Haifa and Zanisha Novel Part 14 – Best Urdu Stories of 2025 | Read Free & Download PDF


Haifa and Zanisha Part 14 continues the journey of two unforgettable characters caught in a web of romance, secrets, and emotional struggles. With every chapter, this novel cements its place among the best Urdu stories of the year.

This part is filled with heartfelt moments, dramatic scenes, and unexpected emotional turns that keep the reader glued till the last line. Whether you’re reading online or downloading to enjoy offline, this part won’t disappoint!

Best Urdu Stories

Haifa and Zanisha Novel Part 14 – Best Urdu Stories

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 13

وہ آدھی چائے پی چکی تھی جب آژ میر اسے اندر آنادیکھائی دیا تھا۔۔۔۔
نکاح کی بہت بہت مبارک ہو مسز آژ میر میران۔۔۔۔۔ آژ میر چہرے پر پتھر یلے سرد تاثرات سجائے حاعفہ سے مخاطب ہو تا اُس کے سامنے صوفے پر براجمان ہوا تھا۔۔۔۔
حائفہ کے ہاتھ میں موجود کپ پر اُس نے ایک سرد نگاہ ڈالی تھی۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنے سامنے پڑاکپ اُٹھا لیا تھا۔۔۔۔
اب یقین آگیا میری محبت کا۔۔۔ یا ابھی بھی دلانا باقی ہے۔۔۔۔ آژ میر کی وحشت ناک نگاہوں پر حائفہ کے ہاتھ میں پکڑانگ لرز گیا
تھا۔۔۔
وہ آدھے سے بھی زیادہ چائے پی چکی تھی ۔۔۔۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے کپ چھوٹ جانے کے خوف سے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا
تھا۔۔۔۔
آثر میر اپنے اندر اٹھتے اُبال پر قابو پانے کے چکر میں ایک ہی سانس کے اندر ،
کپ خالی کر گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ نے در زیدہ نگاہوں سے اُس کا یہ روپ دیکھا تھا۔۔۔۔
سر وہ۔۔۔۔۔
حائفہ کچھ بولنے ہی والی تھی جب آژ میرا اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی جانب
بڑھا تھا۔۔۔
مجھ سے نکاح کرنے کا تمہار اپلان کامیاب ہو چکا ہے۔۔۔۔اب بولو کون
ہو تم ۔۔۔۔۔؟؟
آژ میرااس کی کلائی دبوچ کر اپنے مقابل کھڑا کرتا اونچی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر نرمی کی زراسی رمک تک نہ تھی۔۔۔ اُسے دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ وہ ابھی حائفہ کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دے گا۔۔۔۔ آژ میرا کی انگلیاں اُسے اپنے بازو میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ تکلیف کے احساس سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
مگر اُس کے پاس آژ میر کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ وہ بس یک تک ڈبڈ ہائی آنکھوں سے اپنے محبوب کا خوبرو چہرا سکے جارہی تھی۔۔۔ اُس کے پاس وقت کم تھا۔۔۔۔ مگر جتنا تھاوہ آژمیر میر ان کے قریب ہی رہ
کر گزارنا چاہتی تھی۔۔۔
کیا ہوا حیرت ہو رہی ہے کہ میری چائے میں شامل کی جانے والی تمہاری زہر سے میں اب تک مرا کیوں نہیں؟؟؟
آژ میر ٹھوڑی سے دبوچ کر اُس کا چہرا اپنی جانب اُٹھاتا حاعفہ کواب گہر ا جھٹکا
دے گیا تھا۔۔۔
تو وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حائفہ اُسے زہر دینے والی ہے۔۔۔ پھر بھی اُس نے
نکاح کیا تھا۔۔۔
کیا وہ اُس کے ایک طوائف ہونے کے بارے میں جان چکا تھا؟؟
حاعفہ کتنے ہی لمحے بے یقینی سے اُسے تکے گئی تھی۔۔۔۔ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ اگر
آژ میر سب جان چکا تھا تو اب تک اُسے اپنے ہاتھوں سے
ختم کیوں نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔
کئی سوال تھے جو اس کے اندر سر اُٹھارہے تھے ۔۔۔ مگر وہ چاہ کر بھی یہ سب آژ میر سے پوچھنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔
اس وقت اُسے صرف آژ میر کو خود سے نفرت کا احساس دلوانا تھا۔۔۔۔ ہاں مجھے حیرت ہو رہی ہے۔۔۔ کیونکہ آپ کامر نامیری زندگی کے لیے بہت اہم ہے۔۔۔۔ میرے پچھلے اتنے دنوں کی محنت کے بعد ہی تو میں اس
مقام تک پہنچ پائی ہوں ۔ آژمیر میر ان
کو محبت کے فریب میں
پھنسانا آسان کام تھوڑی تھا۔۔۔۔
حائفہ اُس سے اپنا چہرا آزاد کرتی زہر خند لہجے میں بولتی آژ میر کو مزید آگ لگا گئی تھی۔۔۔ وہ جو کافی حد تک اسے حائفہ کی مجبوری سمجھ رہا تھا اس کے
لہجے میں اپنے لیے اتنی نفرت دیکھ اُس کا اپنی محبت سے رہا سہا بھرم بھی ٹوٹ
گیا تھا۔۔۔
” کس کے کہنے پر یہ ناٹک کیا ہے تم نے۔۔۔۔”
آژ میر اُسے بالوں کی گدی سے پکڑ کر اُس کا چہرا اپنے قریب کرتے اپنی گرم سانسوں سے اُس کا چہرا جھلساتے دھاڑا تھا۔۔۔۔
یہ لڑکی اس کے ساتھ یہ کھیل کھیل کر کتنا بڑا جرم کر چکی تھی۔۔ آژ میراب اُس کی زندگی اجیرن کر کے اُسے اچھے سے سمجھانے والا تھا۔۔۔ حائفہ سے اُس کی اس جان لیوا قربت کے آگے بولنا محال ہو ا تھا۔۔۔اُس کے ہونٹ کپکپا کر رو گئے تھے ۔۔۔
اُسے حیرت ہو رہی تھی کہ ابھی تک اُس پر زہر کی لی جانے والی دس گولیوں
کا اثر کیوں نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی باہر سے ایک دم زور دار فائرنگ کی
آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔۔۔
حاعفہ نے دہل کر آثر میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ اُسے بلیک میلر ز کے اِس
پلان کا علم بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔
پہلے تمہارے اُن ساتھیوں سے نبٹ لوں پھر تمہیں تمہارے انجام تک
پہنچاؤں گا۔۔۔۔
آژمیر کے نفرت آمیز الفاظ کے ساتھ حائفہ کو اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا درد نظر آیا تھا۔۔۔ محبت میں ملنے والی بے وفائی کادر د۔۔۔۔ حائفہ کا دل جیسے کسی نے چیر کر رکھ دیا تھا۔۔۔
وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے مر جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اُس پر تو موت کو بھی پر تو
ترس نہیں آرہا تھا۔۔۔
آژ میر اُسے ایک ہی جھٹکے میں اپنی گرفت سے آزاد کرتاد ور دھتکار چکا
تھا۔۔۔
باہر دل کو لرزادینے والی فائر نگ لمحہ با لمحہ بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔
حاعفہ نے زبان سے بنا کچھ بولے ہاتھ بڑھا کر آژ میر کا بازو تھامتے اُسے باہر
جانے سے روکنا چاہا تھا۔۔۔۔
آژمیر نے پلٹ کر لہو ٹپکاتی نظروں سے اسے دیکھتے دور جھٹکا تھا۔۔۔ جس کے جواب میں حائفہ پیچھے رکھے صوفے پر جاگری تھی۔۔۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش بالکل بھی نہیں کی تھی۔۔۔ اور اس کا سر سید ھا ساتھ
پڑی کرسی کے ہینڈل سے لگتا اسے لہولہان کر گیا تھا۔۔۔۔ آژ میر بنا پلٹ کر اُس کی جانب دیکھے باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
زنیشہ زوہان کی جانب سے بھیجی جانے والی چیزوں کو بنا دیکھے گھر کی سب خواتین کی نظروں سے گھبراتی اپنے روم میں واپس آگئی تھی۔۔۔ گھر میں سب بہت خوش تھے۔۔۔ کیونکہ دو بہت ہی انہونی باتیں ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ نہ صرف زوبان اور زندیشہ کا نکاح ہونے والا تھا بلکہ آژ میر بھی
اپنی شادی کے لیے حامی بھر چکا تھا۔۔۔۔
شمسہ بیگم بے حد خوش تھیں۔۔۔ لیکن زنیشہ کے رگ وپے میں ایک عجیب سی بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کچھ
غلط ہونے والا ہے۔۔۔۔
اپنے اندر کی گھٹن سے گھبراتے اُس نے ریموٹ اُٹھاتے ٹی وی آن کر لیا تھا۔۔۔ مختلف چینل سرچنگ کرتے اس کا انگوٹھا ایک چینل پر آکر ساکت ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ سامنے چلتے نیوز چینل پر ایک بار پھر ثمن خان اور ملک زوہان کو ایک ساتھ ایک کپل کے طور پر دیکھا یا جار ہا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں شاید کسی بزنس میٹنگ کے لیے دبئی جارہے تھے۔۔۔۔ زنیشہ اندر تک جل کر خاک ہوئی تھی۔۔۔ جب اس شخص کو کلیئر تھا کہ اُسے کس کے ساتھ رہنا ہے تو پھر وہ اُس کے جذبات کے ساتھ کیوں کھیل رہا تھا۔۔۔ زنیشہ کا پارہ بُری طرح چڑھ چکا تھا۔۔۔ سکرین پر بار بار ثمن کا زوہان کے بے حد قریب کھڑ ا ہو نادیکھا یا جارہا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے شدید غصے میں آتے ریموٹ اُٹھا کر دیوار پر دے مارا تھا۔۔۔۔
اور بیڈ سائیڈ ر کھے موبائل کو اُٹھاتے اس نے زوہان کو کال ملائی تھی۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسور ہی تھی۔۔۔۔ زوہان یہ بات اچھے سے جانتا تھا پھر بھی وہ ہمیشہ اُس کی فیلنگز ہرٹ کرتارہتا
دو تین بار ٹرائے کرنے کے بعد جا کر زوہان نے کال پک کی تھی۔۔۔ میں ابھی بری ہوں بعد میں کال کرتا ہوں۔۔۔
زوہان اُس کی جانب سے کچھ سنے بغیر مصروف سے انداز میں گویا ہوا تھا۔
اچھے سے جانتی ہوں کس کے ساتھ بزی ہیں۔۔۔۔۔۔اُس ثمن خان کے
ساتھ ہیں نا آپ۔۔۔
ز نیشہ ترشی بھرے لہجے میں بولتی یہ بھول چکی تھی کہ مقابل کون
ہے۔۔۔۔
ایکسکیوز می مس زنیشہ میران یہ کس انداز میں بات کر رہی ہیں آپ مجھے سے ۔۔۔ اور کس حیثیت سے یہ سوال پوچھا ہے آپ نے مجھ سے۔۔۔ ابھی
میں نے آپ کو ایسا کوئی اختیار نہیں دیا ہے۔۔۔۔
زوہان اپنے اوپر کسی کا بھی چلانا بھلا کہاں برداشت کر سکتا تھا۔۔۔ جبکہ اس کے یہ اجنبی الفاظ ز نیشہ کی آنکھیں نم کر گئے تھے ۔۔۔۔ مجھے ایسا کوئی اختیار چاہیئے بھی نہیں۔۔۔۔ اور آپ کس حیثیت سے مجھے حسیب سے بات کرنے سے ٹوکتے ہیں۔۔۔ اب میں اُس سے بات بھی کروں گی اور اس کے قریب بھی جاؤں گی۔۔۔ دیکھتی ہوں کس حیثیت
سے روکتے ہیں آپ مجھے ۔۔۔۔
زنیشہ بچوں جیسے ضدی لہجے میں بولتی کیا کچھ غلط بول گئی تھی اس وقت اُسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
جسٹ شٹ یور ماؤتھ زنیشہ ۔۔۔۔۔ تم جانتی بھی ہو تم کیا بکواس کر رہی
ہو۔
زوہاں اتنی شدت سے دھاڑا تھا کہ زنیشہ کا دل زور سے لرز اُٹھا تھا۔۔۔ مگر اس وقت وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔۔۔ جس شخص کو آپ اتنی شدت سے چاہتے ہو۔۔۔ اُسے کسی اور کی بانہوں میں دیکھنا کتنا تکلیف دہ تھا زنیشہ زوہاں کو اس بات کا احساس دلانا چاہتی تھی۔۔۔۔
جانتی ہوں میں کیا کہہ رہی ہو آپ بھی ایک بات
سن لیں۔۔۔ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔۔ آپ لالہ کو خود ہی انکار کر دیں۔۔۔ ورنہ جو میں کروں گی اُس پر آپ سب لوگوں کو پچھتانا
پڑے گا۔۔۔۔
زنیشہ کے اندر تو جیسے شعلے بھڑک رہے تھے۔۔۔ کیونکہ زوہان کے پیچھے سے آتی ثمن کی آواز یہی ثابت کر رہی تھی کہ وہ لڑ کی ابھی بھی زوہان کے
ساتھ ہے۔۔۔۔
ز نیشہ کو یہی بات غصہ دلاتی تھی کہ اگر وہ ثمن کو ہی اتنا چاہتا تھا تو اسے کھلونے کی طرح استعمال کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔
تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے۔۔۔۔ جسے میں دو دن بعد اپنے طریقے سے ٹھکانے لگاؤں گا۔۔۔ اور مجھے یہ فضول دھمکیاں دینے کی دوبارہ کوشش مت کرنا۔۔۔۔ تمہاری ان دھمکیوں کا اثر صرف اُن لوگوں پر ہی ہو گا جن کے لیے تم امپورٹنٹ ہو ۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ زوہان زنیشہ کا دل ایک بار پھر چھلنی کرتا کال کاٹ گیا تھا۔۔۔ وہ اپنے عزیز ترین لوگوں کو بھی اپنے ساتھ مس بی ہیو کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔۔۔ اور زنیشہ نے آج جو الفاظ ادا کیے تھے اُن کے جواب میں زوہان کو یہی بولنا بالکل ٹھیک لگا تھا۔۔
زوہان نے دوبارہ کوئی اور نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔
اُس بے وقوف لڑکی کے ساتھ ساتھ رہو۔۔۔ وہ کوئی اُلٹی سیدھی حرکت
کر کے خود کو نقصان نہ پہنچادے۔۔۔
زنیشہ پر شدید غصہ ہونے کے باوجود زوہان کے لہجے میں اُس کے لیے واضح
فکر محسوس کی جاسکتی تھی۔۔۔۔
اُس کے سامنے بیٹھی ثمن اُسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔۔۔
میرا دل چاہتا ہے میں خود ہی زنیشہ کے پاس جا کر تمہاری زندگی میں اس کی
اور اپنی حیثیت واضح کر دوں۔۔۔۔
ثمن نے ناراض نظروں سے زوبان کی جانب دیکھتے کہا۔۔۔
اور اگر تم نے ایسا کیا تو میں اپنے ہاتھوں سے تمہارا گلا دباؤں گا۔۔۔۔ زوہان نے سیگریٹ سکھاتا اُسے سرد نگاہوں سے گھور کر دیکھا تھا۔۔۔ مجھے کیوں لگ رہا ہے۔۔۔ یہ جنگلی بلی مستقبل میں ملک زوہان میرا ن کے
کس بل نکال کر رکھ دے گی ۔۔۔۔
شمن جانتی تھی کہ زوہان کا موڈ اس حد تک خراب کرنے والی کے ذکر سے
ہی اب اُس کا موڈ بحال ہو نا تھا۔۔
تم کچھ دیر کے لیے خاموش بیٹھو تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہو گا۔۔۔۔ زوہان اُس کا مقصد سمجھتا اُسے وارن کر گیا تھا۔۔۔ جس کے بعد ثمن نے دوبارہ کچھ بولنے کی ہمت نہیں کی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@
ماورا کی رات کے دوسرے پہر پیاس کے احساس سے آنکھ کھلی تھی۔۔۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر پانی کی بوتل اُٹھائی، جو کہ بالکل خالی ہو چکی تھی۔۔۔ اُس کی دائیں جانب بیلا کمبل میں دیکی سورہی تھی۔۔۔ اُسے اب اکیلے ہی باہر
جا کر پانی لانا تھا۔۔۔۔
ماور ااپنی گرم شال اوڑھتی کیمپ سے نکل آئی تھی۔۔۔
کچھ فاصلے پر موجود کیمپ جہاں پر پانی کے کولر رکھے گئے تھے وہاں سے بوتل بھرتے وہ جیسے ہی اپنے کیمپ کی جانب بڑھی اُس کی نظریں سامنے بنے بوائز
کے کیمپس پر پڑی تھی۔۔۔
جن میں سے دوسرے نمبر والے کیمپ سے ایک لڑکی کو باہر نکلتادیکھ ماورا کی آنکھیں باہر کو اُبل پڑی تھیں۔۔۔اُسے آج شام کو ہی بیلانے بتا یا تھا کہ یہ کیمپ منہاج کا ہے اور وہ اس میں اکیلا رہ رہا ہے۔۔۔
اس خیال کے آتے ہی ماور اکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔
وہ شدید غصے کے عالم میں منہاج کے کیمپ کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ وہ لڑکی تو کب کی اپنے کسی کیمپ میں غائب ہو چکی تھی ۔۔۔۔ ماورا شدید غم و غصے کے عالم میں اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔ مگر اندر کا
منظر دیکھ کر لمحہ بھر کو حیران ہوئی تھی۔۔۔۔
اندر صرف منہاج ہی سویا ہوا تھا، مگر بلینکٹ گردن تک اوڑھے وہ گہری
نیند میں سویا ہوا لگ رہا تھا۔۔۔
منہاج درانی بہت بڑے ایکٹر ہو تم مگر آج میں چھوڑوں گی نہیںتمہیں۔۔۔۔ رنگے ہاتھوں پکڑا ہے تمہیں آج۔۔۔۔ ماورا کو یہی لگا تھا کہ منہاج سونے کی صرف ایکٹنگ کر رہا ہے۔۔۔ بھلا اُس کے سوتے میں کوئی لڑکی یہاں آکر کیا کرے گی۔۔۔۔
بات کی تحقیق کیے اسی اُس کی کے اوپر سے کمبل کھینچتے اسے کر
بڑھی تھی۔ اور اس کے اوپر سے کمبل کھینچا تھا۔۔۔
منہاج جو گہری نیند میں تھل اس اچانک نازل ہوتے طوفان پر آنکھیں کھولتے اپنے اوپر جھکی ماورا کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔ جو خونخوار تیور لیے غصے میں اُس کے
انتہائی قریب تھی ۔۔۔
مادر امنہاج کے پچی نیند سے بیدار ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں ابھرتے
سیاوڈورے دیکھ لمحہ بھر کو بوکھلائی
تھی۔۔۔ منہاج کو دیکھ کر کہیں سے
نہیں لگ رہا تھا کہ وہ سونے کی ایکٹنگ کر رہا ہے۔۔۔
کیا ہو اسب ٹھیک ہے ؟؟؟
منہاج ماورا کو رات کے اس پہر اپنے کیمپ میں دیکھے فکر مندی سے بولا
تھا۔۔۔۔۔
وہ لڑکی یہاں کیا کر رہی تھی ؟؟؟
ماورا کی کنفیوژن کلیئر نہیں ہو پائی تھی۔۔۔ وہ ہولے سے بڑبڑاتی پیچھے ہٹی
تھی۔۔۔
“کونسی لڑکی ؟؟؟”
منہاج سوالیہ حیرت بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔ کیمپ میں زیر و پاور کی گرین روشنی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ جس میں منہاج کی
نظریں سامنے بیٹھی لڑکی پر ٹک گئی تھیں۔۔۔
اُس نے ہمیشہ ماورا کو ڈھیلے ڈھالے کپڑوں اور شمال میں لپٹا دیکھا تھا۔۔۔ مگر اس وقت ماورا اپنے حلیے کا خیال کیے بغیر اُس لڑکی کے غصے میں سیدھی یہاں
آنکلی تھی۔۔۔
سیاہ ٹراؤزر کے اوپر سیاہ شارٹ شرٹ پہنے وہ شال کو اس وقت بھی اپنے گرد لیٹے ہوئے تھی۔۔۔ مگر اس وقت اُس کی شال اُس کے ہوش ربا حسن کو
منہاج درانی کی نظروں سے بچانے کے لیے ناکافی تھی۔۔۔
ماورا کے سیاہ سلکی بال اُس کی شال کی قید سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے اس وقت ماورا کے ساتھ ساتھ منہاج کو بھی اچھی خاصی مشکل میں ڈال
گئے تھے۔۔۔
” کوئی نہیں۔۔۔”
ماورا اُس کی وارفتگی بھری نظروں سے گھبرا کر اٹھی تھی مگر اگلے ہی لمحے کلائی منہاج درانی کی گرفت میں آجانے کی وجہ سے اس کی دھڑکنیں تیز
ہوئی تھیں ۔
” پلیز۔۔۔۔۔”
اُس نے ہاتھ آزاد کروانے کے لیے کچھ کہنا ہی چاہا تھا۔۔۔ مگر تب تک منہاج اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتی سیدھی منہاج کے سینے پر آن گری تھی۔۔۔۔
” پلیز چھوڑو مجھے۔۔۔۔”
ماورا اُس کے اُوپر سے اُٹھنے کی کوشش کرتی چلائی تھی۔۔۔ مگر اپنی کمر پر لپٹی منہاج کی آہنی بانہوں کی گرفت وہ ہلا بھی نہیں پائی تھی۔۔۔ میری بیوی میرے کیمپ میں میرے لیے آئی ہے ، میں اتنی آسانی سے
کیسے جانے دوں
منہاج زرا سا اُوپر اُٹھاتا اس کی سرد پیشانی پر لب رکھ گیا تھا۔۔۔ اس کے دھکتے لمس اور چہرے پر محسوس ہوتی گرم سانسوں پر ماورا کے پورے وجود میں اک سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔۔۔ وہ پھر جلد بازی میں یہاں آنے کا بہت غلط فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔ اس کا خود کو جی بھر کے گالیاں دینے
کا دل چاہا تھا۔۔۔
منہاج درانی مجھ سے دور رہو۔ سے دور رہو ۔۔۔۔ اب دوبارہ مجھے چھوا تو مجھ سے بُرا کوئی
نہیں ہو گا۔۔۔
ماور احیا اور خفگی سے سرخ پڑتی چلائی تھی۔۔۔ وہ شدید ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی۔۔۔ جسے محسوس کرتے اگلے ہی لمحے منہاج کروٹ بدل کر اُس کی پشت میٹرس پر لگاتے پوری طرح اُس پر حاوی ہو چکا تھا۔۔۔ ماورا کا سراب تکیے پر تھا۔۔۔ جبکہ منہاج اُس کے اوپر جھکا اُس کی ٹھنڈ کے احساس سے اُسے پوری طرح کمبل میں لپیٹ گیا تھا۔۔۔۔
ماور انے اُس کا یہ کیئر نگ انداز بہت اچھے سے نوٹ کیا تھا مگر بولی کچھ نہیں
تھی۔۔
منہاج درانی تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ جب میں تم سے دور رہنا چاہتی میں تم دور
ہوں تو یوں زبردستی قریب کیوں آتے ہو میرے۔۔۔۔
اُس کی قربت کے احساس سے ماور ا کا اپنا دل بھی بغاوت کرنے لگا تھا۔۔۔ مگر وہ اب کسی صورت اس شخص کے جھانسے میں نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔۔ میرے لیے یہ پاسبل نہیں ہے اور وہ بھی اس کنڈیشن میں جب تم خود
میرے پاس آئی ہو ۔۔۔۔۔
منہاج نے جھک کر اُس کے دھکتے گالوں کو نرمی سے چھوا تھا۔۔۔۔ مجھ سے یہاں آکر بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔۔۔۔ ماور اتپ کر بولی تھی۔۔۔
لیکن میرے لیے تو یہ غلطی سر آنکھوں پر ہے۔۔۔۔ کب معاف کرو گی “
مجھے۔
منہاج اس کے یخ بستہ ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے کر حرارت بخشتا محبت
پاش لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
اُس نے اب تک ماورا کے ساتھ جتنا بھی غلط کیا تھا وہ اُس کے لیے دل و جان سے شر مندہ تھا۔۔۔ ماورا کے ماضی کو دیکھ کر اُسے دھتکار نامنہاج کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی معلوم ہو رہی تھی۔
جس کے لیے وہ ساری زندگی ماورا کے آگے جھک کر رہنے کو تیار تھا۔۔۔ مگر
ماورا اس کے سامنے حامی تو بھرتی ۔۔۔۔
تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہو ۔۔۔۔ مگر میرے لیے تم سے دور رہنا ممکن نہیں ہے۔۔۔ میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔ جو کچھ میں نے کیا وہ بہت زیادہ غلط اور معافی کے قابل بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ مگر اُس کی سزا میں تمہاری جدائی برداشت نہیں ہے مجھے ۔۔۔۔اس کے علاوہ تم جو سزا دینا ” چاہو گی مجھے منظور ہو گی۔۔۔۔ پلیز معاف کر وہ
نا اس کے
منهاج درانی اُس کے پہلو میں دراز ہوتا محبت سے میں کے
آگے ہاتھ جوڑ گیا تھا۔۔۔۔
ماورا حیرت سے اس کا یہ عمل دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
ہر ایک کے سامنے اکڑ کے ساتھ سر اُٹھا کر کھڑے ہونے والا اُس کے سامنے
جھک رہا تھا۔۔۔
ماورا کے لیے یہ بات چھوٹی بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
میں نے جو زندگی دیکھی ہے اس میں مرددنیا کی سب سے زیادہ بے اعتبار مخلوق تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ جس کا محبت کے جذبے سے دور دور تک کوئی
واسطہ نہیں ہوتا ، جو عورت سے صرف اپنی ہوس پوری کرنا جانتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے اپنی آپی سے وعدہ کیا تھا کہ اس معاشرے کے ان بے رحم مردوں پر کبھی بھروسہ نہیں کروں گی۔۔۔۔ مگر یونی آکر ، تم سے مل کر میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ پائی۔۔۔ تمہارا اتنی عزت دینا، عورتوں کے و قار کا خیال رکھنا۔۔۔ ان سب باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔۔۔۔ میں جان ہی نہیں پائی میرا دل کب تمہاری محبت میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔۔۔۔ میں نے تم سے بے پناہ محبت کی ہے منہاج درانی۔۔۔۔ تمہاری خاطر اپنی جان چھڑ کنے والی بہن تک کو دھوکا دے گئی۔۔۔۔اور تم نے کیا کیا۔۔۔۔ اُنہیں روائتی مردوں جیسے نکلے ۔۔۔۔ مجھے بے اعتبار کہہ کر سزا سنادی۔۔۔ میرے دل کے ٹکڑے کرنے کے ساتھ ساتھ میری روح بھی چھلنی
کر دی۔۔۔۔۔ ماورا اپنے دل کی بھڑاس اُس پر نکالتی آخر میں روپڑی تھی۔۔۔۔ منہاج کو لگا تھا کسی نے اس کا دل کچل ڈالا ہو ۔۔۔۔وہ کتنا کمزور مرد نکلا تھا۔۔۔۔ جس
لڑکی سے اتنی محبت کی تھی۔۔۔ اسی پر اعتبار نہیں کر پایا تھا۔۔۔ پچھتاوں
کے ناگ نے اُسے ایک بار پھر ڈسا تھا۔۔۔
لیکن وہ خود سے یہ عہد کر چکا تھا کہ اب کبھی اپنی محبت کو رسوا نہیں کرے گا۔۔۔ یہ لڑکی صرف اس کی تھی۔۔۔ جسے اُسے توڑنا اور بکھیر نا نہیں تھا بلکہ
کسی نازک آئینے کی طرح سنبھال کر رکھنا تھا۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو۔۔۔ آئندہ ایسا بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ میں مر جاؤں گا مگر ” تم پر اعتبار کرنا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔ اسے بھیانک حقیقت کو میری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر دو۔۔۔۔
منہاج اُس کے ناک وجود کو اپنے سینے میں بھینچتے محبت سے چور لہجے میں
بولا تھا۔۔۔۔
جبکہ ماور اتو اس کے سینے میں منہ چھپائے اُس کے گرد اپنی نازک بانہوں کا حصار باندھے شدت سے رودی تھی۔۔۔۔ اُس نے منہاج کو خود سے دور نہیں جھٹکا تھا۔۔ بلکہ خود مزید اُس کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔ جو منہاج
کے لیے بہت خوش کن تھا۔۔۔وہ ماورا کو اپنی قیمتی متاع کی طرح سینے میں
پوری طرح سے قید کر گیا تھا۔۔۔۔
ماورا نے ہولے سے چہرا اُٹھاتے بھیگی آنکھوں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔ آئی لو یو آئی رئیلی لویو۔۔۔۔
منہاج عقیدت اور محبت سے اُس کی دونوں آنکھوں کو چوم گیا تھا۔۔۔اُس کے اس والہانہ عمل پر ماورا کی رنگت سرخ پڑی تھی۔۔۔
دونوں کی بے چینی اور درد ایک دوسرے کے قریب آنے اور نئے سرے سے اعتبار سونپنے کی وجہ سے ختم ہو چکا تھا مگر وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ قسمت آنے والے وقت میں اُن کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
آژمیر کے بنگلے پر اُن لوگوں نے پوری تیاری کے ساتھ حملہ کیا تھا۔۔۔ پچھلے پندرہ منٹ مسلسل مقابلہ کرنے کے بعد کہیں جا کر سب کچھ آژمیراور اُس کے گارڈز کے کنٹرول میں آیا تھا۔۔۔۔
آژمیر کے لیے سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے نہ پولیس کو کال کی تھی نہ میڈیا کو۔۔۔ مگر جیسے ہی اُن کی فائر نگ سٹارٹ ہوئی اگلے پانچ منٹ بعد پولیس وہاں پہنچ گئی تھی۔۔۔۔ اور ساتھ میڈیا والوں کی بھی پوری
فوج موجود تھی۔۔۔۔
جس کا یہی مطلب تھا کہ یہ سب کسی نے سازش کے تحت اس کی ساتھ خراب کرنے کے لیے کیا تھا۔۔۔ آژمیرکی کمپنی اس وقت مارکیٹ میں سب سے اوپر چل رہی تھی۔۔۔ پچھلے ایک سال سے سارے ٹاپ کے نیشل اور انٹر نیشنل پراجیکٹس اس کی کمپنی کو مل رہے تھے۔۔۔۔ اُسی مگر یہ سب کروا کر با آسانی میڈیا کے ذریعے اُس کی ساکھ تباہ کروائی جاسکتی تھی۔۔۔۔اُس کے زرا سا نام خراب ہونے پر مارکیٹ میں اُس کے شیئر ز گر جانے تھے۔۔۔۔اور حائفہ کے دیئے جانے والے دھوکے کی وجہ سے وہ مینٹلی اتناڈ سٹرب تھا کہ مشکل سے مشکل معملات چٹکیوں میں حل کر دینے والا اس وقت خود کو ہی نہیں سنبھال پار ہا تھا۔۔۔
اُس کے دشمن نے اُسے تباہ کرنے کے لیے ایک ساتھ یہ سارے گیمز کھیلے تھے کیونکہ اس کا دشمن بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ آژ میر میران کو توڑنا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔ اُسے پہلے حائفہ کے ذریعے ایموشنلی و یک کیا گیا
اور پھر سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر ایک اور حملہ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔ آژ میر کے آدمی اس شخص تک پہنچ گئے تھے جو حائفہ کو بلیک میل کر رہا تھا۔۔۔ اور اُسی کے تھر و حائفہ کا آج نکاح کے بعد آژ میر کو زہر دینے کا پلان پتا چلا تھا۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اُس آدمی کو پکڑ کر اُس کے ذریعے آژ میر کے اصل دشمن تک پہنچتے اس شخص کو اُسی کے ساتھیوں نے قتل کروادیا تھا۔۔۔ آژ میر حائفہ کی اصلیت جان جانے اور اس کے اتنے بڑے دھو کے کے بعد اُسے آسانی سے جانے دینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے چھوٹے سے چھوٹے مجرم کو معاف نہیں کرتا تھا حاعفہ نے تو پھر اُس کے دل کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔۔۔ اُس سے محبت کا جھوٹانا ٹک کر کے اُس کی روح پر ہمیشہ کے
لیے بہت گہراگھاؤر تم کر دیا تھا۔۔۔۔ جسے بھول پانا آژ میر کے لیے ناممکن
تھا۔۔۔۔
وہ اب حائفہ کو اپنے ساتھ رکھ کے ہمیشہ کے لیے اسی بھٹی میں جلانا چاہتا تھا،
جس میں وہ خود جل رہا تھا۔۔۔
یہ احساس ہی اُسے جلتے انگاروں پر ڈال دیتا تھا کہ جس لڑکی سے اُس نے اتنی محبت کی وہ اسے زہر دینے والی تھی۔۔۔۔
حاعفہ کو جو گولیاں زہر کی گولیاں بتا کر ہی دی گئی تھیں۔۔۔ حاعفہ کے علم میں لائے بغیر آژ میر نے وہ تبدیل کروادی تھیں۔۔۔
وہ چاہتا تو نکاح کے فوراًبعد حائضہ کو اس دھوکے کی سزاسنادیتا۔۔۔ مگر وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا حائفہ اس سے اتنی نفرت کرتی ہے کہ اُسے زہر دے
دے گی۔۔۔۔
آژمیر کے دل میں ایک موہم سی اُمید باقی تھی۔۔۔ کہ کیا پتا حاعفہ ایسانہ
مگر اُسے چائے میں وہ گولیاں مکس کرتے دیکھ آزمیر کی وہ تھوڑی سی اُمید بھی ختم ہو گئی تھی۔۔۔ وہ شدید غصے کے عالم میں اُس کا کمپس کو بدلنا نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔۔۔ اور اسے پوری طرح گناہگار اقرار دے گیا تھا۔۔۔۔ رہی سہی کسر حائفہ نے اپنی زبان سے جرم کا اقرار کرتے پوری کر دی
تھی۔۔۔۔
فیصل نے ابھی اس کے قریب آکر تصدیق کی تھی کہ حائضہ کو بلیک میلرز کی
ہوشی کی
طرف سے جو گولیاں ملی تھیں وہ زہر کی گولیاں نہیں بلکہ ۔ تھیں۔۔۔ وہ لوگ آژ میر کو مارنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہے مقصد صرف آژمیر کو ایموشنلی اور مینٹلی تباہ کرنا تھا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اُس پر یوں حملہ کروا کر اُس کی رپوٹیشن خراب کرنا تھا تا کہ آژمیر اس کنڈیشن میں خود کو سنبھال نہ پاتا اور پھر وہی سب ہوتا جو اس کے دشمن
چاہتے تھے۔۔۔
آژمیر جیسے شخص کو برباد کرنے کی ان کی پلاننگ بہت لمبی تھی ۔۔۔۔
جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے ۔۔۔
آژ میر کو شروع میں حائفہ پر شک گزرا تھا مگر حاعفہ اُس کے سامنے کبھی بناوٹی رہی ہی نہیں تھی کہ وہ اسے پکڑ پاتا۔۔۔۔
آژ میر کو کمزور کر کے حائفہ اپنے کام میں کامیاب رہی تھی۔۔۔ جس سے اُس نے ماورا کو تو بچا لیا تھا مگر آژ میر میر ان کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔۔۔۔ آژ میر نے اپنے آدمیوں کے ساتھ مل کر دشمنوں کو مار گرایا تھا۔۔۔۔ دشمن کے ساتھ ملے پولیس کے کچھ اہلکار اور میڈیا کے کچھ رپوٹرز نے اس بات کو اُچھالنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر آژ کے دوست ڈی آئی جی شہروز نے اُس کی کال پر بر وقت وہاں پہنچتے سارا معاملہ سنبھال لیا تھا۔۔۔۔ آژ میر دل میں بھڑ کی آگ کے شعلوں میں حائفہ نور کو بھسم کرنے کے ارادے سے اندر آیا تھا۔۔۔۔ مگر حاعفہ اندر موجود ہوتی تو اسے ملتی۔۔۔۔
آژمیر کی ایک ہی دھاڑ پر تمام ملازمین سر جھکائے اُس کے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔ گولیوں کی آواز پر کونوں کھدروں میں چھپے بیٹھے
وہ حائفہ کو یہاں سے فرار ہوتا نہیں دیکھ پائے تھے۔۔۔۔
نہیں چھوڑوں
گا میں اُسے۔۔۔۔
آژ میر نے شدید غصے اور طیش کے عالم میں چلاتے ہاتھ کا مکا بنا کر سامنے رکھے کانچ کے ٹیبل پر دے مارا تھا۔۔۔ جو بہت سی دڈاروں میں بٹتا اُس کا ہاتھ لہو لہان کر گیا تھا۔۔۔۔۔ اس کے سامنے کھڑے تمام ملازمین کانپ کر
روگئے تھے۔۔۔
اُنہوں نے پہلے بھی آژ میر کا غصہ دیکھا تھا مگر ایسا غضب ناک روپ پہلی بار
دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
فیصل ڈھونڈو سے۔۔۔۔اگلے چوبیس گھنٹوں کے اندر وہ میرے سامنے ہونی چاہیے ورنہ پوری دنیا کو جلا کر راکھ کر دوں گا۔۔۔۔
آژ میر فیصل کو حکم دیتا ہاتھ سے اُسی طرح بہتے خون کے ساتھ اپنے کمرے
کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
“کیا ہو ا پریشان لگ رہی ہیں آپ؟”
زوہان ڈرائنگ میں بیٹھی نفیسہ بیگم کے قریب آتے بولا۔۔۔ جو فون ہاتھ
میں لیے گم صم ہی بیٹھی تھیں۔۔۔
ہاں وہ ابھی شمسہ بہن سے بات ہوئی ہے زنمیشہ کو بہت سخت بخار گڑیا سی ہے بھی تو اتنی پیاری کہ ہر دوسرے دن نظر لگی پڑی ہوتی ہے۔۔۔۔
” مجھے تو ڈر ہے جب وہ دلہن بنے گی تب کیا ہو گا۔۔۔۔
نفیسہ بیگم کے لہجے میں زنمیشہ کے لیے محبت اور فکر کوٹ کوٹ کر بھری
ہوئی تھی۔۔۔
نظر کا تو پتا نہیں مگر حد درجہ نازک ہیں محترمہ ۔۔۔۔ میرے ساتھ تو
گزارہ ہو پانا بہت مشکل ہے اُس کا۔۔۔۔۔
زوہان اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ یہ بخار کل اُس سے ہونے والی لڑائی کا نتیجہ
تھا۔۔۔۔
کیا مطلب میں سمجھی نہیں ؟؟؟ کہیں تم نے تو نہیں ڈانٹاز نمیشہ کو۔۔۔۔ نفیسہ بیگم زوہان کو بہت اچھے سے جانتی تھیں ، اس لیے فوراً سمجھ گئی
ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں ہے تو یہ حال ہے جب کہوں تو نجانے آپ “
” کی اُس لاڈلی کا کیا ہو گا۔۔۔
زوہان مو بائل فون نکالتاز نیشہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا۔۔۔ باہر سے وہ خود کو چاہے جتنا بھی سخت اور روڈ ظاہر کرنے کے کوشش کرتا۔۔۔ یہ بھی سچ تھا کہ زنیشہ کے معاملے میں وہ بہت کمزور تھا۔۔۔۔ خود چاہے اُسے جتنا مرضی تنگ کرتا مگر اُس کی زرا سی تکلیف برداشت کرنا
مشکل تھا اُس کے لیے۔۔۔۔۔
جب اتنی محبت ہے تو کیوں کرتے ہو اس کے ساتھ ایسا۔۔۔؟؟
نفیسہ بیگم اُس کا ز نیشہ کو کال ملانا نوٹ کر چکی تھیں۔۔۔ آپ کو یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ مجھے اس لڑکی سے محبت ہے۔۔۔زوہان اس بات میں ہار مان جائے ممکن نہیں تھا۔۔۔
غلط فہمی
نہیں یقین ہے اس بات کا۔۔۔۔
نفیسہ بیگم بھی اپنی بات پر پوری طرح قائم تھیں۔۔۔
لیکن میں اسے غلط فہمی ہی کہوں گا۔۔۔ یہ محبت نہیں ہے وہ میری ہونے والی بیوی ہے اُس کی خیریت کی خبر رکھنا اب میری زمہ داری ہے۔۔۔ اور اپنی زمہ داریوں کو میں کتنے اچھے سے نبھاتا ہوں اس بات سے آپ واقف اچھے
” ہیں۔۔۔
زوہان نے اُن کو پوری وضاحت کے ساتھ انکار کیا تھا۔۔۔۔ مگر نفیسہ بیگم
اب بھی اپنی بات پر قائم تھیں۔۔۔
زوہان دو تین بار کال ملا چکا تھا مگر زنیشہ اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔ زوہان
کے نقوش غصے سے تن گئے تھے۔۔۔
آپ کی لاڈلی یہ سب کر کے اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہی
ہے۔۔۔۔۔
زوہان سمجھ گیا تھا وہ جان بوجھ کر اُس کی کال اٹینڈ نہیں کر رہی۔۔۔ اس کی طبیعت زیادہ خراب ہے سور ہی ہو گی۔۔۔۔
نفیسہ بیگم نے یہاں بھی اس کی سائیڈ لی تھی ۔۔۔ جس پر زوہان نے
اپنے موبائل سے کال کرنے کو کہا تھا۔۔۔
نفیسہ بیگم نے جیسے کی کال ملائی پہلی بیل پر ہی کال پک کر لی گئی تھی۔۔۔ جس کا مطلب صاف تھا کل مو بائل زنمیشہ کے ہاتھ میں ہی تھا۔۔۔ زوہان کو مزید غصے میں آتا دیکھ نفیسہ بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری
تھی۔۔۔۔
اُن کی نازک ہرنی شیر سے اُلجھ رہی تھی۔۔۔ جواب کسی صورت اُسے بخشنے
کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔
ملک زوہان میر ان کو اُس کے فکر کی بیوی ملنے والی تھی۔۔۔۔
بیٹا کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ؟؟
نفیسہ بیگم نے یہ سوال پوچھتے زوہان کے کہنے پر فون اُسے پکڑادیا تھا۔۔۔
اب بہتر ہے آنی۔۔۔۔
زنمیشہ کی نقاہت زدہ آواز کہیں سے بھی ٹھیک نہیں لگی تھی ۔۔۔۔۔ میری کال پک کیوں نہیں کی۔۔۔۔؟؟؟
زوہان کی آواز پر دوسری جانب زنیشہ سے موبائل چھوٹے چھوٹتے بچا
تھا۔۔۔۔
اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زوہان اس وقت نفیسہ بیگم کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔۔۔۔ اُسے تو لگا تھا وہ ابھی دبئی ہی ہو گا۔۔۔
“مم میری مرضی۔۔۔۔”
زنیشہ مصنوعی دلیری کا مظاہر کرتے بولتی لڑکھڑا گئی تھی۔۔ ان سب کا جواب میں کل نکاح کے بعد دوں گا تمہیں۔۔۔ میری ایک بات یادرکھنا۔۔۔ تم چاہے اپنی طبیعت جتنی بھی خراب کر لو۔۔۔۔ نکاح
کل ہر حال میں ہو کر رہے گا۔۔۔۔۔ تم یا کوئی بھی یہ نکاح نہیں روک
سکتا۔۔۔۔
زوہان اُسے سختی سے باور کر وا تا فون بند کر گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ زنیشہ اس کی دھمکی کے خیال سے ہی سہم گئی تھی۔۔۔۔ نکاح کے خوف سے اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔۔۔ کیونکہ نکاح کے بعد اس ستمگر کا ہر طرح سے اُس پر اختیار بڑھ جانا تھا۔۔۔ بلکہ زنیشہ پر خود سے بھی زیادہ اس شخص کی چلنے والی تھی۔۔۔ پوری طرح اُس کی ملکیت میں جانے کا سوچ کر ہی زنیشہ کانپ اُٹھتی تھی ۔۔۔ جس شخص کی دو پل کی قربت اُس کی جان نکال دیتی تھی۔۔ اُس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے رہنا
زنیشہ پر بہت بھاری پڑنے والا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
وہ اندھادھند بھاگ رہی تھی خود سے دور جاتے شخص کے پیچھے۔۔۔ اُسے زور و شور سے پکار رہی تھی۔۔۔ مگر وہ اس سے لمحہ بالحہ دور جارہا تھا۔۔۔ وہ اُس کا ہاتھ تھامنا چاہتی تھی، اسے روکنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر وہ اس کی جانب دیکھنے تک کو تیار نہیں تھا۔۔۔۔ وہ چلا چلا کر تھک چکی تھی۔۔۔ مگر ہاتھ سے نکلتی زندگی کو تھام نہیں پائی تھی۔۔۔
پلیز رک جائیں۔۔۔۔ م میں مر جاؤں گی ۔۔۔۔
بند آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس کے لب ہولے سے پھر
پھڑائے تھے۔۔۔۔
جب آہستہ آہستہ اُس کی سر گوشی نما آواز چیخوں میں تبدیل ہونے لگی
تھی۔۔۔
وہ اپنی زندگی کے سب سے قیمتی شخص کے دور جانے کے احساس سے ہذیانی کیفیت میں چلارہی تھی۔۔۔ مگر وہ شخص نہیں رُک رہا تھا۔۔۔۔ وہ اُس سے
منہ پھیر کر دور جارہا تھا۔۔۔
” حائفہ کیا ہوا؟ اُٹھو آنکھیں کھولو۔۔۔۔”
نگینہ بائی اس کی چیخوں کی آواز پر بوکھلائی ہی اندر داخل ہوئی تھی۔۔ حائفہ کی خراب حالت اُن کی آنکھوں میں بھی نمی بھر گئی تھی۔۔۔
وہ اس کا گال تھپتھپاتے اُسے اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔ مگر حائفہ آژ میر میر ان کے دور جانے کے خوف سے آنکھیں نہیں کھول پارہی
تھی۔۔۔۔
اُس کا تکیہ بند آنکھوں سے بہتے آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔۔۔ گلا مسلسل سے سے تر
چلانے کی وجہ سے بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔
اور گلابی ہونٹ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔۔
نگینہ بائی کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔ اس لڑکی نے اتنی کم عمری میں کیا کیا غم نہیں دیکھے تھے۔۔۔۔ اور آج رہی سہی کسر بھی پوری ہو چکی تھی۔۔۔۔ اس سے اُس کی محبت بھی بہت بے دردی سے چھینی جاچکی
تھی۔۔۔۔۔
” حائفہ میری جان آنکھیں کھولو۔۔۔۔”
ہمیشہ حائفہ کے ساتھ بُرا سلوک رواں رکھنے والی نگینہ بائی آج اپنا دل سخت نہیں رکھ پائی تھیں۔۔۔ چاہے جو بھی ہو مگر حائفہ اُن کی سگی بھانجی تھی۔۔۔ وہ اس کے آگے اتنی کھٹور نہیں بن سکتی تھیں۔۔۔ نگینہ بائی کے نرمی سے پکارنے پر حائفہ نے بمشکل اپنی دکھتی آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔ اور خالی خالی نگاہوں سے سامنے بیٹھی تکمینہ بائی کو دیکھنے لگی
تھی۔
یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ آژ میر کہاں ہے؟؟؟”
حائفہ اجنبی نگاہوں سے ارد گرد دیکھتے اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ وہ تو آژ میر کے گھر یر تھی نا۔۔۔ پھر یہاں کیسے پہنچی تھی۔۔۔۔۔؟؟
کرامت تمہیں کل رات ہی بے ہوشی کی حالت میں واپس لے آیا ” تھا۔۔۔۔ جب آژ میر باہر موجودلوگوں سے لڑنے میں مصروف تھا۔۔۔
اُسی دوران کرامت سب سے نظر بچا کر تمہیں لے کر فرار ہو گیا تھا۔۔۔۔
نگینہ بائی نے اُس کا بھیگا چہرا صاف کرتے اُس کے سوال کا جواب دیا تھا۔۔۔۔ اُن کی بات پر حاعفہ نے اپنے اوپر سے کمبل ہٹاتے اُٹھنا چاہا تھا۔۔ پر کہاں جارہی ہو حاعفہ ؟؟؟
نگینہ بائی کو حاعفہ اس وقت اپنے حواسوں میں بالکل بھی نہیں لگی تھی۔۔۔۔ وہ اُسے کندھوں سے تھا میں روک گئی تھیں۔۔۔
آژمیر کے پاس جانا ہے مجھے۔۔۔ وہ اُن پر تب حملہ ہوا تھا نا۔۔۔۔ مجھے دیکھنا ہے انہیں۔۔۔۔ وہ ٹھیک ۔۔۔ ٹھیک ہو نگے نا۔۔۔
حائفہ بے ربط جملے بولتی نگینہ بائی کی گرفت ہٹانے لگی تھی۔۔۔ تم پاگل ہو گئی ہو ۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ تم آژمیر میر ان کے پاس جاؤ گی۔۔۔اور وہ تمہیں معاف کر دے گا۔۔ بھول ہے تمہاری۔۔۔ جتنا بڑا دھو کا تم اُسے دے کر آرہی ہو جان سے مار دے گا تمہیں۔۔۔اور ساتھ ہم
سب کو بھی۔۔۔۔۔ اس کے پاس جانے کی بے وقوفی مت کرنا۔۔۔۔ وہ کوئی چھوٹا آدمی نہیں ہے۔۔۔ ہم سب کو ختم کرنے میں اُسے لمحہ نہیں لگے
خمینہ بائی نے اس کا رخ اپنی جانب موڑتے حقیقت سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔ ن نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے۔ میں ایک بار انہیں اپنی آنکھوں سے صحیح سلامت دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ پلیز ایک بار جانے دو مجھے ۔۔۔ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔ وہ میری بات سمجھیں گے۔۔۔۔
حائفہ نفی میں سر ہلاتے کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ آژ میر میر ان بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔۔۔ کرامت نے آکر بتایا ہے مجھے ۔۔۔۔ تم ابھی ہوش میں نہیں ہو حائفہ ۔۔۔۔ اس لیے سمجھ نہیں پار ہی تم نے اُس انسان کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اُس کی اتنے سالوں سے بنائی ساکھ ، اُس کا نام خراب کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے۔ اس سب کے بعد
بھی وہ تم پر یقین کرے گا۔۔۔ جب تم ان لوگوں کے کہنے پر اپنے منہ سے اُس کے سامنے ان سب باتوں کا اقرار کر کے آئی ہو۔۔۔۔ وہ نہ صرف تمہیں طلاق دے دے گا۔۔۔ بلکہ تمہیں جان سے مار دے گا۔۔۔۔ کیا تم چاہتی ہو اس شخص کا نام بھی تمہارے نام سے چھن جائے۔۔۔۔ نگینہ بائی اپنی تمام خود غرضی ایک طرف رکھتی حائضہ کو سمجھاتے ہوئے
بولی۔۔۔
حائفہ بہتی آنکھوں سے اُن کی طرف دیکھنے لگی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ اُس کے دماغ میں گزرے تلخ لمحے پوری طرح سے واضح ہونے لگے تھے۔۔۔۔ آژ میر کے لہجے کی کر خنگی، اُس کی آنکھوں میں پہنتی نفرت۔۔۔۔ اُس نرمی اور محبت کا تو نام و نشان مٹ چکا تھا جو ہمیشہ آثر میر کے لہجے اور رویے میں خاص طور پر حائفہ کے لیے مختص ہوتی تھی ۔۔۔۔ حائفہ کو اپنے اتنے بڑے نقصان ہو جانے کا اندازہ اب ہوا تھا۔۔۔۔
میں اُن سے سچی محبت کرتی ہوں نگینہ بائی۔۔۔ میں نے انہیں زہر بھی نہیں دیا تھا۔۔۔ ان کے حصے کی ساری گولیاں اپنے حلق میں اُتاری تھیں۔۔۔ میں نہیں جانتی میں کیسے بچ گئی۔۔۔۔۔ میں بہت چاہتی ہوں انہیں۔۔۔۔ انہیں مارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ
اب شدید نفرت کریں گے مجھے ۔
۔۔۔۔ کبھی معاف نہیں کریں گے مجھے۔۔۔ میرے طوائف ہونے کا جان کر تو انہیں مجھ سے مزید نفرت ہو گئی ہو گی۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اُن کا اعتبار توڑ دیا۔۔۔۔ میں محبت میں بے وفا نکلی نگینہ بائی۔۔۔۔ میں نے انہیں دھوکا دیا ہے۔۔۔ میں واقعی ان کی محبت کی نہیں، نفرت کی ہی قابل ہوں۔۔۔۔ وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں یہ ٹھیک رہے گا میرے لیے۔۔۔۔۔۔ہاں مجھے مر
” جانا چاہیے۔۔۔۔۔
حائفہ ٹوٹ کر بکھرتی بُری طرح ہچکیوں میں رودی تھی۔۔۔۔ نگنیہ بائی کے
لیے اُسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔
اپنی سگی بہن کی بیٹیوں کو اس حال تک پہنچانے والی وہ خود تھیں۔۔۔ مگر اس وقت حاعفہ کو دیکھ اُن کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔۔۔۔۔انہیں آج شدت سے
احساس ہوا تھا کہ وہ ان معصوموں کے ساتھ کتنا ظلم کر چکی ہیں۔۔۔۔
@@@@@@@@
میران پیلس میں آج بہت وقت کے بعد دوبارہ ایسی رونقیں اتری کے بعد دوبارہ تھیں۔۔۔ ہر طرف خوشیوں اور قہقوں کا سماں بندھا ہوا تھا۔۔۔ سب کے کھلے کھلے چہرے دیکھ شمسہ بیگم بھی مطمئین لگ رہی تھیں۔۔۔ آج آژمیر میر ان کی لاڈلی بہن زنیشہ میر ان کا نکاح ہو رہا تھاوہ بھی ملک زوہان سے۔۔۔۔ اُن کی پوری برادری کے لیے یہ بات حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ بہت دلچسپ بھی تھی۔۔۔ کیونکہ آج وہ اتنے عرصے بعد اُن دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ کسی خوشی کے موقع پر دیکھنے والے
جبکہ بہت سارے لوگ تو ابھی اس بات پر یقین نہیں کر پائے تھے ۔۔۔
آژمیر زنیشہ کی شادی زوبان سے کرنے کے لیے مان کیسے گیا تھا۔۔۔۔
آج کا فنکشن سب کے لیے بہت اہم تھا۔۔۔۔ نکاح کے ایک ہفتے بعد رخصتی بھی۔۔۔
زنیشہ نے بہت ضد کی تھی شمسہ بیگم سے کے کم از کم نکاح کا فنکشن تو سادگی مگر میران پیلیس والوں سمیت اس بات کے لیے تو نفیسہ بیگم بھی نہیں مانی تھیں۔۔۔ زوبان کی شادی کا ایک ایک فنکشن وہ پوری
دھوم دھام سے کرنا چاہتی تھیں۔۔۔۔ زوبان کو بھی ان سب فنکشنز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ مگر وہ صرف نفیسہ بیگم کی خوشی کی خاطر چپ
ہو گیا تھا۔۔۔۔
نکاح کے فنکشن میں مظفر آباد کا کوئی بندہ نہیں چھوڑا تھا انہوں نے جسے انوائٹ نہ کیا ہو۔۔۔۔ ادھر شمسہ بیگم کا بھی یہی حال تھا۔۔۔
زنیشہ نے آژمیر کی جانب سے بھیجا گیاوہ گرے لہنگا پہننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔۔ مگر پہلے اس کی کوئی سنی گئی تھی جو ابھی سنی جاتی ۔۔۔۔۔۔ اُسے تیار کرنے کے لیے بیوٹیشنز کو گھر ہی بلوالیا گیا تھا۔۔۔ میران پیلس کے وسیع و عریض لان میں بڑے پیمانے پر تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔۔۔۔ جسے دیکھنے میں کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ یہ گاؤں کی کسی حویلی میں ارینج
کیا گیا ہے۔۔۔۔
شہر کی سب سے بڑی ویڈنگ پلانر کو بلایا گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ زوہان سے سخت ناراض تھی۔۔۔۔ جس نے شمن کے حوالے سے اُسے کوئی وضاحت دینے کے بجائے الٹا ڈانٹ دیا تھا۔۔۔ وہ کئی بار شمسہ بیگم کے سامنے اس نکاح سے انکار کر چکی تھی۔۔۔ مگر ہر بار
ڈانٹ ہی پڑی تھی۔۔۔۔
ملک زوہان کے نام اپنا آپ لکھوانے کا خوف ہی اُس پر اتنا سوار تھا کہ اُس کا
بخار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔
آپ کی چیکس تو پہلے سے ہی اتنی ریڈ ہو رہی ہیں بلش آن لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی۔۔۔۔
بیوٹیشن اُس کی نیچرل بیوٹی سے کافی متاثر نظر آرہی تھی۔۔۔۔ جسے نہ ہی مصنوعی پلکیں لگانے کی ضرورت پیش آئی تھی نہ ہی کوئی اور چیز ۔۔۔۔ وہ پہلے ہی بے پناہ حسن سے مالا مال تھی کہ بیوٹیشن کے زرا سے میک اپ کے میچ سے اس کی دلکشی مزید نکھر گئی تھی۔۔۔۔
گرے کلر کے بھاری فل کا مدار لہنگے میں سر پر خوبصورتی سے دوپٹہ سیٹ کیا
گیا تھا۔۔۔
ریڈ نیٹ کی چیزی کو گھونگھٹ کی شکل میں پن اپ کیا گیا تھا۔۔۔ زنیشہ نے بیوٹیشن کے کہنے پر بھی ایک بار بھی خود کو مرر میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اُس کا موڈ سخت آف تھا اور دھڑکنیں تو کسی صورت جگہ پر آنے کا نام نہیں
لے رہی تھیں۔۔۔۔
اُسے لگ رہا تھاوہ کسی بھی پل بے ہوش ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔
@@@@@@@
آژ میر آج صبح ہی میران پیلس پہنچا تھا۔۔۔۔اور بنا کسی سے ملے اپنے کمرے میں قید ہو چکا تھا۔۔۔ کل کا دن اُس نے کتنی اذیت میں گزار تھا یہ وہی جانتا
اس کے آدمی پاگلوں کی طرح حائفہ کو ڈھونڈ
رہے تھے۔۔۔۔ مگر ابھی تک
اُس کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔۔۔۔ آژ میر کے اندر بھڑکتے الاؤ کسی صورت
کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔
اُس کا دل چاہ رہا تھا حائفہ اس کے سامنے آئے اور وہ اُسے شوٹ کر دے۔۔۔۔ حائفہ سے بھی زیادہ غصہ اسے خود پر تھا۔۔۔ اُس نے کسی لڑکی کو اپنے اتنے قریب آنے ہی کیوں دیا تھا۔۔۔۔ کیوں اُس کا دل ایک ایسی لڑکی کے پیچھے دیوانہ ہوا تھا۔۔۔جو صرف اُسے دھوکا دے رہی تھی۔۔۔ اس کے جذبات بات سے کھیل رہی تھی۔۔۔۔ اور شاید پیٹھ پیچھے
آژ میر میر ان جیسے بندے کو اپنی محبت کے جال میں پھنسانے پر مذاق بھی
اُڑاتی ہو۔۔۔۔
یہ سب سوچ کر آڑ میر کو ئلہ پر لوٹ رہا تھا۔۔۔۔
بہت سی باتوں نے مل کر اُس پر غلبہ ڈال رکھا تھا۔۔۔ جن میں سب سے تکلیف دہ بات یہی تھی کہ حائضہ کو اس سے محبت نہیں تھی۔۔۔ وہ صرف اپنے مقصد کے تحت اس کے قریب آئی تھی۔۔۔
اُس کی محبت اسے اپنے ہاتھوں سے زہر دینا چاہتی تھی۔۔۔ آژمیر کو اپنی قسمت پر ہنسی آئی تھی۔۔۔ ایک طرف اُس کا بھائی اسے مارنا چاہتا تھا تو دوسری طرف اُس کی محبت اُس کے سینے میں عین دل کے مقام پر چھڑا کھونپ کر جا چکی تھی۔۔۔
آژمیر سیاہ قمیض شلوار پر سیاہ کوٹ پہنے روم سے نکل آیا تھا۔۔۔۔ اُس کی اندرونی حالت جتنی بھی اذیت بھری کیوں نہ سہی مگر آج اُس کی لاڈلی بہن کا
نکاح تھا۔۔۔۔ اُسے ہر حال میں اس میں شمولیت اختیار کرنی تھی۔۔۔

share with your Friends on Facebook


Updated: April 13, 2025 — 4:18 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *