں خون کے رشتوں میں بھی نہیں پائی جاتی تھی۔۔۔۔ ساری سچائی میں یہی ایک بات تھی جس نے زنیشہ کے دل کو تھوڑی بہت آسودگی بخشی تھی۔۔۔۔ اُسے دکھ تو اس بات کا ہو رہا تھا۔۔۔ کہ زوبان اسی گھر کا خون ہونے کے باوجود یہاں کہ ہر فرد خاص کر اپنے اکلوتے بھائی آژمیر سے اتنی نفرت کیوں کرتا تھا۔۔۔۔ وہ اپنوں کے بیچ رہنے کے بجائے اکیلے رہنے کو ترجیح
کیوں دیتا تھا؟؟
سالوں پہلے آخر ایسا کیا ہوا تھا۔۔۔۔ جس نے زوہان کے دل میں اپنے خونی
رشتوں کے لیے اتنی نفرت بھر دی تھی۔۔۔
یہ سب سوچتے زنیشہ کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔۔۔۔
دو سگے بھائی بھلا ایک دوسرے کے جانی دشمن کیسے ہو سکتے تھے ؟ جو ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے
تھے۔
اکثر بھائیوں کے درمیان اختلاف ہوتے تھے۔۔۔۔ مگر اتنی نفرت کیونکر ۔۔۔
پیدا ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اماں سائیں یہ سب کیا ہے ؟… آژمیر لالہ اور ملک زوہان بھائی ہیں۔۔۔۔۔ کیا گھر کے باقی بھی یہ بات جانتے ہیں۔۔۔۔ اور زوہان کیوں سب سے اتنی نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہاں کے سب لوگ بھی نہیں پسند نہیں کرتے ۔۔۔۔۔ پلیز مجھے اس کا سارا سچائی بتا دیں۔۔۔۔۔
زنیشہ آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لیے شمسہ بیگم کے سامنے گٹھنے کے بل
بیٹھتی روپڑی تھی ۔۔۔۔۔
زوبان اور آژمیر اور ملک فیاض کے بیٹے ہیں۔۔۔ آژمیر
زوہان سے چھ مہینے بڑا ہے۔۔۔۔ زوہان میر ا اور فیاض صاحب کا بیٹا نہیں ہے۔۔۔۔ وہ فیاض صاحب کی دوسری بیوی تحریمہ بیگم کا بیٹا ہے۔۔۔۔ جن
کی عرصہ پہلے ڈیتھ ہو چکی ہے۔۔۔۔ گھر کے سب بڑے یہ بات جانتے
ہیں، آژمیراور زوہان کے علاوہ با قی
سب بھی اس حقیقت کے معاملے میں
آپ کی طرح انجان ہی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ میں آپ کو کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نہیں بتا سکتی ۔۔۔۔۔ آژ میر اور زوہان دونوں کی جانب سے سختی سے کہا گیا ہے کہ آپ کو اس بارے میں کچھ بھی پتا نہیں چلنا چاہیے۔۔۔۔۔ اب اگر اتفاقا آپ کو میری کسی لاپر واہی سے آدھا چ پتا چل گیا ہے۔۔۔۔ تو آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا کہ اسے بھی دل میں چھپا کر رہیں گی۔۔۔۔ اُن دونوں
یا کسی کے سامنے ظاہر نہیں کریں گی۔۔۔۔ کہ آپ اس بارے میں جان چکی
ہیں۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم کی بات پر زنمیشہ نے ابھی ناراض نگاہوں سے اُن کی جانب دیکھا
کیا ہوتا جو بتا تی ۔ ۔ ۔۔۔
اُن کا سنجیدہ اور دو ٹوک انداز دیکھ وہ مزید ضد نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ اُن سے پر امس کرتی وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔۔۔ پر اُس کا دل چاہا تو ا بھی جا کر اُن دونوں کو جھنجھوڑ کر رکھ ہو تم آخر
دونوں اتنے پر اسرار۔۔۔۔ اپنے اندر نجانے کتنے کتنے راز چھپائے اُس
بچاری کو گھمار ہے تھے۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
سوات کی خوبصورت پہاڑیوں کے درمیان واقع اس سر سبزے سے ڈھکے میدان میں اُن سب کے کمپس لگائے گئے تھے۔۔۔۔ ایک طرف بہتی
جھیل کا نیلا پانی صبح کے اُجالے میں بہت دیکھنے والوں کے مزاج پر بہت
خوشگوار اثر چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔
ماورا نے اپنی زندگی میں اتنا حسین منظر نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ اُن کے ساتھ یونیورسٹی کے کیفے کے سپیشل کک آئے ہوئے تھے۔۔۔۔ جنہوں نے
یہاں اُن کے کھانے پینے کا سارا انتظام کرنا تھا۔۔۔۔
مادر ا کی شروع سے عادت تھی۔۔۔۔ وہ فجر سے پہلے ہی اٹھ جاتی تھی۔۔۔۔ اس وقت بھی وہ نماز پڑ ھتی بیلا کو جگاتی کیمپ سے باہر نکل آئی تھی۔۔۔۔ باہر ابھی نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔اندھیرا آہستہ آہستہ چھٹتا ہر شے روشن کر رہا تھا۔۔۔۔۔ماورا کو ہمیشہ سے یہ منظر دیکھنا بہت پسند تھا۔۔۔۔ باہر ٹھنڈ بہت زیادہ تھی۔۔۔۔ماور انے شال کو اپنے گرد مزید اچھے سے لپیٹا تھا۔۔۔۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔ جس کا یہی مطلب تھا کہ
سب لوگ ابھی سورہے ہیں۔۔۔۔
ماورا کی نظر کچھ فاصلے پر بنی زراسی اونچی پہاڑی پر پڑی تھی۔۔۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی اس جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اور وہاں رکھے پتھروں پر
آن بیٹھی تھی۔۔۔
یہاں بیٹھے اب وہ کیمپس سائیڈ کا سار اویو با آسانی دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔۔ ماور الان دلفریب مناظر میں گم ہو کر اپنی زندگی کی ساری تعلیمی بھلادینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہو پارہا تھا۔ منہاج درانی کے ساتھ کل رات گزارے گئے بل اُس کے دماغ سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔۔۔۔ وہ جب
بھی منہاج کی جانب سے اپنے دل کو سخت کر کے آگے بڑھ جانے کی کوشش کرتی وہ پھر اُسے اپنی محبت کے فریب میں اُلجھا کر واپس اُسی مقام پر
لا پٹختا تھا۔۔۔
ماورا کو ہر بار اُس پر اعتبار کرنے کے بدلے دکھ اوع اذیت ہی ملی تھی۔۔۔وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا اب بھی منہاج درانی اس سے کوئی کھیل کھیل رہا تھا یا سچ میں وہ اپنے کیے پر نادم ہو کر اس کی جانب سچے دل سے بڑھا تھا۔۔۔
ماورا کا دل ہمیشہ کی طرح منہاج کے حق میں ہی گواہی دے رہا تھا۔۔۔۔ مگر
اُس کا دماغ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پارہا تھا۔۔۔۔
ماور اان لا متناہی سوچوں پر سر جھلکتی کیمپ سائیڈ پر ہوتی ہلچل کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔ جہاں اب آہستہ آہستہ سٹوڈنٹس جاگ رہے تھے۔۔۔ کچھ دیر بعد اسے بیلا اپنی جانب آتی دیکھائی دی تھی۔۔۔۔
صبح بخیر مائی ۔۔۔۔ کیا کہنے ہیں تمہارے۔۔۔ آج بھی
جلدی اُٹھ گئی۔۔۔۔
بیلا اس کی گلابی چھلکاتی شفاف جلد کو دیکھتی محبت بھرے لہجے میں بولی
تھی۔۔۔۔
جس کے جواب میں ماور اہولے سے مسکرادی تھی۔۔ منهاج کل رات کو ہی یہاں پہنچ گیا تھا۔۔۔۔ بیلا کی اگلی بات پر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔۔۔
” تو میں کیا کروں…؟؟؟”
ماور اپہلے ہی اُس شخص کی کل رات کی بے باکیوں پر تپی بیٹھی تھی۔۔۔۔ جو اُس کے دل و دماغ سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔اب پھر بیلا کے منہ سے اس کا ذکر سن اور اغصے سے بولی تھی۔۔۔۔
تم رات کو جلدی سو گئی تھی۔۔۔۔ سب نے مل کر باہر بہت شغل لگایا۔۔۔۔ منہاج نے سپیشلی بہت انجوائے کروایا۔۔۔۔اب تو بچی کچی لڑکیاں بھی اس کی فین ہو گئی ہیں۔۔۔۔
بیلاس وقت الگ موڈ میں ہی تھی۔۔۔۔ماورا کی ناراضگی کی پر واہ کیسے بغیر پیلا اس وقت الگ موڈ میں ہی جو
بولی جارہی تھی۔۔۔۔
تم اپنا منہ بند کرتی ہو یا میں تمہیں یہاں سے نیچے دھکا دے دوں۔۔۔۔۔
ماور ادانت پیستی تپ کر بولی تھی۔۔۔۔
او کے سوری۔۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔اب نہیں کرتی۔۔۔۔” بیلا سے سیر میں ہو تاد یکھ جلدی سے بات وہیں ختم کر گئی تھی۔۔۔
یہ جگہ کتنی خوبصورت ہے نا۔۔۔ میر اتو دل چاہ رہاہمیشہ کے لیے یہیں رہ
جاؤں۔۔
ماورا ایک جذب کے عالم میں آنکھیں موندے بولی۔۔۔ سہی کہہ رہی ہو یار ۔۔۔۔ اور یہ جنگلی پھول کتنے خوبصورت
ہیں
بیلا بھی انہیں احساسات کے زیر اثر بولی۔۔۔
ہاں میں کب سے انہیں ہی دیکھ رہی ہوں۔۔۔ بہت خوبصورت ہیں ہی ہیں
ماورا کی نظریں اُن پر پل پھولوں پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔۔ جو مزید او پر موجود
تھے وہ دونوں اپنی باتوں میں اتنی مگن بیٹھی میں میں
کہ اپنے قریب آتے
اُسامہ کو نہیں دیکھ پائی تھیں۔۔۔ اُسامہ منہاج کے مخالف گروپ کا ممبر
تھا۔۔۔ جو منہاج کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔۔۔۔
ہائی گرلز ۔۔۔۔۔ گڈمارننگ۔۔۔۔ کیا میں اِن پھولوں کو وہ پھول لا کر
دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔
اُسامہ کی مسکراتی آواز پر وہ دونوں اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔۔۔۔ یس شیور ۔۔۔۔ ہمیں بہت اچھا لگے گا۔۔۔۔
بیلا اُسامہ کی بات کے جواب میں اُس سے بھی زیادہ خوش اخلاقی سے بولتی اسامہ سمیت ماور ا کو بھی حیران کر گئی تھی۔۔۔
اُسامہ خوش ہو تا و پر کی جانب بڑھ گیا تھا۔ ماور انے کو
کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔
کیا ضرورت تھی یہ بکواس بولنے کی۔۔۔ پہلے کبھی پھول نہیں دیکھے تم “
” نے۔۔۔۔
ماور ادانت پیستی بہت ہی آہستہ آواز میں اُسے جھڑ کتے بولی۔۔۔ جب بیلا نے آنکھوں سے اشارہ کیمپس کے قریب کھڑے منہاج کی جانب کیا تھا۔۔۔ جو خون آشام نظروں سے اسامہ کو گھور رہا تھا۔۔۔۔
” بیلا یہ کیا بے وقوفی ہے۔۔۔۔۔ تم نے جان بوجھ کر کیا یہ۔۔۔۔” ماورا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر بیلا کے دماغ میں چل لیار ہا ہے۔۔۔۔۔
تم کیوں ڈر رہی ہو۔۔۔؟ منہاج سےکس بات کا ڈر ہے۔۔۔۔ وہ کو نسا تمہاراہز بینڈ ہے۔۔۔۔ خود ہی تھا نا دنیا والوں کے
سامنے تمہیں بیوی نہیں مانتا ہے میں اسے اس کی اپنی بات میں الجھنا دیکھنا
” چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
بیلا ز یادہ ظاہر نہیں کرتی مگر منہاج کی وجہ سے ہر وقت ماورا کی نم
رہنے والی آنکھیں اُسے بہت تکلیف دیتی تھیں۔
تم پاگل ہو۔۔۔۔ نہیں جانتی وہ کتنا جنونی اور اُلٹے دماغ کا شخص ہے اُس نے ابھی سب کے سامنے اعلان کر بھی دینا ہے۔۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں چاہتی جو تم کرنا چاہ رہی ہو۔۔۔ اور نہ ہی کوئی خون خرابہ چاہیئے
مجھے ۔۔
ماور ادور سے بھی منہاج کی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا آتش فشاں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔ منہاج اُس سے محبت کرتا تھا یا نہیں۔۔۔۔ مگر وہ اتنا جانتی تھی
کہ منہاج اُس پر اپنا پورا حق مانتا تھا۔۔۔
اگر وہ اُسامہ کو اسے
دیتے دیکھ لیتا تو نجانے کیا کر گزرتا۔۔۔۔اس
لیے اسامہ کو پھول لیے واپس آتاد یکھ ماور اوہاں سے اٹھ آئی تھی۔۔۔۔
منہاج ابھی بھی اسی طرح اپنی جگہ کھڑا اُسے گھور رہا تھا۔۔۔۔ ماورا نے ایک بار نظریں اُٹھا کر دیکھا تھا۔۔۔۔ منہاج کی لال آنکھیں اُسے اندر تک لرزنے پر مجبور کرگئی تھیں۔۔
وہ جلدی سے اس کے قریب سے گزرتی اپنے کیمپ میں گھس گئی
تھی۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ آفس نہیں گئی تھی۔۔۔ وہ اس وقت اپنے آپ کو آژ میر کا مجرم سمجھ رہی تھی۔۔۔۔اور خود کو اُس کے سامنے جانے کے قابل تصور نہیں کر
پارہی تھی۔۔۔
آژ میر کی اُسے دو بار کال آچکی تھی۔۔۔ مگر وہ چاہنے کے باوجود اٹینڈ نہیں کر پائی تھی ۔۔۔۔ یہاں آنے سے پہلے اس نے بالکل بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ
ایسی سچویشن میں بھی پھنس سکتی ہے۔۔۔۔
آژمیر جیسا محبت کرنے والا وفادار اور عزت دار مرد ملنا خوش قسمتی کی بات
تھی۔۔۔۔ لیکن وہ خوش قسمت ہو کر بھی بد نصیب ہی ٹھی، ۔
نہیں میں آژمیر کو نہیں کھو سکتی۔۔۔۔ابھی بھی وقت ہے۔۔۔ میں اُنہیں سب کچھ سچ بتادوں گی۔۔۔۔ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔ میری مجبوری سمجھیں گے۔۔۔ اور مجھے میرے سچ کے ساتھ قبول بھی کریں
گے۔۔۔۔
حائفہ اپنے دل کی سنتی آخر کار ایک فیصلے پر آن پہنچی تھی۔۔۔ آژمیر میران کو کھونا کا تصور ہی اُس کی سانسیں چھیننے کے لیے کافی تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی اگر اُس نے اُن لوگوں کی بات مان کر مزید آژمیر کے جذبات کے ساتھ کھیلتے اُسے اتنا بڑا دھوکا دیا، اس کی جان کو خطرے میں ڈالا تو آژمیر
اسے کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔ آژمیر کے ساتھ رہتے وہ اتنا
تو سمجھ گئی تھی۔۔۔
حائفہ نے اپنی گالوں پر
رھگ آئے آنسو صاف کرتے آژمیر کا نمبر ڈائل کیا
تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کال ملاتی۔۔۔۔ اُسے واٹس ایپ پر ایک
نوٹیفیکیشن ریسیو ہوا تھا۔۔۔
حاعفہ نے جیسے ہی اُس پر کلک کیا ماورا کی بہت ساری تصویر میں سکرین پر اُس کے سامنے اوپن ہوئی تھیں۔۔۔ماورا اسے ایک پتھر پر بیٹھی نظر آئی تھی۔ جس کے عین سر پر گن کا لال نشانہ واضح طور پر دیکھائی دے رہا
تھا۔۔۔۔۔ صرف ایک جگہ ایسا نہیں تھا۔۔۔ مختلف تصویروں میں ماورا کے
جسم کے مختلف حصوں پر یہی نشان نظر آرہا تھا۔۔۔
حاعفہ یہ سب دیکھ کر تڑپ اُٹھی تھی ۔۔۔۔ اسے لگا تھا جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر پیوست کر دیا ہو۔۔۔
حائفہ ساکت نگاہوں کے ساتھ ان تصویروں کو گھور رہی تھی۔۔۔ جب اسی ۔۔۔ انجان نمبر سے اسے کال آنے لگی تھی ۔۔۔۔ حائفہ نے کانپتے ہاتھوں سے
کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔۔
یہ تصویریں بھیجنے کا مقصد تمہیں یہ بتانا تھا کہ تمہاری بہن ہمارے نشانے” پر ہے۔۔۔۔ ہم سے زرا بھی ہوشیاری کرنے کی کوشش کی تو پہلے تمہاری بہن جان سے جائے گی اور پھر تم ۔۔۔۔۔
تمہارے اس محبوب نے تو ویسے بھی نہیں بچنا۔۔۔۔ تو کیوں خود کو اور اپنی بہن کی زندگی داؤ پر لگارہی ہو۔۔۔۔ عقل مندی کا ثبوت دیتے وہی
کر و۔۔۔ جو ہم کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔
کال بند ہو چکی تھی۔۔۔ مگر حائفہ ابھی بھی اُسی طرح فون کان سے لگائے
کھٹڑی تھی۔۔۔۔
اُس کی ایک ایک حرکت نوٹ ہو رہی تھی۔۔۔حاعفہ کے پاس اُن لوگوں کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔
اپنے دل کا خون کرتے اس نے مرے مرے ہاتھوں سے آژ میر کو کال ملائی تھی۔۔۔۔ جو اس کی پہلی بیل پر ہی اُٹھالی گئی تھی۔
حائفہ ۔۔۔۔ کہاں ہو تم ؟؟؟ تم ٹھیک ہو ؟؟… میری کال کیوں نہیں پک کر رہی۔۔۔۔ میں صبح سے کتنی بار ٹرائے کر چکا ہوں۔۔۔۔۔
آژ میر اُس کی کچھ سنے بنا بے قراری سے بولا تھا۔۔۔ وہ اس وقت میران پیلس میں موجود تھا۔۔۔ ورنہ کب کا حاعفہ کے پاس پہنچ چکا ہوتا۔۔۔۔۔ یہ لڑکی آہستہ آہستہ اُس کی رگوں میں ایک نشے کی طرح اترنے لگی تھی۔۔۔۔ جس کے بغیر اس کار ہنا کافی مشکل ہو جاتا تھا۔۔۔ وہ خود بھی
حیران تھا آخر کب ، کہاں اور کیسے حائفہ اُس کے لیے اتنی امپورٹنٹ ہو گئی تھی کہ وہ اس کے حسین تصور سے نکل ہی نہیں پار ہا تھا۔۔۔ اُس کا کال پک نہ کرنا آژ میر کو کس قدر پریشان کر گیا تھا۔۔۔۔ اب تو وہ آفس سے کسی کو حاعفہ کی طرف بھیجنے ہی والا تھا۔۔۔۔ ” میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔”
حاعفہ اپنی آنکھوں سے امڈ آتے آنسوؤں کے سیلاب پر قابو پاتے با مشکل یہ
جملہ ادا کر پائی تھی۔۔۔
حائفہ تم رو رہی ہو۔۔۔۔ ؟ مجھے بتاؤ کیا وہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔؟ میں “
آؤں تمہارے پاس۔۔۔۔
آژ میر کو ایک سیکنڈ لگا تھا تصدیق کرنے میں کہ وہ رورہی ہے۔۔۔ وہ رات کے آٹھ بجے بھی اُس کے لیے گاؤں سے آنے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ کا دل چاہا تھا اس مہر بان انسان کے سامنے اپنے دل کا ساراد کھ کھول کر رکھ دے۔۔۔۔ جس کے ساتھ وہ زندگی کا سب سے بڑاد ھو کا کرنے جارہی
تھی۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں نے اِس وقت آپ کو کچھ کہنے کے لیے کال کی ہے۔۔۔۔
حائفہ اپنے بھیگے لیجے پر قابو نہیں رکھ پائی تھی ۔۔۔
ہوں محترمہ ۔۔۔ آپ پلیز بولیں کچھ ۔۔۔ مجھے فکر میں ہی کوآپ کو ہی سن رہا
ہو رہی ہے۔۔۔۔
آژمیر بے چینی سے روم میں چکر کاٹتا اُس کے رونے پر اچھا خاصہ پریشان
ہوا تھا۔۔۔
مجھے آپ سے شادی کرنی ہے۔۔۔ جلد از جلد ۔۔۔۔ آپ کریں گے نا مجھ “
” سے شادی۔۔۔۔۔
یہ بات مکمل کرتے حائفہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری ہو چکی
تھی۔۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری جانب حائفہ کی بات سنتے آژمیر کچھ پل تو کچھ سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کے ہونٹوں پر امڈ آنے والی مسکراہٹ بہت
دلکش تھی۔۔۔۔
یہ بات اتنے دکھی ہو کر اور آنسو بہا کر کہنے والی ہر گز نہیں تھی۔۔۔۔آژمیر کی مسکراتی دلکش آواز حائفہ کی سماعتوں سے ٹکراتی اُس کی دھڑکنیں
بڑھا گئی تھی۔۔۔ میں ابھی ابھی نکاح کرنے کو تیار ہوں۔۔۔ اگر تم کہو تو آ جاؤں”
آژ میر اُس کے رونے کی وجہ ابھی بھی نہیں سمجھ پایا تھا۔۔۔۔ لیکن اُس کا موڈ بہتر کرنے کے خیال سے شریر لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
” نہیں آپ آرام سے آئیں۔۔۔ میں انتظار کروں گی آپ کا۔۔۔۔”
حائفہ با مشکل اپنی آواز میں خوشگواریت پیدا کرتے بولتی کال کاٹ گئی
تھی۔۔۔۔
حائفہ کا دل اس وقت خون کے آنسور ورہا تھا۔۔۔ وہ بیڈ پر اوندھے منہ گرتی
دہاڑے مار مار کر رودی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ کو جب سے یہ حقیقت پتا چلی تھی ۔۔۔۔ وہ گم صم سی اپنے کمرے میں تھی۔۔۔۔ قید ہو کر بیٹھی تھی۔۔۔۔ نہ کچھ کھارہی تھی نہ پی رہی تھی۔۔۔۔۔ مسلسل دو گھنٹے ٹیرس پر کھڑے ہونے کی وجہ سے اُس ٹھنڈ لگ گئی تھی۔۔۔۔ پہلے ہی زہنی تھکاوٹ اتنی زیادہ تھی۔۔۔اوپر سے ٹھنڈ لگ جانے کی وجہ سے زنیشہ کو سخت بخار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔۔۔ جب بھی پریشان ہوتی یا کسی پر غصہ ہوتی تو اس انسان کو کچھ کہنے یالڑنے کے بجائے وہ خود کو ہی تکلیف پہنچاتی تھی۔۔۔۔
آج بھی اُس نے یہی کیا تھا۔۔۔ بجائے آژمیر اور زوہان سے لڑنے کے وہ
خود کو ہرٹ کرنے لگی تھی۔۔۔۔
زنیشہ ٹیرس پر ہی بیٹھی اس وقت صرف ایک ہلکی سی شال اپنے گرد لپیٹے ٹھنڈ کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔ جب اُس اپنے روم کا دروازہ کھلنے اور
آژمیر کے پکارنے کی آواز آئی تھی۔۔۔۔
ز نمیشہ ۔۔۔۔ گڑیا کہاں ہو آپ ؟؟؟” ۔۔۔
آژمیر زنیشہ کو پکارتا ٹیرس کا دروازہ کھلا دیکھ اُس طرف آیا تھا۔۔۔ زنیشہ وائس رانگ و دیو۔۔۔۔۔ اتنی ٹھنڈ میں یہاں کیوں بیٹھی ہو ؟؟؟” زنیشہ کو وہاں برف بنادیکھ آژمیر کا میٹر گھوما تھا۔۔۔۔ زنیشہ جو ہمیشہ آژمیر کے زراسا اونچا بولنے پر گھبرا جاتی تھی۔۔۔۔اس بنا کوئی رد عمل دیئے ویسے
ہی بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔
یہ اُس کی شدید ناراضگی کا اظہار تھا۔۔۔۔۔
آژ میر ڈنر میں اُس کی غیر موجودگی نوٹ کرتا اُسے بلانے او پر آیا تھا۔۔۔۔ مگر زنیشہ کا یہ گم صم انداز اسے ٹھیٹھ کا گیا تھا۔۔۔۔وہ مزید اُسے کچھ بولے بنا
کندھوں سے تھامتا اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
ٹیرس کا درواز ہلاک کر کے پر دے درست کرتا آژ میر اب پاس کھڑی اپنی لاڈلی بہن کی جانب مڑا تھا۔۔۔۔ جو اُس سے اس وقت بہت خفالگ رہی ۔ ۔
تھی۔۔۔۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ زنیشہ ضرور اسی سے ناراض ہے اور نہ وہ کسی اور سے ناراضنگی
پر اتنا لاؤڈری ایکشن نہیں دیتی تھی۔۔۔۔
” کیا ہوا ہے؟ یہ ناراضگی کا شدید اظہار کیوں کیا جار ہا تھا؟؟؟” آژ میر اُس کے مقابل کھڑا ہو تانر می بھرے لہجے میں مخاطب ہوا تھا۔۔۔وہ چاہے جتنا بھی سخت مزاج سہی مگر زنیشہ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا
تھا۔۔۔۔۔
آژمیر کے اچھے مزاج کو دیکھتے زنیشہ کچھ کہنے ہی والی تھی۔۔۔۔ جب اسی لمے شمسہ بیگم روم میں داخل ہو تیں۔۔۔۔ زنیشہ کو تنبیہی نظروں سے
گھور گئی تھی۔۔۔۔
زنمشہ اُن پر جوابا ایک خفگی بھری نظر ڈالتی آژ میر کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔ جو تشویش کے عالم میں اُس کا خطرناک حد تک سُرخ پڑتا چہرا دیکھ
رہا تھا
میں ناراض ہوں آپ سے۔۔۔ کیونکہ آپ مجھ سے پیار نہیں کرتے۔۔۔۔ پچھلے ایک ہفتے سے آپ نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔۔۔۔ آپ کو صرف اپنا بزنس عزیز ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے آپ مجھے بھول
” جاتے ہیں۔۔۔۔
زنمشہ منہ بسور کر بات بناتے بولتی آثر میر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔۔ لیکن کہیں نہ کہیں وہ سمجھ گیا تھا کہ زنیشہ اس سے کچھ چھپارہی ہے۔۔۔۔
میری گڑیا نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اُسے بھول سکتا ہوں۔۔۔۔ تم میری زندگی کی بہت اہم ہستی ہو۔۔۔۔۔ میں نہ اس چہرے پر اداسی دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ نہ ہی ان آنکھوں میں آنسو ۔۔۔۔۔
آژ میر زندیشہ کو اپنے ساتھ لگاتے بولتا اس کی پیشانی پر بوسہ دے گیا تھا۔۔۔۔ جب آژ میرکو شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔ زنیشہ کی پیشانی دھکتے کو سکے کی طرح تپ رہی تھی۔۔۔ اور پورا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔
زنیشہ کو بہت سخت بخار ہے۔۔۔ اپنے حصار میں لیتاپریشانی
سے بولا تھا۔۔۔ زنیشہ جواب تک
بہت مشکل سے کھڑی تھی۔۔۔ آژ میر کا مضبوط سہارا پاتے ہی اُس نے جلتی
آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم بھی پریشان ہی قریب آئی تھیں۔۔۔۔ ز نیشہ گڑیا آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔”
آژمیر اس کا چہرا تھپتھپاتے بے انتہا پریشانی سے بولا تھا۔۔۔۔۔
اماں سائیں گاڑی نکلوائیں جلدی زنیشہ کو ہاسپٹل لے کر جانا ہو گا
” ابھی۔۔۔۔
زنیشہ بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔۔ اُس کا سر آژ میر کے کندھے پر لڑھک گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کی یہ حالت دیکھ آژ میر کو اپنی آدھی دنیار کتی محسوس ہوئی
شمه بیگم تیز قدموں سے باہر نکل گئی تھیں۔۔۔۔
آژمیر زنیشہ کے گرد اپنی شال اچھے سے لپیٹتا ا سے اُٹھائے باہر کی جانب
@@@@@@@@@
زوہان نفیسہ بیگم سے ملنے مظفر آباد آیا ہوا تھا۔۔۔۔ اُن کی طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں تھی۔۔۔ اس لیے وہ زبر دستی انہیں ہاسپٹل لے آیا
تھا۔۔۔۔ وہ ویسے بھی باقاعدگی سے اُن کا منتقلی چیک اپ کرواتار ہتا تھا۔۔۔ وہ اپنا یہ واحد پر خلوص رشتہ تھا کھونا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔
اس وقت بھی وہ انہیں لیے ہاسپٹل سے نکل رہا تھا۔۔۔۔ جب اُس کی نظر وہاں آکر رکتی آژمیر کی گاڑی پر پڑی تھی۔۔۔
زوبان کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔۔ وہ نظریں پھیر کر وہاں سے ملنے ہی لگا تھا۔۔۔ جب اس کی نظر آژمیر کی بانہوں میں موجود وجود پر پڑی تھی ۔۔۔۔ زنیشہ پوری طرح ڈھکی ہوئی تھی۔۔۔ مگر اس کے باوجود زوبان کم از کم زنیشہ میر ان کو پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
آژمیر راستے میں کھڑے زوہان کو صاف نظر انداز کرتا اندر کی جانب بڑھا
تھا۔۔۔
زوہان زنیشہ کے معاملے میں کسی قیمت پر بھی سخت دل نہیں بن سکتا تھا۔۔۔ آژمیر سے لاکھ اختلاف سہی مگر وہ زنیشہ کی خاطر اس کے پیچھے گیا
تھا۔
زوہان تیز قدموں سے چلتا آژمیر تک پہنچا تھا۔۔۔ جہاں وہ زنیشہ کو سٹریچر
پر لیٹا چکا تھا۔۔۔
” سٹے اوے۔۔۔۔”
آژمیر زوہان کو وہاں دیکھ دبی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔۔
” میں نے پوچھاز نیشہ کو کیا ہوا ہے ؟”
زوہان کی پریشان نظریں زنیشہ پر تھکی ہوئی تھیں۔۔۔ جسے سٹریچر میں اندر
لے جایا گیا تھا۔۔۔
تم ہوتے کون ہو میری بہن کے بارے میں کچھ بھی پوچھنے والے۔۔۔۔” میں اُس کا خیال رکھنا اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔ دور ر ہو اُس سے ورنہ اچھا
” نہیں ہو گا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔
آژمیر زوہان کی جانب پلٹتے غرایا تھا۔۔۔
ہو نہہ۔۔۔۔اگر خیال رکھ سکتے ہوتے تو اس حسیب جیسے گھامڑ کے ساتھ نکاح کروانے کی کوشش نہ کرتے اپنی بہن کا۔۔۔۔ جو خود اپنی حفاظت بھی
” نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔
زوہان بھی تپا تھا۔۔۔۔دونوں ایک دوسرے کے مقابل آنکھوں میں شعلوں کی سی لپک لیے ایک دوسرے ہو گھور رہے تھے۔۔۔۔ کوئی اُن کی ایک دوسرے کے لیے یہ شدید نفرت دیکھ کر نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں
بھائی ہیں۔۔۔۔
ہر کوئی تمہاری طرح بد معاش نہیں ہوتا۔۔۔۔ جو ہر ٹائم دوسروں کو مارنے مروانے کے بارے میں سوچتا ر ہے۔۔۔۔ اور اسلحہ ہر وقت اپنی
” جیب میں رکھے ۔۔
آژ میر کا بس نہیں چل رہا تھا وہان کی آنکھ ہی پھوڑ دے۔۔۔۔ جو اُس کے سامنے یوں سینہ تان کے کھڑ ا تھا۔۔۔
میری بد معاشی مجھے بہت عزیز ہے۔۔۔۔ کم از کم تمہاری طرح دو روپ لے کر تو نہیں پھر رہا۔۔۔۔ نام نہاد معزز اور شریف انسان بنے کا مجھے کوئی
“شوق نہیں ہے۔۔۔۔
زوہان نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔ دونوں زنیشہ کی پریشانی
میں ایک دوسرے پر بھڑاس نکال رہے تھے۔۔۔۔ بس کرو تم دونوں اس سے پہلے کے اُن کی یہ لڑائی مزید آگ بن کر ان سمیت ارد گرد کے ماحول کو بھی جھلسا دیتی شمسہ بیگم کی آواز پر دونوں نے پلٹ کر اس جانب دیکھا تھا۔۔۔
جہاں شمسہ اور نفیسہ بیگم کھڑیں ان دونوں کو خنگی بھری نظروں
گھور رہی تھیں۔۔۔
میں بتاتی ہوں زوہان کیا ہوا ہے زنیشہ کو اور کس وجہ سے وہ اس حال میں
پہنچی ہے۔۔۔ ؟؟؟؟ ؟
شمسہ بیگم اس وقت شدید غصے اور دکھ کا شکار تھیں۔۔۔۔
نفیسہ بیگم سب جان چکی تھیں۔۔۔اس لیے بس خاموش افسوس بھری نظروں سے اُن دونوں بھرے شیر وں کو دیکھ رہی تھیں۔۔ جن میں سے
کوئی ایک بھی جھکنے یا ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔۔۔
تم دونوں زمہ دار ہو ز نیشہ کی اس حالت کے ۔۔۔۔ جب اُس نے ہوش سنبھالا تھا۔۔۔ تم دونوں کو ہی پایا تھا اپنے ارد گرد ۔۔۔۔ تم دونوں کی محبت لینا جانتی تھی وہ۔۔۔۔ یہ نفرت، ضد اور دشمنی نہیں۔۔۔۔ اور پھر اچانک
زوہان تم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے
اور ساتھ ہی تم میری زنیشہ کے کچھے زہن سے بھی اتر گئے۔۔۔۔ لیکن اب پھر اچانک یاد آگئی اس کی تو دوبارہ حق جانے پہنچ گئے ۔۔۔۔ وہ کب تک تم دونوں کے اس انتقام اور
نفرت میں پیسے گی۔۔۔۔
تم دونوں کو جو کرنا ہے کرو۔۔۔۔ لیکن میری زنیشہ بہت معصوم ہے۔۔۔ اس نازک کلی کو اس سب میں مت مسلو۔۔۔۔ جس بچاری کے قریبی رشتے
ہی ہمیشہ سے اُس کی تکلیف کا باعث بنتے آئے ہیں۔۔۔۔
پہلے اُس کا باپ اور ساتھ میں اب تم دونوں۔۔۔۔۔
کیسی محبت ہے تم دونوں کی اس کے لیے۔۔۔ اُسے ہی سزادے رہے ہو۔۔۔ اُس معصوم کو بنا کسی قصور کے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے آخر کار آج اپنی چپ توڑ دی تھی۔۔۔ اتنے دنوں سے زنیشہ کو اذیت میں مبتلاد یکھ وہ ایسی پھٹی تھیں کہ ان
کو بھی چپ کروادیا تھا۔۔
وہ دونوں ہی اِس بات سے انجان تھے کہ زنیشہ تکلیف میں تھی۔۔۔۔ یہ بات جان کر دونوں کے دل درد سے بھر گئے تھے۔۔۔
@@@@@@@@@
ماور الوگ اپنی ٹیم کے ساتھ آج گاؤں کے رہائشی علاقے کی جانب نکلے ہوئے تھے۔۔۔۔ جہاں انہیں وہاں کے لوگوں کے ٹیسٹ کر کے وہاں پھیلتی مختلف بیماریوں کو ڈائی گنوز کرنا تھا۔۔۔۔
آتے وقت منہاج اُن کے ساتھ ہی تھا اور ٹیم لیڈر کی حیثیت سے اُن کی
پوری طرح راہنمائی کرتا نہیں ہدایت دے رہا تھا۔۔۔۔
انہیں پانچ گھنٹے لگ گئے تھے آج کا ٹاسک کمپلیٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔ کام
کے دوران منہاج نے نہ کوئی الٹی سیدھی بات کی تھی۔۔۔ اور نہ ہی حرکت۔۔۔۔ جس کی وجہ سے نا چاہتے ہوئے بھی ماورا بار بار اس کی جانب متوجہ ہو رہی تھی۔۔۔۔ صبح کے واقع کے بعد ماورا کو لگا تھا کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق اُسے پھر سے ڈانٹے گا، غصہ ہو گا کہ وہ اسامہ جیسے لڑکے کے
ساتھ کیوں تھی ۔۔۔۔۔
مگر ماورا کی سوچ کے بر عکس ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔۔اُسے منہاج بہت ہی سنجید ہ لگا تھا۔۔۔۔ اُن کی پوری ٹیم اس وقت وہاں زرا سائیڈ پر رکھے چھوٹے چھوٹے پتھروں پر بیٹھی تھی۔۔۔۔ جبکہ منہاج ان کے سامنے کھڑا اُن کو کل کے ٹاسک کے حوالے سے انگلی بریفنگ دے رہا تھا۔۔۔۔ وہ اُن لوگوں
کاموسٹ سینئر اور فائنل سمسٹر میں تھا۔۔۔ وہ یہ کیمنگ مختلف جگہوں پر کئی بار کر چکے تھے۔۔۔۔ اس لیے اُسے اس بارے میں سارا علم تھا۔۔۔۔ سب لوگ پوری توجہ سے اُسے سن رہے تھے۔۔۔ جبکہ ماورا کو نجانے اچانک کیا ہوا تھا کہ وہ اس کی باتوں سے زیاد ہ اس بات پر توجہ دینے لگی تھی کہ منہاج سب کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن اس کی جانب ایک بار بھی نہیں
وہ خفگی بھرے تاثرات چہرے پر سجائے منہاج کو گھورنے لگی تھی۔۔۔۔ ہمیشہ اسے اس شخص کی توجہ ملی تھی۔۔ اب اچانک توجہ ہٹ جانا اور ا کو کسی
صورت برداشت نہیں ہورہا تھا۔۔۔
وہ جو ہر بار منہاج سے دور جانے اُس سے ہر تعلق توڑنے کا عہد کرتی تھی۔۔۔۔۔ منہاج کی ایک جھلک دیکھتے ہی سب کچھ دھڑے کا دھڑا رہ جاتا تھا۔۔۔۔ محبت انسان کو ایسے ہی بے بس کر دیتی تھی۔۔۔ جو حال ماورا کا
ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم بے دھیانی میں ٹھوڑی کے نیچے ہتھیلی جمائے منہاج کو یک ٹک دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
بلیک جینز کے اوپر آف وائٹ شرٹ پہنے ، بازو کے کف کہنوں سے تھوڑا آسے فولڈ کیے ، بالوں کو جیل لگا کر نفاست سے سیٹ کیے اپنے ڈیشنگ لک
کے ساتھ پورے ماحول پر چھایا ہو الگ رہا تھا۔۔۔۔ ماورال اس بات سے انجان کے منہاج اپنی بات ختم کر چکا ہے
اُسی
طرح بیٹھی اسے تکے گئی تھی۔ اس کی
اُسی لمحے منہاج نے اُس کی جانب میں جھانکتے سوالیہ
انداز میں بھنویں اُٹھائے تھے
ماور المحہ بھر کو گڑ بڑا گئی تھی ۔۔۔۔
کیا آج سارا دن یہی بیٹھ کر اپنے پیا کو گھورنے کا اراد ہ ہے ۔۔۔۔ وہ پانچ
منٹ ہوئے اپنی بات ختم کر چکا ہے۔۔۔۔
بیلا کے شہو کے پر ماور اہوش کی دنیا میں لوٹتی اپنی بے اختیار حرکت پر شرم سے لال ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ منہاج اُسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔ماورا کا
دل چاہا تھا شرم سے ڈوب مرے۔۔۔۔
وہ پیلا کو آنے لا اشارہ کرتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔
مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔۔۔۔ یہ جو تم دونوں نگاہوں ہی نگاہوں میں اپنے آپسی معاملات سنوار رہے ہو ، میں اچھے سے سمجھ رہی ہوں۔۔۔ بیلا اُس کی سُرخ پڑتی رنگت پر چوٹ کرتے بولی۔۔۔۔۔۔۔
فضول مت بکو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
ماور انے اُس کے اُلٹے سیدھے اندازوں پر اُسے گھڑ کا تھا۔۔۔ جب ایک چھوٹی سی دوپونیوں والی پیاری سی لڑکی ماورا کی راہ میں آئی
Share with your Friends on Facebook
1 Comment
Add a Comment