Haifa and Zanisha Novel Part 16 – Urdu Stories Online | Romantic Urdu Novel PDF


Part 16 of Haifa and Zanisha continues to captivate readers with its emotional intensity and heart-touching moments. As one of the most loved Urdu stories online, this part dives deeper into the struggles of love, trust, and destiny.

The emotional highs and lows in this chapter bring out the real essence of romance and heartbreak, making it a must-read for lovers of online Urdu novels.

Urdu Stories Online

Haifa and Zanisha Novel Part 16 – Urdu Stories Online | Read Free & Download PDF

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 15 – Urdu Story World

ماور اجو پوری طرح کسی کے حصار میں قید ہو جانے کے خوف سے بے ہوش ہونے کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔اگلے ہی لمحے اس کے وجود سے اُٹھتی خوشبو محسوس کرتے وہ آسودگی سے مسکرادی تھی۔۔۔۔
وہ سوچ بھی کیسے سکتی تھی کہ منہاج درانی کے سوا کوئی ایسی جرات کر سکتا
چھوڑو مجھے۔
ماورا اُس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے اُس سے آزادی چاہتی
تھی۔۔۔۔
منہاج مو بائل کی ٹارچ آن کر تا سائیڈ ریک پر رکھ گیا تھا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا
کہ ماورا کو اند ھیرے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔
” صبح سے مجھ سے کیوں چھپ رہی ہو وجہ؟؟”
منہاج اُسے اپنے حصار سے آزاد کر تا اُس کی دونوں کلائیاں تھام کر پیچھے موجود ریک کے ساتھ دائیں بائیں لگاتے اس پر پوری طرح حاوی نظر آرہا
تھا۔۔۔
ماورا اس کے مضبوط وجود کے پیچھے چھپ سی گئی تھی۔۔۔۔
منہاج کے محبت بھرے شوخ لب و لہجے پر اور اپنی پلکیں اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔ مگر زیادہ دیر اس کی جذبے کٹاتی آنکھوں میں
دیکھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔
” میں سٹڈی کر رہی تھی صبح سے۔۔۔۔۔
ماور اسے اُس کے آگے بولنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ اُس نے اپنی کلائیاں آزاد کروانے کی کوشش کی تھی مگر منہاج ابھی اس کے لیے تیار نہیں
تھا۔۔۔۔۔
اور میں جو صبح سے تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لیے خوار ہوا ہوں”
” وہ۔۔۔۔۔ اُس کا حساب کون دے گا۔۔۔۔
منہاج نے اُس کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹوں کو پھونک مار کر ہٹایا تھا۔۔۔۔ماورا کے چہرے کو اُس کے علاوہ کوئی بھی چھوئے اُس سے
برداشت نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔
ہمیں باہر جانا چاہیے۔۔۔۔لائبریری کے بند ہونے کا ٹائم ہو چکا”
ماورا سے اُس کی شوخ نظروں کے وار سہنا مشکل ہو ا تھا۔۔۔
ابھی وہ اتنا ہی بولی تھی جب اسی لمحے باہر سے لائبریری کا مین ڈور لاک
ہونے کی آواز سنائی دی
ماور انے سہی نظروں سے منہاج کی طرف
دیکھا تھا۔۔۔ جس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی ۔۔۔۔
اب وہ پوری طرح سے اس کے رحم و کرم پر تھی۔۔۔ “ہم کیسے جائیں گے باہر ۔۔۔۔۔”
ماورا اُس کا دھیان خود پر سے ہٹانے کے لیے بولی تھی۔۔۔۔ اُس کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
” آج کی رات میرا یہاں سے جانے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔۔۔۔” منہاج کو اُسے تنگ کرنے میں مزا آ رہا تھا۔۔۔
تم جانتی ہو تمہارا یہ شر مایا گھر یار وپ مجھے کیا کیا گستاخیاں کرنے پر اکسار ہا”
” ہے۔۔
منہاج اس کی کان کی لوح پر لب رکھتے اس کی سانسیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔
ماورا کے گال تپ اُٹھے تھے۔۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ ماورا سے اور کچھ بولا ہی نہیں
گیا تھا۔۔۔۔ اس کی ساری تیز طراری پتا نہیں کہاں
بھاگ گئی تھی۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔
منہاج نے اُس کی گال کو لبوں سے چھوا تھا۔۔۔ ماور اس کے دہکتے لمس پر جی جان سے لرز اٹھی تھی ۔۔۔۔
” مجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔۔۔
ماورا بمشکل یہ الفاظ ادا کر پائی تھی۔۔۔۔
میں جس کام کے لیے یہاں آیا ہوں میں وہ کیے بغیر نہیں جانے دوں گا “
منہاج اُس کے مزید قریب ہوا تھا۔۔۔
جبکہ شرم اور خوف کے مارے ماورا کی جان آدھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
” نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔۔”
ماورا نے فوراً نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
ارے پوری بات تو سن لو کر
منہاج اُس کی لرزتی پلکوں کا رقص دیکھ مبہوت ہوا تھا۔۔۔۔ماورا کی مومی کلائیوں کا لمس اُس پر خمار سا طاری کر رہا تھا۔۔۔۔
اس لڑکی کی مہکتی قربت کے باوجود وہ خود پر کیسے ضبط کیسے کھڑا تھا یہ وہی
جانتا تھا۔۔
“نن نہیں۔۔۔۔ پلیز۔۔
ماورا اُس کے سارے مطلب سمجھتی تھی۔۔۔اس لیے اُس کی پوری بات
سننے کی روادار بھی نہیں تھی۔۔۔۔
آج میر ا اس یونی میں لاسٹ ڈے ہے۔۔۔۔ میں سپیشلائزیشن کے لیے”
” یو۔ کے جارہا ہوں۔۔۔۔
یہ بات کرتے منہاج لمحہ بھر کو ڑ کا تھا ۔۔۔۔ کیونکہ ماورا کی آنکھوں میں واضح ابھرتی اداسی اس سے چھپی نہیں رہ سکی تھی ۔۔۔
@@@@@@@@@
زنیشہ اُن کو واپس لوٹانہ دیکھ خود ہی اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آن
بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
اُس کے بھاری دوپٹے کو بالوں کے جوڑے کے ساتھ اتنی زیادہ پینز لگا کر پین اپ کیا گیا تھا کہ اُس کے لیے ایک ایک پن نکالنا محال ہو رہا تھا۔۔۔۔
وہ نجانے کتنی پینز نکال چکی تھی مگر دوپٹہ اپنی جگہ سے ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔ جبکہ جوڑا ڈھیلا ہو چکا تھا۔۔۔ اور اُس میں سے بال باہر آنے لگے
زنیشہ اچھی خاصی زچ ہو چکی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے اُسے دروازہ کھلنے کی
آواز آئی تھی۔۔۔
اس کا چہرا جھکا ہوا تھا۔۔۔ وہ یہی سمجھی تھی کہ فریحہ لوگ ہی واپس آئی
ہیں۔۔۔۔
شکر ہے تم لوگوں کو میر اخیال آگیا۔۔۔۔ پلیز اب مجھے اس پچاس کلو کے “
” دوپٹے سے رہائی دلوادو۔۔۔۔
زنیشہ بنا پیچھے کھڑی ہستی کو دیکھے مدد کے لیے پکار بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔اگر وہ پلٹ کر دیکھ لیتی تو کسی صورت یہ الفاظ ادا نہ کرتی۔۔۔۔

@@@@@@@@@@@@@@@
حاعفہ خاموش کھڑی آژمیر کاہر ستم سہنے کو تیار تھی۔۔۔۔اُس نے آژمیر کا دل دکھا یا تھا۔۔۔ آژمیر کی تکلیف اُس کے دل پر چھریاں چلارہی تھی۔۔۔ اُس نے بے حد ، بے پناہ چاہا تھا اس شخص کو ۔۔۔۔اس لیے اس وقت بھی اپنی تکلیف سے زیادہ اسے آژمیر کی تکلیف رلارہی تھی۔۔۔۔ میں نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔۔۔ میں مجبور تھی ۔۔۔۔۔ مگر میں “
قسم کھا کر۔۔۔۔۔
حائفہ کا دل خون کے آنسور اور ہا تھا۔۔۔ وہ آژمیر کی آنکھوں میں تیرتی و حشت اور اذیت نہیں دیکھ پارہی تھی۔۔۔
اُس نے بولنا چاہا تھا جب گردن پر بڑھتی آژمیر کی گرفت کی سختی پر تکلیف کے عالم میں اُس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔۔۔۔
تم نے اس قدر بے وقوف سمجھ رکھا ہے مجھے ۔۔۔۔ کہ تم اب اپنی جان بچانے کی خاطر میرے سامنے اپنی جھوٹی محبت کی قسمیں کھاؤ گی اور میں مان
جاؤں گا۔۔۔۔اگر تمہاری مجھ سے محبت اتنی ہی سچی ہوتی تو مجھے یوں
دشمنوں میں گھر اد یکھ وہاں سے فرار نہ ہو جاتی۔۔۔۔اُس وقت کھڑے ہو کر مجھے اپنی محبت کا یقین دلاتی ۔۔۔۔
تمہیں لگا کہ آژمیرمیر ان سے اتنا بڑاد ھو کا کر کے تم بیچ نکلو گی۔۔۔۔ مگر اب اپنی جان کے لالے پڑتے دیکھ تم پھر اسی جھوٹی محبت کو بیچ میں لارہی ۔ جس سے اب میں شدید نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔ محبت کا جذبہ میرے لیے دنیا کا سب سے بد صورت ترین جذبہ ہے۔۔۔۔ جسے ڈھال بنا کر تم جیسے لوگ۔۔۔ صرف دولت کی خاطر دوسروں کے جذبات سے
ہو۔۔
کھیلتے ہو۔۔
آژمیرآخر میں اتنے زور سے دھاڑا تھا کہ حائفہ کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا
تھا۔۔۔
گردن پر لمحہ بالمحہ بڑھتی آژمیرکی گرفت کی سختی پر حائفہ کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔ مگر وہ اپنے آپ کو آزاد کر وانے کے لیے کوئی
مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔
آژمیجو اسے اپنی جان بچانے کے لیے تڑپتے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں درد کے ساتھ ساتھ پھیلتی آسودگی کے رنگ دیکھ آژمیاُلجھ گیا
تھا۔۔۔
وہ کسی صورت حائفہ کو مارنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ وہ اُسے زندہ رکھ کر اپنی اذیت کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔۔۔ مگر اس وقت موت کو اتنے قریب دیکھنے کے باوجود حائفہ کا یہ پر سکون اند از آژمیکو آگ بھگو لا کر گیا تھا۔۔۔ اُس نے حائفہ کی گردن آزاد کرتے اُسے پاس پڑے صوفے پر پھینک دیا
تھا۔۔۔۔
حائفہ کمر کے بل صوفے پر گرتی بُری طرح کھانسنے لگی تھی۔۔۔۔ حائفہ کی بے چینی مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔۔ اس لڑکی کو تکلیف دینے کے بعد بھی
اُسے سکون نہیں مل پارہا تھا۔۔۔۔
آژمیر بیڈ سائیڈ پڑی شراب کی بوتل اُٹھانے بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ جب پانی کا گلاس اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتے حاعفہ نے بہت ہی پھرتی سے
دو گولیاں آثر میر کے گلاس میں ڈال دی تھیں۔۔۔
حائفہ جو کو ٹھے سے پورے پلان کے ساتھ نکلی تھی۔۔۔ یہاں آکر آژمیکو دیکھ وہ گولیاں دینے کا ارادہ ترک کر چکی تھی ۔۔۔۔
مگر آژمیکی باتیں سن کر اور اپنے لیے شدید نفرت دیکھ حائفہ نے اپنے دل کا خون کرتے صرف آژمیکی خوشی کی خاطر ہمیشہ کے لیے اُس سے دور
جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔۔
وہ دیکھ سکتی تھی کہ آژمیراُسے دیکھ کر کس قدر اذیت کا شکار تھا۔۔۔۔وہ اُس سے جتنا بد گمان اور دور ہو چکا تھا۔۔۔ حائفہ اپنی پوری زندگی لگا کر بھی
اُسے واپس نہیں لا سکتی تھی۔۔۔۔۔
وہ اُسے مارنا چاہتا تھا۔۔۔ یہ بات ہی حاعفہ کے دل پر آریاں پھیر گئی
تھی۔۔۔۔
آژمیرکی باتیں اسے بالکل ٹھیک لگی تھیں۔۔۔ اُس جیسی طوائف آژمیرجیسے باکردار شخص کے قابل کسی صورت نہیں تھی۔۔۔اُسے کوئی بھی اچھی لڑکی مل سکتی تھی۔۔۔۔ جیسی وہ ڈیزر و کرتا تھا۔۔۔ لیکن وہ خوش قسمت لڑکی وہ کسی صورت نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔
اس سے پہلے کے آژمیرا سے طلاق دیتا اور اس سے اپنا نام جدا کر لیتا۔۔۔ حاعفہ خود ہی اُسے چھوڑ جانا چاہتی تھی۔۔۔ تاکہ اس ایک نام پر پوری زندگی گزار دے۔۔۔۔ حاعفہ نور صرف اور صرف آژمیرمیر ان کی تھی اور ہمیشہ
اُسی کی رہنے والی تھی ۔۔۔۔
@@@@@@@@
اُس کے پیچھے کھڑے زوہان کی نظریں اُس نازک دوشیزہ پر جم کر رہ گئی تھیں۔۔۔ اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہ اس لڑکی کلاس حد تک اسیر
ہو جائے گا۔۔۔
اسے حاصل کرنے کی اُس کی ضد جنون بن کر اُس کے رگ وپے میں اتر
جائے گا۔۔
لڑکی سراپا عشق تھی اور وہ اس عشق میں ڈوب جانا چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر اُس
کی مردانہ انا اسے ایسا کرنے سے روتی تھی ۔۔۔
زنیشہ کے ایک بار پھر پکارنے پر وہ گہر اسانس ہوا میں خارج کرتا اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ وہ اُسے خود بلارہی تھی۔۔۔ اسی لیے وہ اس کے پاس
جار ہا تھا۔۔۔ زوہان نے خود کو جواز پیش کیا تھا۔۔۔
میری گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔ پلیز جلدی سے یہ پنز نکال دو۔۔۔
زنیشہ کی کمزور سی تھکی تھکی آواز زوہان کے ہاتھ اس کی جانب بڑھا گئی
تھی۔۔۔
زوہان نے ایک ایک کر کے زنیشہ کے دوپٹے کی ساری پینز نکال دی تھیں۔۔۔۔ جن کے نکلتے ہی اس کا دوپٹہ پھسل کر نیچے جا گرا تھا۔۔۔ اور زنیشہ نے اس سنبھالنے کی کوشش کی بھی نہیں تھی۔۔۔
کیونکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی مدد کرنے والا ملک
زوہان میران ہے۔۔۔۔
دوپٹے کی رکاوٹ ہٹتے ہی زنیشہ کا تراشیدہ نازک سراپا اپنی تمام رعنائیوں سمیت زوہان کے سامنے تھا۔۔۔ زوبان نے فور آنظریں پھیر لی تھیں۔۔۔۔ جیسے خود پر کنٹرول کھو دینے کاڈر ہو۔۔۔۔
زنیشہ اب گلے میں پہنے بھاری نیکلس کی جانب ہاتھ بڑھا چکی تھی۔ زوہان خاموشی سے کھڑا اُس کی کاروائیاں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کی بہت کوششوں کے بعد بھی نیکس کھلنے کا نام ہی نہیں کے رہا تھا۔۔۔۔ اس کی بیوٹیشن نے ہیوی ہونے کی وجہ سے شاید گڑھ لگادی تھی۔۔۔ جواب کھل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔
زنیشہ نے فریحہ سمجھ کر ایک بار پھر اسے پکارا تھا۔۔۔۔
مگر جیسے ہی زوبان اس کے مزید قریب ہوا، گرون سے مس ہوتی اس کی وجود سے اٹھتی خوشبوز نیشہ کے
کے لیے کافی تھی۔۔۔۔ یہ خوشبو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔۔۔۔ زنیشہ جھٹکے سے اُٹھتی واپس پلٹی تھی۔۔۔ جب اپنے میں پیچھے اُسے کھڑا دیکھ زنیشہ کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔۔۔۔ اپنے حلیے کا خیال کرتے اس کا دل
ڈوب مرنے کو چاہا تھا۔۔۔
وہ اتنی بے وقوف اور بے خبر کیسے ہو سکتی تھی۔۔۔اتنی دیر سے وہ زوہان کو مدد کے لیے پکار رہی تھی ۔۔۔۔ان سب سوچوں کے حاوی ہوتے اس کا
دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔
آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ یہاں؟؟؟؟؟”
زنیشہ سے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔۔
اُس کی شکل سے لگ رہا تھا کہ اُس نے زوہان کی جگہ کسی جن کو دیکھ لیا ہو۔۔۔۔ اور اب بس خوف کے عالم میں بے ہوش ہونا باقی رہ گیا ہو۔۔۔۔ اس کے تاثرات زوہان کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھیر گئے
تھے۔
یہ لڑکی اس سے اس قدر ڈرتی تھی۔۔۔۔۔ آگے چل کر کیا ہونے والا تھا
اُس کا۔۔۔۔
“آئی تھنک تمہیں میری ہیلپ چاہیئے تھی ابھی۔۔۔۔ ؟؟؟” زوہان نے اُسے اُس کا پکارنا یاد دلایا تھا۔۔۔ “نن نہیں۔۔۔۔۔”
زنیشہ ہولے سے منمنائی تھی۔۔۔
وہ اس وقت اُس کے سامنے بنا دوپٹے کے کھڑی تھی،اُس سے بولنا محال ہور ہا تھا۔۔۔۔ زوہان کی نظروں کی گہری تپیش سے اُس سے پلکیں اُٹھانا
مشکل ہوا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کی نظریں مسلسل سٹول پر پڑے اپنے دوپٹے پر گڑھی ہوئی تھیں۔۔۔۔ زوبان اُس کی نرویسنس نوٹ کر چکا تھا۔۔۔ اس نے جھک کر ز نمیشہ کا بھاری بھر کم دوپٹہ اُٹھاتے اس کی جانب بڑھایا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ اُس کی اتنی عنایت پر حیران ہوتی آگے بڑھ کر دوپٹہ تھامنے ہی لگی تھی۔۔۔ جب زوہان نے اُس کی کلائی تھام کر اسے اپنی جانب کھینچ لیا
تھا۔۔۔
زنیشہ اس حملے کے لیے قطعی تیار نہیں تھی۔۔۔ سیدھی اُس کے سینے سے جا
ٹکرائی تھی۔۔۔۔۔
وہ ایک بار پھر اُس کے ہاتھوں بے وقوف بن چکی تھی۔۔۔۔ بھلاوہ اس شخص سے اتنی شرافت اور رحم دلی کی امید کر بھی کیسے سکتی تھی۔۔۔۔ ” ہیلپ مانگی تھی تو اسے وصول بھی کرو مسز زوہان۔۔۔۔۔” زوہاندونوں بازو اس کی گرد کے گرد حائل کرتا اس کو پوری طرح اپنے حصار میں لیتے اُس کے نیکلس کی گڑھا کھولنے لگا تھا۔۔۔۔اس چکر میں زنیشہ بالکل اس کے سینے سے جانگلی تھی ۔۔۔۔
زوہان کے چوڑے مضبوط سینے پر اپنی نازک ہتھیلیاں جماتے اُس نے درمیان میں فاصلہ برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی تھی ۔۔۔۔ اس کی اس قدر قربت پر زنیشہ کو اپنی جان ہوا ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اُس کی دھڑکنیں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ چکی تھیں۔۔۔۔
نیکلس کھولنے کے دوران زوہانکی انگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے زندیشہ کے دل کی حالت غیر ہوئی تھی۔۔۔
زوہان کی گرم سانسیں اپنے کندھے پر محسوس کرتے زنیشہ پوری طرح ریڈ
ہو چکی تھی۔۔۔۔
اُس کے لیے یہ لمحے جان لیوا ثابت ہو رہے تھے۔۔۔
جب کچھ دیر کے بعد زوہان اس کی نازک صراحی دار گردن کو نیکلس کے
بوجھ سے آزاد کر گیا تھا۔۔۔۔
مگر اسے اپنے حصار سے ابھی بھی آزاد نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ اس شخص کی جان نکالتی قربت سے کیسے
بچے۔۔۔۔
کیونکہ اگلا لمحہ اُس کے لیے مزید مشکل ہوا تھا۔۔۔ جب زوہان اُسے اپنے حصار میں لیے کھڑا انتہائی قریب سے اُس کے چہرے کے ایک ایک نقوش
کو دیوانہ وار نظروں سے دیکھے گیا تھا۔۔۔۔
“میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔۔”
زنیشہ سمجھ نہیں پارہی تھی زوہان کو آخر ہو کیا گیا تھا۔۔۔۔ جب اُسے اُس میں کوئی انٹرسٹ ہی نہیں تھا تو یہ سب کرنے کا کیا مطلب تھا۔۔۔
اس مغرور شخص نے ایک بار بھی ایسا نہیں کی تھی۔۔۔۔ یہ فکر
ز نیشہ کو الگ غصہ ولار ہی تھی۔۔۔۔۔
مگر میں ایسا کچھ نہیں کر رہا، جس سے تمہاری طبیعت افیکٹ ہو۔۔۔۔۔” زوہان باز و اس کی کمر کے گرد حمائل کرتا اسے پوری طرح اپنے سہارے کھڑا کر تا مزید کمفرٹیبل کر گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ اس شیر کے حصار میں معصوم تامزید سی چڑ یا لگ رہی تھی۔۔۔۔ جسے زوہان نے تقریباً اٹھارکھا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کے دل کی دہائیاں بڑھتی جارہی تھیں۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اتنے قریب ہونے کی وجہ سے زوہان اُس کی دھڑکنوں کی آواز نہ سن لے۔۔۔۔ اُس نے خفگی بھری نظروں سے زوہان کو گھورا تھا۔۔۔۔
ایک طرف وہ اُس کی اتنی کیئر کر رہا تھا۔۔۔۔اتنی دشمنیوں کے باوجود اُسے اپنے نام لگوا کر رہا تھا۔۔۔ اور دوسری جانب وہ اس سے محبت سے انکاری
بھی تھا۔۔۔۔
زنیشہ کے لیے یہ شخص ایک پہیلی بن چکا تھا۔۔۔۔
“آپ کی گرل فرینڈ ناراض ہو رہی ہو گی آپ کو جانا چاہیئے وہاں۔۔۔۔” زنیشہ اس کی شوخ نگاہوں سے بچتے اس کا دھیان شمن پر ڈال گئی تھی ۔۔۔۔ مگر میں فلحال اپنی بیوی کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔” زوبان خمار آلود لہجے میں کہتا اُس کے بے حد قریب ہوتا اُس کی خوشبو اپنی
سانسوں میں اُتار نے لگا تھا۔۔۔
ز نیشہ اس کے اس عمل پر لمحہ بھر کو ہل کر رہ گئی تھی۔۔
“پپ پلیز۔۔۔۔”
زنیشہ نے اپنی لرزتی پلیکیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جب زوہان نے اُس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اپنے قریب کیا تھا۔۔۔ اور باری باری اُس کی دونوں آنکھیں چوم لی
تھیں۔۔۔
اُس کا شدت بھر المس زنیشہ کی سانسیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔ یہ شخص آج واقعی اپنے اگلے پچھلے حساب بے باک کرنے پر بضد تھا۔۔۔۔ مجھ سے آج تک تمہارے علاوہ اتنے سوال جواب، اتنی لڑائیاں اور “
گستاخیاں کسی نے نہیں کی ہیں۔۔۔۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا ہوتا وا
تک
اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوتا۔۔۔۔ یہ حق صرف تمہیں حاصل ہے۔۔۔۔ لیکن تم اب بھی میری زندگی میں اپنی اہمیت سمجھ نہیں پائی ۔۔۔۔ تم میرے لیے کتنی قیمتی ہو شاید تم کبھی نہ سمجھ پاؤ۔۔۔۔ تمہارے بغیر میرے لیے سروائیو کر نانا ممکن ہے۔۔۔۔ آئی کانٹ لو ود آؤٹ ہو۔۔۔۔ تم صرف میری ہو اور تمہیں ہمیشہ میرابن کر ہی رہنا ہو گا۔۔۔۔ ورنہ میں پوری دنیا کو آگ لگادوں گا۔۔۔۔ اور اگر تم نے بھی مجھ سے دور جانے کی
کوشش کی۔۔۔ تو اس کی سزا بھگتنا تمہارے لیے مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔ میری زندگی میں تمہارے علاوہ مجھے دور دور تک کوئی دیکھائی نہیں
دیتا۔۔۔۔
میں جانتا ہوں میں بہت بگڑا ہوا ہوں اور شاید تم سب کی نظروں میں بہت
۔ لیکن اب میں چاہتا ہوں تم مجھے سنوارو۔۔۔۔ مجھے
بُرا بھی ہونا کسی اندر پتی اس اذیت کو جانو۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میں
اب تک تڑپتا آیا ہوں۔۔۔
مجھے سدھار و اپنی باہوں میں سمیٹ لو۔۔۔۔ میں جانتا ہوں میرا
روٹھا ہوا سکون تم ہی دے سکتی ہو مجھے ۔۔۔۔۔ آگے چل کر کبھی مجھ سے مجھے
دور مت جانا۔۔۔ نہ مجھ سے کبھی بد گمان ہونا۔۔۔۔ میں برداشت نہیں کر
پاؤں گا۔۔۔۔
زوہان کے الفاظ تھے یا کوئی طلسم جو ز نیشہ کو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ یک ٹک وارفتگی بھری نظروں سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ مطلب وہ اس سے محبت کرتا تھا۔۔۔
وہ بھی اُس کی زندگی میں اتنی ہی اہمیت رکھتی تھی۔۔۔ جتناز وہان اُس کے
لیے اہم تھا۔۔۔
زوہان اپنی بات ختم کر تاز نیشہ کولحہ بھر کو اپنے مضبوط سینے میں بھینچ گیا تھا۔۔۔۔ کچھ لمحے اُسے محسوس کرتے ایسے ہی گزر گئے تھے۔۔۔ زوبان کو
لگا تھا اُس کے بھٹکتے دل کو قرار مل گیا ہو۔۔۔۔
زنیشہ کی سانسوں کی لمس اپنے سینے پر محسوس کرتے زوبان پر سکون ہوا
تھا۔۔۔
مگر اگلے ہی لمحے اُس کی پیشانی پر لب رکھتے اُسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا
وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@
آژ میر اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا بنا غور کیے وہ گلاس ہو نٹوں سے لگا گیا تھا۔۔۔۔
آپ پلیز اپنے ساتھ اتنا غلط مت کریں۔۔۔۔۔ جو سزا دینی ہے مجھے “
وئیں۔۔
حاعفہ آژ میر کو شراب کی بوتل کی جانب ہاتھ بڑھاتے دیکھ آگے بڑھی اور آژ میر کی بیل کی جب ہاتھ دی کہ آگے
تھی۔۔۔ اور اس سے بوتل چھین لی تھی۔۔۔۔
وہ اچھے سے جانتی تھی یہاں شراب رکھنے کا کام کرامت نے ہی کیا تھا۔۔۔ وہ ایسے ہی اپنے گاہکوں کو پوری طرح اپنے بس میں کرنے کی کوشش کرتا تھا۔۔۔۔۔ اور اُن کو ایسی چیزوں کا عادی کر کے اُن کو مینٹلی طور پر تباہ
کر دیتے تھے۔۔۔
حائفہ کچھ عرصے میں ہی آژ میر کو پوری طرح سمجھ گئی تھی۔۔۔۔ وہ دل کا
سچا اور پیارا انسان تھا۔۔۔۔ جسے اپنے سے جڑے رشتوں کا خیال رکھنا بہت
اچھے سے آتا تھا۔۔۔۔
وہ اس وقت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بد قسمت لڑکی تصور کر رہی تھی۔۔۔ جو آژ میر میر ان کو اپنے نام تو لگوا چکی تھی۔۔۔ مگر اُسے حاصل
نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ اور شاید نہ کبھی کر پاتی۔۔۔
حائفہ آژ میر کے مقابل آتی پورے حق سے اُس کے ہاتھ سے بوتل چھین گئی
تھی۔۔۔
” تمہاری اتنی ہمت۔۔۔۔۔”
آژ میر کا پارہ مزید چڑھ گیا تھا۔۔۔۔ وہ جارحانہ تیور لیے اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی حائفہ وہ بوتل دیوار کی جانب اُچھال چکی
تھی۔۔۔۔
حائفہ کی دونوں کلائیاں آژ میر کی گرفت میں قید ہو چکی تھیں۔۔۔۔
آژ میر کے ایک ہی جھٹکے سے وہ اُس کے سینے سے آن لگی تھی۔۔۔۔
” مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔
حائفہ اُس کی ضبط سے لال آنکھوں میں جھانکتے نم لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
آژمیر کا ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔۔ جس کی سختی اس قدر تھی کہ حائفہ کو اس کی انگلیاں اپنی جلد میں دھنستی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ مگر وہ کمال ضبط کا مظاہرہ کیے آژمیرکے مقابل کھڑی اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کاش وہ ایک بار اسے معافی دے کر۔۔۔ اُس کی تڑپتی روح کو سکون پہنچا جائے
لیکن حائفہ کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ اُس کے لیے مزید مشکل کھڑی
کر گئے تھے۔
کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔ساری زندگی تمہیں میری وحشت جھیلنی ہو گی۔۔۔۔
آژمیر اُس کے بالوں میں ہاتھ اُلجھاتا اُس کا چہرا اپنے بے حد قریب کرتا اپنی
گرم سانسیں اُس پر چھوڑتا اُسے جھلسا گیا تھا۔۔۔۔
” میں مرنے کے بعد بھی معافی نہیں ملے گی۔۔۔۔”
یہ الفاظ ادا کرتے حائفہ کی دونوں آنکھوں سے ضبط کے باوجود آنسو ٹوٹ کر
گرے تھے
اُس کے چہرے پر رقم در د دیکھ آژ میر پل بھر کو ساکت ہوا تھا۔۔۔۔ اُسے لگا
تھا کسی نے اُس کا دل مسل کر رکھ دیا ہو۔ سامنے کھڑی لڑکی کوئی عام لڑکی نہیں
وہ ایک ساحرہ تھی جو ہر بار
اُس پر اپنا سور پھونک کر اسے اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی ۔۔۔ اپنا انتقام پورا کیے بغیر اتنی آسانی سے مرنے نہیں دوں گا تمہیں۔۔۔۔” آژ میر کو اس کی بات سخت ناگوار گزری تھی۔۔۔۔
جھٹکے سے آژ میر اُس کی کمر کے گرد سے اپنے باز و ہٹا گیا تھا۔۔۔۔
آژمیر کے اچانک گرفت سے آزاد کر دینے پر حائفہ لڑ کھڑاتی سنبھلنے کی کوشش کے باوجود پیچھے موجود بیڈ پر جا گری تھی۔۔۔۔
آژمیر ۔۔۔۔ پلیز۔۔۔
آڑ میر کو خود پر جھکتا دیکھ حائفہ لرزتی آواز میں چلائی تھی۔۔۔۔ آثر میر اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔۔۔۔ حائضہ اس سچویشن ایسا کچھ نہیں
ہونے دینا چاہتی تھی
جس کا
بعد
میں آژ میر کو پچھتاوا ہوتا۔۔۔۔۔
آژمیر جو نشے کے زیر اثر تھا۔۔۔ آہستہ آہستہ اُس پر حائفہ کی دی دوا اثر کرنے لگی تھی۔۔۔۔وہ حائفہ کی گردن پر جھکا تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ رکھی تھیں ۔
جب کچھ دیر بعد اسے اپنے بازو پر موجود آژ میر کی گرفت ڈھیلی پڑنے کے ساتھ ساتھ ، اس کی سانسیں بھی مدھم پڑتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔ حاعفہ نے چہرا گھما کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو اُس کی گردن میں چہرا چھپائے دوا کے زیر اثر گہری نیند میں جاچکا تھا۔۔۔۔
چہرا موڑنے پر حائفہ کے لب آژ میر کے چہرے سے مس ہوئے تھے۔۔۔۔ حائفہ کتنے ہی لمحے اس حسین منظر میں گم ایسے ہی پڑی رہی تھی۔۔۔۔ اس نے اس خوبر وجواں سالہ مضبوط مرد کو کس قدر بے بس اور اذیت میں مبتلا
کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔۔
حائفہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر پھسلے تھے۔۔۔۔ مگر آژ میر کے ساتھ گزرے یہ آخری لمحے وہ ہمیشہ کے لیے اپنے پاس سنبھال کر رکھنا
چاہتی تھی۔۔۔۔
اُس نے اپنے پاس چھپا یا خفیہ سیل فون نکال کر اس سے اپنی زندگی کا سب
سے دلکش منظر قید کیا تھا۔۔۔۔
کتنے ہی لمحے یک تک اُسے دیکھتے رہنے کے بعد حائفہ نے اپنا پور از ور لگاتے بہت مشکل سے آث میر کو کندھے سے تھام کر پیچھے ہٹایا تھا۔۔۔۔
اور بہت ہی احتیاط سے اُس کا سر تکیے پر رکھتے اُس کے ماتھے پر عقیدت اور
محبت بھرا بوسہ دیا تھا۔۔۔۔
بہت محبت کرتی ہو آپ سے۔۔۔۔ نہیں رہ پاؤں گی آپ کے بغیر ۔۔۔۔”
” مر جاؤں گی میں۔۔۔۔
حائفہ اُس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگاتی ہچکیوں سے رودی تھی۔۔۔۔ اُس کے سینے پر سر رکھتے اپنا درد اس کے چوڑے سینے پر بتاتے ، حائفہ کو وہ تحفظ محسوس ہوا تھا جس کی اسے ہمیشہ سے تلاش رہی تھی۔۔۔ آج سب کچھ پا کر بھی وہ خالی دامن رہ گئی تھی۔۔۔۔
بائی کی کالز پر کالز آنے لگی تھیں۔۔۔اُن کا پلان
ریڈی تھا۔۔۔ حائفہ کو
ابھی تک نہ نکل پاتادیکھ وہ پریشان ہوئی تھیں۔۔۔۔
حائفہ آژ میر کے پاس سے اُٹھتی اُس کے پیروں کی جانب آئی تھی۔۔۔۔ اُس کے شوز اور ساکس اُتارتے حائفہ نے اس کے پیروں کو عقیدت سے
چھوا تھا۔۔۔۔
مجھے معاف کر دیجیئے گا۔۔۔ میں بہت بُری ہوں۔۔۔۔ آج آخری بار بھی”
“آپ کو دھوکا دے کر ہی جارہی ہوں۔۔۔۔
حاعفہ اُس پر کمبل ڈال کر اُس کے کی دونوں آنکھوں کو چومتی ایک آخری
نظر ڈالتی رُخ موڑ گئی تھی۔۔۔
خود کو بلیک شال سے اچھی طرح لپیٹتے وہ وہاں سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔ اُس کا ہر اُٹھا قدم من من بھر کا ہو چکا تھا۔۔۔ اُس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔ مگر مزید اذیت سے بچنے کے لیے اس کے نزدیک اس سے بہتر کوئی
فیصلہ نہیں تھا
اپنی نادانی میں یا پھر عقلمندی میں وہ آژ میر میر ان کو ایک بار پھر دغا دے کر
جارہی تھی کیا ہونے والا تھا۔۔۔۔
جس کا
اُسے بالکل اندازہ نہیں
تھا۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@
منہاج کی اس اچانک دی جانے والی اطلاع پر ماوراشا کی نظروں سے اُسے
دیکھ رہی تھی۔۔۔
اتنی مشکلات اور مسائل کے بعد جاکر کہیں اُن کا رشتہ ٹھیک ہوا تھا۔۔۔ اور
منہاج پھر اُس سے دور جانے کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔ ماورا بنا کچھ بولے خاموشی سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ “ماورا۔۔۔۔ میں بہت جلد تمہیں وہاں بلوالوں گا۔۔۔۔ منہاج اُس کی آنکھوں میں اُترتی نمی دیکھ اپنی بات مکمل نہیں کر پایا
تھا۔۔
اُس کا چہرا ہا تھوں کے پیالے میں بھرتے وہ نرمی سے بولا تھا۔۔۔۔ مگر ماورا
نے اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔۔
وہ پلکیں جھکائے اُس سے خفگی کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔۔
میں بابا کو ہمارے بارے میں سب بتا چکا ہوں۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں جانے سے پہلے ایک بار تمہیں اپنی فیملی سے ملواتا جاؤں۔۔۔۔ میں اب مزید ہم دونوں کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں آنے دینا چاہتا۔۔۔۔
منہاج نے ہاتھ کے انگوٹھے سے اُس کا گال سہلاتے ماورا کے سر پر ایک اور
بم پھوڑا تھا۔۔۔
” کیا۔۔۔۔؟؟”
ماورا نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔ جو پہلے ہی دل و
جان سے اُس کی جانب متوجہ تھا۔۔۔۔
اپنے سسرال والوں سے نہیں ملنا چاہتی تم ۔۔۔
منہاج اُس کے ری ایکشن پر اُسے بتاتے ہوئے بولا۔۔۔
تمہارے بابامان گئے۔۔۔؟؟؟”
ماورا کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔ ” وہ تو کب سے مانے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اور تم سے ملنے کے منتظر ہیں۔۔ منہاج اُس کے ناک سے اپنا ناک مس کرتا اُس کے گال کو ہو نٹوں سے
چھوتے بولا۔۔۔۔ماورا اُس کی بڑھتی جسارتوں پر بری طرح لال ہو چکی
تھی۔۔۔۔
و ہیں منہاج کے الفاظ اس کے چہرے پر بے ساختہ مسرت کے رنگ بکھیر
گئے تھے۔۔۔۔
” میرے بارے میں سب جاننے کے باوجود بھی مان گئے وہ؟؟” ماورا کو ابھی بھی اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
ہاں تمہارے بارے میں سب جاننے کے بعد تو وہ اور بھی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔۔۔ کہ ان کہ بہو اتنی بہادر اور باکردار لڑکی ہے۔۔۔۔
منہاج اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھتے اپنے لفظوں سے معتبر کر گیا
تھا۔۔۔۔
ماورا کی آنکھوں میں آنسو جھلملا گئے تھے۔۔۔
کیا ہو امیری جان۔۔ ؟؟ اگر تم ابھی ان سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہو تو میں تمہیں فورس نہیں کروں گا۔۔۔۔
منہاج اُس کی آنکھوں میں آئے آنسو برداشت نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔ جس پر ماور انے رونے کے ساتھ ساتھ فوراً نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
“نہیں میں ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔”
ماور ا جس بے ساختگی سے بولی تھی۔۔۔ منہاج اپنا قہقہ نہیں روک پایا
تھا۔۔۔
” مطلب اس طرف مجھ سے بھی زیادہ جلدی ہے۔۔۔”
اُس کے نرم و ملائم گال کھینچتے منہاج نے اُسے چھیڑا تھا۔۔۔۔ جس پر ماورا بلش کرتی چہرا جھکا گئی تھی۔۔۔۔
” ہم باہر کیسے جائیں گے۔۔۔۔؟”
ماورا اُس کی شوخیوں پر گھبرا کر اُس کا دھیان دوسری جانب موڑتے
بولی۔۔۔۔
اُس کی احتیاط پر منہاج ہولے سے مسکرا دیا تھا۔۔۔
” ایسے۔۔۔۔”
اُس کے ہاتھ میں اپنا موبائل پکڑا کر ، اگلے ہی لمحے منہاج اُسے بانہوں میں اُٹھا چکا تھا۔۔۔۔ماورا کی ہولے ہولے معمول پر آتی دھڑکنیں پھر سے منتشر
ہوئی تھیں۔۔۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا اند ھیرے میں چلتے ماورا کو ٹھوکر لگے۔۔۔۔
موبائل پر آن ٹارچ کی روشنی میں چلتے وہ ایک کھڑکی کے پاس آن رکا تھا۔۔۔ جسے ہلکے سے پیش کرنے پر وہ کھلتی چلی گئی تھی۔۔۔ منہاج کی اس چلا کی پر ماورا نے اُسے گھور کر دیکھا تھا۔۔۔ وہ پوری تیاری کے
ساتھ آیا تھا۔۔۔
بناماورا کو نیچے اُتارے وہ اُسے لیے کھڑ کی پھلانگ گیا تھا۔۔۔۔لائبریری گراؤنڈ فلور پر ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی۔۔۔۔
“ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے نا؟؟؟”
منہاج ماورا کو اس کے ہاسٹل کے سامنے ڈراپ کرنے آیا تھا۔۔۔ جب گاڑی سے اتر کر اُس کے مقابل آتے ماورا نے نجانے کس احساس کے زیر اثر اس
سے سوال کیا تھا۔۔۔۔
“آف کورس مائی لو۔۔۔۔”
اُس کے گرد باز و حمائل کرتے منہاج اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے یقین بولا
تھا۔۔۔
اُس کا یہ یقین کب تک قائم رہنے والا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
@@@@@@@@
آپ کا کام ہو چکا ہے…. آپ نے جیسا کہا تھا میں نے ویسا ہی کیا۔۔۔۔اب “
آپ کو بھی میری بات پوری کرنی ہو گی۔۔۔۔
نگینہ بائی اپنے کمرے میں بیٹھی شراب کا گلاس ہاتھ میں ہوئے کسی سے کال پر بات کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔
ویلڈن۔۔۔۔اگلے تیس منٹ کے اندر اپنا بینک اکاؤنٹ چیک کر لینا۔۔۔”
” تمہیں تمہارا انعام مل جائے گا۔۔۔۔۔
دوسری جانب سے کہے جانے والی بات پر نگینہ بائی کھل کر مسکرائی
جس عورت نے اپنی مری بہن کی بیٹیوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا تھا اس کے لیے پیسوں سے بڑھ کر بھلا کیا ہو سکتا تھا۔۔۔۔ حائفہ مینٹلی اتنی ڈسٹرب تھی کہ اس عورت کے کھیل کو سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔ اور ایک بار پھر اس کے جال میں پھنس گئی تھی۔۔۔۔
آج آپ کی بیٹیاں آپ کے پاس پہنچ جائیں گی۔۔۔۔ اس کے بعد اس کو ٹھے کا اُن سے کوئی ناطہ نہیں رہے گا۔۔۔۔ کرامت کو بھی میں سنبھال
لوں گی۔۔۔۔
نگینہ بائی نے اپنی طرف سے پوری یقین دہانی کروائی تھی۔۔۔۔ کہ وہ اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر چکی ہے۔۔۔۔۔
گڈ۔۔۔۔ تم خود بھی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو اور اُس کرامت کو بھی کہہ دینا کہ میری بیٹیوں کے دور دور تک نظر نہ آئیں مجھے۔۔۔۔اب وہ اپنے باپ کے سائے میں ہیں۔۔۔ کوئی ان کا بال بھی بیکار نہیں
” کر سکتا۔۔۔۔
دوسری جانب سے سر دو سپاٹ لہجے میں وارن کرتے فون بند کر دیا گیا
تھا۔۔۔
حاعفہ اپنے باپ سے شدید نفرت کرتی تھی۔۔۔ جس نے اس کی ماں سے بے وفائی کی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے اُن کی ماں اور اُن دونوں بہنوں نے اتنی اذیت ناک زندگی کائی تھی۔۔۔ وہ ایسے بزدل شخص کو معاف کرنا تو دور ۔۔۔ زندگی بھر اس کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ نگینہ بائی کو اُس نے سختی سے کہہ رکھا تھا کہ اگر ان کا باپ آئے تو وہ اُن کے بارے میں انہیں کچھ نہ بتائیں۔۔۔ اگر نگینہ بائی نے کچھ بتا یاتو وہ اپنی جان
دے دے گی۔۔۔۔
نگینہ بائی خود اچھی خاصی سونے کی چڑیاہاتھ سے جانے دینے کے حق میں
نہیں تھی۔۔۔
اس لیے ہر دو مہینے بعد اُن دونوں بہنوں کی تلاش میں آنے والے اُن کے بے کس باپ کو خالی ہاتھ لوٹادیا جاتا تھا۔۔۔
جب کچھ وقت پہلے اس شخص نے نگینہ بائی سے تفصیل سے بات کرتے اس کا مزاج جانا چاہا تھا۔۔۔ نگینہ ہائی اسے ایک انتہائی لالچی عورت لگی
تھی۔۔۔۔
اسے پہلے سے ہی شک تھا کہ اس کی بیٹیاں ابھی بھی اسی کو ٹھے پر موجود
ہیں۔۔۔۔
نگینہ بائی کو منہ مانگی قیمت اور بلینک چیک سائن کر کے دینے کا وعدہ کرتے اُس لالچی عورت کے منہ سے سچ نکلوانے میں اُسے لمحہ بھی نہیں لگا تھا۔۔۔ نگینہ بائی نے پیسوں کی لالچ میں سب کچھ بتادیا تھا۔۔۔ حائفہ کی باپ سے نفرت اور اُس کی خود کو ختم کرنے کی دھمکی بھی۔۔۔۔
اتنے سال اُس کی بیٹیاں اِس جگہ پر پلی بڑی تھیں۔۔۔اس حقیقت نے اُن کے باپ کو مزید ندامت کی کھائی میں دھکیل دیا تھا۔۔۔۔ وہ اب کسی قیمت پر ان دونوں کو اس جگہ پر رہنے نہیں دینا چاہتے تھے ۔۔۔۔ تبھی یہ پلان بنا تھا۔۔۔۔ جس کے بارے میں پوری طرح سے لا علم ہوتے
حائفہ اس کا حصہ بن گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ نگینہ ہائی اسے آژ میر سے دور رہنے کا کہہ کر جس جگہ بھیج رہی تھی وہ جگہ اُس کے باپ کی جاگیر تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
ماور اگہری نیند سورہی تھی۔۔۔ جب تکیے کے پاس رکھے موبائل پر وائبریشن ہوئی تھی۔۔۔۔ماورائے مندی مندی آنکھوں سے سکرین کو کاٹنی چاہی تھی مگر وہاں جگمگاتا حاعفہ کا نمبر دیکھ ماور اجلدی سے
گھورتے
اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔۔
حائفہ رات کے اس پہر اُسے کال کیوں کر رہی تھی۔۔۔
ماورا نے کال اٹینڈ کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا تھا۔۔۔۔ آپی خیریت آپ ٹھیک ہو نا؟ اس ٹائم کال کیوں کی۔۔۔؟؟” ماور اپریشانی بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔
ماور ا پندرہ منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔۔۔ اپنا ضروری سامان پیک کرو اور فور نیچے گیٹ پر آؤ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔۔
حائفہ کے الفاظ ماورا کے ہوش اُڑا گئے تھے۔
اُس نے جلدی سے کھٹر کی سے باہر دیکھا تھا ۔۔۔ جہاں اسے
ایک گاڑی کھڑی نظر آئی تھی۔۔۔
پر آپی ہوا کیا ہے ؟ ہم اِس طرح سے اچانک کہاں جارہی ہیں۔۔۔؟” ماورا کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔ حائفہ رات کے اس پہر اُس کے ہاسٹل
کیوں اور کیسے آئی تھی ۔۔۔۔
ماور تمہارے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے تمہیں۔۔۔۔ پندرہ منٹ کے اندر نیچے آؤ۔۔۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔۔
حاعفہ کی اپنی حالت اس وقت بہت عجیب سی ہورہی تھی۔۔۔وہ اپنا دل بہت پیچھے آژ میر میر ان کے پہلو میں چھوڑ آئی تھی۔۔۔ ویران آنکھوں کے ساتھ بیٹھی وہ اندر سے بالکل خالی خالی محسوس کر رہی تھی۔۔۔ جیسے ویرانی
اور اُجاڑ بن کے سوا کچھ نہ بچا ہو اس کے پاس۔۔۔۔۔
حائفہ کی آواز میں ایک عجیب سا درد محسوس کرتے ماورا نے دوبارہ اُس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔۔۔
وہ اپنے سارے ڈاکو منٹس اور باقی ضروری سامان لیے وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔ وارڈن کی شاید پہلے ہی حائفہ سے بات ہو چکی تھی۔۔۔ اس لیے گیٹ کھول دیا گیا تھا اور ماورا با آسانی باہر آتی حائفہ کے ساتھ گاڑی میں
آبیٹھی تھی۔۔۔
” آپی یہ سب کیا ہے؟؟”
گاڑی میں بیٹھتے ماورا نے سوالیہ نظروں سے حائفہ کا آنسوؤں سے تر چہرا
دیکھا تھا۔۔۔۔
حائفہ جو پہلے ہی با مشکل خود پر ضبط رکھ پارہی تھی۔۔۔ ماورا کے پوچنے پر اُس کے گلے سے لگتی ہچکیوں کے دوران اُسے خود پر گزرتی تمام اذیت اور تکلیف دہ لمحوں سے آگاہ کر گئی تھی۔۔۔
جسے سن کر ماورا کو اپنادل در دسے پھٹتا محسوس ہوا تھا۔۔۔اُس کی بہن اُس کی خاطر کتنی تکلیفوں سے گزری تھی۔۔۔ اُسے بالکل اندازہ ہی نہیں
تھا۔۔۔
وہ بھی حائفہ کے ساتھ لگی اُسے چپ کرواتے کرواتے خود بھی رودی
تھی۔۔۔۔
میں اُن سے بہت محبت کرتی ہوں ماورا۔۔۔۔ مگر وہ مجھ سے اُتنی ہی زیادہ نفرت کرنے لگے ہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ مجھے خود سے دور تو
ر کھیں گے
ہی صحیح مگر طلاق بھی دے دیں گے۔۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو میں مر جاؤں گی۔۔۔۔وہ تو مجھ سے جدا ہو ہی چکے ہیں مگر اُن کا نام ہمیشہ میرے ساتھ جُڑا ر ہے۔۔۔۔اس لیے میں اُن کی دنیا سے بہت دور آگئی۔۔۔۔۔۔۔
حاعفہ نے بہتی آنکھوں کے ساتھ اُسے اپنی دکھ بھری داستان سنادی تھی۔۔۔ جسے سن کر ماور اکا اپنادل خون کے آنسو رونے لگا تھا۔۔۔ میں چاہتی ہوں وہ مجھے بھی نہ ڈھونڈ پائیں۔۔۔ اور تم یہاں یونی کی اپنی تمام دوستوں سے رابطہ ختم کر دو۔۔۔ تاکہ وہ کسی بھی ذریعے سے ہم تک نہ
پہنچ پاہیں،،
کیا تم میری خاطر یہ کرو گی۔۔۔؟
حائفہ کی بات پر ماور اکا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔۔۔۔ سب سے رابطہ ختم کرنے کا مطلب منہاج سے بھی دور رہنا تھا۔۔۔اس خیال سے ہی ماورا کی آنکھیں جھلملا گئی تھیں۔۔۔اُس نے پلکیں اُٹھا کر حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اُمید بھری نظروں سے ماورا کی جانب ہی دیکھ رہی
تھی۔۔۔
حائفہ آج تک اُس کے لیے اپنا آپ تک قربان کرتی آئی تھی۔۔۔ اُسے زرا سی بھی تکلیف سے بچانے کے لیے اپنے دل پر ہر وار سہتی آئی تھی۔۔۔۔
اُس نے ماں سے بڑھ کر اُس کا خیال رکھا تھا، باپ بھائی سے بڑھ کر تحفظ اور شفقت مہیا کی تھی۔۔۔اور بہنوں جیسامان بخشا تھا۔۔
اس نازک سی لڑکی نے تن تنہا اُس کے سارے رشتے نبھائے تھے۔۔۔اور آج تک کبھی ایک بار بھی جتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔۔ آج بھی اُس نے ماورا کو ایسا ہی کرنے کے لیے کوئی حکم صادر نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ اس سے صرف پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
ماورا کو آج پہلی بار حائفہ کی خاطر قربانی دینی تھی۔۔۔ جو اس کے لیے حد درجہ تکلیف دہ اور دل کے کئی ٹکڑے کر گئی تھی۔۔۔ مگر ماورا اپنی اس بہن کی خاطر اپنا پیار بھی قربان کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی ۔۔۔۔
اگر وہ حائفہ کو منہاج کے بارے میں بتادیتی تو شاید حائفہ کبھی بھی اسے ایسا کرنے کو نہ کہتی اور یہاں بھی خود ہی پھنس جاتی۔۔۔ مگر ماورا
اب مزید سیلفش نہیں بنا چاہتی تھی۔۔۔اب اُسے بھی اپنا بہن والا فرض نبھانا
تھا۔۔۔۔
” جی آپی میں بالکل کروں گی۔۔۔۔”
ماور انے یہ کہتے ساتھ اپنے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیل کر دیا تھا۔۔۔۔اور خاموشی سے موبائل اُس کی جانب بڑھادیا تھا۔۔۔ حائفہ تو پہلے ہی یہ کام کر چکی تھی۔۔۔ اس نے کھڑ کی کھولتے دونوں موبائل گاڑی سے باہر اچھال دیئے تھے ۔۔۔ تا کہ اب اُن کو کوئی ٹریسں نہ کر پائے۔۔۔۔
کچھ لمحوں بعد گاڑی میں بالکل سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔
دونوں ہی ایک دوسرے سے رخ موڑے سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے گاڑی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر کو دیکھتیں اپنے آنسو ایک دوسرے سے چھپانے لگی تھیں۔۔۔۔
اُس انسان سے ہمیشہ کے لیے دور چلے جانا جسے آپ دیوانگی کی حد تک چاہتے ہو ۔۔۔ یہ کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے کوئی اس وقت اُن دونوں سے
پوچھتا۔
ماور اجو منہاج کی باتیں سننے کے بعد اتنی خوشی خوشی سوئی تھی۔۔۔ اُسے
ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں آیا تھا کہ اُس کے پیار کو خود اس کی نظر ہی
لگ جائے گی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
فیصل اور شاہد کمرے کے باہر ہاتھ باندھے کھڑے بے بسی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے ۔۔۔ آژمیر کے کمرے سے مسلسل اتنی دیر سے چیزیں ٹوٹنے کی آواز میں آرہی تھیں۔۔۔ اس نے شدید غصے کے
عالم میں پورے کمرے کا حشر نشر کر دیا تھا۔۔۔
وہ لڑ کی ایک بار پھر اُسے دھوکا دے کر چلی گئی تھی ۔۔۔ حائفہ پر ایک بار پھر اعتبار کرنے کی اُسے بہت کڑی سزا ملی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل چاہ رہا تھا پوری دنیا کو تہس نہس کر دے۔۔۔۔ یا اُس لڑکی کو ڈھونڈ کر اپنے ہاتھوں سے ختم کر دے۔۔۔۔ جو اُس کے دل کو کھلونا سمجھ کر
کھیل کر چلی گئی تھی۔۔۔
حائفہ کا اب یہ دوسری بار کا کیا کاری وار آژ میر میر ان سے سہنا مشکل ہو رہا
تھا۔۔۔۔
فیصل آژمیر کے جنونی غصے سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں آژ میر خود کو ہی نقصان نہ پہنچادے۔۔۔۔
جب اسی لمحے آژ میر دھڑ سے دروازہ کھولتے باہر نکلتا جم ایریا کی جانب بڑھ
گیا تھا۔ اس کے ہاتھ سے بہتا خون اُن دونوں کی آنکھوں سے پوشیدہ
نہیں رہ سکا تھا۔۔۔
فیصل کا دل چاہا تھا وہ لڑکی اس کے سامنے ہو اور وہ اُسے شوٹ کر دے۔۔۔۔
جس نے اس کے مالک کو اتنی اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔۔۔۔
جم میں گئے آڑ میر کو مزید پانچ گھنٹے گزر چکے تھے ۔۔۔ وہ بُری طرح پنچنگ باکس پر برستا اپنا سارا غصہ اس بے جان شے پر نکال رہا تھا۔۔۔۔

Share this story with your Friends on Facebook


Updated: April 16, 2025 — 4:48 pm

2 Comments

Add a Comment
  1. Dear Sir/ma,

    We are a financial services and advisory company mandated by our investors to seek business opportunities and projects for possible funding and debt capital financing.

    Please note that our investors are from the Gulf region. They intend to invest in viable business ventures or projects that you are currently executing or intend to embark upon as a means of expanding your (their) global portfolio.

    We are eager to have more discussions on this subject in any way you believe suitable.

    Please contact me on my direct email: ahmed.abdulla@dejlaconsulting.com

    Looking forward to working with you.

    Yours faithfully,
    Ahmed Abdulla
    financial advisor
    Dejla Consulting LLC

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *