Haifa and Zanisha Novel Part 13 – Romantic story Urdu | Free Reading


Part 13 of the powerful Haifa and Zanisha series is finally here, and it’s packed with pure romance, emotional intensity, and dramatic turns. This chapter takes their love story to another level, making it a must-read romantic Urdu novel for 2025.

If you enjoy emotional, slow-burn romances that mix suspense with soulful storytelling, then this part is tailor-made for you. And for offline readers, you can also download the PDF version in clear Urdu font.

romantic story urdu

Haifa and Zanisha Novel Part 13 – Romantic story Urdu

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 12

اور بنا کچھ بولے ماورا کا ہاتھ پکڑ کر اس کھینچ کر دائیں جانب جانے کا اشارہ
کرنے لگی تھی ۔۔
“کیا ہوا بچے ؟؟؟”
ماورا نے اس لڑکی کو یہاں پہلی بار دیکھا تھا ۔۔۔۔ اس کے یوں کھینچنے پر ماورا حیرت زدہ سی اس کے ساتھ چلنے لگی تھی ۔۔۔۔ جب وہ اسی طرح اس کا ہاتھ تھامے دو تین چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان بنے راستوں میں سے گزرتی
اُسے لیے آگے بڑھی تھی۔۔۔۔
جب آگے آتے اور اسمیت بیلا کی آنکھیں بھی حیرت کی زیادتی سے پھٹی
تھیں۔۔۔۔
سامنے نظر آتا وسیع و عریض میدان مختلف رنگوں کے بے پناہ خوبصورت پھولوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔۔اُن کی سائیڈوں پر دو مالی سر جھکائے کھڑے
ہمیشہ سے پھولوں کی دیوانی ماورا تو اپنے سامنے ایک ساتھ اتنے پھول دیکھ خوشی سے پاگل ہو اُٹھی تھی۔۔۔ کچھ پھولوں کے بلکے بنا کر رکھے گئے تھے۔ اور دوریوں سے تھے ۔۔۔ اور کچھ پھول نازک سی رنگ برنگی ڈوریوں سے بندھے ہوئے
دیکھنے سے صاف لگ رہا تھا کہ یہ سارے پھول یہاں خاص طور پر لائے گئے
ہیں۔ سیاہ اور سفید گلابوں کے بکے ماورا کو بے حد پسند آئے تھے۔۔۔۔ وہ اُن کو
ہاتھوں میں لے کر محسوس کرتی اُن کی خوشبوں اپنی سانسوں میں اُتارنے لگی
تھی۔۔۔۔
” مادر ا یہ سب کس نے کیا ہے ؟؟؟”
بیلا بھی ارد گرد پھیلی خوشبوں اور حسین منظر کے زیر اثر مسمسمرائز سی ماورا
سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔۔۔
بیلا کی بات پر ماورا بھی ہوش کی دنیا میں لوٹتی پلٹ کر اُس بچی کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔ جو اُسے کھینچ کر یہاں تک لائی تھی۔۔۔۔ بیٹا یہ سب کس نے کیا ہے۔۔۔؟
ماور ا اُس بچی کے قریب آئی تھی ۔۔۔۔
وہ پھولے گالوں والی چھوٹی سی پٹھانی بہت پیاری تھی۔۔۔۔ اس نے اب بھی منہ سے کوئی جواب دینے کے بجائے ۔۔۔۔ پھولوں کے وسطی حصے کی
جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
اور اُسی خاموشی کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئی تھی۔
ماورا الجھی سی پھولوں کے درمیان بنائے راستے سے گزرتی درمیان میں پہنچی تھی۔۔۔۔ اُس نے وہاں اب غور کیا تھا۔۔ وہاں پھولوں سے لکھا گیا تھا۔۔۔
فارمائی بیوٹیفل وائف مسز ماور امنہاج درانی
مختلف پھولوں کو استعمال کر کے یہ تحریر اتنی خوبصورتی سے لکھی گئی تھی کہ
ماور اپل بھر کو کچھ بول بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
” ادیکھو۔۔۔ادھر اور ادیکھو ۔۔۔ ادھر بھی کچھ لکھا ہے۔۔۔۔”
بیلا او بیلا کے اشارے پر مادر او ہیں کھڑے کھڑے دائیں جانب پلٹی تھی۔۔۔۔۔ جہاں لکھا تھا۔۔۔
میری زندگی کے اِس مہکتے پھول کو کسی سے پھول مانگتا میں دوبارہ نہ دیکھوں “
بڑے ہی انداز میں صبح کے واقع کے حوالے سے وارن کیا گیا
تھا۔۔۔۔
واوماورا کیا فلمی لو ہے تم دونوں کا۔۔۔۔۔ تم نے صبح صرف ایک پھول کو
دیکھا اور تمہارے ہیر ونے یہاں کے سارے پھول تمہارے قدموں میں
ڈال دیئے ۔۔۔۔۔ ہاؤرومینٹک۔۔۔۔۔
بیلا کی بات پر ماور انے اپنے دل میں جھانکا تھا۔۔۔۔
وہ پھر سے اُس ستمگر کی اسیر ہو رہی تھی۔۔۔ جو دو بار اُس کا دل توڑ چکا تھا۔۔۔۔
کیا اب پھر وہ کوئی غلطی کرنے جارہی تھی ۔۔۔۔
ماور ابیلا کی باتوں کا بنا کوئی جواب دیئے وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
ز نیشہ کیا چاہتی ہے ؟؟؟”
آژ میر نے مختصر آپو چھا تھا۔۔۔۔ اس کے لیے اپنی بہن کی خوشی سے زیادہ
کچھ اہم نہیں تھا۔۔۔
زنیشہ کی زندگی میں سب سے اول مقام پر تم ہو آژ میر ۔۔۔۔۔ تمہاری خاطر وہ اپنی جان تک قربان کرنے سے پہلے ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچے گی۔۔۔۔ اور ایسا وہ ایک ہار کر بھی چکی ہے۔۔۔۔ لیکن یہ بھی ایک بہت بڑا سچ ہے کہ وہ زوہان سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔۔۔۔ وہ اپنے منہ
سے یہ بات شاید زندگی بھر نہ کہے۔۔۔۔ مگر اُس کی اُداس آنکھوں میں نظر
آتا ہے کہ وہ کتنا چاہتی ہے زوہان کو۔۔۔۔۔۔
تم دونوں اپنی ضد میں اُس کے معصوم جذبات کو خون مت کرو۔۔۔۔ وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گی۔۔۔۔
اب کی بار جواب نفیسہ بیگم کی جانب سے آیا تھا۔۔۔ جو ژمیر میر ان کو ہلا کر رکھ گیا تھا۔ کیا واقعی زنیشہ زوہان سے محبت کرتی تھی؟ وہ کیوں نہیں
دیکھ پایا تھا یہ سب
جبکہ دوسری جانب زوہان کا حال کافی مختلف تھا ۔۔۔۔ اُسے کہیں نہ کہیں ۔۔۔۔ اپنے لیے زندیشہ کی محبت کا علم تھا۔۔۔۔ مگر اس کی شدت اتنی زیادہ تھی وہ
نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے گھبرا کر آژ میر کے تاثرات دیکھے تھے۔۔۔ جو آنکھوں میں
سرد تاثرات لیے خاموش کھڑا تھا۔۔۔۔
” آژمیر ۔۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم نے پکارا تھا ہے۔۔۔۔ ۔
تو آپ دونوں چاہتی ہیں۔۔۔ میں زنیشہ کو اس شخص کے حوالے کروں جو میری بہن کو صرف میری دشمنی کی وجہ سے استعمال کرتا آیا ہے۔۔۔ وہ معصوم اور نادان ہے ۔۔۔ اس کے فریب میں آگئی۔۔۔۔
نگر میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔
آژ میر کو کسی صورت یقین نہیں تھا زوہان ہے ۔۔۔۔
آژمیر کو ابھی بھی اسی فیصلے پر آزاد یکھ نفیسہ اور شمسہ بیگم کے چہرے پر مایوسی
پھیل گئی تھی۔
زوہان نے پلٹ کر خود سے کچھ فاصلے پر کھڑے آژمیر کی جانب دیکھا
تھا۔۔
میں بے پناہ محبت کرتا ہوں تمہاری بہن سے۔۔
زوہان دوبارہ آژمیر کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ جس بات کا اقرار اُس نے آج تک اپنے سامنے بھی نہیں کیا تھا۔۔۔ آج وہ آژمیر کے سامنے کر گیا
تھا۔۔۔
نفیسہ اور شمسہ بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔۔ زنیشہ زوبان کے لیے اتنی اہم تھی کہ وہ اس کی خاطر آژمیر کے آگے جھک رہا
اس مجھ سے زیادہ بہتر اس کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں نہ پہلے کبھی زنیشہ کو ہمارے درمیان دشمنی کے لیے استعمال کیا ہے اور نہ مرتے دم تک کبھی ایسا کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔ زوبان بہت ہی دھیمے لہجے میں بول رہا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے اتنے نرم انداز پر وہ تینوں پل بھر کو حیران ہوئے تھے۔۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ تھا ز نیشہ کے لیے
زوہان دل سے اتنا ہی نرم تھا۔۔۔۔
آژ میر اور زوہان میں چاہے جتنی بھی نفرت اور دوریاں سہی۔۔۔ مگر آژ میر زوہان کی آنکھوں کی تحریر آج بھی بہت اچھے سے سمجھتا تھا۔۔۔۔ زوہان آج کچھ پل کے لیے ہی سہی ز نیشہ کی خاطر آژ میر کے سامنے جھکا تھا۔۔۔۔ جو زوہان جیسے اونچی ناک رکھنے والے بندے کے لیے چھوٹی بات بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
اسے لمحہ لگا تھا فیصلہ کرنے میں ۔۔۔ اور یہ بات تو وہ خود بھی جانتا تھا کہ اس کے علاوہ اگر اس روزمین پر کوئی زنیشہ کی خاطر اپنی جانب دے سکتا تھا تو وہ
ملک زوہان میر ان ہی تھا۔۔۔۔
حائفہ کے اپنی زندگی میں آنے اور محبت جیسے میٹھے جذبے سے واقف ہونے کے بعد وہ کم از کم اس رشتے کا دشمن تو نہیں بن سکتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کی زوہان کے لیے محبت جان کر تو وہ پہلے ہی اس معاملے میں نرم پڑ چکا تھا۔۔۔اب رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی تھی۔۔
آژ میر امید بھری نظروں سے اپنی جانب تکتی نفیسہ اور شمسہ بیگم کی جانب اقرار میں سر ہلاتا باہر نکلتے ڈاکٹر ز کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
@ @ @ @ @ @ @ @
زنیشہ مسلسل زہنی ٹینش کا شکار رہنے کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی۔۔۔ اوپر سے ٹھنڈ میں اتنی دیر رہنے کی وجہ سے رہی سہی کسر شدید بخار مے پوری کر دی تھی۔۔۔۔
آژ میر نکاح کے لیے مان گیا تھا۔۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔۔۔ نفیسہ اور شمسہ بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُن کی نسبت زوہان نے اُن کے سامنے ایسے خوشی بھرا کوئی ری ایکشن نہیں دیا تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر سے زنیشہ کے ٹھیک ہونے کا سن کر وہ نفیسہ بیگم کے ساتھ وہاں سے اُسے جو چاہیئے تھاوہ مل چکا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے نوٹ کیا تھا کہ آژ میر اس کا خیال تو پوری
طرح سے رکھ رہا تھا مگر
اُس نے زنیشہ سے ٹھیک سے بات نہیں کی تھی۔۔۔۔
ہاسپٹل سے لے کر گھر آنے تک اُس نے زنیشہ سے کوئی خاص بات نہیں کی تھی۔۔۔۔ جبکہ اُن کی نسبت شمسہ بیگم کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔۔۔ زنیشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا آخر اس کی بے ہوشی کے دوران ایسا کیا
ہوا۔۔۔
آژمیر کے سامنے وہ کچھ پوچھ نہیں سکتی تھی۔۔۔اسی لیے اپنے کمرے میں
آنے تک خاموشی ہی رہی تھی۔۔۔۔
اماں سائیں لالہ اتنے سیر یں
مجھے اُن کا موڈ بہت خراب لگ
” رہا ہے۔۔۔ کچھ ہوا ہے کیا ؟؟
زنیشہ روم میں آتے ہی شمسہ بیگم کے آگے اپنی حیرت کا اظہار کر گئی
تھی۔۔۔۔
جس کے جواب میں شمسہ بیگم نے اسے گلے لگا کر پیشانی چومتے اسے مزید
حیران کر دیا تھا۔۔۔
” اماں سائیں۔۔۔۔”
اُس نے سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
آژمیر تمہارے اور زوہان کے نکاح کے لیے مان گیا ہے۔۔۔۔” شمسہ بیگم نے بہت آرام سے زنیشہ کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔ ک کیا؟؟؟ کیا ؟؟؟ کیسے۔۔۔؟؟؟
زنیشہ سے الفاظ ادا کر نا مشکل ہوئے تھے۔۔۔ اس نے پتھرائی نگاہوں سے
اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جس پر شمسہ بیگم نے اسے ہاسپٹل میں ہوا تمام واقع کہہ سنایا تھا۔۔۔ زنیشہ ساری بات سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی ۔۔ اس کے چہرے کارنگ
زرد پڑ چکا تھا۔۔۔
تو اس وجہ سے لالہ مجھ سے ناراض ہیں۔۔۔ اماں سائیں یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔۔لالہ کے سامنے یہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔؟ زنیشہ اُن سے سخت خفاد دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
کیونکہ میں مزید اپنی بیٹی کو چھپ چھپ کر روتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔ اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔۔۔ کیا تم محبت نہیں کرتی زوہان سے۔۔۔۔ تمہاری الماری کے لاکر میں زوہان کی تصویر موجود نہیں ہے کیا؟؟؟؟ شمسہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے زندیشہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
” اماں سائیں مگر ۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے کچھ بولنا چاہا تھا جب شمسہ بیگم ہاتھ اٹھا کر اسے وہیں ٹوک گئی
تھیں۔۔۔
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ ریسٹ کرو۔۔۔۔ اور یقین رکھو مجھے پر ۔۔۔۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔ شمسہ بیگم زنیشہ کو بیڈ پر لیٹا تیں اُس پر کمبل درست کرتے بولیں ۔۔۔۔ جبکہ زنیشہ کی دھڑکنیں تو یہ سوچ کر بھی جگہ پر نہیں آرہی تھیں۔۔ کہ زوہان بھی یہ بات جان چکا ہے۔۔۔ کہ وہ اُس سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔
اور آژ میر اُس کا سنجیدہ اند از زنیشہ کو الگ خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔۔۔ یہ فیصلہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت فیصلہ تھا مگر وہ بہت سی سوچوں
کی وجہ سے ٹھیک سے خویشی بھی نہیں کر پارہی تھی۔۔۔
کوئی انجانہ خوف تھا جو اس کے دل کے کسی کونے میں سر اُٹھاتا اسے بے چین
کر رہا تھا۔۔۔
@@@@@@@
گھر کے ہر فرد کے بارے میں سوچنا ہے، پریشانی کو ان کے قریب بھٹکنے بھی نہیں دینا ہے۔۔۔۔ مگر اپناز راسا بھی خیال نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ دن کب آئے گا جب آژ میر میر ان اپنے بارے میں سوچے گا۔۔۔۔ آژ میر اپنے روم کے ٹیرس پر کھڑا ماضی کی تلخ حقیقتوں کو زہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتا سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا تھا۔۔۔ جب اُسے اپنے عقب سے شمسہ بیگم کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
اماں سائیں آپ۔۔۔۔ آپ کب آئیں۔۔۔۔؟؟
آژمیر سیگریٹ سائیڈ پر رکھی ایش ٹرے میں مسلتا ان کی جانب متوجہ ہوا
تھا۔۔۔۔
بس ابھی آئی ہوں۔۔۔۔ اپنے سوال کا جواب لینے۔۔۔۔ یہ صرف میراسوال نہیں بلکہ گھر کے ہر فرد کا سوال ہے۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم سینے پر بازو باند ھے آڑ میر کے سامنے اس کے سخت لہجے کی نقل اُتارتے بولیں۔۔۔ جو وہ ہر ایک کے ساتھ رکھتا تھا۔۔۔ آژمیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔
اندر چلتے ہیں۔۔۔۔ یہاں کافی ٹھنڈ ہے۔۔۔۔”
آژ میر ان کے خیال سے کہتا انہیں بازو کے حصار میں لیے اندر بڑھ گیا
تھا۔۔۔۔۔
میں آج اس سوال کا جواب لیے بغیر نہیں جانے والی۔۔۔۔ روم میں آتے شمسہ بیگم نے اپنے وجیہ بیٹے کو گھورا تھا۔۔۔ جس نے اپنے گرد ایک سختی کا خول چڑھا کر سب کو خود سے دور کر دیا تھا۔۔۔۔
آژ میر میر ان اپنے بارے میں سوچ چکا ہے۔۔۔ اور بہت اچھا سوچا”
” ہے۔۔۔۔
آژ میر حاعفہ کو تصور میں لا کر مسکراتا شمسہ بیگم کو حیران کر گیا تھا۔۔۔اُنہیں کسی ایسے جواب کی توقع بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔
“ک کیا مطلب؟؟؟؟۔۔۔
شمسه بیگم خوشگوار حیرت میں گھرے بولیں ۔۔۔
آپ کے مطابق میری اس روکھی پھیکی زندگی کو سنوارنے والی آچکی ہے۔۔۔۔ بہت جلد آپ سے ملوانے کا رادہ رکھتا ہوں۔۔
شمسہ بیگم نے نوٹ کیا تھا کہ اُس لڑکی کا ذکر کرتے آزمیر کے چہرے پر ایک انوکھی سی مسکان تھی۔۔۔ جو اس کے دلکش مغرور نقوش کو مزید حسین بنا رہی تھی۔۔۔۔ اُنہوں نے آج سے پہلے ایسی مسکان آژ میر کے چہرے پر
کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔
اُن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اُن کی دعائیں یوں آج کے دن ایک ساتھ قبول ہو جائیں گی۔۔۔۔ نہ صرف زنیشہ اور زوہان والا معاملہ حل ہو چکا تھا۔۔۔ بلکہ آژ میر کی زندگی میں بھی کوئی لڑکی آچکی تھی۔۔۔ “کون ہے وہ اچھی لڑکی ۔۔۔۔؟؟؟ کیسی دکھتی ہے..؟؟؟
شمسہ بیگم ممتا بھرے متجسس لہجے میں بولی میں
یہ تو آپ مجھے آپ بتائیں گی اس سے مل کر ۔۔۔۔ آژمیر کی بات پر شمسہ بیگم مسکرا کر رہ گئی تھیں۔۔۔۔ اُس نے اتنی بڑی بات انہیں بتادی تھی۔۔۔ اُن کے لیے یہی کافی تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ تکیے پر سر رکھے آنے والے وقت کے خوف۔
میں گھری ہوئی تھی۔۔۔ جب سائیڈ پر پر امو بائل زور و شور سے بیج اُٹھا
تھا۔۔۔
ز نیشہ ایکدم سوچوں سے نکلتی ہڑ بڑا کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔
اس نے بے دلی سے ہاتھ بڑھاتے موبائل سکرین اپنی آنکھوں کے سامنے
کی تھی۔۔۔۔۔
جہاں جگمگاتا نمبر دیکھ اُس کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں۔۔۔
“ملک زوہان کا لنگ۔۔۔۔”
یہ الفاظ ہمیشہ اُس کی حالت غیر کر جاتے تھے۔۔۔
اس نے بہت زیادہ بہادری کا مظاہر ہ کرتے کال کاٹ دی تھی۔۔۔ یہ دلیری بھر ا کام کرتے اُس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔۔۔
مگر اس وقت وہ کم از کم زوہان سے بات کرنے کے موڈ میں تو بالکل بھی کرنے کے موڈ میں تو بالکل بھی
نہیں تھی۔۔۔
کال کاٹنے کے چند سیکنڈ بعد دوبارہ زوہان کا نام اس کی موبائل سکرین پر
روشن ہوا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے اس بار بھی وہی عمل دوہرایا تھا۔۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ بھلا اتنی زیادہ بہادری اچانک اس میں کہاں سے آگئی تھی۔۔ لیکن اس
بہادری کا انجام کتنا خطر ناک نکلنے والا تھا اس سے وہ کہیں نہ کہیں واقف
تھی۔۔۔۔۔
کال بند ہو چکی تھی۔۔۔ حیرت انگیز طور پر کچھ دیر تک ویسی ہی خاموشی چھائی رہی تھی۔۔۔ زنیشہ کو لگا تھا کہ اب وہ شاید غصہ ہو کر اسے دوبارہ کال
نہیں کرے گا۔۔۔۔
لیکن چند پل گزرنے کے بعد زوہان کی جانب سے جو میسج موصول ہوا تھا۔۔۔۔ اُسے پڑھتے زنمیشہ کے ہاتھ سے فون چھوٹے چھوٹتے بچا تھا۔۔۔
ٹیرس پر آؤ۔۔۔۔ مجھے دیکھنا ہے ۔
وہ جھٹکے سے اپنے بیڈ سے اٹھی تھی۔۔۔ تو مطلب وہ میران پیلس کے باہر کھڑے ہو کر اُسے کال کر رہا تھا۔۔۔۔اس سوچ کے ساتھ ہی زنیشہ کے
ہاتھ پیر پھول چکے تھے۔۔۔
زوہان ہاسپٹل میں آژ میر کے ساتھ پھر کوئی بدمزگی نہیں چاہتا تھا۔۔۔اس لیے زنیشہ کی خیریت جان کر وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ مگر گھر جا کر بھی کسی صورت چین نہیں ملا تھا اُ سے۔۔۔۔ زنیشہ کو جس حالت میں ہوش و حواس دے بیگانہ آژ میر کی بانہوں میں دیکھ چکا تھا، وہ اُسے سکون نہیں لینے دے
رہی تھی۔۔۔
اسی لیے وہ اب اسے ایک بار اپنی آنکھوں سے سہی سلامت دیکھنا چاہتا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ مہرون شال اپنے گرد لپیٹتی بیڈ سے اٹھی تھی۔۔۔
اگر ز وہان گھر کے باہر کھڑا تھا تو وہ اندر بھی آسکتا تھا۔۔۔ زنیشہ اس مقام پر اس کی بات سے انکار کر کے مزید اپنی شامت نہیں بلوانا چاہتی تھی ۔۔۔ کیونکہ عنقریب موصوف اُس کے شوہر کے عہدے پر فائزہ ہونے والے
شوہر نہ ہوتے ہوئے وہ اُس پر اتنار عب جماتا تھا۔۔۔اُس کے سارے جملہ حقوق اپنے نام لکھوانے کے بعد نجانے زنیشہ کا کیا بنا تھا۔۔۔ یہ سوچ ہی زنیشہ کی دھڑکنوں میں اشتعال بر پا کر جاتی تھی۔۔۔
ٹیرس پر آتے ہی زنیشہ کو ٹھنڈی ہوا کے تھیٹروں نے اپنی گرفت میں لیا
سردیوں کی گہری رات میں چاروں اور تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔ میران پیلس کی بھی تقریباً زیادہ تر لا ئنٹس آف ہو چکی تھیں۔۔۔ باہر مین گیٹ اور
بیرونی دیواروں پر لگی لائٹس ہی روشن تھیں۔۔۔
زنیشہ نے آنکھیں پھاڑ کر گیٹ کے پرے دیکھنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر سامنے پڑے وسیع و عریض لان سے پرے دیکھنا مشکل امر ثابت ہورہا تھا۔۔۔۔ زوہان کو بھلا وہ اتنے دور سے کیسے نظر آتی۔۔۔
کیا وہ واقعی آئیں ہونگے ، صرف مجھے دیکھنے ؟ مگر وہ ایسا کیوں کریں گے ؟ انہیں بھلا کب میری اتنی فکر رہی ہے؟ کہیں انہوں نے مجھے کال نہ پک
کرنے کی سزا تو نہیں دی اس صورت میں۔۔۔۔۔
زنمیشہ زوہان کو جتنا جانتی تھی۔۔ اسی لحاظ سے اندازے لگاتی وہ ملک زوہان کی ایک بار پھر ویسی ہی سنگدلی مرجھائی صورت لیے واپس پلٹی تھی۔۔ لیکن جیسے ہی مڑی اپنے عین پیچھے کھڑے شخص سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔۔۔ اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔۔ خوف سے اُس کے منہ سے پیچ برآمد ہوتے اس سے پہلے ہی مقابل اس کے ٹھنڈ اور خوف سے لرزتے سرد ملائم ہو نٹوں پر اپنی مضبوط ہتھیلی جھا گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اتنی جلدی بھلا کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں یہ کام ایک دن کے اندر کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔۔؟؟؟ کم از کم اس کے لیے ایک ہفتہ تو
” ملنا چاہیئے۔۔۔۔
حائفہ تو ان بلیک میلر کی بات سن کر ہی ششدر رہ گئی تھی۔۔۔ تاکہ تمہیں کوئی ہوشیاری کرنے کا موقع مل جائے۔۔۔۔ مت بھولنا تمہاری بہن ابھی بھی ہمارے نشانے پر ہے۔۔۔۔ تمہار از راسا انکار اُس کا کام ہمیشہ کے لیے تمام کر دے گا۔۔۔۔
مقابل شخص ہمیشہ کی طرح انتہائی بدلحاظی سے بولا تھا۔۔۔ وہ بہت اچھی
طرح سے حائفہ کی کمزوری جان چکے تھے۔۔۔
دیکھو میں انکار نہیں کر رہی اور نہ ہی
کسی قسم کی کوئی ہوشیاری کرنے کا
اراد و ر کھتی ہوں۔۔۔۔ لیکن اگر یوں اچانک میں نے کل ہی ان
سے نکاح کی ڈیمانڈ کی تو انہیں شک ہو سکتا ہے۔
حائفہ نے اپنی طرف سے اُنہیں ہینڈل کرنا چاہا تھا۔۔۔ ابھی وہ پوری طرح
خود کو اس سب کے لیے تیار نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
کہیں نہ کہیں وہ ابھی بھی آژ میر کو سب سچ بتانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ مگر یہ لوگ اب جو اسے کرنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔ اس کے بعد تو حائفہ کے پاس کوئی موقع نہیں بیچنے والا تھا۔۔۔۔
اُسے ہر حال میں اپنی زندگی کے محبوب ترین شخص کو اُس کی زندگی کاسب
سے بڑا دھوکا دینا پڑتا۔۔۔۔۔
جس کے بعد شاید وہ خود بھی جینے کے قابل نہ رہتی۔۔۔۔۔ تم واقعی اتنی بے وقوف ہو یا ہمارے سامنے بنے کا ناٹک کر رہی ہو ۔۔۔ آژ میر
میر ان کو تم پر پہلے دن سے شک ہے۔۔۔ جب تمہار ا اُس کی گاڑی کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔۔۔ مگر ابھی تک ہمارے باس کی مضبوط پلانگ کی وجہ سے وہ پکڑ نہیں پایا تمہیں۔۔۔۔ لیکن عنقریب اُسے تمہارے خلاف ثبوت ملنے والے ہیں، اُس کے آدمی ہمارے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔۔۔ اور اگر ایسا نکاح سے پہلے ہو گیا تو ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی۔۔۔۔
اس لیے تمہیں یہ سب ایک دن کے اندراندر کرنا ہو گا۔۔۔۔
آج پہلی بار اس بلیک میلر نے حائفہ سے اتنی تفصیل سے بات کی تھی۔۔۔ مگر اُس کی بات حائفہ کے پیروں تلے سے زمین کھسکا گئی تھی۔۔۔ تو اگر آژمیر سر کو مجھ پر شک ہے تو وہ میری بات مان کر مجھ سے نکاح
کیوں کریں گے۔۔۔
حائفہ کے اندر ایک اُمید پیدا ہوئی تھی۔۔۔
اس کے دل نے بے اختیار دعا کی تھی کہ کاش آژمیر کو کل ہی اُس کے بارے میں پتا چل جائے۔۔۔ پھر چاہے آژمیر اس سے نفرت کرے مگر اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔۔۔۔
کیونکہ آژ میر میران محبت کرتا ہے تم سے۔۔۔۔ تم پر شک ہونے کے باوجود تمہارے حُسن کے وار سے نہیں بچ پایا۔۔۔۔ تمہارے کہنے پر وہ تم سے نکاح ضرور کرے گا۔۔۔ اور نکاح کے بعد تم وہی کرو گی جو میں نے
تمہیں بتایا ہے۔۔۔
آخری بار بول رہا ہوں کوئی ہوشیاری مت کرنا۔۔ تمہاری بہن زندہ نہیں
بچے گی۔۔۔۔
وہ آدمی اُسے موت کی نوید سناتا فون بند کر گیا تھا۔۔
حائفہ کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح ٹوٹ کر گرنے لگے تھے۔۔۔ اسے کہا گیا تھا آزمیر سے نکاح کے بعد وہ اسے ایسی دوا دے گی جس سے آزمیر کے جسمانی اعضاء ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو جاتے۔۔۔اور وہ با مشکل
ایک دن زندہ رہ پاتا۔۔۔۔
حاعفہ کا دل اس خیال سے ہی پھٹ رہا تھا۔۔
اُس نے آخری کوشش کرتے ماورا کو کال ملانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر دو دن سے مسلسل ٹرائے کرنے کے باوجو د ماور اکافون ناٹ ریچیبل آرہا تھا۔۔۔ اُس کی یونیورسٹی کال کر کے بھی بات کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر اُن کے مطابق وہ سوات گئی ہوئی تھی کسی یونیورسٹی ٹور پر۔۔۔
حائفہ ہر طرح سے پھنس گئی تھی۔۔۔ اب اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں
تھا۔۔۔

ز نیشہ کی آنکھوں کی پتلیاں نا قابل یقین حد تک پھیل چکی تھیں۔۔۔۔ ملک زوہان میران اُس کے کمرے کے ٹیرس پر اس کے مقابل کھڑا تھا۔۔۔۔ وہ ایک بار پہلے بھی آیا تھا۔۔۔ مگر فرق اتنا تھا کہ اس بار وہ گن لے کر اُسے دھمکانے نہیں بلکہ اس کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا۔۔۔۔ جوز نیشہ کے لیے بے انتہا غیر یقینی بات تھی ۔۔۔۔
وہ ابھی بھی اس بات پر یقین نہیں کرتی تھی کہ زوہان اس سے محبت کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ زوہان نے کبھی اس سے اتنی نرمی سے بات کی ہی نہیں تھی۔۔۔ ہمیشہ دھمکیاں ہی دی تھیں۔۔۔۔
کیا ہے بھوت دیکھ لیا
تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی
ہو۔۔۔۔
زوہان اس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹاتا اس کی بالکل لال ہوئی چھوٹی سی ناک
کو دبا تااُس کی جھانکتے بولا تھا۔۔۔۔
آپ ۔۔۔ پپ۔۔۔۔۔ ز نمیشہ سے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔ پہلے جو وہ ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی۔۔۔اب اس میں بے حد قریب کھڑے شخص کا خوف بھی شامل ہو چکا تھا۔۔۔۔ اس کے کمرے کی لائٹس آن تھیں۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ پوری تاریکی میں نہیں تھے ۔۔۔ کوئی بھی نیچے سے کھڑا ہو کر انہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔ اوپر سے آج آژ میر بھی گھر پر ہی موجود تھا۔۔۔۔ زنیشہ کی خوف سے جان
نکلنے لگی تھی۔۔۔
شاید تم بھول رہی ہو ۔۔۔ یہ گھر جتنا تمہارے بھائی کا ہے اتنا میر ابھی ہے۔۔۔۔ یہ تو یہ لوگ میرا احسان سمجھیں کہ یہیں ان سب کے بیچ رہ کر
ان کی زندگیاں اجیرن نہیں کر رہا میں۔۔۔۔
آژ میر کے خیال کے ساتھ ہی زوہان کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔۔۔۔
اُس کی بات پر زنیشہ اُسے گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔اب وہ منہ سے کچھ بھی نکالنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔ نہ اتنی ٹھنڈ میں اُس سے کچھ بولا جارہا
تھا۔۔۔
” کیسی طبیعت ہے تمہاری اب ؟؟؟”
زوہان حیرت انگیز طور لال پڑتا چہرا دیکھ قدرے نرمی سے بولا
پر زنیشہ کا گھور ناکام آیا تھا۔۔۔۔
زوہان اِس وقت سیاہ لباس میں ملبوس، سیاہ گرم شال اپنے شانوں پر ڈالے رات کے اس پہر بھی بالکل فریش لگ رہا تھا ۔۔۔۔ پتا نہیں یہ شخص ہر وقت اتنا پر فیکٹ کیسے بنار ہتا تھا۔۔۔۔ زنیشہ سوچ کر رہ گئی تھی۔۔۔ مجھے ٹھنڈ لگ جانے کی وجہ سے بخار ہو تھا۔۔۔۔اسی وجہ سے بے ہوشبھی ہو گئی تھی۔۔۔ اور میں ابھی بھی بیمار ہوں۔۔۔
زنیشہ نے دبے لفظوں میں اُسے جتایا تھا۔۔۔ کہ وہ ابھی اُسے اتنی ٹھنڈ میں
کھڑا ہونے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔۔۔۔
اُس کے اِس نر و ٹھے انداز پر زوہان کے ہونٹوں سے گوشے میں مسکراہٹ نمایاں ہو کر فور معدوم ہوئی تھی۔۔۔
تو چلو اندر۔۔۔۔ اندر چل کر باقی باتیں کرتے ہیں۔۔ عنقریب ہماریشادی ہے مجھے بیمار دلہن کسی صورت نہیں چاہیئے۔۔۔۔ زوہان نے اُس کی فکر کی بھی تھی تو کس انداز میں زنیشہ جل کر رہ گئی
یہ شخص نہ اُس سے محبت کرتا تھا نہ اُس کی فکر ۔۔۔۔
غصے سے سوچتے زنیشہ نے اس بات پر سو فیصد اتفاق کیا تھا۔۔۔۔ وہ زوہان کے ساتھ تنہا کمرے میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔ مگر یہاں اگر مزید کچھ دیر کھڑی رہتی تو اس کی کلفی جم جانی تھی۔۔۔۔ زوہان کو پیچھے بہلتے دیکھ وہ روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
زوہان بھی اس کے پیچھے اُس کے روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ جہاں ہیٹر آن ہونے کی وجہ سے کافی پر حرارت ماحول تھا۔۔۔۔
کیا میں اب وجہ جان سکتا ہوں اُس کی گستاخی کی جو تم نے میری کال پک نہ
کر کے کی ہے۔۔۔
زوہان میرون شال میں اپنا نازک وجود چھپائے اس کی موجودگی کی وجہ سے ایک ہی جگہ پر ڈری سہمی کھڑی اُس کی ساری توجہ اپنی جانب کھینچتی ز نیشه
سے مخاطب ہو ا تھا۔۔۔۔
میں آپ کی پابند نہیں ہوں۔۔۔۔۔
زنیشہ نے نظریں زمین میں گاڑھے اپنے آپ سے بھی کافی بھاری جملہ بولا
تھا۔۔۔۔
یہ اچانک اتنا کانفیڈنس مسز زوہان بننے کے خیال سے آگیا ہے
“کیا۔۔۔۔؟؟؟
زوہان نے اُس کے ایٹی ٹیوڈ پر چوٹ کرتے کہا تھا۔۔۔ کہ یہ آگے اُسے کتنا
بھاری پڑ سکتا ہے۔۔۔۔
مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔
زنیشہ نے پلکیں اُٹھاتے زوہان کی جانب دیکھ کر یہ جملہ ادا کیا تھا۔۔۔لیکن اگلے ہی لمحے زوہان کی لال آنکھیں دیکھ اُس کی پلکیں لرزتی واپس جھک گئی
تھیں۔
تم چاہتی کیا ہو۔۔۔۔ میں ابھی تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں۔۔۔۔؟؟؟” زوہان سینے پر باز و باند ھتے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے اُس کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
آپ بہت زیادہ برے ہیں ۔۔۔۔ “
زنیشہ آج الگ ہی موڈ میں تھی۔۔۔۔
تمہاری سوچ سے بھی کہیں زیادہ بُرا ہوں۔۔۔ یہ بات تم میری دسترس
میں آنے کے بعد ہی جان سکو گی۔۔۔
زوہان بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔۔۔۔
اُس کے خدشات دور کرنے کے بجائے مزید بڑھا رہا تھا۔۔۔ زنیشہ اُس کی اس دبی دھمکی پر اندر تک کانپ گئی تھی۔۔۔ زوہان کی گہری نگاہیں اس کی من موہنی صورت پر جسم سی گئی تھیں۔۔۔۔
آپ کو جس سے محبت ہے سے شادی کریں نا۔۔۔۔ میرے پیچھے
کیوں پڑے ہیں۔۔۔۔
زنیشہ خنکی بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔ مگر در حقیقت یہ بات کہتے
اُس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔
اُس سے بھی کروں گا۔۔۔ بتایا تھا تم
زوہان کا جواب زنیشہ کو اندر باہر سے جھلسا گیا تھا۔۔۔
یہ تمہارے تکیے کے نیچے کس کی تصویر پڑی ہے۔۔۔۔ زنیشہ اُسے کوئی جواب دینے ہی والی تھی۔۔۔ جب زوہان کے سوال اور اُس کی نگاہوں کا تعاقب نوٹ کرتے زنیشہ بوکھلا گئی تھی۔۔۔
کسی کی بھی ہو۔۔۔ آپ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔
زنیشہ پہلے ہی اس کی باتوں پر تپی ہوئی تھی۔۔۔ اوپر سے اپنے پکڑے جانے کے خوف سے اُسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ کیا بولے۔۔۔۔۔اس نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے جلدی سے تصویر اُٹھا کر اپنی پیٹھ پیچھے کر لی تھی ۔۔۔۔
ایسا کیا ہے اس پکچر میں۔۔۔۔”
زوہان اس کی جانب پیش قدمی کرتا مصنوعی متجس لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔ کچھ نہیں ہے۔۔۔ میں کبھی نہیں دیکھاؤں گی آپ کو ۔۔۔۔۔ زنیشہ نے تصویر مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ زوہان کو اسے چھیننے میں ایک سیکنڈ نہیں لگے گا۔۔۔۔
میری یہ تصویر کافی پرانی ہو چکی ہے اب۔۔۔ میں اپنی کچھ نئی تصویریں بھیج دوں گا۔۔۔ اُن میں سے سلیکٹ کر لینا کہ کونسی تصویر کو رات کو سینے سے لگا کر سونا ہے۔۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔۔اور اپنا خیال رکھنا۔۔۔ مجھے میری
دلہن بالکل فٹ فاٹ چاہئے۔۔۔۔
زوہان معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ زندیشہ کے چودہ طبق روشن کرتا اُس کے
گال کو دوانگلیوں سے ٹچ کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ زنیشہ اپنی جگہ بت بنی کھڑی رہی تھی۔۔۔
اُسے کتنے لمے لگے تھے۔۔۔ واپس ہوش کی دنیا میں لوٹنے میں۔ زوبان کو اس بارے میں علم تھا ۔۔۔۔ مگر کیسے ۔۔۔
زنیشہ کا چہرہ شرمندگی اور خفت سے لال ہو چکا تھا۔۔۔۔ اس مشکل ترین انسان کو سمجھ پانا اس کے لیے ہمیشہ نا ممکن رہا تھا۔۔۔ اور وہ
اُس کے بارے میں ایک ایک خبر رکھتا تھا۔۔۔
زنیشہ کے لیے اس شرمندگی سے نکل پانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔ اب دوبارہ وہ کیسے زوبان کا سامنا کرے گی۔۔۔۔ زنیشہ اپنالال چہرا ہتھیلیوں
میں چھپائے وہیں بیٹھ گئی تھی۔۔۔
@ @ @ @ @ @ @ @ @
آژ میر فجر کے وقت میران پیلس سے نکل آیا تھا۔۔۔ اور اب تقریباً بارہ بجے کے قریب وہ اپنے شہر والے بنگلے پر پہنچا تھا۔۔۔اُس کا ارادہ فریش ہو کر
آفس کے لیے نکلنے کا تھا۔۔۔
اسی غرض سے وہ اپنے روم میں گیا تھا، جب کچھ دیر بعد اُس کا ملازم دروازے پر ناک کرتا اُس کی اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ سائیں نیچے گیٹ پر کوئی لڑکی آئی ہے۔۔۔ وہ آپ سے ارجنٹ ملنا چاہتی ہے۔۔۔ میں نے بتایا بھی کہ آپ ابھی ریسٹ کر رہے نہیں مل سکتے۔۔۔
” مگر وہ میری بات نہیں سن رہی۔۔۔۔
طاہر جو اُس کے بنگلے کی دیکھ بھال کے لیے معمور ملازمین کا ہیڈ تھا۔۔۔۔ آژ میر سے کسی لڑکی کا ملنے آنا اس نے اتنے سالوں میں پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔
اس لیے اُسے یہی لگا تھا کہ کوئی ویسے ہی ہو گی۔۔۔
” نام بتا یا اس نے اپنا۔۔۔”
اپنی ٹائی کی ناٹ لگاتے آثر میر نے پلٹ کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
“جی سر۔۔۔ کوئی حاعفہ نامی لڑکی ہے۔۔۔۔ “
طاہر کے نام لینے کی دیر تھی۔۔۔آژ میر جھٹکے سے پلٹتاطاہر کو سرد نگاہوں
سے گھور گیا تھا۔۔۔
تم جانتے بھی ہو کس کے ساتھ اتنار و ڈلی ہیو کر کے آرہے ہو تم ؟؟؟” آر میر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ حائضہ کو ابھی تک گیٹ پر کھڑار کھنے کے
جرم میں ایک پنچ تو رسید کر ہی دے۔۔۔
“سوری سر۔۔۔۔۔” طاہر اُس کے برہم تاثرات دیکھ ہولے سے منمنا یا تھا۔۔۔ مگر تب تک آژ میر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔ حاعفہ کی اس کی لائف میں اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ وہ اُسے لینے خود گیٹ تک جارہا
تھا۔۔۔۔
آژ میر میران اپنی فیملی کے کچھ خاص ممبر ز کے علاوہ کسی کو اتنی ویلیو نہیں
دیتا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ لرزتے قدموں سے آژمیر کے سفید کلر کے بے حد خوبصورت بنگلے کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ دو بار اُس کے قدم لڑکھڑائے تھے ۔۔ مگر اس
نے بہت مشکل سے خود کو کمپوز کر ر کھا تھا۔
باہر لگی سختی پر لکھا اس کا نام دیکھ حائفہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسوؤں
کا سیلاب امڈ آیا تھا۔۔۔
مگر اپنے آنسوؤں کو دل میں اُتارتی وہ آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُسے یہ سب کرنا تھا
اپنی اکلوتی بہن کی حفاظت مرتے دم تک کرنی تھی۔۔۔
اپنی ماں سے کیا آخری وعدہ نبھانا تھا۔۔۔۔۔ پھر چاہے اس کے لیے اپنا دل
کاٹ کر پھینکنا پڑتا۔۔۔
اس کی زندگی کے سب سے مشکل ترین لمحے تھے یہ ۔۔۔ جن میں وہ اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ہارنے والی تھی۔۔۔۔
حائفہ وہاں کھڑی ملازم کے واپس آنے کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔ جب اُسے اندر سے ملازم کی جگہ آژ میر آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر
آژ میر کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔۔۔
حائفہ نے صاف نوٹ کیا تھا کہ اس پر نظر پڑتے ہی آژ میر کی آنکھوں کی چمک میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔۔
” حائفہ یہاں کیوں کھڑی ہو تم ۔۔۔ کم ان پلیز ۔۔۔”
آژ میر اُس کے قریب آتے بولا تھا۔۔۔۔
جب حائفہ کی لال سوجی آنکھوں کو دیکھ وہ لمحہ بھر کو ٹھٹھکا تھا۔۔۔ مگر اپنی بات کے جواب میں حائفہ کے مسکرا کر دیکھنے پر اپنی سوچ جھٹکتا اُسے لیے
اندر بڑھا تھا۔۔۔۔
” سر مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔”
حاعفہ اُس کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی فوراً اپنے مقصد کی
جانب آئی تھی۔۔۔
وہ بہت مشکل سے یہاں تک آئی تھی۔۔۔ جتنازیادہ وقت لگتا انتفادہ کمزور
پڑتی اس لیے اس نے فور آوہ کام کرنا چاہا تھا جس کے لیے وہ یہاں آئی
تھی۔۔۔ “جی بولیں۔۔
آژمیر کی نظریں حائفہ کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے
تھیں۔
کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں کرتے ہیں ؟؟
حائفہ اپنے آپ کو حتی الامکان نارمل رکھنے کی
کوشش کیے ہوئے تھی۔۔۔
اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی تھی۔۔۔ مگر وہ اور اُسے بھیجنے والے شاید یہ بھول چکے تھے کہ سامنے بھی زیرک نگاور کھنے والا کوئی عام کھلاڑی
نہیں کھڑ ا تھا۔۔۔
تو کیا تمہیں میرے الفاظ پر یقین نہیں۔۔۔ تمہیں پر وف
چاہیئے۔۔۔۔؟؟؟
آژ میر کی نظریں حائفہ کی انگلیوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ جنہیں وہ مروڑ مروڑ کر بالکل لال کر چکی تھی۔۔۔۔
جی۔
آثر میر کی بات پر حائفہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے تھے۔۔۔ آژ میر نے آج پہلی بار حائفہ کو اپنے سامنے اس طرح بات کرتے دیکھا تھا۔۔۔۔
… کیا پروف چاہیئے ؟؟؟”
آژ میر کی نظروں میں ایک عزم نظر آیا تھا۔۔۔
اگر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور مجھ پر ٹرسٹ کرتے ہیں تو آپ کو ابھی اور اسی وقت مجھ سے نکاح کرنا ہو گا۔۔
یہ الفاظ ادا کرتے حائفہ کے دل کے کئی ٹکڑے ہوئے تھے۔۔۔۔ آژ میر اُس کی بات پر بنا کوئی جواب دیئے کچھ پل اُسے دیکھتا رہا تھا۔۔۔ اُسی لمحے اُسے کوئی میسج ریسیو ہوا تھا جسے پڑھتے آژ میر کے چہرے کا رنگ لمحہ
بھر کو متغیر ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اس نے موبائل پر کوئی نمبر
ڈائل کرتے کان سے لگا یا تھا۔۔۔
اگلے تیس منٹ کے اندر نکاح خواں اور گواہان کا انتظام کر کے آژ میر مینشن پہنچو۔۔۔۔ فوراً۔۔۔۔۔
آژ میر کے فون پر ادا کیے جانے والے الفاظ سن کر حاعفہ نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسے آژ میر کے اتنی جلدی مان جانے کی بالکل
اُمید نہیں تھی۔۔۔۔
جس بات کا یہی مطلب تھا کہ آژ میر ابھی تک اس کے بارے میں کچھ بھی
نہیں جان پایا تھا۔۔۔۔
حائفہ نے مٹھیاں سختی سے بھینچتے اپنے اندر اٹھتے اضطراب پر قابو پایا
تھا۔۔۔۔
اُسے کچھ لمحوں بعد ہونے والے نکاح پر خوش ہونا چاہئے تھا۔۔۔ مگر اُس کا
دل خون کے آنسور ورہا تھا۔۔۔۔
کیا ہواحاعفہ آریواوکے ؟؟
آژمیر اُس کی زرد پڑتی رنگت دیکھ فکر مندی سے بولا تھا۔۔۔۔
” یس سر میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
حائفہ بمشکل الفاظ ادا کر پائی تھی۔۔۔
تم اپنی طرف سے اس نکاح میں کسی کو بلانا چاہو گی۔۔۔۔ آخر میر کی بات پر حاعفہ نے نظریں اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ لمحہ بھر کو وہ چونک گئی تھی۔۔۔ اسے آژمیر کی نگاہوں میں ایک عجیب سا سرد پن دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کے گوشے لال تھے۔۔ جیسے شدید غصے
کے عالم میں ہوتے تھے۔۔۔
مگر اُس کا لہجہ اُتنا ہی نرم تھا۔۔۔حاعفہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔ حامہ آج سے پہلے ہمیشہ آژ میر کے سامنے اپنے اصل کردار میں ہی رہی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ آخر میر چاہ کر بھی اس کے اس معصومیت بھرے رُوپ
پر شک نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔ مگر آج پہلی بار وہ اُن بلیک میلر ز کے کہے کے مطابق عمل کر رہی تھی۔۔۔۔ اور وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ کتنی
خراب ایکٹر نکلی تھی۔
@@@@@@@
بھا بھی کیا یہ سچ ہے ؟؟؟ آژ میر کی زندگی میں واقعی کوئی لڑکی ہے۔۔۔۔ حمیرا بیگم حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولی تھیں۔۔۔ وہاں موجود میران پیلس کی باقی خواتین کی کنڈیشن بھی کچھ ایسی ہی
آژمیر میر ان کا کسی لڑکی کے حوالے سے تصور ہی ان کے لیے نہایت خوش کن تھا۔۔۔ ورنہ جب بھی اُس سے شادی کا پو چھا جاتا تو جواب میں اُس کا
غصہ دیکھنے کو ہی ملتا تھا۔۔۔۔
پتا نہیں وہ کون خوش نصیب لڑکی ہے۔۔۔ جسے آژمیر میر ان کی چاہت حاصل ہے۔۔۔ آپ کو آژمیر سے اُس کی ایک تصویر تولے لینی تھی۔۔۔
اب ہم سب اتنا صبر کیسے کریں گے۔۔۔۔
آمنہ بیگم سے بھی خاموش نہیں رہا گیا تھا۔۔۔۔ جیسے آژمیر گھر کے ہر فرد کا خود سے بڑھ کر خیال رکھتا تھا۔۔۔ ویسے ہی باقی سب کو بھی وہ بے پناہ عزیز تھا۔۔۔ اس کی خوشی سب کے چہروں پر رونق بکھیر گئی تھی۔۔۔۔ تھینک گاڈلالہ کو بھی کوئی لڑکی پسند آئی۔۔۔۔
سب لوگوں میں سے سب سے زیادہ ایکسائیٹڈ زنیشہ ہی تھی۔۔۔۔ جسے چند دنوں میں اپنے ہونے والے نکاح کے بجائے آژمیر کے لیے بہت خوشی
محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ مجھے میرے بچوں کی خوشیاں دیکھانے والا ہے۔۔۔۔ میرے آژمیر نے اب تک کی زندگی میں بہت مشکلات دیکھی
ہیں۔۔۔ بہت جگہ اُسے تکلیفیں برداشت کرنی پڑی ہیں۔۔۔ اُس لڑکی کو
میرے بیٹے کے حق میں بہتر ثابت کرنامیرے مولا۔۔۔ شمسہ بیگم نے ہاتھ اٹھا کر سچے دل سے اپنے رب سے دعا مانگی تھی ۔۔۔ جس میں باقی سب نے بھی اُن کا ساتھ دیا تھا۔۔۔
وہ سب خواتین ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھیں دودنوں بعد ہونے والے زوبان اور زنیشہ کے نکاح کی تیاریاں ڈسکس کر رہی تھیں۔۔۔
شمہ بیگم نے کل ہی کال کر کے شہر کے دو مشہور ڈیزائنرز کو بلوایا تھا۔۔۔ جنہوں نے ابھی کچھ دیر میں اپنے جدید ڈریسز کے ساتھ پہنچنا تھا۔۔۔ وہ سب ابھی اسی انتظار میں بیٹھی تھیں۔۔۔ جب چار پانچ ملازم با مشکل ایک بھاری لہنگا لیے اندر داخل ہوئے تھے۔۔
جسے دیکھ سب خواتین کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔۔۔ وہ سلور اور ریڈ امتزاج کا بے پناہ حسین لہنگا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ میچنگ کی جیولری،
سینڈل سب کچھ بھیجا گیا تھا۔۔۔۔
یہ کہاں سے آیا ہے ؟؟
شمسہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے ملازمین کو دیکھا تھا۔۔۔ باقی سب کا بھی
یہی سوال تھا۔۔۔
بی بی سائیں یہ زوہان سائیں نے بھیجا ہے۔۔۔ زنیشہ بی بی کے
وہ چاروں ملازمین زوہان کے ہی تھے۔۔۔ جن میں سے ایک سر جھکا کر جواب دیتا۔ وہ ساری چیزیں ایک طرف رکھے بڑے سے ڈائی
سجاتے وہاں سے نکل گئے تھے۔
ٹیبل پر
اُس کی بات سن کر سب نے رنگ بھری ستائشی نظروں سے زنیشہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ سب کو یقین کو چکا تھا کہ زوبان واقعی زنمیشہ سے بہت محبت کرتا
تھا۔۔۔ ورنہ زوہان جیسے بندے سے ایسے کسی عمل کی توقع رکھنا مشکل
تھا۔۔۔
زنیشہ سب کی شوخ نظریں خود پر محسوس کرتی بُری طرح شر مندہ ہوئی تھی۔۔۔ ملک زوہان کو کبھی کسی کی پرواہ نہیں رہی تھی۔۔۔ مگر اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایسی حرکتیں کر کے اُس کی حالت خراب کرنے کا ارادہ
رکھتا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
آژ میر کے کہے کے مطابق اس کا خاص آدمی فیصل اگلے آدھے گھنٹے میں
کے ساتھ آژ میر کے
دوستوں کو لیے حاضر ہو چکا
تھا۔۔۔ آژ میر کا بہترین دوست نصیر اپنی بیوی کو بھی ساتھ لایا تھا تا کہ وہ
نکاح کے ٹائم پر حائفہ کے ساتھ ہو۔۔۔۔
حاعفہ اپنی مخصوص سیاہ شال میں چہرا چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔ اُس نے نصیر کی بیوی صائمہ کو بھی اپنا چہرا نہیں دیکھا یا تھا۔۔۔
وہ اس وقت جس تکلیف سے گزر رہی تھی۔۔۔ یہ اُس کا رب جانتا تھا۔۔۔۔
کچھ لمحوں بعد مولوی صاحب رجسٹر لیے اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔ نکاح
کے بولوں پر رضا مندی میں جواب دیتی حافظہ نکاح نامہ پر سائن کر گئی
تھی۔۔۔۔
اپنا آپ آژ میر میر ان کے نام لکھوانے پر اس کا دل ایک بار زور سے دھڑ کا تھا لیکن اگلے ہی لمحے وہ بالکل ساکت ہو چکی تھی۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ یہ نکاح اس کی زندگی میں خو ش کے نور بن کر نہیں آنے
والا تھا۔۔۔ بلکہ یہ اُس کے لیے ایک بھیانک حقیقت ثابت ہونے والا تھا۔۔۔۔۔ جس کا احساس ابھی سے ہی اُس کی سانسیں جکڑنے لگا تھا۔۔۔۔ کی مولوی صاحب کے جانے کے بعد بھی وہ بت بنی اُسی جگہ بیٹھی رہی تھی۔۔۔ صائمہ نے اسے ایک دو بار مخاطب کیا تھا۔۔۔ مگر اسکی جانب سے جواب نہ پاکر وہ خاموشی سے روم سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔
حائفہ اپنا ایک کام کر چکی تھی۔۔۔ اب اُسے اپنا اگلا کام سرانجام دینا تھا۔۔۔۔ اُس نے ارد گرد دیکھتے اپنے ہینڈ بیگ کو تلاش کرنا چاہا تھا۔۔
جب اچانک اس خیال کے آتے کہ وہ اپنا ہینڈ بیگ باہر آژمیر کے ڈرائینگ میں چھوڑ آئی ہے۔۔۔ وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھتی باہر کی طرف بھاگی
تھی۔۔۔۔
ڈرائینگ روم میں قدم رکھنے سے پہلے اُس نے اندر جھانکا تھا۔۔۔ وہاں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ شاید سب لوگ نکاح کے بعد جا
حاعفہ نے اندر جاتے سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے پرس کو اُٹھاتے اُس میں موجود اپنی مطلوبہ شے کے ہونے کی تصدیق کی تھی۔۔۔
حائفہ کو آژمیر کہیں نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔ جب کچھ دیر بعد اسے ملازمہ چائے کی ٹرے سجائے اندر آتے دیکھائی دی تھی ۔۔۔۔
حاعفہ خاموش نظروں سے چائے کے مگ کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔ جو ملازمہ ایک اُس کے لیے اور ایک آژمیر کے لیے بنا کر گئی تھی۔۔۔
حاعفہ نے ارد گرد سے نظریں بچاتے اپنے بیگ سے مطلوبہ گولیاں نکالتے سامنے رکھے آژ میر کے کپ میں ایک آدھی گولی ملادی تھی۔۔۔۔
یہ وہ زہر کی گولیاں تھیں جو ان بلیک میلرز کی جانب سے بھیجی گئی تھیں۔۔۔ ان کے مطابق حائفہ کا آرمیر کی چائے میں 7 سے 8 کی تعداد میں گولیاں ملانی تھیں ۔۔۔ تب ہی وہ اثر کرتیں۔۔۔ مگر حاعفہ یہ مرکربھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اس نے آژمیر کے کپ میں صرف گولی کا اتنا حصہ ملایا تھا جس سے وہ صرف بمشکل بے ہوش ہو پاتا۔۔۔۔
جبکہ باقی کی دس گولیاں اس نے بڑے ہی پر سکون انداز میں اپنی جائے میں
مکس کر دی تھیں۔۔۔
اپنی زندگی کے دو قیمتی ترین لوگوں کو بچانے کے لیے وہ اپنا آپ قربان
کرنے والی تھی۔۔۔۔
آژمیر کے آخری بار دیدار کی خواہش لیے وہ چائے کا گھونٹ گھونٹ اپنے
حلق میں اُنڈیلنے لگی تھی۔۔۔۔

Share with your friends on Facebook


Updated: April 10, 2025 — 6:17 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *