Haifa and Zanisha Novel Part 15 – Urdu Story World | Romantic & Emotional Tale


Step into the rich Urdu story world with Part 15 of the Haifa and Zanisha novel – a story that beautifully blends romance, drama, and deep emotions. This part intensifies the connection between the characters, revealing new layers of love, heartbreak, and mystery.

Whether you’re a regular reader or new to the series, this chapter stands out for its realistic storytelling and emotionally charged moments.

urdu story world

Haifa and Zanisha Novel Part 15 – Urdu Story World | Read & Download Free PDF

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 14 – Best Urdu Stories

آژمیر بیٹا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟ میں کتنی بار آچکی آپ نے دروازہ ہی “
” نہیں کھولا ؟؟
شمسہ بیگم بھی نکاح کے لیے تیار ہو چکی تھیں۔۔۔ اور ایک بار دوبارہ فکر مند سی آثر میر کے کمرے کی طرف بڑھی تھیں۔۔۔ جب وہ انہیں باہر نکتا نظر
آیا تھا۔۔۔
” میں بالکل ٹھیک ہوں اماں سائیں۔۔۔۔۔ مجھے بھلا کیا ہونا ہے ؟؟؟”
آثر میر اُن کی دیکھتا مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔۔۔ جسے شمسہ بیگم ایک لمحے میں پڑ گئی تھیں۔۔۔ وہ ماں تھیں۔۔۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ہلکورے لیتی اذیت اور تکلیف سے انجان نہیں رہ پائی
تھیں۔۔۔
دودن پہلے ہی وہ کتنا خوش تھا۔۔۔اتنے عرصے بعد اُس کے چہرے پر پہلے جیسی خوشی اور مسکراہٹ دیکھی تھی۔۔۔۔ مگر وہ سب تو ڈھونڈنے سے
بھی نہیں ملا تھا۔۔۔ ایک الگ ہی وحشت ناک سی اُداسی آژمیر کے چہرے
پر پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔
میں کل سے کال کر رہی
آپ کو، کہ اپنے ساتھ میری ہونے والی بہو کو “
بھی لیتے آتے ۔۔۔۔ سب کتنے ایکسائینڈ ہیں اس سے ملنے کے لیے۔۔۔۔
میں بتا نہیں سکتی آپ کو ۔۔۔۔ لیکن آپ نے میری کال ہی پک نہیں بتا
شمسہ بیگم اُس کی تکلیف سے انجان اُس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے اُسی لڑکی کا ذکر کر گئی تھیں۔۔۔ جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کو اتنا خوش
دیکھا تھا۔۔۔۔
اُن کے سوال پر آژمیر نے جھٹکے سے سر اُٹھایا تھا۔۔۔۔اُس کے نقوش نفرت اور شدید غصے سے تن چکے تھے۔۔۔۔ مٹھیاں سختی سے بھینچتے اس نے بہت مشکل سے خود پر قابور کھا تھا۔۔۔۔
مرچکی ہے وہ میرے لیے۔۔۔۔ میری زندگی سے اُس کا نام و نشان ہمیشہ
کے لیے مٹ چکا ہے۔۔۔۔ میں دوبارہ اُس کاذکر نہیں سننا چاہتا۔۔ پلیز بی
کیئر فل۔۔۔۔۔آژمیر بہت مشکل سے اپنا لہجہ نرم رکھنے کی کوشش
کرتا اُن کو سر دوسپاٹ
لہجے میں بولتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ شمسہ بیگم کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائی تھیں۔۔۔ آژمیر
کا یہ اندازہ اس کی اذیت شمسہ بیگم کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی انہوں نے دماغ میں آتی سوچوں کو جھٹکتے فیصل کو کال ملائی تھی۔۔۔ جس سے کچھ نہ کچھ تو پتا چل ہی سکتا تھا۔۔۔
فیصل آژمیر کا خاص ترین آدمی تھا۔۔۔ جس کے منہ سے آژمیر کے بارے میں انگلوانا بہت مشکل تھا۔۔۔ مگر آج اُن کی بے چینی اور ممتا بھری تڑپ دیکھ فیصل چھپا نہیں پایا تھا۔۔۔ اور نکاح کے علاوہ حائفہ کے دھوکا دینے اور اُس کے طوائف ہونے کی ساری سچائی انہیں بتادی تھی۔۔۔۔ جسے سن کر
شمسہ بیگم کا دل پھٹنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔۔۔ آژمیر اتنی اذیت سے گزر رہا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی وہ اپنی بہن کی خوشی میں شریک ہونے پہنچ گیا تھا۔۔۔
زوہان نے نفیسہ بیگم کے ہمراہ میر ان پیلس میں قدم رکھا تھا۔۔۔ بلیک جینز کے او پر وہ بلیک شرٹ اور ہم رنگ کوٹ پہنے دلہے والے گیٹ اپ میں بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔ مگر اس سے باوجود اپنی شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ وہ اندر داخل ہوتا ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کر کیا تھا جو آج خاندان
کتنی رشک و حسد بھری نگاہیں زوہان پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔ جو آج خاص کی نجانے کتنی لڑکیوں کا دل توڑ تاز نیشہ میران جیسی خوش قسمت لڑکی کے
نصیب میں لکھا جانا تھا۔۔۔ زوہان کے چہرے پر ایک الگ ہی فاتحانہ مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔۔۔ آژمیرمیر ان کی بہن کو اس کی مرضی سے
اپنے نام لگوانے کی جیت میں۔۔۔۔۔
وہ انٹرنس پر آکر نفیسہ بیگم کے ساتھ رُک گیا تھا۔۔۔ میران پیلس کے سبھی چھوٹے بڑے وہاں پر اُس کے والہانہ استقبال کے لیے جمع تھے ۔۔۔ مگر زوہان کی متلاشی نظریں تو آژمیرکی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹک رہی
تھیں۔
جس کے استقبال کے بغیر وہ اندر آنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ اس کی یہ اکٹر اور غرور دیکھ میران پیلس کے کچھ لوگ جو زوہان کو سخت نا پسند کرتے
کر تے تھے ۔۔۔۔
ز وہان اندر چلیں۔۔۔۔۔ نفیسہ بیگم نے زوہان کو تنبیہی نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔۔ اگر آژ میر کو زوہان کی یہ اکر معلوم ہو جاتی تو اس نے لمحہ بھی نہیں لگانا تھا رشتہ توڑنے
میں۔۔۔۔
ایک منٹ خالہ جانی میرے سالہ صاحب کو تو آنے دیں۔۔۔ اُن کے کہے کے بغیر میں ان کی جاگیر میں قدم کیسے رکھ سکتا ہوں۔۔۔۔
زوہان بھی اپنے نام کا ایک تھا۔۔۔ سب پر جتاتی نظر ڈالتاد بے لفظوں میں اپنی بات نہایت ہی خوش اخلاقی سے بیان کر گیا تھا۔۔۔۔
وہاں آئے سب لوگ بڑے مزے سے یہ ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ جب اُسی لمحے آژ میر نے وہاں قدم رکھا تھا۔۔۔اور اُن سب کو گیٹ پر کھڑا دیکھ
چلتا ہوا اُسی جانب آیا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ملک زوہان ۔۔۔ آج بھی میرے ڈر سے میران پیلس میں قدم
” رکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی کیا۔۔
آژ میر نے آتے ساتھ ہی اُس پر گہر اطنز کیا تھا۔۔۔۔
وہ زوہان کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔
سب کی ستائشی نظریں اُن دونوں پر لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر وجیہہ ، ذہین اور مغرور تھے۔۔۔۔ دونوں میں سے
کسی نے ہارنا نہیں سیکھا تھا۔۔۔۔
آژ میر کے سرد لہجے میں کیے گئے طنز پر سب لوگوں نے زوہان کی جانب دیکھا تھا کہ ابھی وہ اس جملے پر بھڑک اُٹھے گا۔۔۔۔
ہمت کی بات تو مت کریں آژ میر میران صاحب۔۔۔۔ ہاں آج آپ کے منہ سے کچھ اچھا سننے کو دل چاہ رہا تھا۔۔۔۔ آخر کو آپ کا ہونے والا بہنوئی
ہوں۔۔۔۔ اتنا حق تو بنتا ہے میرا۔۔۔۔
زوہان آج خوش تھا اس لیے اُس کی بات کا بُرا منائے بغیر بولا تھا۔۔۔۔ باقی سب کی سانسیں بھی کچھ حد تک بحال ہوئی تھیں۔۔۔ تمہیں اپنی سب سے قیمتی ہستی سونپ رہا ہوں ، اس سے زیادہ اچھا کچھ
نہیں کر سکتا میں۔۔۔
آژ میر اس کو دو ٹوک جواب دیتا نفیسہ بیگم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اور انہیں
بازو کے حصار میں لیے اندر بڑھ گیا تھا۔۔۔
زوہان نے خاموش نظروں سے اُس کا یہ عمل دیکھا تھا۔۔۔ دونوں کی رگوں
میں ایک ہی خون بہتا تھا۔۔۔ پھر بھلا آژ میر کیسے جھک جاتا اُس کے
سامنے ۔۔۔۔
“کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟”
زوہان کا نام لیتے مولوی صاحب نے تیسری بار یہ الفاظ دوہرائے تھے۔ زنیشہ نے خوفزدہ گھبرائی نظروں سے اپنے ساتھ بیٹھے آژ میر کی جانب
تھا۔۔۔۔
جو اُسے اپنے مضبوط حصار میں لیے بیٹھا تھا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اُس کی ڈھال بن کر اُس کے ساتھ تھا۔۔۔ شاید اس کا سگا بھائی بھی اُس کے معاملے میں اتنا پوزیسو نہ ہوتا جتنا آژ میر اُس کا خیال کرتا تھا۔۔۔۔
اُس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔اگر اُس نے تمہیں زراسی
خراش بھی پہنچائی تو اسے سانسیں لینے کے مقابل نہیں چھوڑوں گا
میں۔
آژ میر کی بات پر زنیشہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔ زوہان اُسے چاہے جتنا بھی ستاتا مگر زوہان کے بارے میں وہ ایسا کچھ نہیں سن سکتی تھی۔۔۔
اب تو وہ زوہان کے حوالے سے کوئی شکایت بھی آژ میر سے کرنے کا ارادہ ترک کر چکی تھی۔۔۔ وہ اُن دونوں کو قریب لانا چاہتی بھی مزید دور
نہیں۔۔
” قبول ہے۔۔۔”
زنیشہ کے لب ہولے سے پھڑ پھڑائے تھے ۔۔۔
ہر طرف مبارک سلامت کا شور اُٹھا تھا۔۔۔ جبکہ زنیشہ اپنے جملے حقوق اُس ستمگر کے نام لگوانے کے بعد آژ میر کے مضبوط سینے سے لگتی آنسو نہیں
روک پائی تھی۔۔۔۔
زنیشہ کو اپنے ساتھ لگاتے آژ میر نے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔۔۔ جب اسی لمحے آژ میر کے موبائل پر میسج کا نو ٹیفیکیشن ریسیو ہوا تھا۔۔۔وہ پچھلے پندرہ منٹس سے فیصل کی بار بار آتی کال کاٹ رہا تھا۔۔۔
مگر اب موبائل سکرین آنکھوں کے سامنے لاتے جو میسج اُسے دیکھنے کا ملا تھا وہ اس کی آنکھیں مزید سرخ کر گیا تھا۔۔۔ اس نے لب بھینچتے بہت مشکل
سے خود پر ضبط کیا تھا۔۔
آژمیر پچھلے اتنے گھنٹوں سے جس اذیت کا شکار تھا۔۔۔اب اُسے کا حساب لینے کی باری آچکی تھی۔۔۔ مگر یہ وقت اُس کی بہن کا تھا جو وہ کسی کو نہیں
دے سکتا تھا۔۔۔
نجانے کون کون سے خدشات اور ڈر و خوف کے زیر اثر روتی زنیشہ کو اُس نے اپنے سینے سے جدا کرتے اُس نے اُس کا بھیگا چہرا صاف کیا تھا۔۔۔
میں ہمیشہ اپنی گڑیا کے ساتھ ہوں۔۔۔ کبھی کچھ غلط نہیں ہونے دوں”
گا۔
زنیشہ کے آنسو صاف کرتے آژ میر نے اُس کا خوف کم کرنا چاہا تھا۔۔۔ جس پر زنیشہ ہولے سے سر اثبات میں ہلا گئی تھی۔۔۔
اللہ تمہارا نصیب اچھا کرے۔۔۔ ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔۔ شمسہ بیگم آگے بڑھتے زنیشہ کو گلے لگا گئی تھیں۔۔۔ آژ میر زنیشہ کو ہوتا دیکھ مولوی صاحب کے ساتھ باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔
گھر کی تمام خواتین اس وقت زندیشہ کے پاس روم میں ہی موجود تھیں۔۔۔ جو زوہان کا سامنا کرنے کے خوف سے بُری طرح گھبرائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ جبکہ وہ سب اُسے تسلی دے رہی تھیں۔۔اور زوہان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کر رہی تھیں۔۔۔۔ مگر ز نیشہ جانتی تھی یہ سب لوگ زوہان کے فریب میں آکر اُس کے زرا سے اچھے برتاؤ پر اُس کی پچھلی باتیں
بھول چکے تھے۔۔۔ مگر زوہان نے اب تک ایسا نہیں کیا تھا۔۔۔ میران پیلس والوں کے لیے اس کی نفرت آج بھی ویسی ہی تھی۔۔۔ وہ اُن کی بیٹی کو اپنے نام تو لگوا چکا تھا مگر یہ بات آژ میر اور زنیشہ دونوں اچھے سے جاتے تھے کہ اس کی نفرت آج بھی ہنوز تھی۔۔۔۔ ہاں مگر ایک بات جو آژ میر جانتا تھا مگر زنمیشہ ابھی تک سمجھ نہیں پارہی تھی کہ زوہان میران پیلس کے تمام افراد سے نفرت کرتا تھا سوائے زنیشہ کے۔۔۔۔ وہ زنیشہ سے محبت کرتا تھا یا نہیں مگر اسے تکلیف میں کسی قیمت پر نہیں دیکھ
سکتا تھا۔۔
@@@@@@@@@
” آج فائنل ائیر والوں کا اینوئل ڈنر ہے۔۔۔۔۔
بیلا نے ماورا کی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔۔۔
وہ لوگ کل شام کو ہی واپس لوٹے تھے۔۔۔۔اُس رات کے بعد سے ماورا کا منہاج سے سامنا نہیں ہو ا تھا۔۔۔۔ وہ اُس کے سامنے آنے سے جان بوجھ
کر کترارہی تھی۔۔۔۔ اُس رات دونوں کے بعد جو اقرار ہوئے تھے اُس کے بعد ماور امیں ہمت نہیں تھی منہاج کے سامنے جانے کی۔۔۔۔ تو میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟؟
ٹیبل پر پڑی کتابیں سمیٹتے بیلا کی بات پر ماور الا پرواہی سے کندھے اچکا کر رہ
گئی تھی۔۔۔
وہ دونوں اس وقت لائبریری میں بیٹھی تھیں۔۔۔ جس کے بند ہونے کو وقت ہو رہا تھا۔۔۔ اسی خیال سے ماورا بکس سمیٹ کر واپس اُن کے ریکس میں رکھنے کے خیال سے اٹھی تھی۔۔۔لائبریری میں کار کا سٹوڈنٹس ہی
رہ گئے تھے۔۔۔۔
منہاج درانی بھی فائنل ائیر کا سٹوڈنٹ ہے۔۔۔۔ آج اُن کا یہ لاسٹ
ڈے ہو گا کالج میں۔۔۔۔۔
بیلا نے اُس کی توجہ اصل بات کی جانب دلوائی تھی۔۔۔۔ کرسی سے اٹھتی اور اس کی بات پر واپس ٹک گئی تھی۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔
اُس کے چہرے پر ملال و اداسی سی چھا گئی تھی۔۔۔۔ منہاج نے آج اُس سے ملنے کی کتنی کوشش کی تھی اور وہ یہاں لائبریری میں چھپی بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔ تم اتنی سیڈ کیوں ہو گئی ہو۔۔۔ ؟؟ ہزبینڈ ہے تمہارا اور بے پناہ محبت بھی کرتا ہے۔۔۔ یونیورسٹی چھوڑ کر جارہا ہے تمہیں چھوڑ کر نہیں
” جائے گا۔۔۔۔
بیلا اُس کی اُداس صورت دیکھ تسلی بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔۔ جس پر ماوراہولے سے مسکرادی تھی۔۔۔
میں باہر جارہی ہوں فنر ا سے نوٹس لینے ہیں۔۔ تم یہ بکس رکھ کر
“آجاؤ۔۔۔۔۔
بیلااُس کا گال تھپتھپاتے باہر نکل گئی تھی۔۔۔۔
ماورا بھی لائبریری خالی ہو جانے کے خیال سے اُٹھی تھی۔۔۔ ریک میں بکس رکھتے وہ جیسے ہی پلٹی ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا۔۔۔۔ ماور اخو فنر دو سی کھڑی رہ گئی تھی۔۔۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ اتنی بڑی لائبریری میں اکیلے رہ جانے کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔ وہ اندھیرے میں سمت کا تعین کرتی آگے بڑھنے
لگی تھی۔۔۔۔
اِس سے پہلے کہ وہ سامنے کھڑی الماری سے اپنا سر پھوڑ لیتی کسی نے اُس کی
کمر میں باز و حمائل کرتے اسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
ماورا کہ لیے یہ حملہ اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ اُس طرف کھینچتی چلی گئی تھی۔۔۔ اُس کا سر مقابل کے چٹانی وجود سے ٹکرائی تھی۔۔۔ جس نے اُسے اپنے کشادہ سینے میں بھینچتے اس کے منہ سے نکلی چیچ کا گلا گھونٹ دیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
نگینہ بائی کی بہت کوششوں کے بعد جاکر حائفہ کی حالت کچھ نارمل ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کارورو کر بُرا حال تھا۔۔۔۔ وہ صرف اور صرف
آژمیر میر ان کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
مگر نگنیہ بائی کے مطابق وہ اُن سب کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔ اس خیال سے وہ ایک بار پھر بے بسی سے اپنا دل مسل کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
اسے کسی مرد سے کبھی اتنی محبت ہو سکتی ہے اس نے کبھی یہ تصور میں بھی
نہیں سوچا تھا۔۔۔۔
حائفہ کچھ کھالو بیٹا۔۔۔ ایسے تو تمہاری طبیعت خراب
ہو جائے گی۔۔۔۔ کیوں خود پر اتنا ظلم کر رہی ہو ؟؟؟؟… اس سب کو حسین خواب سمجھ کر بھول جاؤ۔۔۔۔ وہ چاہے کتنا بھی اعلی ظرف ہو۔۔۔۔۔۔ مگر کسی طوائف زادی کو اپنی بیوی کے روپ میں قبول نہیں کرے گا۔۔۔۔ نگینہ بائی نے اُسے بہلاتے حقیقت کا رُخ دیکھانا چاہا تھا۔۔۔ کہ وہ جس کی خواہش کر رہی تھی وہ اسے کبھی نہیں مل سکتا تھا۔۔۔۔
حائفہ کی تڑپ لمحہ بالمحہ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔آژ میر میران اُس کی سانسوں میں بستا تھا۔۔۔۔ جیسے زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہوتا ہے ویسے
ہی اُس کے لیے آژ میر میر ان ضروری تھا۔۔۔۔
آپ کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔ میں آژ میر کی امانت میں خیانت کروں۔۔۔۔ کسی اور کی بیوی ہوتے ہوئے یہاں غیر مردوں کے سامنے رقص
حائفہ اُن کے ہاتھ جھلکتی نخوت سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ نہیں میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔۔ اگر آژ میر میر ان کی طرف سے تمہیں مخطرو نہ ہوتا تو میں تمہیں اس کے پاس جانے سے کبھی نہ روکتی۔۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں وہ تمہیں مروا دے گا۔۔۔۔ میں نے اب تک تم دونوں کے ساتھ بہت بُرا کیا ہے۔۔۔۔ میں اُس کا ازالہ کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ تمہیں اب مزید اس زندان میں نہیں رہنا پڑے گا۔۔۔۔ میں نے تمہیں یہاں سے نکالنے کے سارے بند وبست کر لیے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔
نگینہ بائی نے بات کرتے رک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
مگرکیا۔۔۔۔؟؟؟؟؟”
اُمید بھری نظروں سے نگینہ بائی کی جانب دیکھتے اس کے رکنے کے ساتھ حائفہ کو اپنا دل رُکتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
حائفہ مجھے میری مری ماں اور بہن کی قسم میں بیچ میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ مگر اس کے لیے تمہیں مجھ پر ٹرسٹ کرنا ہو گا۔۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں تمہارے ساتھ کچھ نام نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔ نگینہ بائی کی باتوں پر حائفہ نے الجھن بھری نظروں سے اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔

کرامت کے پاس تمہاری ڈیمانڈ لے کر آج شام کو ایک گاہک آیا ہے۔۔۔۔ اُس نے ایک رات کے لیے تمہاری اب تک کی سب سے بھاری بولی لگائی ہے۔۔۔۔ اور کرامت کی لالچ دیکھ میر اخون اس وقت کھول اُٹھا جب اس نے تمہیں اس شخص کے پاس بھیجنے کی حامی بھری۔۔۔۔۔
نگینہ بائی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ حائفہ کے چہرے سے سارا خون نچوڑ
گئے تھے۔۔۔
ک کیا۔۔۔۔ مگر میں اپنے شوہر سے دھوکا نہیں کر سکتی۔۔۔۔ میں اب خود پر کسی غیر مرد کی نظر پڑنے نہیں دوں گی۔۔۔ میرا تن من میرے پاس میرے آژ میر کی امانت ہے۔۔۔ جس میں میں مر کر بھی خیانت نہیں
کروں گی۔۔۔۔۔ چاہے کر امت اس کے لیے مجھے جان سے کیوں نہ مار دے
حائفہ بات سنے بغیر ہتھے سے اُکھڑ گئی تھی۔۔۔۔ نگینہ بائی بولی حائفہ میری بات سنو۔۔۔۔اگر تم یہاں سے فرار ہو نا چاہتی ہو تو تمہیں کرامت کی یہ بات ماننی پڑے گی۔۔۔ آگے کے سارے انتظامات میں نے کر رکھے ہیں۔۔۔۔ اور ایک اور بات تم نے اب تک مجھ سے جو چیز چھپائی رکھی ہے۔۔۔ وہ میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔ تم نے آج تک کسی مرد کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔۔۔۔ جن گولیوں سے پہلے تمام مردوں کو بے
ہوش کیا ہے۔۔۔ آج بھی انہیں کا سہار ا لیتے یہ پل صراط کر اس کر جاؤ۔۔۔۔ آگے پھر جیسی زندگی تم گزارنا چاہتی ہوں ویسی ہی ملے گی تمہیں۔۔۔۔ نہ کوئی قید نہ ہی کوئی اذیت ملے گی۔۔۔۔ نگینہ ہائی اسے پوری خلوص نیت سے سمجھاتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔ حائفہ بے یقینی سے منہ کھولے انہیں سن رہی تھی۔۔۔وہ اس کے معاملے میں اتنی نادان نہیں تھی جتناوہ سمجھ رہی تھی۔۔۔
نگینہ بائی نے اُسے اپنا ساراپلین سمجھا دیا تھا، جس پر عمل کرنے کے سوا اُس
کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
نکاح کے بعد سے زوہان کی آنکھوں میں ایک الوہی سی چمک نمایاں تھی۔۔۔ نفیسہ بیگم نجانے کتنی بار اس کی نظر اتار چکی تھیں۔۔۔ مگر وہ آج
اتنا و جیہہ لگ رہا تھا کہ اُسے نظر نہ لگ جاتی
اس خیال سے نفیسہ بیگم یہاں
آنے سے پہلے اُس کا صدقہ بھی دے چکی تھیں۔۔۔۔
زوہان کوئی امپورٹنٹ کال کرتا واپس پلٹا تھا جب سٹیج کے قریب نفیسہ بیگم کے ساتھ کھڑی ثمن کو دیکھ وہ اُن کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ تو فائنلی ٹائم مل گیا تمہیں۔۔۔۔”
زوہان اُس کے لیٹ آنے پر طنز کرتے بولا تھا۔۔۔ نفیسہ بیگم اس کی روڈ نیسں پر افسوس سے سر ہلاتیں دوسرے مہمانوں کی جانب بڑھ گئی تھیں۔۔۔ تم جانتے ہو ملک زوہان ۔۔۔۔ ثمن خان کا سارا وقت ہی تمہارے لیے ہے۔۔۔۔ مگر میں اپنی زندگی کے اس سب سے تکلیف دہ لمحے میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتے دیکھنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے تم جیسے محبت کو اپنے نام لگوانے والے
” نہیں سمجھ پائیں گے۔۔۔۔
شمن کی نگاہیں وارفتگی سے زوہان کے مغرور نقوش کا طواف کر رہی
تھیں۔۔۔۔
یہ سب پہلے سے کلئیر تھا ہمارے درمیان۔۔۔۔
زوہان نے اُس پر واضح کیا تھا۔۔۔ اُسے ہمیشہ شمن کے منہ سے یہ اظہار
ناگوار گزرتا تھا۔۔۔۔
جس سے وہ یہ اظہار سنے کا خواہش مند تھا وہ اسے گھاس ہی نہیں ڈالتی
تھی۔
میں تم سے کوئی شکوہ نہیں کر رہی۔۔۔۔ مجھے اپنی حد یپا ہے۔۔۔ بس تم سے یہ کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھوڑا۔۔۔۔۔ میں ہمیشہ تم سے محبت کروں گی اور ہمیشہ اسی طرح تمہارے آس پاس رہنا چاہوں گی۔۔۔۔ بنا تم سے کسی بات کی توقع کیسے۔۔۔۔ پلیز مجھ سے یہ مت چھیننا۔۔۔۔۔ شمن زوبان کا ہاتھ تھامتے ملتھی لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
اِس سے پہلے کے زوہان اُس کی گرفت سے ہاتھ نکالتا یا اُ سے کوئی جواب دیتا اُس کی بے ساختہ نظر انٹرنس سے اندر داخل ہوتی زنیشہ پر پڑی تھی۔۔۔
آژ میر کا ہاتھ تھامے اُس کے ساتھ چل کر اندر آتی زنیشہ کو دیکھ زوہان کتنے ہی لمحے اپنی نظروں کا زاویہ نہیں بدل پایا تھا۔۔۔۔ اس کے بھیجے گئے لہنگے میں وہ اپنے بے پناہ حسن کے ساتھ کوئی اپسر امعلوم ہورہی تھی۔۔۔۔ ایسی نزاکت اور دلکشی زوہان سمیت وہاں موجود تمام افراد کو مبہوت سا کر گئی تھی۔۔۔۔ سرخ بار یک دوپٹے سے اوڑھا گیا گھونگھٹ زوہان کا دل لوٹ لے گیا تھا۔۔۔۔ جس میں سے جھانکتا ز نیشہ کا سندر چہرا نظر لگ جانے کی حد تک پیار الگ رہا تھا۔۔۔
زوہان ثمن کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنا بھول چکا تھا۔۔۔ لیکن زنیشہ کی نظر شمن کی گرفت میں موجود زوہان کے ہاتھ پر پڑتی اُسے اندر تک جلا کر راکھ کر گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا دل چاہا تھا ابھی بھاگ کر جائے اور اس لڑکی کو زوہان
سے دور پھینک دے۔۔۔۔۔
سب کی رشک بھری نظریں آژ میر میر ان کے سائے میں چلتی زنیشہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ جو آج کی تاریخ میں دنیا کی خوش نصیب ترین لڑکی قرار دی
جاسکتی تھی۔۔۔۔ جس کو پہلے آژ میر میر ان جیسا بھائی اور اب ملک زوہان
جیسا شوہر نصیب ہوا تھا۔۔۔۔
زوہانہوش میں آتے شمن کا ہاتھ چھوڑ تاز نمیشہ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جو آژمیر کے ساتھ سٹیج کے قریب آچکی تھی۔۔۔۔
وہ پہلے ہی اتنی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ اب اُس کے غصے سے لال پڑتے گال
اسے مزید کیوٹ بنا رہے تھے ۔۔۔۔ یہ لڑکی اس کے معاملے میں کتنی حساس
تھی۔ زنیشہ کی خفگی کی وجہ جان
کر زوبان کے لب دلکشی سے مسکرائے تھے۔۔۔۔
آژ میر اور زوہان ایک بار پھر مقابل آن کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔
لوگوں کی نگاہیں اس دنیا کے سب سے ناقابلے یقین منظر پر نکلی ہوئی
تھیں۔۔۔۔
زوہان نے زنیشہ کا ہاتھ تھامنے کے لیے آژمیر کی جانب ہاتھ بڑھایا
تھا۔۔۔۔ جیسے اُس سے اجازت چاہتا ہو۔۔۔۔
یہ لمحہ انتہائی خوبصورت تھا۔۔۔۔ شمسہ بیگم کے لب ہولے سے مسکرائے تھے جبکہ آنکھوں میں نمکین پانی سابھر گیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ یہ منظر کچھ پل کے لیے ہی تھا۔۔۔ اُن دونوں بھائیوں نے پھر سے جدا ہو جانا تھا۔۔۔۔۔ آژ میر آنکھوں ہی آنکھوں میں زوہان کو ز نیشہ کے حوالے سے بہت کچھ وارن کرتا اُس کے ہاتھ میں زنیشہ کا کپکپا تا ہاتھ تھا گیا تھا۔۔۔ جسے اپنی گرفت میں لیتے زوہان اس کی ساری کپکپاہٹیں اپنی مضبوط ہتھیلی میں قید
کر گیا تھا۔۔۔۔
زوہان کے ساتھ سٹیج کی جانب قدم بڑھاتے زنیشہ نے پلٹ کر در زیدہ نگاہوں سے آژ میرکی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو وہیں کھڑا اُسے شفقت بھری
نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
زوہان کے ساتھ سٹیج پر چڑھتے زنیشہ کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو رہی تھیں۔۔۔اُس کے وجود سے اُٹھتی خوشبو ز نیشہ کے حواسوں پر چھا رہی
تھی۔۔۔۔
اُس کے ساتھ صوفے پر براجمان ہوتے زندیشہ نے اپنا ہاتھ اُس کی گرفت سے نکالنا چاہا تھا مگر زوہان ایسا بالکل نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
زوہان بنا کسی کا لحاظ کیسے بڑی فرصت سے اُسے دیکھ رہا تھا مگر زبان سے اُس
کی تعریف میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ زنیشہ اُس کی اس بے باکی پر حیا اور شرم سے خود میں سمٹنے کے سوا کچھ نہیں کر پارہی تھی۔۔۔ اگر وہ اس ضدی شخص کو منع کرتی تو اس نے مزید اُسے تنگ کرنا تھا۔۔۔۔
” آپ کی گرل فرینڈ کو اچھا نہیں لگے گا۔۔۔”
زنیشہ نے اُس کی گرفت سے ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش کرتے اُس کی توجہ سامنے کھڑی شمن کی جانب کروائی تھی۔۔۔
“ڈونٹ وری میں اُسے منالوں گا۔۔۔۔
زوہان آج بہت اچھے موڈ میں تھا۔۔۔ اس لیے اُس کی کسی بات کا بُرا منائے
بغیر اسے مزید تیا گیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے پلٹ کر زوہان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ زوہان پہلے سے ہی اُس کیطرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ نظروں کا گہر ا تصادم ہوا تھا۔۔۔۔سامنے کھڑے کیمرہ مین نے جھٹ سے یہ دلفریب منظر اپنے کیمرے میں قید کر لیا
زوہان کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ زنمیشہ نے گھبراکر چبر اواپس جھکا لیا تھا۔۔۔ اُس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ زوبان کی گرفت اُس کے ہاتھ پر مزید مضبوط ہوئی تھی۔۔
زوہان دوسرا باز وصوفے کی بیک پر پھیلاتے زنیشہ کے ساتھ مزید جڑ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کو اپنا پہلو جلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ سب کے سامنے اس شخص نے اپنی ڈھکی چھپی بے باک حرکتوں سے اُس کی جان آدھی کر دی تھی۔۔۔ نجانے تنہائی میں اُس کا کیا بنے والا تھا۔۔۔۔ نفیسہ بیگم کو سٹیج پر آتادیکھ زنیشہ کی جان میں کچھ جان آئی تھی۔۔۔
ماشاء اللہ میری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔۔ اللہ نظر بد سے
بچائے۔۔۔۔۔
زنیشہ کے قریب آتے نفیسہ بیگم محبت پاش لہجے میں اُس سے مخاطب ہوئی
میرے بیٹے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ بہت محبت کرتا ہے
تم سے۔۔
ہمیشہ تمہارا خیال رکھے گا۔۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے اس بات کا۔۔
زنیشہ کا ماتھا چومتے نفیسہ بیگم اُسے زوہان سے ڈرا سہماد یکھ تسلی دیتے بولی تھیں۔۔۔
خالہ جانی میرے کرنے والے کام آپ کر رہی ہیں۔۔۔ دیس ناٹ فیر۔
زوہان کی شکل سے دیکھ کر لگ رہا تھا اُسے نفیسہ بیگم کا ز نیشہ کو یہ سب کہنا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔ جبکہ زنیشہ تو اس شخص کی بے شرمی دیکھ شرم سے پانی پانی ہو کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔
ز وہان۔۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازتے تنبیہ کی تھی۔۔۔۔ آج بہت دنوں بعد زوہان اُنہیں اتنا خوش اتنے اچھے موڈ میں نظر آرہا تھا۔۔۔ زنیشہ کی پہلے سے طبیعت بہت خراب تھی ۔۔۔ اب اس کا بخار مزید بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ بہت مشکل سے دو اس وقت سٹیج پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔
” تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔”
زوہان اپنے ہاتھ میں موجود اُس کے ہاتھ کی بڑھتی تپیش محسوس کرتے
فکر مندی سے بولا تھا۔۔۔
“جی۔۔۔۔
زنیشہ نے مختصر جواب دیا تھا۔۔۔۔ وہ اُس سے شدید ناراض تھی۔۔۔اور اُس سے کوئی فیور نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔
تم ٹھیک نہیں ہو ۔۔۔۔ تمہیں روم میں ریسٹ کرنا چاہیئے۔۔۔۔ باقی کی
ملاقات میں تم سے وہیں کرتا ہوں۔۔۔۔
زوہان کی بات پر زنیشہ جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ کو جو بات کرنی ہے۔۔۔
ہیں۔۔
یہاں پر کر سکتے زنیشہ لرزتے دل سے گویا ہوئی تھی۔۔۔۔ زوہان کے ساتھ اکیلے ملنے کے
خیال سے اس کہ جان حلق میں اٹک چکی تھی۔
آژمیر زنیشہ سے مل کر شہر کے لیے
تھا۔۔ اس کوئی امپورٹنٹ کام تھا
اس نے گھر میں یہی بتایا تھا سب کو ۔
مگر شمسہ بیگم اُس کے یوں ہر طرف سے فرار ہو جانے کی وجہ سمجھ رہی تھیں۔۔۔ آژ میر کس قدر مشکل سے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ
لائے ہوئے تھا یہ اذیت اُس سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
اس کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ پائل کی چھن چھن کی آواز سنسان پڑے کوریڈور میں ایک ارتعاش سا پیدا کر رہی تھی۔ اسے آج پھر پور پور سجایا گیا تھا کسی نامحرم کے لیے۔ کرامت کے مطابق اسی شخص نے اس کی سب سے بڑی بولی لگائی تھی۔ اتنی بڑی قیمت شاید ہی آج تک کبھی کسی طوائف کی لگائی گئی ہو۔ پورے کو ٹھے پر اُس کی واہ واہ کی جارہی تھی۔ وہ تو پہلے ہی اسے اپنے کو ٹھے کی ملکہ بلاتی تھیں۔ اُس کا دو آتشہ حسن تھا ہی ایسا مومی مجسمے پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اگلا شخص اُس کے قدموں میں
ڈھیر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا تھا۔
آج تو اس کا قیامت خیز رُوپ مزید اپنے حُسن کا قہر ڈھانے کو تیار تھا۔ وہ سادگی میں رہنا پسند کرتی تھی۔۔۔ لیکن جب تیار ہوتی تھی تو ایسے ہی بجلیاں
گراتی تھی۔۔۔
مگر اس وقت اُس نے اپنے حسن کی تباہ کاریوں کو ایک سیاہ چادر میں چھپارکھا تھا۔ جسے اس نے اپنے آج رات کے خریدار کے آگے ہی آشکار کرنا تھا۔ اس کے دماغ میں یہاں سے فرار کی پلاننگ بہت تیزی سے چل رہی تھی۔۔۔ مگر بظاہر اس نے خود کو کمپوز کر رکھا تھا۔۔۔۔
اس نے سرد و سپاٹ تاثرات کے ساتھ نیم تاریک خواب گاہ میں قدم رکھا تھا۔ یہ اس محل نما گھر کے مالک کا کمرہ تھا شاید ، وہ تاریکی میں بھی اس بات کا اندازہ لگاسکتی تھی۔ پورے بیڈ روم میں جگہ جگہ رنگ برنگے دیے روشن تھے۔ جو اُس کمرے کی خوا بنا کی اور رومانوی ماحول میں مزید اضافہ کر رہے
تھے۔
اُس نے کمرے کے چاروں اطراف نظریں گھمائی تھیں۔ جب اُس کی نظر سامنے کرسی پر بیٹھے شخص پر پڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا، مگر رخ مخالف سمت ہونے کی وجہ سے وہ اُس کا چہرا نہیں دیکھ پائی تھی۔ نہ ہی اُس کے اندر ایسی کوئی خواہش تھی۔
خوش آمدید حائفہ ، آخر تم میری دسترس میں آہی گئی۔ پہلے بتاتی تمہاری یہ اوقات ہے، تو بہت پہلے تمہیں پیسوں سے خرید لیتا، یہ کام تو کبھی میرے
” لے مشکل نہیں تھا۔
وہ شخص بنا رخ اس کی جانب موڑے بولی جار ہا تھا۔ جبکہ حائفہ اس جانے پہچانے لب و لہجے پر اپنی جگہ گنگ کھڑی تھی۔ جس شخص کے لیے وہ اتنا تڑپ رہی تھی۔۔۔ مگر اس کے سامنے جانے کی ہمت بھی نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔ اُس کے یہاں ہونے کا تصور حائفہ کے وجود سے جان نکال گیا تھا۔ اُس کے دل نے شدت سے خواہش کی تھی۔ کاش یہ اُس کا وہم ہو، نہیں وہ شخص بھلا یہاں کیسے ہو سکتا تھا۔ک۔۔۔۔کون۔۔۔یہ لفظ ادا کر تے اُس کی زبان ہکلا گئی تھی۔
مگر جیسے ہی اُس شخص نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر رُخ اُس کی جانب موڑا، حائفہ کی نگاہوں میں پورا کمر ا گھوم گیا تھا۔ اُس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا
مشکل ہو گیا تھا۔
کیا ہوا یقین نہیں آرہا مجھے زندہ دیکھ ۔۔۔۔۔ تمہارے مطابق تو مر چکا ہو نگا نا میں۔۔۔۔۔ مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی نا تم نے۔۔۔۔۔
اپنی طرف سے زہر تک دے ڈالا مجھے۔
آژ میر میران کی سرد منجمند کرتی آواز حائفہ کے کانوں سے ٹکراتی اُس کا رنگ فق کر گئی تھی۔ اس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا مشکل ہوا
تھا۔۔۔۔
دلہن کی طرح سجی سنوری حائفہ کو وہ زہر آلود نظروں سے دیکھتا ضبط کی انتہا
پر تھا۔۔۔۔
یہ بات ہی اُس کے دل پر چھریاں چلانے کے لیے کافی تھی کہ اس کے نکاح میں ہوتے ہوئے حائفہ کا یہ روپ کسی اور کے لیے سجایا گیا تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت سیاہ کلف لگے لباس میں کندھوں پر ڈارک براؤن شال ڈالے اپنی سحر انگیز شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ اُسے لہور نگ انتقامی نظروں سے
سر سے لے کر پیر تک دیکھتاز مین میں گاڑھ گیا تھا۔
اس سے پہلے کتنوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔”
حائفہ کی نم آنکھیں اوپر اٹھانے پر وہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑ گیا تھا۔ مگر وہ اد حوارا جملہ بھی اتنانو کیلا تھا کہ حائفہ کو اپنا دل لہولہان ہوتا محسوس ہوا تھا۔ آژ میر کے دل میں یہ ساری آگ اُس کی اپنی لگائی ہوئی تھی۔۔۔ اب برداشت تو
کرنی تھی اُسے۔۔۔۔
کیا ہوا ایک طوائف زادی سے اس کے علاوہ اور کیا سوال کر سکتا ہوں “
میں ۔۔۔۔۔۔؟
زہر خند لہجے میں بولتا وہ اس کے بہت پاس آن پہنچا تھا۔ حائفہ پتھر بنی اپنی
جگہ پر جم چکی تھی۔
مگر اگلے ہی لمحے اُس آگ اُگلتے شخص کی جارحانہ کاروائی پر حائفہ کی آنکھ سے آنسو نکلتے بے مول ہوئے تھے۔ جن کی اب مقابل کے آگے کوئی قیمت نہیں تھی۔ حائفہ اُس کے محبت بھرے دل کا قتل کر چکی تھی۔۔۔ اُسے وہ اب کہیں سے بھی پہلے والا آژ میر میران نہیں لگا تھا۔۔۔۔ حائفہ سے بات کرتے جس کے لہجہ میں نرمی در آتی تھی۔۔۔ آج اُتنی ہی نفرت اور حقارت
تھی۔۔۔۔
اُس نے حائفہ کی کلائی موڑ کے کمر سے لگائی تھی۔ اُسے اپنی کلائی ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔ مگر وہ کچھ بھی بول کر اس بپھرے زخمی شیر کے غصے کو
مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔۔ اُسے یہ سب چپ چاپ برداشت کرنا تھا۔۔۔اور وہ دل سے ایسا کرنا بھی چاہتی تھی۔۔۔۔
نفرت میں ہی سہی مگر آژ میر میران اسے اپنے قریب کر تو رہا تھا۔۔۔۔۔
کیوں کیا میرے ساتھ انا براصرف پیسوں کے لیے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ تم ایک بار بولتی میں دنیا کی ہر چیز تمہارے قدموں میں ۔تم ڈھیر کر دیتا، مگر تم نے تو مجھے انسان سے وحشی بنا کر وہ نقصان کیا ہے، جس
کی کبھی بھرپائی نہیں ہو سکے گی۔۔۔۔۔
اُس نے اپنی بات ختم کرتے حائفہ کو کسی
دور پھینکا تھا۔
حائفہ منہ کے بل زمین پے جاگری تھی۔۔۔ اُس نے ہونٹ بھیجے بہت
مشکل سے اپنی سسکی رو کی تھی۔۔۔۔
وہ اس وقت ریڈ ڈریس میں ملبوس آژ میر میر ان کو دھکتے کوئلے میں جھونک رہی تھی۔۔۔۔ اس کی سیاہ چادر تو کب کی گر چکی تھی۔۔۔ ابھی وہ اپنے
ہوش رُبا حلیے کے ساتھ آژ میر کے سامنے تھی۔۔۔
آژ میر ہاتھ میں پکڑا شراب کا پورا گلاس اپنے اندرائنڈ ملتا اُسے دیوار سے مار گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ نے سہم کر آژ میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جس کی لال اذیت اور وحشت سے بھری لال آنکھیں اس کے اوپر جمی ہوئی
تھیں۔۔
حائفہ زمین سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ اپنے اوپر شال نہ ہونے کا احساس ہوتے اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی تھیں۔۔۔ جب آژ میر کے قدموں کے قریب اسے اپنے شال پڑی نظر آئی تھی۔۔۔ وہ بے بسی سے چہرا جھکاگئی
تھی۔
آژمیر کا اپنے قریب آتا دیکھ اُس نے پیچھے ہو نا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر تب تک آژمیراس پر حملہ آور ہوتا پوری طرح اسے اپنی بے رحم گرفت میں جکڑ چکا
تھا۔۔
آژمیرکا ایک بازو انتہائی سختی سے حائفہ کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔۔۔ جبکہ دوسرا
بازو اس کے لال دوپٹے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
حائفہ تکلیف کے باوجود بنا کوئی مزاحمت کیسے ایسے ہی کھڑی رہی
تھی۔
آژمیرنے اس کا دوپٹہ اتار کر دور اچھال دیا تھا۔۔۔ دوپٹے کے ساتھ انچ جوڑے کی بہنیں بھی نکلتی چلی گئی تھیں۔۔۔۔
حائفہ کے منہ سے ہلکی سے سکاری نکلی تھی۔۔۔ مگر آژمیرکے کانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ دب گئی تھی۔۔۔اُس کا دوپٹہ دور جا گرا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی حسین زلفیں کسی آبشار کی طرح اس کے اوپر آن گری تھیں۔۔۔۔
آث میر میران آج پہلی بار حائفہ کو اس طرح اُس کے حُسن کی پوری
رعنائیوں کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔۔۔
مگر آج اُس کی محبت کے جذبات نفرت اور غصے کی شدید لہر کے نیچے دب
چکے تھے۔۔۔۔
” کیوں کیا میرے ساتھ ایسا ؟؟؟؟؟”
آژ میرا بھی بھی وہی سوال جانے پر بضد تھا۔۔۔ جس کا جواب اُسے مل چکا تھا مگر وہ شاید اب بھی حائفہ کو اپنی زبان سے سچ بولنے کا مار جن دے رہا سے
تھا۔۔۔۔
وہ اتنے دھو کے کے بعد بھی اس لڑکی کو مہلت دے رہا تھا۔۔۔۔ یہی آژ میرمیران کی اعلی ظرفی اور سچی محبت کا ثبوت تھا۔۔۔۔۔
اُس نے حائفہ کی گردن کو پیچھے سے اپنی ہاتھ کی گرفت میں لیتے اُس کا چہرا
اُٹھا کر اپنے سامنے کیا تھا۔۔۔۔
بند آنکھوں پر سایہ فگن گھنی سیاہ پلکیں جو آژ میر میر ان کی قربت کے احساس سے مسلسل لرز رہی تھیں۔۔۔ پھولے سُرخ گال اور ٹھنڈ سے لال ہوتی ستواں ناک۔۔۔۔ یہ لڑکی قیامت خیز حسن کی مالک تھی۔۔۔۔ ایک منظر پر آکر آژ میر کی نظریں جم سی گئی تھیں۔۔۔۔ سرخی مائل اُس کی رس بھری لال پنکھڑیاں۔۔۔۔ جن کی کپکپاہٹ لحہ بالحہ بڑھتی جارہی
تھی۔۔۔۔
اس معصوم چہرے پر کیسے بھلا کوئی شک کر سکتا تھا۔۔۔۔ آژ میر کو اپنے چوک جانے اور اس لڑکی کے ہاتھوں مات کھانے پر خود پر بھی بہت غصہ تھا۔۔۔۔ مگر اس پر فریب معصوم چہرے سے دھو کا لکھا نا عام بات تھی۔۔۔۔ یہ چہرا آج بھی اتنا ہی معصوم تھا۔۔۔ بس آج اس کا پول کھل چکا
تھا۔۔۔۔
آژ میر کی نگاہوں کی تپیش سے حائفہ کا پوراوجو د لر ز رہا تھا۔۔۔۔۔
“سر مجھے معاف۔۔۔۔۔۔
حاعفہ نے اُسے نرم پڑتے دیکھ آنکھیں واں کرتے اُس سے معافی مانگنی چاہی
تھی۔۔۔۔
لیکن آژ میر اس کی بات پوری ہونے دیئے بغیر اس پر پوری طرح حاوی ہوتا اس کی سانسیں قید کر گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ اس جارحانہ شدت بڑھے عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں غیر معمولی حد تک کھل چکی تھیں۔۔۔
آژ میر میر ان کی لمحہ با لمحہ بڑھتی شدت حائفہ کی آنکھوں میں آنسو بھر گئی
تھی۔۔۔۔
کیونکہ وہ اس لمس کے ذریعے اپنے اندر کا شدید غصہ ، نفرت، انتقام اور
اشتعال اُس کے اندر انڈیل رہا تھا۔۔۔
حائفہ بنااُسے دور جھٹکے یہ سب برداشت کرتی رہی تھی۔۔۔۔ آژ میر کا ایک باز واُس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ دوسرا اس کہ گردن پر تھا۔۔۔۔
حائفہ کا پورا وجو د ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔اُس نے آژ میر کی شرٹ
سینے سے دبوچ رکھی تھی ۔۔۔۔
اُسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اتنی دیر ہو جانے کے بعد
بھی آژ میر کا اُسے چھوڑنے کا کوئی موڈ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔
جب کچھ لمحے بعد حائفہ کو ایک تکلیف کے احساس کے ساتھ اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس کی بگڑتی حالت کے پیش نظر اس پر ترس کھاتے حائفہ میر میر ان اُسے آزاد کر گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ گہرے گہرے سانس لیتی بُری طرح سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔ وہ کب کی زمین بوس ہو جاتی
اُسے اپنی گرفت سے آزاد کر چکا ہو
ہوتا۔۔۔ اگر اس نے آخر میر کو سینے سے تھام نہ رکھا ہوتا۔۔۔۔ اُس نے اپنا کانپتا نازک باز و آثر میر کی کمر کے گرد حمائل کر رکھا تھا۔۔۔۔ جبکہ دوسرے ہاتھ کی مٹھی سے آژمیر کی شرٹ دبوچ رکھی تھی۔۔۔۔
وہ پورے حق سے اس کے سینے پر سر رکھے گہرے گہرے سانس لیتی خود کو
نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
آژ میر اس کے خطرناک حد تک لال ہوتے چہرے پر ایک گہری نظر ڈالتا
سیگریٹ سلگھا گیا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ؟؟ ابھی سے یہ حالت ہو ئی تمہاری ابھی تو میرے اندر لگی
آگ بجھانی ہے تم نے۔۔۔۔وہ کیسے برداشت کر پاؤ گی۔۔۔۔۔ آژ میر اس کی ٹھوڑی پنجوں میں جکڑ کر اپنی جانب اُٹھا ناز ہر خند لہجے میں بولا
تھا۔۔۔۔
میں آپ کی ہر سزا سہنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ آپ جو کہیں گے میں کروں گی۔۔۔۔۔ بس آپ مجھے خود سے جدامت کیجیئے گا میں مر جاؤں
“گی۔۔۔۔۔
حائفہ کافی حد تک اپنی سانسیں بحال کر چکی تھی ۔۔۔۔
دیوانہ وار نظروں سے آثر میر کا چہراد یھتی بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ دیوانی
آج اپنا سب کچھ اپنے محبوب پر وار نے کو تیار تھی۔۔۔۔
مگر اس وقت آژ میر پوری طرح اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔۔۔۔اس لیے اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے بھری بے پناہ دیوانگی نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔۔ جانتی ہو نا میں کون ہوں۔۔۔ ؟؟ ملک آژ میر میر ان۔۔۔ آج تک کسی غیر لڑکی کو اپنے قریب بھٹکنے بھی نہیں دیا۔۔۔۔ ہمیشہ اپنے کردار کو مضبوط اور بے داغ رکھا۔۔۔۔ اس لیے بالکل بھی نہیں کہ تم جیسی ایک طوائف زادی جو نجانے کتنے مردوں کی سیج سجا چکی ہے وہ میری بیوی بنے۔۔۔۔۔ تم پر
آژ میر میران اب تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا ۔۔۔۔۔
آژمیر کے منہ سے نکلنے والے نو کیلے الفاظ سید ھے حائفہ کے دل میں پیوست ہوتے اُسے ویسے ہی لہولہان کر گئے تھے۔۔۔۔ جیسے اُس نے آژمیر کے دل کے ساتھ کھیل کر کیا تھا۔۔۔۔
آژ میر یہ الفاظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی گردن پر اپنی مضبوط ہتھیلی
جما چکا تھا۔۔۔۔
آژ میر کے اعصاب پر نشہ چھانے لگا تھا۔۔۔حاعفہ کے آنے سے پہلے شدید غصے کے عالم میں وہ شراب کی دو بوتلیں مختم کر چکا تھا۔۔۔ جس حرام شے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا وہ۔۔۔۔ حائفہ کی جانب سے ملنے والے دھو کے اور دل کی بربادی نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں چھین لی تھیں۔۔۔۔ وہ کبھی کسی کو اپنے اتنے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔۔۔۔اسی دھو کے کے ڈر
یہ لڑکی اُس کے لیے پل پل مر رہی تھی۔۔۔۔اگر وہ یہ جان جاتا تو اسے ایسا
کبھی نہ کہتا۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ کی طبیعت کے پیش نظر اسے روم میں لایا گیا تھا۔۔۔ زوبان کی نظروں سے اوجھل ہوتے زنیشہ نے سکھ کا سانس بھرا تھا۔۔۔۔۔
وہ بخار سے زیادہ زوہان کی شوخ نگاہوں سے نڈھال تھی۔۔۔وہ سمجھ نہیں
پارہی تھی اچانک زوہان کو کیا ہوا تھا۔۔۔۔
پلیز بھا بھی اس کو میرے سر سے اُتار دیں یہ
بہت ہیوی ہے۔۔۔۔ میرے
سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
زنیشہ نے دکھتے سر کو دباتے فریحہ کو پکارا تھا۔ جو اجار
واپس پلٹ رہی تھی۔۔۔۔
اُس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تھا جب اُس کے ساتھ کھڑی صدف
اُسے اشارے سے خاموش کرو گئی تھی۔۔۔۔
میں بس ابھی آکر تمہاری ہیلپ کرتی ہوں۔۔۔۔ تھوڑی دیر صبر “
کرو۔۔۔۔
فریحہ الفاظ بدلتی وہاں سے کھسک گئی تھی۔۔۔ وہ دونوں اُسے یہاں زوہان
کی متوقع آمد کا بتاتے اپنے سروقت سے پہلے کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کرنا چاہتی
تھیں۔۔۔
تم نے مجھے بتانے کیوں نہیں دیاز نیشہ کو۔۔۔۔ کہ زوہان اُس سے ملنے آرہا
” ہے۔۔۔
فریحہ نے باہر آتے صدف کو گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔
آپ کو لگتا ہے یہ جان کے زنیشہ ہمیں اتنی آسانی سے روم سے آنے دیتی۔۔۔۔۔ وہ کتنی گھبرائی رہتی ہے زوہان بھائی کے نام سے بھی۔۔۔۔ “ہماری بات سنتے ہی اس نے بے ہوش ہو جانا تھا۔۔۔۔ صدف زنیشہ کی حالت سوچ مسکرائی تھی۔۔۔
تو تمہیں کیا لگتا ہے زوہان کو اپنے سامنے یوں اچانک دیکھ وہ بے ہوش “
” نہیں ہو گی۔۔۔۔۔
فریحہ کو ز نمیشہ کی فکر ہوئی تھی ۔
وہ تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ہو گی۔۔۔۔ مگر اُس کے وہ ہیر و صاحب جو ہر وقت تیس مار خان بنے پھرتے ، یہاں سب میران پیلیس والوں کا خون
خشک کر کے رکھا ہوا ہے۔۔۔اب سنبھالیں گے اپنی ہیر وئن کو۔۔۔۔ مزا
تب آئے گا۔۔۔۔
صدف خوب مزے لے کر بولتی جیسے ہی مڑی، سامنے شمسہ بیگم اور قاسم صاحب کے ساتھ سر د تاثرات لیے کھڑے زوہان کو دیکھ اس کی سیٹی تم
ہوئی تھی۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے گھبرا کر زوہان کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔ جس کا کب کس بات پر
موڈ بگڑ جائے کوئی بتا نہیں تھا۔۔۔۔ کوئی پتا
آئم سوری۔۔۔۔۔”
صدف سب کی گھورتی نگاہوں پر شرمندہ سی ہوئی تھی۔۔۔ مگر اس کی پوری سوری سنے بغیر زوبان زنیشہ کے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ بیٹا اب سوچ سمجھ کر بولنا کب شروع کریں گی۔۔۔ زوبان اور ہمارے بیچ ماضی میں جو بھی چلتا رہا ہو۔۔۔ مگر اب وہ ہمار اد اماد ہے۔۔۔ اس کی عزت و احترام میں زرا سی بھی کوتاہی ہم برداشت نہیں کریں گے۔۔۔
قاسم صاحب زوہان کے بگڑے تیور دیکھ صدف کو ٹھیک ٹھاک سنا گئے
تھے۔۔۔۔
بھا بھی یہ بندہ کتنے غصے والا ہے مذاق بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔ ہماری زنیشہ کا کیا ہو گا۔۔۔۔ مجھے اس کا نام تیس مار خان نہیں ہٹلر رکھنا
” چاہیے تھا۔۔۔۔
صدف کا منہ اتر چکا تھا۔۔۔۔
جبکہ فریحہ کی کب سے رکی ہنسی چھوٹ چکی تھی۔۔۔
جہاں تک ہم سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ بندہ زنیشہ میر ان کے ہاتھوں جا کر ہی سیدھا ہو گا۔۔۔ تم دیکھنا۔۔۔۔اگر یہ مغرور شہزادہ جھکے گا تو اپنی
“شہزادی کے آگے ہی۔۔۔۔۔
فریحہ مسکرا کر پورے یقین سے کہتیں وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔۔۔۔
@@@@@@@@

Share with your friends on Facebook


Updated: April 15, 2025 — 4:02 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *